باب 3

آج کا زمانہ فضل کا دور نہیں ہے اور نہ ہی رحمت کا دور ہے، بلکہ بادشاہی کا دور ہے جس میں خدا کے بندے ظاہر ہوتے ہیں، وہ دور جس میں خدا براہ راست الوہیت کے ذریعے کام کرتا ہے۔ پس، خدا کے کلام کے اس باب میں، خدا اپنے کلام کو قبول کرنے والے تمام لوگوں کی روحانی دنیا میں جانے کے لیے راہنمائی کرتا ہے۔ ابتدائی پیراگراف میں، وہ یہ تیاری پہلے سے کرتا ہے، اور اگر کسی کے پاس خدا کے کلام کا علم ہے، تو کوئی اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے نشانیوں کو استعمال کرے گا، اور براہِ راست سمجھ لے گا کہ خدا اپنے بندوں میں کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس سے پہلے، لوگوں کو ”خدمت گار“ کا خطاب دیے جانے کے ذریعے جانچا جاتا تھا اور آج، ان کے آزمائشوں میں مبتلا ہونے کے بعد، ان کی تربیت کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، لوگوں کو ماضی کے کلام کی بنیاد پر خدا کے کام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ علم ضرور ہونا چاہیے، اور انہیں کلام اور شخص، اور روح اور شخص کو، ایک لازم و ملزوم کُل کے طور پر لازمی دیکھنا چاہیے – ایک دل، ایک عمل، اور ایک ماخذ کے طور پر۔ یہ تقاضا وہ اعلیٰ ترین تقاضا ہے جو خدا نے تخلیق کے بعد سے لے کر اب تک انسان سے کیا ہے۔ اس سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ خدا اپنی کوششوں کا کچھ حصہ اپنے بندوں پر خرچ کرنا چاہتا ہے، کہ وہ ان میں کچھ نشانیاں اور عجائبات ظاہر کرنا چاہتا ہے، اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ وہ تمام لوگوں سے خدا کے مکمل کاموں اور کلام کی اطاعت کروانا چاہتا ہے۔ ایک لحاظ سے، خدا خود اپنی گواہی کو برقرار رکھتا ہے، اور دوسرے لحاظ سے، اس نے اپنے بندوں سے تقاضے کیے ہیں، اور براہ راست عوام کے لیے خدا کے انتظامی احکام جاری کیے ہیں: اس طرح، چونکہ تم میرے بندے کہلاتے ہو، چیزیں اب پہلے جیسی نہیں ہیں؛ تم میری روح کے کلام پر توجہ دو اور اس کی اطاعت کرو، اور میرے کام کی قریب سے پیروی کرو؛ تم میری روح اور میرے جسم کو الگ نہیں کر سکتے، کیونکہ ہم جبلی طور پر ایک ہیں، اور فطری طور پر غیرمنقسم ہیں۔ اس میں، لوگوں کو مجسم خدا کو نظر انداز کرنے سے روکنے کے لیے، ایک بار پھر ان الفاظ پر زور دیا گیا ہے ”کیونکہ ہم جبلی طور پر ایک ہیں، اور فطری طور پر غیرمنقسم ہیں“؛ کیونکہ اس طرح کی غفلت انسان کی ناکامی ہے، خدا کے انتظامی احکامات میں یہ ایک بار پھر درج ہے۔ اس کے بعد، خدا لوگوں کو خدا کے انتظامی احکام کی خلاف ورزی کے نتائج سے آگاہ کرتا ہے، بغیر کچھ چھپائے، یہ کہہ کر، ”وہ نقصان اٹھائیں گے، اور صرف اپنے ہی کڑوے پیالے سے پینے کے اہل ہوں گے۔“ چونکہ انسان کمزور ہے، اس لیے یہ کلام سن کر وہ اپنے دل میں خدا سے زیادہ محتاط ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، کیونکہ ”کڑوا پیالہ“ لوگوں کو کچھ دیر کے لیے سوچنے پر مجبور کرنے کے لیے کافی ہے۔ لوگوں کے پاس اس ”کڑوے پیالے“ کی، جس کے بارے میں خدا بات کرتا ہے، بہت سی تشریحات ہیں: کلام کے ذریعے جانچا جانا یا بادشاہی سے نکال دیا جانا، یا کچھ عرصے کے لیے الگ تھلگ کر دیا جانا، یا کسی کے جسم کا شیطان کے ذریعے بدعنوان بننا اور بری روحوں کے قبضے میں ہونا، یا خُدا کی روح کی جانب سے ترک کر دیا جانا، یا کسی کے جسم کو ختم کر کے ملک بدر کر کے پاتال میں بھیج دینا۔ یہ تشریحات وہ ہیں جو لوگوں کی سوچ سے حاصل کی جا سکتی ہیں، اور اس لیے اپنے تصور میں، لوگ ان سے آگے جانے سے قاصر ہیں۔ لیکن خدا کے خیالات انسان کے خیالات کے برعکس ہیں؛ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ”کڑوا پیالہ“ مندرجہ بالا چیزوں میں سے کسی کا بھی حوالہ نہیں دیتا ہے، بلکہ خدا کی طرف سے نمٹے جانے کے بعد لوگوں کے خدا کے بارے میں علم کی حد تک اشارہ کرتا ہے۔ اس کو مزید واضح کرنے کے لیے، جب کوئی من مانے طور پر خدا کی روح اور اس کے کلام کو الگ کرتا ہے، یا کلام اور شخص کو، یا روح اور اس جسم کو جس سے وہ اپنے آپ کو ملبوس کرتا ہے، الگ کرتا ہے، تو یہ شخص نہ صرف خدا کے کلام میں خدا کو جاننے سے قاصر ہے۔ بلکہ اس کے علاوہ، اگر وہ خدا کے بارے میں تھوڑا سا شک میں مبتلا ہو گا، تو وہ ہر موڑ پر اندھا ہو جائے گا۔ یہ ایسا نہیں ہے جیسا کہ لوگ تصور کرتے ہیں کہ وہ براہ راست منقطع ہو جاتے ہیں؛ بلکہ وہ رفتہ رفتہ خدا کی تادیب میں گرتے ہیں – یعنی یہ کہ وہ بڑی تباہیوں میں اترتے ہیں، اور کوئی بھی ان کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو سکتا، گویا کہ ان پر بدروحوں نے قبضہ کر لیا ہے، اور گویا وہ ایک سر کے بغیر مکھی ہیں، وہ جہاں بھی جاتے ہیں چیزوں سے ٹکراتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اب بھی چھوڑ کر جانے سے قاصر ہیں۔ ان کے دلوں میں چیزیں ناقابل بیان حد تک سخت ہیں، گویا ان کے دلوں میں ناقابل بیان دکھ ہے – پھر بھی وہ اپنے منہ نہیں کھول سکتے، اور وہ سارا دن ایک سحرزدگی کے عالم میں گزارتے ہیں، خدا کو محسوس کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ یہ ان حالات میں ہوتا ہے کہ خدا کے انتظامی احکام انہیں دھمکی دیتے ہیں، کہ وہ لطف اندوز نہ ہونے کے باوجود کلیسیا چھوڑنے کی ہمت نہیں کرتے – یہ وہی ہے جسے ”اندرونی اور بیرونی حملہ“ کہا جاتا ہے، اور لوگوں کے لیے برداشت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہاں جو کچھ کہا گیا ہے وہ لوگوں کے تصورات سے مختلف ہے – اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان حالات میں، وہ اب بھی خدا کو تلاش کرنا جانتے ہیں، اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب خدا ان سے پیٹھ پھیر لیتا ہے، اور اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ، بالکل ایک ایمان نہ رکھنے والے کی طرح، وہ خدا کو محسوس کرنے سے بالکل قاصر ہوتے ہیں۔ خدا ایسے لوگوں کو براہ راست نہیں بچاتا؛ جب ان کا کڑوا پیالہ خالی ہو جاتا ہے، تو یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ان کا آخری دن آ پہنچتا ہے۔ لیکن اس لمحے، وہ اب بھی خدا کی مرضی تلاش کرتے ہیں، بس تھوڑا زیادہ لطف اٹھانا چاہتے ہیں – لیکن یہ وقت ماضی سے مختلف ہے، جب تک کہ خاص حالات نہ ہوں۔

اس کے بعد، خُدا بھی سب کے لیے مثبت پہلوؤں کی وضاحت کرتا ہے، اور یوں وہ ایک بار پھر زندگی حاصل کرتے ہیں – کیونکہ ماضی میں خُدا نے کہا تھا کہ خدمت گاروں کی کوئی زندگی نہیں تھی، لیکن آج خُدا اچانک ”اندر کی زندگی“ کی بات کرتا ہے۔ صرف زندگی کی بات کرنے سے ہی لوگ جانتے ہیں کہ ان کے اندر خدا کی زندگی اب بھی ہو سکتی ہے۔ اس طرح، ان کی خدا سے محبت میں کئی گنا زیادہ اضافہ ہوتا ہے، اور وہ خدا کی محبت اور رحمت کا زیادہ علم حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح اس کلام کو دیکھنے کے بعد تمام لوگ اپنی سابقہ غلطیوں پر توبہ کرتے ہیں اور چپکے سے ندامت کے آنسو بہاتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ بھی خاموشی سے اپنا ذہن بناتے ہیں کہ انہیں خدا کو ضرور راضی کرنا چاہیے۔ بعض اوقات، خُدا کا کلام لوگوں کے دلوں کے انتہائی اندر تک چھید کر دیتا ہے، لوگوں کے لیے اُس کو قبول کرنا مشکل بنا دیتا ہے اور لوگوں کے لیے پُرسکون رہنا مشکل بنا دیتا ہے۔ بعض اوقات، خدا کا کلام مخلص اور سنجیدہ ہوتا ہے، اور لوگوں کے دلوں کو گرما دیتا ہے، اس طرح کہ جب لوگ اسے پڑھ لیتے ہیں تو یہ ایسا ہوتا ہے کہ جب ایک بھیڑ کا بچہ کئی سالوں کے کھو جانے کے بعد اپنی ماں کو دوبارہ دیکھتا ہے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں، وہ جذبات سے مغلوب ہو جاتے ہیں، اور وہ اپنے آپ کو خدا کی آغوش میں ڈالنے کے لیے تڑپ رہے ہوتے ہیں، اذیت میں سسکیاں لیتے ہوئے، اس ناقابل بیان درد کو باہر نکال رہے ہوتے ہیں جو کئی سالوں تک ان کے دلوں میں رہا ہے، تاکہ وہ خدا کے ساتھ اپنی وفاداری کا اظہار کر سکیں۔ کئی مہینوں کے امتحان کی وجہ سے وہ قدرے حد سے زیادہ حساس ہو گئے ہیں، جیسے ان پر ابھی ابھی اعصابی حملہ ہوا ہو، جیسے کوئی معذور جو برسوں سے بستر پر پڑا ہوا ہو۔ انھیں خدا کے کلام پر اپنے ایمان پر قائم رہنے کے لیے، خُدا کئی بار مندرجہ ذیل کلام پر زور دیتا ہے: ”اپنے کام کے اگلے مرحلے کو آسانی سے اور بغیر کسی رکاوٹ کے آگے بڑھانے کے لیے، میں اپنے گھر میں موجود تمام لوگوں کو جانچنے کے لیے کلام کے تزکیے کا استعمال کرتا ہوں۔“ یہاں، خُدا کہتا ہے ”اپنے گھر کے تمام لوگوں کو جانچنے کے لیے“؛ ایک بغور مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ جب لوگ خدمت گار کے طور پر کام کر رہے ہوتے ہیں، تب بھی وہ خدا کے گھر کے لوگ ہوتے ہیں۔ مزید برآں، یہ کلام ”خُدا کے بندوں“ کے لقب کی طرف خدا کی سچائی پر زور دیتا ہے، جس سے لوگوں کے دلوں کو کچھ سکون ملتا ہے۔ اور پھر کیوں خدا بار بار لوگوں میں بہت سے مظاہر کی طرف اشارہ کرتا ہے جب وہ خدا کا کلام پڑھ لیتے ہیں، یا جب لقب ”خدا کے بندے“ ابھی ظاہر ہونا باقی ہے؟ کیا یہ صرف یہ ظاہر کرنے کے لیے ہے کہ خدا وہی خدا ہے جو انسان کے دل کی گہرائی میں دیکھ لیتا ہے؟ یہ وجہ کا صرف ایک حصہ ہے – اور یہاں، یہ صرف ثانوی اہمیت کا حامل ہے۔ خدا ایسا اس لیے کرتا ہے تاکہ تمام لوگوں کو مکمل طور پر یقین ہو جائے، تاکہ ہر شخص، خدا کے کلام سے، اپنی اپنی خامیوں کو جان سکے اور زندگی کے حوالے سے اپنی سابقہ خامیوں کو جان سکے، اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ، کام کے اگلے مرحلے کی بنیاد رکھی جائے۔ لوگ صرف خدا کو جاننے کی کوشش کر سکتے ہیں اور اپنے آپ کو جاننے کی بنیاد پر خدا کی تقلید کی جستجو کر سکتے ہیں۔ اس کلام کی وجہ سے، لوگ منفی اور غیر فعال ہونے سے مثبت اور فعال حالت میں تبدیل ہو جاتے ہیں، اور یہ خدا کے کام کے دوسرے حصے کو جڑ پکڑنے کے قابل بناتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ بنیاد کے طور پر کام کے اس مرحلے کے ساتھ، خدا کے کام کا دوسرا حصہ ایک سادہ معاملہ بن جاتا ہے، جس میں معمولی سی کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح، جب لوگ اپنے دلوں کے اندر سے اداسی کو نکال دیتے ہیں اور مثبت اور فعال ہو جاتے ہیں، تو خدا اپنے بندوں سے دوسرے تقاضے کرنے کے لیے اس موقع کو لیتا ہے: ”میرا کلام کسی بھی وقت یا جگہ پر جاری اور ظاہر ہوتا ہے، اور اس وجہ سے بھی، تمہیں یہ جاننا چاہیے کہ تم ہر وقت میرے سامنے ہو۔ کیونکہ آج، آخر کار، اس کے برعکس ہے جو پہلے آیا، اور تم اب مزید جو چاہو اسے پورا نہیں کر سکتے۔ اس کی بجائے، میرے کلام کی راہنمائی میں تمہیں اپنے جسم کو زیر کرنے کے قابل ہونا چاہیے؛ تمہیں میرے کلام کو اپنی بنیاد کے طور پر ضرور استعمال کرنا چاہیے، اور تم بے احتیاطی سے کام نہیں کر سکتے۔“ اس میں، خدا بنیادی طور پر ”میرا کلام“ پر زور دیتا ہے؛ ماضی میں بھی، اس نے کئی بار ”میرے کلام“ کا حوالہ دیا، اور اس طرح، ہر شخص اس پر کچھ توجہ دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس طرح خُدا کے کام کے اگلے مرحلے کے مرکز کی طرف اشارہ کیا گیا ہے: تمام لوگ اپنی توجہ خُدا کے کلام کی طرف مبذول کریں گے، اور ہو سکتا ہے کہ اُن کی کوئی دوسری محبت نہ ہو۔ سب کو خدا کے منہ سے کہے گئے کلام کی قدر کرنی چاہیے، اور انھیں غیرسنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے؛ اس طرح کلیسیا میں پچھلے حالات ختم ہو جائیں گے، جب ایک شخص خدا کا کلام پڑھتا اور بہت سے لوگ آمین کہتے اور فرمانبردار ہو جاتے۔ اس وقت لوگ خدا کے کلام کو نہیں جانتے تھے، لیکن انھیں ایک ہتھیار کے طور پر لے لیا جس سے اپنا دفاع کیا۔ اس صورت حال کو پلٹنے کے لیے، زمین پر خدا انسان سے نئے، زیادہ بلند مطالبات کرتا ہے۔ خدا کے اعلیٰ معیارات اور سخت تقاضوں کو دیکھنے کے بعد لوگوں کو منفی اور غیر فعال ہونے سے روکنے کے لیے، خدا لوگوں کو کئی بار یہ کہہ کر حوصلہ دیتا ہے: ”چونکہ چیزیں آج کی طرح کے حالات میں آ گئی ہیں، اس لیے تمہیں اپنے ماضی کے اعمال اور کاموں پر زیادہ نالاں اور پشیمان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میری فیاضی سمندروں اور آسمان کی طرح لامحدود ہے – انسان کی صلاحیتیں اور میرے بارے میں علم، میرے لیے میرے اپنے ہاتھ کی پشت کی طرح شناسا کیسے نہیں ہو سکتا؟“ یہ پُر خلوص اور سنجیدہ کلام اچانک لوگوں کے ذہنوں کو کھول دیتا ہے، اور انھیں فوراً مایوسی سے خدا کی محبت، مثبت اور فعال ہونے کی طرف لے جاتا ہے، کیونکہ خدا لوگوں کے دلوں میں موجود کمزوریوں کو پکڑ کر بات کرتا ہے۔ اس سے لاعلم ہونے سے لوگ اپنے پچھلے اعمال کی وجہ سے ہمیشہ خدا کے سامنے شرمندہ ہوتے ہیں اور بار بار پشیمانی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس طرح، خدا اس کلام کو خاص طور پر قدرتی انداز میں اور معمول کے مطابق ظاہر کرتا ہے، تاکہ لوگ محسوس نہ کریں کہ خدا کا کلام بےلچک اور بےلطف ہے، بلکہ سخت گیر اور نرم، اور بیّن اور زندہ کی طرح ہے۔

تخلیق سے لے کر آج تک، خدا نے خاموشی سے روحانی دنیا سے انسان کے لیے سب کچھ ترتیب دیا ہے، اور کبھی بھی روحانی دنیا کی حقیقت انسان کے سامنے بیان نہیں کی ہے۔ اس کے باوجود، آج، خدا اچانک اس جنگ کا ایک جائزہ پیش کرتا ہے جو اس کے اندر ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے لوگ قدرتی طور پر اپنے سر کھجاتے ہیں، یہ ان کے اس احساس کو گہرا کرتا ہے کہ خدا گہرا اور ناقابلِ ادراک ہے، اور ان کے لیے خدا کے کلام کے ماخذ کو تلاش کرنا اور بھی مشکل بنا دیتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ روحانی دنیا کی جنگ زدہ حالت تمام لوگوں کو روح میں لے آتی ہے۔ یہ مستقبل کے کام کا پہلا اہم حصہ ہے، اور یہ وہ اشارہ ہے جو لوگوں کو روحانی دنیا میں داخل ہونے کے قابل بناتا ہے۔ اس سے، یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ خُدا کے کام کے اگلا مرحلے کا ہدف بنیادی طور پر روح ہے، جس کا بنیادی مقصد تمام لوگوں کو جسم کے اندر خُدا کی روح کے معجزاتی کاموں کے بارے میں زیادہ علم دینا ہے، اس طرح ان تمام لوگوں کو جو خدا کے وفادار ہیں، بےوقوفی اور شیطان کی فطرت کے بارے میں زیادہ علم دینا ہے۔ اگرچہ وہ روحانی دنیا میں پیدا نہیں ہوئے لیکن وہ ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے کہ انہوں نے شیطان کو دیکھ رکھا ہے، اور ایک بار جب وہ یہ محسوس کرتے ہیں، تو خدا فوری طور پر بات کرنے کے دوسرے ذرائع کی طرف منتقل ہو جاتا ہے – اور ایک بار جب لوگوں کو یہ سوچنے کا طریقہ حاصل ہو جاتا ہے، تو خدا پوچھتا ہے: ”میں تمہیں اتنی عجلت کے ساتھ کیوں تربیت دے رہا ہوں؟ میں تمہیں روحانی دنیا کے حقائق کیوں بتاتا ہوں؟ میں تمہیں بار بار کیوں یاد دہانی کراتا اور نصیحت کرتا ہوں؟“ اور اسی طرح – سوالات کا ایک پورا سلسلہ جو لوگوں کے ذہنوں میں بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے: خدا اس لہجے میں کیوں بولتا ہے؟ وہ کیوں روحانی دنیا کے معاملات کے بارے میں بات کرتا ہے، اور کلیسیا کی تعمیر کے وقت لوگوں سے اپنے مطالبات کے بارے میں بات نہیں کرتا ہے؟ خدا اسرار کو ظاہر کر کے لوگوں کے تصورات پر ضرب کیوں نہیں لگاتا؟ بس تھوڑا زیادہ سوچنے سے، لوگ خدا کے کام کے مراحل کے بارے میں تھوڑا سا علم حاصل کرتے ہیں، اور اس طرح، جب وہ مستقبل میں ترغیبات کا سامنا کرتے ہیں، تو ان میں شیطان سے نفرت کا حقیقی احساس پیدا ہوتا ہے۔ اور یہاں تک کہ جب وہ مستقبل میں آزمائشوں کا سامنا کرتے ہیں، تووہ تب بھی خدا کو جاننے اور شیطان سے زیادہ گہری نفرت کرنے کے قابل ہوتے ہیں، اور اس طرح شیطان پر لعنت بھیجتے ہیں۔

آخر میں، خدا کی مرضی پوری طرح انسان پر ظاہر ہو جاتی ہے: ”میرے ہر ایک لفظ کو اپنی روحوں کے اندر جڑیں پکڑنے اور پھل لانے، اور زیادہ اہم طور پر، زیادہ پھل پیدا کرنے کا موقع دینا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں جس کا مطالبہ کرتا ہوں وہ چمکدار، سرسبز پھول نہیں ہے، بلکہ بے شمار پھل ہے، ایسا پھل جو اپنے پکے پن کو نہیں کھوتا ہے۔“ خدا کے اپنے بندوں سے بار بار کے مطالبات میں سے، یہ ان سب میں سب سے زیادہ جامع ہے، یہ مرکزی نقطہ ہے، اور اسے ایک سیدھے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ میں عام انسانیت میں کام کرنے سے مکمل الوہیت میں کام کرنے کی طرف منتقل ہو گیا ہوں؛ اس طرح، ماضی میں، میرے صاف انداز میں کہے گئے کلام میں، مجھے مزید وضاحت کا اضافہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی، اور زیادہ تر لوگ میرے کلام کے معنی کو سمجھنے کے قابل تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ماضی میں اس وقت جس چیز کی ضرورت تھی وہ صرف یہ تھی کہ لوگ میری باتوں کو جانیں اور حقیقت بیان کرنے کے اہل ہوں۔ تاہم، یہ مرحلہ بہت زیادہ مختلف ہے۔ میری الوہیت نے مکمل طور پر قبضہ کر لیا ہے، اور انسانیت کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی ہے۔ پس اگر میرے بندوں میں سے جو لوگ میرے کلام کا صحیح مطلب سمجھنا چاہیں تو ان کے لیے بہت زیادہ مشکل ہے۔ صرف میرے کلام کے ذریعے ہی وہ آگہی اور روشنی حاصل کر سکتے ہیں، اور اگر یہ اس ذریعے سے نہیں ہے، تو پھر میرے کلام کے مقصد کو سمجھنے کے لیے کوئی بھی خیال محض خیالی پلاؤ ہے۔ جب تمام لوگوں کو میرے کلمات کو قبول کرنے کے بعد میرے بارے میں زیادہ علم ہوتا ہے تو یہ وہ وقت ہوتا ہے جب میرے لوگ میرے مطابق عمل کرتے ہیں، یہ وہ وقت ہوتا ہے جب جسم میں میرا کام مکمل ہوتا ہے، اور یہ وہ وقت ہوتا ہے جب میری الوہیت پوری طرح سے جسم میں عمل کرتی ہے۔ اس وقت، تمام لوگ مجھے جسمانی طور پر جانیں گے، اور صحیح معنوں میں یہ کہنے کے قابل ہوں گے کہ خدا جسم میں ظاہر ہوتا ہے، اور یہ پھل ہو گا۔ یہ مزید ثبوت ہے کہ خُدا کلیسیا کی تعمیر سے تھک گیا ہے – یعنی، ”اگرچہ سبزہ زار کے پھول ستاروں کی طرح بے شمار ہوتے ہیں اور تعریف کرنے والے تمام ہجوم کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں، لیکن ایک بار جب وہ مرجھا جاتے ہیں تو وہ شیطان کے مکر و فریب کی طرح بکھر جاتے ہیں اور کوئی ان میں دلچسپی نہیں لیتا۔“ اگرچہ خدا نے کلیسیا کی تعمیر کے دوران ذاتی طور پر بھی کام کیا، کیونکہ وہ ایسا خدا ہے جو ہمیشہ نیا ہوتا ہے اور کبھی پرانا نہیں ہوتا، اس کے پاس ماضی کے معاملات کے لیے کوئی پرانی حسرتناک یادیں نہیں ہیں۔ لوگوں کو ماضی کے بارے میں سوچنے سے روکنے کے لیے، اُس نے ”شیطان کے مکر و فریب کی طرح بکھرے ہوئے“ الفاظ استعمال کیے جو ظاہر کرتے ہیں کہ خُدا نظریے کی پابندی نہیں کرتا۔ کچھ لوگ خُدا کی مرضی کی غلط تشریح کر سکتے ہیں، اور پوچھ سکتے ہیں: کیوں، چونکہ یہ کام خُدا نے خود کیا ہے، کیا اُس نے کہا کہ ”ایک بار جب پھول مرجھا جاتے ہیں تو کوئی ان میں دلچسپی نہیں لیتا“؟ یہ کلام لوگوں کو ایک الہام دیتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ تمام لوگوں کو ایک نئے، اور درست، نقطہ آغاز کا موقع دیتے ہیں؛ صرف تب ہی وہ خدا کی مرضی کو پورا کر سکیں گے۔ بالآخر، خدا کے بندے خدا کی تعریف کرنے کے قابل ہوں گے جو کہ سچ ہے، زبردستی نہیں، اور جو ان کے دلوں سے نکلتی ہے۔ یہ وہی ہے جو خدا کے 6000 سالہ انتظامی منصوبے کے مرکز میں ہے۔ یعنی، یہ اس 6000 سالہ انتظامی منصوبے کی ٹھوس شکل ہے: تمام لوگوں کو خدا کی تجسیم کی اہمیت سے آگاہ کرنے کا موقع دینا – انھیں عملی طور پر خدا کے جسم بننے کو جاننے کا موقع دینا، جس کا مطلب یہ ہے کہ جسم میں خدا کے اعمال کو – تاکہ وہ مبہم خدا کا انکار کریں، اور اس خدا کو جانیں جو آج کا ہے اور گزشتہ کل کا بھی، اور اس سے بھی بڑھ کر آئندہ کل کا، جو ازل سے ابد تک واقعی اور حقیقت میں موجود رہا ہے۔ صرف تب ہی خدا سکون میں داخل ہو گا!

سابقہ: باب 1

اگلا: باب 4

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp