دیباچہ
تم میں سے ہر ایک کو اس بات کا ازسر نو جائزہ لینا چاہیے کہ اپنی پوری زندگی میں خدا پر تمہارا ایمان کیسا رہا ہے، تاکہ تم دیکھ سکو کہ آیا تم نے خدا کی اطاعت کے دوران، صحیح معنوں میں اسے سمجھا ہے، صحیح معنوں میں اس کا ادراک کیا ہے یا نہیں، اور صحیح معنوں میں خدا کی معرفت حاصل کی ہے یا نہیں، آیا تم حقیقی معنوں میں یہ جانتے ہو کہ خدا مختلف نوع کے انسانوں کے ساتھ کیا رویہ رکھتا ہے، اور کیا تُو واقعی وہ کام سمجھتا ہے جو خدا تجھ پر کر رہا ہے اور خدا تیرے ہر عمل کی کیسے تشریح کرتا ہے۔ یہ خدا، جو تیرے ساتھ ہے، تیری پیش رفت کی راہنمائی کر رہا ہے، تیری تقدیر ترتیب دے رہا ہے، اور تیری ضروریات پوری کر رہا ہے – تُواس خدا کو، ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، کتنا سمجھتا ہے؟ تو سچ مچ اس خدا کے بارے میں کتنا جانتا ہے؟ کیا تُو جانتا ہے کہ وہ ہر روز تُجھ پر کیا کام کرتا ہے؟ کیا تو وہ اصول اور مقاصد جانتا ہے جن کی بنیاد پر اس کا ہر عمل ہوتا ہے؟ کیا تُو جانتا ہے کہ وہ تیری راہنمائی کیسے کرتا ہے؟ کیا تُو جانتا ہے کہ وہ تجھے کن ذرائع سے رزق فراہم کرتا ہے؟ کیا تُو وہ طریقے جانتا ہے جن سے وہ تیری راہنمائی کرتا ہے؟ کیا تُو جانتا ہے کہ وہ تُجھ سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے اور تجھ میں کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟ کیا تُو جانتا ہے کہ وہ تیرے برتاؤ کے مختلف طریقوں کے بارے میں کیا رویہ رکھتا ہے؟ کیا تُو جانتا ہے کہ آیا تُو اس کا محبوب بندہ ہے یا نہیں؟ کیا تو اس کی خوشی، غصہ، غم اور مسرت نیز ان کے پیچھے کار فرما خیالات، اور اس کا جوہر جانتا ہے؟ کیا تُو جانتا ہے کہ یہ خدا بالآخر، کس قسم کا خدا ہے جس پر تُو ایمان رکھتا ہے؟ کیا یہ اور اس قسم کے دیگر سوالات کچھ ایسے ہیں جنھیں تُو نے کبھی نہیں سمجھا یا جن کے بارے میں کبھی نہیں سوچا؟ خدا پر اپنے ایمان کی جستجو میں، کیا تُو نے خدا کے کلام کی حقیقی قدر اور عملی تجربے کے ذریعے، اس کے بارے میں اپنی غلط فہمیاں دور کی ہیں؟ کیا تُو نے خدا کی طرف سے تربیت و تادیب کے بعد، حقیقی اطاعت اور دیکھ بھال حاصل کی ہے؟ کیا تُو خدا کی سزا اور انصاف کے درمیان، انسان کی سرکشی اور شیطانی فطرت جان چکا ہے اور خدا کے تقدس کے بارے میں تھوڑی بہت فہم حاصل کر چکا ہے؟ کیا تُو نے خدا کے کلام کی ہدایت اور آگہی کے تحت زندگی کے بارے میں ایک نیا نقطہ نظر رکھنا شروع کر دیا ہے؟ کیا تُو نے خدا کی طرف سے نازل کردہ آزمائشوں کے درمیان انسان کے جرائم کے لیے اس کی عدم برداشت محسوس کی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہ وہ تُجھ سے کیا چاہتا ہے اور وہ تجھے کیسے بچا رہا ہے؟ اگر تُو نہیں جانتا کہ خدا کو غلط سمجھنا کیا ہے، یا اس غلط فہمی کو کیسے دور کیا جائے، تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ خدا کے ساتھ تیری کبھی حقیقی رفاقت نہیں رہی اور تُو نے خدا کو کبھی نہیں سمجھا، یا کم از کم کوئی ایسا بھی کہہ سکتا ہے کہ تُو نے کبھی اسے سمجھنا ہی نہیں چاہا۔ اگر تُو نہیں جانتا کہ خدا کی تربیت اور تادیب کیا ہے، تو تُو یقیناً یہ نہیں جانتا کہ اطاعت اور خدمت کیا ہے، یا کم از کم تُو نے کبھی بھی حقیقی معنوں میں خدا کی اطاعت یا اس کی پروا نہیں کی ہے۔ اگر تُو نے کبھی خدا کی سزا اور انصاف کا تجربہ نہیں کیا ہے، تو تُو یقیناً یہ نہیں جان پائے گا کہ اس کا تقدس کیا ہے، اور انسان کی بغاوت کے بارے میں تیرا تصور مزید غیر واضح ہو گا۔ اگر تُو واقعی زندگی کے بارے میں کوئی صحیح نقطہ نظر، یا زندگی میں کوئی صحیح مقصد نہیں رکھتا، اور پھر بھی زندگی میں اپنے مستقبل کے راستے کے بارے میں الجھن اور تذبذب کی حالت میں ہے، یہاں تک کہ آگے بڑھنے سے ہچکچا رہا ہے، تو پھر یہ یقینی ہے کہ تجھے کبھی بھی خدا کی طرف سے آگہی اور ہدایت نہیں ملی؛ کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ تجھے کبھی بھی حقیقی معنوں میں خدا کا کلام فراہم نہیں کیا گیا اور نہ ہی اسے دوبارہ پُر کیا گیا۔ اگر تُو ابھی تک خدا کی آزمائشوں سے نہیں گزرا، تو پھر یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ تُو یقیناً یہ نہیں جان پائے گا کہ انسان کے جرائم کے بارے میں خدا کی عدم برداشت کیا ہے، اور نہ ہی تو یہ سمجھ سکے گا کہ بالآخر خدا کو تجھ سے کیا مطلوب ہے، اور یہ بات تو اور بھی نہیں سمجھ پائے گا کہ، بالآخر، اس کا کام انسان کو سنبھالنے اور بچانے کا ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایک شخص کتنے سالوں سے خدا پر ایمان رکھتا ہے، اگر اس نے خدا کے کلام کا کبھی تجربہ نہیں کیا ہے یا خدا کے کلام سے کچھ آگہی حاصل نہیں کی ہے، تو یقینی طور پر وہ نجات کے راستے پر نہیں چل رہا ہے، خدا پر اس کا ایمان یقینی طور پر حقیقی مواد کے بغیر ہے، خدا کے بارے میں اس کا علم بھی یقینی طور پر صفر ہے، اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ اسے بالکل بھی اندازہ نہیں ہے کہ خدا کی تعظیم کرنا کیا ہوتا ہے۔
خدا کی ملکیت اور ہستی، خدا کا جوہر، خدا کا مزاج – یہ سب اس کے کلام میں بنی نوع انسان پر عیاں کیا جا چکا ہے۔ جب وہ خدا کے کلام کا تجربہ کرتا ہے، تو انسان ان پر عمل کرنے کے عمل میں خدا کے کہے ہوئے کلام کے پس پردہ مقاصد کو سمجھے گا، اور خدا کے کلام کا ماخذ اور پس منظر سمجھے گا، اور خدا کے کلام کا مطلوبہ اثر سمجھے گا اور اس کی قدر کرے گا۔ بنی نوع انسان کے لیے، یہ وہ سب چیزیں ہیں جن کا انسان کو لازماً تجربہ کرنا چاہیے، انھیں سمجھنا اور حاصل کرنا چاہیے تاکہ وہ سچائی اور زندگی حاصل کر سکے، خدا کے ارادے سمجھ سکے، اس کے مزاج کے مطابق ہو سکے، اور خدا کی حاکمیت اور انتظامات کی پیروی کے قابل ہو سکے۔ جب انسان ان چیزوں کا تجربہ کرے گا، انھیں سمجھے اور حاصل کرے گا، تو تب ہی وہ رفتہ رفتہ خدا کی معرفت حاصل کرے گا، اور تب ہی وہ خدا کے بارے میں مختلف درجات کا علم بھی حاصل کرے گا۔ یہ فہم اور علم انسان کے خود ساختہ تصورات سے جنم نہیں لیتا، بلکہ اس چیز سے حاصل ہوتا ہے جس کی وہ قدر کرتا ہے، تجربہ کرتا ہے، محسوس کرتا ہے اور اپنے اندر تصدیق کرتا ہے۔ ان چیزوں کی قدر کرنے، تجربہ کرنے، محسوس کرنے اور تصدیق کرنے کے بعد ہی انسان کو خدا کے بارے میں علم حاصل ہوتا ہے؛ صرف وہی علم حقیقی، اصلی اور درست ہوتا ہے جو انسان اس وقت حاصل کرتا ہے اور یہ عمل – خدا کے کلام کی قدر کرنے، تجربہ کرنے، محسوس کرنے اور اس کی تصدیق کے ذریعے خدا کی حقیقی معرفت کا حصول – انسان اور خدا کے درمیان حقیقی رفاقت کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ اس قسم کی رفاقت کے درمیان، انسان حقیقی معنوں میں خدا کے ارادے سمجھنے اور اس کا ادراک حاصل کرنے کا اہل ہوتا ہے، وہ خدا کی ملکیت اور ہستی صحیح معنوں میں سمجھنے اور جاننے کا اہل ہوتا ہے، وہ خدا کا جوہر صحیح معنوں میں سمجھنے اور جاننے کا اہل ہوتا ہے، وہ بتدریج خدا کا مزاج سمجھنے اور جاننے کا اہل ہوتا ہے، وہ تمام مخلوقات پر خدا کے تسلط کی حقیقت اور درست تعریف کے بارے میں حقیقی یقین تک پہنچتا ہے اور خدا کی شناخت اور مقام سے لازمی واقفیت اور علم حاصل کرتا ہے۔ اس قسم کی رفاقت کے درمیان، انسان قدم بہ قدم خدا کے بارے میں اپنے خیالات بدلتا ہے، اب اس کے بارے میں اچانک تصور نہیں کرتا، یا اس کے بارے میں اپنے شکوک و شبہات کو آزادی نہیں دیتا ہے، یا اسے غلط نہیں سمجھتا ہے، یا اس کی مذمت نہیں کرتا ہے، یا اس کے بارے میں فیصلہ نہیں صادر کرتا ہے یا اس پر شبہ نہیں کرتا ہے۔ اس طرح انسان کے خدا کے ساتھ تنازعات کم ہوں گے، اور خدا کے خلاف انسان کے بغاوت کرنے کے مواقع بھی کم ہوں گے۔ اس کے برعکس، انسان کی طرف سے خدا کی خدمت اور اطاعت میں اضافہ ہوگا، اور خدا کے لیے اس کی تعظیم زیادہ حقیقی اور گہری ہو گی۔ اس طرح کی رفاقت کے درمیان، انسان نہ صرف سچائی کا رزق اور زندگی کا بپتسمہ حاصل کرے گا، بلکہ وہ اسی وقت خدا کی حقیقی معرفت بھی حاصل کر لے گا۔ اس طرح کی رفاقت کے درمیان، انسان نہ صرف اپنا مزاج بدلے گا اور نجات حاصل کرے گا، بلکہ اس کے ساتھ ہی وہ خدا کی جانب سے ایک مخلوق کی حقیقی تعظیم اور عبادت بھی حاصل کرے گا۔ اس قسم کی رفاقت حاصل کرنے کے بعد، انسان کا خدا پر ایمان اب کاغذ کا سفید ورق یا کھوکھلا وعدہ یا اندھی عقیدت اور بت پرستی کی شکل نہیں رہ جائے گا۔ صرف اس قسم کی رفاقت سے انسان کی زندگی روز بروز پختگی کی طرف بڑھے گی، اور صرف تب ہی اس کا مزاج بتدریج تبدیل ہوگا، اور خدا کی مرضی پر اس کا ایمان، قدم بہ قدم، ایک مبہم اور غیر یقینی عقیدے سے نکل کر حقیقی اطاعت اور خدمت میں، حقیقی تعظیم میں بدل جائے گا۔اور انسان بھی، خدا کی اطاعت کے اس عمل میں، بتدریج ایک غیر فعال سے فعال موقف کی طرف، منفی سے مثبت کی طرف بڑھے گا۔ صرف اس قسم کی رفاقت سے ہی انسان خدا کی صحیح معرفت اور تفہیم تک پہنچے گا، اور یہ خدا کے بارے میں حقیقی علم ہو گا۔ کیونکہ لوگوں کی ایک بڑی اکثریت کو کبھی بھی خدا کے ساتھ حقیقی رفاقت حاصل نہیں رہی ہے، اس لیے خدا کے بارے میں ان کا علم نظریے کی سطح پر، حروف اور عقائد کی سطح پر ہی رک جاتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جہاں تک خدا کو جاننے کا تعلق ہے تو لوگوں کی بڑی اکثریت، خواہ وہ کتنے ہی سالوں سے خدا پر ایمان کیوں نہ رکھتی ہو، وہ اب بھی اسی جگہ پر ہے جہاں سے اس نے شروع کیا تھا، وہ اب بھی عقیدت کی روایتی شکلوں کی اساس میں ان کے وابستہ توہمات اور رومانوی رنگوں کے ساتھ اٹکی ہوئی ہے۔ خدا کے بارے میں اس شخص کا علم اپنے نقطہ آغاز پر ہی موقوف ہو جانا چاہیے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ عملی طور پر غیر موجود ہے۔ خدا کے مقام اور شناخت کے بارے میں انسان کے اثبات کے علاوہ، خدا پر انسان کا ایمان اب بھی مبہم غیر یقینی صورتحال میں ہے۔ ایسا ہونے کی وجہ سے انسان خدا کی کتنی سچی تعظیم کر سکتا ہے؟
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تُو خدا کے وجود کی بابت کتنا پختہ یقین رکھتا ہے، یہ نہ تو خدا کے بارے میں تیرے علم اور نہ ہی تیری تعظیم کی جگہ لے سکتا ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تُو اس کی نعمتوں اور اس کے فضل سے کتنا محظوظ ہوا ہو، یہ خدا کی بابت تیرے علم کی جگہ نہیں لے سکتا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تُو اس کی خاطر اپنا سب کچھ نذر کرنے اور اپنا سب کچھ خرچ کرنے کے لیے کتنا بے قرار ہے، یہ خدا کی بابت تیرے علم کی جگہ نہیں لے سکتا۔ ممکن ہے کہ تُو خدا کے کہے ہوئے کلام سے خوب واقف ہو گیا ہو، یا تُو اسے زبانی یاد رکھتا ہو اور اسے فرفر بیان کر سکتا ہو، لیکن یہ خدا کی بابت تیرے علم کی جگہ نہیں لے سکتا۔ انسان خدا کی اطاعت پر خواہ کتنا ہی آمادہ کیوں نہ ہو، اگر خدا کے ساتھ اس کی حقیقی رفاقت نہ رہی ہو یا خدا کے کلام کا حقیقی تجربہ نہ کیا ہو، تو خدا کے بارے میں اس کا علم محض ایک سادہ پیوند، یا ایک نہ ختم ہونے والی خیال آرائی ہو گی۔ باوجود اس کے کہ خدا کے پاس سے گزرتے ہوئے تیرے شانے اس سے چھو گئے ہوں، یا اس سے روبرو ملاقات کی ہو، اس کے باوجود، خدا کے بارے میں تیرا علم صفر رہے گا، اور خدا کے لیے تیری تعظیم ایک کھوکھلے نعرے یا ایک مثالی تصور سے زیادہ نہیں ہو گی۔
بہت سے لوگ خدا کا کلام روز بروز پڑھنے کے لیے تھامے رہتے ہیں، اس حد تک کہ اس میں موجود تمام کلاسیکی اقتباسات سب سے زیادہ قیمتی ملکیت کے طور پر احتیاط سے یاد کرنے کا عہد کرتے ہیں، اور اس کے علاوہ ہر جگہ خدا کے کلام کی منادی کرتے ہیں، دوسروں کو خدا کا کلام فراہم کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا خدا کی گواہی دینا ہے، اس کے کلام کی گواہی دینا ہے، یہ کہ ایسا کرنا خدا کی راہ پر چلنا ہے، وہ سوچتے ہیں کہ ایسا کرنا خُدا کے کلام کے مطابق زندگی گزارنا ہے، ایسا کرنا اُس کے کلام کو اپنی حقیقی زندگیوں میں لانا ہے، یہ کہ ایسا کرنے سے وہ خُدا کی توصیف حاصل کر سکیں گے، انھیں نجات مل سکے گی اور وہ کامل ہو سکیں گے۔ وہ خُدا کے کلام کی منادی کرتے ہیں، لیکن وہ کبھی بھی اپنے عمل میں خُدا کے کلام کی تعمیل نہیں کرتے، یا خُدا کے کلام میں جو کچھ ظاہر ہوتا ہے اس سے اپنا موازنہ کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ بلکہ وہ فریب دے کر دوسروں کا احترام و اعتماد حاصل کرنے کے لیے خدا کا کلام استعمال کرتے ہیں، اپنے دم پر انتظامیہ میں داخل ہونے اور خدا کی شان کو غبن اور چوری کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ بے کار اُمید کرتے ہیں کہ، خدا کا کلام پھیلانے سے ملنے والے مواقع کا فائدہ اٹھائیں گے تاکہ خدا کے کام اور اس کی توصیف سے نوازا جا سکے۔ کتنے ہی سال گزر گئے لیکن یہ لوگ خدا کے کلام کی منادی کے عمل میں نہ صرف یہ کہ خدا کی توصیف حاصل کرنے سے قاصر رہے ہیں، نہ صرف یہ کہ خدا کے کلام کی گواہی دینے کے عمل میں مطلوب طریقہ دریافت کرنے سے قاصر رہے ہیں جس کی انھیں پیروی کرنی چاہیے، اور نہ صرف یہ کہ انھوں نے دوسروں کو خدا کا کلام فراہم کرنے یا مدد کرنے کے عمل میں اپنی مدد نہیں کی ہے یا خود کو فراہم نہیں کیا ہے، اور نہ صرف یہ کہ تمام چیزیں کرنے کے دوران وہ خدا کو جاننے، یا اپنے اندر خدا کے لیے حقیقی تعظیم بیدار کرنے سے قاصر رہے ہیں، بلکہ اس کے برعکس، خُدا کے بارے میں اُن کی غلط فہمیاں مزید گہری ہوتی چلی گئی ہیں، خدا کے بارے میں اُن کی بے اعتمادی مزید گہری ہوتی چلی گئی ہے، اور اُس کے بارے میں اُن کے تصورات مزید بڑھتے چلے گئے ہیں۔ خدا کے کلام کے بارے میں اپنے نظریات کی طرف سے فراہمی اور راہنمائی کرتے ہوئے، وہ مکمل طور پر اپنے عنصر میں نظر آتے ہیں، گویا اپنی صلاحیتیں بہت آسانی سے استعمال کر رہے ہیں، گویا انھوں نے زندگی میں اپنا مقصد، اپنا نصب العین پا لیا ہے، اور گویا انھیں نئی زندگی مل گئی ہے، گویا انھیں بچا لیا گیا ہے، گویا دوران تلاوت، ان کی زبان پر بڑی صفائی سے رواں خدا کے کلام کے ساتھ، انھوں نے سچائی حاصل کر لی ہے، خدا کے ارادوں کو سمجھ لیا ہے، اور خدا کو جاننے کا راستہ تلاش کر لیا ہے، گویا، خدا کے کلام کی منادی کے عمل میں، وہ اکثر خدا سے روبرو ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ، وہ اکثر جذبات سے مغلوب ہو کر آہ و زاری کرنے لگتے ہیں، اور، اکثر خدا کے کلام میں "خدا" کی قیادت میں، وہ اس کے مخلصانہ خلوص اور مہربان ارادے کو مسلسل سمجھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہ وہ خدا کے ذریعے انسان کی نجات بھی سمجھ چکے ہیں، خدا اور اس کی حکمت عملی، اس کے جوہر اور اس کا راست باز مزاج سمجھ چکے ہیں۔ اس بنیاد پر، وہ خدا کے وجود پر اور بھی زیادہ پختہ یقین رکھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، اس کے اعلیٰ مرتبے کا زیادہ ادراک رکھتے ہوئے، اور اس کی عظمت و شوکت کو اور بھی زیادہ گہرائی سے محسوس کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ خدا کے کلام کی بابت سطحی علم میں غرق لوگوں کو لگے گا کہ اُن کا ایمان بڑھ گیا ہے، مصائب کو برداشت کرنے کا اُن کا عزم مضبوط ہوا ہے، اور خُدا کے بارے میں اُن کا علم گہرا ہوا ہے۔ وہ کم ہی اس بات سے واقف ہوتے ہیں کہ جب تک وہ حقیقت میں خدا کے کلام کا تجربہ نہیں کر لیتے، تب تک خدا کے بارے میں ان کا تمام علم اور اس کے بارے میں ان کے خیالات ان کے آرزو مندانہ تخیلات اور قیاس آرائیوں کی پیداوار ہیں۔ ان کا ایمان خدا کی طرف سے کسی بھی قسم کے امتحان میں قائم نہیں رہے گا، ان کی نام نہاد روحانیت اور مقام و مرتبہ خدا کے امتحان یا معائنہ کے سامنے نہیں ٹھہرے گا، ان کا عزم صرف ریت پر بنا ہوا قلعہ ثابت ہو گا، اور خدا کے تعلق سے ان کا نام نہاد علم ان کے تخیل کی پیداوار کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوگا۔ درحقیقت، جیسا کہ یہ تھا، خدا کے کلام میں بہت زیادہ کوششیں کرنے والوں نے کبھی بھی یہ نہیں سمجھا کہ حقیقی ایمان کیا ہے، حقیقی اطاعت کیا ہے، حقیقی فکر کیا ہے، یا خدا کا حقیقی علم کیا ہے۔ وہ نظریہ، تخیل، علم، تحفہ، روایت، توہم پرستی، اور یہاں تک کہ بنی نوع انسان کی اخلاقی قدروں کو بھی اپنا لیتے ہیں، اور انھیں خدا پر ایمان اور اس کی پیروی کرنے کے لیے "سرمایہ" اور "ہتھیار" بنا لیتے ہیں، یہاں تک کہ وہ انھیں خدا پر اپنے ایمان کی بنیاد بنا لیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس سرمائے اور ہتھیاروں کو لے کر خدا کے معائنے، آزمائشوں، سزاؤں اور انصاف کا سامنا کرنے اور ان سے نمٹنے کے لیے یہ سرمایہ اور ہتھیار بھی استعمال میں لاتے ہیں اور انھیں جادوئی نقش بنا دیتے ہیں جن کے ذریعے وہ خدا کو پہچانتے ہیں۔ آخر میں، وہ اب بھی جو کچھ حاصل کرتے ہیں وہ خدا کے بارے میں ان نتائج کے علاوہ کچھ نہیں ہے جن کی جڑیں مذہبی تعبیرات میں، دقیانوسی توہم پرستی میں، اور ان تمام چیزوں میں پیوست ہوتی ہیں جو رومانوی، مضحکہ خیز اور پراسرار ہیں۔ خدا کو جاننے اور اس کی تشریح کرنے کا ان کا طریقہ ان لوگوں کی طرح ہے جو صرف اوپر آسمان میں، یا آسمان میں بوڑھے آدمی پر یقین رکھتے ہیں، جب کہ خدا کی حقیقت، اس کا جوہر، اس کا مزاج، اس کی ملکیت اور وجود وغیرہ – یہ وہ تمام چیزیں ہیں جن کا تعلق خود حقیقی خدا سے ہے – یہ ایسی چیزیں ہیں جنھیں ان کا علم سمجھنے میں ناکام رہا ہے، جن سے ان کا علم مکمل طور پر عاری ہے، اور اس میں اتنا ہی بُعد ہے جتنا کہ قطب شمالی و جنوبی میں ہے۔ اس طرح، اگرچہ یہ لوگ خدا کے کلام کے رزق اور پرورش میں زندگی بسر کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ خدا سے ڈرنے اور برائی سے بچنے کے راستے پر چلنے سے قاصر ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ کبھی بھی خدا سے آشنا نہیں ہوئے، نہ ہی ان کا کبھی اس سے حقیقی رابطہ ہوا ہے اور نہ ہی ان کا اس سے کوئی تعلق رہا ہے، لہٰذا ان کے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ خدا کے ساتھ باہمی مفاہمت پر پہنچیں، یا اپنے اندر خدا پر حقیقی ایمان، اس کی اطاعت یا عبادت کو بیدار کریں۔ یہ کہ انھیں اس طرح خدا کے کلام کا احترام کرنا چاہیے، یہ کہ اس طرح انھیں خدا کا احترام کرنا چاہیے – اس نقطہ نظر اور رویے نے ان کی کوششوں کو بے ثمر کر دیا ہے اور انھیں خالی ہاتھ لوٹنے پر مجبور کر دیا ہے، انھیں برباد کر دیا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے خدا سے ڈرنے اور برائی سے بچنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ وہ ہدف جس کو انھوں نے اپنا مقصد بنا لیا ہے اور جس سمت وہ جا رہے ہیں، یہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ ازل سے خدا کے دشمن ہیں، اور یہ کہ ابد تک وہ کبھی نجات حاصل نہیں کر سکیں گے۔
اگر، کسی ایسے شخص کے معاملے میں جس نے کئی سال تک خدا کی اطاعت کی ہو اور کئی سالوں تک اس کے کلام کے رزق سے لطف اندوز ہوا ہو، اس کی خدا کی تعریف بنیادی طور پر وہی ہو جو بتوں کے آگے عقیدت میں سجدہ کرنے والے کی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس شخص نے خدا کے کلام کی حقیقت حاصل نہیں کی۔ اس کی آسان سی وجہ یہ ہے کہ وہ خدا کے کلام کی حقیقت میں داخل ہی نہیں ہوا اور اس وجہ سے حقیقت، سچائی، ارادے اور انسان سے تقاضے کا، جو سب کے سب خدا کے کلام میں شامل ہیں، اس شخص سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص خدا کے کلام کے سطحی مفہوم پر خواہ کتنی ہی محنت کیوں نہ کرے، سب فضول ہے: کیونکہ وہ جس چیز کا تعاقب کر رہا ہے وہ محض الفاظ ہیں، اس لیے وہ جو کچھ حاصل کرتا ہے وہ بھی لازماً الفاظ ہی ہوں گے۔ خواہ خدا کی طرف سے کہے گئے الفاظ بظاہر صاف ہوں یا گہرے، یہ وہ سچائیاں ہیں جو زندگی میں قدم رکھتے ہی انسان کے لیے ناگزیر ہو جاتی ہیں؛ وہ آب حیات کا چشمہ ہیں جو انسان کو روح اور جسم دونوں میں زندہ رہنے کے قابل بناتا ہے۔ وہ انسان کو زندہ رہنے کے لیے درکار چیزیں فراہم کرتا ہے۔ اپنی روزمرہ کی زندگی کو چلانے کے لیے اصول اور عقیدہ؛ وہ راستہ جو اسے نجات کے لیے اختیار کرنا چاہیے، نیز اس کا ہدف اور سمت؛ ہر وہ سچائی جو اسے خدا کے سامنے ایک مخلوق کی حیثیت سے حاصل ہونی چاہیے اور ہر وہ سچائی کہ انسان کس طرح خدا کی اطاعت اور عبادت کرتا ہے۔ یہ وہ ضمانتیں ہیں جو انسان کی بقا کو یقینی بناتی ہیں، یہ انسان کی روزمرہ کی خوراک ہیں، اور یہ وہ طاقت ور سہارا بھی ہیں جو انسان کو مضبوط ہونے اور کھڑے ہونے کے قابل بناتی ہیں۔ وہ اس سچائی کی حقیقت سے مالا مال ہیں جس سے بنی نوع انسان عام انسانوں کی زندگی گزارتا ہے، اس سچائی سے مالا مال ہے جس کے ذریعے انسان بدعنوانی سے چھٹکارا پاتا ہے اور شیطان کے مکرو فریب سے بچ جاتا ہے، جو خالق کی انتھک تعلیم، نصیحت، حوصلہ افزائی اور تسلی سے مالا مال ہے جو خالق تخلیق شدہ بنی نوع انسان کو عطا کرتا ہے۔ یہ وہ مینار ہیں جو انسانوں کو ان تمام چیزوں کو سمجھنے کے لیے راہنمائی اور آگہی فراہم کرتے ہیں جو مثبت ہیں، یہ ضمانت ہے جو یہ بات یقینی بناتی ہے کہ انسان زندگی بسر کرے گا اور وہ تمام چیزیں اس کے قبضے میں آئیں گی جو نیک اور اچھی ہیں، یہ وہ معیار ہے جس سے تمام افراد، واقعات اور اشیا کی پیمائش کی جاتی ہے۔ اور نشان راہ بھی ہے جو انسانوں کو نجات اور روشنی کے راستے کی طرف لے جاتا ہے۔ صرف خدا کے کلام کے عملی تجربے کی روشنی میں ہی انسان کو سچائی اور زندگی فراہم ہو سکتی ہے۔ صرف یہاں سے انسان یہ سمجھ سکتا ہے کہ عام انسانیت کیا ہے، بامعنی زندگی کیا ہے، ایک حقیقی تخلیق شدہ وجود کیا ہے، خدا کی حقیقی اطاعت کیا ہے؛ صرف یہاں سے انسان یہ سمجھ سکتا ہے کہ اسے خدا کی پروا کیسے کرنی چاہیے، ایک تخلیق شدہ وجود کا فرض کیسے پورا کرنا ہے، اور ایک حقیقی انسان کی مشابہت کیسے حاصل کرنی ہے؛ صرف یہاں سے انسان یہ سمجھ سکتا ہے کہ حقیقی ایمان اور حقیقی عبادت سے کیا مراد ہے۔ صرف یہاں سے انسان یہ سمجھ سکتا ہے کہ آسمان و زمین اور تمام چیزوں کا حاکم کون ہے؛ صرف یہاں سے انسان وہ ذرائع سمجھ سکتا ہے جن کے ذریعے وہ جو تمام مخلوقات کا مالک ہے مخلوق پر حکمرانی کرتا ہے، راہنمائی کرتا ہے اور رزق مہیا کرتا ہے؛ اور صرف یہیں سے انسان وہ ذرائع سمجھ سکتا ہے جن سے وہ جو تمام مخلوقات کا مالک ہے، موجود ہوتا ہے، ظاہر ہوتا ہے اور کام کرتا ہے۔ خدا کے کلام کے حقیقی تجربے سے الگ ہو کر، انسان خدا کے کلام اور سچائی کا کوئی حقیقی علم یا بصیرت حاصل نہیں کر سکتا۔ ایسا آدمی بلاشبہ ایک زندہ لاش ہے، ایک خوش نما خول ہے، اور خالق سے متعلق تمام علم کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ خدا کی نظر میں ایسا انسان خدا پر کبھی ایمان نہیں لایا اور نہ ہی اس نے کبھی اس کی اطاعت کی ہے، اس لیے خدا ایسے آدمی کو نہ تو اپنا مومن اور نہ ہی اپنا مطیع مانتا ہے، ایک حقیقی تخلیق شدہ وجود کے طور پر ماننے کا امکان تو اس سے بھی کم ہے۔
ایک حقیقی تخلیق شدہ انسان کو یہ جاننا چاہیے کہ خالق کون ہے، انسان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے، انسانی ذمہ داریاں کیسے نبھانی ہیں، اور تمام مخلوقات کے رب کی عبادت کیسے کرنی ہے، اسے لازماً خالق کے ارادوں، خواہشات اور مطالبات کو سمجھنا، جاننا، اور ان کا خیال رکھنا چاہیے، اور خالق کے طریقے – خدا سے ڈرو اور برائی سے بچو – کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔
خوفِ خدا کیا ہے؟ اور کوئی برائی سے کیسے بچ سکتا ہے؟
"خوفِ خدا" کا مطلب بے نام خوف اور دہشت نہیں ہے، نہ ہی اجتناب، نہ ہی درمیان میں فاصلہ رکھنا، اور نہ ہی یہ بت پرستی یا توہم پرستی ہے۔ بلکہ، یہ ستائش، عزت، اعتماد، سمجھ بوجھ، نگہداری، اطاعت، تقدیس، محبت، نیز غیر مشروط اور بلاشکایت عبادت، صلہ اور فرمانبرداری ہے۔ خدا کی حقیقی معرفت کے بغیر، بنی نوع انسان کو حقیقی ستائش، حقیقی اعتماد، حقیقی سمجھ بوجھ، حقیقی نگہداری یا اطاعت کا مادّہ حاصل نہیں ہوگا، بلکہ صرف خوف اور بے چینی، صرف شک، غلط فہمی، لیت و لعل، اور اجتناب ملے گا؛ خدا کی حقیقی معرفت کے بغیر، انسان کو حقیقی تقدیس اور صلہ نہیں ملے گا۔ خدا کی حقیقی معرفت کے بغیر، انسان کے پاس حقیقی عبادت اور تابعداری نہیں ہوگی، بلکہ صرف اندھی بت پرستی اور توہم پرستی ہو گی؛ خدا کی حقیقی معرفت کے بغیر، انسان خدا کے طریقے کے مطابق عمل نہیں کر سکتا، یا خدا سے ڈر نہیں سکتا، یا برائی سے باز نہیں آ سکتا۔ اس کے برعکس، ہر وہ عمل اور سلوک جس میں انسان ملوث ہوتا ہے بغاوت اور نافرمانی سے، خدا کے بارے میں جھوٹی الزام تراشی اور اس کے متعلق بدنیت فیصلوں سے، اور سچائی اور خدا کے کلام کے حقیقی معنی کے خلاف چلنے والے برے طرز عمل سے پُر ہو گا۔
ایک بار جب انسانیت خدا پر حقیقی اعتماد شروع کر دے تو وہ اس کی پیروی کرنے اور اس پر انحصار کرنے میں حقیقی ہو گی؛ صرف خدا پر حقیقی اعتماد اور انحصار کے ساتھ ہی انسانیت حقیقی فہم و ادراک حاصل کر سکتی ہے؛ خدا کے حقیقی ادراک کے ساتھ اس کی حقیقی خدمت بھی آتی ہے۔ صرف خدا کی حقیقی خدمت کے ساتھ ہی انسانیت حقیقی اطاعت حاصل کر سکتی ہے۔ صرف خدا کی حقیقی اطاعت کے ساتھ ہی انسانیت حقیقی تقدیس حاصل کر سکتی ہے؛ صرف خدا کے لیے حقیقی تقدیس کے ساتھ ہی انسانیت کو ایسا صلہ مل سکتا ہے جو غیر مشروط ہو گا اور اس کے بارے میں اسے کوئی شکایت نہیں ہو گی؛ صرف حقیقی اعتماد اور انحصار، حقیقی سمجھ بوجھ اور نگہداری، حقیقی اطاعت، حقیقی تقدیس اور صلہ کے ساتھ ہی بنی نوع انسانیت حقیقی معنوں میں خدا کا مزاج اور جوہر جان سکتی ہے، اور خالق کی شناخت کو جان سکتی ہے۔ جب وہ حقیقی معنوں میں خالق کو جان چکی ہو گی۔ تب ہی انسانیت اپنے اندر حقیقی عبادت اور اطاعت بیدار کر سکے گی؛ جب وہ خالق کی حقیقی عبادت اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کرے گی تبھی انسانیت صحیح معنوں میں اپنے برے راستوں سے کنارہ کشی کر سکے گی، کہنے کا مطلب ہے کہ وہ برائی سے بچ سکے گی۔
یہ "خدا سے ڈرنے اور برائی سے بچنے" کا پورا عمل تشکیل دیتا ہے، اور یہ کلی طور پر خدا سے ڈرنے اور برائی سے بچنے کا مواد بھی ہے۔ خدا سے ڈرنے اور برائی سے بچنے کے لیے یہی وہ راستہ ہے جس پر چلنا ضروری ہے۔
"خدا سے ڈرنا اور برائی سے بچنا" اور خدا کو جاننا ناقابل تقسیم طور پر بے شمار دھاگوں سے جڑے ہوئے ہیں، اور ان کے درمیان تعلق صاف ظاہر ہے۔ اگر کوئی برائی سے بچنا چاہتا ہے تو اسے پہلے خدا کا حقیقی خوف ہونا چاہیے؛ اگر کوئی خدا کا حقیقی خوف حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے پہلے خدا کی حقیقی معرفت حاصل کرنی ہوگی؛ اگر کوئی خدا کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہے، تو اسے لازماً پہلے خدا کے کلام کا عملی تجربہ کرنا ہو گا؛ خدا کے کلام کی حقیقت میں داخل ہونا ہو گا، خدا کی تادیب و تربیت، اس کی سزا اور انصاف کا تجربہ کرنا ہو گا۔ اگر کوئی خدا کے کلام کا تجربہ کرنا چاہتا ہے تو اسے پہلے خدا کے کلام سے روبرو ہونا ہوگا، خدا کے روبرو آنا ہوگا، اور خدا سے درخواست کرنی ہوگی کہ وہ عوام، واقعات اور اشیا پر محیط ہر طرح کے ماحول میں خدا کے کلام کا تجربہ کرنے کے مواقع فراہم کرے؛ اگر کوئی خدا اور خدا کے کلام کے روبرو ہونا چاہتا ہے تو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ سب سے پہلے سادہ اور دیانت دار دل، سچائی قبول کرنے پر آمادگی، مصائب برداشت کرنے کا عزم، برائی سے بچنے کا عزم اور ہمت اور ایک حقیقی تخلیق شدہ انسان بننے کے لیے قوت تحریک سے لیس ہو۔۔۔۔ اس طرح قدم بہ قدم آگے بڑھتے ہوئے تُو خدا کے قریب تر ہوتا جائے گا، تیرا دل اور زیادہ پاکیزہ ہوتا جائے گا، اور خدا کی معرفت حاصل کرنے کے نتیجے میں تیری زندگی اور زندہ رہنے کی قدر پہلے سے زیادہ بامعنی اور فروزاں ہو جائے گی۔ یہاں تک کہ ایک دن، تُو محسوس کرے گا کہ خالق اب کوئی پہیلی نہیں رہا، کہ خالق تجھ سے کبھی پوشیدہ نہیں رہا، کہ خالق نے تجھ سے کبھی اپنا چہرہ نہیں چھپایا، کہ خالق تجھ سے بالکل بھی دور نہیں ہے، کہ خالق اب وہ نہیں ہے جس کی تُو اپنے خیالات میں مسلسل آرزو کرتا رہا ہے لیکن یہ کہ تُو اپنے احساسات کے ساتھ اس تک پہنچ نہیں سکتا، کہ وہ واقعتاً اور حقیقتاً محافظ ہے؛ جو تیرے بائیں اور دائیں کھڑا ہے، تیری زندگی کو فراہم کر رہا ہے، اور تیری تقدیر کی باگ ڈور سنبھال رہا ہے؛ وہ دور دراز افق پر نہیں ہے اور نہ ہی اس نے خود کو دور اوپر بادلوں میں چھپا رکھا ہے۔ وہ بالکل تیرے ساتھ ہے، تیری ہر طرح راہنمائی کر رہا ہے، وہ سب کچھ ہے جو تیرے پاس ہے، اور وہ واحد شے ہے جو تیرے پاس ہے۔ اس طرح خدا تجھے اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ تُو اس سے دل سے محبت کرے، اس سے چمٹا رہے، اسے مضبوطی سے پکڑا رہے، اس کی تعریف کرے، اسے کھونے کا خوف محسوس کرے، اور اس سے مزید دستبردار ہونے کے لیے تیار نہ ہو، اس کی مزید نافرمانی نہ کرے، یا اس سے مزید اجتناب نہ کرے یا اس سے فاصلہ نہ رکھے۔ تجھ سے صرف یہ مطلوب ہے کہ تُو اس کی خدمت کرے، اس کی اطاعت کرے، جو کچھ وہ تجھے دیتا ہے اس کا احسان چکائے، اور اس کی حاکمیت کے سامنے سر تسلیم خم کرے۔ تُو اس کی راہنمائی، رزق، نگرانی، اور اس کے تحفظ سے مزید انکار نہ کر، وہ تجھے جو حکم دیتا ہے اور تیرے لیے جو ترتیب دیتا ہے، اس سے انکار نہ کر۔ تجھ سے صرف یہ مطلوب ہے کہ تُو اس کی پیروی کر؛ اس کی صحبت میں اس کے اردگرد رہ؛ تجھ سے صرف یہ مطلوب ہے کہ تُو اسے اپنی واحد زندگی کے طور پر قبول کر، اسے اپنا ایک، اور واحد خداوند مان، تیرا صرف ایک، اور واحد خداوند۔
18 اگست 2014