باب 20

خدا نے تمام بنی نوع انسان کو تخلیق کیا، اور آج تک تمام نوع انسانی کی راہنمائی کی ہے۔ اس طرح خدا وہ سب کچھ جانتا ہے جو انسانوں کے درمیان ہوتا ہے: وہ انسان کی دنیا کی تلخیوں کو جانتا ہے، انسان کی دنیا کی مٹھاس کو سمجھتا ہے، اور اسی لیے وہ ہر روز تمام بنی نوع انسان کی زندگی کے حالات بیان کرتا ہے، اور اس کے علاوہ تمام بنی نوع انسان کی کمزوری اور بدعنوانی سے بھی نمٹتا ہے۔ خدا کی یہ مرضی نہیں ہے کہ تمام بنی نوع انسان کو اتھاہ گڑھے میں ڈال دیا جائے، یا یہ کہ تمام بنی نوع انسان کو بچا لیا جائے۔ خدا کے اعمال کا ہمیشہ ایک اصول ہوتا ہے لیکن کوئی بھی اس قابل نہیں ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے اس کے قوانین کو سمجھ سکے۔ جب لوگوں کو خدا کی عظمت اور غضب کا علم ہو جاتا ہے تو خدا فوراً لہجے کو رحمت اور محبت میں تبدیل کر لیتا ہے لیکن جب لوگوں کو خدا کی رحمت اور محبت کا پتہ چل جاتا ہے تو وہ فوراً ایک مرتبہ پھر لہجہ بدل لیتا ہے اور اپنے کلام کو کھانا اتنا مشکل بنا دیتا ہے کہ جیسے وہ ایک زندہ مرغ ہو۔ خُدا کے تمام کلام میں، آغاز کو کبھی بھی نہیں دہرایا گیا، اور نہ ہی کبھی اُس کا کوئی کلام گزشتہ کل کے کلام کے اصول کے مطابق کہا گیا ہے؛ یہاں تک کہ لہجہ بھی ایک جیسا نہیں ہے، اور نہ ہی مواد میں کوئی تعلق ہے – یہ سب کچھ لوگوں کو اور بھی زیادہ حیران کن محسوس ہوتا ہے۔ یہ خدا کی حکمت ہے، اور اس کے مزاج کا انکشاف ہے۔ وہ اپنی تقریر کے لہجے اور انداز کو لوگوں کے خیالات کو منتشر کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے، شیطان کو الجھانے کے لیے اور شیطان سے خدا کے اعمال کو زہر آلود کرنے کا موقع چھیننے کے لیے۔ خدا کے کاموں کی حیرت انگیزی لوگوں کے ذہنوں کو خدا کے کلام سے چکرا کر رکھ دیتی ہے۔ وہ بمشکل اپنا سامنے کا دروازہ تلاش کرنے کے قابل ہوتے ہیں، اور یہ تک نہیں جانتے کہ انھیں کب کھانا یا آرام کرنا ہے، اس طرح وہ واقعی "خُدا کے لیے نیند اور خوراک کو ترک کرنے" کو حاصل کرتے ہیں۔ لیکن اس مقام پر بھی خدا موجودہ حالات سے غیر مطمئن رہتا ہے، اور انسان سے ہمیشہ ناراض رہتا ہے، اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے مخلص دل کو سامنے لائے۔ اگر نہیں، تو جیسے ہی خدا نے ذرا سی نرمی دکھائی تو لوگ فوراً "اطاعت" کریں گے اور بے پروائی کا شکار ہو جائیں گے۔ یہ انسان کی پستی ہے؛ اسے قائل نیں کیا جا سکتا ہے لیکن اسے حرکت میں لانے کے لیے لازمی مارنا پیٹنا یا گھسیٹنا چاہیے۔ "ان تمام لوگوں میں سے جن کو میں دیکھتا ہوں، کسی نے بھی شعوری طور پر اور براہ راست مجھے کبھی تلاش نہیں کیا۔ وہ سب دوسروں کے کہنے پر اکثریت کی پیروی کرتے ہوئے میرے سامنے آتے ہیں، اور وہ اپنی زندگیوں کو سنوارنے کے لیے قیمت ادا کرنے یا وقت خرچ کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔" زمین پر سب کے حالات اسی طرح کے ہیں۔ اس طرح، رسولوں یا پیشواؤں کے کام کے بغیر، سب لوگ بہت پہلے سے بکھر چکے ہوتے، اور اسی لیے تمام ادوار میں، رسولوں اور نبیوں کی کمی نہیں رہی ہے۔

ان کلمات میں، خدا تمام بنی نوع انسان کی زندگی کے حالات کی تلخیص کرنے کے لیے خصوصی توجہ مرکوز کرتا ہے۔ درج ذیل کی طرح کے تمام کلمات اسی قسم کے ہیں: "انسان کی زندگی میں معمولی سی گرم جوشی بھی نہیں ہے، اور وہ انسانیت یا روشنی کے کسی سراغ سے محروم ہے – پھر بھی وہ ہمیشہ نفس پرست رہا ہے، زندگی بھر اہمیت سے محروم رہا ہے جس میں وہ کچھ حاصل کیے بغیر بھاگ دوڑ کرتا ہے۔ پلک جھپکتے ہی موت کا دن قریب آ جاتا ہے اور انسان ایک تلخ موت مر جاتا ہے۔" یہ کیوں ہے کہ خدا نے آج تک بنی نوع انسان کے وجود کی راہنمائی کی ہے اور اس کے باوجود وہ انسانی دنیا میں زندگی کے کھوکھلے پن کو بھی ظاہر کرتا ہے؟ اور وہ سب لوگوں کی پوری زندگی کو "جلدی میں آنا اور جلدی میں جانا" کے طور پر کیوں بیان کرتا ہے؟ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب خدا کا منصوبہ ہے، یہ سب خدا کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے، اور اسی طرح، ایک اور لحاظ سے یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کس طرح خدا الوہیت میں زندگی کے علاوہ سب کو حقیر سمجھتا ہے۔ اگرچہ خدا نے تمام بنی نوع انسان کو تخلیق کیا ہے، لیکن اس نے کبھی بھی تمام بنی نوع انسان کی زندگی میں حقیقی معنوں میں خوشی حاصل نہیں کی ہے، اور اس لیے وہ محض انسانوں کو شیطان کی بدعنوانی کے تحت رہنے دیتا ہے۔ بنی نوع انسان کے اس عمل سے گزرنے کے بعد، وہ بنی نوع انسان کو فنا کر دے گا یا بچا لے گا، اور اس طرح انسان زمین پر ایسی زندگی حاصل کر لے گا جو کھوکھلی نہیں ہے۔ یہ سب خدا کے منصوبے کا حصہ ہے۔ اور اس طرح، انسان کے شعور میں ہمیشہ ایک خواہش ہوتی ہے، جس نے کسی کو بھی خوشی سے بے گناہ موت نہیں مرنے نہیں دیا – لیکن اس خواہش کو حاصل کرنے والے صرف آخری ایام کے لوگ ہیں۔ آج لوگ ابھی تک ایک ناقابل واپسی کھوکھلے پن کے درمیان جی رہے ہیں اور وہ اب بھی اس پوشیدہ خواہش کے منتظر ہیں: "جب میں اپنے ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیتا ہوں، اور لوگوں کو زمین کے نیچے دباتا ہوں، تو فوراً ان کے لیے سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے اور وہ بمشکل زندہ رہنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اس ڈر سے کہ میں اُن کو تباہ کر دوں گا، وہ مجھ سے فریاد کرتے ہیں، کیونکہ وہ سب اُس دن کو دیکھنا چاہتے ہیں جب میں جاہ وجلال حاصل کروں گا۔" آج تمام لوگوں کے حالات ایسے ہیں۔ وہ سب ایک "خلا" میں رہتے ہیں، "آکسیجن" کے بغیر، جس کی وجہ سے ان کے لیے سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔ خدا تمام بنی نوع انسان کی بقا میں مدد دینے کے لیے انسان کے شعور میں خواہش کا استعمال کرتا ہے؛ اگر ایسا نہ ہو، تو سب "راہب بننے کے لیے گھر چھوڑ دیں گے،" جس کے نتیجے میں نوع انسانی ناپید ہو جائے گی، اور ختم ہو جائے گی۔ اسی طرح خدا نے انسان سے جو وعدہ کیا تھا اسی کی وجہ سے انسان آج تک زندہ ہے۔ یہ سچ ہے، لیکن انسان نے کبھی اس قانون کو دریافت نہیں کیا، اور اس طرح وہ نہیں جانتا کہ وہ کیوں "خود پر موت کے دوسری مرتبہ آ جانے کے شدید خوف" میں مبتلا ہے۔ انسان ہونے کے ناطے، کسی میں بھی زندہ رہنے کی ہمت نہیں ہے، پھر بھی کسی کو کبھی مرنے کی ہمت بھی نہیں ہوئی، اور اسی لیے خدا کہتا ہے کہ لوگ "ایک تلخ موت مرتے ہیں۔" یہ انسان کا حقیقی حال ہے۔ شاید، اپنے امکانات میں، کچھ لوگوں کو ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور انھوں نے موت کے بارے میں سوچا ہے، لیکن ان خیالات پر کبھی عمل نہیں ہوا ہے؛ شاید، کچھ لوگوں نے خاندانی جھگڑوں کی وجہ سے موت کا سوچا ہو، لیکن اپنے پیاروں کا سوچ کر وہ اپنی خواہش کو پورا کرنے سے قاصر رہتے ہیں؛ اور شاید، کچھ لوگوں نے اپنی شادی کی ناکامی کی وجہ سے موت کے بارے میں سوچا ہے، لیکن وہ اس پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس طرح لوگ اپنے دلوں میں شکایات یا دائمی ندامت کے ساتھ ہی مر جاتے ہیں۔ تمام لوگوں کی مختلف حالتیں ایسی ہیں۔ انسان کی وسیع دنیا پر نظر ڈالتے ہوئے، لوگ ایک نہ ختم ہونے والے دھارے میں آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، اور اگرچہ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ جینے سے زیادہ موت میں خوشی ہو گی، لیکن پھر بھی وہ صرف باتیں ہی کرتے ہیں، اور کسی نے مرنے کے بعد واپس آ کر زندوں کو موت کی خوشی سے لطف اندوز ہونے کا طریقہ بتانے کے لیے پہل کرتے ہوئے کبھی مثال قائم نہیں کی ہے۔ لوگ قابلِ نفرت کمینے ہیں: ان میں کوئی شرم یا عزتِ نفس نہیں ہوتی، اور وہ ہمیشہ اپنی بات سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ اپنے منصوبے میں، خدا نے لوگوں کے ایک گروہ کو پہلے سے مقرر کر لیا ہے جو اس کے وعدے سے لطف اندوز ہوں گے، اور اس طرح خدا کہتا ہے، "بہت سی روحیں جسم کی حالت میں رہ چکی ہیں، اور بہت سے مر چکی ہیں اور زمین پر دوبارہ پیدا ہوئی ہیں۔ پھر بھی ان میں سے کسی کو آج کی بادشاہی کی برکتوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع نہیں ملا۔" آج بادشاہی کی برکتوں سے لطف اندوز ہونے والے سب لوگ وہ ہیں جنھیں خدا نے دنیا کی تخلیق کے وقت ہی پہلے سے مقرر کر دیا تھا۔ خُدا نے اِن روحوں کے لیے آخری ایام میں جسم میں رہنے کا انتظام کیا، اور بالآخر، خُدا لوگوں کے اس گروہ کو حاصل کر لے گا، اور اُن کے لیے سینیم میں رہنے کا انتظام کرے گا۔ کیونکہ، جوہر میں، ان لوگوں کی روحیں فرشتے ہیں، خدا کہتا ہے، "کیا واقعی انسان کی روح میں میرا کبھی کوئی سراغ نہیں رہا ہے؟" درحقیقت جب لوگ جسم میں رہتے ہیں تو وہ روحانی دنیا کے معاملات سے بے خبر رہتے ہیں۔ ان سادہ الفاظ سے – "انسان مجھے محتاط نظروں سے دیکھتا ہے" – خدا کی ذہنی کیفیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ان سادہ الفاظ میں خدا کی پیچیدہ نفسیات کا اظہار ہوتا ہے۔ تخلیق کے وقت سے لے کر آج تک، خدا کے دل میں ہمیشہ غضب اور فیصلے کے ساتھ غم موجود رہا ہے، کیونکہ زمین پر لوگ خدا کی مرضی کا خیال رکھنے سے قاصر ہیں، جیسا کہ خدا کہتا ہے، "انسان پہاڑی وحشی کی مانند ہے۔" لیکن خدا یہ بھی کہتا ہے، "ایک دن آئے گا جب انسان طاقتور سمندر کے درمیان سے تیر کر میری طرف آئے گا، تاکہ وہ زمین کے تمام قیمتی اثاثوں سے لطف اندوز ہو سکے اور سمندر کے نگل جانے کے خطرے کو پیچھے چھوڑ دے۔" یہ خدا کی مرضی کی تکمیل ہے، اور اسے ایک ناگزیر رجحان کے طور پر بھی بیان کیا جا سکتا ہے، اور یہ خدا کے کام کی تکمیل کی علامت ہے۔

جب بادشاہی مکمل طور پر زمین پر اتر آئے گی تو تمام لوگ اپنی اصلی شکل کو واپس حاصل کر لیں گے۔ چنانچہ خدا کہتا ہے، "میں اپنے تخت کے اوپر سے لطف اندوز ہوتا ہوں، اور میں ستاروں کے درمیان رہتا ہوں۔ فرشتے میری خاطر نئے گیت اور نئے رقص پیش کرتے ہیں۔ ان کی نزاکت اب مزید ان کے چہروں پر آنسو بہانے کا سبب نہیں بنتی۔ اب میں اپنے سامنے فرشتوں کے رونے کی مزید آواز نہیں سنتا، اور اب کوئی مجھ سے تکالیف کی شکایت نہیں کرتا۔" اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس دن خدا مکمل جاہ وجلال حاصل کرتا ہے وہ دن ہے جب انسان اپنے آرام سے لطف اندوز ہوتا ہے؛ شیطان کے خلل کے نتیجے میں لوگ اب جلدبازی نہیں کرتے، دنیا مزید ترقی کرنا بند کر دیتی ہے، اور لوگ آرام سے رہتے ہیں – کیونکہ آسمانوں کے بے شمار ستاروں کی تجدید ہو جاتی ہے، اور سورج، چاند، ستارے وغیرہ اور آسمان میں اور زمین پر تمام پہاڑ اور دریا سب بدل جاتے ہیں۔ اور چونکہ انسان بدل گیا ہے اور خدا بدل گیا ہے، اسی طرح سب چیزیں بھی بدل جائیں گی۔ یہ خدا کے انتظامی منصوبے کا حتمی مقصد ہے، اور یہ وہی ہے جو آخر کار حاصل کیا جائے گا۔ خدا کا ان تمام کلمات کو کہنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان خدا کو جان لے۔ لوگ خدا کے انتظامی احکام کو نہیں سمجھتے ہیں۔ خدا جو کچھ بھی کرتا ہے وہ خود خدا کی طرف سے منظم کیا جاتا اور ترتیب دیا جاتا ہے، اور خدا اس بات پر آمادہ نہیں ہے کہ کوئی مداخلت کرے؛ اس کی بجائے، وہ لوگوں کو وہ سب کچھ دیکھنے دیتا ہے جو اس نے ترتیب دیا ہے اور جو انسان کے لیے ناقابل حصول ہے۔ اگرچہ انسان اسے دیکھ سکتا ہے، یا اس کا تصور کرنا مشکل ہوتا ہے، سب کچھ صرف خدا قابو کرتا ہے، اور خدا اسے معمولی سی انسانی سوچ سے بھی داغدار نہیں ہونے دینا چاہتا۔ خدا یقیناً کسی بھی حصہ لینے والے کو معاف نہیں کرے گا چاہے وہ تھوڑا سا ہی کیوں نہ ہو؛ خدا وہ خدا ہے جو انسان کی سرکشی کو معاف نہیں کرتا ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ خدا کی روح اس سلسلے میں خاص طور پر حساس ہے۔ اس طرح، جو کوئی بھی دخل دینے کا ذرا سا بھی ارادہ رکھتا ہے تو خدا کے بھسم کر دینے والے شعلے اسے فوراً ڈھانپ لیں گے اور اسے آگ میں جلا کر راکھ کر دیں گے۔ خدا لوگوں کو ان کی صلاحیتوں کی نمائش ان کی مرضی کے مطابق کرنے کی اجازت نہیں دیتا، کیونکہ جن سب کو صلاحیتیں عطا کی گئی ہیں وہ زندگی کے بغیر ہیں؛ یہ مفروضہ صلاحیتیں صرف خدا کی خدمت کرتی ہیں، اور شیطان کی طرف سے پیدا ہوتی ہیں، اور اس طرح خدا ان سے خاص طور پر نفرت کرتا ہے، جو اس میں کوئی رعایت نہیں دیتا ہے۔ پھر بھی اکثر ایسے زندگی کے بغیر لوگ ہوتے ہیں جو خدا کے کام میں حصہ لینے کا امکان رکھتے ہیں، اور اس کے علاوہ، ان کی شرکت کا علم نہیں ہوتا ہے، کیونکہ یہ ان کی صلاحیتوں کی وجہ سے قابلِ شناخت نہیں ہوتی ہیں۔ تمام ادوار کے دوران، جن لوگوں کو صلاحیتیں عطا ہوئی ہیں وہ کبھی ثابت قدم نہیں رہے، کیونکہ وہ زندگی کے بغیر ہیں، اور اس لیے ان میں مزاحمت کی طاقت نہیں ہے۔ چنانچہ خدا کہتا ہے، "اگر میں صاف انداز میں بات نہیں کروں گا، تو انسان کبھی اپنے حواس میں نہیں آئے گا، اور انجانے میں میری تادیب کا شکار ہو جائے گا – کیونکہ انسان مجھے میرے جسم میں نہیں جانتا ہے۔" گوشت اور خون کے تمام لوگ خدا کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں، لیکن پھر بھی شیطان کی غلامی میں رہتے ہیں، اور اسی لیے لوگوں کا ایک دوسرے کے ساتھ کبھی بھی معمول کا رشتہ نہیں رہا ہے، خواہ ہوس کی وجہ سے، یا محبت کی وجہ سے، یا ان کے ماحول کے انتظامات کی وجہ سے۔ اس طرح کے غیر معمولی تعلقات خدا کو سب سے زیادہ ناپسند ہیں، اور اسی لیے ان تعلقات کی وجہ سے خدا کے منہ سے یہ کلمات نکلتے ہیں: "میں جو چاہتا ہوں وہ زندگی سے بھرپور زندہ مخلوقات ہیں، موت میں دھنسی ہوئی لاشیں نہیں۔ چونکہ میں بادشاہی کے میز سے ٹیک لگاتا ہوں، میں زمین پر موجود تمام لوگوں کو مجھ سے معائنہ کروانے کا حکم دوں گا۔" جب خدا پوری کائنات کے اوپر ہوتا ہے، تو وہ ہر روز گوشت اور خون کے لوگوں کے ہر عمل کا مشاہدہ کرتا ہے، اور اس نے ان میں سے کسی ایک کو بھی کبھی نظر انداز نہیں کیا ہے۔ یہ خدا کے اعمال ہیں۔ اور اسی لیے میں تمام لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اپنے خیالات، نظریات اور اعمال کا جائزہ لیں۔ میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ تو خدا کے لئے شرمندگی کا نشان بن بلکہ خدا کے جاہ و جلال کا مظہر بن کہ تیرے تمام افعال، الفاظ اور زندگی شیطان کے مذاق کا نشانہ نہ بنے۔ سب لوگوں سے خدا کا یہی تقاضا ہے۔

سابقہ: باب 19

اگلا: باب 21

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp