باب 1
جیسا کہ خدا نے کہا ہے، ”کوئی بھی میرے کلام کی جڑ نہیں سمجھ سکتا، اور نہ ہی کوئی اس کے کہنے میں میرے مقصد کو جانتا ہے“ اگر خدا کی روح کی راہنمائی نہ ہو، اور اگر اس کے کلمات کی آمد نہ ہو، تو تمام لوگ اس کے عذاب میں فنا ہو جائیں۔ خدا نے تمام لوگوں کو آدور میں اتنا وقت کیوں لیا؟ اور پانچ ماہ تک؟ یہ بالکل ہماری رفاقت کا بہت اہم نقطہ ہے نیز خدا کی حکمت میں ایک مرکزی نقطہ ہے۔ ہم مندرجہ ذیل مشورہ دے سکتے ہیں: اگر کلیسا کی تعمیر انسان کو آزمائش میں ڈالنے کے اس عرصے کے بغیر، اور خدا کی طرف سے بدعنوان نسل انسانی کو سختی سے ضرب لگائے، مارے، اور چرکا دیے بغیر، آج تک جاری رہتی، تو کیا نتیجہ نکلتا؟ لہٰذا اِن کئی مہینوں کے کام کے مطلوبہ اثر کی نشاندہی کرتے ہوئے خُدا براہِ راست پہلے ہی جملے میں سیدھے متعلقہ بات پر پہنچ جاتا ہے – واقعی وہ پہلی ہی چبھن میں خون نکالتا ہے! یہ کئی مہینوں کے اس عرصے میں خدا کے اعمال کی حکمت کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے: انہوں نے ہر ایک کو آزمائش کے ذریعے سیکھنے کے قابل بنا دیا ہے کہ کس طرح اطاعت کی جائے اور کس طرح خلوص کے ساتھ اپنے آپ کو خرچ کیا جائے، نیز یہ کہ دردناک تزکیے کے ذریعے خدا کو پہچاننا کتنا بہتر ہے۔ لوگ جتنا زیادہ مایوسی کا تجربہ کرتے ہیں، وہ خود کو اتنا ہی بہتر جان لیتے ہیں۔ اور سچ کہوں تو، انھیں جتنا زیادہ تزکیے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو مصائب سے بھرا ہوتا ہے، اتنا ہی زیادہ وہ اپنی بدعنوانی کو جان لیتے ہیں، اس حد تک پہچان لیتے ہیں کہ وہ خدا کے خدمت گار ہونے کے لائق بھی نہیں ہیں اور یہ کہ خدمت کرنے کے لیے اس کی طرف سے بلند کیا جانا ہوتا ہے۔ اور اس طرح، یہ نتیجہ حاصل ہونے کے بعد، جب انسان اپنے ہر حصے کو استعمال کر لیتا ہے، تو بغیر کسی بات کو چھپائے خدا براہِ راست رحمت کی صدائیں لگاتا ہے۔ یہ آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے کہ خدا کا کام کرنے کا طریقہ، ان چند مہینوں کے بعد، آج کو اپنے نقطہ آغاز کے طور پر لیتا ہے؛ اُس نے سب کو دیکھنے کے لیے یہ سادہ بنا دیا ہے۔ کیونکہ، ماضی میں، خدا نے اکثر کہا کہ ”خدا کے بندے کہلانے کا حق حاصل کرنا آسان نہیں ہے،“ اس نے یہ کلام ان لوگوں میں پیدا کیے ہیں جن کا حوالہ خدمت گار کے طور پر دیا جاتا ہے، جو یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ خدا شک کے سائے تک کے بغیر قابل اعتماد ہے۔ جو کچھ خدا کہتا ہے وہ مختلف درجوں میں سچ ہو گا، اور یہ کسی بھی طرح سے خالی بات نہیں ہے۔
جب تمام لوگ انتشار کی حد تک رنج وغم سے بھرے ہوتے ہیں تو، خدا کی طرف سے اس طرح کا کلام تیر بہدف ہوتا ہے، ان سب کو ان کی ناامیدی کے درمیان دوبارہ زندہ کر دیتا ہے۔ انسانوں کے ذہنوں سے مزید کسی شک کو ختم کرنے کے لیے، خُدا نے درج ذیل کا اضافہ کیا: ”اگرچہ انہیں میرے بندے کہا جاتا ہے، یہ لقب کسی بھی طرح میرے ’بیٹے‘ کہلانے کے لیے ثانوی نہیں ہے۔“ یہ اس بات کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ صرف خدا ہی خود اپنے اختیار کی حفاظت کرنے کے قابل ہے، اور ایک بار جب لوگ اسے پڑھ لیں گے، تو وہ اور زیادہ پختہ یقین کر لیں گے کہ کام کرنے کے طریقے سے بہت ہٹ کر، یہ ایک حقیقت ہے۔ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے، تاکہ لوگوں کی بصیرت صاف رہ سکے، ہر ایک کی شناخت اس کے نئے انداز میں واضح کر دی گئی ہے۔ یہ خدا کی حکمت کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے اور یہ لوگوں کو بہتر طور پر یہ جاننے کے قابل بناتا ہے کہ خدا انسانوں کے دلوں میں دیکھ سکتا ہے؛ انسان اپنے خیالات اور اعمال میں کٹھ پتلیوں کی طرح ہیں، خدا ڈوریاں ہلاتا ہے، اور یہ یقینی ہے اور اس پرسوال نہیں کیا جا سکتا۔
آغاز کی طرف واپس جاتے ہوئے، خُدا نے شروع سے جو کیا وہ براہِ راست اس بات کی نشاندہی کرنا تھا کہ اُس کے کام کا پہلا مرحلہ، ”کلیسیا کو پاک کرنا“ پہلے ہی ختم ہو چکا تھا۔ ” اب صورتحال وہ نہیں ہے جو پہلے تھی، اور میرا کام ایک نئے نقطہ آغاز میں داخل ہو گیا ہے۔“ اس بیان سے، کوئی دیکھ سکتا ہے کہ خُدا کا کام ایک نئے نقطہ آغاز میں داخل ہو گیا ہے، جس کے فوراً بعد، اُس نے ہمیں اپنے کام کے اگلے مرحلے کے نقشوں کی نشاندہی کی ہے – جب کلیسیا کی تعمیر مکمل ہو جائے گی تو بادشاہی کا دور شروع ہو جائے گا، ”کیونکہ اب یہ کلیسیا کی تعمیر کا دور نہیں ہے، بلکہ وہ دور ہے جس میں بادشاہی کامیابی سے تعمیر ہوئی ہے۔“ مزید برآں، اس نے کہا ہے کہ، جیسا کہ لوگ ابھی تک زمین پر ہیں، ان کے اجتماعات کو کلیسیا کہا جاتا رہے گا، اس طرح ایک غیر حقیقی ”بادشاہت“ کے ادراک سے گریز کیا جائے گا جیسا کہ سب نے تصور کیا ہے۔ اس کے بعد رویا کے مسئلے پر رفاقت آتی ہے۔
ایسا کیوں ہے، حالانکہ یہ اب بادشاہی کی تعمیر کا دور ہے اور کلیسیا کی تعمیر کا اختتام ہے، تمام اجتماعات کو اب بھی کلیسیا کہا جاتا ہے؟ ماضی میں کہا گیا ہے کہ کلیسیا بادشاہی کی پیش رو ہے اور کلیسیا کے بغیر بادشاہی کی بات نہیں ہو سکتی۔ بادشاہی کے دور کا آغاز جسمانی طور پر خدا کی ذمہ داری کا آغاز ہے، اور بادشاہی کے دور کا آغاز مجسم خدا سے ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ لاتا ہے وہ بادشاہی کا دور ہے، نہ کہ بادشاہی کا باضابطہ نزول۔ یہ تصور کرنا مشکل نہیں ہے؛ خدا کے بندوں سے میرا مطلب بادشاہی کے دور کے لوگ ہیں، نہ کہ خود بادشاہی کے لوگ۔ اس لیے یہ کہنا مناسب ہو گا کہ زمین پر اجتماعات کو اب بھی کلیسیا کہا جانا چاہیے۔ ماضی میں، اس نے اپنی عام انسانیت کے اندر کام کیا جب کہ ابھی تک خود خدا کے طور پر گواہی نہیں دی گئی تھی، اور اس طرح بادشاہی کا دور اس وقت انسانوں کے درمیان شروع نہیں ہوا تھا؛ یعنی، جیسا کہ میں نے کہا، میری روح نے ابھی تک باضابطہ طور پر میرے مجسم جسم میں کام کرنا شروع نہیں کیا تھا۔ اب جب کہ خود خُدا کی گواہی دی جا چکی ہے، انسانوں کے درمیان بادشاہی کا احساس ہو گیا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ میں اپنی الوہیت کے اندر کام کا آغاز کروں گا، اور اس طرح وہ انسان جو میرے کہے ہوئے اس کلام اور ان اعمال کی قدر کر سکتے ہیں جو میں اپنی الوہیت میں کرتا ہوں، وہ بادشاہی کے دور میں میرے بندوں کے طور پر مشہور ہوں گے۔ یہ اس سے ہے کہ ”خدا کے بندے“ وجود میں آئے۔ اس مرحلے میں، یہ بنیادی طور پر میری الوہیت ہے جو عمل کرتی اور بولتی ہے۔ انسان میرے منصوبے میں بالکل مداخلت نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہ خلل ڈال سکتا ہے۔ ایک بار جب خدا اپنے بولنے کے ایک خاص مرحلے پر پہنچ جاتا ہے، تو اس کا نام دیکھا جاتا ہے، اور اس مقام سے انسانیت پر اس کی آزمائش شروع ہو گی۔ یہ خدا کے کام میں حکمت کی چوٹی ہے۔ یہ ایک مضبوط بنیاد رکھتی ہے اور اگلے مرحلے کے آغاز نیز آخری مرحلے کے اختتام کے لیے جڑیں قائم کرتی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کا، بحیثیت انسان، کوئی بھی ممکنہ طور پر اندازہ نہیں لگا سکتا تھا؛ یہ عدالت کے دور کے پہلے اور دوسرے حصوں کے ملنے کا مقام ہے۔ ان چند مہینوں کے بغیر جن میں میں نے انسان کا تزکیہ کیا، میری الوہیت کے کام کرنے کا کوئی طریقہ نہ ہوتا۔ ان کئی مہینوں کے تزکیے نے میرے کام کے اگلے مرحلے کا راستہ کھول دیا۔ ان چند مہینوں کے کام کا ختم ہونا اس بات کی علامت ہے کہ کام کا اگلا مرحلہ مزید گہرا ہونا ہے۔ اگر کوئی خدا کے کلام کو صحیح معنوں میں سمجھتا ہے، تو وہ یہ سمجھ سکتا ہے کہ وہ کئی مہینوں کی اس مدت کو اپنے کام کے اگلے مرحلے کا آغاز کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے، اور اس طرح اس کو اور بھی بہتر نتائج حاصل کرنے کے قابل بنا رہا ہے۔ چونکہ میری انسانیت کی رکاوٹ نے میرے کام کے اگلے مرحلے میں مزاحمت پیدا کر دی ہے، مگر ان چند مہینوں کے مصائب کے ذریعے تزکیے کی وجہ سے، اس لیے، دونوں فریقوں کی اصلاح ہوئی ہے اور کافی فائدہ حاصل ہوا ہے۔ صرف اب، اس کے نتیجے میں، انسان نے اس کا حوالہ دینے کے میرے طریقے کی قدر کرنا شروع کر دی ہے۔ لہٰذا، جب خُدا نے اپنے لکھنے والے قلم کو گھماتے ہوئے کہا کہ وہ اب انسانوں کو ”خدمت گار“ نہیں بلکہ ”خدا کے بندے“ کہے گا، تو وہ سب خوشی سے مغلوب ہو گئے۔ یہ انسان کی دکھتی رگ تھی۔ یہ خاص طور پر انسان کی اس اہم کمزوری کو پکڑنے کے لیے تھا جس کے متعلق خدا نے کہا جیسا کہ اس نے کہا۔
تمام لوگوں پر مزید فتح حاصل کرنے اور ان کا پُرخلوص یقین حاصل کرنے کے لیے اور اس حقیقت کی نشاندہی کرنے کے لیے کہ بعض لوگوں کی عقیدت نجاستوں سے آلودہ ہے، خدا نے انسان کی مختلف قسم کی تمام بدصورتیوں کی طرف توجہ دلانے کا اضافی قدم اٹھایا ہے۔ اور ایسا کرتے ہوئے اُس نے اپنا کلام پورا کیا: ”کتنے لوگ مجھ سے محبت کرنے میں مخلص ہیں؟ کون ہے جو اپنے مستقبل کا خیال رکھ کر کام نہیں کر رہا؟ کس نے اپنی آزمائشوں کے دوران کبھی شکایت نہیں کی؟“ اس طرح کے کلام سے، ہر کوئی اپنی نافرمانی، بے وفائی، اور مخلصانہ عقیدت کی کمی کو پہچان سکتا ہے، اور اس طرح یہ دیکھتا ہے کہ خدا کی رحمت اور شفقت ان تمام لوگوں کے پیچھے آتی ہے جو راستے کے ہر قدم پر اسے تلاش کرتے ہیں۔ مندرجہ ذیل کلام سے یہ دیکھا جا سکتا ہے: ”جب کچھ پیچھے ہٹنے کے قریب ہوتے ہیں، جب وہ سب جو مجھ سے میرے بولنے کے انداز کو بدلنے کی امید کر رہے ہوتے ہیں، امید کھو چکے ہوتے ہیں، اس وقت میں نجات کے لیے صدا لگاتا ہوں، اور ان سب کو اپنی بادشاہی میں اپنے تخت کے سامنے واپس لاتا ہوں جو مجھ سے سچے دل سے محبت کرتے ہیں۔“ یہاں، جملے ”وہ لوگ جو مجھ سے خلوص سے محبت کرتے ہیں،“ اور موثر سوال ”کتنے لوگ مجھ سے مخلص ہو کر محبت کرتے ہیں؟“ ایک دوسرے سے متضاد نہیں ہیں۔ وہ واضح کرتے ہیں کہ اس تناظر میں کیسے ”اخلاص“ میں نجاست ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ خدا کچھ نہیں جانتا؛ بلکہ، یہ عین اس وجہ سے ہے کہ خدا انسانوں کے دلوں کے انتہائی اندر تک دیکھ سکتا ہے کہ وہ ”اخلاص“ جیسے کلام استعمال کرتا ہے، جو کہ بدعنوان نسل انسانی کے لیے ایک طنز ہے، تاکہ ہر ایک کو خدا کے لیے اپنے مقروض ہونے کا احساس زیادہ گہرائی میں دلایا جائے اور وہ اپنے آپ کی مزید سختی سے ملامت کریں، نیز اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ ان کے دلوں میں شکوے مکمل طور پر شیطان کی طرف سے آتے ہیں۔ ہر کوئی جب ”عقیدت“ جیسی اصطلاح کو دیکھتا ہے تو حیران ہوتا ہے، خفیہ طور پر سوچتا ہے: ”میں نے کئی بار آسمان اور زمین کے خلاف احتجاج کیا ہے، اور کئی بار چھوڑ کر جانا چاہا، لیکن چونکہ میں خدا کے انتظامی احکام سے ڈرتا تھا، اس لیے میں کسی بھی طرح سے معاملات کو ختم کرنے کے لیے نمٹوں گا اور ہجوم کے ساتھ چلوں گا اور یہ انتظار کرتے ہوئے کہ خدا میرے ساتھ معاملہ کرے، یہ سوچتے ہوئے کہ اگر حالات واقعی نا امید ہو گئے تو پھر بھی میرے پاس آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے کے لیے کافی وقت ہو گا۔ لیکن اب خدا ہمیں اپنے عقیدت مند لوگ کہہ رہا ہے۔ کیا واقعی خدا ایسا خدا ہو سکتا ہے جو انسانوں کے دلوں کے انتہائی اندر تک دیکھتا ہے؟“ یہ اس قسم کی غلط فہمی سے بچنے کے لیے تھا کہ خدا نے مختلف قسم کے لوگوں کی نفسیاتی حالتوں کی طرف بالکل آخر میں توجہ مبذول کروائی جس کی وجہ سے ہر ایک ایسی حالت سے منتقل ہو گیا جہاں وہ اندرونی طور پر تو شک کرتا ہے جبکہ ظاہری طور پر ایسی حالت میں خوشی کا اظہار کرتا ہے جس میں وہ دل سے، زبانی طور پر اور دیکھ کر قائل ہوتا ہے۔ اس طرح، خدا کے کلام کے بارے میں انسان کا تاثر گہرا ہوا ہے، جس کے قدرتی نتیجے کے طور پر انسان قدرے زیادہ خوفزدہ ہو گیا ہے، قدرے زیادہ تعظیم کرنے والا بن گیا ہے، اور اس کے علاوہ خدا کے بارے میں بہتر فہم حاصل کر چکا ہے۔ آخر میں، انسان کی پریشانیوں کو دور کرنے کے لیے، خدا نے کہا: ”لیکن جیسا کہ ماضی ماضی ہے، اور حال پہلے ہی سے موجود ہے، اس لیے اب کل کی پرانی یادوں کی حسرت میں مزید مبتلا ہونے یا مستقبل کے لیے سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔“ اس قسم کے کشیدہ، ہم آہنگ اور پھر بھی موثر انداز میں بات کرنے کا اور بھی زیادہ اثر ہوتا ہے، جس سے وہ تمام لوگوں کو جو اس کے کلام کو پڑھتے ہیں، وہ ماضی کی مایوسی کے درمیان سے ایک بار پھر روشنی دیکھتے ہیں، اس وقت تک وہ خدا کی حکمت اور اعمال دیکھ لیتے ہیں، ”خدا کے بندوں“ کا خطاب حاصل کر لیتے ہیں، اپنے دلوں میں موجود شکوک و شبہات کو ختم کر لیتے لیں، اور پھر اپنی نفسیاتی حالتوں کے بدلتے ہوئے نمونوں سے خود کو پہچان لیتے ہیں۔ ان حالات میں باری باری اتار چڑھاؤ آتا ہے، یہ رنج و غم، خوشی اور مسرت کو جنم دیتے ہیں۔ اس باب میں خدا نے لوگوں کا ایک خاکہ اس قدر جاندار اور ہر ایک تفصیل کے ساتھ بہت واضح طور پر پیش کیا ہے کہ وہ کمال کے مقام پر پہنچ گیا ہے۔ یہ واقعی ایک ایسی چیز ہے جسے انسان حاصل نہیں کر سکتا، ایسی چیز جو واقعی انسانی دل کی گہرائیوں میں موجود رازوں کو بے نقاب کرتی ہے۔ کیا یہ کوئی ایسی چیز ہو سکتی ہے جسے کرنے کی انسان میں صلاحیت ہو؟
اس کے فوراً بعد، اور اس سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل، ذیل کا اقتباس ہے، جو براہ راست انسان پر خدا کے انتظامی حکم کو ظاہر کرتا ہے اور جو کہ سب سے اہم حصہ ہے: ”انسان ہونے کے ناطے، جو بھی حقیقت کے خلاف جاتا ہے اور میری راہنمائی کے مطابق کام نہیں کرتا ہے، اس کا انجام اچھا نہیں ہو گا، بلکہ وہ صرف اپنے اوپر مصیبت ہی لے کر آئے گا۔ کائنات میں جو ہر چیز ہوتی ہے اس میں سے کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جس میں میرا فیصلہ حتمی نہ ہو۔“ کیا یہ خدا کا انتظامی حکم نہیں ہے؟ یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ ان کی مثالیں بکثرت ہیں جو اس انتظامی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ مندرجہ بالا کی بنیاد پر، خدا ہر ایک کو اپنی تقدیر کے بارے میں سوچنے سے گریز کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ اگر کوئی خدا کی مقرر کردہ ترتیب سے آزاد ہونے کی ہمت کرتا ہے تو اس کے نتائج تصور سے بڑھ کر سنگین ہوں گے۔ پھر یہ ان تمام لوگوں کو اس قابل بناتا ہے جنہوں نے اس کلام میں آگہی اور روشنی کا تجربہ کیا ہے کہ وہ خدا کے انتظامی فرمان کو بہتر طور پر سمجھیں، نیز اس بات کو سمجھیں کہ اس کی عظمت کو ناراض نہیں کیا جا سکتا ہے، اور اس طرح زیادہ تجربہ کار اور مستحکم، ایک دیودار کی طرح سرسبز ہو جاتے ہیں، ہوا اور کہر کا سامنا کرنے کی وجہ سے، سخت سردی کے خطرے کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوتے ہیں، فطرت کی سرسبز پھلتی پھولتی قوت حیات میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ، اس اقتباس کا سامنا کرتے ہوئے، ایسے گھبرا جاتے ہیں جیسے وہ کسی بھول بھلیوں میں بھٹک گئے ہوں؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کے کلام کا مواد نسبتاً تیزی سے بدل جاتا ہے، اور اس لیے دس میں سے نو لوگ جب اپنے بدعنوان مزاج سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایک بھول بھلیوں میں داخل ہو جاتے ہیں۔ تاکہ مستقبل میں کام مزید آسانی سے ہو سکے، تاکہ تمام آدمیوں کے دلوں میں موجود شکوک و شبہات ختم ہو جائیں، اور تاکہ سب خدا کی وفاداری پر اپنے ایمان میں ایک قدم آگے بڑھ سکیں، وہ اس اقتباس کے آخر میں زور دیتا ہے: ”ان میں سے ہر ایک جو سچے دل سے مجھ سے محبت کرتا ہے یقینی طور پر میرے تخت کے سامنے واپس آئے گا۔“ اس طرح، جو لوگ اس کے کئی مہینوں کے کام سے گزر چکے ہیں، ان کے ذہن ایک لمحے میں، اپنے خدشات کے کچھ حصے سے نجات پا لیتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر، ان کے دل جو کہ ہوا میں معلق ہو چکے تھے، واپس اس حالت کی طرف لوٹ آتے ہیں جیسے وہ پہلے تھے جیسے کہ کوئی بھاری پتھر زمین پر گرا ہو۔ اب انھیں اپنی قسمت کے بارے میں مزید سوچنے کی ضرورت نہیں ہے؛ مزید، وہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا اب مزید خالی کلام نہیں بولے گا۔ کیونکہ انسان خود راستباز ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو اس بات پر یقین نہ رکھتا ہو کہ وہ خدا کے لیے انتہائی عقیدت کا مظاہرہ کرتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ خُدا جان بوجھ کر ایک بہتر نتیجہ حاصل کرنے کے لیے – ”سچے دل“ پر زور دیتا ہے۔ یہ اس کے کام میں راہ ہموار کرنے اور اگلے مرحلے کی بنیاد رکھنے کے لیے ہے۔