تعارف

11 فروری، 1991 کو، خُدا نے اپنا پہلا کلام کلیسا میں کہا، اور اس کلام کا اُس وقت روح القدس کے دھارے میں رہنے والے ہر ایک شخص پر غیر معمولی اثر ہوا۔ اس کلام میں ذکر ہوا کہ ”خدا کا مسکن ظاہر ہو چکا ہے“ اور یہ کہ ”کائنات کا سربراہ، آخری ایام کا مسیح – وہ درخشندہ سورج ہے“۔ اس گہری اہمیت رکھنے والے کلام کے ساتھ، تمام لوگوں کو ایک نئی دنیا میں لایا گیا۔ ان تمام لوگوں نے جنہوں نے اس کلام کو پڑھا، نئے کام کی ایک اطلاع محسوس کی، وہ عظیم کام جو خدا شروع کرنے والا تھا۔ یہ خوبصورت، خوش آئند اور جامع کلام تھا جو تمام انسانیت کو خدا کے نئے کام میں اور ایک نئے دور میں لایا، اور جس نے اس تجسیم میں خدا کے کام کی بنیاد رکھی اور اس کا اہتمام کیا۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس وقت خدا کا کلام وہ ہے جو ادوار کو ملاتا ہے، کہ یہ فضل کے دور کے آغاز کے بعد پہلا موقع ہے کہ خدا نے نسل انسانی سے کھلے عام بات کی ہے، کہ یہ پہلی بار ہے کہ اس نے دو ہزار سال تک پوشیدہ رہنے کے بعد بات کی ہے اور مزید یہ کہ یہ ایک تمہید ہے، ایک فیصلہ کن نقطہ آغاز ہے، اس کام کے لیے جو خدا بادشاہی کے دور میں شروع کرنے والا ہے۔

پہلی بار جب خُدا نے کلام کیا، تو اُس نے تیسرے شخص کے نقطہ نظر سے تعریف کی شکل میں ایسا کیا، ایسی زبان میں جو ایک ہی وقت میں باوقار اور سادہ تھی، نیز زندگی کی فراہمی تھی جو فوراً اور آسانی سے سمجھ میں آ گئی۔ اس کے ساتھ، اس نے لوگوں کے اس چھوٹے سے گروہ کو لے لیا، جو صرف یہ جانتے تھے کہ خداوند یسوع کی واپسی کا بے تابی سے انتظار کرتے ہوئے کس طرح اس کے فضل سے لطف اندوز ہونا ہے، اور انھیں خاموشی سے خدا کے انتظامی منصوبے میں کام کے ایک اور مرحلے میں لے آیا۔ ان حالات میں، انسانیت نہیں جانتی تھی، اور اس کا تصور کرنے کی ہمت تو اور بھی کم رکھتی تھی کہ خدا آخر کار کس قسم کا کام کرنے والا ہے، یا آگے کی راہ پر کیا ہونے والا ہے۔ اس کے بعد، خدا نے انسانوں کو قدم بہ قدم نئے زمانے میں لانے کے لیے مزید کلام کہنا جاری رکھا۔ حیرت انگیز طور پر خدا کا ہر قول مواد کے لحاظ سے مختلف ہے اور اس کے علاوہ تعریف کی مختلف شکلوں اور اظہار کے مختلف طریقوں کا استعمال کرتا ہے۔ یہ کلمات، لہجے میں یکساں لیکن مواد میں متنوع، ہمیشہ خدا کی احتیاط اور فکر کے جذبات سے بھرپور ہوتے ہیں، اور تقریباً ہر ایک میں مختلف مواد کے ساتھ زندگی کی فراہمی نیز خدا کی طرف سے انسان کے لیے یاد دہانی، نصیحت اور تسلی کے الفاظ ہوتے ہیں۔ ان کلمات میں اس طرح کے اقتباسات بار بار آتے ہیں: ”واحد سچا خدا مجسم ہو گیا ہے، اور وہ کائنات کا سربراہ ہے، جو ہر شے کو حکم دیتا ہے“؛ ”فاتح بادشاہ اپنے عظیم الشان تخت پر بیٹھا ہے“؛ ”وہ کائنات اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے“؛ علی هذا القیاس۔ ان اقتباسات میں ایک پیغام دیا گیا ہے، یا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ اقتباسات نسل انسانی کو پیغام پہنچاتے ہیں: خدا پہلے ہی انسانی دنیا میں آ چکا ہے، خدا اس سے بھی بڑا کام شروع کرنے والا ہے، خدا کی بادشاہی لوگوں کے ایک خاص گروہ کے درمیان نازل ہو چکی ہے، اور خدا جلال حاصل کر چکا ہے اور اپنے دشمنوں کے ہجوم کو شکست دے چکا ہے۔ خدا کا ہر ایک قول ہر ایک انسان کے دل کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ تمام انسانیت بے صبری سے خدا کا انتظار کرتی ہے کہ وہ اور بھی نیا کلام کہے، کیونکہ خدا جب بھی بولتا ہے، وہ انسان کے دل کو اس کی جڑوں تک ہلا دیتا ہے، اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہ انسان کی ہر حرکت اور ہر جذبے کو سنبھالتا اور برقرار رکھتا ہے، تاکہ انسانیت خدا کے کلام پر بھروسا کرنا اور اس سے بھی بڑھ کر، تعریف کرنا شروع کر دے۔۔۔۔ اس طرح، انجانے میں، بہت سے لوگ بنیادی طور پر انجیل کو بھول چکے تھے، اور پرانے انداز کے وعظوں اور روحانی لوگوں کی تحریروں کا اس سے بھی کم اعتراف کیا، کیونکہ وہ ماضی کی تحریروں میں خدا کے اس کلام کی کوئی بنیاد تلاش کرنے سے قاصر تھے، اور نہ ہی یہ کلمات کہنے میں خدا کے مقصد کو تلاش کرنے کے قابل تھے۔ ایسا ہونے کی وجہ سے، انسانیت کے لیے یہ تسلیم کرنا کتنا زیادہ ضروری تھا کہ یہ کلمات خدا کی آواز ہیں جو وقت کے آغاز سے لے کر دیکھے یا سنے نہیں گئے ہے، کہ یہ کسی بھی ایسے شخص کی پہنچ سے باہر ہیں جو خدا پر ایمان رکھتا ہے، اور یہ کہ وہ ماضی کے ادوار میں کسی بھی روحانی شخص کی طرف سے کہے گئے یا خدا کے ماضی کے کلمات سے سبقت لے گئے ہیں۔ ان کلمات میں سے ہر ایک سے تحریک حاصل کرتے ہوئے، انسانیت انجانے میں روح القدس کے کام کی مخصوص فضا میں، نئے دور کی پہلی صفوں میں زندگی میں داخل ہو گئی۔ خدا کے کلام سے تحریک حاصل کرتے ہوئے امید سے بھری ہوئی انسانیت نے خدا کے کلام سے ذاتی طور پر راہنمائی حاصل کرنے کی مٹھاس کا ذائقہ چکھا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ مختصر وقت ایسا وقت ہے جسے ہر انسان ماضی کے متعلق سوچتے ہوئے ہمیشہ یاد رکھے گا، جب کہ درحقیقت اس دور میں انسانیت نے جس سے لطف اٹھایا وہ روح القدس کے کام کی مخصوص فضا سے زیادہ نہیں تھا، یا کوئی اسے گولی کے اوپر لپٹی ہوئی چینی کا میٹھا ذائقہ کہہ سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت سے اب تک، خدا کے کلام کی راہنمائی میں، روح القدس کے کام کی مخصوص فضا میں، انسانیت کو انجانے میں خدا کے کلام کے ایک اور مرحلے میں لے جایا گیا، جو بادشاہی کے دور میں خدا کا کام اور کلمات کا پہلا مرحلہ تھا – خدمت کرنے والوں کی آزمائش۔

خدمت کرنے والوں کی آزمائش سے پہلے کہا جانے والا کلام زیادہ تر ہدایات، نصیحت، اعتراض اور نظم و ضبط کی شکل میں تھا اور بعض جگہوں پر ان لوگوں کے لیے جنہوں نے انسانیت کو خدا کے قریب لے جانے کو آسان بنانے کے لیے خدا کی پیروی کی یا اس لیے کہ انسانیت خدا کے ساتھ اپنے تعلق کو قریبی سمجھے، انہوں نے فضل کے دور میں استعمال کیے گئے خطاب کی پرانی شکل – ”میرے بیٹوں“ کا استعمال کیا۔ اس طرح، خدا نے بنی نوع انسان کی خود پسندی، تکبر اور دیگر بدعنوان مزاجوں کے بارے میں جو بھی فیصلہ دیا، انسان ”خدا باپ“ کے کلمات کی مخالفت کیے بغیر اپنی ”بیٹے“ کی شناخت کے ساتھ اس سے نمٹنے اور اسے قبول کرنے کے قابل تھا، اس پر مستزاد ہ کہ وہ وعدہ جو ”خدا باپ“ نے اپنے ”بیٹوں“ سے کیا تھا اس کے بارے میں کبھی بھی شک نہیں تھا۔ اس مدت کے دوران، تمام انسانیت نے ایک شیر خوار بچے کی طرح مصیبت سے آزاد وجود کا لطف اٹھایا، اور اس سے خُدا کا مقصد حاصل ہو گیا، جو کہ جب وہ ”بلوغت“ میں داخل ہوں گے، تو وہ اُن پر فیصلہ صادر کرنا شروع کر دے گا۔ اس نے نسلِ انسانی کو جانچنے کے اس کام کی بھی بنیاد رکھی جس کا خُدا باضابطہ طور پر بادشاہی کے دور میں آغاز کرتا ہے۔ کیونکہ اس تجسیم میں خدا کا کام بنیادی طور پر پوری نسل انسانی کا فیصلہ کرنا اور اسے فتح کرنا ہے، اس لیے جیسے ہی انسان نے اپنے پاؤں زمین پر مضبوطی سے جمائے، خدا فوراً اپنے کام کی حالت میں داخل ہو گیا – وہ کام جس میں وہ انسان کی عدالت اور تادیب کرتا ہے۔ ظاہری طور پر، خدمت کرنے والوں کی آزمائش سے پہلے کے تمام کلمات عبوری دور سے گزرنے کے لیے کہے گئے تھے اور ان کا اصل مقصد اس کے سوا کچھ اور تھا جو نظر آتا تھا۔ خُدا کا بے تاب ارادہ یہ تھا کہ وہ جلد از جلد بادشاہی کے دور میں اپنے کام کا باقاعدہ آغاز کرنے کے قابل ہو سکے۔ وہ کسی بھی طرح سے یہ نہیں چاہتا تھا کہ انسان کو چینی میں لپٹی ہوئی گولیاں کھلا کر آگے بڑھنے کے لیے ترغیب دے؛ بلکہ وہ اپنی عدالت کی کرسی کے سامنے ہر انسان کے حقیقی چہرے کو دیکھنے کے لیے بے تاب تھا، اور اس سے بھی زیادہ بے تابی سے وہ اس حقیقی رویے کو دیکھنا چاہتا تھا جو تمام انسانیت اس کے فضل سے محروم ہونے کے بعد اس کے ساتھ رکھے گی۔ وہ صرف نتائج دیکھنا چاہتا تھا، عمل نہیں۔ لیکن اس وقت ایسا کوئی نہیں تھا جو خدا کے بے تاب ارادے کو سمجھتا، کیونکہ انسانی دل کو صرف اپنی منزل اور مستقبل کے امکانات کی فکر تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ خدا کے فیصلے کا رخ بار بار پوری نسل انسانی کی طرف تھا۔ جب انسانیت نے، خدا کی راہنمائی میں، انسانوں کی معمول کی زندگی گزارنا شروع کی تو تب خدا کا بنی نوع انسان کے ساتھ رویہ بدل گیا۔

1991 ایک غیر معمولی سال تھا؛ آؤ ہم اس سال کو ایک ”سنہری سال“ کہیں۔ خدا نے بادشاہی کے دور کے نئے کام کا آغاز کیا اور پوری نسل انسانی کو اپنے کلام کا مخاطب بنایا۔ اسی وقت، انسانیت نے بے مثال گرمجوشی کا لطف اٹھایا اور، اس سے بھی بڑھ کر، اس درد کا تجربہ کیا جو انسان کے بارے میں خدا کے بے مثال فیصلے کے بعد ہوتا ہے۔ نسلِ انسانی نے اس مٹھاس کا ذائقہ چکھا جو اس وقت تک نامعلوم تھی اور جسے محسوس نہیں کیا گیا تھا، اور اس فیصلے اور ترک کرنے کو بھی جو اس وقت تک نامعلوم تھا، گویا اس نے خدا کو حاصل کر لیا، اور پھر گویا اس نے خدا کو کھو دیا۔ تصرف میں ہونے کی مصیبت اور محروم ہونے کی مصیبت – ان احساسات کو صرف وہی جانتے ہیں جنہوں نے ذاتی طور پر ان کا تجربہ کیا ہے؛ وہ ایسی چیزیں ہیں جن کو بیان کرنے کی انسان کے پاس نہ صلاحیت ہے اور نہ ہی ذرائع۔ اس قسم کے زخم خدا نے ہر انسان کو غیر محسوس تجربے اور اثاثے کے طور پر عطا کیے ہیں۔ اس سال میں خدا کے کلمات کے مواد کی درجہ بندی دراصل دو بڑے حصوں میں ہوتی ہے: پہلا وہ ہے جب خدا انسانوں کی دنیا میں نازل ہوا تاکہ انسانیت کو اپنے تخت کے سامنے مہمانوں کے طور پر آنے کی دعوت دے؛ دوسرا وہ ہے جب انسانیت سے پیٹ بھر کر کھانے اور پینے کے بعد خدا کی طرف سے خدمت گزاروں کے طور پر کام لیا گیا۔ بلاشبہ، یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ پہلا حصہ انسانیت کی سب سے پیاری اور پرخلوص خواہش ہے، اور سب سے بڑھ کر اس لیے کہ انسان طویل عرصے سے خُدا کی ہر چیز سے لطف اندوز ہونے کو اُس پر اپنے ایمان کا مقصد بنانے کے عادی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی خدا نے اپنے کلمات کہنا شروع کیے، تمام انسانیت بادشاہی میں داخل ہونے کے لیے تیار ہو گئی اور انتظار کرنے لگی کہ خدا انھیں مختلف انعامات سے نوازے۔ ان حالات میں لوگوں نے اپنے مزاجوں کو بدل کر، خُدا کو مطمئن کرنے کی کوشش کرنے، خُدا کی مرضی پر غور کرنے، وغیرہ کے ذریعے مناسب قیمت بالکل ادا نہیں کی۔ سرسری نظر سے دیکھا جائے تو جب انسانوں نے اپنے آپ کو خدا کے لیے خرچ کیا اور کام کیا تو وہ مسلسل سرگرم طور پر کام کرتے نظر آئے، جبکہ حقیقت میں اس وقت کے دوران وہ اپنے دلوں کے خفیہ خانوں میں حساب لگا رہے تھے کہ اگلا قدم انہیں برکتیں حاصل کرنے کے لیے اٹھانا چاہیے یا بادشاہوں کے طور پر حکومت کرنے کے لیے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ جس وقت انسان کا دل خدا سے لطف اندوز ہو رہا تھا، اسی وقت وہ خدا کے لیے حساب کتاب بھی کر رہا تھا۔ اس حالت میں انسانیت خدا کی شدید نفرت اور حقارت سے ملتی ہے؛ خُدا کا مزاج اس بات کو برداشت نہیں کرتا کہ کوئی انسان اُسے دھوکا دے یا اُسے استعمال کرے۔ بلکہ خدا کی حکمت کسی بھی انسان کے لیے ناقابلِ رسائی ہے۔ یہ ان تمام مصائب کو برداشت کرنے کے دوران تھا کہ اس نے اپنے کلمات کا پہلا حصہ کہا۔ اس وقت خدا نے کتنی تکالیف برداشت کیں اور اس نے کتنی احتیاط اور فکر کی، کوئی بھی انسان اس کا تصور کرنے سے قاصر ہے۔ ان کلمات کے پہلے حصے کا مقصد ان تمام مختلف قسم کی بدصورتیوں کو بے نقاب کرنا ہے جو انسان حیثیت اور فائدے کا سامنا کرتے وقت ظاہر کرتا ہے اور انسان کی حرص اور حقارت کو بے نقاب کرنا ہے۔ بات کرتے ہوئے، خدا اگرچہ اپنے الفاظ کو ایک محبت کرنے والی ماں کے مخلصانہ اور سنجیدہ لہجے میں ڈھالتا ہے لیکن اس کے دل میں غضب دوپہر کے سورج کی طرح جلتا ہے، گویا اس کا رخ اس کے دشمنوں کے خلاف ہے۔ خدا کسی بھی حالات میں ایسے لوگوں کے گروہ سے بات کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے جو نسل انسانی کی عام مثال سے محروم ہیں، لہذا، وہ جب بھی بولتا ہے، وہ اپنے دل میں غضب کو دبا رہا ہوتا ہے اور اسی وقت وہ خود کو اپنے کلمات کے اظہار پر مجبور کرتا ہے۔ مزید یہ کہ وہ ایک ایسی انسانی نسل سے بات کر رہا ہے جو عام انسانیت سے عاری، عقل سے محروم، حد سے زیادہ بدعنوان ہے، لالچ جس کی دوسری فطرت کے طور پر جڑ پکڑے ہوئے ہے، اور تلخ انجام تک نافرمان اور خدا کے خلاف باغی ہے۔ انسان کی نسل جن گہرائیوں تک گر چکی ہے، انسان کی نسل سے خدا کی نفرت اور بیزاری کی حد کا اندازہ بآسانی کیا جا سکتا ہے؛ نسل انسانی کے لیے جس چیز کا تصور کرنا مشکل ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے خدا کو جو تکلیف پہنچائی ہے – اسے الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ لیکن یہ بالکل اس پس منظر کے خلاف تھا – جہاں کوئی بھی یہ دریافت کرنے کے قابل نہیں تھا کہ خدا کے دل نے کس طرح تکلیف اٹھائی، اور اس کے علاوہ، کسی نے بھی دریافت نہیں کیا کہ نسل انسانی کتنی غیر معقول اور ناقابلِ اصلاح تھی – کہ ہر ایک شخص نے، بغیر کسی شرم و حیا کے یا اخلاقی تقاضوں کا لحاظ کیے بغیر اس بات کو اپنا حق سمجھا کہ خدا کے بیٹوں کی حیثیت سے ان کا حق ہے کہ وہ تمام انعامات حاصل کریں جو اس نے انسان کے لیے تیار کیے تھے۔ یہاں تک کہ ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کرنے تک، کوئی بھی پیچھے نہیں رہنا چاہتا اور سب کو ہارنے کا شدید خوف ہے۔ اب تک تمہیں معلوم ہو جانا چاہیے کہ اس وقت کے لوگ خدا کی نظر میں کس قسم کے مقام پر فائز تھے۔ اس طرح کی دوڑ خدا کے انعامات کو کیسے حاصل کر سکتی ہے؟ لیکن جو کچھ انسان کو خدا کی طرف سے ملتا ہے وہ ہر وقت سب سے قیمتی خزانہ ہوتا ہے اور اس کے برعکس جو خدا انسان سے حاصل کرتا ہے وہ سب سے شدید درد ہوتا ہے۔ جب سے خدا اور انسان کے درمیان تعلق کی ابتدا ہوئی ہے، انسان کو ہمیشہ خدا کی طرف سے یہی ملا ہے، اور یہ وہی ہے جو اس نے بدلے میں خدا کو ہمیشہ دیا ہے۔

خدا جس قدر اضطراب سے جلا، جب اس نے انسانوں کی اس دوڑ کو دیکھا، جو بالکل بنیاد تک بدعنوان ہے، تو اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اسے آگ کی جھیل میں پھینک دے تاکہ اس کی اصلاح ہو سکے۔ یہ خدا کے کلمات کا دوسرا حصہ ہے، جس میں خدا نے بنی نوع انسان کو اپنے خدمت گزاروں کے طور پر استعمال کیا۔ اس حصے میں، انسان کی بدعنوان فطرت کو بے نقاب کرنے کے لیے ”خدا کے فرد“ کی حیثیت کو چارے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اور اسی دوران انسانیت کو انتخاب کرنے دینے کے لیے خدمت کرنے والوں، خدا کے بندوں، اور خدا کے بیٹوں کو مختلف زمروں[ا] میں آگے بڑھاتے ہوئے، طریقہ اور طوالت دونوں کے لحاظ سے خدا نرم سے سخت، اور چند سے بہت سوں کی طرف گیا۔ بالکل یقیناً، جیسا کہ خدا نے پیشین گوئی کی تھی، کسی نے بھی خدا کی خدمت کرنے والا بننے کا انتخاب نہیں کیا، اور اس کی بجائے سب نے خدا کا فرد بننے کی کوشش کی۔ اگرچہ اس عرصے کے دوران، خدا نے جس شدت سے بات کی، وہ ایسی چیز تھی جس کی انسانوں نے کبھی توقع نہیں کی تھی، اور جس کے بارے میں کبھی سننے کا امکان تو اور بھی بہت کم تھا، بہر حال، حیثیت کے بارے میں حد سے زیادہ فکرمند ہونے کی وجہ سے اور اس سے بڑھ کر، برکات حاصل کرنے میں انتہائی جوش و خروش کے ساتھ مشغول ہونے کی وجہ سے، ان کے پاس خدا کے لہجے اور اس کے بولنے کے طریقے کے بارے میں کوئی تصور قائم کرنے کا وقت نہیں تھا، بلکہ اس کی بجائے ان کے ذہنوں میں ہمیشہ اس بات کی فکر رہی کہ ان کی اپنی حیثیت کیا ہو گی اور مستقبل میں کیا ہو سکتا ہے۔ اس طرح، انسانیت کو، بےخبری میں، خدا کے کلمات کے ذریعے اس ”بھول بھلیوں“ میں لایا گیا جو اس نے ان کے لیے بچھا رکھی تھی۔ چاروناچار، مستقبل اور اپنی تقدیر کے لالچ میں آ کر، انسان اپنے آپ کو خدا کا فرد بننے کے لیے ناکافی طور پر جانتے تھے، اور پھر بھی اس کے خدمت گزاروں کے طور پر کام کرنے کے لیے ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔ ان متضاد ذہنیتوں کے درمیان فیصلہ نہ کرنے کی کیفیت میں، انہوں نے لاشعوری طور پر ایک بے مثال عدالت اور تادیب کو قبول کیا جو خدا نے انسانیت کو دی تھی۔ فطری طور پر، عدالت اور تزکیے کی یہ شکل ایسی چیز تھی جسے انسانیت کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں تھی۔ بہر حال، صرف خدا ہی کے پاس حکمت ہے، اور صرف اسی کے پاس یہ قدرت ہے کہ وہ انسانوں کی اس بدعنوان نسل سے بالکل عاجزانہ تابعداری کا مظاہرہ کروائے، تاکہ وہ اپنی مرضی سے یا مرضی کے بغیر، آخر میں مطیع ہوں۔ انسانیت کے پاس انتخاب کرنے کے لیے کوئی متبادل نہیں تھا۔ حتمی اختیار صرف خدا ہی کا ہے اور صرف خدا ہی اس طرح کا طریقہ استعمال کرنے پر قادر ہے کہ وہ انسان کو سچائی اور زندگی عطا کرے اور اسے سمت دکھائے۔ یہ طریقہ انسان پر خدا کے کام کی ناگزیریت ہے، اور یہ بھی شک و تنازع سے بالاتر، انسان کی ناگزیر ضرورت ہے۔ خدا اس حقیقت کو انسانیت تک پہنچانے کے لیے اس طرح بولتا اور کام کرتا ہے: انسانیت کو بچانے کے لیے، خدا اپنی محبت اور رحم کی وجہ سے اور اپنے نظم و نسق کی خاطر ایسا کرتا ہے؛ خدا کی نجات حاصل کرنے میں، نسل انسانی ایسا کرتی ہے کیونکہ وہ اس مقام تک گر چکی ہے جہاں خدا ذاتی طور پر بات کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جب انسان کو خدا کی نجات ملتی ہے تو یہ عظیم ترین فضل ہوتا ہے، اور یہ ایک خاص احسان بھی ہے؛ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر خدا اپنے کلمات کو ذاتی طور پر نہ کہتا تو ناپید ہونا نسل انسانی کا مقدر ہوتا۔ جس وقت وہ نسل انسانی سے نفرت کرتا ہے تو اسی وقت خدا پھر بھی انسان کی نجات کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار اور آمادہ ہوتا ہے۔ دریں اثنا، جب انسان خدا کے لیے اپنی محبت کی بار بار بات کرتا ہے اور یہ کہ کس طرح وہ سب کچھ خدا کے لیے وقف کرتا ہے، تو وہ خدا کے خلاف بغاوت کر رہا ہوتا ہے اور خدا سے ہر قسم کے فضل کا زبردستی مطالبہ کر رہا ہوتا ہے، جبکہ خدا کو تکلیف تک بھی دے رہا ہوتا ہے اور اس کے دل کو ناقابل بیان تکلیف پہنچا رہا ہوتا ہے۔ یہ خدا اور انسان کے درمیان بے غرض ہونے اور خود غرض ہونے کا شدید تضاد ہے!

کام کرنے اور بولنے میں، خدا کسی خاص طریقے کی پیروی کرنے پر مجبور نہیں ہوتا ہے، بلکہ نتائج کے حصول کو اپنا مقصد بناتا ہے۔ اس وجہ سے، اپنے کلمات کے اس حصے میں، خُدا نے کوشش کی ہے کہ اپنی شناخت کو واضح طور پر ظاہر نہ کرے، بلکہ صرف چند اصطلاحات کو ظاہر کرے جیسے ”آخری ایام کا مسیح“، ”کائنات کا سربراہ“، وغیرہ۔ یہ کسی بھی طرح سے مسیح کی ذمہ داری یا خدا کے بارے میں انسانیت کے علم کو متاثر نہیں کرتا ہے، خاص طور پر چونکہ اُن ابتدائی دنوں میں انسانیت ”مسیح“ اور ”تجسیم“ کے تصورات سے مکمل طور پر ناواقف تھی، اس لیے خدا کو اپنے کلمات کے اظہار کے لیے خود کو عاجزی کے ساتھ ”خصوصی فعل“ والا ایک شخص بنانے کی ضرورت تھی۔ یہ خدا کی تکلیف دہ دیکھ بھال اور سوچ تھی، کیونکہ اس وقت کے لوگ خطاب کی اس شکل کو ہی قبول کر سکتے تھے۔ خُدا خطاب کرنے کی جو بھی شکل استعمال کرتا ہے، اُس کے کام کے نتائج متاثر نہیں ہوتے، کیونکہ جو کچھ بھی وہ کرتا ہے اُس میں خُدا کا مقصد انسان کو بدلنے کے قابل بنانا، انسان کو خُدا کی نجات حاصل کرنے کے قابل بنانا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ کچھ بھی کرے، خدا انسان کی ضروریات کو ہمیشہ ذہن میں رکھتا ہے۔ خدا کے کام کرنے اور بولنے کے پیچھے یہی نیت ہوتی ہے۔ اگرچہ خدا انسانیت کے تمام پہلوؤں پر غور کرنے میں پوری طرح سے توجہ دیتا ہے، اور جو کچھ بھی کرتا ہے اس میں کامل حکمت والا ہے، میں یہ کہہ سکتا ہوں: اگر خدا خود اپنے لیے گواہی نہ دیتا، تو تخلیق شدہ انسانوں کی نسل میں سے ایک بھی ایسا نہ ہوتا جو خود خدا کو پہچاننے یا خود خدا کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہونے کے قابل ہوتا۔ اگر خُدا اپنے کام میں ”یک خاص فعل کے ساتھ ایک شخص“ کو خطاب کی شکل کے طور پر استعمال کرتا رہتا، تو ایک بھی انسان ایسا نہ ہوتا جو خدا کو خدا مان سکتا – یہ انسانیت کا دکھ ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تخلیق شدہ انسانوں کی نسل میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو خدا کو پہچان سکے، اور خدا سے محبت کرنے والے، خدا کی پرواہ کرنے والے اور خدا کا قرب حاصل کرنے والے کسی کے ہونے کا امکان تو اور کم ہے۔ انسان کا ایمان صرف اور صرف برکتیں حاصل کرنے کے لیے ہے۔ ایک خاص فعل کے ساتھ ایک شخص کے طور پر خدا کی شناخت نے ہر ایک انسان کو ایک اشارہ دیا ہے: انسانیت کو خدا کو تخلیق شدہ انسانوں کی نسل میں سے ایک کے طور پر لینا آسان لگتا ہے؛ سب سے بڑا درد اور ذلت جو انسانیت کی طرف سے خدا کو ملتی ہے وہ عین یہ ہے کہ جب وہ کھلم کھلا ظاہر ہوتا ہے یا کام کرتا ہے، تو تب بھی خدا انسان کی طرف سے رد کر دیا جاتا ہے اور حتیٰ کہ اس کی طرف سے بھلا بھی دیا جاتا ہے۔ خدا نسل انسانی کو بچانے کے لیے سب سے بڑی ذلت برداشت کرتا ہے؛ سب کچھ دینے میں، اس کا مقصد انسانیت کو بچانا، انسانیت کی طرف سے تسلیم کر لیا جانا ہے۔ اس سب کے لیے خدا نے جو قیمت ادا کی ہے وہ ایسی چیز ہے کہ ہر ایک ضمیر رکھنے والے کو اس کی قدر کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ نسل انسانی نے خدا کے کلمات اور کام کو حاصل کیا ہے، اور خدا کی نجات حاصل کی ہے۔ اس وقت، کسی کو یہ پوچھنے کا خیال نہیں آیا: وہ کیا ہے جو خدا نے انسانوں سے حاصل کیا ہے؟ خدا کے ہر قول سے انسانیت نے سچائی حاصل کی ہے، تبدیل ہونے میں کامیابی حاصل کی ہے، زندگی میں سمت تلاش کی ہے؛ لیکن جو کچھ خدا نے حاصل کیا ہے وہ ان الفاظ سے زیادہ نہیں ہے جو انسانیت خدا کے لیے اپنے مقروض ہونے اور تعریف کی چند مدہم سرگوشیوں کے لیے استعمال کرتی ہے۔ یقیناً یہ وہ اجر نہیں ہے جو خدا انسان سے مانگتا ہے؟

اگرچہ اب خدا کے بہت سے کلمات بیان ہو چکے ہیں، لیکن لوگوں کی بڑی اکثریت خدا کے بارے میں اپنے علم اور فہم میں اب بھی اسی مرحلے پر رکی ہوئی ہے جس کی نمائندگی آغاز میں خدا کے کلام سے ہوئی، جہاں سے وہ آگے نہیں بڑھی ہے – یہ واقعی ایک تکلیف دہ موضوع ہے۔ ”شروع میں مسیح کے کلمات“ کا یہ حصہ انسانی دل کو کھولنے کے لیے محض ایک چابی ہے؛ یہاں توقف کرنا خدا کے ارادے کو پورا کرنے سے بہت پیچھے رہ جانا ہے۔ اپنے کلمات کے اس حصے کو بیان کرنے میں خدا کا مقصد صرف یہ ہے کہ انسانیت کو فضل کے دور سے بادشاہی کے دور میں لے آئے؛ وہ کسی بھی طرح سے یہ نہیں چاہتا کہ انسانیت اس کے کلمات کے اس حصے پر ٹھہری رہے یا حتیٰ کہ اس کے کلمات کے اس حصے کو راہنمائی کے طور پر لے، ورنہ مستقبل میں خدا کے کلمات نہ تو ضروری ہوں گے اور نہ ہی بامعنی۔ اگر کوئی ایسا ہو جو ابھی تک اس میں داخل ہونے سے قاصر ہو جس سے خدا نے اپنے کلمات کے اس حصے میں حاصل کرنے کا مطالبہ کیا ہے، تو اس شخص کا داخلہ نامعلوم ہی رہتا ہے۔ خدا کے کلمات کا یہ حصہ اس سب سے بنیادی تقاضوں پر مشتمل ہے جو خدا بادشاہی کے دور میں انسان سے کرتا ہے، اور یہ واحد راستہ ہے جس سے بنی نوع انسان صحیح راستے پر داخل ہو گا۔ اگر تو ایسا شخص ہے جو کچھ بھی نہیں سمجھتا تو پھر تیرے لیے اس حصے کے الفاظ پڑھ کر شروع کرنا بہترین تھا!

حاشیہ:

ا۔ اصل متن میں جزو جملہ ”مختلف زمروں“ شامل نہیں ہے۔

سابقہ: باب 108

اگلا: تعارف

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp