باب 30

کچھ لوگوں کو خدا کے کلام کی تھوڑی سی بصیرت ہو سکتی ہے، لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنے جذبات پر اعتماد نہیں کرتا؛ وہ منفی کیفیت میں گرنے سے بہت ڈرتے ہیں۔ چنانچہ، انہوں نے خوشی اور غم کا ہمیشہ باری باری تجربہ کیا ہے۔ یہ کہنا مناسب ہے کہ تمام لوگوں کی زندگیاں غم سے بھری ہوئی ہیں؛ اس سے ایک قدم آگے بڑھانے کے لیے تمام لوگوں کی روزمرہ کی زندگیوں میں تزکیہ ہوتا ہے، پھر بھی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ کوئی بھی ہر روز اپنی روح میں کوئی سکون حاصل نہیں کرتا اور یہ ایسے ہے گویا تین بڑے پہاڑ ان کے سروں کو دبا رہے ہوں۔ ان میں سے کسی ایک کی زندگی بھی ہر وقت خوش اور مسرت بھری نہیں ہوتی ہے – اور جب وہ تھوڑا خوش بھی ہوتے ہیں، تو بھی وہ صرف ظاہری طور پر ایسا نظر آنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ کسی نامکمل چیز کا احساس رہتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے دلوں میں مستقل مزاج نہیں ہیں؛ اس طرح زندگی گزارنے سے چیزیں کھوکھلی اور غیر منصفانہ محسوس ہوتی ہیں اور جب خدا پر یقین کی بات آتی ہے تو وہ مصروف ہوتے ہیں اور ان کے پاس وقت کی کمی ہوتی ہے، یا ان کے پاس خدا کے کلام کو کھانے اور پینے کا وقت نہیں ہوتا، یا انھیں معلوم نہیں ہوتا کہ خدا کے کلام کو صحیح طریقے سے کیسے کھانا اور پینا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی اپنے دل میں پرسکون، روشن اور مستقل مزاج نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ ہمیشہ ابر آلود آسمان کے نیچے رہتے ہیں، گویا وہ ایسی جگہ رہتے ہیں جو آکسیجن کے بغیر ہے، اور اس کی وجہ سے ان کی زندگیوں میں الجھن پیدا ہو گئی ہے۔ خدا ہمیشہ لوگوں کی کمزوریوں کے متعلق براہ راست بات کرتا ہے، وہ ہمیشہ ان کی دکھتی رگ پکڑتا ہے – کیا تم نے واضح طور پر وہ لہجہ نہیں دیکھا جس کے ساتھ اس نے مسلسل بات کی ہے؟ خدا نے کبھی بھی لوگوں کو توبہ کا موقع نہیں دیا، اور وہ تمام لوگوں کو بغیر آکسیجن کے ”چاند“ پر رہنے دیتا ہے۔ شروع سے لے کر آج تک، ظاہری طور پر خدا کے کلام نے انسان کی فطرت کو بے نقاب کیا ہے، لیکن کوئی بھی اس کلام کے جوہر کو واضح طور پر نہیں دیکھ سکتا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے مادّے کو ظاہر کرنے سے لوگ اپنے آپ کو پہچاننے لگتے ہیں اور اس طرح خدا کو پہچاننے لگتے ہیں، پھر بھی بنیادی طور پر یہ راستہ نہیں ہے۔ خدا کے کلام کا لہجہ اور زیادہ گہرائی خدا اور انسان کے درمیان واضح فرق کو ظاہر کرتی ہے۔ ان کے احساسات میں، یہ لوگوں سے لاشعوری طور پر یہ منواتا ہے کہ خدا ماورائے رسائی اور ناقابل رسائی ہے؛ خدا ہر چیز کو کھلے عام سامنے لاتا ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی اس قابل نہیں ہے کہ خدا اور انسان کے درمیان تعلقات کو واپس اس جیسا کر دے جیسے یہ پہلے کبھی ہوا کرتے تھے۔ یہ دیکھنا مشکل نہیں ہے کہ خدا کے تمام کلمات کا مقصد تمام لوگوں کو ”گرانے“ کے لیے کلام استعمال کرنا ہے، اس طرح اپنا کام پورا کرنا ہے۔ یہ خدا کے کام کے مراحل ہیں۔ اس کے باوجود لوگ اپنے ذہنوں میں اس پر یقین نہیں رکھتے۔ انھیں یقین ہے کہ خدا کا کام اپنے عروج کے قریب پہنچ رہا ہے، کہ عظیم سرخ اژدہے پر فتح حاصل کرنے کے لیے یہ اپنے سب سے زیادہ واضح اثر کے قریب پہنچ رہا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کلیسیاؤں کو خوب پھیلا رہا ہے، جس میں کسی کے بھی مجسم خدا یا سب لوگوں کے خدا کو جاننے کے بارے میں تصورات نہیں ہیں۔ پھر بھی آؤ پڑھتے ہیں کہ خدا کیا کہتا ہے: ”لوگوں کے ذہنوں میں، خدا خدا ہے، اور اس کے ساتھ آسانی سے مشغول نہیں ہوا جا سکتا، جبکہ انسان انسان ہے، اور اسے آسانی سے آوارہ منش نہیں بننا چاہیے۔ ۔۔۔ اس کے نتیجے میں، وہ میرے سامنے ہمیشہ عاجز اور صابر رہتے ہیں؛ چونکہ ان کے خیالات بہت زیادہ ہیں اس لیے وہ میرے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے قابل نہیں ہیں۔“ اس سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ، قطع نظر اس کے کہ خدا کیا کہتا ہے یا انسان کیا کرتا ہے، لوگ خدا کو جاننے سے بالکل قاصر ہیں؛ اپنے مادّے کے ذریعے ادا کردہ کردار کی وجہ سے، چاہے کچھ بھی ہو، وہ آخر میں، خدا کو جاننے سے قاصر ہوتے ہیں۔ چنانچہ، خدا کا کام اس وقت ختم ہو گا جب لوگ خود کو جہنم کے بیٹوں کے طور پر دیکھیں گے۔ خدا کو اپنے پورے انتظام کو ختم کرنے کے لیے لوگوں پر اپنا غضب نازل کرنے، یا ان کی براہ راست مذمت کرنے، یا آخر کار انھیں موت کی سزا دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وہ محض اپنی رفتار سے چھوٹی موٹی باتوں میں مشغول رہتا ہے، گویا اس کے کام کی تکمیل ضمنی ہے، یہ کوئی ایسی چیز ہے جو اس کے فارغ وقت میں بغیر کسی کوشش کے پوری ہو جاتی ہے۔ ظاہری طور پر، خدا کے کام میں کچھ عجلت دکھائی دیتی ہے – پھر بھی خدا نے کچھ نہیں کیا ہے، وہ بولنے کے سوا کچھ اور نہیں کرتا۔ کلیسیاؤں کے درمیان کام اتنے بڑے پیمانے پر نہیں ہے جتنا گزرے ہوئے وقتوں میں تھا: خدا لوگوں کو شامل نہیں کرتا، یا ان کو نکالتا نہیں ہے، یا انھیں ننگا نہیں کرتا ہے – ایسا کام انتہائی غیر اہم ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے خدا کا ایسا کام کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ وہ اس میں سے محض تھوڑا سا کہتا ہے جو اسے کہنا چاہیے تھا، جس کے بعد وہ مڑ کر کوئی سراغ چھوڑے بغیر غائب ہو جاتا ہے – جو کہ قدرتی طور پر اس کے کلمات کی تکمیل کا منظر ہے۔ اور جب یہ لمحہ آئے گا تو تمام لوگ اپنی گہری نیند سے بیدار ہوں گے۔ نوع انسانی ہزاروں سالوں سے سستی کی گہری نیند میں ہے، وہ ہر وقت ایک نیند آور دوا کے زیر اثر ہے۔ اور کئی سالوں سے، لوگ اپنے خوابوں میں ادھر ادھر بھاگتے رہے ہیں، اور وہ اپنے خوابوں میں چیختے بھی ہیں، مگر اپنے دل میں ہونے والی ناانصافی پر بات کرنے سے قاصر ہیں۔ چنانچہ، وہ ”اپنے دلوں میں کچھ اداسی محسوس کرتے ہیں“ – لیکن جب وہ بیدار ہوں گے، تو وہ اصلی حقائق کو دریافت کر لیں گے، اور اچانک حیرت سے چیخیں گے: ”تو یہ ہے جو ہو رہا ہے!“ اس طرح کہا جاتا ہے کہ ”آج، زیادہ تر لوگ اب بھی گہری نیند میں ہیں۔ صرف جب بادشاہی کے ترانے کی آواز آتی ہے تو تب ہی وہ اپنی نیند بھری آنکھیں کھولتے ہیں اور اپنے دلوں میں کچھ اداسی محسوس کرتے ہیں۔“

کسی کی روح کبھی بھی آزاد نہیں ہوئی، کسی کی روح کبھی بھی بے فکر اور خوش نہیں رہی۔ جب خدا کا کام مکمل طور پر ختم ہو جائے گا تو لوگوں کی روحیں آزاد ہو جائیں گی، کیونکہ ہر ایک کی قسم کے مطابق درجہ بندی کر دی گئی ہو گی، اور اس طرح وہ سب اپنے دلوں میں مستقل مزاج رہیں گے۔ یہ ایسے ہے گویا لوگ دور دراز علاقوں کے کسی سفر پر ہیں اور جب وہ گھر لوٹتے ہیں تو ان کے دل مستقل مزاج ہو جاتے ہیں۔ گھر پہنچنے پر لوگ مزید یہ محسوس نہیں کریں گے کہ دنیا کھوکھلی اور غیر منصفانہ ہے، بلکہ وہ اپنے گھروں میں سکون سے رہیں گے۔ تمام بنی نوع انسان کے ایسے ہی حالات ہوں گے۔ لہٰذا، خُدا کہتا ہے کہ اسی لیے ”لوگ خود کو کبھی بھی شیطان کی غلامی سے آزاد کروانے کے قابل نہیں رہے۔“ جسم کی حالت میں رہتے ہوئے کوئی بھی اس حالت سے خود کو نہیں نکال سکتا۔ انسان کی مختلف حقیقی حالتوں کے بارے میں خدا جو کہتا ہے، اس وقت ہم اسے ایک طرف رکھتے ہیں، اور صرف ان اسرار پر بات کرتے ہیں جو خدا نے ابھی تک انسان پر ظاہر کرنے ہیں۔ ”ان گنت بار لوگوں نے مجھے طنزیہ نظروں سے دیکھا ہے، گویا میرا جسم کانٹوں سے ڈھکا ہوا ہے اور ان کے لیے نفرت انگیز ہے، اور اس طرح لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں، اور یقین کرتے ہیں کہ میری کوئی اہمیت نہیں ہے۔“ اس کے برعکس، انسان کی اصلیت خدا کے کلام میں ظاہر ہوتی ہے: انسان شہپروں میں ڈھکا ہوا ہے، اس کے لیے کوئی چیز خوش کن نہیں، اور اس طرح انسان سے خدا کی نفرت بڑھ جاتی ہے، کیونکہ انسان ڈھکی ہوئی ریڑھ کی ہڈی والے خارپشت کے سوا کچھ نہیں ہے جس میں کوئی قابل تعریف چیز نہیں ہوتی۔ سطحی طور پر، یہ کلام خدا کے بارے میں انسان کے تصورات کو بیان کرتا نظر آتا ہے – لیکن حقیقت میں، خدا اس کی شبیہ کی بنیاد پر انسان کی تصویر بنا رہا ہے۔ یہ کلام خدا کی طرف سے انسان کی تصویر کشی ہے، اور یہ ایسے ہی ہے جیسے خدا نے انسان کی شبیہہ پر رنگوں کو محفوظ کرنے کے لیے ایک کیمیائی مادہ چھڑک دیا ہے؛ چنانچہ، انسان کی تصویر کائنات میں بلند ہوتی ہے، اور یہاں تک کہ لوگوں کو حیران کر دیتی ہے۔ جب سے اُس نے بولنا شروع کیا ہے، اس وقت سے خُدا اپنی افواج کو انسان کے ساتھ ایک عظیم جنگ کے لیے ترتیب دے رہا ہے۔ وہ یونیورسٹی کے الجبرا کے ایک پروفیسر کی طرح ہے جو انسان کے لیے حقائق بیان کر رہا ہے، اور جو حقائق اس نے درج کیے ہیں ان سے کیا ثابت ہوتا ہے – ثبوت اور جوابی ثبوت – تمام لوگوں کو مکمل طور پر قائل کر دیتے ہیں۔ یہ خدا کے تمام کلام کا مقصد ہے، اور یہی وجہ ہے کہ خدا اتفاقاً یہ پراسرار کلام انسان پر پھینک دیتا ہے: ”میں، مجموعی طور پر، انسان کے دل میں بالکل ہی بےاہمیت ہوں، میں ایک غیر ضروری گھریلو شے ہوں۔“ ان کلمات کو پڑھنے کے بعد، لوگ اپنے دل میں دعا کیے بغیر نہیں رہ سکتے، اور انھیں اس کا علم ہو جاتا ہے کہ وہ خدا کے مقروض ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو ملامت کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انسان کو مر جانا چاہیے، اور اس کی ذرا سی قدر و قیمت بھی نہیں ہے۔ خدا کہتا ہے، ”یہی وجہ ہے کہ میں خود کو اس حالت میں پاتا ہوں جس میں، میں آج موجود ہوں،“ جو جب آج کے حقیقی حالات سے منسلک ہوتا ہے تو لوگوں کا خود اپنے آپ کو ملامت کرنے کا سبب بنتا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟ اگر تجھے اپنے آپ کو جاننے کے لیے بنایا گیا ہے، تو کیا ایسے الفاظ ”مجھے واقعی مر جانا چاہیے!“ تیرے منہ سے نکل سکتے ہیں؟ انسان کے حقیقی حالات ایسے ہی ہیں، اور یہ بہت زیادہ سوچنے کے لائق نہیں ہیں – یہ بالکل ایک موزوں مثال ہے۔

ایک لحاظ سے، جب خدا انسان سے معافی اور برداشت کی درخواست کرتا ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ خدا ان کا مذاق اڑا رہا ہے، اور دوسرے لحاظ سے، وہ خود اپنی سرکشی کو بھی دیکھتے ہیں – وہ صرف اس انتظار میں ہیں کہ خدا انسان کے لیے اپنی انتہائی کوشش کرے۔ اس کے علاوہ، لوگوں کے تصورات کی بات کرتے ہوئے، خدا کہتا ہے کہ وہ انسان کے فلسفہ زندگی یا انسان کی زبان میں ماہر نہیں ہے۔ چنانچہ، ایک لحاظ سے تو یہ لوگوں کو اس کلام کا عملی خدا سے موازنہ کرنے پر مجبور کرتا ہے، اور دوسرے لحاظ سے، وہ خدا کے کلام میں اس کا ارادہ دیکھتے ہیں – کیونکہ خدا انسان کا اصل چہرہ بےنقاب کر رہا ہے اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ خدا ان کا مذاق اڑا رہا ہے اور وہ اصل میں لوگوں کو خدا کے حقیقی حالات کے بارے میں نہیں بتا رہا ہے۔ خدا کے کلام کے جبلی معنی انسان کی تضحیک، طنز، تمسخر اور نفرت سے بھرے ہوئے ہیں۔ گویا وہ جو سب کچھ کرتا ہے، اس میں انسان قانون کو بگاڑ رہا ہے اور رشوت لے رہا ہے۔ لوگ کسبی ہیں، اور جب خدا بولنے کے لیے اپنا منہ کھولتا ہے، تو وہ دہشت سے کانپ جاتے ہیں، اس بات سے بہت ڈرتے ہیں کہ ان کے بارے میں سچائی مکمل طور پر بےنقاب ہو جائے گی، اور وہ اتنے شرمندہ ہو جائیں گے کہ کسی کا سامنا نہیں کر سکیں گے۔ لیکن حقائق حقائق ہوتے ہیں۔ خدا انسان کی ”توبہ“ کی وجہ سے اپنے کلمات کہنا ختم نہیں کرتا ہے۔ لوگ جتنے ناقابل بیان حد تک شرمندہ اور منفعل ہوتے ہیں، خدا اپنی جلتی ہوئی نگاہیں ان کے چہروں پر اتنا ہی زیادہ جما لیتا ہے۔ اس کے منہ سے نکلا کلام انسان کے تمام بدصورت اعمال کو میز پر رکھ دیتا ہے – یہ منصف اور غیر جانبدار ہونا ہے، اسے شنگتیان[ا] کہتے ہیں، یہ لوگوں کی اعلیٰ ترین عدالت کا فیصلہ ہے۔ چنانچہ، جب لوگ خدا کا کلام پڑھتے ہیں تو انھیں اچانک دل کا دورہ پڑ جاتا ہے، ان کا فشار خون بڑھ جاتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ دل کی بیماری میں مبتلا ہیں، جیسے کوئی مرگی کا دورہ انھیں مغربی جنت میں اپنے آباؤ اجداد کے ساتھ ملنے کے لیے واپس بھیجنے والا ہے – جب وہ خدا کا کلام پڑھتے ہیں تو یہ ردعمل ہوتا ہے۔ انسان برسوں کی مشقت سے کمزور ہو جاتا ہے، وہ اندر اور باہر سے بیمار ہوتا ہے، اس کے دل سے لے کر خون کی نالیوں تک، بڑی آنت، چھوٹی آنت، معدہ، پھیپھڑے، گردے وغیرہ، اس کا سب کچھ بیمار ہے۔ اس کے پورے جسم میں کچھ بھی صحت مند نہیں ہے۔ اس طرح، خدا کا کام اس سطح تک نہیں پہنچتا جو انسان کے لیے ناقابل حصول ہو، بلکہ لوگوں کے خود اپنے آپ کو جاننے کا سبب بنتا ہے۔ کیونکہ انسان کے جسم کو وائرس نے گھیر لیا ہے، اور چونکہ وہ بوڑھا ہو چکا ہے، اس لیے اس کی موت کا دن قریب آ رہا ہے، اور واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ لیکن یہ کہانی کا صرف ایک حصہ ہے؛ چونکہ انسان کی بیماری کا ذریعہ تلاش کیا جا رہا ہے اس لیے باطنی مفہوم ابھی ظاہر ہونا باقی ہے۔ درحقیقت، خدا کا کام مکمل طور پر ختم ہونے کا وقت وہ وقت نہیں ہے جب زمین پر اس کا کام مکمل ہوتا ہے، کیونکہ جب کام کا یہ مرحلہ ختم ہو جائے گا تو جسم کی حالت میں مستقبل کے کام کو انجام دینے کا کوئی طریقہ نہیں رہے گا۔ اور اسے مکمل کرنے کے لیے خدا کی روح کی ضرورت ہو گی۔ چنانچہ، خدا کہتا ہے، ”جب میں رسمی طور پر طومار کھولتا ہوں، یعنی جب پوری کائنات میں لوگوں کو سزا دی جاتی ہے، وہ وقت جب میرا کام اپنے عروج پر پہنچتا ہے، جب پوری دنیا کے لوگ آزمائشوں کا شکار ہوتے ہیں۔“ جسم کی حالت میں کام ختم ہونے کا وقت خدا کے کام کا اپنے عروج پر پہنچنے کا وقت نہیں ہوتا ہے – اس وقت کا عروج صرف اس مرحلے کے دوران ہونے والے کام کا حوالہ ہے، اور پورے انتظامی منصوبے کا عروج نہیں ہے۔ چنانچہ، خدا کے انسان سے تقاضے زیادہ نہیں ہیں۔ وہ صرف یہ کہتا ہے کہ لوگ اپنے آپ کو جانیں، اس طرح کام کے اگلے مرحلے کی خدمت کریں، جس میں خدا کی مرضی حاصل ہو چکی ہو گی۔ جیسے جیسے خدا کا کام تبدیل ہوتا ہے، لوگوں کے ”کام کی اکائی“ تبدیل ہو جاتی ہے۔ آج زمین پر خدا کے کام کا مرحلہ ہے، اور اس طرح انھیں لازمی طور پر نچلی سطح پر کام کرنا چاہیے۔ مستقبل میں، قوم کا نظم و نسق کرنا ضروری ہو گا، اور اس طرح انھیں دوبارہ ”مرکزی کمیٹی“ کے سپرد کر دیا جائے گا۔ اگر وہ بیرون ملک جاتے ہیں تو انھیں بیرون ملک جانے کے طریقہ کار سے نمٹنا پڑے گا۔ ایسے وقت میں وہ بیرون ملک ہوں گے، اپنے وطن سے بہت دور – لیکن یہ پھر بھی خدا کے کام کے تقاضوں کی وجہ سے ہو گا۔ جیسا کہ لوگوں نے کہا ہے، ”ضرورت پڑنے پر ہم خدا کے لیے اپنی جانیں دے دیں گے“ – کیا یہ وہ راستہ نہیں ہے جس پر مستقبل میں چلنا ہو گا؟ کون کبھی ایسی زندگی سے لطف اندوز ہوا ہے؟ کوئی بھی ہر جگہ سفر کر سکتا ہے، بیرون ملک کا دورہ کر سکتا ہے، دیہی علاقوں میں راہنمائی فراہم کر سکتا ہے، خود کو عام لوگوں میں ضم کر سکتا ہے، اور وہ اعلیٰ سطحی تنظیموں کے ارکان کے ساتھ ملک کے اہم معاملات پر بھی بات کر سکتا ہے؛ اور جب ضروری ہو تو وہ ذاتی طور پر جہنم کی زندگی کا مزہ چکھ سکتا ہے، جس کے بعد وہ لوٹ سکتا ہے اور پھر بھی آسمانی نعمتوں سے لطف اندوز ہو سکتا ہے – کیا یہ انسان کی نعمتیں نہیں ہیں؟ کس نے کبھی خدا کے ساتھ موازنہ کیا ہے؟ کس نے کبھی تمام قوموں میں سفر کیا ہے؟ درحقیقت، لوگ بغیر کسی اشاروں یا وضاحت کے خدا کا کچھ کلام سمجھنے کے قابل ہو جائیں گے – یہ صرف ایسے ہے کہ انھیں اپنے آپ پر کوئی اعتماد نہیں ہے، جس کی وجہ سے خدا کے کام کو آج تک پھیلا دیا گیا ہے۔ کیونکہ لوگوں میں بہت زیادہ کمی ہے – جیسا کہ خدا نے کہا، ”ان کے پاس کچھ نہیں ہے“ – آج کا کام ان کے لیے بہت زیادہ مشکلات پیدا کرتا ہے؛ اور اس بڑھ کر، ان کی کمزوری نے، قدرتی طور پر، خدا کے منہ کو روک دیا ہے – اور کیا یہ چیزیں بالکل وہی نہیں ہیں جو خدا کے کام میں رکاوٹ بن رہی ہیں؟ کیا تم اب بھی یہ نہیں دیکھ سکتے؟ سب کچھ جو خدا کہتا ہے اس میں معنی پوشیدہ ہیں۔ جب خُدا بولتا ہے، تو وہ مسئلے کو ہاتھ میں لے لیتا ہے، اور ایک افسانے کی طرح، اُس کا کہا گیا تمام کلام گہرا پیغام رکھتا ہے۔ یہ سادہ کلام گہرے معنی پر مشتمل ہے، اور اس طرح اہم مسائل کی وضاحت کرتا ہے – کیا یہ وہی نہیں ہے جو خدا کا کلام بہترین انداز میں کرتا ہے؟ کیا تجھے اس کا علم ہے؟

حاشیہ:

ا۔ شنگتیان: یہ اصطلاح چین کے شاہی دور میں ایک راستباز قاضی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

سابقہ: باب 29

اگلا: باب 30

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp