باب 5
خدا جب انسانوں سے ایسے مطالبات کرتا ہے جن کی وضاحت کرنا ان کے لیے مشکل ہوتا ہے، اور جب اس کے الفاظ براہ راست انسان کے دل میں اثر کرتے ہیں اور لوگ ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنے پرخلوص دلوں کو پیش کرتے ہیں، تو پھر خدا ان کو غور و فکر کرنے، پختہ ارادہ کرنے اور عمل کا راستہ تلاش کرنے کا موقع دیتا ہے۔ اس طریقے سے وہ تمام لوگ جو اُس کے بندے ہیں ایک بار پھر پورے عزم کے ساتھ مٹھیاں بھینچ کر اپنا سارا وجود خدا کے سامنے پیش کر دیں گے۔ شاید کچھ لوگ سخت محنت کرنے کے لیے خود کو متحرک کرنے کی تیاری کرتے وقت ایک منصوبہ اور روزانہ کا ایک لائحہ عمل تیار کر سکتے ہیں، اور اپنی تھوڑی سی طاقت خدا کے انتظامی منصوبے کے لیے وقف کر سکتے ہیں تاکہ اس کی عظمت بڑھے اور اسے جلد از جلد انجام تک پہنچایا جا سکے۔ جس وقت لوگ اس ذہنیت کو پال رہے ہوتے ہیں، اور اپنے ذہنوں میں ان چیزوں کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے جب وہ اپنے معمول کے کام کاج کرتے ہیں، اور کام کرتے ہوئے جب وہ بات چیت کرتے ہیں، تو خدا پھر بولنا شروع کر دیتا ہے: "میری روح کی آواز میرے پورے مزاج کا ایک اظہار ہے۔ کیا تم سمجھتے ہو؟" انسان جتنے زیادہ پرعزم ہوتے ہیں، وہ اتنی ہی زیادہ شدت کے ساتھ خدا کی مرضی کو سمجھنے کی شدید آرزو کریں گے اور اتنی ہی زیادہ سنجیدگی کے ساتھ یہ خواہش کریں گے کہ خدا ان سے مطالبات کرے۔ خدا لوگوں کو وہ عطا کرے گا جو وہ چاہتے ہیں، اور اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ طویل عرصے سے تیار رکھے ہوئے اپنے کلام کو ان لوگوں کے وجود کے پوشیدہ گوشوں تک پہنچا دے گا۔ اگرچہ یہ الفاظ کچھ سخت یا اکھڑ لگ سکتے ہیں، لیکن انسانیت کے لیے وہ اتنے میٹھے ہیں کہ ان کا مقابلہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اچانک، ان کے دل خوشی سے کھل اٹھتے ہیں، گویا وہ جنت میں ہیں یا انھیں کسی اور دنیا میں لے جایا گیا ہے - تخیل کی ایک اصلی جنت میں - جہاں بیرونی دنیا کے معاملات انسانیت پر مزید اثر انداز نہیں ہوتے ہیں۔ لوگ اپنے دلوں میں جس چیز کی خواہش کرتے ہیں جب وہ حاصل ہو جاتی ہے اور، مزید یہ کہ، جب وہ بہت جذبات اور جوش کے ساتھ کام پر جانے کے لیے تیار ہوتے ہیں، تواس امکان سے بچنے کے لیے کہ ماضی کی طرح لوگ اپنی عادت کے مطابق دل سے نہیں بولیں گے اور دل سے عمل نہیں کریں گے اور اس طرح صحیح طور پر جڑیں پکڑنے میں ناکام رہیں گے، خُدا تب بھی ان کی ذہنیت کے مطابق بات کرنے کے اپنے طریقے اختیار کر لیتا ہے اور، مختصرطور پر اور کسی جھجک کے بغیر، ان کے دلوں میں موجود شوق کی آگ اور مذہبی رسوم کی تردید کرتا ہے۔ جیسا کہ خدا کہہ چکا ہے، "کیا تم نے اس اہمیت کو واقعی سمجھا ہے جو اس نکتے میں موجود ہے؟" کسی چیز کے بارے میں پختہ ارادہ کرنے سے پہلے یا بعد میں، انسان خدا کو اس کے اعمال میں یا اس کے الفاظ میں جاننے کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں، بلکہ اس سوال پر غوروفکر کرتے رہتے ہیں، "خدا کے لیے میں کیا کر سکتا ہوں؟ یہی کلیدی مسئلہ ہے!" اسی لیے خدا کہتا ہے، "اور تم میں اتنا حوصلہ ہے کہ تم اپنے آپ کو میرے منہ پر میرے بندے کہتے ہو - تمہیں شرم ہی نہیں آتی ہے، کوئی احساس ہونے کا امکان تو اور بھی کم ہے!" خدا کے یہ الفاظ کہتے ہی، لوگوں کو فوراً ان الفاظ کا احساس ایسے ہو جاتا ہے جیسے انھیں بجلی کا جھٹکا لگا ہو، اور وہ دوسری بار خدا کے غضب کو بھڑکانے سے سخت خوفزدہ ہو کر اپنے ہاتھوں کو جلدی سے اپنے سینوں میں محفوظ کر لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ خدا نے یہ بھی کہا ہے کہ "جلد یا بدیر، تم جیسے لوگ میرے گھر سے باہر نکال دیے جائیں گے! یہ سمجھتے ہوئے کہ تم نے میرے لیے گواہی دی ہے، اپنی زیادہ عمر یا تجربے کے بل پر مجھے دھوکا مت دو!" ایسے الفاظ سن کر لوگ اور بھی زیادہ ایسے خوفزدہ ہو جاتے ہیں کہ جیسے انھوں نے شیر کو دیکھ لیا ہو۔ اپنے دلوں کے اندر انھیں اچھی طرح علم ہے۔ وہ یہ نہیں چاہتے ہیں کہ شیر انھیں کھا جائے جبکہ دوسری طرف، انھیں اس سے بچنے کا طریقہ بھی نہیں آتا ہے۔ اسی لمحے، انسان کے دل کے اندر موجود منصوبہ بغیر کوئی نشان چھوڑے بالکل اور مکمل طور پر غائب ہو جاتا ہے۔ خدا کے الفاظ کے ذریعے، مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میں انسانیت کی بے شرمی کے ہر ایک پہلو کو دیکھ سکتا ہوں: جھکے ہوئے سر اور کھسیانے انداز، جیسے کہ اگر ایک امیدوار کالج کے داخلے کے امتحان میں ناکام ہو جائے تو اس کے بلند و بالا تصورات، جیسے کہ سال 2،000 تک چین کے جدیدیت کے 4 منصوبوں کے ساتھ ساتھ، خوش باش خاندان، روشن مستقبل، وغیرہ وغیرہ، یہ سب کسی سائنس فکشن فلم میں ایک خیالی منظر نامہ تخلیق کرنے کی طرح محض کھوکھلی باتیں بن کر رہ جاتے ہیں۔ یہ فعال عناصر کے ساتھ غیر فعال عناصر کا تبادلہ کرنا ہے، تاکہ لوگ، اپنی غیر فعالی کی حالت میں، اس مقام پر کھڑے ہو جائیں جو خدا نے ان کے لیے تفویض کیا ہے۔ یہ حقیقت غیر معمولی طور پر اہم ہے کہ انسان اس لقب کو کھونے سے بہت زیادہ خوفزدہ ہیں؛ اسی وجہ سے، وہ اپنی پیاری زندگی کے لیے اپنے دفتر کے بلِّوں سے چمٹے رہتے ہیں، اور اس بات سے بہت ڈرتے ہیں کہ کوئی ان سے یہ چھیننے کی کوشش کر سکتا ہے۔ جب انسانیت کی ذہنی کیفیت ایسی ہو تو خدا اس بات کی فکر نہیں کرتا ہے کہ لوگ غیر فعال ہو جائیں گے، اس لیے وہ حالات کے مطابق اپنے فیصلے کے الفاظ کو تفتیش کے الفاظ میں بدل دیتا ہے۔ وہ لوگوں کو کام کے دوران نہ صرف آرام کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے، بلکہ وہ انھیں ان خواہشات کو رکھنے کا بھی موقع فراہم کرتا ہے جو وہ پہلے رکھتے تھے اور انھیں مستقبل کے حوالے سے ترتیب دیتے تھے: کسی بھی نا مناسب چیز میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خُدا نے ابھی تک اپنا کام شروع نہیں کیا ہے - یہ بڑی بدقسمتی کے درمیان خوش قسمتی کی ایک بات ہے - اور اس کے علاوہ، ان کی مذمت بھی نہیں کرتی ہے۔ لہٰذا، مجھے اپنی ساری عقیدت خدا کے لیے وقف کرتے رہنے دو!
اس کے بعد، تجھے اپنے ڈر کی وجہ سے، خدا کے الفاظ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ایک نظر ڈال کر دیکھ کہ کیا خدا کے پاس کوئی نئے مطالبے ہیں؟ یقینی طور پر، تجھے اس طرح کا ایک مطالبہ ملے گا: "اب سے، سب چیزوں میں، تجھے صحیح معنوں میں عمل کرنے کی ضرورت ہے؛ جس طرح تو ماضی میں محض فضول باتیں کرتا رہا ہے، اب اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔" یہاں پر اب بھی خدا کی حکمت ظاہر ہوتی ہے۔ خدا نے ہمیشہ اپنے لیے گواہی دینے والوں کی حفاظت کی ہے، اور جب ماضی کی باتوں کی حقیقت اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے، تو کوئی بھی "صحیح معنوں میں عمل کرنے" کے علم کو نہیں سمجھ سکتا ہے۔ یہ خدا کی باتوں کی سچائی کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے: "میں خود کام کرنے کی ذمہ داری لیتا ہوں۔" اس کا تعلق حقیقی معنی میں الوہیت کی حالت میں کام سے ہے، اور اس وجہ سے بھی کہ بنی نوع انسان، آغاز کے ایک نئے مقام پر پہنچنے کے بعد، ابھی بھی خدا کے الفاظ کے حقیقی معنی کو نہیں سمجھ سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں لوگوں کی بڑی اکثریت خدا کے کلام کی حقیقت پر اٹکی ہوئی تھی، جب کہ آج وہ ان الفاظ کے صرف سطحی پہلوؤں کو سمجھتے ہیں لیکن ان کی اصلی حقیقت کو نہیں جانتے اور انھیں صحیح معنوں میں عمل کرنے کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ چونکہ آج، بادشاہت کی تعمیر کرتے ہوئے، کسی کو بھی مداخلت کرنے کی اجازت نہیں ہے، بلکہ مشینوں کی طرح خدا کے حکم کی صرف اطاعت کرنی ہے۔ اس کو اچھی طرح یاد رکھو! ہر مرتبہ جب خدا ماضی کی بات کو روکتا ہے، وہ آج کی اصل صورتحال کے بارے میں بات کرنا شروع کر دیتا ہے؛ یہ بولنے کی ایک ایسی شکل ہے جو پہلے آنے والی اور بعد میں آنے والی چیزوں کے درمیان بہت زیادہ تقابل پیدا کرتی ہے، اور اس وجہ سے اور بھی بہتر نتیجہ حاصل کرنے کے قابل ہے اور لوگوں کو، حال کو ماضی کے ساتھ پہلو بہ پہلو رکھنے کے قابل بناتی ہے، اور اس طرح دونوں کو آپس میں الجھانے سے بچاتی ہے۔ یہ خدا کی حکمت کا ایک پہلو ہے، اور اس کا مقصد کام کا بہتر نتیجہ حاصل کرنا ہے۔ اس کے بعد، خدا ایک بار پھر انسانیت کی بدصورتی کو ظاہر کرتا ہے، تاکہ انسانیت اس کے کلام کو ہر روز کھانا اور پینا بھول نہ جائے اور اس سے بھی اہم یہ ہے کہ وہ خود کو پہچانیں اور اسے ایک ایسے سبق کے طور پر لیں جس سے انھیں ہر روز لازمی سیکھنا چاہیے۔
یہ الفاظ کہنے کے بعد خدا نے وہ اثرات حاصل کر لیے ہیں جو اس کا اصل مقصد تھا۔ اور اس طرح، اس بات پر مزید توجہ دیے بغیر کہ انسانیت کو اس کی سمجھ آئی ہے یا نہیں، وہ چند جملوں میں اس کا سرسری ذکر کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتا ہے، کیونکہ شیطان کے کام کا انسانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے - انسانیت کے پاس اس کا کوئی سراغ نہیں ہے۔ اب، روح کی دنیا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے، مزید یہ دیکھو کہ خدا انسانیت سے اپنے مطالبات کس طرح کرتا ہے: "اپنے ٹھکانے پر آرام کرتے ہوئے، میں نے غور سے مشاہدہ کیا ہے: زمین پر سب لوگ اپنی قسمت اور اپنے مستقبل کی خاطر بہت جلدی میں ہوتے ہیں، 'دنیا بھر میں سفر کرتے ہیں' اور آگے پیچھے بھاگتے ہیں۔ پھر بھی کسی ایک میں بھی میری بادشاہت کو قائم کرنے کے لیے توانائی نہیں ہے، اتنی سی بھی نہیں جتنی سانس لینے کی کوشش میں صرف ہوتی ہے۔" انسانوں کے ساتھ ان دلچسپ باتوں کے تبادلے کے بعد، خدا اب بھی ان پر کوئی توجہ نہیں دیتا ہے، بلکہ روح کے نقطہ نظر سے بات کرنا جاری رکھتا ہے، اور ان الفاظ کے ذریعے، نسل انسانی کی زندگی کے عمومی حالات کو مکمل طور پر بے نقاب کردیتا ہے۔ ان الفاظ، "دنیا بھر میں سفر کرتے ہیں" اور "آگے پیچھے بھاگتے ہیں،" سے یہ صاف طور پر نظر آتا ہے کہ انسانی زندگی میں سکون اور اطمینان بالکل نہیں ہے۔ اگر یہ خدا کی قدرتِ کاملہ کی نجات نہ ہوتی، اور خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو چین کی زوال پذیر شاہی نسل کے بڑے خاندان میں پیدا ہوئے تھے، تو لوگ ساری زندگی بے کار رہنے کی طرف مائل ہوتے، اور ان کا دنیا میں آنے کی بجائے پاتال یا جہنم میں گرنا سے بہتر ہوتا۔ عظیم سرخ اژدہے کی حاکمیت میں رہنے کی وجہ سے، وہ خود اپنے آپ سے بے خبر رہے، انھوں نے خدا کو ناراض کیا، اور اس وجہ سے قدرتی طور پر اور نادانستہ طور پر خدا کے عذاب میں مبتلا ہو گئے۔ اس وجہ سے، خدا اپنے بچانے والے فضل کا موازنہ کرنے کے لیے، جن کو اس نے "بچایا ہے" اور جو "ناشکرے" ہیں، ان کو لیتا ہے اور انھیں ایک دوسرے کے مقابلے پر رکھتا ہے تاکہ انسان اپنے آپ کو زیادہ واضح طور پر جان سکیں۔ کیا اس سے ایک اور بھی زیادہ مؤثر نتیجہ نہیں نکلتا ہے؟ بلاشبہ، میرے بہت واضح طور پر یہ بیان کیے بغیر، لوگ، خدا کے بیانات کے مواد سے، ملامت کے عنصر کا، نجات اور درخواست کے عنصرکا ، اور اداسی کے معمولی سے اشارے کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ان الفاظ کو پڑھتے ہوئے، لوگ لاشعوری طور پر پریشان ہونے لگتے ہیں، اور آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکتے۔۔۔۔ تاہم، خدا چند اداسی بھرے احساسات کی وجہ سے رکے گا نہیں، اور نہ ہی پوری نسل انسانی کی بدعنوانی کی وجہ سے، وہ اپنے بندوں کی تربیت کرنے اور ان سے مطالبات کرنے کا اپنا کام چھوڑے گا۔ اسی وجہ سے اس کے موضوعات فوراً آج کی طرح کے حالات کو مختصراً بیان کرتے ہیں اور اس کے علاوہ وہ انسانیت کے لیے اپنے انتظامی احکام کی عظمت کا اعلان کرتا ہے تاکہ اس کا منصوبہ آگے بڑھتا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پر پوری مناسب رفتار سے کاروائی کرتے ہوئے، اور جب لوہا گرم ہو تو اس پر چوٹ لگاتے ہوئے، خدا اس نازک صورتحال میں فی الحال ایک آئین جاری کرتا ہے - ایک ایسا آئین جسے خدا کی مرضی کو سمجھنے سے پہلے، انسانوں کو ہر شق پر احتیاط کے ساتھ توجہ دیتے ہوئے، لازمی پڑھنا چاہیے۔ فی الحال اس پر مزید بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ لوگوں کو لازمی طور پر زیادہ توجہ سے بس پڑھنا چاہیے۔
آج، تم - یہاں موجود لوگوں کا یہ گروہ - صرف ایسے لوگ ہو جو خدا کے الفاظ کو حقیقی معنوں میں سمجھ سکتے ہو۔ اس کے باوجود آج کے لوگ خدا کو جاننے میں ماضی کے کسی ایک شخص سے بھی بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ اس سے یہ بات کافی حد تک واضح ہو جاتی ہے کہ شیطان نے ان کئی ہزار سالوں میں لوگوں پر کتنی کوشش کی ہے، اور ساتھ ہی اس نے انسانیت کو کس حد تک بد عنوان بنا دیا ہے - اس حد تک کہ خدا کے بہت سا کلام کہنے کے باوجود، انسانیت ابھی تک نہ تو اسے سمجھتی ہے اور نہ ہی اسے جانتی ہے۔ بلکہ اس کی بجائے وہ کھڑے ہونے اور سرِعام اس کی مخالفت کرنے کی ہمت کرتی ہے۔ اور اس طرح، خدا ماضی کے اور آج کے لوگوں کے مقابلے میں اکثر ماضی کے لوگوں حمایت کرتا ہے، اور آج کے احمق اور کند ذہن لوگوں کو سمجھانے کے لیے حقیقی حوالے دیتا ہے۔ چونکہ انسانوں کو خدا کے متعلق کوئی علم نہیں ہے، اور چونکہ خدا پر ان کا حقیقی ایمان کم ہے، خدا نے دیکھ لیا ہے کہ انسانیت میں قابلیت اور عقل کی کمی ہے۔ اس لیے اس نے بار بار لوگوں کے لیے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اور انھیں نجات دی ہے۔ روحانی دنیا میں ان خطوط پر ایک جنگ لڑی جاتی ہے: یہ شیطان کی ایک بے کار امید ہے کہ وہ انسانیت کو ایک خاص حد تک بدعنوان بنا دے گا، دنیا کو غلیظ اور برا بنا دے، اور اس طرح لوگوں کو دلدل میں گھسیٹ کر خدا کے منصوبے کو تباہ کر دے گا۔ تاہم، خُدا کا یہ منصوبہ نہیں ہے کہ پوری انسانیت کو ایسے لوگوں میں تبدیل کردے جو اُسے جانتے ہیں، بلکہ ایک حصے کا انتخاب کرنا ہے جو سب کی نمائندگی کرے، اور باقی سب کو ضائع شدہ پیداوار کے طور پر چھوڑ دینا ہے، جس طرح ناقص سامان کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا جاتا ہے۔ اس طرح، اگرچہ شیطان کے نقطہ نظر سے چند افراد کو اپنے زیرِ اثر کرنا خدا کے منصوبے کو تباہ کرنے کا بہترین موقع ہو سکتا ہے، لیکن شیطان جیسا نادان خدا کے ارادے کو کیا جان سکتا ہے؟ اسی وجہ سے خدا نے بہت پہلے کہا تھا، "میں نے اس دنیا کو دیکھنے سے بچنے کے لیے اپنے چہرے کو ڈھانپ لیا ہے۔" ہمیں اس کے بارے میں تھوڑا سا علم ہے، اور خدا یہ مطالبہ نہیں کرتا ہے کہ انسان کچھ بھی کرنے کے قابل ہوں؛ بلکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ وہ اس بات کو پہچانیں کہ وہ جو کچھ کرتا ہے وہ معجزاتی اور ناقابلِ فہم ہے، اور اپنے دلوں میں اس کا احترام کریں۔ اگر، جیسا کہ انسان تصور کرتے ہیں کہ خدا حالات کی پرواہ کیے بغیر ان کو سزا دیتا ہے، تو پھر پوری دنیا طویل عرصہ پہلے ہی فنا ہو چکی ہوتی۔ کیا یہ شیطان کے عین جال میں پھنسنے کے مترادف نہ ہوتا؟ اور اس طرح، خدا اپنے کلام کا استعمال محض اس لیے کرتا ہے کہ وہ بہتر نتائج حاصل کیے جائیں جو اس کے ذہن میں ہیں، لیکن حقائق کی آمد شاذ و نادر ہی ہوتی ہے۔ کیا یہ اس کے کلام کی ایک مثال نہیں ہے، "اگر میں تمہاری قابلیت، عقل اور بصیرت کی کمی پر ترس نہ کھاؤں تو تم سب لوگ میری سزا میں مبتلا ہو کر فنا ہو جاؤ اور تمہارا وجود مٹ جائے۔ اس کے باوجود جب تک زمین پر میرا کام ختم نہیں ہوتا، میں بنی نوع انسان کے لیے مہربان رہوں گا؟"