باب 11
انسان کی ننگی آنکھ کو، اس مدت کے دوران خدا کے کلمات میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی، جس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ ان قوانین کو سمجھنے سے قاصر ہیں جن کے ذریعے خدا بات کرتا ہے، اور اس کے کلام کے سیاق و سباق کو نہیں سمجھتے۔ خدا کے کلام کو پڑھنے کے بعد لوگ یقین نہیں کرتے کہ اس کلام میں کوئی نئے اسرار ہیں؛ چنانچہ، وہ غیر معمولی طور پر تازہ زندگیاں گزارنے کے قابل نہیں ہیں، اور اس کی بجائے وہ ایسی زندگیاں گزارتے ہیں جو جامد اور بے جان ہوتی ہیں۔ لیکن خُدا کے کلام میں، ہم دیکھتے ہیں کہ معنی کی ایک زیادہ گہری سطح ہے، جو انسان کے لیے ناقابلِ فہم اور ناقابلِ رسائی، دونوں ہے۔ آج انسان کے خوش قسمت ہونے کے لیے خدا کے ایسے کلمات پڑھنا تمام نعمتوں سے بڑی نعمت ہے۔ اگر کوئی اس کلام کو نہ پڑھے تو انسان ہمیشہ مغرور، خود راستباز، اپنے آپ سے ناواقف اور اس سے بے خبر ہی رہے گا کہ اس میں کتنی ناکامیاں ہیں۔ خدا کے گہرے، ناقابلِ ادراک کلام کو پڑھنے کے بعد، لوگ خفیہ طور پر اس کی تعریف کرتے ہیں، اور ان کے دلوں میں، جھوٹ سے پاک سچا یقین ہوتا ہے؛ ان کے دل اصلی شے بن جاتے ہیں، نقلی سامان نہیں۔ یہ وہی ہے جو واقعی لوگوں کے دلوں میں ہوتا ہے۔ ہر ایک کے دل میں اپنی اپنی کہانی ہے۔ گویا وہ خود اپنے آپ سے کہہ رہے ہیں: ”زیادہ تر اس طرح کا کلام خدا نے خود کہا تھا – اگر خدا نہیں، تو پھر اور کون ایسا کلام کہہ سکتا ہے؟ میں اسے کیوں نہیں کہہ سکتا؟ میں ایسا کام کرنے سے کیوں قاصر ہوں؟ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مجسم خدا جس کے بارے میں خدا کہتا ہے وہ حقیقت میں اصلی ہے، اور خود خدا ہے! میں مزید شک نہیں کروں گا۔ ورنہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب خدا کا ہاتھ پہنچے گا تو پچھتاوے کے لیے بہت دیر ہو چکی ہو گی! ۔۔۔“ اکثر لوگ اپنے دلوں میں یہی سوچتے ہیں۔ یہ کہنا مناسب ہے کہ جب سے خدا نے بولنا شروع کیا تب سے آج تک، تمام لوگ خدا کے کلام کی مدد کے بغیر دور گر چکے ہوتے۔ یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ یہ سب کام خدا خود کرتا ہے، انسان نہیں؟ کلیسیا کی زندگی کو سہارا دینے کے لیے اگرخدا کلام استعمال نہ کرتا تو ہر کوئی کسی سراغ کے بغیر غائب ہو جاتا۔ کیا یہ خدا کی قدرت نہیں ہے؟ کیا یہ واقعی انسان کی فصاحت ہے؟ کیا یہ اکیلے انسان کی صلاحیتیں ہیں؟ بالکل نہیں! کسی کو یہ معلوم نہیں ہو گا کہ اس کی رگوں میں خون کی کون سی قسم دوڑتی ہے، وہ اس بات سے بے خبر ہوں گے کہ اس کے کتنے دل ہیں، کتنے دماغ ہیں، اور وہ سب سوچیں گے کہ وہ خدا کو جانتے ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ ان کے علم میں اب بھی مخالفت موجود ہے؟ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ خدا کہتا ہے، ”بنی نوع انسان کے ہر فرد کو میری روح کی طرف سے جانچ پڑتال قبول کرنی چاہیے، اپنے ہر قول و فعل کا باریک بینی سے جائزہ لینا چاہیے، اور اس کے علاوہ، میرے حیرت انگیز کاموں کو دیکھنا چاہیے۔“ اس سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ خدا کا کلام بے مقصد اور بے بنیاد نہیں ہے۔ خدا نے کبھی بھی کسی انسان کے ساتھ ناانصافی کا سلوک نہیں کیا؛ یہاں تک کہ ایوب، اپنے پورے ایمان کے ساتھ، چھوڑا نہیں گیا تھا – اس کا بھی بغور معائنہ کیا گیا تھا، اور اس کی شرمندگی کو چھپانے کے لیے کوئی جگہ نہیں بچی تھی۔ اور اس کا مطلب ہے کہ آج کے لوگوں کے بارے میں کچھ نہیں کہنا۔ چنانچہ، خدا پھر فوراً پوچھتا ہے: ”تم زمین پر بادشاہی کی آمد کے وقت کیسا محسوس کرتے ہو؟“ خدا کے سوال میں اہمیت کم ہے، لیکن یہ لوگوں کو پریشان چھوڑ دیتا ہے: ”ہم کیا محسوس کرتے ہیں؟ ہمیں ابھی تک یہ علم نہیں ہے کہ بادشاہی کب آئے گی، تو ہم جذبات کی بات کیسے کر سکتے ہیں؟ مزید یہ کہ ہمارے پاس کوئی سراغ نہیں ہے۔ اگر مجھے کچھ محسوس کرنا پڑا، تو یہ ’حیران کن‘ ہوگا، اور کچھ نہیں“۔ درحقیقت یہ سوال خدا کے کلام کا مقصد نہیں ہے۔ سب سے بڑھ کر، یہ ایک جملہ – ”جب میرے بیٹے اور لوگوں کے ریلے میرے تخت کی طرف آتے ہیں تو میں رسمی طور پر عظیم سفید تخت کے سامنے عدالت کا آغاز کرتا ہوں“ – پوری روحانی دنیا کی ترقی کا خلاصہ کرتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس دوران خدا روحانی دنیا میں کیا کرنا چاہتا ہے اور خدا کے اس کلام کے کہنے کے بعد ہی لوگوں میں ہلکی سی بیداری آتی ہے۔ چونکہ خدا کے کام میں مختلف مراحل ہوتے ہیں، اس لیے پوری کائنات میں خدا کا کام بھی مختلف ہوتا ہے۔ اس وقت کے دوران، خدا بنیادی طور پر خدا کے بیٹوں اور لوگوں کو بچاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ فرشتوں کی طرف سے نگہبانی کی جاتی ہے، خدا کے بیٹے اور لوگ اپنے ساتھ نمٹے جانے اور شکست کو قبول کرنا شروع کر دیتے ہیں، وہ باضابطہ طور پر اپنے خیالات اور تصورات کو دور کرنا اور اس دنیا کے کسی بھی سراغ کو الوداع کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، ”عظیم سفید تخت کے سامنے عدالت“ جس کے بارے میں خدا کی طرف سے کہا گیا ہے، باضابطہ طور پر شروع ہو جاتی ہے۔ کیونکہ یہ خُدا کی عدالت ہے، اس لیے خُدا کو اپنی بات ضرور کہنی چاہیے – اور اگرچہ مواد مختلف ہوتا ہے لیکن مقصد ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے۔ آج خدا جس لہجے میں بات کرتا ہے اس سے اندازہ لگاتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ اس کے کلام کا رخ لوگوں کے ایک مخصوص گروہ کی طرف ہے۔ درحقیقت، سب سے بڑھ کر، یہ الفاظ تمام بنی نوع انسان کی فطرت کو مخاطب کرتے ہیں۔ وہ براہ راست انسان کی ریڑھ کی ہڈی کو کاٹتے ہیں، وہ انسان کے جذبات کو نہیں بخشتے، اور وہ اس کے تمام مادّے کو ظاہر کرتے ہیں، کچھ بھی نہیں چھوڑتے، کسی چیز کو گزرنے نہیں دیتے۔ آج سے آغاز کرتے ہوئے، خُدا باضابطہ طور پر انسان کے حقیقی چہرے کو ظاہر کرتا ہے، اور اس طرح ”اپنی روح کی آواز کو پوری کائنات کے لیے جاری کرتا ہوں۔“ بالآخر جو اثرحاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے: ”اپنے کلام کے ذریعے، میں آسمان اور زمین پر موجود تمام لوگوں اور چیزوں کو دھو کر صاف کر دوں گا، تاکہ زمین اب گندی اور عیاش نہ رہے بلکہ ایک مقدس بادشاہی ہو۔“ یہ الفاظ بادشاہی کے مستقبل کو پیش کرتے ہیں، جو کہ مکمل طور پر مسیح کی بادشاہی ہے، جیسا کہ خدا نے کہا، ”سب اچھا پھل ہے، سب محنتی کسان ہیں۔“ قدرتی طور پر، یہ پوری کائنات میں واقع ہو گا، اور یہ صرف چین تک محدود نہیں ہو گا۔
یہ تب ہی ہوتا ہے جب خدا بولنا اور عمل کرنا شروع کرتا ہے کہ لوگوں کو اپنے تصورات میں اس کے بارے میں تھوڑا سا علم ہوتا ہے۔ ابتدا میں، یہ علم صرف ان کے تصورات میں موجود ہوتا ہے، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا ہے تو لوگوں کے خیالات تیزی سے بے کار اور انسانی استعمال کے لیے غیرموزوں ہو جاتے ہیں؛ چنانچہ، وہ ان سب باتوں پر یقین کرنے لگتے ہیں جو خدا کہتا ہے، اس حد تک کہ وہ ”اپنے شعور میں عملی خدا کے لیے جگہ پیدا کر لیتا ہے۔“ یہ صرف ان کے شعور میں ہے کہ لوگ عملی خدا کے لیے ایک جگہ رکھتے ہیں۔ تاہم، حقیقت میں، وہ خدا کو نہیں جانتے، اور کھوکھلے الفاظ کے سوا کچھ نہیں بولتے۔ اس کے باوجود ماضی کے مقابلے میں، انہوں نے زبردست ترقی کی ہے، حالانکہ خود عملی خدا کی ذات سے اب بھی بہت مختلف ہے۔ خُدا ہمیشہ کیوں کہتا ہے، ”ہر روز میں لوگوں کے نہ رکنے والے بہاؤ کے درمیان چلتا ہوں، اور ہر روز میں ہر شخص کے اندر کام کرتا ہوں“؟ خدا ایسا کلام جتنا زیادہ کہتا ہے، اتنا ہی زیادہ لوگ اس کا موازنہ آج کے خود عملی خدا کے اعمال سے کر سکتے ہیں، اور اس طرح وہ عملی خدا کو حقیقت میں بہتر طور پر جان سکتے ہیں۔ چونکہ خدا کا کلام جسم کے نقطہ نظر سے کہا جاتا ہے اور بنی نوع انسان کی زبان کا استعمال کرتے ہوئے کہا جاتا ہے، اس لیے لوگ خدا کے کلام کو مادّی چیزوں کے مقابلے میں ناپ کر ان کی تعریف کرنے کے قابل ہوتے ہیں، اور اس طرح زیادہ اثر حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، خدا بار بار لوگوں کے دلوں میں ”میں“ اور حقیقت میں ”میں“ کی شبیہ کے بارے میں بات کرتا ہے، جو لوگوں کو اپنے دلوں میں خدا کی شبیہ کو ہٹانے کے لیے زیادہ آمادہ کرتا ہے، اور اس طرح عملی خدا کو جاننے اور اس کے ساتھ مشغول ہونے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ یہ خدا کے کلام کی حکمت ہے۔ خدا جتنی زیادہ ایسی باتیں کہتا ہے، لوگوں کے خدا کے علم میں اتنا ہی زیادہ فائدہ ہوتا ہے، اور اس طرح خدا کہتا ہے: ”اگر میں جسم نہ بنتا تو انسان مجھے کبھی نہ پہچان سکتا اور اگر مجھے جان بھی لیتا تو کیا ایسا علم پھر بھی ایک تصور نہیں ہوتا؟“ بے شک، اگر لوگوں کو خود اپنے تصورات کے مطابق خدا کو جاننے کی ضرورت ہوتی تو یہ ان کے لیے آسان ہوتا؛ وہ آرام دہ اور خوش ہوں گے، اور اس طرح خدا ہمیشہ کے لیے مبہم رہے گا اور لوگوں کے دلوں میں عملی نہیں ہو گا، جو یہ ثابت کرے کہ شیطان، نہ کہ خدا، پوری کائنات پر تسلط رکھتا ہے؛ اس طرح، خدا کا کلام کہ ”میں نے اپنی طاقت واپس لے لی ہے“ ہمیشہ کے لیے کھوکھلا رہے گا۔
جب الوہیت براہ راست کام کرنا شروع کر دیتی ہے تو یہی وہ وقت ہوتا ہے جب بادشاہی باضابطہ طور پر انسان کی دنیا میں نازل ہوتی ہے۔ لیکن یہاں جو کہا گیا ہے وہ یہ ہے کہ بادشاہی انسان کے درمیان اترتی ہے، یہ نہیں کہ بادشاہی انسانوں کے درمیان تشکیل پاتی ہے – اور اس طرح جو آج کہا جاتا ہے وہ بادشاہی کی تعمیر ہے، نہ کہ یہ کیسے تشکیل ہوتی ہے۔ خُدا ہمیشہ کیوں کہتا ہے، ”سب چیزیں خاموش ہو جاتی ہیں“؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ تمام چیزیں رک جائیں اور ساکت کھڑی ہو جائیں؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ عظیم پہاڑ واقعی خاموش ہو جائیں؟ تو لوگوں کو اس کا احساس کیوں نہیں ہے؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ خدا کا کلام غلط ہو؟ یا کیا خدا مبالغہ آرائی کر رہا ہو؟ کیونکہ جو کچھ بھی خدا کرتا ہے وہ ایک مخصوص ماحول میں انجام دیا جاتا ہے، کوئی بھی اس سے واقف نہیں ہے اور نہ ہی اسے اپنی آنکھوں سے پہچان سکتا ہے، اور جو کچھ لوگ کر سکتے ہیں وہ بس خدا کو بولتے ہوئے سننا ہے۔ خدا جس شان کے ساتھ کام کرتا ہے اس کی وجہ سے جب خدا آتا ہے تو یہ ایسے ہوتا ہے جیسے آسمان میں اور زمین پر زبردست تبدیلی آ گئی ہے؛ اور خدا کے نزدیک ایسا لگتا ہے کہ سب اس لمحے کو دیکھ رہے ہیں۔ آج حقائق سامنے آنا باقی ہیں۔ لوگوں نے خدا کے کلام کے لغوی معنی کے کچھ حصے سے محض تھوڑا سا سیکھا ہے۔ حقیقی مطلب اس وقت کا انتظار کر رہا ہے جب وہ اپنے آپ کو اپنے تصورات سے پاک کر لیں گے؛ صرف تب ہی وہ اس بات سے آگاہ ہوں گے کہ مجسم خدا آج زمین پر اور آسمان میں کیا کر رہا ہے۔ چین میں خدا کے لوگوں میں عظیم سرخ اژدہے کا صرف زہر ہی نہیں ہے۔ اسی لیے، عظیم سرخ اژدہے کی فطرت ان میں زیادہ کثرت سے، اور زیادہ واضح طور پر ظاہر ہوئی ہے۔ لیکن خدا اس کے بارے میں براہ راست بات نہیں کرتا، صرف عظیم سرخ اژدہے کے زہر کے بارے میں تھوڑا سا ذکر کرتا ہے۔ اس طرح وہ انسان کے زخموں کے نشانات کو براہ راست ظاہر نہیں کرتا جو کہ انسان کی ترقی کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے۔ عظیم سرخ اژدہے کی اولاد دوسروں کے سامنے عظیم سرخ اژدہے کی اولاد کہلانا پسند نہیں کرتی۔ گویا ”عظیم سرخ اژدہے“ کے الفاظ ان کے لیے شرمندگی کا باعث بنتے ہیں؛ ان میں سے کوئی بھی ان الفاظ کے بارے میں بات کرنے کو تیار نہیں ہے، اور چنانچہ خدا صرف یہ کہتا ہے، ”میرے کام کا یہ مرحلہ بنیادی طور پر تم پر مرکوز ہے، اور چین میں میری تجسیم کی اہمیت کا یہ ایک پہلو ہے۔“ مزید واضح طور پر، خدا بنیادی طور پر عظیم سرخ اثدہے کی اولاد کے قدیم نمائندوں کو فتح کرنے آیا ہے، جو کہ چین میں مجسم خدا کی اہمیت ہے۔
”جب میں ذاتی طور پر انسانوں کے درمیان آتا ہوں تو فرشتے اسی وقت نگہبانی کا کام شروع کر دیتے ہیں“۔ درحقیقت، یہ لفظی طور پر نہیں سمجھا گیا ہے کہ خدا کی روح صرف اس وقت انسان کی دنیا میں آتی ہے جب فرشتے تمام لوگوں کے درمیان اپنا کام شروع کرتے ہیں۔ اس کی بجائے، کام کے یہ دو ٹکڑے – الوہیت کا کام اور فرشتوں کی نگہبانی – بیک وقت انجام پاتے ہیں۔ آگے، خُدا فرشتوں کی نگہبانی کے متعلق تھوڑی سی بات کرتا ہے۔ جب وہ کہتا ہے کہ ”تمام بیٹے اور لوگ نہ صرف آزمائشیں اور نگہبانی وصول کرتے ہیں بلکہ اپنی آنکھوں سے ہر قسم کے رویا کو وقوع پذیر ہوتے ہوئے دیکھنے کے قابل بھی ہوتے ہیں،“ زیادہ تر لوگ لفظ ”رویا“ کے بارے میں بہت زیادہ تصورات رکھتے ہیں۔ لوگوں کے تخیلات میں رویا سے مراد مافوق الفطرت واقعات ہیں۔ لیکن کام کا مواد خود عملی خدا کا علم رہتا ہے۔ رویا وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے فرشتے کام کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو احساسات یا خواب دے سکتے ہیں، جس سے وہ فرشتوں کے وجود کو پہچان سکتے ہیں۔ لیکن فرشتے انسان کے لیے غیر مرئی رہتے ہیں۔ وہ طریقہ جس کے ذریعے وہ بیٹوں اور خدا کے لوگوں کے درمیان کام کرتے ہیں انھیں براہ راست آگہی دینا اور روشن کرنا ہے، جس میں ان سے نمٹنا اور شکست دینا شامل ہے۔ شاذ و نادر ہی وہ وعظ دیتے ہیں۔ قدرتی طور پر، لوگوں کے درمیان ابلاغ اس سے مستثنیٰ ہے؛ چین سے باہر کے ممالک میں یہی ہو رہا ہے۔ تمام بنی نوع انسان کے حالاتِ زندگی کا انکشاف خُدا کے کلام کے اندر موجود ہے – فطرتاً، بنیادی طور پر اس کا رخ عظیم سرخ اژدہے کی اولاد کی طرف ہے۔ تمام بنی نوع انسان کی مختلف حالتوں میں سے، خدا ان لوگوں کو منتخب کرتا ہے جو نمونے کے طور پر خدمت کرنے کے لیے نمائندہ ہوتے ہیں۔ اس طرح، خدا کا کلام لوگوں کو ننگا کر دیتا ہے، اور انھیں شرم کا علم نہیں ہے، یا شاید ان کے پاس چمکتی ہوئی روشنی سے چھپنے کا وقت نہیں ہے، اور انھیں اپنے ہی کھیل میں مات ہو جاتی ہے۔ انسان کے بہت سے انداز ان شبیہوں کی کثرت ہیں، جن کی مصوری خدا نے زمانہ قدیم سے آج تک کی ہے، اور جن کی مصوری وہ آج سے کل تک کرے گا۔ وہ صرف انسان کی بدصورتی کی مصوری کرتا ہے: کچھ اندھیرے میں روتے ہیں، بظاہر اپنی آنکھوں سے بینائی کے چلے جانے پر غمگین ہیں، کچھ ہنستے ہیں، کچھ کو بڑی لہریں جھنجھوڑتی ہیں، کچھ اونچے نیچے پہاڑی راستوں پر چلتے ہیں، کچھ وسیع بیابان میں تلاش کرتے ہیں، خوف سے لرزتے ہیں، ایک پرندے کی طرح جو صرف کمان کی تانت کی آواز سے چونک جاتا ہے، پہاڑوں میں جنگلی جانوروں کے کھا جانے کا شدید خوف۔ خدا کے ہاتھ میں، یہ بہت سے بدصورت انداز متاثر کن، جاندار تمثیلیں بن جاتی ہیں، جن میں سے زیادہ تر اتنی بھیانک ہوتی ہیں کہ دیکھی نہیں جا سکتیں، یا شاید لوگوں کے رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہوتی ہیں اور انھیں حیرت اور الجھن میں چھوڑ دیتی ہیں۔ خدا کی نظر میں، جو کچھ انسان میں ظاہر ہوتا ہے وہ بدصورتی کے سوا کچھ نہیں ہے، اور اگرچہ اس سے ہمدردی پیدا ہو سکتی ہے لیکن یہ پھر بھی بدصورتی ہی ہے۔ خدا سے انسان کے مختلف ہونے کا نکتہ یہ ہے کہ انسان کی کمزوری دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے رجحان میں موجود ہے۔ تاہم، خدا ہمیشہ انسان کے لیے ایک جیسا رہا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس نے ہمیشہ ایک ہی رویہ رکھا ہے۔ وہ ہمیشہ اتنا مہربان نہیں ہوتا جتنا لوگ تصور کرتے ہیں، ایک تجربہ کار ماں کی طرح جس کے بچے اس کے ذہن میں ہمیشہ سب سے پہلے ہوتے ہیں۔ حقیقت میں، اگر خدا عظیم سرخ اژدہے کو فتح کرنے کے طریقوں کی ایک صف کو استعمال نہیں کرنا چاہتا تو کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ اس طرح کی ذلت کے سامنے سرتسلیم خم کرے، خود کو انسان کی حدود کے تابع ہونے دے۔ خدا کے مزاج کے مطابق، جو کچھ لوگ کرتے اور کہتے ہیں وہ خدا کے غضب کو بھڑکاتا ہے، اور انہیں سزا ضرور ملنی چاہیے۔ خدا کی نظر میں، ان میں سے کوئی ایک بھی معیار کے مطابق نہیں ہے، اور وہ سب خدا کی طرف سے مار گرائے جانے والے ہیں۔ چین میں خدا کے کام کے اصولوں کی وجہ سے، اور اس کے علاوہ، عظیم سرخ اثدہے کی فطرت کی وجہ سے، جس میں یہ حقیقت شامل ہو گئی ہے کہ چین عظیم سرخ اژدہے کا ملک ہے اور وہ سرزمین ہے جس میں مجسم خدا رہتا ہے، خدا کو اپنے غصے کو لازمی نگلنا ہو گا اور عظیم سرخ اثدہے کی تمام اولاد کو فتح کرنا ہو گا؛ پھر بھی وہ عظیم سرخ اژدہے کی اولاد سے ہمیشہ نفرت کرے گا – یعنی، وہ ہمیشہ ان تمام چیزوں سے نفرت کرے گا جو عظیم سرخ اثدہے کی طرف سے آتی ہیں – اور یہ چیز کبھی نہیں تبدیل نہیں ہو گی۔
خدا کے کسی عمل سے آج تک کوئی آگاہ نہیں ہوا اور نہ ہی کسی چیز نے کبھی اس کے اعمال دیکھے ہیں۔ مثال کے طور پر، جب خُدا صہیون واپس آیا تو کون اس سے واقف تھا؟ چنانچہ، کلام جیسے ”میں خاموشی سے انسانوں کے درمیان آتا ہوں، اور پھر دور چلا جاتا ہوں۔ کیا کبھی کسی نے مجھے دیکھا ہے؟“ ظاہر کرتا ہے کہ بے شک انسان کے پاس روحانی دنیا کے واقعات کو قبول کرنے کی صلاحیتوں کی کمی ہے۔ ماضی میں، خُدا نے کہا تھا کہ جب وہ صہیون واپس آتا ہے، ”سورج دہکتا ہے، چاند چمکتا ہے۔“ کیونکہ لوگ اب بھی صہیون میں خُدا کی واپسی کے لیے مشغول ہیں – کیونکہ اُنہوں نے ابھی تک اُسے جانے دینا ہے – خُدا لوگوں کے تصورات کے مطابق ہونے کے لیے براہِ راست الفاظ ”سورج دہکتا ہے، چاند چمکتا ہے“ کہتا ہے۔ نتیجے کے طور پر، خدا کا کلام جب لوگوں کے تصورات پر ضرب لگاتا ہے، تو وہ دیکھتے ہیں کہ خدا کے اعمال بہت ہی حیرت انگیز ہیں، اور وہ دیکھتے ہیں کہ سب کے لیے اس کا کلام گہرا، ناقابلِ ادراک اور ناقابلِ فہم ہے؛ چنانچہ، وہ اس معاملے کو مکمل طور پر ایک طرف رکھ دیتے ہیں، اور اپنی روحوں میں تھوڑی سی شفافیت محسوس کرتے ہیں، گویا خدا پہلے ہی صہیون میں واپس آ چکا ہے، اور اس لیے لوگ اس معاملے پر کوئی زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ اس کے بعد سے، وہ مکمل طور پر متفق ہو کر خُدا کے کلام کو قبول کر لیتے ہیں، اور مزید پریشان نہیں ہوتے کہ خُدا کی صہیون میں واپسی کے بعد تباہی آئے گی۔ صرف تب ہی لوگوں کے لیے خدا کے کلام کو قبول کرنا آسان ہوتا ہے، وہ اپنی پوری توجہ خدا کے کلام پر مرکوز کرتے ہوئے، انہیں کسی اور چیز پر غور کرنے کی خواہش نہیں ہوتی۔