باب 14
انسانوں نے کبھی بھی خدا کے کلام سے کچھ نہیں سمجھا۔ اس کی بجائے، وہ اس کے حقیقی معنی کو سمجھے بغیر، محض سطحی طور پر اس کو ”بہت قیمتی“ سمجھتے ہیں۔ لہٰذا، اگرچہ زیادہ تر لوگ اُس کے کلام کو پسند کرتے ہیں، لیکن خُدا بتاتا ہے کہ وہ حقیقت میں اُس کی قدر نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کی نظر میں اگرچہ اس کا کلام بہت قیمتی ہے لیکن لوگوں نے اس کی حقیقی مٹھاس نہیں چکھی ہے۔ اس طرح، وہ صرف ”اپنی پیاس کو آلوچے کے خیالات سے بجھا سکتے ہیں،“ اور اس طرح اپنے لالچی دلوں کو تسلی دے سکتے ہیں۔ نہ صرف خُدا کی روح تمام انسانوں میں کام کر رہی ہے، بلکہ انھیں، یقیناً، خُدا کے کلام سے آگہی بھی عطا کی گئی ہے؛ یہ صرف ایسا ہے کہ وہ اس کے جوہر کی صحیح معنوں میں قدر کرنے کے قابل ہونے کے لیے بہت بےپروا ہیں۔ لوگوں کے ذہنوں میں، اس وقت وہ دور ہے جس میں بادشاہی کا مکمل ادراک ہو رہا ہے، لیکن اصل میں، ایسا معاملہ نہیں ہے۔ اگرچہ خُدا جو پیشین گوئی کرتا ہے وہی ہے جو اُس نے پوری کی ہے، لیکن حقیقی بادشاہی ابھی تک زمین پر پوری طرح سے نہیں آئی ہے۔ اس کی بجائے، جیسے جیسے نوع انسانی تبدیل ہوتی ہے، جیسے جیسے کام آگے بڑھتا ہے، اور جیسے جیسے بجلی مشرق سے نکلتی ہے – یعنی جیسے جیسے خدا کا کلام گہرا ہوتا ہے، بادشاہی زمین پر آہستہ آہستہ وجود میں آئے گی، آہستہ آہستہ لیکن مکمل طور پر اس دنیا پر نازل ہو گی۔ بادشاہی کے آنے کا عمل زمین پر الوہی کام کا عمل بھی ہے۔ دریں اثنا، پوری کائنات میں، خدا نے ایک ایسا کام شروع کیا ہے جو پوری تاریخ میں تمام ادوار میں نہیں کیا گیا: زمین کو مکمل طور پر دوبارہ منظم کرنا۔ مثال کے طور پر، پوری کائنات میں زبردست تبدیلیاں ہو رہی ہیں، جن میں اسرائیل کی ریاست میں تبدیلیاں، ریاستہائے متحدہ میں بغاوت، مصر میں تبدیلیاں، سوویت یونین میں تبدیلیاں، اور چین کا تختہ الٹنا شامل ہیں۔ ایک بار جب پوری کائنات آباد ہو جائے گی اور معمول پر بحال ہو جائے گی تو زمین پر خدا کا کام مکمل ہو جائے گا؛ یعنی جب بادشاہی زمین پر آئے گی۔ یہ کلام کا صحیح مفہوم ہے، ”جب دنیا کی تمام قومیں درہم برہم ہو جائیں گی، تو یہ عین وہی وقت ہے جب میری بادشاہی قائم کی جائے گی اور تشکیل دی جائے گی، نیز جب میں بدل جاؤں گا اور پوری کائنات کا سامنا کرنے کے لیے رخ پھیروں گا۔“ خدا انسانوں سے کچھ نہیں چھپاتا ہے؛ اس نے لوگوں کو اپنی تمام فراوانی کے بارے میں مسلسل بتایا ہے – پھر بھی وہ یہ نہیں جان سکتے کہ اس کا کیا مطلب ہے، اور محض احمقوں کی طرح اس کے کلام کو قبول کر لیتے ہیں۔ کام کے اس مرحلے پر، انسانوں نے خدا کے ناقابل ادراک ہونے کو جان لیا ہے اور اس کے علاوہ، اب اسے سمجھنے کے کام کے مشکل ہونے کی قدر کر سکتے ہیں؛ اس وجہ سے، انہوں نے محسوس کیا ہے کہ ان دنوں، خدا پر ایمان لانا سب سے مشکل کام ہے، خنزیر کو گانا سکھانے کے مترادف ہے۔ وہ بالکل بے بس ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے چوہے جال میں پھنسے ہوں۔ درحقیقت، اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کسی شخص کے پاس کتنی طاقت ہے یا کسی شخص کی ہنرمندی کتنی ماہرانہ ہے، یا چاہے کوئی شخص لامحدود صلاحیتیں رکھتا ہے، جب بات خدا کے کلام کی ہو، تو ایسی چیزوں کا کوئی مطلب نہیں ہوتا ہے۔ خدا کی نظر میں یہ ایسے ہی ہے جیسے بنی نوع انسان جلے ہوئے کاغذ کی راکھ کا ڈھیر ہے – کسی بھی اہمیت سے بالکل خالی، کسی فائدے کا ہونا تو دور کی بات ہے۔ یہ کلام کے حقیقی معنی کی ایک بہترین مثال ہے، ”میں، ان کے نقطہ نظر سے، زیادہ سے زیادہ پوشیدہ اور زیادہ ناقابل ادراک ہو گیا ہوں۔“ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کا کام ایک قدرتی ترقی کی پیروی کرتا ہے، اور اس کے مطابق انجام پاتا ہے جو انسانی ادراک کے اعضاء سمجھ سکتے ہیں۔ جب نوع انسانی کی فطرت مستحکم اور غیر متزلزل ہوتی ہے، تو خدا کا کلام ان کے تصورات سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے، اور یہ تصورات خدا کے ساتھ تقریباً ہم آہنگ لگتے ہیں، کم از کم بغیر کسی فرق کے۔ یہ لوگوں کو کسی حد تک ”خدا کی حقیقت“ سے آگاہ کرتا ہے، لیکن یہ اس کا بنیادی مقصد نہیں ہے۔ خدا لوگوں کو زمین پر اپنے حقیقی کام کو باقاعدہ طور پر شروع کرنے سے پہلے بسنے کی اجازت دے رہا ہے۔ لہٰذا، اس شروعات کے دوران جو انسانوں کے لیے بہت الجھا دینے والی ہے، وہ یہ احساس کر رہے ہیں کہ ان کے سابقہ خیالات غلط تھے، اور یہ کہ خدا اور بنی نوع انسان آسمان و زمین کی طرح مختلف ہیں، اور بالکل بھی یکساں نہیں ہیں۔ چونکہ خدا کے کلام کو انسانی تصورات کی بنیاد پر اب مزید جانچا نہیں جا سکتا، اس لیے انسانوں نے فوراً ہی خدا کو ایک نئی روشنی میں دیکھنا شروع کر دیا ہے؛ نتیجتاً، وہ حیرانی سے خدا کی طرف دیکھتے ہیں، گویا عملی خدا ایک غیر مرئی اور اچھوت خدا کی طرح ناقابل رسائی ہے، اور گویا مجسم خدا کا جسم محض ایک بیرونی خول ہے، جو اس کے جوہر سے خالی ہے۔ اگرچہ وہ روح کی تجسیم ہے لیکن وہ روح کی شکل میں تبدیل ہو سکتا ہے اور کسی بھی وقت دور جا سکتا ہے؛ اس لیے لوگوں نے کسی حد تک محتاط ذہنیت تیار کر لی ہے۔ خدا کے ذکر پر، وہ اسے اپنے تصورات کے ساتھ پیش کرتے ہیں، یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ بادلوں اور دھند پر سواری کر سکتا ہے، پانی پر چل سکتا ہے، اور انسانوں میں اچانک ظاہر اور غائب ہو سکتا ہے۔ کچھ دوسرے کے پاس اس سے بھی زیادہ وضاحتی تشریحات ہیں۔ لوگوں کی لاعلمی اور بصیرت کی کمی کی وجہ سے، خدا نے کہا، ”جب وہ یقین کرتے ہیں کہ انہوں نے میری مخالفت کی ہے یا میرے انتظامی احکام کی خلاف ورزی کی ہے، تب بھی میں نظر انداز کر دیتا ہوں۔“
خدا نوع انسانی کے بدصورت چہرے اور ان کی داخلی دنیا کو قابلِ اعتبار درستی کے ساتھ ظاہر کرتا ہے، اپنے ہدف سے کبھی بھی نہیں ہٹتا۔ یہاں تک کہا جا سکتا ہے کہ وہ کبھی کسی قسم کی کوئی غلطی نہیں کرتا۔ یہ وہ ثبوت ہے جو لوگوں کو پوری طرح قائل کر دیتا ہے۔ خدا کے کام کے پیچھے اصول کی وجہ سے، اس کا بہت سا کلام اور اعمال ایک ایسا تاثر چھوڑتے ہیں جسے مٹانا ناممکن ہے، اور اس لیے لوگ اس کے بارے میں اس سے بھی زیادہ گہری فہم حاصل کرتے دکھائی دیتے ہیں، گویا انہوں نے اس میں ایسی چیزیں دریافت کر لی ہیں جو بہت زیادہ قیمتی ہیں۔ ”ان کی یادوں میں، میں یا تو وہ خدا ہوں جو لوگوں کو سزا دینے کی بجائے ان پر رحم کرتا ہے، یا وہ خود خدا ہوں جس کی باتوں کا مطلب وہ نہیں ہوتا جو وہ کہتا ہے۔ یہ سب انسانی سوچ سے پیدا ہونے والے تصورات ہیں، اور یہ حقائق کے مطابق نہیں ہیں۔“ اگرچہ بنی نوع انسان نے کبھی بھی خدا کے حقیقی چہرے کو کوئی اہمیت نہیں دی ہے، لیکن وہ اپنے ہاتھوں کی پشت کی طرح ”اس کے مزاج کا ضمنی پہلو“ جانتے ہیں۔ وہ ہمیشہ خدا کے قول و فعل نقص ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ ہمیشہ منفی چیزوں پر توجہ دینے کے لیے بہت تیار رہتے ہیں، اور مثبت چیزوں کو نظر انداز کرتے ہیں، خدا کے اعمال کو بالکل حقیر سمجھتے ہیں۔ جتنا زیادہ خدا کہتا ہے کہ وہ عاجزی کے ساتھ اپنے آپ کو اپنی رہائش گاہ میں چھپا لیتا ہے، نوع انسانی اس سے اتنے ہی زیادہ مطالبے کرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ”اگر مجسم خدا انسانیت کے ہر عمل کا مشاہدہ کر رہا ہے اور انسانی زندگی کا تجربہ کر رہا ہے، تو یہ کیوں ہے کہ زیادہ تر وقت خدا کی کو ہماری اصل حالت کا علم نہیں ہوتا ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا واقعی پوشیدہ ہے؟“ اگرچہ خدا انسانی دل کی گہرائیوں میں دیکھتا ہے، وہ پھر بھی بنی نوع انسان کے حقیقی حالات کے مطابق کام کرتا ہے، جو نہ مبہم اور نہ ہی مافوق الفطرت ہوتے ہیں۔ نوع انسانی کو اس کے پرانے مزاج سے مکمل طور پر چھٹکارا دلانے کے لیے، خدا نے مختلف نقطہ ہائے نظر سے بات کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، لوگوں کی اصل فطرت سے پردہ اٹھانے اور ان کی نافرمانیوں پر فیصلہ سناتے ہوئے، ایک لمحے، یہ کہتا ہے کہ وہ سب کے ساتھ نمٹے گا، اور اگلے لمحے اعلان کرتا ہے کہ وہ لوگوں کے ایک گروہ کو بچائے گا؛ یا تو انسانوں سے تقاضے کر کے یا انہیں تنبیہ کر کے؛ اور باری باری ان کے اندرونی حصوں کا تفصیلی معائنہ کر کے اور علاج فراہم کر کے۔ چنانچہ، خدا کے کلام کی راہنمائی میں، یہ ایسے ہے گویا انسانوں نے زمین کے ہر کونے میں سفر کیا اور ایک فراوانی والے باغ میں داخل ہوئے جس میں ہر ایک پھول سب سے زیادہ خوبصورت ہونے کے مقابلے میں حصہ لیتا ہے۔ خدا جو کچھ بھی کہتا ہے بنی نوع انسان اس کے کلام میں داخل ہو جائے گا، جیسے کہ خدا ایک مقناطیس ہے جو لوہے پر مشتمل ہر چیز کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ اس کلام کو پڑھنے پر، ”انسان میری طرف کوئی توجہ نہیں دیتے، اس لیے میں بھی انہیں سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ وہ میری طرف کوئی توجہ نہیں دیتے، اس لیے مجھے بھی ان پر زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیا یہ دونوں جہانوں میں بہترین نہیں ہے؟“ ایسا لگتا ہے کہ خدا کے تمام لوگ ایک بار پھر اتھاہ گڑھے میں گر گئے ہیں، یا ایک بار پھر اپنے اہم مقام پر مارے جائیں گے، جس سے وہ بالکل حیران رہ جائیں گے۔ چنانچہ، وہ طریقے میں دوبارہ داخل ہوتے ہیں۔ وہ خاص طور پر اس کلام کے حوالے سے الجھن کا شکار ہیں، ”اگر تم بادشاہی میں میرے لوگوں کے اراکین کے طور پر اپنے فرائض کو نبھانے سے قاصر ہو، تو میں تم سے نفرت کروں گا اور مسترد کر دوں گا!“ زیادہ تر لوگ اس قدر تکلیف محسوس کرتے ہیں کہ وہ سوچتے ہوئے رو پڑتے ہیں، ”مجھے اتھاہ گڑھے سے باہر نکلنے میں بہت مشکل پیش آئی، لہذا اگر میں دوبارہ اس میں گر جاؤں تو مجھے بالکل کوئی امید نہیں رہے گی۔ میں نے انسانی دنیا میں کچھ حاصل نہیں کیا، اور اپنی زندگی میں ہر طرح کی مشکلات اور مصیبتوں سے گزرا ہوں۔ خصوصاً جب سے ایمان لایا ہوں، میں نے اپنے پیاروں کی طرف سے ترک کر دیے جانے، اپنے گھر والوں کی طرف سے ظلم و ستم اور معاشرے میں دوسروں کی طرف سے بہتان تراشی کا تجربہ کیا ہے، اور میں نے دنیا کی کوئی خوشی حاصل نہیں کی۔ اگر میں دوبارہ اتھاہ گڑھے میں گر جاؤں تو کیا میری زندگی اس سے بھی زیادہ بےکار بسر کی ہوئی نہیں ہو گی؟“ (ایک شخص جتنا زیادہ اس پر غوروفکر کرتا ہے، وہ اتنا ہی زیادہ غمگین محسوس کرتا ہے۔) ”میری تمام امیدیں خدا کے سپرد کر دی گئی ہیں۔ اگر وہ مجھے چھوڑ دیتا ہے، تو میں ابھی اسی وقت مر سکتا ہوں۔۔۔ ٹھیک ہے، سب کچھ خدا کی طرف سے پہلے سے مقرر کیا گیا تھا؛ لہذا اب میں صرف خدا سے محبت کرنے کی کوشش کر سکتا ہوں؛ باقی سب ثانوی ہے۔ یہ میری قسمت کیوں ہے؟“ جتنا زیادہ لوگ اس طرح سوچتے ہیں، اتنا ہی زیادہ وہ خدا کے معیار اور اس کے کلام کے مقصد کے قریب آتے ہیں۔ اس طرح اس کے کلام کا مقصد حاصل ہو جاتا ہے۔ جب انسان خدا کا کلام دیکھتے ہیں، تو وہ سب ایک اندرونی نظریاتی کشمکش کا تجربہ کرتے ہیں۔ ان کا واحد انتخاب یہ ہے کہ تقدیر کے حکم کے تابع ہو جائیں، اور اس طرح خدا کا مقصد حاصل ہو جاتا ہے۔ خدا کا کلام جتنا زیادہ سخت ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں انسانوں کی اندرونی دنیا اتنی زیادہ پیچیدہ ہو جاتی جاتی ہے۔ یہ بالکل ایک زخم کو چھونے کے مترادف ہے؛ اسے جتنی زیادہ سختی سے چھوا جاتا ہے، اتنا ہی زیادہ اس میں تکلیف ہوتی ہے اس حد تک کہ لوگ زندگی اور موت کے درمیان لٹکتے ہیں اور زندہ رہنے کا اعتماد بھی کھو سکتے ہیں۔ اس طرح، جب انسان سب سے زیادہ مصائب کا شکار ہوں اور ناامیدی کی گہرائیوں میں ہوں تو صرف تب ہی وہ اپنے سچے دل خدا کے حوالے کر سکتے ہیں۔ انسانی فطرت ایسی ہے کہ اگر امید کا ایک ٹکڑا بھی باقی رہ جائے تو وہ مدد کے لیے خدا کے پاس نہیں جائے گا، بلکہ اس کی بجائے قدرتی طور پر زندہ رہنے کے لیے خود کفیل طریقے اختیار کرے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بنی نوع انسان کی فطرت خود راستبازی ہے، اور لوگ دوسرے ہر کسی کو حقیر سمجھتے ہیں۔ لہٰذا، خدا نے کہا، ”کوئی انسان اس قابل نہیں رہا کہ وہ راحت کی حالت میں بھی مجھ سے محبت کر سکے؛ امن اور خوشی کے وقت ایک بھی شخص نے رابطہ نہیں کیا کہ میں اس کی خوشی میں شریک ہو سکوں۔“ یہ واقعی مایوس کن ہے؛ خدا نے بنی نوع انسان کو تخلیق کیا، لیکن جب وہ انسانی دنیا میں آتا ہے، لوگ اس کی مزاحمت کرتے ہیں اور اسے اپنے علاقے سے دور بھگانے کی کوشش کرتے ہیں، گویا وہ کوئی یتیم ہے جو دنیا میں بھٹک رہا ہے، یا کسی ملک کے بغیر، دنیا کے انسان کی طرح ہے۔ کوئی بھی خدا سے وابستگی محسوس نہیں کرتا، کوئی بھی اس سے حقیقی محبت نہیں کرتا، اور کسی نے کبھی اس کی آمد کا خیرمقدم نہیں کیا۔ اس کی بجائے جب وہ خدا کی آمد کو دیکھتے ہیں تو پلک جھپکتے ہی خوشی سے بھرے چہروں کو بادل سائے سے ڈھانپ لیتے ہیں، جیسے راستے میں کوئی طوفان آ رہا ہو یا گویا خدا ان کے گھر والوں کی خوشیاں چھین لے گا، اور گویا خدا نے کبھی انسانوں کو برکت عطا نہیں کی لیکن، اس کی بجائے، ان کے لیے ہمیشہ بدقسمتی ہی لایا تھا۔ لہٰذا، انسانوں کے ذہنوں میں، خدا ایک فائدہ نہیں ہے، بلکہ وہ ہے جو ہمیشہ ان پر لعنت بھیجتا ہے۔ اس وجہ سے لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے اور نہ ہی اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اُس کی طرف سرد رہتے ہیں، اور ہمیشہ یہی معاملہ رہا ہے۔ چونکہ انسان ان چیزوں کو اپنے دلوں میں رکھتے ہیں، اس لیے خدا کہتا ہے کہ نوع انسانی غیر معقول اور غیر اخلاقی ہے، اور یہاں تک کہ وہ احساسات جن کے متعلق گمان کیا جاتا ہے کہ انسان اس سے لیس ہیں، وہ بھی ان میں محسوس نہیں کیے جا سکتے۔ انسان خدا کے جذبات کا کوئی خیال نہیں کرتے، بلکہ خدا کے ساتھ معاملہ کرنے کے لیے نام نہاد ”راستبازی“ کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ کئی سالوں سے ایسے ہی ہیں اور اسی وجہ سے خدا نے کہا ہے کہ ان کے مزاج تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے پاس مٹھی بھر پروں سے زیادہ کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان بےکار کمینے ہیں، کیونکہ وہ خود اپنی قدر نہیں کرتے۔ اگر وہ خود سے بھی محبت نہیں کرتے، اس کی بجائے خود کو روندتے ہیں، تو کیا یہ ان کے نکمے ہونے کو ظاہر نہیں کرتا؟ نوع انسانی ایک بد چلن عورت کی مانند ہے جو اپنے آپ سے کھیل کھیلتی ہے اور خود کو خوشی سے دوسروں کے حوالے کرتی ہے تاکہ وہ اس کی عصمت دری کریں۔ اس کے باوجود لوگ ابھی تک یہ نہیں پہچانتے کہ وہ کتنے حقیر ہیں۔ وہ دوسروں کے لیے کام کرنے یا دوسروں کے ساتھ بات کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں، خود کو دوسروں کے اختیار میں رہنے دیتے ہیں؛ کیا یہ بالکل نوع انسانی کی گندگی نہیں ہے؟ اگرچہ میں نے نوع انسانی کے درمیان زندگی کا تجربہ نہیں کیا ہے، اور میں نے حقیقی معنوں میں انسانی زندگی کا تجربہ نہیں کیا ہے، لیکن میں نے انسانوں کی ہر حرکت، ہر عمل، ہر قول اور ہر فعل کی بہت واضح سمجھ حاصل کر لی ہے۔ حتیٰ کہ میں انسانوں کو ان کی انتہائی شرمناک حد تک بے نقاب کرنے کے قابل ہوں، یہاں تک کہ وہ اب اپنی سازشیں ظاہر کرنے یا اپنی ہوس کے سامنے ڈھیر ہونے کی ہمت نہیں رکھتے۔ گھونگوں کی طرح جو اپنے خولوں میں سمٹ جاتے ہیں، وہ اب اپنی بدصورت حالت کو بے نقاب کرنے کی مزید ہمت نہیں رکھتے۔ کیونکہ انسان اپنے آپ کو نہیں جانتے، اس لیے ان کی سب سے بڑی خامی دوسروں کے سامنے اپنے دلکشی کو پیش کرنا، اپنے بدصورت چہرے کی نمائش کرنا ہے؛ یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے خدا سب سے زیادہ نفرت کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان تعلقات غیر معمولی ہیں، اور لوگوں کے درمیان معمول کے باہمی تعلقات کی کمی ہے، ان کے اور خدا کے درمیان معمول کے تعلقات تو اور بھی بہت کم ہیں۔ خدا نے بہت کچھ کہا ہے اور ایسا کرنے سے اس کا بنیادی مقصد لوگوں کے دلوں میں جگہ حاصل کرنا ہے تاکہ وہ ان تمام بتوں سے چھٹکارا حاصل کر سکیں جو وہاں رہائش اختیار کر چکے ہیں۔ اس کے بعد، خدا پوری نوع انسانی پر اقتدار حاصل کر سکتا ہے، اور زمین پر اپنے وجود کا مقصد حاصل کر سکتا ہے۔