باب 15

خدا اور انسان کے درمیان سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ خدا کا کلام کچھ بھی چھپائے بغیر ہمیشہ سیدھا معاملے کے انتہائی اہم پہلو تک پہنچتا ہے۔ اس طرح، خدا کے مزاج کا یہ پہلو آج کے پہلے جملے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ فوراً ہی انسان کی اصلیت کو بے نقاب کر دیتا ہے اور خدا کے مزاج کو کھلے عام ظاہر کرتا ہے۔ نتائج حاصل کرنے کے لیے خدا کے کلام کی صلاحیت کے کئی پہلوؤں کا یہ ذریعہ ہے۔ تاہم، لوگ اسے سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں؛ وہ ہمیشہ خُدا کا ”تفصیلی معائنہ“ کیے بغیر خدا کے کلام کے ذریعے محض اپنے آپ کو جاننے کے لیے آتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے وہ اسے ناراض کرنے سے خوفزدہ ہیں یا وہ ان کی ”احتیاط“ کی وجہ سے انھیں مار ڈالے گا۔ درحقیقت، جب زیادہ تر لوگ خدا کے کلام کو کھاتے اور پیتے ہیں، تو وہ ایسا مثبت نقطہ نظر سے نہیں بلکہ منفی نقطہ نظر سے کرتے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ لوگوں نے اب اس کے کلام کی راہنمائی میں ”عاجزی اور اطاعت پر توجہ مرکوز“ کرنا شروع کر دی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں نے ایک اور انتہا کی طرف جانا شروع کر دیا ہے – یعنی اس کے کلام پر کوئی توجہ نہ دینے سے اس پر بے جا توجہ دینے کی طرف۔ تاہم، ایک بھی شخص مثبت نقطہ نظر سے داخل نہیں ہوا ہے، اور نہ ہی کسی نے کبھی انسانوں کو اس کے کلام پر توجہ دینے کے خدا کے مقصد کو صحیح معنوں میں سمجھا ہے۔ خدا جو کہتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے کلیسیا میں موجود تمام لوگوں کی اصل حالتوں کو، درست طریقے سے اور غلطی کے بغیر سمجھنے کے لیے کلیسیا کی زندگی کا ذاتی طور پر تجربہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ چونکہ انہوں نے ایک نئے طریقہ کار میں ابھی داخلہ حاصل کیا ہے، اس لیے لوگوں نے ابھی اپنے آپ کو اپنے منفی عناصر سے مکمل طور پر چھٹکارا دلانا ہے؛ لاشوں کی بدبو اب بھی پوری کلیسیا میں پھیلتی ہے۔ یہ ایسے ہے گویا لوگوں نے ابھی ابھی دوائی لی ہے اور ابھی تک چکرا رہے ہیں، ان کے ہوش ابھی تک پوری طرح بحال نہیں ہوئے ہیں۔ گویا وہ اب بھی موت سے ڈرے ہوئے ہیں، اس طرح ابھی تک دہشت کے عالم میں وہ خود سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ”سب انسان ایسی مخلوقات ہیں جن میں خود شناسی کی کمی ہے“: جس طرح سے یہ بیان کیا گیا ہے وہ اب بھی کلیسیا کی تعمیر پر مبنی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ کلیسیا کے تمام لوگ خُدا کے کلام پر توجہ دیتے ہیں، اُن کی فطرتیں گہرائی میں جڑ پکڑے ہوئے ہیں، پیچیدہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خُدا نے اس طرح بات کی جس طرح اس نے پچھلے مرحلے میں لوگوں کی عدالت کرنے کے لیے کی تھی، تاکہ وہ اپنے غرور کی حالت میں اس کے کلام سے ضرب لگائے جانے کو قبول کریں۔ اگرچہ لوگ پانچ ماہ تک اتھاہ گڑھے میں تزکیے کے عمل سے گزرے ہیں، لیکن ان کی اصل حالت اب بھی خدا کو نہ جاننے والی ہے۔ وہ اب بھی وحشی ہیں؛ وہ صرف خدا کے خلاف کچھ زیادہ محتاط ہو گئے ہیں۔ یہ قدم وہ پہلا مناسب قدم ہے جو لوگ خدا کے کلام کو جاننے کے راستے پر اٹھاتے ہیں۔ اس طرح، خدا کے کلام کے جوہر کے ساتھ جوڑتے ہوئے، یہ دیکھنا مشکل نہیں ہے کہ کام کے پچھلے حصے نے آج کے لیے راہ ہموار کی ہے، اور یہ کہ صرف اب سب کچھ معمول پر آ گیا ہے۔ لوگوں کی مہلک کمزوری ذاتی آزادی حاصل کرنے اور مستقل رکاوٹوں سے بچنے کے لیے ان کا خُدا کی روح کو اس کی جسمانی ذات سے الگ کرنے کا رجحان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا انسانوں کو چھوٹے پرندوں کے طور پر بیان کرتا ہے جو ”خوشی سے اڑانیں بھرنے“ والے ہیں۔ یہ تمام بنی نوع انسان کی اصل حالت ہے۔ یہ وہی ہے جو تمام لوگوں کو گرانا آسان بنا دیتا ہے، اور یہ وہ جگہ ہے جہاں وہ اپنا راستہ کھونے کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان کا نوع انسانی کے درمیان کام اس کام سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ شیطان لوگوں میں یہ کام جتنا زیادہ کرتا ہے، ان کے لیے خدا کے تقاضے اتنے ہی زیادہ سخت ہو جاتے ہیں۔ وہ لوگوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس کے کلام کے لیے اپنی توجہ وقف کر دیں، جبکہ شیطان اسے توڑنے کے لیے سخت محنت کرتا ہے۔ تاہم، خدا نے ہمیشہ لوگوں کو یاددہانی کروائی ہے کہ وہ اس کے کلام پر زیادہ توجہ دیں؛ روحانی دنیا میں ہونے والی جنگ کی یہ انتہا ہے۔ اسے اس طرح کہا جا سکتا ہے: خدا انسان میں جو کرنا چاہتا ہے وہ بالکل وہی ہے جسے شیطان تباہ کر دینا چاہتا ہے، اور شیطان جس چیز کو تباہ کرنا چاہتا ہے وہ انسان کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے، بالکل پوشیدہ ہوتا ہے۔ خدا لوگوں میں جو کرتا ہے اس کی واضح مثالیں موجود ہیں: ان کے حالات بہتر سے بہتر ہو رہے ہیں۔ بنی نوع انسان میں شیطان کی تباہی کے واضح آثار بھی موجود ہیں: وہ زیادہ سے زیادہ بدچلن ہوتے جا رہے ہیں، اور ان کی حالتیں ہمیشہ نیچے ڈوبتی جا رہی ہیں۔ ایک بار جب ان کے حالات کافی سنگین ہو جاتے ہیں، تو ان کا شیطان کا اسیر بننا لازمی ہو جاتا ہے۔ یہ کلیسیا کی اصل حالت ہے، جیسا کہ خدا کے کلام میں پیش کیا گیا ہے، اور یہ روحانی دنیا کی اصل حالت بھی ہے۔ یہ روحانی دنیا کی حرکیات کا عکس ہے۔ اگر لوگوں کو خدا کے ساتھ تعاون کرنے کا یقین نہیں ہے، تو ان کا شیطان کا اسیر بننے کا خطرہ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ اگر لوگ واقعی اپنے دلوں کو خدا کے قبضے کے لیے پیش کرنے کے قابل ہیں، تو یہ بالکل اسی طرح ہے جیسا کہ خدا نے کہا ہے، ”جب میرے سامنے ہوتے ہیں تو میری آغوش میں اس کی گرمائش کا مزہ چکھتے نظر آتے ہیں“۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بنی نوع انسان کے لیے خدا کے تقاضے زیادہ نہیں ہیں؛ وہ صرف یہ چاہتا ہے ہے کہ وہ اٹھیں اور اس کے ساتھ تعاون کریں۔ کیا یہ آسان اور خوش آئند بات نہیں ہے؟ کیا یہی وہ چیز ہے جس نے ہر ہیرو اور عظیم آدمی کو حیران کر دیا ہے؟ یہ ایسا ہی ہے جیسے جرنیلوں کو میدانِ جنگ سے اٹھا کر اس کی بجائے انھیں کپڑا بُننے پر لگا دیا جائے – یہ ”ہیروز“ مشکلات سے ساکت ہو گئے ہیں، اور انھیں علم نہیں ہے کہ کیا کریں۔

بنی نوع انسان کے لیے خدا کے تقاضوں کا جو بھی پہلو سب سے بڑا ہو، یہ وہی پہلو ہوتا ہے جس میں بنی نوع انسان پر شیطان کے حملے سب سے زیادہ شدید ہوتے ہیں، اور اسی کے مطابق تمام انسانوں کی حالتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ ”میرے سامنے کھڑے ہونے والے تم لوگوں میں سے کون ایسا ہو گا جو گالوں کی شکل میں اڑنے والی برف کی طرح پاک اور سبز قیمتی پتھر کی طرح بے عیب ہو گا؟“ تمام لوگ اب بھی خدا سے مکاری کرتے ہیں اور اس سے چیزیں چھپاتے ہیں؛ وہ اب بھی اپنی مخصوص سازشیں کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے اسے مطمئن کرنے کے لیے اپنے دلوں کو مکمل طور پر خُدا کے ہاتھ میں نہیں دیا ہے، پھر بھی وہ پرجوش ہونے کی وجہ سے اس کا انعام حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جب لوگ ایک لذیذ کھانا کھاتے ہیں، تو وہ خدا کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں، اسے ”سنبھالنے“ کا انتظار کرتے ہوئے وہیں کھڑا چھوڑ دیتے ہیں؛ جب لوگوں کے پاس خوبصورت لباس ہوتے ہیں تو وہ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خود اپنے حسن سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اپنے دل کی گہرائیوں میں خدا کو راضی نہیں کرتے۔ جب ان کے پاس حیثیت ہوتی ہے، جب ان کے پاس عیش و آرام سے لطف اندوز ہونے کے اسباب ہوتے ہیں، تو وہ وہاں اپنے مقام پر بیٹھتے ہیں اور اس سے لطف اندوز ہونے لگتے ہیں، لیکن خدا کی بلندی کے نتیجے میں اپنے آپ کو عاجز نہیں بناتے۔ اس کی بجائے، وہ اپنے بلند مقامات پر کھڑے ہو کر اپنی شیخیاں بگھارتے ہیں، اور خدا کی موجودگی پر کوئی توجہ نہیں دیتے، اور نہ ہی وہ اس کے قیمتی ہونے کو جاننا چاہتے ہیں۔ جب لوگوں کے دلوں میں ان کا ایک دیوتا ہو، یا جب ان کے دلوں پر کسی اور نے قبضہ کر لیا ہو، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ پہلے ہی خدا کی موجودگی سے انکار کر چکے ہیں، گویا وہ ان کے دلوں میں زبردستی گھس کر بیٹھ گیا ہے۔ وہ دہشت زدہ ہیں کہ خدا دوسروں سے ان کی محبت چرا لے گا، اور پھر وہ خود کو تنہا محسوس کریں گے۔ خدا کا اصل ارادہ یہ ہے کہ زمین پر کوئی بھی چیز لوگوں کو اسے نظر انداز نہ کرنے دے، اور اگرچہ لوگوں کے درمیان محبت ہو سکتی ہے، لیکن خدا کو اس ”محبت“ سے دور نہیں کیا جا سکتا۔ تمام زمینی چیزیں خالی ہیں – یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان احساسات بھی جنہیں دیکھا یا چھوا نہیں جا سکتا۔ خدا کے وجود کے بغیر، تمام مخلوقات دوبارہ عدم الوجود ہو جائیں گی۔ زمین پر، تمام لوگوں کے پاس ایسی چیزیں ہیں جن سے وہ محبت کرتے ہیں، لیکن کسی نے کبھی بھی خدا کے کلام کو اس چیز کے طور پر نہیں لیا جس سے وہ محبت کرتے ہیں۔ یہ اس کا تعین کرتا ہے کہ لوگ اس کے کلام کو کس حد تک سمجھتے ہیں۔ اگرچہ اس کا کلام سخت ہے، لیکن اس سے کوئی زخمی نہیں ہوتا، کیونکہ لوگ اس پر حقیقی طور پر توجہ نہیں دیتے؛ بلکہ، وہ اس کا مشاہدہ اس طرح کرتے ہیں جیسے کہ وہ ایک پھول ہو۔ وہ اس کے کلام کو پھل کی طرح نہیں مانتے تاکہ وہ خود چکھ سکیں، اِس لیے وہ خُدا کے کلام کے جوہر کو نہیں جانتے۔ ”اگر انسان صحیح معنوں میں میری تلوار کی تیزی دیکھ پاتے تو وہ تیزی سے چوہوں کی طرح اپنے بِلوں میں گھس جاتے۔“ ایک عام انسان کی حالت میں کوئی خدا کے کلام کو پڑھ کر دنگ رہ جائے گا، شرم سے بھر جائے گا، اور دوسروں کا سامنا کرنے سے قاصر ہوگا۔ تاہم، آج کل، لوگ بالکل اس کے برعکس ہیں – وہ خدا کے کلام کو دوسروں کے خلاف وار کرنے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ انھیں واقعی کوئی شرم نہیں آتی!

خدا کے کلمات کے ساتھ، ہمیں وجود کی اس حالت میں لایا گیا ہے: ”بادشاہی کے اندر، نہ صرف میرے منہ سے کلمات جاری ہوتے ہیں، بلکہ میرے پاؤں تمام زمینوں میں ہر جگہ پورے ادب اور قاعدے کے ساتھ چلتے ہیں۔“ خدا اور شیطان کے درمیان جنگ میں، خدا ہر قدم پر جیت رہا ہے۔ وہ اپنے کام کو پوری کائنات میں بڑے پیمانے پر پھیلا رہا ہے، اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر جگہ اس کے قدموں کے نشان اور اس کی فتح کی نشانیاں موجود ہیں۔ شیطان اپنی سازشوں میں، ملکوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے خدا کے نظم و نسق کو تباہ کرنے کی امید رکھتا ہے، لیکن خدا نے پوری کائنات کو دوبارہ منظم کرنے کے لیے اس تقسیم کا فائدہ اٹھایا ہے، گو کہ اسے مٹانے کے لیے نہیں۔ خدا ہر روز کچھ نیا کرتا ہے، لیکن لوگوں نے توجہ نہیں دی ہے۔ وہ روحانی دنیا کی حرکیات پر کوئی توجہ نہیں دیتے، اس لیے وہ خدا کا نیا کام دیکھنے سے قاصر ہیں۔ ”کائنات کے اندر، میرے جلال کی چمک میں ہر چیز نئی کی طرح چمکتی ہے، ایک ولولہ انگیز پہلو پیش کرتی ہے جو حواس کو مسرور کر دیتی ہے اور لوگوں کے حوصلے بلند کرتی ہے، گویا اب یہ آسمانوں سے پرے کسی جنت میں موجود ہے، جیسا کہ انسانی تصور میں سوچا گیا ہے، شیطان کی چھیڑ چھاڑ سے محفوظ اور بیرونی دشمنوں کے حملوں سے پاک ہے۔“ یہ زمین پر مسیح کی بادشاہی کے خوشگوار منظر کی پیشین گوئی کرتا ہے، اور یہ تیسرے آسمان کی صورتِ حال کو بھی بنی نوع انسان سے متعارف کرواتا ہے: صرف وہی مقدس چیزیں جو خدا کی ہیں، شیطان کی طاقتوں کے حملوں کے بغیر موجود ہیں۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کو خود خدا کی زمین پر کام کے حالات کو دیکھنے کا موقع دیا جانا ہے: آسمان ایک نیا آسمان ہے، اور اس کی پیروی کرتے ہوئے، زمین کی بھی اسی طرح تجدید ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ خدا کی اپنی راہنمائی میں زندگی ہے، اس لیے لوگ بے پناہ خوش ہیں۔ اُن کی آگاہی میں، شیطان بنی نوع انسان کا ”قیدی“ ہے اور وہ اس کے وجود کی وجہ سے بالکل بھی ڈرپوک یا خوفزدہ نہیں ہیں۔ براہ راست الوہی ہدایت اور راہنمائی کی وجہ سے، شیطان کی تمام م سازشیں ختم ہو گئی ہیں، اور یہ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے بھی کافی ہے کہ خدا کے کام سے نابود ہونے کے بعد شیطان اب موجود نہیں ہے، اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ ”گویا اب یہ آسمانوں سے پرے کسی آسمان میں موجود ہے۔“ جب خدا نے کہا، ”کبھی کوئی خلل پیدا نہیں ہوا، اور نہ ہی کائنات کبھی تقسیم ہوئی ہے،“ تو وہ روحانی دنیا کی حالت کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا شیطان پر فتح کا اعلان کرتا ہے، اور یہ خدا کی آخری فتح کی علامت ہے۔ کوئی بھی انسان خدا کے ذہن کو تبدیل نہیں کر سکتا اور نہ ہی کوئی اسے جان سکتا ہے۔ اگرچہ لوگوں نے خدا کا کلام پڑھا ہے اور سنجیدگی سے اس کا بغور معائنہ کیا ہے، لیکن وہ اس کے جوہر کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ مثال کے طور پر، خدا نے کہا، ”میں ستاروں کے اوپر اڑتی چھلانگیں لگاتا ہوں، اور جب سورج اپنی شعاعیں تیزی سے بھیجتا ہے، تو میں ان کی گرمی کو جذب کر لیتا ہوں، اور اپنے ہاتھوں سے ہنس کے پروں جتنے بڑے برف کے ٹکڑوں کی بوچھاڑ بھیجتا ہوں۔ تاہم، جب میں اپنا ارادہ تبدیل کر لیتا ہوں تو وہ ساری برف پگھل کر دریا بن جاتی ہے، اور ایک ہی لمحے میں، آسمان کے نیچے ہر طرف بہار چھا جاتی ہے اور زمرد کی طرح سبز رنگ زمین کے سارے منظر کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔“ اگرچہ لوگ اپنے ذہن میں اس کلام کا تصور کر سکتے ہیں، لیکن خدا کا ارادہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ جب آسمان کے نیچے ہر کوئی چکرا جاتا ہے، تو خدا نجات کی صدا لگاتا ہے، اس طرح لوگوں کے دلوں کو جگاتا ہے۔ تاہم، چونکہ ان پر ہر طرح کی آفات نازل ہوتی ہیں، وہ دنیا کی تاریکی کو محسوس کرتے ہیں، اس لیے وہ سب موت کی تلاش میں ہیں اور انتہائی سرد، برفیلی غاروں میں موجود ہیں۔ وہ بڑے برفانی طوفانوں کی سردی سے اس حد تک جم گئے ہیں کہ زمین پر گرمی کی کمی کی وجہ سے وہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ یہ لوگوں کی بدعنوانی کی وجہ سے ہے کہ وہ ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ ظالمانہ طریقوں سے مار رہے ہیں۔ اور عظیم سرخ اژدہا کلیسیا میں لوگوں کی اکثریت ایک ہی گھونٹ میں نگل جائے گا۔ تمام آزمائشوں کے گزر جانے کے بعد، شیطان کی خلل اندازیاں دور ہو جائیں گی۔ پوری دنیا، تبدیلی کی حالت کے دوران، موسم بہار میں پھیل جائے گی، گرمی زمین کو ڈھانپ لے گی، اور دنیا توانائی سے بھری ہو گی۔ یہ پورے انتظامی منصوبے کے تمام مراحل ہیں۔ ”رات“ جس کے بارے میں خدا نے بات کی تھی اس سے مراد وہ وقت ہے جب شیطان کی دیوانگی اپنے عروج پر پہنچتی ہے، جو کہ رات کے وقت ہوتا ہے۔ کیا عین اس وقت ایسا ہی نہیں ہو رہا ہے؟ اگرچہ تمام لوگ خدا کے نور کی راہنمائی میں زندہ رہتے ہیں، لیکن انھیں رات کی تاریکی کے مصائب سے گزارا جا رہا ہے۔ اگر وہ شیطان کے بندھنوں سے نہیں بچ سکتے تو وہ ہمیشہ کے لیے ایک تاریک رات کے درمیان زندہ رہیں گے۔ زمین پر موجود ممالک کو دیکھو: خدا کے کام کے مرحلوں کی وجہ سے، زمین پر موجود ممالک ”ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں“ اور ہر ایک ”اپنی مناسب منزل کی تلاش میں ہے۔“ کیونکہ خدا کا دن ابھی نہیں آیا ہے، اس لیے زمین پر ہر ایک ذہنی پراگندہ شورش کی حالت میں ہے۔ جب وہ کھلم کھلا پوری کائنات کے سامنے ظاہر ہو گا، تو اس کا جلال صہیون کے پہاڑ کو بھر دے گا، اور تمام چیزیں منظم اور صاف ہوں گی، کیونکہ وہ اس کے ہاتھوں سے ترتیب دی جائیں گی۔ خُدا کا کلام نہ صرف آج سے مخاطب ہے، بلکہ یہ آنے والے کل کی پیشین گوئی بھی کرتا ہے۔ آج، آنے والے کل کی بنیاد ہے، لہٰذا، جیسا کہ آج صورت حال ہے، کوئی بھی خدا کے کلام کو پوری طرح سے نہیں سمجھ سکتا۔ اس کے کلام کی مکمل تکمیل ہونے کے بعد ہی انسان اُن کو مکمل طور پر سمجھ سکیں گے۔

خدا کی روح کائنات کے سب خلا کو بھر دیتی ہے، پھر بھی وہ تمام لوگوں کے اندر کام کرتی ہے۔ اس طرح لوگوں کے دلوں میں گویا خدا کی شکل ہر جگہ موجود ہے اور ہر جگہ پر اس کی روح کا کام ہے۔ بےشک، جسم میں خُدا کے ظاہر ہونے کا مقصد شیطان کے ان نمونوں کو فتح کرنا اور آخر کار ان کو حاصل کرنا ہے۔ جسم میں کام کرتے ہوئے، تاہم، روح بھی ان لوگوں کو تبدیل کرنے کے لیے جسم کے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ خدا کے اعمال پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور اس کی روح پوری کائنات کو بھر دیتی ہے، لیکن اس کے کام کے مرحلوں کی وجہ سے، برائی کرنے والوں کو سزا نہیں ملی ہے، جب کہ اچھے کام کرنے والوں کو جزا نہیں ملی ہے۔ لہٰذا، زمین کے سب لوگوں نے اس کے اعمال کی تعریف نہیں کی ہے۔ وہ ہر چیز کے اوپر اور اندر، دونوں جگہ ہے؛ اس کے علاوہ، وہ تمام لوگوں کے درمیان ہے۔ یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ خدا حقیقت میں موجود ہے۔ چونکہ وہ کھلے عام تمام انسانوں پر ظاہر نہیں ہوا ہے، اس لیے انھوں نے توہمات پیدا کر لیے ہے جیسے کہ، ”جہاں تک نوع انسانی کا تعلق ہے، ایسا لگتا ہے کہ میں حقیقت میں موجود ہوں، پھر بھی ایسا لگتا ہے کہ میں موجود نہیں ہوں۔“ ان تمام لوگوں میں سے جو اب خدا پر ایمان رکھتے ہیں، کوئی بھی مکمل طور پر، ایک سو فیصد یقین نہیں رکھتا کہ خدا واقعی موجود ہے؛ یہ صرف تین حصے شک اور دو حصے یقین ہے۔ یہ نوع انسانی ہے جیسا کہ وہ اس وقت ہے۔ لوگ ان دنوں سب کے سب مندرجہ ذیل صوت حال میں ہیں: وہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا موجود ہے، لیکن انہوں نے اسے نہیں دیکھا؛ یا، وہ یہ نہیں مانتے کہ کوئی خدا ہے، لیکن ان کی بہت سی مشکلات ہیں جنہیں نوع انسانی حل نہیں کر سکتی۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمیشہ انھیں الجھا دینے والی کوئی نہ کوئی ایسی چیز ہوتی ہے جس سے وہ بچ نہیں سکتے۔ اگرچہ وہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ ہمیشہ تھوڑا سا ابہام محسوس کرتے ہیں۔ تاہم، اگر وہ ایمان نہیں رکھتے ہیں، تو وہ اس کے موجود ہونے کی صورت میں ہار جانے سے ڈرتے ہیں۔ یہ ان کا ابہام ہے۔

”میرے نام کی خاطر، میری روح کی خاطر، اور میرے پورے انتظامی منصوبے کی خاطر، کون اپنی پوری طاقت کا نذرانہ پیش کر سکتا ہے؟“ خدا نے یہ بھی کہا، ”آج جب بادشاہی انسانی دنیا میں ہے، یہ وہ وقت ہے جب میں ذاتی طور پر نوع انسانی کے درمیان آیا ہوں۔ تو کیا کوئی ہے جو بغیر کسی خوف کے میری طرف سے میدان جنگ میں مہم جوئی کے لیے نکلتا؟“ خدا کے کلام کا مقصد یہ ہے: اگر یہ جسم میں خدا کے اپنے الوہی کام کو براہ راست انجام دینے کے لیے نہ ہوتا، یا اگر وہ مجسم نہ ہوتا بلکہ اس کی بجائے وزیروں کے ذریعے کام کرتا، تو خدا کبھی بھی عظیم سرخ اژدہے کو فتح کرنے کے قابل نہ ہوتا، اور نہ ہی وہ انسانوں میں بادشاہ کے طور پر حکومت کرنے کے قابل ہوتا۔ بنی نوع انسان حقیقت میں خود خدا کو جاننے سے قاصر ہوتا، اس لیے یہاں ابھی تک شیطان کا راج ہوتا۔ چنانچہ، کام کا یہ مرحلہ لازمی طور پر خود خدا کی طرف سے، مجسم جسم کے ذریعے انجام پانا چاہیے۔ اگر جسم بدل دیا جائے تو منصوبے کا یہ مرحلہ کبھی مکمل نہیں ہو سکتا کیونکہ مختلف جسم کی اہمیت اور مادہّ ایک جیسا نہیں ہو گا۔ لوگ صرف اس کلام کے لغوی معنی کو سمجھ سکتے ہیں، کیونکہ خدا جڑ کو پکڑتا ہے۔ خدا نے کہا، ”بہر حال، جب سب کچھ کہہ اور کر لیا گیا ہے، تو پھر بھی کوئی نہیں سمجھتا کہ یہ روح کا کام ہے یا جسم کا فعل ہے۔ لوگوں کو صرف اس ایک چیز کا تفصیل سے تجربہ کرنے میں پوری زندگی لگ جائے گی۔“ شیطان نے اتنے سالوں سے لوگوں کو بدعنوان بنایا ہوا ہے، اور وہ بہت پہلے روحانی معاملات کے بارے میں اپنا شعور کھو چکے ہیں۔ اس وجہ سے خدا کے کلام کا صرف ایک جملہ لوگوں کی آنکھوں کے لیے ضیافت کی مانند ہے۔ روح اور ارواح کے درمیان فاصلہ ہونے کی وجہ سے، وہ تمام لوگ جو خدا پر ایمان رکھتے ہیں، اس کے لیے شدید آرزو کا احساس رکھتے ہیں، اور وہ سب اس کے قریب ہونے اور اپنے دلوں میں موجود باتوں کو کھل کر بیان کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ تاہم، وہ اس کے ساتھ رابطے میں آنے کی ہمت نہیں کرتے، اور اس کی بجائے صرف رعب کی حالت میں رہتے ہیں۔ یہ کشش کی وہ طاقت ہے جو روح کے پاس ہے۔ کیونکہ خدا ایسا خدا ہے جس سے لوگوں نے محبت کرنی ہے، اور اس میں ان کے لیے محبت کرنے کے لامحدود عناصر ہیں، ہر کوئی اس سے محبت کرتا ہے اور ہر کوئی اس پر اعتماد کرنا چاہتا ہے۔ درحقیقت، ہر کوئی اپنے دل میں خُدا کے لیے محبت رکھتا ہے – یہ صرف ایسا ہے کہ شیطان کی خلل اندازی نے بے حس، کم عقل، قابل رحم لوگوں کو خُدا کو جاننے سے روک دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خُدا نے انسانوں کے ان حقیقی احساسات کے بارے میں بات کی جو وہ اس کے لیے رکھتے ہیں: ”انسانوں نے کبھی بھی اپنے دلوں کے انتہائی اندرونی گوشوں میں مجھ سے نفرت نہیں کی ہے؛ بلکہ، وہ اپنی روحوں کی گہرائیوں میں مجھ سے چمٹے ہوئے ہیں۔ ۔۔۔ میری حقیقت انسانوں کو الجھن میں ڈال دیتی ہے، مبہوت اور حیران کر دیتی ہے، اور پھر بھی وہ اسے قبول کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔“ جو خدا پر ایمان رکھتے ہیں ان کے دلوں کی گہرائیوں میں یہ اصل حالت ہے۔ جب لوگ خدا کو صحیح معنوں میں جانتے ہیں، تو اس کے لیے ان کا رویہ قدرتی طور پر تبدیل ہو جاتا ہے، اور وہ اپنی روحوں کے کام کی وجہ سے اپنے دل کی گہرائیوں سے تعریف کے کلمات کہہ سکتے ہیں۔ خدا تمام لوگوں کی روحوں کی گہرائیوں میں موجود ہے، لیکن شیطان کی بدعنوانی کی وجہ سے لوگوں نے خدا کو شیطان کے ساتھ الجھا دیا ہے۔ آج خدا کا کام عین اس مسئلے سے شروع ہوتا ہے، اور روحانی دنیا میں، یہ شروع سے آخر تک جنگ کا مرکز رہا ہے۔

سابقہ: باب 14

اگلا: باب 18

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp