باب 18

خدا کے سب کلام میں اس کے مزاج کا حصہ شامل ہے۔ خدا کے مزاج کو الفاظ میں مکمل طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا، جو یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ اس میں کتنی گہرائی ہے۔ لوگ جو دیکھ سکتے ہیں اور جسے چھو سکتے ہیں، وہ آخر کار محدود ہے، جیسا کہ لوگوں کی صلاحیت محدود ہے۔ اگرچہ خدا کا کلام واضح ہے، لیکن لوگ اس کو مکمل طور پر سمجھنے سے قاصر ہیں۔ مثال کے طور پر ان الفاظ کو لو: "بجلی کی چمک میں ہر جانور اپنی اصلی شکل میں ظاہر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح، میرے نور سے روشن ہو کر، انسان نے وہ تقدس دوبارہ حاصل کر لیا ہے جس کا وہ کبھی حامل تھا۔ اوہ، پرانے وقتوں کی بدعنوان دنیا! آخر کار، یہ غلیظ پانی میں گر گئی ہے اور سطح سے نیچے دھنس کر کیچڑ میں تحلیل ہو گئی ہے!" خدا کے سب کلام میں اس کی ذات شامل ہے، اور اگرچہ تمام لوگ اس کلام سے واقف ہیں، لیکن کسی نے بھی اس کے معنی نہیں سمجھے ہیں۔ خُدا کی نظر میں وہ سب لوگ جو اُس کی مخالفت کرتے ہیں اُس کے دشمن ہیں، یعنی کہ وہ بد روحوں سے تعلق رکھنے والے جانور ہیں۔ اس سے کوئی کلیسیا کی حقیقی حالت کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ سب انسان خدا کے کلام سے روشن ہوتے ہیں، اور اس روشنی میں، وہ دوسروں کو وعظ کرنے یا تادیب کرنے یا براہ راست مسترد کیے بغیر، کام کرنے کے دوسرے انسانی طریقوں کے تابع ہوئے بغیر، اور دوسروں کی طرف سے چیزوں کی نشان دہی کیے بغیر خود کو جانچتے ہیں۔ "بہت باریک بینی کے نقطہ نظر" سے، وہ بہت واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ ان کے اندر واقعی کتنی بیماری ہے۔ خدا کے کلام میں، ہر قسم کی روح کو اس کی اصل شکل میں درجہ بند اور ظاہر کیا گیا ہے۔ فرشتوں کی روحوں والے لوگ زیادہ روشن ہوتے ہیں اور زیادہ آگہی رکھتے ہیں، اس لیے خدا کے کلام، "اس تقدیس کو حاصل کرنے کے بعد جس کا وہ کبھی حامل تھا۔" اس کلام کی بنیاد خدا کی طرف سے حاصل کردہ حتمی نتیجے پر ہے۔ فی الحال، بےشک، یہ نتیجہ ابھی مکمل طور پر حاصل نہیں کیا جا سکتا – یہ محض ایک پیشین گوئی ہے جس کے ذریعے خدا کی مرضی دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ کلام یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد خُدا کے کلام کے اندر ریزہ ریزہ ہو جائے گی اور تمام لوگوں کی تقدیس کے بتدریج عمل میں شکست کھا جائے گی۔ یہاں، "کیچڑ میں تحلیل ہونا" خدا کے آگ سے دنیا کو تباہ کرنے سے متصادم نہیں ہے، اور "بجلی" خدا کے غضب کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ جب خُدا اپنے عظیم غضب کو کھلا چھوڑے گا، تو نتیجے کے طور پر پوری دنیا کو ہر طرح کی آفات کا سامنا کرنا پڑے گا، جیسے کہ آتش فشاں کا پھٹنا۔ آسمان میں اونچی جگہ پر کھڑے ہو کر یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ زمین پر ہر طرح کی آفت تمام بنی نوع انسان کے دن بدن قریب آتی جاتی ہے۔ اونچائی سے نیچے کی طرف دیکھتے ہوئے، زمین زلزلے سے پہلے کی طرح کے مختلف قسم کے مناظر پیش کرتی ہے۔ مائع آگ بے روک ٹوک دوڑتی ہے، لاوا آزادانہ طور پر بہتا ہے، پہاڑ جگہ بدل لیتے ہیں، اور ایک سرد روشنی سب پر چمکتی ہے۔ پوری دنیا آگ میں ڈوب گئی ہے۔ یہ خدا کا اپنا غضب نازل کرنے کا منظر ہے، اور یہ اس کی عدالت کا وقت ہے۔ وہ سب جو گوشت اور خون کے ہیں بچ نہیں سکیں گے۔ اس طرح، پوری دنیا کو تباہ کرنے کے لیے ملکوں کے درمیان جنگوں اور لوگوں کے درمیان تنازعات کی ضرورت نہیں رہے گی؛ اس کی بجائے، دنیا خدا کی سزا کے گہوارے میں "شعوری طور پر خود سے لطف اندوز" ہو گی۔ کوئی بچ نہیں سکے گا؛ ہر ایک شخص کو ایک ایک کر کے اس آزمائش سے گزرنا پڑے گا۔ اس کے بعد پوری کائنات ایک بار پھر مقدس روشنی سے چمکنے لگے گی اور تمام بنی نوع انسان ایک مرتبہ پھر ایک نئی زندگی کا آغاز کریں گے۔ اور خدا کائنات کے اوپر آرام کرے گا اور ہر روز تمام بنی نوع انسان کو برکت عطا کرے گا۔ آسمان ناقابل برداشت طور پر ویران نہیں ہو گا، بلکہ وہ حقیقی طاقت بحال کر لے گا جو دنیا کی تخلیق کے بعد سے اس میں نہیں تھی، اور "چھٹے دن" کی آمد تب ہو گی جب خدا ایک نئی زندگی شروع کرے گا۔ خدا اور بنی نوع انسان دونوں آرام میں داخل ہوں گے اور کائنات اب مزید گندی یا غلیظ نہیں رہے گی بلکہ اس کی تجدید ہو جائے گی۔ اسی وجہ سے خدا نے کہا: "زمین موت کی طرح اب مزید ساکت اور خاموش نہیں ہے، جنت اب مزید ویران اور اداس نہیں ہے۔" آسمان کی بادشاہی میں، کبھی بھی برائی یا انسانی جذبات، یا بنی نوع انسان کا کوئی بدعنوان مزاج نہیں رہا، کیونکہ وہاں پر شیطان کی طرف سے خلل موجود نہیں ہے۔ سب "لوگ" خدا کے کلام کو سمجھنے کے قابل ہیں، اور آسمان میں زندگی خوشی سے بھرپور زندگی ہے۔ آسمان میں سب کے پاس حکمت اور خدا کا وقار ہے۔ آسمان اور زمین کے فرق کی وجہ سے، اہلِ آسمان کو "لوگ" نہیں کہا جاتا ہے؛ بلکہ، خُدا اُنہیں "روحیں" کہتا ہے۔ ان دونوں الفاظ میں بنیادی فرق ہے – جن کو اب "لوگ" کہا جاتا ہے انھیں شیطان نے بدعنوان بنا دیا ہے، جبکہ "روحوں" کو بدعنوان نہیں بنایا ہے۔ آخر میں، خدا زمین کے لوگوں کو آسمانی روحوں کی صفات کے ساتھ مخلوقات میں تبدیل کر دے گا، اور پھر وہ شیطان کی طرف سے مزید خلل کا شکار نہیں ہوں گے۔ یہ کلام کا صحیح مفہوم ہے، "میرا تقدس پوری کائنات میں پھیل چکا ہے۔" "زمین اپنی ابتدائی حالت میں آسمان سے تعلق رکھتی ہے، اور آسمان زمین کے ساتھ متحد ہے۔ انسان آسمان اور زمین کو ملانے والی ڈور ہے، اور انسان کی حرمت کی وجہ سے، انسان کی تجدید کی وجہ سے، آسمان اب زمین سے پوشیدہ نہیں ہے، اور زمین اب آسمان کی طرف مزید خاموش نہیں ہے۔" یہ ان لوگوں کے حوالے سے کہا گیا ہے جن کے پاس فرشتوں کی روحیں ہیں، اور اس مقام پر، "فرشتے" ایک مرتبہ پھر پرامن طور پر ایک ساتھ رہ سکیں گے اور اپنی اصلی حالت کو دوبارہ حاصل کر سکیں گے، اور اب آسمان اور زمین کی دنیاؤں کے درمیان جسم کے ذریعے مزید تقسیم نہیں ہوں گے۔ زمین پر موجود "فرشتے" آسمان کے فرشتوں کے ساتھ بات چیت کر سکیں گے، زمین کے لوگ آسمان کے اسرار کو جان لیں گے، اور آسمان کے فرشتے انسانی دنیا کے رازوں کو جان لیں گے۔ آسمان اور زمین ایک ہو جائیں گے اور ان کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہوگا۔ یہ بادشاہی کے حقیقت آفریں ہونے کا حسن ہے۔ یہ وہی ہے جسے خدا مکمل کرے گا، اور یہ وہ چیز ہے جس کی تمام انسان اور روحیں شدید آرزو کرتے ہیں۔ لیکن مذہبی دنیا کے لوگوں کو اس کا کچھ علم نہیں ہے۔ وہ صرف یسوع نجات دہندہ کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ ایک سفید بادل پر آئے اور زمین پر "کوڑا کرکٹ" بکھرا ہوا چھوڑ کر ان کی روحیں لے جائے، (یہاں "کوڑا کرکٹ" سے مراد لاشیں ہیں)۔ یہی وجہ ہے کہ خدا نے کہا: "اوہ، مذہبی دنیا! یہ زمین پر میرے اختیار کی وجہ سے کیسے تباہ نہیں ہو سکتی؟" زمین پر خدا کے لوگوں کی تکمیل کی وجہ سے، مذہبی دنیا اُلٹ جائے گی۔ یہ "اختیار" کا حقیقی مطلب ہے جس کے بارے میں خدا نے بیان کیا ہے۔ خدا نے کہا: "کیا کوئی ہے جو میرے دن میں میرے نام کو بدنام کرے؟ سب لوگ اپنی تعظیم بھری نگاہوں کا رخ میری جانب کرتے ہیں، اور وہ اپنے دلوں میں چپکے سے مجھ سے فریاد کرتے ہیں۔" یہ وہی ہے جو اس نے مذہبی دنیا کی تباہی کے نتائج کے بارے میں کہا ہے۔ یہ اس کے کلام کی وجہ سے مکمل طور پر خدا کے تخت کے سامنے سرتسلیم خم کر دے گی، اور اب ایک سفید بادل کے نیچے آنے یا آسمان کی طرف دیکھنے کا مزید انتظار نہیں کرے گی، بلکہ اس کی بجائے خدا کے تخت کے سامنے مغلوب ہو جائے گی۔ اس لیے الفاظ، "وہ اپنے دلوں میں چپکے سے مجھ سے فریاد کرتے ہیں" – مذہبی دنیا کا یہ نتیجہ ہو گا، جسے خدا مکمل طور پر فتح کر لے گا۔ یہ وہی ہے جس کا حوالہ خدا کی قدرتِ کاملہ دیتی ہے – تمام مذہبی لوگوں کو گرانا، جو بنی نوع انسان میں سب سے زیادہ سرکش ہیں، تاکہ وہ پھر کبھی اپنے تصورات سے چمٹے نہ رہیں اور تاکہ وہ خدا کو جان سکیں۔

اگرچہ خدا کے کلام نے بارہا بادشاہی کی خوبصورتی کی پیشین گوئی کی ہے، اس کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں بات کی ہے اور اسے مختلف نقطہ ہائے نظر سے بیان کیا ہے، لیکن وہ اب بھی بادشاہی کے دور کی ہر حالت کو پوری طرح سے بیان نہیں کر سکتا کیونکہ لوگوں کی حاصل کرنے کی صلاحیت بہت کم ہے۔ اس کے کلمات کے تمام الفاظ کہے گئے ہیں، لیکن لوگوں نے ان کے اندر فلوروسکوپ کے ذریعے، ایکس رے کے ذریعے نہیں دیکھا، جیسا کہ چاہیے تھا، اور اس طرح وہ وضاحت اور فہم سے محروم ہیں، اور حتیٰ کہ حیران ہیں۔ یہ جسم کا سب سے بڑا نقص ہے۔ اگرچہ لوگ اپنے دلوں میں خدا سے محبت کرنا چاہتے ہیں، لیکن وہ شیطان کے خلل کی وجہ سے خدا کی مزاحمت کرتے ہیں، لہذا خدا نے بار بار لوگوں کے بے حس اور کم فہم دلوں کو چھوا ہے تاکہ وہ دوبارہ زندہ ہو سکیں۔ خدا جو کچھ بھی ظاہر کرتا ہے وہ شیطان کی بدصورتی ہے، لہٰذا اس کی باتیں جتنی زیادہ سخت ہوں گی، شیطان اتنا ہی زیادہ شرمندہ ہو گا، لوگوں کے دل اتنے ہی کم اسیر ہوں گے، اور لوگوں میں اتنی ہی زیادہ محبت پیدا ہو سکتی ہے۔ خدا اس طرح کام کرتا ہے۔ چونکہ شیطان بے نقاب ہو چکا ہے اور چونکہ اسے دیکھا جا چکا ہے، اس لیے اب وہ لوگوں کے دلوں پر قبضہ کرنے کی جرات نہیں کرتا، اور اس طرح فرشتوں کو مزید تنگ نہیں کیا جاتا۔ اس طرح وہ اپنے پورے دل و دماغ سے خدا سے محبت کرتے ہیں۔ صرف اسی وقت یہ واضح طور پر دیکھا جاتا ہے کہ فرشتے اپنی حقیقی ذات میں خدا سے تعلق رکھتے ہیں اور اس سے محبت کرتے ہیں۔ صرف یہی راستہ ہے جس سے خدا کی مرضی پوری ہو سکتی ہے۔ "تمام انسانوں کے دلوں کے اندر، اب ان کے دلوں میں میرے لیے جگہ ہے۔ اب میں انسانوں کے درمیان کراہت یا استرداد کا سامنا نہیں کروں گا، کیونکہ میرا عظیم کام پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے، اور اس میں اب کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔" جو اوپر بیان کیا گیا ہے اس کا یہ مفہوم ہے ۔ شیطان کی ستانے کی وجہ سے، لوگ خدا سے محبت کرنے کا وقت نہیں نکال پاتے اور ہمیشہ دنیا کی چیزوں میں ہی الجھے رہتے ہیں اور شیطان کے بہکاوے میں رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا عمل خیالات کے الجھاؤ کا شکار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا نے کہا ہے کہ بنی نوع انسان "نے زندگی کی بہت سی مشکلات، دنیا کی بہت سی ناانصافیوں، انسانی دنیا کے بہت سے نشیب و فراز کو برداشت کیا ہے، لیکن اب وہ میری روشنی میں رہتے ہیں۔ کل کی ناانصافیوں پر کون نہیں روتا؟" جب لوگ یہ کلام سنتے ہیں تو انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا خدا ان کی پریشانی میں شریک ہے، ان کے ساتھ ہمدردی کر رہا ہے اور اس وقت ان کی شکایتیں سن رہا ہے۔ وہ اچانک انسانی دنیا کے درد کو محسوس کرتے ہیں اور سوچتے ہیں: "یہ بہت سچ ہے – میں نے دنیا میں کبھی بھی کسی چیز کا لطف نہیں اٹھایا۔ رحمِ مادر سے نکلنے کے بعد سے لے کر اب تک، میں نے انسانی زندگی کا عملی تجربہ کیا ہے اور میں نے کچھ بھی حاصل نہیں کیا ہے، لیکن میں نے تکلیف بہت برداشت کی ہے۔ یہ سب بہت کھوکھلا ہے! اور اب شیطان نے مجھے بہت بدعنوان بنا دیا ہے! اوہ! اگر خدا کی نجات نہ ہو تو جب میری موت کا وقت آئے گا، تو کیا میری تمام زندگی بے کار نہیں بسر ہوئی ہو گی؟ کیا انسانی زندگی کا کوئی مقصد ہے؟ کوئی تعجب نہیں ہے کہ خدا نے کہا ہے کہ سورج کے نیچے سب کچھ کھوکھلا ہے۔ اگر خدا نے آج مجھے آگہی نہ عطا کی ہوتی تو میں اب بھی تاریکی میں ہی ہوتا۔ کتنی بدبختی ہوتی!" اس موقع پر، اس کے دل میں ایک بدگمانی پیدا ہوتی ہے: "اگر میں خدا کے وعدے کو حاصل نہیں کر سکتا، تو میں زندگی کا عملی تجربہ کیسے جاری رکھ سکتا ہوں؟" ہر کوئی جو ان کلمات کو پڑھے گا وہ دعا کرتے وقت رو پڑے گا۔ انسانی نفسیات ایسی ہی ہے۔ اگر کوئی ذہنی طور پر غیر متوازن نہ ہو تو یہ ناممکن ہو گا کہ وہ اس کو پڑھے اور پھر بھی کوئی ردعمل ظاہر نہ کرے۔ ہر روز، خدا ہر قسم کے لوگوں کی حالتوں کو ظاہر کرتا ہے۔ بعض اوقات، وہ ان کی طرف سے شکایات کا اظہار کرتا ہے۔ بعض اوقات، وہ لوگوں کو ایک خاص ماحول پر کامیابی سے قابو پانے اور اس میں سے گزرنے میں مدد کرتا ہے۔ بعض اوقات، وہ لوگوں کے لیے ان کی "تبدیلیوں" کی نشاندہی کرتا ہے۔ ورنہ لوگوں کو یہ علم ہی نہ ہوتا کہ وہ زندگی میں کتنی ترقی کر چکے ہیں۔ بعض اوقات، خدا لوگوں کے تجربات کی حقیقت میں نشان دہی کرتا ہے، اور کبھی، وہ ان کی کوتاہیوں اور خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ کبھی وہ ان سے نئے تقاضے کرتا ہے، اور کبھی، وہ اس درجہ کی نشاندہی کرتا ہے جس تک وہ اسے سمجھتے ہیں۔ حالانکہ خدا نے یہ بھی کہا ہے: "میں نے بہت سے لوگوں کی طرف سے کہے گئے دل پر اثر کرنے والے الفاظ سنے ہیں، بہت سے لوگوں سے مصائب کے دوران ان کے تکلیف دہ تجربات کی تفصیل؛ میں نے بہت سے لوگ دیکھے ہیں جو شدید ترین مشکلات میں بھی مسلسل اپنی وفاداری مجھے پیش کرتے ہیں، اور میں نے بہت سے لوگ دیکھے ہیں، جب وہ مشکلات بھرے راستے پر چلتے ہوئے، باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔" یہ مثبت کرداروں کی تفصیل ہے۔ "انسانی تاریخ کے ڈرامے" کی ہر قسط میں نہ صرف مثبت کردار بلکہ منفی کردار بھی رہے ہیں۔ لہذا، خدا ان منفی کرداروں کی بدصورتی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس طرح، ان کے "غداروں" کے ساتھ موازنے سے ہی "راستباز انسانوں" کی بے لوث وفاداری اور بے خوف ہمت کا پتہ چلتا ہے۔ سب لوگوں کی زندگیوں میں، منفی عوامل ہوتے ہیں اور بغیر کسی استثنا کے، مثبت عوامل بھی ہوتے ہیں۔ خُدا تمام لوگوں کے بارے میں سچائی کو ظاہر کرنے کے لیے دونوں کا استعمال کرتا ہے، تاکہ غدار اپنے سر جھکائیں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کریں، اور تاکہ، حوصلہ افزائی کے ساتھ، راست باز لوگ وفادار رہیں۔ خدا کے کلام کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ بعض اوقات لوگ انہیں پڑھتے ہیں اور قہقہوں سے دُہرے ہوجاتے ہیں، جب کہ بعض اوقات وہ صرف خاموشی سے سر جھکا لیتے ہیں۔ کبھی وہ یاد میں کھو جاتے ہیں، کبھی وہ بہت روتے ہیں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں، کبھی وہ بھونڈے پن سے کام کرتے ہیں، اور کبھی وہ تلاش کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر، ان مختلف حالات کی وجہ سے جن میں خدا بات کرتا ہے، لوگوں کے ردعمل میں تبدیلیاں آتی ہیں۔ جب کوئی شخص خدا کا کلام پڑھتا ہے، تو بعض اوقات پاس کھڑے لوگ غلطی سے یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ وہ شخص ذہنی طور پر بیمار ہے۔ ان الفاظ پر غور کرو: "اور اس طرح، زمین پر متنازعہ جھگڑے اب نہیں رہے، اور، میرے کلام کے جاری ہونے کے بعد، جدید دور کے مختلف 'ہتھیاروں' کو واپس لے لیا گیا ہے۔" اکیلا لفظ "ہتھیار" ہی پورا دن ہنسا سکتا ہے، اور جب بھی کوئی اتفاقاً لفظ "ہتھیار" کو یاد کرے گا تو وہ خودبخود انتہائی زور سے ہنسے گا۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ تو اس پر کیسے نہیں ہنس سکتا ہے؟

جب تو ہنسے، تو یہ سمجھنا نہ بھولنا کہ خدا بنی نوع انسان سے کیا چاہتا ہے، اور کلیسیا کی حقیقی حالت کو دیکھنا نہ بھولنا: "تمام نوع انسانی معمول کی حالت میں واپس آچکی ہے اور ایک نئی زندگی کا آغاز کر چکی ہے۔ نئے ماحول میں رہتے ہوئے، لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد اپنے اردگرد نظر ڈالتی ہے، اور ایسا محسوس کرتی ہے کہ جیسے وہ بالکل ایک نئی دنیا میں داخل ہو گئی ہے، اور اس کی وجہ سے، وہ اپنے آپ کو فوراً موجودہ ماحول کے مطابق تبدیل نہیں کر پا رہی ہے یا ایک دم صحیح راستے میں داخل نہیں ہو پا رہی ہے۔" اس وقت کلیسیا کی حقیقی حالت یہ ہے۔ سب لوگوں کو فوری طور پر صحیح راستے پر لانے کے لیے زیادہ مضطرب نہ ہو۔ ایک مرتبہ جب روح القدس کا کام ایک خاص مقام تک پہنچ جاتا ہے، تو سب لوگ محسوس کیے بغیر اس میں داخل ہو جائیں گے۔ جب تو خدا کے کلام کے جوہر کو سمجھے گا، تو تجھے علم ہوگا کہ اس کی روح نے کہاں تک کام کیا ہے۔ خدا کی مرضی ہے: "میں صرف انسان کی برائی کے حساب سے، ایک مناسب انداز میں 'تعلیم' کا انتظام کرتا ہوں تاکہ ہر ایک کو بہتر طور پر صحیح راستے پر جانے کے قابل بنایا جائے۔" یہ خدا کے بولنے اور کام کرنے کا انداز ہے، اور یہ انسان کے عمل کرنے کا مخصوص طریقہ بھی ہے۔ اس کے بعد اس نے لوگوں کے لیے بنی نوع انسان کی حالتوں میں سے ایک اور کی نشان دہی کی: "اگر انسان مجھ میں موجود برکتوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں، تو میں صرف اس چیز سے متفق ہو سکتا ہوں جس کی انھیں شدید خواہش ہے اور انہیں اتھاہ گڑھے میں بھیج سکتا ہوں۔" خدا نے جامع اور مکمل طور پر بات کی اور لوگوں کو شکایت کرنے کا ذرا سا موقع بھی نہیں دیا۔ خدا اور انسان میں عین یہی فرق ہے۔ خدا انسان سے ہمیشہ کھلے اور آزادانہ طور پر بات کرتا ہے۔ خدا جو کہتا ہے اس کی ہر چیز میں کوئی اس کے مخلص دل کو دیکھ سکتا ہے، جس کی وجہ سے لوگ اپنے دلوں کا موازنہ اس کے دل کے ساتھ کرتے ہیں اور جس کی وجہ سے وہ اپنے دل اس کے سامنے کھولنے کے قابل ہوتے ہیں، تاکہ وہ دیکھ سکے کہ قوس قزح کے رنگوں میں ان کا مقام کہاں ہے۔ خدا نے کبھی کسی کے ایمان یا محبت کی تعریف نہیں کی ہے بلکہ اس نے ہمیشہ لوگوں کے لیے تقاضے مقرر کیے ہیں اور ان کے بدصورت پہلو کو بے نقاب کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ کتنی کم "حیثیت" رکھتے ہیں اور ان کی "ساخت" میں کتنی کمی ہے۔ انہیں اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مزید "مشق" کی ضرورت ہے، یہی وجہ ہے کہ خدا لوگوں پر مسلسل "اپنا غضب نازل کرتا ہے۔" ایک دن، جب خدا بنی نوع انسان کے بارے میں پوری حقیقت کو ظاہر کر چکا ہو گا تو لوگ کامل بنا دیے جائیں گے، اور خدا پر سکون ہو جائے گا۔ لوگ اب خدا کو مزید نہیں ورغلائیں گے، اور اب وہ انہیں مزید "تعلیم" نہیں دے گا۔ تب سے، لوگ "اپنے طور پر زندگی بسر کرنے" کے قابل ہو جائیں گے، لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے۔ لوگوں کے اندر ابھی بھی بہت کچھ ایسا ہے جسے "جعلی" کہا جا سکتا ہے، اور کئی مزید امتحانات کی ضرورت ہے، مزید کئی "چیک پوائنٹس" کی ضرورت ہے جہاں ان کے "ٹیکسوں" کو صحیح طریقے سے ادا کیا جا سکتا ہے۔ اگر اب بھی نقلی سامان موجود ہے تو اسے ضبط کر لیا جائے گا تاکہ وہ فروخت نہ ہو، اور پھر اسمگل شدہ سامان کی وہ کھیپ تلف کر دی جائے گی۔ کیا یہ کام کرنے کا ایک اچھا طریقہ نہیں ہے؟

سابقہ: باب 15

اگلا: باب 19

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp