باب 12

جب سب لوگ توجہ دیتے ہیں، جب تمام چیزوں کی تجدید ہو جاتی ہے اور نئے سرے سے آغاز ہو جاتا ہے، جب ہر شخص بغیر کسی خلش کے خدا کے سامنے سرتسلیم خم کر دیتا ہے اور خدا کے بوجھ کی بھاری ذمہ داری کو اپنے کندھے پر اٹھانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے – تو یہ وہ وقت ہوتا ہے جب مشرقی آسمانی بجلی آگے بڑھتی ہے، مشرق سے لے کر مغرب تک سب کو روشن کر دیتی ہے، اور اس روشنی کی آمد سے پوری زمین خوفزدہ ہو جاتی ہے؛ اور، اس موقع پر، خدا ایک بار پھر ایک نئی زندگی کا آغاز کرتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس لمحے، خدا زمین پر نئے کام کا آغاز کرتا ہےاور پوری کائنات کے لوگوں کے سامنے یہ اعلان کرتا ہے کہ "جب مشرق سے آسمانی بجلی ظاہر ہوتی ہے، جو کہ عین وہی لمحہ ہوتا ہے جب میں اپنے الفاظ کہنا شروع کرتا ہوں- جب آسمانی بجلی ظاہر ہوتی ہے تو تمام کائنات روشن ہو جاتی ہے، اور تمام ستاروں میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔" تو، وہ وقت کب ہوتا ہے جب مشرق سے آسمانی بجلی آگے بڑھتی ہے؟ جب افلاک تاریک ہو جاتے ہیں اور زمین مدھم پڑ جاتی ہے تو یہ وہ وقت ہوتا ہے جب خدا دنیا سے اپنا چہرہ چھپا لیتا ہے، اور یہ وہی لمحہ ہوتا ہے جب آسمانوں کے نیچے سب کچھ ایک طاقتور طوفان کے نرغے میں آنے والا ہوتا ہے۔ اس وقت بھی، تمام لوگ گھبراہٹ کا شکار ہیں، گرج کی آواز سے خوفزدہ ہیں، آسمانی بجلی کے چمکنے سے ڈرتے ہیں، اور اس سے بھی زیادہ عظیم طوفان کی یلغار سے دہشت زدہ ہیں، اس حد تک کہ ان میں سے اکثر آنکھیں بند کر کے انتظار کر رہے ہیں کہ خدا اپنا غضب نازل کرے اور انہیں مار ڈالے۔ اور جیسے جیسے مختلف حالتیں آتی ہیں، مشرقی آسمانی بجلی فوری طور پر ظاہر ہو جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے مشرق میں، جب خود خدا کی گواہی شروع ہوتی ہے، اس وقت سے لے کر اس کے کام کا آغاز کرنے تک، اس کی الوہیت کے پوری زمین پر اپنے اختیار کو بروئے کار لانا شروع کرنے تک - یہ مشرقی آسمانی بجلی کی چمکتی ہوئی شعاع ہے، جو کبھی بھی پوری کائنات پرچمکی ہے۔ جب زمین کے ممالک مسیح کی بادشاہی بن جاتے ہیں تو یہ وہ وقت ہوتا ہے جب پوری کائنات روشن ہو جاتی ہے۔ اب مشرقی آسمانی بجلی کے ظاہر ہونے کا وقت ہے۔ مجسم خدا کام کا آغاز کرتا ہے، اور مزید برآں، وہ الوہیت کی حالت میں براہ راست بات کرتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب خدا زمین پر بولنا شروع کرتا ہے تو تب وہ وقت ہوتا ہے جب مشرقی آسمانی بجلی ظاہر ہوتی ہے۔ زیادہ واضح طور پر، جب آبِ حیات تخت سے بہتا ہے – جب تخت سے کلام کا آغاز ہوتا ہے – یہ بالکل ٹھیک وہی وقت ہوتا ہے جب سات روحوں کے کلام کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ اس وقت، مشرقی آسمانی بجلی ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہے، اور اس کے دورانیے کی وجہ سے، روشنی کا درجہ بھی مختلف ہوتا ہے، اور اس کی چمک کے دائرہ کار کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ پھر بھی خدا کے کام کی حرکت کے ساتھ، اس کے منصوبے میں تبدیلیوں کے ساتھ – خدا کے بیٹوں اور خدا کے بندوں پر کام میں تبدیلیوں کے ساتھ – آسمانی بجلی تیزی سے اپنا فطری کام انجام دیتی ہے، اس طرح کہ پوری کائنات منور ہو جاتی ہے، اور کوئی بھی گندگی یا غلاطت باقی نہیں رہتی ہے۔ یہ خدا کے 6،000 سالہ انتظامی منصوبے کی حتمی شکل ہے، اور بالکل یہی وہ پھل ہے جس سے خدا لطف اندوز ہوتا ہے۔ "ستارے" سے مراد آسمان کے ستارے نہیں ہیں، بلکہ ان سے مراد خدا کے تمام بیٹے اور لوگ ہیں جو اس کے لیے کام کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ خُدا کی بادشاہی میں خُدا کی گواہی دیتے ہیں، اور اُس کی بادشاہی میں اُس کی نمائندگی کرتے ہیں، اور چوںکہ وہ مخلوق ہیں، اس لیے وہ "ستارے" کہلاتے ہیں۔ "تبدیل ہونا" سے مراد شناخت اور حیثیت میں تبدیلی ہے: لوگ، زمین کے لوگوں سے بادشاہی کے لوگوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں، اور اس کے علاوہ، خدا ان کے ساتھ ہوتا ہے، اور ان کے اندر خدا کا جاہ وجلال ہوتا ہے۔ نتیجے کے طور پر، خدا کی بجائے وہ خود مختار طاقت کو بروئے کار لاتے ہیں، اور خدا کے کام کے ذریعے ان میں موجود زہر اور نجاست کو پاک کر دیا جاتا ہے، اور بالآخر انھیں خدا کی مرضی کے مطابق خدا کے استعمال کے قابل بنا دیا جاتا ہے – یہ ان الفاظ کے معنی کا ایک پہلو ہے۔ جب خدا کی طرف سے روشنی کی شعاع تمام زمین کو منور کر دے گی، تو آسمان اور زمین کی تمام چیزیں مختلف درجوں میں تبدیل ہو جائیں گی، اور آسمان میں ستارے بھی بدل جائیں گے، سورج اور چاند کی تجدید ہو جائے گی، اور زمین پر لوگوں کی تجدید بعد میں کی جائے گی – جو کہ آسمان اور زمین کے درمیان خدا کا کام ہے، اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔

جب خدا لوگوں کو بچاتا ہے – اس سے مراد وہ لوگ نہیں ہیں جن کا انتخاب فطری طور پر نہیں کیا جاتا ہے – ایسا صرف اس وقت ہوتا ہے جب خدا لوگوں کو گناہوں سے پاک کرتا ہے اور ان کا فیصلہ کرتا ہے، اور سب پھوٹ پھوٹ کر روتے ہیں، یا خدا کے کلام کی وجہ سے بیمار ہو کر اپنے بستروں پر گر جاتے ہیں، یا مارے جاتے ہیں اور موت کے جہنم میں گر جاتے ہیں۔ یہ صرف خدا کے کلام کی وجہ سے ہی ہوتا ہے کہ لوگ اپنے آپ کو جاننا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر چیزیں اس طرح سے نہ ہوتیں تو ان کی آنکھیں میںڈک کی طرح ہوتیں – اوپر کی طرف دیکھتی ہوئی، کوئی بھی قائل نہ ہوتا، ان میں سے کوئی بھی اپنے آپ کو نہ جانتا، اور وہ اس بات سے بے خبر ہوتے کہ ان کی اہمیت کتنی ہے۔ شیطان نے لوگوں کو واقعی بہت حد تک بد عنوان بنا دیا ہے۔ یہ خاص طور پر خدا کی قدرت کاملہ کی وجہ سے ہے کہ انسان کے بدصورت چہرے کی اتنی واضح تصویر کشی کی گئی ہے، جس کی وجہ سے انسان اسے پڑھنے کے بعد اس کا اپنے حقیقی چہرے سے موازنہ کرنے لگتا ہے۔ سب لوگوں کو علم ہے کہ ایسا نظر آتا ہے کہ خدا بالکل واضح طور پر جانتا ہے کہ ان کے سروں میں دماغ کے خلیے کتنے ہیں، ان کے بدصورت چہروں یا اندرونی خیالات کے بارے میں اس کے علم کے متعلق تو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ان الفاظ میں "پوری نسل انسانی اس طرح ہے گویا اس کو چھانٹ دیا گیا ہے۔ مشرق کی طرف سے روشنی کی اس شعاع کی چمک کے نیچے، تمام بنی نوع انسان کو ان کی اصلی شکل میں ظاہر کیا گیا ہے، ان کی آنکھیں چندھیا گئی ہیں، انھیں یقین نہیں ہے کہ کیا کرنا ہے،" یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک دن، جب خدا کا کام ختم ہو جائے گا تو خدا تمام انسانوں کا فیصلہ کرے گا اور کوئی بچ جانے کے قابل نہیں ہو گا؛ خدا کسی ایک کو بھی نظر انداز کیے بغیر تمام بنی نوع انسان سے ایک ایک کر کے نمٹے گا، اور صرف اسی طرح خدا کے دل کو اطمینان ملے گا۔ اور اسی لیے، خدا کہتا ہے، "وہ بھی ان جانوروں کی مانند ہیں جو میری روشنی سے بھاگ کر پہاڑی غاروں میں پناہ لے لیتے ہیں – لیکن ان میں سے ایک بھی میری روشنی کے اندر سے مٹ نہیں سکتا ہے۔" لوگ حقیر اور کمتر جانور ہیں۔ شیطان کے ہاتھ میں رہنا ایسے ہی ہے جیسے کہ انہوں نے پہاڑوں کی گہرائیوں میں قدیم جنگلوں میں پناہ لی ہوئی ہے – لیکن، کیونکہ کوئی بھی چیز خدا کے شعلوں میں بھسم ہونے سے نہیں بچ سکتی، چاہے وہ شیطان کی طاقتوں کے "تحفظ" میں ہی کیوں نہ ہو، خدا انھیں بھول کیسے سکتا ہے؟ جب لوگ خدا کے کلام کی آمد کو قبول کرتے ہیں، تو تمام لوگوں کی مختلف بد ہئیت صورتیں اور مکروہ حالتوں کی خدا کے قلم سے تصویر کشی ہوتی ہے۔ خدا اس انداز میں بات کرتا ہے جو انسان کی ضروریات اور ذہنیت کے مطابق ہوتا ہے۔ اس طرح، لوگوں کو، خدا نفسیات میں بہت تجربہ کار نظر آتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے خدا ایک ماہر نفسیات ہے، اور ساتھ ہی خدا اندرونی ادویات کا ماہر بھی ہے – کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اس کے پاس "پیچیدہ" انسان کے بارے میں ایسی سمجھ بوجھ ہے۔ جتنا زیادہ لوگ ایسا سوچتے ہیں، خدا کے قیمتی ہونے کا ان کا احساس اتنا ہی زیادہ بڑھتا ہے، اور اتنا ہی زیادہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ خدا گہرا اور ناقابلِ فہم ہے۔ یہ ایسے ہے جیسے انسان اور خدا کے درمیان ایک ناقابل عبور آسمانی سرحد ہے، لیکن یہ ایسے بھی ہے کہ جیسے دونوں ایک دوسرے کو دریائے چو[ا] کے مخالف کناروں کی طرح سمجھتے ہیں، اور ان میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کو دیکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر لوگ صرف اپنی آنکھوں سے خدا کو دیکھتے ہیں؛ انہیں کبھی بھی اسے قریب سے جاننے کا موقع نہیں ملا ہے، اور ان کے پاس صرف اس کے ساتھ لگاؤ کا ایک احساس ہے۔ اُن کے دلوں میں ہمیشہ یہ احساس ہوتا ہے کہ خُدا پیارا ہے، لیکن چُونکہ خُدا اتنا "بے دل اور بے حس" ہے، کہ اُنہیں اپنے دلوں کا غم اُس کے سامنے کبھی بیان کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ وہ اپنے شوہر کے سامنے ایک خوبصورت جوان بیوی کی طرح ہیں، جسے اپنے شوہر کی دیانت کی وجہ سے اپنے حقیقی جذبات کو بیان کرنے کا کبھی موقع نہیں ملا۔ لوگ خود کو گھٹیا سمجھنے والے حقیر ہیں، اور اسی لیے، ان کی نزاکت کی وجہ سے، ان میں عزت نفس کی کمی کی وجہ سے، میری انسان سے نفرت، لاشعوری طور پر، کچھ اور شدید ہو جاتی ہے، اور میرے دل میں غصہ پھوٹ پڑتا ہے۔ میرے ذہن میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مجھے کوئی جذباتی صدمہ پہنچا ہو۔ طویل عرصے سے میں انسان کی طرف سے مایوس ہو چکا ہوں، لیکن چونکہ "ایک مرتبہ پھر، میرا دن تمام انسانیت سے جلد عمل کرنے کا تقاضا کرنے کے لیے قریب آ جاتا ہے، ایک مرتبہ پھر نسل انسانی کو عمل کرنے پر ابھارتا ہے اور انسانیت کو ایک اور نیا آغاز دیتا ہے۔" میں ایک مرتبہ پھر ہمت باندھتا ہوں تاکہ پوری انسانیت کو فتح کروں اور عظیم سرخ اژدہے کو پکڑوں اور شکست دوں۔ خدا کا اصل ارادہ اس طرح تھا: چین میں عظیم سرخ اژدہے کے انڈوں اور بچوں کو فتح کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرنا؛ صرف یہی عظیم سرخ اژدہے کی شکست، عظیم سرخ اژدہے پر فتح سمجھی جا سکتی ہے۔ صرف یہی اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہوگا کہ پوری زمین پر خدا بادشاہ کے طور پر حکومت کرتا ہے، یہ خدا کی عظیم مہم کی تکمیل کو ثابت کرنے کے لیے ہے کہ خدا نے زمین پر ایک نیا آغاز کیا ہے اور زمین پر جاہ و جلال حاصل کیا ہے۔ آخری، خوبصورت منظر کی وجہ سے، خدا اپنے دلی جذبات کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا ہے: "میرا دل دھڑکتا ہے اور، میرے دل کی دھڑکن کے ترنم کے مطابق، پہاڑ خوشی سے اچھلتے ہیں، پانی خوشی سے ناچتا ہے، اور لہریں پتھریلی چٹانوں سے ٹکراتی ہیں۔ یہ بیان کرنا مشکل ہے کہ میرے دل میں کیا ہے۔" اس سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ خدا نے جو منصوبہ بنایا تھا، وہ اسے پہلے ہی پورا کر چکا ہے؛ یہ خدا کی طرف سے پہلے سے متعین کر دیا گیا تھا، اور یہ بالکل وہی ہے جس کا خدا لوگوں کو عملی تجربہ کرنے اور جس کو دیکھنے دیتا ہے۔ بادشاہی کا امکان خوبصورت ہے؛ بادشاہی کا بادشاہ فاتح ہے، جس میں سر سے لے کر پاؤں تک کبھی بھی گوشت یا خون کا ایک نشان بھی نہیں رہا، اور جو مکمل طور پر الوہی عناصر پر مشتمل ہے۔ اس کا پورا جسم مقدس جاہ وجلال سے چمکتا ہے، اور انسانی خیالات سے بالکل بے داغ ہے؛ اس کا پورا جسم، اوپر سے نیچے تک، راستبازی اور جنت کی خوشبو سے لبریز ہے، اور ایک مسحور کن خوشبو پھیلا رہا ہے۔ گیتوں کے گیت والے محبوب کی طرح، وہ تمام برگزیدہ بندوں سے بھی زیادہ خوبصورت ہے، قدیم برگزیدہ بندوں سے بلند ہے؛ وہ تمام لوگوں کے لیے نمونہ ہے، اور انسان کے لیے بے نظیر ہے؛ لوگ اس قابل نہیں ہیں کہ اسے براہ راست دیکھ سکیں۔ کوئی بھی خدا کے پُر جلال چہرے، خدا کی ظاہری صورت یا خدا کی شبیہ کو حاصل نہیں کر سکتا ہے۔ نہ کوئی ان کا مقابلہ کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی اپنے منہ سے اس کی تعریف آسانی سے کر سکتا ہے۔

خُدا کے کلام کی کوئی انتہا نہیں ہے – جیسے ایک چشمے سے بہتا ہوا پانی، جو کبھی خشک نہیں ہوتا ہے، اور اس طرح کوئی بھی خدا کے انتظامی منصوبے کے اسرار کو نہیں سمجھ سکتا ہے۔ پھر بھی خدا کے نزدیک ایسے اسرار لامتناہی ہیں۔ خدا نے کئی بار مختلف ذرائع اور زبان کا استعمال کرتے ہوئے، اپنی تجدید اور تمام کائنات کی مکمل تبدیلی کی بات کی ہے، ہر بار پہلے سے زیادہ گہرائی میں: "میں اپنی نظروں کے نیچے تمام ناپاک چیزوں کو جلا کر راکھ کر دینا چاہتا ہوں؛ میں نافرمانی کے تمام بیٹوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے سے غائب کر دینا چاہتا ہوں، مزید کبھی بھی موجود نہ رہنے کے لیے۔" خدا ایسی باتیں بار بار کیوں کہتا ہے؟ کیا اسے یہ خوف نہیں ہے کہ لوگ ان سے اکتا جائیں گے؟ لوگ محض خدا کے کلام کے درمیان اندھوں کی طرح ٹٹولتے ہیں، اور اس طرح خدا کو جاننا چاہتے ہیں، لیکن وہ اپنے آپ کو جانچنا کبھی بھی یاد نہیں رکھتے۔ اس لیے خدا ان کو یاد دلانے کے لیے یہ طریقہ استعمال کرتا ہے، تاکہ وہ سب اپنے آپ کو پہچان لیں، تاکہ وہ انسان کی نافرمانی کو خود سے جان لیں، اور اس طرح خدا کے سامنے اپنی نافرمانی کو ختم کر دیں۔ یہ پڑھ کر کہ خُدا "چھانٹنا" چاہتا ہے، لوگ ذہنی طور پر ایک دم بے چین ہو جاتے ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ اُن کے پٹھوں نے بھی حرکت کرنا بند کر دی ہے۔ وہ اپنے آپ پر تنقید کرنے کے لیے فوراً خُدا کے سامنے واپس آتے ہیں، اور یوں خُدا کو پہچان لیتے ہیں۔ اس کے بعد – جب وہ اپنا ذہن بنا لیتے ہیں – خُدا اس موقعے کو اُنہیں عظیم سرخ اژدھے کا مادّہ دکھانے کے لیے استعمال کرتا ہے؛ اس طرح، لوگ روحانی دنیا سے براہ راست منسلک ہو جاتے ہیں، اور، ان کے پختہ ارادے نے جو کردار ادا کیا ہوتا ہے، ان کے دماغ بھی وہ کردار ادا کرنے لگتے ہیں، جو انسان اور خُدا کے درمیان جذباتی تعلق کو بڑھا دیتا ہے – جو خُدا کے جسم میں کام کے لیے زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔ اس طرح، لوگ لاشعوری طور پر گزشتہ زمانوں پر نظر ڈالنے کا رجحان رکھتے ہیں: ماضی میں، برسوں تک لوگ ایک مبہم خدا پر یقین رکھتے تھے۔ برسوں تک، وہ اپنے دلوں میں کبھی آزاد نہیں ہوئے تھے، بہت زیادہ لطف اندوز ہونے کے قابل نہیں تھے، اور، اگرچہ وہ خدا پر ایمان رکھتے تھے مگران کی زندگیوں میں کوئی ترتیب نہیں تھی۔ یہ ایسے ہی لگتا تھا جیسے کہ ایمان لانے سے پہلے لگتا تھا – ان کی زندگیاں اب بھی خالی اور مایوس کن محسوس ہوتی تھیں، اور اس وقت ان کا عقیدہ ایک قسم کی الجھن کی کیفیت طرح لگتا تھا اور کفر کی حالت سے بہتر نہیں تھا۔ چونکہ انہوں نے خود آج کے عملی خدا کو دیکھا ہے، یہ ایسا ہے جیسے آسمان اور زمین کی تجدید ہو گئی ہے؛ ان کی زندگیاں تابناک ہو گئی ہیں، وہ مزید مایوس نہیں ہیں، اور، عملی خدا کی آمد کی وجہ سے، وہ خود کو اپنے دلوں میں استقامت اور اپنی روحوں میں سکون محسوس کرتے ہیں۔ اب وہ اپنے ہر کام میں ہوا کا تعاقب نہیں کرتے ہیں اور سایوں کو نہیں پکڑتے ہیں۔ اب ان کی جستجو بے مقصد نہیں ہے، اور نہ ہی وہ اب مزید بے مقصد حرکات کرتے ہیں۔ آج کی زندگی اور بھی زیادہ خوبصورت ہے، اور لوگ غیر متوقع طور پر بادشاہی میں داخل ہو گئے ہیں اور خدا کے بندے بن گئے ہیں، اور بعد میں…. لوگ اپنے دلوں میں اس کے بارے میں جتنا زیادہ سوچیں گے، مٹھاس اتنی ہی زیادہ بڑھے گی۔ وہ اس کے بارے میں جتنا زیادہ سوچتے ہیں، اتنے ہی زیادہ خوش ہوتے ہیں، اور انھیں خُدا سے محبت کرنے کی تحریک اتنی ہی زیادہ ملتی ہے۔ اس طرح، ان کو محسوس ہوئے بغیر، خدا اور انسان کے درمیان دوستی بڑھ جاتی ہے۔ لوگ خدا سے زیادہ محبت کرتے ہیں، اور خدا کو زیادہ جانتے ہیں، اور خدا کا انسان میں کام تیزی سے آسان ہو جاتا ہے، اور یہ لوگوں پر مزید زبردستی نہیں کرتا اور انھیں مزید مجبور نہیں کرتا ہے، بلکہ فطرت کے مطابق چلتا ہے، اور انسان خود اپنا، منفرد کام انجام دیتا ہے – صرف اسی طریقے سے لوگ آہستہ آہستہ خدا کو جاننے کے قابل ہوتے ہیں۔ خدا کی صرف یہی حکمت ہے – اس میں معمولی سی کوشش کی بھی ضرورت نہیں ہے، اور اسے انسان کی فطرت کے مطابق استعمال کیا جاتا ہے۔ پس، خدا کہتا ہے، "انسانی دنیا میں میری تجسیم کے دوران، بنی نوع انسان، آج تک انجانے میں میری راہنمائی میں آیا ہے اور انجانے میں مجھے پہچانا ہے۔ لیکن، جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جو راستہ آگے ہے، اس پر کیسے چلنا ہے، اس کا کسی کو بھی اندازہ نہیں ہے اور کسی کو بھی خبر نہیں ہے- اور کم ہی کسی کو یہ علم ہے کہ وہ راستہ اسے کس سمت میں لے کر جائے گا۔ صرف قادرِمطلق کے ان پر نظر رکھنے سے ہی کوئی اس راستے پر آخر تک چل سکے گا؛ صرف مشرق میں آسمانی بجلی کی راہنمائی سے ہی کوئی اس دہلیز کو پار کر سکے گا جو میری بادشاہی کی طرف لے کر جاتی ہے۔" کیا یہ بالکل اس کا خلاصہ نہیں ہے جو انسان کے دل میں ہے اور جسے میں نے اوپر بیان کیا ہے؟ یہاں خدا کے کلام کا راز پوشیدہ ہے۔ انسان اپنے دل میں جو کچھ سوچتا ہے خدا اپنے منہ سے بالکل وہی کہتا ہے اور جو وہ اپنے منہ سے کہتا ہے بالکل وہی ہوتا ہے جس کے لیے انسان شدید آرزو رکھتا ہے۔ یہ عین وہی ہے جہاں انسان کے دل کو بے نقاب کرنے میں خدا سب سے زیادہ ماہر ہے؛ اگر نہیں، تو سب کیسے خلوص کے ساتھ قائل ہو سکتے ہیں؟ کیا یہ وہی اثر نہیں ہے جو خدا عظیم سرخ اژدہے کو فتح کر کے حاصل کرنا چاہتا ہے؟

درحقیقت، بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن کے سطحی معانی کی طرف اشارہ کرنا خدا کی نیت نہیں ہے۔ اپنے بہت سے الفاظ میں، خُدا کی نیت جان بوجھ کر محض لوگوں کے خیالات کو بدلنا اور ان کی توجہ کو ہٹانا ہے۔ خدا ان الفاظ کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ہے اور اس طرح بہت سے الفاظ تشریح کے لائق نہیں ہیں۔ جب انسان خدا کے کلام سے اس حد تک مغلوب ہو جاتا ہے جس حد تک وہ آج تک رہا ہے، تو لوگوں کی طاقت ایک خاص مقام پر پہنچ جاتی ہے، اس لیے خدا بعد میں تنبیہ کے مزید الفاظ کہتا ہے - وہ آئین جو وہ خدا کے بندوں کے لیے جاری کرتا ہے: "اگرچہ زمین کو آباد کرنے والے انسانوں کی تعداد ستاروں کی طرح بے شمار ہے لیکن میں ان سب کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح صاف طور پر جانتا ہوں۔ اور، اگرچہ وہ انسان جو مجھ سے 'محبت' کرتے ہیں وہ سمندر کی ریت کے ذروں کی طرح بے شمار ہیں، لیکن میں نے صرف چند ایک کو ہی منتخب کیا ہے: صرف ان کو جو چمکدار روشنی کا تعاقب کرتے ہیں، جو مجھ سے 'محبت' کرنے والوں سے الگ ہیں۔" درحقیقت، بہت سے ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ خدا سے محبت کرتے ہیں، لیکن بہت کم ہیں جو اپنے دلوں میں اس سے محبت کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بند آنکھوں سے بھی اس کو واضح طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ خدا پر ایمان رکھنے والوں کی پوری دنیا ہی دراصل ایسی ہے۔ اس میں، ہم دیکھتے ہیں کہ خُدا نے اب "لوگوں کو چھانٹنے" کے کام کی طرف رخ کر لیا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خُدا کیا چاہتا ہے، اور خُدا جس سے مطمئن ہوتا ہے وہ آج کی کلیسیا نہیں ہے، بلکہ چھانٹی ہونے کے بعد کی بادشاہی ہے۔ اس وقت، وہ تمام "خطرناک سامان" کو مزید تنبیہ کرتا ہے: جب تک خدا عمل نہیں کرتا ہے، جیسے ہی خدا عمل کرنا شروع کرتا ہے، ان لوگوں کو بادشاہی سے مٹا دیا جائے گا۔ خُدا کبھی بھی کاموں کو سرسری انداز میں نہیں کرتا۔ وہ ہمیشہ اس اصول کے مطابق کام کرتا ہے کہ "ایک، ایک ہوتا ہے، اور دو، دو ہوتے ہیں،" اور اگر ایسے لوگ ہیں جن پر وہ نظر نہیں ڈالنا چاہتا ہے، تو وہ انھیں مستقبل میں پریشانی پیدا کرنے سے روکنے کے لیے مٹانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ اس کو "کچرے کو باہر نکالنا اور اچھی طرح صفائی کرنا" کہتے ہیں۔ عین اس لمحے جب خدا انسان کے لیے انتظامی احکامات کا اعلان کرتا ہے اور جب وہ اپنے معجزاتی اعمال اور اپنے اندر موجود تمام چیزوں کو پیش کرتا ہے، اور اس طرح وہ بعد میں کہتا ہے: "پہاڑوں میں بے شمار جنگلی درندے ہیں، لیکن میرے سامنے وہ سب بھیڑوں کی مانند سدھائے ہوئے ہیں؛ ناقابل فہم اسرار لہروں کے نیچے پڑے ہوئے ہیں، لیکن وہ اپنے آپ کو میرے سامنے ایسے واضح طور پر پیش کرتے ہیں جیسے زمین کے اوپر کی تمام چیزیں؛ اوپر آسمانوں میں ایسے عالم ہیں جن تک انسان کبھی نہیں پہنچ سکتا ہے، پھر بھی میں ان ناقابل رسائی عالمین میں آزادانہ طور پر گھومتا ہوں۔" خدا کا مطلب یہ ہے: اگرچہ انسان کا دل سب چیزوں سے زیادہ حیلہ باز ہے، اور لوگوں کے تصورات کے جہنم کی طرح لامتناہی طور پر پراسرار نظر آتا ہے، خدا انسان کی اصل حالتوں کو اپنے ہاتھ کی پشت کی طرح جانتا ہے۔ تمام چیزوں میں، انسان ایک وحشی درندے سے بھی زیادہ وحشی اور سفاک جانور ہے، پھر بھی خدا نے انسان کو اس حد تک فتح کر لیا ہے کہ کوئی بھی کھڑا ہونے اور مزاحمت کرنے کی ہمت نہیں رکھتا ہے۔ درحقیقت، جیسا کہ خدا کا ارادہ ہے، لوگ اپنے دلوں میں جو سوچتے ہیں وہ تمام چیزوں سے زیادہ پیچیدہ ہے؛ یہ ناقابل فہم ہے، اس کے باوجود خدا کو انسان کے دل کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ وہ اسے اپنی آنکھوں کے سامنے محض ایک چھوٹے سے کیڑے کی حیثیت دیتا ہے۔ اپنے منہ کے ایک لفظ سے، وہ اسے فتح کر لیتا ہے؛ وہ جس وقت بھی چاہتا ہے، اسے مار ڈالتا ہے؛ اپنے ہاتھ کی ہلکی سی حرکت سے، وہ اسے سزا دیتا ہے؛ اپنی مرضی سے، وہ اسے ملامت کرتا ہے۔

آج، تمام لوگ اندھیرے میں موجود ہیں، لیکن، خدا کی آمد کی وجہ سے، وہ خدا کو دیکھ کر روشنی کے جوہر کو آخرکار جان گئے ہیں. پوری دنیا میں ایسا ہے جیسے زمین پر ایک بڑا سیاہ برتن اُلٹا کر دیا گیا ہو، اور کوئی بھی سانس نہیں لے سکتا ہو؛ وہ سب صورتحال کو واپس پلٹانا چاہتے ہیں، اس کے باوجود کسی نے بھی برتن کو نہیں اٹھایا ہے۔ صرف مجسم خدا کی وجہ سے لوگوں کی آنکھیں اچانک کھل گئی ہیں، اور انہوں نے عملی خدا کو دیکھ لیا ہے۔ اسی لیے خدا ان سے سوالیہ لہجے میں پوچھتا ہے: "انسان نے مجھے کبھی روشنی میں نہیں پہچانا ہے بلکہ مجھے صرف تاریکی کی دنیا میں ہی دیکھا ہے۔ کیا آج تم بالکل ایسی ہی حالت میں نہیں ہو؟ یہ عظیم سرخ اژدہے کے ہنگاموں کے عروج کے وقت تھا کہ میں نے اپنا کام کرنے کے لیے رسمی طور پر جسم کو اختیار کیا۔" خدا روحانی دنیا کے حقیقی حالات کو نہیں چھپاتا اور نہ ہی وہ انسان کے دل کی اصلی حالت کو چھپاتا ہے اور اس طرح وہ لوگوں کو بار بار یاد دلاتا ہے: "میں نہ صرف اپنے لوگوں کو مجسم خدا کو جاننے کے قابل بنا رہا ہوں بلکہ ان کو گناہوں سے پاک بھی کر رہا ہوں۔ میرے انتظامی احکامات کی سختی کی وجہ سے، لوگوں کی ایک بڑی اکثریت اب بھی میری طرف سے باہر نکالے جانے کے خطرے میں ہے۔ جب تک تم اپنے آپ سے نمٹنے کے لیے، خود اپنے جسم کو تابع کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش نہیں کرو گے - اگر تم ایسا نہیں کرتے تو تم یقینی طور پر ایک ایسی چیز بن جاﺆ گے جس سے میں شدید نفرت کرتا ہوں اور جسے میں مسترد کرتا ہوں، تمہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا، بالکل اسی طرح جیسے پولس کو براہ راست میرے ہاتھوں سے سزا ملی، جس سے فرار ممکن نہیں تھا۔" جب خدا اور بہت کچھ کہتا ہے، تو صرف تب ہی لوگ اپنے قدموں کی زیادہ حفاظت کرتے ہیں اور خدا کے انتظامی احکام سے زیادہ خوفزدہ ہوتے ہیں؛ صرف اس وقت ہی خدا کے اختیار کو استعمال کیا جا سکتا ہے اور اس کے جلال کو واضح کیا جاسکتا ہے۔ یہاں، ایک مرتبہ پھر پولس کا ذکر کیا گیا ہے، تاکہ لوگ خدا کی مرضی کو سمجھ سکیں: انہیں لازماً ایسے لوگ نہیں بننا چاہیے جنہیں خدا کی طرف سے سزا دی گئی ہے، بلکہ ایسے لوگ بننا چاہیے جو خدا کی مرضی کو ذہن میں رکھتے ہیں۔ صرف اس وجہ سے ہی لوگ، اپنے خوف کی حالت میں، خدا کو راضی کرنے کے لیے اس کے سامنے اپنے ماضی کے عزم کی ناکامی پر نظر ڈال سکتے ہیں، اس سے انھیں اور بھی زیادہ پچھتاوے کا احساس ہو گا اور عملی خدا کے بارے میں زیادہ علم حاصل ہو گا۔ صرف اسی صورت میں وہ خدا کے کلام کے بارے میں کوئی شک نہیں کر سکتے۔

"انسان محض مجھے ہی میرے جسم میں نہیں جانتا ہے؛ اس سے بھی بڑھ کر ایسا ہے کہ وہ خود اپنے نفس کو بھی سمجھنے میں ناکام رہا ہے جو کہ ایک جسمانی جسم میں رہتا ہے۔ اتنے سالوں سے انسان مجھے دھوکا دیتے رہے ہیں، باہر سے آئے ہوئے مہمان کی طرح سلوک کرتے رہے ہیں۔ کئی مرتبہ ۔۔۔۔" یہ "کئی مرتبہ" خدا کے خلاف انسان کی مخالفت کی حقیقتوں کو درج کرتے ہیں اور لوگوں کو سزا کی اصلی مثالیں دکھاتے ہیں؛ یہ گناہ کا ثبوت ہے، اور اسے کوئی بھی دوبارہ رد نہیں کر سکتا ہے۔ سب لوگ خدا کو روزمرہ کی چیز کی طرح استعمال کرتے ہیں، جیسے کہ وہ کوئی گھریلو ضرورت کی چیز ہے جسے وہ اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرسکتے ہیں۔ کوئی بھی خدا کو عزیز نہیں رکھتا ہے؛ کسی نے خدا کے حسن یا اس کے پُرجلال چہرے کو جاننے کی کوشش ہی نہیں کی، اور کسی کے خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا ارادہ تو اور بھی بہت دور کی بات ہے۔ اور نہ ہی کبھی کسی نے خدا کو اپنے دل میں کسی محبوب چیز کی حیثیت سے دیکھا ہے۔ جب انہیں اس کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ سب اسے گھسیٹ کر باہر لے آتے ہیں، اور جب ضرورت نہیں ہوتی ہے تو اسے ایک طرف پھینک دیتے ہیں اور اسے نظر انداز کرتے ہیں۔ گویا خدا انسان کے لیے ایک کٹھ پتلی ہے جسے انسان اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر سکتا ہے اور جس طرح چاہے یا جس طرح خواہش کرے اس سے مطالبات کر سکتا ہے۔ لیکن خدا کہتا ہے، "اگر میری تجسیم کے زمانے میں مجھے انسان کی کمزوری سے ہمدردی نہ ہوتی تو ساری انسانیت صرف اور صرف میری تجسیم کی وجہ سے انتہائی خوفزدہ ہو جاتی اور اس کے نتیجے میں پاتال میں گر جاتی،" جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ مجسم خدا کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔ وہ تمام بنی نوع انسان کو روحانی عالم سے تباہ و برباد کرنے کی بجائے جسم بن کر بنی نوع انسان کو فتح کرنے آیا ہے۔ اس طرح، جب کلام جسم بن گیا تو کسی کو بھی علم نہیں تھا۔ اگر خدا کو انسان کی کمزوری کی کوئی پرواہ نہ ہوتی، تو جب وہ جسم بنا تھا اگر اس وقت آسمان اور زمین الٹ جاتے تو تمام انسان فنا ہو جاتے۔ کیونکہ یہ لوگوں کی فطرت میں ہے کہ وہ نئے کو پسند کرتے ہیں اور پرانے سے نفرت کرتے ہیں، اور جب حالات ٹھیک چل رہے ہوتے ہیں تو وہ اکثر برے وقت کو بھول جاتے ہیں، اور ان میں سے کسی کو بھی یہ علم نہیں ہے کہ وہ کتنا بابرکت ہے، خدا انہیں بار بار یاد دلاتا ہے کہ انہیں اس بات کی بہت قدر کرنی چاہیے کہ آج کو کتنی مشکل سے جیتا گیا ہے؛ کل کی خاطر، انہیں آج کی قدر لازماً اور بھی زیادہ کرنی چاہیے، اور ایک جانور کی طرح، مالک کو پہچانے بغیر اونچی جگہ پر بالکل نہیں چڑھنا چاہیے، اور ان نعمتوں سے بے خبر نہیں ہونا چاہیے جن میں وہ رہتے ہیں۔ اس طریقے سے، لوگ مہذب ہو جاتے ہیں، مزیدشیخیاں نہیں بگھارتے یا تکبر نہیں کرتے، اور انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ ایسا معاملہ نہیں ہے کہ انسان کی فطرت اچھی ہے، بلکہ ایسا ہے کہ انسان کو خدا کی رحمت مل گئی ہے؛ وہ سب سزا سے ڈرتے ہیں، اور اس لیے مزید کچھ کرنے کی ہمت نہیں کرتے۔

زیریں حاشیہ:

ا۔ "دریائے چو" سے مراد علامتی طور پر مخالف طاقتوں کے درمیان سرحد ہے۔

سابقہ: باب 11

اگلا: باب 13

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp