آج خدا کے کام کو جاننا

ان ایام میں خدا کے کام کو جاننا، مجموعی طور پر، یہ جاننا ہے کہ آخری ایام میں مجسم خدا کی اصل ذمہ داری کیا ہے، اور وہ زمین پر کیا کرنے آیا ہے۔ میں پہلے ہی اپنے کلام میں ذکر کر چکا ہوں کہ خدا روانگی سے قبل (آخری ایام میں) ایک نمونہ قائم کرنے کے لیے زمین پر آیا ہے۔ خدا یہ نمونہ کیسے قائم کرتا ہے؟ وہ اپنے کلمات کے ذریعے اور اس سرزمین میں کام اور کلام کر کے نمونہ قائم کرتا ہے۔ یہ آخری ایام میں خدا کا کام ہے۔ وہ صرف اس لیے کلام کرتا ہے تاکہ زمین کلام کی دنیا بن جائے، تاکہ ہر شخص کو اس کا کلام اور اس کے کلام سے آگہی ملے، تاکہ انسان کی روح بیدار ہو اور وہ رویا کے بارے میں وضاحت حاصل کر سکے۔ آخری ایام کے دوران، مجسم خدا بنیادی طور پر کلام کرنے کے لیے زمین پر آیا ہے۔ جب یسوع آیا، تو اس نے آسمانی بادشاہی کی خوشخبری پھیلائی، اور اس نے تصلیب سے خلاصی کا کام پورا کیا۔ اس نے شریعت کے دور کا خاتمہ کیا اور جو کچھ پرانا تھا، اسے ختم کر دیا۔ یسوع کی آمد نے شریعت کے دور کا خاتمہ اور فضل کے دور کا آغاز کیا۔ آخری ایام کے مجسم خدا کی آمد نے فضل کے دور کا خاتمہ کر دیا ہے۔ وہ بنیادی طور پر اپنا کلام کہنے، انسان کو کامل بنانے کے لیے کلام استعمال کرنے، انسان کو روشن کرنے اور آگہی عطا کرنے اور انسان کے دل میں موجود مبہم خدا کی جگہ ختم کرنے کے لیے آیا ہے۔ یہ کام کا وہ مرحلہ نہیں ہے جو یسوع نے آنے کے بعد کیا۔ جب یسوع آیا تو اس نے بہت سے معجزے دکھائے، اس نے بیماروں کو شفا دی اور شیطانی ارواح کو باہر نکالا، اور اس نے تصلیب سے خلاصی کا کام کیا۔ جس کے نتیجے میں، لوگ اپنے تصورات میں، یہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ کیونکہ جب یسوع آیا تو اُس نے انسان کے دل سے مبہم خدا کی شبیہہ ہٹانے کا کام نہیں کیا؛ جب وہ آیا تو اسے مصلوب کیا گیا، اس نے بیماروں کو شفا دی اور شیطانی ارواح نکالیں، اور اس نے آسمانی بادشاہی کی خوشخبری پھیلائی۔ ایک لحاظ سے، آخری ایام میں خدا کی تجسیم انسان کے تصورات میں موجود مبہم خدا کی جگہ کو ختم کر دیتی ہے، تاکہ انسان کے دل میں مبہم خدا کا نقش باقی نہ رہے۔ اپنے حقیقی کلام اور حقیقی کام کے ذریعے، تمام سرزمینوں میں اپنی نقل و حرکت، اور غیرمعمولی طور پر حقیقی اور عام کام کے ذریعے جو وہ انسانوں کے درمیان کرتا ہے، وہ انسان کو خدا کی حقیقت سے آگاہ کرتا ہے، اور انسان کے دل میں موجود مبہم خدا کی جگہ مٹا دیتا ہے۔ ایک اور لحاظ سے، خدا اپنے جسم کے ذریعے کہا گیا کلام انسان کو مکمل کرنے اور تمام چیزوں کی تکمیل کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یہ وہ کام ہے جسے خدا آخری ایام میں پورا کرے گا۔

تمھیں کیا ضرور معلوم ہونا چاہیے:

1۔ خدا کا کام مافوق الفطرت نہیں ہے، اور تمھیں اس کے بارے میں تصورات نہیں پالنے چاہییں۔

2۔ تمھیں وہ اصل کام سمجھنا چاہیے جو مجسم خدا اس وقت کرنے آیا ہے۔

وہ بیماروں کو شفا دینے، یا شیطانی ارواح نکالنے، یا معجزے دکھانے نہیں آیا ہے، اور وہ توبہ کی خوش خبری پھیلانے، یا انسان کو خلاصی دینے نہیں آیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یسوع یہ کام پہلے ہی کر چکا ہے، اور خدا ایک کام دوبارہ نہیں کرتا ہے۔ آج، خدا فضل کے دور کو ختم کرنے اور فضل کے دور کے تمام طریقوں کو ختم کرنے آیا ہے۔ عملی خدا بنیادی طور پر یہ ظاہر کرنے کے لیے آیا ہے کہ وہ حقیقی ہے۔ جب یسوع آیا تو اُس نے چند الفاظ کہے؛ اس نے بنیادی طور پر معجزات دکھائے، نشانیاں اور عجائبات دکھائے، اور بیماروں کو شفا دی اور شیطانی ارواح کو نکالا، یا اس نے لوگوں کو قائل کرنے اور انہیں یہ دکھانے کے لیے پیشین گوئیاں کیں کہ وہ واقعی خدا تھا، اور وہ ایک غیر جذباتی خدا تھا۔ بالآخر، اس نے تصلیب کا کام مکمل کیا۔ آج کا خدا نشانیاں اور عجائبات نہیں دکھاتا اور نہ وہ بیماروں کو شفا دیتا اور نہ ہی شیطانی ارواح کو نکالتا ہے۔ جب یسوع آیا تو اس نے جو کام کیا وہ خدا کے ایک حصے کی نمائندگی کرتا تھا، لیکن اس بار خدا اس کام کا وہ مرحلہ انجام دینے کے لیے آیا ہے جو کہ واجب ہے، کیونکہ خدا کوئی کام دہراتا نہیں؛ وہ ایسا خدا ہے جو ہمیشہ سے نیا ہے اور کبھی پرانا نہیں ہو گا، اور آج جو کچھ تُو دیکھ رہا ہے وہ عملی خدا کا کلام اور کام ہے۔

آخری ایام کا مجسم خدا خاص طور پر اس لیے آیا ہے کہ وہ اپنا کلام کہے، انسان کی زندگی کے لیے ضروری تمام چیزوں کی وضاحت کرے، اس بات کی نشاندہی کرے کہ انسان کو کس چیز میں داخل ہونا چاہیے، انسان کو خدا کے اعمال دکھائے، اور انسان کو خدا کی حکمت، قدرت کاملہ اور عجائبات دکھائے۔ خدا کے کلام کرنے کے بہت سے طریقوں میں، انسان خدا کی بالادستی، خدا کی عظمت اور علاوہ ازیں خدا کی عاجزی اور پوشیدگی دیکھتا ہے۔ انسان دیکھتا ہے کہ خدا سب سے بڑا ہے، لیکن یہ کہ وہ عاجز اور پوشیدہ ہے، اور سب سے چھوٹا بن سکتا ہے۔ اس کے کچھ الفاظ براہ راست روح کے نقطہ نظر سے بولے جاتے ہیں، کچھ براہ راست انسان کے نقطہ نظر سے، اور کچھ تیسرے شخص کے نقطہ نظر سے۔ اس میں، یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ خدا کے کام کا انداز بہت مختلف ہے، اور وہ کلام کے ذریعے ہی انسان کو دیکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ آخری ایام میں خدا کا کام عام اور حقیقی دونوں ہے، اور اس طرح آخری ایام میں لوگوں کا گروہ تمام آزمائشوں میں سب سے بڑی آزمائش کا شکار ہو گا۔ خدا کے عام معمول کے مطابق ہونے اور اس کے حقیقت ہونے کی وجہ سے، تمام لوگ ایسی آزمائشوں میں داخل ہوئے ہیں؛ یہ کہ انسان خدا کی آزمائشوں میں اترا ہے۔ اس کی وجہ خدا کا عام معمول کے مطابق اور حقیقی ہونا ہے۔ یسوع کے دور کے دوران، آزمائش کا کوئی تصور نہیں تھا۔ چونکہ یسوع کے زیادہ تر کام انسان کے تصورات کے مطابق تھے، اس لیے لوگوں نے اس کی پیروی کی، اور ان کے پاس اس کے بارے میں کوئی تصورات نہیں تھے۔ آج کی آزمائشیں انسان کو درپیش سب سے بڑی آزمائشیں ہیں اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ بڑی مصیبت سے نکل آئے ہیں تو وہ یہی مصیبت ہے جس کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ آج، خدا ان لوگوں میں ایمان، محبت، مصیبت کی قبولیت، اور اطاعت و فرماں برداری پیدا کرنے کی بات کرتا ہے۔ آخری ایام کے مجسم خدا کی طرف سے کہا گیا کلام انسان کی فطرت اور جوہر، انسان کے رویے اور یہ کہ انسان کو آج کس چیز میں داخل ہونا ہے، کے مطابق ہے۔ اس کے الفاظ حقیقی اور عام دونوں ہیں: وہ آنے والے کل کی بات نہیں کرتا اور نہ ہی وہ گزشتہ کل کی طرف مڑ کر دیکھتا ہے۔ وہ صرف اسی کے متعلق بات کرتا ہے جس میں آج داخل ہونا چاہیے، جس پر عمل کرنا اور جسے سمجھنا چاہیے۔ اگر آج کے دور میں کوئی ایسا شخص ظاہر ہو جو نشانیوں و عجائبات کا مظاہرہ کرنے، شیطانی ارواح نکالنے، بیماروں کو شفا دینے اور بہت سے معجزات کرنے پر قادر ہو، اور اگر وہ شخص یہ دعویٰ کرے کہ یسوع کے روپ میں اس کا ظہور ہوا ہے تو وہ شیطانی ارواح کی طرف سے تیار کردہ ایک جعلی یسوع ہو گا، جو یسوع کی نقل کر رہا ہو گا۔ یہ یاد رکھو! خدا ایک ہی کام کو دہراتا نہیں ہے۔ یسوع کے کام کا مرحلہ پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے اور خدا کام کا یہ مرحلہ دوبارہ کبھی شروع نہیں کرے گا۔ خدا کا کام انسان کے تصورات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مثال کے طور پر، عہد نامہ قدیم میں ایک مسیحا کے آنے کی پیشین گوئی کی گئی تھی، اور اس پیشین گوئی کا نتیجہ یسوع کی آمد تھا۔ یہ پہلے ہی ہو چکا ہے، ایک اورمسیحا کا دوبارہ آنا غلط ہو گا۔ یسوع پہلے ہی ایک بار آ چکا ہے، اور اگر یسوع اس بار دوبارہ آتا ہے تو یہ غلط ہو گا۔ ہر دور کا ایک نام ہوتا ہے اور ہر نام میں اس دور کی خصوصیات ہوتی ہیں۔ انسان کے تصورات میں یہ ہے کہ خدا ہمیشہ نشانیاں اور عجائبات دکھائے، ہمیشہ بیماروں کو شفا دے اور شیطانی ارواح نکالے اور ہمیشہ یسوع کی طرح ہی ہو۔ تاہم اس بار خدا ایسا بالکل نہیں ہے۔ اگر، آخری ایام کے دوران، خدا نے پھر بھی نشانیاں اور عجائبات دکھائے اور دوبارہ شیطانی ارواح کو نکالا اور بیماروں کو شفا دی – اگر اُس نے بالکل ویسا ہی کیا جیسا کہ یسوع نے کیا تھا – تو پھر خدا بھی وہی کام دہرا رہا ہو گا اور یسوع کے کام کی کوئی اہمیت یا قدر نہیں رہ جائے گی۔ اس لیے خدا ہر دور میں کام کا ایک مرحلہ انجام دیتا ہے۔ ایک بار جب اس کے کام کا ہر مرحلہ مکمل ہو جاتا ہے تو جلد ہی شیطانی ارواح اس کی نقل شروع کر دیتی ہیں، اور جب شیطان خدا کے تعاقب میں چلنا شروع کر دیتا ہے تو خدا ایک مختلف طریقہ اختیار کر لیتا ہے۔ ایک بار جب خدا اپنے کام کا ایک مرحلہ مکمل کر لیتا ہے توشیطانی ارواح اس کی نقل شروع کر دیتی ہیں۔ تجھے اس بارے میں واضح ہونا چاہیے۔ آج خدا کا کام یسوع کے کام سے مختلف کیوں ہے؟ خدا آج نشانیاں اور عجائبات کیوں نہیں دکھاتا، شیطانی ارواح کو کیوں نہیں نکالتا، اور بیماروں کو شفا کیوں نہیں دیتا؟ اگر یسوع کا کام شریعت کے دور میں کیے گئے کام جیسا ہوتا، تو کیا وہ فضل کے دور کے خدا کی نمائندگی کر سکتا تھا؟ کیا وہ تصلیب کا کام مکمل کر سکتا تھا؟ اگر، شریعت کے دور میں، یسوع ہیکل میں داخل ہوتا اور سبت کا دن رکھتا، تو اسے کوئی نہیں ستاتا اور سب اسے گلے لگاتے۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا اسے مصلوب کیا جا سکتا تھا؟ کیا وہ خلاصی کا کام مکمل کر سکتا تھا؟ کیا فائدہ ہو گا اگر آخری ایام کا مجسم خدا یسوع کی طرح نشانیاں اور عجائبات دکھائے؟ صرف اسی صورت میں کہ جب خدا آخری ایام میں اپنے کام کا ایک اور حصہ کرتا ہے، جو اُس کے انتظامی منصوبے کا حصہ ہے، تو ہی انسان خدا کے بارے میں گہرا علم حاصل کر سکتا ہے، اور تب ہی خدا کا انتظامی منصوبہ مکمل ہو سکتا ہے۔

آخری ایام میں، خدا بنیادی طور پر اپنا کلام بیان کرنے کے لیے آیا ہے۔ وہ روح کے نقطہ نظر سے، انسان کے نقطہ نظر سے، اور تیسرے شخص کے نقطہ نظر سے کلام کرتا ہے؛ وہ مختلف طریقوں سے کلام کرتا ہے، ایک وقت کے لیے ایک طریقہ استعمال کرتا ہے، اور وہ بولنے کے طریقے کو انسان کے تصورات کو بدلنے اور انسان کے دل سے مبہم خدا کی شبیہہ کو ہٹانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یہ خدا کا بنیادی کام ہے۔ چونکہ انسان یہ مانتا ہے کہ خدا بیماروں کو شفا دینے، شیطانی ارواح کو نکالنے، معجزات کرنے اور انسان کو مادی نعمتوں سے نوازنے کے لیے آیا ہے، اس لیے خدا انسان کے تصورات سے اس طرح کی چیزوں کو دور کرنے کے لیے کام کا یہ مرحلہ – سزا اور عدالت کا کام – انجام دیتا ہے، تاکہ انسان خدا کی حقیقت اور معمول کے مطابق ہونے کو جان سکے، اور تاکہ یسوع کی شبیہہ اس کے دل سے نکال دی جائے اور اس کی جگہ خدا کی ایک نئی شبیہہ رکھی جائے۔ جیسے ہی انسان کے اندر خدا کی شبیہہ پرانی ہوتی ہے، تو وہ بت بن جاتی ہے۔ جب یسوع آیا اور کام کا یہ مرحلہ انجام دیا، تو وہ خدا کے مکمل پن کی نمائندگی نہیں کرتا تھا۔ اس نے کچھ نشانیاں اور عجائبات دکھائے، کچھ الفاظ کہے، اور بالآخر مصلوب ہو گیا۔ اس نے خدا کے ایک حصے کی نمائندگی کی۔ وہ خدا کی تمام چیزوں کی نمائندگی نہیں کر سکا، بلکہ اس نے خدا کے کام کا ایک حصہ کرنے میں خدا کی نمائندگی کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا بہت عظیم اور حیرت انگیز ہے، اور وہ ناقابل فہم ہے، اور اس لیے کہ خدا ہر دور میں اپنے کام کا صرف ایک حصہ کرتا ہے۔ اس دور میں خدا نے جو کام کیا ہے وہ خصوصاً انسان کی زندگی کے لیے کلام کی فراہمی، انسان کی فطرت، جوہر اور اس کا بدعنوان مزاج بے نقاب کرنا اور مذہبی تصورات، دقیانوسی سوچ اور فرسودہ سوچ کا خاتمہ ہے؛ انسان کا علم اور ثقافت خدا کے کلام کے ذریعے ظاہر ہو کر پاک کی جانی چاہیے۔ آخری ایام میں، خدا انسان کو کامل بنانے کے لیے کلام کا استعمال کرتا ہے، نشانیوں اور عجائبات کا نہیں۔ وہ اپنا کلام انسان کو بے نقاب کرنے، انسان کی عدالت کرنے، انسان کو سزا دینے اور انسان کو کامل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے، تاکہ خدا کے کلام کے ذریعے انسان خدا کی حکمت اور محبت دیکھے اور خدا کے مزاج کو سمجھے تاکہ خدا کے کلام کے ذریعے انسان خدا کے کاموں کا مشاہدہ کرے۔ شریعت کے دور میں، یہوواہ نے اپنے الفاظ کے ساتھ موسیٰ کو مصر سے نکالا، اور بنی اسرائیل سے کچھ باتیں کہیں؛ اس وقت خدا کے اعمال کا کچھ حصہ واضح کر دیا گیا تھا، لیکن چونکہ انسان کی صلاحیت محدود تھی اور کوئی چیز اس کا علم مکمل نہیں کر سکتی تھی، اس لیے خدا نے کلام اور کام جاری رکھا۔ فضل کے دور میں، انسان نے ایک بار پھر خدا کے اعمال کا ایک حصہ دیکھا۔ یسوع نشانیاں اور عجائبات دکھانے، بیماروں کو شفا دینے اور شیطانی ارواح کو نکالنے، اور مصلوب ہونے کی قدرت رکھتا تھا، جس کے تین دن بعد وہ زندہ کیا گیا اور انسانوں کے سامنے جسم میں ظاہر ہوا۔ خدا کے بارے میں، انسان اس سے زیادہ نہیں جانتا تھا۔ انسان اتنا ہی جانتا ہے جتنا خدا اسے دکھاتا ہے، اور اگر خدا انسان کو اس سے زیادہ کچھ نہ دکھاتا، تو انسان کی خدا کی حد بندی کرنے کی اتنی ہی حد ہوتی۔ اس طرح، خدا کام کرتا رہتا ہے، تاکہ انسان کا اس کے بارے میں علم گہرا ہو، اور تاکہ انسان آہستہ آہستہ خدا کا جوہر جان لے۔ آخری ایام میں، خدا اپنا کلام انسان کو کامل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ خدا کا کلام تیرا بدعنوان مزاج بے نقاب کرتا ہے، اور تیرے مذہبی تصورات کو خدا کی حقیقت سے بدل دیتا ہے۔ آخری ایام کا مجسم خدا خصوصاً یہ الفاظ پورے کرنے کے لیے آیا ہے "کلام مجسم ہوتا ہے، کلام جسم میں آتا ہے اور کلام جسم میں ظاہر ہوتا ہے" اور اگر تجھے اس کا مکمل علم نہیں ہے، تو تُو ثابت قدم نہیں رہ سکے گا۔ آخری ایام کے دوران، خدا بنیادی طور پر کام کا ایک مرحلہ پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس میں کلام جسم میں ظاہر ہوتا ہے، اور یہ خدا کے انتظامی منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ اس طرح، تمھارا علم لازماً واضح ہونا چاہیے؛ اس سے قطع نظر کہ خدا کس طرح کام کرتا ہے، خدا انسان کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اس کی حد بندی کرے۔ اگر خدا نے یہ کام آخری ایام میں نہ کیا ہوتا تو انسان کا اس کے بارے میں علم مزید آگے نہیں بڑھ سکتا تھا۔ تجھے صرف یہ ہی معلوم ہوتا کہ خدا مصلوب ہو سکتا ہے اور سدوم کو تباہ کر سکتا ہے، اور یہ کہ یسوع مرنے کے بعد زندہ ہو کر پطرس کے سامنے ظاہر ہو سکتا ہے۔۔۔۔ لیکن تُو یہ کبھی نہ کہہ سکتا کہ خدا کا کلام سب کچھ انجام دے سکتا ہے اور انسان کو فتح کر سکتا ہے۔ صرف خدا کے کلام کا تجربہ کرنے کے ذریعے ہی تُو اس طرح کے علم کے بارے میں بات کر سکتا ہے، اور جتنا زیادہ تا خدا کے کام کا عملی تجربہ کرے گا، اس کے بارے میں تیرا علم اتنا ہی مکمل ہوتا جائے گا۔ اور صرف تب ہی تُو خدا کو اپنے تصورات میں محدود کرنا چھوڑے گا۔ انسان خدا کو اس کے کام کا عملی تجربہ کر کے پہچانتا ہے؛ خدا کو جاننے کا کوئی دوسرا صحیح طریقہ نہیں ہے۔ آج، بہت سے لوگ ہیں جو نشانیاں اور عجائبات اور بڑی آفات کے وقت کے انتظار کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ کیا تُو خدا پر یقین رکھتا ہے یا بڑی آفات پر یقین رکھتا ہے؟ جب بڑی آفات آئیں گی تو بہت دیر ہو چکی ہو گی اور اگر خدا بڑی آفات نازل نہ کرے تو کیا وہ خدا نہیں ہے؟ کیا تُو نشانیوں اور عجائبات پر یقین رکھتا ہے، یا تُو خود خدا کی ذات پر یقین رکھتا ہے؟ جب دوسروں نے اس کا مذاق اڑایا تو یسوع نے نشانیاں اور عجائبات نہیں دکھائے لیکن تب کیا وہ خدا نہیں تھا؟ کیا تُو نشانیوں اور عجائبات پر یقین رکھتا ہے، یا تُو خدا کی ذات پر یقین رکھتا ہے؟ خدا پر ایمان کے بارے میں انسان کے خیالات غلط ہیں! یہوواہ نے شریعت کے دور میں بہت سے الفاظ کہے، لیکن آج بھی اُن میں سے کچھ پورے ہونے باقی ہیں۔ کیا تُو کہہ سکتا ہے کہ یہوواہ خدا نہیں تھا؟

آج، تم سب پر یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ، آخری ایام میں، "کلام مجسم بن جاتا ہے" کی بنیادی طور پر یہ حقیقت ہے جسے خدا کی طرف سے مکمل کیا گیا ہے۔ زمین پر اپنے حقیقی کام کے ذریعے، وہ انسان کو اسے جاننے اور اس کے ساتھ مشغول ہونے، اور اس کے حقیقی اعمال دیکھنے کا سبب بنتا ہے۔ وہ انسان کو واضح طور پر دکھاتا ہے کہ وہ نشانیاں اور عجائبات ظاہر کرنے پر قادر ہے اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے جب وہ ایسا کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ یہ دور پر منحصر ہوتا ہے۔ اس سے تُو دیکھ سکتا ہے کہ خدا نشانیاں اور عجائبات ظاہر کرنے سے قاصر نہیں ہے، بلکہ اس کی بجائے، وہ دور کے مطابق اور جو کام کیا جانا ہے، اس کے مطابق وہ اپنا کام کرنے کا طریقہ بدل دیتا ہے۔ کام کے موجودہ مرحلے میں، وہ نشانیاں اور عجائبات نہیں دکھاتا ہے؛ اس نے یسوع کے دور میں کچھ نشانیاں اور عجائبات اس لیے دکھائے تھے کیونکہ اس دور میں اس کا کام مختلف تھا۔ خدا آج وہ کام نہیں کرتا، لہٰذا کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ نشانیاں اور عجائبات دکھانے پر قادر نہیں ہے، یا یہ کہ اگر وہ نشانیاں اور عجائبات ظاہر نہیں کرتا ہے تو وہ خدا نہیں ہے۔ کیا یہ غلط عقیدہ نہیں ہے؟ خدا نشانیاں اور عجائبات ظاہر کرنے پر قادر ہے، لیکن چونکہ وہ مختلف دور میں کام کر رہا ہے، اس لیے وہ ایسا کام نہیں کرتا۔ چونکہ یہ ایک مختلف دور ہے، اور چونکہ یہ خدا کے کام کا ایک مختلف مرحلہ ہے، اس لیے خدا کے وضح کردہ اعمال بھی مختلف ہیں۔ خدا پر انسان کا ایمان نشانیوں اور عجائبات پر ایمان نہیں ہے اور نہ ہی معجزات پر ایمان ہے۔ بلکہ نئے دور میں اس کے حقیقی کام پر ایمان ہے۔ انسان خدا کو اس طریقے سے پہچاننے لگتا ہے جس طریقے سے وہ کام کرتا ہے اور یہ علم انسان کے اندر خدا پر ایمان پیدا کرتا ہے، یعنی خدا کے کام اور اعمال پر ایمان۔ کام کے اس مرحلے میں، خدا بنیادی طور پر کلام کرتا ہے۔ نشانیاں اور عجائبات دیکھنے کا انتظار نہ کر؛ تو ان میں سے کچھ بھی نہیں دیکھے گا! اس کی وجہ یہ ہے کہ تُو فضل کے دور میں پیدا نہیں ہوا تھا۔ اگر تُو اس دور میں پیدا ہوتا تو تُو نشانیاں اور عجائبات دیکھ سکتا تھا، لیکن تُو آخری ایام میں پیدا ہوا ہے، لہٰذا تُو صرف خدا کی حقیقت اور اس کا عام معمول کے مطابق ہونا ہی دیکھ سکتا ہے۔ آخری ایام میں مافوق الفطرت یسوع دیکھنے کی امید نہ رکھ۔ تُو صرف عملی مجسم خدا کو دیکھ سکتا ہے، جو کسی عام انسان سے مختلف نہیں ہے۔ ہر دور میں خدا مختلف اعمال کو واضح کرتا ہے۔ ہر دور میں وہ خدا کے اعمال کے ایک حصے کو واضح کرتا ہے اور ہر دور کا کام خدا کی معرفت کے ایک حصے اور خدا کے اعمال کے ایک حصے کی نمائندگی کرتا ہے۔ وہ اعمال جنھیں وہ واضح کرتا ہے، وہ اس دور کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں جس میں وہ کام کرتا ہے، لیکن یہ سب انسان کو خدا کے بارے میں ایک ایسا علم فراہم کرتے ہیں جو کہ زیادہ گہرا ہے، خدا پر ایسا ایمان جو زیادہ سچا اور عملی ہے۔ انسان خدا کے تمام اعمال کی وجہ سے خدا پر یقین رکھتا ہے، کیونکہ خدا بہت حیرت انگیز ہے، بہت عظیم ہے، کیونکہ وہ قادرِمطلق اور ناقابل فہم ہے۔ اگر تُو خدا پر اس لیے یقین رکھتا ہے کہ وہ نشانیاں اور عجائبات دکھانے پر قادر ہے اور وہ بیماروں کو شفا دے سکتا ہے اور شیطانی ارواح کو نکال سکتا ہے، تو تیرا خیال غلط ہے، اور کچھ لوگ تجھ سے کہیں گے، "کیا شیطانی ارواح بھی ایسا کام نہیں کر سکتیں؟" کیا یہ خدا کی شبیہ کو شیطان کی شبیہ کے ساتھ ملانے کے زمرے میں نہیں آتا؟ آج، انسان کا خدا پر یقین اس کے بہت سے اعمال اور اس کام کی بہت زیادہ مقدار کی وجہ سے ہے، جو وہ کرتا ہے اور اس کے کلام کرنے کے بہت سے طریقوں کی وجہ سے ہے۔ خدا انسان کو فتح کرنے اور اسے کامل بنانے کے لیے اپنے کلام کا استعمال کرتا ہے۔ انسان خدا پر اس کے بہت سے کاموں کی وجہ سے ایمان رکھتا ہے، اس لیے نہیں کہ وہ نشانیاں اور عجائبات دکھانے پر قادر ہے؛ لوگ خدا کو صرف اس کے اعمال کا مشاہدہ کر کے ہی پہچانتے ہیں۔ صرف خدا کے حقیقی افعال کو جان کر ہی، کہ وہ کیسے کام کرتا ہے، وہ کون سے حکمت کے طریقے استعمال کرتا ہے، وہ کیسے کلام کرتا ہے، اور وہ کیسے انسان کو کامل بناتا ہے – صرف ان پہلوؤں کو جان کر ہی – تُو خدا کی حقیقت اور اس کی معرفت سمجھ سکتا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ وہ کیا پسند کرتا ہے، کیا ناپسند کرتا ہے، اور وہ انسان پر کیسے کام کرتا ہے۔ خدا کی پسند اور ناپسند سمجھ کر تُو مثبت اور منفی میں فرق کر سکتا ہے اور خدا کے بارے میں تیرے علم سے تیری زندگی ترقی کرے گی۔ مختصراً، تجھے خدا کے کام کا علم حاصل کرنا چاہیے، اور تجھے خدا پر ایمان لانے کے بارے میں اپنے خیالات کو درست کرنا چاہیے۔

سابقہ: تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ عملی خدا خود خدا ہے

اگلا: کیا خدا کا کام اتنا سادہ ہے جتنا انسان تصور کرتا ہے؟

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp