باب 6
لوگ جب خدا کے کلام کو پڑھتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں، اور وہ سوچتے ہیں کہ خدا نے روحانی میدان میں ایک عظیم کام کیا ہے، جو انسان کرنے کا اہل نہیں ہے، اور یہ کہ وہ خود خدا ہی کو لازماً ذاتی طور پر پورا کرنا ہے۔ لہٰذا خدا ایک بار پھر بن نوع انسان کے لیے رواداری کے الفاظ کہتا ہے۔ وہ اپنے دلوں میں کشمکش کا شکار ہیں: "خدا رحمت اور شفقت کا خدا نہیں ہے، وہ ایک ایسا خدا ہے جو صرف انسان کو مارتا ہے۔ وہ ہمارے ساتھ رواداری کیوں برت رہا ہے؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ خدا نے ایک بار پھر طریقہ کار بدل دیا ہے؟" جب یہ تصورات، یہ خیالات ان کے دلوں میں داخل ہو جاتے ہیں، تو وہ ان کے خلاف جدوجہد کرنے کی اپنی پوری کوشش کرتے ہیں۔ لیکن خدا کا کام کچھ عرصے تک جاری رہنے کے بعد، روح القدس کلیسیا میں عظیم کام کرتی ہے، اور ہر کوئی اپنا کام کرنا شروع کر دیتا ہے اور تمام لوگ خدا کے طریقے میں داخل ہو جاتے ہیں، کیونکہ خدا جو کچھ کہتا اور کرتا ہے اس میں کوئی بھی نقص نہیں دیکھ سکتا ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ خدا کا عین اگلا مرحلہ کیا ہوگا تو کسی کو اس کا معمولی سا اندازہ بھی نہیں ہے۔ جیسا کہ خدا نے کہا ہے: "آسمان کے نیچے سب میں سے کون میرے قابو میں نہیں ہے؟ کون میری راہنمائی پر عمل نہیں کرتا ہے؟" میں تمہیں کچھ مشورہ دیتا ہوں، تاہم: ایسے معاملات میں جو تم پر واضح نہیں ہیں، تم میں سے کسی کو بھی ان کے بارے میں کچھ کہنا اور کرنا ضروری نہیں ہے۔ یہ میں تیرے جوش و خروش کو کم کرنے کے لیے نہیں کہتا ہوں، بلکہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ تو اپنے اعمال میں خدا کی راہنمائی پر عمل کر سکے۔ میرے "خامیوں" کا ذکر کرنے کی وجہ سے تجھے کسی صورت میں بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور نہ ہی شک میں مبتلا ہونا چاہیے؛ میرا مقصد خاص طور پر تجھے یہ یاد دلانا ہے کہ خدا کے کلام پر توجہ دے۔ لوگ ایک بار پھر حیران رہ جاتے ہیں جب وہ خدا کے الفاظ پڑھتے ہیں جو کہتے ہیں، "روح کے معاملات کے بارے میں ذی فہم بنو، میرے کلام کی طرف متوجہ ہو، اور میری روح اور میرے وجود، میرے کلام اور میرے وجود کو ایک لازم و ملزوم کُل کے طور پر صحیح معنوں میں سمجھنے کے قابل بنو، تاکہ تمام لوگ میری موجودگی میں مجھے مطمئن کر سکیں۔" کل، وہ تنبیہ کے الفاظ پڑھ رہے تھے، خدا کی رواداری کے بارے میں الفاظ پڑھ رہے تھے – لیکن آج، خدا اچانک روحانی معاملات کے بارے میں بات کر رہا ہے۔ ہو کیا رہا ہے؟ خدا جس طریقے سے بات کرتا ہے اسے کیوں بدلتا رہتا ہے؟ اس سب کو ایک لازم و ملزوم کُل کیوں سمجھا جائے؟ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ خدا کے الفاظ عملی نہ ہوں؟ خدا کے الفاظ کو غور سے پڑھنے کے بعد، یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب خدا کا جسم اور اس کی روح الگ ہو جاتے ہیں، تو جسم جسمانی خصوصیات کے ساتھ ایک جسمانی جسم بن جاتا ہے – جسے لوگ زندہ لاش کہتے ہیں۔ مجسم جسم روح کی طرف سے آتا ہے: وہ روح کا مجسم ہے، کلام جسم بن جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، خدا خود جسم میں رہتا ہے۔ خدا کی روح کی اس کے وجود سے علیحدگی کی سنگینی ایسی ہی ہوتی ہے۔ نتیجے کے طور پر، اگرچہ وہ انسان کہلاتا ہے، لیکن وہ بنی نوع انسان میں سے نہیں ہے۔ وہ انسانی خصوصیات سے عاری ہے، وہ ایسی ہستی ہے جس سے خدا اپنے آپ کو لباس پہناتا ہے، وہ ہستی جسے خدا منظور کرتا ہے۔ خدا کا کلام خدا کی روح کو مجسم کرتا ہے، اور خدا کا کلام براہ راست جسم میں ظاہر ہوتا ہے - جو کہ مزید یہ ظاہر کرتا ہے کہ خدا جسم میں رہتا ہے اور وہ زیادہ عملی خدا ہے، اس طرح وہ خدا کے وجود کو ثابت کرتا ہے اور انسان کے خدا سے سرکشی کے دَور کو ختم کرتا ہے۔ لوگوں کو خدا کو جاننے کا راستہ بتانے کے بعد، خدا ایک بار پھر موضوع کو بدلتا ہے اور معاملے کے دوسرے رخ کی طرف رجوع کرتا ہے۔
"جو کچھ بھی موجود ہے میں سب میں داخل ہو چکا ہوں، میں کائنات کی وسعتوں کے پار دیکھ چکا ہوں، اور میں انسان کے درمیان مٹھاس اور کڑواہٹ کا مزہ چکھتے ہوئے تمام لوگوں کے درمیان چلا ہوں۔" اگرچہ یہ الفاظ سادہ ہیں لیکن آسانی سے بنی نوع انسان کو سمجھ نہیں آتے ہیں۔ موضوع بدل چکا ہے، لیکن جوہر میں، یہ وہی رہتا ہے: یہ اب بھی لوگوں کو مجسم خدا کو جاننے کے قابل بناتا ہے۔ خدا کیوں کہتا ہے کہ اس نے انسان کے درمیان مٹھاس اور کڑواہٹ کا مزہ چکھ لیا ہے؟ وہ یہ کیوں کہتا ہے کہ وہ تمام لوگوں کے درمیان چلا ہے؟ خدا روح ہے، اور وہ مجسم وجود بھی ہے۔ روح، مجسم وجود کی حدود کی پابند نہیں ہے اور جو کچھ بھی موجود ہے سب میں داخل ہو سکتی ہے، روح کائنات کی وسعتوں کے پار دیکھ سکتی ہے اور یہ ظاہر کرتی ہے کہ خدا کی روح تمام کائنات کو بھر دیتی ہے، اور یہ کہ وہ زمین کا احاطہ کرتا ہے۔ زمین کے ایک قطب سے دوسرے قطب تک، اور یہ کہ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو خدا کے ہاتھ سے ترتیب نہیں دی جاتی اور کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں خدا کے قدموں کے نشانات نہیں ملتے۔ اگرچہ روح جسم بن چکی ہے اور انسان بن کر پیدا ہو چکی ہے مگر روح کا وجود تمام انسانی ضروریات کی نفی نہیں کرتا ہے؛ خدا کا وجود کھاتا ہے، خود کو لباس پہناتا ہے، سوتا ہے، اور معمول کے مطابق رہتا ہے، اور وہ وہی کرتا ہے جو لوگوں کو معمول کے مطابق کرنا چاہیے۔ پھر بھی چونکہ اس کا باطنی جوہر مختلف ہے، اس لیے وہ اس "انسان" جیسا نہیں ہے جس کے بارے میں کوئی بات کرتا ہے۔ اور اگرچہ وہ بنی نوع انسان کے درمیان تکلیف اٹھاتا ہے، لیکن وہ اس تکلیف کی وجہ سے روح کو نہیں چھوڑتا ہے۔ اگرچہ وہ برکت والا ہے، لیکن وہ ان برکتوں کی وجہ سے روح کو فراموش نہیں کرتا ہے۔ روح اور وجود خاموش رابطے کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ روح اور وجود کو الگ الگ نہیں کیا جا سکتا ہے، اور نہ ہی کبھی ان کو الگ الگ کیا گیا ہے، کیونکہ وجود روح کا مجسم ہے، وہ روح سے آتا ہے، اس روح سے جس کی ایک شکل ہے۔ اسی وجہ سے جسم میں روح کے لیے ماورائی ہونا ممکن نہیں ہے؛ یعنی روح مافوق الفطرت چیزوں کی اہل نہیں ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ روح جسمانی جسم سے جدا نہیں ہو سکتی ہے۔ اگر وہ جسمانی جسم سے نکل جاتی ہے، تو مجسم خدا تمام معنی کھو دے گا۔ جب روح جسمانی جسم میں مکمل طور پر ظاہر ہو جائے تو اس وقت ہی انسان عملی خدا کو خود جان سکتا ہے، اور صرف تب ہی خدا کی مرضی حاصل ہو گی۔ جسمانی جسم اور روح کو انسان سے الگ الگ متعارف کروانے کے بعد ہی خدا انسان کے اندھے پن اور نافرمانی کی نشاندہی کرتا ہے: "پھر بھی انسان نے مجھے صحیح معنوں میں کبھی نہیں پہچانا، اس نے میرے سفروں کے دوران کبھی بھی مجھ پر کوئی دھیان نہیں دیا ہے۔" ایک طرف، تو خُدا یہ کہہ رہا ہے کہ وہ خفیہ طور پر جسمانی جسم میں چھپا رہتا ہے اور لوگوں کو دکھانے کے لیے کبھی کوئی مافوق الفطرت کام نہیں کرتا ہے۔ دوسری طرف، وہ یہ شکایت کرتا ہے کہ انسان اسے جانتا نہیں ہے۔ اس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ درحقیقت، تفصیلی نقطہ نظر سے، یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ خدا اپنے مقاصد کو ان دونوں اطراف سے حاصل کرتا ہے۔ اگر خُدا کو مافوق الفطرت نشانیاں اور عجائبات دکھانے ہوتے تو اُسے بڑا کام کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اپنے منہ سے، وہ صرف لوگوں کو موت دینے کے لیے لعنت بھیجے گا، اور وہ فوراً ہی مر جائیں گے، اور اس طرح تمام لوگ قائل ہو جائیں گے – لیکن اس سے خدا کے جسم بننے کا مقصد حاصل نہیں ہوتا ہے۔ اگر خدا واقعی اسی طرح کام کرتا تو لوگ کبھی بھی شعوری طور پر اس کے وجود پر یقین نہیں کر سکتے۔ وہ سچے ایمان کے اہل نہیں ہوں گے، اور اس کے علاوہ، شیطان کو خدا سمجھنے کی غلطی کریں گے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ لوگ کبھی بھی خدا کے مزاج کو نہیں جان سکیں گے - اور کیا یہ خدا کے جسم میں ہونے کی اہمیت کا ایک پہلو نہیں ہے؟ اگر لوگ خدا کو جاننے سے قاصر ہوتے، تو وہ مبہم خدا، وہ مافوق الفطرت خدا، ہمیشہ کے لیے انسانوں کے درمیان حکومت کرتا۔ اور کیا اس میں لوگ اپنے تصورات کے زیرِ اثر نہیں رہتے؟ اسے مزید سادہ انداز میں بیان کرنے کے لئے، کیا یہ شیطان نہیں ہوتا، شیطان جو حاوی رہتا؟ "میں یہ کیوں کہتا ہوں کہ میں نے اقتدار واپس لے لیا ہے؟ میں کیوں یہ کہتا ہوں کہ مجسم ہونے کی اتنی زیادہ اہمیت ہے؟" جس لمحے خدا جسم بن جاتا ہے یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب وہ اقتدار واپس لے لیتا ہے، اور یہ وہ وقت بھی ہوتا ہے جب اس کی الوہیت براہ راست عمل کرنے کے لیے نمودار ہوتی ہے۔ سب لوگ آہستہ آہستہ عملی خدا کو جان لیتے ہیں، اور اس طرح اپنے دلوں سے شیطان کی جگہ کو مکمل طور پر خارج کر دیتے ہیں، اور خدا کو اپنے دلوں میں ایک گہرا مقام دیتے ہیں۔ ماضی میں، لوگوں نے خدا کو اپنے ذہنوں میں شیطان کی شبیہ میں دیکھا، ایک ایسے خدا کے طور پر جو غیر مرئی اور ذہنی طور پر ناقابلِ فہم تھا؛ اور پھر بھی وہ نہ صرف اس خدا کے موجود ہونے پر یقین رکھتے تھے، بلکہ اسے ہر طرح کی نشانیاں اور عجائبات دکھانے اور بہت سے اسرار کو ظاہر کرنے کے قابل سمجھتے تھے، جیسے کہ ان لوگوں کے بدصورت چہرے جو بدروحوں کے زیرِ اثر ہوتے ہیں۔ اس سے کافی حد تک یہ ثابت ہوتا ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں جو خدا ہے وہ خدا کی شبیہ نہیں ہے بلکہ خدا کے علاوہ کسی اور چیز کی شبیہ ہے۔ خدا کہہ چکا ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں پر 0.1 فیصد قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ یہ وہ اعلیٰ ترین معیار ہے جس کا وہ انسان سے تقاضا کرتا ہے۔ ان الفاظ کا جو سطحی مطلب ہے، اس کے علاوہ ان کا ایک عملی پہلو بھی ہے۔ اگر اس کی وضاحت اس طرح نہ کی جاتی تو لوگ سوچتے کہ ان کے بارے میں خدا کے تقاضے بہت کم ہیں، گویا کہ خدا کو ان کی بہت کم سمجھ ہے۔ کیا یہ انسان کی ذہنیت نہیں ہے؟
اوپر بیان کی گئی اور نیچے دی گئی پطرس کی مثال کو ملانے سے، کسی کو معلوم ہوگا کہ پطرس واقعی خدا کو کسی اور سے بہتر جانتا تھا، کیونکہ وہ مبہم خدا کو ترک کرنے اور عملی خدا کے علم کی جستجو کرنے کے قابل تھا۔ اس بات کا خاص طور پر ذکر کیوں کیا جاتا ہے کہ اس کے والدین کیسی بدروحیں تھیں جنہوں نے خدا کی مخالفت کی تھی؟ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پطرس اپنے دل میں خدا کی جستجو نہیں کر رہا تھا۔ اس کے والدین مبہم خدا کی نمائندگی کرتے تھے؛ ان کا ذکر کرنے میں خدا کا یہ مطلب ہے۔ زیادہ تر لوگ اس حقیقت پر زیادہ توجہ نہیں دیتے ہیں۔ اس کی بجائے، وہ پطرس کی دعاؤں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ہیں، جن کے ہونٹوں پر ہمیشہ اور جن کے ذہنوں میں مسلسل پطرس کی دعائیں رہتی ہیں، اس کے باوجود وہ کبھی بھی مبہم خدا کا موازنہ پطرس کے علم سے نہیں کرتے ہیں۔ پطرس اپنے والدین کے خلاف کیوں ہو گیا تھا اور اس نے خدا کا علم حاصل کرنے کی جستجو کیوں کی تھی؟ پطرس نے ناکام ہونے والے لوگوں کے سبق کے ساتھ خود کو آگے کیوں بڑھایا تھا؟ اس نے کیوں ان تمام لوگوں کے ایمان اور محبت کو جذب کیا جنہوں نے تمام زمانوں میں خدا سے محبت کی تھی؟ پطرس کو علم ہو گیا تھا کہ تمام مثبت چیزیں خدا کی طرف سے آتی ہیں اور شیطان کی طرف سے عمل کیے بغیر براہ راست خدا کی طرف سے جاری کی جاتی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس خدا کو وہ جانتا تھا وہ عملی خدا تھا اور ایک مافوق الفطرت خدا نہیں تھا۔ یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ پطرس نے ان تمام لوگوں کے ایمان اور محبت کو جذب کرنے پر توجہ مرکوز کی، جنہوں نے تمام زمانوں میں خدا سے محبت کی تھی؟ اس سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ تمام زمانوں میں لوگوں کی ناکامی بنیادی طور پر اس لیے ہے کہ ان کے پاس صرف ایمان اور محبت تھی لیکن وہ عملی خدا کو جاننے سے قاصر تھے۔ جس کے نتیجے میں ان کا ایمان مبہم رہ گیا۔ خدا ایوب کے ایمان کا بہت مرتبہ ذکر کیوں کرتا ہے، یہ کہے بغیر کہ وہ خدا کو جانتا تھا، اور خدا یہ کیوں کہتا ہے کہ ایوب پطرس کے برابر نہیں تھا؟ ایوب کے الفاظ – "میں نے تیرے بارے میں کان سے سنا ہے: مگر اب میری آنکھ تجھے دیکھتی ہے" – اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے پاس صرف ایمان تھا اور علم نہیں تھا۔ یہ الفاظ "پطرس کے والدین کے تضاد نے اسے میری شفقت اور رحمت کے بارے میں زیادہ علم دیا" اکثر لوگوں کو بہت سے سوالات پر اکساتے ہیں: خدا کو جاننے کے لیے پطرس کو تضاد کی ضرورت کیوں تھی؟ وہ خدا کو براہِ راست جاننے سے کیوں قاصر تھا؟ یہ کیوں تھا کہ وہ صرف خدا کی رحمت اور شفقت کو ہی جانتا تھا، اور خدا نے کسی اور چیز کی بات نہیں کی؟ مبہم خدا کے غیرحقیقی ہونے کو پہچاننے کے بعد ہی عملی خدا کا علم حاصل کرنا ممکن ہے؛ ان الفاظ کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنے دلوں میں موجود مبہم خدا کو باہر نکال دیں۔ اگر، تخلیق کے وقت سے لے کر آج تک، لوگوں نے خدا کے حقیقی چہرے کو ہمیشہ پہچانا ہوتا، تو وہ شیطان کے کاموں کو پہچاننے کے قابل نہ ہوتے، کیونکہ انسان کے اس عام قول کی وجہ سے – "کوئی شخص اس وقت تک ہموار زمین پر توجہ نہیں دیتا جب تک اس نے پہاڑ عبور نہ کیا ہو" – یہ الفاظ کہنے سے خدا کا نقطہ نظر ظاہر ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ لوگوں کو اپنی دی گئی مثال کی صداقت کے بارے میں گہری سمجھ دینا چاہتا ہے، اس لیے خُدا جان بوجھ کر رحمت اور شفقت پر زور دیتا ہے، اور یہ ثابت کرتا ہے کہ پطرس جس دور میں رہتا تھا وہ فضل کا دور تھا۔ ایک اور نقطہ نظر سے، یہ شیطان کے گھناؤنے چہرے کو اور بھی زیادہ ظاہر کرتا ہے، جو انسان کو نقصان پہنچانے اور بدعنوان بنانے کے علاوہ کچھ نہیں کرتا اور خدا کی رحمت اور شفقت کو بالکل اس کے متضاد بناتا ہے۔
خدا پطرس کی آزمائشوں کے اہم حصوں کو بھی بیان کرتا ہے اور ان کے حقیقی حالات کو بیان کرتا ہے اور لوگوں کو مزید یہ بتاتا ہے کہ خدا نہ صرف رحمت اور شفقت کا حامل ہے، بلکہ جلال اور غضب کا حامل بھی ہے، اور یہ کہ جو لوگ بھی امن میں رہتے ہیں وہ ضروری نہیں ہے کہ خدا کی برکتوں کے درمیان میں رہتے ہوں۔ لوگوں کو پطرس کی آزمائشوں کے بعد اس کے عملی تجربات کے بارے میں بتانا ایوب کے الفاظ کی صداقت کا اور بھی بڑا ثبوت ہے "کیا ہم خُدا کے ہاتھ سے سکھ پائیں اور دکھ نہ پائیں؟" اس طرح یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کے بارے میں پطرس کے علم نے واقعی بے مثال مقامات حاصل کر لیے تھے، ایسے مقامات جو ماضی کے زمانوں میں لوگوں نے کبھی حاصل نہیں کیے تھے، جو کہ ان تمام لوگوں کے ایمان اور محبت کو جذب کرنے کا پھل تھا، جنہوں نے تمام زمانوں میں خدا سے محبت کی تھی اور ماضی میں ناکام ہونے والے لوگوں کے اسباق کو استعمال کرتے ہوئے اس کی اپنی حوصلہ افزائی بھی تھی۔ اس وجہ سے، وہ تمام لوگ جو خدا کا حقیقی علم حاصل کرتے ہیں "پھل" کہلاتے ہیں اور پطرس بھی اس میں شامل ہے۔ پطرس کی خدا سے دعائیں، اس کی آزمائشوں کے دوران خدا کے بارے میں اس کے حقیقی علم کو ظاہر کرتی ہیں۔ تاہم، رکاوٹ یہ ہے کہ وہ خدا کی مرضی کو پوری طرح سے سمجھنے کے قابل نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ خدا نے پطرس کے خدا کے بارے میں علم کی بنیاد پر صرف "انسانی دل کے 0.1 فیصد پر قبضہ" کرنے کا کہا۔ یہاں تک کہ پطرس، وہ شخص جو خُدا کو سب سے بہتر جانتا تھا، خُدا کی مرضی کو درست طریقے سے سمجھنے سے قاصر تھا، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسانوں کے پاس خُدا کو جاننے کی صلاحیت کم ہے، کیونکہ شیطان نے انھیں بہت بدعنوان بنا دیا ہے؛ اس سے سب لوگ انسان کی حقیقت کو جان سکتے ہیں۔ یہ دو لازمی شرائط – لوگوں میں خدا کو جاننے کی صلاحیت کی کمی اور ان میں شیطان کا بھرپور دخل – خدا کی عظیم طاقت کے لئے ایک ناکامی ہیں، کیونکہ خدا صرف کلام سے کام کرتا ہے، وہ کوئی دشوار کاروائی نہیں کرتا ہے، اور اس طرح وہ لوگوں کے دلوں میں ایک خاص مقام بنا لیتا ہے۔ لیکن خدا کی مرضی کو پورا کرنے کے لیے لوگوں کو صرف اس 0.1 فیصد کو حاصل کرنے کی ہی ضرورت کیوں ہے؟ خدا کی طرف سے اس کی وضاحت انسان میں اس صلاحیت کو پیدا نہ کرنے سے کی جا سکتی ہے۔ اگر اس صلاحیت کی عدم موجودگی میں، انسان خدا کے بارے میں سو فیصد علم تک پہنچ جاتا، تو پھرخدا کی ہر حرکت اس پر روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی – اور انسان کی فطری فطرت کے پیش نظر، لوگ فوراً خدا کے خلاف بغاوت کر دیتے۔ وہ کھڑے ہو جاتے اور کھل کر اس کی مخالفت کرتے، شیطان اسی طرح سے گرا تھا۔ لہذا خدا لوگوں کو کبھی بھی کمتر نہیں سمجھتا ہے، اسی وجہ سے کہ وہ پہلے ہی ان کا تفصیلی معائنہ کر چکا ہے، اور ان کے بارے میں ہر چیز کو بالکل صاف شفاف انداز میں جانتا ہے، یہ بھی کہ ان کے خون میں کتنا پانی ہے۔ تو پھر، اس کے لیے انسانیت کی فطرت کتنی زیادہ واضح ہے؟ خدا کبھی غلطیاں نہیں کرتا ہے، اور وہ اپنے کلام کے الفاظ کا انتخاب انتہائی درستی کے ساتھ کرتا ہے۔ اس طرح پطرس کے خدا کی مرضی کے بارے میں صحیح شعور نہ رکھنے اور خدا کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھنے کے درمیان کوئی ٹکراﺆ نہیں ہے؛ مزید یہ کہ، دونوں مکمل طور پر غیر متعلقہ ہیں۔ خُدا نے پطرس کا ذکر اس لیے مثال کے طور پر نہیں کیا ہے کہ لوگ اس پر توجہ مرکوز کریں۔ ایوب جیسا شخص خدا کو جاننے کے قابل کیوں نہیں تھا، اور پھر بھی پطرس اس قابل تھا؟ خدا یہ کیوں کہے گا کہ انسان اس چیز کو حاصل کرنے پر قادر ہے اور پھر یہ بھی کہے کہ یہ اس کی عظیم قدرت کی وجہ سے ہے؟ کیا لوگ واقعی قدرتی طور پر اچھے ہیں؟ لوگوں کے لیے یہ جاننا آسان نہیں ہے؛ اگر میں اس کے متعلق بات نہ کرتا تو کسی کو اس کی اندرونی اہمیت کا احساس نہ ہوتا۔ ان الفاظ کا مقصد لوگوں کو بصیرت فراہم کرنا ہے، تاکہ وہ خدا کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے ایمان حاصل کر سکیں۔ صرف اسی صورت میں خدا انسان کے تعاون سے کام کر سکتا ہے۔ روحانی میدان میں یہی حقیقی صورت حال ہے، اور یہ انسان کے لیے بالکل ناقابلِ فہم ہے۔ لوگوں کے دلوں میں سے شیطان کی جگہ ختم کرنا اور اس کی بجائے وہ جگہ خدا کو دینا ہے – شیطان کے حملے کو پسپا کرنے کا یہی مطلب ہے، اور صرف اسی صورت میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسیح زمین پر اترا ہے، صرف اسی صورت میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ زمین پر بادشاہتیں مسیح کی بادشاہی بن گئی ہیں۔
اس مقام پر، پیٹر کے ہزاروں سالوں سے ایک نمونہ اور مثال رہنے کا ذکر محض اس لیے نہیں ہے کہ وہ ایک نمونہ اور مثال تھا؛ یہ الفاظ روحانی دنیا میں لڑی جانے والی جنگ کی عکاسی کرتے ہیں۔ شیطان اِس تمام عرصے میں انسان کو ہڑپ کرنے کی بے کار امید میں اُس کے اندر کام کر رہا ہے، تاکہ اس کے نتیجے میں خدا دنیا کو تباہ کر دے اور اپنے لیے گواہی دینے والوں کو کھو دے۔ اس کے باوجود خدا نے کہا ہے، "میں سب سے پہلے ایک نمونہ تخلیق کروں گا تاکہ میں انسانی دل میں سب سے کم حیثیت اختیار کر سکوں۔ اس مرحلے پر، انسانیت نہ تو مجھے خوش کرتی ہے اور نہ ہی مجھے مکمل طور پر جانتی ہے؛ پھر بھی، میری عظیم طاقت کی وجہ سے، انسان مکمل طور پر میری اطاعت کرنے کے اہل ہو جائیں گے اور میرے خلاف سرکشی کرنا چھوڑ دیں گے، اور میں اس مثال کو شیطان کو مغلوب کرنے کے لیے استعمال کروں گا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ شیطان انسانیت پر جو مسلط کرتا رہا ہے، ان تمام قوتوں کو دبانے کے لیے، میں انسانی دل کے اس 0.1 فیصد کو استعمال کروں گا جس پر میرا قبضہ ہے۔" لہذا، آج خدا پطرس کا ذکر ایک مثال کے طور پر کرتا ہے تاکہ وہ تمام بنی نوع انسان کی تقلید اور عمل کرنے کے لیے نمونے کے طور پر کام آ سکے۔ ابتدائی اقتباس کے ساتھ مل کر، یہ اس بات کی صداقت کو ظاہر کرتا ہے کہ خدا نے روحانی دنیا کی صورت حال کے بارے میں کیا کہا ہے: "آج کا دن ماضی سے مختلف ہے: میں وہ چیزیں کروں گا جو تخلیق کے وقت سے کبھی نہیں دیکھی گئی ہوں گی، میں ایسے الفاظ بولوں گا جو زمانوں میں کبھی نہیں سنے گئے ہوں گے، کیونکہ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ تمام لوگ مجھے جسمانی طور پر پہچان لیں۔" اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ خدا نے آج اپنے کلام پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے۔ لوگ صرف یہ دیکھ سکتے ہیں کہ بیرونی طور پر کیا ہو رہا ہے، وہ یہ نہیں دیکھ سکتے کہ روحانی دنیا میں اصل میں کیا ہو رہا ہے، اور اسی لیے خدا براہ راست یہ کہتا ہے، "یہ میرے نظم و نسق کے مراحل ہیں، لیکن انسان کو معمولی سا اندازہ بھی نہیں ہے۔ اگرچہ میں نے واضح انداز میں کہہ دیا ہے، پھر بھی لوگ الجھن کا شکار رہتے ہیں؛ ان کو سمجھانا مشکل ہوتا ہے۔ کیا یہ انسان کی پستی نہیں ہے؟" ان الفاظ کے اندر الفاظ ہیں: وہ یہ وضاحت کرتے ہیں کہ روحانی دنیا میں ایک جنگ جاری ہے، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے۔
پطرس کے قصے کی مختصر وضاحت کے بعد بھی خدا کی مرضی مکمل طور پر پوری نہیں ہوتی، اس لیے خدا پطرس کے معاملات کے بارے میں انسان سے درج ذیل تقاضا کرتا ہے: "کائنات اور آسمانی گنبد میں، آسمان اور زمین کی ہر چیز کے درمیان، زمین اور آسمان کی تمام چیزیں میرے کام کے آخری مرحلے میں اپنی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔ یقیناً تم شیطانی قوتوں کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے تماشائی نہیں بننا چاہتے ہو؟" پطرس کے علم کے بارے میں پڑھنے کے بعد لوگ بہت زیادہ آگہی حاصل کرتے ہیں، اور اس سے بھی زیادہ موثر ہونے کے لیے، خدا لوگوں کو ان کی بدکاری، بے لگام ہونے، اور خدا کے بارے میں علم کی کمی کا نتیجہ دکھاتا ہے۔ مزید برآں، وہ انسانیت کو بتاتا ہے – ایک مرتبہ پھر، اور زیادہ درستی کے ساتھ – کہ روحانی دنیا میں برپا جنگ میں اصل میں کیا ہو رہا ہے۔ صرف اسی طرح لوگ شیطان کا شکار ہونے سے بچنے کے لیے زیادہ چوکس رہتے ہیں۔ مزید، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر لوگ اس مرتبہ گرتے ہیں، تو وہ خدا کی طرف سے اس مرتبہ کی طرح نہیں بچائے جائیں گے۔ ایک ساتھ مل کر، یہ تنبیہات خدا کے انسانیت کے بارے میں کلام کے تاثر کو زیادہ گہرا کرتی ہیں، یہ لوگوں کو خدا کی رحمت کو مزید قیمتی سمجھنے کے قابل بناتی ہیں، اور خدا کے تنبیہ کرنے کے کلام کی قدر کرتی ہیں، تاکہ خدا کا انسانیت کو بچانے کا مقصد حقیقی معنوں میں حاصل کیا جاسکے۔