ابواب 22 اور 23

آج، سب لوگ خدا کی مرضی کو سمجھنے اور خدا کے مزاج کو جاننے کے لیے تیار ہیں، لیکن کسی کو بھی اس کی وجہ معلوم نہیں ہے کہ وہ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اسے کرنے سے کیوں قاصر ہیں، کیوں ان کے دل ہمیشہ ان سے بےوفائی کرتے ہیں اور وہ جو چاہتے ہیں اسے کیوں حاصل نہیں کر سکتے۔ نتیجے کے طور پر، ایک بار پھر انھیں کچل دینے والی مایوسی نے گھیرا ہوا ہے، اس کے ساتھ ہی وہ خوفزدہ بھی ہیں۔ ان متضاد جذبات کا اظہار کرنے سے قاصر، وہ اپنے سر محض غم میں جھکا سکتے ہیں اور خود سے مسلسل یہ پوچھتے ہیں: "کیا یہ ہو سکتا ہے کہ خدا نے مجھے آگہی نہ دی ہو؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ خدا نے چپکے سے مجھے چھوڑ دیا ہو؟ شاید باقی ہر کوئی ٹھیک ہے، اور خدا نے ان سب کو آگہی عطا کی ہے سوائے میرے۔ جب میں خدا کا کلام پڑھتا ہوں تو میں ہمیشہ پریشان کیوں ہوتا ہوں – میں کبھی کسی چیز کو کیوں نہیں سمجھ سکتا؟" اگرچہ ایسے خیالات لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہیں، لیکن کوئی بھی ان کا اظہار کرنے کی ہمت نہیں رکھتا؛ وہ محض اندرونی طور پر جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔ درحقیقت، خدا کے سوا کوئی بھی اس کے کلام کو سمجھنے یا اس کی حقیقی مرضی کو سمجھنے کے قابل نہیں ہے۔ پھر بھی خُدا ہمیشہ یہ کہتا ہے کہ لوگ اُس کی مرضی کو سمجھیں – کیا یہ بطخ کو زبردستی شاخ پر بٹھانے کی کوشش نہیں ہے؟ کیا خدا انسان کی ناکامیوں سے بے خبر ہے؟ یہ خدا کے کام کا ایسا مرحلہ ہے، جسے سمجھنے میں لوگ ناکام رہتے ہیں، اور اسی لیے، خدا کہتا ہے، "انسان روشنی کے درمیان رہتا ہے، لیکن وہ روشنی کے قیمتی ہونے سے بے خبر ہے۔ وہ روشنی کے جوہر اور روشنی کے منبع سے بےخبر ہے، اور اس کے علاوہ اس سے بھی بےخبر ہے کہ روشنی کا تعلق کس سے ہے۔" خدا کا کلام انسان کو جو بتاتا ہے اور وہ اس سے جو تقاضا کرتا ہے، اس کے مطابق کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا، کیونکہ انسان کے جسم میں ایسی کوئی چیز بھی نہیں ہے جو خدا کے کلام کو قبول کر رہی ہو۔ لہٰذا، خدا کے کلام پر عمل کرنے کے قابل ہونا، خدا کے کلام کی محبت اور تڑپ ہونا، اور خدا کے اس کلام کو لاگو کرنا جو انسان کے اپنے حالات کے مطابق اس کی حالت کی نشان دہی کرتے ہیں، اور اس طرح خود کو پہچان لینا – یہی اعلیٰ ترین معیار ہے۔ جب بالآخر بادشاہی قائم ہو جائے گی تو انسان، جو جسم میں رہتا ہے، تب بھی خُدا کی مرضی کو سمجھنے سے قاصر ہی رہے گا، اور اسے تب بھی خدا کی ذاتی راہنمائی کی ضرورت ہو گی – پھر بھی محض شیطان کی مداخلت کے بغیر ہو گا، اور انسان کی معمول کی زندگی کا حامل ہو گا؛ شیطان کو شکست دینے میں خدا کا یہ مقصد ہے، جو وہ بنیادی طور پر انسان کے اس اصل جوہر کو بحال کرنے کے لیے کرتا ہے، جسے خدا نے تخلیق کیا تھا۔ خُدا کے ذہن میں، "جسم" سے مراد درج ذیل ہیں: خُدا کی حقیقت کو جاننے کی صلاحیت نہ ہونا؛ روحانی دنیا کے معاملات کو دیکھنے کی صلاحیت نہ ہونا؛ اور مزید برآں، شیطان کی طرف سے بدعنوان ہونے کی صلاحیت رکھنا لیکن خُدا کی روح کی طرف سے ہدایت بھی لینا۔ یہ خُدا کے تخلیق کردہ جسم کا جوہر ہے۔ فطری طور پر، اس کا مقصد بنی نوع انسان کی زندگیوں میں اس افراتفری سے بچنا بھی ہے جو نظم و ضبط کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ خدا جتنا زیادہ بولتا ہے، اور وہ جتنے موثر انداز میں بولتا ہے، لوگ اتنا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔ لوگ لاشعوری طور پر بدل جاتے ہیں، اور لاشعوری طور پر روشنی میں رہتے ہیں، اور اس طرح، "روشنی کی وجہ سے، وہ بڑھ رہے ہیں اور تاریکی کو چھوڑ چکے ہیں۔" یہ بادشاہی کا خوبصورت منظر ہے، اور یہ "روشنی میں جینا، موت سے الگ ہونا" ہے جس کے بارے میں اکثر کہا جاتا رہا ہے۔ جب زمین پر سنیم قائم ہو جائے گا – جب بادشاہی قائم ہو جائے گی – تو زمین پر مزید جنگ نہیں ہو گی؛ پھر کبھی قحط، طاعون اور زلزلے نہیں آئیں گے؛ لوگ ہتھیار بنانا چھوڑ دیں گے؛ سب امن اور استحکام سے رہیں گے؛ اور لوگوں کے درمیان معمول کے معاملات ہوں گے، اور ملکوں کے درمیان معمول کے معاملات ہوں گے۔ پھر بھی حال کا اس سے کوئی موازنہ نہیں ہے۔ آسمانوں کے نیچے سب کچھ افراتفری کا شکار ہے، اور ہر ملک میں آہستہ آہستہ بغاوتیں شروع ہوتی ہیں۔ خدا کے کلمات کے نتیجے میں، لوگ دھیرے دھیرے بدل رہے ہیں، اور اندرونی طور پر، ہر ملک آہستہ آہستہ ٹوٹ رہا ہے۔ بابل کی مستحکم بنیادیں ہلنے لگی ہیں، ریت پر قلعے کی طرح، اور جیسے جیسے خدا کی مرضی بدلتی ہے، دنیا میں غیر محسوس طریقے پر زبردست تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، اور کسی بھی وقت ہر قسم کی نشانیاں ظاہر ہوتی ہیں، جو لوگوں کو یہ دکھاتی ہیں کہ دنیا کا آخری دن آ گیا ہے! یہ خدا کا منصوبہ ہے؛ یہ وہ اقدامات ہیں جن سے وہ کام کرتا ہے، اور ہر ملک کو ضرور ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے گا۔ پرانا سدوم دوسری بار فنا ہو جائے گا، اور اسی لیے خدا کہتا ہے، ''دنیا گر رہی ہے! بابل مفلوج ہے!" اس بات کو مکمل طور پر سمجھنے کی صلاحیت خود خدا کے سوا کسی اور میں نہیں ہے۔ آخرکار، لوگوں کے شعور کی ایک حد ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر وزرائے داخلہ کو یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ موجودہ حالات غیر مستحکم اور افراتفری کا شکار ہیں لیکن ان میں ان سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ وہ صرف وقت کے دھارے کے ساتھ چل سکتے ہیں، اپنے دلوں میں اُس دن کی امید رکھتے ہوئے جب وہ اپنا سر بلند کر سکتے ہیں، اس آنے والے دن کے لیے جب سورج ایک بار پھر مشرق میں طلوع ہو گا، زمین پر چمکے گا اور اس ابتر حالت کو پلٹ دے گا۔ تاہم، وہ بہت کم جانتے ہیں کہ جب سورج دوسری بار طلوع ہوتا ہے، تو اس کے طلوع ہونے کا مقصد پرانی ترتیب کو بحال کرنا نہیں ہوتا – یہ ایک حیاتِ نو، ایک مکمل تبدیلی ہوتی ہے۔ پوری کائنات کے لیے خدا کا یہی منصوبہ ہے۔ وہ ایک نئی دنیا لائے گا، لیکن سب سے بڑھ کر، وہ سب سے پہلے انسان کی تجدید کرے گا۔ آج، جو چیز سب سے اہم ہے وہ بنی نوع انسان کو خدا کے کلام میں لانا ہے اور انھیں محض حیثیت کی برکتوں سے لطف اندوز نہیں ہونے دینا ہے۔ اس کے علاوہ، جیسا کہ خدا کہتا ہے، "بادشاہی میں، میں بادشاہ ہوں – لیکن مجھے اس کا بادشاہ ماننے کی بجائے، انسان میرے ساتھ 'آسمان سے نازل ہوئے نجات دہندہ' کے طور پر سلوک کرتا ہے۔ جس کے نتیجے میں، وہ یہ خواہش رکھتا ہے کہ میں اسے خیرات دوں اور وہ میرے علم کی جستجو نہیں کرتا ہے۔" تمام لوگوں کے حقیقی حالات اسی طرح کے ہیں۔ آج، جو چیز بہت اہم ہے وہ انسان کی حد سے زیادہ لالچ کو مکمل طور پر دور کرنا ہے تاکہ اسے بغیر کوئی مطالبہ کیے خدا کو جاننے کا موقع ملے۔ پس یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ خدا کہتا ہے، "اس طرح بہت سے لوگوں نے مجھ سے بھکاریوں کی طرح التجا کی ہے؛ بہت سے لوگوں نے میرے سامنے اپنی 'بوریوں' کو کھول دیا ہے اور مجھ سے التجا کی ہے کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے کھانا فراہم کروں۔" اس طرح کی حالتیں لوگوں کے حرص کی نشاندہی کرتی ہیں، اور وہ یہ ظاہر کرتی ہیں کہ لوگ خدا سے محبت نہیں کرتے، بلکہ اس سے مطالبات کرتے ہیں، یا ان چیزوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کی انھیں خواہش ہوتی ہے۔ لوگوں کی فطرت ایک بھوکے بھیڑیے کی طرح ہوتی ہے؛ وہ سب چالاک اور لالچی ہوتے ہیں، اور اسی لیے خدا ان سے بار بار تقاضا کرتا ہے، اور انہیں مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے دلوں سے لالچ کو نکالیں اور خلوص دل سے خدا سے محبت کریں۔ حقیقت میں، آج تک، لوگوں نے ابھی تک اپنے دل مکمل طور پرخدا کو نہیں دیے ہیں؛ وہ دو کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں، اور خدا پر مکمل بھروسا کیے بغیر کبھی خود پر، کبھی خدا پر انحصار کرتے ہیں۔ جب خدا کا کام ایک خاص مقام پر پہنچ جائے گا تو تمام لوگ سچی محبت اور ایمان کے ساتھ زندگی بسر کریں گے، اور خدا کی مرضی پوری ہو جائے گی۔ لہٰذا، خدا کے تقاضے زیادہ نہیں ہیں۔

فرشتے آسمان اور زمین کے درمیان خدا کے بیٹوں اور لوگوں کے درمیان مسلسل جلدی جلدی حرکت کرتے ہیں اور ہر روز روحانی دنیا میں واپس آنے کے بعد انسانی دنیا میں اترتے ہیں۔ یہ ان کا فرض ہے، اور اس طرح، ہر روز، خدا کے بیٹوں اور لوگوں کی نگہبانی ہوتی ہے، اور ان کی زندگی آہستہ آہستہ تبدیل ہو جاتی ہے۔ جس دن خدا اپنی شکل بدلے گا، زمین پر فرشتوں کا کام باضابطہ طور پر ختم ہو جائے گا اور وہ آسمانی دنیا میں واپس آ جائیں گے۔ آج خدا کے تمام بیٹے اور لوگ اسی حالت میں ہیں۔ جیسے جیسے سیکنڈز گزر رہے ہیں، تمام لوگ بدل رہے ہیں، اور خدا کے بیٹے اور لوگ آہستہ آہستہ باشعور ہو رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں، عظیم سرخ اژدہے کے سامنے باغی بھی بدل رہے ہیں: لوگ اب عظیم سرخ اژدہے کے مزید وفادار نہیں ہیں، اور بدروحیں اب اس کے انتظامات پر مزید عمل نہیں کرتی ہیں۔ اس کی بجائے، وہ " تمام چیزیں اسی طرح کام کرتی ہیں جیسے وہ مناسب سمجھتی ہیں، اور ہر ایک اپنے طریقے سے چلتی ہے۔" اس لیے جب خدا کہتا ہے، "زمین پر موجود ممالک کیسے فنا نہیں ہوسکتے؟ زمین پر ممالک کیسے گر نہیں سکتے؟" آسمان ایک لمحے میں دباتے ہوئے نیچے آ جاتے ہیں۔۔۔۔ اور یہ ایسے ہے کہ جیسے بنی نوع انسان کے خاتمے کی تنبیہ کا ایک پیشگی منحوس احساس ہو۔ یہاں پیشین گوئی کی گئی خوفزدہ کرنے والی مختلف نشانیاں بالکل وہی ہیں جو عظیم سرخ اژدہے کے ملک میں وقوع پذیر ہو رہی ہیں، اور زمین پر کوئی بھی نہیں بچ سکتا ہے۔ خدا کے کلام میں اس طرح کی پیشین گوئی ہے۔ آج، سب لوگوں کو اس بات کا پیشگی احساس ہو رہا ہے کہ وقت بہت کم ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ وہ یہ محسوس کر رہے ہیں کہ ان پر ایک آفت آنے والی ہے – لیکن ان کے پاس بچنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، اور اس طرح وہ سب ناامید ہیں۔ خدا کہتا ہے، "جب میں اپنی بادشاہی کے "اندرونی ایوان" کو دن بہ دن سجاتا ہوں، تو کوئی بھی میرے کام میں خلل ڈالنے کے لیے میرے "کام کے کمرے" میں کبھی اچانک نہیں آیا۔" درحقیقت، خدا کے کلام کا مطلب صرف یہ کہنا نہیں ہے کہ لوگ خدا کو اس کے کلام سے جان سکتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر، وہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہر روز، خدا اپنے کام کے اگلے حصے کی خاطر پوری کائنات میں ہر طرح کی پیشرفت کا بندوبست کرتا ہے۔ جس وجہ سے وہ یہ کہتا ہے کہ "کوئی بھی میرے کام میں خلل ڈالنے کے لیے میرے 'کام کے کمرے' میں کبھی اچانک نہیں آیا" وہ یہ ہے کہ خدا الوہیت کی حالت میں کام کرتا ہے اور لوگ اگر چاہیں تو بھی اس کے کام میں حصہ لینے کے قابل نہیں ہیں۔ میں تجھ سے پوچھتا ہوں: کیا تو پوری کائنات میں ہر پیشرفت کا واقعی بندوبست کر سکتا ہے؟ کیا تو زمین پر رہنے والوں کو ان کے آباؤ اجداد کی مخالفت پر مجبور کر سکتا ہے؟ کیا تو پوری کائنات کے لوگوں سے خدا کی مرضی کو پورا کروانے کی خاطر ترکیب کر سکتا ہے؟ کیا تو شیطان سے فساد برپا کروا سکتا ہے؟ کیا تو لوگوں کو یہ محسوس کروا سکتا ہے کہ دنیا ویران اور خالی ہے؟ لوگ ایسی چیزوں کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔ ماضی میں، جب شیطان کی "مہارتیں" پوری طرح سے استعمال نہیں ہوئی تھیں تو یہ خدا کے کام کے ہر مرحلے میں ہمیشہ مداخلت کرتا تھا۔ اس مرحلے میں، شیطان کی چالیں ختم ہو چکی ہیں، اور اس طرح خدا اسے اس کی اصلیت ظاہر کرنے دیتا ہے، تاکہ تمام لوگ اسے جان سکیں۔ یہ ان الفاظ کی سچائی ہے "کسی نے کبھی میرے کام میں خلل نہیں ڈالا ہے۔"

ہر روز، کلیسیاؤں کے لوگ خدا کا کلام پڑھتے ہیں، اور ہر روز، وہ "آپریشن کی میز" پر معائنے کے لیے چیرپھاڑ کے عمل سے گزرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، "برخاست کیے جانے،" "اپنی حیثیت کھونے،" "ان کا خوف ختم ہو جاتا ہے اور سکون بحال ہو جاتا ہے،" "چھوڑنے،" اور "'احساس' سے عاری ہو کر" – ایسے تضحیک آمیز الفاظ لوگوں کو "اذیت" دیتے ہیں اور انہیں شرم سے گونگا کر دیتے ہیں۔ یہ ایسے ہے گویا ان کے پورے جسم کا کوئی حصہ – سر سے پاؤں تک، اندر سے باہر تک – خدا کی رضامندی کے مطابق نہیں ہے۔ خُدا اپنے کلام سے لوگوں کی زندگیوں کو اتنا بے نقاب کیوں کرتا ہے؟ کیا خدا جان بوجھ کر لوگوں کے لیے چیزوں کو مشکل بنا رہا ہے؟ گویا تمام لوگوں کے چہرے مٹی سے اس طرح اٹے ہوئے ہیں کہ دُھل ہی نہیں سکتے۔ ہر روز، جھکے سروں کے ساتھ، دھوکا دینے والے فنکاروں کی طرح وہ اپنے گناہوں کا حساب دیتے ہیں۔ لوگوں کو شیطان نے اتنا بدعنوان بنا دیا ہے کہ انھیں خود اپنی اصل حالتوں کا ہی مکمل طور پر علم نہیں ہے۔ لیکن خدا کے نزدیک شیطان کا زہر ان کے جسم کے ہر حصے میں ہے حتیٰ کہ ان کی ہڈیوں کے گودے میں بھی؛ نتیجتاً، خدا کے الہامات جتنے زیادہ گہرے ہوتے ہیں، لوگ اتنا ہی زیادہ خوفزدہ ہو جاتے ہیں، اور اس طرح تمام لوگوں کو شیطان کی پہچان کروا دی جاتی ہے اور وہ انسان میں شیطان کو دیکھ لیتے ہیں، کیونکہ وہ شیطان کو اپنی عام آنکھوں سے دیکھنے سے قاصر رہے ہیں۔ اور چونکہ سب لوگ حقیقت میں داخل ہو چکے ہیں اس لیے خُدا انسان کی فطرت کو بے نقاب کرتا ہے – جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شیطان کی شبیہ کو بے نقاب کرتا ہے – اور اس طرح وہ انسان کو حقیقی، قابلِ ادراک شیطان کو دیکھنے دیتا ہے اور ان کے لیے عملی خدا کو جاننا اور زیادہ بہتر ہو جاتا ہے۔ خُدا انسان کو اُسے جسمانی طور پر جاننے کی اجازت دیتا ہے، اور وہ شیطان کو شکل دیتا ہے اور انسان کو تمام لوگوں کے جسم میں حقیقی، قابلِ ادراک شیطان کو جاننے کی اجازت دیتا ہے۔ جن مختلف حالتوں کے بارے میں بات کی جاتی ہے وہ سب شیطان کے اعمال کا اظہار ہیں۔ اور اس طرح، یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو بھی جسم کے ہیں وہ شیطان کی شبیہ کے مجسم ہیں۔ خدا اپنے دشمنوں کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا ہے – وہ ایک دوسرے کے مخالف ہیں؛ اور دو مختلف قوتیں ہیں۔ اس لیے، شیاطین ہمیشہ کے لیے شیاطین ہیں، اور خدا ہمیشہ کے لیے خدا ہے؛ وہ آگ اور پانی کی طرح متضاد ہیں، آسمان اور زمین کی طرح ہمیشہ الگ ہیں۔ جب خدا نے انسان کو تخلیق کیا تو ایک قسم کے لوگوں میں فرشتوں کی روحیں تھیں، جب کہ ایک قسم کے لوگوں میں کوئی روح نہیں تھی، اور اس طرح بعد میں ذکر کیے گئے لوگوں پر شیاطین کی روحوں کا غلبہ ہو گیا اور اسی لیے انہیں شیاطین کہا جاتا ہے۔ بالآخر، فرشتے فرشتے ہیں، شیاطین شیاطین ہیں – اور خدا خدا ہے۔ ہر ایک کا اپنی نوعیت کے مطابق ہونے سے یہی مراد ہے، اور اسی طرح جب فرشتے زمین پر حکومت کرتے ہیں اور برکتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، تو خدا اپنی رہائش کی جگہ پر واپس آجاتا ہے، اور باقی – خدا کے دشمن – راکھ ہو جاتے ہیں۔ درحقیقت، تمام لوگ ظاہری طور پر خدا سے محبت کرتے نظر آتے ہیں، لیکن اس کی بنیاد ان کے جوہر میں ہے- فرشتوں کی فطرت والے لوگ خدا کے ہاتھ سے کیسے بچ سکتے ہیں اور اتھاہ گڑھے میں کیسے گر سکتے ہیں؟ اور شیاطین کی فطرت والے لوگ خدا سے کبھی سچی محبت کیسے کر سکتے ہیں؟ ایسے لوگوں کا جوہر خدا سے سچی محبت والا نہیں ہے، تو پھر انھیں بادشاہی میں داخل ہونے کا موقع کبھی کیسے مل سکتا ہے؟ جب خدا نے دنیا کو تخلیق کیا تو سب کچھ اسی نے ترتیب دیا تھا، جیسا کہ خدا کہتا ہے: "میں آندھی اور بارش کے درمیان آگے بڑھتا ہوں، اور سالہا سال انسان کے درمیان گزارے ہیں، اور صحیح وقت پر آج کے دن تک پہنچا ہوں۔ کیا یہ عین میرے انتظامی منصوبے کے مرحلے نہیں ہیں؟ کس نے کبھی میرے منصوبے میں اضافہ کیا ہے؟ کون میرے منصوبے کے مرحلوں سے ہٹ سکتا ہے؟" جسم بننے کے بعد، خدا کو انسان کی زندگی کا عملی تجربہ ضرورکرنا ہوگا – کیا یہ عملی خدا کا عملی پہلو نہیں ہے؟ خدا انسان کی کمزوری کی وجہ سے انسان سے کچھ نہیں چھپاتا ہے؛ اس کی بجائے، وہ انسان کے سامنے سچائی کو کھل کر بیان کرتا ہے، عین جس طرح کہ خدا کہتا ہے: "میں نے سالہا سال انسان کے درمیان گزارے ہیں۔" یہ خاص طور پر اس لیے ہے کہ خدا مجسم خدا ہے اور اس نے زمین پر سالہا سال گزارے ہیں؛ اس کے مطابق، ہر طرح کے عمل سے گزرنے کے بعد ہی اسے مجسم خدا سمجھا جا سکتا ہے، اور اس کے بعد ہی وہ جسم کے اندر الوہیت میں کام کر سکتا ہے۔ پھر، تمام اسرار بے نقاب کرنے کے بعد، وہ اپنی شکل تبدیل کرنے کے لیے آزاد ہو گا۔ یہ غیر مافوق الفطرت ہونے کی وضاحت کا ایک اور پہلو ہے جس کی طرف خدا نے براہ راست اشارہ کیا ہے۔

یہ ضروری ہے کہ خُدا کے ہر ایک کلام کا معائنہ بےپروائی سے نہ کیا جائے – یہ خُدا کا حکم ہے!

سابقہ: باب 21

اگلا: باب 26

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp