باب 26

خدا کی طرف سے کہے گئے تمام الفاظ سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ خدا کا دن ہر گزرتے دن کے ساتھ قریب تر آتا جاتا ہے۔ گویا یہ دن لوگوں کی آنکھوں کے بالکل سامنے ہے، گویا کل آنے والا ہے۔ اس طرح، خدا کے کلام کو پڑھنے کے بعد، تمام لوگ دہشت زدہ ہو جاتے ہیں، اور وہ دنیا کی ویرانی کا ایک حصہ بھی محسوس کرتے ہیں، جیسے کہ ہلکی بارش کے ساتھ ہوا کے جھونکے سے گرنے والے پتے۔ لوگ بغیر کسی نشان کے غائب ہو جاتے ہیں، گویا وہ سب مکمل طور پر غائب ہو گئے ہیں۔ ہر ایک کو ایک منحوس احساس ہوتا ہے، اور اگرچہ تمام لوگ سخت کوشش کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ خدا کی رضا کو پورا کیا جائے، اور ہر شخص اپنی پوری طاقت کو خدا کے ارادے کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے، تاکہ خدا کی رضا آسانی سے اور بغیر کسی رکاوٹ کے آگے بڑھے، اس طرح کے جذبات ہمیشہ خطرے کے پیشگی احساس کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ آج کے کلمات کو ہی لو: اگر وہ عوام الناس کے لیے نشر کیے جاتے، پوری کائنات کے لیے اس کا اعلان کیا جاتا، تو تمام لوگ جھک جاتے اور روتے، کیونکہ ان الفاظ میں "میں پوری زمین پر نظر رکھوں گا اور مشرق میں راستبازی، عظمت، غضب اور تادیب کے ساتھ نمودار ہو کر انسانیت کے ان گنت جمِ غفیر پر اپنے آپ کو ظاہر کروں گا!" وہ سب لوگ جو روحانی معاملات کو سمجھتے ہیں وہ دیکھتے ہیں کہ کوئی بھی خدا کی تادیب سے بچ نہیں سکتا اور تادیب کی تکلیف کا سامنا کرنے کے بعد سب کو اپنی اپنی نوعیت کے مطابق الگ کر دیا جائے گا۔ واقعی، یہ خدا کے کام کا ایک مرحلہ ہے، اور کوئی بھی اسے بدل نہیں سکتا۔ جب خدا نے دنیا کو تخلیق کیا، جب اس نے انسانیت کی رہنمائی کی، تو اس نے اپنی حکمت اور حیرت انگیز ہونے کا مظاہرہ کیا، اور جب وہ اس دور کو ختم کرے گا، تب ہی لوگ اس کی حقیقی راستبازی، عظمت، غضب اور عذاب کو دیکھیں گے۔ مزید برآں، یہ صرف عذاب کے ذریعے ہی ہے کہ وہ اس کی راستبازی، عظمت اور تادیب کو دیکھ سکتے ہیں؛ یہ ایک ایسا راستہ ہے جسے اختیار کرنا ضروری ہے، بالکل اسی طرح جیسے آخری ایام کے دوران، انسانی شکل میں خدا ضروری اور ناگزیر ہے۔ تمام بنی نوع انسان کے خاتمے کا اعلان کرنے کے بعد، خدا انسان کو وہ کام دکھاتا ہے جو وہ آج کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، خُدا کہتا ہے، "پرانا اسرائیل ختم ہو چکا ہے، اور آج کا اسرائیل اٹھ کھڑا ہوا ہے، دنیا میں کھڑا اور بہت بلند ہے، اور پوری انسانیت کے دلوں میں اس کی دلیل محکم ہو گئی ہے۔ آج کا اسرائیل یقینی طور پر میرے لوگوں کے ذریعے وجود کا منبع حاصل کرے گا!" "آہ، نفرت انگیز مصر! ۔۔۔ تو میری تادیب میں کیسے نہیں رہ سکتا؟" خدا جان بوجھ کر لوگوں کو وہ نتائج دکھاتا ہے جو اس کے ہاتھ میں دو مخالف ممالک کو ملتے ہیں، ایک معنی میں اسرائیل کا حوالہ دیتے ہوئے، جو مادی ہے، اور دوسرے میں خدا کے تمام چنے ہوئے لوگوں کا حوالہ دیتے ہوئے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کے بدلتے ہی خدا کے چنے ہوئے لوگ کیسے بدلتے ہیں۔ جب اسرائیل مکمل طور پر اپنی اصل شکل میں واپس آجائے گا، تمام چنے ہوئے افراد کو بعد میں مکمل کر دیا جائے گا ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل ان لوگوں کی ایک بامعنی علامت ہے جن سے خدا محبت کرتا ہے۔ مصر، دریں اثنا، ان لوگوں کے ارتکاز کا نمائندہ ہے جن سے خدا نفرت کرتا ہے۔ یہ جتنا زیادہ بوسیدہ ہوتا جائے گا، اتنا ہی زیادہ وہ لوگ بدعنوان ہوتے جائیں گے جن سے خُدا نفرت کرتا ہے ۔ اور نتیجے میں بابل کو شکست ہو جائے گی۔ یہ ایک واضح تضاد پیدا کرتا ہے۔ اسرائیل اور مصر کے ختم ہونے کا اعلان کرکے، خدا تمام لوگوں کی منزل کو ظاہر کرتا ہے؛ لہذا، اسرائیل کا ذکر کرتے وقت، خدا مصر کے بارے میں بھی بات کرتا ہے۔ اس سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ مصر کی تباہی کا دن دنیا کے فنا ہونے کا دن ہے، وہ دن جب خدا تمام لوگوں کو عذاب دیتا ہے۔ یہ جلد ہی ہوگا؛ خدا اسے مکمل کرنے والا ہے، ایک ایسی چیز جو انسان کی برہنہ آنکھ سے بالکل پوشیدہ ہے، پھر بھی ناگزیر اور ناقابل تغیر ہے۔ خدا کہتا ہے، "وہ تمام لوگ جو میرے خلاف کھڑے ہیں یقیناً ان کو میں ہمیشہ کے لیے سزا دوں گا۔ کیونکہ مَیں سرکشی کو معاف نہ کرنے والا خُدا ہوں اور اُن سب کاموں کے لیے جو انسانوں نے کیے ہیں اُن کو آسانی سے نہیں چھوڑوں گا۔" خدا ایسے مطلق الفاظ میں کیوں بات کرتا ہے؟ اور وہ ذاتی طور پر عظیم سرخ اژدہے کی قوم میں گوشت پوست کا کیوں بن گیا ہے؟ خُدا کے کلام سے، اُس کا مقصد دیکھا جا سکتا ہے: وہ لوگوں کو بچانے، یا اُن پر شفقت کرنے، یا اُن کی دیکھ بھال کرنے، یا اُن کی حفاظت کرنے کے لیے نہیں آیا ہے ۔ وہ اُن تمام لوگوں کو سزا دینے کے لیے آیا ہے جو اُس کی مخالفت کرتے ہیں۔ کیونکہ خدا کہتا ہے، "میرے عذاب سے کوئی نہیں بچ سکتا۔" خدا جسم میں رہتا ہے، اور اس کے علاوہ، وہ ایک عام انسان ہے، پھر بھی وہ لوگوں کو ان کی کمزوری کے لیے معاف نہیں کرتا کہ وہ اسے موضوعی طور پر جاننے سے قاصر ہیں؛ اس کی بجائے، وہ ایک "عام شخص" کے ذریعے لوگوں کی ان کے گناہوں پر مذمت کرتا ہے، وہ ان تمام لوگوں کو جو اس کے جسم کو دیکھتے ہیں، ایسے لوگ بنا دیتا ہے جن کو سزا دی جاتی ہے، اور اس طرح وہ ان تمام لوگوں کے لیے قربانیاں بن جاتے ہیں جو عظیم سرخ اژدہے کی قوم کے لوگ نہیں ہیں۔ لیکن یہ خدا کے انسانی شکل میں ہونے کے بنیادی مقاصد میں سے ایک نہیں ہے۔ خُدا بنیادی طور پر جسمانی حالت میں عظیم سرخ اژدہے کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے، اور جنگ کے ذریعے اس کو شرمندہ کرنے کے لیے جسم بنا ہے۔ کیونکہ خُدا کی عظیم طاقت کا ثبوت روح کی بجائے جسم میں عظیم سرخ اژدہے سے لڑنے سے ہوتا ہے، اس لیے خُدا اپنے اعمال اور اپنی قدرت کاملہ کو ظاہر کرنے کے لیے جسمانی شکل میں لڑتا ہے۔ لاتعداد لوگوں کی خدا کے انسانی شکل میں ہونے کی وجہ سے "معصومانہ طور پر" مذمت کی گئی ہے، اور اس کے نتیجے میں لاتعداد لوگ جہنم میں پھینکے گئے اور عذاب میں ڈالے گئے ہیں، اور جسمانی طور پر تکلیف اٹھاتے ہیں۔ یہ خدا کے راستباز مزاج کا مظاہرہ ہے، اور اس بات سے قطع نظر کہ خدا کی مخالفت کرنے والے آج کس طرح بدل جاتے ہیں، خدا کا راست مزاج کبھی نہیں بدلے گا۔ ایک بار مذمت ہونے کے بعد، لوگ ہمیشہ کے لئے مذموم رہتے ہیں، کبھی دوبارہ اٹھنے کے قابل نہیں ہوتے۔ انسان کا مزاج خدا جیسا نہیں ہو سکتا۔ جو لوگ خدا کی مخالفت کرتے ہیں ان کی طرف لوگ یکے بعد دیگرے گرم اور سرد ہوتے ہیں۔ وہ بائیں اور دائیں ڈگمگاتے ہیں، ابھی اوپر، ابھی نیچے۔ وہ مستقل رہنے کے قابل نہیں ہیں، کبھی خدا کی مخالفت کرنے والوں سے شدید نفرت کرتے ہیں، اور کبھی انھیں قریب رکھتے ہیں۔ آج کے حالات اس لیے پیدا ہوئے ہیں کہ لوگ خدا کے کام کو نہیں جانتے۔ خُدا ایسے الفاظ کیوں کہتا ہے، "فرشتے، آخر، فرشتے ہیں؛ خدا، آخر، خدا ہے؛ بدروحیں، آخر، بدروحیں ہیں؛ غیر راستباز اب بھی غیر راستباز ہیں؛ اور مقدس اب بھی مقدس ہیں؟" کیا تم اسے نہیں سمجھ سکتے؟ کیا خدا کی یادداشت غلط ہو سکتی ہے؟ اس طرح، خُدا کہتا ہے، "ہر فرد اپنی نوعیت کے مطابق الگ ہو جاتا ہے، اور غیر متوقع طور پر اپنے گھر والوں کی آغوش میں واپس جانے کی راہ پا لیتا ہے۔" اس سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ آج خدا نے تمام چیزوں کو پہلے ہی ان کے خاندانوں میں تقسیم کر دیا ہے، اس طرح اب یہ "لامحدود دنیا" نہیں رہی، اور لوگ اب ایک ہی بڑے برتن سے نہیں کھاتے، بلکہ اپنے گھر میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری خود انجام دیتے ہیں۔ یہ دنیا کی تخلیق کے وقت خدا کا اصل منصوبہ تھا؛ نوعیت کے مطابق الگ ہونے کے بعد، لوگ "ہر ایک اپنا کھانا کھائے گا،" مطلب یہ ہے کہ خدا فیصلہ شروع کرے گا۔ نتیجے کے طور پر، خدا کے منہ سے یہ الفاظ نکلے: "میں تخلیق کی سابقہ ​​حالت کو بحال کروں گا؛ میں ہر چیز کو اس طرح بحال کروں گا جس طرح یہ اصل میں تھی، ہر چیز کو بہت زیادہ تبدیل کروں گا، تاکہ ہر چیز میرے منصوبے کی آغوش میں واپس آجائے۔" بالکل یہی خدا کے تمام کاموں کا مقصد ہے، اور اسے سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ خُدا اپنا کام مکمل کرے گا ۔ کیا انسان اس کے کام کی راہ میں کھڑا ہو سکتا ہے؟ اور کیا خدا اپنے اور انسان کے درمیان قائم کردہ عہد کو توڑ سکتا ہے؟ جو خدا کی روح کرتی ہے اس کو کون بدل سکتا ہے؟ کیا کوئی آدمی بھی ہرگز ایسا کر سکتا ہے؟

ماضی میں، لوگوں نے خدا کے کلام میں ایک قانون کو سمجھا: جب خدا کے الفاظ بولے جاتے ہیں، تو وہ جلد ہی حقیقت بن جاتے ہیں۔ اس میں کوئی جھوٹ نہیں۔ چونکہ خُدا نے کہا ہے کہ وہ تمام لوگوں کو سزا دے گا، اور مزید برآں، چونکہ اُس نے اپنے انتظامی احکام جاری کیے ہیں، یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ خُدا کا کام ایک خاص مرحلے تک ہو چکا ہے۔ وہ آئین جو تمام لوگوں کے لیے جاری کیا گیا تھا، وہ ان کی زندگیوں اور خُدا کی جانب ان کے رویے کے بارے میں تھا۔ اسے اچھی طرح سے سمجھا نہیں جا سکا؛ اس نے یہ نہیں کہا کہ یہ خدا کی تقدیر پر مبنی تھا، بلکہ یہ اس وقت انسان کے رویے کے متعلق تھا۔ آج کے انتظامی احکام غیر معمولی ہیں اور وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح "تمام لوگوں کو ان کی اپنی نوعیت کے مطابق الگ کیا جائے گا، اور ان کے اعمال کے مطابق عذاب ملے گا۔" غور سے پڑھے بغیر اس میں کوئی نقص نہیں ڈھونڈا جا سکتا۔ کیونکہ یہ آخری دور میں ہی ہوتا ہے کہ خدا ہر چیز کو اس کی نوعیت کے مطابق الگ کر دیتا ہے، اس کو پڑھنے کے بعد اکثر لوگ مخمصے اور الجھن کا شکار رہتے ہیں؛ وہ اب بھی وقت کی نزاکت کو نہ دیکھتے ہوئے جوش و خروش سے عاری رویہ اپناتے ہیں، اور اس لیے وہ اسے تنبیہ کے طور پر نہیں لیتے۔ خدا کے انتظامی احکام، جن کا اعلان پوری کائنات کے لیے کیا جاتا ہے، اس وقت انسان کو کیوں دکھائے جاتے ہیں؟ کیا یہ لوگ پوری کائنات کے تمام لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں؟ کیا خدا، بعد میں، ان لوگوں پر زیادہ رحم کر سکتا ہے؟ کیا ان لوگوں کے دو سر ہو گئے ہیں؟ جب خدا ساری کائنات کے لوگوں کو عذاب دے گا، جب ہر طرح کی آفات آئیں گی، تو ان آفات کے نتیجے میں سورج اور چاند میں تبدیلیاں رونما ہوں گی، اور جب یہ آفات ختم ہوں گی، تو سورج اور چاند بدل چکے ہوں گے ۔ اور اسے "منتقلی" کہتے ہیں۔ اتنا کہنا کافی ہے کہ مستقبل کی تباہیاں سنگین ہوں گی۔ رات دن کی جگہ لے سکتی ہے، ہو سکتا ہے سورج ایک سال تک نہ نکلے، ہو سکتا ہے کئی مہینوں تک شدید گرمی ہو، ایک کم چمکدار چاند ہمیشہ بنی نوع انسان کا سامنا کر سکتا ہے، سورج اور چاند کے اکٹھے طلوع ہونے کی ایک عجیب و غریب حالت نظر آ سکتی ہے، وغیرہ۔ کئی گردشی تبدیلیوں کے بعد، بالآخر، وقت گزرنے کے ساتھ، ان کی تجدید کی جائے گی۔ خُدا شیطان سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے اپنے انتظامات پر خصوصی توجہ دیتا ہے۔ لہذا، وہ جان بوجھ کر کہتا ہے، "کائنات کے اندر موجود انسانوں میں سے، شیطان سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کو نیست و نابود کر دیا جائے گا۔" اس سے پہلے کہ ان "لوگوں" نے اپنا اصلی رنگ دکھایا ہو، خدا ہمیشہ ان کو خدمت کے لیے استعمال کرتا ہے؛ نتیجے کے طور پر، وہ ان کے کاموں پر کوئی توجہ نہیں دیتا، جب وہ اچھا کام کرتے ہیں تو وہ انھیں کوئی "انعام" نہیں دیتا، اور نہ ہی جب وہ بری کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو وہ ان کی "اجرت" میں کمی کرتا ہے۔ اس طرح، وہ ان پر توجہ نہیں دیتا ہے اور انھیں سردمہری سے نظر انداز کرتا ہے۔ وہ ان کی "اچھائی" کی وجہ سے اچانک نہیں بدلتا، کیونکہ وقت یا جگہ سے قطع نظر، انسان کا مادہ نہیں بدلتا، بالکل اسی طرح جیسے خدا اور انسان کے درمیان قائم کیا گیا عہد، اور بالکل اسی طرح، جیسا کہ انسان کہتا ہے، "چاہے سمندر خشک ہو جائیں اور چٹانیں ریزہ ریزہ ہو جائیں، کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔" اس طرح، خدا صرف ان لوگوں کو ان کی نوعیت کے مطابق ترتیب دیتا ہے اور آسانی سے ان پر توجہ نہیں دیتا ہے۔ تخلیق کے وقت سے لے کر آج تک شیطان نے کبھی بھی اچھا طرزعمل اختیار نہیں کیا ہے۔ یہ ہمیشہ رکاوٹوں، خلفشار اور اختلاف کا باعث بنا ہے۔ جب خدا عمل کرتا ہے یا بولتا ہے تو شیطان ہمیشہ حصہ لینے کی کوشش کرتا ہے، لیکن خدا اس پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ شیطان کے ذکر پر، خدا کا طیش بڑھ جاتا ہے اور غصہ دبتا نہیں ہے؛ کیونکہ وہ ایک روح کے نہیں ہیں، اس لیے ان کا کوئی تعلق نہیں، صرف دوری اور جدائی ہے۔ سات مہروں کے نزول کے بعد، زمین کی حالت ہمیشہ بدتر ہوتی جاتی ہے، اور تمام چیزیں "سات مہروں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر آگے بڑھتی ہیں،" ذرا سا بھی پیچھے نہیں ہوتیں۔ خدا کے تمام کلام میں، لوگ خدا کو احمق نظر آتے ہیں، پھر بھی وہ بالکل بیدار نہیں ہوتے۔ ایک بلند مقام تک پہنچنے کے لیے، تمام لوگوں کی طاقت کو سامنے لانے کے لیے، اور اس کے علاوہ، خدا کے کام کو اپنے عروج پر پہنچانے کے لیے، خدا لوگوں سے سوالات کا ایک سلسلہ پوچھتا ہے، گویا ان کے پیٹوں کو پھُلاتا ہے، اور اس طرح وہ تمام لوگوں کو دوبارہ بھر دیتا ہے۔ کیونکہ ان لوگوں کی کوئی حقیقی حیثیت نہیں ہوتی، اصل حالات کی بنیاد پر، جو لوگ پُھولے ہوئے ہوتے ہیں وہ ایسا سامان ہوتے ہیں، جو معیار کے مطابق ہوتا ہے، جب کہ جو نہیں ہوتے وہ بیکار ردی ہوتے ہیں۔ یہ انسان سے خدا کا تقاضا ہے، اور یہ اس طریقے کا مقصد ہے جس سے وہ بات کرتا ہے۔ خاص طور پر، جب خُدا کہتا ہے، "کیا یہ ہو سکتا ہے کہ میں، جب زمین پر ہوں، تو ویسا نہ ہوں جیسا کہ میں آسمان پر ہوتا ہوں؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ میں جب آسمان پر ہوں، تو نیچے زمین پر نہ آ سکوں؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ جب میں زمین پر ہوں، تو میں آسمان پر اٹھائے جانے کے لائق نہ ہوں؟" یہ سوالات ایک واضح راستے کے طور پر کام کرتے ہیں جس پر انسان خدا کو جان سکتا ہے۔ خدا کے کلام سے، خدا کی فوری مرضی نظر آتی ہے؛ لوگ اس کو حاصل کرنے کے قابل نہیں ہیں، اور خدا بار بار شرائط کا اضافہ کرتا ہے، اس طرح تمام لوگوں کو یاد دلاتا ہے کہ وہ زمین پر آسمانی خدا کو جانیں، اور اس خدا کو جانیں جو آسمان پر ہے لیکن زمین پر رہتا ہے۔

خدا کے کلام سے انسان کی حالتیں دیکھی جا سکتی ہیں: "تمام بنی نوع انسان میرے کلام پر اپنی کوششیں صرف کرتے ہیں، خود سے میری ظاہری شکل کی تحقیقات کرتے ہیں، لیکن وہ سب ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں، ان کی کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا، اور اس کی بجائے وہ میرے کلام سے مغلوب ہوتے ہیں اور دوبارہ اٹھنے کی ہمت نہیں کرتے۔" خدا کے دکھ کو کون سمجھ سکتا ہے؟ کون خدا کے دل کو تسلی دے سکتا ہے؟ خدا جو مطالبہ کرتا ہے اس میں کون خدا کے دل سے ہم آہنگ ہوتا ہے؟ جب لوگ محنت کا کوئی پھل نہیں لاتے ہیں، تو وہ اپنے آپ سے انکار کرتے ہیں اور حقیقی معنوں میں خدا کے انتظامات کے تابع ہو جاتے ہیں۔ آہستہ آہستہ، جیسا کہ وہ اپنے سچے دل کو ظاہر کرتے ہیں، ہر ایک کو اس کی نوعیت کے مطابق الگ کیا جاتا ہے، اور اس طرح یہ دیکھا جاتا ہے کہ فرشتوں کا مادہ خدا کی خالص اطاعت ہے۔ اور اس لیے، خدا کہتا ہے، "انسانیت اپنی اصل شکل میں سامنے آتی ہے۔" جب خدا کا کام اس مرحلے تک پہنچ جائے گا تو یہ سب مکمل ہو چکا ہو گا۔ خدا اپنے بیٹوں اور لوگوں کے لیے مثالی ہونے کے بارے میں کچھ کہتا نظر نہیں آتا، اس کی بجائے وہ تمام لوگوں کو ان کی اصلی شکل دکھانے پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ کیا تم ان الفاظ کا صحیح مطلب سمجھتے ہو؟

سابقہ: ابواب 22 اور 23

اگلا: باب 27

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp