باب 28
لوگوں کی حالت یہ ہے کہ وہ خدا کے کلام کو جتنا کم سمجھتے ہیں، خدا کے کام کرنے کے موجودہ ذرائع کے بارے میں اتنے ہی زیادہ شکی ہوتے ہیں۔ لیکن اس کا خدا کے کام پر کوئی اثر نہیں پڑتا؛ جب اس کا کلام کسی خاص مقام پر پہنچے گا تو قدرتی طور پر لوگوں کے دلوں کو ہوش آ جائے گا۔ اپنی زندگی میں، ہر کوئی خدا کے کلام سے لگاؤ رکھتا ہے، اور وہ اس کے کلام کے لیے تڑپنے بھی لگتا ہے، اور خدا کے مسلسل ظاہر ہونے کی وجہ سے، وہ اپنے آپ کو حقیر سمجھنے لگتا ہے۔ پھر بھی خدا نے مندرجہ ذیل قسم کے بہت سے کلمات کہے ہیں: ”جب وہ میرے سب کلام کو اچھی طرح سے سمجھ لیتا ہے، تو انسان کی حیثیت میری خواہشات کے مطابق ہو جاتی ہے، اور اس کی التجائیں ثمر آور ہوتی ہیں، اور بےکار یا ضائع نہیں ہوتیں؛ میں بنی نوع انسان کی ان درخواستوں کو برکت دیتا ہوں جو مخلص ہوتی ہیں، وہ جو کہ دکھاوا نہیں ہوتی ہیں۔“ درحقیقت، لوگ خدا کے کلام کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہیں، وہ محض سطح کو سمجھ سکتے ہیں۔ خُدا اس کلام کو محض اس لیے استعمال کرتا ہے تاکہ وہ انھیں جستجو کرنے کے لیے ایک ہدف دے، انھیں یہ محسوس کروائے کہ خُدا غیر سنجیدگی سے کام نہیں کرتا، بلکہ اپنے کام میں سنجیدہ ہے؛ صرف اسی صورت میں ان کے پاس جستجو کرنے کے لیے ایمان ہو گا۔ اور اگرچہ تمام لوگ صرف اپنی خاطر التجا کرتے ہیں، خدا کی مرضی کے لیے نہیں، لیکن خُدا متلون مزاجی نہیں دکھاتا، اس لیے اس کا کلام ہمیشہ انسان کی فطرت پر مرکوز رہا ہے۔ اگرچہ آجکل زیادہ تر لوگ التجا کرتے ہیں، لیکن وہ مخلص نہیں ہیں – یہ محض ایک دکھاوا ہے۔ تمام لوگوں کی حالت یہ ہے کہ ”وہ میرے منہ کو فراوانی کا نشان سمجھتے ہیں۔ تمام لوگ میرے منہ سے کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ چاہے یہ ریاست کے راز ہوں، یا آسمان کے اسرار، یا روحانی دنیا کی حرکیات، یا بنی نوع انسان کی منزل۔“ اپنے تجسس کی وجہ سے، لوگ ان چیزوں کو تلاش کرنے کے لیے آمادہ رہتے ہیں، اور خدا کے کلام سے زندگی کی فراہمی میں سے کچھ حاصل کرنے کی خواہش نہیں رکھتے۔ چنانچہ خُدا کہتا ہے، ”انسان کے اندر بہت زیادہ کمی ہوتی ہے: اسے نہ صرف ”اضافی غذا“ کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اسے ’ذہنی سہارے‘ اور ایک ’روحانی فراہمی‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔“ یہ لوگوں میں تصورات ہیں جو آج کی منفی کیفیت کا باعث بنے ہیں، اور یہ اس لیے ہے کہ ان کی جسمانی نگاہیں اس قدر ”پس ماندہ“ ہیں کہ ان کے کہ قول وفعل میں کوئی جوش نہیں ہے، اور وہ سب چیزوں میں لشتم پشتم کام چلاتے ہیں اور بے احتیاط ہیں۔ کیا لوگوں کی حالتیں ایسی نہیں ہیں؟ جیسے وہ ہیں اسی طرح جاری رکھنے کی بجائے کیا لوگوں کو جلدی سے اس کی اصلاح نہیں کرنی چاہیے؟ مستقبل کو جاننے میں انسان کا کیا فائدہ ہے؟ خدا کے کلام کا کچھ حصہ پڑھنے کے بعد لوگوں کا ایک ردعمل کیوں ہوتا ہے، جبکہ اس کے باقی کلام کا کوئی اثر نہیں ہوتا؟ مثال کے طور پر جب خدا کہتا ہے، ”میں انسان کی بیماری کا علاج فراہم کرتا ہوں تاکہ بہتر اثرات حاصل ہو سکیں، تاکہ سب کی صحت بحال ہو سکے، اور تاکہ، میرے علاج کی بدولت، وہ معمول پر واپس جائیں“، یہ کیسے ہے کہ لوگوں پر اس کلام کا کوئی اثر نہ ہو؟ کیا خدا کی طرف سے کیا گیا ہر کام ایسا نہیں ہے جسے انسان کو حاصل کرنا چاہیے؟ خدا کے پاس کرنے کے لیے کام ہے – لوگوں کے پاس چلنے کے لیے راستہ کیوں نہیں ہے؟ کیا یہ خدا کے خلاف جانا نہیں ہے؟ اصل میں بہت زیادہ کام ہے جو لوگوں کو کرنا چاہیے – مثال کے طور پر، وہ ”عظیم سرخ اژدہے“ کے بارے میں کتنا جانتے ہیں اس کلام میں ”کیا تم واقعی عظیم سرخ اژدہے سے نفرت کرتے ہو؟“ خدا کا کہنا ”میں نے تم سے اتنی مرتبہ کیوں پوچھا ہے؟“ یہ ظاہر کرتا ہے کہ لوگ اب بھی عظیم سرخ اژدہے کی فطرت سے ناواقف ہیں، اور یہ کہ وہ مزید گہرائی میں جانے سے قاصر ہیں۔ کیا یہ عین وہی کام نہیں ہے جو انسان کو کرنا چاہیے؟ یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ انسان کا کوئی کام ہی نہیں ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو خدا کی تجسیم کی کیا اہمیت ہوتی؟ کیا خدا سرسری طور پر کام کرنے کے لیے بے احتیاطی سے اور لشتم پشتم انداز میں کام کر رہا ہے؟ کیا عظیم سرخ اژدہے کو اس طرح شکست دی جا سکتی ہے؟
خدا کہتا ہے، ”میں پہلے ہی شروع کر چکا ہوں، اور میں عظیم سرخ اژدہے کی رہائش گاہ میں تادیب کے اپنے کام کا پہلا مرحلہ شروع کروں گا۔“ اس کلام کا رخ الوہیت میں کام ہے؛ آج کے لوگ پہلے ہی پیشگی طور پر تادیب میں داخل ہو چکے ہیں، اور اس طرح خدا کہتا ہے کہ یہ اس کے کام کا پہلا مرحلہ ہے۔ وہ لوگوں کو آفات کے عذاب میں نہیں بلکہ کلام کے عذاب میں مبتلا کر رہا ہے۔ کیونکہ جب خدا کے کلام کا لہجہ تبدیل ہوتا ہے تو لوگ بالکل جاہل ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد وہ سب تادیب میں داخل ہو جاتے ہیں۔ تادیب سے گزرنے کے بعد، ”اس کے بعد تم رسمی طور پر اپنا فرض ادا کرو گے، اور رسمی طور پر تمام زمینوں میں، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میری تعریف کرو گے!“ یہ خدا کے کام کے مرحلے ہیں – یہ اس کا منصوبہ ہیں۔ مزید برآں، خدا کے یہ لوگ ذاتی طور پر ان طریقوں کو دیکھیں گے جن کے ذریعے عظیم سرخ اژدہے کو سزا دی جاتی ہے، اس لیے تباہی رسمی طور پر ان کے باہر، ان کے آس پاس کی دنیا میں شروع ہوتی ہے۔ یہ ان ذرائع میں سے ایک ہے جس کے ذریعے خدا لوگوں کو بچاتا ہے۔ اندرونی طور پر ان کو سزا دی جاتی ہے، اور بیرونی طور پر تباہی ٹوٹ پڑتی ہے – کہنے کا مطلب ہے، خدا کا کلام پورا ہوتا ہے۔ اس طرح لوگ آفت پر تادیب کو ترجیح دیتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ باقی رہتے ہیں۔ ایک طرف، یہ وہ مقام ہے جس پر خدا کا کام پہنچا ہے؛ دوسری طرف، یہ اس لیے ہے کہ سب لوگ خدا کے مزاج کو جان سکیں۔ چنانچہ خدا کہتا ہے، ”وہ وقت جب میرے لوگ مجھ سے لطف اندوز ہوتے ہیں وہ وقت ہوتا ہے جب عظیم سرخ اژدہے کو سزا دی جاتی ہے۔ عظیم سرخ اژدہے کے لوگوں کو اُٹھانا اور اس کے خلاف بغاوت کروانا میرا منصوبہ ہے، اور یہ وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے میں اپنے لوگوں کو کامل بناتا ہوں، اور یہ میرے تمام لوگوں کے لیے زندگی میں بڑھنے کا ایک بہترین موقع ہے۔“ ایسا کیوں ہے کہ خدا یہ کلام کہتا ہے، اور پھر بھی یہ لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول نہیں کرواتا؟
ملک شدید افراتفری کا شکار ہیں، کیونکہ خدا کی لاٹھی نے زمین پر اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ خدا کا کام زمین کی حالت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جب خُدا کہتا ہے، ”پانی شور مچائیں گے، پہاڑ گر جائیں گے، بڑے دریا بکھر جائیں گے،“ یہ زمین پر چھڑی کا ابتدائی کام ہے، جس کے نتیجے میں ”زمین کے تمام گھرانوں کو تباہ کر دیا جائے گا، اور زمین پر تمام قومیں ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گی؛ میاں بیوی کے ملاپ کے دن گزر چکے ہوں گے، اب ماں اور بیٹا دوبارہ نہیں ملیں گے، پھر کبھی باپ بیٹی اکٹھے نہیں ہوں گے۔ جو کچھ زمین پر ہوا کرتا تھا میں اس سب کو توڑ دوں گا۔“ زمین پر خاندانوں کی عمومی حالت ایسی ہو گی۔ فطری طور پر ان سب کی حالت ممکنہ طور پر ایسی نہیں ہو سکتی لیکن یہ ان میں سے اکثر کی حالت ہے۔ دوسری طرف، یہ ان حالات کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو اس سلسلے کے لوگوں کو مستقبل میں درپیش ہوں گے۔ یہ پیشین گوئی کرتا ہے کہ، ایک بار جب وہ کلام کی تادیب سے گزر چکے ہوں گے اور ایمان نہ رکھنے والوں کو تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا تو زمین پر لوگوں کے درمیان خاندانی تعلقات باقی نہیں رہیں گے؛ وہ سب سینیم کے لوگ ہوں گے، اور سب خدا کی بادشاہی میں وفادار ہوں گے۔ اس طرح، میاں بیوی کے ملاپ کے دن گزر چکے ہوں گے، اب ماں اور بیٹا دوبارہ نہیں ملیں گے، پھر کبھی باپ بیٹی اکٹھے نہیں ہوں گے۔ اور اس طرح، زمین پر لوگوں کے خاندانوں کو تباہ کر دیا جائے گا، ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے گا، اور یہ آخری کام ہو گا جو خدا انسان میں کرے گا۔ اور چونکہ خُدا اس کام کو پوری کائنات میں پھیلا دے گا، اس لیے وہ لوگوں کے لیے لفظ ”جذبات“ کو واضح کرنے کا موقع لیتا ہے، اس طرح انھیں یہ دیکھنے کا موقع دیتا ہے کہ خدا کی مرضی تمام لوگوں کے خاندانوں کو تباہ کر دینا ہے، اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ خدا بنی نوع انسان کے درمیان سب ”خاندانی جھگڑے“ حل کرنے کے لیے عذاب کو استعمال کرتا ہے۔ اگر نہیں، تو زمین پر خدا کے کام کے آخری حصے کو ختم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہو گا۔ خدا کے کلام کا آخری حصہ بنی نوع انسان کی سب سے بڑی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے – وہ سب جذبات میں رہتے ہیں – اور اس لیے خدا ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں ٹالتا، اور تمام بنی نوع انسان کے دلوں میں چھپے رازوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ لوگوں کے لیے خود کو جذبات سے الگ کرنا اتنا مشکل کیوں ہے؟ کیا ایسا کرنا ضمیر کے معیار سے بالاتر ہے؟ کیا ضمیر خدا کی مرضی پوری کر سکتا ہے؟ کیا جذبات مصیبت میں لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں؟ خُدا کی نظر میں، جذبات اُس کے دشمن ہیں – کیا یہ خُدا کے کلام میں واضح طور پر بیان نہیں کیا گیا ہے؟