خدا کے مزاج اور اس کے کام سے حاصل ہونے والے نتائج کو کیسے جانیں
سب سے پہلے، آؤ ہم ایک حمدیہ گیت گاتے ہیں: بادشاہی کا ترانہ (I) بادشاہی دنیا پر نازل ہو چکی ہے۔
سنگت: عوام الناس مجھے خوش کرتے ہیں، عوام الناس میری تعریف کرتے ہیں؛ تمام منہ ایک سچے خدا کا نام لیتے ہیں۔ بادشاہی انسانوں کی دنیا پر نازل ہوتی ہے۔
1۔ عوام الناس مجھے خوش کرتے ہیں، عوام الناس میری تعریف کرتے ہیں؛ تمام منہ ایک سچے خدا کا نام لیتے ہیں، سب لوگ میرے اعمال دیکھنے کے لیے اپنی نگاہیں اٹھاتے ہیں۔ بادشاہی انسانوں کی دنیا پر نازل ہوتی ہے، میرا شخص امیر اور فیاض ہے۔ اس پر کون خوش نہیں ہو گا؟ کون خوشی میں نہیں ناچے گا؟ اوہ صہیون! میرا جشن منانے کے لیے اپنا فاتحانہ عَلم اٹھا! میرے مقدس نام کو پھیلانے کے لیے اپنی جیت کا فاتحانہ گیت گا!
2۔ زمین کے کناروں تک تمام تخلیق! اپنے آپ کو پاک کرنے میں جلدی کرو تاکہ تم میرے لیے نذرانہ بنائے جا سکو! آسمانوں پر ستاروں کے جھرمٹ! آسمان میں میری زبردست طاقت کو ظاہر کرنے کے لیے جلدی سے اپنے مقامات پر آؤ! میں زمین پر موجود لوگوں کی آوازوں کو سنتا ہوں، جو گیت میں میرے لیے اپنی لامحدود محبت اور تعظیم کا اظہار کرتے ہیں! اس دن، جب تمام تخلیق دوبارہ زندہ ہو جاتی ہے، میں انسانوں کی دنیا میں اترتا ہوں۔ اس وقت، اس خصوصی موقع پر، تمام پھول بہتات میں کھلتے ہیں، تمام پرندے ایک آواز میں گاتے ہیں، سب چیزیں خوشی سے زور سے دھڑکتی ہیں! بادشاہی کی سلامی کی آواز میں، شیطان کی بادشاہی گر جاتی ہے اور بادشاہی ترانے کی گرج میں فنا ہو جاتی ہے، دوبارہ کبھی نہ اٹھنے کے لیے!
زمین پر کون ہے جو اٹھنے اور مزاحمت کرنے کی ہمت رکھتا ہے؟ جب میں زمین پر اترتا ہوں، میں شعلے لاتا ہوں، غضب لاتا ہوں، ہر قسم کی آفات لاتا ہوں۔ زمینی بادشاہتیں اب میری بادشاہی ہیں! اوپر آسمان میں بادل تیزی سے حرکت کرتے اور موج کی طرح لہراتے ہیں؛ آسمان کے نیچے، جھیلوں اور دریا کی لہروں میں تموج پیدا ہوتا ہے اور وہ خوشی سے ایک ہلچل مچانے والا راگ گاتے ہیں۔ آرام کرنے والے جانور اپنی کھوہ سے نکلتے ہیں، اور تمام لوگ میرے ذریعے اپنی نیند سے بیدار ہوتے ہیں۔ وہ دن آخر آ ہی گیا ہے جس کا لوگوں کے ہجوم کو انتظار تھا! وہ میرے لیے سب سے زیادہ خوبصورت گیت گاتے ہیں!
– میمنے کا پیچھا کرو اور نئے گیت گاﺆ
ہر مرتبہ جب تم یہ گیت گاتے ہو تو تم اس کے بارے میں کیا سوچتے ہو؟ (ہم بہت پرجوش اور سنسنی محسوس کرتے ہیں، اور ہم سوچتے ہیں کہ بادشاہی کا حسن کتنا شاندار ہے، انسان اور خدا کیسے ہمیشہ کے لیے ایک ساتھ ہوں گے)۔ کیا کسی نے اس شکل کے متعلق سوچا ہے جو انسانوں کو خدا کے ساتھ رہنے کے لیے لازمی اختیار کرنی چاہیے؟ تمہارے تصورات میں، خدا کے ساتھ ملنے اور بادشاہی میں آنے والی شاندار زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لیے لوگوں کو لازمی طور پر کیسا ہونا چاہیے؟ (ان کے مزاج کو تبدیل ہونا چاہیے)۔ ان کے مزاج کو تبدیل ہونا چاہیے لیکن کس حد تک؟ ان کے مزاج بدل جانے کے بعد وہ کس طرح کے ہوں گے؟ (وہ مقدس ہو جائیں گے)۔ تقدس کا معیار کیا ہے؟ (تمام خیالات اور تفکرات مسیح کے ساتھ ہم آہنگ ہونے چاہییں)۔ ایسی مطابقت کیسے ظاہر ہوتی ہے؟ (کوئی خدا کی مخالفت یا اس سے بےوفائی نہیں کرتا، اس کے سامنے مکمل طور پر سر تسلیم خم کر سکتا ہے، اور کسی کے دل میں اس کے لیے ڈر کے ساتھ تعظیم موجود ہو)۔ تمہارے کچھ جوابات درست راستے پر ہیں۔ اپنے دلوں کو کھولو اور جو کچھ تم کہنا چاہتے ہو کہو۔ (وہ لوگ جو بادشاہی میں خدا کے ساتھ رہتے ہیں، انھیں اپنے فرائض ادا کرنے چاہییں – وفاداری کے ساتھ – سچائی کی جستجو کرتے ہوئے اور کسی شخص، واقعہ، یا چیز کے باعث پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔ تب ان کے لیے کہ تاریکی کے اثر سے نکلنا، اپنے دلوں کو خدا کی طرف متوجہ کرنا، اور خدا سے ڈرنا اور برائی سے بچنا ممکن ہوتا ہے)۔ (چیزوں کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر خدا کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکتا ہے، اور ہم تاریکی کے اثر سے دور ہو سکتے ہیں۔ کم از کم، ہم وہاں پہنچ سکتے ہیں جہاں شیطان ہمارا مزید استحصال نہیں کر سکتا، اور جہاں ہم کسی بھی بدعنوان مزاج کو ترک کر سکتے ہیں، اور خدا کے آگے سر تسلیم خم کر سکتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ لوگوں کا تاریکی کے اثر سے نکل جانا ضروری ہے۔ جو لوگ تاریکی کے اثر سے نہیں نکل سکتے اور شیطان کے بندھنوں سے نہیں بچ سکتے انھوں نے خدا کی نجات حاصل نہیں کی ہے)۔ (خدا کے ذریعے کامل بنائے جانے کے معیار پر پورا اترنے کے لیے، لوگوں کو اس کے ساتھ یک دل اور یک روش ہونا چاہیے، اور اس کے خلاف مزید مزاحمت نہیں کرنی چاہیے۔ انہیں لازمی طور پر اپنے آپ کو جاننے کے قابل ہونا چاہیے، سچائی پر عمل کرنا چاہیے، خدا کی سمجھ بوجھ حاصل کرنی چاہیے، خدا سے محبت کرنی چاہیے، اور خدا سے ہم آہنگ ہونا چاہیے، بس یہی درکار ہے)۔
لوگوں کے انجام ان کے دلوں میں کتنی اہمیت رکھتے ہیں
ایسا لگتا ہے کہ اس طریقے کے بارے میں جس کی تمہیں پابندی کرنی چاہیے، تمہارے کچھ خیالات ہیں، اور تم نے اس کی کچھ سمجھ بوجھ یا اس کی تفہیم حاصل کر لی ہے۔ تاہم، چاہے تمہارے کہے گئے تمام الفاظ کھوکھلے نکلیں یا حقیقی ہوں، اس کا انحصار تمہارے روزمرہ کے عمل میں تمہاری توجہ پر ہے۔ برسوں کے دوران، تم سب نے سچائی کے ہر پہلو سے، نظریے کے لحاظ سے اور سچائی کے اصل مواد، دونوں کے لحاظ سے، کچھ خاص پھل حاصل کیے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آج کل لوگ سچائی کے لیے جدوجہد کرنے پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں سچائی کے ہر پہلو اور جزو نے یقیناً کچھ لوگوں کے دلوں میں جڑ پکڑ لی ہے۔ تاہم، وہ چیز کیا ہے جس کا مجھے سب سے زیادہ خوف ہے؟ کیا وہ یہ ہے کہ اس حقیقت کے باوجود کہ یہ سچائی کے موضوعات اور یہ نظریات تمہارے دلوں میں جڑ پکڑ چکے ہیں، لیکن وہاں پر ان کا اصل مواد بہت کم ہے۔ جب تمہاری مسائل سے مڈبھیڑ ہوتی ہے اور تمہیں آزمائشوں اور انتخاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو تمہارے لیے ان سچائیوں کی حقیقت کا عملی استعمال کتنا ہو گا؟ کیا یہ مشکلات پر قابو پانے اور آزمائشوں سے نکلنے میں تمہاری مدد کر سکتی ہیں، تاکہ تم خدا کی مرضی کو پورا کر سکو؟ کیا تم اپنی آزمائشوں کے درمیان ثابت قدم رہو گے اور خدا کے لیے واضح گواہی دو گے؟ کیا تم نے کبھی ان معاملات پر غور کیا ہے؟ میں تم سے پوچھتا ہوں: تمہارے دلوں میں، اور تمہارے روزمرہ کے تمام خیالات اور غور و فکر میں، وہ کیا ہے جو تمہارے لیے سب سے زیادہ اہم ہے؟ اس کے بارے میں کیا تم کبھی کسی نتیجے پر پہنچے ہو؟ تمہارے خیال میں تمہارے لیے سب سے اہم کیا ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں، ”یقیناً یہ سچائی پر عمل کرنا ہے،“ جبکہ دوسرے کہتے ہیں، ”یقیناً یہ ہر روز خدا کے کلام کو پڑھنا ہے۔“ کچھ لوگ کہتے ہیں، ”یہ یقیناً ہر روز خدا کے سامنے پیش ہونا اور اُس سے دعا کرنا ہے“ اور پھر کچھ ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں، ”یقیناً یہ روزانہ مجھے اپنا فرض ٹھیک سے ادا کرنا ہے۔“ یہاں تک کہ کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ صرف یہ سوچتے ہیں کہ خدا کو کیسے مطمئن کیا جائے، سب چیزوں میں اس کی اطاعت کیسے کی جائے، اور اس کی مرضی کے مطابق عمل کیسے کیا جائے۔ کیا یہ درست ہے؟ کیا یہی سب کچھ ہے جس کی ضرورت ہے؟ مثال کے طور پر، کچھ کہتے ہیں، ”میں صرف خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہتا ہوں، لیکن جب بھی مجھے کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے، تو میں اس سے قاصر ہوتا ہوں۔“ دوسرے کہتے ہیں، ”میں صرف خُدا کو راضی کرنا چاہتا ہوں، اور اگر صرف ایک بار بھی میں اُسے مطمئن کر سکوں تو یہ ٹھیک ہو گا – لیکن میں اُسے کبھی بھی مطمئن نہیں کر سکتا۔“ کچھ کہتے ہیں، ”میں صرف خدا کی اطاعت کرنا چاہتا ہوں۔ آزمائش کے وقت بغیر کسی شکایت یا درخواست کے میں صرف اس کی ترتیب، اس کی حاکمیت اور انتظامات کی اطاعت کرنا چاہتا ہوں۔ اور پھر بھی میں تقریباً ہر بار اطاعت کرنے میں ناکام رہتا ہوں۔“ اب بھی دوسرے کہتے ہیں، ”جب مجھے فیصلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو میں کبھی بھی سچائی پر عمل کرنے کا انتخاب نہیں کر سکتا۔ میں ہمیشہ جسم کو مطمئن کرنا چاہتا ہوں اور میں اپنی ذاتی، خود غرضانہ خواہشات کو پورا کرنا چاہتا ہوں۔“ اس کی وجہ کیا ہے؟ خدا کی آزمائش آنے سے پہلے، کیا تم پہلے ہی کئی بار اپنے آپ کو مشکل میں ڈال چکے ہو گے، بار بار خود کو آزما اور جانچ چکے ہو گے؟ دیکھو کہ کیا تم حقیقی طور پر خُدا کے سامنے سرِ تسلیم خم کر سکتے ہو یا نہیں اور واقعی اُسے مطمئن کر سکتے ہو یا نہیں، اور کیا تم اس بات کی ضمانت دے سکتے ہو یا نہیں کہ تم اُس کے ساتھ بےوفائی نہیں کرو گے؛ دیکھو کہ کیا تم خود کو مطمئن کرنے اور اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے سے روک سکتے ہو یا نہیں، اور اس کی بجائے کوئی انفرادی انتخاب کیے بغیر، صرف خدا کو مطمئن کر سکتے ہو یا نہیں۔ کیا کوئی ایسا کرتا ہے؟ درحقیقت، صرف ایک ہی حقیقت ہے جو تمہاری آنکھوں کے عین سامنے رکھی گئی ہے، اور یہ وہ ہے جس میں تم میں سے ہر ایک کو سب سے زیادہ دلچسپی ہے اور جسے تم سب سے زیادہ جاننا چاہتے ہو – ہر ایک کے انجام اور منزل کا معاملہ۔ ہو سکتا ہے تمہیں اس کا احساس نہ ہو، لیکن یہ ایسی چیز ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ جب لوگوں کے انجام کی سچائی، انسانیت سے خدا کے وعدے، اور خدا لوگوں کو کس قسم کی منزل تک پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہے، کا معاملہ ہو تو میں جانتا ہوں کہ کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ان موضوعات پر خدا کے کلام کا کئی بار مطالعہ کیا ہے۔ پھر وہ لوگ ہیں جو بار بار اس کا جواب تلاش کر رہے ہیں اور اپنے ذہنوں میں اس پر غور کر رہے ہیں، پھر بھی وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچتے، یا شاید آخر کسی مبہم نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں۔ آخر میں، وہ اس بارے میں غیر یقینی رہتے ہیں کہ کس قسم کا انجام ان کا منتظر ہے۔ اپنے فرائض انجام دیتے وقت، زیادہ تر لوگ درج ذیل سوالات کے قطعی جواب جاننا چاہتے ہیں: ”میرا انجام کیا ہو گا؟ کیا میں اس راستے پر اختتام تک چل سکتا ہوں؟ خدا کا انسانیت کے بارے میں کیا رویہ ہے؟“ کچھ لوگ اس طرح پریشان بھی ہوتے ہیں: ”ماضی میں، میں نے کچھ چیزیں کی ہیں، اور میں نے کچھ باتیں کہی ہیں؛ میں خدا کا نافرمان رہا ہوں، میں نے ایسے اعمال کیے ہیں جن کی وجہ سے خدا کے ساتھ بےوفائی ہوئی ہے، اور، بعض صورتوں میں، میں خُدا کو مطمئن کرنے میں ناکام رہا، میں نے اُس کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی، اور میں نے اُسے مایوس کیا اور میری وجہ سے اس نے مجھ سے نفرت کی اور مجھ سے متنفر ہوا۔ شاید اس لیے میرا انجام نامعلوم ہے۔“ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ زیادہ تر لوگ اپنے ہی انجام کے بارے میں بے چینی محسوس کرتے ہیں۔ کوئی بھی یہ کہنے کی ہمت نہیں کرتا، ”میں سو فیصد یقین کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں بچ جاؤں گا؛ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ میں خدا کی مرضی پوری کر سکتا ہوں۔ میں ایک ایسا شخص ہوں جو خدا کے دل سے ہم آہنگ ہے؛ میں وہ ہوں جس کی خدا تعریف کرتا ہے۔“ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ خدا کی راہ پر چلنا خاصا مشکل ہے، اور یہ کہ سچائی کو عملی جامہ پہنانا سب سے زیادہ مشکل کام ہے۔ نتیجتاً، ایسے لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کی مدد نہیں ہو سکتی، اور وہ ایک اچھا انجام حاصل کرنے کی امیدوں کو پروان چڑھانے کی ہمت نہیں کرتے؛ یا، شاید، وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ خُدا کی مرضی کو پورا نہیں کر سکتے اور اس لیے بچ نہیں سکتے۔ اس وجہ سے وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا کوئی انجام نہیں ہے اور وہ اچھی منزل حاصل نہیں کر سکتے۔ اس سے قطع نظر کہ لوگ بالکل کیسے سوچتے ہیں، ان سب نے اپنے انجام کے بارے میں کئی بار غور کیا ہے۔ اپنے مستقبل اور خدا کے کام ختم کرنے کے بعد انہیں کیا ملے گا، کے بارے میں وہ مسلسل حساب لگا رہے ہیں اور منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ کچھ دُگنی قیمت ادا کرتے ہیں؛ کچھ اپنے خاندان اور اپنی ملازمتیں چھوڑ دیتے ہیں؛ کچھ اپنی شادیاں ترک کر دیتے ہیں؛ کچھ خدا کی خاطر اپنے آپ کو خرچ کرنے کے لیے اپنی ملازمتوں سے مستعفی ہو جاتے ہیں؛ کچھ اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے گھر سے نکل جاتے ہیں؛ کچھ مشکلات کا انتخاب کرتے ہیں، اور انتہائی تلخ اور تھکا دینے والے کاموں کو انجام دینے لگتے ہیں؛ کچھ اپنی دولت اور اپنا سب کچھ وقف کرنے کا انتخاب کرتے ہیں؛ اور پھر بھی دوسرے لوگ سچائی کی جستجو کرنے اور خدا کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تم کس طرح عمل کرنے کا انتخاب کرتے ہو، کیا جس طریقے سے تم عمل کرتے ہو وہ اہم ہے یا نہیں؟ (نہیں، یہ نہیں ہے)۔ تو پھر ہم اس ”غیر اہم ہونے“ کی وضاحت کیسے کریں؟ اگر عمل کرنے کا طریقہ اہم نہیں ہے تو پھر کیا اہم ہے؟ (ظاہری اچھا سلوک سچائی پر عمل کرنے کا نمائندہ نہیں ہے)۔ (ہر فرد کے خیالات اہم نہیں ہیں؛ یہاں کلید یہ ہے کہ ہم نے سچائی پر عمل کیا ہے یا نہیں، اور کیا ہم خدا سے محبت کرتے ہیں یا نہیں)۔ (مسیح مخالفین اور جھوٹے راہنماؤں کا زوال یہ سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے کہ ظاہری رویہ سب سے اہم چیز نہیں ہے۔ سطحی طور پر، ایسا لگتا ہے کہ وہ بہت کچھ ترک کر چکے ہیں اور قیمت ادا کرنے کے لیے آمادہ نظر آتے ہیں، لیکن قریب سے معائنہ کرنے پر، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وہ خدا کی بالکل تعظیم نہیں کرتے بلکہ اس کی بجائے سب پہلوؤں میں اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ اہم لمحات میں وہ ہمیشہ شیطان کا ساتھ دیتے ہیں اور خدا کے کام میں مداخلت کرتے ہیں۔ اس طرح، یہاں غور کرنے کی اہم بات یہ ہے کہ وقت آنے پر ہم کس طرف کھڑے ہوتے ہیں، اور چیزوں کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر کیا ہے)۔ تم سب اچھی بات کرتے ہو، اور جب سچائی پر، خدا کے ارادوں، اور خدا انسانیت سے جو مطالبات کرتا ہے، پر عمل کرنے کا وقت آتا ہے تو لگتا ہے کہ تم پہلے سے ہی ایک بنیادی سمجھ بوجھ اور ایک معیار رکھتے ہو۔ یہ کہ تم اس طرح بات کرنے کے قابل ہو، بہت متاثر کن ہے۔ اگرچہ تم جو کہتے ہو اس میں سے کچھ بہت زیادہ درست نہیں ہے، لیکن تم پہلے ہی سچائی کی صحیح وضاحت کرنے کے قریب پہنچ چکے ہو – اور یہ ثابت کرتا ہے کہ تم نے اپنے اردگرد کے لوگوں، واقعات اور اشیا، خدا کی طرف سے ترتیب دیا ہو تمہارا تمام ماحول، اور ہر وہ چیز جو تم دیکھ سکتے ہو، کے بارے میں اپنی اصل سمجھ بوجھ پیدا کر لی ہے۔ یہ ایک ایسی سمجھ بوجھ ہے جو سچائی کے قریب ہے۔ اگرچہ تم نے جو کچھ کہا وہ مکمل طور پر جامع نہیں ہے، اور تمہارے چند الفاظ بہت مناسب نہیں ہیں، لیکن تمہارا فہم پہلے سے ہی سچائی کی حقیقت کے قریب پہنچ چکا ہے۔ تمہیں اس طرح بات کرتے ہوئے سن کر مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔
لوگوں کے عقائد سچائی کی جگہ نہیں لے سکتے
کچھ لوگ مشکلات کو برداشت کرنے کے قابل ہوتے ہیں، قیمت ادا کر سکتے ہیں، ظاہری طور پر بہت مہذب ہوتے ہیں، بہت معزز ہوتے ہیں، اور دوسروں کی تعریف سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کیا تم کہو گے کہ اس قسم کے ظاہری رویے کو سچائی پر عمل کرنا کہا جا سکتا ہے؟ کیا کوئی یہ طے کر سکتا ہے کہ ایسے لوگ خدا کی مرضی پوری کر رہے ہیں؟ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ لوگ بار بار ایسے افراد کو دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خدا کو راضی کر رہے ہیں، سچائی پر عمل کرنے کے راستے پر چل رہے ہیں اور خدا کے راستے پر چل رہے ہیں؟ کچھ لوگ ایسا کیوں سوچتے ہیں؟ اس کی صرف ایک ہی وضاحت ہے۔ وہ وضاحت کیا ہے؟ یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کے لیے، بعض سوالات – جیسے کہ سچائی پر عمل کرنے کا کیا مطلب ہے، خدا کو مطمئن کرنے کا کیا مطلب ہے، اور سچائی کی حقیقت کو حقیقی طور پر حاصل کرنے کا کیا مطلب ہے – بہت واضح نہیں ہیں۔ اس طرح بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اکثر ان لوگوں کے دھوکے میں آ جاتے ہیں جو ظاہری طور پر روحانی، معزز، بلند پایہ اور عظیم نظر آتے ہیں۔ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو فصاحت و بلاغت سے لفظوں اور عقائد کی بات کر سکتے ہیں اور جن کا قول و فعل قابل ستائش معلوم ہوتا ہے، ان کے فریب میں مبتلا افراد نے کبھی ان کے اعمال کے جوہر، ان کے اعمال کے پیچھے اصول یا ان کے مقاصد کی طرف نہیں دیکھا۔ مزید یہ کہ، انہوں نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ آیا یہ لوگ واقعی خدا کے فرمانبردار ہیں یا نہیں، اور نہ ہی انہوں نے کبھی یہ طے کیا ہے کہ آیا یہ لوگ حقیقی طور پر خدا سے ڈرتے ہیں اور برائی سے بچتے ہیں یا نہیں۔ انہوں نے کبھی ان لوگوں کی انسانیت کے جوہر کو نہیں پہچانا۔ بلکہ ان سے شناسائی کے پہلے مرحلے سے شروع کرتے ہوئے، وہ آہستہ آہستہ ان لوگوں کی تعریف اور تعظیم کرنے لگتے ہیں، اور آخر کار یہ لوگ ان کے دیوتا بن جاتے ہیں۔ مزید برآں، کچھ لوگوں کے ذہنوں میں، وہ بت جن کی وہ پوجا کرتے ہیں – اور جن پر وہ یقین رکھتے ہیں وہ اپنے خاندان اور ملازمتوں کو چھوڑ سکتے ہیں، اور جو سطحی طور پر قیمت ادا کرنے کے قابل نظر آتے ہیں – ایسے لوگ ہیں جو واقعی خدا کو مطمئن کر رہے ہیں اور جو واقعی اچھے انجام اور اچھی منزلیں حاصل کر سکتے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ وہ دیوتا ہیں جن کی خدا تعریف کرتا ہے۔ ان کے ایسی بات پر یقین کرنے کی کیا وجہ ہے؟ اس مسئلے کا جوہر کیا ہے؟ اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں؟ آؤ پہلے ہم اس کے جوہر پر بات کرتے ہیں۔
بنیادی طور پر، لوگوں کے نقطہ نظر سے متعلق یہ مسائل، ان کے عمل کرنے کے طریقے، وہ عمل کے کون سے اصولوں کو اختیار کرنے کا انتخاب کرتے ہیں، اور ان میں سے ہر ایک کس پر توجہ مرکوز کرتا ہے، ان کا ان تقاضوں سے کوئی تعلق نہیں ہے جو خدا بنی نوع انسان سے کرتا ہے۔ خواہ لوگ سطحی معاملات پر توجہ مرکوز کریں یا گہرے مسائل پر، یا لفظوں اور عقائد یا حقیقت پر، وہ اس چیز پر عمل نہیں کرتے جس پر انہیں سب سے زیادہ عمل کرنا چاہیے، اور نہ ہی وہ یہ جانتے ہیں کہ انھیں سب سے زیادہ کس بات کوجاننا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ سچ کو بالکل پسند نہیں کرتے ہیں؛ اس طرح، وہ خدا کے کلام میں پائے جانے والے عمل کرنے کے اصولوں کو تلاش کرنے اور ان پر عمل کرنے میں وقت لگانے اور محنت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس کی بجائے، وہ مختصر راستے استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، اس بات کا خلاصہ کرتے ہیں کہ وہ کیا سمجھتے اور جانتے ہیں کہ اچھا عمل اور اچھا برتاؤ کیا ہوتا ہے؛ یہ خلاصہ پھر جستجو کرنے کے لیے ان کا اپنا مقصد بن جاتا ہے جس کو وہ عمل کرنے کے لیے سچائی سمجھ لیتے ہیں۔ اس کا براہِ راست نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ سچائی پر عمل کرنے کے لیے انسانی حسن سلوک کو ایک متبادل کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جس سے ان کی خدا کی خوشامد کرنے کی خواہش بھی پوری ہوجاتی ہے۔ اس سے انہیں سچائی کا مقابلہ کرنے کے لیے سرمایہ ملتا ہے، جسے وہ خدا سے مقابلہ اور استدلال کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ اسی وقت، لوگ بے ایمانی کے ساتھ خدا کو بھی ایک طرف رکھ دیتے ہیں، اس کی جگہ ان بتوں کو رکھ لیتے ہیں جن کی وہ تعریف کرتے ہیں۔ اس کی ایک ہی بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے لوگ اس طرح کے جاہلانہ اعمال اور نقطہ نظر یا یک طرفہ خیالات اور طرز عمل کا شکار ہو جاتے ہیں – اور آج میں تمہیں اس کے بارے میں بتاؤں گا: اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ لوگ خدا کی پیروی کر سکتے ہیں، روزانہ اس سے دعا کر سکتے ہیں، اور ہر روز اس کا کلام پڑھ سکتے ہیں، لیکن وہ حقیقت میں اس کی مرضی کو نہیں سمجھتے۔ یہیں مسئلے کی جڑ ہے۔ اگر کوئی خدا کی مرضی کو سمجھتا ہو اور جانتا ہو کہ وہ کیا پسند کرتا ہے، کیا ناپسند کرتا ہے، کیا چاہتا ہے، وہ کس چیز کو مسترد کرتا ہے، وہ کس قسم کے شخص سے محبت کرتا ہے، وہ کس قسم کے شخص کو ناپسند کرتا ہے، وہ لوگوں سے مطالبہ کرتے وقت کس قسم کا معیار استعمال کرتا ہے، اور وہ ان کو کامل بنانے کے لیے کیسا طریقہ اختیار کرتا ہے، تو پھر کیا وہ شخص اب بھی اپنی ذاتی آراء رکھ سکتا ہے؟ کیا اس طرح کے لوگ صرف جا کر کسی اور کی عبادت کر سکتے ہیں؟ کیا ایک عام انسان ان کا دیوتا بن سکتا ہے؟ جو لوگ خدا کی مرضی کو سمجھتے ہیں وہ اس سے قدرے زیادہ عقلی نقطہ نظر کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ کسی بدعنوان شخص کو من مانے طور پر دیوتا نہیں بنائیں گے، اور نہ ہی وہ سچائی پر عمل کرنے کے راستے پر چلتے ہوئے یہ مانیں گے کہ چند سادہ ضابطوں یا اصولوں پر آنکھیں بند کر کے چلنا سچ پر عمل کرنے کے مترادف ہے۔
اس معیار کے بارے میں بہت سی آراء ہیں جس کے ذریعے خدا لوگوں کے انجام کا تعین کرتا ہے
آؤ اس موضوع کی طرف واپس آتے ہیں اور انجام کے معاملے پر بات جاری رکھتے ہیں۔
یہ دیکھتے ہوئے کہ ہر شخص جس چیز کے متعلق فکرمند ہے وہ اس کا اپنا انجام ہے، کیا تم جانتے ہو کہ خدا اس انجام کا تعین کیسے کرتا ہے؟ خدا کس طریقے سے کسی کے انجام کا تعین کرتا ہے؟ مزید یہ کہ، وہ اس کا تعین کرنے کے لیے کس قسم کا معیار استعمال کرتا ہے؟ جب کسی شخص کا انجام ابھی طے ہونا باقی ہو تو خدا اسے ظاہر کرنے کے لیے کیا کرتا ہے؟ کیا کسی کو معلوم ہے؟ جیسا کہ میں نے ایک لمحہ پہلے کہا، کچھ ایسے ہیں جنہوں نے لوگوں کے انجام، ان زمروں کے متعلق جن میں ان انجام کو تقسیم کیا گیا ہے، اور ان مختلف قسم کے انجام کے بارے میں جو مختلف قسم کے لوگوں کے منتظر ہیں، سراغ تلاش کرنے کی کوشش میں پہلے ہی خدا کے کلام پر تحقیق کرنے میں کافی وقت صرف کیا ہے۔ وہ یہ جاننے کی بھی امید کرتے ہیں کہ خدا کا کلام لوگوں کے انجام کا تعین کس طرح کرتا ہے، وہ کس قسم کا معیار استعمال کرتا ہے، اور وہ بالکل کس طرح کسی شخص کے انجام کا تعین کرتا ہے۔ تاہم، آخر میں، یہ لوگ کبھی بھی کوئی جواب تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے ہیں۔ درحقیقت، خدا کے کلام میں اس معاملے پر بہت کم کہا گیا ہے۔ یہ کیوں ہے؟ جب تک لوگوں کے انجام سامنے آنا باقی ہیں، خدا کسی کو یہ نہیں بتانا چاہتا کہ آخر میں کیا ہونے والا ہے اور نہ ہی وہ کسی کو وقت سے پہلے اس کی منزل کے بارے میں اطلاع دینا چاہتا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے انسانیت کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ یہاں اور اب، میں تمہیں صرف اس طریقے کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جس سے خدا لوگوں کے انجام کا تعین کرتا ہے، ان اصولوں کے بارے میں جو وہ ان کے انجام کا تعین کرنے اور ان انجام کو ظاہر کرنے کے لیے اپنے کام میں استعمال کرتا ہے، اور اس معیار کے بارے میں جو وہ اس بات کا تعین کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے کہ آیا کوئی زندہ رہ سکتا ہے یا نہیں۔ کیا یہ وہ سوالات نہیں ہیں جن کے متعلق تم سب سے زیادہ فکر مند ہو؟ تو پھر، لوگ کیسے یقین کرتے ہیں کہ خدا لوگوں کے انجام کا تعین کرتا ہے؟ تم نے ابھی اس کے کچھ حصے کا ذکر کیا: تم میں سے کچھ نے کہا کہ اس کا تعلق کسی کے اپنے فرائض کو وفاداری سے انجام دینے اور خدا کے لیے خرچ کرنے سے ہے؛ بعض نے کہا کہ یہ خدا کے آگے سر تسلیم خم کرنے اور اسے راضی کرنے کے بارے میں ہے؛ بعض نے کہا کہ ایک عنصر خدا کی ترتیب کے مطابق ہونے پر ہے؛ اور کچھ نے کہا کہ غیر نمایاں رہنا کلید ہے۔۔۔۔ جب تم ان سچائیوں پر عمل کرتے ہو، اور جب تم ان اصولوں کے مطابق عمل کرتے ہو جنہیں تم درست سمجھتے ہو، تو کیا تم جانتے ہو کہ خدا کیا سوچتا ہے؟ کیا تم نے کبھی غور کیا ہے کہ اس طرح جاری رکھنا اس کی مرضی کو پورا کر رہا ہے یا نہیں؟ کیا یہ اس کے معیار پر پورا اترتا ہے؟ کیا یہ اس کے مطالبات کو پورا کرتا ہے؟ مجھے یقین ہے کہ زیادہ تر لوگ واقعی ان سوالات پر زیادہ غور نہیں کرتے۔ وہ صرف مشینی انداز میں خدا کے کلام کے ایک حصے، خطبات کے ایک حصے، یا بعض روحانی شخصیات کے معیارات کا اطلاق کرتے ہیں جن کو وہ دیوتا بنا لیتے ہیں، خود کو یہ اور وہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہی صحیح طریقہ ہے، اس لیے وہ اس پر قائم رہتے ہیں اور وہی کرتے رہتے ہیں چاہے آخر میں کچھ بھی ہو۔ کچھ لوگ سوچتے ہیں، ”میں اتنے سالوں سے ایمان رکھتا ہوں؛ میں نے ہمیشہ اسی طرح عمل کیا ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں نے واقعی خدا کو مطمئن کر لیا ہے، اور مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ میں نے اس سے بہت کچھ حاصل کر لیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دوران میں نے بہت سی سچائیوں کو سمجھ لیا ہے نیز بہت سی چیزیں جو میں پہلے نہیں سمجھتا تھا۔ خاص طور پر، میرے بہت سے خیالات اور نظریات بدل چکے ہیں، میری زندگی کی اقدار بہت زیادہ بدل گئی ہیں، اور اب مجھے اس دنیا کی بہت اچھی سمجھ بوجھ ہے۔“ ایسے لوگ یقین رکھتے ہیں کہ یہ ایک صلہ ہے، اور یہ انسانیت کے لیے خدا کے کام کا حتمی نتیجہ ہے۔ تمہاری رائے میں، ان معیارات اور تمہارے تمام طریقوں کو ایک ساتھ لے کر، کیا تم خدا کی مرضی کو پورا کر رہے ہو؟ تم میں سے کچھ پورے یقین کے ساتھ کہیں گے، ”یقینا! ہم خدا کے کلام کے مطابق عمل کر رہے ہیں؛ ہم اس کے مطابق عمل کر رہے ہیں جس کی برتر و بالا نے منادی کی ہے اور بتایا ہے۔ ہم ہمیشہ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اور خدا کی مسلسل پیروی کر رہے ہیں، اور ہم نے اسے کبھی نہیں چھوڑا ہے۔ اس لیے ہم پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم خدا کو مطمئن کر رہے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ہم اس کے ارادوں کو کتنا ہی سمجھتے ہوں، اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ہم اس کے کلام کا کتنا ہی ادراک رکھتے ہوں، ہم ہمیشہ خدا کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی کوشش کے راستے پر گامزن رہے ہیں۔ جب تک ہم صحیح طریقے سے کام کرتے ہیں، اور صحیح طریقے سے عمل کرتے ہیں، تب تک ہم صحیح نتیجہ حاصل کرنے کے پابند ہیں۔“ تم اس نقطہ نظر کے بارے میں کیا سوچتے ہو؟ کیا یہ درست ہے؟ کچھ ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو کہتے ہیں، ”میں نے ان چیزوں کے بارے میں پہلے کبھی نہیں سوچا تھا۔ میں صرف یہ سوچتا ہوں کہ اگر میں اپنا فرض ادا کرتا رہوں اور خدا کے کلام کے مطابق عمل کرتا رہوں تو میں بچ سکتا ہوں۔ میں نے کبھی اس سوال پر غور ہی نہیں کیا کہ کیا میں خدا کے دل کو مطمئن کر سکتا ہوں، اور نہ ہی میں نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ آیا میں اس کے مقرر کردہ معیار پر پورا اتر رہا ہوں۔ چونکہ خدا نے مجھے کبھی نہیں بتایا ہے اور نہ ہی مجھے کوئی واضح ہدایات فراہم کی ہیں، اس لیے مجھے یقین ہے کہ جب تک میں کام کرتا رہوں گا اور رکوں گا نہیں، تب تک خدا راضی ہو گا اور مجھ سے کوئی اضافی مطالبہ نہیں کرنا چاہیے۔“ کیا یہ عقائد درست ہیں؟ جہاں تک میرا تعلق ہے، عمل کرنے کا یہ طریقہ، سوچنے کا یہ طریقہ، اور یہ نقطہ نظر، ان سب میں تصورات کے ساتھ ساتھ تھوڑا سا اندھا پن بھی شامل ہے۔ شاید میرے یہ کہنے سے تم میں سے کچھ کو تھوڑی سی مایوسی ہو، ”اندھا پن“ کے متعلق سوچ رہے ہو؟ اگر یہ اندھا پن ہے تو ہماری نجات اور بقا کی امید بہت چھوٹی اور غیر یقینی ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟ اس طرح کہتے ہوئے کیا تم ہماری حوصلہ شکنی نہیں کر رہے ہو؟ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تم کیا یقین رکھتے ہو، میں جو کچھ کہتا ہوں اور کرتا ہوں اس کا مقصد تمہیں یہ محسوس کروانا نہیں ہے کہ جیسے تمہاری حوصلہ شکنی کی جا رہی ہو۔ بلکہ، ان کا مقصد خدا کے ارادوں کے بارے میں تمہاری سمجھ بوجھ کو بہتر بنانا ہے اور اس بارے میں تمہاری فہم میں اضافہ کرنا ہے کہ وہ کیا سوچ رہا ہے، وہ کیا حاصل کرنا چاہتا ہے، وہ کس قسم کے لوگوں کو پسند کرتا ہے، وہ کس چیز کو ناپسند کرتا ہے، وہ کس چیز سے نفرت کرتا ہے، وہ کس قسم کے شخص کو حاصل کرنا چاہتا ہے، اور وہ کس قسم کے شخص کو حقارت سے مسترد کرتا ہے۔ ان کا مقصد تمہارے ذہنوں کو واضح کرنا ہے اور تمہیں صاف سمجھ بوجھ عطا کرنا ہے کہ تم میں سے ہر ایک کے اعمال اور خیالات خدا کے مطلوبہ معیار سے کس حد تک بھٹک گئے ہیں۔ کیا ان موضوعات پر بات کرنا بہت ضروری ہے؟ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تم نے اتنے عرصے سے ایمان رکھا ہے، اور بہت سی منادی سنی ہے، لیکن یہ بالکل وہی چیزیں ہیں جن کی تم میں سب سے زیادہ کمی ہے۔ اگرچہ تم نے ہر سچائی کو اپنی کاپیوں میں درج کر رکھا ہے، اور کچھ ان چیزوں کو جنہیں تم ذاتی طور پر اہم سمجھتے ہو، یاد کر کے اپنے دلوں میں کندہ کر لی ہیں، اور اگرچہ تم ان چیزوں کو اپنے عمل کے دوران خدا کو راضی کرنے کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہو، انھیں استعمال کرنے کے لیے جب تمہیں خود ان کی ضرورت ہو، ان کو آنے والے مشکل وقت سے گزرنے کے لیے استعمال کرنے کے لیے، یا صرف ان چیزوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے جب تک تم اپنی زندگی بسر کرتے ہو، تو جہاں تک میرا تعلق ہے، قطع نظر اس کے کہ تم یہ کیسے کرتے ہو، اگر تم صرف یہ کر رہے ہو، تو یہ اتنا اہم نہیں ہے۔ تو پھر، بہت اہم کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ جب تم عمل کر رہے ہو، تو تمہیں کافی گہرائی میں مکمل یقین کے ساتھ یہ جاننا چاہیے کہ آیا تم جو کچھ بھی کر رہے ہو – ہر ایک عمل – خدا کی مرضی کے مطابق ہے یا نہیں، اور تمہارے تمام اعمال، تمہارے تمام خیالات، اور جو نتائج اور ہدف تم حاصل کرنا چاہتے ہو، آیا وہ درحقیقت خدا کی مرضی کو پورا کرتے ہیں اور اس کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں یا نہیں، نیز آیا وہ ان کو منظور کرتا ہے یا نہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو بہت اہم ہیں۔
خدا کی راہ پر چلو: خدا سے ڈرو اور برائی سے بچو
ایک قول ہے جس پر تمہیں توجہ دینی چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ قول بہت اہم ہے، کیونکہ میرے لیے، یہ ہر روز بے شمار مرتبہ میرے ذہن میں آتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی میرا کسی سے سامنا ہوتا ہے، جب بھی میں کسی کی کہانی سنتا ہوں، اور جب بھی میں کسی شخص کے تجربے یا خدا پر ایمان رکھنے کی گواہی سنتا ہوں، میں ہمیشہ اس قول کو اپنے دل میں یہ طے کرنے کے لیے استعمال کرتا ہوں کہ آیا یہ فرد اس قسم کا شخص ہے یا نہیں جیسا خدا چاہتا ہے اور اس قسم کا شخص ہے یا نہیں جیسا خدا پسند کرتا ہے۔ تو، پھر: یہ قول کیا ہے؟ اب میں نے تم سب میں بہت اشتیاق پیدا کر دیا ہے۔ جب میں اس قول کو ظاہر کروں گا تو شاید تم مایوسی محسوس کرو گے، کیونکہ کچھ ایسے بھی ہیں جو کئی سالوں سے اس کے متعلق صرف باتیں ہی کر رہے ہیں۔ تاہم، میں نے کبھی بھی اس کے بارے میں محض بات نہیں کی ہے۔ یہ قول میرے دل میں بستا ہے۔ تو، یہ قول کیا ہے؟ وہ یہ ہے: ”خدا کی راہ پر چلو: خدا سے ڈرو اور برائی سے بچو۔“ کیا یہ ایک انتہائی سادہ جملہ نہیں ہے؟ بہر حال، اس کی سادگی کے باوجود، جو لوگ ان الفاظ کی حقیقی معنوں میں گہری سمجھ بوجھ رکھتے ہیں، محسوس کریں گے کہ ان میں بہت وزن ہے، کہ یہ قول کسی کے عمل کے لیے بہت قیمتی ہے، کہ یہ زندگی کی زبان کی ایک سطر ہے جس میں سچائی کی حقیقت ہے، کہ یہ خدا کو راضی کرنے کی کوشش کرنے والوں کے لیے زندگی بھر کے مقصد کی نمائندگی کرتا ہے، اور یہ کہ یہ زندگی بھر کا راستہ ہے جس پر خدا کے ارادوں کا خیال رکھنے والے کو عمل کرنا چاہیے۔ تو، تمہارا کیا خیال ہے: کیا یہ قول سچ نہیں ہے؟ کیا اس کی اتنی اہمیت ہے یا نہیں؟ شاید تم میں سے بھی کچھ لوگ اس قول کے بارے میں سوچ رہے ہوں، اور اس کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہوں، اور شاید تم میں سے کچھ ایسے بھی ہوں جو اس کے بارے میں شکوک تک محسوس کرتے ہوں: کیا یہ قول بہت اہم ہے؟ کیا یہ بہت ضروری ہے؟ کیا اس پر اتنا زور دینا ضروری ہے؟ تم میں سے کچھ ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو اس قول کو زیادہ پسند نہیں کرتے، کیونکہ تم سمجھتے ہو کہ خدا کا راستہ اختیار کرنا اور اسے اس ایک قول میں کشید کرنا بہت زیادہ اختصار ہے۔ خدا کی کہی ہوئی تمام باتوں کو لے کر اس ایک قول میں ان کی تلخیص کرنا – کیا یہ خدا کو بہت زیادہ معمولی بنانا نہیں ہے؟ کیا یہ ایسا ہی ہے؟ یہ ہو سکتا ہے کہ تم میں سے اکثر ان الفاظ کی گہری اہمیت کو پوری طرح سے نہ سمجھتے ہو۔ اگرچہ تم سب نے اس پر توجہ دی ہے، لیکن تم اس قول کو اپنے دلوں میں محفوظ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ہو؛ تم نے اپنے فارغ وقت میں دوبارہ دیکھنے اور غور کرنے کے لیے اسے اپنی کاپی میں لکھ لیا ہے۔ تم میں سے کچھ لوگ اس قول کو یاد کرنے کی زحمت بھی نہیں کریں گے، اسے اچھے استعمال میں لانے کی کوشش کرنا تو اور بھی دور کی بات ہے۔ تاہم، میں اس قول کا ذکر کیوں کرنا چاہتا ہوں؟ تمہارے نقطہ نظر سے قطع نظر اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تم کیا سوچتے ہو، مجھے اس قول کا ذکر کرنا پڑا، کیونکہ یہ اس بات سے بہت زیادہ متعلقہ ہے کہ خدا لوگوں کے انجام کا تعین کیسے کرتا ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اس قول کے بارے میں تمہاری موجودہ سمجھ بوجھ کیا ہے یا تم اس کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو، میں پھر بھی تمہیں یہ بتاؤں گا: اگر لوگ اس قول کے الفاظ پر عمل کر سکیں اور ان کا تجربہ کریں اور خدا سے ڈرنے اور برائی سے بچنے کا معیار حاصل کر لیں تو ان کے بچنے کی ضمانت ہے اور ان کا اچھا انجام ہونا یقینی ہے۔ اگر، تاہم، تو اس قول سے طے شدہ معیار پر پورا نہیں اتر سکتا، تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ تیرا انجام نامعلوم ہے۔ اس طرح، میں تم سے اس قول کے بارے میں تمہاری اپنی ذہنی تیاری کے لیے بات کرتا ہوں، اور تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ خدا تمہاری جانچ کے لیے کس قسم کا معیار استعمال کرتا ہے۔ جیسا کہ میں نے ابھی تمہیں بتایا، اس قول کا خدا کی طرف سے انسانیت کی نجات کے ساتھ نیز اس بات کے ساتھ کہ وہ لوگوں کے انجام کا تعین کیسے کرتا ہے، سے بہت زیادہ تعلق ہے۔ یہ کس طرح سے متعلقہ ہے؟ تم واقعی جاننا چاہو گے، لہذا ہم آج اس کے بارے میں بات کریں گے۔
خدا مختلف آزمائشوں کو یہ آزمانے کے لیے استعمال کرتا ہے کہ آیا لوگ خدا سے ڈرتے اور برائی سے بچتے ہیں یا نہیں
خدا کے کام کے ہر دور میں، وہ لوگوں کو کچھ کلام عطا کرتا ہے اور انہیں کچھ سچائیاں بتاتا ہے۔ یہ سچائیاں اس طریقے کے طور پر کام کرتی ہیں جس پر لوگوں کو عمل کرنا چاہیے، جس طریقے پر انہیں چلنا چاہیے، وہ طریقہ جو انہیں خدا سے ڈرنے اور برائی سے بچنے کے قابل بناتا ہے، اور وہ طریقہ جس پر لوگوں کو اپنی زندگیوں میں اور اپنی زندگی کے سفر میں عمل کرنا اور جس کی پابندی کرنی چاہیے، انہی وجوہات کی بنا پر خدا انسانیت سے ان کلمات کا اظہار کرتا ہے۔ یہ کلام جو خدا کی طرف سے آتا ہے لوگوں کو اس کی پابندی کرنی چاہیے، اور اس کی پابندی کرنا زندگی کو حاصل کرنا ہے۔ اگر کوئی شخص اس کی پابندی نہیں کرتا، اس پر عمل نہیں کرتا، اور اپنی زندگی خدا کے کلام کے مطابق بسر نہیں کرتا، تو یہ شخص سچائی پر عمل نہیں کر رہا ہے۔ مزید برآں، اگر لوگ سچائی پر عمل نہیں کر رہے ہیں، تو وہ خدا سے نہیں ڈر رہے ہیں اور برائی سے نہیں بچ رہے ہیں اور نہ ہی وہ خدا کو راضی کر سکتے ہیں۔ جو لوگ خدا کو راضی کرنے سے قاصر ہیں وہ اس کی طرف سے تعریف حاصل نہیں کر سکتے اور ایسے لوگوں کا کوئی انجام نہیں ہے۔ تو، پھر، اپنے کام کے دوران، خدا کس طرح کسی شخص کے انجام کا تعین کرتا ہے؟ خدا کسی شخص کے انجام کا تعین کرنے کے لیے کون سے طریقے استعمال کرتا ہے؟ شاید تم اس وقت اس پر تھوڑا سے غیر واضح ہو، لیکن جب میں تمہیں اس عمل کے بارے میں بتاؤں گا، تو یہ بالکل واضح ہو جائے گا، کیونکہ تم میں سے بہت سے لوگ خود اس کا تجربہ کر چکے ہیں۔
اپنے کام کے دوران، ابتدا سے ہی، خُدا نے ہر شخص کے لیے آزمائشیں رکھی ہیں – یا تم کہہ سکتے ہو، ہر وہ شخص جو اس کی پیروی کرتا ہے – اور یہ آزمائشیں مختلف انداز میں آتی ہیں۔ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنے خاندانوں کی طرف سے مسترد ہونے کی آزمائش کا تجربہ کیا ہے، ایسے لوگ ہیں جنہوں نے بُرے ماحول کی آزمائش کا تجربہ کیا ہے، ایسے لوگ ہیں جنہوں نے گرفتاری اور تشدد کی آزمائش کا تجربہ کیا ہے، ایسے لوگ ہیں جنہوں نے کچھ انتخاب کرنے کا سامنا کرنے کی آزمائش کا تجربہ کیا ہے، اور ایسے لوگ ہیں جنہوں نے پیسے اور حیثیت کی آزمائشوں کا سامنا کیا ہے۔ عام طور پر، تم میں سے ہر ایک نے ہر طرح کی آزمائشوں کا سامنا کیا ہے۔ خدا اس طرح کام کیوں کرتا ہے؟ وہ سب کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کرتا ہے؟ وہ کس قسم کا نتیجہ تلاش کرتا ہے؟ یہ وہ نکتہ ہے جو میں تم تک پہنچانا چاہتا ہوں: خدا یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ آیا یہ شخص اس قسم کا ہے جو اس سے ڈرتا ہے اور برائی سے بچتا ہے یا نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب خدا تجھے آزما رہا ہے، اور تیرا کسی نہ کسی صورت حال سے سامنا کروا رہا ہے، تو اس کا ارادہ یہ جانچنا ہے کہ آیا تو اس سے ڈرنے والا اور برائی سے بچنے والا شخص ہے یا نہیں۔ اگر کسی کو نذرانے کی حفاظت کا فریضہ درپیش ہو، اور اس فرض کی وجہ سے خدا کے نذرانے کے ساتھ رابطہ ہونا ہو تو کیا تو کہے گا کہ یہ وہ چیز ہے جس کا خدا نے انتظام کیا ہے؟ بلاشبہ یہ ہے! ہر وہ چیز جس کا تو سامنا کرتا ہے ایسی چیز ہے جس کا انتظام خدا نے کیا ہے۔ جب تو اس معاملے کا سامنا کرتا ہے، تو خدا تجھے خفیہ طور پر دیکھے گا، یہ دیکھے گا کہ تو کیا انتخاب کرتا ہے، تو کس طرح عمل کرتا ہے، اور تیرے خیالات کیا ہیں۔ خُدا کو جس چیز کی سب سے زیادہ پرواہ ہے وہ حتمی نتیجہ ہے، کیونکہ یہ وہ نتیجہ ہے جو یہ جانچنے میں اُس کی مدد کرے گا کہ آیا تو اس مخصوص آزمائش میں اُس کے معیار کے مطابق رہا ہے یا نہیں۔ تاہم، جب بھی لوگوں کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے، تو وہ اکثر یہ نہیں سوچتے کہ انہیں اس کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے، خدا ان سے کس معیار پر پورا اترنے کی توقع رکھتا ہے، وہ ان میں کیا دیکھنا چاہتا ہے یا وہ ان سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ جب اس مسئلے کا سامنا ہوتا ہے تو ایسے لوگ محض سوچتے ہیں، ”یہ وہ چیز ہے جس کا میں سامنا کر رہا ہوں؛ مجھے ہوشیار رہنا ہے، لاپرواہ نہیں ہونا ہے! کچھ بھی ہو، یہ خدا کا نذرانہ ہے، اور میں اسے چھو نہیں سکتا۔“ ایسے سادہ لوح خیالات سے لیس لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری کر دی ہیں۔ کیا اس آزمائش کا نتیجہ خدا کو راضی کرے گا یا نہیں؟ آگے بڑھو اور اس کے بارے میں بات کرو۔ (اگر لوگ اپنے دلوں میں خدا کا خوف رکھتے ہیں، تو پھر جب کسی ایسے فرض کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ خدا کے نذرانے کے ساتھ رابطے میں آتے ہیں تو وہ اس بات پر غور کریں گے کہ خدا کے مزاج کو برہم کرنا کتنا آسان ہے، اور اس کی وجہ سے وہ احتیاط سے آگے بڑھنا یقینی بنائیں گے)۔ تمہارا جواب صحیح راستے پر ہے، لیکن یہ ابھی تک وہاں نہیں پہنچا ہے۔ خدا کے راستے پر چلنا سطحی اصولوں پر عمل کرنا نہیں ہے؛ بلکہ، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تجھے کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے، تو سب سے پہلے تُو اسے ایک ایسی صورت حال کے طور پر دیکھتا ہے جو خدا کی طرف سے ترتیب دی گئی ہے، یا ایک ایسی ذمہ داری جو اس نے تجھے سونپی ہے، یا ایک کام جو اس نے تیرے سپرد کیا ہے۔ اس مسئلے کا سامنا کرتے وقت، تجھے اس کو ایک ایسی آزمائش کے طور پر بھی دیکھنا چاہیے جو خدا نے تجھ پر بھیجی ہے۔ جب تجھے یہ مسئلہ درپیش ہو تو تجھے اپنے دل میں ایک معیار ضرور رکھنا چاہیے اور تجھے لازمی یہ سوچنا چاہیے کہ یہ معاملہ خدا کی طرف سے آیا ہے۔ تجھے یہ لازمی سوچنا چاہیے کہ اس سے کیسے اس انداز میں نمٹا جائے کہ تو خدا کا وفادار رہتے ہوئے اپنی ذمہ داری کو پورا کر سکے نیز اسے غصہ دلائے بغیر یا اس کے مزاج کو برہم کیے بغیر تو کس طرح اسے کرے۔ ایک لمحہ پہلے ہم نے نذرانوں کو حفاظت سے رکھنے کے بارے میں بات کی تھی۔ اس معاملے میں نذرانے شامل ہیں، اور اس کا تعلق تیرے فرض اور تیری ذمہ داری سے بھی ہے۔ اس ذمہ داری کو پورا کرنا تیرا فرض ہے۔ تاہم، جب اس مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو کیا کوئی ترغیب ہے؟ ہاں ہے۔ یہ ترغیب کہاں سے آتی ہے؟ یہ ترغیب شیطان کی طرف سے آتی ہے، اور یہ انسانوں کے بُرے، بدعنواں مزاجوں سے بھی آتی ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ ترغیب موجود ہے، اس مسئلے میں یہ گواہی دینا شامل ہے کہ لوگوں کو کھڑا ہونا چاہیے، جو تیری ذمہ داری اور فرض بھی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں، ”یہ اتنا معمولی معاملہ ہے؛ کیا واقعی اس کو اتنا بڑھانا ضروری ہے؟“ یہ زیادہ ضروری نہیں ہو سکتا! یہ اس لیے ہے کہ خدا کے راستے پر چلنے کے لیے، ہم کسی بھی چیز کو جو یا تو ہمارے ساتھ یا ہمارے آس پاس ہوتی ہے، یہاں تک کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بھی، چھوڑ نہیں سکتے؛ چاہے ہمارا خیال ہو کہ ہمیں اس پر توجہ دینی چاہیے یا نہیں، جب تک کوئی معاملہ ہمارے سامنے ہوتا ہے، ہمیں اسے ہرگز نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ سب چیزیں جو رونما ہوتی ہیں انھیں خدا کی طرف سے ہمیں دیے گئے امتحانات کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ چیزوں کو دیکھنے کے اس انداز کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے؟ اگر تو اس قسم کا رویہ رکھتا ہے، تو یہ ایک حقیقت کی تصدیق کرتا ہے: دل کی گہرائی میں، تو خدا سے ڈرتا ہے اور برائی سے بچنے کے لیے تیار ہے۔ اگر تیری یہ خواہش خدا کو راضی کرنے کے لیے ہے تو جس پر تو عمل کرے گا وہ خدا سے ڈرنے اور برائی سے بچنے کے معیار پر پورا اترنے سے دور نہیں ہو گا۔
اکثر ایسے لوگ ہوتے ہیں جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ ایسے معاملات جن پر لوگ زیادہ توجہ نہیں دیتے اور عام طور پر جن کا ذکر نہیں کرتے ہیں وہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جن کا سچائی پر عمل کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ جب صرف اس طرح کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو یہ لوگ اس پر زیادہ غور نہیں کرتے، اور پھر آہستہ آہستہ اسے گزرنے دیتے ہیں۔ درحقیقت، تاہم، یہ معاملہ ایک سبق تھا جس کا تجھے مطالعہ کرنا چاہیے – خدا سے کیسے ڈرنا ہے اور برائی سے کیسے بچنا ہے کے متعلق ایک سبق۔ اس کے علاوہ، جس بارے میں تجھے زیادہ فکر مند ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ جب تجھے یہ معاملہ درپیش ہوتا ہے تو خدا کیا کر رہا ہوتا ہے۔ خدا بالکل تیرے ساتھ ہے، تیرے ہر قول و فعل کا مشاہدہ کر رہا ہے، اور تیرے ہر کام کو اور تیرے خیالات میں جو تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، ان کو دیکھ رہا ہے – یہ خدا کا کام ہے۔ کچھ لوگ پوچھتے ہیں، ”اگر یہ سچ ہے تو پھر میں نے محسوس کیوں نہیں کیا؟“ تو نے اسے محسوس نہیں کیا کیونکہ تو نے اپنے ابتدائی راستے کے طور پر خدا سے ڈرنے اور برائی سے بچنے کے طریقے کی پابندی نہیں کی ہے اس لیے تو اس لطیف کام کو محسوس نہیں کر سکتا جو خدا لوگوں میں کرتا ہے، جو لوگوں کے مختلف خیالات اور اعمال کے مطابق خود کو ظاہر کرتا ہے۔ تو ایک پریشاں دماغ شخص ہے! ایک بڑا معاملہ کیا ہے؟ ایک چھوٹا معاملہ کیا ہے؟ وہ معاملات جن میں خدا کی راہ پر چلنا شامل ہے وہ بڑے یا چھوٹے کے درمیان تقسیم نہیں ہوتے ہیں، یہ سب اہم ہیں – کیا تم اسے قبول کر سکتے ہو؟ (ہم اسے قبول کر سکتے ہیں)۔ روزمرہ کے معاملات کے لحاظ سے، کچھ ایسے ہوتے ہیں جنہیں لوگ بہت بڑا اور اہم سمجھتے ہیں، اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جنہیں چھوٹا اور معمولی سمجھا جاتا ہے۔ لوگ اکثر ان بڑے معاملات کو بہت اہم سمجھتے ہیں، اور وہ سمجھتے ہیں کہ انھیں خدا نے بھیجا ہے۔ تاہم، جب یہ بڑے معاملات ہوتے ہیں، تو لوگوں کی ناپختہ حیثیت اور اپنی کمزور صلاحیت کی وجہ سے، لوگ اکثر خدا کی مرضی کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہوتے، کوئی مکاشفات حاصل نہیں کر سکتے، اور کوئی ایسا حقیقی علم حاصل نہیں کر سکتے جو قیمتی ہو۔ جہاں تک چھوٹے معاملات کا تعلق ہے، تو لوگ انھیں مکمل نظر انداز کر دیتے ہیں اور تھوڑا تھوڑا کر کے انھیں گزرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ اس طرح، لوگوں نے خدا کے سامنے جانچے جانے اور اس کے ذریعے آزمائے جانے کے بہت سے مواقع کھو دیے ہیں۔ اگر تو ہمیشہ لوگوں، واقعات اور اشیا اور ان حالات کو نظر انداز کرتا ہے جن کا انتظام خدا نے تیرے لیے کیا ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر روز، اور یہاں تک کہ ہر لمحے، تو مسلسل خدا کے تجھے کامل بنانے کے ساتھ ساتھ اس کی راہنمائی کو بھی مسترد کر رہا ہے۔ خدا جب بھی تیرے لیے کسی صورت حال کا انتظام کرتا ہے تو وہ چھپ کر دیکھ رہا ہوتا ہے، تیرے دل کو دیکھ رہا ہوتا ہے، تیرے خیالات اور غور و فکر کا مشاہدہ کررہا ہوتا ہے، یہ دیکھ رہا ہوتا ہے کہ تو کیسے سوچتا ہے، اور یہ دیکھنے کا منتظر ہوتا ہے کہ تو کیسے عمل کرے گا۔ اگر تو ایک لاپرواہ شخص ہے – ایسا جو کبھی بھی خدا کے راستے، اس کے کلام یا سچائی کے بارے میں سنجیدہ نہیں رہا ہے – تو پھر تُو اس بات کو ذہن میں نہیں رکھے گا یا اس پر توجہ نہیں دے گا کہ خدا کیا مکمل کرنا چاہتا ہے یا جب اس نے تیرے لیے ایک خاص ماحول کا انتظام کیا تو اسے تجھ سے کون سے تقاضے پورے کرنے کی توقع تھی۔ نہ ہی تجھے یہ معلوم ہو گا کہ تیرے سامنے آنے والے لوگوں، واقعات اور اشیا کا سچائی یا خدا کی مرضی سے کیا تعلق ہے۔ جب تجھے بار بار اس طرح کے حالات اور بار بار آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور خدا تجھ میں کوئی نتائج نہیں دیکھتا ہے، تو وہ کیسے آگے بڑھے گا؟ بار بار آزمائشوں کا سامنا کرنے کے بعد، تو نے اپنے دل میں خدا کی مدح نہیں کی، اور نہ ہی تو نے وہ حالات دیکھے ہیں جو خدا نے تیرے لیے ترتیب دیے ہیں: خدا کی طرف سے آزمائشیں اور امتحانات۔ اس کی بجائے، یکے بعد دیگرے، تو نے ان مواقع کو مسترد کر دیا جو خدا نے تجھے عطا کیے، اور انھیں بار بار ضائع ہونے دیا ہے۔ کیا یہ انتہائی نافرمانی نہیں ہے جس کا مظاہرہ لوگ کرتے ہیں؟ (یہ ہے)۔ کیا اس کی وجہ سے خدا تکلیف محسوس کرے گا؟ (وہ کرے گا)۔ غلط، خدا تکلیف محسوس نہیں کرے گا! میری ایسی بات سن کر تمہیں ایک بار پھر جھٹکا لگا ہے۔ تم سوچ رہے ہو گے: ”کیا یہ پہلے نہیں کہا گیا تھا کہ خدا ہمیشہ تکلیف محسوس کرتا ہے؟ تو اس لیے کیا خدا تکلیف محسوس نہیں کرے گا؟ پھر، کب، اسے تکلیف ہوتی ہے؟“ مختصر یہ کہ اس صورت حال میں خدا تکلیف محسوس نہیں کرے گا۔ تو، پھر، اوپر بیان کردہ طرز عمل کی قسم کے بارے میں خدا کا رویہ کیا ہے؟ جب لوگ ان آزمائشوں اور امتحانات کو رد کرتے ہیں جو خدا انھیں بھیجتا ہے اور جب وہ ان سے پہلو تہی کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کے ساتھ خدا کا صرف ایک ہی رویہ ہوتا ہے۔ یہ کیسا رویہ ہے؟ خدا اس قسم کے شخص کو اپنے دل کی تہہ سے ٹھکرا دیتا ہے۔ لفظ ”ٹھکرانا“ کے معنی کی دو تہیں ہیں۔ مجھے اپنے نقطہ نظر سے اس کی وضاحت کیسے کرنی چاہیے؟ نیچے گہرائی میں، لفظ ”ٹھکرانا“ ناپسندیدگی اور نفرت کے معنی رکھتا ہے۔ اس کے معنی کی دوسری تہہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ یہ وہ حصہ ہے جس کا مطلب ہے کسی چیز کو ترک کرنا۔ تم سب جانتے ہو کہ ”ترک کرنا“ کا مطلب کیا ہے، ٹھیک ہے؟ مختصر طور پر، ”ٹھکرانا“ ایک ایسا لفظ ہے جو ان لوگوں کے بارے میں خدا کے حتمی ردعمل اور رویے کی نمائندگی کرتا ہے جو اس طرح کا برتاؤ کر رہے ہیں؛ یہ ان کے لیے انتہائی نفرت، اور کراہت ہے، اور، اس طرح، اس کا نتیجہ انھیں چھوڑنے کے فیصلے کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ اس شخص کے بارے میں خدا کا آخری فیصلہ ہے جو کبھی خدا کے راستے پر نہیں چلا اور جس نے کبھی خدا کا خوف نہیں کیا اور برائی سے نہیں بچا۔ کیا اب تم سب اس قول کی اہمیت سمجھ سکتے ہو جس کا میں نے پہلے ذکر کیا تھا؟
اب کیا تم سمجھتے ہو کہ خدا لوگوں کے انجام کا تعین کرنے کے لیے کیا طریقہ استعمال کرتا ہے؟ (وہ ہر روز مختلف حالات کو ترتیب دیتا ہے)۔ وہ مختلف حالات کو ترتیب دیتا ہے – یہ ایسی چیز ہے جسے لوگ محسوس کر سکتے اور چھو سکتے ہیں۔ تو، خدا کا ایسا کرنے کا کیا مقصد ہے؟ اس کا ارادہ ہر ایک شخص کو مختلف اوقات میں اور مختلف مقامات پر مختلف انداز کی آزمائشیں دینا ہے۔ آزمائش کے دوران کسی شخص کے کن پہلوؤں کو جانچا جاتا ہے؟ ایک آزمائش اس بات کا تعین کرتی ہے کہ آیا تو اس قسم کا شخص ہے جو خدا سے ڈرتا ہے اور ہر اس مسئلے میں برائی سے بچتا ہے جس کا تجھے سامنا ہوتا ہے، تو جس کے متعلق سنتا ہے، جو دیکھتا ہے اور جس کا ذاتی طور پر تجربہ کرتا ہے۔ ہر کوئی اس قسم کی آزمائش کا سامنا کرے گا، کیونکہ خدا سب لوگوں کے ساتھ انصاف کرتا ہے۔ تم میں سے کچھ کہتے ہیں، ”میرا کئی سالوں سے خدا پر ایمان ہے، تو پھر مجھے کسی آزمائش کا سامنا کیوں نہیں ہوا؟“ تو محسوس کرتا ہے کہ تو نے ابھی تک کسی آزمائش کا سامنا نہیں کیا کیونکہ جب بھی خدا نے تیرے لیے حالات کا بندوبست کیا ہے، تو تُو نے انھیں سنجیدگی سے نہیں لیا اور خدا کے راستے پر چلنا نہیں چاہا۔ اس لیے، تجھے خدا کی آزمائشوں کا بالکل احساس نہیں ہوتا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں، ”میں نے کچھ آزمائشوں کا سامنا کیا ہے، لیکن میں نہیں جانتا کہ صحیح طریقے سے عمل کیسے کیا جائے۔ یہاں تک کہ اگر میں نے عمل کیا بھی ہے، تو پھر بھی میں نہیں جانتا کہ میں خدا کی آزمائشوں کے دوران ثابت قدم رہا ہوں یا نہیں۔“ جو اس قسم کی حالت میں ہیں وہ لوگ یقینی طور پر اقلیت میں نہیں ہیں۔ تو پھر، وہ معیار کیا ہے جس کے ذریعے خدا لوگوں کی جانچ کرتا ہے؟ یہ بالکل وہی ہے جیسا کہ میں نے کچھ لمحے پہلے کہا: یہ ہے کہ ہر وہ کام جو تو کرتا ہے، جو تو سوچتا ہے یا جس کا اظہار کرتا ہے، اس میں تو خدا سے ڈرتا ہے یا نہیں اور برائی سے بچتا ہے یا نہیں۔ اس طرح اس بات کا تعین ہوتا ہے کہ آیا تو خدا سے ڈرنے والا اور برائی سے بچنے والا شخص ہے یا نہیں۔ کیا یہ تصور آسان ہے، یا نہیں؟ یہ کہنا کافی آسان ہے، لیکن کیا اس پر عمل کرنا آسان ہے؟ (یہ اتنا آسان نہیں ہے)۔ یہ اتنا آسان کیوں نہیں ہے؟ (کیونکہ لوگ خدا کو نہیں جانتے، اور وہ نہیں جانتے کہ خدا لوگوں کو کیسے کامل کرتا ہے، اس لیے جب انھیں معاملات کا سامنا ہوتا ہے، تو وہ یہ نہیں جانتے کہ اپنے مسائل حل کرنے کے لیے سچائی کو کیسے تلاش کرنا ہے۔ انھیں خدا سے ڈرنے کی حقیقت کو حاصل کرنے سے پہلے مختلف آزمائشوں، تزکیے، تادیب اور عدالت سے گزرنا پڑتا ہے)۔ تم اسے اس طرح کہہ سکتے ہو، لیکن جہاں تک تمہارا تعلق ہے، خدا سے ڈرنا اور برائی سے بچنا اس وقت بہت آسانی سے کرنے والا کام نظر آتا ہے۔ میں یہ کیوں کہتا ہوں؟ یہ اس لیے کہ تم نے بہت سے وعظ سنے ہیں اور سچائی کی حقیقت سے کوئی کم سیرابی حاصل نہیں کی ہے؛ اس سے تمہیں نظریاتی اور فکری طور پر یہ سمجھنے کا موقع ملتا ہے کہ خدا سے کیسے ڈرنا اور برائی سے کیسے بچنا ہے۔ جہاں تک حقیقت میں خدا کے خوف اور برائی سے بچنے کا تعلق ہے، یہ سب علم بہت مددگار ثابت ہوا ہے اور اس نے تمہیں یہ احساس دلایا ہے کہ گویا ایسی چیز آسانی سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ کیوں، پھر، لوگ حقیقت میں اسے کبھی حاصل نہیں کر سکتے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی فطرت اور جوہر میں خدا سے خوفزدہ ہونا نہیں ہے اور یہ برائی کو پسند کرتا ہے۔ اصل وجہ یہ ہے۔
خدا سے نہ ڈرنا اور برائی سے نہ بچنا خدا کی مخالفت کرنا ہے
میں تم سے یہ پوچھنے سے شروع کرتا ہوں کہ یہ قول، ”خدا سے ڈرو اور برائی سے بچو،“ کہاں سے آیا ہے۔ (ایوب کی کتاب)۔ چونکہ ہم نے ایوب کا ذکر کیا ہے، اس لیے اس پر بات کرتے ہیں۔ ایوب کے زمانے میں، کیا خدا انسانیت کی نجات اور اسے فتح کرنے کے لیے کام کر رہا تھا؟ نہیں۔ کیا یہ ایسا نہیں ہے؟ نیز، جہاں تک ایوب کا تعلق تھا، اُس وقت اُسے خدا کے بارے میں کتنا علم تھا؟ (زیادہ نہیں)۔ خدا کا جتنا علم اس وقت تمہارے پاس ہے کیا ایوب کے پاس اس سے زیادہ یا کم علم تھا؟ ایسا کیوں ہے کہ تم جواب دینے کی ہمت نہیں کرتے؟ اس سوال کا جواب دینا بہت آسان ہے۔ کم! یقینی طور پر یہی ہے! ان دنوں تم خدا کے روبرو ہو، اور خدا کے کلام کے روبرو ہو؛ تمہارے پاس خدا کا علم ایوب سے بہت زیادہ ہے۔ میں اس موضوع کو کیوں اٹھاتا ہوں؟ یہ باتیں کہنے کا میرا مقصد کیا ہے؟ میں تمہیں ایک حقیقت کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں، لیکن اس سے پہلے میں تم سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں: ایوب خدا کے بارے میں بہت کم جانتا تھا، پھر بھی اس سے ڈرنے اور برائی سے بچنے کے قابل تھا؛ یہ کیوں ہے کہ آج کل لوگ ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں؟ (وہ بہت زیادہ بدعنوان ہیں)۔ یہ کہ وہ بہت زیادہ بدعنوان ہیں ایک سطحی مظہر ہے جو مسئلے کو جنم دیتا ہے، لیکن میں اسے کبھی اس طرح سے نہیں دیکھوں گا۔ تم اکثر استعمال ہونے والے عقائد اور اصطلاحات، جیسے کہ ”گہری بدعنوانی“، ”خدا کے خلاف بغاوت“، ”خدا سے بے وفائی“، ”نافرمانی“، ”سچائی کو پسند نہ کرنا،“ وغیرہ کو لیتے ہو، اور ہر ایک مسئلے کے جوہر کی وضاحت کے لیے ان مشہور اقوال کو استعمال کرتے ہو۔ یہ عمل کرنے کا ایک غلط طریقہ ہے۔ مختلف نوعیت کے معاملات کی وضاحت کے لیے ایک ہی جواب کا استعمال لامحالہ سچائی اور خدا کے بارے میں گستاخانہ شبہات کو جنم دیتا ہے؛ مجھے اس قسم کا جواب سننا اچھا نہیں لگتا۔ اس کے بارے میں بہت اچھی طرح غوروفکر کرو! تم میں سے کسی نے بھی اس معاملے پر کوئی غور نہیں کیا، لیکن میں اسے ہر روز دیکھ سکتا ہوں، اور ہر روز اسے محسوس کر سکتا ہوں۔ اس لیے، جب تم عمل کر رہے ہوتے ہو تو میں دیکھ رہا ہوتا ہوں۔ جب تم کچھ کر رہے ہوتے ہو، تو تم اس کے جوہر کو محسوس نہیں کر سکتے، لیکن جب میں دیکھتا ہوں، تو میں اس کے جوہر کو دیکھ سکتا ہوں، اور میں اس کے جوہر کو محسوس بھی کر سکتا ہوں۔ تو پھر یہ جوہر کیا ہے؟ آج کل لوگ خدا سے ڈرنے اور برائیوں سے بچنے سے کیوں قاصر ہیں؟ تمہارے جوابات اس مسئلے کے جوہر کی وضاحت کرنے کے قابل بالکل نہیں ہیں، اور نہ ہی وہ اسے حل کر سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا ایک ماخذ ہے جس سے تم واقف نہیں ہو۔ یہ ماخذ کیا ہے؟ میں جانتا ہوں کہ تم اس کے بارے میں سننا چاہتے ہو، اس لیے میں تمہیں اس مسئلے کے ماخذ کے بارے میں بتاؤں گا۔
جب سے خدا نے کام کرنا شروع کیا، اس نے انسانوں کے ساتھ کیسا رویہ رکھا؟ خدا نے انھیں بچایا؛ اس نے انسانوں کو اپنے خاندان کے افراد، اپنے کام کے اہداف کے طور پر، ایسے لوگوں کے طور پر جن کو وہ فتح کرنا اور بچانا چاہتا تھا، اور ایسے لوگوں کے طور پر دیکھا جن کو وہ کامل کرنا چاہتا تھا۔ یہ اپنے کام کے آغاز میں انسانیت کے بارے میں خُدا کا رویہ تھا۔ تاہم، اُس وقت انسانیت کا خدا کے بارے میں رویہ کیا تھا؟ انسان خدا سے ناواقف تھے، اور وہ خدا کو اجنبی سمجھتے تھے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ خدا کے بارے میں اُن کے رویے کے صحیح نتائج حاصل نہیں ہوئے، اور یہ کہ اُن کو اس بات کی واضح سمجھ نہیں تھی کہ انھیں خُدا کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیے۔ اس طرح، انہوں نے اس کے ساتھ اپنی مرضی کے مطابق سلوک کیا۔ کیا ان کی خدا کے بارے میں کوئی آراء تھیں؟ شروع میں نہیں تھیں؛ ان کی نام نہاد آراء اس کے بارے میں صرف کچھ تصورات اور قیاسات پر مشتمل تھیں۔ انہوں نے اس بات کو قبول کیا جو ان کے تصورات کے مطابق تھی، اور جب کوئی چیز ان کے تصورات کے مطابق نہیں تھی، تو انہوں نے سطحی طور پر اس کی اطاعت کی، لیکن کافی گہرائی میں انہوں نے شدید تضاد محسوس کیا اور انہوں نے اس کی مخالفت کی۔ یہ ابتدا میں خُدا اور انسانوں کے درمیان تعلق تھا: خُدا نے انھیں خاندان کے افراد کے طور پر دیکھا، لیکن اس کے باوجود اُنہوں نے اُس کے ساتھ اجنبی جیسا سلوک کیا۔ تاہم، خدا کے کام کے ایک عرصے کے بعد، انسانوں کو یہ سمجھ میں آیا کہ وہ کیا حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا، اور وہ جان گئے کہ وہی سچا خدا ہے؛ وہ یہ بھی جان گئے کہ وہ خدا سے کیا حاصل کر سکتے ہیں۔ اس وقت لوگ خدا کو کیسا سمجھتے تھے؟ اُنہوں نے اُسے جان بچانے والی ضروری چیز کے طور پر دیکھا، اور اُس کا فضل، برکات، اور وعدے حاصل کرنے کی اُمید رکھی۔ اس وقت، خدا نے انسانوں کے بارے میں کیا رویہ رکھا؟ اس نے انھیں اپنی فتح کے اہداف کے طور پر دیکھا۔ خُدا اُن کا فیصلہ کرنے، اُن کی جانچ کرنے، انھیں آزمانے اور اُنھیں آزمائشوں سے دوچار کرنے کے لیے کلام استعمال کرنا چاہتا تھا۔ تاہم، جہاں تک اس وقت لوگوں کا تعلق تھا، ان کے لیے خدا صرف ایک ایسی چیز تھی جسے وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کر سکتے تھے۔ لوگوں نے دیکھا کہ خدا کی طرف سے جاری کردہ سچائی انھیں فتح کر سکتی ہے اور نجات دے سکتی ہے، کہ ان کے پاس اس سے وہ چیزیں حاصل کرنے کا موقع تھا جو وہ چاہتے تھے اور ساتھ ہی وہ منزلیں بھی حاصل کر سکتے تھے جو وہ چاہتے تھے۔ اس کی وجہ سے ان کے دلوں میں تھوڑا سا اخلاص پیدا ہوا اور وہ اس خدا کی پیروی کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ وقت گزرتا گیا، اور خدا کے بارے میں کچھ سطحی اور نظریاتی علم حاصل کرنے کی وجہ سے، یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ انسان خدا اور اس کے کہے ہوئے کلام، اس کی منادی، اس کی جاری کردہ سچائیوں، اور اس کے کام سے ”واقف“ ہونے لگ گئے تھے۔ اس لیے وہ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ خدا اب نامانوس نہیں رہا، اور یہ کہ وہ خدا کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے راستے پر قدم رکھ چکے ہیں۔ اب تک، لوگ سچائی پر بہت سے وعظ سن چکے ہیں اور خدا کے کام کا بہت تجربہ کر چکے ہیں۔ اس کے باوجود، بہت سے مختلف عوامل اور حالات کی وجہ سے پیدا ہونے والی مداخلت اور رکاوٹ کی وجہ سے، زیادہ تر لوگ سچائی پر عمل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے اور نہ ہی وہ خدا کو مطمئن کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ لوگ زیادہ کاہل ہو گئے ہیں اور ان میں اعتماد کی زیادہ کمی ہو گئی ہے۔ ان میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ ان کا اپنا انجام نامعلوم ہے۔ وہ کوئی بھی خلاف اعتدال خیالات سوچنے کی ہمت نہیں کرتے، اور وہ ترقی کرنے کی کوشش نہیں کرتے؛ وہ صرف ہچکچاتے ہوئے پیروی کرتے ہیں اور قدم بہ قدم آگے بڑھتے ہیں۔ انسانوں کی موجودہ حالت کے حوالے سے، ان کے بارے میں خدا کا رویہ کیا ہے؟ وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ ان کو یہ سچائیاں عطا کرے اور ان کے ذہن میں آہستہ آہستہ اپنی راہ کا شعور پیدا کرے اور پھر ان کو مختلف طریقوں سے آزمانے کے لیے مختلف حالات کو ترتیب دے۔ اس کا ہدف یہ ہے کہ وہ اس کلام، ان سچائیوں، اور اپنے کام کو لے کر ایسا انجام سامنے لے کر آئے جس سے انسان اس سے ڈرنے اور برائی سے بچنے کے قابل ہو جائیں۔ جن زیادہ تر لوگوں کو میں نے دیکھا ہے وہ صرف خدا کے کلام کو لیتے ہیں اور اسے عقائد، محض کاغذ پر لکھے ہوئے الفاظ، پابندی کرنے کے قواعد سمجھتے ہیں۔ اپنے اعمال اور تقریر میں، یا آزمائشوں کا سامنا کرتے ہوئے، وہ خدا کے راستے کو ایسا نہیں سمجھتے جس کی انھیں پابندی کرنی چاہیے۔ یہ خاص طور پر تب سچ ہوتا ہے جب لوگوں کو بڑی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے؛ میں نے کسی ایسے شخص کو خدا سے ڈرنے اور برائی سے بچنے کے لیے عمل کرتے نہیں دیکھا۔ لہٰذا، انسانوں کے لیے خدا کا رویہ انتہائی ناپسندیدگی اور کراہت سے بھرا ہوا ہے! باوجود اس کے کہ اُس نے انھیں بارہا آزمائشیں دی ہیں، یہاں تک کہ سینکڑوں مرتبہ، اُن کے پاس اب بھی کوئی واضح رویہ نہیں ہے جس کے ساتھ وہ اپنے عزم کا اظہار کر سکیں: ”میں خدا سے ڈرنا اور برائی سے بچنا چاہتا ہوں!“ چونکہ لوگ یہ عزم نہیں رکھتے اور اس قسم کا مظاہرہ نہیں کرتے، اس لیے ان کے ساتھ خدا کا موجودہ رویہ ماضی جیسا نہیں ہے، جب اس نے ان کے لیے رحم، برداشت، بردباری اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس کی بجائے، وہ انسانیت سے انتہائی مایوس ہے۔ یہ مایوسی کس نے پیدا کی؟ انسانوں کے ساتھ خدا کا رویہ کس پر منحصر ہے؟ یہ ہر اس شخص پر منحصر ہے جو اس کی پیروی کرتا ہے۔ اپنے کئی سالوں کے کام کے دوران، خدا نے لوگوں سے بہت سے مطالبات کیے ہیں اور ان کے لیے بہت سے حالات کا بندوبست کیا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ انہوں نے کس کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، اگرچہ، اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ خدا کے بارے میں ان کا رویہ کیا ہے، لوگ خدا سے ڈرنے اور برائی سے بچنے کے مقصد کے مطابق واضح طور پر عمل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس طرح، میں تلخیص کا ایک جملہ پیش کروں گا، اور اس جملے کو ہر اس چیز کی وضاحت کے لیے استعمال کروں گا جو ہم نے ابھی کہا ہے کہ لوگ خدا سے ڈرنے اور برائی سے بچنے کے لیے خدا کے راستے پر کیوں نہیں چل سکتے۔ یہ جملہ کیا ہے؟ یہ ہے: خدا انسانوں کو اپنی نجات کے اہداف اور اپنے کام کے اہداف کے طور پر دیکھتا ہے؛ انسان خدا کو اپنا دشمن اور مخالف سمجھتے ہیں۔ کیا اب تمہیں اس معاملے کی واضح سمجھ بوجھ ہے؟ یہ بہت واضح ہے کہ انسانیت کا رویہ کیا ہے، خدا کا رویہ کیا ہے، اور انسانوں اور خدا کے درمیان کیا تعلق ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تم نے کتنی منادی سنی ہے، وہ چیزیں جن کے متعلق تم نے خود ہی نتائج اخذ کر لیے ہیں، جیسے خدا کا وفادار ہونا، خدا کا تابع ہونا، خدا کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی راہ تلاش کرنا، پوری زندگی کو خدا کے لیے خرچ کرنے کی خواہش، اور خدا کے لیے جینے کی خواہش – میرے نزدیک، وہ چیزیں شعوری طور پر خدا کے راستے پر چلنے کی مثالیں نہیں ہیں، جو کہ خدا سے ڈرنا اور برائی سے بچنا ہے، بلکہ وہ صرف ایسے ذرائع ہیں جن کے ذریعے تم کچھ مقاصد حاصل کر سکتے ہو۔ ان کو حاصل کرنے کے لیے، تم کچھ ضابطوں پر ہچکچاتے ہوئے عمل کرتے ہو، اور یہ بالکل وہی ضابطے ہیں جو لوگوں کو خدا سے ڈرنے اور برائی سے بچنے کے راستے سے بھی اور آگے لے جاتے ہیں، اور یہ خدا کو ایک بار پھر انسانیت کے خلاف کر دیتے ہیں۔
آج کا موضوع کچھ بھاری ہے، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، میں اب بھی امید کرتا ہوں کہ جب تم آنے والے تجربات سے گزرو گے، اور آنے والے وقتوں سے گزرو گے، تو تم وہ کر سکو گے جو میں نے ابھی تمہیں بتایا ہے۔ خدا کو خالی ہوا کا ایک جھونکا نہ سمجھو – گویا کہ جب وہ تمہارے لیے کارآمد ہو تو وہ موجود ہوتا ہے لیکن جب وہ تمہارے لیے کارآمد نہ ہو تو وہ موجود نہیں ہوتا ہے۔ تمہارے لاشعور میں ایک بار جب ایسا خیال آتا ہے تو تم خدا کو پہلے ہی غصہ دلا چکے ہوتے ہو۔ شاید ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں، ”میں خدا کو محض خالی ہوا نہیں سمجھتا۔ میں ہمیشہ اس سے دعا کرتا ہوں اور میں ہمیشہ اسے مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہوں، اور میں جو کچھ بھی کرتا ہوں وہ اس دائرہ کار، معیار اور اصولوں کے اندر ہوتا ہے جن کی خدا کو ضرورت ہوتی ہے۔ میں یقینی طور پر اپنے خیالات کے مطابق عمل نہیں کر رہا ہوں۔“ ہاں، یہ طریقہ جس پر تم عمل کر رہے ہو درست ہے۔ بہر حال، جب تم کسی مسئلے کا سامنا کرتے ہو تو تم کیا سوچتے ہو؟ جب تمہیں کسی مسئلے کا سامنا ہوتا ہے تو تم کس طرح عمل کرتے ہو؟ کچھ لوگ جب خدا کی عبادت کرتے ہیں اور اس سے التجا کرتے ہیں تو یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ موجود ہے، لیکن پھر جب بھی انھیں کسی مسئلے کا سامنا ہوتا ہے تو وہ خود اپنے خیالات سوچ کر ان کی پابندی کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ خدا کو محض خالی ہوا کا ایک جھونکا سمجھتے ہیں، اور ایسی صورت حال ان کے ذہنوں میں خدا کو غیر موجود کر دیتی ہے۔ لوگ یقین رکھتے ہیں کہ خدا کو اس وقت موجود ہونا چاہیے جب انھیں اس کی ضرورت ہو، لیکن اس وقت نہیں جب انھیں اس کی ضرورت نہ ہو۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے اپنے نظریات پر مبنی عمل کرنا کافی ہے۔ انھیں یقین ہے کہ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں؛ وہ یہ بالکل نہیں مانتے کہ انھیں خدا کی راہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو اس وقت اس قسم کی صورتِ حال میں ہیں اور اس قسم کی حالت میں پھنسے ہوئے ہیں، کیا وہ خطرے کو دعوت نہیں دے رہے ہیں؟ کچھ لوگ کہتے ہیں، ”چاہے میں خطرے کو دعوت دے رہا ہوں یا نہیں، میں اتنے سالوں سے ایمان رکھتا ہوں، اور مجھے یقین ہے کہ خدا مجھے ترک نہیں کرے گا، کیونکہ وہ برداشت نہیں کر سکتا۔“ دوسرے کہتے ہیں، ”جب میں اپنی ماں کی کوکھ میں تھا تو اس وقت سے ہی خداوند پر ایمان لا چکا ہوں۔ چالیس یا پچاس سال ہو چکے ہیں، اس لیے وقت کے لحاظ سے، میں خدا کی طرف سے بچائے جانے کا سب سے زیادہ اہل ہوں اور میں بچ جانے کا سب سے زیادہ اہل ہوں۔ ان چار یا پانچ دہائیوں کے دوران، میں نے اپنے خاندان اور اپنی ملازمت کو ترک کر دیا ہے اور میں نے جو کچھ میرے پاس تھا وہ سب کچھ چھوڑ دیا ہے – جیسے کہ پیسہ، حیثیت، لطف اندوزی اور اپنے خاندان کے ساتھ وقت۔ میں نے بہت سے لذیذ کھانے نہیں کھائے، میں بہت زیادہ تفریح سے لطف اندوز نہیں ہوا، میں نے بہت سی دلچسپ جگہوں کی سیر نہیں کی، اور میں نے ایسے مصائب تک کا بھی تجربہ کیا ہے جو عام لوگ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اگر خدا ان سب کی وجہ سے مجھے نہیں بچا سکتا تو میرے ساتھ ناانصافی کا سلوک کیا جا رہا ہے اور میں اس قسم کے خدا پر ایمان نہیں لا سکتا۔“ کیا اس طرح کے خیالات رکھنے والے بہت سے لوگ ہیں؟ (ہاں ہیں)۔ ٹھیک ہے، پھر، آج میں ایک حقیقت کو سمجھنے میں تمہاری مدد کرنے جا رہا ہوں: اس طرح کے خیالات رکھنے والے سب لوگ غیر ارادی طور پر خود کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی آنکھوں کو اپنے تخیلات سے ڈھانپ رہے ہیں۔ بالکل یہی تصورات، نیز ان کے اپنے نتائج، جو اس معیار کی جگہ لے لیتے ہیں جو خدا انسانوں سے پورا کرنے کا تقاضا کرتا ہے اور انھیں خدا کے حقیقی ارادوں کو قبول کرنے سے روکتے ہیں۔ یہ انھیں اس کے حقیقی وجود کو محسوس کرنے سے قاصر بنا دیتا ہے، اور یہ انھیں خدا کی طرف سے کامل بنائے جانے کے موقع سے بھی محروم کر دیتا ہے، خدا کے وعدے کے کسی بھی حصے یا اجر کو ترک کرنے کا سبب بنتا ہے۔
خدا کس طرح لوگوں کے انجام کا تعین کرتا ہے اور اس کے ایسا کرنے کے معیار
اس سے پہلے کہ تو کوئی رائے یا نقطہ نظر قائم کرے، تجھے سب سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ خدا کا تیرے ساتھ کیا رویہ ہے، اور وہ کیا سوچ رہا ہے، اور پھر تو فیصلہ کر سکتا ہے کہ تیری اپنی سوچ درست ہے یا نہیں۔ خدا نے کبھی بھی کسی شخص کے انجام کا تعین کرنے کے لیے وقت کو پیمائش کی اکائی کے طور پر استعمال نہیں کیا ہے، اور نہ ہی اس نے کبھی اس تعین کی بنیاد اس پر رکھی ہے کہ کسی شخص نے کتنا نقصان اٹھایا ہے۔ پھر، خدا کسی شخص کے انجام کا تعین کرنے کے لیے معیار کے طور پر کیا استعمال کرتا ہے؟ وقت کی بنیاد پر اس کا تعین کرنا وہی ہو گا جو زیادہ تر لوگوں کے تصورات کے مطابق ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، وہ لوگ ہیں جنہیں تم اکثر دیکھتے ہو کہ جنہوں نے ایک موقع پر بہت زیادہ نذر کیا، بہت زیادہ خرچ کیا، بھاری قیمت ادا کی، اور بہت زیادہ نقصان اٹھایا۔ یہ وہ ہیں جنہیں، تمہاری سمجھ کے مطابق، خدا کی طرف سے بچایا جا سکتا ہے۔ جو کچھ یہ لوگ ظاہر کرتے ہیں اور جس طرح زندگی بسر کرتے ہیں وہ کسی شخص کے انجام کا تعین کرنے کے لیے خدا کے مقرر کردہ معیار کے بارے میں لوگوں کے تصورات کے عین مطابق ہے۔ تم جس پر بھی یقین رکھتے ہو، میں ان مثالوں کو ایک ایک کر کے درج نہیں کروں گا۔ مختصر طور پر بات کرتے ہوئے، کوئی بھی چیز جو خدا کی اپنی سوچ میں معیار نہیں ہے وہ انسانی تخیل سے آتی ہے اور ایسی تمام چیزیں انسانی تصورات ہیں۔ اگر تو آنکھیں بند کرکے اپنے تصورات اور خواہشات پر اصرار کرتا ہے تو کیا نتیجہ ہو گا؟ یہ بالکل واضح ہے کہ اس کا نتیجہ صرف یہ ہو گا کہ خدا تجھے ٹھکرا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تو ہمیشہ خدا کے سامنے اپنی قابلیت کے متعلق فخر کرتا ہے، اس کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے، اور اس کے ساتھ بحث کرتا ہے، اور تو اس کی سوچ کو صحیح معنوں میں سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا، نہ ہی تو اس کی مرضی یا انسانیت کے بارے میں اس کے رویے کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس طریقے سے آگے بڑھنا خود کو سب سے بڑھ کر عزت دیتا ہے؛ یہ خدا کی بڑائی نہیں کرتا۔ تو اپنے آپ پر یقین رکھتا ہے؛ تو خدا کو نہیں مانتا۔ خدا ایسے لوگوں کو نہیں چاہتا اور نہ ہی وہ ان کو نجات دلائے گا۔ اگر تو اس طرح کے نقطہ نظر کو چھوڑ سکتا ہے اور اس کے علاوہ، ماضی میں جو غلط نقطہ نظر رکھتا تھا، اس کی اصلاح کر سکتا ہے، اگر تو خدا کے مطالبات کے مطابق آگے بڑھ سکتا ہے، اگر تو اس مقام سے خدا سے ڈرنے اور برائی سے بچنے کے طریقے پر عمل کر سکتا ہے، اگر تو خدا کو ایک ایسے واحد کے طور پر عزت دینے کا انتظام کر سکتا ہے جو ہر چیز میں عظیم ہے اور اپنی اور خدا کی تشریح کرنے کے لیے اپنی ذاتی پسند، نقطہ نظر یا عقائد کو استعمال کرنے سے گریز کر سکتا ہے، اور اگر تو اس کی بجائے ہر لحاظ سے خُدا کے ارادوں کو تلاش کر سکتا ہے، انسانیت کے لیے اُس کے رویے کا احساس اور سمجھ حاصل کر سکتا ہے، اور اُس کے معیار پر پورا اُتر کر اُسے مطمئن کر سکتا ہے، تو یہ بہت اچھا ہو گا! یہ اس بات کی علامت ہو گا کہ تو خدا سے ڈرنے اور برائی سے بچنے کی راہ پر سفر شروع کرنے والا ہے۔
اگر خدا لوگوں کے مختلف خیالات، نظریات اور نقطہ نظر کو اس معیار کے طور پر استعمال نہیں کرتا جس کے ذریعے ان کے انجام کا تعین کیا جا سکتا ہے، تو وہ لوگوں کے انجام کا تعین کرنے کے لیے کس قسم کا معیار استعمال کرتا ہے؟ وہ ان کے انجام کا تعین کرنے کے لیے آزمائشوں کا استعمال کرتا ہے۔ لوگوں کے انجام کا تعین کرنے کے لیے خُدا کی طرف سے آزمائشوں کے استعمال کے دو معیار ہیں: پہلا آزمائشوں کی تعداد ہے جن میں سے لوگ گزرتے ہیں، اور دوسرا ان آزمائشوں کے لوگوں پر ہونے والے نتائج ہیں۔ یہ وہ دو اشارے ہیں جو کسی شخص کے انجام کا تعین کرتے ہیں۔ اب، ہم ان دونوں معیار کی وضاحت کرتے ہیں۔
شروع کرنے کے لیے، جب کسی شخص کو خدا کی طرف سے کسی آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے (ہو سکتا ہے یہ آزمائش تیرے لیے معمولی ہو، جو قابل ذکر نہ ہو)، تو وہ واضح طور پر تجھے آگاہ کر دے گا کہ یہ تجھ پر اس کا ہاتھ ہے، اور یہ کہ وہی ہے جس نے تیرے لیے اس صورت حال کا انتظام کیا ہے۔ جب کہ تو حیثیت میں ابھی تک ناپختہ ہے، خدا تجھے آزمانے کے لیے آزمائشوں کا انتظام کرے گا، اور یہ آزمائشیں تیری حیثیت کے مطابق ہوں گی، جنہیں تو سمجھ سکتا ہے، اور جنہیں تو برداشت کر سکتا ہے۔ تیرے کس حصے کی جانچ کی جائے گی؟ تیرا خدا کے بارے میں رویہ۔ کیا یہ رویہ بہت اہم ہے؟ یقینا یہ اہم ہے! یہ خاص اہمیت کا حامل ہے! انسانوں میں یہ رویہ وہ نتیجہ ہے جو خدا چاہتا ہے، لہٰذا جہاں تک اس کا تعلق ہے، یہ سب سے زیادہ اہم چیز ہے۔ ورنہ خدا اس طرح کے کاموں میں مشغول ہو کر اپنی کوششوں کو لوگوں پر خرچ نہیں کرتا۔ ان آزمائشوں کے ذریعے، خدا اپنے بارے میں تیرا رویہ دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تو صحیح راستے پر ہے یا نہیں۔ وہ یہ بھی دیکھنا چاہتا ہے کہ آیا تو خدا سے ڈرتا ہے اور برائی سے بچتا ہے یا نہیں۔ لہٰذا، چاہے تو کسی خاص وقت میں سچائی کی زیادہ سمجھ رکھتا ہے یا کم، تجھے پھر بھی خدا کی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑے گا، اور تو جس کی سمجھ رکھتا ہے سچائی کی اس مقدار میں کسی بھی اضافے کے بعد، وہ تیرے لیے متعلقہ آزمائشوں کا بندوبست جاری رکھے گا۔ جب تجھے ایک بار پھر آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو خدا یہ دیکھنا چاہے گا کہ آیا اس کے بارے میں تیرے نقطہ نظر، تیرے خیالات، اور تیرے رویے میں وقت کے اس درمیانی عرصے میں کوئی اضافہ ہوا ہے یا نہیں۔ کچھ لوگ سوچتے ہیں، ”خدا ہمیشہ لوگوں کے رویوں کو کیوں دیکھنا چاہتا ہے؟ کیا اس نے پہلے ہی نہیں دیکھ رکھا کہ وہ کس طرح سچائی پر عمل کرتے ہیں؟ وہ اب بھی ان کے رویوں کو کیوں دیکھنا چاہے گا؟“ یہ احمقانہ بکواس ہے! یہ دیکھتے ہوئے کہ خُدا اس طریقے سے کام کرتا ہے، اُس کی مرضی ضرور اس میں مضمر ہونی چاہیے۔ خدا لوگوں کو مستقل طور پر ایک طرف رہ کر دیکھتا ہے، ان کے ہر قول و فعل، ان کے ہر عمل اور حرکت پر نظر رکھتا ہے؛ یہاں تک کہ وہ ان کی ہر سوچ اور خیال کا مشاہدہ کرتا ہے۔ خدا لوگوں کے ساتھ پیش آنے والی ہر چیز کو – ان کے اچھے اعمال، ان کی غلطیوں، ان کی قانون شکنیوں، یہاں تک کہ ان کی بغاوتوں اور بےوفائیوں کو – ان کے انجام کا تعین کرنے کے لیے ثبوت کے طور پر درج کرتا ہے۔ قدم بہ قدم، جیسے جیسے خدا کا کام بلند ہوتا جائے گا، تو مزید سچائیاں سنے گا اور مزید مثبت چیزوں اور معلومات کو قبول کرے گا، اور تو سچائی کی حقیقت کو مزید حاصل کرے گا۔ اس سارے عمل کے دوران، خدا کے تجھ سے تقاضے بھی بڑھ جائیں گے، اور جب وہ بڑھیں گے، تو وہ تیرے لیے مزید سنگین آزمائشوں کا بندوبست کرے گا۔ اس کا مقصد یہ جانچنا ہے کہ آیا اس دوران اس کے بارے میں تیرے رویے میں بہتری آئی ہے یا نہیں۔ بلاشبہ، جب ایسا ہو گا، خدا تجھ سے جس نقطہ نظر کا مطالبہ کرے گا وہ سچائی کی حقیقت کے بارے میں تیری سمجھ بوجھ کے مطابق ہو گا۔
جب تیری حیثیت بتدریج بڑھے گی، تو اسی طرح وہ معیار بھی بڑھے گا جس کا خدا تجھ سے مطالبہ کرتا ہے۔ جب کہ تو ابھی ناپختہ ہے، وہ تیرے پورا کرنے کے لیے ایک بہت ادنیٰ معیار مقرر کرے گا۔ جب تیری حیثیت تھوڑی بڑی ہو گی تو وہ تیرا معیار کچھ بلند کر دے گا۔ لیکن جب تو تمام سچائیوں کی سمجھ بوجھ حاصل کر لے گا تو اس کے بعد خدا کیا کرے گا؟ وہ تجھ سے اور بھی بڑی آزمائشوں کا سامنا کروائے گا۔ ان آزمائشوں کے درمیان، خدا جو تجھ سے حاصل کرنا چاہتا ہے، وہ جو تجھ سے دیکھنا چاہتا ہے، وہ اس کا زیادہ گہرا علم، اس کی حقیقی تعظیم ہے۔ اس وقت، اس کے تجھ سے تقاضے ان سے کہیں زیادہ اور ”سخت“ ہوں گے جو اس وقت تھے جب تیری حیثیت زیادہ ناپختہ تھی (لوگ انھیں سخت سمجھ سکتے ہیں، لیکن اصل میں خدا انھیں معقول سمجھتا ہے)۔ جب خدا لوگوں کو آزما رہا ہوتا ہے تو وہ کس قسم کی حقیقت پیدا کرنا چاہتا ہے؟ وہ مسلسل مطالبہ کر رہا ہے کہ لوگ اسے اپنے دل دے دیں۔ کچھ لوگ کہیں گے، ”میں یہ کیسے دے سکتا ہوں؟ میں نے اپنا فرض پورا کر دیا ہے؛ میں نے اپنا گھر اور معاش چھوڑ دیا اور میں نے اپنے آپ کو خرچ کیا۔ کیا یہ سب میرا دل کو خدا کے سپرد کرنے کی مثالیں نہیں ہیں؟ میں اور کس طرح اپنا دل خدا کو دے سکتا ہوں؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ یہ اصل میں میرا دل اُسے دینے کے طریقے نہیں تھے؟ خدا کا مخصوص تقاضا کیا ہے؟“ تقاضا بہت آسان ہے۔ درحقیقت کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی آزمائشوں کے مختلف مراحل میں اپنے دل پہلے ہی مختلف درجوں میں خدا کے سپرد کر چکے ہیں، لیکن لوگوں کی وسیع اکثریت کبھی بھی اپنے دل خدا کے حوالے نہیں کرتی۔ جب خدا تجھے آزماتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ کیا تیرا دل اس کے ساتھ ہے، جسم کے ساتھ یا شیطان کے ساتھ۔ جب خدا تجھے آزماتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ کیا تو اس کے خلاف کھڑا ہے یا اس کے ساتھ مطابقت رکھنے والے مقام پر ہے، اور وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ تیرا دل اس کی طرف ہے یا نہیں۔ جب تو ناپختہ ہوتا ہے اور آزمائشوں کا سامنا کرتا ہے، تو تیرا اعتماد کم ہوتا ہے، اور تو ٹھیک سے نہیں جان سکتا کہ خدا کے ارادوں کو پورا کرنے کے لیے تجھے کیا کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ تیری سچائی کی سمجھ بوجھ محدود ہے۔ تاہم، اگر تو پھر بھی صحیح طریقے اور خلوص کے ساتھ خدا کی عبادت کر سکتا ہے، اور اگر تو اپنا دل اس کے سپرد کرنے کے لیے تیار ہو سکتا ہے، تو اسے اپنا حاکم بنا، اور اس کو وہ تمام چیزیں پیش کرنے کے لیے تیار ہو جا جنہیں تو سب سے زیادہ قیمتی سمجھتا ہے، اس صورت میں تو اپنا دل پہلے ہی خدا کو دے چکا ہو گا۔ جب تو زیادہ وعظ سنے گا اور سچائی کو زیادہ سمجھے گا، تو تیری حیثیت بھی آہستہ آہستہ بڑھے گی۔ اس وقت خدا کے مطالبات کا معیار ویسا نہیں ہو گا جیسا کہ اس وقت تھا جب تو ناپختہ تھا؛ وہ تجھ سے زیادہ بلند معیار کا مطالبہ کرے گا۔ جب لوگ آہستہ آہستہ اپنے دلوں کو خدا کے حوالے کر دیتے ہیں، تو ان کے دل آہستہ آہستہ اس کے قریب ہوتے جاتے ہیں؛ جب لوگ حقیقی طور پر خدا کے زیادہ قریب ہو سکتے ہیں، تب ان کے دل اس کی مزید تعظیم کریں گے۔ خدا جو چاہتا ہے وہ بس ایسا ہی دل ہے۔
جب خدا کسی کا دل حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ اس شخص کو بے شمار آزمائشوں میں ڈالے گا۔ ان آزمائشوں کے دوران، اگر خدا اس شخص کے دل کو حاصل نہیں کرتا ہے یا یہ دیکھتا ہے کہ اس شخص کا کوئی برا رویہ ہے – یعنی اگر خدا اس شخص کو اس طرح عمل کرتے یا برتاؤ کرتے ہوئے نہیں دیکھتا ہے جس سے اس کی تعظیم ظاہر ہوتی ہے، اور اگر وہ اس شخص میں برائی سے بچنے کا رویہ اور عزم نہیں دیکھتا – تو پھر، بہت سی آزمائشوں کے بعد، اس کے معاملے میں خدا کا صبر ختم ہو جائے گا، اور وہ اسے مزید برداشت نہیں کرے گا۔ وہ اس شخص کو مزید نہیں آزمائے گا، اور وہ اس پر مزید کام نہیں کرے گا۔ تو، یہ صورتحال اس شخص کے انجام کے لیے کس چیز کی علامت ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ اس کا کوئی انجام نہیں ہے۔ شاید اس شخص نے کوئی برائی نہ کی ہو؛ شاید اس نے کوئی رکاوٹ نہ ڈالی ہو اور کوئی خلل پیدا نہ کیا ہو۔ شاید اس نے کھل کر خدا کی مخالفت نہ کی ہو۔ تاہم، اس شخص کا دل خدا سے پوشیدہ رہتا ہے؛ اس کا خدا کے بارے میں رویہ اور نقطہ نظر کبھی بھی واضح نہیں رہا ہے، اور خدا واضح طور پر یہ نہیں دیکھ سکتا کہ اس کا دل اسے دیا گیا ہے یا یہ کہ وہ اس سے ڈرنے اور برائی سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسے لوگوں کے معاملے میں خدا کا صبر ختم ہو جاتا ہے، اور وہ ان کے لیے مزید کوئی قیمت ادا نہیں کرے گا، ان پر کوئی رحم نہیں کرے گا، یا ان پر کوئی کام نہیں کرے گا۔ ایسے شخص کی خدا پر ایمان کی زندگی ختم ہو چکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا نے اس کی جتنی بھی آزمائشیں کی ہیں ان میں سے خدا کو نتیجہ حاصل نہیں ہوا جو وہ چاہتا ہے۔ اس طرح، بہت سے لوگ ہیں جن میں میں نے روح القدس کی آگہی اور روشنی کبھی نہیں دیکھی۔ یہ کیسے دیکھی جا سکتی ہے؟ یہ لوگ شاید کئی سالوں سے خدا پر ایمان رکھتے ہیں، اور سطحی طور پر، انہوں نے پر جوش انداز میں برتاؤ کیا ہے؛ انہوں نے بہت سی کتابیں پڑھی ہیں، بہت سے معاملات کو سنبھالا ہے، ایک درجن یا اس سے زیادہ کاپیاں بھری ہیں، اور بہت سے الفاظ اور اصولوں پر عبور حاصل کر لیا ہے۔ تاہم، ان میں کبھی کوئی ظاہری ترقی نہیں ہوئی، خدا کے بارے میں ان کے خیالات پوشیدہ رہے ہیں، اور ان کے رویے ابھی تک غیر واضح ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ان کے دلوں کو نہیں دیکھا جا سکتا؛ وہ ہمیشہ غلاف میں لپیٹے ہوئے ہیں اور مہر بند ہیں – انھیں خدا کی طرف سے مہر بند کر دیا گیا ہے۔ نتیجے کے طور پر، اس نے ان کے سچے دل نہیں دیکھے، اس نے ان لوگوں میں اپنے لیے کوئی حقیقی تعظیم نہیں دیکھی، اور اس سے بڑھ کر، اس نے یہ نہیں دیکھا کہ یہ لوگ اس کے راستے پر کیسے چلتے ہیں۔ اگر خدا نے ابھی تک ایسے لوگوں کو حاصل نہیں کیا ہے تو کیا وہ انھیں مستقبل میں حاصل کر سکتا ہے؟ وہ نہیں کر سکتا! کیا وہ ایسی چیزوں کے لیے زور لگاتا رہے گا جو حاصل نہیں کی جا سکتیں؟ وہ نہیں کرے گا! پھر، ایسے لوگوں کے بارے میں خدا کا موجودہ رویہ کیا ہے؟ (وہ انھیں ٹھکراتا ہے اور انھیں نظر انداز کرتا ہے)۔ وہ ان کو نظر انداز کر دیتا ہے! خدا ایسے لوگوں پر توجہ نہیں دیتا۔ وہ انھیں مسترد کر دیتا ہے۔ تم نے ان الفاظ کو بہت جلد اور بہت درست طریقے سے یاد کر لیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جو تم نے سنا ہے اسے سمجھ گئے ہو!
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو جس وقت خدا کی پیروی کرنے لگتے ہیں تو ناپختہ اور جاہل ہوتے ہیں؛ وہ اس کی مرضی کو نہیں سمجھتے، اور نہ ہی وہ یہ جانتے ہیں کہ اس پر ایمان لانا کیا ہے۔ وہ خدا پر ایمان لانے اور اس کی پیروی کرنے کے لیے انسان کا تصور کیا ہوا اور غلط طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو جب آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو انھیں اس کی خبر نہیں ہوتی ہے؛ وہ خدا کی راہنمائی اور آگہی کے سامنے بے حس رہتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ اپنے دلوں کو خدا کے حوالے کرنے کا کیا مطلب ہے یا ایک آزمائش کے دوران ثابت قدم رہنے کا کیا مطلب ہے۔ خدا ایسے لوگوں کو ایک محدود وقت دے گا، اور اس وقت کے دوران، وہ انھیں اپنی آزمائشوں کی نوعیت اور اپنے ارادوں کو سمجھنے دے گا۔ اس کے بعد، ان لوگوں کو اپنے نقطہ نظر کا لازمی طور پر مظاہرہ کرنا ہو گا۔ خدا ابھی تک ان لوگوں کے لیے منتظر ہے جو اس مرحلے پر ہیں۔ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جن کے کچھ خیالات ہیں، وہ ابھی تک ڈگمگاتے ہیں، جو اپنے دلوں کو خدا کے سپرد کرنا چاہتے ہیں لیکن ایسا کرنے کے لیے مفاہمت نہیں کر رہے ہیں، اور جو کچھ بنیادی سچائیوں پر عمل کرنے کے باوجود چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب بڑی آزمائشوں کا سامنا کرتے ہیں تو ہار مان لیتے ہیں – ان کے بارے میں خدا کا رویہ کیا ہے؟ وہ اب بھی ان سے تھوڑی سی توقع رکھتا ہے، اور نتیجے کا انحصار ان کے رویے اور کارکردگی پر ہوتا ہے۔ اگر لوگ ترقی کے لیے سرگرم نہیں ہیں تو خدا کیا کرتا ہے؟ وہ ان سے دستبردار ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے کہ خدا تجھے ترک کرے، تو پہلے ہی اسے ترک کر چکا ہوتا ہے۔ اس طرح، تو خدا کو ایسا کرنے کا الزام نہیں دے سکتا۔ تیرا خدا کے خلاف شکوہ کرنا غلط ہے۔
مختلف شرمندگیاں جو ایک عملی سوال سے لوگوں کو ہوتی ہیں
ایک اور قسم کا شخص ہے جس کا انجام سب سے زیادہ المناک ہے؛ یہ وہ شخص ہے جس کا ذکر کرنا مجھے سب سے زیادہ ناپسند ہے۔ وہ اس لیے المناک نہیں ہے کہ اسے خدا کی سزا ملی ہے، یا اس لیے کہ اس کے لیے خدا کے مطالبات سخت ہیں اور جس کی وجہ سے اس کا ایک المناک انجام ہے؛ بلکہ، وہ اس لیے المناک ہے کیونکہ وہ خود اپنے ساتھ ایسا کرتا ہے۔ جیسا کہ ایک عام قول ہے، وہ اپنی قبر خود کھودتا ہے۔ کس قسم کا شخص ایسے کرتا ہے؟ یہ لوگ صحیح راستے پر نہیں چلتے اور ان کے انجام پہلے ہی ظاہر ہو جاتے ہیں۔ خدا کی نظر میں ایسے لوگ اس کی نفرت کا سب سے بڑا ہدف ہیں۔ انسانی لحاظ سے ایسے لوگ سب سے زیادہ قابل رحم ہوتے ہیں۔ جب ایسے لوگ خدا کی پیروی کرنے لگتے ہیں تو وہ بہت پرجوش ہوتے ہیں؛ وہ بہت زیادہ قیمت ادا کرتے ہیں، خدا کے کام کے امکانات کے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہیں، اور جب ان کے اپنے مستقبل کی بات آتی ہے تو ان کے پاس بہت زیادہ تخیل ہوتا ہے۔ وہ خاص طور پر خُدا پر بھی بھروسا کرتے ہیں، یہ یقین رکھتے ہوئے کہ وہ انسانوں کو مکمل بنا سکتا ہے اور انھیں ایک شاندار منزل تک پہنچا سکتا ہے۔ پھر بھی، کسی بھی وجہ سے، یہ لوگ تب خدا کے کام کے دوران بھاگ جاتے ہیں۔ یہاں ”بھاگنے“ کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ وہ الوداع کہے بغیر، حتیٰ کہ آواز نکالے بغیر غائب ہو جاتے ہیں؛ وہ ایک لفظ کہے بغیر چلے جاتے ہیں۔ اگرچہ ایسے لوگ خدا پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن وہ اپنے ایمان کے راستے پر کبھی بھی جڑیں نہیں پکڑتے۔ لہٰذا، چاہے کتنے ہی عرصے تک وہ اُس پر ایمان رکھتے ہوں، وہ پھر بھی خدا سے منہ موڑنے کے قابل ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ کاروبار کے لیے چھوڑ دیتے ہیں کچھ اپنی زندگی گزارنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں، کچھ امیر ہونے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں، اور کچھ شادی کرنے اور بچے پیدا کرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔۔ چھوڑنے والوں میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں بعد میں ضمیر کچوکے لگاتا ہے اور وہ واپس آنا چاہتے ہیں، اور دوسرے ایسے بھی ہیں جن کے لیے زندگی بسر کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور سالہا سال اس دنیا میں بھٹکتے رہتے ہیں۔ یہ بھٹکنے والے بہت زیادہ مصائب کا سامنا کرتے ہیں، اور وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں رہنا بہت تکلیف دہ ہے اور وہ خدا سے جدا نہیں ہو سکتے۔ وہ آرام، سکون اور خوشی حاصل کرنے کے لیے خدا کے گھر واپس آنا چاہتے ہیں، اور وہ تباہی سے بچنے کے لیے، یا نجات اور ایک خوبصورت منزل حاصل کرنے کے لیے خدا پر ایمان رکھنا جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ یقین رکھتے ہیں کہ خدا کی محبت لامحدود ہے، اور یہ کہ اس کا فضل لازوال ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ چاہے کسی نے کچھ بھی کیا ہو، خدا کو ضرور انھیں معاف کر دینا اور ان کے ماضی کے حوالے سے تحمل سے کام لینا چاہیے۔ یہ لوگ بار بار کہتے ہیں کہ وہ واپس آکر اپنے فرائض انجام دینا چاہتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ لوگ بھی ہیں جو اپنا کچھ مال و اسباب کلیسیا کو دے دیتے ہیں، اس امید پر کہ یہ خدا کے گھر واپسی کی راہ ہموار کرے گا۔ ایسے لوگوں کے ساتھ خدا کا رویہ کیا ہے؟ اسے ان کے انجام کا تعین کیسے کرنا چاہیے؟ بلا جھجھک بات کرو۔ (میں نے سوچا تھا کہ خدا اس قسم کے شخص کو قبول کر لے گا، لیکن ابھی یہ سننے کے بعد، میں محسوس کرتا ہوں کہ شاید وہ نہ کرے)۔ اپنا استدلال بیان کرو۔ (ایسے لوگ خدا کے سامنے صرف اس لیے آتے ہیں کہ ان کا انجام موت نہ ہو، وہ سچے خلوص کے ساتھ پر خدا پر ایمان لانے کے لیے نہیں آتے؛ وہ اس لیے آتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ خدا کا کام جلد ختم ہو جائے گا، اس لیے وہ اس دھوکے میں مبتلا ہیں کہ وہ آ کر برکتیں وصول کر سکتے ہیں)۔ تو کہہ رہا ہے کہ یہ لوگ خلوص سے خدا پر ایمان نہیں لاتے، اس لیے وہ انھیں قبول نہیں کر سکتا، ٹھیک؟ (ہاں)۔ (میری سمجھ بوجھ یہ ہے کہ ایسے لوگ محض موقع پرست ہوتے ہیں، اور خدا پر حقیقی طور پر ایمان نہیں رکھتے)۔ وہ خدا پر ایمان لانے کے لیے نہیں آئے؛ وہ موقع پرست ہیں۔ خوب کہا! یہ موقع پرست ایسے لوگ ہیں جن سے ہر کوئی نفرت کرتا ہے۔ وہ ہوا کے رخ پر چلتے ہیں، اور جب تک انھیں اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہ ہو انھیں کچھ بھی کرنے کی زحمت نہیں دی جا سکتی، اس لیے یقیناً وہ قابلِ حقارت ہیں! کیا کسی دوسرے بھائی یا بہن کے پاس کوئی رائے ہے جو وہ بتانا چاہیں گے؟ (خدا انھیں اب قبول نہیں کرے گا، کیونکہ اس کا کام مکمل ہونے والا ہے، اور اب وہ وقت ہے کہ لوگوں کے انجام مرتب ہو رہے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے کہ یہ لوگ واپس آنا چاہتے ہیں – اس لیے نہیں کہ وہ حقیقت میں سچائی کی پیروی کرنا چاہتے ہیں۔ بلکہ اس لیے کہ وہ آفات کو نازل ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں، یا اس لیے کہ وہ بیرونی عوامل سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اگر وہ واقعی سچائی کی پیروی کرنے کا ارادہ رکھتے تو وہ خدا کے کام کے دوران کبھی نہ بھاگتے)۔ کیا کوئی دوسری آراء ہیں؟ (انھیں قبول نہیں کیا جائے گا، خدا نے انھیں پہلے ہی مواقع دیے تھے، لیکن انہوں نے اس کی طرف توجہ نہ دینے والا رویہ اختیار کرنے پر اصرار کیا۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ان لوگوں کی نیتیں کیا ہیں، اور اگر وہ واقعی توبہ بھی کر لیں، تب بھی خدا انھیں واپس آنے نہیں دے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے انھیں بہت سے مواقع دیے، لیکن وہ پہلے ہی اپنا رویہ ظاہر کر چکے ہیں: وہ خدا کو چھوڑنا چاہتے تھے۔ اس وجہ سے، اگر وہ اب واپس آنے کی کوشش کرتے ہیں، تو خدا انھیں قبول نہیں کرے گا)۔ (میں اتفاق کرتا ہوں کہ خدا اس قسم کے شخص کو قبول نہیں کرے گا، کیونکہ اگر ایک شخص نے سچا راستہ دیکھ لیا ہے، ایک لمبے عرصے تک خدا کے کام کا تجربہ کر لیا ہے، اور پھر بھی دنیا میں اور شیطان کی آغوش میں واپس جا سکتا ہے، تو یہ خدا کے ساتھ بہت بڑی بےوفائی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ خدا کا جوہر رحمت اور محبت ہے، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ اس جوہر کا رخ کس قسم کے شخص کی طرف ہے۔ اگر یہ شخص خدا کے سامنے آسودگی کی تلاش میں یا اپنی امیدیں رکھنے کے لیے کسی چیز کی تلاش کے لیے آتا ہے، تو وہ اس قسم کا بالکل نہیں ہے جو سچے دل سے خدا پر ایمان رکھتا ہے، اور ایسے لوگوں پر خدا کی رحمت صرف اسی حد تک ہوتی ہے)۔ اگر خدا کا جوہر رحم ہے، تو پھر وہ اس قسم کے شخص کو اس میں سے کچھ زیادہ کیوں نہیں دیتا؟ کچھ اور رحم کے ساتھ، کیا اس شخص کو پھر ایک موقع نہیں ملے گا؟ ماضی میں، لوگ اکثر کہتے تھے کہ خدا چاہتا ہے کہ ہر شخص بچایا جائے اور یہ نہیں چاہتا کہ کسی کو دائمی عذاب کا سامنا کرنا پڑے؛ اگر سو میں سے ایک بھیڑ بھی گم ہو جائے تو خدا اس ایک گمشدہ کی تلاش کے لیے ننانوے کو چھوڑ دے گا۔ اب جب ان لوگوں کی بات آتی ہے تو کیا خدا کو انھیں قبول کرنا اور ان کے مخلصانہ ایمان کی بنا پر انھیں دوسرا موقع دینا چاہیے؟ یہ درحقیقت کوئی مشکل سوال نہیں ہے؛ یہ بہت آسان ہے! اگر تمہیں واقعی خدا کا ادراک ہے اور اس کا حقیقی علم رکھتے ہو، تو پھر زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں ہے – اور نہ ہی زیادہ قیاس آرائیوں کی ضرورت ہے، ٹھیک؟ تمہارے جوابات صحیح راستے پر ہیں، لیکن خدا کے نقطہ نظر سے وہ اب بھی بہت پیچھے ہیں۔
ابھی تم میں سے بعض نے یہ یقین ظاہر کیا کہ خدا ممکنہ طور پر اس قسم کے شخص کو قبول نہیں کر سکتا۔ دوسرے زیادہ واضح نہیں تھے، یہ سوچتے ہوئے کہ خدا انھیں شاید قبول کرے یا نہ کرے – یہ رویہ زیادہ اعتدال پسندانہ ہے۔ تم میں ایسے لوگ بھی تھے جن کا نقطہ نظر یہ تھا کہ تمہیں امید ہے کہ خدا اس قسم کے شخص کو قبول کر لے گا – یہ رویہ زیادہ مبہم ہے۔ تم میں سے جو لوگ تمہارے خیال میں یہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کا ایمان ہے کہ خدا نے اتنے عرصے تک کام کیا ہے، اور یہ کہ اس کا کام مکمل ہے، اس لیے اسے ان لوگوں کے ساتھ تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ اس طرح، تمہیں لگتا ہے کہ وہ انھیں دوبارہ قبول نہیں کرے گا۔ تم میں سے زیادہ اعتدال پسند لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان معاملات سے انفرادی حالات کے مطابق نمٹنا چاہیے؛ اگر ان لوگوں کے دل خدا سے جدا نہیں ہیں، اور اگر وہ حقیقی طور پر خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور سچ کی جستجو کرتے ہیں، تو خدا کو ان کی سابقہ کمزوریوں اور غلطیوں کو بھول جانا چاہیے – اسے ان لوگوں کو معاف کرنا، انھیں دوسرا موقع دینا چاہیے، اور انھیں اپنے گھر لوٹنے اور اپنی نجات قبول کرنے کی اجازت دینی چاہیے۔ تاہم، اگر یہ لوگ بعد میں ایک بار پھر بھاگ جائیں تو پھر خدا ان کی مزید خواہش نہیں کرے گا، اور ان لوگوں کو ترک کر دینا ناانصافی نہیں سمجھی جا سکتی۔ ایک اور گروہ ہے جو یہ امید کرتا ہے کہ خدا ایسے شخص کو قبول کر سکتا ہے۔ اس گروہ کو قطعی طور پر یقین نہیں ہے کہ خدا واقعی ایسا کرے گا یا نہیں۔ اگر وہ مانتے ہیں کہ اسے اس قسم کے شخص کو قبول کرنا چاہیے، لیکن وہ نہیں کرتا، تو ایسا لگتا ہے کہ یہ نظریہ خدا کے نقطہ نظر سے قدرے مطابقت نہیں رکھتا۔ اگر وہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا کو ایسے شخص کو قبول نہیں کرنا چاہیے، اور خدا یہ کہتا ہے کہ اسے انسانوں کے ساتھ بے حد محبت ہے اور وہ اس قسم کے شخص کو ایک اور موقع دینے کے لیے تیار ہے، تو کیا یہ انسانی جہالت کی ایک کھلم کھلا مثال نہیں ہے؟ کسی بھی صورت میں، تم سب کے اپنے اپنے نقطہ ہائے نظر ہیں۔ یہ نقطہ ہائے نظر تمہارے اپنے خیالات کے اندر ایک قسم کے علم کی نمائندگی کرتے ہیں؛ وہ سچائی اور خدا کی مرضی کے بارے میں تمہاری سمجھ بوجھ کی گہرائی کے بھی عکاس ہیں۔ ایسا کہنا درست ہے، کیا نہیں ہے؟ یہ بہت عمدہ ہے کہ تم اس معاملے میں رائے رکھتے ہو۔ تاہم، یہ سوال اب بھی باقی ہے کہ آیا تمہاری آراء درست ہیں یا نہیں۔ تم سب کچھ پریشان ہو، کیا تم نہیں ہو؟ ”تو پھر صحیح کیا ہے؟ میں واضح طور پر نہیں دیکھ سکتا، اور میں بالکل نہیں جانتا کہ خدا کیا سوچ رہا ہے، اور اس نے مجھے کچھ نہیں بتایا۔ میں کیسے جان سکتا ہوں کہ وہ کیا سوچ رہا ہے؟ انسانیت کے ساتھ خدا کا رویہ محبت ہے۔ ماضی میں اس کے رویے کو دیکھتے ہوئے، اسے ایسے شخص کو قبول کر لینا چاہیے، لیکن میں خدا کے موجودہ رویے پر زیادہ واضح نہیں ہوں؛ میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ شاید وہ اس شخص کو قبول کر لے گا، اور شاید وہ نہیں کرے گا۔“ یہ ہنسنے والی بات ہے، ہے نا؟ اس سوال نے واقعی تمہیں حیران کر دیا ہے۔ اگر تم اس معاملے پر مناسب نقطہ نظر نہیں رکھتے ہو، تو تم کیا کرو گے جب تمہاری کلیسیا کو حقیقت میں ایسے شخص کا سامنا کرنا پڑے گا؟ اگر تم صورتحال کو صحیح طریقے سے نہیں سنبھالتے ہو، تو تم خدا کو ناراض کر سکتے ہو۔ کیا یہ ایک خطرناک معاملہ نہیں ہے؟
میں نے ابھی جو معاملہ اٹھایا ہے، میں اس کے بارے میں تمہارے خیالات کے بارے میں کیوں پوچھنا چاہتا ہوں؟ میں تمہارے نقطہ نظر کو جانچنا چاہتا ہوں، یہ جانچنے کے لیے کہ تم خدا کے بارے میں کتنا علم رکھتے ہو، اور تم اس کے ارادوں اور رویے کو کتنا سمجھتے ہو۔ جواب کیا ہے؟ اس کا جواب خود تمہارے نقطہ ہائے نظر ہیں۔ تم میں سے کچھ بہت قدامت پسند ہیں، اور تم میں سے کچھ اندازہ لگانے کے لیے اپنے تخیلات استعمال کر رہے ہیں۔ ”اندازہ لگانا“ کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ سمجھنے سے قاصر ہونا ہے کہ خدا کس طرح سوچتا ہے، اور اس طرح بے بنیاد قیاس آرائیاں کرنا کہ خدا کو کس طرح سوچنا چاہیے؛ تم حقیقت میں اپنے آپ کو نہیں جانتے کہ تم صحیح ہو یا غلط، اس لیے تم ایک مبہم نقطہ نظر کا اظہار کرتے ہو۔ اس حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے، تم نے کیا دیکھا؟ خُدا کی پیروی کرتے وقت، لوگ شاذ و نادر ہی اُس کی مرضی پر توجہ دیتے ہیں، اور وہ بہت کم اُس کے خیالات اور انسانوں کے لیے اُس کے رویے پر دھیان دیتے ہیں۔ لوگ خدا کے خیالات کو نہیں سمجھتے، اس لیے جب اس کے ارادوں اور مزاج کے بارے میں سوالات پوچھے جاتے ہیں، تو تم الجھ جاتے ہو؛ تم گہری غیر یقینی صورتحال میں پڑ جاتے ہو، اور پھر تم یا تو اندازہ لگاتے ہو یا خطرہ مول لیتے ہو۔ یہ کس قسم کی ذہنیت ہے؟ اس سے ایک حقیقت ثابت ہوتی ہے: کہ زیادہ تر لوگ جو خدا پر ایمان رکھتے ہیں وہ اسے خالی ہوا کا ایک جھونکا سمجھتے ہیں اور ایسی چیز سمجھتے ہیں جو ایک منٹ میں موجود نظر آتی ہے اور اگلے منٹ میں نہیں۔ میں اسے اس طرح کیوں کہتا ہوں؟ کیونکہ جب بھی تمہیں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے، تو تم خدا کی مرضی سے لاعلم ہوتے ہو۔ تم اس کی مرضی سے لاعلم کیوں ہوتے ہو؟ صرف ابھی نہیں، بلکہ شروع سے آخر تک، تم اس مسئلے کے بارے میں خدا کے رویے کو نہیں جانتے۔ تو اس کا ادراک نہیں کر سکتا اور نہیں جانتا کہ خدا کا رویہ کیا ہے، لیکن کیا تو نے اس پر زیادہ غور کیا ہے؟ کیا تو نے اسے جاننے کی کوشش کی ہے؟ کیا تو نے اس کے بارے میں رفاقت کی ہے؟ نہیں! اس سے ایک حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے: تیرے عقیدے کے خدا کا حقیقی خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ خدا پر تیرے ایمان میں، تو صرف اپنے اور اپنے راہنماؤں کے ارادوں پر غور کرتا ہے؛ تو خدا کے کلام کے صرف سطحی اور نظریاتی معنی پر غور کرتا ہے، خدا کی مرضی کو جاننے یا تلاش کرنے کی کسی بھی حقیقی کوشش کے بغیر۔ کیا ایسا معاملہ نہیں ہے؟ اس معاملے کا جوہر بہت خوفناک ہے! اتنے سالوں کے بعد میں نے بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان کے عقیدے نے ان کے ذہنوں میں خدا کو کس چیز میں بدل دیا ہے؟ کچھ لوگ خدا پر اس طرح ایمان رکھتے ہیں جیسے وہ خالی ہوا کا ایک جھونکا ہو۔ ان لوگوں کے پاس خدا کے وجود سے متعلق سوالات کا کوئی جواب نہیں ہے، کیونکہ وہ اس کی موجودگی یا اس کی عدم موجودگی کو نہ تو محسوس کر سکتے ہیں اور نہ ہی سمجھ سکتے ہیں، اس کو صاف طور پر دیکھنا یا سمجھنا تو اور بھی دور کی بات ہے۔ لاشعوری طور پر یہ لوگ سوچتے ہیں کہ خدا موجود نہیں ہے۔ دوسرے لوگ خدا پر اس طرح ایمان رکھتے ہیں جیسے وہ ایک انسان ہو۔ یہ لوگ سوچتے ہیں کہ وہ ان تمام چیزوں کو کرنے سے قاصر ہے جنھیں کرنے سے وہ بھی قاصر ہیں، اور یہ کہ اسے اسی طرح سوچنا چاہیے جس طرح وہ سوچتے ہیں۔ خدا کی ان کی تشریح ”ایک غیر مرئی اور ناقابل لمس شخص“ کی ہے۔ لوگوں کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو خدا کو اس طرح مانتا ہے جیسے وہ ایک کٹھ پتلی ہو؛ یہ لوگ یقین رکھتے ہیں کہ خدا کے کوئی جذبات نہیں ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ خدا مٹی کا ایک مجسمہ ہے، اور جب کسی مسئلے کا سامنا ہوتا ہے، تو خدا کا کوئی رویہ، نقطہ نظر یا خیالات نہیں ہوتے؛ انھیں یقین ہے کہ وہ انسانیت کے رحم و کرم پر ہے۔ لوگ صرف اس پر یقین رکھتے ہیں جس پر وہ یقین رکھنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ اسے عظیم بناتے ہیں تو وہ عظیم ہے؛ اگر وہ اسے چھوٹا بناتے ہیں تو وہ چھوٹا ہے۔ جب لوگ گناہ کرتے ہیں اور انھیں خدا کی رحمت، رواداری اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے، تو وہ فرض کرتے ہیں کہ خدا کو اپنی رحمت پھیلانی چاہیے۔ یہ لوگ اپنے ذہن میں ایک ”خدا“ ایجاد کر لیتے ہیں، اور پھر اس ”خدا“ کو اپنے مطالبات کو پورا کرنے اور اپنی تمام خواہشات کو پورا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کب یا کہاں، اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ایسے لوگ کیا کرتے ہیں، وہ خدا کے ساتھ اپنے سلوک اور اپنے ایمان میں اس مفروضے کو اپنائیں گے۔ یہاں تک کہ وہ لوگ بھی ہیں جو خدا کے مزاج کو برہم کرنے کے بعد بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ انھیں بچا سکتا ہے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ خدا کی محبت لا محدود ہے اور اس کا مزاج راستباز ہے، اور یہ کہ کوئی شخص خدا کو چاہے کتنا ہی برہم کیوں نہ کرے، وہ اس میں سے کچھ بھی یاد نہیں رکھے گا۔ ان کا خیال ہے کہ چونکہ انسانی خطائیں، ناجائز مداخلت اور انسانی نافرمانیاں انسان کے مزاج کا لمحاتی اظہار ہیں، اس لیے خدا لوگوں کو مواقع فراہم کرے گا، اور ان کے ساتھ تحمل اور بردباری سے پیش آئے گا؛ وہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا اب بھی ان سے پہلے کی طرح پیار کرے گا۔ اس طرح، وہ نجات حاصل کرنے کی بڑی امیدیں برقرار رکھتے ہیں۔ درحقیقت، اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ لوگ خدا پر کیسے یقین رکھتے ہیں، جب تک وہ سچائی کی جستجو نہیں کر رہے ہیں، وہ ان کے ساتھ منفی رویہ رکھے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا پر تیرے ایمان کے دوران، اگرچہ تو نے خدا کے کلام کی کتاب کو لے لیا ہے اور اسے ایک خزانے کے طور پر سمجھا ہے، اور ہر روز اسے پڑھتا اور اس کا مطالعہ کرتا ہے، لیکن تو حقیقی خدا کو ایک طرف کر دیتا ہے۔ تو اسے محض خالی ہوا، یا صرف ایک شخص کے طور پر دیکھتا ہے – اور تم میں سے کچھ اسے ایک کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں سمجھتے ہیں۔ میں اسے اس طرح کیوں کہتا ہوں؟ میں ایسا اس لیے کرتا ہوں کہ جس طرح سے میں اسے دیکھتا ہوں، چاہے تمہیں کوئی مسئلہ درپیش ہو یا کسی صورت حال کا سامنا ہو، تو وہ چیزیں جو تیرے لاشعور میں موجود ہیں، وہ چیزیں جو تو اندرونی طور پر پیدا کرتا ہے، ان کا خدا کے کلام یا سچائی کی جستجو کے ساتھ کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ تو صرف یہ جانتا ہے کہ تو خود کیا سوچ رہا ہے، تیرا اپنا نقطہ نظر کیا ہے، اور پھر تو اپنے خیالات اور آراء کو خدا پر تھوپ دیتا ہے۔ تیرے ذہن میں وہ خدا کے نقطہ ہائے نظر بن جاتے ہیں، اور تو ان نقطہ ہائے نظر سے معیارات بنا لیتا ہے جنہیں تو غیر متزلزل طور پر برقرار رکھتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، اس طرح آگے بڑھنا تجھے خدا سے دور اور بہت دور لے جاتا ہے۔
خدا کا نقطہ نظر سمجھو اور خدا کے بارے میں تمام غلط فہمیوں کو ترک کر دو
تم فی الحال جس خدا پر ایمان رکھتے ہو وہ آخر کس قسم کا خدا ہے؟ کیا تم نے کبھی اس بارے میں سوچا ہے؟ جب وہ کسی برے شخص کو برے کام کرتے دیکھتا ہے تو کیا وہ اسے حقیر سمجھتا ہے؟ (ہاں، وہ سمجھتا ہے)۔ جب وہ جاہل لوگوں کو غلطیاں کرتے دیکھتا ہے تو اس کا رویہ کیا ہوتا ہے؟ (افسوس)۔ جب وہ لوگوں کو اپنے نذرانے چوری کرتے دیکھتا ہے تو اس کا رویہ کیا ہوتا ہے؟ (وہ انھیں قابلِ نفرت سمجھتا ہے)۔ یہ سب بالکل واضح ہے۔ جب خُدا کسی کو اپنے ایمان میں اُلجھن میں مبتلا ہوتے دیکھتا ہے، جو کسی طرح بھی سچائی کی جستجو نہیں کر رہا ہوتا ہے، تو خُدا کا رویہ کیا ہوتا ہے؟ تمہیں پورا یقین نہیں ہے، کیا ہے؟ ”الجھن“، ایک رویے کے طور پر، کوئی گناہ نہیں ہے، اور نہ ہی یہ خدا کو ناراض کرتی ہے، اور لوگ محسوس کرتے ہیں کہ یہ کوئی بڑی غلطی نہیں ہے۔ تو مجھے بتاؤ – اس معاملے میں خدا کا رویہ کیا ہے؟ (وہ انھیں تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے)۔ ”تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہونا“ – یہ کس قسم کا رویہ ہے؟ اِس کا مطلب ہے کہ خُدا اِن لوگوں کو حقیر سمجھتا ہے اور اُن سے نفرت کرتا ہے! وہ ایسے لوگوں کے ساتھ جو سلوک کرتا ہے وہ انھیں نظرانداز کر دینا ہے۔ خدا کا طریقہ یہ ہے کہ وہ انھیں ایک طرف کر دیتا ہے، ان پر کسی کام میں مشغول نہیں ہوتا ہے، اور ان میں آگہی، روشنی، تعلیم اور تربیت کا کام شامل ہے۔ ایسے لوگ خدا کے کام میں بالکل شمار نہیں ہوتے۔ خدا کا رویہ ان لوگوں کے ساتھ کیا ہے جو اس کے مزاج کو برہم کرتے ہیں اور اس کے انتظامی احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں؟ انتہائی نفرت! خُدا اُن لوگوں سے بے حد مشتعل ہوتا ہے جو اُس کے مزاج کو برہم کرنے سے توبہ نہیں کرتے! ”مشتعل ہونا“ ایک احساس، ذہنی اور جذباتی کیفیت سے زیادہ نہیں ہے؛ یہ ایک واضح رویے کے مطابق نہیں ہے۔ تاہم، یہ احساس – یہ ذہنی اور جذباتی کیفیت – ایسے لوگوں کے لیے ایک انجام لائے گی: یہ خدا کو شدید نفرت سے بھر دے گی! اس شدید نفرت کا نتیجہ کیا ہے؟ یہ ہے کہ خدا ان لوگوں کو ایک طرف کر دے گا اور وقتی طور پر ان کو جواب نہیں دے گا۔ پھر وہ ”خزاں کے بعد“ ان کی چھانٹی کرنے کا انتظار کرے گا۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا اب بھی ان لوگوں کا کوئی انجام ہو گا؟ خدا نے کبھی بھی ایسے لوگوں کو کوئی انجام دینے کا ارادہ نہیں کیا! لہٰذا، کیا یہ بالکل معمول کی بات نہیں ہے کہ خدا اب ایسے لوگوں کو جواب نہیں دیتا؟ (ہاں، یہ معمول کی بات ہے)۔ ایسے لوگوں کو کیا کرنے کی تیاری کرنی چاہیے؟ انھیں اپنے رویے اور کیے ہوئے برے اعمال کے منفی نتائج کو برداشت کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ یہ ایسے شخص کے لیے خدا کا جواب ہے۔ لہٰذا اب میں ایسے لوگوں سے صاف صاف کہتا ہوں: اب مزید اپنی خام خیالی پر قائم نہ رہو اور مزید خیالی پلاؤ پکانے میں مصروف نہ رہو۔ خدا لوگوں کو غیر معینہ مدت تک برداشت نہیں کرے گا؛ وہ اُن کی ناجائز مداخلت یا نافرمانیوں کو ہمیشہ کے لیے برداشت نہیں کرے گا۔ کچھ لوگ کہیں گے، ”میں نے بھی کچھ ایسے لوگوں کو دیکھا ہے، اور جب وہ دعا کرتے ہیں، تو وہ محسوس کرتے ہیں انھیں خاص طور پر خدا نے چھوا ہے، اور پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر روتے ہیں۔ عام طور پر وہ بھی بہت خوش ہوتے ہیں؛ ایسا لگتا ہے کہ ان کے ساتھ خدا کی موجودگی اور خدا کی راہنمائی ہے۔“ ایسی بکواس مت کرو! پھوٹ پھوٹ کر رونے کا لازمی یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی کو خدا نے چھو لیا ہے یا وہ خدا کی موجودگی سے لطف اندوز ہوا ہے، خدا کی راہنمائی تو دور کی بات ہے۔ اگر لوگ خدا کو ناراض کریں تو کیا وہ پھر بھی ان کی راہنمائی کرے گا؟ مختصر یہ کہ جب خدا نے کسی کو باہر نکالنے اور ترک کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو اس شخص کا انجام پہلے ہی ختم ہو چکا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ جب وہ عبادت کرتا ہے تو اس کے جذبات کتنے ہی موافق ہوں، یا اس کے دل میں خدا پر کتنا ہی ایمان ہو، اب اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ خدا کو اس قسم کے ایمان کی ضرورت نہیں ہے؛ وہ پہلے ہی ان لوگوں کو مسترد کر چکا ہے۔ مستقبل میں ان سے کیسے نمٹا جائے یہ بھی غیر اہم ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جس لمحے یہ لوگ خدا کو ناراض کرتے ہیں، ان کے انجام مرتب ہو جاتے ہیں۔ اگر خدا نے ایسے لوگوں کو نہ بچانے کا فیصلہ کر لیا ہے، تو وہ سزا پانے کے لیے پیچھے چھوڑ دیے جائیں گے۔ یہ خدا کا رویہ ہے۔
اگرچہ خدا کے جوہر میں محبت ایک کا عنصر موجود ہے اور وہ ہر ایک شخص پر مہربان ہے، لیکن لوگوں نے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا ہے اور بھول گئے ہیں کہ اس کا جوہر وقار والا بھی ہے۔ اس کے پاس محبت ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگ اس کے اندر جذبات یا ردعمل پیدا کیے بغیر آزادانہ طور پر اسے ناراض کر سکتے ہیں، اور نہ ہی اس اس کے رحمدل ہونے کی حقیقت کا یہ مطلب ہے کہ اس کے پاس لوگوں کے ساتھ سلوک کرنے کے بارے میں کوئی اصول نہیں ہیں۔ خدا زندہ ہے؛ وہ حقیقی طور پر موجود ہے۔ وہ نہ تو تصوراتی کٹھ پتلی ہے اور نہ ہی کوئی دوسری چیز۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ وہ موجود ہے، ہمیں ہر وقت اس کے دل کی آواز کو غور سے سننا چاہیے، اس کے رویے پر پوری توجہ دینی چاہیے، اور اس کے احساسات کو سمجھنا چاہیے۔ ہمیں خدا کی تشریح کرنے کے لیے انسانی تخیلات کا استعمال نہیں کرنا چاہیے، اور نہ ہی خدا کو انسانی تصورات کی بنیاد پر لوگوں کے ساتھ انسانی انداز میں برتاؤ پر مجبور کرنے کے لیے ہمیں انسانی خیالات یا خواہشات کو اس پر مسلط کرنا چاہیے۔ اگر تو ایسا کرتا ہے، تو تُو خدا کو ناراض کر رہا ہے، اس کے غضب کو بھڑکا رہا ہے، اور اس کے وقار کو للکار رہا ہے! اس لیے ایک بار جب تم اس معاملے کی سنگینی کو سمجھ گئے تو میں تم میں سے ہر ایک کو اپنے اعمال میں محتاط اور ہوشیار رہنے کی تاکید کرتا ہوں۔ اپنی گفتگو میں بھی محتاط اور ہوشیار رہو – اس معاملے میں کہ تم خدا کے ساتھ کس طرح برتاؤ کرتے ہو، تم جتنے زیادہ محتاط اور ہوشیار ہو گے، اتنا ہی بہتر ہو گا! جب تو یہ نہیں سمجھتا کہ خدا کا رویہ کیا ہے تو تُو بے پروائی سے بات کرنے سے گریز کر، اپنے اعمال میں بے پروا نہ ہو، اور سرسری انداز میں صراحت نہ کر۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ کسی من مانے نتیجے پر نہ پہنچ۔ اس کی بجائے، تجھے انتظار کرنا چاہیے اور تلاش کرنی چاہیے؛ یہ اعمال بھی خدا سے ڈرنے اور برائی سے بچنے کا اظہار ہیں۔ سب سے بڑھ کر، اگر تو یہ حاصل کر سکتا ہے، اور سب سے بڑھ کر، اگر تو یہ رویہ رکھتا ہے، تو خدا تجھے تیری حماقت، جہالت اور چیزوں کے پیچھے کی وجوہات کو نہ سمجھنے کا الزام نہیں دے گا۔ بلکہ، تیرے خدا کو ناراض کرنے کے خوف، اس کے ارادوں کے احترام، اور اس کی اطاعت پر آمادگی کے رویے کی وجہ سے، خدا تجھے یاد رکھے گا، تیری راہنمائی کرے گا اور تجھے آگہی دے گا، یا تیری ناپختگی اور جہالت کو برداشت کرے گا۔ اس کے برعکس، اگر اس کے بارے میں تیرا رویہ گستاخانہ ہوا – تو نے اپنی خواہش کے مطابق اسے جانچا یا من مانے انداز میں اس کے خیالات کا اندازہ لگایا اور تشریح کی – تو خدا تجھے ملامت کرے گا، تیری ڈانٹ ڈپٹ کرے گا، اور تجھے سزا بھی دے گا؛ یا، وہ تجھ پر تبصرہ پیش کر سکتا ہے۔ شاید اس تبصرے میں تیرا انجام شامل ہو۔ لہذا، میں ایک بار پھر زور دینا چاہتا ہوں: تم میں سے ہر ایک کو خدا کی طرف سے آنے والی ہر چیز کے بارے میں محتاط اور ہوشیار رہنا چاہیے۔ بے پروائی سے بات نہ کرو، اور اپنے کاموں میں بے پروا نہ ہو۔ اس سے پہلے کہ تو کچھ کہے، تجھے رک کر سوچنا چاہیے: کیا میرا یہ عمل خدا کو ناراض کرے گا؟ ایسا کرتے ہوئے، کیا میں خدا کی تعظیم کر رہا ہوں؟ سادہ معاملات میں بھی، تجھے ان سوالات کو جاننے کی کوشش کرنی چاہیے، اور ان پر غور کرنے میں زیادہ وقت گزارنا چاہیے۔ اگر تو واقعی ان اصولوں کے مطابق ہر پہلو، ہر چیز میں، ہر وقت عمل کر سکتا ہے، اور ایسا رویہ اختیار کر سکتا ہے، خاص طور پر جب تو کسی چیز کو نہ سمجھے، تو خدا ہمیشہ تیری راہنمائی کرے گا۔ تجھے پیروی کرنے کا ایک راستہ فراہم کرے گا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ لوگ کس قسم کی نمائشں کرتے ہیں، خدا انھیں بالکل واضح اور صاف طور پر دیکھتا ہے، اور وہ تیری ان نمائشوں کی صحیح اور مناسب تشخیص پیش کرے گا۔ آخری آزمائش سے گزرنے کے بعد، خدا تیرے تمام رویے کو لے گا اور تیرے انجام کا تعین کرنے کے لیے اسے مکمل طور پر جمع کر لے گا۔ یہ نتیجہ ہر ایک شخص کو شک کے سائے سے بالاتر ہو کر قائل کر دے گا۔ میں یہاں جو تمہیں بتانا چاہوں گا وہ یہ ہے: تمہارا ہر عمل، تمہارا ہر کام، اور تمہارا ہر خیال تمہاری قسمت کا فیصلہ کرتا ہے۔
لوگوں کے انجام کا تعین کون کرتا ہے؟
ایک اور انتہائی اہم معاملہ ہے جس پر بات کرنی ہے، اور وہ ہے خدا کے بارے میں تمہارا رویہ۔ یہ رویہ انتہائی اہم ہے! یہ اس بات کا تعین کرتا ہے کہ تم بالآخر تباہی کی طرف چلو گے یا اس خوبصورت منزل کی طرف جو خدا نے تمہارے لیے تیار کی ہے۔ بادشاہی کے دور میں، خدا پہلے ہی بیس سال سے زیادہ کام کر چکا ہے، اور شاید، ان دو دہائیوں کے دوران، تم دل کی گہرائی میں کچھ بے یقینی کا شکار رہے ہو کہ تم نے کیسی کارکردگی دکھائی ہے۔ تاہم، خدا کے دل میں، اس نے تم میں سے ہر ایک کے متعلق ایک حقیقی اور سچا اندراج کیا ہے۔ جس وقت سے ہر شخص نے اس کی پیروی کرنا اور اس کے وعظ سننا شروع کیے، رفتہ رفتہ حقیقت کو زیادہ سے زیادہ سمجھنا شروع کیا، اور اس وقت تک جب ہر شخص نے اپنے فرائض ادا کرنا شروع کر دیا، خدا نے ہر شخص کے تمام طرز عمل کا اندراج کیا ہوا ہے۔ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے اور ہر طرح کے ماحول اور آزمائشوں کا سامنا کرتے ہوئے لوگوں کے رویے کیا ہیں؟ وہ کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں؟ وہ اپنے دلوں میں خدا کے لیے کیسا محسوس کرتے ہیں؟ ۔۔۔ خدا کے پاس ان سب کا حساب ہے؛ اس کے پاس اس سب کا اندراج موجود ہے۔ شاید، تمہارے نقطہ نظر سے، یہ مسائل الجھے ہوئے ہیں۔ تاہم، جہاں خدا کھڑا ہے وہاں سے، وہ سب شیشے کی طرح واضح ہیں، اور بےقاعدگی کا ذرہ برابر اشارہ بھی نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا تعلق ہر شخص کے انجام سے ہے، اور یہ ہر شخص کی قسمت اور مستقبل کے امکانات کو بھی چھوتا ہے، اور اس سے بھی بڑھ کر، یہ وہ جگہ ہے جہاں خدا اپنی تمام سخت محنت والی کوششوں کو صرف کرتا ہے؛ اس لیے خدا اسے ذرا سا بھی نظرانداز نہیں کرے گا اور نہ ہی وہ کسی قسم کی بے پروائی کو برداشت کرتا ہے۔ خدا بنی نوع انسان کے اس حساب کتاب کا اندراج کر رہا ہے، خدا کی پیروی میں انسانوں کے شروع سے لے کر آخر تک کے تمام عمل کو لکھ رہا ہے۔ اس مدت کے دوران اس کے بارے میں تیرے رویے نے تیری قسمت کا تعین کیا ہے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے؟ اب کیا تجھے یقین ہے کہ خدا راستباز ہے؟ کیا اس کے اعمال مناسب ہیں؟ کیا تمہارے ذہنوں میں خدا کے بارے میں اب بھی کوئی اور تخیلات ہیں؟ (نہیں)۔ تو کیا تم کہو گے کہ لوگوں کے انجام خدا نے متعین کرنے ہیں، یا لوگوں نے خود متعین کرنے ہیں؟ (یہ خدا نے متعین کرنے ہیں)۔ وہ کون ہے جو ان کا تعین کرتا ہے؟ (خدا)۔ تمہیں یقین نہیں ہے، کیا ہے؟ ہانگ کانگ سے تعلق رکھنے والے بھائیو اور بہنو، بولو – ان کا تعین کون کرتا ہے؟ (لوگ خود ان کا تعین کرتے ہیں)۔ کیا لوگ خود ان کا تعین کرتے ہیں؟ کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ لوگوں کے انجام کا خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے؟ جنوبی کوریا کے بھائیو اور بہنو، بولو۔ (خدا لوگوں کے انجام کا تعین ان کے تمام کاموں اور اعمال کی بنیاد پر کرتا ہے اور اس کے مطابق کہ وہ کس راستے پر ہیں)۔ یہ ایک بہت ہی معروضی ردعمل ہے۔ یہاں ایک حقیقت ہے جس کے بارے میں مجھے تم سب کو ضرور مطلع کرنا چاہیے: خدا کے نجات کے کام کے دوران، اس نے انسانوں کے لیے ایک معیار مقرر کیا ہے۔ یہ معیار یہ ہے کہ انھیں لازمی خدا کے کلام کو سننا اور خدا کے راستے پر چلنا ہے۔ یہ وہی معیار ہے جو لوگوں کے انجام کو جانچنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اگر تو خدا کے اس معیار کے مطابق عمل کرتا ہے، تو تُو ایک اچھا انجام حاصل کر سکتا ہے۔ تو پھر، تو کیا کہے گا کہ اس انجام کا تعین کون کرتا ہے؟ یہ اکیلا خدا نہیں ہے جو اس کا تعین کرتا ہے، بلکہ خدا اور انسان مل کر کرتے ہیں۔ کیا یہ درست ہے؟ (ہاں) ایسا کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خدا ہی ہے جو انسانیت کی نجات کے کام میں مستعدی سے مشغول رہنا چاہتا ہے اور انسانیت کے لیے ایک خوبصورت منزل تیار کرنا چاہتا ہے؛ انسان خدا کے کام کے اہداف ہیں، اور یہ انجام، یہ منزل، وہی ہے جو خدا ان کے لیے تیار کرتا ہے۔ اگر اس کے پاس کام کرنے کے لیے کوئی اہداف نہ ہوتے تو اسے یہ کام کرنے کی ضرورت نہ ہوتی؛ اگر وہ یہ کام نہ کر رہا ہوتا تو انسانوں کو نجات حاصل کرنے کا موقع نہ ملتا۔ انسان ہی وہ ہیں جو بچائے جانے ہیں، اور اگرچہ بچایا جانا اس عمل کا غیر فعال حصہ ہے، لیکن یہ اس کردار کو ادا کرنے والوں کا رویہ ہے جو اس بات کا تعین کرتا ہے کہ خدا انسانیت کو بچانے کے اپنے کام میں کامیاب ہو گا یا نہیں۔ اگر وہ راہنمائی نہ ہوتی جو خدا تجھے دیتا ہے، تو تجھے اس کے معیار کا علم نہیں ہوتا اور نہ ہی تیرا کوئی مقصد ہوتا۔ اگر تیرے پاس یہ معیار، یہ مقصد ہے، پھر بھی تو تعاون نہیں کرتا، اس پر عمل نہیں کرتا، یا قیمت ادا نہیں کرتا، تو پھر تو یہ انجام حاصل نہیں کرے گا۔ اس وجہ سے میں کہتا ہوں کہ کسی کے انجام کو خدا سے الگ نہیں کیا جا سکتا، اور اسے اس شخص سے بھی الگ نہیں کیا جا سکتا۔ تو پھر اب تم جانتے ہو کہ کہ لوگوں کے انجام کا تعین کون کرتا ہے۔
لوگ تجربے کی بنیاد پر خدا کی تشریح کرنے پر مائل ہوتے ہیں
خدا کو جاننے کے موضوع کے بارے میں بات کرتے وقت، کیا تم نے کچھ محسوس کیا ہے؟ کیا تم نے دیکھا ہے کہ ان دنوں اس کے رویے میں تبدیلی آئی ہے؟ کیا انسانوں کے ساتھ اس کا رویہ ناقابلِ تغیر ہے؟ کیا وہ ہمیشہ اس طرح برداشت کرے گا، اپنی تمام تر محبت اور رحم کو انسانوں پر غیر معینہ مدت تک پھیلاتا رہے گا؟ اس معاملے میں خدا کا جوہر بھی شامل ہے۔ آؤ ہم نام نہاد آوارہ گردی کے بعد گھر واپس آنے والے بیٹے کے سوال کی طرف لوٹتے ہیں جس کا پہلے ذکر کیا گیا ہے۔ اس سوال کے پوچھے جانے کے بعد، تمہارے جوابات زیادہ واضح نہیں تھے؛ دوسرے لفظوں میں، تم اب بھی خدا کے ارادوں کے بارے میں بہت ٹھوس سمجھ بوجھ نہیں رکھتے۔ یہ جاننے کے بعد کہ خدا انسانیت سے محبت کرتا ہے، وہ اسے محبت کی علامت کے طور پر بیان کرتے ہیں: وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ کیا کرتے ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کیسا برتاؤ کرتے ہیں، اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں، اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ کتنے نافرمان ہیں، ان میں سے کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ خدا کے پاس محبت ہے، اور اس کی محبت لامحدود اور ناقابلِ پیمائش ہے؛ خدا کے پاس محبت ہے، اس لیے وہ لوگوں کو برداشت کر سکتا ہے؛ اور خدا کے پاس محبت ہے، اس لیے وہ لوگوں پر رحم کر سکتا ہے، ان کی ناپختگی پر رحم کھا سکتا ہے، ان کی جہالت پر رحم کھا سکتا ہے، اور ان کی نافرمانیوں پر رحم کھا سکتا ہے۔ کیا یہ واقعی ایسا ہی ہے؟ کچھ لوگوں کے لیے، جب انہوں نے ایک بار یا چند بار بھی خدا کے صبر کا تجربہ کیا ہے، تو وہ ان تجربات کو خدا کے بارے میں اپنی سمجھ بوجھ میں سرمایہ سمجھیں گے، یہ یقین رکھتے ہوئے کہ وہ ان کے ساتھ ہمیشہ صابر اور رحم کرنے والا رہے گا، اور پھر، وہ اپنی زندگی میں، خدا کے اس صبر کو لیتے ہیں اور اسے وہ معیار سمجھ لیتے ہیں جس کے تحت وہ ان کے ساتھ سلوک کرتا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو ایک بار خدا کی رواداری کا تجربہ کر لینے کے بعد، خدا کی تشریح ہمیشہ روادار کے طور پر کریں گے – اور ان کے ذہن میں یہ رواداری غیر معینہ، غیر مشروط، اور یہاں تک کہ بالکل غیر اصولی ہے۔ کیا ایسے عقائد درست ہیں؟ جب بھی خدا کے جوہر یا خدا کے مزاج کے معاملات پر بحث کی جاتی ہے، تو تم سٹپٹائے ہوئے نظر آتے ہو۔ تمہیں اس طرح دیکھ کر میں بہت مضطرب ہو جاتا ہوں۔ تم خدا کے جوہر کے بارے میں بہت سی سچائیاں سن چکے ہو۔ تم نے اس کے مزاج کے بارے میں بہت سی بحثیں بھی سنی ہیں۔ تاہم، تمہارے ذہنوں میں یہ مسائل اور ان پہلوؤں کی حقیقت صرف نظریہ اور تحریری الفاظ پر مبنی یادیں ہیں؛ تمہاری روزمرہ کی زندگیوں میں، تم میں سے کوئی بھی کبھی بھی اس قابل نہیں رہا ہے کہ خدا کے مزاج کا تجربہ کر سکے یا دیکھ سکے کہ یہ واقعی کیا ہے۔ اس طرح، تم سب ذہنی طور پر اپنے عقائد میں الجھے ہوئے ہو؛ تم سب آنکھیں بند کر کے یقین کر رہے ہو، اس حد تک کہ تمہارا خدا کے بارے میں رویہ گستاخانہ ہے اور یہاں تک کہ تم اسے نظرانداز کر دیتے ہو۔ خدا کے بارے میں تمہارا اس طرح کا رویہ کس چیز کا باعث بنتا ہے؟ یہ تمہیں ہمیشہ خدا کے بارے میں نتیجہ اخذ کرنے کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک بار جب تم نے تھوڑا سا علم حاصل کر لیا، تو تم بہت مطمئن محسوس کرتے ہو، گویا تم نے خدا کو مکمل طور پر حاصل کر لیا ہے۔ اس کے بعد، تم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہو کہ خدا ایسا ہی ہے، اور تم اسے آزادانہ طور پر چلنے نہیں دیتے۔ مزید برآں، خدا جب بھی کوئی نیا کام کرتا ہے، تو تم یہ ماننے سے بالکل انکار کر دیتے ہو کہ وہ خدا ہے۔ ایک دن، جب خدا کہتا ہے، ”میں اب انسانیت سے محبت نہیں کرتا؛ میں انسانوں پر مزید رحم نہیں کروں گا؛ مجھ میں ان کے لیے مزید برداشت یا صبر نہیں ہے؛ میں ان کے ساتھ انتہائی نفرت اور عداوت سے لبالب بھرا ہوا ہوں،“ اس طرح کے بیانات لوگوں کے دلوں کی گہرائی میں کشمکش کا باعث بنیں گے۔ ان میں سے کچھ تو یہاں تک کہیں گے، ”اب تو میرا خدا نہیں رہا۔ تو اب وہ خدا نہیں رہا جس کی میں پیروی کرنا چاہتا ہوں۔ اگر تو یہی کہتا ہے تو پھر تو میرا خدا بننے کا اہل نہیں ہے، اور مجھے تیری پیروی کرتے رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر تو میرے ساتھ مزید رحم، محبت اور رواداری کا سلوک نہیں کرے گا تو میں تیری پیروی چھوڑ دوں گا۔ اگر تو ہمیشہ کے لیے میرے ساتھ روادار ہے، ہمیشہ میرے ساتھ تحمل کا مظاہرہ کرتا ہے، اور مجھے یہ دیکھنے کی اجازت دیتا ہے کہ تو محبت ہے، تو برداشت ہے، اور یہ کہ تو تحمل ہے، تب ہی میں تیری پیروی کر سکتا ہوں، اور تب ہی مجھے آخر تک تیری پیروی کرنے کے لیے اعتماد حاصل ہو گا۔ چونکہ میرے پاس تیرا تحمل اور رحم ہے، اس لیے میری نافرمانیاں اور میری ناجائز مداخلت کو ہمیشہ کے لیے معاف کیا جا سکتا ہے اور ان سے درگزر کیا جا سکتا ہے، اور میں کسی بھی وقت اور کہیں بھی گناہ کر سکتا ہوں، اعتراف کر سکتا ہوں اور مجھے کبھی بھی اور کہیں بھی معاف کیا جا سکتا ہے، اور میں کسی بھی وقت اور کہیں بھی تجھے ناراض کر سکتا ہوں۔ تجھے میرے بارے میں کوئی رائے نہیں رکھنی چاہیے یا کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہیے۔“ اگرچہ تم میں سے کوئی بھی اس طرح کے مسئلے کے بارے میں اتنے موضوعی یا شعوری طور پر نہیں سوچ سکتا ہے، لیکن جب بھی تم خدا کو اپنے گناہوں کی معافی کے لیے استعمال کیا جانے والا آلہ یا کسی خوبصورت منزل کے حصول کے لیے استعمال ہونے والی چیز سمجھتے ہو، تو تم نے غیر محسوس طریقے سے سے زندہ خدا کو اپنا مخالف اور دشمن بنا لیا ہے۔ یہی ہے جو میں دیکھتا ہوں۔ تو اس طرح کی باتیں کہتا رہتا ہے، ”میں خدا پر ایمان رکھتا ہوں،“ ”میں سچائی کی جستجو کرتا ہوں،“ ”میں اپنا مزاج بدلنا چاہتا ہوں،“ ”میں تاریکی کے اثر سے آزاد ہونا چاہتا ہوں،“ ”میں خدا کو راضی کرنا چاہتا ہوں،“ ”میں خدا کے تابع ہونا چاہتا ہوں،“ ”میں خدا سے وفادار رہنا چاہتا ہوں، اور اپنے فرض کو اچھی طرح سے انجام دینا چاہتا ہوں،“ وغیرہ۔ تاہم، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تیرے الفاظ کتنے میٹھے ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تجھے نظریے کا کتنا علم ہے، اور اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ نظریہ کتنا ہی رعب دار یا باوقار ہے، معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ اب تم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو پہلے ہی یہ سیکھ چکے ہیں کہ ان ضابطوں، عقائد، نظریات کو کس طرح استعمال کرنا ہے جن پر تم نے خدا کے بارے میں نتیجہ اخذ کرنے کے لیے عبور حاصل کر لیا ہے، اس طرح قدرتی طور پر اسے اپنا مخالف بنا لیا ہے۔ اگرچہ تجھے الفاظ اور عقائد پر عبور حاصل ہو سکتا ہے، لیکن تو حقیقی طور پر سچائی کی حقیقت میں داخل نہیں ہوا ہے، اس لیے تیرے لیے خدا کا قرب حاصل کرنا، اسے جاننا اور اسے سمجھنا بہت مشکل ہے۔ یہ بہت افسوسناک ہے!
میں نے ایک ویڈیو میں مندرجہ ذیل منظر دیکھا: چند بہنوں کے پاس کلام جسم میں ظاہر ہوتا ہے کا ایک نسخہ تھا، اور وہ اسے بہت اوپر اٹھائے ہوئے تھیں؛ وہ اپنے درمیان کتاب کو اپنے سروں سے اوپر اٹھا رہی تھیں۔ اگرچہ یہ صرف ایک تصویر تھی، لیکن اس نے میرے اندر جو کچھ احساس پیدا کیا وہ ایک تصویر نہیں تھی؛ بلکہ، اس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ہر شخص اپنے دل میں جس کو بلند رکھتا ہے وہ خدا کا کلام نہیں ہے، بلکہ خدا کے کلام کی کتاب ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو انتہائی افسوسناک ہے۔ اس طرح کا عمل خدا کو بلند رکھنے کے مترادف بالکل نہیں ہے، کیونکہ خدا کے بارے میں تمہاری سمجھ بوجھ کی کمی اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ حتیٰ کہ ایک بہت ہی واضح سوال، ایک انتہائی معمولی مسئلے، کے متعلق تم نے اپنے تصورات پیدا کر لیے ہیں۔ جب میں تم سے کچھ پوچھتا ہوں، اور تمہارے ساتھ سنجیدہ ہوتا ہوں، تو تم قیاس اور اپنے تخیلات کے ساتھ جواب دیتے ہو؛ تم میں سے کچھ تو شک آمیز لہجہ اختیار کرتے ہیں اور میرے سوالوں کا جواب سوالات کے ساتھ دیتے ہیں۔ یہ مجھے اور بھی واضح طور پر بتاتا ہے کہ جس خدا پر تم یقین رکھتے ہو وہ سچا خدا نہیں ہے۔ اتنے سالوں تک خدا کا کلام پڑھنے کے بعد، تم اسے، خدا کے کام، اور مزید عقائد کو ایک بار پھر اس کے بارے میں نتیجہ اخذ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہو۔ مزید یہ کہ، تم کبھی بھی خدا کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے؛ تم کبھی بھی اُس کے ارادوں کو جاننے کی کوشش نہیں کرتے، انسانوں کے لیے اُس کے رویے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، یا اس کا ادراک کرنے کی کوشش نہیں کرتے کہ خُدا کیسے سوچتا ہے، وہ کیوں غمگین ہے، وہ کیوں ناراض ہے، کیوں وہ لوگوں کو مسترد کرتا ہے، اور اس طرح کے دوسرے سوالات۔ مزید برآں، اس سے بھی زیادہ لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا ہمیشہ خاموش رہا ہے کیونکہ وہ صرف انسانیت کے مختلف اعمال کو ان کے بارے میں کسی رویے یا خیالات کے بغیر دیکھ رہا ہے۔ پھر بھی لوگوں کا ایک اور گروہ یہ یقین رکھتا ہے کہ خدا آواز نہیں نکالتا کیونکہ اس نے قبول کر لیا ہے، خاموش رہتا ہے کیونکہ وہ انتظار کر رہا ہے یا اس کا کوئی رویہ نہیں ہے؛ ان کا خیال ہے کہ چونکہ خدا کا رویہ کتاب میں پہلے ہی پوری طرح سے بیان کیا جا چکا ہے، اور اس کا اظہار پوری انسانیت کے لیے کیا گیا ہے، اس لیے اسے بار بار لوگوں کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگرچہ خُدا خاموش ہے، لیکن اُس کے پاس ایک رویہ اور ایک نقطہ نظر ہے، نیز ایک معیار ہے جس پر وہ لوگوں سے زندگی گزارنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگرچہ لوگ اسے سمجھنے یا اسے تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں، لیکن خدا کا رویہ بہت واضح ہے۔ کسی ایسے شخص پر غور کرو جس نے ایک بار پرجوش طور پر خدا کی پیروی کی، لیکن پھر، کسی وقت، اسے چھوڑ دیا اور چلا گیا۔ کیا یہ شخص اب واپس آنا چاہے گا، بہت حیرت انگیز طور پر، تم نہیں جانتے کہ خدا کا نقطہ نظر کیا ہو گا، یا اس کا رویہ کیا ہو گا۔ کیا یہ انتہائی افسوسناک نہیں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ کافی سطحی معاملہ ہے۔ اگر تم واقعی خدا کے دل کو سمجھتے ہو، تو تم اس قسم کے شخص کے بارے میں اس کا رویہ جان لو گے، اور تم کوئی مبہم جواب نہیں دو گے۔ چونکہ تم نہیں جانتے، مجھے اجازت دو کہ میں تمہیں بتاؤں۔
خدا کا اس کے کام کے دوران بھاگنے والوں کے ساتھ رویہ
اس طرح کے لوگ ہر جگہ موجود ہیں: جب انھیں خدا کے راستے کے متعلق یقین ہو جاتا ہے، تو مختلف وجوہات کی بناء پر، وہ خاموشی سے، الوداع کہے بغیر، چلے جاتے ہیں، غائب ہو جاتے ہیں اور جو کچھ ان کا دل چاہتا ہے کرتے ہیں۔ فی الحال، ہم ان لوگوں کے جانے کی وجوہات میں نہیں جائیں گے؛ ہم سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لیں گے کہ خدا کا اس قسم کے شخص کے ساتھ کیا رویہ ہے۔ یہ بہت واضح ہے۔ جس لمحے یہ لوگ چلے جاتے ہیں، خدا کی نظر میں، ان کے ایمان کی مدت اسی وقت ختم ہو جاتی ہے۔ یہ انفرادی شخص نہیں بلکہ خدا نے ختم کیا ہے۔ اس شخص کے خدا کو چھوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے ہی خدا کو مسترد کر چکا ہے، کہ وہ اسے مزید نہیں چاہتا، اور یہ کہ وہ اب خدا کی نجات کو قبول نہیں کرتا۔ چونکہ اس طرح کے لوگ خدا کو نہیں چاہتے، تو کیا وہ پھر بھی انھیں چاہ سکتا ہے؟ مزید برآں، جب ایسے لوگ اس قسم کا رویہ، یہ نظریہ رکھتے ہیں، اور خدا کو چھوڑنے کا پختہ ارادہ کر لیتے ہیں، تو وہ پہلے سے ہی خدا کے مزاج کو برہم کر چکے ہوتے ہیں۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ انہوں نے غصے میں آکر خدا پر لعنت نہیں کی ہو گی، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ کسی گھناؤنے یا حد سے زیادہ رویے میں ملوث نہ ہوئے ہوں گے، اور اس حقیقت کے باوجود کہ یہ لوگ سوچ رہے ہیں کہ ”اگر کوئی ایسا دن آتا ہے جب میں باہر سے خوب لطف اندوز ہو چکا ہوں گا، یا جب مجھے پھر بھی کسی چیز کے لیے خدا کی ضرورت ہو گی، تومیں واپس آ جاؤں گا۔ یا اگر خدا مجھے بلاتا ہے تو میں واپس آؤں گا،“ یا وہ کہتا ہے، ”جب میں باہر سے تکلیف میں ہوں، یا جب میں دیکھتا ہوں کہ باہر کی دنیا بہت تاریک اور بہت خبیث ہے اور میں مزید عام روش پر نہیں چلنا چاہتا تو میں خدا کے پاس واپس آ جاؤں گا۔“ اگرچہ یہ لوگ اپنے ذہنوں میں یہ حساب لگا چکے ہیں کہ وہ کب واپس آئیں گے اور اگرچہ انہوں نے اپنی واپسی کے لیے دروازہ کھلا چھوڑنے کی کوشش کی ہے، لیکن انھیں یہ احساس نہیں ہے کہ چاہے وہ جس پر بھی یقین رکھیں یا جس طرح کی بھی منصوبہ بندی کریں، یہ سب ایک خیالی پلاو پکانا ہے۔ ان کی سب سے بڑی غلطی اس بارے میں واضح نہ ہونا ہے کہ ان کے چھوڑ کر جانے کی خواہش سے خدا کیسا محسوس کرتا ہے۔ جس لمحے وہ خدا کو چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں، وہ اسی وقت انھیں مکمل طور پر چھوڑ دیتا ہے؛ اس وقت تک وہ اپنے دل میں ایسے شخص کا انجام طے کر چکا ہوتا ہے۔ یہ کیا انجام ہے؟ یہ ہے کہ یہ شخص چوہوں میں سے ایک ہو گا، اور اس لیے انہی کے ساتھ ہلاک ہو جائے گا۔ اس طرح، لوگ اکثر اس قسم کی صورت حال کو دیکھتے ہیں: کوئی خدا کو چھوڑ دیتا ہے، لیکن پھر سزا نہیں پاتا۔ خدا اپنے اصولوں کے مطابق کام کرتا ہے؛ کچھ چیزیں دیکھی جا سکتی ہیں، جب کہ کچھ صرف خدا کے دل میں طے ہوتی ہیں، اس لیے لوگ نتائج نہیں دیکھ سکتے۔ جو حصہ انسانوں کو نظر آتا ہے وہ ضروری نہیں کہ چیزوں کا حقیقی رخ ہو، لیکن اس کا دوسرا رخ – جو رخ تو نہیں دیکھتا – درحقیقت خدا کے سچے پُرخلوص خیالات اور نتائج پر مشتمل ہے۔
خدا کے کام کے دوران بھاگ جانے والے وہ لوگ ہیں جو سچے راستے کو چھوڑ دیتے ہیں
خدا اپنے کام کے دوران بھاگ جانے والے لوگوں کو اتنی سخت سزا کیوں دیتا ہے؟ وہ ان پر اتنا ناراض کیوں ہوتا ہے؟ سب سے پہلے، ہم جانتے ہیں کہ خدا کا مزاج جلال اور غضب ہے؛ وہ کوئی بھیڑ نہیں ہے جسے کوئی ذبح کر دے، اس کا ایسی کٹھ پتلی ہونا تو او بھی دور کی بات ہے جسے لوگ جیسے چاہیں قابو کر میں رکھیں۔ وہ خالی ہوا کا ایک جھونکا بھی نہیں ہے جس پر حکم چلایا جائے۔ اگر تو واقعی یہ یقین رکھتا ہے کہ خدا موجود ہے، تو تیرا دل خدا سے ڈرنے والا ہونا چاہیے، اور تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے جوہر کو غصہ نہیں دلانا چاہیے۔ یہ غصہ کسی ایک لفظ، یا شاید کسی ایک خیال، یا شاید کسی قسم کے بُرے رویے، یا شاید کسی غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے، یا ایسے رویے کی وجہ سے جو انسانوں کی اخلاقیات کے لحاظ سے گزارے لائق ہو؛ یا، شاید یہ ایک عقیدے یا نظریے کی طرف سے اکسائے جانے کی وجہ سے آ سکتا ہے۔ تاہم، ایک بار جب تو خدا کو غصہ دلا دیتا ہے، تو تیرا موقع ضائع ہو جاتا ہے، اور تیرے آخری دن آ جاتے ہیں۔ یہ ایک خوفناک چیز ہے! اگر تو یہ نہیں سمجھتا کہ خدا کو غصہ ہر گز نہیں دلانا چاہیے، تو ہو سکتا ہے کہ تو اس سے خوفزدہ نہ ہو، اور ہو سکتا ہے کہ تو اسے معمول کے مطابق ناراض کر رہا ہو۔ اگر تو نہیں جانتا کہ خدا سے کیسے ڈرنا ہے تو تُو خدا سے ڈرنے سے قاصر ہے، اور تجھے یہ علم نہیں ہو گا کہ خود کو خدا کے راستے پر چلنے کی راہ پر کیسے ڈالنا ہے – کیسے خدا سے ڈرنا اور برائی سے بچنا ہے۔ ایک بار جب تُو آگاہ ہو جائے گا، اور ہوشیار ہو جائے گا کہ خدا کو ہرگز ناراض نہیں کرنا چاہیے، تو تجھے معلوم ہو جائے گا کہ خدا سے ڈرنا اور برائی سے بچنا کیا ہوتا ہے۔
خدا سے ڈرنے کے راستے پر چلنا اور برائی سے بچنا ضروری طور پر یہی نہیں ہے کہ تو کتنی سچائی جانتا ہے، تو کتنی آزمائشوں کا تجربہ کر چکا ہے، یا تیری کتنی تربیت کی گئی ہے۔ بلکہ، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ تو اپنے دل میں خدا کے لیے کس قسم کا رویہ رکھتا ہے، اور تو کس جوہر کا اظہار کرتا ہے۔ لوگوں کے جوہر اور ان کے موضوعی رویے – یہ بہت اہم ہیں، بہت فیصلہ کن ہیں۔ جہاں تک ان کا تعلق ہے جنہوں نے خدا کو تسلیم نہیں کیا اور چھوڑ دیا ہے، ان کے اس کی طرف حقارت آمیز رویوں اور ان کے سچ کو حقیر سمجھنے والے دلوں نے پہلے ہی اس کے مزاج کو مزید برہم کر دیا ہے، اس لیے جہاں تک اس کا تعلق ہے، انھیں کبھی معاف نہیں کیا جائے گا۔ وہ خدا کے وجود کے بارے میں جان چکے ہیں، انھیں اس خبر سے آگاہ کر دیا گیا ہے کہ وہ پہنچ چکا ہے، اور یہاں تک کہ انہوں نے خدا کے نئے کام کا تجربہ بھی کر لیا ہے۔ ان کا چلے جانا فریب میں مبتلا ہونے یا ذہنی انتشار کا معاملہ نہیں تھا، انھیں چھوڑنے پر مجبور کرنا تو دور کی بات ہے۔ بلکہ، انہوں نے شعوری طور پر، اور صاف ذہن کے ساتھ، خدا کو چھوڑنے کا انتخاب کیا۔ ان کا چلے جانا ان کا راستہ کھونے کی بات نہیں تھی اور نہ ہی انھیں باہر نکالا گیا تھا۔ لہٰذا، خُدا کی نظر میں، وہ بھیڑ کے بچے نہیں ہیں جو ریوڑ سے بھٹک گئے ہوں، بھٹکنے اوارہ گردی کے بعد گھر واپس آنے والے بیٹے ہونا تو دور کی بات ہے۔ وہ سزا سے محفوظ رہتے ہوئے چلے گئے – اور ایسی حالت، ایسی صورت حال، خدا کے مزاج کو مزید برہم کر دیتی ہے، اور اسی برہمی کی وجہ سے وہ انھیں مایوس کن انجام دیتا ہے۔ کیا اس قسم کا انجام خوفناک نہیں ہے؟ لہٰذا، اگر لوگ خدا کو نہیں جانتے تو وہ اسے ناراض کر سکتے ہیں۔ یہ کوئی چھوٹا معاملہ نہیں ہے! اگر لوگ خدا کے رویے کو سنجیدگی سے نہیں لیتے، اور پھر بھی یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ ان کی واپسی کا منتظر ہے کیونکہ وہ اس کے کھوئے ہوئے برّوں میں سے چند ہیں اور وہ اب بھی فیصلہ بدلنے کے لیے ان کا انتظار کر رہا ہے، تو وہ اپنی سزا کے دن سے زیادہ دور نہیں ہیں۔ خُدا اُن کو قبول کرنے سے محض انکار ہی نہیں کرے گا – بلکہ یہ دیکھتے ہوئے کہ اب انہوں نے دوسری مرتبہ خدا کے مزاج کو برہم کیا ہے، تو پھر معاملہ اور بھی زیادہ خوفناک ہو جاتا ہے! ان لوگوں کے گستاخانہ رویوں نے پہلے ہی خدا کے انتظامی احکام کی خلاف ورزی کی ہے۔ کیا وہ اب بھی انھیں قبول کر لے گا؟ اس معاملے میں خدا کے اپنے دل میں اصول یہ ہیں کہ کسی کو یقین ہو گیا ہے کہ صحیح راستہ کون سا ہے، پھر بھی شعوری طور پر اور صاف ذہن کے ساتھ وہ خدا کو مسترد کر کے خدا سے دور چلا جائے تو وہ ایسے شخص کی نجات کا راستہ بند کر دے گا، اور اس فرد کے لیے، اس کے بعد بادشاہی میں داخلے کا دروازہ بند کر دیا جائے گا۔ جب یہ شخص ایک بار پھر دستک دیتا ہوا آتا ہے تو خدا دروازہ نہیں کھولے گا؛ یہ شخص ہمیشہ کے لیے باہر ہی رہے گا۔ شاید تم میں سے کچھ نے انجیل میں موسیٰ کی کہانی پڑھی ہو گی۔ خُدا کے موسیٰ کو مسح کرنے کے بعد، 250 راہنماؤں نے موسیٰ سے اس کے اعمال اور دیگر مختلف وجوہات کی بنا پر نافرمانی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کس کی اطاعت کرنے سے انکار کیا؟ یہ موسیٰ نہیں تھا۔ اُنہوں نے خدا کے انتظامات کی اطاعت سے انکار کر دیا؛ انہوں نے اس معاملے پر خدا کے کام کی اطاعت کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے مندرجہ ذیل کہا: ”تمہارے تو بڑے دعوے ہو چلے، کیونکہ جماعت کا ایک ایک آدمی مقدس ہے اور خداوند ان کے بیچ رہتا ہے۔“ کیا یہ الفاظ اور سطریں انسانی نقطہ نظر سے بہت سنجیدہ ہیں؟ وہ سنجیدہ نہیں ہیں۔ کم از کم ان الفاظ کے لغوی معنی سنجیدہ نہیں ہیں۔ قانونی لحاظ سے، وہ کسی بھی قانون کو نہیں توڑتے، کیونکہ بظاہر، یہ مخالفانہ زبان یا الفاظ نہیں ہیں، اور ان کا کوئی توہین آمیز مفہوم ہونے کا امکان تو اور بھی کم ہے۔ یہ صرف عام جملے ہیں، مزید کچھ نہیں۔ پھر یہ کیوں ہے کہ یہ الفاظ خُدا کے غضب کو اتنا بھڑکا سکتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگوں سے نہیں بلکہ خدا سے کہے گئے تھے۔ ان کی طرف سے ظاہر کردہ رویہ اور مزاج بالکل وہی ہے جو خدا کے مزاج کو برہم کرتا ہے، اور وہ خدا کے مزاج کو برہم کرتے ہیں جسے ہرگز برہم نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آخر میں ان راہنماؤں کا انجام کیا تھا۔ ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے خدا کو چھوڑ دیا ہے، ان کا نقطہ نظر کیا ہے؟ ان کا رویہ کیا ہے؟ اور ان کے نقطہ نظر اور رویے کی وجہ سے خدا ان کے ساتھ اس انداز میں سلوک کیوں کرتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ وہ واضح طور پر جانتے ہیں کہ وہ خدا ہے، پھر بھی وہ اس کے ساتھ بےوفائی کرنے کا انتخاب کرتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ان سے ان کی نجات کے امکانات مکمل طور پر چھین لیے گئے ہیں۔ جیسا کہ انجیل میں لکھا ہے، ”کیونکہ حق کی پہچان حاصل کرنے کے بعد اگر ہم جان بوجھ کر گناہ کریں تو گناہوں کی کوئی اور قربانی باقی نہیں رہی“ (عِبرانیوں 10: 26)۔ کیا اب تمہیں اس معاملے کی واضح سمجھ بوجھ حاصل ہو گئی ہے؟
لوگوں کی تقدیر کا فیصلہ ان کے خدا کے متعلق روّیوں سے ہوتا ہے
خدا ایک زندہ خدا ہے، اور جس طرح لوگ مختلف حالات میں مختلف طریقے سے برتاؤ کرتے ہیں، ان روّیوں کے بارے میں اس کا رویہ مختلف ہے کیونکہ وہ نہ تو کٹھ پتلی ہے اور نہ ہی وہ خالی ہوا کا جھونکا ہے۔ خدا کے رویے کو جاننا انسانیت کے لیے ایک قابلِ قدر جستجو ہے۔ لوگوں کو یہ سیکھنا چاہیے کہ کس طرح، خدا کے رویے کو جان کر، وہ آہستہ آہستہ خدا کے مزاج کا علم حاصل کر سکتے ہیں اور اس کے دل کو سمجھ سکتے ہیں۔ جب تو آہستہ آہستہ خدا کے دل کو سمجھے گا تو تجھے محسوس ہو گا کہ اس سے ڈرنا اور برائی سے بچنا اتنا مشکل کام نہیں ہے۔ مزید برآں، جب تو خدا کو سمجھتا ہے، تو تیرا اس کے بارے میں کوئی نتیجہ اخذ کرنے کا زیادہ امکان نہیں ہو گا۔ ایک بار جب تو خدا کے بارے میں کوئی نتائج اخذ کرنا چھوڑ دے گا، تو تیرا اس کو برہم کرنے کا امکان کم ہو جائے گا، اور تجھے اس کا ادراک ہوئے بغیر، خدا اپنا علم حاصل کرنے کے لیے تیری راہنمائی کرے گا؛ اس سے تیرا دل اس کی تعظیم سے بھر جائے گا۔ اس کے بعد تو خدا کی تشریح ان عقائد، الفاظ اور نظریات کے ذریعے کرنا چھوڑ دے گا جن پر تو نے عبور حاصل کیا ہے۔ اس کی بجائے، سب چیزوں میں مستقل طور پر خدا کے ارادوں کو تلاش کرنے سے، تو لاشعوری طور پر ایک ایسا شخص بن جائے گا جو خدا کی پسند کے مطابق ہے۔
خُدا کا کام انسانوں کے لیے ان دیکھا اور ناقابلِ لمس ہے، لیکن جہاں تک اُس کا تعلق ہے، ہر ایک شخص کے اعمال – اُس کی طرف اُس کے رویے کے ساتھ – نہ صرف خُدا کو محسوس ہوتے ہیں، بلکہ اُس کو نظر بھی آتے ہیں۔ یہ ایسی چیز ہے جسے ہر ایک کو پہچاننا چاہیے اور جس کے بارے میں بہت واضح ہونا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ تو ہمیشہ اپنے آپ سے پوچھ رہا ہو، ”کیا خدا جانتا ہے کہ میں یہاں کیا کر رہا ہوں؟ کیا وہ جانتا ہے کہ میں اس وقت کیا سوچ رہا ہوں؟ شاید وہ جانتا ہے، اور شاید وہ نہیں جانتا۔“ اگر تو اس طرح کا نقطہ نظر اپناتا ہے، خدا کی پیروی کرتا ہے اور اس پر ایمان رکھتا ہے لیکن اس کے کام اور اس کے موجود ہونے پر شک کرتا ہے، تو جلد یا بدیر ایک دن آئے گا جب تو اس کے غصے کو بھڑکائے گا، کیونکہ تو پہلے سے ہی ایک پھسلنی چٹان کے کنارے پر لڑکھڑا رہا ہے۔ میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو کئی سالوں سے خدا پر ایمان رکھتے ہیں، مگر پھر بھی جنہوں نے سچائی کی حقیقت حاصل نہیں کی، ان کا خدا کی مرضی کو سمجھنے کا امکان تو اور بھی بہت کم ہے۔ یہ لوگ اپنی زندگی اور حیثیت میں کوئی ترقی نہیں کرتے، صرف معمولی ترین عقائد پر قائم رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں نے کبھی بھی خدا کے کلام کو خود زندگی نہیں سمجھا، اور نہ ہی انہوں نے اس کے وجود کا سامنا کیا اور نہ ہی اسے قبول کیا۔ کیا تو سمجھتا ہے کہ ایسے لوگوں کو دیکھ کر خدا لطف سے بھر جاتا ہے؟ کیا وہ اسے تسلی دیتے ہیں؟ اس طرح، لوگ خدا پر اس اندازمیں یقین رکھتے ہیں جو ان کی قسمت کا فیصلہ کرتا ہے۔ لوگ کس طرح تلاش کرتے ہیں اور لوگ خدا سے کیسے رجوع کرتے ہیں، لوگوں کے رویے اس بارے میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ خدا کو اس طرح نظرانداز نہ کر کہ جیسے وہ تیرے سر کے پیچھے اڑتا ہوا خالی ہوا کا ایک جھونکا ہو؛ ہمیشہ اس خدا کے بارے میں سوچ جس پر تو ایمان رکھتا ہے ایک زندہ خدا، ایک حقیقی خدا۔ وہ اوپر تیسرے آسمان پر اس طرح نہیں بیٹھا ہے کہ اس کے پاس کرنے کو کوئی کام نہیں ہے۔ بلکہ وہ مسلسل ہر ایک کے دل میں جھانک رہا ہے، اس کا مشاہدہ کر رہا ہے کہ تو کیا کر رہا ہے، تیرے ہر چھوٹے قول اور ہر چھوٹے عمل کو دیکھ رہا ہے، یہ دیکھ رہا ہے کہ تو کیسے برتاؤ کرتا ہے اور یہ دیکھ رہا ہے کہ اُس کے بارے میں تیرا کیا رویہ ہے۔ چاہے تو خود کو خدا کے حوالے کرنے کے لیے آمادہ ہے یا نہیں، تیرا تمام طرز عمل اور تیری اندرونی سوچیں اور خیالات اس کے سامنے کھلے پڑے ہیں اور وہ انھیں دیکھ رہا ہے۔ تیرے رویے کی وجہ سے، تیرے اعمال کی وجہ سے، اور اُس کے بارے میں تیرے رویے کی وجہ سے، تیرے متعلق خدا کی رائے اور تیرے متعلق اُس کا رویہ مسلسل تبدیل ہو رہا ہے۔ میں کچھ لوگوں کو کچھ نصیحت کرنا چاہوں گا: اپنے آپ کو خدا کے ہاتھ میں شیر خوار بچوں کی طرح مت رکھ، گویا کہ اسے تیرا گرویدہ ہونا چاہیے، گویا وہ تجھے کبھی نہیں چھوڑ سکتا، اور گویا تیرے متعلق اس کا رویہ متعین ہے اور کبھی تبدیل نہیں ہو سکتا، اور میں تجھے مشورہ دیتا ہوں کہ خواب دیکھنا چھوڑ دے! خدا ہر ایک شخص کے ساتھ اپنے سلوک میں راستباز ہے، اور وہ لوگوں کو فتح کرنے اور بچانے کے کام میں اپنے طریقِ کار میں مخلص ہے۔ یہ اس کا نظم و نسق ہے۔ وہ ہر ایک شخص کے ساتھ کسی پالتو جانور کے ساتھ کھیلنے کی طرح نہیں بلکہ سنجیدگی سے پیش آتا ہے۔ انسانوں کے لیے خُدا کی محبت لاڈ پیار والی یا بگاڑنے والی نہیں ہے، اور نہ ہی انسانوں کے لیے اُس کی رحمت اور رواداری خطا بخشی یا بے دھیانی والی ہے۔ اس کے برعکس، انسانوں کے لیے خدا کی محبت میں زندگی کو عزیز سمجھنا، رحم کرنا اور احترام کرنا شامل ہے۔ اس کی رحمت اور رواداری ان سے اس کی توقعات کو ظاہر کرتی ہے، اور یہ وہی ہیں جن کی انسانیت کو زندہ رہنے کے لیے ضرورت ہے۔ خدا زندہ ہے، اور خدا حقیقت میں موجود ہے؛ بنی نوع انسان کے بارے میں اس کا رویہ اصولی ہے، ہٹ دھرم اصولوں کا مجموعہ بالکل بھی نہیں ہے اور یہ بدل سکتا ہے۔ انسانیت کے لیے اس کے ارادے بتدریج بدلتے رہتے ہیں اور وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں، جن کا انحصار ان کے پیدا ہونے والے حالات اور ہر ایک شخص کے رویے پر ہوتا ہے، اس لیے تجھے اپنے دل میں پوری وضاحت کے ساتھ جان لینا چاہیے کہ خدا کا جوہر ناقابل تغیر ہے، اور یہ کہ اس کا مزاج مختلف اوقات اور مختلف حالات میں ظاہر ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ تو یہ نہ سوچے کہ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے، اور تو اپنے ذاتی تصورات کو یہ تصور کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے کہ خدا کو کیسے کام کرنا چاہیے۔ تاہم، بعض اوقات ایسے ہوتے ہیں جب تیرے نقطہ نظر کا مخالف رجحان درست ہوتا ہے، اور تو اپنے ذاتی تصورات کو استعمال کر کے خدا کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتا ہے، جسے تو پہلے ہی غصہ دلا چکا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا تیری سوچ کے مطابق کام نہیں کرتا اور نہ ہی وہ اس معاملے کے ساتھ اس طرح برتاؤ کرے گا جیسا کہ تو کہتا ہے۔ اس طرح، میں تجھے یاد دلاتا ہوں کہ اپنے ارد گرد ہر چیز کے بارے میں اپنے نقطہ نظر میں محتاط اور ہوشیار رہ، اور سب چیزوں میں خدا کے راستے پر چلنے کے اصول پر عمل کرنے کا طریقہ سیکھ، جو کہ خدا سے ڈرنا اور برائی سے بچنا ہے۔ تجھے خدا کی مرضی اور خدا کے رویے کے معاملات کے بارے میں ایک پختہ سمجھ بوجھ ضرور پیدا کرنی چاہیے، تجھے ان معاملات کو اپنے تک پہنچانے کے لیے آگہی یافتہ لوگوں کو لازمی تلاش کرنا چاہیے، اور تجھے سنجیدگی سے تلاش کرنا چاہیے۔ جس خدا پر تو ایمان رکھتا ہے اسے ایک ایسی کٹھ پتلی کے طور پر مت دیکھ – جسے تو اپنی مرضی سے جانچتا ہے، اس کے بارے میں من مانے نتائج پر پہنچتا ہے، اور اس کے ساتھ وہ احترام کا سلوک نہیں کرتا ہے جس کا وہ مستحق ہے۔ جب کہ خدا تجھے نجات دلا رہا ہے اور تیرے انجام کا تعین کر رہا ہے، وہ تیرے ساتھ رحم یا رواداری کا سلوک کر سکتا ہے، یا تیری عدالت اور تادیب کر سکتا ہے، لیکن کسی بھی صورت میں، تیرے ساتھ اس کا رویہ طے نہیں ہے۔ اس کا انحصار اس کے بارے میں تیرے اپنے رویے، نیز اس کے بارے میں تیری سمجھ بوجھ پر ہے۔ خدا کے بارے میں اپنے علم یا سمجھ بوجھ کے ایک جلدبازی کے نقطہ نظر کو ہمیشہ کے لیے اس کی تشریح کرنے کی اجازت نہ دے۔ ایک مردہ خدا پر ایمان نہ رکھ؛ زندہ واحد پر ایمان رکھ۔ یہ یاد رکھنا! اگرچہ میں نے یہاں کچھ سچائیوں پر بات کی ہے – وہ سچائیاں جنہیں تمہیں سننے کی ضرورت تھی – تمہاری موجودہ حالت اور موجودہ حیثیت کی روشنی میں، میں ابھی تم سے کوئی بڑے مطالبات نہیں کروں گا، تاکہ تمہارا جوش و خروش ختم نہ ہو جائے۔ ایسا کرنا تمہارے دلوں کو بہت زیادہ حوصلہ شکنی سے بھر سکتا ہے اور تمہیں خدا کی طرف سے بہت زیادہ مایوسی کے احساس میں مبتلا کر سکتا ہے۔ اس کی بجائے، میں امید کرتا ہوں کہ تمہارے دلوں میں خدا کے لیے جو محبت ہے تم اسے استعمال کر سکتے ہو اور آگے آنے والے راستے پر چلتے ہوئے خدا کے لیے احترام کا رویہ اپنا سکتے ہو۔ اس معاملے میں ذہنی انتشار میں مبتلا مت ہو کہ خدا پر ایمان کیسے لایا جائے؛ اسے موجود سب سے بڑے مسائل میں سے ایک سمجھو۔ اسے اپنے دل میں رکھو، اسے عملی جامہ پہناؤ، اور اسے حقیقی زندگی سے جوڑو۔ اس کے متعلق صرف زبانی بات ہی نہ کرو بلکہ عمل کرو – کیونکہ یہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے، اور ایسا معاملہ جو تیری تقدیر کا تعین کرے گا۔ اسے مذاق یا بچوں کا کھیل نہ سمجھ! آج تمہارے ساتھ اس کلام کا اشتراک کرنے کے بعد، میں حیران ہوں کہ تمہارے ذہنوں نے کتنی سمجھ بوجھ حاصل کر لی ہے۔ میں نے آج یہاں جو کچھ کہا ہے کیا اس کے بارے میں تم کوئی سوال پوچھنا چاہتے ہو؟
اگرچہ یہ موضوعات قدرے نئے ہیں، اور تمہارے نظریات سے، تمہارے معمول کی جستجو سے، اور جن چیزوں پر تم توجہ دیتے ہو، ان سے تھوڑا دور ہیں، میرا خیال ہے کہ جب کچھ عرصے کے لیے تم سے ایک بار ان کی رفاقت کر لی گئی تو تم میری یہاں کہی گئی ہر چیز کے بارے میں ایک عام سمجھ بوجھ پیدا کر لو گے۔ یہ تمام موضوعات بالکل نئے ہیں، اور جن پر تم نے پہلے کبھی غور نہیں کیا، اس لیے مجھے امید ہے کہ یہ تمہارے بوجھ میں کسی بھی طرح اضافہ نہیں کریں گے۔ آج میں یہ الفاظ تمہیں خوفزدہ کرنے کے لیے نہیں کہہ رہا ہوں، اور نہ ہی میں ان کو تم سے نمٹنے کے ایک طریقے کے طور پر استعمال کر رہا ہوں؛ بلکہ، میرا مقصد سچائی کے بارے میں اصل حقائق کو سمجھنے میں تمہاری مدد کرنا ہے۔ کیونکہ انسان اور خدا کے درمیان ایک خلیج موجود ہے، اگرچہ لوگ خدا پر ایمان رکھتے ہیں لیکن انہوں نے کبھی اسے سمجھا نہیں اور نہ ہی اس کے رویے کو جانا۔ انسان خدا کے رویے کے لیے اپنی فکر میں کبھی زیادہ پرجوش رہے بھی نہیں۔ اس کی بجائے وہ ایمان لے آئے ہیں اور آنکھیں بند کر کے آگے بڑھے ہیں اور خدا کے بارے میں علم اور سمجھ بوجھ سے بے پروا ہیں۔ اس لیے میں خود کو مجبور محسوس کرتا ہوں کہ تمہارے لیے ان مسائل کو واضح کروں، اور یہ سمجھنے میں تمہاری مدد کروں کہ جس خدا پر تم ایمان رکھتے ہو وہ کس قسم کا خدا ہے، نیز وہ کیا سوچ رہا ہے، مختلف قسم کے لوگوں کے ساتھ اپنے سلوک میں اس کا رویہ کیا ہے، تم اس کے تقاضوں کو پورا کرنے سے کتنے دور ہو، اور تمہارے اعمال اور جس معیار کا وہ مطالبہ کرتا ہے، ان کے درمیان کتنا زیادہ اختلاف ہے۔ ان چیزوں کے بارے میں تمہیں آگاہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تمہیں ایک پیمانہ دیا جائے جس سے تم اپنے آپ کو ناپ سکو، اور تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ تم جس سڑک پر ہو وہ تمہیں کس قسم کے انجام کی طرف لے گئی ہے، اس سڑک پر تمہیں کیا حاصل نہیں ہوا ہے، اور کون سے علاقے ہیں جن سے تمہارا کوئی تعلق ہی نہیں رہا ہے۔ جب تم آپس میں بات چیت کرتے ہو، توعام طور پر تم چند معمول کے زیر بحث موضوعات پر بات کرتے ہو جن کا دائرہ کار بہت محدود اور مواد سطحی ہوتا ہے۔ جس پر تم بحث کرتے ہو اور خدا کے ارادے کے درمیان، نیز تمہاری بحث اور خدا کے مطالبات کے دائرہ کار اور اس کے مطلوبہ معیار کے درمیان ایک فاصلہ ہے، ایک خلیج ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس طرح آگے بڑھنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم خدا کے راستے سے مزید بہت دور ہٹ جاؤ گے۔ تم صرف خدا کے موجودہ کلام کو لے رہے ہو اور اسے عبادت کے مقاصد میں تبدیل کر رہے ہو، اور انھیں رسومات اور ضابطوں کے طور پر سمجھ رہے ہو۔ تم یہ سب کر رہے ہو! درحقیقت، خدا کی تمہارے دلوں میں کوئی جگہ نہیں ہے، اور اس نے تمہارے دلوں کو حقیقت میں کبھی حاصل نہیں کیا ہے۔ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ خدا کو جاننا بہت مشکل ہے، اور یہ سچ ہے۔ یہ مشکل ہے۔ اگر لوگوں سے ان کے فرائض کی ادائیگی کروائی جائے اور کام ظاہری طور پر انجام دلوایا جائے اور محنت کروائی جائے تو وہ سمجھیں گے کہ خدا پر ایمان لانا بہت آسان ہے کیونکہ وہ تمام چیزیں انسانی استطاعت کے دائرہ کار میں آتی ہیں۔ تاہم، جس لمحے موضوع خدا کے ارادوں اور انسانیت کے لیے اس کے رویے کی طرف جاتا ہے، تو ہر ایک کے نقطہ نظر سے، چیزیں واقعی قدرے زیادہ مشکل ہو جاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں لوگوں کی سچائی کی سمجھ بوجھ اور ان کا حقیقت میں داخل ہونا شامل ہے، اس لیے یقیناً ایک حد تک دشواری ہو گی! اس کے باوجود، ایک بار جب تو پہلے دروازے سے گزرتا ہے اور داخلہ حاصل کرنا شروع کر دیتا ہے، تو چیزیں آہستہ آہستہ آسان ہو جاتی ہیں۔
خدا کے ساتھ خدا کے طور پر سلوک کرنا اس سے ڈرنے کا نقطہ آغاز ہے
تھوڑی دیر پہلے، کسی نے سوال اٹھایا: یہ کیسے ہے کہ اگرچہ ہم ایوب سے زیادہ خدا کو جانتے ہیں، پھر بھی ہم اس کی تعظیم نہیں کر سکتے؟ ہم نے اس معاملے پر کچھ پہلے تھوڑی سی بات کی تھی۔ ہم اصل میں اس سوال کے جوہر پر پہلے بھی بحث کر چکے ہیں، جو حقیقت ہے کہ اگرچہ ایوب اس وقت خدا کو نہیں جانتا تھا، لیکن پھر بھی وہ اسے خدا مانتا تھا اور اسے آسمانوں اور زمین اور تمام چیزوں کا آقا مانتا تھا۔ ایوب نے خدا کو دشمن نہیں سمجھا؛ بلکہ اس نے اس کی پرستش تمام چیزوں کے خالق کے طور پر کی۔ یہ کیوں ہے کہ آج کل لوگ خدا کی اتنی زیادہ مخالفت کرتے ہیں؟ وہ اس کی تعظیم کرنے سے کیوں قاصر ہیں؟ ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ شیطان کی طرف سے بہت زیادہ بدعنوان بنائے جا چکے ہیں، اور اس طرح کی گہری سرایت کی ہوئی شیطانی فطرت کے ساتھ، وہ خدا کے دشمن بن گئے ہیں۔ اس طرح، اگرچہ وہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور خدا کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ اس کی مزاحمت کرنے اور اس کے مخالف ہونے کے قابل ہیں۔ اس کا تعین انسانی فطرت سے ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ خدا پر ایمان رکھنے کے باوجود لوگ اسے خدا بالکل نہیں مانتے۔ اس کی بجائے، وہ اسے انسانیت کا مخالف سمجھتے ہیں، اسے اپنا دشمن سمجھتے ہیں، اور محسوس کرتے ہیں کہ وہ خدا کے ساتھ مصالحت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ یہ صرف اتنا ہی سادہ ہے۔ کیا یہ معاملہ ہمارے پچھلے اجلاس میں نہیں اٹھایا گیا تھا؟ اس کے بارے میں سوچو: کیا یہ وجہ نہیں ہے؟ ہوسکتا ہے کہ تو خدا کے بارے میں تھوڑا سا علم رکھتا ہو، لیکن اس علم کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ وہی نہیں ہے جس کے بارے میں ہر کوئی بات کر رہا ہے؟ کیا یہ وہی نہیں ہے جو خدا نے تجھے بتایا ہے؟ تو اس کے صرف عقیدے اور نظریے کے پہلوؤں سے واقف ہے – لیکن کیا تو نے کبھی خدا کے حقیقی چہرے کی تعریف کی ہے؟ کیا تیرے پاس موضوعی علم ہے؟ کیا تیرے پاس عملی علم اور تجربہ ہے؟ اگر خدا نے تجھے نہ بتایا ہوتا تو کیا تو جان سکتا تھا؟ تیرا نظریاتی علم حقیقی علم کی نمائندگی نہیں کرتا ہے۔ مختصراً، اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تو کتنا جانتا ہے یا تجھے کیسے معلوم ہوا، جب تک تو خدا کے بارے میں حقیقی سمجھ بوجھ حاصل نہیں کر لیتا، وہ تیرا دشمن رہے گا، اور جب تک تو درحقیقت خدا کو خدا ماننا شروع نہیں کرتا، وہ تیری مخالفت کرے گا، کیونکہ تو مجسم شیطان ہے۔
جب تو مسیح کے ساتھ ہوتا ہے، تو شاید تو اسے دن میں تین وقت کا کھانا پیش کر سکتا ہے، یا شاید اسے چائے پیش کر سکتا ہے اور اس کی زندگی کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے؛ تجھے ایسا لگے گا کہ تو نے مسیح کے ساتھ خدا جیسا سلوک کیا ہے۔ جب بھی کچھ ہوتا ہے تو لوگوں کا نقطہ نظر ہمیشہ خدا کے نقطہ نظر کے مخالف ہوتا ہے؛ لوگ ہمیشہ خدا کے نقطہ نظر کو سمجھنے اور قبول کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اگرچہ لوگ سطحی طور پر خدا کے ساتھ سلوک سے رہ سکتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اس کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ جیسے ہی کچھ رونما ہوتا ہے، انسانیت کی نافرمانی کی حقیقت ابھرتی ہے، اس طرح انسانوں اور خدا کے درمیان موجود دشمنی کی تصدیق ہوتی ہے۔ یہ دشمنی خدا کی انسانوں سے مخالفت یا خدا کی ان سے دشمنی کی خواہش نہیں ہے، اور نہ ہی ایسا ہے کہ وہ انھیں اپنا مخالف بناتا ہے اور پھر ان کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے۔ بلکہ، یہ خدا کی طرف اس برعکس جوہر کا معاملہ ہے جو انسانوں کی معروضی مرضی اور ان کے لاشعوری ذہنوں میں چھپا ہوا ہے۔ چونکہ لوگ اپنی تحقیق کے لیے خدا کی طرف سے آنے والی تمام چیزوں کو اپنی تحقیق کے اہداف کے طور پر دیکھتے ہیں، اس لیے خدا کی طرف سے جو کچھ آتا ہے اور خدا سے متعلق ہر چیز کے بارے میں ان کا ردعمل، سب سے بڑھ کر، اندازہ لگانا، شک کرنا، اور پھر فوری طور پر ایسا رویہ اختیار کرنا ہے جو خدا سے متصادم اور مخالف ہوتا ہے۔ اس کے فوراً بعد، خُدا کے ساتھ جھگڑوں یا مسابقت میں ان کی کیفیت منفی ہو جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ شک کرنے لگتے ہیں کہ آیا ایسا خُدا پیروی کے لائق ہے یا نہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ان کی عقلیت انھیں بتاتی ہے کہ انھیں اس انداز سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے، وہ پھر بھی اپنی سمجھ کے باوجود ایسا کرنے کا انتخاب کرتے ہیں، اس طرح کہ وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے بالکل آخر تک جاری رکھیں گے۔ مثال کے طور پر، جب کچھ لوگ خدا کے بارے میں افواہیں یا بہتان آمیز باتیں سنتے ہیں تو ان کا پہلا ردعمل کیا ہوتا ہے؟ ان کا پہلا ردعمل یہ سوچنا ہے کہ آیا یہ افواہیں سچ ہیں یا نہیں اور یہ افواہیں موجود ہیں یا نہیں اور پھر انتظار کرو اور دیکھو کا رویہ اختیار کرنا ہے۔ پھر وہ سوچنے لگتے ہیں، ”اس کی تصدیق کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ کیا واقعی ایسا ہوا؟ کیا یہ افواہ سچ ہے یا نہیں؟“ اس طرح کے لوگ اگرچہ سطحی طور پر ظاہر نہیں کرتے لیکن وہ اپنے دلوں میں پہلے ہی سے شک کرنے لگ گئے ہیں اور پہلے سے ہی خدا کا انکار کرنے لگ گئے ہیں۔ اس قسم کے رویے اور اس طرح کے نقطہ نظر کا جوہر کیا ہے؟ کیا یہ بےوفائی نہیں ہے؟ جب تک ان کو اس معاملے کا سامنا نہ ہو، تُو یہ نہیں دیکھ سکتا کہ ان لوگوں کے نقطہ ہائے نظر کیا ہیں؛ ایسا لگتا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ متصادم نہیں ہیں، اور گویا وہ اسے ایک دشمن نہیں مانتے۔ تاہم، جیسے ہی انھیں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے، وہ فوراً شیطان کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں اور خدا کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسان اور خدا باہم مخالف ہیں! ایسا نہیں ہے کہ خدا انسانیت کو دشمن سمجھتا ہے بلکہ یہ کہ انسانیت کا جوہر خود خدا سے دشمنی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کسی نے کتنی دیر تک اس کی پیروی کی ہے یا اس نے کتنی بڑی قیمت ادا کی ہے، اور اس سے قطع نظر کہ وہ خدا کی تعریف کیسے کرتا ہے، وہ اپنے آپ کو اس کی مخالفت سے کیسے روک سکتا ہے، اور یہاں تک کہ وہ کتنی سختی سے اپنے آپ کو خدا سے محبت کرنے کی ترغیب دیتا ہے، وہ کبھی بھی خدا کے ساتھ خدا جیسا سلوک نہیں کر سکتا۔ کیا یہ لوگوں کے جوہر سے طے نہیں ہوتا ہے؟ اگر تو اس کو خدا مانتا ہے اور سچے دل سے ایمان رکھتا ہے کہ وہ خدا ہے تو کیا تجھے اس کے بارے میں اب بھی کوئی شک ہو سکتا ہے؟ کیا تیرے دل میں اب بھی اس کے بارے میں کوئی سوالیہ نشان رہ سکتے ہیں؟ اب مزید نہیں رہ سکتے، ٹھیک؟ اس دنیا کے رجحانات بہت برے ہیں، اور یہ نسل انسانی بھی بہت بری ہے؛ تو، تُو ان کے بارے میں کوئی تصورات کیسے نہیں رکھ سکتا؟ تو خود اتنا خبیث ہے، تو یہ کیسے ہے کہ تو اس کے بارے میں کوئی تصور نہیں رکھتا ہے؟ اور پھر بھی، صرف چند افواہیں اور کچھ بہتان خدا کے بارے میں اس طرح کے بہت زیادہ تصورات کو جنم دے سکتے ہیں، اور تیرے بہت سی چیزوں کا تصور کرنے کا باعث بن سکتے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تیری حیثیت کتنی ناپختہ ہے! صرف چند مچھروں اور چند مکروہ مکھیوں کی ”بھنبھناہٹ“ – کیا تجھے دھوکہ دینے کے لیے صرف اتنا ہی کچھ درکار ہے؟ یہ کیسا شخص ہے؟ کیا تو جانتا ہے کہ خدا ایسے لوگوں کے بارے میں کیا سوچتا ہے؟ خدا کا رویہ دراصل بہت واضح ہے کہ وہ ان کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے۔ ان لوگوں کے ساتھ خدا کا سلوک صرف یہ ہے کہ وہ ان کو نظرانداز کر دے – اس کا رویہ ان پر کوئی توجہ نہ دینا اور ان جاہلوں کو سنجیدگی سے نہ لینا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسا کیوں ہے؟ یہ اس لیے ہے کہ خدا کے دل میں، اس نے کبھی بھی ان لوگوں کو حاصل کرنے کا ارادہ نہیں کیا جنہوں نے آخر تک اس سے دشمنی کا عہد کیا ہے اور جنہوں نے اس کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کا راستہ تلاش کرنے کا کبھی منصوبہ نہیں بنایا ہے۔ یہ الفاظ جو میں نے کہے ہیں شاید ان سے چند لوگوں کو تکلیف پہنچ سکتی ہے۔ ٹھیک ہے، کیا تم اس کے لیے تیار ہو کہ میں ہمیشہ تمہیں اس طرح تکلیف پہنچاتا رہوں؟ تم ہو یا نہیں، میں جو کچھ بھی کہتا ہوں وہ سچ ہے! اگر میں ہمیشہ تمہیں تکلیف پہنچاتا ہوں اور تمہارے زخموں کے نشانات کو اس طرح ظاہر کرتا ہوں تو کیا اس سے تمہارے دلوں میں موجود خدا کی بلندوبالا شبیہہ پر کوئی اثر پڑے گا؟ (نہیں پڑے گا)۔ میں اتفاق کرتا ہوں کہ نہیں پڑے گا، کیونکہ تمہارے دلوں میں کوئی خدا نہیں ہے۔ وہ بلندوبالا خُدا جو تمہارے دلوں میں بستا ہے – جس کا تم مضبوطی سے دفاع اور حفاظت کرتے ہو – بالکل خُدا نہیں ہے۔ بلکہ، وہ انسانی تخیل کا واہمہ ہے؛ وہ بالکل موجود نہیں ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ میں اس پہیلی کا جواب ظاہر کر دوں؛ کیا اس سے پوری حقیقت عیاں نہیں ہو جاتی؟ حقیقی خدا ویسا نہیں ہے جیسا انسان اسے تصور کرتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ تم سب اس حقیقت کا سامنا کر سکتے ہو، اور یہ تمہارے خدا کے بارے میں علم میں مدد کرے گا۔
وہ لوگ جنہیں خدا نے تسلیم نہیں کیا
کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے ایمان کو خدا کے دل میں کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ دوسرے لفظوں میں، خدا تسلیم نہیں کرتا کہ وہ اس کے پیروکار ہیں، کیونکہ وہ ان کے عقائد کی تعریف نہیں کرتا۔ ان لوگوں کے لیے، چاہے انہوں نے کتنے ہی سالوں تک خدا کی پیروی کی ہو، ان کے خیالات اور نظریات میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آئی؛ وہ کافروں کی طرح ہیں، کافروں کے اصولوں اور کام کرنے کے طریقوں اور کافروں کے بقا اور ایمان کے قوانین کی پابندی کرتے ہیں۔ انہوں نے کبھی بھی خدا کے کلام کو اپنی زندگی کے طور پر قبول نہیں کیا، کبھی یقین نہیں کیا کہ خدا کا کلام سچائی ہے، کبھی بھی خدا کی نجات کو قبول کرنے کا ارادہ نہیں کیا، اور خدا کو اپنا خدا تسلیم نہیں کیا۔ وہ خدا پر ایمان کو کسی قسم کے شوقیہ مشغلے کے طور پر دیکھتے ہیں، اسے محض روحانی رزق سمجھتے ہیں؛ اس طرح، وہ خدا کے مزاج یا جوہر کو سمجھنے کی کوشش کرنے کو قابلِ قدر نہیں سمجھتے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو کچھ سچے خدا کے مطابق ہے اس کا ان لوگوں سے کوئی تعلق نہیں ہے؛ وہ دلچسپی نہیں رکھتے، اور نہ ہی انھیں توجہ دینے کی زحمت دی جا سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دلوں کی گہرائیوں میں ایک قوی آواز ہے جو ہمیشہ ان سے کہتی رہتی ہے، ”خدا غیر مرئی اور ناقابلِ لمس ہے، اور موجود نہیں ہے۔“ وہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے خدا کو سمجھنے کی کوشش کرنا ان کی کوششوں کے لائق نہیں ہو گا، اور ایسا کرنے سے وہ خود کو بیوقوف بنا رہے ہوں گے۔ وہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ ان کی بہت ہوشیاری ہے کہ وہ کوئی حقیقی موقف اختیار کیے بغیر یا کسی حقیقی کام میں خود کو صرف کیے بغیر محض الفاظ سے خدا کو تسلیم کرتے ہیں۔ خدا ایسے لوگوں کو کیسے دیکھتا ہے؟ وہ انھیں ایمان نہ رکھنے والوں کے طور پر دیکھتا ہے۔ کچھ لوگ پوچھتے ہیں، ”کیا ایمان نہ رکھنے والے خدا کا کلام پڑھ سکتے ہیں؟ کیا وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کر سکتے ہیں؟ کیا وہ یہ الفاظ کہہ سکتے ہیں، ’میں خدا کے لیے زندہ رہوں گا‘؟“ جو لوگ اکثر دیکھتے ہیں وہ لوگوں کی سطحی طور پر ظاہر کی جانے والی نمائش ہے؛ وہ لوگوں کے جوہر نہیں دیکھتے۔ تاہم، خدا ان سطحی نمائشوں کو نہیں دیکھتا؛ وہ صرف ان کے اندرونی جوہر دیکھتا ہے۔ اس طرح خدا کا ان لوگوں کے ساتھ رویہ اور تشریح یہی ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں، ”خدا ایسے کیوں کرتا ہے؟ خدا ویسے کیوں کرتا ہے؟ میں یہ نہیں سمجھ سکتا؛ میں وہ نہیں سمجھ سکتا؛ یہ انسانی تصورات کے مطابق نہیں ہے؛ تجھے لازمی چاہیے کہ مجھے اس کی وضاحت کر۔۔۔“ اس کے جواب میں میں پوچھتا ہوں: کیا واقعی یہ ضروری ہے کہ تجھے ان معاملات کی وضاحت کی جائے؟ کیا ان معاملات کا تجھ سے واقعی کوئی تعلق ہے؟ تیرے خیال میں تو کون ہے؟ تو کہاں سے آیا ہے؟ کیا تو واقعی خدا کو اشارے دینے کا اہل ہے؟ کیا تو اس پر ایمان رکھتا ہے؟ کیا وہ تیرے ایمان کو تسلیم کرتا ہے؟ چونکہ تیرے ایمان کا خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے اس کے کام سے تیرا کیا تعلق ہے؟ تو نہیں جانتا کہ خدا کے دل میں تیرا مقام کیا ہے، تو تُو اس کے ساتھ مکالمہ کرنے کا اہل کیسے ہو سکتا ہے؟
تنبیہ کے الفاظ
کیا تم یہ تبصرے سننے کے بعد بے چین نہیں ہو؟ اگرچہ یہ ہو سکتا ہے کہ تم یا تو انھیں سننے کے لیے تیار نہیں ہو یا انھیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہو، لیکن یہ سب حقائق ہیں۔ کیونکہ کام کا یہ مرحلہ خدا کے انجام دینے کے لیے ہے، اگر تجھے اس کے ارادوں میں دلچسپی نہیں ہے، اس کے رویے کی کوئی پروا نہیں ہے، اور اس کے جوہر اور مزاج کو نہیں سمجھتا، تو آخر کار، تو وہ ہو گا جو ہار جائے گا۔ میرے کلام پر سننے میں مشکل ہونے کا الزام نہ لگاؤ، اور اپنے جوش وخروش کو کم کرنے کے لیے اسے الزام نہ دو۔ میں سچ بولتا ہوں؛ میرا مقصد تمہاری حوصلہ شکنی کرنا نہیں ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ میں تم سے کیا مطالبہ کرتا ہوں اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تمہیں اسے کیسے کرنے کی ضرورت ہے، میں امید کرتا ہوں کہ تم صحیح راستے پر چلو گے اور خدا کے راستے کی پیروی کرو گے، اور تم کبھی بھی صحیح راستے سے نہیں ہٹو گے۔ اگر تو خدا کے کلام کے مطابق نہیں چلتا یا اس کی راہ پر نہیں چلتا تو پھر اس میں کوئی شک نہیں ہو سکتا کہ تو خدا سے بغاوت کر رہا ہے اور صحیح راستے سے بھٹک گیا ہے۔ اس لیے، میں محسوس کرتا ہوں کہ کچھ معاملات ایسے ہیں جو مجھے تمہارے لیے لازمی طور پر واضح کرنا ہوں گے، تم سے بغیر ابہام کے، صاف طور پر، اور ذرا سی بھی غیر یقینی کیفیت کے بغیر ضرور یقین کروانا ہو گا، اور تمہیں خدا کے رویے، اس کے ارادے، وہ انسانوں کو کیسے کامل کرتا ہے اور وہ کس انداز میں لوگوں کے انجام کا تعین کرتا ہے، کی واضح سمجھ بوجھ حاصل کرنے میں تمہاری مدد کرنی ہو گی۔ اگر کوئی ایسا دن آئے کہ جب تو اس راستے پر چلنے کے قابل نہ ہو تو میری کوئی ذمہ داری نہیں ہے کیونکہ یہ الفاظ پہلے ہی تجھ سے واضح طور پر کہے جا چکے ہیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ تو اپنے انجام سے کیسے نمٹتا ہے، تو یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا انحصار مکمل طور پر تجھ پر ہے۔ مختلف قسم کے لوگوں کے انجام کے بارے میں، خدا کے مختلف رویے ہیں، اس کے ان کو تولنے کے اپنے طریقے ہیں نیز ان سے تقاضوں کا اس کا اپنا معیار ہے۔ لوگوں کے انجام کو تولنے کا اس کا معیار ایسا ہے جو ہر ایک کے لیے منصفانہ ہے – اس کے متعلق کوئی شک نہیں ہے! اس لیے بعض لوگوں کا خوف غیر ضروری ہے۔ کیا اب تم مطمئن ہو؟ آج کے لیے اتنا ہی ہے۔ خدا حافظ!
17 اکتوبر 2013