باب 8
جب خُدا روح کے نقطہ نظر سے بات کرتا ہے، تو اُس کی مخاطب پوری انسانیت ہوتی ہے۔ جب خُدا انسان کے نقطہ نظر سے بات کرتا ہے، تو اُس کے مخاطب وہ تمام لوگ ہوتے ہیں جو اُس کی روح کی راہنمائی کی پیروی کرتے ہیں۔ جب خدا تیسرے شخص کی حیثیت سے بات کرتا ہے (جس کو لوگ مبصر کا نقطہ نظر کہتے ہیں) تو وہ براہ راست لوگوں کو اپنے الفاظ دکھاتا ہے، تاکہ وہ خدا کو ایک تبصرہ نگار کے طور پر دیکھیں، اور ان کو ایسا لگتا ہے کہ اس کے منہ سے لامحدود ایسی چیزیں نکلتی ہیں جن کا انسانوں کو علم نہیں ہوتا ہے اور جن کا ادراک وہ کر ہی نہیں سکتے ہیں۔ کیا یہی معاملہ نہیں ہے؟ جب خُدا رُوح کے نقطہ نظر سے بات کرتا ہے تو تمام انسانیت حیران رہ جاتی ہے۔ "انسانوں کی مجھ سے محبت بہت کم ہے، اور ان کا مجھ پر ایمان بھی افسوسناک حد تک کم ہے۔ اگر میں اپنے الفاظ کا زور لوگوں کی کمزوریوں کی طرف نہ کروں تو وہ شیخی بگھاریں گے اور مبالغہ آرائی کریں گے، وہ بڑے زعم اور رعب جمانے والے بڑے بول کے ساتھ نظریے ایسے پیش کریں گے، گویا وہ زمینی معاملات کے بارے میں ہر چیز کا علم رکھتے ہوں اور سب کچھ جانتے ہوں۔" یہ الفاظ نہ صرف انسانیت کو اور اس مقام کو جو خدا کا انسانوں کے دلوں میں ہے، کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کی زندگی کو بھی بے نقاب کر دیتے ہیں۔ ہر شخص کو یہ یقین ہے کہ وہ غیر معمولی ہے پھر بھی وہ یہ نہیں جانتا ہے کہ "خدا" جیسا کوئی لفظ بھی موجود ہے۔ لہذا، وہ بڑے زعم اور رعب جمانے والے بڑے بول کے ساتھ نظریے پیش کرنے کی ہمت کرتا ہے۔ تاہم، یہ "بڑے زعم اور رعب جمانے والے بڑے بول کے ساتھ نظریے پیش کرنا" اس انداز میں "بات کرنا" نہیں ہے جیسے لوگ اسے سمجھتے ہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان نے انسانوں کو بدعنوان بنا دیا ہے۔ سب کچھ جو وہ کرتے ہیں، ہر کاروائی جو وہ کرتے ہیں خدا کے خلاف ہے اور براہ راست اس کی مخالفت کرتی ہے، اور ان کے اعمال کا اصل ماّدہ شیطان کی طرف سے آتا ہے اور خدا کے خلاف ہوتا ہے، اور اس کا مقصد خدا کی مرضی کے خلاف آزادی حاصل کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کہتا ہے کہ تمام انسان بڑے زعم اور رعب جمانے والے بڑے بول کے ساتھ نظریے پیش کرتے ہیں۔ خدا کیوں یہ کہتا ہے کہ اس کے الفاظ کا زور انسانی کمزوریوں پر ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر خدا اپنے ارادے کے مطابق، لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں میں چھپی ہوئی باتوں کو ظاہر نہیں کرتا ہے تو کوئی بھی اطاعت نہیں کرے گا؛ اس طریقے سے، لوگ اپنے آپ کو نہیں سمجھیں گے، اور وہ خدا کا احترام نہیں کریں گے۔ دوسرے لفظوں میں، اگر لوگوں کے ارادے بے نقاب نہیں ہوتے ہیں، تو پھر وہ کچھ بھی کرنے کی ہمت کریں گے - شاید آسمان پر یا خدا پر براہ راست لعنت بھی بھیجیں۔ یہ انسانیت کی کمزوریاں ہیں۔ چنانچہ خدا یوں کہتا ہے: "میں کائنات کی دنیا کے ہر کونے میں ہمیشہ ان لوگوں کی تلاش میں سفر کرتا ہوں جو میرے ارادے سے ہم آہنگ ہوں اور میرے استعمال کے لیے موزوں ہوں۔" بعد میں بادشاہی کی سلامی کے رسمی طور پر گونجنے کے بارے میں جو کہا گیا ہے، اس کے ساتھ مل کر یہ بیان، یہ واضح کرتا ہے کہ خدا کی روح زمین پر نئے کام میں مصروف ہے؛ اور صرف ایسا ہے کہ انسان اسے اپنی جسمانی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ چونکہ یہ کہا جاتا ہے کہ زمین پر روح نیا کام انجام دے رہی ہے، اس لیے پوری کائناتی دنیا میں بھی انتہائی اہم تبدیلیاں آتی ہیں: خدا کے بیٹے اور خدا کے بندے خدا کے مجسم ہونے کی گواہی کو قبول کرنا شروع کر دیتے ہیں، لیکن اس سے بھی بڑھ کر، ہر مذہب اور فرقہ، ہر شعبہ زندگی اور ہر مقام بھی اسے مختلف درجوں میں قبول کر لیتے ہیں۔ یہ روحانی دنیا میں کائناتی دنیا کی ایک عظیم تحریک ہے۔ یہ پوری مذہبی دنیا کو اس کی بنیادوں تک ہلا کر رکھ دیتی ہے، جو کہ جزوی طور پر وہ ہے جس کا حوالہ پہلے ذکر کیے گئے "زلزلہ" میں ملتا ہے۔ اس کے بعد، فرشتے رسمی طور پر اپنا کام شروع کرتے ہیں اور بنی اسرائیل اپنے گھر واپس لوٹتے ہیں، پھر کبھی نہ مارے مارے پھرنے کے لیے، اور ان میں شامل تمام لوگ نگہبانی کیے جانے کو قبول کر لیتے ہیں۔ اس کے برعکس، مصری میری نجات کے دائرہ کار سے الگ ہونا شروع کر دیتے ہیں۔ یعنی انھیں میری سزا ملتی ہے (لیکن اس کا ابھی رسمی طور پر آغاز نہیں ہوا ہے)۔ لہٰذا، جب دنیا بیک وقت ان کئی عظیم تبدیلیوں سے گزرتی ہے، تو یہ وقت وہ بھی ہوتا ہے جب بادشاہی کی سلامی رسمی طور پر گونجتی ہے، وہ وقت جس کے متعلق لوگوں نے کہا ہے "جب سات گنا طاقتور روح کام کرنا شروع کر دیتی ہے۔" ہر مرتبہ خُدا جب بحالی کا کام انجام دیتا ہے، تو اِن مراحل پر (یا اِن عبوری ادوار میں)، کوئی بھی روح القدس کے کام کو سمجھنے کے قابل نہیں ہوتا ہے۔ لہٰذا، خُدا کے الفاظ، "جب لوگ امید کھو دیتے ہیں،" حقیقت نظر آتے ہیں۔ مزید برآں، ان عبوری مرحلوں میں سے ہر ایک کے دوران، جب انسان امید کھو بیٹھتے ہیں، یا جب وہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ غلط دھارا ہے، تو خدا نئے سرے سے آغاز کرتا ہے اور اپنے کام کا اگلا مرحلہ شروع کر دیتا ہے۔ تخلیق کے وقت سے لے کر اب تک، خدا نے اپنے کام کو بحال کر لیا ہے اور اپنے کام کے طریقوں کو اسی انداز سے تبدیل کر لیا ہے۔ اگرچہ زیادہ تر لوگ اس کام کے کسی نہ کسی پہلو کو مختلف درجوں پر سمجھ سکتے ہیں، لیکن پھر بھی آخر میں وہ پانی کے تیز ریلے میں بہہ جاتے ہیں، کیونکہ ان کی حیثیت بہت کم ہے۔ وہ خدا کے کام کے مرحلوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں، اور اس وجہ سے انھیں باہر نکال دیا جاتا ہے۔ تاہم، خدا لوگوں کو اس طرح بھی پاک کرتا ہے، اور خدا کا انسانیت کے پرانے تصورات کے بارے میں یہی فیصلہ ہے۔ لوگوں کے پاس جتنی زیادہ بنیاد ہوتی ہے، خدا کے بارے میں ان کے مذہبی تصورات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں، جنہیں ترک کرنا ان کے لیے مشکل ہوتا ہے؛ وہ ہمیشہ پرانی چیزوں سے چمٹے رہتے ہیں، اور ان کے لیے نئی روشنی کو قبول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف، اگر کوئی کھڑا ہوا ہے، تو اس کے پاس کھڑا ہونے کے لیے کوئی نہ کوئی بنیاد لازمی ہونی چاہیے، پھر بھی زیادہ تر لوگوں کو اپنے تصورات سے پیچھا چھڑانے میں مشکل پیش آتی ہے۔ یہ بات ان کے آج کے مجسم خدا کے بارے میں تصورات کے متعلق خاص طور پر سچ ہے، یہ وہ نقطہ ہے جو کہ صاف نظر آتا ہے۔
آج کے الفاظ میں، خدا بصیرت کے متعلق بہت زیادہ بات کرتا ہے، اور اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بنیادی طور پر خُدا اس بارے میں بات کرتا ہے کہ کس طرح کلیسیا کی تشکیل بادشاہی کو تعمیر کرنے کی بنیاد قائم کرتی ہے۔ مزید خاص طور پر، جب کلیسیا تشکیل دی جا رہی تھی، تو اس کا بنیادی مقصد لوگوں کو دل اور لفظ دونوں میں قائل کرنا تھا، حالانکہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے مجسم خدا کو نہیں پہچانا تھا۔ اگرچہ ان کے دلوں میں ایمان موجود تھا، لیکن وہ مجسم خدا کو نہیں جانتے تھے، کیونکہ اس مرحلے پر ایک شخص کے طور پر وہ ناقابلِ امتیاز تھا۔ بادشاہی کے دور میں، سب لوگوں کو اپنے دلوں، اپنی باتوں اور اپنی آنکھوں سے یقین کا اظہار کرنا چاہیے۔ یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ سب کے لیے اپنے دل، باتوں اور آنکھوں میں یقین کا اظہار کرنے کے لیے، انھیں جسم کی حالت میں رہنے والے خُدا کو اپنی جسمانی آنکھوں سے پہچاننے کی اجازت دی جانی چاہیے - جبراً نہیں، اور نہ ہی محض سرسری اعتقاد کے ساتھ، بلکہ اس علم کے ساتھ۔ جو ان کے دلوں اور منہ سے یقین کی کیفیت میں نکلتا ہے۔ اس لیے تعمیر کے اس مرحلے پر لڑائی نہیں ہے اور نہ ہی قتل و غارت ہے۔ اس کی بجائے، لوگوں کو خدا کے الفاظ کے ذریعے بصیرت کی طرف لے جایا جائے گا، اور اس کے ذریعے وہ کوشش کر سکتے ہیں اور دریافت کر سکتے ہیں، تاکہ وہ لاشعوری طور پر مجسم خدا کو جان سکیں۔ اس لیے، کام کا یہ مرحلہ خدا کے لیے بہت آسان ہے، کیونکہ یہ مرحلہ فطرت کو اپنا راستہ اختیار کرنے دیتا ہے اور انسانیت کے خلاف نہیں ہے۔ یہ، آخر میں، قدرتی طور پر انسانوں کو خدا کے علم کی طرف لے جائے گا، لہذا فکر مند یا بے چین نہ ہو۔ جب خدا نے کہا تھا "میرے تمام بندوں کے درمیان روحانی دنیا کی جنگ کی حالت کی براہ راست وضاحت کردی گئی ہے،" تو خدا کا مطلب یہ تھا کہ جب لوگ صحیح راستے پر چلنے کا آغاز کرتے ہیں اور خُدا کو جاننا شروع کر دیتے ہیں، تو ہر شخص کو نہ صرف شیطان کی طرف سے اندرونی طور پر بہکایا جاتا ہے، بلکہ خود کلیسیا کے اندر بھی شیطان اسے ورغلا سکتا ہے۔ تاہم، یہ وہ راستہ ہے جسے سب کو لازمی اختیار کرنا چاہیے، اس لیے کسی کو بھی خبردار ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ شیطان کا بہکانا کئی شکلوں میں ہو سکتا ہے۔ کوئی شخص خدا کی باتوں کو نظرانداز یا ترک کر سکتا ہے، اور دوسرے لوگوں کی مثبت کیفیت کو کم کرنے کے لیے منفی باتیں کہہ سکتا ہے؛ تاہم، ایسا شخص عام طور پر دوسروں کو اپنی طرف نہیں جیت سکتا ہے۔ اس کو سمجھنا مشکل ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ: ایسا شخص اب بھی اجتماعات میں شرکت کرنے کے لیے سرگرم ہو سکتا ہے، لیکن بصیرت کے بارے میں واضح نہیں ہے۔ اگر کلیسیا اس کی حفاظت نہیں کرتی ہے، تو پوری کلیسیا اس کی منفی کیفیت کی وجہ سے ڈگمگا کر خُدا کی ہدایات پر بے دلی سے عمل کر سکتی ہے، اور اس کے نتیجے میں خُدا کے الفاظ پر توجہ نہیں دے گی – اور اس کا مطلب سیدھا شیطان کے بہکاوے میں آنا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا شخص خدا کے خلاف براہ راست بغاوت نہ کرے، لیکن چونکہ وہ خدا کے الفاظ کو نہیں سمجھ سکتا اور خدا کو نہیں جانتا ہے، اس لیے وہ اس حد تک جا سکتا ہے کہ وہ شکایت کرے اور دل کو ناراضگی سے بھر لے۔ ہو سکتا ہے وہ کہے کہ خدا نے اسے چھوڑ دیا ہے اور اس لیے وہ بصیرت اور روشنی حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ وہ چھوڑنا چاہے گا، لیکن وہ قدرے خوفزدہ ہے، اور وہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ خدا کا کام خدا کی طرف سے نہیں آتا بلکہ یہ بد روحوں کا کام ہے۔
خدا پطرس کا ذکر اکثر کیوں کرتا ہے؟ اور وہ کیوں کہتا ہے کہ ایوب بھی اس کے برابر ہونے کے قریب تک نہیں تھا؟ ایسا کہنا نہ صرف لوگوں کو پطرس کے اعمال کی طرف توجہ دلانے کا باعث بنتا ہے، بلکہ ان سے ان کے دلوں میں موجود تمام مثالوں کو بھی مسترد کروانے کی وجہ بنتا ہے، جیسا کہ ایوب کی مثال بھی – جس کا ایمان سب سے زیادہ تھا – کام نہیں کرے گی۔ صرف اسی طریقے سے ایک بہتر نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے، جس میں لوگ پطرس کی نقل کرنے کی کوشش میں ہر چیز کو مسترد کر سکتے ہیں، اور ایسا کرتے ہوئے، خدا کے بارے میں اپنے علم میں ایک قدم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ خدا لوگوں کو عمل کرنے کے لیے وہ راستہ دکھاتا ہے جو پطرس نے خدا کو جاننے کے لیے اپنایا تھا، اور ایسا کرنے کا مقصد لوگوں کی راہنمائی کے لیے ایک حوالہ دینا ہے۔ پھر خدا ان طریقوں میں سے ایک کی پیشین گوئی کرتا ہے جس میں شیطان انسانوں کو آزمائے گا جب وہ کہتا ہے، "تاہم، اگر تو میرے الفاظ کے لیے سرد مہر اور بے پرواہ ہے، تو تو بلاشبہ میری مخالفت کرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے۔" ان الفاظ میں، خُدا نے ان عیارانہ منصوبوں کی پیشین گوئی کی ہے جو شیطان استعمال کرنے کی کوشش کرے گا؛ ان کی حیثیت ایک انتباہ کی ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر کوئی خدا کے کلام سے لاتعلق ہو سکتا ہے، پھر بھی کچھ لوگ اس بہکاوے کا شکار ہو جائیں گے۔ اس لیے آخر میں، خدا زور دے کر اس بات کو دہراتا ہے، "اگر تم میرے الفاظ کو نہیں جانتے ہو، نہ انھیں قبول کرتے ہو اور نہ ہی ان پر عمل کرتے ہو، تو پھر تم یقیناً میری سزا کا نشانہ بنو گے! تم یقیناً شیطان کا شکار ہو جاﺆ گے!" انسانیت کے لیے یہ خُدا کی نصیحت ہے - پھر بھی آخر میں، جیسا کہ خُدا نے پیشین گوئی کی ہے، لوگوں کا ایک حصہ لامحالہ شیطان کا شکار ہو جائے گا۔