خدا کا کام، خدا کا مزاج، اور خود خدا III

ہماری پچھلی چند رفاقتوں نے تم میں سے ہر ایک پر بڑا اثر ڈالا ہے۔ اس وقت تک، لوگ آخر کار خدا کے حقیقی وجود کو محسوس کر سکتے ہیں اور یہ کہ خدا دراصل انسان کے بہت قریب ہے۔ اگرچہ لوگ کئی سالوں سے خدا پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن انھوں نے اس کے خیالات اور نظریات کو کبھی بھی صحیح معنوں میں اس طرح نہیں سمجھا جیسا کہ وہ اب سمجھتے ہیں، نہ ہی انھوں نے اس کے عملی کاموں کا صحیح معنوں میں اس طرح تجربہ کیا ہے جیسا کہ وہ اب کرتے ہیں۔ چاہے وہ علم ہو یا حقیقی عمل، زیادہ تر لوگوں نے کچھ نئی چیز سیکھ لی ہے اور ایک اعلیٰ فہم حاصل کر لی ہے اور انھیں اپنی ماضی کی جستجو میں غلطی کا احساس ہو گیا ہے، اپنے تجربے کے سطحی پن کا احساس ہو گیا ہے اور اس بات کا بھی کہ ان کا بہت زیادہ تجربہ خدا کی مرضی کے مطابق نہیں ہے اور انھیں احساس ہوا ہے کہ انسان میں جس چیز کی سب سے زیادہ کمی ہے وہ خدا کے مزاج کا علم ہے۔ انسان کا یہ علم محض ادراک پر مبنی علم کی ایک قسم ہے؛ دلیل پر مبنی علم کی سطح تک بلند ہونے کے لیے اپنے تجربات کے ذریعے بتدریج گہرا اور مضبوط ہونا ضروری ہے۔ اس سے پہلے کہ انسان خدا کو صحیح معنوں میں سمجھے، موضوعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے دل میں خدا کے وجود پر ایمان رکھتا ہے، لیکن اس کے پاس مخصوص سوالات کی کوئی حقیقی سمجھ بوجھ نہیں ہے جیسے کہ وہ اصل میں کس قسم کا خدا ہے، اس کی مرضی کیا ہے، اس کا مزاج کیا ہے، اور بنی نوع انسان کے لیے اس کا حقیقی رویہ کیا ہے۔ یہ خدا پر لوگوں کے ایمان پر بہت زیادہ سمجھوتا کرتا ہے، ان کے ایمان کو کبھی پاکیزگی یا کمال حاصل کرنے نہیں دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر تو خدا کے کلام کے روبرو بھی ہے، یا یہ محسوس کرتا ہے کہ اپنے تجربات کے ذریعے خدا سے تیرا آمنا سامنا ہوا ہے، تب بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تو اسے مکمل طور پر سمجھتا ہے۔ چونکہ تو خدا کے خیالات کو نہیں جانتا، یا یہ کہ وہ کیا پسند کرتا ہے اور کن چیزوں سے نفرت کرتا ہے، کیا چیز اسے ناراض کرتی ہے اور کس چیز سے اسے خوشی ملتی ہے، اس لیے تجھے اس کی صحیح معرفت نہیں ہے۔ تیرا ایمان تیری نفسانی خواہشات پر مبنی ابہام اور تخیل کی بنیاد پر قائم ہوا ہے۔ یہ ابھی تک ایک مستند عقیدہ ہونے سے دور ہے اور تو ابھی تک ایک مخلص پیروکار ہونے سے بہت دور ہے۔ انجیل کی ان کہانیوں سے مثالوں کی وضاحت نے انسانوں کو خدا کے دل کو جاننے کا موقع دیا ہے، وہ اپنے کام کے ہر مرحلے پر کیا سوچ رہا تھا اور اس نے یہ کام کیوں کیا، جب اس نے یہ کام کیا تو اس کا اصل ارادہ اور اس کا منصوبہ کیا تھا، اس نے اپنے خیالات کو کیسے حاصل کیا، اور اس نے اپنے منصوبے کے لیے کس طرح تیاری اور پیش رفت کی۔ ان کہانیوں کے ذریعے، ہم خدا کے چھ ہزار سال کے انتظامی کام کے دوران اس کے ہر مخصوص ارادے اور ہر حقیقی سوچ، اور مختلف اوقات اور مختلف ادوار میں انسانوں کے ساتھ اس کے رویے کے بارے میں تفصیلی، مخصوص فہم حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر لوگ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ خدا کیا سوچ رہا تھا، اس کا رویہ کیا تھا، اور اس نے ہر صورت حال کا سامنا کرتے ہوئے کس مزاج کو ظاہر کیا ہے، تو یہ ہر شخص کو خدا کے حقیقی وجود کو مزید گہرائی میں سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے، اور اس کی عملیت اور صداقت کو زیادہ گہرائی سے محسوس کروا سکتا ہے۔ ان کہانیوں کو سنانے کا میرا مقصد لوگوں کو انجیل کی تاریخ سمجھانا نہیں ہے، اور نہ ہی یہ انجیل کی آیات یا اس میں موجود لوگوں سے واقف ہونے میں ان کی مدد کرنے کے لیے ہے، اور خاص طور پر یہ لوگوں کی یہ سمجھنے میں مدد کرنے کے لیے نہیں ہے کہ خدا نے شریعت کے دور میں کیا کیا۔ بلکہ یہ لوگوں کو خدا کی مرضی، اس کے مزاج، اور اس کے ہر چھوٹے حصے کو سمجھنے میں مدد دینے کے لیے ہے تاکہ وہ خدا کے بارے میں زیادہ مستند اور زیادہ درست فہم اور علم حاصل کریں۔ اس طرح، لوگوں کے دل، آہستہ آہستہ، خُدا کے لیے کھل سکتے ہیں، وہ خُدا کے قریب ہو سکتے ہیں، اور وہ اُس کو، اُس کے مزاج، اُس کے جوہر کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں، اور خود حقیقی خُدا کو بہتر طور پر جان سکتے ہیں۔

خدا کے مزاج اور اس کے پاس جو کچھ ہے اور جو وہ خود ہے، اس کا علم لوگوں پر مثبت اثر ڈال سکتا ہے۔ یہ ان کو خدا پر زیادہ بھروسہ کرنے میں مدد دے سکتا ہے اور اس کے لیے حقیقی اطاعت اور خوف حاصل کرنے میں ان کی مدد کر سکتا ہے۔ پھر، وہ مزید آنکھیں بند کر کے اس کی پیروی یا عبادت نہیں کریں گے۔ خدا کو احمق لوگ یا ایسے لوگ نہیں چاہییں جو ہجوم کی اندھی تقلید کرتے ہیں، بلکہ لوگوں کا ایک ایسا گروہ چاہیے جن کے دلوں میں خدا کے مزاج کا واضح فہم اور علم ہو اور وہ خدا کے گواہ کے طور پر کام کر سکتے ہوں، ایسے لوگ جو اس کی محبت کی وجہ سے، اس کے پاس جو کچھ ہے اور جو وہ خود ہے، اور اس کے راستباز مزاج کی وجہ سے، خدا کو کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ خدا کے پیروکار کے طور پر، اگر تیرے دل میں ابھی بھی شفافیت کی کمی ہے، یا خدا کے حقیقی وجود، اس کے مزاج، اس کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے، اور انسانوں کو بچانے کے اس کے منصوبے کے بارے میں ابہام یا الجھن ہے، تو تیرا ایمان خدا کی تعریف حاصل نہیں کر سکتا۔ خُدا نہیں چاہتا کہ اِس قسم کا شخص اُس کی پیروی کرے، اور اُسے پسند نہیں ہے کہ اِس قسم کا شخص اُس کے سامنے آئے۔ کیونکہ اس قسم کا شخص خدا کو نہیں سمجھتا، اس لیے وہ اپنا دل خدا کو دینے سے قاصر ہوتے ہیں – ان کے دل اس کے لیے بند ہیں، اس لیے خدا پر ان کا ایمان نجاست سے بھرا ہوا ہے۔ ان کی خدا کی پیروی اندھی ہی کہی جا سکتی ہے۔ اگر لوگوں کے پاس خدا کی سچی سمجھ اور علم ہو، جو ان کے اندر خدا کی حقیقی اطاعت اور خوف پیدا کرے تو تب ہی لوگ صرف سچا عقیدہ حاصل کر سکتے ہیں اور سچے پیروکار بن سکتے ہیں۔ صرف اسی طرح وہ اپنا دل خدا کو دے سکتے ہیں اور اسے اس کے سامنے کھول سکتے ہیں۔ یہ وہی ہے جو خدا چاہتا ہے، کیونکہ وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں اور سوچتے ہیں وہ خدا کے امتحان کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور خدا کی گواہی دے سکتے ہیں۔ ہر وہ چیز جو میں تمہیں خدا کے مزاج کے بارے میں بتاتا ہوں، یا جو کچھ اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، یا اس کے ہر کیے جانے والے کام میں اس کی مرضی اور اس کے خیالات، اور جس بھی نقطہ نظر سے، جس بھی زاویے سے میں اس کے بارے میں بات کرتا ہوں، یہ سب کچھ تمہیں خدا کے حقیقی وجود کے بارے میں زیادہ یقین کرنے، بنی نوع انسان کے لیے اس کی محبت کو زیادہ صحیح معنوں میں سمجھنے اور اس کی قدر کرنے، اور لوگوں کے لیے خدا کی فکر کو زیادہ صحیح معنوں میں سمجھنے اور بنی نوع انسان کا انتظام کرنے اور اسے بچانے کی مخلصانہ خواہش کی قدر کرنے کے لیے ہے۔

دنیا کی تخلیق کے بعد سے خدا کے خیالات، نظریات اور اعمال کا جائزہ

آج ہم سب سے پہلے خُدا کے بنی نوع انسان کو تخلیق کرنے کے وقت سے اس کے خیالات، نظریات اور اُس کے ہر اقدام کا خلاصہ کریں گے۔ ہم اس پر ایک نظر ڈالیں گے کہ اس نے دنیا کی تخلیق سے لے کر فضل کے دور کے باضابطہ آغاز تک کیا کام کیا ہے۔ اس کے بعد ہم دریافت کر سکتے ہیں کہ خدا کے کون سے خیالات اور نظریات انسان کے لیے نامعلوم ہیں اور وہاں سے ہم خدا کے انتظامی منصوبے کی ترتیب کی وضاحت کر سکتے ہیں، اور اس سیاق و سباق کو جس میں خدا نے اپنے انتظامی کام کو تخلیق کیا، اس کے منبع اور پیش رفت کے عمل کو، اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں اور یہ بھی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ وہ اپنے انتظامی کام سے کیا نتائج چاہتا ہے – یعنی اس کے انتظامی کام کی بنیاد اور مقصد کیا ہے۔ ان چیزوں کو سمجھنے کے لیے ہمیں ایک دُور کے، ساکن اور خاموش وقت میں واپس جانا ہوگا جب انسان موجود نہیں تھے ۔۔۔

خُدا ذاتی طور پر پہلے زندہ شخص کو تخلیق کرتا ہے

جب خُدا اپنے بستر سے اُٹھا تو سب سے پہلا خیال جو اُس کے پاس تھا وہ یہ تھا: ایک زندہ شخص کو تخلیق کرنا – ایک حقیقی، زندہ انسان – کوئی ایسا جو اس کے ساتھ رہے اور اس کا مستقل ساتھی ہو؛ یہ شخص اس کی بات سن سکے، اور وہ اس پر اعتماد کر سکے اور اس کے ساتھ بات کر سکے۔ پھر، پہلی بار، خُدا نے مٹھی بھر مٹی کو اُٹھایا اور اُسے اُس شبیہ کے مطابق پہلا زندہ انسان بنانے کے لیے استعمال کیا جس کا اُس نے اپنے ذہن میں تصور کیا تھا، اور پھر اس نے اس جاندار مخلوق کو ایک نام دیا – آدم۔ ایک بار جب خدا کے پاس یہ زندہ اور سانس لینے والا شخص آ گیا، تو اس نے کیسا محسوس کیا؟ پہلی بار، اس نے ایک پیارے، ایک ساتھی کے ہونے کی خوشی محسوس کی۔ اس نے پہلی بار باپ ہونے کی ذمہ داری اور اس کے ساتھ آنے والی پریشانی کو بھی محسوس کیا۔ یہ زندہ اور سانس لینے والا شخص خدا کے لیے خوشی اور مسرت لایا؛ اس نے پہلی بار سکون محسوس کیا۔ یہ وہ پہلا کام تھا جو خُدا نے کبھی کیا تھا جو اُس کے خیالات یا حتیٰ کہ کلام سے بھی مکمل نہیں ہوا تھا بلکہ اُس کے اپنے ہاتھوں سے کیا گیا تھا۔ جب اس قسم کا وجود – ایک زندہ اور سانس لینے والا شخص – گوشت اور خون سے بنا، جسم اور شکل کے ساتھ اور خدا کے ساتھ بات کرنے کے قابل، خُدا کے سامنے کھڑا ہوا، تو اُس نے ایسی خوشی کا تجربہ کیا جو اُس نے پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ خدا نے اپنی ذمہ داری کو صحیح معنوں میں محسوس کیا، اور اس جاندار نے نہ صرف اس کے دل کو کھینچ لیا بلکہ اپنی ہر چھوٹی حرکت سے اس کے دل کو گرمایا اور متاثر کیا۔ جب یہ جاندار خدا کے سامنے کھڑا ہوا تو پہلی بار اس نے ایسے لوگوں کو مزید حاصل کرنے کا سوچا۔ یہ واقعات کا وہ سلسلہ تھا جو اس پہلی سوچ کے ساتھ شروع ہوا جو خدا کے پاس تھی۔ خدا کے لیے، یہ تمام واقعات پہلی بار ہو رہے تھے لیکن ان پہلے واقعات میں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس نے اس وقت کیا محسوس کیا – خوشی، ذمہ داری، تشویش – کوئی ایسا نہیں تھا جس کے ساتھ وہ اس کا اشتراک کرتا۔ اُس لمحے سے شروع کرتے ہوئے، خُدا نے واقعی ایک تنہائی اور ایک اداسی کو محسوس کیا جو اُس نے پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ اسے احساس ہوا کہ انسان اس کی محبت اور فکر یا انسان کے لیے اس کے ارادوں کو قبول نہیں کر سکتا یا سمجھ نہیں سکتا، اس لیے اس نے پھر بھی اپنے دل میں دکھ اور درد محسوس کیا۔ حالانکہ اُس نے یہ کام انسان کے لیے کیے تھے، لیکن انسان ان سے واقف نہیں تھا اور سمجھتا نہیں تھا۔ انسان اس کے لیے خوشی کے علاوہ جو مسرت اور سکون لے کر آیا وہ جلد ہی اپنے ساتھ غم اور تنہائی کا پہلا احساس بھی لے کر آیا۔ اس وقت خدا کے خیالات اور احساسات یہ تھے۔ جب خُدا یہ سب کچھ کر رہا تھا تو وہ اپنے دل میں خوشی سے غم اور غم سے درد کی طرف چلا گیا، اور یہ احساسات بے چینی کے ساتھ گھل مل گئے۔ وہ صرف اتنا کرنا چاہتا تھا کہ اس شخص کو، اس بنی نوع انسان کو اپنے دل کی باتوں کو جاننے اور اپنے ارادوں کو جلد سمجھانے میں جلدی کرے۔ پھر، وہ اس کا پیروکار بن سکتا ہے اور اس کے خیالات کو بانٹ سکتا ہے اور اس کی مرضی کے مطابق ہو سکتا ہے۔ وہ اب محض خدا کو بات کرتے ہوئے سن کر خاموش نہیں رہے گا؛ وہ اب اس بات سے بے خبر نہیں رہے گا کہ خدا کے کام میں کیسے شامل ہو سکتا ہے؛ سب سے بڑھ کر، وہ اب خدا کے تقاضوں سے لاتعلق لوگ نہیں رہے گا۔ یہ پہلی چیزیں جو خُدا نے کیں بہت بامعنی ہیں اور اُس کے انتظامی منصوبے اور آج کے انسانوں کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہیں۔

تمام چیزوں اور انسانوں کو پیدا کرنے کے بعد خدا نے آرام نہیں کیا۔ وہ اپنے نظم و نسق کو انجام دینے کے لیے اور بنی نوع انسان میں ان لوگوں کو حاصل کرنے کے لیے بے چین اور بےتاب تھا جن سے وہ بہت پیار کرتا تھا۔

خدا شریعت کے دور میں بےمثال کاموں کا ایک سلسلہ کرتا ہے

اس کے بعد، ہم انجیل سے دیکھتے ہیں کہ خدا کے انسانوں کو تخلیق کرنے کے کچھ عرصہ بعد، پوری دنیا میں ایک بہت بڑا سیلاب آیا۔ سیلاب کے اندراج میں نوح کا ذکر ہے، اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ نوح وہ پہلا شخص تھا جس نے خدا کے کام کو مکمل کرنے کے لیے اس کے ساتھ کام کرنے کے لیے خدا کا بلاوا وصول کیا۔ یقیناً یہ وہ پہلا موقع بھی تھا کہ جب خدا نے زمین پر کسی شخص کو اپنے حکم کے مطابق کچھ کرنے کے لیے بلایا تھا۔ جب نوح نے کشتی کی تعمیر مکمل کر لی تو خدا پہلی بار زمین پر سیلاب لایا۔ جب خدا نے سیلاب سے زمین کو تباہ کیا، تو انسانوں کو پیدا کرنے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے اپنے آپ کو ان کی نفرت سے مغلوب محسوس کیا؛ یہی وہ چیز ہے جس نے خدا کو سیلاب کے ذریعے اس انسانی نسل کو تباہ کرنے کا دردناک فیصلہ کرنے پر مجبور کیا۔ سیلاب سے زمین کو تباہ کرنے کے بعد، خدا نے انسانوں کے ساتھ اپنا پہلا عہد باندھا، ایک عہد یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ دوبارہ کبھی سیلاب سے دنیا کو تباہ نہیں کرے گا۔ اس عہد کی نشانی کمان تھی۔ یہ بنی نوع انسان کے ساتھ خدا کا پہلا عہد تھا، لہٰذا کمان خدا کی طرف سے دیے گئے عہد کی پہلی نشانی تھی؛ کمان ایک حقیقی، مادّی چیز ہے جو کہ موجود ہے۔ یہ کمان کا وجود ہی ہے جو خُدا کو پچھلی نسلِ انسانی کے لیے اکثر اداسی کا احساس دلاتا ہے جسے اس نے کھو دیا تھا اور اس کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی مسلسل یاد دہانی کے طور پر کام کرتا ہے۔۔۔۔ خُدا اپنی رفتار کو کم نہیں کرے گا – وہ اپنے انتظام میں اگلا قدم اٹھانے کے لیے بےچین اور بےتاب تھا۔ اس کے بعد، خدا نے ابرہام کو اسرائیل بھر میں اپنے کام کے لیے اپنی پہلی پسند کے طور پر منتخب کیا۔ یہ بھی پہلا موقع تھا کہ خدا نے ایسے امیدوار کو منتخب کیا۔ خدا نے اس شخص کے ذریعے بنی نوع انسان کو بچانے کے اپنے کام کو شروع کرنے اور اس شخص کی اولاد میں اپنا کام جاری رکھنے کا عزم کیا۔ ہم انجیل میں دیکھ سکتے ہیں کہ خدا نے ابرہام کے ساتھ یہی کیا۔ خُدا نے پھر اسرائیل کو پہلی چُنی ہوئی سرزمین بنایا، اور اپنے چنے ہوئے لوگوں، بنی اسرائیل کے ذریعے شریعت کے دور کا کام شروع کیا۔ ایک بار پھر پہلی بار، خدا نے بنی اسرائیل کو وہ واضح اصول اور قوانین فراہم کیے جن پر بنی نوع انسان کو عمل کرنا چاہیے، اور اس نے ان کی تفصیل سے وضاحت کی۔ یہ پہلا موقع تھا جب خدا نے انسانوں کو قربانیاں دینے کے طریقے، زندگی کس طرح گزارنی چاہیے، کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے، کون سے تہوار اور ایام منانا چاہییں، اور ان کو ہر کیے جانے والے کام میں پیروی کرنے کے لیے ایسے مخصوص، معیاری اصول فراہم کیے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب خدا نے بنی نوع انسان کو اپنی زندگی گزارنے کے طریقے کے بارے میں اتنے تفصیلی، معیاری ضابطے اور اصول عطا کیے۔

ہر بار جب میں ”پہلی بار“ کہتا ہوں تو اس سے مراد ایک ایسا کام ہوتا ہے جو خدا نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ اس سے مراد وہ کام ہے جو اس سے پہلے موجود نہیں تھا اور اگرچہ خدا نے بنی نوع انسان اور ہر طرح کی مخلوقات اور جانداروں کو پیدا کیا تھا لیکن یہ ایک ایسا کام ہوتا ہے جو اس نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ اس سارے کام میں خدا کا بنی نوع انسان کا انتظام شامل تھا؛ اس سب کا تعلق لوگوں اور ان کے لیے اس کی نجات اور انتظام سے تھا۔ ابرہام کے بعد، خدا نے ایک بار پھر ایک اور پہلا کام کیا – اس نے ایوب کو اس شخص کے طور پر منتخب کیا جو شریعت کے تحت رہتا تھا اور جو شیطان کی آزمائشوں کا مقابلہ کر سکتا تھا اور خدا سے ڈرتا تھا، برائی سے بچتا تھا، اور خدا کی گواہی دیتا تھا۔ یہ بھی پہلا موقع تھا جب خدا نے شیطان کو کسی شخص کو آزمانے کی اجازت دی، اور پہلی بار اس نے شیطان سے شرط لگائی۔ آخر میں، اس نے پہلی بار ایک ایسا شخص حاصل کیا جو شیطان کا سامنا کرتے ہوئے اس کا گواہ بننے اور اس کی گواہی دینے کے قابل تھا، اور کوئی ایسا شخص جو شیطان کو مکمل طور پر شرمندہ کر سکتا تھا۔ جب سے خدا نے بنی نوع انسان کو تخلیق کیا تھا، یہ وہ پہلا شخص تھا جسے اس نے حاصل کیا تھا جو کہ اس کے لیے گواہی دینے کے قابل تھا۔ ایک بار جب اس نے یہ انسان حاصل کر لیا تو، خدا اپنے انتظام کو جاری رکھنے اور اپنے کام کے اگلے مرحلے کو انجام دینے کے لیے اور بھی زیادہ بے چین تھا، اس مقام اور لوگوں کو تیار کرنے کے لیے جنہیں اس نے اپنے کام کے اگلے مرحلے کے لیے منتخب کرنا تھا۔

اس سب کے بارے میں رفاقت کے بعد، کیا تمہیں خدا کی مرضی کی صحیح معنوں میں سمجھ ہے؟ خدا بنی نوع انسان کے اپنے انتظام، بنی نوع انسان کے لیے اپنی نجات کی اس مثال کو کسی بھی چیز سے زیادہ اہم سمجھتا ہے۔ وہ یہ چیزیں نہ صرف اپنے دماغ سے، نہ صرف اپنے کلام سے کرتا ہے، بلکہ یقینی طور پر ایک غیر سنجیدہ رویے کے ساتھ نہیں کرتا ہے – وہ یہ سب کام ایک منصوبے، ایک ہدف، معیارات اور اپنی مرضی کے ساتھ کرتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ بنی نوع انسان کو بچانے کا یہ کام خدا اور انسان دونوں کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کام کتنا ہی مشکل ہو، چاہے کتنی ہی بڑی رکاوٹیں کیوں نہ ہوں، انسان کتنے ہی کمزور کیوں نہ ہوں، یا بنی نوع انسان کی سرکشی کتنی ہی گہری کیوں نہ ہو، خدا کے لیے ان میں سے کوئی بھی مشکل نہیں ہے۔ خُدا اپنے آپ کو مصروف رکھتا ہے، اپنی تکلیف دہ محنت کو خرچ کرتا ہے اور اس کام کا انتظام کرتا ہے جسے وہ خود انجام دینا چاہتا ہے۔ وہ ہر چیز کا انتظام بھی کر رہا ہے اور ان تمام لوگوں پر اپنی حاکمیت کا استعمال کر رہا ہے جن پر وہ کام کرے گا اور وہ تمام کام جن کو وہ مکمل کرنا چاہتا ہے – اس میں سے کوئی بھی پہلے کبھی نہیں ہوا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب خدا نے ان طریقوں کو استعمال کیا ہے اور انسانوں کا انتظام کرنے اور بچانے کے اس بڑے منصوبے کے لیے اتنی بڑی قیمت ادا کی ہے۔ جب خدا اس کام کو انجام دے رہا ہے تو وہ آہستہ آہستہ بنی نوع انسان کے سامنے، بغیر کسی تحفظ کے، اپنی تکلیف دہ محنت، اس کے پاس جو کچھ ہے اور جو وہ خود ہے، اپنی حکمت اور قدرت کاملہ اور اپنے مزاج کے ہر پہلو کو ظاہر اور جاری کر رہا ہے۔ وہ ان چیزوں کو جاری کرتا ہے اور ان کا اظہار کرتا ہے جیسا کہ اس نے پہلے کبھی نہیں کیا ہے۔ لہٰذا، پوری کائنات میں، ان لوگوں کو چھوڑ کر جن کا خدا نے انتظام کرنے اور جنہیں بچانے کا ارادہ کیا ہے، کوئی بھی مخلوق خدا کے اس قدر قریب نہیں تھی، جس کا اس سے اتنا گہرا قریبی تعلق رہا ہو۔ اس کے دل میں، بنی نوع انسان، جس کا وہ انتظام کرنا اور جسے بچانا چاہتا ہے، سب سے زیادہ اہم ہے؛ وہ اس بنی نوع انسان کو سب سے بڑھ کر اہمیت دیتا ہے۔ اگرچہ اس نے ان کے لیے بہت بڑی قیمت ادا کی ہے، اور اگرچہ اسے ان کی طرف سے مسلسل تکلیف اور نافرمانی ملتی ہے، لیکن وہ ان سے کبھی دستبردار نہیں ہوتا اور بغیر کسی شکایت اور پچھتاوے کے اپنے کام میں انتھک محنت کرتا رہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتا ہے کہ جلد یا بدیر، لوگ اس کی پکار پر بیدار ہوں گے اور اس کے کلام سے متاثر ہوں گے، یہ پہچانیں گے کہ وہ تخلیق کا خداوند ہے، اور اس کی طرف لوٹ آئیں گے ۔۔۔

آج یہ سب سننے کے بعد، تم محسوس کر سکتے ہو کہ خدا جو کچھ بھی کرتا ہے وہ بہت عام ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انسانوں نے ہمیشہ اس کے کلام اور اس کے کام سے اپنے لیے خدا کے کچھ ارادوں کو محسوس کیا ہے، لیکن ان کے احساسات یا ان کے علم اور خدا کی سوچ کے درمیان ہمیشہ ایک خاص فاصلہ ہوتا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس بارے میں کہ خدا نے بنی نوع انسان کو کیوں پیدا کیا، اور جس بنی نوع انسان کی اس نے امید کی تھی اسے حاصل کرنے کی خواہش کے پیچھے اس پس منظر کا تمام لوگوں کے ساتھ ابلاغ کرنا ضروری ہے۔ سب کے ساتھ اس کا اشتراک کرنا ضروری ہے، تاکہ ہر کوئی واضح ہو اور اسے اپنے دل میں سمجھ لے۔ کیونکہ خدا کا ہر خیال اور تصور، اور اس کے کام کا ہر مرحلہ اور ہر دور اس کے پورے انتظامی کام سے جڑا ہوا ہوتا ہے اور اس سے گہرا تعلق ہوتا ہے، اس لیے جب تو خدا کے خیالات، نظریات اور اس کے کام کے ہر مرحلے پر اس کی مرضی کو سمجھ لیتا ہے تو یہ اس بات کو سمجھنے کے مترادف ہوتا ہے کہ اس کے انتظامی منصوبے کا کام کیسے رونما ہوا۔ اسی بنیاد پر خدا کے بارے میں تیری سمجھ بوجھ گہری ہوتی ہے۔ اگرچہ سب کچھ خدا نے اس وقت کیا جب اس نے پہلی بار دنیا کی تخلیق کی تھی، جس کا میں نے پہلے ذکر کیا تھا، لیکن اب یہ محض ”معلومات“ معلوم ہوتا ہے، جو سچائی کی جستجو سے غیر متعلق ہے، تاہم تیرے تجربے کے دوران ایک دن ایسا آئے گا جب تو یہ سوچے گا کہ یہ معلومات کے ایک دو ٹکڑوں کی طرح کچھ اتنا سادہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ محض ایک قسم کا راز ہے۔ جیسے جیسے تیری زندگی آگے بڑھتی ہے، جب خدا تیرے دل میں جگہ بنا لیتا ہے، یا جب تو اس کی مرضی کو زیادہ اچھی طرح اور گہرائی میں سمجھ لیتا ہے تو تُو واقعی اس کی اس اہمیت اور ضرورت کو سمجھ جائے گا جس کے متعلق میں آج بات کرتا ہوں۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تم اب اسے کس حد تک قبول کرتے ہو، تمہارے لیے اب بھی ان چیزوں کو سمجھنا اور جاننا ضروری ہے۔ جب خدا کچھ کرتا ہے، جب وہ اپنا کام کرتا ہے، چاہے وہ اس کے خیالات سے ہو یا اس کے اپنے ہاتھوں سے، تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اس نے پہلی بار انجام دیا ہے یا آخری بار، آخر کار، خدا کے پاس ایک منصوبہ ہوتا ہے، اور اس کے ہر کام میں اس کے مقاصد اور اس کے خیالات ہوتے ہیں۔ یہ مقاصد اور خیالات خدا کے مزاج کی نمائندگی کرتے ہیں، اور وہ اس کا اظہار کرتے ہیں جو اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے۔ یہ دو چیزیں – خدا کے مزاج اور جو اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے – ہر ایک شخص کو لازمی سمجھ لینا چاہییں۔ ایک بار جب ایک شخص اس کے مزاج کو سمجھ لیتا ہے اور جو اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، تو وہ آہستہ آہستہ یہ سمجھ سکتا ہے کہ خدا جو کچھ کرتا ہے وہ کیوں کرتا ہے اور وہ جو کہتا ہے وہ کیوں کہتا ہے۔ اس سے، وہ پھر خدا کی پیروی کرنے، سچائی کی پیروی کرنے اور اپنے مزاج میں تبدیلی کے لیے زیادہ یقین رکھ سکتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے بارے میں انسان کی سمجھ بوجھ اور خدا پر اس کا ایمان لازم و ملزوم ہیں۔

اگر لوگ جس چیز کا علم حاصل کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں وہ خدا کا مزاج ہے اور جو اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، تو وہ جو حاصل کرتے ہیں وہ ایسی زندگی ہو گی جو خدا کی طرف سے آتی ہے۔ ایک بار جب یہ زندگی تیرے اندر پیدا ہو جائے گی، تو تیرا خوفِ خدا زیادہ سے زیادہ ہوتا جائے گا۔ یہ ایک ایسا فائدہ ہے جو بہت قدرتی طور پر آتا ہے۔ اگر تو خدا کے مزاج یا اس کے جوہر کے بارے میں سمجھنا یا جاننا نہیں چاہتا، اگر تو ان چیزوں پر غور و فکر یا توجہ تک مرکوز نہیں کرنا چاہتا تو میں یقین کے ساتھ تجھے بتا سکتا ہوں کہ تو اس وقت جس طرح خدا پر اپنے ایمان کی جستجو کر رہا ہے، وہ تجھے کبھی بھی اپنی مرضی کو پورا کرنے یا اپنی تعریف حاصل کرنے کا موقع نہیں دے سکتا۔ اس سے بڑھ کر، تو کبھی بھی حقیقی معنوں میں نجات حاصل نہیں کر سکتا – یہ آخری نتائج ہیں۔ جب لوگ خُدا کو نہیں سمجھتے اور اُس کے مزاج کو نہیں جانتے تو اُن کے دل کبھی بھی اُس کے سامنے نہیں کھل سکتے۔ ایک بار جب وہ خدا کو سمجھ لیں گے، تو وہ دلچسپی اور ایمان کے ساتھ اس کے دل میں جو کچھ ہے اس کی قدر کرنا اور اس سے لطف اندوز ہونا شروع کر دیں گے۔ جب تو خدا کے دل میں موجود چیزوں کی قدر کرے گا اور اس سے لطف اندوز ہو گا تو تیرا دل آہستہ آہستہ اس کے سامنے کھل جائے گا۔ جب تیرا دل اس کے سامنے کھلے گا تو تُو محسوس کرے گا کہ خدا کے ساتھ تیرا تبادلہ، خدا سے تیرے مطالبات اور تیری اپنی حد سے بڑھی ہوئی خواہشات کتنی شرمناک اور حقیر تھیں۔ جب تیرا دل واقعی خدا کے سامنے کھلتا ہے تو تُو دیکھے گا کہ اس کا دل ایک لامحدود دنیا ہے، اور تو ایک ایسی دنیا میں داخل ہو گا جس کا تو نے پہلے کبھی تجربہ نہیں کیا ہو گا۔ اس دنیا میں کوئی دھوکا نہیں ہے، کوئی فریب نہیں ہے، کوئی اندھیرا نہیں ہے، اور کوئی برائی نہیں ہے۔ صرف اخلاص اور وفاداری ہے؛ صرف روشنی اور نیکی؛ صرف راستبازی اور مہربانی۔ یہ محبت اور دیکھ بھال سے بھری ہوئی ہے، ہمدردی اور رواداری سے بھری ہوئی ہے، اور اس کے ذریعے تو زندہ رہنے کی خوشی اور مسرت محسوس کرتا ہے۔ یہ چیزیں وہ ہیں جو خدا تجھ پر اس وقت ظاہر کرے گا جب تو اس کے سامنے اپنا دل کھول دے گا۔ یہ لامحدود دنیا خدا کی حکمت اور مطلق قدرت سے بھری ہوئی ہے۔ یہ اس کی محبت اور اس کے اختیار سے بھی بھری ہوئی ہے۔ یہاں تو ہر پہلو کو دیکھ سکتا ہے کہ خدا کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے، کس چیز سے اسے خوشی ملتی ہے، وہ کیوں پریشان ہوتا ہے اور کیوں غمگین ہوتا ہے، کیوں ناراض ہوتا ہے۔۔۔۔ یہ وہی ہے جو ہر وہ شخص دیکھ سکتا ہے جو اپنے دل کو کھول دیتا ہے اور خدا کو اندر آنے دیتا ہے۔ خدا تیرے دل میں صرف اس وقت ہی آ سکتا ہے جب تو اسے اس کے سامنے کھول دے۔ اگر خدا تیرے دل میں آ جاتا ہے تو تُو صرف اسی صورت میں دیکھ سکتا ہے کہ خدا کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے، اور یہ کہ تیرے لیے اس کے ارادے کیا ہیں۔ اس وقت، تجھے معلوم ہو گا کہ خدا کے بارے میں ہر چیز کس قدر قیمتی ہے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، وہ کس قدر قیمتی سمجھنے کے لائق ہے۔ اس کے مقابلے میں، تیرے ارد گرد جو لوگ ہیں، تیری زندگی میں موجود چیزیں اور واقعات، اور یہاں تک کہ تیرے پیارے، تیرا ساتھی، اور جن چیزوں سے تو محبت کرتا ہے، شاید ہی قابل ذکر ہوں۔ وہ بہت چھوٹے ہیں، اور بہت گھٹیا ہیں؛ تو محسوس کرے گا کہ کوئی بھی مادّی چیز تجھے دوبارہ اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکے گی، یا یہ کہ کوئی بھی مادّی چیز تجھے اپنے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کی ترغیب نہیں دے سکے گی۔ خدا کی عاجزی میں تو اس کی عظمت اور اس کی بالادستی دیکھے گا۔ مزید برآں، تو خدا کے کسی عمل میں دیکھے گا کہ تو پہلے اس کی لامحدود حکمت اور اس کی برداشت کو بہت چھوٹا سمجھتا تھا، اور تو اس کے صبر، اس کے تحمل اور اپنے بارے میں اس کی سمجھ کو دیکھے گا۔ یہ تیرے اندر اس کی محبت کا جذبہ پیدا کر دے گا۔ اس دن تو محسوس کرے گا کہ بنی نوع انسان ایک ایسی غلیظ دنیا میں زندگی بسر کر رہی ہے، کہ تیرے ساتھ رہنے والے اور تیری زندگی میں ہونے والی چیزیں، اور یہاں تک کہ وہ جن سے تو محبت کرتا ہے، ان کی تجھ سے محبت ہے، اور ان کا تیرے لیے نام نہاد تحفظ یا تیرے لیے ان کی تشویش قابل ذکر نہیں ہے – صرف خدا ہی تیرا محبوب ہے، اور یہ صرف خدا ہی ہے جسے تو سب سے زیادہ قیمتی سمجھتا ہے۔ جب وہ دن آئے گا، مجھے یقین ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو کہیں گے: خدا کی محبت بہت عظیم ہے، اور اس کا جوہر بہت مقدس ہے – خدا میں کوئی فریب، کوئی برائی، کوئی حسد، اور کوئی جھگڑا نہیں ہے، بلکہ صرف راستبازی اور صداقت ہے اور ہر وہ چیز جو خدا کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، انسانوں کو اس کی شدید خواہش ہونی چاہیے۔ انسانوں کو اس کے لیے کوشش اور خواہش کرنی چاہیے۔ بنی نوع انسان کی اس کو حاصل کرنے کی صلاحیت کس بنیاد پر قائم کی گئی ہے؟ یہ خدا کے مزاج کے بارے میں ان کی فہم اور خدا کے جوہر کے بارے میں ان کی سمجھ بوجھ کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے۔ لہٰذا خدا کے مزاج کو سمجھنا اور جو کچھ اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، ہر شخص کے لیے زندگی بھر کا سبق ہے؛ یہ زندگی بھر کا مقصد ہے جس کی جستجو ہر وہ شخص کرتا ہے جو اپنے مزاج کو بدلنے کی کوشش کرتا ہے، اور خدا کو جاننے کی کوشش کرتا ہے۔

خدا کا کام کرنے کے لیے پہلی بار جسم بننا

ہم نے ابھی ان سب کاموں کے بارے میں بات کی جو خدا نے کیے، بے مثال کاموں کا سلسلہ جو اس نے انجام دیا۔ ان چیزوں میں سے ہر ایک خدا کے انتظامی منصوبے اور خدا کی مرضی سے متعلق ہے۔ وہ خود خدا کے مزاج اور اس کے جوہر سے بھی مطابقت رکھتے ہیں۔ اگر ہم اس کے بارے میں مزید سمجھنا چاہتے ہیں کہ خدا کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے، تو ہم عہد نامہ قدیم میں یا شریعت کے دور میں نہیں رک سکتے – ہمیں ان اقدامات کی پیروی کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے جو خدا نے اپنے کام کے سلسلے میں اٹھائے ہیں۔ لہٰذا، جب خُدا نے شریعت کے دور کو ختم کیا اور فضل کے دور کا آغاز کیا، آؤ ہم اپنے قدموں کے پیچھے فضل کے دور میں چلیں – فضل اور خلاصی سے بھرپور ایک دور۔ اس دور میں، خدا نے پھر ایک بہت اہم کام کیا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ خدا اور بنی نوع انسان دونوں کے لیے اس نئے دور میں کام ایک نیا نقطہ آغاز تھا – ایک نقطہ آغاز جو خدا کی طرف سے ایک اور ایسے نئے کام پر مشتمل تھا جو پہلے کبھی نہیں کیا گیا تھا۔ یہ نیا کام بے مثال تھا، جو انسانوں اور تمام مخلوقات کے تصور کی طاقت سے باہر تھا۔ یہ وہ چیز ہے جس کا اب تمام لوگوں کو علم ہے – پہلی بار، خدا ایک انسان بنا، اور پہلی بار اس نے ایک انسان کی شکل میں، ایک انسان کی شناخت کے ساتھ نیا کام شروع کیا۔ یہ نیا کام اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ خدا نے شریعت کے دور میں اپنا کام مکمل کر لیا ہے، اور یہ کہ وہ اب شریعت کے تحت کچھ نہیں کرے گا اور نہ کہے گا۔ نہ وہ شریعت کی شکل میں یا شریعت کے اصولوں یا قواعد کے مطابق کچھ کہے گا یا کرے گا۔ یعنی شریعت پر مبنی اس کے تمام کام ہمیشہ کے لیے روک دیے گئے ہیں اور جاری نہیں رہیں گے، کیونکہ خدا نئے کام شروع کرنا اور نئی چیزیں کرنا چاہتا تھا۔ اس کے منصوبے کا ایک بار پھر ایک نیا نقطہ آغاز تھا، اور اس طرح خدا نے بنی نوع انسان کی اگلے دور تک راہنمائی کرنی تھی۔

انسانوں کے لیے یہ خبر خوشی والی تھی یا نامبارک، اس کا انحصار ہر فرد کے جوہر پر تھا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ بعض لوگوں کے لیے یہ خبر خوشی والی نہیں تھی، بلکہ نامبارک تھی، کیونکہ جب خدا نے اپنا نیا کام شروع کیا تو وہ لوگ جو صرف قوانین اور ضابطوں کی پیروی کرتے تھے، جو صرف عقائد کی پیروی کرتے تھے لیکن خدا سے نہیں ڈرتے تھے، وہ خدا کے پرانے کام کو اس کے نئے کام کی مذمت کرنے کے لیے استعمال کرنے کی طرف مائل تھے۔ ان لوگوں کے لیے یہ ایک نامبارک خبر تھی۔ لیکن ہر اس شخص کے لیے جو بے قصور اور کھلا تھا، جو خُدا کے لیے مخلص تھا اور اُس کی نجات حاصل کرنے کے لیے تیار تھا، اس کے لیے خُدا کی پہلی تجسیم بہت خوشی والی خبر تھی۔ کیونکہ، جب سے انسان پہلی بار وجود میں لائے گئے، یہ پہلا موقع تھا جب خدا انسانوں کے درمیان ایک ایسی شکل میں ظاہر ہوا اور رہا جو روح نہیں تھی؛ اس بار، وہ ایک انسان سے پیدا ہوا تھا اور ابن آدم کے طور پر لوگوں کے درمیان رہا تھا، اور ان کے درمیان کام کیا تھا۔ اس ”پہلی بار“ نے لوگوں کے تصورات کو توڑ دیا؛ یہ ہر تخیل سے باہر تھا۔ مزید برآں، خدا کے تمام پیروکاروں نے ایک قابلِ ادراک فائدہ حاصل کیا۔ خدا نے نہ صرف پرانے دور کو ختم کیا بلکہ اس نے اپنے پرانے کام کرنے کے طریقے اور کام کرنے کے انداز کو بھی ختم کر دیا۔ اس نے اب اپنے پیغمبروں سے اپنی مرضی کا اظہار کرنے کے لیے نہیں کہا، وہ اب بادلوں میں نہیں چھپا تھا، اور اب وہ مزید گرج کے ذریعے انسانوں پر ظاہر نہیں ہوتا تھا یا تحکم آمیز انداز میں بات نہیں کرتا تھا۔ کسی بھی پہلی چیز کے برعکس، ایک ایسے طریقے کے ذریعے جو انسانوں کے لیے ناقابل تصور تھا جو ان کے لیے سمجھنا یا قبول کرنا مشکل تھا – جسم بننا – وہ اس زمانے کا کام شروع کرنے کے لیے ابن آدم بن گیا۔ خدا کے اس عمل نے بنی نوع انسان کو مکمل طور پر حیران کر دیا؛ اس نے انھیں شرمندہ کر دیا، کیونکہ خدا نے ایک بار پھر ایسے نئے کام کا آغاز کر دیا تھا جو اس نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ آج، ہم ایک نظر ڈالیں گے کہ نئے زمانے میں خدا نے کون سا نیا کام انجام دیا، اور ہم غور کریں گے کہ خدا کے مزاج اور جو اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، کے لحاظ سے اس نئے کام میں ہمارے سیکھنے کے لیے کیا ہے۔

انجیل کے عہد نامہ جدید میں مندرجہ ذیل الفاظ درج ہیں:

1۔ یسوع سبت کے دن کھانے کے لیے مکئی کی بالیاں چنتا ہے

متّی 12: 1 اُس وقت یِسُوعؔ سبت کے دِن کھیتوں میں ہو کر گیا اور اُس کے شاگِردوں کو بُھوک لگی اور وہ بالیں توڑ توڑ کر کھانے لگے۔

2۔ ابن آدم سبت کا خداوند ہے

متّی 12: 6-8 مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ یہاں وہ ہے جو ہَیکل سے بھی بڑا ہے۔ لیکن اگر تُم اِس کے معنی جانتے کہ مَیں قُربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہُوں تو بے قصُوروں کو قُصُوروار نہ ٹھہراتے۔ کیونکہ اِبنِ آدمؔ سبت کا مالِک ہے۔

آؤ ہم پہلے اس اقتباس کو دیکھتے ہیں: ”اُس وقت یِسُوعؔ سبت کے دِن کھیتوں میں ہو کر گیا اور اُس کے شاگِردوں کو بُھوک لگی اور وہ بالیں توڑ توڑ کر کھانے لگے۔“

میں نے اس اقتباس کو کیوں منتخب کیا ہے؟ اس کا خدا کے مزاج سے کیا تعلق ہے؟ اس عبارت میں، پہلی چیز جو ہم جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ سبت کا دن تھا، لیکن خُداوند یسوع باہر گیا اور اپنے شاگردوں کو مکئی کے کھیتوں میں لے گیا۔ اس سے بھی زیادہ ”فریب کاری“ یہ ہے کہ ”وہ بالیں توڑ توڑ کر کھانے لگے۔“ شریعت کے زمانے میں، یہوواہ خدا کی شریعت نے یہ شرط رکھی تھی کہ لوگ سبت کے دن اتفاقاً باہر نہیں جا سکتے یا سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتے – بہت سے کام تھے جو سبت کے دن نہیں کیے جا سکتے تھے۔ خُداوند یسوع کی طرف سے یہ عمل اُن لوگوں کے لیے پریشان کن تھا جو ایک طویل عرصے سے شریعت کے تحت زندگی گزار رہے تھے، اور حتیٰ کہ اس کی وجہ سے تنقید بھی کی گئی۔ جہاں تک ان کی الجھن کا تعلق ہے اور اس امر کا کہ انھوں نے، یسوع نے جو کیا، اس کے بارے میں کیسے بات کی، ہم اسے ابھی کے لیے ایک طرف رکھیں گے اور پہلے اس بات پر بحث کریں گے کہ خُداوند یسوع نے یہ کرنے کے لیے تمام دنوں میں سے صرف سبت کے دن کا ہی انتخاب کیوں کیا، اور وہ اس عمل سے شریعت کے تحت زندگی گزارنے والے لوگوں سے کس بات کا ابلاغ کرنا چاہتا تھا۔ یہ اس اقتباس اور خدا کے مزاج کے درمیان وہ تعلق ہے میں جس کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔

جب خُداوند یسوع آیا تو اُس نے لوگوں کو یہ بتانے کے لیے اپنے عملی اقدامات کا استعمال کیا کہ خُدا نے شریعت کے دور کو چھوڑ کر نیا کام شروع کر دیا ہے، اور یہ کہ اس نئے کام کے لیے سبت کو منانے کی ضرورت نہیں تھی۔ خُدا کا سبت کے دن کی حدود سے نکلنا اُس کے نئے کام کی محض ایک پیشین گوئی تھی؛ حقیقی اور عظیم کام ابھی باقی تھا۔ جب خُداوند یسوع نے اپنا کام شروع کیا، تو اُس نے پہلے ہی شریعت کے دور کی ”زنجیروں“ کو پیچھے چھوڑ دیا تھا، اور اُس دور کے ضابطوں اور اصولوں کو توڑ دیا تھا۔ اس میں، شریعت سے متعلق کسی چیز کا کوئی نشان نہیں تھا؛ اس نے اسے مکمل طور پر ختم کر دیا اور اس پر مزید عمل نہیں کیا، اور اس نے بنی نوع انسان سے بھی اس پر مزید عمل کرنے کا تقاضا نہیں کیا۔ تو یہاں تو دیکھتا ہے کہ خداوند یسوع سبت کے دن مکئی کے کھیتوں سے گزرا تھا، اور یہ کہ خداوند نے آرام نہیں کیا؛ وہ باہر کام کر رہا تھا، اور آرام نہیں کر رہا تھا۔ اُس کے اس عمل سے لوگوں کے تصورات کو ایک جھٹکا لگا اور اس نے اُن تک یہ بات پہنچائی کہ وہ اب مزید شریعت کے تحت نہیں رہا تھا، اور یہ کہ وہ سبت کی حدود کو چھوڑ کر بنی نوع انسان کے سامنے اور اُن کے درمیان ایک نئی شبیہ میں کام کرنے کے ایک نئے طریقے کے ساتھ ظاہر ہوا ہے۔ اس کے اس عمل نے لوگوں کو بتایا کہ وہ اپنے ساتھ نیا کام لایا ہے، وہ کام جس کا آغاز شریعت کے تحت ہونے اور سبت کے دن کو چھوڑنے سے ہوا تھا۔ جب خُدا نے اپنا نیا کام انجام دیا، تو وہ ماضی سے چمٹا نہیں رہا، اور اُسے شریعت کے دور کے ضابطوں کی مزید کوئی فکر نہیں رہی تھی۔ نہ ہی وہ اپنے پچھلے دور کے کام سے متاثر ہوا تھا، بلکہ اس کی بجائے اس نے سبت کے دن کام کیا جیسا کہ وہ ہر دوسرے دن کرتا تھا، اور جب اس کے شاگرد سبت کے دن بھوکے تھے، تو وہ کھانے کے لیے مکئی کی بالیاں چن سکتے تھے۔ یہ سب خدا کی نظروں میں بہت عام تھا۔ خدا کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ جتنا بھی نیا کام کرنا چاہتا ہے اور جو نیا کلام کہنا چاہتا ہے اس کے لیے ایک نئی شروعات کرے۔ جب وہ کوئی نیا کام شروع کرتا ہے تو نہ اپنے پچھلے کام کا ذکر کرتا ہے اور نہ ہی اسے انجام دینا جاری رکھتا ہے۔ کیونکہ خدا کے کام میں اس کے اصول ہیں، جب وہ نیا کام شروع کرنا چاہتا ہے، یہ تب ہوتا ہے جب وہ بنی نوع انسان کو اپنے کام کے ایک نئے مرحلے میں لانا چاہتا ہے، اور جب اس کا کام ایک اعلیٰ مرحلے میں داخل ہوتا ہے۔ اگر لوگ پرانی باتوں یا ضابطوں کے مطابق عمل کرتے رہیں یا ان کو مضبوطی سے پکڑے رہیں تو وہ اسے یاد نہیں رکھے گا اور نہ ہی اس کی تائید کرے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ پہلے ہی نیا کام لا چکا ہے، اور اپنے کام کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ جب وہ نئے کام کا آغاز کرتا ہے، تو وہ بنی نوع انسان کے سامنے ایک بالکل نئی شبیہ کے ساتھ، ایک بالکل نئے زاویے سے، اور ایک بالکل نئے انداز میں ظاہر ہوتا ہے تاکہ لوگ اس کے مزاج کے مختلف پہلوؤں اور اس کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے، کو دیکھ سکیں۔ یہ اس کے نئے کام میں اس کے مقاصد میں سے ایک ہے۔ خُدا نہ پرانی چیزوں سے چمٹا رہتا ہے اور نہ ہی بہت زیادہ آمدورفت والے راستے پر چلتا ہے۔ جب وہ کام کرتا ہے اور بولتا ہے تو وہ اتنا روکنے والا نہیں ہوتا جتنا لوگ تصور کرتے ہیں۔ خدا میں، سب کھلا اور آزاد ہے، اور کوئی ممانعت نہیں ہے، کوئی پابندی نہیں ہے – وہ جو بنی نوع انسان کے لیے لاتا ہے وہ آزادی اور حریت ہے۔ وہ ایک زندہ خدا ہے، ایک خدا جو حقیقی طور پر، واقعی موجود ہے۔ وہ کٹھ پتلی یا مٹی کی مورت نہیں ہے، اور وہ ان بتوں سے بالکل مختلف ہے جنہیں لوگ مقدس جگہوں پر رکھتے اور پوجتے ہیں۔ وہ زندہ اور جوش سے بھرپور ہے، اور اس کا کلام اور کام جو کچھ بنی نوع انسان کے لیے لاتے ہیں وہ مکمل زندگی اور روشنی، مکمل آزادی اور حریت ہے، کیونکہ وہ سچائی، زندگی اور راستے کو تھامے ہوئے ہے – وہ اپنے کسی کام میں کسی چیز سے مجبور نہیں ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ لوگ کیا کہتے ہیں اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ اس کے نئے کام کو کس طرح دیکھتے ہیں یا اس کا کس طرح جائزہ لیتے ہیں، وہ اپنے کام کو بغیر کسی خلش کے انجام دے گا۔ وہ اپنے کام یا کلام کے متعلق کسی کے خیالات یا الزام تراشی کی یا حتیٰ کہ اپنے نئے کام کے خلاف ان کی شدید مخالفت اور مزاحمت کی فکر نہیں کرے گا۔ تمام مخلوقات میں سے کوئی بھی انسانی عقل، یا انسانی تخیل، علم، یا اخلاقیات کو خدا کے کاموں کی پیمائش یا تشریح کرنے کے لیے، یا بدنام کرنے، اس میں خلل ڈالنے یا سبوتاژ کرنے کے لیے استعمال نہیں کر سکتا۔ اس کے کام اور جو کچھ وہ کرتا ہے اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے؛ یہ کسی انسان، واقعہ یا چیز کی طرف سے مجبور نہیں ہو گا، اور نہ ہی کسی دشمن قوتوں کے ذریعے اس میں خلل ڈالا جائے گا۔ جہاں تک اس کے نئے کام کا تعلق ہے، وہ ہمیشہ سے ایک فاتح بادشاہ ہے، اور کوئی بھی دشمن قوتیں اور بنی نوع انسان کی تمام بدعتیں اور غلط فہمیاں اس کے قدموں کے نیچے روند دی جاتی ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ اپنے کام کے کس نئے مرحلے کو انجام دے رہا ہے، یہ یقینی طور پر بنی نوع انسان کے درمیان ترقی اور وسعت پائے گا، اور یہ یقینی طور پر پوری کائنات میں بغیر کسی رکاوٹ کے اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ اس کا عظیم کام مکمل نہیں ہو جاتا۔ یہ خدا کی قدرت کاملہ اور حکمت، اس کا اختیار اور قدرت ہے۔ لہٰذا، خُداوند یسوع کھلے عام سبت کے دن باہر جا سکتا تھا اور کام کر سکتا تھا کیونکہ اُس کے دل میں کوئی ایسا اصول، کوئی علم یا نظریہ نہیں تھا جس کا آغاز بنی نوع انسان نے کیا ہو۔ اس کے پاس جو کچھ تھا وہ خدا کا نیا کام اور خدا کا راستہ تھا۔ اس کا کام بنی نوع انسان کو آزاد کرنے، لوگوں کو آزاد کرنے، انھیں روشنی میں رہنے اور زندہ رہنے کا موقع دینے کا طریقہ تھا۔ دریں اثنا، جو لوگ بتوں یا جھوٹے خداؤں کی پوجا کرتے ہیں وہ ہر روز شیطان کے پابند، ہر قسم کے اصولوں اور ممنوعات سے بندھے رہتے ہیں – آج ایک چیز ممنوع ہے، کل دوسری – ان کی زندگی میں کوئی آزادی نہیں ہے۔ وہ زنجیروں میں جکڑے قیدیوں کی طرح ہیں، وہ ایسی زندگی گزار رہے ہیں جس میں نام کی خوشی بھی نہیں ہے۔ ”ممانعت“ کس چیز کی نمائندگی کرتی ہے؟ یہ رکاوٹوں، بندھنوں اور برائی کی نمائندگی کرتی ہے۔ جیسے ہی کوئی شخص کسی بت کی پوجا کرتا ہے، وہ ایک جھوٹے دیوتا، ایک بدروح کی پوجا کر رہا ہوتا ہے۔ ممانعت اس وقت آتی ہے جب اس طرح کی سرگرمیوں میں مشغول ہوا جاتا ہے۔ تم یہ یا وہ نہیں کھا سکتے، آج تم باہر نہیں جا سکتے، کل تم کھانا نہیں پکا سکتے، اگلے دن تم نئے گھر میں منتقل نہیں ہو سکتے، شادیوں اور جنازوں اور یہاں تک کہ بچے کو جنم دینے کے لیے بھی مخصوص دن کا انتخاب کرنا چاہیے۔ اس کو کیا کہتے ہیں؟ اسے ممانعت کہتے ہیں۔ یہ بنی نوع انسان کی غلامی ہے، اور یہ شیطان اور بدروحوں کی زنجیریں ہیں جو لوگوں کو قابو میں رکھتی ہے اور ان کے دلوں اور جسموں کو روکتی ہیں۔ کیا یہ ممانعتیں خدا کے ہاں موجود ہیں؟ خدا کے تقدس کی بات کرتے وقت، تجھے سب سے پہلے یہ سوچنا چاہیے: خدا کے ہاں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ خدا کے کلام اور کام میں اصول ہیں، لیکن کوئی ممانعت نہیں ہے، کیونکہ خدا خود ہی سچائی، راستہ اور زندگی ہے۔

اب آؤ صحیفوں سے درج ذیل اقتباس کو دیکھتے ہیں: ”مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ یہاں وہ ہے جو ہَیکل سے بھی بڑا ہے۔ لیکن اگر تُم اِس کے معنی جانتے کہ مَیں قُربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہُوں تو بے قصُوروں کو قُصُوروار نہ ٹھہراتے۔ کیونکہ اِبنِ آدمؔ سبت کا مالِک ہے“ (متّی 12: 6-8)۔ یہاں لفظ ”ہیکل“ کس چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے؟ سادہ الفاظ میں، یہ ایک پُرشکوہ، اونچی عمارت کی طرف اشارہ کرتا ہے، اور شریعت کے دور میں، ہیکل پادریوں کے لیے خدا کی عبادت کرنے کی جگہ تھی۔ جب خداوند یسوع نے کہا ”یہاں وہ ہے جو ہیکل سے بھی بڑا ہے،“ یہاں ”ایک“ کس کی طرف اشارہ کرتا ہے؟ واضح طور پر، ”ایک“ جسم میں خداوند یسوع ہے، کیونکہ صرف وہی ہیکل سے بڑا تھا۔ ان الفاظ نے لوگوں کو کیا بتایا؟ ان الفاظ نے لوگوں کو ہیکل سے باہر آنے کو کہا – خدا پہلے ہی ہیکل کو چھوڑ چکا تھا اور اب اس میں کام نہیں کر رہا تھا، اس لیے لوگوں کو خدا کے قدموں کی تلاش ہیکل سے باہر کرنی چاہیے اور اس کے نئے کام میں اس کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔ جب خداوند یسوع نے یہ کہا، تو اس کے الفاظ کے پیچھے ایک تمہید تھی، جو یہ تھی کہ شریعت کے تحت، لوگ ہیکل کو خود خدا سے بڑی چیز کے طور پر سمجھںے لگ گئے تھے۔ یعنی لوگ خدا کی عبادت کرنے کی بجائے ہیکل کی عبادت کرتے تھے، لہٰذا خداوند یسوع نے انھیں خبردار کیا کہ بتوں کی پوجا نہ کرو، بلکہ اس کی بجائے خدا کی عبادت کرو، کیونکہ وہ عظیم ہے۔ لہٰذا، اس نے کہا: ”مَیں قُربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہُوں۔“ یہ ظاہر ہے کہ خداوند یسوع کی نظر میں، شریعت کے تحت رہنے والے زیادہ تر لوگ اب یہوواہ کی پرستش نہیں کرتے تھے، بلکہ محض قربانی کی رسوم ادا کر رہے تھے، اور خداوند یسوع نے تعین کر لیا کہ اس کا شمار بت پرستی میں ہوتا ہے۔ ان بت پرستوں نے ہیکل کو خدا سے عظیم اور اعلیٰ چیز کے طور پر دیکھا۔ ان کے دلوں میں صرف ہیکل تھا، خدا نہیں، اور اگر وہ ہیکل کو کھو دیتے، تو وہ اپنے رہنے کی جگہ کھو دیتے۔ ہیکل کے بغیر ان کے پاس عبادت کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی اور وہ اپنی قربانیاں نہیں کر سکتے تھے۔ اُن کی نام نہاد ”رہنے کی جگہ“ وہی ہے جہاں انھوں نے ہیکل میں رہنے اور اپنے معاملات کو انجام دینے کے لیے یہوواہ خدا کی پرستش کا جھوٹا بہانہ استعمال کیا۔ ان کی نام نہاد ”قربانی“ صرف یہ تھی کہ وہ ہیکل میں اپنی خدمت انجام دینے کے بہروپ میں اپنے ذاتی شرمناک معاملات انجام دے رہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اس وقت لوگوں نے ہیکل کو خدا سے بڑا سمجھا۔ خداوند یسوع نے یہ الفاظ لوگوں کو ایک تنبیہ کے طور پر کہے، کیونکہ وہ ہیکل کو ایک پناہ کے طور پر استعمال کر رہے تھے، اور قربانیوں کو لوگوں کو دھوکا دینے اور خدا کو دھوکا دینے کے لیے ایک غلاف کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ اگر تم ان الفاظ کو موجودہ صورت حال پر لاگو کرتے ہو، تو وہ اب بھی اتنے ہی جائز اور اتنے ہی موزوں ہیں۔ اگرچہ آج کے لوگوں نے شریعت کے دور کے لوگوں کے مقابلے میں خدا کے مختلف کاموں کا تجربہ کیا ہے، لیکن ان کی فطرت اور جوہر ایک ہی ہے۔ آج کے کام کے تناظر میں، لوگ اب بھی اسی قسم کے کام کریں گے جس کی نمائندگی ان الفاظ سے ہوتی ہے، ”ہیکل خدا سے بڑا ہے۔“ مثال کے طور پر، لوگ اپنے فرض کو پورا کرنے کو اپنا کام سمجھتے ہیں؛ وہ خدا کی گواہی دینے اور عظیم سرخ اژدہے سے لڑنے کو انسانی حقوق کے دفاع، جمہوریت اور آزادی کے لیے سیاسی تحریکوں کے طور پر دیکھتے ہیں؛ وہ اپنے فرض کو بدل دیتے ہیں تاکہ اپنی مہارتوں کو استعمال کر کے اپنے مستقبل کو بہتر بنائیں لیکن وہ خدا سے ڈرنے اور برائی سے بچنے کو مذہبی عقیدے کا ایک ایسا ٹکڑا سمجھتے ہیں جس پر عمل کرنا چاہیے؛ وغیرہ۔ کیا یہ طرز عمل بنیادی طور پر ”ہیکل خدا سے بڑا ہے“ جیسا نہیں ہے؟ فرق یہ ہے کہ دو ہزار سال پہلے لوگ عمارت میں موجود ہیکل میں اپنا ذاتی کاروبار کرتے تھے لیکن آج لوگ ناقابل لمس ہیکلوں میں اپنا ذاتی کاروبار کرتے ہیں۔ جو لوگ اصولوں کی قدر کرتے ہیں وہ اصولوں کو خدا سے بڑا سمجھتے ہیں، جو لوگ حیثیت سے محبت کرتے ہیں وہ حیثیت کو خدا سے بڑا سمجھتے ہیں۔ جو لوگ اپنے پیشوں سے محبت کرتے ہیں وہ پیشوں کو خدا سے بڑا سمجھتے ہیں، وغیرہ – ان کے تمام تاثرات مجھے یہ کہنے پر مجبور کرتے ہیں: ”لوگ اپنے الفاظ سے خدا کے سب سے بڑا ہونے کی تعریف کرتے ہیں، لیکن ان کی نظر میں سب کچھ خدا سے بڑا ہے۔“ اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے ہی لوگوں کو خدا کی پیروی کرنے کے دوران موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں، یا اپنے کاروبار یا اپنے پیشوں کو انجام دیں، تو وہ اپنے آپ کو خدا سے دور کر لیتے ہیں اور اپنے آپ کو اپنے محبوب پیشے میں ڈال دیتے ہیں۔ جہاں تک جو خدا نے ان کو سونپا ہے، اور جو اس کی مرضی ہے، کا تعلق ہے، وہ چیزیں بہت پہلے سے رد ہو چکی ہیں۔ ان لوگوں اور دو ہزار سال پہلے ہیکل میں اپنا کاروبار کرنے والوں کی حالت میں کیا فرق ہے؟

اس کے بعد، آؤ اس اقتباس کے آخری جملے پر ایک نظر ڈالتے ہیں: ”اِبنِ آدمؔ سبت کا مالِک ہے۔“ کیا اس جملے کا کوئی عملی پہلو ہے؟ کیا تم عملی پہلو دیکھ سکتے ہو؟ ہر ایک بات جو خدا کہتا ہے اس کے دل سے آتی ہے تو اس نے یہ کیوں کہا؟ تم اسے کیسے سمجھتے ہو؟ شاید تم اس جملے کا مطلب اب سمجھتے ہو لیکن جس وقت یہ بولا گیا تھا اس وقت بہت سے لوگوں نے نہیں سمجھا کیونکہ بنی نوع انسان شریعت کے دور سے ابھی ابھی باہر آئی تھی۔ ان کے لیے، سبت کے دن سے رخصت ہونا ایک بہت مشکل کام تھا، ان کے حقیقی سبت کو سمجھنے کا کیا ذکر کرنا۔

جملہ ”اِبنِ آدمؔ سبت کا مالِک ہے۔“ لوگوں کو یہ بتاتا ہے کہ خدا کے بارے میں ہر چیز مادّی نوعیت کی نہیں ہے، اور اگرچہ خدا تیری تمام مادّی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے، ایک بار جب تیری تمام مادی ضروریات پوری ہو جائیں، تو کیا ان چیزوں سے حاصل ہونے والی تسکین تیری سچائی کی تلاش کی جگہ لے سکتی ہے؟ یہ واضح طور پر ممکن نہیں ہے! خدا کا مزاج اور جو کچھ اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، جس کے بارے میں ہم نے رفاقت کی ہے، دونوں ہی حقیقت ہیں۔ اس کی قدر کو کسی مادّی چیز کے مقابلے میں نہیں ماپا جا سکتا، خواہ وہ کتنی ہی قیمتی کیوں نہ ہو، اور نہ ہی اس کی قدر رقم کے لحاظ سے طے کی جا سکتی ہے، کیونکہ یہ کوئی مادّی چیز نہیں ہے، اور یہ بلا استثنا ہر ایک انسان کے دل کی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔ ہر شخص کے لیے ان خیالی سچائیوں کی قدر کسی بھی مادّی چیز کی قدر سے زیادہ ہونی چاہیے جس کی تو قدر کر سکتا ہے، کیا ایسا نہیں ہونا چاہیے؟ یہ بیان ایک ایسی چیز ہے جس پر تجھے ہچکچانے کی ضرورت ہے۔ میں نے جو کچھ کہا ہے اس کا اہم نکتہ یہ ہے کہ جو کچھ خدا کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، اور خدا کے بارے میں ہر چیز ہر ایک فرد کے لیے اہم ترین چیزیں ہیں اور کسی مادّی چیز سے اس کی جگہ نہیں لی جا سکتی۔ میں تجھے ایک مثال دوں گا: جب تو بھوکا ہوتا ہے تو تجھے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کھانا تقریباً اچھا یا تقریباً غیر اطمینان بخش ہو سکتا ہے، لیکن جیسے ہی تو پیٹ بھر لیتا ہے تو بھوک کا وہ ناخوشگوار احساس باقی نہیں رہے گا – یہ ختم ہو جائے گا۔ تو سکون سے بیٹھ سکتا ہے، اور تیرا جسم پرسکون ہو گا۔ کھانے سے لوگوں کی بھوک مٹائی جا سکتی ہے، لیکن جب تو خدا کی پیروی کر رہا ہوتا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ تجھے اس کی کوئی سمجھ بوجھ نہیں ہے، تو تُو اپنے دل کے خالی پن کو کیسے دور کر سکتا ہے؟ کیا اسے خوراک سے دور کیا جا سکتا ہے؟ یا جب تو خدا کی پیروی کر رہا ہوتا ہے اور اس کی مرضی کو نہیں سمجھتا تو تُو اپنے دل کی اس بھوک کو مٹانے کے لیے کیا استعمال کر سکتا ہے؟ خدا کے ذریعے نجات کے اپنے تجربے کے عمل میں، اپنے مزاج میں تبدیلی کی پیروی کرتے ہوئے، اگر تو اس کی مرضی کو نہیں سمجھتا یا نہیں جانتا کہ حقیقت کیا ہے، اگر تو خدا کے مزاج کو نہیں سمجھتا، تو کیا تجھے بہت زیادہ بے چینی محسوس نہیں ہو گی؟ کیا تو اپنے دل میں سخت بھوک اور پیاس محسوس نہیں کرے گا؟ کیا یہ احساسات تجھے اپنے دل میں سکون محسوس کرنے سے نہیں روکیں گے؟ تو تُو اپنے دل کی اس بھوک کو کیسے مٹا سکتا ہے – کیا اسے مٹانے کا کوئی طریقہ ہے؟ کچھ لوگ خریداری کے لیے جاتے ہیں، کچھ ہم راز بنانے کے لیے اپنے دوستوں کو تلاش کرتے ہیں، کچھ لوگ لمبی نیند سے لطف اندوز ہوتے ہیں، دوسرے خدا کے کلام کو زیادہ پڑھتے ہیں، یا وہ اپنے فرائض کی تکمیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں اور زیادہ کوشش صرف کرتے ہیں۔ کیا یہ چیزیں تیری اصل مشکلات کو حل کر سکتی ہیں؟ تم سب اس قسم کے طریقوں کو پوری طرح سمجھتے ہو۔ جب تو بے اختیاری محسوس کرتا ہے، جب تو خدا سے آگہی حاصل کرنے کی شدید خواہش محسوس کرتا ہے تاکہ تو حقیقت کی اصلیت اور اس کی مرضی سے آگاہ ہو جائے، تو تجھے کس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے؟ تجھے جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ ایک شکم سیر کھانا نہیں ہے، اور یہ چند مہربان الفاظ نہیں ہیں، جسم کا عارضی سکون اور اطمینان تو دور کی بات ہے – تجھے جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ خدا تجھے براہ راست اور واضح طور پر بتائے کہ تجھے کیا کرنا چاہیے اور تجھے یہ کیسے کرنا چاہیے، تجھے واضح طور پر بتانے کے لیے کہ حقیقت کیا ہے۔ یہ سمجھنے کے بعد، یہاں تک اگر تجھے تھوڑی سی بھی سمجھ بوجھ حاصل ہو جائے، تو کیا تو اپنے دل میں اچھا کھانا کھانے سے زیادہ مطمئن نہیں ہو گا؟ جب تیرا دل مطمئن ہو جاتا ہے تو کیا تیرے دل اور تیرے پورے وجود کو حقیقی سکون نہیں ملتا؟ اس تشبیہ اور تجزیے کے ذریعے، کیا تم اب سمجھ گئے ہو کہ میں تمھارے ساتھ اس جملے کا اشتراک کیوں کرنا چاہتا تھا، ”اِبنِ آدمؔ سبت کا مالِک ہے“؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ خدا کی طرف سے آتا ہے، جو اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، اور اس کے بارے میں سب کچھ، وہ کسی بھی دوسری چیز سے بڑھ کر ہے، بشمول اس چیز یا اس شخص کے جسے تو کبھی بہت قیمتی سمجھتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص خدا کے منہ سے کلام حاصل نہیں کر سکتا یا وہ اس کی مرضی کو نہیں سمجھتا ہے تو وہ سکون نہیں پا سکتا۔ تم اپنے مستقبل کے تجربات میں، سمجھ جاؤ گے کہ میں تمہیں آج اس اقتباس کو کیوں دکھانا چاہتا تھا – یہ بہت اہم ہے۔ جو کچھ خدا کرتا ہے وہ سچائی اور زندگی ہے۔ سچائی ایک ایسی چیز ہے جس سے لوگ اپنی زندگی میں محروم نہیں رہ سکتے، اور یہ ایسی چیز ہے جس سے وہ کبھی دستبردار نہیں ہو سکتے؛ تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ یہ سب سے بڑی چیز ہے۔ اگرچہ تو اسے دیکھ نہیں سکتا اور نہ ہی چھو سکتا ہے، لیکن تو اس کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کر سکتا؛ یہ واحد چیز ہے جو تیرے دل کو سکون پہنچا سکتی ہے۔

کیا تمہاری سچائی کی سمجھ بوجھ تمہاری اپنی حالتوں کے ساتھ مربوط ہے؟ حقیقی زندگی میں، تجھے سب سے پہلے یہ سوچنا ہے کہ کون سی سچائیاں لوگوں، واقعات اور ان چیزوں سے تعلق رکھتی ہیں جن کا تو نے سامنا کیا ہے؛ یہ ان سچائیوں میں ہے کہ تو خدا کی مرضی تلاش کر سکتا ہے اور جس چیز کا تجھے سامنا ہوا ہے اسے اس کی مرضی سے جوڑ سکتا ہے۔ اگر تو نہیں جانتا کہ سچائی کے کون سے پہلوؤں کا تعلق ان چیزوں سے ہے جن کا تو نے سامنا کیا ہے لیکن اس کی بجائے براہ راست خدا کی مرضی تلاش کرتا ہے، تو یہ ایک اندھا طریقہ ہے جس کے نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔ اگر تو سچائی کو تلاش کرنا چاہتا ہے اور خدا کی مرضی کو سمجھنا چاہتا ہے تو پہلے تجھے یہ دیکھنا ہو گا کہ تیرے ساتھ کس قسم کے واقعات پیش آئے ہیں، ان کا تعلق سچائی کے کن پہلوؤں کے ساتھ ہے، اور خدا کے کلام میں اس مخصوص سچائی کو تلاش کر جو اس سے متعلق ہو جس کا تو نے تجربہ کیا ہے۔ پھر تو اس سچائی میں عمل کا راستہ تلاش کر جو اس سچائی میں تیرے لیے صحیح ہو؛ اس طرح تو خدا کی مرضی کی بالواسطہ سمجھ بوجھ حاصل کر سکتا ہے۔ سچائی کو تلاش کرنا اور اس پر عمل کرنا کسی عقیدے کو بغیر سوچے سمجھے لاگو کرنا یا کسی کلیے پر عمل کرنا نہیں ہے۔ سچائی کلیاتی نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی شریعت ہے۔ یہ مردہ نہیں ہے – یہ بذات خود زندگی ہے، یہ ایک زندہ چیز ہے، اور یہ وہ اصول ہے جس کی پیروی ایک تخلیق شدہ ہستی کو زندگی میں کرنی چاہیے اور وہ اصول ہے جو انسان کی زندگی میں ہونا چاہیے۔ یہ وہ چیز ہے جسے جتنا ممکن ہو، تجھے تجربے کے ذریعے سمجھنا چاہیے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تو اپنے تجربے کے کس مرحلے پر پہنچا ہے، تو خدا کے کلام یا سچائی سے الگ نہیں ہے اور تو خدا کے مزاج کے بارے میں جو سمجھتا ہے اور جو کچھ تو جانتا ہے کہ خدا کے پاس ہے اور وہ خود کیا ہے، وہ سب خدا کے کلام میں بیان کیا گیا ہے؛ وہ پیچیدگی سے سچائی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ خُدا کا مزاج اور جو کچھ اُس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، وہ اپنے آپ میں، سچائی ہے؛ سچائی خدا کا مزاج اور اس کے پاس جو کچھ ہے اور وہ جو خود ہے، کا مستند مظہر ہے۔ یہ جو کچھ اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، کو واضح کرتا ہے، اور یہ اس بات کو واضح ظور پر بیان کرتا ہے کہ اس کے پاس کیا ہے اور وہ وہ خود کیا ہے؛ یہ تجھے زیادہ واضح طور پر بتاتا ہے کہ خدا کیا پسند کرتا ہے، وہ کیا پسند نہیں کرتا، وہ تجھ سے کیا کروانا چاہتا ہے اور وہ تجھے کیا کرنے کی اجازت نہیں دیتا، وہ کن لوگوں سے نفرت کرتا ہے اور کن لوگوں سے وہ خوش ہوتا ہے۔ ان سچائیوں کے پیچھے جن کا خدا اظہار کرتا ہے، لوگ اس کے اطمینان، غصے، غم اور خوشی کے ساتھ ساتھ اس کے جوہر کو بھی دیکھ سکتے ہیں – یہ اس کے مزاج کا انکشاف ہے۔ یہ جاننے کے علاوہ کہ خدا کے پاس کیا ہے اور خدا خود کیا ہے، اور اس کے کلام سے اس کے مزاج کو سمجھنے کے علاوہ، جو سب سے اہم ہے وہ عملی تجربے کے ذریعے اس فہم تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی شخص خدا کو جاننے کے لیے اپنے آپ کو حقیقی زندگی سے ہٹاتا ہے تو وہ اسے حاصل نہیں کر سکے گا۔ یہاں تک کہ اگر ایسے لوگ ہیں جو خدا کے کلام سے کچھ سمجھ بوجھ حاصل کر سکتے ہیں، تو ان کی سمجھ صرف نظریات اور الفاظ تک محدود ہوتی ہے، اور اس بات کے ساتھ اختلاف پیدا ہوتا ہے کہ خود خدا واقعی کس طرح کا ہے۔

اب ہم جس بارے میں بات کر رہے ہیں وہ سب انجیل میں درج کہانیوں کے دائرہ کار میں ہے۔ ان کہانیوں کے ذریعے، اور ان چیزوں کے تجزیے کے ذریعے جو ہوا، لوگ اس کے مزاج کو سمجھ سکتے ہیں اور اس کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے، جو اس نے ظاہر کیا ہے، انھیں خدا کے ہر پہلو کو زیادہ وسیع تر، زیادہ گہرائی سے، زیادہ جامع اور زیادہ تفصیل سے جاننے کی اجازت دیتا ہے۔ تو کیا خدا کے ہر پہلو کو جاننے کا واحد طریقہ یہ کہانیاں ہی ہیں؟ نہیں، یہ واحد طریقہ نہیں ہے! کیونکہ خُدا جو کہتا ہے اور جو کام وہ بادشاہی کے دور میں کرتا ہے وہ لوگوں کو اُس کے مزاج کو جاننے، اور اُسے زیادہ مکمل طور پر جاننے میں بہتر طور پر مدد کر سکتا ہے۔ تاہم، میرے خیال میں انجیل میں درج کچھ مثالوں یا کہانیوں کے ذریعے جن سے لوگ واقف ہیں، خدا کے مزاج کو جاننا اور اس کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے، کو سمجھنا قدرے آسان ہے۔ اگر میں عدالت اور تنبیہ کے الفاظ اور ان سچائیوں کو لے لوں جو خدا آج بیان کرتا ہے، لفظ بہ لفظ، تاکہ تو اس کو اس طرح جاننے کے قابل ہو جائے، تو تُو محسوس کرے گا کہ یہ بہت سست اور بہت تھکا دینے والا ہے، اور کچھ لوگ یہاں تک محسوس کریں گے کہ خدا کے الفاظ کلیاتی لگتے ہیں۔ لیکن اگر میں لوگوں کو خدا کے مزاج کو جاننے میں مدد کے لیے انجیل کی ان کہانیوں کو مثال کے طور پر لوں، تو وہ اسے بے لطف نہیں پائیں گے۔ تم کہہ سکتے ہو کہ ان مثالوں کو بیان کرنے کے دوران، جس کی تفصیلات اس وقت خدا کے دل میں تھیں – اس کی کیفیت یا جذبات، یا اس کے خیالات اور نظریات – لوگوں کو انسانی زبان میں بتائے گئے ہیں، اور اس سب کا مقصد یہ ہے کہ وہ ان کی قدر کریں، یہ محسوس کریں کہ جو کچھ خدا کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، کلیاتی نہیں ہے۔ یہ کوئی افسانوی یا ایسی چیز نہیں ہے جسے لوگ دیکھ یا چھو نہیں سکتے۔ یہ ایسی چیز ہے جو واقعی موجود ہے، جسے لوگ محسوس کر سکتے ہیں اور اس کی تعریف کر سکتے ہیں۔ یہ حتمی مقصد ہے۔ تم کہہ سکتے ہو کہ اس دور میں رہنے والے مبارک ہیں۔ وہ خدا کے پچھلے کام کی وسیع تر سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے لیے انجیل کی کہانیوں سے مدد لے سکتے ہیں؛ وہ اس کام کے ذریعے اس کے مزاج کو دیکھ سکتے ہیں جو اس نے کیا ہے؛ وہ بنی نوع انسان کے لیے خدا کی مرضی کو ان خیالات کے ذریعے سمجھ سکتے ہیں جن کا اس نے اظہار کیا ہے، اور انسانوں کے لیے اس کے تقدس اور اس کی دیکھ بھال کے ٹھوس مظاہر کو سمجھ سکتے ہیں، اور اِس طرح وہ خدا کے مزاج کے بارے میں مزید مفصل اور گہرے علم تک پہنچ سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اب تم سب یہ محسوس کر سکتے ہو!

اس کام کے دائرہ کار کے اندر جو خداوند یسوع نے فضل کے دور میں مکمل کیا، تو خدا کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے، کا ایک اور پہلو دیکھ سکتا ہے۔ اس پہلو کا اظہار اس کے جسم سے ہوا، اور لوگ اس کی بنی نوع انسان کی وجہ سے اسے دیکھنے اور محسوس کرنے کے قابل تھے۔ ابن آدم میں، لوگوں نے دیکھا کہ کس طرح خدا نے جسم میں اپنے بنی نوع انسان ہونے کے مطابق زندگی بسر کی، اور انھوں نے خدا کی الوہیت کو جسم کے ذریعے ظاہر ہوتے دیکھا۔ ان دو قسم کے اظہار نے لوگوں کو ایک بہت ہی حقیقی خدا کو دیکھنے کا موقع دیا، اور ان کی وجہ سے لوگوں کو خدا کا ایک مختلف تصور تشکیل دینے کا قابل کیا۔ تاہم، دنیا کی تخلیق اور شریعت کے دور کے اختتام کے درمیانی عرصے کے دوران، یعنی فضل کے دور سے پہلے، خدا کے صرف وہ پہلو جو لوگوں نے دیکھے، سنے اور تجربہ کیے، وہ خدا کی الوہیت تھی، وہ چیزیں جو خدا نے ایک غیر مادّی دنیا میں کیں اور کہی ہیں، اور وہ چیزیں جو اس نے اپنی حقیقی ذات سے ظاہر کی ہیں جسے دیکھا یا چھوا نہیں جا سکتا تھا۔ ان چیزوں سے لوگوں نے اکثر محسوس کیا کہ خدا اپنی عظمت میں اتنا بلند ہے کہ وہ اس کے قریب نہیں جا سکتے۔ خدا نے جو تاثر عام طور پر لوگوں کو دیا وہ یہ تھا کہ وہ اسے سمجھنے کی ان کی صلاحیت کے اندر اور باہر جھلملاتا ہے، اور لوگوں نے یہاں تک محسوس کیا کہ اس کے خیالات اور نظریات میں سے ہر ایک اتنا پراسرار اور اتنا مشکل الحصول ہے کہ ان تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے، ان کو سمجھنے اور محسوس کرنے کی کوشش تو اس سے بھی کم کرتے ہیں۔ لوگوں کے لیے خدا کے بارے میں ہر چیز بہت دور تھی، اتنی دور کہ لوگ اسے نہ دیکھ سکتے تھے، نہ چھو سکتے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ اوپر آسمان پر ہے، اور ایسا لگتا تھا کہ وہ بالکل موجود نہیں ہے۔ لہٰذا لوگوں کے لیے، خدا کے دل و دماغ یا اس کی کسی سوچ کو سمجھنا ناقابلِ حصول تھا، اور حتیٰ کہ ان کی پہنچ سے باہر۔ اگرچہ خدا نے شریعت کے دور میں کچھ ٹھوس کام انجام دییے اور اس نے کچھ مخصوص کلام بھی جاری کیا اور کچھ مخصوص مزاج کا اظہار بھی کیا تاکہ لوگوں کو اسے محسوس کرنے اور اس کے بارے میں کچھ حقیقی علم حاصل کرنے کا موقع ملے، پھر بھی آخر میں یہ تاثرات کہ خدا کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے، ایک غیر مادّی دنیا سے آئے ہیں، اور جو کچھ لوگ سمجھے، جس کا انھیں علم ہوا وہ اب بھی اس کے الوہی پہلو کے بارے میں تھا کہ جو کچھ اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے۔ اس کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے، بنی نوع انسان اس اظہار سے کوئی ٹھوس تصور حاصل نہیں کر سکا کہ جو اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، اور خدا کے بارے میں ان کا تاثر اب بھی ”ایک ایسا روحانی جسم جس کے قریب جانا مشکل ہے، جو ادراک کے اندر اور باہر جھلملاتا ہے“ کے دائرے میں پھنسا ہوا تھا۔ چونکہ خدا نے لوگوں کے سامنے ظاہر ہونے کے لیے مادّی دنیا سے تعلق رکھنے والی کسی خاص چیز یا شبیہ کا استعمال نہیں کیا، اس لیے وہ انسانی زبان کے ذریعے اس کی تعریف کرنے سے قاصر رہے۔ لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں، وہ ہمیشہ اپنی زبان کا استعمال کرتے ہوئے خدا کے لیے ایک معیار قائم کرنا چاہتے تھے، اسے قابل لمس بنانے کے لیے اور اسے انسان جیسا بنانے کے لیے، جیسے کہ وہ کتنا لمبا ہے، وہ کتنا بڑا ہے، وہ کیسا نظر آتا ہے، وہ اصل میں پسند کیا کرتا ہے اور اس کی شخصیت کیا ہے۔ دراصل، اپنے دل میں خدا جانتا تھا کہ لوگ اس طرح سوچ رہے ہیں۔ وہ لوگوں کی ضروریات کے بارے میں بہت واضح تھا، اور یقیناً وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اسے کیا کرنا چاہیے، اس لیے اس نے فضل کے دور میں اپنے کام کو ایک مختلف انداز میں انجام دیا۔ یہ نیا طریقہ الوہی اور انسانی دونوں طرح کا تھا۔ اس زمانے میں جب خداوند یسوع کام کر رہا تھا، تو لوگ دیکھ سکتے تھے کہ خدا کے بہت سے انسانی تاثرات تھے۔ مثال کے طور پر، وہ رقص کر سکتا تھا، وہ شادیوں میں شرکت کر سکتا تھا، وہ لوگوں کے ساتھ رہن سہن رکھ سکتا تھا، ان سے بات کر سکتا تھا، اور ان کے ساتھ بحث کر سکتا تھا۔ اس کے علاوہ، خُداوند یسوع نے بہت سے کام بھی مکمل کیے جو اس کی الوہیت کی نمائندگی کرتے تھے، اور یقیناً یہ تمام کام خدا کے مزاج کا اظہار اور انکشاف تھا۔ اس وقت کے دوران، جب خدا کی الوہیت کو عام جسم میں اس طرح سے محسوس کیا گیا تھا کہ لوگ دیکھ اور چھو سکتے تھے، انھیں اب یہ محسوس نہیں ہوا کہ وہ ادراک کے اندر اور باہر جھلملا رہا ہے یا وہ اس کے قریب نہیں جا سکتے۔ اس کے برعکس، وہ ہر حرکت، کلام اور ابن آدم کے کام کے ذریعے خدا کی مرضی کو گرفت کرنے یا اس کی الوہیت کو سمجھنے کی کوشش کر سکتے تھے۔ گوشت پوست کے بنے ابن آدم نے اپنی بنی نوع انسان کے ذریعے خدا کی الوہیت کا اظہار کیا اور بنی نوع انسان کو خدا کی مرضی سے آگاہ کیا۔ اور اپنے خدا کی مرضی اور مزاج کے اظہار کے ذریعے، اس نے لوگوں پر اس خدا کو بھی آشکار کیا جس کو دیکھا یا چھوا نہیں جا سکتا ہے جو روحانی دنیا میں رہتا ہے۔ جو کچھ لوگوں نے دیکھا وہ خود خدا قابل لمس شکل میں تھا، گوشت اور خون کا بنا ہوا۔ چنانچہ مجسم ابنِ آدم نے خود خدا کی شناخت، خدا کی حیثیت، شبیہ، مزاج، اور جو کچھ اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، ٹھوس اور انسانی جیسی چیزوں کو بنایا۔ اگرچہ ابنِ آدم کی ظاہری شکل میں خدا کی شبیہ کے حوالے سے کچھ حدود تھیں، اس کے جوہر اور جو کچھ اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، وہ خود خدا کی شناخت اور حیثیت کی نمائندگی کرنے کے مکمل طور پر قابل تھے – محض اظہار کی صورت میں کچھ اختلافات تھے۔ ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ ابن آدم نے خود خدا کی شناخت اور حیثیت کی نمائندگی کی، اس کی انسانییت اور اس کی الوہیت دونوں صورتوں میں۔ تاہم، اس وقت کے دوران، خدا نے جسم کے ذریعے کام کیا، جسم کے نقطہ نظر سے بات کی، اور بنی نوع انسان کے سامنے ابن آدم کی شناخت اور حیثیت کے ساتھ کھڑا ہوا، اور اس نے لوگوں کو بنی نوع انسان کے درمیان خدا کے سچے کلام اور کام کا سامنا کرنے اور تجربہ کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اس نے لوگوں کو عاجزی کے درمیان اس کی الوہیت اور اس کی عظمت کے بارے میں بصیرت کے ساتھ ساتھ خدا کی صداقت اور حقیقت کی ابتدائی سمجھ بوجھ حاصل کرنےاور تعریف کرنے کا بھی موقع دیا۔ اگرچہ خداوند یسوع کی طرف سے مکمل کیا گیا کام، اس کے کام کرنے کے طریقے، اور جس نقطہ نظر سے اس نے بات کی، وہ روحانی دنیا میں خدا کی حقیقی ذات سے مختلف تھا، لیکن اس کے بارے میں ہر چیز نے حقیقی معنوں میں خود خدا کی نمائندگی کی، جسے بنی نوع انسان نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا – اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا! کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ خدا کس شکل میں ظاہر ہوتا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس نقطہ نظر سے بولتا ہے، یا وہ کس شبیہہ میں بنی نوع انسان کا سامنا کرتا ہے، خدا اپنے سوا کسی چیز کی نمائندگی نہیں کرتا ہے۔ وہ نہ تو کسی ایک انسان کی نمائندگی کر سکتا ہے اور نہ ہی بدعنوان بنی نوع انسان کی۔ خدا خود خدا ہے، اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

اس کے بعد، ہم ایک تمثیل پر ایک نظر ڈالیں گے جو خداوند یسوع نے فضل کے دور میں بیان کی تھی۔

3۔ گمشدہ بھیڑ کی تمثیل

متّی 18: 12-14 تُم کیا سمجھتے ہو؟ اگر کِسی آدمی کی سَو بھیڑیں ہوں اور اُن میں سے ایک بھٹک جائے تو کیا وہ ننانوے کو چھوڑ کر اور پہاڑوں پر جا کر اُس بھٹکی ہُوئی کو نہ ڈُھونڈے گا؟ اور اگر اَیسا ہو کہ اُسے پائے تو مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ وہ اُن ننانوے کی نِسبت جو بھٹکی نہیں اِس بھیڑ کی زِیادہ خُوشی کرے گا۔ اِسی طرح تُمہارا آسمانی باپ یہ نہیں چاہتا کہ اِن چھوٹوں میں سے ایک بھی ہلاک ہو۔

یہ اقتباس ایک تمثیل ہے – یہ لوگوں کو کس قسم کا احساس دیتی ہے؟ اظہار کا طریقہ – تمثیل – یہاں استعمال کیا گیا ہے جو انسانی زبان میں بات کرنے کا ایک انداز ہے، اور اس طرح یہ انسانی علم کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ اگر خدا نے شریعت کے دور میں کچھ ایسا ہی کہا ہوتا تو لوگ محسوس کرتے کہ ایسے الفاظ واقعی خدا کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے، لیکن جب ابنِ آدم نے یہ الفاظ فضل کے دور میں کہے، تو یہ لوگوں کو تسلی بخش، پر جوش اور واقف محسوس ہوئے۔ جب خدا جسم بن گیا، جب وہ ایک انسان کی شکل میں ظاہر ہوا، تو اس نے اپنے دل کی آواز کو بیان کرنے کے لیے ایک نہایت موزوں تمثیل کا استعمال کیا جو اس کی اپنی بنی نوع انسان سے آئی تھی۔ یہ آواز خدا کی اپنی آواز اور اس کام کی نمائندگی کرتی تھی جو وہ اس دور میں کرنا چاہتا تھا۔ یہ ایک ایسے رویے کی بھی نمائندگی کرتی تھی جو خدا نے فضل کے دور میں لوگوں کے ساتھ رکھا تھا۔ لوگوں کے بارے میں خدا کے رویے کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہوئے، اس نے ہر شخص کا موازنہ ایک بھیڑ سے کیا۔ اگر کوئی بھیڑ گم ہو جائے تو وہ اسے ڈھونڈنے کے لیے جو کچھ بھی کرنا پڑے وہ کرے گا۔ یہ اس وقت، جب وہ جسم میں تھا، بنی نوع انسان کے درمیان خدا کے کام کے ایک اصول کی نمائندگی کرتا تھا۔ خدا نے اس تمثیل کو اس کام میں اپنے عزم اور رویے کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا۔ یہ خدا کے جسم بننے کا فائدہ تھا: وہ بنی نوع انسان کے علم سے فائدہ اٹھا سکتا تھا اور لوگوں سے بات کرنے اور اپنی مرضی کا اظہار کرنے کے لیے انسانی زبان کا استعمال کر سکتا تھا۔ اس نے انسان کو اپنی گہری، الوہی زبان کی وضاحت کی یا ”ترجمہ“ کیا جسے لوگوں نے انسانی زبان میں، انسانی طریقے سے سمجھنے کے لیے کوشش کی۔ اس سے لوگوں کو اس کی مرضی کو سمجھنے اور یہ جاننے میں مدد ملی کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے۔ وہ انسانی نقطہ نظر سے لوگوں کے ساتھ بات چیت بھی کر سکتا تھا، انسانی زبان کا استعمال کر سکتا تھا، اور لوگوں سے اس طرح بات چیت کر سکتا تھا جس طرح وہ سمجھتے تھے۔ وہ انسانی زبان اور علم کا استعمال کرتے ہوئے بول بھی سکتا تھا اور کام بھی کر سکتا تھا تاکہ لوگ خدا کی مہربانی اور قربت کو محسوس کر سکیں، تاکہ وہ اس کے دل کو دیکھ سکیں۔ اس میں تم کیا دیکھتے ہو؟ کیا خدا کے قول و فعل میں کوئی ممانعت ہے؟ جس طرح سے لوگ اسے دیکھتے ہیں، ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ جس سے خدا انسانی علم، زبان، یا بولنے کے طریقوں کو استعمال کر کے اس بات کے بارے میں بات کر سکتا کہ خدا خود کیا کہنا چاہتا تھا، جو کام وہ کرنا چاہتا تھا، یا خود اپنی مرضی کا اظہار کرنے کے لیے۔ لیکن یہ غلط سوچ ہے۔ خدا نے اس قسم کی تمثیل اس لیے استعمال کی کہ لوگ خدا کی حقیقت اور خلوص کو محسوس کر سکیں اور اس وقت کے دوران لوگوں کے ساتھ اس کا رویہ دیکھ سکیں۔ اس تمثیل نے لوگوں کو خواب سے بیدار کیا جو ایک طویل عرصے سے شریعت کے تحت زندگی گزار رہے تھے، اور اس نے نسل در نسل ان لوگوں کو بھی متاثر کیا جو فضل کے دور میں رہتے تھے۔ اس تمثیل کے اقتباس کو پڑھ کر، لوگ بنی نوع انسان کو بچانے میں خدا کے خلوص کو جانتے ہیں اور خدا کے دل میں بنی نوع انسان کو دیے گئے وزن اور اہمیت کو سمجھتے ہیں۔

آؤ اس اقتباس کے آخری جملے پر ایک نظر ڈالتے ہیں: ”اِسی طرح تُمہارا آسمانی باپ یہ نہیں چاہتا کہ اِن چھوٹوں میں سے ایک بھی ہلاک ہو۔“ کیا یہ خُداوند یسوع کے اپنے الفاظ تھے، یا آسمانی باپ کے الفاظ؟ سطحی طور پر، ایسا لگتا ہے کہ یہ خداوند یسوع ہے جو بول رہا ہے، لیکن اس کی مرضی خود خدا کی مرضی کی نمائندگی کرتی ہے، اسی وجہ سے اس نے کہا: ”اِسی طرح تُمہارا آسمانی باپ یہ نہیں چاہتا کہ اِن چھوٹوں میں سے ایک بھی ہلاک ہو۔“ اس وقت لوگ صرف آسمانی باپ کو ہی خدا مانتے تھے، اور یقین رکھتے تھے کہ یہ شخص جسے انھوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا، صرف اس کا بھیجا ہوا ہے، اور آسمانی باپ کی نمائندگی نہیں کر سکتا۔ اس لیے خداوند یسوع کو اس تمثیل کے آخر میں یہ جملہ شامل کرنا پڑا، تاکہ لوگ واقعی بنی نوع انسان کے لیے خدا کی مرضی کو محسوس کر سکیں اور اس کی کہی ہوئی باتوں کی صداقت اور درستی کو محسوس کر سکیں۔ اگرچہ کہنے کے لیے یہ جملہ ایک سادہ سی بات تھی، لیکن یہ احتیاط اور محبت کے ساتھ بولی گئی تھی اور یہ خداوند یسوع کی عاجزی اور پوشیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آیا خدا جسم بن گیا یا اس نے روحانی دنیا میں کام کیا، وہ انسانی دل کو سب سے بہتر جانتا تھا، اور جانتا تھا کہ لوگوں کو کس چیز کی ضرورت تھی، وہ جانتا تھا کہ لوگ کس چیز کے بارے میں فکر مند ہیں، اور کس چیز نے انھیں الجھا دیا ہے، اور اسی وجہ سے اس نے یہ جملہ شامل کیا۔ اس جملے نے بنی نوع انسان میں چھپے ایک مسئلے پر روشنی ڈالی: لوگوں کو شک تھا کہ ابنِ آدم نے کیا کہا، جس کا مطلب یہ ہے کہ جب خداوند یسوع بول رہا تھا تو اُسے یہ شامل کرنا پڑا: ”اِسی طرح تُمہارا آسمانی باپ یہ نہیں چاہتا کہ اِن چھوٹوں میں سے ایک بھی ہلاک ہو۔“ لوگوں کو ان کی درستی پر یقین دلانے اور ان کی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے، صرف اسی بنیاد پر اس کے الفاظ پھل دے سکتے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب خدا باقاعدہ ابنِ آدم بن گیا، تو خدا اور بنی نوع انسان کے درمیان بہت ہی ناخوشگوار تعلق تھا، اور یہ کہ ابن آدم کی صورتِ حال ناموزوں تھی۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت انسانوں میں خداوند یسوع کی حیثیت کتنی معمولی تھی۔ جب اس نے یہ کہا تو یہ درحقیقت لوگوں کو بتانا تھا: تم یقین کر سکتے ہو – یہ الفاظ اس بات کی نمائندگی نہیں کرتے جو میرے اپنے دل میں ہے، لیکن یہ خدا کی مرضی ہیں جو تمھارے دلوں میں ہے۔ بنی نوع انسان کے لیے کیا یہ طنز آمیز نہیں تھا؟ اگرچہ جسم میں کام کرنے والے خدا کے بہت سے فائدے تھے جو اس کی ذات میں نہیں تھے، اسے ان کے شکوک و شبہات اور مسترد کیے جانے کے ساتھ ساتھ ان کی بے حسی اور سست روی کا بھی مقابلہ کرنا پڑا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ابنِ آدم کے کام کا عمل بنی نوع انسان کے مسترد کیے جانے کے عمل کا تجربہ کرنے اور اس کے خلاف مقابلہ کرنے کا عمل تھا۔ اس سے بڑھ کر، یہ مسلسل بنی نوع انسان کا اعتماد جیتنے کے لیے کام کرنے کا عمل تھا اور بنی نوع انسان کو اس کے اپنے جوہر جو اس کے پاس اور جو وہ خود ہے، کے ذریعے فتح کرنا تھا۔ یہ اتنا اہم نہیں تھا کہ مجسم خدا شیطان کے خلاف زمینی جنگ لڑ رہا تھا؛ یہ عظیم تھا کہ خدا ایک عام آدمی بن گیا اور اپنی پیروی کرنے والوں کے ساتھ جدوجہد شروع کر دی۔ اور اس جدوجہد میں ابنِ آدم نے اپنی عاجزی کے ساتھ، جو کچھ اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، اور اپنی محبت اور حکمت کے ساتھ اپنا کام مکمل کیا۔ اس نے اپنے مطلوبہ لوگوں کو حاصل کیا، وہ شناخت اور حیثیت حاصل کی جس کا وہ مستحق تھا، اور ”واپس“ اپنے تخت پر آیا۔

اس کے بعد، آؤ صحیفے کے درج ذیل دو اقتباسات کو دیکھتے ہیں۔

4۔ سات دفعہ کے ستر بار معاف کرو

متّی 18: 21-22 اُس وقت پطرسؔ نے پاس آ کر اُس سے کہا اَے خُداوند اگر میرا بھائی میرا گُناہ کرتا رہے تو مَیں کِتنی دفعہ اُسے مُعاف کرُوں؟ کیا سات بار تک؟ یِسُوعؔ نے اُس سے کہا مَیں تُجھ سے یہ نہیں کہتا کہ سات بار بلکہ سات دفعہ کے ستّر بار تک۔

5۔ خداوند کی محبت

متّی 22: 37-39 یسوع نے اُس سے کہا کہ خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے مُحبّت رکھ۔ بڑا اور پہلا حُکم یِہی ہے۔ اور دُوسرا اِس کی مانِند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر مُحبّت رکھ۔

ان دو اقتباسات میں سے ایک معافی کی بات کرتا ہے اور دوسرا محبت کی بات کرتا ہے۔ یہ دو موضوعات واقعی اس کام پر روشنی ڈالتے ہیں جو خداوند یسوع فضل کے دور میں انجام دینا چاہتا تھا۔

جب خدا جسم بن گیا، تو وہ اپنے ساتھ اپنے کام کا ایک مرحلہ لایا، جو کہ مخصوص کام اور مزاج تھا جس کو وہ اس دور میں ظاہر کرنا چاہتا تھا۔ اس دور میں، ہر وہ کام جو ابنِ آدم نے کیا اس کام کے گرد گھومتا تھا جسے خدا اِس دور میں انجام دینا چاہتا تھا۔ وہ نہ زیادہ کرے گا اور نہ ہی کم۔ ہر ایک بات جو اس نے کہی اور ہر قسم کا کام جو اس نے انجام دیا سب کا تعلق اس دور سے تھا۔ قطع نظر اس کے کہ اس نے اس کا اظہار انسانی طریقے سے انسانی زبان سے کیا ہو یا الوہی زبان سے، اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس نے کس طرح یا کس نقطہ نظر سے ایسا کیا، اس کا مقصد لوگوں کو یہ سمجھنے میں مدد کرنا تھا کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے، اس کی مرضی کیا تھی اور لوگوں سے اس کے تقاضے کیا تھے۔ وہ لوگوں کو اس کی مرضی کو سمجھنے اور جاننے میں مدد کرنے کے لیے، اور بنی نوع انسان کو بچانے کے اپنے کام کو سمجھنے کے لیے، مختلف ذرائع اور مختلف نقطہ نظر استعمال کر سکتا ہے۔ لہٰذا فضل کے دور میں ہم خداوند یسوع کو زیادہ تر وقت انسانی زبان کا استعمال کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ وہ بنی نوع انسان کے ساتھ جو بات چیت کرنا چاہتا تھا۔ اس سے بھی بڑھ کر، ہم اسے ایک عام راستہ دکھانے والے کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں جو لوگوں سے بات کرتا ہے، ان کی ضروریات کو پورا کرتا ہے، اور ان کی مدد کرتا ہے جس کی انھوں نے درخواست کی تھی۔ کام کرنے کا یہ طریقہ شریعت کے دور میں نہیں دیکھا گیا تھا جو فضل کے دور سے پہلے آیا تھا۔ وہ بنی نوع انسان کے ساتھ زیادہ آشنا اور زیادہ ہمدردی اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ شکل اور انداز دونوں میں عملی نتائج حاصل کرنے کے قابل ہو گیا۔ لوگوں کو سات دفعہ کے ستّر بار معاف کرنے کا استعارہ واقعی اس نکتے کو واضح کرتا ہے۔ اس استعارے میں تعداد سے حاصل ہونے والا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو خداوند یسوع کے اس ارادے کو سمجھنے کا موقع مل جائے جب اس نے یہ کہا تھا۔ اس کا ارادہ یہ تھا کہ لوگ دوسروں کو معاف کریں – ایک یا دو بار نہیں، اور نہ ہی سات بار، بلکہ سات دفعہ کے ستّر بار۔ ”سات دفعہ کے ستّر بار“ کے نظریے میں کس قسم کا خیال موجود ہے؟ یہ لوگوں کو معافی کو اپنی ذمہ داری بنانے کا باعث بناتا ہے، کچھ ایسا جو انھیں سیکھنا چاہیے، اور ایک ”طریقہ“ جس کی انھیں پابندی کرنی چاہیے۔ اگرچہ یہ محض ایک استعارہ تھا، اس نے اہم نکتے کو اجاگر کرنے کا کام کیا۔ اس نے لوگوں کو اس بات کی کہ وہ کیا چاہتا ہے اور عمل کے مناسب طریقے اور عمل کے اصول اور معیارات کے کو تلاش کرنے نیز گہرائی میں سمجھنے میں مدد کی۔ اس استعارے نے لوگوں کو واضح طور پر سمجھنے میں مدد کی اور انھیں ایک صحیح تصور دیا – کہ وہ معاف کرنا سیکھیں اور بغیر کسی شرط کے کئی بار معاف کریں، لیکن دوسروں کے لیے رواداری اور سمجھ بوجھ کے رویے ساتھ۔ جب خداوند یسوع نے یہ کہا، تو اس کے دل میں کیا تھا؟ کیا وہ واقعی ”سات دفعہ کے ستّر بار“ تعداد کے بارے میں سوچ رہا تھا؟ نہیں، وہ ایسا نہیں سوچ رہا تھا۔ کیا کوئی تعداد متعین ہے کہ خدا انسان کو کتنی بار معاف کرے گا؟ بہت سے لوگ ہیں جو یہاں ذکر کردہ ”تعداد کی مقدار“ میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں، جو واقعی اس تعداد کے نقطہ آغاز اور معنی کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ یہ تعداد خداوند یسوع کے منہ سے کیوں نکلی؛ ان کا خیال ہے کہ اس تعداد کا گہرا مفہوم ہے۔ لیکن درحقیقت، یہ صرف انسانی بیان کا ایک انداز تھا جسے خدا نے استعمال کیا۔ کوئی بھی مفہوم یا معنی بنی نوع انسان کے لیے خداوند یسوع کے تقاضوں کے ساتھ لیے جانا چاہییں۔ جب خدا ابھی جسم نہیں بنا تھا، تو لوگ اس کی باتوں کو زیادہ نہیں سمجھتے تھے، کیونکہ اس کا کلام مکمل الوہی حیثیت سے آتا تھا۔ جو کچھ اس نے کہا اس کا تناظر اور سیاق و سباق بنی نوع انسان کے لیے پوشیدہ اور ناقابل رسائی تھا؛ اس کا اظہار ایک روحانی دنیا سے ہوا جسے لوگ نہیں دیکھ سکتے تھے۔ کیونکہ لوگ جو جسم میں رہتے تھے، وہ روحانی دنیا سے نہیں گزر سکتے تھے۔ لیکن خدا کے جسم بننے کے بعد، اس نے بنی نوع انسان کے نقطہ نظر سے بنی نوع انسان سے بات کی، اور وہ روحانی دنیا سے باہر نکلا اور اس سے آگے نکل گیا۔ وہ اپنا الوہی مزاج، مرضی اور رویے کا اظہار ان چیزوں کے ذریعے کر سکتا تھا جن کا انسان تصور کر سکتا تھا، وہ چیزیں جو انھوں نے اپنی زندگی میں دیکھیں اور جن کا سامنا کیا، اور ایسے طریقے استعمال کرتے ہوئے جنہیں انسان قبول کر سکتے تھے، ایک ایسی زبان میں جسے وہ سمجھ سکتے تھے، بنی نوع انسان کو خدا کو سمجھنے اور جاننے کا موقع دینے کے لیے، اس کے ارادے اور اس کے مطلوبہ معیارات کو ان کی صلاحیت کے دائرہ کار میں اور اس حد تک سمجھنے کے لیے جس کے وہ قابل تھے۔ یہ بنی نوع انسان میں خدا کے کام کا طریقہ اور اصول تھا۔ اگرچہ خدا کے طریقے اور جسم میں کام کرنے کے اس کے اصول زیادہ تر بنی نوع انسان کے وسیلے سے یا اس کے ذریعے حاصل کیے گئے تھے لیکن اس نے واقعی ایسے نتائج حاصل کیے جو براہ راست الوہیت میں کام کرنے سے حاصل نہیں کیے جا سکتے تھے۔ بنی نوع انسان میں خدا کا کام زیادہ ٹھوس، مستند اور ہدف پر مبنی تھا، طریقے بہت زیادہ لچکدار تھے، اور شکل میں اس نے شریعت کے دور میں کیے گئے کام کو پیچھے چھوڑ دیا۔

اس کے بعد، آؤ ہم خُداوند سے پیار کرنے اور اپنے پڑوسیوں سے اپنے جیسا پیار کرنے کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ کیا یہ ایسی چیز ہے جس کا الوہیت میں براہ راست اظہار ہوتا ہے؟ نہیں، واضح طور پر نہیں! یہ وہ سب باتیں تھیں جن کے بارے میں ابنِ آدم نے بنی نوع انسان کی حالت میں ہوتے ہوئے بات کی تھی؛ صرف انسان ہی کچھ ایسی بات کہیں گے جیسے ”اپنے پڑوسی سے اپنے جیسا پیار کرو،“ اور ”دوسروں سے اتنا پیار کرو جتنا تم اپنی زندگی کو عزیز سمجھتے ہو۔“ بولنے کا یہ انداز صرف انسانوں کے ساتھ ہی مخصوص ہے۔ خدا نے کبھی اس انداز میں بات نہیں کی ہے۔ کم از کم، خدا کے پاس اپنی الوہیت میں اس قسم کی زبان نہیں ہے کیونکہ بنی نوع انسان کے لیے اس کی محبت کو منظم کرنے کے لیے اسے اس قسم کے اصول کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ”اپنے پڑوسی سے اپنے جیسا پیار کرو،“ کیونکہ بنی نوع انسان کے لیے خدا کی محبت، اس کے پاس جو ہے اور جو وہ خود ہے، کا فطری انکشاف ہے۔ تم نے خدا کو کب اس طرح کی کوئی بات کہتے سنا ہے: ”میں بنی نوع انسان سے اسی طرح پیار کرتا ہوں جیسا کہ میں خود سے پیار کرتا ہوں“؟ تم نے نہیں سنا ہے، کیونکہ محبت خدا کے جوہر اور جو کچھ اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، میں موجود ہے۔ بنی نوع انسان کے لیے خُدا کی محبت، اُس کا رویہ اور اُس کا لوگوں کے ساتھ سلوک کرنے کا انداز اُس کے مزاج کا فطری اظہار اور انکشاف ہے۔ اسے جان بوجھ کر کسی خاص انداز میں ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے، یا جان بوجھ کر کسی خاص طریقے یا اخلاقی ضابطے کی پیروی کرنے کی ضرورت نہیں ہے تاکہ وہ اپنے پڑوسی سے اپنے جیسا پیار کر سکے – وہ پہلے سے ہی اس قسم کے جوہر کا حامل ہے۔ تو اس میں کیا دیکھتا ہے؟ جب خدا نے بنی نوع انسان میں کام کیا، تو اس کے بہت سے طریقے، کلام اور سچائیوں کا اظہار ایک انسانی طریقے سے ہوا۔ لیکن اسی وقت، خدا کا مزاج، اس کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے، اور اس کی مرضی کو لوگوں کو جاننے اور سمجھنے کے لیے ظاہر کیا گیا تھا۔ انھوں نے جو کچھ جانا اور سمجھا وہ اس کا عین جوہر تھا اور جو اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، جو خود خدا کی جبلی شناخت اور حیثیت کی نمائندگی کرتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جسم میں ابن آدم نے خود خدا کے جبلی مزاج اور جوہر کو جس حد تک بھی ممکن ہوا اور ممکنہ حد تک درست طریقے سے ظاہر کیا۔ ابنِ آدم کی بنی نوع انسان نہ صرف آسمان پر خدا کے ساتھ انسان کے رابطے اور تعامل میں کوئی رکاوٹ یا مزاحم نہیں تھی بلکہ حقیقت میں یہ بنی نوع انسان کے لیے مخلوق کے خداوند سے منسلک ہونے کا واحد ذریعہ اور واحد پل تھا۔ اب، اس مقام پر، کیا تم یہ محسوس نہیں کرتے کہ خُداوند یسوع کے فضل کے دور میں کیے گئے کام کی نوعیت اور طریقوں اور کام کے موجودہ مرحلے میں بہت سی مماثلتیں ہیں؟ کام کا یہ موجودہ مرحلہ خدا کے مزاج کے اظہار کے لیے انسانی زبان کا بہت استعمال کرتا ہے اور خود خدا کی مرضی کے اظہار کے لیے بنی نوع انسان کی روزمرہ کی زندگی اور انسانی علم سے بہت سی زبان اور طریقے استعمال کرتا ہے۔ ایک بار جب خدا جسم بن جاتا ہے، تو چاہے وہ انسانی نقطہ نظر سے بول رہا ہو یا الوہی نقطہ نظر سے، اس کی زبان اور اظہار کے بہت سے طریقے انسانی زبان اور طریقوں کے ذریعے ہوتے ہیں۔ یعنی جب خدا جسم بن جاتا ہے تو یہ تیرے لیے خدا کی مطلق قدرت اور اس کی حکمت کو دیکھنے اور خدا کے ہر حقیقی پہلو کو جاننے کا بہترین موقع ہے۔ جب خُدا جِسم بن گیا، جب وہ بڑا ہو رہا تھا، اُس نے بنی نوع انسان کا کچھ علم، عام فہم، زبان اور اظہارِ خیال کے طریقوں کو سمجھا، سیکھا اور ادراک حاصل کیا۔ مجسم خدا کے پاس یہ چیزیں تھیں جو ان انسانوں کی طرف سے ملی ہیں جنہیں اس نے خود تخلیق کیا تھا۔ وہ جسمانی حالت میں اس کے مزاج اور اس کی الوہیت کے اظہار کے لیے خدا کے اوزار بن گئے، اور جب وہ انسانی نقطہ نظر سے اور انسانی زبان کا استعمال کرتے ہوئے بنی نوع انسان کے درمیان کام کر رہا تھا تو اسے اپنے کام کو زیادہ مناسب، زیادہ مستند اور زیادہ درست بنانے کا موقع ملا۔ اس نے اس کے کام کو لوگوں کے لیے زیادہ قابل رسائی اور زیادہ آسانی سے سمجھ میں آنے والا بنا دیا، اس طرح وہ نتائج حاصل کیے جو خدا چاہتا تھا۔ کیا اس طرح سے جسم میں کام کرنا خدا کے لیے زیادہ عملی نہیں ہے؟ کیا یہ خدا کی حکمت نہیں ہے؟ جب خُدا جسم بن گیا، جب خُدا کا جسم اُس کام کو انجام دینے کے قابل ہو گیا جسے وہ انجام دینا چاہتا تھا، تو یہی وہ وقت ہے جب وہ عملی طور پر اپنے مزاج اور اپنے کام کا اظہار کرے گا، اور یہ وہ وقت بھی ہے جب وہ ابن آدم کے طور پر اپنی ذمہ داری کا باضابطہ آغاز کر سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ خدا اور انسان کے درمیان اب کوئی ”نسلی تفاوت“ نہیں ہے، کہ خُدا جلد ہی پیغمبروں کے ذریعے ابلاغ کا اپنا کام بند کر دے گا، اور یہ کہ خُدا خود ذاتی طور پر تمام کلام کا اظہار کر سکتا ہے اور جسم میں وہ کام کر سکتا ہے جو وہ چاہتا تھا۔ اس کا مطلب یہ بھی تھا کہ جن لوگوں کو خُدا بچاتا ہے وہ اُس کے قریب تھے، کہ اُس کا انتظامی کام نئے علاقے میں داخل ہو چکا تھا، اور تمام بنی نوع انسان ایک نئے دور کا سامنا کرنے والی تھی۔

ہر کوئی جس نے انجیل پڑھی ہوئی ہے جانتا ہے کہ خداوند یسوع کی پیدائش کے وقت بہت سے واقعات رونما ہوئے۔ ان واقعات میں سب سے بڑا شیطانوں کے بادشاہ کی طرف سے اس کا شکار کیا جانا تھا، جو اس قدر شدید واقعہ تھا کہ شہر کے تمام بچے جن کی عمریں دو سال اور اس سے کم تھیں، ذبح کر دیے گئے تھے۔ یہ ظاہر ہے کہ خدا نے انسانوں کے درمیان جسم بن کر بڑا خطرہ مول لیا؛ اس نے بنی نوع انسان کو بچانے کے اپنے انتظام کو مکمل کرنے کے لیے جو عظیم قیمت ادا کی وہ بھی واضح ہے۔ وہ عظیم امیدیں جو خُدا نے جسم کی شکل میں ہوتے ہوئے اپنے کام کے لیے انسانوں کے درمیان رکھی تھیں وہ بھی واضح ہیں۔ جب خدا کا جسم بنی نوع انسان کے درمیان کام کرنے کے قابل تھا، تو اس نے کیسا محسوس کیا؟ لوگوں کو اس بات کو کسی حد تک سمجھنے کے قابل ہونا چاہیے، کیا انھیں نہیں ہونا چاہیے؟ کم از کم، خدا خوش تھا کیونکہ وہ بنی نوع انسان کے درمیان اپنا نیا کام شروع کر سکتا تھا۔ جب خداوند یسوع کو بپتسمہ دیا گیا اور اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے اس نے اپنا کام باضابطہ طور پر شروع کیا تو خدا کا دل خوشی سے لبریز ہو گیا کیونکہ اتنے سالوں کے انتظار اور تیاری کے بعد، وہ آخر کار ایک عام آدمی کا جسم پہن سکتا تھا اور گوشت اور خون کے آدمی کی شکل میں، جسے لوگ دیکھ اور چھو سکتے تھے، اپنا نیا کام شروع کر سکتا تھا۔ وہ آخر کار ایک آدمی کی شناخت کے ذریعے لوگوں سے روبرو ہو سکتا تھا اور خلوص دل سے بات کر سکتا تھا۔ خدا بالآخر انسانی طریقوں اور انسانی زبان کے ذریعے بنی نوع انسان کے سامنے آ سکتا تھا۔ وہ بنی نوع انسان کے لیے مہیا کر سکتا تھا، انھیں آگہی دے سکتا تھا، اور انسانی زبان کو استعمال کرتے ہوئے ان کی مدد کر سکتا تھا۔ وہ ان کے ساتھ ایک ہی میز پر کھا سکتا تھا اور ایک ہی جگہ پر رہ سکتا تھا۔ وہ انسانوں کو بھی دیکھ سکتا تھا، چیزوں کو دیکھ سکتا تھا، اور ہر چیز کو اسی طرح دیکھ سکتا تھا جس طرح انسانوں نے انھیں دیکھا تھا اور یہاں تک کہ اپنی آنکھوں سے بھی۔ خُدا کے لیے، یہ پہلے سے ہی جسم میں اُس کے کام کی پہلی فتح تھی۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک عظیم کام کا مکمل ہونا تھا – یقیناً یہ وہی تھا جس کے متعلق خدا سب سے زیادہ خوش تھا۔ اس وقت سے شروع کر کے، خُدا نے پہلی بار، بنی نوع انسان کے درمیان اپنے کام میں ایک طرح کا سکون محسوس کیا۔ پیش آنے والے تمام واقعات بہت عملی اور بہت قدرتی تھے، اور جو سکون خدا نے محسوس کیا وہ بہت سچا تھا۔ بنی نوع انسان کے لیے، ہر بار جب خُدا کے کام کا ایک نیا مرحلہ مکمل ہوتا ہے، اور ہر بار جب خُدا خوشی محسوس کرتا ہے، تو یہی وہ وقت ہوتا ہے جب بنی نوع انسان خُدا اور نجات کے قریب آ سکتی ہے۔ خُدا کے نزدیک، یہ اُس کے نئے کام کا آغاز بھی ہے، جو اُس کے انتظامی منصوبے کو آگے بڑھا رہا ہے اور مزید برآں، یہ وہ وقت ہے جب اُس کے ارادے مکمل ہونے کے قریب ہوتے ہیں۔ بنی نوع انسان کے لیے ایسے موقع کا آنا خوش قسمتی کی بات ہوتی ہے اور بہت اچھا ہوتا ہے؛ ان تمام لوگوں کے لیے جو خدا کی نجات کے منتظر ہیں، یہ ایک اہم اور خوشی کی خبر ہے۔ جب خدا کام کے ایک نئے مرحلے کو انجام دیتا ہے، تو اس کے پاس ایک نئی شروعات ہوتی ہے، اور جب اس نئے کام اور نئی شروعات کا آغاز ہوتا ہے اور اسے انسانوں کے درمیان متعارف کرایا جاتا ہے، تو یہ اس وقت ہوتا ہے جب کام کے اس مرحلے کا نتیجہ پہلے ہی متعین اور مکمل ہو چکا ہوتا ہے اور حتمی اثر اور پھل خدا پہلے ہی دیکھ چکا ہوتا ہے۔ یہ تب بھی ہوتا ہے جب یہ اثرات خدا کو مطمئن کرتے ہیں، اور یقیناً یہ تب ہوتا ہے جب اس کا دل خوش ہوتا ہے۔ خُدا کو اطمینان محسوس ہوتا ہے کیونکہ، اپنی نظر میں، وہ ان لوگوں کو پہلے ہی دیکھ چکا ہوتا ہے اور ان کے متعلق طے کر چکا ہوتا ہے جن کی وہ تلاش کر رہا ہوتا ہے، اور اس نے لوگوں کے اس گروہ کو پہلے ہی حاصل کر لیا ہوتا ہے، ایک ایسا گروہ جو اس کے کام کو کامیاب بنانے اور اسے اطمینان دلانے کے قابل ہوتا ہے۔ لہٰذا، وہ اپنی پریشانیوں کو ایک طرف رکھ دیتا ہے اور وہ خوشی محسوس کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، جب خدا کا جسم انسان کے درمیان نیا کام شروع کرنے کے قابل ہو جاتا ہے، اور وہ بغیر کسی رکاوٹ کے، وہ کام کرنا شروع کر دیتا ہے جو اسے کرنا چاہیے، اور جب وہ محسوس کرتا ہے کہ سب کچھ مکمل ہو چکا ہے، تو اس کے لیے، اختتام پہلے ہی نظر میں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے وہ مطمئن ہوتا ہے، اور اس کا دل خوش ہوتا ہے۔ خدا کی خوشی کا اظہار کیسے کیا جاتا ہے؟ کیا تم تصور کر سکتے ہو کہ اس کا جواب کیا ہو سکتا ہے؟ کیا خدا کو رونا چاہیے۔ کیا خدا رو سکتا ہے؟ کیا خدا تالی بجا سکتا ہے؟ کیا خدا رقص کر سکتا ہے؟ کیا خدا گا سکتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو وہ کیا گائے گا؟ یقیناً، خُدا ایک خوبصورت، متاثر کرنے والا گیت گا سکتا ہے، ایسا گیت جو اُس کے دل کی خوشی اور مسرت کا اظہار کر سکتا ہے۔ وہ اسے بنی نوع انسان کے لیے، اپنے لیے اور سب چیزوں کے لیے گا سکتا ہے۔ خُدا کی خوشی کا اظہار کسی بھی طرح سے کیا جا سکتا ہے – یہ سب معمول کی بات ہے کیونکہ خُدا کے پاس خوشیاں اور غم ہیں، اور اُس کے مختلف احساسات کا اظہار مختلف طریقوں سے کیا جا سکتا ہے۔ یہ اس کا حق ہے، اور اس سے زیادہ معمول کی اور مناسب کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ لوگوں کو اس کے علاوہ کچھ نہیں سوچنا چاہیے۔ تمہیں ”پٹی باندھنے والا جادو“[ا] کو خدا پر استعمال کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، اسے یہ نہیں بتانا چاہیے کہ اسے یہ یا وہ نہیں کرنا چاہیے، اسے اِس طرح یا اُس طرح عمل نہیں کرنا چاہیے، اور اس طرح اس کی اس خوشی کے احساسات کو محدود نہیں کرنا چاہیے جو اس کے ہو سکتے ہیں۔ لوگوں کے دلوں میں خدا خوش نہیں ہو سکتا، آنسو نہیں بہا سکتا، رو نہیں سکتا – وہ کسی جذبات کا اظہار نہیں کر سکتا۔ ان دو رفاقتوں کے دوران ہم نے جو بات چیت کی ہے اس کے ذریعے، مجھے یقین ہے کہ تم اب خدا کو اس طرح نہیں دیکھو گے بلکہ خدا کو کچھ آزادی اور رہائی کا موقع دو گے۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ مستقبل میں اگر تو واقعی خدا کی اداسی کو محسوس کرنے کے قابل ہوتا ہے جب تو اس کے غمگین ہونے کے بارے میں سنتا ہے، اور جب تو اس کے خوش ہونے کے بارے میں سنتا ہے تو تُو واقعی اس کی خوشی محسوس کرنے کے قابل ہوتا ہے، تو تب تو واضح طور کم از کم پر یہ جاننے اور سمجھنے کے قابل ہو جائے گا کہ خدا کو کس چیز سے خوشی ہوتی ہے اور کیا چیز اسے اداس کرتی ہے۔ جب تو خدا کے غمگین ہونے کی وجہ سے غمگین ہونے کے قابل ہو گا، اور خدا کے خوش ہونے کی وجہ سے خوش ہو گا، تو وہ تیرے دل کو مکمل طور پر حاصل کر چکا ہو گا اور تیرے اور اس کے درمیان کوئی رکاوٹ مزید باقی نہیں رہے گی۔ تو خدا کو انسانی تخیلات، تصورات اور علم کے ذریعے محدود کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ اس وقت خدا تیرے دل میں زندہ اور تابندہ ہو گا۔ وہ تیری زندگی کا خدا اور تیرے بارے میں ہر چیز کا مالک ہو گا۔ کیا تم اس قسم کی خواہش رکھتے ہو؟ کیا تمہیں یقین ہے کہ تم یہ حاصل کر سکتے ہو؟

اس کے بعد، آؤ صحیفوں سے درج ذیل اقتباسات کو پڑھیں:

6۔ پہاڑی وعظ

مبارک لوگ (متّی 5: 3-12)

نمک اور روشنی (متّی 5: 13-16)

شریعت (متّی 5: 17-20)

غصہ (متّی 5: 21-26)

زنا کاری (متّی 5: 27-30)

طلاق (متّی 5: 31-32)

قسمیں (متّی 5: 33-37)

آنکھ کے بدلے آنکھ (متّی 5: 38-42)

اپنے دشمن سے پیار کرو (متّی 5: 43-48)

دینے کے متعلق ہدایت (متّی 6: 1-4)

دعا (متّی 6: 5-8)

7۔ خداوند یسوع کی تمثیلیں

بیج بونے والے کی تمثیل (متّی 13: 1-9)

کڑوے دانوں کی تمثیل (متّی 13: 24-30)

رائی کے دانے کی تمثیل (متّی 13: 31-32)

خمیر کی تمثیل (متّی 13: 33)

کڑوے دانوں کی تمثیل کا سمجھانا (متّی 13: 1-9)

خزانے کی تمثیل (متّی 13: 44)

موتی کی تمثیل (متّی 13: 45-46)

جال کی تمثیل (متّی 13: 47-50)

8۔ احکام

متّی 22: 37-39 یسوع نے اُس سے کہا کہ خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے مُحبّت رکھ۔ بڑا اور پہلا حُکم یِہی ہے۔ اور دُوسرا اِس کی مانِند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر مُحبّت رکھ۔

آؤ ہم پہلے ”پہاڑی وعظ“ کے مختلف حصوں میں سے ہر ایک کو دیکھتے ہیں۔ یہ تمام مختلف حصے کس چیز کو مختصراً بیان کرتے ہیں؟ یہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ان مختلف حصوں کے مندرجات شریعت کے دور کے ضوابط سے زیادہ بلند، زیادہ ٹھوس اور لوگوں کی زندگیوں کے قریب تر ہیں۔ جدید اصطلاحات میں بات کریں تو یہ چیزیں لوگوں کے اصل عمل سے زیادہ متعلقہ ہیں۔

آؤ ہم مندرجہ ذیل مخصوص مواد کے بارے میں پڑھیں: تجھے مبارک لوگوں کو کیسے سمجھنا چاہیے؟ تجھے شریعت کے بارے میں کیا جاننا چاہیے؟ غصے کی تشریح کیسے کی جائے؟ زناکاروں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے؟ طلاق کے بارے میں بات کیسے کی جائے اور اس کے لیے کس قسم کے اصول ہیں؟ کون طلاق لے سکتا ہے اور کون طلاق نہیں لے سکتا ہے؟ قسموں، آنکھ کے بدلے آنکھ، اپنے دشمنوں سے پیار کرنے اور خیرات کرنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ وغیرہ۔ ان تمام چیزوں کا تعلق بنی نوع انسان کے خدا پر ایمان کے عمل کے ہر پہلو اور اس کی خدا کی پیروی کے ساتھ ہے۔ ان طریقوں میں سے کچھ آج بھی قابل اطلاق ہیں، حالانکہ وہ اس سے زیادہ سطحی ہیں جو اس وقت لوگوں کی ضرورت ہے – یہ کافی بنیادی سچائیاں ہیں جن کا سامنا لوگ خدا پر اپنے ایمان میں کرتے ہیں۔ جب سے خُداوند یسوع نے کام کرنا شروع کیا، وہ انسانوں کے طرزِ زندگی پر پہلے ہی کام کرنا شروع کر رہا تھا، لیکن اُس کے کام کے یہ پہلو شریعت کی بنیاد پر تھے۔ کیا ان موضوعات پر بات کرنے کے اصولوں اور طریقوں کا سچائی سے کوئی تعلق تھا؟ یقینا ان کا تعلق تھا! تمام سابقہ ​​ضابطے اور اصول، نیز فضل کے دور میں یہ وعظ، خُدا کے مزاج اور جو کچھ اُس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، کا یقیناً سچائی کے ساتھ تعلق تھا۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ خدا کیا اظہار کرتا ہے، اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ اظہار کا کون سا طریقہ یا زبان استعمال کرتا ہے، وہ جن چیزوں کا اظہار کرتا ہے ان سب کی بنیاد، اصل اور نقطہ آغاز اس کے مزاج اور جو اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، کے اصولوں پر ہے۔ یہ بالکل سچ ہے۔ لہٰذا اگرچہ اس کی کہی ہوئی یہ باتیں اب قدرے سطحی معلوم ہوتی ہیں، پھر بھی تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ سچ نہیں ہیں، کیونکہ وہ ایسی چیزیں تھیں جو لوگوں کے لیے فضل کے دور میں اپنی زندگی کے مزاج میں تبدیلی کے لیے خدا کی مرضی کو پورا کرنے کے لیے ناگزیر تھیں۔ کیا تو کہہ سکتا ہے کہ ان وعظوں میں سے کوئی ایک بھی سچ کے مطابق نہیں ہے؟ نہیں تو نہیں کہہ سکتا! ان میں سے ہر ایک سچ ہے کیونکہ وہ سب بنی نوع انسان کے لیے خدا کے تقاضے تھے؛ وہ تمام خدا کی طرف سے دیے گئے اصول اور دائرہ کار تھے، جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کسی کو اپنا طرز عمل کیسا رکھنا چاہیے، اور وہ خدا کے مزاج کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تاہم، اس وقت کی زندگی میں ان کی ترقی کی سطح کی بنیاد پر، یہ صرف وہی چیزیں تھیں جنہیں وہ قبول کرنے اور سمجھنے کے قابل تھے۔ کیونکہ بنی نوع انسان کے گناہ کا معاملہ ابھی تک حل نہیں ہوا تھا، بس یہی الفاظ تھے جو خداوند یسوع جاری کر سکتا تھا، اور وہ صرف اس قسم کے دائرہ کار میں موجود سادہ تعلیمات کو استعمال کر کے اس وقت کے لوگوں کو بتا سکتا تھا کہ انھیں کیسے عمل کرنا چاہیے، انھیں کیا کرنا چاہیے، انھیں کن اصولوں اور دائرہ کار کے اندر کام کرنا چاہیے، اور انھیں کیسے خدا پر ایمان لانا اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے۔ یہ سب کچھ اس وقت بنی نوع انسان کی حیثیت کی بنیاد پر طے کیا گیا تھا۔ شریعت کے تحت رہنے والے لوگوں کے لیے ان تعلیمات کو قبول کرنا آسان نہیں تھا، لہٰذا خداوند یسوع نے جو کچھ سکھایا اسے اس دائرہ کار میں رہنا تھا۔

اس کے بعد، آؤ ”خداوند یسوع کی تمثیلوں“ کے مختلف مواد پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

پہلی مثال بیج بونے والے کی ہے۔ یہ ایک بہت ہی دلچسپ تمثیل ہے؛ لوگوں کی زندگیوں میں بیج بونا ایک عام واقعہ ہے۔ دوسری تمثیل کڑوے دانوں کی ہے۔ کوئی بھی جس نے فصلیں لگائی ہوں، اور یقینی طور پر تمام بالغ، یہ جان لیں گے کہ ”کڑوے دانے“ کیا ہیں۔ تیسرا رائی کے دانے کی تمثیل ہے۔ تم سب جانتے ہو کہ رائی کیا ہے، کیا تم نہیں جانتے؟ اگر تم نہیں جانتے تو تم انجیل پر ایک نظر ڈال سکتے ہو۔ چوتھی تمثیل خمیر کی تمثیل ہے۔ اب، زیادہ تر لوگ جانتے ہیں کہ خمیر کو خمیر اٹھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اور یہ وہ چیز ہے جسے لوگ اپنی روزمرہ کی زندگی میں استعمال کرتے ہیں۔ مزید تمثیلیں، بشمول چھٹی، خزانے کی تمثیل؛ ساتویں، موتی کی تمثیل؛ اور آٹھویں، جال کی تمثیل، یہ سب لوگوں کی حقیقی زندگیوں سے لی گئی اور حاصل کی گئی تھیں۔ یہ تمثیلیں کس قسم کی تصویر بناتی ہیں؟ یہ زندگی کی زبان، انسانی زبان کا استعمال کرتے ہوئے، انسانوں کے ساتھ بات چیت کرنے اور انھیں اپنی ضرورت کی چیزیں فراہم کرنے کے لیے خدا کے ایک عام انسان بننے اور بنی نوع انسان کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی تصویر ہے۔ جب خدا جسم بن گیا اور انسانوں کے درمیان طویل عرصے تک زندہ رہا اور جب اس نے لوگوں کے مختلف طرز زندگی کا تجربہ اور مشاہدہ کر لیا تو یہ تجربات اس کا تدریسی مواد بن گئے جس کے ذریعے اس نے اپنی الوہی زبان کو انسانی زبان میں تبدیل کر لیا۔ یہ چیزیں جو اس نے زندگی میں دیکھی اور سنیں، انھوں نے ابن آدم کے انسانی تجربے کو بھی یقیناً زیادہ بڑھایا۔ جب وہ چاہتا تھا کہ لوگ کچھ سچائیوں کو سمجھیں، کچھ خدا کی مرضی کو سمجھیں، تو وہ لوگوں کو خدا کی مرضی اور بنی نوع انسان کے لیے اس کے تقاضوں کے بارے میں بتانے کے لیے اوپر کی طرح کی تمثیلوں کا استعمال کر سکتا تھا۔ یہ تمام تمثیلیں لوگوں کی زندگیوں سے متعلق تھیں؛ کوئی ایک بھی ایسی نہیں تھی جس کا تعلق انسانی زندگیوں سے نہیں تھا۔ جب خُداوند یسوع بنی نوع انسان کے ساتھ رہتا تھا تو اُس نے کسانوں کو اپنے کھیتوں کی دیکھ بھال کرتے دیکھا اور وہ جانتا تھا کہ کڑوے دانے کیا ہوتے ہیں اور خمیر کیا ہوتا ہے؛ اسے سمجھ تھی کہ انسان خزانے سے محبت کرتے ہیں، اس لیے اس نے خزانے اور موتی دونوں کے استعارے استعمال کیے ہیں۔ زندگی میں، اس نے اکثر ماہی گیروں کو جال ڈالتے دیکھا تھا؛ خداوند یسوع نے یہ اور انسانی زندگی سے متعلق دیگر سرگرمیوں کو دیکھا تھا، اور اس نے اس قسم کی زندگی کا تجربہ بھی کیا تھا۔ کسی بھی دوسرے عام انسان کی طرح، اس نے انسانی روزمرہ کے معمولات اور دن میں تین وقت کے کھانے کا تجربہ کیا۔ اس نے ذاتی طور پر ایک اوسط شخص کی زندگی کا تجربہ کیا، اور دوسروں کی زندگیوں کا مشاہدہ کیا۔ جب اس نے ان سب کا مشاہدہ کیا اور ذاتی طور پر تجربہ کیا، تو اس نے جو سوچا وہ یہ نہیں تھا کہ اچھی زندگی کیسے حاصل کی جائے یا وہ زیادہ آزاد اور آرام سے کیسے رہ سکتا ہے۔ اس کی بجائے، حقیقی انسانی زندگی کے اپنے تجربات سے، خداوند یسوع نے لوگوں کی زندگیوں میں مشکلات کو دیکھا۔ اس نے شیطان کے زیر تسلط رہنے والے اور شیطان کی بدعنوانی کے تحت گناہ کی زندگی بسر کرنے والے لوگوں کی مشکلات، بدحالی اور اداسی کو دیکھا۔ جب وہ ذاتی طور پر انسانی زندگی کا تجربہ کر رہا تھا تو اس نے یہ بھی تجربہ کیا کہ وہ لوگ کتنے بے بس تھے جو بدعنوانی کے درمیان زندگی گزار رہے تھے، اور اس نے گناہ میں زندگی بسر کرنے والے انسانوں کے خراب حالات کو دیکھا اور ان کا تجربہ کیا، جنہوں نے شیطان اور بدی کی طرف سے اذیت کا نشانہ بننے کے دوران تمام سمت کھو دی تھی۔ جب خُداوند یسوع نے اِن چیزوں کو دیکھا تو کیا اُس نے انھیں اپنی الوہیت کے ساتھ دیکھا یا اپنی بنی نوع انسان کے ساتھ؟ اس کی بنی نوع انسان واقعی موجود تھی اور بہت زیادہ زندہ تھی؛ وہ یہ سب دیکھ سکتا تھا اور اس کا تجربہ کر سکتا تھا۔ لیکن یقیناً، اس نے ان چیزوں کو اپنے جوہر میں بھی دیکھا، جو کہ اس کی الوہیت ہے۔ یعنی خود مسیح، خُداوند یسوع جو ایک انسان تھا، نے یہ دیکھا، اور جو کچھ اُس نے دیکھا اُس نے اسے اُس کام کی اہمیت اور ضرورت کا احساس دیا جو اُس نے جسم میں رہتے ہوئے اُس وقت انجام دیا تھا۔ حالانکہ وہ خود جانتا تھا کہ اسے جسم میں جو ذمہ داری اُٹھانے کی ضرورت ہے وہ بہت زیادہ تھی، اور وہ جانتا تھا کہ جب وہ بنی نوع انسان کو گناہ کے عالم میں بے بس دیکھے گا، جب وہ اُن کی زندگیوں کی بدحالی کو دیکھے گا تو وہ درد کس قدر سفاک ہو گا جس کا وہ سامنا کرے گا، اور وہ شریعت کے تحت ان کی کمزور جدوجہد کو دیکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ غمگین ہو گیا، اور بنی نوع انسان کو گناہ سے بچانے کے لیے زیادہ سے زیادہ بے چین ہو گیا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ اسے کس قسم کی مشکلات کا سامنا پڑے یا اسے کس قسم کے درد کا سامنا کرنا پڑے، وہ گناہ کی حالت میں رہنے والی نوع انسانی کی خلاصی کروانے کے لیے زیادہ پرعزم ہو گیا۔ اس عمل کے دوران، تم کہہ سکتے ہو کہ خُداوند یسوع نے زیادہ سے زیادہ واضح طور پر سمجھنا شروع کیا کہ اسے کیا کام کرنے کی ضرورت تھی اور اسے کیا سونپا گیا تھا۔ وہ اس کام کو مکمل کرنے کے لیے بھی زیادہ بے تاب ہو گیا جو اسے شروع کرنا تھا – بنی نوع انسان کے تمام گناہوں کو قبول کرنے کے لیے، بنی نوع انسان کے لیے کفارہ ادا کرنے کے لیے تاکہ وہ مزید گناہ میں زندہ نہ رہے، اور اسی وقت گناہ کے کفارے کی ادائیگی کی وجہ سے، خدا انسان کے گناہوں کو معاف کرنے کے قابل ہو جائے گا، جس کی وجہ سے وہ بنی نوع انسان کو بچانے کے اپنے کام کو جاری رکھ سکے گا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ خُداوند یسوع اپنے دل میں، بنی نوع انسان کے لیے اپنے آپ کو قربان کرنے کے لیے پیش کرنے پر تیار تھا۔ وہ گناہ کے کفارے کے طور پر کام کرنے، صلیب پر میخوں سے جڑنے کے لیے بھی تیار تھا، اور درحقیقت وہ اس کام کو مکمل کرنے کے لیے بے تاب تھا۔ جب اس نے انسانی زندگی کے خراب حالات کو دیکھا، تو اس نے ایک منٹ یا ایک سیکنڈ کی تاخیر کیے بغیر اپنی ذمہ داری کو مزید جلد از جلد پورا کرنا چاہا۔ اتنی عجلت کو محسوس کرتے ہوئے، اس نے یہ سوچا ہی نہیں کہ اس کا اپنا درد کتنا بڑا ہو گا، اور نہ ہی اسے اس بات کا مزید کوئی خوف تھا کہ اسے کتنی ذلت برداشت کرنی پڑے گی۔ اس کے اپنے دل میں صرف ایک یقین تھا: جب وہ اپنے آپ کو پیش کرے گا، جب وہ گناہ کے کفارے کے طور پر صلیب پر میخوں سے جڑا جائے گا، تب خدا کی مرضی پوری ہو گی اور خدا نیا کام شروع کرنے کے قابل ہو گا۔ بنی نوع انسان کی زندگی اور اس کے گناہ کی حالت میں موجود ہونا مکمل طور پر تبدیل ہو جائے گا۔ اس کا یقین اور جو اس نے کرنے کا عزم کیا تھا اس کا تعلق انسان کو بچانے سے تھا، اور اس کا صرف ایک مقصد تھا، جو کہ خدا کی مرضی پوری کرنا تھا تاکہ خدا اپنے کام کے اگلے مرحلے کو کامیابی سے شروع کر سکے۔ یہ وہی تھا جو اس وقت خداوند یسوع کے ذہن میں تھا۔

جسم میں رہتے ہوئے، مجسم خدا معمول کی بنی نوع انسان کا حامل تھا؛ اس کے پاس ایک عام آدمی کے جذبات اور عقلیت تھی۔ وہ جانتا تھا کہ خوشی کیا ہے، دکھ کیا ہے، اور جب اس نے انسانوں کو اس قسم کی زندگی گزارتے دیکھا تو اس نے شدت سے محسوس کیا کہ لوگوں کو محض کچھ تعلیم دینا، انھیں کچھ فراہم کرنا یا کچھ سکھانا، انھیں گناہ سے نکالنے کے لیے کافی نہیں ہو گا۔ نہ ہی ان سے صرف احکام کی تعمیل کروانے سے انھیں گناہ سے چھٹکارا مل سکتا ہے – صرف اس صورت میں کہ جب اس نے بنی نوع انسان کے گناہ کو قبول کر لیا اور گناہ گار جسم کی طرح بن گیا تو تب ہی وہ بدلے میں بنی نوع انسان کی آزادی اور خدا کی بخشش جیت سکا۔ چنانچہ خداوند یسوع کے لوگوں کی زندگیوں کا گناہ کی حالت میں تجربہ کرنے اور اس کا مشاہدہ کرنے کے بعد، اس کے دل میں ایک شدید خواہش ظاہر ہوئی – انسانوں کو گناہ میں جدوجہد کرنے والی ان کی زندگیوں سے انھیں آزاد کروانے کا موقع دینا۔ اس خواہش نے اسے زیادہ سے زیادہ احساس دلایا کہ اسے صلیب پر جانا چاہیے اور بنی نوع انسان کے گناہوں کو جتنا جلد اور تیزی سے ممکن ہو سکے قبول کرنا چاہیے۔ جب اُس نے لوگوں کے ساتھ رہنے اور گناہ کی حالت میں اُن کی زندگیوں کے دکھوں کو دیکھا، سُنا اور محسوس کیا تو اُس وقت خُداوند یسوع کے خیالات یہ تھے۔ یہ کہ مجسم خدا بنی نوع انسان کے لیے اس قسم کی مرضی کا حامل ہو سکتا ہے، کہ وہ اس قسم کے مزاج کو بیان اور ظاہر کر سکتا ہے – کیا یہ ایسی چیز ہے جو ایک عام انسان کے پاس ہو سکتی ہے؟ اس قسم کے ماحول میں رہنے والا ایک اوسط شخص کیا دیکھے گا؟ وہ کیا سوچے گا؟ اگر ایک اوسط فرد کو ان سب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو کیا وہ مسائل کو بلند نقطہ نظر سے دیکھے گا؟ یقیناً نہیں! اگرچہ مجسم خدا کی ظاہری شکل بالکل انسان جیسی ہے، اور اگرچہ وہ انسانی علم سیکھتا ہے اور انسانی زبان بولتا ہے، اور حتیٰ کہ بعض اوقات اپنے خیالات کا اظہار بنی نوع انسان کے اپنے طریقوں یا بولنے کے طریقوں سے بھی کرتا ہے، اس کے باوجود جس طریقے سے وہ انسانوں کو دیکھتا ہے اور چیزوں کے جوہر کو دیکھتا ہے وہ بالکل ویسا نہیں ہے جیسا کہ بدعنوان لوگ بنی نوع انسان کو دیکھتے ہیں اور چیزوں کے جوہر کو دیکھتے ہیں۔ اس کا نقطہ نظر اور جس بلندی پر وہ کھڑا ہے، وہ ایک بدعنوان شخص کے لیے ناقابل حصول ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا سچائی ہے، کیونکہ جو جسم وہ پہنتا ہے اس میں بھی خدا کا جوہر ہے، اور اس کے خیالات اور جو اس کی بنی نوع انسان سے ظاہر ہوتا ہے وہ بھی سچائی ہے۔ بدعنوان لوگوں کے لیے، وہ جسم میں جس چیز کا اظہار کرتا ہے وہ سچائی اور زندگی کی فراہمی ہے۔ یہ فراہمی صرف ایک شخص کے لیے نہیں ہے، بلکہ تمام بنی نوع انسان کے لیے ہے۔ کسی بھی بدعنوان شخص کے دل میں صرف وہی چند لوگ ہوتے ہیں جو اس سے منسلک ہوتے ہیں۔ وہ صرف ان مٹھی بھر لوگوں کی پروا کرتا ہے اور ان کے لیے فکر مند ہوتا ہے۔ جب تباہی افق پر نمودار ہوتی ہے تو وہ سب سے پہلے اپنے بچوں، شریک حیات یا والدین کے بارے میں سوچتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ، ایک زیادہ رحمدل شخص کسی رشتے دار یا اچھے دوست کے لیے کچھ نہ کچھ سوچے گا، لیکن کیا ایسے ہمدرد شخص کے خیالات بھی اس سے زیادہ آگے بڑھ سکتے ہیں؟ کبھی نہیں! کیونکہ انسان، آخر کار، انسان ہیں، اور وہ ہر چیز کو انسان کی بلندی اور نقطہ نظر سے ہی دیکھ سکتے ہیں۔ تاہم، مجسم خدا ایک بدعنوان انسان سے بالکل مختلف ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ خدا کا مجسم جسم کتنا ہی معمولی، کتنا ہی عام، کتنا ہی نیچ ہے، یا حتیٰ کہ لوگ اسے کس قدر حقارت سے دیکھتے ہیں، اس کے خیالات اور بنی نوع انسان کے بارے میں اس کا رویہ ایسی چیزیں ہیں جو کوئی انسان نہیں رکھتا، جس کی کوئی انسان نقل نہیں کر سکتا۔ وہ ہمیشہ بنی نوع انسان کو الوہیت کے نقطہ نظر سے، خالق کے طور پر اپنے مقام کی بلندی سے دیکھے گا۔ وہ بنی نوع انسان کو ہمیشہ خدا کے جوہر اور ذہنیت کے ذریعے دیکھے گا۔ وہ بنی نوع انسان کو کسی اوسط درجے کے انسان کی حقیر سطح سے یا بدعنوان شخص کے نقطہ نظر سے بالکل نہیں دیکھ سکتا۔ جب لوگ بنی نوع انسان کو دیکھتے ہیں، تو وہ انسانی بصیرت کے ساتھ ایسا کرتے ہیں، اور وہ انسانی علم اور انسانی اصولوں اور نظریات جیسی چیزوں کو اپنی پیمائش کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہ اس دائرہ کار کے اندر ہے جو لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اور ایسا دائرہ کار جو بدعنوان لوگوں کے لیے قابل حصول ہے۔ جب خدا بنی نوع انسان کو دیکھتا ہے، تو وہ الوہی نظر سے دیکھتا ہے، اور ایک پیمائش کے طور پر وہ اپنے جوہر کو استعمال کرتا ہے اور جو اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے۔ اس دائرہ کار میں وہ چیزیں شامل ہیں جنہیں لوگ نہیں دیکھ سکتے، اور یہ وہ مقام ہے جہاں مجسم خدا اور بدعنوان انسان بالکل مختلف ہیں۔ یہ فرق انسانوں اور خدا کے مختلف جوہروں سے متعین ہوتا ہے – یہ مختلف جوہر ہیں جو ان کی شناخت اور مقام کے ساتھ ساتھ اس نقطہ نظر اور بلندی کا تعین کرتے ہیں جس سے وہ چیزوں کو دیکھتے ہیں۔ کیا تم خداوند یسوع میں خود خدا کے اظہار اور انکشاف کو دیکھتے ہو؟ تم کہہ سکتے ہو کہ خداوند یسوع نے جو کچھ کیا اور کہا اس کا تعلق اس کی ذمہ داری اور خدا کے اپنے انتظامی کام سے تھا، کہ یہ سب خدا کے جوہر کا اظہار اور انکشاف تھا۔ اگرچہ اس کا ایک انسانی ظہور تھا، لیکن اس کے الوہی جوہر اور اس کی الوہیت کے انکشاف سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کیا یہ انسانی مظہر واقعی بنی نوع انسان کا مظہر تھا؟ اس کا انسانی مظہر، اپنے جوہر کی وجہ سے، بدعنوان لوگوں کے انسانی مظہر سے بالکل مختلف تھا۔ خداوند یسوع مجسم خدا تھا۔ اگر وہ واقعی عام، بدعنوان لوگوں میں سے ایک ہوتا، تو کیا وہ انسان کی گناہ کی حالت میں زندگی کو الوہی نقطہ نظر سے دیکھ سکتا تھا؟ بالکل نہیں! ابن آدم اور عام لوگوں میں یہی فرق ہے۔ تمام بدعنوان لوگ گناہ کی حالت میں رہتے ہیں، اور جب کوئی گناہ کو دیکھتا ہے، تو وہ اس کے بارے میں کوئی خاص احساس نہیں رکھتا؛ وہ سب ایک جیسے ہیں، کیچڑ میں رہنے والے خنزیر کی طرح جو بالکل بھی بے سکونی یا گندگی محسوس نہیں کرتا – اس کے برعکس، وہ خوب کھاتا ہے اور اچھی طرح سوتا ہے۔ اگر کوئی خنزیر کے باڑے کو صاف کرتا ہے، تو خنزیر درحقیقت بے سکونی محسوس کرے گا، اور وہ صاف نہیں رہے گا۔ کچھ ہی دیر میں، یہ ایک بار پھر کیچڑ میں لڑھکنے لگے گا، مکمل طور پر سکون محسوس کرتے ہوئے، کیونکہ یہ ایک غلیظ مخلوق ہے۔ انسان خنزیر کو غلیظ سمجھتے ہیں، لیکن اگر تو خنزیر کے رہنے کی جگہ کو صاف کرتا ہے، تو اسے کچھ بہتر محسوس نہیں ہوتا – یہی وجہ ہے کوئی بھی اپنے گھر میں خنزیر نہیں رکھتا۔ انسانوں کا خنزیروں کو دیکھنے کا انداز ہمیشہ اس سے مختلف ہو گا کہ خنزیر خود کیسا محسوس کرتے ہیں، کیونکہ انسان اور خنزیر ایک ہی قسم کے نہیں ہیں۔ اور چونکہ مجسم ابن آدم بدعنوان انسانوں کی طرح نہیں ہے، اس لیے صرف مجسم خدا ہی ایک الوہی نقطہ نظر پر کھڑا ہو سکتا ہے، خدا کی بلندی پر، جہاں سے وہ بنی نوع انسان اور ہر چیز کو دیکھتا ہے۔

ان مصائب کے بارے میں کیا ہے جن کا تجربہ خُدا اس وقت کرتا ہے جب وہ جسم بن جاتا ہے اور بنی نوع انسان کے درمیان رہتا ہے؟ یہ کیا تکلیف ہے؟ کیا کوئی واقعی سمجھتا ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ خدا کو بہت تکلیف پہنچتی ہے، اگرچہ وہ خود خدا ہے لیکن لوگ اس کے جوہر کو نہیں سمجھتے، بلکہ اس کے ساتھ ہمیشہ ایک شخص کی طرح برتاؤ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ شاکی ہوتا ہے اور ناانصافی محسوس کرتا ہے – ان وجوہات کی وجہ سے وہ کہتے ہیں کہ خدا کا تکلیف اٹھانا واقعی بہت اچھا ہے۔ دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ خدا معصوم اور گناہ سے پاک ہے، لیکن یہ کہ وہ بنی نوع انسان کی طرح ہی دکھ جھیلتا ہے، کہ وہ بنی نوع انسان کے ساتھ ظلم، بہتان طرازی اور بے عزتی برداشت کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے پیروکاروں کی غلط فہمیوں اور نافرمانیوں کو بھی برداشت کرتا ہے – اس طرح، وہ کہتے ہیں کہ خدا کے مصائب کا صحیح معنوں میں اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ اب، ایسا لگتا ہے کہ تم خدا کو صحیح معنوں میں نہیں سمجھتے۔ درحقیقت، یہ تکلیف جس کی تم بات کرتے ہو خدا کے لیے حقیقی تکلیف میں شمار نہیں ہوتی، کیونکہ اس سے بھی بڑی تکلیف ہے۔ تو پھر خود خدا کے لیے حقیقی تکلیف کیا ہے؟ خدا کے مجسم جسم کے لیے حقیقی تکلیف کیا ہے؟ خدا کے لیے، انسانوں کا اسے نہ سمجھنے اور نہ ہی لوگوں کا خدا کے بارے میں کچھ غلط فہمی کا شکار ہونے اور اسے خدا کے طور پر نہ دیکھنے کا شمار تکلیف میں نہیں ہوتا۔ تاہم، لوگ اکثر یہ محسوس کرتے ہیں کہ خدا نے یقیناً بڑی ناانصافی کا سامنا کیا ہے، کہ جو وقت خدا جسم میں گزارتا ہے، اس دوران وہ بنی نوع انسان کو اپنی شخصیت نہیں دکھا سکتا اور لوگوں کو اپنی عظمت کو دیکھنے کا موقع نہیں دے سکتا، اور یہ کہ خدا عاجزی کے ساتھ ایک معمولی جسم میں چھپا ہوا ہے، اور یہ کہ یہ اس کے لیے لازمی طور پر بہت بڑا عذاب ہو گا۔ لوگ خدا کی تکالیف کو جس طرح سمجھ سکتے اور دیکھ سکتے ہیں، وہ اس بات کو دل پر لے لیتے ہیں، اور خدا سے ہر طرح کی ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور اس کے تکلیف برداشت کرنے پر اکثر اس کی تھوڑی بہت تعریف بھی کر دیتے ہیں۔ حقیقت میں، ایک فرق ہے؛ لوگ خدا کے مصائب کے بارے میں جو سمجھتے ہیں اور جو وہ واقعی محسوس کرتا ہے، اس کے درمیان ایک خلا ہے۔ میں تمہیں سچ بتا رہا ہوں – خدا کے لیے، چاہے وہ خدا کی روح ہو یا مجسم خدا، اوپر بیان کی گئی تکلیف حقیقی تکلیف نہیں ہے۔ تو پھر اصل میں خدا کس تکلیف میں مبتلا ہے؟ آؤ خدا کے مصائب کے بارے میں صرف مجسم خدا کے کے نقطہ نظر سے بات کریں۔

جب خدا جسم بن جاتا ہے، ایک اوسط درجے کا، عام انسان بن جاتا ہے، بنی نوع انسان کے درمیان لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے، تو کیا وہ زندگی گزارنے کے لیے لوگوں کے طریقوں، قوانین اور فلسفوں کو دیکھ نہیں سکتا اور محسوس نہیں کر سکتا؟ زندگی گزارنے کے ان طریقوں اور قوانین سے وہ کیسا محسوس کرتا ہے؟ کیا وہ اپنے دل میں نفرت محسوس کرتا ہے؟ وہ نفرت کیوں محسوس کرے گا؟ بنی نوع انسان کے زندگی گزارنے کے طریقے اور قوانین کیا ہیں؟ ان کی جڑ کن اصولوں میں ہے؟ وہ کس بنیاد پر ہیں؟ بنی نوع انسان کے طریقے، قوانین اور اسی طرح جیسے کہ وہ زندگی گزارنے کے طریقے سے متعلق ہیں – یہ سب شیطان کی منطق، علم اور فلسفے کی بنیاد پر تخلیق کیے گئے ہیں۔ اس قسم کے قوانین کے تحت رہنے والے انسانوں میں کوئی بنی نوع انسان نہیں ہے، کوئی سچائی نہیں ہے – وہ سب سچائی سے انکار کرتے ہیں اور خدا کے دشمن ہیں۔ اگر ہم خدا کے جوہر پر ایک نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا جوہر شیطان کی منطق، علم اور فلسفے کے بالکل برعکس ہے۔ اس کا جوہر راستبازی، سچائی اور تقدس اور تمام مثبت چیزوں کی دیگر حقیقتوں سے بھرا ہوا ہے۔ خدا جو اس جوہر کا حامل ہے اور ایسی نوع انسانی کے درمیان رہتا ہے، کیا محسوس کرتا ہے؟ وہ اپنے دل میں کیا محسوس کرتا ہے؟ کیا یہ درد سے بھرا ہوا نہیں ہے؟ اس کا دل درد میں ہے، ایسا درد جسے کوئی شخص سمجھ نہیں سکتا اور نہ ہی اس کا تجربہ کر سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر وہ چیز جس کا وہ سامنا کرتا ہے، جس سے ملتا ہے، جسے سنتا ہے، دیکھتا ہے، اور جس کا تجربہ کرتا ہے، یہ سب بنی نوع انسان کی بدعنوانی، برائی اور سچائی کے خلاف اس کی بغاوت اور مزاحمت ہے۔ جو کچھ انسانوں کی طرف سے آتا ہے وہ اس کے مصائب کا سبب ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ اس کا جوہر بدعنوان انسانوں جیسا نہیں ہے، اس لیے انسانوں کی بدعنوانی اس کی سب سے بڑی مصیبت کا باعث بنتی ہے۔ جب خدا جسم بن جاتا ہے، تو کیا وہ کسی ایسے شخص کو تلاش کرنے کے قابل ہوتا ہے جو اس کی زبان سمجھ سکے؟ نوع انسانی میں ایسا انسان نہیں مل سکتا۔ کوئی ایسا شخص نہیں مل سکتا جو خدا کے ساتھ ابلاغ کر سکے یا جس کے ساتھ یہ تبادلہ ہو سکے – تیرا کیا کہنا ہے کہ خدا اس کے بارے میں کس طرح کا احساس رکھتا ہے؟ جن چیزوں پر لوگ بحث کرتے ہیں، جن سے محبت کرتے ہیں، جن کی جستجو کرتے ہیں اور جن کی شدید آرزو کرتے ہیں ان سب کا تعلق گناہ اور برے رجحانات سے ہے۔ جب خدا ان سب کا سامنا کرتا ہے تو کیا یہ اس کے دل میں چھری کی طرح نہیں لگتا ہے؟ ان چیزوں کا سامنا کرتے ہوئے، کیا وہ اپنے دل میں خوشی حاصل کر سکتا ہے؟ کیا اسے تسلی مل سکتی ہے؟ جو اس کے ساتھ رہ رہے ہیں وہ سرکشی اور برائی سے بھرے ہوئے انسان ہیں – اس کا دل کیسے تکلیف میں نہیں ہو سکتا؟ یہ مصیبت واقعی کتنی بڑی ہے، اور کون اس کی پروا کرتا ہے؟ کون دھیان دیتا ہے؟ اور کون اس کی قدر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ لوگوں کے پاس خدا کے دل کو سمجھنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ اس کی تکلیف ایسی ہے جس کی قدر کرنے سے لوگ خاص طور پر قاصر ہیں، اور بنی نوع انسان کی سرد مہری اور بے حسی خدا کے دکھ کو مزید گہرا کر دیتی ہے۔

کچھ لوگ ہیں جو مسیح کی حالتِ زار سے اکثر ہمدردی کرتے ہیں کیونکہ انجیل میں ایک آیت ہے جو کہتی ہے: ”یِسُوعؔ نے اُس سے کہا کہ لومڑِیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرِندوں کے گھونسلے مگر اِبنِ آدمؔ کے لِئے سر دھرنے کی بھی جگہ نہیں۔“ جب لوگ یہ سنتے ہیں، تو وہ اسے دل پر لے لیتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ یہ سب سے بڑی مصیبت ہے جسے خدا برداشت کرتا ہے، اور سب سے بڑی مصیبت ہے جو مسیح برداشت کرتا ہے۔ اب اس کو حقائق کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو کیا ایسا ہی معاملہ ہے؟ نہیں؛ خدا ان مشکلات کے مصائب ہونے کو نہیں مانتا۔ اس نے اپنی جسمانی مشکلات کی وجہ سے کبھی ناانصافی کے خلاف آواز نہیں اٹھائی، اور اس نے کبھی انسانوں کو مجبور نہیں کیا کہ اس کو بدلہ یا جزا دیں۔ تاہم، جب وہ بنی نوع انسان اور بدعنوان زندگیوں اور بدعنوان انسانوں کی برائیوں کے بارے میں سب کچھ دیکھتا ہے، جب وہ دیکھتا ہے کہ نوع انسانی شیطان کی گرفت میں ہے اور شیطان کی قید میں ہے اور بچ نہیں سکتی ہے، کہ گناہ کی حالت میں رہنے والے لوگ نہیں جانتے کہ حقیقت کیا ہے، تو وہ ان تمام گناہوں کو برداشت نہیں کر سکتا۔ انسانوں سے اس کی نفرت روز بروز بڑھتی جاتی ہے لیکن اسے یہ سب برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہ خدا کی بڑی تکلیف ہے۔ خدا اپنے پیروکاروں کے درمیان اپنے دل کی آواز یا اپنے جذبات کو بھی پوری طرح سے بیان نہیں کر سکتا، اور اس کے پیروکاروں میں سے کوئی بھی اس کے دکھ کو صحیح معنوں میں نہیں سمجھ سکتا۔ کوئی بھی اس کے دل کو سمجھنے یا تسلی دینے کی کوشش تک نہیں کرتا جو اس تکلیف کو دن بہ دن، سال بہ سال اور بار بار برداشت کرتا ہے۔ تم اس سب میں کیا دیکھتے ہو؟ خدا نے جو کچھ دیا ہے اس کے بدلے میں وہ انسانوں سے کچھ نہیں مانگتا، لیکن خدا کے جوہر کی وجہ سے وہ انسانوں کی برائیوں، بدعنوانیوں اور گناہ کو قطعی طور پر برداشت نہیں کر سکتا اور اس کی بجائے شدید حقارت اور نفرت محسوس کرتا ہے، جو خدا کے دل اور اس کے جسم کے لیے لامتناہی تکلیف کا سبب بنتی ہے۔ کیا تم نے اسے دیکھا ہے؟ غالباً، تم میں سے کوئی بھی اسے نہیں دیکھ سکتا، کیونکہ تم میں سے کوئی بھی خدا کو صحیح معنوں میں نہیں سمجھ سکتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ، تمہیں آہستہ آہستہ اپنے لیے اس کا تجربہ کرنا چاہیے۔

اس کے بعد آؤ ہم صحیفے کے درج ذیل اقتباسات کو دیکھتے ہیں:

9۔ یسوع معجزات کرتا ہے

ا۔ یسوع پانچ ہزار کو کھانا کھلاتا ہے

یُوحنّا 6: 8-13 اُس کے شاگِردوں میں سے ایک نے یعنی شمعُوؔن پطرس کے بھائی اندرؔیاس نے اُس سے کہا۔ یہاں ایک لڑکا ہے جِس کے پاس جَو کی پانچ روٹِیاں اور دو مچھلِیاں ہیں مگر یہ اِتنے لوگوں میں کیا ہیں؟ یِسُوعؔ نے کہا کہ لوگوں کو بِٹھاؤ اور اُس جگہ بُہت گھاس تھی۔ پس وہ مَرد جو تخمِیناً پانچ ہزار تھے بَیٹھ گئے۔ یِسُوعؔ نے وہ روٹِیاں لِیں اور شُکر کر کے انھیں جو بَیٹھے تھے بانٹ دِیں اور اِسی طرح مچھلِیوں میں سے جِس قدر چاہتے تھے بانٹ دِیا۔ جب وہ سیر ہو چُکے تو اُس نے اپنے شاگِردوں سے کہا کہ بچے ہُوئے ٹُکڑوں کو جمع کرو تاکہ کُچھ ضائع نہ ہو۔ چُنانچہ اُنہوں نے جمع کِیا اور جَو کی پانچ روٹِیوں کے ٹُکڑوں سے جو کھانے والوں سے بچ رہے تھے بارہ ٹوکرِیاں بھرِیں۔

ب۔ لعزر کا دوبارہ زنادہ ہونا خدا کی عظمت بیان کرتا ہے

یُوحنّا 11: 43-44 اور یہ کہہ کر اُس نے بُلند آواز سے پُکارا کہ اَے لعزر نِکل آ۔ جو مَر گیا تھا وہ کفَن سے ہاتھ پاؤں بندھے ہُوئے نِکل آیا اور اُس کا چِہرہ رُومال سے لِپٹا ہُؤا تھا۔ یِسُوعؔ نے اُن سے کہا اُسے کھول کر جانے دو۔

خداوند یسوع کے معجزات میں سے ہم نے صرف ان دو کو چن لیا ہے کیونکہ وہ اس کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں جس کے بارے میں میں یہاں بات کرنا چاہتا ہوں۔ یہ دونوں معجزات واقعی حیران کن ہیں اور ان معجزات کی اعلیٰ مثال ہیں جو خداوند یسوع نے فضل کے دور میں کیے تھے۔

سب سے پہلے، آؤ پہلے اقتباس پر ایک نظر ڈالتے ہیں: یسوع پانچ ہزار کو کھانا کھلاتا ہے۔

”پانچ روٹی کے ٹکڑے اور دو مچھلیوں“ کا نظریہ کیا ہے؟ عام طور پر کتنے لوگوں کو روٹی کے پانچ ٹکڑوں اور دو مچھلیوں سے پیٹ بھر کر کھلایا جا سکتا ہے؟ اگر تم اپنی پیمائش کی بنیاد ایک اوسط شخص کی بھوک پر رکھو تو یہ صرف دو لوگوں کے لیے کافی ہو گا۔ یہ ”پانچ روٹی کے ٹکڑے اور دو مچھلیوں“ کا سب سے بنیادی نظریہ ہے۔ تاہم اس اقتباس سے کتنے لوگوں کو پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں کھلائی گئیں؟ درج ذیل ہے جو صحیفے میں درج ہے: ”اور اُس جگہ بُہت گھاس تھی۔ پس وہ مَرد جو تخمِیناً پانچ ہزار تھے بَیٹھ گئے۔“ پانچ روٹیوں اور دو مچھلیوں کے مقابلے میں کیا پانچ ہزار بڑی تعداد ہے؟ اس تعداد کا بہت زیادہ ہونا کیا ظاہر کرتا ہے؟ انسانی نقطہ نظر سے پانچ روٹیوں اور دو مچھلیوں کو پانچ ہزار لوگوں میں تقسیم کرنا ناممکن ہو گا کیونکہ لوگوں اور کھانے میں فرق بہت زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ اگر ہر شخص کو صرف ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی ملے، تب بھی یہ پانچ ہزار لوگوں کے لیے کافی نہیں ہو گا۔ لیکن یہاں، خداوند یسوع نے ایک معجزہ کیا – اس نے نہ صرف اس بات کو یقینی بنایا کہ پانچ ہزار لوگ پیٹ بھر کر کھا سکیں، بلکہ یہاں تک کہ کھانا بچا بھی تھا۔ صحیفے میں ہے: ”جب وہ سیر ہو چُکے تو اُس نے اپنے شاگِردوں سے کہا کہ بچے ہُوئے ٹُکڑوں کو جمع کرو تاکہ کُچھ ضائع نہ ہو۔ چُنانچہ اُنہوں نے جمع کِیا اور جَو کی پانچ روٹِیوں کے ٹُکڑوں سے جو کھانے والوں سے بچ رہے تھے بارہ ٹوکرِیاں بھرِیں۔“ اس معجزے نے لوگوں کو خداوند یسوع کی شناخت اور حیثیت کو دیکھنے کے قابل بنایا، اور یہ دیکھنے کے کہ خدا کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے – اس طرح، انہوں نے خدا کی مطلق قدرت کی حقیقت کو دیکھا۔ پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں پانچ ہزار لوگوں کو کھلانے کے لیے کافی تھیں، لیکن اگر کوئی کھانا نہ ہوتا تو کیا خدا پانچ ہزار لوگوں کو کھلا سکتا تھا؟ یقیناً وہ کھلاسکتا تھا! یہ ایک معجزہ تھا، اس لیے لامحالہ لوگوں نے محسوس کیا کہ یہ ناقابلِ فہم، ناقابلِ یقین اور پراسرار ہے، لیکن خدا کے لیے ایسا کرنا کچھ بھی نہیں تھا۔ چونکہ یہ خدا کے لیے ایک عام چیز تھی، اس لیے اب اس کی تشریح کیوں کی جائے؟ کیونکہ اس معجزے کے پیچھے جو چیز چھپی ہوئی ہے وہ خداوند یسوع کی مرضی ہے، جس کا انسان نے پہلے کبھی تصور نہیں کیا تھا۔

پہلے ہم یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ پانچ ہزار لوگ کس قسم کے تھے۔ کیا وہ خداوند یسوع کے پیروکار تھے؟ صحیفے سے، ہم جانتے ہیں کہ وہ اس کے پیروکار نہیں تھے۔ کیا وہ جانتے تھے کہ خداوند یسوع کون ہے؟ یقینی طور پر نہیں! کم از کم، وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے سامنے کھڑا شخص مسیح ہے، یا شاید کچھ لوگ صرف اس کا نام جانتے تھے اور ان کاموں کے بارے میں کچھ جانتے تھے یا سنا تھا جو اس نے کیے تھے۔ خداوند یسوع کے بارے میں ان کو تجسس محض اس وقت پیدا ہوا جب انہوں نے اس کے بارے میں کہانیاں سنیں، لیکن تم یقینی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اس کی پیروی کرتے تھے، اسے سمجھنے کا امکان تو بہت کم تھا۔ جب خداوند یسوع نے ان پانچ ہزار لوگوں کو دیکھا، وہ بھوکے تھے اور صرف اپنا پیٹ بھرنے کا سوچ سکتے تھے، چنانچہ اسی پس منظر میں خداوند یسوع نے ان کی خواہش پوری کی۔ جب اس نے ان کی خواہش پوری کی تو اس کے دل میں کیا تھا؟ ان لوگوں کے ساتھ اس کا رویہ کیسا تھا جو صرف پیٹ بھر کر کھانا چاہتے تھے؟ اس وقت، خداوند یسوع کے خیالات اور اس کا رویہ خدا کے مزاج اور جوہر سے متعلق تھا۔ خالی پیٹ کے ساتھ ان پانچ ہزار لوگوں کا سامنا کرتے ہوئے جو صرف پیٹ بھر کر کھانا چاہتے تھے، تجسس اور اس کی امید سے بھرے ان لوگوں کا سامنا کرتے ہوئے، خداوند یسوع نے صرف ان پر فضل کرنے کے لیے اس معجزے کو استعمال کرنے کا سوچا۔ تاہم، اس نے اپنی امیدیں نہیں بڑھائیں کہ وہ اس کے پیروکار بن جائیں، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ صرف تفریح میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور پیٹ بھر کر کھانا چاہتے ہیں، چنانچہ اس نے وہاں جو کچھ اس کے پاس تھا اس کا بہترین استعمال کیا، اور روٹیوں کے پانچ ٹکڑے اور دو مچھلیاں پانچ ہزار لوگوں کو کھلانے کے لیے استعمال کیں۔ اس نے ان لوگوں کی آنکھیں کھولیں جو دلچسپ چیزیں دیکھ کر لطف اندوز ہوتے تھے، جو معجزات کا مشاہدہ کرنا چاہتے تھے، اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے وہ چیزیں دیکھی تھیں جو گوشت پوست کا خدا کر سکتا تھا۔ اگرچہ خداوند یسوع نے ان کے تجسس کو پورا کرنے کے لیے کوئی ٹھوس چیز استعمال کی، لیکن وہ اپنے دل میں پہلے سے ہی جانتا تھا کہ یہ پانچ ہزار لوگ صرف ایک اچھا کھانا چاہتے ہیں، اِس لیے اس نے ان کو تبلیغ نہیں کی اور نہ ہی کچھ کہا – اس نے انھیں صرف یہ معجزہ دیکھنے دیا جیسا کہ یہ ہوا تھا۔ وہ ان لوگوں کے ساتھ بالکل ویسا سلوک نہیں کر سکتا تھا جیسا کہ اس نے اپنے شاگردوں کے ساتھ سلوک کیا تھا جو واقعی اس کی پیروی کرتے تھے، لیکن خدا کے دل میں، تمام مخلوقات اس کی حکمرانی کے تحت ہیں، اور اس نے اپنی نظر میں تمام مخلوقات کو خدا کے فضل سے لطف اندوز ہونے کی اجازت دی جب یہ ضروری تھا۔ اگرچہ یہ لوگ نہیں جانتے تھے کہ وہ کون ہے اور اسے نہیں سمجھے یا روٹیاں اور مچھلیاں کھانے کے بعد بھی اس کے بارے میں کوئی خاص تاثر نہیں دیا یا اس کے لیے شکر گزاری نہیں دکھائی، یہ ایسی چیز نہیں تھی جس کے متعلق خدا نے مسئلہ کھڑا کیا – اس نے ان لوگوں کو خدا کے فضل سے لطف اندوز ہونے کا ایک بہت عمدہ موقع دیا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ خدا جو کچھ کرتا ہے اس میں اصولی ہوتا ہے، کہ وہ ایمان نہ رکھنے والوں پر نظر نہیں رکھتا اور نہ ہی ان کی حفاظت کرتا ہے، اور خاص طور پر، وہ انھیں اپنے فضل سے لطف اندوز ہونے نہیں دیتا۔ کیا حقیقت میں ایسا ہی ہے؟ خدا کی نظر میں، جب تک وہ جاندار ہیں جنہیں اس نے خود تخلیق کیا ہے، وہ ان کا انتظام اور کفالت کرے گا، اور کئی طریقوں سے وہ ان کے ساتھ سلوک کرے گا، اُن کے لیے منصوبہ بنائے گا، اور ان پر حکمرانی کرے گا۔ یہ تمام چیزوں کے بارے میں خدا کے خیالات اور رویہ ہیں۔

اگرچہ وہ پانچ ہزار لوگ جنہوں نے روٹی کے ٹکڑے اور مچھلی کھائی تھی وہ خداوند یسوع کی پیروی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے، لیکن اس نے ان سے کوئی سخت مطالبہ نہیں کیا۔ ایک بار جب وہ پیٹ بھر کر کھا چکے تو کیا تم جانتے ہو کہ خداوند یسوع نے کیا کیا؟ کیا اُس نے اُن کو بالکل کوئی تبلیغ کی؟ یہ کرنے کے بعد وہ کہاں چلا گیا؟ صحیفوں میں درج نہیں ہے کہ خُداوند یسوع نے اُن سے کچھ کہا، بس وہ اپنا معجزہ دکھانے کے بعد خاموشی سے چلا گیا۔ تو کیا اس نے ان لوگوں سے کوئی تقاضے کیے؟ کیا کوئی نفرت تھی؟ نہیں، یہاں ان میں سے کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ اب ان لوگوں پر بالکل کوئی توجہ نہیں دینا چاہتا تھا جو اس کی پیروی نہیں کر سکتے تھے، اور اس وقت اس کا دل تکلیف میں تھا۔ کیونکہ اس نے بنی نوع انسان کی اخلاقی بے راہ روی دیکھی تھی اور اس نے انسانیت کی طرف سے خود کو مسترد کیے جانے کو محسوس کیا تھا، جب اس نے ان لوگوں کو دیکھا اور وہ ان کے ساتھ تھا، اسے انسانی کند ذہنی اور جہالت سے دکھ ہوا اور اس کا دل درد میں تھا، وہ بس یہی چاہتا تھا کہ جتنی جلدی ممکن ہو وہ ان لوگوں کو چھوڑ جائے۔ خُداوند نے اپنے دل میں اُن کے لیے کوئی تقاضے نہیں رکھے تھے، وہ اُن پر کوئی دھیان نہیں دینا چاہتا تھا، اور اس سے بھی بڑھ کر وہ ان پر اپنی توانائی خرچ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اس کی پیروی نہیں کر سکتے، لیکن اس سب کے باوجود، ان کے ساتھ اس کا رویہ اب بھی بالکل واضح تھا۔ وہ صرف ان کے ساتھ نرمی سے پیش آنا چاہتا تھا، ان پر فضل کرنا چاہتا تھا، اور درحقیقت اپنی حکمرانی میں ہر مخلوق کے ساتھ خدا کا یہی رویہ تھا – ہر مخلوق کے ساتھ نرمی سے پیش آنا، انھیں فراہم کرنا اور ان کی پرورش کرنا۔ اسی وجہ سے کہ خداوند یسوع مجسم خدا تھا، اس نے قدرتی طور پر خدا کے اپنے جوہر کو ظاہر کیا اور ان لوگوں سے نرمی سے پیش آیا۔ اس نے ان کے ساتھ رحم دلی اور بردباری کے ساتھ سلوک کیا اور ایک ایسے دل کے ساتھ اس نے ان پر مہربانی ظاہر کی۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ان لوگوں نے خداوند یسوع کو کس طرح دیکھا، اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کا نتیجہ کیا ہوا، اس نے ہر مخلوق کے ساتھ تمام مخلوقات کے خداوند کے طور پر اپنے مقام کی بنیاد پر سلوک کیا۔ ہر وہ چیز جو اس نے نازل کی تھی، بغیر کسی استثنا کے، خدا کا مزاج تھا، اور جو اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے۔ خُداوند یسوع نے خاموشی سے یہ کام کیا، اور پھر خاموشی سے چلا گیا – یہ خُدا کے مزاج کا کون سا پہلو ہے؟ کیا تم کہہ سکتے ہو کہ یہ خدا کی شفقت ہے؟ کیا تم کہہ سکتے ہو کہ یہ خدا کی بےغرضی ہے؟ کیا یہ وہ چیز ہے جس کا ایک عام شخص قابل ہے؟ یقیناً نہیں! خلاصہ یہ کہ یہ پانچ ہزار لوگ کون تھے جنہیں خداوند یسوع نے روٹی کے پانچ ٹکڑوں اور دو مچھلیوں سے کھانا کھلایا؟ کیا تم کہہ سکتے ہو کہ یہ وہ لوگ تھے جو اس کے ساتھ مطابقت رکھتے تھے؟ کیا تم کہہ سکتے ہو کہ وہ سب خدا کے دشمن تھے؟ یہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ وہ قطعی طور پر خداوند کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے تھے، اور ان کا جوہر خدا کے بالکل مخالف تھا۔ لیکن خدا نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ اُس نے ان لوگوں کی خدا سے دشمنی کو ختم کرنے کے لیے ایک طریقہ استعمال کیا – اس طریقے کو ”مہربانی“ کہا جاتا ہے۔ یعنی، اگرچہ خُداوند یسوع نے اِن لوگوں کو گناہ گار کے طور پر دیکھا، لیکن خُدا کی نظر میں وہ پھر بھی اُس کی مخلوق تھے، اِس لیے اُس نے پھر بھی اِن گناہ گاروں کے ساتھ حسن سلوک کیا۔ یہ خدا کی رواداری ہے، اور اس رواداری کا تعین خدا کی اپنی شناخت اور جوہر سے ہوتا ہے۔ لہٰذا، یہ وہ چیز ہے جس میں خدا کا تخلیق کردہ کوئی بھی انسان اس قابل نہیں ہے – صرف خدا ہی یہ کر سکتا ہے۔

جب تو انسانیت کے بارے میں خدا کے خیالات اور رویے کی صحیح معنوں میں قدر کرنے کے قابل ہو جائے گا، جب تو ہر مخلوق کے لیے خدا کے جذبات اور تشویش کو صحیح معنوں میں سمجھ سکے گا، تو تُو خالق کے تخلیق کردہ لوگوں میں سے ہر ایک پر خرچ کی جانے والی عقیدت اور محبت کو سمجھ سکے گا۔ جب ایسا ہوتا ہے، تو تُو خدا کی محبت کو بیان کرنے کے لیے دو الفاظ استعمال کرے گا۔ وہ دو الفاظ کیا ہیں؟ کچھ لوگ کہتے ہیں ”بے غرض“ اور کچھ لوگ کہتے ہیں ”انسان دوست“۔ ان دونوں میں سے، ”انسان دوست“ وہ لفظ ہے جو خدا کی محبت کو بیان کرنے کے لیے سب سے کم موزوں ہے۔ یہ ایک ایسا لفظ ہے جسے لوگ کسی ایسے شخص کو بیان کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں جو بہت بڑا یا وسیع النظر ہوتا ہے۔ میں اس لفظ سے نفرت کرتا ہوں، کیونکہ اس سے مراد بے ترتیب، اندھا دھند، اصول کا کوئی لحاظ کیے بغیر خیرات کرنا ہے۔ یہ ایک حد سے زیادہ جذباتی جھکاؤ ہے، جو بے وقوف اور الجھے ہوئے لوگوں کے لیے معمول کی بات ہے۔ جب یہ لفظ خدا کی محبت کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، تو اس کا لامحالہ ایک توہین آمیز مفہوم ہوتا ہے۔ میرے پاس یہاں دو الفاظ ہیں جو خدا کی محبت کو زیادہ مناسب طریقے سے بیان کرتے ہیں۔ وہ کیا ہیں؟ پہلا ”بے پناہ“ ہے۔ کیا یہ لفظ بہت دلکش نہیں ہے؟ دوسرا ”وسیع“ ہے۔ ان الفاظ کے پیچھے حقیقی معنی ہیں جو میں خدا کی محبت کو بیان کرنے کے لیے استعمال کرتا ہوں۔ لفظی طور پر لیا جائے تو ”بے پناہ“ کسی چیز کے حجم یا صلاحیت کو بیان کرتا ہے، لیکن اس بات سے قطع نظر کہ وہ چیز کتنی بڑی ہے، یہ ایسی چیز ہوتی ہے جسے لوگ چھو اور دیکھ سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ موجود ہوتی ہے – یہ کوئی خیالی چیز نہیں ہوتی، بلکہ ایسی چیز ہوتی ہے جو لوگوں کو نسبتاً درست اور عملی انداز میں خیالات دے سکتی ہے۔ چاہے تم اسے دو یا تین جہتی نقطہ نظر سے دیکھو، تمہیں اس کے وجود کا تصور کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جو حقیقت میں حقیقی طور پر موجود ہے۔ اگرچہ خُدا کی محبت کو بیان کرنے کے لیے لفظ ”بے پناہ“ کا استعمال اُس کی محبت کو مقدار میں ظاہر کرنے کی کوشش کی طرح محسوس ہو سکتا ہے، لیکن اس سے یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ اُس کی محبت کی مقدار ناقابلِ پیمائش ہے۔ میں کہتا ہوں کہ خدا کی محبت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کیونکہ اس کی محبت کھوکھلی نہیں ہے، اور نہ ہی یہ ایک افسانوی چیز ہے۔ بلکہ، یہ خدا کی حکمرانی کے تحت تمام چیزوں کے ساتھ مشترکہ چیز ہے، ایسی چیز جس سے تمام مخلوقات مختلف درجوں میں اور مختلف نقطہ نظر سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔ اگرچہ لوگ اسے دیکھ یا چھو نہیں سکتے، لیکن یہ محبت ان کی زندگی میں ہر چیز کے لیے رزق اور زندگی لاتی ہے جیسا کہ یہ ظاہر ہوتا ہے، تھوڑا تھوڑا کر کے، ان کی زندگیوں میں، اور وہ خدا کی محبت کا شمار کرتے اور گواہی دیتے ہیں جس سے وہ ہر گزرتے لمحے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ خدا کی محبت ناقابل پیمائش ہے کیونکہ خدا کا تمام چیزوں کو فراہم کرنے اور پرورش کرنے کا راز ایک ایسی چیز ہے جس کا ادراک انسانوں کے لیے مشکل ہے، جیسا کہ خدا کے تمام چیزوں کے لیے اور خاص طور پر انسانوں کے لیے خیالات ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خالق نے انسانیت کے لیے جو خون اور آنسو بہائے ہیں اسے کوئی نہیں جانتا۔ خالق کی بنی نوع انسان سے، جسے اس نے اپنے ہاتھوں سے تخلیق کیا ہے، اس کی محبت کی گہرائی یا وزن کو کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ خدا کی محبت کو بے پناہ کے طور پر بیان کرنا لوگوں کو اس کی وسعت اور اس کے وجود کی حقیقت کی قدر کرنے اور سمجھنے میں مدد کرنا ہے۔ یہ اس لیے بھی ایسا ہے کہ لوگ لفظ ”خالق“ کے اصل معنی کو زیادہ گہرائی میں سمجھ سکتے ہیں اور اس لیے لوگ لقب ”تخلیق“ کے حقیقی معنی کے بارے میں گہری سمجھ حاصل کر سکتے ہیں۔ لفظ ”وسیع“ عام طور پر کیا بیان کرتا ہے؟ یہ عام طور پر سمندر یا کائنات کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، مثال کے طور پر: ”وسیع کائنات،“ یا ”وسیع سمندر۔“ کائنات کی وسعت اور پرسکون گہرائی انسانی فہم سے بالاتر ہے؛ یہ ایک ایسی چیز ہے جو انسان کے تخیل کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے، ایک ایسی چیز جس کے لیے وہ بہت زیادہ تعریف محسوس کرتے ہیں۔ اس کا اسرار اور گہرائی نظر کے اندر ہے لیکن پہنچ سے باہر ہے۔ جب تو سمندر کے بارے میں سوچتا ہے، تو تُو اس کی وسعت کے بارے میں سوچتا ہے – یہ لامحدود نظر آتا ہے، اور تو اس کی پراسراریت اور چیزوں کو رکھنے کی اس کی عظیم صلاحیت کو محسوس کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے خدا کی محبت کو بیان کرنے کے لیے لفظ ”وسیع“ استعمال کیا ہے، لوگوں کو یہ محسوس کرنے میں مدد دینے کے لیے کہ یہ کتنی قیمتی ہے، اس کی محبت کے گہرے حسن کو محسوس کرنے کے لیے، اور یہ کہ خدا کی محبت کی طاقت لامحدود اور وسیع ہے۔ میں نے یہ لفظ اس لیے استعمال کیا ہے تاکہ لوگوں کو اس کی محبت کے ذریعے ظاہر ہونے والی اس کی محبت کی پاکیزگی، اور خُدا کی عظمت اور اس کو نارض نہ کیے جانے کی حقیقت کو محسوس کرنے میں مدد ملے۔ اب کیا تمہارے خیال میں خدا کی محبت کو بیان کرنے کے لیے ”وسیع“ موزوں لفظ ہے؟ کیا خُدا کی محبت اِن دو لفظوں، ”بے پناہ“ اور ”وسیع“ کے برابر پہنچ سکتی ہے؟ بالکل! انسانی زبان میں، اکیلے یہ دو الفاظ کسی حد تک موزوں ہیں، اور خدا کی محبت کو بیان کرنے کے نسبتاً قریب ہیں۔ کیا تم ایسا نہیں سوچتے؟ اگر میں خدا کی محبت کو تم سے بیان کروں تو کیا تم یہ دو الفاظ استعمال کرو گے؟ زیادہ تر امکان ہے کہ تم نہیں کرو گے، کیونکہ تمہاری خدا کی محبت کی سمجھ اور احساس دو جہتی نقطہ نظر کے دائرہ کار تک محدود ہے، اور تین جہتی خلا کی بلندی تک بلند نہیں ہوا ہے۔ لہٰذا اگر میں خدا کی محبت تم سے بیان کروں تو تم محسوس کرو گے کہ تمہارے پاس الفاظ کی کمی ہے یا شاید تم گونگے ہو جاؤ گے۔ میں نے آج جن دو الفاظ کے بارے میں بات کی ہے انھیں سمجھنا تمہارے لیے مشکل ہو سکتا ہے، یا ہو سکتا ہے کہ تم اس سے بالکل اتفاق نہ کرو۔ یہ صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ تمہاری خدا کی محبت کی تعریف اور فہم سطحی ہے اور ایک تنگ دائرہ کار تک محدود ہے۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ خدا بےغرض ہے؛ تم یہ لفظ یاد رکھو، ”بےغرض“۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ خدا کی محبت کو صرف بےغرض قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا یہ دائرہ کار بہت تنگ نہیں ہے؟ تمہیں اس مسئلے پر مزید غور کرنا چاہیے، تاکہ تم اس سے کچھ حاصل کر سکو۔

مندرجہ بالا وہ ہے جو ہم نے پہلے معجزے سے خدا کے مزاج اور اس کے جوہر کے بارے میں دیکھا۔ اگرچہ یہ ایک ایسی کہانی ہے جسے لوگ کئی ہزار سالوں سے پڑھ رہے ہیں، مگر یہ ایک سادہ سی کہانی ہے، اور لوگوں کو ایک سادہ سا واقعہ دیکھنے کا موقع دیتی ہے، پھر بھی اس سادہ کہانی میں ہم کچھ زیادہ قیمتی چیز دیکھ سکتے ہیں، جو کہ خدا کا مزاج ہے اور جو اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے۔ یہ چیزیں، جو اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، خود خدا کی نمائندگی کرتی ہیں اور خدا کے اپنے خیالات کا ایک اظہار ہیں۔ جب خدا اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے تو یہ اس کے دل کی آواز کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ امید کرتا ہے کہ ایسے لوگ ہوں گے جو اسے سمجھ سکیں گے، اسے جان سکیں گے اور اس کی مرضی کو سمجھ سکیں گے، اور جو اس کے دل کی آواز سن سکتے ہیں اور اس کی مرضی کو پورا کرنے کے لیے فعال طور پر تعاون کر سکیں گے۔ یہ کام جو خُداوند یسوع نے کیے وہ خُدا کا بے آواز اظہار تھا۔

اس کے بعد، آؤ ہم درج ذیل اقتباس کو دیکھیں: لعزر کا دوبارہ زندہ ہونا خدا کی عظمت بڑھاتا ہے۔

اس عبارت کو پڑھنے کے بعد تمہارے تاثرات کیا ہیں؟ اس معجزے کی اہمیت جو خُداوند یسوع نے دکھایا تھا پچھلے معجزے سے بہت زیادہ تھی کیونکہ کوئی بھی معجزہ کسی مردے کو قبر سے واپس لانے سے زیادہ حیران کن نہیں ہے۔ اُس دور میں، یہ انتہائی اہم تھا کہ خُداوند یسوع نے ایسا کچھ کیا تھا۔ کیونکہ خُدا جسم بن گیا تھا، اس لیے لوگ صرف اُس کی جسمانی صورت، اُس کے عملی پہلو اور اُس کے معمولی پہلو کو ہی دیکھ سکتے تھے۔ یہاں تک کہ اگر کچھ لوگوں نے اُس کے کردار یا کچھ خاص صلاحیتوں کو دیکھا اور سمجھا جن کا وہ حامل نظر آتا تھا، تب بھی کوئی نہیں جانتا تھا کہ خُداوند یسوع کہاں سے آیا ہے، وہ اپنے جوہر میں واقعی کون تھا، اور دراصل وہ کون سی دوسری چیزیں کرنے کے قابل تھا۔ انسانیت ان سب سے ناواقف تھی۔ لہٰذا بہت سے لوگ خداوند یسوع کے بارے میں ان سوالات کے جوابات اور سچائی کو جاننے کے لیے ثبوت تلاش کرنا چاہتے تھے۔ کیا خدا خود اپنی شناخت ثابت کرنے کے لیے کچھ کر سکتا ہے؟ خدا کے لیے، یہ ہوا کا جھونکا تھا – یہ کیک کا ایک ٹکڑا تھا۔ وہ اپنی شناخت اور جوہر کو ثابت کرنے کے لیے کہیں بھی، کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتا تھا، لیکن خدا کے پاس کام کرنے کا اپنا طریقہ تھا – ایک منصوبہ بندی کے ساتھ، اور مرحلوں میں۔ اس نے کوئی کام اندھا دھند نہیں کیا، بلکہ وہ کچھ کرنے کے لیے صحیح وقت اور صحیح موقع کی تلاش میں تھا جسے وہ انسان کو دیکھنے کی اجازت دیتا، ایسی چیز جس میں واقعی معنی موجود تھے۔ اس طرح اس نے اپنے اختیار اور شناخت کو ثابت کیا۔ تو پھر، کیا لعزر کا دوبارہ جی اٹھنا خداوند یسوع کی شناخت کو ثابت کر سکتا ہے؟ آؤ صحیفے کے درج ذیل اقتباس کو دیکھتے ہیں: ”اور یہ کہہ کر اُس نے بُلند آواز سے پُکارا کہ اَے لعزر نِکل آ۔ جو مَر گیا تھا وہ نِکل آیا۔۔۔“ جب خُداوند یسوع نے یہ کیا تو اُس نے صرف ایک بات کہی: ”اَے لعزر نِکل آ۔“ اس کے بعد لعزر اپنی قبر سے باہر آ گیا – یہ خداوند کی طرف سے کہے گئے صرف چند الفاظ کی وجہ سے پورا ہوا۔ اس وقت کے دوران، خداوند یسوع نے کوئی قربان گاہ نہیں بنائی، اور اس نے کوئی اور کام نہیں کیا۔ اس نے صرف یہ ایک بات کہی۔ کیا اسے معجزہ کہنا چاہیے یا حکم؟ یا یہ کسی قسم کی جادوگری تھی؟ سطحی طور پر، ایسا لگتا ہے کہ اسے ایک معجزہ کہا جا سکتا ہے، اور اگر تم اسے جدید نقطہ نظر سے دیکھو، تو یقیناً تم اسے پھر بھی معجزہ کہہ سکتے ہو۔ تاہم، یہ یقینی طور پر اس قسم کا جادو نہیں سمجھا جا سکتا ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کسی روح کو مردے میں واپس بلائے گا، اور یہ کسی بھی طرح کا جادو نہیں تھا۔ یہ کہنا درست ہے کہ یہ معجزہ خالق کے اختیار کا سب سے عام، چھوٹا سا مظاہرہ تھا۔ یہ خدا کی قدرت اور اختیار ہے۔ خدا کے پاس اختیار ہے کہ وہ کسی شخص کو موت دے، اس کی روح کو اس کے جسم سے نکل کر پاتال میں واپس بھیج دے، یا اور جہاں کہیں بھی اسے جانا چاہیے۔ کسی شخص کی موت کا وقت، اور موت کے بعد وہ کہاں جائے گا – یہ خدا کی طرف سے طے شدہ ہیں۔ انسانوں، واقعات، اشیاء، خلا یا جغرافیہ کی پابندی کے بغیر، وہ یہ فیصلے کسی بھی وقت اور کہیں بھی کر سکتا ہے۔ اگر وہ یہ کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، کیونکہ تمام چیزیں اور جاندار اس کے حکم کے تحت ہیں، اور تمام چیزیں اسی کے کلام اور اس کے اختیار سے پیدا ہوتی ہیں، زندہ ہوتی ہیں اور فنا ہوتی ہیں۔ وہ مردہ آدمی کو زندہ کر سکتا ہے، اور یہ بھی وہ کام ہے جو وہ کسی بھی وقت، کہیں بھی کر سکتا ہے۔ یہ وہ اختیار ہے جو صرف خالق کے پاس ہے۔

جب خُداوند یسوع نے لعزر کو مُردوں میں سے واپس لانے جیسے کام کیے، تو اُس کا مقصد انسانوں اور شیطان کو ثبوت دینا تھا، اور انسانوں اور شیطان کو یہ بتانا تھا کہ انسانیت، انسانیت کی زندگی اور موت کے بارے میں سب کچھ خدا کی طرف سے طے کیا گیا ہے، اور یہ کہ اگرچہ وہ جسم بن گیا تھا لیکن وہ جسمانی دنیا کا حاکم تھا جسے دیکھا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی روحانی دنیا کا حاکم بھی جسے انسان نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ اس لیے تھا کہ بنی نوع انسان اور شیطان جان لیں کہ بنی نوع انسان کے بارے میں ہر چیز شیطان کے حکم کے تحت نہیں ہے۔ یہ خدا کے اختیار کا ایک انکشاف اور مظاہرہ تھا، اور یہ خدا کے لیے تمام چیزوں کو پیغام بھیجنے کا ایک طریقہ بھی تھا، کہ بنی نوع انسان کی زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ خُداوند یسوع کا لعزر کو دوبارہ زندہ کرنا ان طریقوں میں سے ایک تھا جس میں خالق انسانیت کو سکھاتا اور ہدایت دیتا ہے۔ یہ ایک ٹھوس عمل تھا جس میں اس نے اپنی طاقت اور اختیار کو انسانوں کو ہدایت دینے اور فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا۔ یہ الفاظ استعمال کیے بغیر، خالق کے لیے انسانیت کو یہ حقیقت دیکھنے کا موقع دینے کا ایک طریقہ تھا کہ وہ ہر چیز کا حاکم ہے۔ یہ اُس کے لیے عملی اعمال کے ذریعے بنی نوع انسان کو بتانے کا ایک طریقہ تھا کہ اُس کے ذریعے کے علاوہ کوئی نجات نہیں ہے۔ یہ خاموش ذرائع جو اس نے بنی نوع انسان کو سکھانے کے لیے استعمال کیے لازوال، انمٹ ہیں، انسانی دلوں میں ایک جھٹکا اور آگہی لاتے ہیں جو کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ لعزر کے دوبارہ زندہ ہونے نے خدا کی عظمت بیان کی – اس کا خدا کے پیروکاروں میں سے ہر ایک پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ یہ ہر اس شخص میں جو اس واقعہ کو گہرائی میں سمجھتا ہے، اس بصیرت کو کہ صرف خدا ہی بنی نوع انسان کی زندگی اور موت کا حکم دے سکتا ہے، کو مضبوطی سے قائم کرتا ہے۔ اگرچہ خدا کے پاس اس قسم کا اختیار ہے، اور اگرچہ اس نے لعزر کے دوبارہ زندہ ہونے کے ذریعے بنی نوع انسان کی زندگی اور موت پر اپنی حاکمیت کے بارے میں پیغام بھیجا، لیکن یہ اس کا بنیادی کام نہیں تھا۔ خدا کبھی بھی کوئی کام بے معنی نہیں کرتا۔ ہر ایک کام جو وہ کرتا ہے بڑی قیمت رکھتا ہے اور خزانوں کے گودام میں ایک غیرمعمولی زیور ہے۔ وہ ”کسی شخص کو اس کے مقبرے سے باہر نکالنے“ کو قطعی طور پر اپنے کام کا بنیادی یا واحد مقصد یا شے نہیں بنائے گا۔ خدا کوئی ایسا کام نہیں کرتا جو بے معنی ہو۔ ایک واحد واقعہ کے طور پر لعزر کا دوبارہ زندہ ہونا خدا کے اختیار کو ظاہر کرنے اور خداوند یسوع کی شناخت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خداوند یسوع نے اس قسم کے معجزے کو نہیں دہرایا۔ خدا اپنے اصولوں کے مطابق کام کرتا ہے۔ انسانی زبان میں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ خدا اپنے دماغ میں صرف سنجیدہ معاملات ہی رکھتا ہے۔ یعنی جب خدا کام کرتا ہے تو وہ اپنے کام کے مقصد سے نہیں بھٹکتا۔ وہ جانتا ہے کہ وہ اس مرحلے میں کیا کام کرنا چاہتا ہے، وہ کیا حاصل کرنا چاہتا ہے، اور وہ سختی سے اپنے منصوبے کے مطابق کام کرے گا۔ اگر کسی بدعنوان شخص میں اس قسم کی صلاحیت ہوتی تو وہ صرف اپنی قابلیت کو ظاہر کرنے کے طریقے سوچ رہا ہوتا تاکہ دوسروں کو معلوم ہو کہ وہ کتنا طاقتور ہے، تاکہ وہ اس کے آگے جھک جائیں، تاکہ وہ ان کو قابو کر لے اور نگل جائے۔ یہ وہ برائی ہے جو شیطان کی طرف سے آتی ہے – اسے بدعنوانی کہتے ہیں۔ خدا کے پاس ایسا کوئی مزاج نہیں ہے، اور اس کے پاس ایسا کوئی جوہر نہیں ہے۔ کام کرنے میں اس کا مقصد خود کو ظاہر کرنا نہیں ہے، بلکہ انسانیت کو مزید الہام اور راہنمائی فراہم کرنا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ لوگ انجیل میں اس قسم کے واقعات کی بہت کم مثالیں دیکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خداوند یسوع کی طاقتیں محدود تھیں، یا یہ کہ وہ ایسی چیزوں سے قاصر تھا۔ یہ صرف ایسا ہے کہ خُدا ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا، کیونکہ خُداوند یسوع کا لعزر کے دوبارہ زندہ ہونے کی بہت ہی عملی اہمیت تھی، اور یہ بھی کہ خُدا کے جسم بننے کا بنیادی کام معجزات کرنا نہیں تھا، لوگوں کو مُردہ سے زندہ کرنا نہیں تھا بلکہ انسانیت کی خلاصی کا کام تھا۔ لہٰذا، زیادہ تر کام جو خُداوند یسوع نے مکمل کیا وہ لوگوں کو تعلیم دینا، اُن کے لیے مہیا کرنا، اور اُن کی مدد کرنا تھا، اور لعزر کو زندہ کرنے جیسے واقعات اُس ذمہ داری کا محض ایک چھوٹا سا حصہ تھے جو خُداوند یسوع نے انجام دی۔ اس سے بھی بڑھ کر، تم یہ کہہ سکتے ہو کہ ”دکھاوا“ خدا کے جوہر کا حصہ نہیں ہے، اس لیے خُداوند یسوع جان بوجھ کر مزید معجزات نہ دکھا کر تحمل کا مظاہرہ نہیں کر رہا تھا، اور نہ ہی یہ ماحولیاتی حدود کی وجہ سے تھا، اور یہ یقینی طور پر قدرت کی کمی کی وجہ سے نہیں تھا۔

جب خُداوند یسوع نے لعزر کو مُردوں میں سے زندہ کیا تو اُس نے صرف یہ چند الفاظ استعمال کیے: ”لعزر، نکل آ۔“ اس کے علاوہ اس نے کچھ نہیں کہا۔ تو، یہ الفاظ کیا ظاہر کرتے ہیں؟ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ خدا بولنے سے ایک مردہ انسان کو زندہ کرنے سمیت کچھ بھی حاصل کر سکتا ہے۔ جب خدا نے تمام چیزوں کو تخلیق کیا، جب اس نے دنیا کی تخلیق کی، تو اس نے الفاظ کے ساتھ ایسا کیا – بولے جانے والے احکامات، اختیار رکھنے والے الفاظ، اور اس طرح تمام چیزیں تخلیق کی گئیں، اور اس طرح، یہ پورا ہوا۔ خُداوند یسوع کی طرف سے کہے گئے یہ چند الفاظ بالکل ایسے ہی تھے جیسے خُدا نے آسمانوں اور زمین اور تمام چیزوں کو تخلیق کرتے وقت کہے تھے؛ اسی طرح، ان میں خدا کا اختیار اور خالق کی طاقت تھی۔ تمام چیزیں خُدا کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کی وجہ سے بنیں اور مضبوطی سے کھڑی ہوئیں، اور اِسی طرح، لعزر بھی خُداوند یسوع کے منہ سے نکلے الفاظ کی وجہ سے اپنی قبر سے باہر نکلا۔ یہ خُدا کا اختیار تھا، جو اس کے مجسم جسم میں ظاہر اور پورا ہوا۔ اس قسم کا اختیار اور قابلیت خالق کے پاس تھی اور ابن آدم کے پاس جس میں خالق کا اظہار ہوا تھا۔ یہ وہ فہم ہے جو خُدا نے لعزر کو مُردوں میں سے واپس لا کر انسانیت کو سکھائی تھی۔ اب ہم اس موضوع پر اپنی بحث یہاں ختم کریں گے۔ اس کے بعد، آؤ ہم صحیفوں سے کچھ اور پڑھتے ہیں۔

10۔ یسوع کے متعلق فریسیوں کا فیصلہ

مرقس 3: 21-22 جب اُس کے عزِیزوں نے یہ سُنا تو اُسے پکڑنے کو نِکلے کیونکہ کہتے تھے کہ وہ بے خُود ہے۔ اور فقِیہہ جو یروشلِیم سے آئے تھے یہ کہتے تھے کہ اُس کے ساتھ بَعَلزؔبُول ہے اور یہ بھی کہ وہ بدرُوحوں کے سردار کی مدد سے بدرُوحوں کو نِکالتا ہے۔

11۔ یسوع کی فریسیوں کو ڈانٹ

متّی 12: 31-32 اِس لِئے مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ آدمِیوں کا ہر گُناہ اور کُفر تو مُعاف کِیا جائے گا مگر جو کُفر رُوح کے حق میں ہو وہ مُعاف نہ کِیا جائے گا۔ اور جو کوئی اِبنِ آدمؔ کے برخِلاف کوئی بات کہے گا وہ تو اُسے مُعاف کی جائے گی مگر جو کوئی رُوحُ القُدس کے برخِلاف کوئی بات کہے گا وہ اُسے مُعاف نہ کی جائے گی نہ اِس عالَم میں نہ آنے والے میں۔

متّی 23: 13-15 اَے رِیاکار فقِیہو اور فرِیسیِو تُم پر افسوس! کہ آسمان کی بادشاہی لوگوں پر بند کرتے ہو کیونکہ نہ تو آپ داخِل ہوتے ہو اور نہ داخِل ہونے والوں کو داخِل ہونے دیتے ہو۔ (اَے رِیاکار فقِیہو اور فرِیسِیو تُم پر افسوس! کہ تُم بیواؤں کے گھروں کو دبا بَیٹھتے ہو اور دِکھاوے کے لِئے نماز کو طُول دیتے ہو۔ تُمہیں زِیادہ سزا ہو گی)۔ اَے رِیاکار فقِیہو اور فرِیسیو تُم پر افسوس! کہ ایک مُرِید کرنے کے لِئے تَری اور خُشکی کا دَورہ کرتے ہو اور جب وہ مُرِید ہو چُکتا ہے تو اُسے اپنے سے دُونا جہنّم کا فرزند بنا دیتے ہو۔

مذکورہ بالا دونوں اقتباسات کا مواد مختلف ہے۔ آؤ پہلے ہم پہلے والے اقتباس پر ایک نظر ڈالتے ہیں: یسوع کے متعلق فریسیوں کا فیصلہ۔

انجیل میں، خود یسوع اور اس کے کیے گئے کاموں کے بارے میں فریسیوں کی تعریف یہ تھی: ”۔۔۔ وہ کہتے تھے کہ وہ بے خُود ہے۔ ۔۔۔ اُس کے ساتھ بَعَلزؔبُول ہے اور یہ بھی کہ وہ بدرُوحوں کے سردار کی مدد سے بدرُوحوں کو نِکالتا ہے“ (مرقس 3: 21-22)۔ خداوند یسوع کے بارے میں فقیہوں اور فریسیوں کا فیصلہ یہ نہیں تھا کہ وہ صرف دوسرے لوگوں کے الفاظ کی نقل کر رہے تھے، اور نہ ہی یہ بے بنیاد قیاس تھا – بلکہ یہ وہ نتیجہ تھا جو انہوں نے اس سے اخذ کیا تھا جو کچھ انہوں نے خداوند یسوع کے بارے میں دیکھا اور اس کے اعمال کے بارے میں سنا تھا۔ اگرچہ ان کا نتیجہ بظاہر انصاف کے نام پر نکالا گیا تھا اور لوگوں کو ایسا لگا گویا یہ حقیقت پر مبنی ہے، لیکن جس تکبر کے ساتھ انہوں نے خداوند یسوع کے بارے میں فیصلہ کیا تھا، اس پر ان کے لیے بھی ضبط کرنا مشکل تھا۔ خُداوند یسوع کے لیے اُن کی غیظ و غضب والی نفرت نے اُن کے اپنے وحشیانہ عزائم اور اُن کے شیطانی چہرے کے ساتھ ساتھ اُن کی اس بدخواہ فطرت کو بھی بے نقاب کر دیا جس کے ساتھ اُنہوں نے خُدا کی مزاحمت کی۔ یہ باتیں جو اُنہوں نے خُداوند یسوع کے بارے میں اپنے فیصلے میں کہی تھیں، اُن کے وحشیانہ عزائم، حسد، اور خُدا اور سچائی کے لیے اُن کی دشمنی کی بدصورت اور بدخواہ فطرت کی وجہ سے تھیں۔ اُنہوں نے خُداوند یسوع کے اعمال کے ماخذ کی چھان بین نہیں کی اور نہ ہی اُس نے جو کچھ کہا یا کیا اُس کے جوہر کی چھان بین کی۔ بلکہ، آنکھیں بند کر کے، دیوانہ وار اشتعال کی حالت میں، اور جان بوجھ کر بغض کے ساتھ، انہوں نے حملہ کیا اور اس کے کیے ہوئے کام کو بدنام کیا۔ وہ جان بوجھ کر اس کی روح کو بدنام کرنے کے لیے اس حد تک چلے گئے، یعنی روح القدس جو کہ خدا کی روح ہے۔ ان کا یہی مطلب تھا جب انہوں نے کہا، ”وہ بے خُود ہے،“ ”بَعَلزؔبُول ہے،“ اور ”بدرُوحوں کا سردار“۔ کہنے کا مطلب یہ ہے، اُنہوں نے کہا کہ خُدا کی روح بَعَلزؔبُول اور بدرُوحوں کی سردار تھی۔ اُنہوں نے خُدا کی روح کے مجسم جس نے خود کو جسم کا لباس پہنایا تھا کے کام کی شناخت پاگل پن کے طور پر کی۔ اُنہوں نے نہ صرف خُدا کے رُوح کی بَعَلزؔبُول اور بدرُوحوں کی سردار کے طور پر گستاخی کی بلکہ خُدا کے کام کی بھی مذمت کی اور خُداوند یسوع مسیح کی مذمت اور توہین کی۔ ان کی مزاحمت اور خدا کی توہین کا جوہر مکمل طور پر وہی تھا جو شیطان اور بدروحوں کی طرف سے کی گئی خدا کی مزاحمت اور توہین کا جوہر تھا۔ وہ صرف بدعنوان انسانوں کی نمائندگی نہیں کرتے تھے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وہ شیطان کے مجسم تھے۔ وہ بنی نوع انسان کے درمیان شیطان کے لیے ایک ذریعہ تھے، اور وہ شیطان کے ساتھی اور چیلے تھے۔ اُن کی توہین اور خُداوند یسوع مسیح پر اُن کی غیر منصفانہ تنقید کا جوہر اُن کی خُدا کے ساتھ رتبے کے لیے، خُدا کے ساتھ اُن کے مقابلے، اور ان کی خُدا کے ساتھ نہ ختم ہونے والی آزمائش کی جدوجہد تھی۔ خُدا کے خلاف اُن کی مزاحمت کا جوہر اور اُس کے خلاف اُن کا دشمنی کا رویہ، نیز اُن کے الفاظ اور اُن کے خیالات نے براہِ راست خُدا کی رُوح کی توہین کی اور اسے غصہ دلایا۔ اس طرح، خُدا نے اُن کے کہے اور کیے کی بنیاد پر ایک معقول فیصلے کا تعین کیا، اور خُدا نے اُن کے اعمال کو روح القدس کے خلاف توہین کا گناہ قرار دیا۔ یہ گناہ اس دنیا اور آنے والی دنیا دونوں میں ناقابل معافی ہے، جیسا کہ صحیفے کے درج ذیل اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے: ”جو کُفر رُوح کے حق میں ہو وہ مُعاف نہ کِیا جائے گا،“ اور ”جو کوئی رُوحُ القُدس کے برخِلاف کوئی بات کہے گا وہ اُسے مُعاف نہ کی جائے گی نہ اِس عالَم میں نہ آنے والے میں۔“ آج، آؤ ہم خدا کے ان الفاظ کے حقیقی معنی کے بارے میں بات کرتے ہیں: ”وہ اُسے مُعاف نہ کی جائے گی نہ اِس عالَم میں نہ آنے والے میں۔“ یعنی، آؤ ہم اس راز کو کھولیں کہ خدا ان الفاظ کو کیسے پورا کرتا ہے: ”وہ اُسے مُعاف نہ کی جائے گی نہ اِس عالَم میں نہ آنے والے میں۔“

ہر وہ چیز جس کے بارے میں ہم نے بات کی ہے اس کا تعلق خدا کے مزاج اور لوگوں، واقعات اور چیزوں کے بارے میں اس کے رویے سے ہے۔ قدرتی طور پر، مندرجہ بالا دو اقتباسات اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ کیا تم نے صحیفے کے ان دو اقتباسات میں کچھ محسوس کیا؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان میں خدا کا غصہ نظر آتا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ خدا کے مزاج کا وہ پہلو دیکھتے ہیں جو انسانیت کے جرم کو برداشت نہیں کرتا، اور یہ کہ اگر لوگ کوئی ایسا کام کرتے ہیں جو خدا کے لیے توہین آمیز ہے، تو انھیں اس کی معافی نہیں ملے گی۔ اس حقیقت کے باوجود کہ لوگ ان دو اقتباسات میں خدا کے غصے اور اس کی انسانیت کے جرم کی عدم برداشت کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں، وہ اب بھی اس کے رویے کو صحیح معنوں میں نہیں سمجھتے۔ ان دو اقتباسات میں خدا کے سچے رویے اور اس کی توہین کرنے والوں اور اس کو غصہ دلانے والے کے بارے میں اس کے نقطہ نظر کے پوشیدہ حوالہ جات کا اشارہ ملتا ہے۔ اس کا رویہ اور نقطہ نظر درج ذیل عبارت کے صحیح معنی کو ظاہر کرتا ہے: ”جو کوئی رُوحُ القُدس کے برخِلاف کوئی بات کہے گا وہ اُسے مُعاف نہ کی جائے گی نہ اِس عالَم میں نہ آنے والے میں۔“ جب لوگ خدا کی توہین کرتے ہیں اور جب وہ اسے غصہ دلاتے ہیں تو وہ ایک فیصلہ جاری کرتا ہے، اور یہ فیصلہ اس کا جاری کردہ نتیجہ ہوتا ہے۔ اسے انجیل میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: ”اِس لِئے مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ آدمِیوں کا ہر گُناہ اور کُفر تو مُعاف کِیا جائے گا مگر جو کُفر رُوح کے حق میں ہو وہ مُعاف نہ کِیا جائے گا“ (متّی 12: 31)، اور ”اے ریا کار فقیہو اور فریسیو، تم پر افسوس!“ (متّی 23: 13)۔ تاہم، کیا یہ بات انجیل میں درج ہے کہ ان فقیہوں اور فریسیوں نیز ان لوگوں کا انجام کیا ہوا جنہوں نے کہا کہ خداوند یسوع ان چیزوں کے کہنے کے بعد پاگل ہو گیا تھا؟ کیا یہ درج ہے کہ انھیں کوئی سزا ہوئی؟ نہیں – یہ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے۔ یہاں ”نہیں“ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایسا کوئی اندراج نہیں تھا، بلکہ حقیقت میں صرف یہ ہے کہ ایسا کوئی انجام نہیں تھا جسے انسانی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا۔ یہ کہنا کہ ”اس کا اندراج نہیں کیا گیا“ کچھ چیزوں کو سنبھالنے کے لیے خدا کے رویے اور اصولوں کے مسئلے کو واضح کرتا ہے۔ خُدا ان لوگوں کی طرف سےآنکھیں اور کان بند نہیں رکھتا جو اُس کی شان میں گستاخی کرتے ہیں یا اُس سے سرکشی کرتے ہیں، حتیٰ کہ اس پر بہتان طرازی کرنے والوں سے بھی – جو لوگ جان بوجھ کر اُس پر یورش کرتے ہیں، اُس پر دریدہ دہنی کرتے ہیں – بلکہ وہ ان کے بارے میں واضح رویہ رکھتا ہے۔ وہ ان لوگوں سے نفرت کرتا ہے، اور وہ اپنے دل میں انھیں مردود ٹھہراتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ کھلم کھلا اعلان کرتا ہے کہ ان کا انجام کیا ہوگا، تاکہ لوگ جان لیں کہ اس کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے ساتھ اس کا رویہ واضح ہے، اور تاکہ وہ جان لیں کہ وہ ان کے انجام کا تعین کیسے کرے گا۔ تاہم، خدا کے اس ارشاد کے باوجود، لوگ شاذ و نادر ہی اس حقیقت کو دیکھ سکتے تھے کہ خدا ان لوگوں کیسے نمٹے گا، اور وہ اس انجام اور اس فیصلے کے پیچھے موجود اصولوں کو نہیں سمجھ سکتے جو خدا نے ان پر جاری کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ خود سے نمٹنے کے لیے خدا کے مخصوص لائحہ عمل اور طریقوں کو نہیں دیکھ سکتے۔ اس کا تعلق کام کرنے کے لیے خدا کے اصولوں سے ہے۔ خدا کچھ لوگوں کے برے رویے سے نمٹنے کے لیے حقائق کی وقوع پذیری کا استعمال کرتا ہے۔ یعنی، وہ ان کے گناہ کا اعلان نہیں کرتا اور نہ ہی ان کے انجام کا تعین کرتا ہے، بلکہ ان کو سزا دینے اور منصفانہ بدلہ دینے کے لیے حقائق کی وقوع پذیری کا براہ راست استعمال کرتا ہے۔ جب یہ حقائق رونما ہوتے ہیں، تو لوگوں کا جسم سزا بھگتتا ہے، یعنی سزا ایسی چیز ہے جسے انسانی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ بعض لوگوں کے شیطانی رویے کے ساتھ نمٹتے وقت، خدا صرف الفاظ سے ان پر لعنت بھیجتا ہے اور اس کا غضب بھی ان پر آتا ہے، لیکن ان کو جو سزا ملتی ہے وہ ہو سکتا ہے کہ لوگ دیکھ نہ سکیں۔ بہر حال، اس قسم کا انجام ان انجاموں سے بھی زیادہ سنگین ہو سکتا ہے جو لوگ دیکھ سکتے ہیں، جیسے سزا یا ہلاکت۔ یہ اس لیے کہ ان حالات میں کہ خدا نے اس قسم کے لوگوں کو نہ بچانے، ان کے لیے مزید رحم یا برداشت نہ رکھنے اور انھیں مزید مواقع فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تو وہ ان کے ساتھ جو رویہ اختیار کرتا ہے، وہ ہے انھیںایک طرف رکھ چھوڑنا۔ یہاں ”ایک طرف رکھ چھوڑنے“ کا کیا مطلب ہے؟ اس اصطلاح کا بنیادی مطلب ہے ”کسی چیز کو ایک طرف رکھ چھوڑنا، اس پر مزید توجہ نہ دینا۔“ لیکن یہاں، جب خُدا کسی کو ایک طرف رکھ چھوڑتا ہے، تو اِس کے معنی کی دو مختلف وضاحتیں ہیں: پہلی وضاحت یہ ہے کہ اُس نے اُس شخص کی زندگی اور اُس شخص کے سارے معاملات شیطان کو سونپ دیے ہیں کہ وہ ان سے نمٹے، اور خُدا اب اس شخص کاذمہ دار نہیں ہے اور اب اس کے لیے بندوبست نہیں کرے گا۔ خواہ وہ شخص پاگل ہو یا بے عقل، مردہ ہو یا زندہ، یا پھروہ اپنی سزا کے لیے جہنم میں اتریں، ان میں سے کسی چیز کا خدا سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایسی مخلوق کا خالق سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ دوسری وضاحت یہ ہے کہ خدا نے یہ طے کیا ہے کہ وہ اس شخص کے ساتھ خود کچھ کرنا چاہتا ہے، خود اپنے ہاتھوں سے۔ یہ ممکن ہے کہ وہ اس شخص کی خدمت سے استفادہ کرے، یا یہ کہ وہ اسے ورق کے طور پر استعمال کرے۔ ممکن ہے اس کے پاس اس قسم کے لوگوں سے نمٹنے کا کوئی خاص طریقہ ہو، ان کے ساتھ سلوک کرنے کا ایک خاص طریقہ، مثال کے طور پرجیسے پال کے ساتھ کیا گیا۔ یہ خُدا کے دل میں وہ اصول اور رویہ ہے جس کے ذریعے اُس نے اِس قسم کے شخص سے نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لہٰذا جب لوگ خدا سے سرکشی کرتے ہیں اور اس کی شان میں گستاخی کرتے ہیں، اگر وہ اس کے مزاج کی برہمی میں اضافہ کرتے ہیں، یا اگر وہ خدا کو اس کی برداشت کی حد سےتجاوز کرنے پر مجبور کرتے ہیں، تو ان کے نتائج کے بارے میں غور کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سب سے سنگین نتیجہ یہ ہے کہ خدا ان کی زندگی اور ان کے بارے میں سب کچھ ایک ہی بار اور ہمیشہ کے لیے شیطان کو سونپ دیتا ہے۔ ان کو دائمی طور پر معاف نہیں کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ شخص شیطان کے منہ میں غذا، ہاتھ کا کھلونا بن چکا ہے اور اس کے بعد سے خدا کا ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ جب شیطان نے ایوب کو لالچ دیا تو وہ کیسی مصیبت تھی؟ حتیٰ اس شرط کے باوجود کہ شیطان کو ایوب کی زندگی کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں تھی، ایوب کو پھر بھی بہت زیادہ سہنا پڑا۔ اور کیا یہ تصور کرنااس سے بھی زیادہ مشکل نہیں کہ ایسے شخص پر، جو مکمل طور پر شیطان کو سونپ دیا گیا ہو، جو مکمل طور پر شیطان کی گرفت میں ہو، جو خدا کی عنایت اور رحم سےمکمل طور پر بے دخل کردیا گیاہو، جو اب اس کے احکام کے ماتحت نہیں ہے، جس سے اس کی عبادت کاحق چھینا جاچکا ہو، خدا کی حکمرانی کے تحت مخلوق ہونے کے حق سے محروم کیا جاچکا ہو، اور جس کامخلوق کے پروردگار سے تعلق پوری طرح ٹوٹ چکا ہو، اس پر شیطان کیسے تباہ کن ستم ڈھائے گا۔ ایوب پر شیطان کا ظلم وستم ایک ایسی چیز تھی جسے انسانی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا تھا، لیکن اگر خدا کسی شخص کی زندگی شیطان کو سونپ دیتا ہے، تو اس کے نتائج انسانی تصور سے بالاتر ہیں۔ مثال کے طور پر، ممکن ہے کچھ لوگ گائے، یا گدھے کے طور پر دوبارہ پیدا ہوں، جب کہ ممکن ہے کچھ لوگوں پرناپاک، شیطانی روح کا قبضہ اور غلبہ ہوجائے، اور مزید ایسا ہی کچھ۔ ایسے ہی کچھ لوگوں کے انجام ہیں جنھیں خدا نے شیطان کو سونپ دیا ہے۔ باہر سے، ایسا لگتا ہے کہ جن لوگوں نے خُداوند یسوع کا مذاق اُڑایا، بہتان طرازی کی، دریدہ دہنی کی، اور ان کی شان میں گستاخی کی، انھیں کوئی انجام نہیں بھگتنے پڑے۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ خدا ہر چیز سے نمٹنے کے لئے ایک لائحہ عمل رکھتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ لوگوں کو یہ انجام بتانے کے لیے واضح زبان استعمال نہ کرے کہ وہ ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔ بعض اوقات وہ براہ راست بولتا نہیں ہے، بلکہ براہ راست عمل کرتا ہے۔ یہ کہ وہ اس بارے میں بات نہیں کرتا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سرے سے کوئی انجام ہی نہیں ہے۔ درحقیقت، ایسے معاملے میں ممکن ہے کہ نتائج اور بھی زیادہ سنگین ہوں۔ بیرونی طور پر، ممکن ہے یہ دکھائی دے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جن سے خدا اپنے رویے کے بارے میں کھل کر بات نہیں کرتا، مگر درحقیقت، خدا طویل عرصے سے ان پر توجہ دینا پسند نہیں کرتا۔ وہ اب انھیں دیکھنے کا روادار نہیں ہے۔ کیوں کہ جو حرکتیں وہ کرچکے ہیں، اور ان کے رویے، ان کی فطرت اور جوہر کی وجہ سے، خدا صرف یہ چاہتا ہے وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہوجائے، وہ انھیں براہ راست شیطان کو سونپ دینا چاہتا ہے، ان کی روح، ان کا نفس، ان کا جسم شیطان کے حوالے کر دیتا ہے اور شیطان کو اجازت دیتا ہے کہ وہ ان کے ساتھ جو چاہے کرے۔ یہ واضح کرتا ہے کہ خدا ان سے کس حد تک نفرت کرتا ہے، وہ کس حد تک ان سے بیزار ہے۔ اگر کوئی شخص خدا کو اس حد تک ناراض کرتا کہ خدا ان کی شکل بھی دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتا اور ان سے مکمل طور پر دست بردار ہونے پر آمادہ ہے، اس نکتے تک کہ وہ خود ان سے معاملہ بھی نہیں کرنا چاہتا، اگر صورتِ حال اس نکتے تک پہنچ چکی ہے کہ جہاں وہ انھیں شیطان کو سونپ دے گا کہ وہ ان کے ساتھ جو چاہے کرے، اور شیطان کو اجازت دے دے کہ جیسے چاہے انھیں قابو میں کرے، ہڑپ کرے اور ان سے جو چاہے سلوک کرے، تو یہ شخص مکمل نابود ہوگیا۔ ان کا انسان ہونے کا حق مستقل طور پر فسخ کیا جاچکا ہے، اور ان کا خدا کی مخلوق ہونے کا حق ختم ہوچکا ہے۔ کیا یہ سز اکی شدید ترین قسم نہیں ہے؟

مندرجہ بالا تمام ان الفاظ کی مکمل وضاحت ہے: ”وہ اُسے مُعاف نہ کی جائے گی نہ اِس عالَم میں نہ آنے والے میں،“ اور یہ صحیفوں کے ان اقتباسات پر ایک سادہ تبصرے کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ تم سب کو اب اس کی سمجھ ہے۔

آؤ اب ہم صحیفے سے درج ذیل اقتباسات کو پڑھتے ہیں۔

12۔ یسوع کے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد اپنے شاگردوں سے کہے گئے الفاظ

یُوحنّا 20: 26-29 آٹھ روز کے بعد جب اُس کے شاگِرد پِھر اندر تھے اور توما اُن کے ساتھ تھا اور دروازے بند تھے یِسُوعؔ نے آ کر اور بِیچ میں کھڑا ہو کر کہا تُمہاری سلامتی ہو۔ پِھر اُس نے توؔما سے کہا اپنی اُنگلی پاس لا کر میرے ہاتھوں کو دیکھ اور اپنا ہاتھ پاس لا کر میری پسلی میں ڈال اور بے اِعتقاد نہ ہو بلکہ اِعتقاد رکھ۔ توؔما نے جواب میں اُس سے کہا اَے میرے خُداوند! اَے میرے خُدا! یِسُوعؔ نے اُس سے کہا تُو تو مُجھے دیکھ کر اِیمان لایا ہے۔ مُبارک وہ ہیں جو بغَیر دیکھے اِیمان لائے۔

یُوحنّا 21: 16-17 اُس نے دوبارہ اُس سے پِھر کہا اَے شمعُون یُوحنّا کے بیٹے کیا تُو مُجھ سے مُحبّت رکھتا ہے؟ اُس نے کہا ہاں خُداوند تُو تو جانتا ہی ہے کہ مَیں تُجھ کو عزِیز رکھتا ہُوں۔ اُس نے اُس سے کہا تُو میری بھیڑوں کی گلّہ بانی کر۔ اُس نے تِیسری بار اُس سے کہا اَے شمعُوؔن یُوحنّا کے بیٹے کیا تُو مُجھے عزِیز رکھتا ہے؟ چُونکہ اُس نے تِیسری بار اُس سے کہا کیا تُو مُجھے عزِیز رکھتا ہے اِس سبب سے پطرؔس نے دِل گِیر ہو کر اُس سے کہا اَے خُداوند! تُو تو سب کُچھ جانتا ہے۔ تُجھے معلُوم ہی ہے کہ مَیں تُجھے عزِیز رکھتا ہُوں۔ یِسُوعؔ نے اُس سے کہا تو میری بھیڑیں چرا۔

یہ اقتباسات جو بیان کرتے ہیں وہ کچھ چیزیں ہیں جو خداوند یسوع نے اپنے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد اپنے شاگردوں سے کیں اور کہیں۔ پہلے، آؤ دوبارہ زندہ ہونے سے پہلے اور بعد میں خداوند یسوع میں کسی بھی فرق پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ کیا وہ اب بھی وہی پہلے دنوں والا خداوند یسوع تھا؟ صحیفوں میں مندرجہ ذیل سطر خداوند یسوع کو دوبارہ زندہ ہونے کے بعد بیان کرتی ہے: ”اور دروازے بند تھے یِسُوعؔ نے آ کر اور بِیچ میں کھڑا ہو کر کہا تُمہاری سلامتی ہو۔“ یہ بالکل واضح ہے کہ خداوند یسوع اس وقت مزید کسی گوشت پوست کے جسم میں نہیں تھا، بلکہ یہ کہ اب وہ ایک روحانی جسم میں تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ جسم کی حدود سے بالا تر ہو چکا تھا؛ اگرچہ دروازہ بند تھا، وہ پھر بھی لوگوں کے درمیان آ سکتا تھا اور انھیں خود کو دیکھنے کی اجازت دے سکتا تھا۔ یہ دوبارہ زندہ ہونے کے بعد خداوند یسوع اور دوبارہ زندہ ہونے سے پہلے جسم میں رہنے والے خداوند یسوع کے درمیان سب سے بڑا فرق ہے۔ حالانکہ اس لمحے کے روحانی جسم کی ظاہری شکل اور خداوند یسوع کی ظاہری شکل، جیسا کہ وہ پہلے تھا، میں کوئی فرق نہیں تھا، خداوند یسوع اس لمحے ایسا بن گیا تھا جو لوگوں کو ایک اجنبی کی طرح محسوس ہوا، کیونکہ وہ مُردوں میں سے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد ایک روحانی جسم بن گیا تھا، اور اس کے پچھلے جسم کے مقابلے میں، یہ روحانی جسم لوگوں کو زیادہ الجھن میں ڈالنے اور پریشان کرنے والا تھا۔ اس نے خداوند یسوع اور لوگوں کے درمیان مزید دوری بھی پیدا کر دی، اور لوگوں نے اپنے دلوں میں محسوس کیا کہ اس لمحے خداوند یسوع زیادہ پراسرار ہو گیا تھا۔ لوگوں کی طرف سے یہ ادراک اور احساسات اچانک انھیں ایک ایسے خدا پر یقین کرنے کے دور میں واپس لے آئے جسے دیکھا یا چھوا نہیں جا سکتا تھا۔ لہٰذا، پہلا کام جو خداوند یسوع نے اپنے جی اٹھنے کے بعد کیا وہ ہر ایک کو خود کو دیکھنے کی اجازت دینا تھا، اس بات کی تصدیق کرنے کے لیے کہ وہ موجود ہے، اور اس کے دوبارہ زندہ ہونے کی حقیقت کی تصدیق کرنے کے لیے۔ اس کے علاوہ، اس عمل نے لوگوں کے ساتھ اس کے تعلقات کو اس طرح بحال کیا جس طرح وہ تب تھے جب وہ جسم کی حالت میں کام کر رہا تھا، جب وہ مسیح تھا جسے وہ دیکھ اور چھو سکتے تھے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں کو اس بات میں کوئی شک نہیں رہا تھا کہ خداوند یسوع کو صلیب پر میخوں سے جڑے جانے کے بعد موت سے زندہ کیا گیا تھا، اور انھیں خداوند یسوع کے انسانیت کو نجات دلانے کے کام میں بھی کوئی شک نہیں تھا۔ ایک اور نتیجہ یہ ہے کہ خداوند یسوع کا اس کے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد لوگوں کے سامنے ظاہر ہونے کی حقیقت اور لوگوں کو اس کو دیکھنے اور چھونے کی اجازت دینے کی وجہ سے فضل کے دور میں انسانیت کو مضبوطی سے محفوظ بنایا گیا، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ، اس وقت سے، لوگ اس قیاس کی بنیاد پر قانون کے سابقہ دور میں واپس نہیں جائیں گے کہ خداوند یسوع ”غائب“ ہو گیا تھا یا وہ ”بغیر کسی کلام کے چلا گیا تھا۔“ اس طرح اس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ خداوند یسوع کی تعلیمات اور اس کے کیے گئے کام کی پیروی کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہیں گے۔ اس طرح، فضل کے دور میں کام کا ایک نیا مرحلہ باضابطہ طور پر کھل گیا، اور اس لمحے سے، وہ لوگ جو قانون کے تحت زندگی گزارتے رہے تھے، باقاعدہ طور پر قانون سے نکل کر ایک نئے دور، ایک نئی شروعات میں داخل ہو گئے۔ یہ خداوند یسوع کے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد انسانیت کے سامنے ظاہر ہونے کے کثیر الجہتی معنی ہیں۔

چونکہ خُداوند یسوع اب ایک روحانی جسم میں آباد تھا، اِس لیے لوگ کیسے اُسے چھو سکتے اور دیکھ سکتے تھے؟ یہ سوال انسانیت کے لیے خداوند یسوع کے ظہور کی اہمیت پر مختصر بات کرتا ہے۔ صحیفے کے جو اقتباسات ہم نے ابھی پڑھے کیا تم نے ان میں کچھ محسوس کیا؟ عام طور پر، روحانی جسموں کو دیکھا یا چھوا نہیں جا سکتا، اور دوبارہ زندہ ہونے کے بعد جو کام خداوند یسوع نے کیا تھا وہ پہلے ہی مکمل ہو چکا تھا۔ لہٰذا اصولی طور پر، اُس کو لوگوں کے درمیان اُن سے ملنے کے لیے اپنی اصلی صورت میں واپس آنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی، لیکن توما جیسے لوگوں کے سامنے خُداوند یسوع کے روحانی جسم کی ظاہری شکل نے اُس کی ظاہری شکل کی اہمیت کو مزید ٹھوس بنا دیا، اس طرح کہ یہ لوگوں کے دلوں میں زیادہ گہرائی تک چلی گئی۔ جب وہ توما کے پاس آیا، تو اس نے شک کرنے والے توما کو اپنا ہاتھ چھونے دیا، اور اس سے کہا: ”اپنا ہاتھ لا اور میری پسلی میں ڈال اور بے اعتقاد نہ ہو بلکہ اعتقاد رکھ۔“ یہ الفاظ اور اعمال وہ چیزیں نہیں تھیں جو خداوند یسوع صرف اپنے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد کہنا اور کرنا چاہتا تھا؛ درحقیقت، یہ وہ چیزیں تھیں جو وہ صلیب پر میخوں سے جڑے جانے سے پہلے کہنا اور کرنا چاہتا تھا، کیونکہ توما کے شکوک و شبہات صرف اسی وقت شروع نہیں ہوئے تھے، بلکہ اس تمام وقت سے اس کے ساتھ تھے جب سے وہ خداوند یسوع کی پیروی کر رہا تھا۔ یہ واضح ہے کہ، صلیب پر میخوں سے جڑے جانے سے پہلے، خُداوند یسوع کو پہلے سے ہی توما جیسے لوگوں کی سمجھ تھی۔ تو ہم اس سے کیا دیکھ سکتے ہیں؟ وہ اپنے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد بھی وہی خُداوند یسوع تھا۔ اس کا جوہر نہیں بدلا تھا۔ تاہم، یہاں خداوند یسوع تھا جو مُردوں میں سے دوبارہ زندہ ہوا تھا اور روحانی دنیا سے اپنی اصلی صورت، اپنے اصلی مزاج کے ساتھ، اور انسانیت کے بارے میں اس فہم کے ساتھ واپس آیا تھا جو اس نے جسمانی طور پر گزارے ہوئے اپنے وقت میں حاصل کی تھی، اس لیے وہ پہلے توما کے پاس گیا اور توما کو اپنی پسلی کو چھونے دیا، تاکہ وہ نہ صرف توما کو دوبارہ زندہ ہونے کے بعد اپنے روحانی جسم کو دیکھنے دے، بلکہ توما کو اپنے روحانی جسم کے وجود کو چھونے اور محسوس بھی کرنے دے، اور اس کے شکوک و شبہات کو مکمل طور پر ختم کر دے۔ خُداوند یسوع کو صلیب پر میخوں سے جڑے جانے سے پہلے، توما نے اس کے مسیح ہونے پر ہمیشہ شک کیا، اور ایمان لانے سے قاصر تھا۔ خدا پر اس کا ایمان صرف اس بنیاد پر قائم تھا جسے وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا تھا، اپنے ہاتھوں سے چھو سکتا تھا۔ خداوند یسوع کو اس قسم کے شخص کے ایمان کی اچھی سمجھ تھی۔ وہ صرف آسمان پر خدا پر ایمان رکھتے تھے، اور خدا کی طرف سے بھیجے گئے اس ایک پر، یا جسم کی حالت پر مسیح پر ایمان نہیں رکھتے تھے، اور نہ ہی انہوں نے اسے قبول کرنا تھا۔ توما کو خداوند یسوع کے وجود کو تسلیم کرنے اور اس پر ایمان لانے کے لیے کہ وہ واقعی مجسم خدا تھا، اس نے توما کو اپنا ہاتھ بڑھانے اور اپنی پسلی کو چھونے کی اجازت دی۔ کیا خداوند یسوع کے دوبارہ زندہ ہونے سے پہلے اور بعد میں توما کا شک کوئی مختلف تھا؟ وہ ہمیشہ شک کرتا رہتا تھا، اور خُداوند یسوع کے روحانی جسم کے ذاتی طور پر اُس کے سامنے ظاہر ہونے، اور اُسے اپنے جسم پر میخوں کے نشانات کو چھونے کی اجازت دیے بغیر، کوئی ایسا طریقہ نہیں تھا جو اُس کے شکوک کو دور کر سکتا اور اُن سے اس کا پیچھا چھڑا سکتا۔ لہٰذا، جب خداوند یسوع نے توما کو اپنی پسلی کو چھونے کی اجازت دی اور اسے میخوں کے نشانات کے وجود کا واقعی احساس دلایا تو توما کا شک ختم ہو گیا، اور اسے حقیقت میں علم ہو گیا کہ خداوند یسوع کو دوبارہ زندہ کیا گیا تھا، اور اُس نے تسلیم کیا اور ایمان لایا کہ خُداوند یسوع ہی حقیقی مسیح اور مجسم خدا تھا۔ اگرچہ اس وقت توما نے مزید شک نہیں کیا، لیکن اس نے مسیح سے ملنے کا موقع ہمیشہ کے لیے کھو دیا۔ اس نے اس کے ساتھ رہنے، اس کی پیروی کرنے، اسے جاننے کا موقع ہمیشہ کے لیے کھو دیا۔ اس نے اس موقع کو کھو دیا کہ مسیح اسے کامل بنائے۔ خُداوند یسوع کا ظہور اور اُس کے الفاظ نے اُن لوگوں کے ایمان پر ایک نتیجہ اور فیصلہ فراہم کیا جو شکوک و شبہات سے بھرے ہوئے تھے۔ اس نے شک کرنے والوں کو بتانے کے لیے اپنے حقیقی الفاظ اور اعمال کا استعمال کیا، ان لوگوں کو بتانے کے لیے جو صرف آسمان میں خدا پر ایمان رکھتے تھے لیکن مسیح پر ایمان نہیں رکھتے تھے: خدا نے ان کے اعتقاد کی تعریف نہیں کی، اور نہ ہی اس نے شک کرتے ہوئے اس کی پیروی کرنے پر ان کی تعریف کی۔ وہ دن جب وہ خدا اور مسیح پر مکمل ایمان رکھتے تھے صرف وہی دن ہو سکتا تھا جب خدا نے اپنا عظیم کام مکمل کیا۔ بے شک یہ وہ دن بھی تھا کہ جب ان کے شک کرنے پر فیصلہ سنایا گیا۔ مسیح کے بارے میں ان کے رویے نے ان کی قسمت کا تعین کیا، اور ان کے سخت شک کرنے کا مطلب یہ تھا کہ ان کے ایمان نے انھیں کوئی پھل نہیں دیا، اور ان کی سختی کا مطلب تھا کہ ان کی امیدیں بے کار تھیں۔ کیونکہ آسمان میں خدا پر ان کا ایمان وہموں پر پلا ہوا تھا، اور مسیح پر ان کا شک دراصل خدا کے بارے میں ان کا حقیقی رویہ تھا، اگرچہ انہوں نے خداوند یسوع کے جسم پر میخوں کے نشانات کو چھوا تھا، تب بھی ان کا ایمان بے کار تھا اور ان کا نتیجہ صرف ایک ہی ہو سکتا تھا۔ بانس کی ٹوکری سے پانی کھینچنے کے طور پر بیان کیا گیا – سب بے کار۔ خُداوند یسوع نے توما سے جو کچھ کہا وہ اس کا ہر شخص کو واضح طور پر بتانے کا طریقہ بھی تھا: دوبارہ زندہ ہونے والا خُداوند یسوع ہی وہ خُداوند یسوع ہے جس نے انسانیت کے درمیان کام کرتے ہوئے ساڑھے تینتیس سال گزارے۔ اگرچہ وہ صلیب پر میخوں سے جڑا گیا تھا اور موت کے سائے کی وادی کا تجربہ کر چکا تھا، اور اگرچہ اس نے دوبارہ زندہ ہونے کا تجربہ کیا تھا، لیکن اس کے کسی بھی پہلو میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ اگرچہ اب اس کے جسم پر میخوں کے نشانات تھے، اور اگرچہ وہ دوبارہ زندہ ہو کر قبر سے باہر آ چکا تھا لیکن اس کے مزاج، انسانیت کے بارے میں اس کی سمجھ اور انسانیت کے لیے اس کے ارادوں میں ذرا سی بھی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ اس کے علاوہ، وہ لوگوں کو بتا رہا تھا کہ وہ صلیب سے نیچے آیا تھا، گناہ پر فتح پا چکا تھا، مشکلات پر قابو پا لیا تھا، اور موت پر فتح حاصل کر لی تھی۔ میخوں کے نشان شیطان پر اس کی فتح کا ثبوت تھے، تمام انسانیت کی کامیابی کے ساتھ خلاصی کروانے کے لیے گناہ کا کفارہ ہونے کا ثبوت۔ وہ لوگوں کو بتا رہا تھا کہ وہ پہلے ہی انسانیت کے گناہوں کو لے چکا ہے اور اس نے اپنا خلاصی کا کام مکمل کر لیا ہے۔ جب وہ اپنے شاگردوں کو دیکھنے کے لیے واپس آیا، تو اُس نے اپنے ظاہر ہونے کے ذریعے انھیں یہ پیغام سنایا: ''میں ابھی تک زندہ ہوں، میں اب بھی موجود ہوں؛ آج میں واقعی تمہارے سامنے کھڑا ہوں تاکہ تم مجھے دیکھ اور چھو سکو۔ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا۔ خداوند یسوع توما کے معاملے کو مستقبل کے لوگوں کے لیے ایک انتباہ کے طور پر بھی استعمال کرنا چاہتا تھا: اگرچہ اپنے ایمان میں تُو خداوند یسوع کو نہ تو دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی چھو سکتا ہے لیکن تو اپنے سچے ایمان کی وجہ سے خوش نصیب ہے۔ اور تو اپنے سچے ایمان کی وجہ سے خُداوند یسوع کو دیکھ سکتا ہے، اور اس قسم کا شخص خوش نصیب ہوتا ہے۔

انجیل میں درج یہ الفاظ جو خداوند یسوع نے اس وقت کہے تھے جب وہ توما کے سامنے ظاہر ہوا تھا، فضل کے دور میں تمام لوگوں کے لیے بہت مددگار ہیں۔ توما کے سامنے اس کا ظاہر ہونا اور اس کو کہے گئے الفاظ نے بعد میں آنے والی نسلوں پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ وہ لازوال اہمیت رکھتے ہیں۔ توما ایک ایسے شخص کی نمائندگی کرتا ہے جو خدا پر ایمان رکھتا ہے لیکن خدا پر شک کرتا ہے۔ وہ مشتبہ نوعیت کے ہیں، ان کے دل گناہ گار ہیں، غدار ہیں، اور ان چیزوں پر یقین نہیں رکھتے جو خدا حاصل کر سکتا ہے۔ وہ خدا کی مطلق قدرت اور اس کی حاکمیت پر ایمان نہیں رکھتے اور نہ ہی وہ مجسم خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ تاہم، خُداوند یسوع کا دوبارہ زندہ ہونا اُن کی خصلتوں کے پیشِ نظر غائب ہو گیا، اور اِس نے انھیں اپنے شک کو دریافت کرنے، اپنے شک کو پہچاننے، اور اپنی غداری کو تسلیم کرنے کا موقع بھی فراہم کیا، اس طرح وہ خُداوند یسوع کے وجود اور دوبارہ زندہ ہونے پر حقیقی معنوں میں ایمان لے آئے۔ توما کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بعد کی نسلوں کے لیے ایک انتباہ اور ایک حفاظتی تدبیر تھی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے آپ کو خبردار کر سکیں کہ وہ توما کی طرح شک کرنے والے نہ بنیں، اور یہ کہ اگر انہوں نے اپنے آپ کو شک سے بھر لیا تو وہ اندھیرے میں ڈوب جائیں گے۔ اگر تو خدا کی پیروی کرتا ہے، لیکن توما کی طرح، اس کی توثیق کرنے، تصدیق کرنے، قیاس کرنے کے لیے ہمیشہ خداوند کی پسلی کو چھونا چاہتا ہے اور اس کے میخوں کے نشانات کو محسوس کرنا چاہتا ہے کہ آیا خدا موجود ہے یا نہیں، تو خدا تجھے چھوڑ دے گا۔ لہٰذا، خُداوند یسوع لوگوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ توما کی طرح نہ بنیں، صرف اُن چیزوں پر یقین کریں جو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں، بلکہ خالص، دیانت دار لوگ بنیں، خُدا کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا نہ کریں، بلکہ صرف اُس پر ایمان لائیں اور اُس کی پیروی کریں۔ ایسے لوگ خوش نصیب ہیں۔ یہ ایک بہت چھوٹا تقاضا ہے جو خداوند یسوع لوگوں سے کرتا ہے، اور یہ اس کے پیروکاروں کے لیے ایک انتباہ ہے۔

شکوک و شبہات سے بھرے ہوئے لوگوں کے بارے میں خداوند یسوع کا رویہ درج بالا ہے۔ تو خُداوند یسوع نے اُن لوگوں کے لیے کیا کہا اور کیا جو ایمانداری سے اُس پر ایمان لا سکتے ہیں اور اُس کی پیروی کر سکتے ہیں؟ یہ وہی ہے جسے ہم خداوند یسوع اور پطرس کے درمیان مکالمے کے ذریعے آگے دیکھنے جا رہے ہیں۔

اس گفتگو میں، خداوند یسوع نے پطرس سے بار بار ایک بات پوچھی: ”اَے شمعُوؔن یُوحنّا کے بیٹے کیا تُو مُجھ سے مُحبّت رکھتا ہے؟“ یہ ایک اعلیٰ معیار ہے جس کا خُداوند یسوع نے اپنے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد پطرس جیسے لوگوں، وہ لوگ جو مسیح پر سچا ایمان رکھتے ہیں اور خُداوند سے محبت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، سے تقاضا کیا تھا۔ یہ سوال ایک طرح کی تفتیش اور پوچھ گچھ کا طریقہ تھا، لیکن اس سے بھی بڑھ کر پطرس جیسے لوگوں سے اس کی ضرورت اور توقع تھی۔ خداوند یسوع نے سوال کرنے کا یہ طریقہ استعمال کیا تاکہ لوگ اپنے آپ پر غور کریں اور اپنے اندر جھانکیں اور پوچھیں: خداوند یسوع کے لوگوں سے کیا تقاضے ہیں؟ کیا میں خداوند سے محبت کرتا ہوں؟ کیا میں خدا سے محبت کرنے والا شخص ہوں؟ مجھے خدا سے کیسے پیار کرنا چاہے؟ اگرچہ خُداوند یسوع نے صرف پطرس سے یہ سوال کیا تھا، لیکن سچائی یہ ہے کہ اپنے دل میں، پطرس سے یہ سوالات پوچھ کر، وہ اِس موقع کو استعمال کرتے ہوئے اِس قسم کے مزید لوگوں سے پوچھنا چاہتا تھا جو خُدا سے محبت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ صرف ایسا ہے کہ پطرس کو اس قسم کا شخص بن کر نمائندے کے طور پر خداوند یسوع کے اپنے منہ سے اس سوال کو حاصل کرنے کی برکت ملی۔

مندرجہ ذیل الفاظ کے مقابلے میں، جو خداوند یسوع نے اپنے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد توما سے کہے تھے: ”اپنا ہاتھ لا اور میری پسلی میں ڈال اور بے اعتقاد نہ ہو بلکہ اعتقاد رکھ،“ پطرس سے اس کا تین بار دہرایا ہوا سوال: ”اَے شمعُوؔن یُوحنّا کے بیٹے کیا تُو مُجھ سے مُحبّت رکھتا ہے؟“ لوگوں کو خُداوند یسوع کے رویے کی سختی، اور اُس سے پوچھ گچھ کے دوران اسے جو عجلت محسوس ہوئی، کو بہتر طور پر محسوس کرنے کا موقع دیتا ہے۔ جہاں تک شک کرنے والے توما کا تعلق ہے تو اس کی دھوکے باز فطرت کے ساتھ، خُداوند یسوع نے اُسے اپنا ہاتھ آگے بڑھانے اور اپنے جسم میں میخوں کے نشانات کو چھونے کی اجازت دی، جس کی وجہ سے اسے یقین ہوا کہ خُداوند یسوع دوبارہ زندہ کیا گیا ابنِ آدم ہے، اور اس نے خداوند یسوع کی مسیح کے طور پر شناخت کو تسلیم کیا۔ اور اگرچہ خُداوند یسوع نے توما کی سختی سے سرزنش نہیں کی اور نہ ہی اُس نے زبانی طور پر اُس کے بارے میں کوئی واضح فیصلہ ظاہر کیا، تاہم اُس نے توما کو یہ بتانے کے لیے عملی اقدامات کا استعمال کیا کہ وہ اُسے سمجھتا ہے، اور ساتھ ہی اُس قسم کے شخص کے لیے اس کے رویے اور عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ خُداوند یسوع کے اِس قسم کے شخص سے تقاضے اور توقعات اس بات سے نہیں دیکھی جا سکتیں کہ اس نے کیا کہا تھا، کیونکہ توما جیسے لوگوں کے پاس سچے ایمان کا ایک ٹکڑا بھی نہیں ہے۔ ان کے لیے خُداوند یسوع کے تقاضے صرف اتنا ہی آگے بڑھتے ہیں، لیکن پطرس جیسے لوگوں کے لیے اُس کا رویہ بالکل مختلف ہے۔ اُس نے یہ تقاضا نہیں کیا کہ پطرس اپنا ہاتھ بڑھا کر اُس کے میخوں کے نشانات کو چھوئے، اور نہ ہی اُس نے پطرس سے کہا: ”بے اعتقاد نہ ہو بلکہ اعتقاد رکھ۔“ اس کی بجائے، اُس نے بار بار پطرس سے یہی سوال کیا۔ سوال سوچنے پر مجبور کرنے والا اور بامعنی تھا، ایک ایسا سوال جو مسیح کے ہر پیروکار کو پچھتاوا اور خوف محسوس کروائے بغیر نہیں رہ سکتا، بلکہ خداوند یسوع کے فکرمند، غمگین مزاج کو بھی محسوس کرواتا ہے۔ اور جب وہ شدید درد اور تکلیف میں ہوتے ہیں، تو وہ خُداوند یسوع مسیح کی تشویش اور اُس کی دیکھ بھال کو سمجھنے کے زیادہ قابل ہوتے ہیں؛ وہ اس کی مخلصانہ تعلیم اور خالص، ایماندار لوگوں سے سخت تقاضوں کو سمجھنے کے زیادہ قابل ہوتے ہیں۔ خداوند یسوع کا سوال لوگوں کو یہ محسوس کرنے کا موقع دیتا ہے کہ خداوند کی لوگوں سے ان سادہ الفاظ میں ظاہر ہونے والی توقعات صرف اس پر ایمان لانے اور اس کی پیروی کرنے کے لیے نہیں بلکہ محبت حاصل کرنے کے لیے، تیرے خداوند اور تیرے خدا سے محبت کرنے کے لیے ہیں۔ اس قسم کی محبت دیکھ بھال کرنا اور اطاعت کرنا ہے۔ یہ انسانوں کا خدا کے لیے جینا، خدا کے لیے مرنا، خدا کے لیے سب کچھ وقف کرنا، اور خدا کے لیے سب کچھ خرچ کرنا اور دینا ہے۔ اس قسم کی محبت خُدا کو تسلی بھی دیتی ہے اور اُسے گواہی سے لطف اندوز ہونے اور آرام کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ خدا کو انسان کی ادائیگی ہے، انسان کی ذمہ داری، فرض اور فریضہ ہے، اور یہ ایک ایسا راستہ ہے جس پر لوگوں کو اپنی ساری زندگی چلنا چاہیے۔ یہ تینوں سوالات ایک تقاضا اور نصیحت تھے جو خداوند یسوع نے پطرس اور ان تمام لوگوں کو کی جنہیں کامل بنایا جانا تھا۔ یہی وہ تین سوالات تھے جنہوں نے پطرس کو زندگی میں آخر تک اپنے راستے پر چلنے کی راہنمائی اور حوصلہ افزائی کی، اور خداوند یسوع کی جدائی کے وقت یہی سوالات تھے جنہوں نے پطرس کی اپنے کامل ہونے کے راستے پر سفر شروع کرنے کے لیے راہنمائی کی، جس کے نتیجے میں اس نے خداوند سے محبت کی، خداوند کی مرضی کا خیال رکھا، خداوند کی فرمانبرداری کی، خداوند کو سکون دیا، اور اس محبت کی وجہ سے اپنی پوری زندگی اور اپنا سارا وجود پیش کر دیا۔

فضل کے دور میں، خدا کا کام بنیادی طور پر دو قسم کے لوگوں کے لیے تھا۔ پہلا وہ شخص تھا جو اس پر ایمان لاتا تھا اور اس کی پیروی کرتا تھا، جو اس کے احکام کو برقرار رکھ سکتا تھا اور صلیب کو اٹھا سکتا تھا، اور جو فضل کے دور کے طریقے کو تھام سکتا تھا۔ اس قسم کا شخص خدا کی نعمتیں حاصل کرے گا اور خدا کے فضل سے لطف اندوز ہو گا۔ دوسری قسم کا شخص پطرس جیسا تھا، جو کامل بنایا جا سکتا تھا۔ لہٰذا، خُداوند یسوع کے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد، اُس نے سب سے پہلے یہ دو سب سے زیادہ بامعنی کام کیے۔ ایک توما کے ساتھ کیا گیا تھا، دوسرا پطرس کے ساتھ۔ یہ دو چیزیں کس چیز کی نمائندگی کرتی ہیں؟ کیا وہ انسانیت کو بچانے کے لیے خدا کے حقیقی ارادوں کی نمائندگی کرتی ہیں؟ کیا وہ انسانیت کے لیے خدا کے اخلاص کی نمائندگی کرتی ہیں؟ اس نے توما کے ساتھ جو کام کیا وہ لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے تھا کہ وہ شک کرنے والے نہ بنیں بلکہ صرف ایمان لائیں۔ اُس نے پطرس کے ساتھ جو کام کیا وہ پطرس جیسے لوگوں کے ایمان کو مضبوط کرنا تھا، اور اِس قسم کے شخص کے بارے میں اپنے تقاضوں کو واضح کرنا تھا، یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ انھیں کن مقاصد کے لیے جستجو کرنی چاہیے۔

خُداوند یسوع کے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد، وہ ان لوگوں کے سامنے ظاہر ہوا جنہیں وہ ضروری سمجھتا تھا، جن سے بات کرتا تھا، اور لوگوں کے لیے اپنے ارادوں اور توقعات کو پیچھے چھوڑ کر جن سے تقاضے کرتا تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مجسم خدا کے طور پر، انسانیت کے لیے اس کی تشویش اور لوگوں سے تقاضے کبھی نہیں بدلے؛ جب وہ جسم میں تھا اور جب وہ صلیب پر میخوں سے جڑنے اور دوبارہ زندہ کیے جانے کے بعد اپنے روحانی جسم میں تھا، تو یہ وہی رہے۔ وہ صلیب پر چڑھنے سے پہلے ان شاگردوں کے بارے میں فکر مند تھا، اور اپنے دل میں وہ ہر ایک شخص کی حالت کے بارے میں واضح تھا اور وہ ہر شخص کی خامیوں کو سمجھتا تھا اور بے شک، ہر شخص کے بارے میں اس کی سمجھ اس کے مرنے کے بعد، دوبارہ زندہ ہونے پر، اور ایک روحانی جسم بننے پر، ویسی ہی تھی جیسی کہ اس وقت تھی جب وہ جسم کی حالت میں تھا۔ وہ جانتا تھا کہ لوگوں کو مسیح کے طور پر اس کی شناخت کے بارے میں مکمل طور پر یقین نہیں تھا، لیکن جسم میں اپنے وقت کے دوران اس نے لوگوں سے سخت مطالبات نہیں کیے۔ تاہم، اس کے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد، وہ ان پر ظاہر ہوا، اور اس نے انھیں مکمل طور پر یقین دلایا کہ خداوند یسوع خدا کی طرف سے آیا ہے اور وہ مجسم خدا ہے، اور اس نے اپنے ظہور اور اپنے دوبارہ زندہ ہونے کی حقیقت کو سب سے بڑی بصیرت اور انسانیت کی زندگی بھر کی جستجو کے محرک کے طور پر استعمال کیا۔ موت سے اُس کے دوبارہ زندہ ہونے نے نہ صرف اُن تمام لوگوں کو تقویت بخشی جو اُس کی پیروی کرتے تھے بلکہ اُس نے اُس کے فضل کے دور کے کام کو انسانیت کے درمیان مکمل طور پر نافذ کیا، اور یوں فضل کے دور میں خُداوند یسوع کی نجات کی خوشخبری آہستہ آہستہ انسانیت کے ہر کونے میں پھیل گئی۔ کیا تو کہے گا کہ خداوند یسوع کے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد اس کے ظاہر ہونے کی کوئی اہمیت تھی؟ اگر تو اس وقت توما یا پطرس ہوتا، اور تجھے اپنی زندگی میں اس ایک چیز کا سامنا کرنا پڑتا جو بہت بامعنی تھی، تو اس کا تجھ پر کیا اثر ہوتا؟ کیا تو نے اسے خدا پر ایمان رکھنے کی اپنی زندگی کی بہترین اور عظیم ترین بصیرت کے طور پر دیکھا ہوتا؟ کیا تو نے اسے ایک ایسی طاقت کے طور پر دیکھا ہوتا جو تجھے خدا کی پیروی کرنے، اس کو راضی کرنے کی کوشش کرنے، اور اپنی پوری زندگی میں خدا سے محبت کرنے کی کوشش کرنے کے لیے متحرک کرتی ہے؟ کیا تو نے اس عظیم ترین بصیرت کو پھیلانے کے لیے زندگی بھر کوشش کی ہوتی؟ کیا تو خدا کی طرف سے خداوند یسوع کی نجات کو پھیلانے کے کام کو ایک ذمہ داری کے طور پر قبول کرتا؟ اگرچہ تو نے اس کا تجربہ نہیں کیا ہے لیکن توما اور پطرس کی دو مثالیں جدید لوگوں کے لیے خدا اور اس کی مرضی کے بارے میں واضح فہم حاصل کرنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ خدا کے جسم بننے کے بعد، انسانوں کے درمیان زندگی کا تجربہ کرنے کے بعد اور انسانی زندگی کا ذاتی تجربہ کرنے کے بعد، اور جب اس نے انسانیت کی اخلاقی بے راہ روی اور اس وقت انسانی زندگی کی صورت حال کو دیکھا، تو جسم کی حالت میں خدا نے بہت گہرائی میں محسوس کیا کہ انسانیت کتنی بے بس، افسوسناک اور قابل رحم ہے۔ خُدا نے اپنی انسانیت کی وجہ انسانیت کی حالت کے لیے سے زیادہ ہمدردی حاصل کی جو اُس نے جسم میں رہتے ہوئے، اپنی جسمانی جبلتوں کی وجہ سے حاصل کی۔ اس کی وجہ سے وہ اپنے پیروکاروں کے لیے زیادہ تشویش محسوس کرتا تھا۔ یہ شاید ایسی چیزیں ہیں جنہیں تم نہیں سمجھ سکتے، لیکن میں اس فکر اور تشویش کو صرف دو الفاظ استعمال کرتے ہوئے بیان کر سکتا ہوں جو خدا نے جسم کی حالت میں اپنے ہر پیروکار کے لیے محسوس کی تھی: ”شدید تشویش۔“ اگرچہ یہ اصطلاح انسانی زبان سے آئی ہے، اور اگرچہ یہ بہت ہی انسانی ہے، اس کے باوجود یہ اپنے پیروکاروں کے لیے خدا کے جذبات کو صحیح معنوں میں ظاہر اور بیان کرتی ہے۔ جہاں تک انسانوں کے لیے خدا کی شدید تشویش کا تعلق ہے، تم اپنے تجربات کے دوران آہستہ آہستہ اسے محسوس کرو گے اور اس کا مزہ چکھو گے۔ تاہم، یہ صرف تمہارے اپنے مزاج میں تبدیلی کی جستجو کی بنیاد پر خدا کے مزاج کو بتدریج سمجھ کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جب خُداوند یسوع نے یہ ظہور کیا، تو اس نے انسانیت میں اپنے پیروکاروں کے لیے اپنی شدید تشویش کو عملی جامہ پہنایا اور اپنے روحانی جسم یا تم کہہ سکتے ہو کہ اپنی الوہیت کے حوالے کر دیا۔ اس کی ظاہری شکل نے لوگوں کو ایک بار پھر تجربہ کرنے اور خدا کی تشویش اور دیکھ بھال کو محسوس کرنے کا موقع دیا اور یہ بھی طاقتور طریقے سے ثابت کیا کہ خدا وہ ہے جو ایک دور کا آغاز کرتا ہے، جو ایک دور کو کھولتا ہے، اور جو ایک دورر کو ختم کرتا ہے۔ اپنے ظہور کے ذریعے، اس نے تمام لوگوں کے ایمان کو مضبوط کیا اور دنیا پر یہ حقیقت ثابت کر دی کہ وہ خود خدا ہے۔ اس سے اس کے پیروکاروں کو ابدی تصدیق ملی، اور اس نے اپنے ظہور کے ذریعے نئے دور میں اپنے کام کا ایک مرحلہ بھی شروع کیا۔

13۔ یسوع روٹی کھاتا ہے اور اپنے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد صحیفوں کی وضاحت کرتا ہے

لُوقا 24: 30-32 جب وہ اُن کے ساتھ کھانا کھانے بَیٹھا تو اَیسا ہُؤا کہ اُس نے روٹی لے کر برکت دی اور توڑ کر اُن کو دینے لگا۔ اِس پر اُن کی آنکھیں کُھل گئِیں اور اُنہوں نے اُس کو پہچان لِیا اور وہ اُن کی نظر سے غائِب ہو گیا۔ اُنہوں نے آپس میں کہا کہ جب وہ راہ میں ہم سے باتیں کرتا اور ہم پر نوِشتوں کا بھید کھولتا تھا تو کیا ہمارے دِل جوش سے نہ بھر گئے تھے؟

14۔ شاگرد یسوع کو بھنی ہوئی مچھلی کھانے کو دیتے ہیں

لُوقا 24: 36-43 وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ یِسُوعؔ آپ اُن کے بِیچ میں آ کھڑا ہُؤا اور اُن سے کہا تُمہاری سلامتی ہو۔ مگر اُنہوں نے گھبرا کر اور خَوف کھا کر یہ سمجھا کہ کِسی رُوح کو دیکھتے ہیں۔ اُس نے اُن سے کہا تُم کیوں گھبراتے ہو؟ اور کِس واسطے تُمہارے دِل میں شک پَیدا ہوتے ہیں؟ میرے ہاتھ اور میرے پاؤں دیکھو کہ مَیں ہی ہُوں۔ مُجھے چُھو کر دیکھو کیونکہ رُوح کے گوشت اور ہڈّی نہیں ہوتی جَیسا مُجھ میں دیکھتے ہو۔ اور یہ کہہ کر اُس نے انھیں اپنے ہاتھ اور پاؤں دِکھائے۔ جب مارے خُوشی کے اُن کو ایمان نہ آیا اور تعجُّب کرتے تھے تو اُس نے اُن سے کہا کیا یہاں تُمہارے پاس کُچھ کھانے کو ہے؟ اُنہوں نے اُسے بُھنی ہُوئی مچھلی کا قتلہ دِیا۔ اُس نے لے کر اُن کے رُوبرُو کھایا۔

اس کے بعد، ہم صحیفے کے مندرجہ بالا اقتباسات پر ایک نظر ڈالیں گے۔ پہلا اقتباس خداوند یسوع کے روٹی کھانے اور اس کے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد صحیفوں کی وضاحت کرنے کا بیان ہے، اور دوسرا اقتباس خداوند یسوع کے ایک بھنی ہوئی مچھلی کھانے کا بیان ہے۔ یہ دو اقتباسات تمہیں خدا کے مزاج کو جاننے میں کس طرح مدد دیتے ہیں؟ کیا تم اس تصویر کا تصور کر سکتے ہو کہ جو تم خداوند یسوع کی روٹی اور پھر ایک بھنی ہوئی مچھلی کھاتے ہوئے ان وضاحتوں سے حاصل کرتے ہو؟ کیا تم تصور کر سکتے ہو کہ اگر خُداوند یسوع تمہارے سامنے کھڑا روٹی کھا رہا ہوتا، تو تم کیسا محسوس کرتے؟ یا اگر وہ تمہارے ساتھ ایک ہی میز پر کھانا کھا رہا ہوتا، لوگوں کے ساتھ مچھلی اور روٹی کھا رہا ہوتا، تو اس لمحے تمہیں کیسا محسوس ہوتا؟ اگر تم خداوند کے بہت قریب محسوس کرتے، کہ وہ تمہارے انتہائی قریب ہے، تو یہ احساس درست ہوتا۔ یہ بالکل وہی نتیجہ ہے جو خداوند یسوع اپنے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد جمع ہوئے لوگوں کے سامنے روٹی اور مچھلی کھا کر لانا چاہتا تھا۔ اگر خُداوند یسوع صرف اپنے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد لوگوں کے ساتھ بات کرتا، اگر وہ اُس کے گوشت اور ہڈیوں کو محسوس نہیں کر سکتے، بلکہ اُسے ایک ناقابل رسائی روح سمجھتے، تو وہ کیسا محسوس کرتے؟ کیا وہ مایوس نہیں ہو جاتے؟ مایوسی کا احساس ہونے سے کیا لوگ خود کو لاوارث محسوس نہ کرتے؟ کیا وہ اپنے اور خُداوند یسوع مسیح کے درمیان فاصلہ محسوس نہ کرتے؟ اس فاصلے نے خدا کے ساتھ لوگوں کے رشتے پر کس قسم کا منفی اثر ڈالا ہوتا؟ لوگ یقینی طور پر خوف محسوس کرتے، کہ وہ اس کے قریب آنے کی ہمت نہیں کرتے، اور اس طرح وہ اسے ایک احترام والے فاصلے پر رکھنے کا رویہ اپناتے۔ اس وقت کے بعد سے، وہ خُداوند یسوع مسیح کے ساتھ اپنے گہرے تعلق کو منقطع کر چکے ہوتے اور آسمان پر انسانیت اور خُدا کے درمیان ایک ایسے رشتے کی طرف واپس آ گئے ہوتے جیسا کہ فضل کے دور سے پہلے تھا۔ وہ روحانی جسم جسے لوگ چھو یا محسوس نہیں کر سکتے تھے، خدا کے ساتھ ان کی انتہائی قربت کو ختم کر دیتا، اور یہ اس گہرے رشتے کو ختم کرنے کا سبب بھی بنتا، جو جسم میں خداوند یسوع مسیح کے وقت میں قائم ہوا تھا جب اس کے اور انسانوں کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں تھا۔ جو چیزیں لوگوں میں روحانی جسم کے ذریعے ہلچل مچاتیں وہ خوف، اجتناب اور بے لفظ نگاہوں کے جذبات ہوتے۔ وہ اس کے قریب جانے یا اس کے ساتھ بات چیت میں مشغول ہونے کی ہمت نہیں کرتے، اس کی پیروی کرنا، اس پر بھروسا کرنا یا اس کی طرف دیکھنا تو دور کی بات ہے۔ خدا اس قسم کا احساس نہیں دیکھنا چاہتا تھا جو انسانوں کو اس کے لیے تھا۔ وہ لوگوں کو خود سے دور ہوتے یا خود کو ان سے دور ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ صرف یہ چاہتا تھا کہ لوگ اسے سمجھیں، اس کے قریب آئیں، اور اس کا خاندان بنیں۔ اگر تیرا اپنا خاندان، تیرے بچے تجھے دیکھیں لیکن تجھے نہ پہچانیں اور تیرے قریب آنے کی ہمت نہ کریں بلکہ ہمیشہ تجھ سے اجتناب کریں، تو نے ان کے لیے جو سب کچھ کیا ہے اس کے لیے اگر تو ان کی سمجھ حاصل نہ کر سکے، تو اس سے تجھے کیسا محسوس ہو گا؟ کیا یہ تکلیف دہ نہیں ہو گا؟ کیا تو دل شکستہ نہیں ہو گا؟ یہ بالکل وہی ہے جو خدا محسوس کرتا ہے جب لوگ اس سے اجتناب کرتے ہیں۔ لہٰذا، اپنے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد، خُداوند یسوع پھر بھی لوگوں پر اپنی گوشت اور خون کی شکل میں ظاہر ہوا، اور پھر بھی اُن کے ساتھ کھایا پیا۔ خُدا لوگوں کو خاندان کے طور پر دیکھتا ہے، اور خُدا یہ بھی چاہتا ہے کہ انسان اُسے اپنے سب سے پیارے کے طور پر دیکھیں؛ صرف اسی طریقے سے خدا حقیقی معنوں میں لوگوں کو حاصل کر سکتا ہے، اور صرف اسی طریقے سے لوگ حقیقی معنوں میں خدا سے محبت اور اس کی عبادت کر سکتے ہیں۔ اب کیا تم صحیفے کے ان دو اقتباسات کو نکالنے میں میرا ارادہ سمجھ سکتے ہو جن میں خداوند یسوع روٹی کھاتا ہے اور اپنے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد صحیفوں کی وضاحت کرتا ہے، اور جس میں شاگرد اسے ایک بھنی ہوئی مچھلی کھانے کے لیے دیتے ہیں؟

یہ کہا جا سکتا ہے کہ خُداوند یسوع نے اپنے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد کہی اور کی جانے والی چیزوں کے سلسلے میں سنجیدہ سوچ داخل کی تھی۔ یہ چیزیں اس مہربانی اور شفقت سے بھری ہوئی تھیں جو خدا نے انسانیت کے ساتھ رکھی تھی، اور اس کی نگہداشت اور انتہائی احتیاط سے بھی بھری ہوئی تھیں جو اس کے پاس تھی جو اس نے انسانوں کے ساتھ اپنے جسم کی حالت میں انتہائی قربت میں گزارے ہوئے وقت کے دوران قائم کی تھی۔ اس سے بھی بڑھ کر، وہ پرانی یادیں اس شدید خواہش سے بھری ہوئی تھیں جو اس نے جسم کی حالت میں اپنے گزارے ہوئے وقت کے دوران اپنے پیروکاروں کے ساتھ کھانے اور ساتھ رہنے کی اپنی زندگی کے لیے محسوس کی تھیں۔ لہٰذا، خدا نہیں چاہتا تھا کہ لوگ خدا اور انسان کے درمیان فاصلہ محسوس کریں، اور نہ ہی وہ یہ چاہتا تھا کہ انسانیت خدا سے دوری اختیار کرے۔ اس سے بھی بڑھ کر، وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ انسانیت یہ محسوس کرے کہ خُداوند یسوع اپنے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد وہ خُداوند نہیں رہا جو لوگوں کے انتہائی قریب تھا، کہ اب وہ انسانیت کے ساتھ مزید نہیں رہا کیونکہ وہ روحانی دنیا میں واپس چلا گیا تھا۔ اس باپ کے پاس واپس چلا گیا جسے لوگ نہ کبھی دیکھ سکتے تھے اور نہ ہی اس تک پہنچ سکتے تھے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ لوگ یہ محسوس کریں کہ اس کے اور انسانیت کے درمیان حیثیت میں کوئی فرق پیدا ہو گیا ہے۔ جب خدا ایسے لوگوں کو دیکھتا ہے جو اس کی پیروی کرنا چاہتے ہیں لیکن جو اسے احترام کے ساتھ فاصلے پر رکھتے ہیں تو اس کو دلی تکلیف ہوتی ہے کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ ان کے دل اس سے بہت دور ہیں اور ان کے دلوں کو حاصل کرنا اس کے لیے بہت مشکل ہو گا۔ لہٰذا اگر وہ لوگوں پر روحانی جسم میں ظاہر ہوتا جسے وہ دیکھ یا چھو نہیں سکتے تھے، تو یہ ایک بار پھر انسان کو خدا سے دور کر دیتا، اور یہ انسانیت کو غلطی سے اس کے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد مسیح کو ایک بلند و بالا ہستی کے طور پر دیکھنے کا سبب بنتا جو انسانوں سے مختلف تھی اور کوئی ایسی ہستی جو اب انسانوں کے ساتھ ایک ہی میز پر کھانا نہیں کھا سکتی تھی کیونکہ انسان گناہ گار، غلیظ ہیں اور کبھی بھی خدا کے قریب نہیں جا سکتے۔ انسانیت کی ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے، خُداوند یسوع نے بہت سے ایسے کام کیے جو وہ جسمانی طور پر کرتا تھا، جیسا کہ انجیل میں درج ہے: ”اُس نے روٹی لے کر برکت دی اور توڑ کر اُن کو دینے لگا۔“ اس نے ان کو صحیفے بھی سمجھائے، جیسا کہ وہ ماضی میں کرتا تھا۔ یہ تمام چیزیں جو خُداوند یسوع نے کیں، ان کی وجہ سے، جس شخص نے بھی اسے دیکھا تھا ہر ایک کو یہ محسوس ہوا کہ خُداوند تبدیل نہیں ہوا ہے، کہ وہ اب بھی وہی خُداوند یسوع ہے۔ اگرچہ وہ صلیب پر میخوں سے جڑا گیا تھا اور موت کا تجربہ کر چکا تھا لیکن وہ دوبارہ زندہ ہو گیا تھا، اور انسانیت کو نہیں چھوڑا تھا۔ وہ انسانوں کے درمیان ہونے کے لیے واپس آیا تھا، اور اس کے بارے میں کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا تھا۔ لوگوں کے سامنے کھڑا ابنِ آدم اب بھی وہی خُداوند یسوع تھا۔ اس کا برتاؤ اور لوگوں سے بات کرنے کا اس کا انداز بہت مانوس محسوس ہوا۔ وہ اب بھی شفقت، فضل اور رواداری سے بھرپور تھا – وہ اب بھی وہی خُداوند یسوع تھا جو دوسروں سے ایسے پیار کرتا تھا جیسے وہ خود سے پیار کرتا تھا، جو انسانیت کو ستر مرتبہ معاف کر سکتا تھا۔ جیسا کہ وہ پہلے ہمیشہ کرتا تھا، اس نے لوگوں کے ساتھ کھانا کھایا، ان کے ساتھ صحیفوں پر تبادلہ خیال کیا، اور اس سے بھی اہم بات، بالکل پہلے کی طرح، وہ گوشت اور خون سے بنا ہوا تھا اور اسے چھوا اور دیکھا جا سکتا تھا۔ اس کے ابن آدم ہونے نے اسے لوگوں کو بہت قربت محسوس کرنے، سکون محسوس کرنے، اور کوئی کھوئی ہوئی چیز دوبارہ حاصل کرنے کی خوشی محسوس کرنے کا موقع دیا۔ بڑی آسانی کے ساتھ، انہوں نے بہادری اور اعتماد کے ساتھ اس ابنِ آدم پر بھروسہ کرنا شروع کر دیا جو انسانیت کے گناہوں کو معاف کر سکتا تھا۔ انہوں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے خداوند یسوع کے نام سے دعا بھی کرنا شروع کر دی، اس کے فضل، اس کی برکت، اور اس سے سلامتی اور خوشی حاصل کرنے، اس سے دیکھ بھال اور حفاظت حاصل کرنے کے لیے دعا کرنا شروع کر دی، اور وہ بیماروں کو شفا دینے لگے۔ خداوند یسوع کے نام پر بدروحوں کو نکالنے لگ گئے۔

اُس وقت کے دوران جب خُداوند یسوع نے جسم کی حالت میں کام کیا، اُس کے زیادہ تر پیروکار اُس کی شناخت اور اُس کی کہی ہوئی باتوں کی پوری طرح تصدیق نہیں کر سکے۔ جب وہ صلیب کے قریب پہنچ رہا تھا تو اس کے پیروکاروں کا رویہ مشاہدہ کرنے والا تھا۔ پھر، اس وقت سے جب اسے صلیب پر میخوں سے جڑا گیا تھا جب تک کہ اسے قبر میں نہیں ڈالا گیا تھا، لوگوں کا اس کے لیے رویہ مایوس کن تھا۔ اس وقت کے دوران، لوگ پہلے ہی اپنے دلوں میں ان باتوں پر شک کرنے سے دور ہٹنے لگ گئے تھے جو خُداوند یسوع نے جسم کی حالت میں اپنے وقت کے دوران کہی تھیں اور ان کا مکمل انکار کر دیا تھا۔ پھر جب وہ قبر سے باہر نکلا اور ایک ایک کر کے لوگوں پر ظاہر ہوا تو ان لوگوں کی اکثریت جنہوں نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا یا اس کے دوبارہ زندہ ہونے کی خبر سنی، ان کا رویہ بتدریج انکار سے شک کی طرف بدل گیا۔ صرف اس وقت جب خداوند یسوع نے توما کو اپنا ہاتھ اپنے پہلو میں رکھنے دیا، اور جب اس نے اپنے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد ہجوم کے سامنے روٹی توڑ کر کھائی اور پھر ان کے سامنے ایک بھنی ہوئی مچھلی کھانے کے لیے بڑھا، تو کیا انہوں نے واقعی اس حقیقت کو قبول کر لیا تھا کہ خُداوند یسوع جسم کی حالت میں مسیح تھا؟ تم کہہ سکتے ہو کہ گویا ان لوگوں کے سامنے گوشت اور خون کا یہ روحانی جسم ان میں سے ہر ایک کو خواب سے بیدار کر رہا تھا: ان کے سامنے کھڑا ابن آدم وہی تھا جو ازل سے موجود تھا۔ اس کے پاس ایک شکل، گوشت اور ہڈیاں تھیں، اور وہ پہلے ہی ایک طویل عرصے سے انسانیت کے ساتھ رہ چکا تھا اور کھاتا رہا تھا۔۔۔۔ اس وقت، لوگوں نے محسوس کیا کہ اس کا موجود ہونا بہت حقیقی اور بہت شاندار ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ بہت خوش اور مسرور اور جذبات سے لبریز بھی تھے۔ اس کے دوبارہ ظاہر ہونے نے لوگوں کو صحیح معنوں میں اس کی عاجزی کو دیکھنے، انسانیت سے اس کی قربت اور لگاؤ ​​کو محسوس کرنے اور یہ محسوس کرنے کا موقع دیا کہ وہ ان کے بارے میں کتنا سوچتا ہے۔ اس مختصر ملاقات نے ان لوگوں کو جنہوں نے خداوند یسوع کو دیکھا تھا یہ محسوس کروایا کہ جیسے پوری زندگی گزر گئی ہے۔ ان کے کھوئے ہوئے، الجھے ہوئے، خوف زدہ، بے چین، تڑپتے اور بے حس دلوں کو سکون ملا۔ وہ اب مزید کسی شک یا مایوسی کا شکار نہیں تھے، کیونکہ انھیں لگتا تھا کہ اب امید ہے اور کوئی ایسا ہے جس پر بھروسا کرنا ہے۔ پھر ابنِ آدم اُن کے سامنے کھڑا ہمیشہ کے لیے اُن کا عقبی محافظ ہو گا؛ وہ اُن کا مضبوط مینار، ہمیشہ کے لیے اُن کی پناہ گاہ ہو گا۔

اگرچہ خُداوند یسوع کو زندہ کیا گیا تھا، لیکن اُس کے دل اور اُس کے کام نے انسانیت کو نہیں چھوڑا تھا۔ لوگوں کے سامنے ظاہر ہو کر، اُس نے اُن سے کہا کہ چاہے وہ کسی بھی شکل میں موجود ہو، وہ لوگوں کے ساتھ رہے گا، اُن کے ساتھ چلے گا، اور ہر وقت اور ہر جگہ اُن کے ساتھ موجود رہے گا۔ اس نے انھیں بتایا کہ ہر وقت اور ہر جگہ وہ انسانوں کو مہیا کرے گا اور ان کی گلہ بانی کرے گا، انھیں اجازت دے گا کہ وہ اسے دیکھیں اور چھوئیں، اور اس بات کو یقینی بنائے گا کہ وہ دوبارہ کبھی بے بس محسوس نہ کریں۔ خداوند یسوع یہ بھی چاہتا تھا کہ لوگ جان لیں کہ وہ اس دنیا میں تنہا نہیں رہتے۔ انسانیت کے پاس خدا کی دیکھ بھال ہے؛ خدا ان کے ساتھ ہے۔ وہ ہمیشہ خُدا پر بھروسا کر سکتے ہیں، اور وہ اپنے پیروکاروں میں سے ہر ایک کا خاندان ہے۔ خُدا پر بھروسا کرنے کے ساتھ، انسانیت مزید تنہا یا بے بس نہیں رہے گی، اور جو لوگ اُسے اپنے گناہ کے کفارے کے طور پر قبول کرتے ہیں وہ مزید گناہ کے پابند نہیں ہوں گے۔ انسانی نظروں میں، اس کے کام کے یہ حصے جو خُداوند یسوع نے اپنے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد انجام دیے بہت چھوٹی چیزیں تھیں، لیکن جس طرح سے میں اسے دیکھ رہا ہوں، اُس کا ہر ایک کام بہت بامعنی، بہت قیمتی، بہت اہم اور اہمیت سے بھرا ہوا تھا۔

اگرچہ خُداوند یسوع کا جسم کی حالت میں کام کرنے کا وقت سختیوں اور مصائب سے بھرا ہوا تھا، لیکن اُس نے اُس وقت کے اپنے کام کو جسم میں مکمل طور پر اور کامل طور پر پورا کیا تاکہ اُس کے روحانی جسم میں گوشت اور خون کے اپنے ظہور کے ذریعے انسانیت کی خلاصی کروائی جائے۔ اُس نے اپنی ذمہ داری کا آغاز جسم بن کر کیا، اور اُس نے اپنی منادی کا اختتام اپنی جسمانی شکل میں انسانیت پر ظاہر ہو کے کیا۔ اس نے فضل کے دور کا اعلان کیا، مسیح کے طور پر اپنی شناخت کے ذریعے نئے دور کا آغاز کیا۔ مسیح کے طور پر اپنی شناخت کے ذریعے، اس نے فضل کے دور میں کام کیا اور اس نے فضل کے دور میں اپنے تمام پیروکاروں کو تقویت بخشی اور ان کی راہنمائی کی۔ یہ خُدا کے کام کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ جو کچھ وہ شروع کرتا ہے اُسے صحیح معنوں میں ختم کرتا ہے۔ مرحلے اور منصوبہ ہوتا ہے، اور کام اس کی حکمت، اس کی مطلق قدرت، اس کے شاندار کاموں، اور اس کی محبت اور رحم سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ بلاشبہ، خدا کے تمام کاموں میں موجود بنیادی رشتہ انسانیت کے لیے اس کی دیکھ بھال ہے۔ یہ اس کی تشویش کے جذبات سے بھرا ہوا ہے جسے وہ کبھی بھی ایک طرف نہیں رکھ سکتا۔ انجیل کی ان آیات میں، ہر ایک کام میں جو خُداوند یسوع نے اپنے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد کیا، انسانیت کے لیے خُدا کی تبدیل نہ ہونے والی امیدیں اور تشویش ظاہر کی گئی، جیسا کہ اُس کی محتاط دیکھ بھال اور انسانوں کی پرورش تھی۔ اس میں سے کچھ بھی کبھی نہیں بدلا ہے، ہمیشہ سے آج تک – کیا تم اسے دیکھ سکتے ہو؟ جب تم یہ دیکھتے ہو تو کیا تمہارے دل لاشعوری طور پر خدا کے قریب نہیں ہو جاتے؟ اگر تم اُس دور میں رہتے اور خُداوند یسوع اپنے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد تمہیں نظر آنے کے لیے تمہارے سامنے ایک ٹھوس شکل میں ظاہر ہوتا، اور اگر وہ تمہارے سامنے بیٹھتا، روٹی اور مچھلی کھاتا اور تمہیں صحیفے سمجھاتا اور تم سے بات کرتا، تو پھر تم کیسا محسوس کرتے؟ کیا تم خوشی محسوس کرتے؟ یا تم قصوروار محسوس کرتے؟ پچھلی غلط فہمیاں اور خدا سے اجتناب، خدا کے ساتھ تنازعات اور اس کے بارے میں شکوک – کیا یہ سب بالکل ختم نہیں ہو جاتا؟ کیا خدا اور انسان کا رشتہ مزید معمول کا اور مناسب نہ ہو جاتا؟

انجیل کے ان محدود ابواب کی تشریح کرنے سے، کیا تم خدا کے مزاج میں کوئی خامی پاتے ہو؟ کیا تم خدا کی محبت میں کوئی ملاوٹ پاتے ہو؟ کیا تم خدا کی قدرت یا حکمت میں کوئی فریب یا برائی دیکھتے ہو؟ یقینی طور پر نہیں! اب کیا تم یقین سے کہہ سکتے ہو کہ خدا مقدس ہے؟ کیا تم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہو کہ خدا کا ہر ایک جذبہ اس کے جوہر اور مزاج کا انکشاف ہے؟ مجھے امید ہے کہ تم ان الفاظ کو پڑھنے کے بعد، ان سے تمہیں جو فہم حاصل ہوتی ہے وہ تمہاری مدد کرے گی اور مزاج میں تبدیلی اور خوف خدا کی تمہاری جستجو میں تمہیں فائدہ پہنچائے گی، اور وہ تم میں پھل لائے گی، ایسا پھل جو دن بہ دن بڑھتا ہے، تاکہ اس جستجو کے عمل میں تمہیں خدا کے زیادہ قریب اور قریب تر لایا جائے، اس معیار کے زیادہ قریب اور قریب تر جو خدا چاہتا ہے۔ تم سچائی کی جستجو سے مزید نہیں اکتاؤ گے اور مزید یہ محسوس نہیں کرو گے کہ سچائی اور مزاج میں تبدیلی کی جستجو ایک پریشان کن یا اضافی چیز ہے۔ بلکہ، خدا کے حقیقی مزاج اور خدا کے مقدس جوہر کے اظہار سے حوصلہ افزائی پاتے ہوئے تم روشنی کی آرزو کرو گے، انصاف کی آرزو کرو گے، سچائی کی پیروی کرنے کی خواہش کرو گے، خدا کی مرضی کی تسکین کے حصول کی خواہش کرو گے، اور تم خدا کی طرف سے حاصل کردہ شخص بن جاؤ گے، ایک حقیقی شخص بن جاؤ گے۔

آج ہم نے کچھ چیزوں کے بارے میں بات کی ہے جو خدا نے فضل کے دور میں کیں جب وہ پہلی بار مجسم ہوا تھا۔ ان چیزوں سے، ہم نے وہ مزاج نیز اس کے پاس جو کچھ ہے اور جو وہ خود ہے، اس کا ہر پہلو دیکھا جس کا اظہار اور انکشاف اس نے جسم کی حالت میں کیا۔ جو کچھ اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، اس کے یہ تمام پہلو بہت ہی انسانی نظر آتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے جو انکشاف کیا ہے اور جو ظاہر کیا ہے، اس کا جوہر اس کے اپنے مزاج سے الگ نہیں ہے۔ خدا کا ہر طریقہ اور ہر پہلو جو انسانیت میں اپنے مزاج کا اظہار کرتا ہے اس کے اپنے جوہر سے جڑا ہوا ہے۔ لہٰذا، یہ بہت ضروری ہے کہ خدا تجسیم کا طریقہ استعمال کرتے ہوئے انسانوں کے پاس آئے۔ اس کے علاوہ وہ کام بھی اہم ہے جو اس نے جسمانی طور پر کیا، لیکن جسم میں رہنے والے ہر فرد کے لیے، بدعنوانی میں رہنے والے ہر فرد کے لیے اس سے بھی زیادہ اہم وہ مزاج ہے اور وہ مرضی جو اس نے جسم کی حالت میں رہتے ہوئے ظاہر کی۔ کیا یہ ایسی چیز ہے جسے تم سمجھ سکتے ہو؟ خدا کے مزاج اور اس کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے، کو سمجھنے کے بعد، کیا تم نے کوئی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ تمہیں خدا کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیے؟ آخر میں، اس سوال کے جواب میں، میں تمہیں نصیحت کے تین ٹکڑے دینا چاہوں گا: سب سے پہلا، خدا کی آزمائش نہ کرو۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تو خدا کے بارے میں کتنا ہی سمجھتا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تو اس کے مزاج کے بارے میں کتنا جانتا ہے، قطعی طور پر اس کی آزمائش نہ کر۔ دوسرا، خدا کے ساتھ حیثیت کے لیے جھگڑا نہ کر۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ خدا تجھے کس قسم کا درجہ دیتا ہے یا وہ تجھے کس قسم کا کام سونپتا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ تجھے کس قسم کی ذمہ داریوں کو انجام دینے کے لیے اوپر اٹھاتا ہے، اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تو نے خدا کے لیے اپنے آپ کو کتنا خرچ کیا ہے اور قربان کیا ہے، اس سے قطعی طور پر حیثیت کے لیے مقابلہ نہ کر۔ تیسرا، خدا سے مقابلہ نہ کر۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تو سمجھتا ہے یا نہیں یا اگر تو اس کے تابع ہو سکتا ہے یا نہیں کہ خدا تیرے ساتھ کیا کرتا ہے، وہ تیرے لیے کیا انتظام کرتا ہے، اور جو چیزیں وہ تیرے پاس لاتا ہے، قطعی طور پر خدا سے مقابلہ نہ کر۔ اگر تو نصیحت کے ان تین ٹکڑوں پر عمل کر سکتا ہے تو تُو بالکل محفوظ رہے گا، اور تو خدا کو ناراض کرنے پر مائل نہیں ہو گا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہم آج کی رفاقت ختم کریں گے۔

23 نومبر 2013

حاشیہ:

ا۔ ”پٹی باندھنے والا جادو“ ایک ایسا جادو ہے جسے راہب تانگ سانزانگ نے چینی ناول جرنی ٹُو دا ویسٹ میں استعمال کیا ہے۔ وہ سن ووکونگ کو قابو کرنے کے لیے اس جادو کا استعمال سن موخرالذکر کے سر کے گرد دھاتی پٹی کو سختی سے باندھ کر اسے شدید سر درد دیتا ہے، اور اس طرح اسے قابو میں لاتا ہے۔ یہ کسی ایسی چیز کو بیان کرنے کا ایک استعارہ بن گیا ہے جو انسان کو جکڑ لیتی ہے۔

سابقہ: خدا کے مزاج اور اس کے کام سے حاصل ہونے والے نتائج کو کیسے جانیں

اگلا: خدا خود، منفرد I

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp