باب 29
لوگوں کے ذریعے کیے گئے کام میں سے کچھ تو خدا کی براہ راست ہدایت کے ساتھ کیے جاتے ہیں، لیکن اس کا ایک حصہ ایسا بھی ہوتا ہے جس کے لئے خدا مخصوص ہدایات نہیں دیتا، اور یہ کافی حد تک ظاہر کرتا ہے کہ خدا کی طرف سے جو کیا گیا ہے، اسے آج، ابھی تک، مکمل طور پر آشکار ہونا باقی ہے - کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بہت کچھ پوشیدہ ہے اور ابھی اسے لوگوں کے سامنے ظاہر ہونا باقی ہے۔ تاہم، کچھ چیزوں کو لوگوں پر ظاہر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ دوسری چیزیں لوگوں کو الجھن میں ڈالنے اور پریشان کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ یہ وہی ہے جس کی خدا کے کام کے لیے ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، خدا کی آسمان سے انسان کے درمیان آمد – وہ کیسے پہنچا، وہ کس وقت پہنچا، یا کیا آسمان اور زمین اور تمام چیزیں تبدیلی سے گزریں یا نہیں – یہ چیزیں لوگوں کو الجھن میں ڈال دیتی ہیں۔ یہ بھی حقیقی حالات پر مبنی ہے، کیونکہ انسانی جسم خود روحانی دنیا میں براہ راست داخل ہونے سے قاصر ہے۔ اسی طرح، اگر خدا واضح طور پر بھی بتاتا ہے کہ وہ آسمان سے زمین پر کیسے آیا، یا جب وہ کہتا ہے، "جس دن تمام چیزوں کو دوبارہ زندہ کیا گیا، میں انسان کے درمیان آیا، اور میں نے اس کے ساتھ بہت عمدہ دن اور راتیں گزاری ہیں،" تو بھی اس طرح کے الفاظ ایسے ہی ہیں جیسے کوئی درخت کے تنے سے بات کر رہا ہو - یعنی کوئی معمولی سا ردعمل بھی نہیں ہوتا ہے، اور ایسا اس لیے ہے کہ لوگ خدا کے کام کے مراحل سے ہی ناواقف ہیں۔ یہاں تک کہ جب وہ صحیح معنوں میں باخبر ہو جاتے ہیں، تو بھی وہ یہی یقین رکھتے ہیں کہ خدا ایک پری کی مانند اُڑ کر آسمان سے نیچے زمین پر آیا اور انسانوں میں دوبارہ پیدا ہو گیا۔ جو چیز انسان کے خیالات سے حاصل ہو سکتی ہے وہ یہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا مادّہ ایسا ہے کہ وہ خدا کے جوہر کو سمجھنے سے قاصر ہے، اور روحانی دنیا کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ چونکہ لوگ فطری طور پر ایک جیسے ہوتے ہیں اور مختلف نہیں ہوتے اس لیے لوگ صرف اپنے مادے کے ذریعے دوسروں کی خاطر ایک نمونے کے طور پر کام کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ اس طرح، یہ مطالبہ کرنا کہ لوگ دوسروں کے پیروی کرنے لیے ایک مثال قائم کریں یا ایک نمونہ بنیں، ایک بلبلہ بن جاتا ہے، یہ پانی سے اٹھنے والی بھاپ بن جاتا ہے۔ اور جب خُدا یہ کہتا ہے کہ "جو میرے پاس ہے اور جو میں ہوں کے بارے میں کچھ علم حاصل کرنا،" تو یہ الفاظ محض اُس کام کے اظہار کے لیے کہے جاتے ہیں جو خُدا جسم کی حالت میں ہوتے ہوئے کرتا ہے؛ دوسرے لفظوں میں، وہ خدا کے حقیقی چہرے کے لیے کہے جاتے ہیں – الوہیت، جو بنیادی طور پر اس کے الوہی مزاج کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں سے ان چیزوں کو سمجھنے کے لیے کہا جاتا ہے جیسے کہ خدا اس طریقے سے کام کیوں کرتا ہے، خدا کے کلام کے ذریعے کون سی چیزیں پوری ہونی ہیں، خدا زمین پر کیا حاصل کرنا چاہتا ہے، وہ انسانوں کے درمیان کیا حاصل کرنا چاہتا ہے، وہ طریقے جن کے ذریعے خدا بولتا ہے، اور خدا کا انسان کے ساتھ کیا رویہ ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان میں کوئی بھی قابلِ فخر چیز نہیں ہے - یعنی اس میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو دوسروں کی پیروی کرنےکے لیے ایک مثال قائم کر سکے۔
یہ قطعی طور پر خُدا کے جسم کی عمومی حالت میں ہونے کی وجہ سے ہے، اور آسمان میں خُدا اور جسم کی حالت میں خُدا کے ایک جیسے نہ ہونے کی وجہ سے ہے، جو کہ ایسا لگتا ہے کہ آسمانی خُدا سے پیدا نہیں ہوا ہے، کیونکہ خُدا کہتا ہے، "میں نے انسان کے درمیان کئی سال گزارے ہیں، پھر بھی وہ ہمیشہ بے خبر رہا ہے، اور مجھے کبھی نہیں پہچانا ہے۔" خدا یہ بھی کہتا ہے، "جس وقت میرے قدم کائنات کے پار اور زمین کے کناروں تک چلیں گے تو انسان اپنے آپ پر غور کرنا شروع کر دے گا اور سب لوگ میرے پاس آئیں گے اور میرے سامنے جھک جائیں گے اور میری عبادت کریں گے۔ یہ وہ دن ہو گا جس دن میں جاہ و جلال حاصل کر لوں گا، میرے واپس آنے کا دن، اور میرے رخصت ہونے کا دن بھی۔" صرف یہی وہ دن ہے جب خدا کا اصلی چہرہ انسان کو دکھایا جاتا ہے۔ پھر بھی اس کے نتیجے میں خُدا اپنے کام میں تاخیر نہیں کرتا ہے، اور وہ صرف وہی کام کرتا ہے جو کیا جانا چاہیے۔ جب وہ فیصلہ کرتا ہے، تو وہ لوگوں کے، جسم کی حالت میں موجود خُدا کے ساتھ ان کے رویے کی بنیاد پر، ان کی مذمت کرتا ہے۔ یہ اس مدت کے دوران خدا کے کلام کی اہم لڑیوں میں سے ایک ہے۔ مثال کے طور پر خدا کہتا ہے، "میں اپنے انتظامی منصوبے کے آخری مرحلے پر پوری کائنات میں باضابطہ طور پر کام کا آغاز کر چکا ہوں۔ اس لمحے کے بعد سے، کوئی بھی جو غیر محتاط ہے، وہ بے رحم سزا میں گر جانے کا پابند ہے، اور ایسا کسی بھی لمحے ہو سکتا ہے۔" یہ خدا کے منصوبے کا مواد ہے، اور یہ نہ تو انوکھا ہے اور نہ ہی عجیب، بلکہ یہ سب اس کے کام کے مراحل کا حصہ ہے۔ اس دوران، خدا بیرون ملک میں موجود اپنے بندوں اور بیٹوں کا فیصلہ ان تمام چیزوں کی بنیاد پر کرتا ہے جو وہ کلیسیاﺆں میں کرتے ہیں، اور اس لیے خدا کہتا ہے، "جب میں کام کرتا ہوں تو تمام فرشتے میرے ساتھ مل کر فیصلہ کن جنگ شروع کرتے ہیں اور آخری مرحلے میں میری خواہشات کو پورا کرنے کا عزم کرتے ہیں، تاکہ زمین کے لوگ فرشتوں کی طرح میرے سامنے جھک جائیں، اور میری مخالفت کرنے کی خواہش نہ رکھیں، اور کوئی ایسا کام نہ کریں جو میرے خلاف سرکشی ہو۔ تمام کائنات میں میرے کام کی یہ حرکیات ہیں۔" یہ اُس کام میں فرق ہے جو خدا پوری زمین میں انجام دیتا ہے؛ اس کے لیے وہ مختلف طریقوں کو استعمال کرتا ہے جو ان لوگوں کے مطابق مختلف ہوتے ہیں جن پر کام کیا جاتا ہے۔ آج، کلیسیاؤں کے تمام لوگوں کے دل تڑپ رہے ہیں، اور انھوں نے خُدا کے کلام کو کھانا اور پینا شروع کر دیا ہے – یہ بات یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ خُدا کا کام اپنے انجام تک پہنچ رہا ہے۔ آسمان سے نیچے کی طرف دیکھنا، ایک مرتبہ پھر مرجھائی ہوئی شاخوں اور گرے ہوئے پتوں اور خزاں کی ہوا سے اُڑ کر آنے والی دھول کے بے کیف مناظر کو دیکھنے کے مترادف ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انسان کے درمیان ایک قیامت خیز واقعہ پیش آنے والا ہے، گویا سب کچھ تباہ ہونے والا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ روح کی حساسیت کی وجہ سے دل میں ہمیشہ افسردگی کا احساس رہتا ہو، پھر بھی انسان تھوڑی سی پر سکون راحت کا حامل ہوتا ہے چاہے وہ کچھ غم کی آمیزش کے ساتھ ہی ہو۔ یہ خدا کے الفاظ کی عکاسی ہو سکتی ہے کہ "انسان بیدار ہو رہا ہے، زمین پر سب کچھ موزوں ہے، اور اب زمین کی بقا کے دن نہیں رہے ہیں، کیونکہ میں آ گیا ہوں!" ان الفاظ کو سننے کے بعد انسان کچھ منفی ہو سکتے ہیں، یا وہ خدا کے کام سے کچھ مایوس ہو سکتے ہیں، یا وہ اپنی روح کے احساس پر زیادہ توجہ مرکوز کر سکتے ہیں۔ لیکن خدا کے اتنا بے وقوف ہونے کا امکان نہیں ہو سکتا کہ زمین پر اپنے کام کے مکمل ہونے سے پہلے، وہ لوگوں کو اس طرح کا ایک وہم دے۔ اگر تو واقعی ایسے جذبات رکھتا ہے، تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تو اپنے جذبات پر بہت زیادہ توجہ دیتا ہے، اور یہ کہ تو کوئی ایسا شخص ہے جو اپنی مرضی کے مطابق عمل کرتا ہے اور خدا سے محبت نہیں کرتا ہے؛ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسے لوگ مافوق الفطرت پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں، اور خدا کی طرف بالکل بھی توجہ نہیں دیتے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا ہے کہ لوگ کس طرح بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں، خدا کے ہاتھ کی وجہ سے وہ اس صورت حال سے بچنے کے قابل نہیں ہیں۔ خدا کے ہاتھ سے کون بچ سکتا ہے؟ کب خدا نے تیری حیثیت اور حالات مرتب نہیں کیے ہیں؟ خواہ تو مصیبت میں ہے یا برکت یافتہ ہے، تو خدا کے ہاتھ سے بچ کر کیسے چپکے سے نکل سکتا ہے؟ یہ کوئی انسانی معاملہ نہیں ہے، بلکہ مکمل طور پر خدا کی ضرورت کے بارے میں ہے – اس کے نتیجے میں کون اطاعت کرنے کے قابل نہیں ہو گا؟
میں غیر یہودی قوموں میں اپنا کام پھیلانے کے لیے سزا کا استعمال کروں گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ میں ان تمام غیر یہودی قوموں کے خلاف طاقت استعمال کروں گا۔ قدرتی طور پر، یہ کام اسی وقت انجام دیا جائے گا جس وقت میرا کام منتخب شدہ لوگوں میں کیا جائے گا۔ ان الفاظ کے بیان کرنے سے خدا پوری کائنات میں اس کام کا آغاز کر دیتا ہے۔ یہ خدا کے کام کا ایک مرحلہ ہے، جو پہلے ہی اس مقام تک ترقی کر چکا ہے؛ کوئی بھی چیزوں کو واپس نہیں موڑ سکتا ہے۔ تباہی بنی نوع انسان کے ایک حصے سے نمٹ لے گی، جس کی وجہ سے وہ دنیا کے ساتھ ہی تباہ و فنا ہو جائیں گے۔ جب کائنات کو باضابطہ طور پر سزا دی جاتی ہے، تو خدا باضابطہ طور پر تمام لوگوں پر ظاہر ہو جاتا ہے۔ اور اس کے ظاہر ہونے کی وجہ سے لوگوں کو سزا ملتی ہے۔ اس کے علاوہ، خدا نے یہ بھی کہا ہے، "جب میں رسمی طور پر طومار کھولتا ہوں، یعنی جب پوری کائنات میں لوگوں کو سزا دی جاتی ہے، جب پوری دنیا کے لوگ آزمائشوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔" اس سے واضح طور پر یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ سات مہروں کا مواد عذاب کا مواد ہے، یعنی سات مہروں کے اندر تباہی و بربادی ہے۔ اس طرح، آج سات مہریں ابھی کھلنا باقی ہیں؛ یہاں جن "آزمائشوں" کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ ایسے سزائیں ہیں جن میں انسان مبتلا ہوتا ہے، اور اسی سزا کے درمیان لوگوں کا ایک گروہ حاصل کیا جائے گا جو خدا کی طرف سے جاری کردہ "سند" کو باضابطہ طور پر قبول کرے گا، اور اس طرح وہ خدا کی بادشاہی میں لوگ ہوں گے۔ یہ خدا کے بیٹوں اور بندوں کی اصل ہیں، اور آج ان کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے، اور وہ مستقبل کے تجربات کی محض بنیاد رکھ رہے ہیں۔ اگر کسی کے پاس حقیقی زندگی ہے تو وہ آزمائشوں کے دوران ثابت قدم رہ سکے گا، اور اگر وہ زندگی کے بغیر ہے، تو یہ اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ خدا کے کام کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا ہے، کہ وہ بدحواسی والی صورتحال سے فائدہ اٹھاتا ہیں، اور خدا کے الفاظ پر توجہ نہیں دیتا ہے۔ کیونکہ یہ آخری ایام کا کام ہے جو کہ کام کو جاری رکھنے کی بجائے اس دور کو ختم کرنے کے لیے ہے، اسی لیے خدا کہتا ہے، "دوسرے الفاظ میں، یہ وہ زندگی ہے جس کا تجربہ تخلیق کے زمانے سے لے کر آج تک انسان نے کبھی بھی نہیں کیا، اور تمام ادوار میں کسی نے بھی اس قسم کی زندگی کا 'لطف' نہیں اٹھایا، اور اسی لیے میں کہتا ہوں کہ میں نے وہ کام کیا ہے جو پہلے کبھی نہیں کیا گیا تھا،" اور وہ یہ بھی کہتا ہے، "کیونکہ میرا دن تمام بنی نوع انسان کے قریب آتا ہے، کیونکہ یہ دور نہیں لگتا بلکہ انسان کی آنکھوں کے بالکل سامنے ہے۔" گزشتہ زمانوں میں، خدا نے کئی شہروں کو ذاتی طور پر تباہ کیا، لیکن ان میں سے کوئی بھی اس انداز میں مسمار نہیں کیا گیا تھا جیسا کہ آخری واقعے میں ہوگا۔ اگرچہ ماضی میں خدا نے سدوم کو تباہ کیا تھا، لیکن آج کے سدوم کے ساتھ ماضی والا سلوک نہیں کیا جانا ہے – اسے براہ راست تباہ نہیں کیا جانا ہے، بلکہ پہلے اسے فتح کیا جائے گا اور پھر اس کا فیصلہ کیا جائے گا، اور آخرکار، ابدی سزا کا نشانہ بنا دیا جائے گا۔ یہ کام کے مراحل ہیں، اور آخر میں، آج کے سدوم کو اسی ترتیب میں تباہ و برباد کر دیا جائے گا جس طرح کہ ماضی میں دنیا کی تباہی ہوئی تھی – یہ خدا کا منصوبہ ہے۔ جس دن خدا ظاہر ہوتا ہے وہ موجودہ دور کے سدوم کی باضابطہ مذمت کا دن ہے، اور خدا کا خود کو ظاہر کرنا سدوم کو بچانے کے لیے نہیں ہو گا۔ اسی لیے خدا کہتا ہے، "میں مقدس بادشاہی میں ظاہر ہوتا ہوں، اور اپنے آپ کو غلاظت کی سرزمین سے چھپا لیتا ہوں۔" چونکہ آج کا سدوم ناپاک ہے، اس لیے خدا اس پر حقیقی معنوں میں ظاہر نہیں ہوتا ہے، بلکہ اسے سزا دینے کے لیے یہ ذریعہ استعمال کرتا ہے – کیا تو نے اسے واضح طور پر نہیں دیکھا ہے؟ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی زمین پر خدا کے حقیقی چہرے کو دیکھنے کا اہل نہیں ہے۔ خدا کبھی بھی انسان پر ظاہر نہیں ہوا ہے، اور کوئی نہیں جانتا کہ خدا آسمان کے کس درجے میں موجود ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس نے آج کے لوگوں کو اس حالت میں رہنے دیا ہے۔ اگر وہ خدا کے چہرے کو دیکھتے ہیں تو یقیناً یہی وہ وقت ہوگا جس میں ان کے انجام کو ظاہر کیا جائے گا، وہ وقت ہو گا جب ہر ایک کی قسم کے مطابق درجہ بندی کی جائے گی۔ آج، الوہیت کے اندر سے الفاظ براہ راست لوگوں کو دکھائے جاتے ہیں، جو یہ پیشین گوئی کرتے ہیں کہ بنی نوع انسان کے آخری ایام آ چکے ہیں، اور زیادہ دیر تک نہیں رہیں گے۔ جب خدا تمام لوگوں پر ظاہر ہو گا تو یہ اس وقت لوگوں کے آزمائشوں میں مبتلا ہونے کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ اس طرح، اگرچہ لوگ خدا کے کلام سے لطف اندوز تو ہوتے ہیں، لیکن انھیں ہمیشہ ایک خوف کا احساس رہتا ہے، جیسے ان پر کوئی بڑی آفت آنے والی ہے۔ آج کے لوگ منجمد زمینوں میں چڑیوں کی مانند ہیں، جنھیں گویا موت قرض کی ادائیگی پر مجبور کرتی ہے اور ان کے پاس زندہ رہنے کا کوئی راستہ ہی نہیں چھوڑتی ہے۔ انسان پر موت کا قرض ہونے کی وجہ سے سب لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے آخری ایام آچکے ہیں۔ تمام کائنات میں لوگوں کے دلوں میں یہی ہو رہا ہے، اور اگرچہ ان کے چہروں سے اس کا اظہار نہیں ہوتا ہے، لیکن جو کچھ ان کے دلوں میں ہے وہ میری نظروں سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا – انسان کی یہی حقیقت ہے۔ شاید، بہت سے الفاظ مکمل طور پر مناسب انداز میں استعمال نہیں ہوئے ہیں – لیکن یہ بالکل وہی الفاظ ہیں جو مسئلے کا اظہار کرنے کے لئے کافی ہیں. خدا کے منہ سے کہی گئی سب باتیں پوری ہوں گی، چاہے وہ ماضی میں کہی گئی ہوں یا حال میں؛ وہ لوگوں کے سامنے حقائق کو ظاہر کریں گی–ان کی آنکھوں کے لیے عید ہو گی – اور اس وقت ان کی آنکھیں چندھیا جائیں گی اور وہ پریشان ہو جائیں گے۔ کیا ابھی تک تو نے واضح طور پر یہ نہیں دیکھا کہ آج کیا دور ہے؟