باب 27
آج، خدا کا کلام اپنے عروج تک پہنچ چکا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ عدالت کے دور کا دوسرا حصہ اپنے عروج پر پہنچ گیا ہے۔ لیکن یہ انتہائی عروج نہیں ہے۔ اس وقت، خدا کا لہجہ بدل گیا ہے - یہ نہ تو طنزیہ ہے، نہ مزاحیہ، اور نہ ہی یہ تادیب ہے اور نہ ہی ڈانٹ ڈپٹ۔ خدا نے اپنے کلام کا لہجہ نرم کر دیا ہے۔ اب، خدا انسان کے ساتھ "جذبات کا تبادلہ" کرنا شروع کرتا ہے۔ خُدا دونوں کام کر رہا ہے، عدالت کے زمانے کے کام کو جاری رکھے ہوئے ہے اور اس کے ساتھ ہی کام کے اگلے حصے کا راستہ بھی کھول رہا ہے، تاکہ اس کے کام کے تمام حصے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہوں۔ ایک طرف، وہ انسان کی "ہٹ دھرمی اور اس کے جرم کی تکرار" کے بارے میں بات کرتا ہے، اور دوسری طرف، وہ "انسان سے الگ ہونے اور پھر دوبارہ ملنے کی خوشیوں اور غموں" کے بارے میں بات کرتا ہے - یہ سب لوگوں کے دلوں میں ایک ردعمل پیدا کرتے ہیں، اور سب سے زیادہ بے حس انسانی دلوں تک کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ الفاظ کہنے میں خُدا کا مقصد بنیادی طور پر یہ ہے کہ آخر کار تمام لوگ بغیر آواز نکالے خُدا کے سامنے گر جائیں، اور اس کے بعد ہی "میں اپنے اعمال کو ظاہر کرتا ہوں، ہر کسی کو اس کی ناکامی کے ذریعے میں اپنی پہچان کرواتا ہوں۔" اس دور میں، خدا کے بارے میں لوگوں کا علم انتہائی سطحی رہتا ہے؛ یہ حقیقی علم نہیں ہے۔ اگرچہ وہ جتنی سخت کوشش کر سکتے ہیں کر لیں، وہ خدا کی مرضی کو حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ آج، خدا کا کلام اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے، لیکن لوگ ابھی ابتدائی مراحل میں ہی ہیں، اور اس وجہ سے وہ یہاں اور اب کے کلام میں داخل ہونے سے قاصر ہیں- اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا اور انسان اتنے ہی مختلف ہیں جتنا کہ ممکن ہو سکتا ہے۔ اس تقابل کی بنیاد پر جب خدا کا کلام ختم ہو گا تو لوگ صرف خدا کے ادنیٰ ترین معیارات ہی حاصل کرنے کے قابل ہوں گے۔ یہ وہ طریقے ہیں جن کے ذریعے خدا ان لوگوں میں کام کرتا ہے جنھیں عظیم سرخ اژدہے نے مکمل طور پر بدعنوان بنا دیا ہے، اور زیادہ سے زیادہ اثر حاصل کرنے کے لیے خدا کو بالکل اسی طرح کام کرنا چاہیے۔ کلیسیاؤں کے لوگ خدا کے کلام پر تھوڑی زیادہ توجہ دیتے ہیں، لیکن خدا کا ارادہ یہ ہے کہ وہ خدا کو اس کے کلام میں جان سکیں - کیا کوئی فرق نہیں ہے؟ تاہم، جیسا کہ حالات ہیں، خُدا اب انسان کی کمزوری کا خیال نہیں کرتا ہے، اور وہ بات جاری رکھتا ہے چاہے لوگ اُس کے کلام کو قبول کرنے کے قابل ہوں یا نہ ہوں۔ اُس کی مرضی کے مطابق، جب اُس کا کلام ختم ہو گا، تو یہی وہ وقت ہو گا جب زمین پر اُس کا کام مکمل ہو جائے گا۔ لیکن اس وقت کام ماضی کے برعکس ہے۔ جب خدا کا کلام ختم ہو جائے گا تو کسی کو علم نہیں ہو گا؛ جب خدا کا کام ختم ہو جائے گا تو کسی کو علم نہیں ہو گا؛ اور جب خدا کی شکل تبدیل ہو گی تو کسی کو علم نہیں ہو گا۔ خدا کی حکمت یہی ہے۔ شیطان کی طرف سے لگائے گئے الزامات اور دشمن قوتوں کی مداخلت سے بچنے کے لیے، خدا کسی کے علم میں آئے بغیر کام کرتا ہے، اور اس وقت زمین کے لوگوں میں کوئی ردعمل نہیں ہے۔ اگرچہ خدا کی صورت کے بدلنے کی نشانیاں ایک بار بیان کی گئی تھیں، لیکن کوئی بھی اس کا ادراک نہیں کر سکتا، کیونکہ انسان بھول گیا ہے، اور وہ اس پر کوئی توجہ نہیں دیتا ہے۔ اندر اور باہر سے ہونے والے حملوں کی وجہ سے - ظاہری دنیا کی آفات اور خدا کے کلام کو جلانے اور صاف کرنے کی وجہ سے - لوگ اب خدا کے لیے سخت محنت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، کیونکہ وہ اپنے معاملات میں بہت زیادہ مصروف ہیں۔ جب تمام لوگ ماضی کے علم اور جستجو کو جھٹلانے کے اس مقام پر پہنچ جائیں گے، جب تمام لوگوں نے اپنے آپ کو واضح طور پر دیکھ لیا ہو گا، تب وہ ناکام ہو جائیں گے اور ان کے دلوں میں ان کی اپنی ذات کے لیے جگہ نہیں رہے گی۔ تب ہی لوگ خلوص دل سے خدا کے کلام کی شدید آرزو کریں گے، تب ہی خدا کا کلام ان کے دلوں میں صحیح معنوں میں جگہ حاصل کرے گا، اور تب ہی خدا کا کلام ان کے وجود کا ذریعہ بن چکا ہو گا – اور خدا کی مرضی پوری ہو گی۔ لیکن آج کے لوگ اس مقام تک پہنچنے سے بہت دور ہیں۔ ان میں سے کچھ نے بمشکل ایک انچ ہی حرکت کی ہے، اور اسی لیے خدا کہتا ہے کہ یہ "جرم کی تکرار" ہے۔
خدا کا تمام کلام بہت سے سوالات پر مشتمل ہے۔ خدا ایسے سوالات کیوں پوچھتا رہتا ہے؟ "لوگ توبہ کیوں نہیں کر سکتے اور دوبارہ پیدا کیوں نہیں ہو سکتے؟ وہ کیچڑ سے پاک جگہ کی بجائے ہمیشہ دلدل میں رہنے کے لیے کیوں آمادہ ہیں ۔۔۔؟" ماضی میں، خدا نے چیزوں کی براہ راست نشاندہی کرنے یا براہ راست اظہار کے ذریعے کام کیا۔ لیکن لوگوں کے زبردست تکلیف اٹھانے کے بعد، خدا نے پھر اس طرح براہ راست بات نہیں کی۔ ان سوالات کے اندر، لوگوں کو اپنی خامیاں نظر آتی ہیں اور وہ عمل کرنے کے راستے کو سمجھ لیتے ہیں۔ چونکہ لوگ آسانی سے دستیاب چیزیں کھانا پسند کرتے ہیں، اس لیے خدا ان کے مطالبات کے مطابق بات کرتا ہے، انھیں غور و فکر کے لیے موضوعات فراہم کرتا ہے تاکہ وہ ان پر غور کریں۔ یہ خدا کے سوالات کی اہمیت کا ایک پہلو ہے۔ قدرتی طور پر، اس کے بعض دوسرے سوالات کی اتنی اہمیت نہیں ہے، مثال کے طور پر: کیا یہ ہو سکتا ہے کہ میں نے ان کے ساتھ برا سلوک کیا ہو؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ میں نے ان کی غلط سمت کی طرف راہنمائی ہو؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ میں انھیں جہنم کی طرف لے جا رہا ہوں؟ اس طرح کے سوالات لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں میں موجود تصورات کو ظاہر کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ ان تصورات کے متعلق بات زبان پر نہیں لاتے، لیکن ان میں سے اکثر کے دلوں میں شکوک و شبہات ہیں، اور انھیں یقین ہے کہ خدا کا کلام ان کی تصویرکشی اچھائی کے بغیر کرتا ہے۔ قدرتی طور پر، ایسے لوگ اپنے آپ کو نہیں جانتے، لیکن آخرکار وہ خدا کے کلام سے شکست تسلیم کر لیں گے- یہ ناگزیر ہے۔ ان سوالات کے بعد خدا یہ بھی کہتا ہے، "میں تمام قوموں کو مسمار کر کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، انسان کے خاندان کے بارے میں تو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔" جب لوگ خدا کے نام کو قبول کر لیں گے تو اس کے نتیجے میں تمام قومیں لرز جائیں گی، لوگ اپنی ذہنیت آہستہ آہستہ بدل لیں گے اور خاندانوں میں باپ اور بیٹے، ماں اور بیٹی اور میاں اور بیوی کے رشتے ختم ہو جائیں گے۔ مزید برآں، خاندانوں میں لوگوں کے درمیان تعلقات پہلے سے زیادہ بےتعلق ہوتے جائیں گے؛ وہ عظیم خاندان میں شامل ہو جائیں گے، اور تقریباً تمام خاندانوں کی زندگی کے باقاعدہ رسم و رواج ختم ہو جائیں گے۔ اس کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں "خاندان" کا تصور تیزی سے مبہم ہوتا چلا جائے گا۔
خدا کے آج کے کلام میں، لوگوں کے ساتھ "جذبات کے تبادلے" کے لیے اتنا کچھ کیوں وقف کیا گیا ہے؟ قدرتی طور پر، یہ بھی ایک خاص اثر حاصل کرنے کے لیے ہے، جس سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ خدا کا دل اضطراب سے بھرا ہوا ہے۔ خدا کہتا ہے، "جب میں غمگین ہوں تو کون مجھے اپنے خلوصِ دل سے تسلی دے سکتا ہے؟" خُدا یہ الفاظ کہتا ہے کیونکہ اُس کا دل غم سے بھر گیا ہے۔ لوگ خدا کی مرضی کا ہر طرح سے دھیان رکھنے سے قاصر ہیں، اور وہ ہمیشہ آوارہ منش ہوتے ہیں، وہ اپنے آپ کو قابو میں نہیں رکھ سکتے، اور جو چاہیں کرتے ہیں؛ وہ بہت حقیر ہیں، اور وہ ہمیشہ اپنے آپ کو معاف کرتے ہیں اور خدا کی مرضی کا خیال نہیں رکھتے۔ لیکن چونکہ لوگ آج تک شیطان کے ذریعے بدعنوان ہوئے ہیں، اور خود کو آزاد کرانے سے قاصر ہیں، اس لیے خدا کہتا ہے: "وہ بھوکے بھیڑیے کے جبڑوں سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ وہ اس کی دھمکیوں اور اس کی ترغیبات سے کیسے آزاد ہو سکتے ہیں؟" لوگ جسم میں رہتے ہیں، جو کہ بھوکے بھیڑیے کے منہ میں رہنا ہے۔ اس کی وجہ سے، اور چونکہ لوگوں میں خود آگاہی نہیں ہے اور وہ ہمیشہ اپنے آپ میں مگن رہتے ہیں اور عیاشی میں مبتلا رہتے ہیں، اس لیے خدا بے چینی محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جتنا زیادہ خدا لوگوں کو اس طریقے سے یاد دلاتا ہے، وہ اپنے دلوں میں اتنا ہی بہتر محسوس کرتے ہیں، اور وہ اتنا ہی زیادہ خدا کے ساتھ مشغول ہونے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں۔ تب ہی انسان اور خدا کا ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی سے تعلق قائم ہو گا اور ان کے درمیان کسی قسم کی جدائی یا فاصلہ نہیں ہو گا۔ آج، تمام نوع انسانی خدا کے دن کی آمد کا انتظار کرتی ہے، اور اس لیے بنی نوع انسان کبھی آگے نہیں بڑھی۔ پھر بھی خدا کہتا ہے: "جب راستبازی کا سورج نمودار ہو گا، تو مشرق روشن ہو جائے گا، اور پھر یہ پوری کائنات کو منور کر دے گا، اور ہر ایک تک پہنچ جائے گا۔" دوسرے لفظوں میں، جب خدا اپنی شکل بدلتا ہے، تو سب سے پہلے مشرق روشن ہو گا اور سب سے پہلے مشرق کی قوم سے اس کی جگہ لے لی جائے گی، اس کے بعد جنوب سے شمال تک کے باقی ممالک کی تجدید کی جائے گی۔ یہ حکم ہے، اور سب کچھ خدا کے کلام کے مطابق ہو گا۔ ایک بار جب یہ مرحلہ ختم ہو جائے گا تو تمام لوگ دیکھیں گے۔ خدا اس ترتیب کے مطابق کام کرتا ہے۔ جب وہ اس دن کو دیکھیں گے تو لوگ خوشی سے جھوم اٹھیں گے۔ خدا کے فوری ارادے سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ دن زیادہ دور نہیں ہے۔
آج یہاں کہے گئے الفاظ میں، دوسرا اور تیسرا حصہ خدا سے محبت کرنے والے تمام لوگوں میں کرب کے آنسو پیدا کرتا ہے۔ سایہ اُن کے دلوں کو فوراً ڈھانپ لیتا ہے اور اُس کے بعد سے تمام لوگ خُدا کی مرضی کی وجہ سے زبردست غم میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ وہ اس وقت تک کوئی سکون محسوس نہیں کریں گے جب تک کہ خدا زمین پر اپنا کام مکمل نہ کر لے۔ یہ عمومی رجحان ہے۔ "میرے دل میں غم کے بڑھتے ہوئے احساس کے ساتھ غصہ پیدا ہوتا ہے۔ جب میری آنکھیں دیکھتی ہیں کہ لوگوں کے اعمال اور ان کا ہر قول و فعل غلیظ ہے تو میرا غصہ بھڑک اٹھتا ہے اور میرے دل میں انسانی دنیا کی ناانصافیوں کا زیادہ احساس ہوتا ہے جو مجھے مزید غمگین کر دیتا ہے؛ میں شدید خواہش کرتا ہوں کہ انسان کے جسم کو فوراً ختم کر دوں۔ میں نہیں جانتا کہ انسان جسمانی حالت میں اپنے آپ کو صاف کرنے سے کیوں قاصر ہے، انسان جسمانی حالت میں خود سے کیوں پیار نہیں کر سکتا۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ جسم کا 'فعل' بہت زیادہ عظیم ہو؟" آج خُدا کے کلام میں، خُدا نے اپنے دل کی اندرونی تمام پریشانیوں کو بغیر کسی چیز کو روکے انسان پر کھلے عام ظاہر کر دیا ہے۔ جب تیسرے آسمان کے فرشتے اُس کے لیے موسیقی بجاتے ہیں، تو خدا تب بھی زمین پر لوگوں کے لیے ترستا ہے، اور اِسی لیے وہ کہتا ہے: "جب فرشتے میری تعریف میں موسیقی بجاتے ہیں تو اس سے انسان کے لیے میری ہمدردی بڑھے بغیر نہیں رہتی۔ میرا دل فوری طور پر اداسی سے بھر جاتا ہے، اور مجھے خود کو ان دردناک جذبات سے نکالنا ناممکن ہوتا ہے۔" اسی وجہ سے خدا کہتا ہے: "میں انسانی دنیا کی ناانصافیوں کو درست کروں گا۔ میں پوری دنیا میں اپنے ہاتھوں سے اپنا کام خود کروں گا، شیطان کو دوبارہ اپنے لوگوں کو نقصان پہنچانے سے روکوں گا، دشمنوں کو دوبارہ ان کی مرضی کرنے سے روکوں گا۔ میں زمین پر بادشاہ بنوں گا اور اپنا تخت وہاں منتقل کروں گا، اپنے تمام دشمنوں کو زمین پر گرا کر اپنے سامنے ان کے جرائم کا اعتراف کراؤں گا۔" خُدا کی اداسی شیطانوں کے لیے اُس کی نفرت کو بڑھا دیتی ہے، اور اس طرح وہ لوگوں پر یہ پہلے ہی ظاہر کر دیتا ہے کہ شیطان کیسے ختم ہوں گے۔ یہ خدا کا کام ہے۔ خدا نے ہمیشہ یہ خواہش کی ہے کہ وہ تمام لوگوں کے ساتھ دوبارہ مل جائے اور پرانے دور کا اختتام کرے۔ پوری کائنات میں تمام لوگ حرکت کرنے لگے ہیں – یعنی کائنات میں تمام لوگ خدا کی راہنمائی میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، وہ اپنے شہنشاہوں کے خلاف بغاوت کا سوچنے لگتے ہیں۔ جلد ہی، دنیا کے لوگ افراتفری کی لپیٹ میں آ جائیں گے اور تمام ممالک کے سربراہان ہر طرف بھاگیں گے، بالآخر ان کے لوگ انھیں زبردستی گھسیٹ کر مقتل تک لے آئیں گے۔ یہ شیطانوں کے بادشاہوں کا آخری انجام ہے؛ بالآخر، ان میں سے کوئی بھی بچ نہیں سکے گا، اور ان سب کو اس سے گزرنا ہو گا۔ آج جو لوگ "ہوشیار" ہیں وہ پیچھے ہٹنا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ دیکھ کر کہ صورتحال امید افزا نہیں ہے، وہ اس موقع کو پیچھے ہٹنے اور تباہی کی مشکلات سے بچنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن میں صاف کہتا ہوں کہ آخری ایام میں خدا جو کام کرتا ہے وہ بنیادی طور پر انسان کی تادیب ہے تو پھر یہ لوگ کیسے بچ سکتے ہیں؟ آج پہلا قدم ہے۔ ایک دن، کائنات کی ہر چیز جنگ کے ہنگامے میں مبتلا ہو جائے گی؛ زمین والوں کو پھر کبھی راہنما نہیں ملیں گے، ساری دنیا ریت کے ڈھیر کی مانند ہو جائے گی، جس پر کوئی حکومت نہیں کرے گا، اور لوگ صرف اپنی جانوں کی پرواہ کریں گے، کسی اور کی پروا نہیں کریں گے، کیونکہ سب کچھ خدا کے ہاتھ سے قابو ہوتا ہے – اسی لیے خدا کہتا ہے، "تمام انسانیت میری مرضی کے مطابق تمام اقوام کو توڑ رہی ہے۔" فرشتوں کے نرسنگوں کا بجنا جس کے بارے میں خدا اب بات کرتا ہے، اب ایک نشانی ہے – وہ انسان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں – اور جب نرسنگے ایک بار پھر بجیں گے تو دنیا کا آخری دن آ گیا ہو گا۔ اس وقت، خدا کا پورا عذاب مکمل طور پر زمین پر نازل ہو گا۔ یہ بے رحم عدالت ہو گی، اور تادیب کے دور کا باضابطہ آغاز ہو گا۔ بنی اسرائیل میں، مختلف ماحول میں ان کی راہنمائی کے لیے اکثر خدا کی آواز موجود ہو گی، اور اسی طرح فرشتے بھی ان پر ظاہر ہوں گے۔ بنی اسرائیل کو صرف چند مہینوں میں ہی مکمل کر دیا جائے گا، اور چونکہ انھیں عظیم سرخ اژدہے کے زہر سے خود کو ہٹانے کے مرحلے سے نہیں گزرنا پڑے گا، اس لیے ان کے لیے مختلف قسم کی راہنمائی کے تحت صحیح راستے پر داخل ہونا آسان ہو جائے گا۔ اسرائیل میں ہونے والی پیش رفت سے پوری کائنات کی حالت دیکھی جا سکتی ہے، اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کے کام کے اقدامات کتنے تیز ہیں۔ "وقت آ گیا ہے! میں اپنے کام کو حرکت میں لاؤں گا، میں انسانوں میں بادشاہ بن کر حکومت کروں گا!" ماضی میں، خدا صرف آسمان پر حکومت کرتا تھا۔ آج، وہ زمین پر حکومت کرتا ہے؛ خدا نے اپنا سارا اختیار واپس لے لیا ہے، اور اس لیے یہ پیشین گوئی کی گئی ہے کہ تمام نوع انسانی دوبارہ کبھی بھی ایک عام انسانی زندگی نہیں گزارے گی، کیونکہ خدا آسمان اور زمین کو دوبارہ ترتیب دے گا، اور کسی انسان کو مداخلت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ لہٰذا، خُدا انسان کو اکثر یاد دلاتا ہے کہ "وقت آ گیا ہے۔" جب تمام بنی اسرائیل اپنے ملک کو لوٹ چکے ہوں گے – جس دن اسرائیل کا ملک مکمل طور پر بحال ہو چکا ہو گا – تو خدا کا عظیم کام مکمل ہو جائے گا۔ کسی کو احساس ہوئے بغیر، پوری کائنات کے لوگ بغاوت کریں گے، اور پوری کائنات میں قومیں آسمان کے ستاروں کی طرح گر جائیں گی؛ ایک لمحے میں، وہ کھنڈرات میں گر جائیں گی۔ ان سے نمٹنے کے بعد، خدا اپنے دل کی محبوب بادشاہی قائم کرے گا۔