باب 30
انسانوں میں، میں نے ایک بار انسان کی نافرمانی اور کمزوری کا خلاصہ کیا، اور اس طرح میں نے انسان کی کمزوری کو سمجھا اور اس کی نافرمانی کو جانا۔ انسان کے درمیان آنے سے پہلے ہی میں انسان کی خوشیوں اور غموں کو بہت پہلے ہی سمجھنے لگ گیا تھا – اور اسی وجہ سے میں وہ کام کر سکتا ہوں جو انسان نہیں کر سکتا، اور وہ کہہ سکتا ہوں جو انسان نہیں کہہ سکتا اور میں اتنی آسانی سے کر لیتا ہوں۔ کیا مجھ میں اور انسان میں یہ فرق نہیں ہے؟ اور کیا یہ واضح فرق نہیں ہے؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ میرا کام خون اور گوشت پوست کے لوگوں سے حاصل ہو سکتا ہے؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ میں تخلیق کردہ مخلوقات کی قسم کا ہوں؟ لوگوں نے مجھے ”تقریباً مساوی“ ہونے کا درجہ دے دیا ہے – اور کیا یہ اس لیے نہیں ہے کہ وہ مجھے جانتے نہیں ہیں؟ انسانوں کے درمیان بلند ہونے کی بجائے، مجھے خود کو لازمی طور پر عاجز کیوں بنانا چاہیے؟ انسان مجھے کیوں مسترد کرتا رہتا ہے، کیوں بنی نوع انسان میرے نام کا اعلان کرنے سے قاصر ہے؟ میرے دل میں بہت زیادہ غم ہے، مگر لوگ کیسے جان سکتے ہیں؟ وہ کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ جس چیز کی مجھے تشویش ہے، اسے اپنی زندگیوں میں سب سے زیادہ اہمیت نہ دینے پر لوگ چکرا گئے اور الجھن میں پڑ گئے ہیں، جیسے کہ انہوں نے ابھی ابھی نیند کی گولی کھائی ہو؛ جب میں ان کو پکارتا ہوں تو وہ صرف خواب ہی دیکھتے رہتے ہیں اور اس طرح کسی کو کبھی میرے اعمال کی خبر نہیں ہوئی۔ آج، زیادہ تر لوگ اب بھی گہری نیند میں ہیں۔ صرف جب بادشاہی کے ترانے کی آواز آتی ہے تو تب ہی وہ اپنی نیند بھری آنکھیں کھولتے ہیں اور اپنے دلوں میں کچھ اداسی محسوس کرتے ہیں۔ جب میری لاٹھی بنی نوع انسان پر پڑتی ہے، تو تب بھی وہ بہت کم توجہ دیتے ہیں، گویا ان کی قسمت سمندر میں ریت کی طرح بے کار ہے۔ اگرچہ ان میں سے اکثر کو کچھ آگاہی ہے، لیکن وہ ابھی تک یہ نہیں جانتے کہ میرے قدم کہاں تک آچکے ہیں – کیونکہ لوگ میری مرضی کو سمجھنے کی پرواہ نہیں کرتے، اور اسی لیے وہ خود کو کبھی بھی شیطان کی غلامی سے آزاد کروانے کے قابل نہیں رہے۔ میں سب چیزوں سے بالاتر حرکت کرتا ہوں، اور سب چیزوں کے درمیان رہتا ہوں، اور اسی وقت، میں تمام لوگوں کے دلوں میں توجہ کا مرکز ہوتا ہوں۔ اس وجہ سے، لوگ مجھے مختلف کے طور پر دیکھتے ہیں، یہ مانتے ہیں کہ میں غیر معمولی ہوں، یا یہ کہ میں ناقابل ادراک ہوں – اور اس کے نتیجے میں، مجھ پر ان کا اعتماد روز بروز زیادہ مضبوط ہوتا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ میں نے تیسرے آسمان پر ٹیک لگا کر کائنات کے تمام لوگوں اور چیزوں کا مشاہدہ کیا۔ جب میں سوتا ہوں تو لوگ خاموش ہو جاتے ہیں اور میرے آرام میں خلل ڈالنے سے بہت ڈرتے ہیں۔ جب میں جاگتا ہوں تو وہ فوراً پرجوش ہو جاتے ہیں، گویا وہ خاص طور پر مجھے خوش کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ کیا زمین پر لوگوں کا میرے ساتھ یہ رویہ نہیں ہے؟ آج کے لوگوں میں کون ہے جو مجھے آسمان میں اور زمین پر ایک کے طور پر دیکھتا ہے؟ آسمان میں کون میری تعظیم نہیں کرتا؟ اور زمین پر کون مجھے حقیر نہیں سمجھتا؟ انسان کیوں ہمیشہ مجھے ٹکڑے ٹکرے کرتا ہے؟ انسان ہمیشہ میرے بارے میں دو مختلف رویے کیوں رکھتا ہے؟ کیا زمین پر مجسم خدا وہ خدا نہیں ہے جو آسمان میں سب پر حکمرانی کرتا ہے؟ کیا آسمان والا میں اب زمین پر نہیں ہوں؟ لوگ کیوں مجھے دیکھتے تو ہیں لیکن مجھے جانتے نہیں؟ آسمان اور زمین کے درمیان اتنا فاصلہ کیوں ہے؟ کیا یہ چیزیں انسان کے لیے زیادہ گہرائی سے جانچنے کے لائق نہیں ہیں؟
جب میں اپنا کام کرتا ہوں، اور اس وقت کے دوران جب میں کلمات کہتا ہوں، تو لوگ اس میں ہمیشہ ”ذائقہ“ شامل کرنا چاہتے ہیں، گویا ان کی سونگھنے کی حس میری نسبت زیادہ شدید ہے، گویا وہ مضبوط ذائقے کو ترجیح دیتے ہیں، اور گویا میں اس سے ناواقف ہوں کہ انسان کو کس چیز کی ضرورت ہے، اور اس طرح انسان کو میرے کام کو ”تقویت“ دینے کے لیے ”تکلیف“ اٹھانی چاہیے۔ میں جان بوجھ کر لوگوں کی مثبت کیفیت کو کم نہیں کرتا، لیکن ان سے کہتا ہوں کہ وہ مجھے جاننے کی بنیاد پر خود کو صاف کریں۔ چونکہ ان میں بہت زیادہ کمی ہے، اس لیے میں تجویز کرتا ہوں کہ وہ مزید کوشش کریں، اور اس طرح میرے دل کو مطمئن کرنے کے لیے اپنی کمی کی تلافی کریں۔ لوگ کبھی مجھے اپنے تصورات میں جانتے تو تھے، لیکن اس سے بالکل بے خبر تھے، اور یوں ان کی محبت ریت کو سونا سمجھتی تھی۔ جب میں نے انھیں یاددہانی کروائی تو انہوں نے صرف اس کا کچھ حصہ چھوڑ دیا، لیکن چھوڑے گئے حصے کو چاندی اور سونے کی چیزوں سے بدلنے کی بجائے، انہوں نے اس حصے سے لطف اندوز ہونا جاری رکھا جو ابھی تک ان کے ہاتھ میں ہے – اور اس کے نتیجے میں، وہ میرے سامنے ہمیشہ عاجز اور صابر رہتے ہیں؛ چونکہ ان کے خیالات بہت زیادہ ہیں اس لیے وہ میرے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے قابل نہیں ہیں۔ اس طرح، میں نے فیصلہ کیا کہ انسان کے پاس جو کچھ ہے اور جو کچھ وہ خود ہے اسے چھین کر بہت دور پھینک دوں، تاکہ سب میرے ساتھ رہ سکیں اور مجھ سے مزید الگ نہ ہوں۔ یہ میرے کام کی وجہ سے ہے کہ آدمی میرے ارادے کو نہیں سمجھتا۔ کچھ کا خیال ہے کہ میں دوسری بار اپنا کام ختم کر کے انھیں جہنم میں ڈال دوں گا۔ کچھ کا خیال ہے کہ میں بولنے کا ایک نیا طریقہ اختیار کروں گا، اور ان میں سے زیادہ تر خوف سے کانپتے ہیں: وہ سخت خوفزدہ ہیں کہ میں اپنا کام ختم کردوں گا اور انھیں چھوڑ دوں گا اور ان کے لیے کہیں جانے کا کوئی راستہ نہیں چھوڑوں گا، اور شدید خوفزدہ ہیں کہ میں انھیں ایک مرتبہ پھر چھوڑ دوں گا۔ لوگ میرے نئے کام کا اندازہ لگانے کے لیے ہمیشہ پرانے تصورات استعمال کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ لوگوں نے اس طریقے کو کبھی نہیں سمجھا جس کے ذریعے میں کام کرتا ہوں – کیا وہ اس وقت اپنے بارے میں اچھی طرح بیان کر سکتے ہیں؟ کیا لوگوں کے پرانے خیالات میرے کام میں خلل ڈالنے والے ہتھیار نہیں ہیں؟ جب میں لوگوں سے بات کرتا ہوں تو وہ ہمیشہ میری نظروں سے گریز کرتے ہیں، اس بات سے سخت خوفزدہ ہوتے ہیں کہ میری نظریں ان پر جم جائیں گی۔ چنانچہ، وہ اپنا سر جھکا لیتے ہیں، گویا مجھ سے معائنہ کروانا قبول کر رہے ہیں – اور کیا یہ ان کے خیالات کی وجہ سے نہیں ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ میں نے آج تک اپنے آپ کو عاجز بنائے رکھا ہے لیکن کسی نے کبھی غور نہیں کیا؟ کیا مجھے انسان کے لیے جھکنا لازمی ہے؟ میں آسمان سے زمین پر آیا، میں بلندی سے ایک خفیہ جگہ پر اترا، اور انسان کے درمیان آیا اور جو کچھ میرے پاس ہے اور جو کچھ میں خود ہوں، اس پر ظاہر کیا۔ میرا کلام مخلص اور سنجیدہ، صابر اور مہربان ہے – لیکن کس نے دیکھا ہے کہ میں کیا ہوں اور میرے پاس کیا ہے؟ کیا میں اب بھی انسان سے پوشیدہ ہوں؟ میرے لیے انسان سے ملنا اتنا مشکل کیوں ہوتا ہے؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اپنے کام میں بہت زیادہ مصروف ہوتے ہیں؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اپنی ذمہ داریوں میں کوتاہی کر رہا ہوں اور لوگ سب اپنی کامیابی کی جستجو کو بہت اہمیت دیتے ہیں؟
لوگوں کے ذہنوں میں، خدا خدا ہے، اور اس کے ساتھ آسانی سے مشغول نہیں ہوا جا سکتا، جبکہ انسان انسان ہے، اور اسے آسانی سے آوارہ منش نہیں بننا چاہیے – اس کے باوجود لوگوں کے اعمال اب بھی میرے سامنے نہیں لائے جا سکتے۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ میری ضروریات بہت زیادہ ہوں؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ انسان بہت کمزور ہو؟ لوگ ہمیشہ ان معیارات کو کیوں دیکھتے ہیں جن کی مجھے قطعاً ضرورت نہیں ہے؟ کیا وہ انسان کے لیے واقعی ناقابلِ حصول ہیں؟ میری ضروریات کا حساب لوگوں کے ”دستور“ کی بنیاد پر لگایا جاتا ہے اور اس طرح کبھی بھی انسان کی حیثیت سے تجاوز نہیں کیا – لیکن اس کے باوجود، لوگ میرے مطلوبہ معیارات کو حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ لاتعداد بار مجھے انسانوں میں چھوڑ دیا گیا ہے، ان گنت بار لوگوں نے مجھے طنزیہ نظروں سے دیکھا ہے، گویا میرا جسم کانٹوں سے ڈھکا ہوا ہے اور ان کے لیے نفرت انگیز ہے، اور اس طرح لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں، اور یقین کرتے ہیں کہ میری کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس طرح انسان مجھے آگے پیچھے دھکے دیتا ہے۔ لاتعداد بار لوگ مجھے کم قیمت پر گھر لے آئے ہیں اور ان گنت بار انہوں نے مجھے مہنگے داموں فروخت کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں خود کو اس حالت میں پاتا ہوں جس میں، میں آج موجود ہوں۔ ایسا لگتا ہے جیسے لوگ ابھی تک میرے لیے سازشیں تیار کر رہے ہیں؛ ان میں سے اکثر اب بھی مجھے کروڑوں ڈالر کے منافع میں بیچنا چاہتے ہیں، کیونکہ انسان نے کبھی مجھے عزیز نہیں رکھا ہے۔ یہ ایسے ہے گویا میں لوگوں کے درمیان ایک مصالحت کار بن گیا ہوں، یا ایک جوہری ہتھیار جس سے وہ آپس میں لڑتے ہیں، یا ان کے درمیان کوئی معاہدہ ہوا ہے – اور اس کے نتیجے میں، میں، مجموعی طور پر، انسان کے دل میں مجموعی طور پر بالکل ہی بےاہمیت ہوں، میں ایک غیر ضروری گھریلو شے ہوں۔ پھر بھی میں اس کی وجہ سے انسان کی ملامت نہیں کرتا؛ میں انسان کو بچانے کے سوا کچھ نہیں کرتا، اور ہمیشہ انسان کے ساتھ ہمدردی کرتا رہا ہوں۔
لوگوں کا خیال ہے کہ جب میں لوگوں کو جہنم میں ڈالوں گا تو مجھے سکون ملے گا، گویا میں خاص طور پر جہنم کے ساتھ ایک سودا کر رہا ہوں، اور گویا میں کوئی ایسا شعبہ ہوں جو لوگوں کو بیچنے میں ماہر ہے، گویا میں لوگوں کو دھوکا دینے کا ماہر ہوں اور جب وہ میرے قابو میں آ جائیں گے تو میں انھیں زیادہ قیمت پر بیچ دوں گا۔ لوگوں کے منہ یہ نہیں کہتے، لیکن اپنے دلوں میں وہ اسی پر یقین رکھتے ہیں۔ اگرچہ وہ سب مجھ سے محبت کرتے ہیں، لیکن وہ چھپ کر ایسا کرتے ہیں۔ کیا میں نے ان کی اس تھوڑی سی محبت کی خاطر اتنی بڑی قیمت ادا کی ہے اور اتنا خرچ کیا ہے؟ لوگ دھوکے باز ہیں، اور میں ہمیشہ دھوکا کھانے والے کا کردار ادا کرتا ہوں۔ ایسا لگتا ہے جیسے میں بہت بے وقوف ہوں: ایک بار جب وہ یہ کمزور مقام دیکھ لیتے ہیں، تو وہ مجھے دھوکا دیتے رہتے ہیں۔ میرے منہ سے نکلے کلام کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے یا ان پر بے ترتیب لیبل چسپاں کیے جائیں – یہ انسان کی حقیقت ہیں۔ شاید میرا کچھ کلام ”حد سے نکل جاتا ہے“، ایسی صورت میں، میں صرف لوگوں سے معافی کی ”التجا“ ہی کر سکتا ہوں؛ کیونکہ میں انسان کی زبان میں ”ماہر“ نہیں ہوں، اس لیے میں جو کچھ کہتا ہوں وہ لوگوں کے مطالبات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ شاید میرا کچھ کلام لوگوں کے دلوں کو چھید دیتا ہے، اس لیے میں صرف ”التجا“ ہی کر سکتا ہوں کہ وہ برداشت کریں؛ کیونکہ میں انسان کی زندگی کے فلسفے میں ماہر نہیں ہوں اور میرے بولنے کے طریقے کے بارے میں کوئی خاص بات نہیں ہے، میرا بہت سا کلام لوگوں میں شرمندگی پیدا کر سکتا ہے۔ شاید میرا کچھ کلام لوگوں کی بیماری کی جڑ سے بات کرتا ہے اور ان کی بیماری کو ظاہر کرتا ہے، لہذا میں تجھے مشورہ دیتا ہوں کہ جو دوائیاں میں نے تیرے لیے تیار کی ہیں، ان میں سے کچھ لے، کیونکہ میرا تجھے تکلیف دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور اس دوائی کے کوئی ذیلی اثرات نہیں ہیں۔ شاید میرا کچھ کلام ”حقیقت پسندانہ“ نہیں لگتا، لیکن میں لوگوں سے ”التجا“ کرتا ہوں کہ وہ گھبرائیں نہیں – میں ہاتھ پاؤں کا ”پھرتیلا“ نہیں ہوں، اس لیے میرے کلام پر عمل کرنا ابھی باقی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ لوگ مجھے ”برداشت“ کریں۔ کیا یہ کلام انسان کے لیے مددگار ہے؟ مجھے امید ہے کہ لوگ اس کلام سے کچھ حاصل کر سکتے ہیں، تاکہ میرا کلام ہمیشہ ہی رائیگاں نہ جائے!
9 اپریل 1992