باب 4
منفی کیفیت سے مثبت کیفیت کی طرف منتقل ہونے کے بعد تمام لوگوں کو مغرور ہونے اور جذبات کی رو میں بہہ جانے سے روکنے کے لیے، خُدا کے کلام کے آخری باب میں، جب خُدا اپنے بندوں کے لیے اپنے اعلیٰ ترین تقاضوں کے بارے میں بات کر چکا ہے - جب خدا لوگوں کو اپنے انتظامی منصوبے کے اس مرحلے میں اپنی مرضی کے متعلق بتا چکا ہے - تو آخر میں خدا کی مرضی کو پورا کرنے کے لیے فیصلہ کرنے میں ان کی مدد کرنے کی خاطر، خدا انھیں اپنے الفاظ پر غوروفکر کرنے کا موقع دیتا ہے۔ جب لوگوں کے حالات مثبت ہوتے ہیں تو خدا ان سے فوری طور پر مسئلے کے دوسرے پہلو کے متعلق سوالات کرنا شروع کر دیتا ہے۔ وہ سلسلہ وار سوالات پوچھتا ہے جن کا سمجھنا لوگوں کے لیے مشکل ہوتا ہے: "کیا تمہاری مجھ سے محبت غلاظت سے داغدار تھی؟ کیا مجھ سے تمہاری وفاداری خالص تھی اور کیا تم دل سے آمادہ تھے؟ کیا میرے بارے میں تمہارا علم درست تھا؟ تمہارے دلوں میں میرے لیے کتنی جگہ رہی ہے؟" اور اسی طرح مزید۔ اس پیراگراف کے پہلے نصف حصے میں، دو ملامتوں کو چھوڑ کر، بقیہ حصہ مکمل طور پر سوالات پر مشتمل ہے۔ اور خاص طور پر ایک سوال - "کیا میرے کلام نے تمہارے دل پر اثر کیا ہے؟" - بہت مناسب ہے۔ یہ لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں میں موجود سب سے زیادہ خفیہ چیزوں پر واقعی بہت زیادہ اثر کرتا ہے، جس کی وجہ سے وہ لاشعوری طور پر اپنے آپ سے یہ پوچھتے ہیں: "کیا میں خدا سے اپنی محبت میں صحیح معنوں میں وفادار ہوں؟" لوگ لاشعوری طور پر اپنے دلوں میں ماضی میں خدمت کرنے کے اپنے تجربات کو یاد کرتے ہیں: وہ خود کو معاف کرنے، خود کو راستباز سمجھنے، خود کو اہم سمجھنے، خود پر ضرورت سے زیادہ مطمئن ہونے، اپنی ذات میں مگن رہنے اور غرور سے مغلوب ہو چکے تھے۔ وہ ایک بڑی مچھلی کی طرح تھے جو جال میں پھنس چکی تھی - جال میں پھنسنے کے بعد، خود کو آزاد کروانا ان کے لیے آسان نہیں تھا۔ اس کے علاوہ، وہ اکثر بے لگام رہتے تھے، وہ اکثر خدا کی عام انسانیت کو دھوکہ دیتے تھے، اور جو کچھ بھی وہ کرتے تھے اس میں اپنے آپ کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ "خدمت گار" کہلانے سے پہلے وہ ایک نوزائیدہ شیر کے بچے کی طرح تھے جو توانائی سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ اگرچہ انھوں نے اپنی توجہ زندگی پر کسی حد تک مرکوز رکھی تھی، لیکن بعض اوقات وہ محض کسی جذبے کے بغیر بے دلی سے کام کر رہے تھے۔ غلاموں کی طرح، ان کا خُدا کے ساتھ سلوک بغیر کسی جذبے کے بے دلی والا تھا۔ خدمت گار کے طور پر سامنے آنے کے دوران، ان میں مثبت خصوصیات نہیں تھیں، وہ پیچھے رہ گئے تھے، وہ غم سے بھر گئے تھے، انھوں نے خدا کے متعلق شکایت کی تھی، انھوں نے اداسی سے سر جھکا لیے تھے، وغیرہ۔ ان کی اپنی حیرت انگیز، دل پر اثر کرنے والی کہانیوں کا ہر مرحلہ ان کے ذہنوں میں اٹکا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے لیے سونا بھی مشکل ہو جاتا ہے اور دن کا وقت بھی وہ گم صُم رہنے کی کیفیت میں گزارتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ لوگ خدا کی طرف سے دوسری مرتبہ باہر نکالے گئے ہیں، وہ پاتال میں گرچکے ہیں، اور فرار ہونے کے قابل نہیں ہیں۔ اگرچہ خدا نے پہلے پیراگراف میں چند مشکل سوالات پوچھنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا، لیکن غور سے پڑھنے پر وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ سوالات محض پوچھنے کی خاطرنہیں پوچھے گئے ہیں بلکہ خدا کا مقصد اس سے بڑھ کر ہے؛ ان سوالات کے اندر معنی کی ایک زیادہ گہری سطح موجود ہے، وہ سطح جس کی لازمی طور پر زیادہ تفصیل سے وضاحت کی جانی چاہیے۔
خدا نے ایک مرتبہ یہ کیوں کہا تھا کہ آج، آخر، آج ہے، اور چونکہ کل گزر چکا ہے، اس لیے ماضی کی یادوں میں کھوئے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود یہاں اپنے پہلے جملے میں، وہ لوگوں سے سوالات پوچھتا ہے، اور انھیں ماضی کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے؟ اس کے بارے میں غور کرو: خدا یہ کیوں کہتا ہے کہ لوگ ماضی کے متعلق پرانی یادوں کو یاد نہ کریں، لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ لوگ ماضی کے بارے میں سوچیں۔ کیا خدا کے الفاظ میں کوئی غلطی ہو سکتی ہے؟ کیا ان الفاظ کا منبع غلط ہو سکتا ہے؟ قدرتی طور پر، وہ لوگ جو خدا کے الفاظ پر توجہ نہیں دیتے ہیں وہ اتنے گہرے سوالات نہیں پوچھیں گے۔ لیکن فی الحال اس پر بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سب سے پہلے، مجھے اوپر والے پہلے سوال کی وضاحت کرنے دو - "کیوں۔" یقیناً ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ خدا نے کہا ہے کہ وہ کھوکھلے الفاظ نہیں بولتا ہے۔ اگر خدا کے منہ سے الفاظ نکلتے ہیں تو ان کا ایک مقصد اور اہمیت ہوتی ہے - یہ سوال دل پر اثر کرتا ہے۔ لوگوں کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ اپنے برے طریقوں کو تبدیل نہیں کر سکتے اور وہ اپنی پرانی فطرت کو قابو میں نہیں رکھ سکتے ہیں۔ خدا سب سے پہلے لوگوں کو ماضی کے بارے میں سوچنے کی طرف راہنمائی کرتا ہے، تاکہ وہ سب اپنے آپ کو زیادہ اچھی طرح اور حقیقت پسندانہ طور پر جان سکیں اور وہ اپنے بارے میں مزید گہرائی سے غور وفکر کرسکیں، اور یہ جان لیں کہ خدا کا ایک بھی لفظ کھوکھلا نہیں ہے۔ اور یہ بھی جان لیں کہ خدا کے تمام الفاظ مختلف لوگوں میں مختلف درجوں تک پورے ہوتے ہیں۔ ماضی میں، خدا نے لوگوں کے ساتھ جس انداز میں سلوک کیا تھا اس سے ان لوگوں کو خدا کے بارے میں تھوڑا سا علم ملا اور اس سلوک نے خدا کے لیے ان کے اخلاص کو کچھ زیادہ سچا بنا دیا ہے۔ لفظ "خدا" کا لوگوں اور ان کے دلوں کے صرف 0،1 فیصد حصے پر قبضہ ہے۔ اتنا حصہ حاصل کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ خُدا نے بہت زیادہ مقدار میں نجات کا کام کیا ہے۔ یہ کہنا مناسب ہے کہ لوگوں کے اس گروہ میں خُدا نے اتنا کچھ اثر حاصل کرلیا ہے - ایک ایسے گروہ میں جس کا عظیم سرخ اژدہے نے استحصال کیا ہے اور جو شیطان کے زیرِ اثر ہے - کہ اب وہ اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے کی ہمت نہیں کرتے ہیں۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ جو لوگ شیطان کے زیرِ اثر ہیں ان کے دلوں پر سو فیصد قبضہ کرنا خدا کے لیے ممکن نہیں ہوتا ہے۔ خدا کے متعلق لوگوں کے علم میں اضافہ کرنے کے لیے، اگلے مرحلے میں، خدا ماضی کے خدمت گاروں کی حالت کا موازنہ آج کے خدا کے بندوں کی حالت سے کرتا ہے، اور اس طرح ایک واضح تضاد پیدا ہوتا ہے جس سے لوگ زیادہ شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ یہ بالکل وہی بات ہے جو خدا نے کہی تھی کہ "تمہاری شرمندگی کو چھپانے کے لیے کوئی جگہ موجود نہیں ہے۔"
تو میں نے یہ کیوں کہا تھا کہ خدا محض پوچھنے کی خاطر سوال نہیں پوچھ رہا ہے؟ شروع سے آخر تک غور سے پڑھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ خدا کی طرف سے پوچھے گئے سوالات کی پوری طرح سے وضاحت نہیں کی گئی ہے، لیکن وہ سب خدا کے ساتھ لوگوں کی وفاداری اور خدا کے علم کی حد سے متعلق ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ لوگوں کے حقیقی حالات سے متعلق ہیں، جو کہ قابل رحم ہیں، اور ان کے لیے کھل کر بیان کرنا مشکل ہے۔ اس سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگوں کی حیثیت بہت ہی کم ہے اوران کا خدا کے بارے میں علم انتہائی سطحی ہے، اور اس کے ساتھ ان کی وفاداری بھی داغدار اور غلیظ ہے۔ جیسا کہ خدا نے کہا ہے، تقریباً سب لوگ پریشان کن صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور صرف اس لیے وہاں موجود ہوتے ہیں کہ تعداد بڑھ سکے۔ جب خُدا کہتا ہے، "کیا تم واقعی یہ یقین رکھتے ہو کہ تم میرے بندے بننے کے قابل نہیں ہو؟" تو ان الفاظ کا صحیح مطلب یہ ہے کہ سب لوگوں میں سے کوئی بھی خدا کا بندہ ہونے کے قابل نہیں ہے۔ لیکن زیادہ بہتر اثر حاصل کرنے کے لیے، خدا سوالات پوچھنے کا طریقہ استعمال کرتا ہے۔ یہ طریقہ ماضی کی باتوں کے مقابلے میں بہت زیادہ کارآمد ہے، جس نے لوگوں کے دلوں کو چیرنے کی حد تک بے رحمی سے حملہ کیا، ان کو زخمی کیا اور انھیں مار کے رکھ دیا۔ فرض کرو کہ خدا نے براہِ راست کوئی اکتاہٹ پیدا کرنے والی اور بے مزا بات کہی ہے جیسے کہ "تم مجھ سے وفادار نہیں ہو، اور تمہاری وفاداری داغدار ہے، تمہارے دلوں میں میرے لیے بالکل جگہ نہیں ہے۔۔۔۔ میں تمہیں خود اپنے آپ سے چھپنے کے لیے کوئی جگہ نہیں چھوڑوں گا کیونکہ تم میں سے کوئی بھی میرا بندہ ہونے کے لیے کافی نہیں ہے۔" تم ان دونوں کا موازنہ کر سکتے ہو، اور اگرچہ ان دونوں کا مواد ایک جیسا ہے، لیکن ہر ایک کا لہجہ مختلف ہے۔ سوالات کا استعمال کرنا زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔ اسی لیے عقلمند خُدا پہلے والا لہجہ استعمال کرتا ہے، جو اس کے بیان کرنے کی ہنرمندی کو ظاہر کرتا ہے۔ انسان کے لیے یہ چیز ناقابلِ حصول ہے، اور اس لیے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ خدا نے کہا، "لوگ تو صرف برتن ہیں جنھیں میں استعمال کرتا ہوں۔ ان کے درمیان فرق صرف یہ ہے کہ کچھ حقیر ہیں اور کچھ قیمتی ہیں۔"
جیسے جیسے لوگ پڑھتے جاتے ہیں، خُدا کے الفاظ بہت زیادہ ہوتے جاتے ہیں اور اتنی تیزی سے آتے ہیں کہ لوگوں کو سکون کا سانس لینے کا وقت بھی مشکل سے ملتا ہے۔ اور ایسا اس لیے ہے کہ خُدا انسان پر نرمی ہرگز نہیں کرتا ہے۔ جب لوگ انتہائی ندامت محسوس کرتے ہیں تو خدا انھیں ایک بار پھر خبردار کرتا ہے: "اگر تم اوپر بیان کیے گئے سوالات سے مکمل طور پر غافل ہو، تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تو پریشان کن صوتحال سے فائدہ اٹھا رہا ہے، اور تو صرف اس لیے موجود ہوتا ہے کہ تعداد بڑھا سکے، اور وہ وقت جو میں نے مقرر کر رکھا ہے، اس وقت تو یقیناً باہر نکال دیا جائے گا اور تجھے دوسری مرتبہ دھکے دے کر اتھاہ گڑھے میں پھینک دیا جائے گا۔ میرے یہ الفاظ خبردار کرنے کے لیے ہیں، اور جو کوئی بھی ان کو اہم نہیں سمجھے گا وہ میرے فیصلے کا سامنا کرے گا، اور وہ مقررہ وقت پر تباہی کا شکار ہو گا۔" ایسے الفاظ پڑھتے ہوئے لوگ یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکتے کہ کب انھیں اتھاہ گڑھے میں پھینک دیا جائے گا: ان لوگوں کو خدا کے انتظامی احکامات کے تحت تباہی کے خطرے کا سامنا ہے اور ان کا اپنا انجام ان کا انتظار کر رہا ہے، ایک طویل عرصے سے پریشان رہنے، ذہنی دباؤ کا شکار ہونے، بے چین ہونے، اپنے دل کے اندر کی اداسی کو کسی سے بھی بیان نہ کرنے کی کیفیت کے مقابلے میں، وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر ان کے جسم کو پاکیزہ کر دیا جاتا تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا۔۔۔۔ جب ان کی سوچ اس مقام تک پہنچ جاتی ہے، تو وہ پریشان ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یہ سوچ کر کہ ماضی میں وہ کیسے تھے، آج کیسے ہیں اور کل وہ کیسے ہوں گے، ان کے دلوں میں غم بڑھ جاتا ہے، وہ لاشعوری طور پر کانپنے لگ جاتے ہیں، اور اس طرح وہ خدا کے انتظامی احکامات سے اور زیادہ خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ جیسے ہی اُنھیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ "خدا کے بندوں" کی اصطلاح محض بولنے کا ایک ذریعہ بھی ہو سکتی ہے تو ان کے دلوں میں موجود خوشی فوراً پریشانی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ خدا ان پر ضرب لگانے کے لیے ان کی مہلک کمزوری کو استعمال کر رہا ہے، اور اس مقام پر، وہ اپنے کام کا اگلا مرحلہ شروع کر رہا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کے اعصاب میں مسلسل ہیجان پیدا ہو رہا ہے، اور ان کا یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ خدا کے اعمال ناقابلِ فہم ہیں، اور یہ کہ خدا ناقابل رسائی ہے، اور یہ کہ خدا مقدس اور پاک ہے، اور یہ کہ وہ خدا کے بندے بننے کے لائق نہیں ہیں۔ اس کے نتیجے میں، وہ اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوششوں کو بہت تیز کر دیتے ہیں اور وہ پیچھے رہ جانے کی ہمت نہیں کرتے۔
اس کے بعد، لوگوں کو سبق سکھانے، اور انھیں اپنے آپ کو جاننے، خدا کا احترام کروانے، اور خدا سے ڈرانے کے لیے، خدا اپنے نئے منصوبے کا آغاز کرتا ہے: "تخلیق کرنے کے وقت سے لے کر آج تک، بہت سے لوگ میری باتوں کی نافرمانی کر چکے ہیں اور اس طرح وہ میرے بحالی کے عمل سے علیحدہ کر دیے گئے ہیں اور باہر نکالے جا چکے ہیں؛ آخرکار ان کے جسم ہلاک ہو گئے ہیں اور ان کی روحیں پاتال میں پھینک دی گئی ہیں اور وہ ابھی تک شدید عذاب میں مبتلا ہیں۔ بہت سے لوگوں نے میری باتوں کی پیروی کی ہے، لیکن وہ میری بصیرت اور روشنی کے مخالف ہو گئے ہیں ۔۔۔ اور کچھ۔۔۔۔" یہ حقیقی مثالیں ہیں۔ ان الفاظ میں، خُدا نہ صرف خُدا کے تمام بندوں کو تمام ادوار میں خُدا کے کاموں سے آگاہ کرنے کے لیے ایک حقیقی تنبیہ کرتا ہے، بلکہ جو کچھ روحانی دنیا میں ہو رہا ہے اُس کے ایک حصے کی ایک مبہم خاکہ کشی بھی کرتا ہے۔ اس سے لوگوں کو یہ علم ہو جاتا ہے کہ خدا سے ان کی نافرمانی کا کوئی بھی اچھا نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ وہ ہمیشہ کے لیے شرمندگی کا نشان بن کر رہ جائیں گے، اور وہ مجسم شیطان، اور شیطان کی نقل بن کر رہ جائیں گے۔ خدا کے دل میں، مفہوم کے اس پہلو کی اہمیت ثانوی ہے، کیونکہ ان الفاظ نے لوگوں کو پہلے ہی لرزا کے رکھ دیا ہے اور انھیں سمجھ ہی نہیں آ رہی ہے کہ کیا کرنا چاہیے۔ اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ جب لوگ خوف سے کانپتے ہیں تو وہ روحانی دنیا کی کچھ تفصیلات بھی حاصل کر لیتے ہیں - لیکن صرف کچھ، اس لیے مجھے تھوڑی سی وضاحت لازمی پیش کرنی چاہیے۔ روحانی دنیا کے دروازے پر سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ہر قسم کی روحیں موجود ہیں۔ تاہم، کچھ پاتال میں ہیں، کچھ جہنم میں ہیں، کچھ آگ کی جھیل میں ہیں، اور کچھ اتھاہ گڑھے میں ہیں۔ یہاں پر شامل کرنے کے لیے میرے پاس کچھ ہے۔ سطحی طور پر بات کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ، یہ روحیں جگہ کے مطابق تقسیم کی جا سکتی ہیں؛ تاہم، خصوصی طور پر بات کرتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ، کچھ روحوں کے ساتھ خدا کے عذاب کا براہ راست معاملہ ہوتا ہے، اور کچھ روحیں شیطان کی غلامی میں ہوتی ہیں، جن کو خدا استعمال کرتا ہے۔ زیادہ خصوصیت کے ساتھ، ان کے حالات کی شدت کے مطابق ان کی سزا مختلف ہوتی ہے۔ اس مقام پر، مجھے تھوڑی سی مزید وضاحت کرنے دو۔ کہ وہ، جن کو خدا اپنے ہاتھ سے براہ راست سزا دیتا ہے ان کی زمین پر کوئی روح نہیں ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دوبارہ پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ شیطان کی حاکمیت میں روحیں - وہ دشمن جن کے بارے میں خدا بیان کرتا ہے جب وہ یہ کہتا ہے "میرے دشمن بن گئے ہیں" - ان کا تعلق زمینی معاملات سے ہے۔ زمین پر موجود جتنی بھی مختلف شیطانی روحیں ہیں وہ سب خدا کی دشمن اور شیطان کی خدمت گار ہیں اور ان کے وجود کی وجہ خدمت مہیا کرنا ہے، خدمت مہیا کرنا، تاکہ وہ خدا کے اعمال کو ناکام بنانے کے لیے استعمال ہو سکیں۔ اسی لیے خدا کہتا ہے، "نہ صرف یہ لوگ شیطان کے قیدی بن چکے ہیں بلکہ یہ ابدی گنہگار بن گئے ہیں اور میرے دشمن بن چکے ہیں اور یہ براہ راست میری مخالفت کرتے ہیں۔" اس کے بعد خدا لوگوں کو یہ بتاتا ہے کہ اس قسم کی روح کے لیے کس قسم کا انجام ہے: "ایسے لوگ وہ ہوتے ہیں جن کا فیصلہ میں انتہائی غضب کی حالت میں کرتا ہوں۔" خدا ان کی موجودہ حالت کو بھی واضح کرتا ہے: "اور آج بھی وہ ابھی تک اندھے ہیں، وہ ابھی تک تاریک زمین دوز قید خانوں کے اندر ہیں۔"
لوگوں پر خدا کے الفاظ کی سچائی ظاہر کرنے کی خاطر، خدا ثبوت کے طور پر ایک حقیقی مثال کا استعمال کرتا ہے (پولس کا معاملہ جس کے بارے میں وہ بیان کرتا ہے) تاکہ اس کی تنبیہ لوگوں پر ایک گہرا اثر ڈالے۔ لوگوں کو پولس کے بارے میں بیان کی گئی باتوں کو ایک کہانی کے طور پر سمجھنے سے روکنے کے لیے، اور انھیں خود اپنے آپ کو تماشائی سمجھنے سے روکنے کے لیے- اور اس کے علاوہ، انھیں ہزاروں سال پہلے ہونے والی چیزوں پر ڈینگیں مارنے سے روکنے کے لیے، وہ چیزیں جو انھوں نے خدا سے سیکھی تھیں - خدا پولس کی پوری زندگی کے تجربات پر کوئی توجہ مرکوز نہیں کرتا ہے۔ اس کی بجائے، خدا پولس کے کام کے نتائج پر توجہ دیتا ہے اور اس بات پر توجہ دیتا ہے کہ اس کا کیا انجام ہوا، اور کس وجہ سے پولس نے خدا کی مخالفت کی، اور جس طریقے سے پولس کا اختتام ہوا وہ کیسا تھا۔ خدا جس چیز پر توجہ دیتا ہے وہ اس بات پر زور دینا ہے کہ اس نے آخر کار کس طرح پولس کی آرزومندانہ امیدوں کو رد کیا، اور روحانی دنیا میں کس طرح پولس کی حالت کو براہ راست بے نقاب کیا: "پولس کو براہ راست خدا کی طرف سے سزا دی گئی ہے۔" چونکہ لوگ بے حس ہیں اور خدا کے الفاظ میں سے کسی بھی چیز کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں، اس لیے خدا ایک وضاحت (کلام کا اگلا حصہ) شامل کرتا ہے، اور ایک مسئلے کے مختلف پہلو کے متعلق بات کرنا شروع کردیتا ہے: "جو کوئی بھی میری مخالفت کرتا ہے (نہ صرف میرے جسمانی وجود کی مخالفت کرتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم، میرے الفاظ اور میری روح کی مخالفت کرتا ہے- جس کا مطلب ہے کہ میری الوہیت کی مخالفت کرتا ہے)، وہ اپنے جسم میں میرا فیصلہ وصول کرتا ہے۔" اگرچہ، سطحی طور پر بات کرتے ہوئے، ان الفاظ کا اوپر والے الفاظ سے تعلق نہیں لگتا ہے اور ان دونوں کے درمیان کوئی باہم تعلق نظر نہیں آتا ہے، لیکن گھبراؤ مت: خدا کے اپنے اہداف ہیں؛ "اوپر دی گئی مثال" کے سادہ سے الفاظ یہ ثابت کرتے ہیں کہ دو غیر متعلق نظر آنے والے مسائل منظم انداز میں ملتے ہیں - یہ خدا کے الفاظ کی خوبی، ہوشیاری اور اعلیٰ صلاحیت ہے۔ اس طرح، لوگ پولس کے بیان سے بصیرت حاصل کرتے ہیں، اور اس طرح، پچھلی اور بعد والی عبارت میں تعلق ہونے کی وجہ سے، پولس کے دیے ہوئے اسباق کے ذریعے، وہ خدا کو جاننے کی اور بھی زیادہ کوشش کرتے ہیں، جو کہ بالکل وہی اثر ہے جو خدا ان الفاظ کو بولنے سے حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس کے بعد، خدا کچھ الفاظ بولتا ہے جو لوگوں کے زندگی میں داخلے کے لیے مدد اور بصیرت فراہم کرتے ہیں۔ مجھے اس کے متعلق بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ تو یہ محسوس کرے گا کہ ان چیزوں کو سمجھنا آسان ہے۔ تاہم، مجھے جس چیز کی لازمی وضاحت کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ جب خدا کہتا ہے، "جب میں نے عام انسانیت کی شکل میں کام کیا تھا، تو زیادہ تر لوگوں نے میرے غضب اور عظمت کے خلاف اپنی حیثیت کا اندازہ پہلے سے ہی لگا لیا تھا، اور وہ میری حکمت اور مزاج کو پہلے سے ہی جانتے تھے۔ آج، میں الوہیت کی حالت میں براہ راست بولتا ہوں اور عمل کرتا ہوں، اور ابھی بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنی آنکھوں سے میرے غضب اور فیصلے کو دیکھیں گے؛ اس کے علاوہ، فیصلے کے دور کے دوسرے حصے کا اہم کام یہ ہے کہ میرے تمام بندوں کو میرے جسم کی حالت میں کیے گئے کاموں کا براہ راست علم ہو جائے اور تم سب میرے مزاج کو براہ راست دیکھ لو گے۔" یہ چند الفاظ خُدا کے عام انسانیت کی حالت میں کیے گئے کام کو ختم کرتے ہیں اور خدا کے فیصلے کے دور کے کام کے دوسرے حصے کا باضابطہ طور پر آغاز کرتے ہیں، اس کام کا جو الوہیت کی حالت میں کیا جاتا ہے، اور لوگوں کے ایک گروہ کے خاتمے کی پیشین گوئی کرتا ہے۔ اس مقام پر، یہ بات وضاحت کرنے کے قابل ہے کہ خدا نے لوگوں کو یہ نہیں بتایا ہے کہ یہ فیصلے کے دور کا دوسرا حصہ تھا کہ جب وہ خدا کے بندے بن گئے تھے۔ اس کی بجائے، لوگوں کو خدا کی مرضی اور ان اہداف کے بارے میں بتانے کے بعد جو خدا اس مدت میں حاصل کرنا چاہتا ہے، وہ صرف یہ وضاحت کرتا ہے کہ یہ فیصلے کے دور کا دوسرا حصہ ہے اور خدا کے زمین پر کام کا آخری مرحلہ ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس میں بھی خدا کی حکمت ہے۔ جب لوگ ابھی ابھی اپنے بیماری کے بستر سے اُٹھے ہوں تو انھیں صرف اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ وہ مریں گے یا نہیں، یا ان کے جسم سے ان کی بیماری کو نکال دیا جائے گا یا نہیں۔ وہ اس بات پر کوئی توجہ نہیں دیتے ہیں کہ آیا ان کا وزن بڑھ جائے گا، یا وہ صحیح لباس پہنیں گے۔ اسی طرح، صرف جب لوگوں کو یہ مکمل یقین ہو جاتا ہے کہ وہ خدا کے بندوں میں شامل ہو گئے ہیں تو تب خدا مرحلہ وار اپنے تقاضوں کے بارے میں بات کرتا ہے، اور لوگوں کو یہ بتاتا ہے کہ آج کا موجودہ دور کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی صحت یابی کے چند دنوں کے بعد ہی لوگوں کے اندر اتنی توانائی ہوتی ہے کہ وہ خدا کے انتظام کے اقدامات پر توجہ مرکوز کرسکتے ہیں، اور اس لیے انھیں بتانے کا سب سے مناسب وقت یہی ہوتا ہے۔ جب لوگ سمجھ لیتے ہیں تو اس کے بعد ہی وہ تجزیہ کرنا شروع کرتے ہیں: چونکہ یہ فیصلے کے دور کا دوسرا حصہ ہے، اس لیے خدا کے تقاضے زیادہ سخت ہو گئے ہیں، اور میں خدا کے بندوں میں سے ایک بن گیا ہوں۔ اس طرح تجزیہ کرنا درست ہے، اور انسان تجزیہ کرنے کا یہ طریقہ حاصل کر سکتا ہے۔ اسی وجہ سے خدا بولنے کا یہ طریقہ استعمال کرتا ہے۔
ایک مرتبہ جب لوگوں کو کچھ سمجھ آ جاتی ہے، تو خدا بولنے کے لیے ایک بار پھر روحانی دنیا میں داخل ہوتا ہے، اور اس طرح لوگ ایک مرتبہ پھر جال میں پھنس جاتے ہیں۔ سوالات کے اس سلسلے کے دوران، ہر کوئی اپنا سر کھجاتا ہے، الجھن میں ہوتا ہے، یہ نہیں جانتا ہے کہ خدا کی مرضی کیا ہے، یہ نہیں جانتا ہے کہ خدا کے کس سوال کا جواب دینا ہے، اور اس کے علاوہ، یہ بھی نہیں جانتا ہے کہ خدا کے سوالوں کے جواب دینے کے لیے کون سی زبان استعمال کرنی ہے۔ انسان سوچتا ہے کہ وہ ہنسے یا روئے۔ لوگوں کو یہ الفاظ ایسے لگتے ہیں کہ جیسے ان میں بہت گہرے اسرار ہیں - لیکن حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ میں یہاں تیرے لیے تھوڑی سی وضاحت بھی شامل کر دوں - اس سے تیرے دماغ کو سکون ملے گا، اور تو یہ محسوس کرے گا کہ یہ تو ایک آسان سی بات ہے اور اس کے بارے میں سوچنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ درحقیقت، اگرچہ الفاظ بہت ہیں، لیکن ان میں خدا کا صرف ایک ہی مقصد ہے: ان سوالات کے ذریعے لوگوں کی وفاداری کو حاصل کرنا۔ لیکن چونکہ براہ راست ایسا کہنا مناسب نہیں ہے، اس لیے خدا ایک مرتبہ پھر سوالات کا استعمال کرتا ہے۔ تاہم، وہ جس لہجے میں کرتا ہے، وہ خاص طور پر نرم ہے، اور شروع کے الفاظ سے بہت زیادہ مختلف ہے۔ اگرچہ خدا ان سے سوال پوچھ رہا ہے، لیکن اس قسم کے موازنے سے لوگوں کو ایک قسم کی راحت ملتی ہے۔ تو ہر سوال کو ایک ایک کرکے بھی پڑھ سکتا ہے؛ کیا ان چیزوں کا ماضی میں اکثر حوالہ نہیں دیا جاتا تھا؟ ان چند آسان سوالات میں، بھرپور مواد ہے۔ کچھ تو لوگوں کی ذہنیت کو بیان کرتے ہیں: "کیا تم زمین پر ایسی زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہو جو اہلِ جنت کی طرح ہے؟" کچھ لوگوں کے "جنگجوؤں والے حلف" ہیں جو وہ خدا کے سامنے اٹھاتے ہیں: "کیا تم حقیقت میں اس قابل ہو کہ تم مجھے یہ اجازت دو کہ میں تمہیں موت کے گھاٹ اتار دوں اور میں تمہاری راہنمائی ایک بھیڑ کی طرح کروں؟" اور ان میں سے کچھ خدا کے انسان سے تقاضے ہیں: "اگر میں براہ راست بات نہ کرتا تو کیا تم اپنے اردگرد کی ہر چیز کو چھوڑ سکتے اور کیا تم خود کو میرے ذریعے استعمال ہونے دیتے؟ کیا یہ وہ حقیقت نہیں ہے جو میں چاہتا ہوں؟ ۔۔۔" ان میں خدا کی انسان کے لیے نصیحتیں اور یقین دہانیاں بھی شامل ہیں: "اب بھی میں یہی کہتا ہوں کہ تم مزید بدگمانیوں میں مبتلا نہ ہو، اور تم اپنے داخلے کے لیے پیش قدمی کرو اور میرے الفاظ کی بہت زیادہ گہرائیوں کو سمجھو۔ یہ چیز تمہیں میرے الفاظ کو غلط طور پر سمجھنے، اور میرے الفاظ کے معنی کے بارے میں غیر واضح ہونے، اور اس طرح میرے انتظامی احکامات کی خلاف ورزی کرنے سے روکے گی۔" آخر میں خدا انسان کے لیے اپنی امیدوں کے بارے میں بات کرتا ہے: "مجھے امید ہے کہ تم میرے الفاظ میں اپنے لیے میرے مقاصد کو سمجھ جاؤ گے۔ اپنی توقعات کے بارے میں اور زیادہ نہ سوچو، اور عمل کرو جیسے کہ تم نے میرے سامنے یہ پختہ ارادہ کیا تھا کہ تمام چیزوں میں خدا کے نظم و ضبط کی اطاعت کرو گے۔" آخری سوال کا بہت گہرا مطلب ہے۔ یہ سوچنے پر مجبور کر دینے والا ہے، یہ لوگوں کے دلوں کو بہت متاثر کرتا ہے اور اسے بھولنا مشکل ہے، یہ ان کے کانوں کے قریب گھنٹی کی طرح مسلسل بج رہا ہے۔۔۔
وضاحت کے چند الفاظ جو اوپر بیان کیے گئے ہیں، یہ اس لیے ہیں کہ تو انھیں حوالے کے طور پر استعمال کر سکے۔