مجسم خدا اور خدا کے زیر استعمال لوگوں کے درمیان بنیادی فرق

بہت سالوں سے خدا کی روح زمین پر کام کرتے ہوئے تلاش کرتی رہی ہے اور بہت سے لوگوں کو خدا نے تمام ادوار کے دوران اپنا کام انجام دینے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس کے باوجود اس تمام عرصے میں خدا کی روح مناسب آرام گاہ کے بغیر رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ خدا اپنا کام کرنے کے لیے مختلف لوگوں کے مابین منتقل ہو جاتا ہے۔ مجموعی طور پر، اس کا کام لوگوں کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام سالوں میں خدا کا کام کبھی نہیں رکا بلکہ تمام عرصے میں اسے آج تک لوگوں میں آگے بڑھایا جاتا رہا ہے۔ اگرچہ خدا نے بہت سا کلام کہا ہے اور اتنا بہت سا کام کیا ہے، مگر انسان اب بھی خدا کو نہیں جانتا، یہ سب اس لیے ہے کہ خدا کبھی انسان کے سامنے ظاہر نہیں ہوا اور اس لیے بھی کہ اس کی کوئی قابل لمس شکل نہیں ہے۔ اور اس لیے خدا کو یہ کام – یعنی تمام بنی نوع انسان کو عملی خدا کی عملی اہمیت سے آگاہ کرنے کا کام – لازماً پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے خدا کو اپنی روح بنی نوع انسان کے سامنے قابل لمس طریقے سے ظاہر کرنا ہو گی اور ان کے بیچ اپنا کام انجام دینا ہوگا۔ یعنی جب خدا کی روح جسمانی شکل اختیار کرتی ہے، جسم کو اوڑھتی ہے اور لوگوں کے درمیان ظاہری طور پر چلتی پھرتی ہے، ان کی زندگی میں ان کے ساتھ ہوتی ہے، کبھی اپنے آپ کو دکھاتی اور کبھی چھپاتی ہے، تب ہی لوگ اس کے بارے میں گہری سمجھ تک پہنچنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اگر خدا صرف جسم میں رہتا تو وہ اپنا کام کُلی طور پر مکمل نہیں کر سکتا تھا۔ اور ایک مدت تک جسم میں کام کرنے کے بعد، اس مذہبی فریضے کو پورا کرنے کے بعد، جو جسم میں کرنے کی ضرورت ہے، خدا جسم کو چھوڑ دے گا اور جسم کی شبیہ میں عالمِ روحانی میں کام کرے گا، جس طرح یسوع نے عام بنی نوع انسان میں ایک مدت تک کام کرنے کے بعد ایسا کیا تھا اور وہ تمام کام مکمل کر لیا تھا جو اسے مکمل کرنے کی ضرورت تھی۔ تمھیں "راستہ ۔۔۔ (5)" کا یہ اقتباس یاد ہو گا: "مجھے یاد ہے کہ میرے باپ نے مجھ سے کہا تھا کہ 'زمین پر صرف اپنے باپ کی مرضی کے مطابق کام کرنے کی جستجو کرو اور اس کا فریضہ مکمل کرو۔ اور اس کے علاوہ کسی بھی چیز کے ساتھ تیرا کوئی تعلق نہیں ہے۔'" اس عبارت میں تُو کیا دیکھتا ہے؟ جب خدا زمین پر آتا ہے تو وہ الوہیت کے اندر اپنا صرف وہ کام کرتا ہے جو آسمانی روح نے مجسم خدا کو سونپا ہے۔ جب وہ آتا ہے تو وہ مختلف طریقوں سے اور مختلف نقطہ ہائے نظر سے اپنے کلام سنانے کے لیے پورے کرہ ارض پر بولتا ہے۔ وہ بنیادی طور پر انسان کو فراہمی اور انسان کی تعلیم کو اپنے اہداف اور کام کرنے کے اصول کے طور پر لیتا ہے، اور باہمی تعلقات یا لوگوں کی زندگیوں کی تفصیلات جیسی چیزوں سے سروکار نہیں رکھتا ہے۔ اس کا اہم مذہبی فریضہ روح کے لیے بات کرنا ہے۔ یعنی جب خدا کی روح جسم میں قابل لمس انداز میں ظاہر ہوتی ہے، تو وہ صرف انسان کے جینے کے لیے بندوبست کرتا اور سچائی آشکار کرتا ہے۔ وہ انسان کے کام میں اپنے آپ کو ملوث نہیں کرتا، یعنی وہ بنی نوع انسان کے کام میں حصہ نہیں لیتا۔ انسان الوہی کام نہیں کر سکتے اور خدا انسانی کاموں میں حصہ نہیں لیتا۔ جب سے خدا اس زمین پر اپنا کام انجام دینے آیا ہے، اس نے ہمیشہ لوگوں کے ذریعے یہ کام کیا ہے۔ تاہم ان لوگوں کو مجسم خدا نہیں سمجھا جا سکتا – یہ صرف وہ ہیں جنہیں خدا نے استعمال کیا ہے۔ دریں اثنا، آج کا خدا، روح کی آواز کو آگے بھیج کر اور روح کی طرف سے کام کر کے الوہیت کے نقطہ نظر سے براہ راست بات کر سکتا ہے۔ وہ سب جنہیں خدا نے تمام ادوار میں استعمال کیا ہے، اسی طرح خدا کی روح کی گوشت پوست کے جسم میں کام کرنے کی مثالیں ہیں – تو پھر انہیں خدا کیوں نہیں کہا جا سکتا؟ لیکن آج کا خدا بھی خدا کی روح ہے جو براہ راست جسم میں کام کر رہی ہے اور یسوع بھی خدا کی روح تھا جو جسم میں کام کر رہا تھا؛ ان دونوں کو خدا کہا جاتا ہے۔ تو پھر کیا فرق ہے؟ خدا نے سب زمانوں کے دوران جن لوگوں کو استعمال کیا ہے وہ سب عام سوچ اور عقل کے حامل رہے ہیں۔ وہ سب انسانی طرز عمل کے اصولوں کو سمجھ چکے ہیں۔ وہ سب عمومی انسانی خیالات کے حامل رہے ہیں اور ان تمام چیزوں کے حامل رہے ہیں جو عام لوگوں کے پاس ہونی چاہییں۔ ان میں سے زیادہ تر میں غیر معمولی صلاحیت اور فطری ذہانت رہی ہے۔ ان لوگوں پر کام کرتے ہوئے خدا کی روح ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتی ہے جو ان کو خدا کی طرف سے عطا کیے گیے تحفے ہیں۔ خدا کی روح ان کی صلاحیتوں کو کام میں لاتی ہے اور خدا کی خدمت کرنے میں ان کی توانائیوں کا استعمال کرتی ہے۔ اس کے باوجود خدا کا جوہر خیالات یا سوچ کے بغیر ہے، انسانی ارادوں کی ملاوٹ کے بغیر، اور یہاں تک کہ عام بنی نوع انسان کے پاس جو کچھ ہے اس میں ان کا بھی کا فقدان ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ انسانی طرز عمل کے اصولوں سے بھی واقف نہیں ہے۔ جب آج کا خدا زمین پر آتا ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس کا کام اور اس کا کلام انسانی ارادوں یا انسانی سوچ کی ملاوٹ سے پاک ہیں، لیکن وہ روح کے ارادوں کا براہ راست اظہار ہیں، اور وہ براہ راست خدا کی جگہ پر کام کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روح براہ راست بولتی ہے، یعنی، یہاں تک کہ الوہیت انسان کے ارادوں کو ذرہ برابر بھی شامل کیے بغیر براہ راست کام کرتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، مجسم خدا براہ راست الوہیت کو انسانی جسم کی شکل دیتا ہے، جو انسانی سوچ یا خیالات کے بغیر ہے، اور اسے انسانی طرز عمل کے اصولوں کی کوئی سمجھ نہیں ہے۔ اگر صرف الوہیت کام کررہی ہوتی (یعنی اگر صرف خدا خود کام کر رہا ہوتا)، تو زمین پر خدا کا کام انجام دینے کا کوئی ذریعہ نہ ہوتا۔ پس جب خدا زمین پر آتا ہے تو جو کام وہ الوہیت میں کرتا ہے اس کے ساتھ جن لوگوں کو وہ بنی نوع انسان کے اندر کام کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے ان کی تعداد لازماً بہت کم ہونی چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں، وہ اپنا خدائی کام برقرار رکھنے کے لیے انسانی کام کا استعمال کرتا ہے۔ اگر نہیں تو انسان کے لیے براہ راست الوہی کام میں مشغول ہونے کا کوئی راستہ نہیں ہو گا۔ یسوع اور اس کے پیروکاروں کے ساتھ ایسا ہی تھا۔ دنیا میں اپنے دور میں یسوع نے پرانے قوانین ختم کر دیے اور نئے احکامات قائم کیے۔ اس نے بہت سا کلام بھی کہا۔ یہ سب کام الوہیت میں کیا گیا تھا۔ دوسرے لوگ مثلا پطرس، پولس اور یوحنا، سب نے یسوع کے کلام پر اپنے بعد کے کام کی بنیاد رکھی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے اس دور میں اپنے کام کا آغاز کیا، فضل کے دور کے شروع میں آغاز کیا؛ یعنی اس نے ایک نئے دور کا آغاز کیا اور پرانا دور ختم کر دیا اور ان الفاظ کو بھی پورا کیا کہ "خدا ہی آغاز اور انجام ہے۔" دوسرے لفظوں میں انسان کو لازماً الوہی کام کی بنیاد پر انسانی کام انجام دینا چاہیے۔ ایک بار جب یسوع نے وہ سب کچھ کہہ دیا تھا جو اسے کہنے کی ضرورت تھی اور زمین پر اپنا کام ختم کر دیا، تو اس نے انسان کو چھوڑ دیا۔ اس کے بعد تمام لوگوں نے، کام کرتے ہوئے، اس کے کلام میں بیان کردہ اصولوں کے مطابق ایسا کیا اور ان سچائیوں کے مطابق عمل کیا جن کی بات اس نے کی تھی۔ ان سب لوگوں نے یسوع کے لیے کام کیا۔ اگر یہ کام اکیلے یسوع ہی کررہا ہوتا، چاہے وہ کتنا ہی کلام کیوں نہ کہتا، لوگوں کے پاس اس کے کلام سے جُڑنے کا کوئی ذریعہ نہ ہوتا، کیونکہ وہ الوہیت میں کام کر رہا تھا اور صرف الوہیت کے الفاظ بول سکتا تھا، اور وہ چیزوں کی اس حد تک وضاحت نہیں کر سکتا تھا جس تک عام لوگ اس کے الفاظ کا ادراک کر سکتے۔ اور اسی طرح اسے اپنے بعد آنے والے رسولوں اور نبیوں سے بھی اپنے کام کی تکمیل میں مدد لینا پڑی۔ یہ مجسم خدا کے اپنا کام کرنے کا اصول ہے – بولنے اور کام کرنے کے لیے مجسم پیکر کا استعمال کرتے ہوئے تاکہ الوہیت کا کام مکمل ہو سکے، اور پھر چند یا شاید اس سے زیادہ لوگوں کو اس کے کام کی تکمیل کے لیے، خدا کی پسند کے مطابق، استعمال کیا جائے۔ یعنی خدا اپنی پسند کے مطابق لوگوں کو بنی نوع انسان میں نگہبانی اور سیرابی کا کام کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے تاکہ خدا کے منتخب لوگ سچ کی حقیقت میں داخل ہو سکیں۔

اگر، جب وہ جسم میں آیا تو خدا نے صرف الوہیت کا کام کیا ہوتا اور اس کی پسند کے مطابق اس کے ساتھ مل کر کام کرنے والے کوئی لوگ نہ ہو تے، تو انسان خدا کی مرضی سمجھنے یا خدا کے ساتھ جُڑنے سے قاصر ہوتا۔ خدا کو یہ کام مکمل کرنے، کلیساؤں کی نگرانی اور ان کی نگہبانی کرنے کے لیے لازماً ان عام لوگوں کا استعمال کرنا چاہیے جو اس کی پسند کے مطابق ہوں، تاکہ وہ سطح حاصل کی جا سکے جس کا تصور کرنے کی انسان کی فہم کے طریقے، اس کا دماغ، صلاحیت رکھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، خدا اپنی الوہیت کے اندر کیے جانے والے کام کو "سمجھانے" کے لیے، الوہی زبان کو انسانی زبان میں تبدیل کرنے کے لیے اپنی پسند کے مطابق لوگوں کی کم تعداد کا استعمال کرتا ہے تاکہ اسے کھولا جا سکے - تاکہ لوگوں کو اس کا ادراک ہو سکے اور اسے سمجھ سکیں۔ اگر خدا نے ایسا نہ کیا تو کوئی بھی خدا کی الوہی زبان نہیں سمجھ سکے گا کیونکہ خدا کی پسند کے مطابق لوگ آخرکار، ایک چھوٹی سی اقلیت ہیں اور انسان کی سمجھنے کی صلاحیت کمزور ہے۔ اسی لیے خدا اس طریقہ کار کا انتخاب صرف اس وقت کرتا ہے جب وہ مجسم ہیئت میں کام کرتا ہے۔ اگر صرف الوہی کام ہوتا تو انسان کے پاس خدا کو جاننے یا اس کے ساتھ مشغول ہونے کا کوئی طریقہ نہیں ہوتا، کیونکہ انسان خدا کی زبان نہیں سمجھتا۔ انسان اس زبان کو صرف خدا کے پسندیدہ لوگوں کی معاونت سے ہی سمجھ سکتا ہے، جو اس کے الفاظ کو واضح کرتے ہیں۔ تاہم اگر نوع انسانی کے اندر صرف ایسے لوگ کام کر رہے ہوتے، تو وہ صرف انسان کی معمول کی زندگی کو ہی برقرار رکھ سکتے تھے۔ یہ انسان کے مزاج کو تبدیل نہیں کر سکتا تھا۔ خدا کے کام کا کوئی نیا نقطہ آغاز نہیں ہو سکتا تھا؛ وہاں صرف وہی پرانے گیت ہوں گے، وہی پرانا فرسودہ کلام ہو گا۔ صرف مجسم خدا کے واسطے سے ہی، وہ تجسیم کے عرصے کے دوران وہ سب کچھ کہتا ہے جس کے کہنے کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ سب کچھ کرتا ہے جس کے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے بعد لوگ اس کے کلام کے مطابق کام اور عملی تجربہ کرتے ہیں، صرف اسی طرح ان کا مزاج تبدیل ہونے کے لائق ہو گا، اور صرف اسی طرح وہ وقت کے ساتھ چل سکیں گے۔ جو شخص الوہیت کے اندر کام کرتا ہے وہ خدا کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ بنی نوع انسان کے اندر کام کرنے والے خدا کے زیر استعمال لوگ ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مجسم خدا بنیادی طور پر خدا کے زیر استعمال لوگوں سے مختلف ہے۔ مجسم خدا الوہیت کا کام کرنے کے قابل ہے جبکہ خدا کے زیر استعمال لوگ اس قابل نہیں ہیں۔ ہر دور کے آغاز میں خدا کی روح بذات خود بات کرتی ہے اور انسان کو ایک نئی شروعات میں لانے کے لیے نئے دور کا آغاز کرتی ہے۔ جب اس نے بولنا ختم کر دیا تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کا کام اس کی الوہیت کے اندر پورا ہو چکا ہے۔ اس کے بعد، لوگ سب ان لوگوں کی قیادت کی پیروی کرتے ہیں جنھیں خدا نے اپنی زندگی کے تجربے میں داخل ہونے کے لیے استعمال کیا تھا۔ اسی علامت کے مطابق، یہ وہ مرحلہ بھی ہے جس میں خدا انسان کو نئے دور میں لاتا ہے اور لوگوں کو ایک نیا نقطہ آغاز دیتا ہے – اس وقت جسم میں خدا کا کام اختتام پذیر ہوتا ہے۔

خدا اپنی عام نوع انسانی کو کامل کرنے کے لیے زمین پر نہیں آتا اور نہ ہی عام بنی نوع انسان کا کام انجام دینے کے لیے۔ وہ صرف عام بنی نوع انسان میں الوہیت کا کام کرنے آتا ہے۔ خدا عام بنی نوع انسان کے بارے میں جو بات کرتا ہے وہ اس طرح نہیں ہے جیسا کہ لوگ تصور کرتے ہیں۔ انسان "عام بنی نوع انسان" کی تشریح جس حیثیت سے کرتا ہے اس میں بیوی، یا شوہر اور بیٹے اور بیٹیاں ہوتے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایک عام شخص ہے؛ تاہم خدا اسے اس طرح نہیں دیکھتا۔ وہ عام بنی نوع انسان کو عام انسانی خیالات، عام انسانی زندگیوں اور عام لوگوں سے پیدا ہونے والوں کے طور پر دیکھتا ہے۔ لیکن اس کی عمومیت میں بیوی یا شوہر اور بچے اس طرح شامل نہیں ہیں جس طرح کوئی انسان عمومیت کے بارے میں بات کرتا ہے۔ یعنی انسان اس عام انسانیت کو جس کے بارے میں خدا بات کرتا ہے اسے انسانیت کی عدم موجودگی سمجھے گا، جو جذبات سے تقریباً محروم اور بظاہر جسمانی ضروریات سے عاری ہو گی، بالکل یسوع کی طرح، جو صرف بیرونی طور پر ایک عام شخص تھا اورجس نے ایک عام فرد کی شکل اختیار کی تھی، لیکن خلاصہ یہ ہے کہ اس میں وہ سب کچھ کُلی طور پر موجود نہیں تھا جو ایک عام شخص کے پاس ہونا چاہیے۔ اس سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ مجسم خدا کا جوہر عام انسانیت کا مکمل طور پر احاطہ نہیں کرتا، بلکہ ان چیزوں کا صرف ایک حصہ ہے جو لوگوں کے پاس ہونی چاہییں، تاکہ عام انسانی زندگی کے معمولات کی معاونت کی جا سکے اور استدلال کی عام انسانی طاقتوں کو برقرار رکھا جا سکے۔ لیکن ان چیزوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے جسے انسان عام انسانیت سمجھتا ہے۔ وہ وہی ہیں جو مجسم خدا کے پاس ہونی چاہییں۔ تاہم ایسے لوگ بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ مجسم خدا کو صرف اسی صورت میں عمومی انسانیت کا حامل کہا جا سکتا ہے جب اس کی بیوی، بیٹے اور بیٹیاں ہوں، ایک خاندان ہو؛ وہ کہتے ہیں کہ ان چیزوں کے بغیر وہ عام آدمی نہیں ہے۔ پھر میں تجھ سے پوچھتا ہوں کہ "کیا خدا کی بیوی ہے؟ کیا خدا کے لیے ایک شوہر کا ہونا ممکن ہے؟ کیا خدا کی اولاد ہو سکتی ہے؟" کیا یہ مغالطے نہیں ہیں؟ اس کے باوجود مجسم خدا چٹانوں کے درمیان والی دراڑ سے اچھل کر باہر نہیں آ سکتا یا آسمان سے نیچے نہیں گر سکتا۔ وہ فقط ایک عام انسانی خاندان میں پیدا ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے والدین اور بہنیں ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو مجسم خدا کی عمومی انسانیت کے پاس ہونی چاہییں۔ یسوع کے ساتھ بھی ایسا ہی تھا؛ یسوع کا ایک باپ اور ماں، بہنیں اور بھائی تھے اور یہ سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ لیکن اگر اس کی بیوی اور بیٹے اور بیٹیاں ہوتیں تو پھر اس کی وہ عمومی انسانیت نہ ہوتی جس کا خدا نے مجسم خدا کے لیے حامل ہونے ارادہ کیا تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ الوہیت کی جانب سے کام نہیں کر سکتا تھا۔ وہ الوہیت کا کام کرنے کے قابل صرف اسی وجہ سے تھا کہ ایک عام گھرانے میں عام لوگوں میں پیدا ہونے کے باوجود اس کے کوئی بیوی یا بچے نہیں تھے۔ اسے مزید واضح کرنے کے لیے، خدا جسے ایک عام شخص سمجھتا ہے وہ ایک عام خاندان میں پیدا ہونے والا شخص ہے۔ صرف ایسا شخص ہی الوہی کام کرنے کا اہل ہے۔ دوسری طرف، اگر اس شخص کی بیوی، بچے یا شوہر ہوتا تو وہ شخص الوہی کام نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وہ صرف اس عام انسانیت کا حامل ہوتا جس کی انسان ضرورت رکھتا ہے لیکن اس عمومی انسانیت کی نہیں جس کی خدا کو ضرورت ہے۔ جو خدا سمجھتا ہے، اور جو لوگ سمجھتے ہیں، وہ اکثر بہت زیادہ مختلف، بہت زہادہ دور ہوتے ہیں۔ خدا کے کام کے اس مرحلے میں بہت کچھ ہے جو لوگوں کے تصورات کے خلاف ہے اور بہت مختلف ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ خدا کے کام کا یہ مرحلہ مکمل طور پر الوہیت پر مشتمل ہے جو کہ عملی طور پر کام کر رہی ہے، جس میں انسانیت معاون کردار ادا کر رہی ہے۔ کیونکہ خدا زمین پر اپنا کام خود انجام دینے کے لیے آیا ہے، بجائے اس کے کہ انسان کو اس میں ہاتھ ڈالنے کی اجازت دے، وہ اپنے آپ کو جسم میں (ایک نامکمل، عام شخص کی طرح) اپنا کام کرنے کے لیے مجسم کرتا ہے۔ وہ یہ تجسیم بنی نوع انسان کو ایک نیا دور پیش کرنے، اپنے کام میں اگلے مرحلے کے بارے میں بنی نوع انسان کو بتانے اور لوگوں سے اپنے کلام میں بیان کردہ راستے کے مطابق عمل کرنے کے لیے کہتا ہے۔ اس طرح جسم میں خدا کا کام ختم ہوتا ہے؛ وہ بنی نوع انسان سے رخصت ہونے والا ہے، اب وہ عام انسان کے جسم میں نہیں رہے گا، بلکہ انسان سے دور ہو کر اپنے کام کے کسی اور حصے کے لیے آگے بڑھنے والا ہے۔ پھر اپنی پسند کے لوگوں کو استعمال کرتے ہوئے اس گروہ کے لوگوں میں، لیکن ان کی اپنی انسانیت میں، زمین پر اپنا کام جاری رکھتا ہے۔

مجسم خدا ہمیشہ انسان کے ساتھ نہیں رہ سکتا کیونکہ خدا کو اور بہت سے کام کرنے ہیں۔ اسے جسم کا پابند نہیں بنایا جا سکتا؛ اگرچہ وہ جسم کی شبیہ میں یہ کام کرتا ہے لیکن اسے جسم چھوڑنا ہے، وہ کام کرنے کے لیے جو اسے لازماً کرنا چاہیے۔ جب خدا زمین پر آتا ہے تو وہ اس وقت تک انتظار نہیں کرتا جب تک کہ وہ اس حالت تک نہ پہنچ جائے جو ایک عام شخص کو مرنے اور انسانیت چھوڑنے سے پہلے حاصل کرنی چاہیے۔ قطع نظر اس کے کہ اس کے جسم کی عمر کتنی ہے، جب اس کا کام ختم ہو جاتا ہے تو وہ چلا جاتا ہے اور انسان کو چھوڑ دیتا ہے۔ اس کے لیے عمر جیسی کوئی چیز نہیں ہے، وہ اپنے دنوں کو انسانی عمر کے دورانیے کے مطابق شمار نہیں کرتا؛ اس کی بجائے وہ اپنے کام کے مراحل کے مطابق جسم میں اپنی زندگی ختم کرتا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو یہ محسوس کرتے ہوں کہ خدا کی جسم میں آنے پر لازماً ایک حد تک عمر بڑھنی چاہیے، اسے بالغ ہونا چاہیے، بڑھاپے تک پہنچنا چاہیے اور صرف اس وقت چھوڑ جانا چاہیے جب وہ جسم ناکارہ ہو جائے۔ یہ انسان کا تخیل ہے؛ خدا اس طرح کام نہیں کرتا۔ وہ جسم میں صرف وہ کام کرنے کے لیے آتا ہے جو اسے کرنا ہے، اور وہ والدین کے ہاں پیدا ہونے، بڑے ہونے، خاندان بنانے اور کوئی پیشہ شروع کرنے، بچوں کے پیدا ہونے اور پرورش کرنے یا زندگی کے اتار چڑھاؤ کا تجربہ کرنے والی عام آدمی کی زندگی گزارنے نہیں آتا۔ جب خدا زمین پر آتا ہے تو یہ خدا کی روح ہے جو جسم کا لبادہ اوڑھتی ہے، جسم میں آتی ہے لیکن خدا کسی عام شخص کی طرح زندگی نہیں گزارتا۔ وہ صرف اپنے انتظامی منصوبے میں ایک حصہ پورا کرنے آتا ہے۔ اس کے بعد وہ نوع انسانی کو چھوڑ دے گا۔ جب وہ جسم میں آتا ہے تو خدا کی روح جسم کی عام انسانیت کو کامل نہیں کرتی۔ بلکہ ایک ایسے وقت پر جو خدا نے پہلے سے طے کر رکھا ہے، الوہیت براہ راست کام کرنا شروع کر دیتی ہے۔ پھر وہ سب کچھ کرنے کے بعد جو اسے کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے مذہبی فریضے کی مکمل طور پر تکمیل کرنے کے بعد، اس مرحلے میں خدا کی روح کا کام مکمل ہو جاتا ہے، اس وقت مجسم خدا کی زندگی بھی ختم ہو جاتی ہے، اس سے قطع نظر کہ آیا اس کے جسم نے اپنی لمبی طبعی عمر گزار لی ہے۔ یعنی زندگی کے جس مرحلے تک بھی جسم پہنچتا ہے، زمین پر جتنا بھی طویل عرصہ وہ رہتا ہے، ہر چیز کا فیصلہ روح کے کام سے ہوتا ہے۔ اس کا اس چیز سے کوئی تعلق نہیں ہے جسے انسان عمومی انسانیت سمجھتا ہے۔ یسوع کو ایک مثال کے طور پر لو۔ وہ ساڑھے تینتیس سال تک جسم میں رہا۔ انسانی جسم کی عمر کے دورانیے کے لحاظ سے، اسے اس عمر میں مرنا نہیں چاہیے تھا اور اسے چھوڑ کر جانا نہیں چاہیے تھا۔ لیکن یہ خدا کی روح کے لیے کوئی فکر کی بات نہیں تھی۔ اس کا کام ختم ہو رہا تھا، اس وقت جسم ہٹا لیا گیا تھا، جو روح کے ساتھ ہی غائب ہو گیا تھا۔ یہی وہ اصول ہے جس کے مطابق خدا جسم میں کام کرتا ہے۔ چنانچہ سختی سے کہا جائے تو مجسم خدا کی انسانیت بنیادی اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ دوبارہ کہا جاتا ہے کہ وہ زمین پر ایک عام انسان کی زندگی گزارنے نہیں آتا۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ پہلے عام زندگی قائم کرتا اور پھر کام شروع کرتا ہے۔ بلکہ، جب تک کہ وہ ایک عام انسانی خاندان میں پیدا ہوتا ہے، وہ خدائی کام کرنے کے قابل ہوتا ہے، وہ کام جو انسان کے ارادوں سے بے داغ ہوتا ہے، اس میں جسمانی تقاضے نہیں ہوتے، جو یقیناً معاشرے کے طور طریقے اختیار نہیں کرتا یا انسان کے خیالات یا تصورات شامل نہیں کرتا، اور اس کے علاوہ، اس میں زندہ رہنے کے لیے انسان کے فلسفے شامل نہیں ہوتے۔ یہ وہ کام ہے جو مجسم خدا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور یہ اس کی تجسیم کی عملی اہمیت بھی ہے۔ خدا بنیادی طور پر جسم میں اس کام کے ایک مرحلے کی تکمیل کرنے کے لیے آتا ہے جو جسم میں دوسرے معمولی اعمال سے گزرے بغیر کرنے کی ضرورت ہے، اور جہاں تک ایک عام آدمی کے عملی تجربات کا تعلق ہے، اس کے پاس وہ نہیں ہیں۔ خدا کے مجسم پیکر کو جو کام کرنے کی ضرورت ہے اس میں عام انسانی تجربات شامل نہیں ہیں۔ پس خدا یہ کام پورا کرنے کی خاطر جسم میں آتا ہے جس کی اسے جسم میں مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ باقی کسی چیز کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے؛ وہ اتنے سارے معمولی عملوں سے نہیں گزرتا۔ ایک بار جب اس کا کام پورا ہو جاتا ہے تو اس کی تجسیم کی اہمیت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ یہ مرحلہ ختم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کام جو اسے جسم میں کرنے کی ضرورت ہے وہ ختم ہو چکا ہے اور اس کے جسم کے مذہبی فریضے کی تکمیل ہو چکی ہے۔ لیکن وہ غیر معینہ مدت تک جسم میں کام نہیں کر سکتا۔ اسے کام کرنے کے لیے کسی اور جگہ منتقل ہونا پڑتا ہے، جو جسم سے باہر کی کوئی جگہ ہے۔ صرف اسی طرح اس کا کام مکمل طور پر انجام دیا جا سکتا ہے اور مزید اثر کی طرف آگے بڑھ سکتا ہے۔ خدا اپنے اصل منصوبے کے مطابق کام کرتا ہے۔ اسے کیا کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس نے کیا کام ختم کرلیا ہے، وہ اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح واضح طور پر جانتا ہے۔ خدا ہر فرد کو ایک ایسے راستے پر چلنے کی طرف لے جاتا ہے جس کا وہ پہلے ہی تعین کر چکا ہے۔ کوئی بھی اس سے بچ نہیں سکتا۔ خدا کی روح کی ہدایت پر چلنے والے ہی راحت پا سکیں گے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ بعد کے کام میں خدا انسان کی راہنمائی کے لیے جسم میں بات نہ کرے بلکہ انسان کی زندگی کی راہنمائی کرنے والی قابل لمس صورت والی ایک روح ہو۔ تب ہی انسان خدا کو ٹھوس طور پر چھونے، خدا کو دیکھنے اور مزید بہتر، خدا کی مطلوبہ حقیقت میں داخل ہونے کے قابل ہو جائے گا، تاکہ عملی خدا کے ذریعے وہ کامل ہو سکے۔ یہ وہ کام ہے جو خدا پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور جس کا اس نے بہت پہلے منصوبہ بنایا تھا۔ اس سے، تم سب کو وہ راستہ دیکھنا چاییے جو تمھیں اختیار کرنا چاہیے!

سابقہ: سات گرج دار آوازیں – نبوت کر رہی ہیں کہ بادشاہی کی خُوشخبری پوری کائنات میں پھیل جائے گی

اگلا: ایمان میں، حقیقت پر توجہ لازماً مرکوز کرنی چاہیے – مذہبی رسومات میں مشغول رہنا ایمان نہیں ہے

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp