باب 13
خُدا عظیم سرخ اژدہے کی تمام اولادوں سے نفرت کرتا ہے، اور خود عظیم سرخ اژدہے سے تو وہ اور بھی زیادہ نفرت کرتا ہے: یہ خُدا کے دل میں غضب کا ماخذ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ خدا عظیم سرخ اژدہے سے تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کو آگ اور گندھک کی جھیل میں ڈالنا چاہتا ہے تاکہ انھیں جلا دیا جائے۔ یہاں تک کہ ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب ایسا لگتا ہے کہ خُدا ذاتی طور پر عظیم سرخ اژدہے کو مٹانے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھانا چاہتا ہے – صرف یہی اس کے دل میں موجود نفرت کو مٹا سکتا ہے۔ عظیم سرخ اژدہے کے گھر میں ہر ایک فرد انسانیت کے بغیر ایک حیوان ہے، اور یہی وجہ ہے کہ خدا نے اپنے غصے کو سختی سے دبایا اور یہ کہا: ”میرے تمام لوگوں میں، اور میرے تمام بیٹوں میں، یعنی ان میں سے جن کو میں نے پوری نسل انسانی میں سے منتخب کیا ہے، تم سب سے نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہو۔“ خُدا نے عظیم سرخ اژدہے کے ساتھ اس کے اپنے ملک میں فیصلہ کن جنگ شروع کر دی ہے، اور جب اُس کا منصوبہ پورا ہو جائے گا تو وہ اُسے تباہ کر دے گا، اور اُسے انسانوں کو بدعنوان بنانے یا اُن کی روحوں کو تباہ کرنے کی مزید اجازت نہیں دے گا۔ ہر روز، خُدا اپنے سوئے ہوئے لوگوں کو پکارتا ہے کہ وہ اُنھیں بچائے، پھر بھی وہ سب چکرانے کی حالت میں ہیں، گویا اُنہوں نے نیند کی گولیاں کھا رکھی ہیں۔ اگر خدا ان کو ایک لمحے کے لیے بھی جگانا بند کر دے تو وہ بالکل غافل ہو کر گہری نیند کی حالت میں لوٹ جائیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کے تمام لوگ دو تہائی مفلوج ہیں۔ انھیں اپنی ضرورتوں یا اپنی کمیوں کا پتہ نہیں ہے اور حتیٰ کہ نہ ہی اس بات کا کہ انھیں کیا پہننا چاہیے یا کیا کھانا چاہیے۔ یہ ظاہر کرنے کے لے کافی ہے کہ عظیم سرخ اثدہے نے لوگوں کو بدعنوان بنانے کے لیے بہت زیادہ کوششیں کی ہیں۔ اس کی بدصورتی چین کے ہر علاقے میں پھیلی ہوئی ہے اور اس نے لوگوں کو اس قدر پریشان کر رکھا ہے کہ وہ اس زوال پذیر، بے ہودہ ملک میں مزید رہنے کو تیار نہیں ہیں۔ جس چیز سے خُدا کو سب سے زیادہ نفرت ہے وہ عظیم سرخ اثدہے کا مادّہ ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ، اپنے غضب میں، ہر روز لوگوں کو یاددہانیاں کرواتا ہے، اور وہ ہر روز اس کی غضب ناک نظروں کے نیچے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود، زیادہ تر لوگ اب بھی خدا کو تلاش کرنا نہیں جانتے؛ اس کی بجائے، وہ وہاں بیٹھے، دیکھ رہے ہیں، ہاتھ سے کھلائے جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر وہ بھوک سے مر رہے ہوں، تب بھی وہ اپنی خوراک تلاش کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ انسان کا ضمیر بہت پہلے شیطان کی طرف سے بدعنوان بنا دیا گیا تھا اور یہ جوہر میں بدل کر بے مروت ہو گیا ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ خدا نے کہا، ”اگر میں نے تمہیں آمادہ نہ کیا ہوتا، تو تم اب بھی بیدار نہ ہوتے، بلکہ ایسے ہی رہتے جیسے کہ منجمد ہو، اور دوبارہ، سرما خوابی میں ہو۔“ یہ ایسے ہی ہے جیسے لوگ جانوروں کو سرما خوابی کروا رہے ہوں، موسم سرما کو کھانے یا پینے کی ضرورت کے بغیر گزار رہے ہوں؛ خدا کے لوگوں کی موجودہ حالت بالکل یہی ہے۔ صرف اسی وجہ سے، خدا صرف اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ لوگ خود مجسم خدا کو روشنی میں جان لیں؛ وہ یہ مطالبہ نہیں کرتا ہے کہ لوگ بہت زیادہ بدل جائیں، اور نہ ہی یہ کہ ان کی زندگی میں بہت ترقی ہو۔ یہ گندے، غلیظ عظیم سرخ اثدہے کو شکست دینے کے لیے کافی ہو گا، اور اس طرح خدا کی عظیم قدرت کو مزید ظاہر کرے گا۔
جب لوگ خدا کا کلام پڑھتے ہیں، تو وہ صرف اس کے لغوی معنی کو سمجھتے ہیں، اور اس کی روحانی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ محض کلام، ”طوفانی لہروں“ نے ہر ہیرو اور چیمپیئن کو حیران کر دیا ہے۔ جب خُدا کا غضب ظاہر ہوتا ہے، تو کیا اُس کا کلام، افعال، اور مزاج طوفانی لہریں نہیں ہیں؟ جب خدا تمام بنی نوع انسان کی عدالت کرتا ہے تو کیا یہ اس کے غضب کا اظہار نہیں ہے؟ کیا یہ وہ وقت نہیں ہے جب وہ طوفانی لہریں موثر ہوتی ہیں؟ ان کی بدعنوانی کی وجہ سے، انسانوں میں سے کون ہے جو ایسی طوفانی لہروں کے درمیان نہیں رہتا؟ دوسرے کلام میں، کون خدا کے غضب کے درمیان نہیں رہتا؟ جب خدا بنی نوع انسان پر تباہی نازل کرنا چاہتا ہے، تو کیا یہ وہ نہیں ہے جب لوگ ”اوپر نیچے حرکت کرتے گہرے بادلوں“ کو دیکھتے ہیں؟ کون سا شخص آفت سے نہیں بھاگتا؟ خدا کا غضب موسلادھار بارش کی طرح برستا ہے اور لوگوں کو تیز آندھی کی طرح اڑا دیتا ہے۔ تمام لوگ خدا کے کلام سے ایسے پاک ہوتے ہیں جیسے چکردار برفانی طوفان کا سامنا کیا ہو۔ انسانوں کے لیے خدا کے کلام کا ادراک کرنا مشکل ترین ہے۔ اپنے کلام کے ذریعے، اس نے دنیا کو تخلیق کیا، اور اپنے کلام کے ذریعے، وہ تمام بنی نوع انسان کی راہنمائی کرتا اور پاکیزہ بناتا ہے۔ اور آخر میں، خدا اپنے کلام کے ذریعے پوری کائنات کو پاکیزگی کی حالت میں بحال کر دے گا۔ یہ ہر اس چیز میں دیکھا جا سکتا ہے جو وہ کہتا ہے کہ خدا کی روح کا وجود کھوکھلا نہیں ہے، اور یہ صرف اس کے کلام میں ہے کہ لوگ اس کی جھلک دیکھ سکتے ہیں کہ کیسے زندہ رہنا ہے۔ تمام لوگ اُس کے کلام کی بہت قدر کرتے ہیں، کیونکہ اُس میں زندگی کے لیے فراہمی ہے۔ لوگ خُدا کے کلام پر جتنی زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں، خُدا اُن سے اُتنے ہی زیادہ سوالات پوچھتا ہے – ایسے سوالات جو انھیں الجھا دیتے ہیں اور انھیں جواب دینے کا موقع دیے بغیر چھوڑ دیتے ہیں۔ صرف خُدا کے پے در پے سوالات ہی لوگوں کے لیے بہت دیر تک غور کرنے کے لیے کافی ہیں، اس کے باقی کلام کی تو بات ہی رہنے دو۔ خدا میں، سب کچھ واقعی بھرا ہوا ہے اور بہت زیادہ ہے، اور کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ تاہم، لوگ اس سے زیادہ لطف اندوز نہیں ہو سکتے؛ وہ صرف اس کے کلام کی سطح کو جانتے ہیں، جیسے وہ شخص جو مرغی کی کھال دیکھتا ہے لیکن اس کا گوشت نہیں کھا سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے پاس قسمت کی کمی ہے، اس طرح وہ خدا سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے ہیں۔ ہر شخص کے اپنے تصورات کے درمیان، خدا کی اس کی اپنی شبیہ ہوتی ہے، جس کی وجہ سے کوئی نہیں جانتا کہ مبہم خدا کیا ہے، یا شیطان کی شبیہ کیا ہے۔ لہٰذا، جب خدا نے کہا کہ ”کیونکہ تو جس چیز پر یقین رکھتا ہے وہ محض شیطان کی شبیہہ ہے اور اس میں خود خدا کے ساتھ تعلق رکھنے والی کوئی چیز بھی نہیں ہے۔“ تو سب گونگے بن کر رہ گئے: وہ اتنے سالوں تک ایمان رکھتے تھے، پھر بھی وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ جس پر ایمان رکھتے تھے وہ شیطان تھا، خود خدا نہیں۔ انھیں اپنے اندر اچانک خلا محسوس ہوا، لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ کیا کہیں۔ وہ پھر سے الجھن میں پڑ گئے۔ صرف اس انداز سے کام کرنے سے ہی لوگ نئی روشنی کو بہتر طریقے سے قبول کر سکتے ہیں اور اس طرح قدیم چیزوں کا انکار کر سکتے ہیں۔ چاہے وہ چیزیں کتنی ہی اچھی نظر آتی ہوں، وہ نہیں کریں گے۔ لوگوں کے لیے خود عملی خدا کو سمجھنا زیادہ فائدہ مند ہے؛ یہ انھیں اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے دلوں کو اس حیثیت سے دور کر سکیں جو ان کے تصورات نے حاصل کر رکھی ہے، اور صرف خود خدا کو ان پر قبضہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ صرف اسی طریقے سے تجسیم کی اہمیت حاصل کی جا سکتی ہے، جو لوگوں کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ عملی خدا کو اپنی جسمانی آنکھوں سے جان سکیں۔
خدا نے لوگوں کو روحانی دنیا کی صورت حال کے بارے میں کئی بار بتایا ہے: ”جب شیطان میرے سامنے آتا ہے تو میں اس کی وحشیانہ درندگی سے گھبرا کر پیچھے نہیں ہٹتا، اور نہ ہی میں اس کی گھناؤنی حرکت سے خوفزدہ ہوتا ہوں: میں اسے بالکل نظر انداز کر دیتا ہوں۔“ لوگوں نے اس سے جو کچھ سمجھا ہے وہ صرف حقیقت کی ایک حالت ہے۔ وہ روحانی دنیا کی حقیقت کو نہیں جانتے۔ چونکہ خدا جسم بن گیا ہے، اس لیے شیطان نے ہر قسم کا الزام لگا دیا ہے، اس طرح خدا پر حملہ کرنے کی امید کرتا ہے۔ تاہم، خدا پیچھے نہیں ہٹتا؛ وہ صرف بنی نوع انسان کے درمیان بولتا اور کام کرتا ہے، لوگوں کو اپنے مجسم جسم کے ذریعے خود کو جاننے کا موقع دیتا ہے۔ اس پر شیطان کی آنکھیں غصے سے سرخ ہیں، اور اس نے خدا کے لوگوں کو منفی بنانے، پیچھے ہٹنے، اور یہاں تک کہ ان کو راہ سے بھٹکانے کی بہت کوشش کی ہے۔ تاہم، خدا کے کلام کے اثر کی وجہ سے، شیطان مکمل طور پر ناکام ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے اس کی درندگی بڑھ جاتی ہے۔ لہذا، خدا سب کو یاد دلاتا ہے، ”تمہاری زندگیوں میں ایک ایسا دن بھی آ سکتا ہے جب تم ایسی صورت حال سے دوچار ہو گے: کیا تم اپنے آپ کو خوشی سے شیطان کا اسیر بننے کی اجازت دو گے یا کیا تم مجھے خود کو حاصل کرنے دو گے؟“ اگرچہ لوگ اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ روحانی دنیا میں کیا ہوتا ہے، لیکن جیسے ہی وہ خدا کی طرف سے ایسا کلام سنتے ہیں، وہ محتاط اور خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ یہ شیطان کے حملوں کو ناکام بنا دیتا ہے، جو خدا کا جلال ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ کام کے ایک نئے طریقے میں بہت پہلے داخل ہونے کے باوجود، لوگ اب بھی بادشاہی میں زندگی کے بارے میں غیر واضح ہیں، اور اگر وہ اسے سمجھتے بھی ہیں، تب بھی ان میں وضاحت کی کمی ہے۔ لہذا، لوگوں کو انتباہ جاری کرنے کے بعد، خدا نے انھیں بادشاہی میں زندگی کے جوہر سے متعارف کروایا: ”بادشاہی میں زندگی لوگوں اور خود خدا کی زندگی ہے۔“ چوںکہ خُدا خود جسم میں مجسم ہوا ہے، اس لیے زمین پر تیسرے آسمان کی زندگی کا احساس ہوا ہے۔ یہ محض خدا کا منصوبہ نہیں ہے – وہ اسے پورا کر چکا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، لوگ خود خدا کو بہتر طور پر جان لیتے ہیں، اور اس طرح وہ آسمان کی زندگی کا ذائقہ چکھنے کے زیادہ قابل ہوتے ہیں، کیونکہ وہ حقیقی طور پر محسوس کرتے ہیں کہ آسمان میں ایک مبہم خدا ہونے کی بجائے خدا زمین پر موجود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مجسم خدا انسانی دنیا کی کڑواہٹ کا مزہ چکھتا ہے، اور جتنا زیادہ وہ ایسا کرنے کے قابل ہوتا ہے، اتنا ہی زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ خود عملی خدا ہے۔ لہذا، کلام، ”اپنی رہائش گاہ میں، جو وہ جگہ ہے جہاں میں چھپا ہوا ہوں – اس کے باوجود، اپنی رہائش گاہ میں، میں نے اپنے تمام دشمنوں کو شکست دی ہے؛ اپنی رہائش گاہ میں، میں نے زمین پر رہنے کا حقیقی تجربہ حاصل کیا ہے؛ اپنی قیام گاہ میں، میں انسان کے ہر قول و فعل کا مشاہدہ کر رہا ہوں، اور پوری نسل انسانی کی نگرانی اور راہنمائی کر رہا ہوں“ اس حقیقت کا کافی ثبوت ہے کہ آج کا خدا عملی ہے۔ جسم کے اندر اصل میں رہنا، جسم کے اندر اصل میں انسانی زندگی کا تجربہ کرنا، جسم کے اندر پوری انسانیت کو اصل میں سمجھنا، جسم کے اندر بنی نوع انسان کو اصل میں فتح کرنا، جسم کے اندر اصل میں عظیم سرخ اژدہے کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑنا، اور جسم کے اندر خدا کے تمام کام کرنا – کیا یہ خود عملی خدا کا وجود نہیں ہے؟ پھر بھی بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو خدا کی طرف سے کہی گئی ان عام سطروں میں پیغام دیکھتے ہیں؛ وہ اس کا محض سرسری مطالعہ کرتے ہیں، اور خدا کے کلام کے قیمتی یا نایاب ہونے کو محسوس نہیں کرتے۔
خُدا کا کلام خاص طور پر اچھی طرح منتقل ہوتا ہے۔ یہ جملہ، ”جیسا کہ نوع انسانی غشی کی حالت میں پڑی ہے،“ خود خدا کے بیان کو لیتا ہے اور اسے تمام بنی نوع انسان کی حالت کے بیان میں تبدیل کر دیتا ہے۔ یہاں، ”ٹھنڈی چمک کی طاقتور لہروں“ مشرق کی بجلی کی نمائندگی نہیں کرتیں؛ بلکہ، اس کا مطلب خدا کا کلام ہے، یعنی کام کرنے کا اس کا نیا طریقہ۔ لہذا، اس میں ہر قسم کی انسانی حرکیات دیکھی جا سکتی ہیں: نئے طریقے میں داخل ہونے کے بعد، تمام لوگ اپنی سمت کا احساس کھو دیتے ہیں، اور یہ نہیں جانتے کہ وہ کہاں سے آئے ہیں اور نہ ہی یہ کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔ ”زیادہ تر لوگوں سے لیزر نما شعاعیں ٹکراتی ہیں“ سے مراد وہ لوگ ہیں جو نئے طریقے سے باہر نکال دیے جاتے ہیں؛ یہ وہ لوگ ہیں جو آزمائشوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی مصائب کے تزکیے کو برداشت کر سکتے ہیں، اور اس لیے ایک بار پھر اتھاہ گڑھے میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ خدا کا کلام بنی نوع انسان کو اس حد تک بے نقاب کرتا ہے کہ لوگ جب خدا کے کلام کو دیکھتے ہیں تو خوف زدہ نظر آتے ہیں، اور وہ کچھ کہنے کی ہمت نہیں کرتے، جیسے انہوں نے وہ مشین گن دیکھ لی ہو جس نے ان کے دلوں کو نشانہ بنایا ہوا ہے۔ تاہم، وہ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ خدا کے کلام میں اچھی چیزیں ہیں۔ ان کے دلوں میں بڑی کشمکش ہے اور وہ نہیں جانتے کہ وہ انھیں کیا کرنا چاہیے۔ تاہم، اپنے ایمان کی وجہ سے، وہ محض اپنے آپ کو فولاد کرتے ہیں اور اس خوف سے کہ خدا انھیں چھوڑ سکتا ہے، اس کے کلام کو زیادہ گہرائی میں تلاش کرتے ہیں۔ جیسا کہ خدا نے کہا، ”انسانوں میں سے کون ہے جو اس حالت میں موجود نہیں ہے؟ میرے نور میں کون موجود نہیں ہے؟ اگر تو مضبوط بھی ہے، یا اگرچہ تو کمزور ہو سکتا ہے، تو تُو میرے نور کی آمد سے کیسے بچ سکتا ہے؟“ اگر خدا کسی کو استعمال کرتا ہے، تو پھر چاہے وہ کمزور ہی کیوں نہ ہو، تب بھی خدا اسے اپنی سزا میں روشن کرے گا اور آگہی دے گا۔ لہذا، جتنا زیادہ لوگ خُدا کا کلام پڑھتے ہیں، اتنا ہی زیادہ وہ اُسے سمجھتے ہیں، اُتنا ہی زیادہ اُس کی تعظیم کرتے ہیں، اور اُتنا ہی کم وہ بےپروا ہونے کی ہمت کرتے ہیں۔ لوگ جو آج اس مقام پر پہنچے ہیں جہاں وہ آج ہیں، یہ مکمل طور پر خدا کی عظیم قدرت کی وجہ سے ہے۔ یہ اُس کے کلام کے اختیار کی وجہ سے ہے – یعنی، یہ اُس کے کلام میں روح کا نتیجہ ہے – کہ لوگ خُدا سے ڈرتے ہیں۔ جوں جوں خدا بنی نوع انسان کے حقیقی چہرے کو بے نقاب کرتا ہے، ان کے لیے اس کا عظمت کا رعب اتنا ہی بڑھتا جاتا ہے، اور یوں وہ اُس کے وجود کی حقیقت کے بارے میں زیادہ یقینی ہو جاتے ہیں۔ یہ خدا کو سمجھنے کے لیے بنی نوع انسان کے راستے پر ایک مشعل ہے، ایک راستہ جو اس نے انھیں دیا ہے۔ اس کے بارے میں احتیاط سے سوچو: کیا یہ ایسا نہیں ہے؟
کیا جو کچھ اوپر بتایا گیا ہے وہ بنی نوع انسان کے سامنے مشعل نہیں ہے جو اس کے راستے کو روشن کرتی ہے؟