باب 10
کلیسیا کی تعمیر کے وقت، خدا نے بادشاہی کی تعمیر کا ذکر مختصر طور پر کیا تھا۔ یہاں تک کہ جب خدا نے اس کی پرورش کی تو اس نے اس وقت کی رائج زبان میں ایسا کیا تھا۔ جب بادشاہی کا زمانہ آ چکا تھا، تو خدا نے کلیسیا کی تعمیر کے وقت کے بعض طریقوں اور خدشات کو ایک ہی وار میں ختم کر دیا، اور پھر ان کے بارے میں کبھی ایک لفظ تک نہیں کہا۔ یہ "خود خدا" کا عین بنیادی معنی ہے جو ہمیشہ نیا ہوتا ہے اور کبھی بھی پرانا نہیں ہوتا۔ اور اس کے ساتھ ماضی میں کی گئی چیزیں بھی ہو سکتی ہیں، جو کہ، آخر، ایک گزرے ہوئے زمانے کا حصہ ہیں، اس لیے خدا ایسے ماضی کے واقعات کے وقوع پذیر ہونے کی درجہ بندی مسیح سے پہلے کے زمانے میں کرتا ہے، جبکہ موجودہ دور مسیح کے بعد کا وقت کہلاتا ہے۔ اس سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ سلطنت کی تعمیر کے لیے کلیسیا کو تعمیر کرنا ایک اولین شرط تھی؛ اس نے خُدا کے لیے بادشاہی میں اپنی مطلق العنان طاقت کو بروئے کار لانے کی بنیاد رکھی۔ کلیسا کی عمارت آج کی ایک تصویر ہے؛ زمین پر خدا کا کام بنیادی طور پر اس حصے پر مرکوز ہے جس کا تعلق بادشاہی کی تعمیر سے ہے۔ کلیسیا کی تعمیر ختم کرنے سے پہلے، اس نے تمام کیے جانے والے کام کی تیاری پہلے سے ہی کر رکھی تھی، اور جب مناسب وقت آیا، تو اس نے رسمی طور پر اپنا کام شروع کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ خُدا نے کہا تھا، بادشاہی کا دور، بہر حال، ماضی کے زمانوں سے مختلف ہے۔ اسے اس سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ انسانیت کیسے کام کرتی ہے؛ بلکہ میں اپنے کام کو انجام دینے کے لیے ذاتی طور پر زمین پر اترا ہوں، یہ ایسا کام ہے کہ انسان جس کا نہ تو تصور کر سکتے ہیں اور نہ ہی اسے پورا کر سکتے ہیں۔" بے شک، یہ کام ذاتی طور پر خدا کی طرف سے انجام دیا جانا چاہیے- کوئی بھی انسان ایسے کام کے قابل نہیں ہے۔ وہ یہ کر ہی نہیں سکتا ہے۔ انسانوں کے درمیان اتنا بڑا کام خدا کے علاوہ کون کر سکتا ہے؟ اور کون ہے جو تمام بنی نوع انسان کو ادھ موا کر دینے کی حد تک "اذیت دینے" کے قابل ہے؟ کیا انسانوں کے لیے ایسے کام کا بندوبست کرنا ممکن ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ وہ کہتا ہے، "میں اپنے کام کو انجام دینے کے لیے ذاتی طور پر زمین پر اترا ہوں؟" کیا خدا کی روح تمام وسعتِ مکانی سے واقعی غائب ہو سکتی تھی؟ یہ سطر، "میں اپنے کام کو انجام دینے کے لیے ذاتی طور پر زمین پر اترا ہوں،" دونوں کا حوالہ دیتی ہے، اس حقیقت کا، کہ خدا کی روح جسم کی حالت میں کام کرنے کے لیے تجسیم ہوئی ہے، اور اس حقیقت کا، کہ خدا کی روح بنی نوع انسان کے ذریعے واضح طور پر کام کر رہی ہے۔ ذاتی طور پر اپنے کام کو انجام دینے کے ذریعے، وہ بہت سے لوگوں کو اپنی عام آنکھوں سے خود خدا کو دیکھنے کی اجازت دیتا ہے؛ ان کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ اسے اپنی روحوں میں احتیاط کے ساتھ تلاش کریں۔ اس کے علاوہ، وہ تمام انسانوں کو اجازت دیتا ہے کہ اپنی آنکھوں سے روح کے کاموں کو دیکھیں، اور انھیں یہ دکھاتا ہے کہ انسان کے جسم اور خُدا کے جسم میں بنیادی نوعیت کا فرق ہے۔ خدا کی روح ایک ہی وقت میں، تمام وسعتِ مکانی اور کائناتی دنیا میں کام کر رہی ہے۔ خدا کے تمام لوگ جو بصیرت یافتہ ہیں، خدا کے نام کو قبول کر لینے کے بعد، یہ دیکھتے ہیں کہ خدا کی روح کیسے کام کرتی ہے اور اس طرح مجسم خدا سے اور بھی زیادہ مانوس ہو جاتے ہیں۔ اس طرح، صرف جب خدا کی الوہیت براہ راست کام کرتی ہے - یعنی صرف اس صورت میں جب خدا کی روح معمولی سی مداخلت کے بھی بغیر کام کرنے کے قابل ہو - تو کیا انسانیت خود عملی خدا سے مانوس ہو سکتی ہے۔ یہ بادشاہی کی تعمیر کی حقیقت ہے۔
خدا کی کتنی مرتبہ جسم کی حالت میں تجسیم ہوئی ہے؟ کیا یہ کئی مرتبہ ہو سکتی ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ خدا نے بار بار کہا ہے، "میں ایک بار انسانوں کی دنیا میں نازل ہوا تھا اور ان کے مصائب کا عملی تجربہ اور مشاہدہ کیا تھا، لیکن میں نے اپنی تجسیم کے مقصد کو پورا کیے بغیر ایسا کیا تھا؟" کیا ایسا ہے کہ خدا کی کئی مرتبہ تجسیم ہوئی ہو، لیکن انسانیت کو کبھی ایک مرتبہ بھی اس کا علم نہ ہوا ہو؟ اس بیان کا یہ مطلب نہیں ہے۔ پہلی بار جب خدا مجسم ہوا، تو دراصل اس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ انسان اسے جانیں؛ بلکہ، اس نے اپنا کام کیا اور پھر کسی کو خود کو دیکھنے یا جاننے کا موقع دیے بغیر ہی غائب ہو گیا۔ اس نے لوگوں کو خود کو مکمل طور پر جاننے کی اجازت نہیں دی، اور نہ ہی وہ مکمل طور پر تجسیم کی اہمیت رکھتا تھا؛ اس طرح، یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ مکمل طور پر مجسم ہوا تھا۔ پہلی تجسیم میں، خدا نے اس کام کو انجام دینے کے لیے محض ایک جسمانی جسم کا استعمال کیا تھا جو فطری طور پر گناہوں سے پاک تھا؛ اس کام کے مکمل ہونے کے بعد اس کا مزید ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ جہاں تک اُن انسانوں کا تعلق ہے جن کو خُدا نے تمام ادوار میں استعمال کیا ہے، ایسی مثالیں "مجسم" کہلائے جانے سے بھی کمتر حیثیت کی حامل ہیں۔ آج صرف عملی خدا خود ہی، جو ایک عام انسانیت کی آڑ میں ہے اور جس کے پاس ایک اندرونی، مکمل الوہیت موجود ہے، اور جس کا مقصد انسانیت کو یہ اجازت دینا ہے کہ وہ اسے جان لے، مکمل طور پر ایک "مجسم" کہلا سکتا ہے۔ خدا کے اس دنیا میں پہلے دورے کا مقصد آج تجسیم کہلائے جانے کے مقصد کا ایک پہلو ہے-لیکن یہ دورہ کسی بھی طریقے سے اس پورے مفہوم پر مشتمل نہیں ہے جسے اب تجسیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی لیے خدا نے کہا تھا، "اپنی تجسیم کے مقصد کو پورا کیے بغیر۔" انسانوں کے مصائب کا عملی تجربہ اور مشاہدہ کرنے کی جو بات خدا کے کلام میں کہی گئی ہے، وہ خدا کی روح اور دو تجسیموں کا حوالہ دیتی ہے۔ اسی وجہ سے خدا نے کہا، "ایک بار جب بادشاہی کی تعمیر کا کام شروع ہوا، تو میرے مجسم جسم نے رسمی طور پر میری ذمہ داری کو انجام دینا شروع کر دیا؛ یعنی بادشاہی کے بادشاہ نے اپنی خود مختار طاقت کو باضابطہ طور پر سنبھال لیا ہے۔" اگرچہ کلیسیا کی تعمیر خدا کے نام کی گواہی تھی، لیکن ابھی کام باضابطہ طور پر شروع نہیں ہوا تھا؛ صرف آج اس کام کو بادشاہی کی تعمیر کہا جا سکتا ہے۔ جو کچھ پہلے کیا گیا تھا وہ صرف ایک نمونہ تھا؛ یہ اصل چیز نہیں تھی۔ اگرچہ یہ کہا گیا کہ بادشاہی شروع ہو گئی تھی لیکن ابھی تک اس کے اندر کوئی کام نہیں ہو رہا تھا۔ صرف آج، جبکہ وہ کام خدا کی الوہیت کے اندر ہو رہا ہے اور جب خدا نے اپنے کام کا باضابطہ طور پر آغاز کر دیا ہے، تو انسانیت آخر کار بادشاہی میں داخل ہو گئی ہے۔ "انسانی دنیا میں بادشاہی کا نزول - محض ایک لفظی ظہور سے بہت ہٹ کر - اصل حقیقت میں سے ایک ہے؛ یہ "عمل کرنے کی حقیقت" کے معنی کا ایک پہلو ہے۔" یہ اقتباس مندرجہ بالا بیان کی ایک موزوں تشریح ہے۔ اس تفصیل کو فراہم کر کے، لوگوں کو مسلسل مصروفیت کی حالت میں چھوڑتے ہوئے، خدا بنی نوع انسان کے کردار کی عمومی حالت کی وضاحت کرتا ہے۔ "پوری دنیا میں، ہر کوئی میری رحمت اور شفقت کے اندر موجود ہوتا ہے، اور اسی طرح تمام انسانیت بھی میرے فیصلے کے تحت ہے، اور اسی طرح میری آزمائشوں کے تابع ہے۔" انسانی زندگی خدا کے ترتیب دیے گئے مخصوص اصولوں اور قواعد کے تابع ہوتی ہے، اور وہ حسب ذیل ہیں: ایسے وقت آئیں گے جب خوشی کے لمحات ہوں گے، مایوسی کے لمحات ہوں گے، اور اس کے علاوہ، مشکلات کے ذریعے تزکیے کے وقت بھی آئیں گے جنہیں لازمی برداشت کرنا ہوگا۔ اس طرح، کوئی بھی مکمل خوشی یا مکمل مصائب کی زندگی نہیں گزارے گا؛ ہر زندگی کے اپنے نشیب و فراز ہوں گے۔ تمام انسانیت میں، نہ صرف خُدا کی رحمت اور شفقت نمایاں ہے، بلکہ اُس کا فیصلہ اور اُس کا مکمل مزاج بھی نمایاں ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمام انسان خدا کی آزمائشوں میں گھرے ہوئے ہیں، کیا یہ نہیں ہو سکتا ہے؟ اس وسیع و عریض دنیا میں، سب انسان اپنے لیے باہر نکلنے کا ایک راستہ تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ انھیں اس بات کا یقین نہیں ہے کہ وہ کیا کردار ادا کرتے ہیں، اور کچھ تو مقدر کی خاطر اپنی زندگیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں یا ضائع کر دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ ایوب بھی اس اصول سے مستثنیٰ نہیں تھا: اگرچہ اس نے بھی خدا کی آزمائشوں کو برداشت کیا تھا، پھر بھی، اس نے اپنے لیے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کیا۔ خدا کی آزمائشوں میں کوئی بھی کبھی ثابت قدم نہیں رہ سکا ہے۔ انسانی حرص اور فطرت کی وجہ سے کوئی بھی اپنی موجودہ حالت سے مکمل طور پر مطمئن نہیں ہے، اور کوئی بھی آزمائشوں میں ثابت قدم نہیں رہتا ہے؛ ہر کوئی خدا کے فیصلے کے تحت ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ اگر خدا انسانیت کے ساتھ سنجیدہ ہوتا، اور اگر وہ اب بھی لوگوں کے لیے اس طرح کے بہت زیادہ یا سخت مطالبات کو برقرار رکھتا، تو پھر یہ ویسے ہی ہوتا جیسے کہ اس نے کہا ہے: "تمام نسل انسانی میری جلتی ہوئی نظروں کے نیچے گر جاتی۔"
اس حقیقت کے باوجود کہ بادشاہت کی تعمیر کا باضابطہ طور پر آغاز ہو چکا ہے، بادشاہی کی سلامی ابھی تک رسمی طور پر گونجنا باقی ہے؛ اس وقت یہ صرف ایک پیشین گوئی ہے کہ کیا آنے والا ہے۔ جب تمام لوگوں کو مکمل بنا دیا جائے گا اور زمین کی تمام قومیں مسیح کی بادشاہی بن جائیں گی، تو یہ وہ وقت ہو گا جب گرج کی سات آوازیں گونجیں گی۔ موجودہ وقت اسی مرحلے کی طرف بڑھ رہا ہے؛ اس دن کی طرف پیش قدمی کرنے کی آزادی دے دی گئی ہے۔ یہ خدا کا منصوبہ ہے، اور مستقبل قریب میں یہ مکمل ہو جائے گا۔ تاہم، خدا پہلے ہی وہ سب کچھ پورا کر چکا ہے جو اس نے کہا ہے۔ پس، یہ واضح ہے کہ زمین کی قومیں ریت کے قلعوں کی طرح ہیں، اور جیسے جیسے اونچی لہر قریب آتی جا رہی ہے، وہ کانپ رہے ہیں: آخری دن جلد آنے والا ہے، اور عظیم سرخ اژدہا خدا کے کلام کے نیچے گر جائے گا۔ اس کے منصوبے کو کامیابی کے ساتھ انجام دینے کو یقینی بنانے کے لیے، آسمان کے فرشتے زمین پر اتر چکے ہیں اور خدا کو مطمئن کرنے کے لیے اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ دشمن کے خلاف جنگ کرنے کے لیے مجسم خدا خود میدان جنگ میں صف آرا ہوا ہے۔ جہاں کہیں بھی مجسم خدا ظاہر ہوتا ہے یہ وہ جگہ ہوتی ہے جہاں سے دشمن کو تباہ کیا جاتا ہے۔ چین سب سے پہلے فنا ہو گا؛ اسے خدا کے ہاتھ سے تباہ و برباد کر دیا جائے گا۔ خدا وہاں پر بالکل رحم نہیں کرے گا۔ عظیم سرخ اژدہے کے خاتمے کی طرف بڑھنے کا ثبوت لوگوں کی مسلسل پختگی میں دیکھا جا سکتا ہے؛ یہ نمایاں ہے اور ہر کسی کو واضح طور پر نظر آتی ہے۔ لوگوں کی پختگی دشمن کی موت کی نشانی ہے۔ یہ اس بات کی تھوڑی سی وضاحت ہے کہ "مقابلہ کرنے" کا کیا مطلب ہے۔ اس طرح، خدا نے متعدد مواقع پر لوگوں کو یاد دلایا ہے کہ وہ انسانوں کے دلوں میں تصورات کی حیثیت، جو کہ عظیم سرخ اژدھے کی بدصورتی ہیں، کو ختم کرنے کے لیے خدا کے لیے خوبصورت شہادتیں دیں۔ خدا اس طرح کی یاد دہانیاں لوگوں کے ایمان میں ولولہ پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور ایسا کرنے سے اپنے کام میں کامیابیاں حاصل کرتا ہے۔ اسی لیے خدا نے کہا ہے، "انسان آخر اصل میں کیا کرنے کے قابل ہیں؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ ان کی بجائے میں خود یہ کرتا ہوں؟" تمام انسان ایسے ہی ہیں؛ وہ نہ صرف نااہل ہیں بلکہ وہ آسانی سے حوصلہ ہار دیتے ہیں اور مایوس ہو جاتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ خدا کو نہیں جان سکتے ہیں۔ خدا نہ صرف انسانیت کے ایمان کو دوبارہ زندہ کرتا ہے بلکہ وہ خفیہ طور پر اور مسلسل لوگوں کو طاقت سے معمور کر رہا ہے۔
اس کے بعد، خدا نے پوری کائنات سے بات کرنا شروع کر دی۔ خدا نے نہ صرف چین میں اپنا نیا کام شروع کر دیا ہے بلکہ وہ پوری کائنات میں آج کا نیا کام کرنا شروع کر چکا ہے۔ کام کے اس مرحلے میں، کیونکہ خُدا اپنے تمام اعمال کو پوری دنیا میں ظاہر کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ تمام انسان جنہوں نے اُس کے ساتھ غداری کی ہے دوبارہ اُس کے تخت کے سامنے اطاعت تسلیم کرنے کے لیے آئیں گے، اور خُدا کے فیصلے میں اس وقت بھی اُس کی رحمت اور شفقت شامل ہوگی۔ خدا دنیا بھر میں موجودہ واقعات کو مواقع کے طور پر استعمال کرتا ہے تاکہ انسانوں کو گھبراہٹ کا احساس دلایا جائے، اور وہ تیزی سے خدا کی تلاش کریں تاکہ وہ اس کے سامنے واپس آ سکیں۔ چنانچہ خدا کہتا ہے، "یہ میرے کام کرنے کے طریقوں میں سے ایک ہے، اور بلا شبہ انسانیت کے لیے یہ نجات کا ایک عمل ہے، اور جو میں ان کی جانب بڑھاتا ہوں وہ پھر بھی ایک قسم کی محبت ہی ہے۔" یہاں خدا انسانیت کی اصل فطرت کو ایک ایسی درستی کے ساتھ بے نقاب کرتا ہے جو بلیغ، بے مثال، اور آسان ہے۔ اس کی وجہ سے لوگ بہت ذلیل ہوتے ہوئے شرم سے منہ چھپا لیتے ہیں۔ جب بھی خدا بولتا ہے، وہ ہمیشہ کسی نہ کسی طرح انسانیت کی شرمناک کارکردگی کے کسی نہ کسی پہلو کی نشاندہی کرنے کا انتظام کر ہی لیتا ہے تاکہ اطمینان کے وقت لوگ اپنے آپ کو جاننا نہ بھولیں اور اپنے آپ کو جاننے کو ایک پرانا کام نہ سمجھیں۔ یہ انسانی فطرت کے مطابق ہے، کہ اگر خدا ایک لمحے کے لیے بھی ان کے عیبوں کی نشاندہی کرنا بند کر دے تو وہ بد چلن اور متکبر ہو جائیں گے۔ اسی وجہ سے خدا آج پھر یہ کہتا ہے، "انسانیت - ان القابات کی قدر کرنے سے بہت دور ہے جو میں نے انھیں عطا کیے ہیں، ان میں سے بہت سے لوگ، "خدمت گار" کے لقب کی وجہ سے، اپنے دلوں میں ناراضگی پالتے ہیں، اور بہت سے، "میرے بندوں" کے لقب کی وجہ سے اپنے دلوں میں میرے لیے محبت پیدا کرتے ہیں۔ کسی کو مجھے بے وقوف بنانے کی کوشش نہں کرنی چاہیے؛ میری آنکھیں سب کچھ دیکھ رہی ہیں! جیسے ہی انسان اس بیان کو پڑھتے ہیں، وہ فوراً بے چینی محسوس کرنے لگتے ہیں۔ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ماضی کے اعمال بہت زیادہ ناپختہ تھے - بالکل بے ایمانی کی قسم کے کام، جو خدا کو ناراض کر دیتے ہیں۔ انھوں نے حال ہی میں خدا کو مطمئن کرنا چاہا ہے، لیکن اب جب کہ وہ دل و جان سے آمادہ ہیں تو ان میں ایسا کرنے کی طاقت ہی نہیں ہے، اور وہ یہ نہیں جانتے ہیں کہ انھیں کیا کرنا چاہیے۔ نادانستگی میں، وہ نئے سرے سے ایک عزم کی ٹھان لیتے ہیں۔ اطمینان حاصل ہونے کے بعد جب کوئی ان الفاظ کو پڑھتا ہے تو ان کا یہ اثر ہوتا ہے۔
ایک طرف تو خدا یہ کہتا ہے کہ شیطان انتہائی پاگل ہے، جبکہ دوسری طرف وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ زیادہ تر انسانوں کی پرانی فطرت تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان کے اعمال انسانیت کے ذریعے ظاہر ہوتے ہیں۔ اس لیے خُدا اکثر انسانوں کو یہ یاد دلاتا ہے کہ وہ بدچلن نہ ہوں، ایسا نہ ہو کہ شیطان انھیں تباہ کر ڈالے۔ اس بات سے نہ صرف یہ پیشین گوئی ہوتی ہے کہ کچھ انسان بغاوت کریں گے؛ مزید برآں، یہ تمام لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی بھی ہوتی ہے کہ وہ ماضی کو جلدی سے ترک کر کے حال کی جستجو کریں۔ کوئی بھی یہ نہیں چاہتا ہے کہ اس پر بدروحوں کا قبضہ ہو جائے یا اس پر شیطانی روحیں غالب آ جائیں، اس لیے خُدا کے الفاظ، اس سے بھی بڑھ کر، ان کے لیے ایک تنبیہ اور ملامت ہیں۔ تاہم، جب زیادہ تر لوگ خدا کے ہر آخری کلام کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہوئے، مخالف انتہا کی طرف بڑھتے ہیں، تو موقع ملنے پر خدا کہتا ہے، "زیادہ تر لوگ یہ انتظار کر رہے ہیں کہ میں اس سے بھی زیادہ اسرار ظاہر کروں تاکہ ان کی آنکھیں نظارے کا لطف لے سکیں۔ تاہم، اگر تو آسمان کے تمام اسرار کو سمجھ بھی گیا تو اس علم کے ساتھ تو کیا کر سکتا ہے؟ کیا یہ تیری مجھ سے محبت میں اضافہ کر دے گا؟ کیا یہ میرے لیے تیری محبت کو بیدار کر دے گا؟" اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسان خدا کے کلام کو خدا کو جاننے اور خدا سے محبت کرنے کے لئے استعمال نہیں کرتے ہیں، بلکہ اپنے "چھوٹے گودام" کے ذخیرے کو بڑھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح، خدا انسانیت کی انتہا پسندی کو بیان کرنے کے لیے "ان کی آنکھیں نظارے کا لطف لیتی ہیں" کا فقرہ استعمال کرتا ہے، جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کس طرح خدا سے انسانوں کی محبت ابھی بھی مکمل طور پر خالص نہیں ہے۔ اگر خدا اسرار بے نقاب نہ کرتا تو انسان اس کے الفاظ کو زیادہ اہمیت نہ دیتے، بلکہ ان پر صرف سرسری نظر ہی ڈالتے، جیسے سرپٹ بھاگتے ہوئے گھوڑے پر سوار جاتے ہوئے پھولوں پر ہلکی سی نظر ڈال کر ان کی تعریف کرنا۔ وہ خدا کی باتوں پر صحیح معنوں میں دھیان دینے یا ان پر غور کرنے کے لیے وقت نہیں نکالیں گے۔ زیادہ تر لوگ واقعی اس کے کلام کو عزیز نہیں رکھتے ہیں۔ وہ اُس کے کلام کو کھانے اور پینے کے لیے بہت زیادہ کوشش نہیں کرتے ہیں؛ اس کی بجائے، وہ ان پر صرف سطحی انداز میں سرسری سی نظر ڈالتے ہیں۔ خدا گزشتہ زمانوں کے مقابلے میں اب مختلف انداز میں کیوں بات کرتا ہے؟ اُس کے تمام الفاظ اتنے ناقابلِ فہم کیوں ہیں؟ کچھ مثالیں ہیں، جیسے کہ لفظ "تاج" جو کہ اس فقرے میں کہا گیا ہے "میں کبھی بھی اتنے سرسری انداز میں ایسے القابات سے ان کی تاجپوشی نہ کرتا" اور "کیا کوئی ہے جو اس خالص ترین سونے کو حاصل کر سکے جس سے میرا کلام بنا ہے؟" میں "خالص ترین سونا،" اس کے پہلے ذکر کیے گئے "شیطان کی طرف سے کسی عمل سے گزرے بغیر،" میں "عمل،" اور اسی طرح کے دوسرے جملے۔ انسان سمجھتے نہیں ہیں کہ خدا کیوں اس طرح بات کرتا ہے؛ وہ اس کا ادراک ہی نہیں کر سکتے ہیں کہ وہ اس طرح کے ظریفانہ، مزاحیہ اور طیش دلانے والے انداز میں کیوں بولتا ہے۔ یہ انداز بالکل وہی ہیں جو خدا کے کلام کے مقصد کا مظہر ہیں۔ بالکل آغاز سے ہی، انسان ہمیشہ خدا کے کلام کا ادراک کرنے سے قاصر رہے ہیں، اور ایسے لگتا ہے کہ جیسے اس کی باتیں واقعی بہت زیادہ سنگین اور درشت ہیں۔ مزاح کے معمولی لہجے کو شامل کر کے - مختلف جگہوں پر چند چٹکلے شامل کر کے - وہ اپنے کلام سے ذہنی یا دلی کیفیت کو تسکین پہنچانے اور انسانوں کو کسی حد تک اپنے عضلات کو پُرسکون کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ایسا کرنے سے، وہ ایک اور بھی زیادہ بہتر اثر حاصل کرنے کے قابل ہوتا ہے، اور ہر انسان کو خدا کے کلام پر غوروفکر کرنے پر مجبور کرتا ہے۔