خدا خود، منفرد I

خدا کا اختیار (I)

میری گزشتہ کئی رفاقتیں خُدا کے کام، خُدا کے مزاج اور خود خُدا کے بارے میں تھیں۔ ان رفاقتوں کو سننے کے بعد، کیا تم یہ محسوس کرتے ہو کہ تم نے خدا کے مزاج کی سمجھ بوجھ اور علم حاصل کر لیا ہے؟ تم نے سمجھ بوجھ اور علم کا کون سا درجہ حاصل کیا ہے؟ کیا تم اس پر نمبر لگا سکتے ہو؟ کیا ان رفاقتوں نے تمہیں خدا کی گہری سمجھ بوجھ دی ہے؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سمجھ بوجھ خدا کا حقیقی علم ہے؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ خدا کا یہ علم اور سمجھ بوجھ خدا کے تمام جوہر کا علم ہے اور جو کچھ اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے؟ نہیں، ظاہر ہے کہ نہیں! اس کی وجہ یہ ہے کہ ان رفاقتوں نے صرف خدا کے مزاج کے ایک حصے کی سمجھ بوجھ فراہم کی ہے اور اس بات کی کہ اس کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے – اس سب کی مکمل طور پر نہیں۔ ان رفاقتوں نے تمہیں ماضی میں خدا کی طرف سے کیے گئے کام کے کچھ حصے کو سمجھنے کے قابل بنایا؛ ان رفاقتوں کے ذریعے، تم نے خدا کے مزاج اور اس کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے، اور اس نے جو کچھ بھی کیا ہے اس کے پیچھے طریقِ کار اور سوچ کو دیکھا۔ لیکن یہ خدا کی صرف ایک عام لفظی طور پر، بیان کی گئی سمجھ بوجھ ہے، اور، تم اپنے دلوں میں اس بارے میں غیر یقینی رہتے ہو کہ اس میں سے حقیقی کتنی ہے۔ بنیادی طور پر اس کا تعین کس بات سے ہوتا ہے کہ آیا ایسی چیزوں کے بارے میں لوگوں کی سمجھ بوجھ میں کوئی حقیقت ہے یا نہیں؟ اس کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے حقیقی تجربات کے دوران خدا کے کتنے کلام اور مزاج کا واقعی تجربہ کیا ہے، اور ان حقیقی تجربات کے دوران وہ کتنا کچھ دیکھنے اور جاننے کے قابل ہوئے ہیں۔ کیا کسی نے اس طرح کے الفاظ کہے ہیں: "گزشتہ کئی رفاقتوں کی وجہ سے ہم نے خدا کی طرف سے کی گئی چیزوں، خدا کے خیالات، اور اس کے علاوہ، بنی نوع انسان کے بارے میں خدا کا رویہ اور اس کے اعمال کی بنیاد کے ساتھ ساتھ اس کے اعمال کے اصول سمجھ لیے ہیں؛ اور اس طرح ہم نے خدا کے مزاج کو سمجھ لیا ہے، اور خدا کی مکمل حیثیت کو جان لیا ہے؟" کیا یہ کہنا درست ہے؟ واضح طور پر، یہ درست نہیں ہے۔ میں کیوں یہ کہتا ہوں کہ ایسے کہنا درست نہیں ہے؟ خُدا کا مزاج اور جو کچھ اُس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، کا اظہار اُن چیزوں میں ہوتا ہے جو اُس نے کی ہیں اور اُس کے کہے ہوئے کلام میں ہوتا ہے۔ خدا نے جو کام کیا ہے اور اس کے کہے ہوئے کلام کے ذریعے انسان یہ دیکھنے کے قابل ہوتا ہے کہ خدا کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے، لیکن اس سے صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ کام اور کلام انسان کو خدا کے مزاج کے صرف ایک حصے کو، اس کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے، کے صرف ایک حصے کو ہی سمجھنے کے قابل بناتے ہیں۔ اگر انسان خدا کے بارے میں زیادہ وسیع اور زیادہ گہری سمجھ بوجھ حاصل کرنا چاہتا ہے، تو پھر انسان کو خدا کے کلام اور کام کا زیادہ عملی تجربہ کرنا چاہیے۔ خدا کے کلام یا کام کے جزوی عملی تجربے کے بعد انسان اگرچہ خدا کے بارے میں صرف جزوی سمجھ بوجھ ہی حاصل کرتا ہے لیکن کیا یہ جزوی سمجھ بوجھ خدا کے حقیقی مزاج کی نمائندگی کرتی ہے؟ کیا یہ خدا کے جوہر کی نمائندگی کرتی ہے؟ بے شک یہ خدا کے حقیقی مزاج اور خدا کے جوہر کی نمائندگی کرتی ہے؛ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ وقت یا جگہ سے قطع نظر، یا خدا کس انداز میں اپنا کام کرتا ہے، یا وہ کس شکل میں انسان کے سامنے ظاہر ہوتا ہے، یا وہ کس طریقے سے اپنی مرضی کا اظہار کرتا ہے، وہ جو کچھ بھی ظاہر اور بیان کرتا ہے وہ خود خدا کی، خدا کے جوہر کی، اور اس کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے، کی نمائندگی کرتا ہے۔ خُدا کے پاس جو ہے اور جو وہ خود ہے، اسی کے ساتھ کام کرتا ہے اور اپنی حقیقی شناخت میں کرتا ہے؛ یہ بالکل سچ ہے۔ اس کے باوجود، آج، لوگوں کو خدا کے بارے میں صرف اس کے کلام اور جو کچھ وہ منادی میں سنتے ہیں، اس کے ذریعے خدا کی جزوی سمجھ بوجھ ہوتی ہے اور اس طرح ایک حد تک، اس سمجھ بوجھ کو صرف ایک نظریاتی علم ہی کہا جا سکتا ہے۔ اپنی حقیقی حالتوں کے پیشِ نظر، جب تم میں سے ہر ایک اپنے حقیقی تجربات سے گزرتا ہے، اور تھوڑا تھوڑا کر کے اس کا علم حاصل کر لیتا ہے تو تُو صرف اسی صورت میں خدا کی اس سمجھ بوجھ یا علم کی تصدیق کر سکتا ہے جو تو نے سنا، دیکھا، یا جانا ہے اور آج اپنے دل میں سمجھا ہے۔ اگر میں تمہارے ساتھ ان الفاظ کی رفاقت نہ کرتا تو کیا تم فقط اپنے عملی تجربات کی وجہ سے خدا کی حقیقی معرفت حاصل کر سکتے؟ مجھے خدشہ ہے کہ ایسا کرنا بہت مشکل ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عملی تجربہ کرنے کا طریقہ جاننے کے لیے لوگوں کے پاس پہلے خدا کا کلام ہونا ضروری ہے۔ لوگ خدا کا جتنا بھی کلام کھاتے ہیں، یہ وہی تعداد ہوتی ہے جس کا وہ حقیقت میں عملی تجربہ کر سکتے ہیں۔ خدا کا کلام آگے راستے کی راہنمائی کرتا ہے اور انسان کے عملی تجربے میں اس کی راہنمائی کرتا ہے۔ مختصراً، ان لوگوں کے لیے جن کے پاس کچھ سچا عملی تجربہ ہے، یہ آخری کئی رفاقتیں انھیں سچائی کی زیادہ گہری سمجھ بوجھ، اور خدا کے بارے میں زیادہ حقیقت پسندانہ علم حاصل کرنے میں مدد دیں گی۔ لیکن جن لوگوں کے پاس کوئی درست عملی تجربہ نہیں ہے، یا جنھوں نے اپنا عملی تجربہ ابھی ابھی شروع کیا ہے، یا جنھوں نے ابھی ابھی حقیقت کے قریب آنا شروع کیا ہے، ان لوگوں کے لیے یہ ایک بہت بڑا امتحان ہے۔

پچھلی کئی رفاقتوں کا اہم مواد "خدا کا مزاج، خدا کا کام، اور خود خدا" سے متعلق ہے۔ ہر وہ چیز جو میں نے بیان کی ہے تم نے اس کے کلیدی اور مرکزی حصوں میں کیا دیکھا ہے؟ ان رفاقتوں کے ذریعے، کیا تم یہ پہچاننے کے قابل ہو کہ وہ جس نے کام کیا، وہ جس نے ان فطری رجحانات کو ظاہر کیا، وہ منفرد خدا خود ہے جو تمام چیزوں پر حاکمیت رکھتا ہے؟ اگر تمہارا جواب ہاں میں ہے، تو پھر کس وجہ سے تم اس نتیجے پر پہنچتے ہو؟ اس نتیجے پر پہنچنے میں تم نے کتنے پہلوؤں پر غور کیا ہے؟ کیا کوئی مجھے بتا سکتا ہے؟ میں جانتا ہوں کہ پچھلی چند رفاقتوں نے تمہیں بہت زیادہ متاثر کیا ہے، اور تمہارے دلوں میں خدا کے علم کے لیے ایک نئی شروعات فراہم کی ہے، جو کہ بہت عمدہ بات ہے۔ لیکن اگرچہ، پہلے کے مقابلے میں، تم نے خدا کی سمجھ بوجھ کے بارے میں بہت زیادہ پیشرفت کی ہے، لیکن خدا کی شناخت کے متعلق تمہاری توضیح ابھی تک شریعت کے دور کے یہوواہ خدا، فضل کے دور کے خداوند یسوع، اور بادشاہی کے دور کے قادر مطلق خدا کے ناموں سے آگے نہیں بڑھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ، اگرچہ "خدا کا مزاج، خدا کا کام، اور خود خدا" کے بارے میں ان رفاقتوں نے خدا کی طرف سے کبھی کہے گئے کلام، اور خدا کی طرف سے کبھی کیے گئے کام، اور خدا کی طرف سے کبھی ظاہر کیے گئے وجود اور اثاثوں کی تمہیں جو تھوڑی سی سمجھ بوجھ دی ہے وہ لفظ "خدا" کی صحیح تعریف اور درست واقفیت فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ نہ ہی تمہارے پاس خود خدا کی حیثیت اور شناخت کے بارے میں صحیح اور درست واقفیت اور علم ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ تمام چیزوں اور پوری کائنات میں تمہیں خدا کی حیثیت کا علم نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ، خود خدا اور خدا کے مزاج کے بارے میں پچھلی رفاقتوں میں، تمام مواد انجیل میں درج خدا کے سابقہ مظاہر اور مکاشفوں پر مبنی تھا۔ اب تک انسان کے لیے اُس وجود اور اثاثوں کو دریافت کرنا مشکل ہے جو خدا کی طرف سے اس کے انتظام اور بنی نوع انسان کی نجات کے دوران یا اس سے ہٹ کر ظاہر اور بیان کیے گئے ہیں۔ لہٰذا، اگر تم خدا کے وجود اور اثاثوں کو جو اس کے ماضی میں کیے گئے کام میں ظاہر ہوئے تھے، سمجھتے بھی ہو تب بھی خدا کی شناخت اور حیثیت کی تمہاری توضیح "منفرد خدا، وہ ایک جو ہر چیز پر حاکمیت رکھتا ہے" سے بہت دور ہے اور یہ "خالق" سے مختلف ہے۔ پچھلی کئی رفاقتوں کی وجہ سے سب نے اسی طرح محسوس کیا: انسان خدا کے خیالات کو کیسے جان سکتا ہے؟ اگر کوئی واقعی جانتا ہے تو وہ شخص یقیناً خدا ہو گا، کیونکہ صرف خدا ہی خود اپنے خیالات کو جانتا ہے، اور صرف خدا ہی خود اس کی بنیاد اور طریقِ کار کی اہمیت کو جانتا ہے جو وہ کرتا ہے۔ ایسے طریقے سے خدا کی شناخت کو پہچاننا تمہیں عقلی اور منطقی معلوم ہوتا ہے، لیکن خدا کے مزاج اور کام سے کون بتا سکتا ہے کہ یہ واقعی خود خدا کا کام ہے اور انسان کا کام نہیں ہے، یہ ایسا کام ہے جو خدا کی طرف سے انسان نہیں کر سکتا ہے؟ کون دیکھ سکتا ہے کہ یہ کام اس واحد کی حاکمیت میں آتا ہے جس کے پاس خدا کا جوہر اور قدرت ہے؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تم کن خصوصیات یا جوہر کے ذریعے پہچانتے ہو کہ وہ خود خدا ہے، جس کی شناخت خدا کی ہے، اور وہی وہ واحد ہے جو ہر چیز پر حاکمیت رکھتا ہے؟ کیا تم نے کبھی اس کے متعلق سوچا ہے؟ اگر تم نے نہیں سوچا ہے، تو اس سے ایک حقیقت ثابت ہوتی ہے: پچھلی کئی رفاقتوں نے تمہیں تاریخ کے اس دور کی جس میں خدا نے اپنا کام کیا، اور اس کام کے دوران خدا کے طریقِ کار، اظہار اور مکاشفوں کے بارے میں کچھ سمجھ بوجھ دی ہے۔ اگرچہ اس طرح کی سمجھ تم میں سے ہر ایک کو بغیر کسی شک کے یہ پہچان دیتی ہے کہ وہ واحد جس نے کام کے ان دو مراحل کو انجام دیا وہ خود خدا ہے جس پر تم ایمان رکھتے ہو اور جس کی پیروی کرتے ہو، وہ واحد ہے جس کی تمہیں ہمیشہ پیروی کرنی چاہیے، تم ابھی تک یہ تسلیم کرنے سے قاصر ہو کہ وہی خدا ہے جو دنیا کی تخلیق کے وقت سے موجود ہے اور جو ابد تک رہے گا، اور نہ ہی تم یہ پہچاننے کے قابل ہو کہ وہی وہ واحد ہے جو تمام بنی نوع انسان کی راہنمائی کرتا ہے اور اس پر حاکمیت رکھتا ہے۔ یقیناً تم نے اس مسئلے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا ہے۔ یہوواہ ہو یا خداوند یسوع، جس کے جوہر اور اظہار کے پہلوؤں کے ذریعے تم یہ پہچاننے کے قابل ہو کہ وہ نہ صرف وہی خدا ہے جس کی تمہیں لازماً پیروی کرنی چاہیے، بلکہ وہ واحد بھی ہے جو بنی نوع انسان کو حکم دیتا ہے اور بنی نوع انسان کی تقدیر کا حاکم ہے، اس کے علاوہ، وہ منفرد خدا خود کون ہے جو آسمانوں اور زمین اور تمام چیزوں کا حاکم ہے؟ تم کن ذرائع سے یہ پہچانتے ہو کہ جس پر تم ایمان رکھتے ہو اور جس کی پیروی کرتے ہو وہ وہی خدا خود ہے جو ہر چیز پر حاکمیت رکھتا ہے؟ تم جس خدا پر ایمان رکھتے ہو اس کا تعلق کن ذرائع سے اس خدا سے جوڑتے ہو جو بنی نوع انسان کی تقدیر پر حاکمیت رکھتا ہے؟ تم کیسے یہ پہچانتے ہو کہ جس خدا پر تم ایمان رکھتے ہو وہ وہی منفرد خدا ہے جو آسمانوں اور زمین پر اور تمام چیزوں میں موجود ہے؟ یہ وہ مسئلہ ہے جسے میں اگلے حصے میں حل کروں گا۔

وہ مسائل جن کے بارے میں تم نے کبھی نہیں سوچا ہے یا نہیں سوچ سکتے ہو، ایسے مسائل ہو سکتے ہیں جو خدا کو جاننے کے لیے انتہائی اہم ہیں، اور جن میں ایسی سچائیاں تلاش کی جا سکتی ہیں جو انسان کے لیے ناقابلِ ادراک ہیں۔ جب تمہیں ان مسائل سے واسطہ پڑتا ہے جن کا تمہیں سامنا کرنا پڑتا ہے اور انتخاب کرنا پڑتا ہے، اگر تم اپنی حماقت اور جہالت کی وجہ سے ان کو مکمل طور پر حل کرنے سے قاصر ہو، یا اگر تمہارے عملی تجربات بہت سطحی ہیں اور تمہارے پاس خدا کے بارے میں صحیح علم نہیں ہے، تو پھر خدا پر تمہارے ایمان کی راہ میں وہ سب سے بڑی رکاوٹ بن جائیں گے اور سب سے زیادہ مزاحم ہوں گے۔ اور اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس موضوع کے حوالے سے تمہارے ساتھ رفاقت کرنا انتہائی ضروری ہے۔ کیا تم جانتے ہو کہ اس وقت تمہارا مسئلہ کیا ہے؟ جن مسائل کی میں بات کر رہا ہوں کیا تمہیں ان کے متعلق واضح علم ہے؟ کیا یہ وہ مسائل ہیں جن کا تمہیں سامنا کرنا پڑے گا؟ کیا یہ وہ مسائل ہیں جنھیں تم نہیں سمجھتے ہو؟ کیا یہ وہ مسائل ہیں جو کبھی تمہیں پیش نہیں آئے؟ کیا یہ مسائل تمہارے لیے اہم ہیں؟ کیا وہ واقعی مسائل ہیں؟ تمہارے لیے یہ معاملہ بہت الجھن کا باعث ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمہیں اس خدا کی صحیح سمجھ بوجھ نہیں ہے جس پر تم ایمان رکھتے ہو، اور یہ کہ تم اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے ہو۔ کچھ لوگ کہتے ہیں، ''میں جانتا ہوں کہ وہ خدا ہے، اور اسی لیے میں اس کی پیروی کرتا ہوں، کیونکہ اس کا کلام خدا کا اظہار ہے۔ یہ کافی ہے۔ مزید کس ثبوت کی ضرورت ہے؟ یقیناً ہمیں خدا کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟ یقیناً ہمیں خدا کو آزمانا نہیں چاہیے؟ یقیناً ہمیں خدا کی ذات اور خود خدا کی شناخت پر سوال اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے؟ اس بات سے قطع نظر کہ تم اس طرح سوچتے ہو، میں تمہیں خدا کے بارے میں الجھن میں ڈالنے کے لیے، یا تمہیں اس کو آزمانے کے لیے اس طرح کے سوالات نہیں کرتا ہوں، خدا کی شناخت اور جوہر کے بارے میں تمارے اندر شکوک پیدا کرنا تو اور بھی دور کی بات ہے۔ بلکہ میں تمہارے اندر خدا کے جوہر کے بارے میں زیادہ سمجھ بوجھ اور خدا کی حیثیت کے بارے میں زیادہ یقین اور ایمان پیدا کرنے کے لیے ایسا کرتا ہوں، تاکہ خدا کی پیروی کرنے والے تمام لوگوں کے دلوں میں واحد صرف خدا ہی بن سکے، اور تاکہ خدا کی اصل حیثیت – خالق کے طور پر، ہر چیز کا حاکم، منفرد خدا خود – ہر مخلوق کے دل میں بحال ہو سکے۔ یہ بھی وہ نفسِ موضوع ہے میں جس کے بارے میں رفاقت کرنے والا ہوں۔

اب آؤ ہم انجیل سے درج ذیل صحیفوں کو پڑھنا شروع کریں۔

1۔ خدا سب چیزوں کو تخلیق کرنے کے لیے کلام کا استعمال کرتا ہے

پَیدائش 1: 3-5 اور خُدا نے کہا کہ رَوشنی ہو جا اور رَوشنی ہو گئی۔ اور خُدا نے دیکھا کہ رَوشنی اچھّی ہے اور خُدا نے رَوشنی کو تارِیکی سے جُدا کِیا۔ اور خُدا نے رَوشنی کو تو دِن کہا اور تارِیکی کو رات اور شام ہُوئی اور صُبح ہُوئی۔ سو پہلا دِن ہُؤا۔

پَیدائش 1: 6-7 اور خُدا نے کہا کہ پانیوں کے درمیان فضا ہو تاکہ پانی پانی سے جُدا ہو جائے۔ پس خُدا نے فضا کو بنایا اور فضا کے نِیچے کے پانی کو فضا کے اُوپر کے پانی سے جُدا کِیا اور اَیسا ہی ہُؤا۔

پَیدائش 1: 9-11 اور خُدا نے کہا کہ آسمان کے نِیچے کا پانی ایک جگہ جمع ہو کہ خُشکی نظر آئے اور اَیسا ہی ہُؤا۔ اور خُدا نے خُشکی کو زمِین کہا اور جو پانی جمع ہو گیا تھا اُس کو سمُندر اور خُدا نے دیکھا کہ اچھّا ہے۔ اور خُدا نے کہا کہ زمِین گھاس اور بیِج دار بوٹِیوں کو اور پَھل دار درختوں کو جو اپنی اپنی جِنس کے مُوافِق پَھلیں اور جو زمِین پر اپنے آپ ہی میں بیِج رکھّیں اُگائے اور اَیسا ہی ہُؤا۔

پَیدائش 1: 14-15 اور خُدا نے کہا کہ فلک پر نیّر ہوں کہ دِن کو رات سے الگ کریں اور وہ نِشانوں اور زمانوں اور دِنوں اور برسوں کے اِمتیاز کے لیے ہوں۔ اور وہ فلک پر انوار کے لیے ہوں کہ زمِین پر رَوشنی ڈالیں اور اَیسا ہی ہُؤا۔

پَیدائش 1: 20-21 اور خُدا نے کہا کہ پانی جان داروں کو کثرت سے پَیدا کرے اور پرِندے زمِین کے اُوپر فضا میں اُڑیں۔ اور خُدا نے بڑے بڑے دریائی جانوروں کو اور ہر قِسم کے جاندار کو جو پانی سے بکثرت پَیدا ہوئے تھے اُن کی جِنس کے مُوافِق اور ہر قِسم کے پرِندوں کو اُن کی جِنس کے مُوافِق پَیدا کِیا اور خُدا نے دیکھا کہ اچھّا ہے۔

پَیدائش 1: 24-25 اور خُدا نے کہا کہ زمِین جان داروں کو اُن کی جِنس کے مُوافِق چَوپائے اور رینگنے والے جاندار اور جنگلی جانور اُن کی جِنس کے مُوافِق پَیدا کرے اور اَیسا ہی ہُؤا۔ اور خُدا نے جنگلی جانوروں اور چَوپایوں کو اُن کی جِنس کے مُوافِق اور زمِین کے رینگنے والے جان داروں کو اُن کی جِنس کے مُوافِق بنایا اور خُدا نے دیکھا کہ اچھّا ہے۔

پہلے دن، بنی نوع انسان کے دن اور رات پیدا ہوتے ہیں اور خدا کے اختیار کی بدولت مضبوطی سے قائم رہتے ہیں

آؤ ہم پہلے اقتباس کو دیکھتے ہیں: "اور خُدا نے کہا کہ رَوشنی ہو جا اور رَوشنی ہو گئی۔ اور خُدا نے دیکھا کہ رَوشنی اچھّی ہے اور خُدا نے رَوشنی کو تارِیکی سے جُدا کِیا۔ اور خُدا نے رَوشنی کو تو دِن کہا اور تارِیکی کو رات اور شام ہُوئی اور صُبح ہُوئی۔ سو پہلا دِن ہُؤا" (پَیدائش 1: 3-5)۔ یہ اقتباس تخلیق کے آغاز میں خدا کے پہلے عمل کو بیان کرتا ہے، اور اس پہلے دن کو جو خدا نے گزرا تھا جس میں ایک شام اور ایک صبح تھی۔ لیکن یہ ایک غیر معمولی دن تھا: خدا نے ہر چیز کے لیے روشنی کو تیار کرنا شروع کیا، اور اس کے علاوہ، روشنی کو اندھیرے سے الگ کر دیا۔ اس دن، خدا نے بولنا شروع کیا، اور اس کا کلام اور اختیار ساتھ ساتھ موجود تھے۔ اُس کا اختیار تمام چیزوں میں ظاہر ہونے لگا، اور اُس کے کلام کے نتیجے میں اُس کی قدرت سب چیزوں میں پھیل گئی۔ اس دن سے تمام چیزیں خدا کے کلام، خدا کے اختیار اور خدا کی قدرت کی وجہ سے تشکیل پائیں اور مضبوطی سے قائم ہوئیں اور وہ خدا کے کلام، خدا کے اختیار اور خدا کی قدرت کی بدولت کام کرنے لگیں۔ جب خدا نے یہ کلام کہا "روشنی ہو جا۔" تو روشنی ہو گئی۔ خدا نے کاموں کا کوئی پروگرام شروع نہیں کیا؛ روشنی اُس کے کلام کے نتیجے میں ظاہر ہوئی۔ یہ وہ روشنی تھی جسے خدا نے دن کہا تھا، اور انسان اپنے وجود کے لیے جس پر آج بھی انحصار کرتا ہے۔ خدا کے حکم سے، اس کا جوہر اور قدر کبھی تبدیل نہیں ہوئی، اور یہ کبھی غائب نہیں ہوئی۔ اس کا وجود خدا کے اختیار اور قدرت کو ظاہر کرتا ہے، اور خالق کے وجود کا اعلان کرتا ہے۔ یہ بار بار خالق کی شناخت اور حیثیت کی تصدیق کرتا ہے۔ یہ ناقابلِ فہم یا خیالی نہیں ہے بلکہ ایک حقیقی روشنی ہے جسے انسان دیکھ سکتا ہے۔ اس وقت کے بعد سے، اس خالی دنیا میں جس میں "زمین ویران سنسان تھی اور گہراؤ کے اوپر اندھیرا تھا،" وہاں پر پہلی مادی چیز پیدا ہوئی۔ یہ چیز خدا کے منہ سے ادا ہوئے کلام کی وجہ سے آئی، اور خدا کے اختیار اور کلام کی وجہ سے تمام چیزوں کی تخلیق کے پہلے عمل میں ظاہر ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد، خدا نے روشنی اور اندھیرے کو الگ ہونے کا حکم دیا۔۔۔۔ خدا کے کلام کی وجہ سے سب کچھ تبدیل ہوا اور مکمل ہو گیا۔۔۔۔ خدا نے اس روشنی کو "دن" کہا اور اس نے اندھیرے کو "رات" کہا۔ اس وقت، وہ پہلی شام اور پہلی صبح اس دنیا میں پیدا کی گئی جسے خدا نے پیدا کرنے کا ارادہ کیا تھا، اور خدا نے کہا کہ یہ پہلا دن ہے۔ یہ دن خالق کی تمام چیزوں کی تخلیق کا پہلا دن تھا، اور تمام چیزوں کی تخلیق کا آغاز تھا، اور یہ پہلا موقع تھا جب خالق کی قدرت اور اختیار اس دنیا میں ظاہر ہوا جسے اس نے تخلیق کیا تھا۔

اس کلام کے ذریعے، انسان خدا کے اختیار اور خدا کے کلام کے ساتھ ساتھ خدا کی قدرت کو دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ کیونکہ صرف خدا ہی اس طرح کی قدرت کا حامل ہے، اس لیے صرف خدا ہی کے پاس ایسا اختیار ہے؛ کیونکہ خدا اس طرح کا اختیار رکھتا ہے، لہذا صرف خدا کے پاس ہی ایسی قدرت ہے۔ کیا کوئی انسان یا چیز اس طرح کے اختیار اور قدرت کی مالک ہو سکتی ہے؟ کیا تمہارے دلوں میں کوئی جواب ہے؟ کیا خدا کے علاوہ کوئی تخلیق شدہ یا غیر تخلیق شدہ وجود ایسا اختیار رکھتا ہے؟ کیا تم نے کبھی کسی کتاب یا اشاعت میں اس طرح کی چیز کی کوئی مثال دیکھی ہے؟ کیا کوئی اندراج ہے کہ کسی نے آسمان و زمین اور سب چیزوں کو پیدا کیا؟ یہ کسی دوسری کتاب یا اندراج میں نظر نہیں آتا ہے؛ یقیناً یہ خدا کی دنیا کی بہت عمدہ تخلیق کے بارے میں واحد مستند اور طاقتور الفاظ ہیں، جو کہ انجیل میں درج ہیں؛ یہ الفاظ خدا کے منفرد اختیار اور شناخت کی روشن دلیل ہیں۔ کیا ایسے اختیار اور قدرت کو خدا کی منفرد شناخت کی علامت کہا جا سکتا ہے؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ خدا، اور صرف خدا ہی ان کا حامل ہے؟ بلا شبہ، صرف خدا ہی اس طرح کے اختیار اور قدرت کا حامل ہے! کوئی بھی تخلیق شدہ یا غیر تخلیق شدہ وجود اس اختیار اور قدرت کا حامل نہیں ہو سکتا یا اس کی جگہ نہیں لے سکتا! کیا یہ خود منفرد خدا کی خصوصیات میں سے ایک ہے؟ کیا تم نے اس کا مشاہدہ کیا ہے؟ یہ کلام جلدی اور واضح طور پر لوگوں کو اس حقیقت کو سمجھنے کی اجازت دیتا ہے کہ خدا منفرد اختیار، اور منفرد قدرت، اعلیٰ شناخت اور حیثیت کا مالک ہے۔ اوپر کی رفاقت سے، کیا تم یہ کہہ سکتے ہو کہ جس خدا پر تم ایمان رکھتے ہو وہ ایک منفرد خدا خود ہے؟

دوسرے دن، خدا کا اختیار پانیوں کا بندوبست کرتا ہے، اور آسمان بناتا ہے، اور انسانی بقا کے لیے سب سے بنیادی ایک جگہ ظاہر ہوتی ہے

آؤ ہم انجیل کے دوسرے اقتباس کو پڑھتے ہیں: "اور خُدا نے کہا کہ پانیوں کے درمیان فضا ہو تاکہ پانی پانی سے جُدا ہو جائے۔ پس خُدا نے فضا کو بنایا اور فضا کے نِیچے کے پانی کو فضا کے اُوپر کے پانی سے جُدا کِیا اور اَیسا ہی ہوا" (پَیدائش 1: 6-7)۔ کیا تبدیلیاں ہوئیں جب خدا نے کہا "پانیوں کے درمیان فضا ہو تاکہ پانی پانی سے جُدا ہو جائے"؟ صحیفے میں یہ لکھا ہے: "پس خُدا نے فضا کو بنایا اور فضا کے نِیچے کے پانی کو فضا کے اُوپر کے پانی سے جُدا کِیا۔" خدا کے کہنے اور ایسا کرنے کے بعد کیا نتیجہ نکلا؟ اس کا جواب اقتباس کے آخری حصے میں ہے: "اور اَیسا ہی ہُؤا۔"

یہ دو مختصر جملے ایک پُر شکوہ واقعے کا اندراج کرتے ہیں، اور ایک شاندار منظر کو بیان کرتے ہیں - وہ زبردست اقدام جس میں خدا نے پانیوں کو قابو کیا، اور ایک ایسی جگہ بنائی جس میں انسان زندہ رہ سکتا ہے ۔۔۔

اس تصویر میں، پانی اور آسمان ایک لمحے میں خدا کی آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں، اور وہ خدا کے کلام کے اختیار کی وجہ سے تقسیم ہوتے ہیں، اور خدا کے مقرر کردہ طریقے کے مطابق الگ ہو کر "اوپر" اور "نیچے" ہو جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے بنائے ہوئے آسمان نے نہ صرف نیچے کے پانیوں کو ڈھانپ رکھا ہے بلکہ اوپر کے پانیوں کو بھی تھام رکھا ہے۔۔۔۔ اس میں انسان حیرت سے دیکھے بغیر نہیں رہ سکتا اور خدا کے اختیار کی قدرت اور اس منظر کی شان و شوکت کو دیکھ کر اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے جس میں خالق نے پانیوں کو حرکت دی اور حکم دیا، اور آسمان کو تخلیق کیا۔ خدا کے کلام اور خدا کی قدرت اور خدا کے اختیار کے ذریعے خدا نے ایک اور عظیم کارنامہ انجام دیا۔ کیا یہ خالق کے اختیار کی قدرت نہیں ہے؟ آؤ خدا کے کاموں کی وضاحت کے لیے صحیفوں کا استعمال کرتے ہیں: خدا نے اپنا کلام کہا، اور خدا کے اس کلام کی وجہ سے پانی کے بیچ میں ایک فضا آئی۔ اسی وقت خدا کے اس کلام کی وجہ سے اس خلا میں ایک زبردست تبدیلی واقع ہوئی اور یہ کوئی عام معنوں میں تبدیلی نہیں تھی بلکہ ایک قسم کا استبدال تھا جس میں، وہ جو کچھ نہیں تھا، وہ کچھ نہ کچھ، بن گیا۔ یہ خالق کے خیالات سے پیدا ہوا، اور خالق کے کہے گئے کلام کی وجہ سے، وہ جو کچھ نہیں تھا، وہ کچھ نہ کچھ، بن گیا، اور مزید برآں، اس وقت سے یہ موجود رہے گا اور خالق کی خاطر مضبوطی سے قائم رہے گا، اور خالق کے خیالات کے مطابق منتقل ہو گا، تبدیل گا، اور اس کی تجدید ہو گی۔ یہ اقتباس خالق کے دوسرے عمل کو اس کی پوری دنیا کی تخلیق میں بیان کرتا ہے۔ یہ خالق کے اختیار اور قدرت کا ایک اور اظہار تھا، خالق کی طرف سے سب سے شروع کا ایک اور اہم کام۔ دنیا کو قائم کرنے کے بعد سے یہ دوسرا دن تھا جو خالق نے گزارا تھا، اور یہ اس کے لیے ایک اور شاندار دن تھا: وہ روشنی کے درمیان چلا، وہ آسمان کو لایا، اس نے پانیوں کو ترتیب دیا اور قابو کیا، اور اس کے اعمال، اس کے اختیار، اور اس کی قدرت نئے دن میں کام کرنے کے لیے استعمال ہوئی ۔۔۔

کیا خُدا کے اپنا کلام کہنے سے پہلے پانی کے بیچ میں فضا موجود تھی؟ ہرگز نہیں! اور خدا کے یہ کہنے کے بعد کیا صورتحال ہوئی "پانیوں کے درمیان فضا ہو"؟ خدا کی طرف سے مطلوب چیزیں ظاہر ہوئیں؛ پانیوں کے بیچ میں فضا تھی، اور پانی الگ ہو گیا کیونکہ خدا نے کہا تھا، "تاکہ پانی پانی سے جُدا ہو جائے۔" اس طرح خدا کے کلام پر عمل کرتے ہوئے خدا کے اختیار اور قدرت کے نتیجے میں تمام چیزوں کے درمیان دو نئی اشیا، دو نئی پیدا ہونے والی چیزیں ظاہر ہوئیں۔ تم ان دو نئی چیزوں کے ظاہر ہونے کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہو؟ کیا تم خالق کی قدرت کی عظمت کو محسوس کرتے ہو؟ کیا تم خالق کی منفرد اور غیر معمولی قوت کو محسوس کرتے ہو؟ ایسی طاقت اور قدرت کی عظمت خدا کے اختیار کی وجہ سے ہے، اور یہ اختیار خود خدا کی نمائندگی ہے، اور خود خدا کی ایک منفرد خصوصیت ہے۔

کیا اس اقتباس نے ایک بار پھر تمہیں خدا کی انفرادیت کا گہرا احساس دلایا؟ درحقیقت، یہ بالکل کافی نہیں ہے؛ خالق کا اختیار اور قدرت اس سے بہت زیادہ ہے۔ اس کی انفرادیت صرف اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ کسی بھی مخلوق کے برعکس ایک جوہر کا حامل ہے، بلکہ اس لیے بھی ہے کہ اس کا اختیار اور قدرت غیر معمولی، لامحدود، سب کے لیے اعلیٰ ترین اور سب سے بڑھ کر ہے، اور اس کے علاوہ، کیونکہ اس کا اختیار اور جو کچھ اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، وہ زندگی تخلیق کر سکتا ہے، معجزے برپا کر سکتا ہے، اور ہر ایک شاندار اور غیر معمولی منٹ اور سیکنڈ کو تخلیق کر سکتا ہے۔ اسی وقت، وہ اس زندگی پر حکومت کرنے کے قابل ہوتا ہے جسے وہ تخلیق کرتا ہے اور اپنے تخلیق کردہ معجزات اور ہر منٹ اور سیکنڈ پر حاکمیت رکھتا ہے۔

تیسرے دن، خدا کا کلام زمین اور سمندروں کو جنم دیتا ہے، اور خدا کا اختیار دنیا کو زندگی کی توانائی سے بھر دیتا ہے

مزید، آؤ ہم پیدائش 1: 9-11 کو پڑھتے ہیں: "اور خُدا نے کہا کہ آسمان کے نیچے کا پانی ایک جگہ جمع ہو کہ خُشکی نظر آئے۔" جب خدا نے صرف یہ کہا تو کیا تبدیلیاں واقع ہوئیں، "آسمان کے نیچے کا پانی ایک جگہ جمع ہو کہ خُشکی نظر آئے"؟ اور اس خلا میں روشنی اور آسمان کے علاوہ کیا تھا؟ صحیفوں میں یہ لکھا ہے: "اور خُدا نے خشکی کو زمین کہا اور جو پانی جمع ہو گیا تھا اس کو سمندر اور خُدا نے دیکھا کہ اچھّا ہے۔" اس کا مطلب یہ ہے کہ اب اس خلا میں خشکی اور سمندر تھے اور خشکی اور سمندر الگ ہو گئے تھے۔ ان نئی چیزوں کا ظہور خدا کے منہ سے نکلے ہوئے حکم کے مطابق ہوا، "اور ایسا ہی ہوا۔" کیا صحیفہ یہ بیان کرتا ہے کہ جب خُدا یہ کر رہا تھا تو وہ بھاگ دوڑ کر رہا تھا؟ کیا یہ اس کے جسمانی مشقت میں مشغول ہونے کو بیان کرتا ہے؟ تو پھر، خدا نے یہ کیسے کیا؟ خدا نے ان نئی چیزوں کو کیسے پیدا کیا؟ یہ خود بخود ظاہر ہے، خدا نے اس سب کو حاصل کرنے کے لیے، اس کی مکمل تخلیق کے لیے کلام کا استعمال کیا۔

مندرجہ بالا تین اقتباسات میں، ہم نے تین عظیم واقعات کے وقوع پذیر ہونے کے بارے میں جان لیا ہے۔ یہ تینوں عظیم واقعات خدا کے کلام کی وجہ سے ظہور پذیر ہوئے اور وجود میں آئے اور اس کے کلام کی وجہ سے ہی یکے بعد دیگرے یہ واقعات خدا کی نظروں کے سامنے ظاہر ہوئے۔ اس طرح یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ الفاظ: "خدا بولتا ہے، اور یہ پورا ہو جائے گا؛ وہ حکم دیتا ہے، اور یہ مضبوطی سے قائم ہو گا" کھوکھلے نہیں ہیں۔ خدا کے اس جوہر کی تصدیق اسی وقت ہو جاتی ہے جب اس کے خیالات تصور کیے جاتے ہیں، اور جب خدا بولنے کے لیے اپنا منہ کھولتا ہے، تو اس کا جوہر پوری طرح سے ظاہر ہو جاتا ہے۔

آؤ ہم اس اقتباس کے آخری فقرے تک جاری رکھتے ہیں: "اور خُدا نے کہا کہ زمین گھاس اور بیج دار بوٹیوں کو اور پھل دار درختوں کو جو اپنی اپنی جنس کے موافق پھلیں اور جو زمین پر اپنے آپ ہی میں بیج رکھیں اُگائیں اور اَیسا ہی ہوا۔" جب خدا بول رہا تھا تو یہ سب چیزیں خدا کے سوچنے کے بعد وجود میں آئیں، اور ایک ہی لمحے میں، زندگی کی نازک اشکال کی مختلف اقسام ایک بے قاعدگی کے ساتھ مٹی میں سے اپنے سر باہر نکال رہی تھیں، اور اپنے جسموں پر سے مٹی کے ذرات کو ہلا کر گرانے سے بھی پہلے وہ بے تابی سے ایک دوسرے کو خوش آمدید کہتے ہوئے اشارے کر رہی تھیں، اور دنیا کے سامنے سر ہلاتے ہوئے مسکرا رہی تھیں۔ انھوں نے اس زندگی کے لیے خالق کا شکریہ ادا کیا جو اس نے انھیں عطا کی تھی، اور دنیا کے سامنے اعلان کیا تھا کہ وہ تمام چیزوں کا ایک حصہ ہیں، اور ان میں سے ہر ایک کو اپنی زندگی خالق کے اختیار کو ظاہر کرنے کے لیے وقف کرنا تھی۔ جیسے ہی خدا کا کلام کہا گیا، زمین سرسبز و شاداب ہو گئی، ہر قسم کی جڑی بوٹیاں جن سے انسان فائدہ اٹھا سکتا تھا، باہر نکلیں اور زمین میں سے اُگ پڑیں، اور پہاڑ اور میدان درختوں اور جنگلات سے گھنے ہو گئے۔۔۔۔ یہ بنجر دنیا، جس میں زندگی کا کوئی نام ونشان تک نہیں تھا، اس میں تیزی سے گھاس، جڑی بوٹیوں اور درختوں کی بھرمار ہو گئی اور یہ ہریالی سے بھر گئی۔۔۔۔ گھاس کی خوشبو اور مٹی کی مہک ہوا میں پھیل گئی اور پودوں کی ایک صف باہم مل کر ہوا کی گردش کے ساتھ سانس لینے لگی، اور بڑھنے کا عمل شروع ہو گیا۔ اسی وقت، خدا کے کلام کی بدولت اور خدا کے سوچنے کے بعد، تمام پودوں نے دائمی زندگی کے دائرے کا آغاز کیا جس میں وہ بڑھتے، پھولتے، پھل دیتے اور تعداد میں بڑھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی اپنی زندگی کے راستوں پر سختی سے عمل کرنا شروع کر دیا اور سب چیزوں کے درمیان اپنا اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔۔۔۔ وہ سب خالق کے کلام کی وجہ سے ہی پیدا ہوئے، اور زندہ رہے۔ وہ خالق کا لامتناہی رزق اور پرورش حاصل کریں گے، اور ہمیشہ خالق کے اختیار اور قدرت کو ظاہر کرنے کے لیے زمین کے ہر کونے میں مضبوطی کے ساتھ زندہ رہیں گے، اور وہ ہمیشہ اس زندگی کی طاقت کو ظاہر کریں گے جو خالق نے انھیں عطا کی ہے ۔۔۔

خالق کی زندگی غیر معمولی ہے، اس کے خیالات غیر معمولی ہیں، اور اس کا اختیار غیر معمولی ہے، اور اسی طرح، جب اس کا کلام کہا گیا تو حتمی نتیجہ تھا "اور ایسا ہی ہوا"۔ واضح طور پر، خدا جب کام کرتا ہے تو اسے اپنے ہاتھوں سے کام کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے؛ وہ محض اپنے خیالات کو حکم دینے کے لیے اور اپنے کلام کو حکم دینے کے لیے استعمال کرتا ہے، اور اس طرح چیزیں حاصل ہو جاتی ہیں۔ اس دن خدا نے پانیوں کو ایک جگہ پر جمع کیا اور خشک زمین کو ظاہر ہونے دیا، جس کے بعد خدا نے زمین سے گھاس اگائی اور بیج دینے والی جڑی بوٹیاں اور پھل دینے والے درخت اگائے اور خدا نے ان میں سے ہر ایک کی قسم کے مطابق درجہ بندی کی۔ اور ہر ایک سے اس میں اس کا اپنا بیج رکھوایا۔ یہ سب کچھ خدا کے خیالات اور خدا کے احکام کے مطابق ہوا اور ہر ایک اس نئی دنیا میں یکے بعد دیگرے ظاہر ہوا۔

اپنا کام شروع کرنے سے پہلے ہی خدا کے اپنے ذہن میں ایک تصویر تھی کہ وہ کیا حاصل کرنا چاہتا تھا، اور جب خدا نے ان چیزوں کو حاصل کرنے کا ارادہ کیا، جو کہ وہی وقت بھی تھا جب خدا نے اس تصویر کے مواد کے بارے میں بات کرنے کے لیے اپنا منہ کھولا تو خدا کے اختیار اور قدرت کی وجہ سے تمام چیزوں میں تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ خدا نے یہ کیسے کیا، یا اس نے اپنے اختیار کو کس طرح استعمال کیا، سب کچھ مرحلہ وار خدا کے منصوبے کے مطابق اور خدا کے کلام کی وجہ سے ہوا، اور خدا کے کلام اور اختیار کی بدولت آسمان اور زمین کے درمیان مرحلہ وار تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ان تمام تبدیلیوں اور واقعات نے خالق کے اختیار اور خالق کی زندگی کے غیر معمولی پن اور قدرت کی عظمت کو ظاہر کیا۔ اس کے خیالات محض تصورات، یا ایک خالی تصویر نہیں ہیں، بلکہ وہ قدرت اور غیر معمولی توانائی کے حامل ہیں، اور وہ تمام چیزوں کو بدلنے، دوبارہ زندہ کرنے، تجدید کرنے اور فنا کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے، تمام چیزیں اس کے خیالات کی وجہ سے کام کرتی ہیں، اور ایک ہی وقت میں، اس کے منہ سے نکلنے والے کلام کی وجہ سے حاصل ہوتی ہیں ۔۔۔

تمام چیزوں کے ظاہر ہونے سے پہلے، خدا کے خیالات میں ایک مکمل منصوبہ بہت پہلے تشکیل پا چکا تھا، اور ایک نئی دنیا بہت پہلے حاصل ہو چکی تھی۔ اگرچہ تیسرے دن زمین پر ہر قسم کے پودے نمودار ہوئے، خدا کے پاس اس دنیا کی تخلیق کے مرحلوں کو روکنے کی کوئی وجہ نہیں تھی؛ اس کا ارادہ تھا کہ وہ ہر نئی چیز کی تخلیق کو حاصل کرنے کے لیے اپنا کلام کہتا رہے۔ وہ بولے گا، اپنے احکام جاری کرے گا، اور اپنے اختیار کو بروئے کار لائے گا اور اپنی قدرت کو ظاہر کرے گا، اور اس نے ہر وہ چیز تیار کی ہے جسے اس نے ان تمام چیزوں اور انسانوں کے لیے تیار کرنے کا ارادہ کیا تھا جنھیں وہ تخلیق کرنا چاہتا تھا ۔۔۔

چوتھے دن، جب خدا ایک بار پھر اپنا اختیار استعمال کرتا ہے تو بنی نوع انسان کے موسم، دن اور سال وجود میں آتے ہیں

خالق نے اپنے منصوبے کو پورا کرنے کے لیے اپنا کلام استعمال کیا، اور اس طرح اس نے اپنے منصوبے کے پہلے تین دن گزارے۔ ان تین دنوں کے دوران، خدا مصروف، یا خود کو تھکاتے ہوئے نہیں دیکھا گیا؛ اس کے برعکس، اس نے اپنے منصوبے کے پہلے شاندار تین دن گزارے، اور دنیا کی بنیادی تبدیلی کے عظیم اہم کام کو حاصل کر لیا۔ ایک بالکل نئی نویلی دنیا اُس کی آنکھوں کے سامنے نمودار ہوئی، اور وہ خوبصورت تصویر جو اُس کے خیالات کے اندر بند تھی، آخر کار ٹکڑے ٹکڑے کر کے خُدا کے کلام میں ظاہر ہوئی۔ ہر نئی چیز کا ظاہر ہونا ایک نوزائیدہ بچے کی پیدائش کی طرح تھا، اور خالق نے اس تصویر سے خوشی محسوس کی جو کبھی اس کے خیالوں میں تھی، لیکن جو اب زندہ اور متحرک ہو گئی تھی۔ اس وقت، اس کے دل کو اطمینان حاصل ہوا، لیکن اس کا منصوبہ تو ابھی شروع ہوا تھا۔ پلک جھپکنے میں، ایک نیا دن آ گیا تھا – اور خالق کے منصوبے کا اگلا حصہ کیا تھا؟ اس نے کیا کہا؟ اُس نے اپنے اختیار کو کیسے استعمال کیا؟ دریں اثنا، اس نئی دنیا میں کون سی نئی چیزیں آئیں؟ خالق کی راہنمائی کے بعد، ہماری نگاہیں خدا کی تمام چیزوں کی تخلیق کے چوتھے دن پر پڑتی ہیں، ایک ایسا دن جو کہ ایک اور نیا آغاز تھا۔ بلاشبہ، خالق کے لیے یہ ایک اور شاندار دن تھا، اور یہ آج کی نوع انسانی کے لیے انتہائی اہمیت کا ایک اور دن تھا۔ یقیناً یہ ایک بے حساب اہمیت کا دن تھا۔ یہ شاندار کیسے تھا، یہ اتنا اہم کیسے تھا، اور اس کی قدر کیسے بے حساب تھی؟ آؤ پہلے خالق کے کہے ہوئے الفاظ سنتے ہیں ۔۔۔

"اور خُدا نے کہا کہ فلک پر نیّر ہوں کہ دِن کو رات سے الگ کریں اور وہ نِشانوں اور زمانوں اور دِنوں اور برسوں کے اِمتیاز کے لیے ہوں۔ اور وہ فلک پر انوار کے لیے ہوں کہ زمین پر رَوشنی ڈالیں اور اَیسا ہی ہوا" (پَیدائش 1: 14-15)۔ یہ خُدا کے اختیار کا ایک اور استعمال تھا جو مخلوقات نے اُس کی خشک زمین اور اس پر پودوں کی تخلیق کے بعد ظاہر کیا تھا۔ اس طرح کا کام خُدا کے لیے اُتنا ہی آسان تھا جو کہ وہ پہلے ہی کر چکا تھا، کیونکہ خُدا ایسی قدرت رکھتا ہے؛ خُدا اپنے کلام کی طرح اچھا ہے، اور اُس کا کلام پورا ہو گا۔ خدا نے آسمان پر روشنیوں کو ظاہر ہونے کا حکم دیا، اور یہ روشنیاں نہ صرف آسمان میں اور زمین پر چمکیں، بلکہ دن اور رات، موسموں، دنوں اور سالوں کے لیے نشانیاں بھی بنیں۔ اس طرح، جیسے ہی خدا نے اپنا کلام کہا تو ہر وہ عمل جو خدا نے حاصل کرنا چاہا خدا کے معنی کے مطابق اور خدا کے مقرر کردہ انداز پر پورا ہوا۔

آسمان کی روشنیاں آسمان میں مادّہ ہیں جو روشنی کو پھیلا سکتی ہیں؛ وہ آسمان اور زمین اور سمندروں کو روشن کر سکتی ہیں۔ وہ خدا کی طرف سے حکم کردہ تناسب اور باریوں کے مطابق گھومتی ہیں، اور زمین پر مختلف اوقات کو روشن کرتی ہیں، اور اس طرح روشنیوں کے گردشی ادوار زمین کے مشرق اور مغرب میں دن اور رات پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں، اور وہ نہ صرف رات اور دن کے لیے نشانیاں ہیں بلکہ ان مختلف ادوار کے ذریعے وہ بنی نوع انسان کے تہواروں اور مختلف خاص دنوں کی نشان دہی بھی کرتے ہیں۔ وہ خدا کی طرف سے جاری کردہ چار موسموں - بہار، گرمی، خزاں اور سردی کے بہترین تکمیل کنندہ اور ضروری اجزا ہیں، جن کے ساتھ مل کر روشنیاں بنی نوع انسان کی قمری میعاد، دنوں اور سالوں کے لیے باقاعدہ اور درست نشانات کے طور پر ہم آہنگ ہو کر کام کرتی ہیں۔ اگرچہ کھیتی باڑی کے آغاز کے بعد ہی بنی نوع انسان نے قمری میعاد، دنوں اور سالوں کی تقسیم کو خدا کی بنائی ہوئی روشنیوں سے سمجھنا اور ان کا سامنا کرنا شروع کیا تھا، لیکن درحقیقت قمری میعاد، دنوں اور سالوں، جن کو آج انسان سمجھتا ہے، ان کو بہت پہلے خدا کی تمام چیزوں کی تخلیق کے چوتھے دن پیدا کرنا شروع کر دیا گیا تھا، اور اسی طرح بہار، گرمی، خزاں اور سردی کے بدلنے والے ادوار کا آغاز جس کا عملی تجربہ انسان کرتا ہے، وہ بھی بہت پہلے خدا کی تمام چیزوں کی تخلیق کے چوتھے دن ہو گیا تھا۔ خدا کی تخلیق کردہ روشنیوں نے انسان کو اس قابل بنایا کہ وہ رات اور دن کے درمیان باقاعدگی سے، بالکل ٹھیک اور واضح طور پر فرق کر سکے، اور دنوں کی گنتی کر سکے، اور واضح طور پر قمری میعاد اور سالوں کا حساب لگا سکے۔ (مکمل چاند کا دن ایک مہینے کا مکمل ہونا تھا، اور اس سے انسان کو علم ہوا کہ روشنیوں کے روشن ہونے سے ایک نیا دور شروع ہوتا ہے؛ نصف چاند کا دن نصف مہینے کی تکمیل کا دن تھا، جس نے انسان کو بتایا کہ ایک نئی قمری میعاد شروع ہو رہی ہے، جس سے یہ حساب لگانا ممکن تھا کہ ایک قمری میعاد میں کتنے دن اور راتیں تھیں، ایک موسم میں کتنی قمری میعادیں تھیں، اور ایک سال میں کتنے موسم تھے، اور یہ سب انتہائی باقاعدگی کے ساتھ عیاں ہوا)۔ لہٰذا، روشنیوں کے ادوار کی نشانیوں کے ساتھ انسان آسانی کے ساتھ چاند کی میعادوں، دنوں اور سالوں کا پتہ لگا سکتا تھا۔ اس وقت سے، نوع انسانی اور تمام چیزیں لاشعوری طور پر رات اور دن کے منظم تبادلے اور روشنیوں کے ادوار سے پیدا ہونے والے موسموں کے ردوبدل کے درمیان رہتی ہیں۔ خالق کی طرف سے چوتھے دن روشنیوں کی تخلیق کی یہ اہمیت تھی۔ اسی طرح خالق کے اس عمل کے مقاصد اور اہمیت بھی اس کے اختیار اور قدرت سے لازم و ملزوم تھے۔ اور اس طرح، خُدا کی بنائی ہوئی روشنیاں اور وہ اہمیت جو انھوں نے جلد ہی انسان کے لیے لانا تھی، خالق کے اختیار کو بروئے کار لانے میں ایک اور شاہکار تھیں۔

اس نئی دنیا میں، جس میں بنی نوع انسان کا ظہور ہونا ابھی باقی تھا، خالق نے شام اور صبح، آسمان، خشکی اور سمندر، گھاس، جڑی بوٹیاں اور مختلف اقسام کے درخت اور روشنیاں، موسم، دن اور سال، اس نئی زندگی کے لیے تیار کر رکھے تھے جو اس نے جلد ہی تخلیق کرنی تھی۔ خالق کے اختیار اور قدرت کا اظہار ہر اس نئی چیز میں ہوتا تھا جو اس نے تخلیق کی تھی، اور اس کا کلام اور کامیابیاں ایک ہی وقت میں اور معمولی سے بھی نقص کے بغیر اور ذرا سے بھی وقفے کے بغیر ہوتی تھیں۔ ان تمام نئی چیزوں کا ظہور اور پیدائش خالق کے اختیار اور قدرت کا ثبوت تھا: وہ اپنے کلام کی طرح اچھا ہے، اور اس کا کلام پورا ہو گا، اور جو کچھ وہ پورا کرتا ہے وہ ہمیشہ رہے گا۔ یہ حقیقت کبھی تبدیل نہیں ہوئی ہے: یہ ماضی میں بھی تھی، یہ آج بھی ہے، اور یہ ابد تک رہے گی۔ جب تم صحیفے کے ان الفاظ کو ایک بار پھر دیکھتے ہو، تو کیا وہ تمہیں تازہ محسوس ہوتے ہیں؟ کیا تم نے نیا مواد دیکھا ہے، اور نئی دریافتیں کی ہیں؟ یہ اس لیے ہے کہ خالق کے اعمال نے تمہارے دلوں کو جھنجھوڑ دیا ہے، اور اپنے اختیار اور قدرت کے بارے میں تمہارے علم کی راہنمائی کی ہے، اور تمہارے لیے خالق کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اور اس کے اختیار اور اعمال نے ان الفاظ کو زندگی عطا کی ہے۔ لہٰذا، اس کلام میں انسان نے خالق کے اختیار کا حقیقی، واضح اظہار دیکھا ہے، حقیقی معنوں میں خالق کی بالادستی کا مشاہدہ کیا ہے، اور خالق کے اختیار اور قدرت کے غیر معمولی پن کو دیکھا ہے۔

خالق کا اختیار اور قدرت معجزے کے بعد معجزہ پیدا کرتی ہے؛ وہ انسان کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لیتا ہے، اور انسان اس کے اختیار کے بروئے کار لانے سے پیدا ہونے والے حیران کن کاموں کو دیکھ کر مبہوت ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔ اس کی غیرمعمولی طاقت خوشی کے بعد خوشی لاتی ہے، اور انسان حیرت زدہ اور بے حد مسرور رہ جاتا ہے، تعریف میں اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے، وہ عظمت کے رعب میں آ جاتا ہے اور نعرہ تحسین بلند کرتا ہے؛ مزید برآں، انسان واضح طور پر متاثر ہوتا ہے اور اس میں احترام، تعظیم اور لگاؤ پیدا ہوتا ہے۔ خالق کا اختیار اور اعمال انسان کی روح پر بہت زیادہ اثر ڈالتے ہیں اور پاکیزہ کرنے کا سبب بنتے ہیں، اور اس کے علاوہ، وہ انسان کی روح کی تسکین کا باعث بنتے ہیں۔ خدا کے خیالات میں سے ہر ایک، اس کا ہر ایک قول، اور اس کے اختیار کا ہر ظہور تمام چیزوں کے درمیان ایک شاہکار ہے، اور تخلیق شدہ انسانوں کی گہری سمجھ بوجھ اور علم کے سب سے زیادہ قابل ایک عظیم کام ہے۔ جب ہم خالق کے کلام سے پیدا ہونے والی ہر مخلوق کو شمار کرتے ہیں، تو ہماری روحیں خدا کی قدرت کی حیرت انگیزی کی طرف متوجہ ہوتی ہیں، اور ہم خود کو خالق کے نقش قدم پر اگلے دن کی طرف چلتے ہوئے پاتے ہیں: جو کہ خدا کی تمام چیزوں کی تخلیق کا پانچواں دن ہے۔

خالق کے مزید اعمال کو دیکھتے ہوئے، آؤ ہم صحیفے کو اقتباس بہ اقتباس پڑھنا جاری رکھیں۔

پانچویں دن، مختلف اور متنوع اشکال کی زندگی مختلف طریقوں سے خالق کے اختیار کو ظاہر کرتی ہے

صحیفے میں لکھا ہے، "اور خُدا نے کہا کہ پانی جان داروں کو کثرت سے پَیدا کرے اور پرندے زمِین کے اُوپر فضا میں اُڑیں۔ اور خُدا نے بڑے بڑے دریائی جانوروں کو اور ہر قِسم کے جاندار کو جو پانی سے بکثرت پَیدا ہوئے تھے اُن کی جِنس کے مُوافِق اور ہر قِسم کے پرِندوں کو اُن کی جِنس کے مُوافِق پَیدا کِیا اور خُدا نے دیکھا کہ اچھّا ہے" (پَیدائش 1: 20-21)۔ صحیفہ ہمیں واضح طور پر یہ بتاتا ہے کہ، اس دن، خدا نے پانیوں میں مخلوقات اور ہوا کے پرندوں کو بنایا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے مختلف مچھلیوں اور پرندوں کو تخلیق کیا، اور ہر ایک کی قسم کے مطابق درجہ بندی کی۔ اس طرح، زمین، آسمان اور پانی خدا کی تخلیق سے مالا مال ہو گئے ۔۔۔

جیسے ہی خدا کا کلام کہا گیا تو خالق کے کلام کے درمیان تازہ نئی زندگی، ہر ایک مختلف شکل کے ساتھ، فوری طور پر زندہ ہو گئی۔ وہ حیثیت کے لیے دھکا پیل کرتی، اچھلتی کودتی، خوشی کے لیے اٹھکیلیاں کرتی دنیا میں آئی۔۔۔۔ تمام اشکال اور جسامت کی مچھلیاں پانی میں تیریں؛ ہر قسم کا سمندری صدفہ ریت سے نکلا۔ فَلس والی، خول والی، اور ریڑھ کی ہڈی کے بغیر مخلوقات چاہے وہ بڑی ہوں یا چھوٹی، لمبی ہوں یا کوتاہ قد، سب کی مختلف شکلوں میں تیزی سے افزائش ہوئی۔ اسی طرح مختلف قسم کے سمندری نباتات بھی تیزی سے بڑھنے لگے، مختلف آبی حیات کی حرکت پر ڈولتے ہوئے، لہروں کی طرح حرکت کرتے، ٹھہرے ہوئے پانیوں پر زور دیتے ہوئے، گویا ان سے کہہ رہے ہوں: "جلدی کرو! اپنے دوستوں کو لاؤ! کیونکہ تم دوبارہ کبھی تنہا نہیں ہو گے! اس لمحے سے جب خدا کی تخلیق کردہ مختلف جاندار مخلوقات پانی میں نمودار ہوئیں، ہر ایک نئی زندگی ان پانیوں میں قوتِ حیات لائی جو اتنے عرصے سے بے حس و حرکت تھے، اور ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔۔۔۔ اس وقت سے، انھوں نے ایک دوسرے کے ساتھ بسیرا کیا، اور ایک دوسرے کا ساتھ دیا، اور آپس میں کوئی فاصلہ نہیں رکھا۔ پانی اپنے اندر موجود مخلوقات کے لیے موجود رہا، اپنی آغوش میں بسنے والی ہر زندگی کی پرورش کرتا تھا، اور ہر زندگی پانی سے ملنے والی نشوونما کی وجہ سے ہی زندہ رہی۔ ہر ایک نے دوسرے کو زندگی عطا کی، اور ایک ہی وقت میں، ہر ایک نے، ایک ہی طریقے سے، خالق کی تخلیق کے معجزاتی ہونے اور عظیم ہونے، اور خالق کے اختیار کی ناقابل تسخیر طاقت کی گواہی دی ۔۔۔

جیسا کہ اب سمندر خاموش نہیں رہا تھا، اسی طرح زندگی نے آسمانوں کو بھی بھرنا شروع کر دیا تھا۔ چھوٹے بڑے پرندے ایک ایک کر کے زمین سے آسمان کی طرف اڑ گئے۔ سمندر کی مخلوقات کے برعکس، ان کے پنکھ اور پَر تھے جنھوں نے ان کے پتلے اور خوبصورت باوقار جسموں کو ڈھانپ لیا تھا۔ انھوں نے اپنے پنکھ پھڑپھڑاتے ہوئے فخر اور غرور کے ساتھ اپنے پروں کے خوبصورت لباس اور خالق کی طرف سے عطا کردہ اپنے خاص افعال اور مہارتوں کا مظاہرہ کیا۔ وہ آزادی سے فضا میں بلند ہوئے، اور مہارت سے آسمان اور زمین کے درمیان، گھاس کے میدانوں اور جنگلوں کے پار چکر لگانے لگے۔۔۔۔ وہ ہوا کے محبوب تھے، وہ تمام چیزوں کے محبوب تھے۔ وہ جلد ہی آسمان اور زمین کے درمیان تعلق بن گئے اور سب چیزوں کو پیغامات پہنچائے۔۔۔۔ انھوں نے گیت گائے، انھوں نے خوشی سے غوطے لگائے، اور اس دنیا میں جو کبھی خالی تھی وہ خوشیاں، قہقہے اور رونقیں لے کر آئے۔۔۔۔ انھوں نے زندگی عطا کرنے کے لیے اپنی واضح، سریلی گائیکی اور اپنے دلوں کے اندر موجود الفاظ کو خالق کی تعریف کرنے کے لیے استعمال کیا۔ انھوں نے خالق کی تخلیق کے کامل ہونے اور معجزات کو ظاہر کرنے کے لیے خوش دلی سے رقص کیا، اور اپنی پوری زندگی اس خصوصی زندگی کے ذریعے خالق کے اختیار کی گواہی دینے کے لیے وقف کر دی جو اس نے انھیں عطا کی تھی ۔۔۔

اس بات سے قطع نظر کہ وہ پانی میں تھے یا آسمانوں میں، خالق کے حکم سے جانداروں کی یہ کثرت زندگی کی مختلف ترتیب میں موجود ہوئی اور خالق کے حکم سے اپنی اپنی نوع کے مطابق جمع ہو گئی – اور یہ قانون، یہ اصول، کسی بھی مخلوق کے لیے ناقابل تغیر تھا۔ انھوں نے کبھی بھی خالق کی طرف سے اپنی مقرر کردہ حدود سے باہر جانے کی ہمت نہیں کی اور نہ ہی وہ اس قابل تھے۔ جیسا کہ خالق کی طرف سے مقرر کیا گیا، وہ زندہ رہے اور بڑھتے رہے، اور خالق کی طرف سے اپنے لیے مقرر کردہ زندگی کے طریقہ کار اور قوانین کی سختی سے پابندی کرتے رہے، اور شعوری طور پر اس کے آج تک انھیں دیے ہوئے ان کہے احکام اور آسمانی فرمان اور فرمودات کی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے پابندی کرتے رہے۔ انھوں نے خالق سے اپنے مخصوص انداز میں گفتگو کی، اور خالق کے معنی کی تعریف کی، اور اس کے احکام کی تعمیل کی۔ کسی نے کبھی بھی خالق کے اختیار سے تجاوز نہیں کیا، اور ان پر اس کی حاکمیت اور حکم اس کے خیالات کے اندر بروئے کار تھے؛ کوئی الفاظ جاری نہیں کیے گئے تھے، لیکن وہ اختیار جو خالق کے لیے منفرد تھا، خاموشی سے ان تمام چیزوں کو قابو کرتا تھا جن میں زبان کا کوئی کام نہیں تھا، اور جو بنی نوع انسان سے مختلف تھیں۔ اس خاص طریقے سے اس کے اختیار کے استعمال نے انسان کو ایک نیا علم حاصل کرنے اور خالق کے منفرد اختیار کی ایک نئی تشریح کرنے پر مجبور کیا۔ یہاں تمہیں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس نئے دن خالق کے اختیار کے استعمال نے ایک بار پھر خالق کی انفرادیت کا مظاہرہ کیا۔

اس کے بعد، ہم صحیفے کے اس حوالے کے آخری جملے پر ایک نظر ڈالتے ہیں: "خُدا نے دیکھا کہ اچھّا ہے۔" تمہارے خیال میں اس کا کیا مطلب ہے؟ ان الفاظ کے اندر خدا کے جذبات شامل ہیں۔ خدا نے اپنی تمام تخلیق کردہ چیزوں کو اپنے کلام کی وجہ سے وجود میں آتے ہوئے اور مضبوطی سے قائم ہوتے ہوئے اور آہستہ آہستہ تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس وقت، کیا خُدا اُن مختلف چیزوں سے مطمئن تھا جو اُس نے اپنے کلام سے بنائی تھیں، اور اُن مختلف کاموں سے جو اُس نے حاصل کیے تھے؟ تو جواب ہے کہ "خُدا نے دیکھا کہ اچھّا ہے۔" تم یہاں کیا دیکھتے ہو؟ یہ کس چیز کی نمائندگی کرتا ہے کہ "خُدا نے دیکھا کہ اچھّا ہے؟" یہ کس چیز کی علامت ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے پاس وہ کام مکمل کرنے کی قدرت اور حکمت تھی جس کی اس نے منصوبہ بندی کی تھی اور جو اس نے تجویز کیا تھا، ان مقاصد کو پورا کرنے کے لیے جو اس نے مکمل کرنے کے لیے مقرر کیے تھے۔ جب خُدا نے ہر کام مکمل کر لیا تو کیا اُسے افسوس ہوا؟ جواب اب بھی یہی ہے کہ "خُدا نے دیکھا کہ اچھّا ہے۔" دوسرے لفظوں میں، نہ صرف یہ کہ اسے کوئی افسوس نہیں ہوا بلکہ اس کی بجائے وہ مطمئن تھا۔ اس کا کیا مطلب ہے کہ اسے کوئی افسوس نہیں ہوا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کا منصوبہ کامل ہے، کہ اس کی قدرت اور حکمت کامل ہے، اور یہ کہ صرف اس کے اختیار سے ہی ایسا مکمل پن حاصل ہو سکتا ہے۔ جب انسان کوئی کام کرتا ہے تو کیا وہ خدا کی طرح دیکھ سکتا ہے کہ یہ اچھا ہے؟ کیا ہر وہ چیز جو انسان کرتا ہے درجہ کمال حاصل کر سکتی ہے؟ کیا انسان کسی چیز کو حتمی طور پر ہمیشہ کے لیے مکمل کر سکتا ہے؟ جس طرح انسان کہتا ہے، "کچھ بھی کامل نہیں ہے، صرف بہتر ہے،" انسان جو کچھ بھی کرتا ہے وہ درجہ کمال حاصل نہیں کر سکتا۔ جب خُدا نے دیکھا کہ جو کچھ اُس نے کیا اور حاصل کیا وہ سب اچھا تھا، خُدا کی بنائی ہوئی ہر چیز اُس کے کلام کے ذریعے متعین کی گئی تھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ، جب "خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے،" تو وہ سب کچھ جو اُس نے بنایا تھا اس نے ایک مستقل شکل اختیار کر لی اور اس کی قسم کے مطابق درجہ بندی کر دی گئی، اور اسے حتمی طور پر ہمیشہ کے لیے ایک مقررہ مقام، مقصد اور کام دے دیا گیا۔ مزید برآں، تمام چیزوں میں ان کا کردار، اور وہ سفر جو انھیں خدا کی طرف سے تمام چیزوں کے انتظام کے دوران لازمی طور پر طے کرنا ہے، وہ پہلے ہی خدا کی طرف سے مقرر کر دیا گیا تھا، اور ناقابل تغیر تھا۔ یہ وہ آسمانی قانون تھا جو خالق نے تمام چیزوں کے لیے دیا تھا۔

"خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے،" یہ سادہ الفاظ جن کو اہم نہیں سمجھا جاتا، جنھیں اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، آسمانی قانون اور آسمانی فرمان کے الفاظ ہیں جو خدا کی طرف سے تمام مخلوقات کو دیے گئے ہیں۔ وہ خالق کے اختیار کی ایک اور تجسیم ہیں، ایک ایسی تجسیم جو زیادہ عملی اور زیادہ گہری ہے۔ اپنے کلام کے ذریعے، خالق نہ صرف اس قابل تھا کہ وہ سب کچھ پا سکے جو اس نے پانے کا ارادہ کیا تھا، اور وہ سب کچھ حاصل کر سکے جو اس نے حاصل کرنے کا ارادہ کیا تھا، بلکہ وہ اس قابل بھی تھا کہ جو کچھ اس نے تخلیق کیا تھا اسے اپنے ہاتھوں میں اپنے قابو میں بھی رکھ سکے، اور ان تمام چیزوں پر حکمرانی بھی کر سکے جو اس نے اپنے اختیار کے تحت بنائی تھیں، اور، مزید برآں، یہ سب کچھ منظم اور باقاعدہ تھا۔ تمام چیزیں بھی اُس کے کلام سے پھیلیں، موجود رہیں، اور فنا ہوئیں اور مزید یہ کہ اُس کے اختیار کی وجہ سے وہ اُس کے وضع کیے ہوئے قانون کے درمیان موجود رہیں، اور کوئی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھا! یہ قانون بالکل اسی لمحے شروع ہو گیا تھا کہ جب "خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے،" اور یہ خدا کے نظم و نسق کے منصوبے کی خاطر اس دن تک موجود رہے گا، جاری رہے گا اور کام کرتا رہے گا جب تک کہ اسے خالق کی طرف سے منسوخ نہیں کر دیا جاتا! خالق کا منفرد اختیار نہ صرف اس کی تمام چیزوں کو تخلیق کرنے اور تمام چیزوں کو وجود میں آنے کا حکم دینے کی صلاحیت میں ظاہر ہوا بلکہ اس کی ہر چیز پر حکومت کرنے اور حاکمیت رکھنے کی صلاحیت اور تمام چیزوں کو زندگی اور قوتِ حیات بخشنے کی صلاحیت میں بھی ظاہر ہوا۔ مزید برآں، وہ تمام چیزیں جو وہ اپنی بنائی ہوئی دنیا میں ظاہر ہونے اور موجود رہنے کے لیے اپنے منصوبے میں تخلیق کرے گا، انھیں حتمی طور پر ہمیشہ کے لیے ایک بہترین شکل میں ایک بہترین زندگی کے ڈھانچے، اور ایک بہترین کردار میں رکھنے کی صلاحیت میں بھی اس کا منفرد اختیار ظاہر ہوا۔ اس طرح یہ بھی اسی انداز سے ظاہر ہوا کہ خالق کے خیالات کسی پابندی کے تابع نہیں تھے، وقت، جگہ یا جغرافیہ کے لحاظ سے محدود نہیں تھے۔ اس کے اختیار کی طرح، خالق کی منفرد شناخت بھی ہمیشہ سے ہمیشہ تک ناقابلِ تغیر رہے گی۔ اس کا اختیار ہمیشہ اس کی منفرد شناخت کی نمائندگی اور علامت رہے گا، اور اس کا اختیار ہمیشہ اس کی شناخت کے پہلو بہ پہلو موجود رہے گا!

چھٹے دن، خالق بولتا ہے، اور اس کے ذہن میں موجود ہر قسم کی جاندار مخلوق یکے بعد دیگرے ظاہر ہوتی ہے

غیر محسوس طور پر، خالق کا تمام چیزوں کو بنانے کا کام پانچ دن تک جاری رہا تھا، جس کے فوراً بعد خالق نے تمام چیزوں کی تخلیق کے چھٹے دن کا خیرمقدم کیا۔ یہ دن ایک اور نئی شروعات اور ایک اور غیر معمولی دن تھا۔ پھر، اس نئے دن کے موقع پر خالق کا منصوبہ کیا تھا؟ وہ کون سی نئی مخلوق پیدا کرے گا، تخلیق کرے گا؟ سنو یہ خالق کی آواز ہے ۔۔۔

"اور خُدا نے کہا کہ زمِین جان داروں کو اُن کی جِنس کے مُوافِق چَوپائے اور رینگنے والے جاندار اور جنگلی جانور اُن کی جِنس کے مُوافِق پَیدا کرے اور اَیسا ہی ہُؤا۔ اور خُدا نے جنگلی جانوروں اور چَوپایوں کو اُن کی جِنس کے مُوافِق اور زمِین کے رینگنے والے جان داروں کو اُن کی جِنس کے مُوافِق بنایا اور خُدا نے دیکھا کہ اچھّا ہے" (پَیدائش 1: 24-25)۔ کون سی جاندار مخلوقات شامل ہیں؟ صحیفے کہتے ہیں: مویشی، اور رینگنے والی چیز، اور اپنی قسم کے مطابق زمین کا جانور۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ، اس دن نہ صرف زمین پر ہر قسم کی جاندار مخلوقات موجود تھیں، بلکہ ان سب کی قسم کے لحاظ سے درجہ بندی کر دی گئی تھی، اور اسی طرح، "خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے۔"

جیسا کہ پچھلے پانچ دنوں کے دوران، خالق نے اسی لہجے میں بات کی اور ان جاندار مخلوقات کی پیدائش کا حکم دیا جنھیں وہ چاہتا تھا، اور ان میں سے ہر ایک اپنی نوعیت کے مطابق زمین پر ظاہر ہوتی ہے۔ جب خالق اپنا اختیار استعمال کرتا ہے تو اس کا کوئی بھی لفظ بے کار میں نہیں بولا جاتا اور اسی طرح چھٹے دن ہر وہ جاندار مخلوق جسے اس نے تخلیق کرنے کا ارادہ کیا تھا، مقررہ وقت پر ظاہر ہو گئی۔ جب خالق نے کہا "زمِین جان داروں کو اُن کی جِنس کے مُوافِق پَیدا کرے،" تو زمین ایک دم زندگی سے بھر گئی، اور زمین پر اچانک ہر قسم کی جاندار مخلوقات کی زندگی نمودار ہوئی۔۔۔۔ گھاس سے بھرے سرسبز بیابان میں، موٹی گائیں، اپنی دموں کو ادھر ادھر ہلاتی ہوئی، یکے بعد دیگرے نمودار ہوئیں، ممیاتی ہوئی بھیڑوں نے خود کو ریوڑ کی شکل میں اکٹھا کر لیا، اور ہنہناتے ہوئے گھوڑے سرپٹ دوڑنے لگے۔۔۔۔ ایک لمحے میں ہی، گھاس کے وسیع وعریض خاموش میدان زندگی کے ساتھ پھٹ پڑے۔ گھاس کے پُرسکون میدانوں میں ان مختلف مویشیوں کا ظہور ایک خوبصورت نظارہ تھا، اور اس میں لامحدود قوتِ حیات لے کر آیا۔۔۔۔ وہ گھاس کے میدانوں کے ساتھی ہوں گے، اور گھاس کے میدانوں کے مالک ہوں گے، ہر ایک دوسرے کا مرہونِ منت؛ اسی طرح وہ بھی ان زمینوں کے محافظ اور رکھوالے بن جائیں گے، جو ان کا مستقل مسکن ہوں گی، اور جو انہیں ہر وہ چیز مہیا کریں گی جس کی انہیں ضرورت ہو گی، ان کے وجود کے لیے ابدی پرورش کا ایک ذریعہ ۔۔۔

جس دن یہ مختلف مویشی وجود میں آئے اسی دن خالق کے کلام سے کیڑے مکوڑوں کی بہتات بھی یکے بعد دیگرے نمودار ہوئی۔ گو کہ وہ تمام مخلوقات میں سب سے چھوٹے جاندار تھے، پھر بھی ان کی قوتِ حیات خالق کی معجزانہ تخلیق تھی، اور وہ بہت زیادہ دیر سے نہیں پہنچے۔۔۔۔ کچھ نے اپنے چھوٹے پروں کو پھڑپھڑایا، جب کہ دوسرے آہستہ آہستہ رینگتے ہوئے آئے؛ کچھ اچھلے اور ٹکرائے، دوسرے لڑکھڑائے؛ کچھ انتہائی تیزی کے ساتھ آگے بڑھے، جبکہ دوسرے تیزی سے پیچھے ہٹ گئے؛ کچھ ایک طرف چلے گئے، کچھ نے اونچی اور نیچی چھلانگیں لگائیں۔۔۔۔ سب اپنے لیے گھر ڈھونڈنے کی کوشش میں مصروف تھے: کچھ نے گھاس کو دھکیل کر اپنا راستہ بنایا، کچھ نے زمین میں گڑھے کھودنے شروع کر دیے، کچھ اڑ کر جنگلوں میں چھپے درختوں پر چلے گئے۔ اگرچہ وہ جسامت میں چھوٹے تھے لیکن وہ خالی پیٹ کا عذاب برداشت کرنے کو تیار نہیں تھے اور اپنے گھر تلاش کر لینے کے بعد اپنا پیٹ بھرنے کے لیے خوراک کی تلاش میں دوڑ پڑے۔ کچھ گھاس کے نرم تنکے کھانے کے لیے اس پر چڑھ گئے، کچھ نے گندگی پکڑی اور بڑے شوق اور خوشی سے کھاتے ہوئے منہ بھر کر اپنے پیٹ میں نگل لیا، (ان کے لیے مٹی بھی ایک لذیذ غذا ہے)؛ کچھ جنگلوں میں چھپے ہوئے تھے، لیکن وہ آرام کرنے کے لیے رکے نہیں، کیونکہ چمکدار گہرے سبز پتوں کے اندر موجود رس نے انھیں ایک رسیلا کھانا فراہم کیا۔۔۔۔ تسکین حاصل کرنے کے بعد بھی کیڑوں نے اپنی سرگرمیاں بند نہیں کیں؛ اگرچہ وہ قد میں چھوٹے تھے مگر وہ زبردست توانائی اور لامحدود جوش و خروش کے حامل تھے اور اس طرح تمام مخلوقات میں وہ سب سے زیادہ فعال اور محنتی ہیں۔ وہ کبھی بھی کاہل نہیں تھے، اور انھوں نے کبھی آرام نہیں کیا۔ اپنی بھوک کی تسکین ہونے کے بعد بھی وہ اپنے مستقبل کی خاطر خود سخت محنت کرتے رہے، اور اپنے کل، اپنی بقا کے لیے بھاگ دوڑ کرتے ہوئے اپنے آپ کو مصروف رکھا۔۔۔۔ انھوں نے اپنی حوصلہ افزائی کرنے اور خود کو آگے بڑھنے پر اکسانے کے لیے مختلف دھنوں اور تالوں کے گیتوں کو آہستہ سے گنگنایا۔ انھوں نے گھاس، درختوں اور مٹی کے ہر ایک انچ میں بھی خوشی کا اضافہ کیا، جس سے ہر دن اور ہر سال منفرد ہو گیا۔۔۔۔ اپنی زبانوں میں اور اپنے طریقوں سے، انھوں نے زمین پر موجود تمام جاندار چیزوں تک معلومات پہنچائیں۔ اپنی مخصوص طرزِ زندگی کا استعمال کرتے ہوئے، انھوں نے ان تمام چیزوں کی نشان دہی کی جن پر انھوں نے نشانات چھوڑے۔۔۔۔ ان کے مٹی، گھاس اور جنگلات کے ساتھ بہت قریبی تعلقات تھے، اور وہ مٹی، گھاس اور جنگلات میں جوش و خروش اور قوتِ حیات لائے۔ وہ تمام جانداروں کے لیے خالق کی نصیحت اور تہنیت لے کر آئے ۔۔۔

خالق کی نظروں نے اپنی تخلیق کردہ تمام چیزوں کو دیکھا، اور اس وقت اس کی نظریں جنگلوں اور پہاڑوں پر ٹہر گئیں، اس کا ذہن بدل گیا۔ جیسے ہی اُس کے الفاظ کہے گئے، گھنے جنگلوں میں اور پہاڑوں پر، ایک ایسی قسم کی مخلوق نمودار ہوئی جو پہلے کبھی نہیں آئی تھی: وہ جنگلی جانور تھے جو خدا کے منہ سے بولے گئے تھے۔ یہ طویل عرصے سے آنے والے تھے، ہر ایک نے اپنے منفرد چہرے کے ساتھ اپنے سر کو ہلایا اور دم کو تیزی کے ساتھ حرکت دی۔ کوئی پوستین پوش تھے، کچھ کے پاس حفاظتی خول تھا، کسی کے پاس نوکیلے دانت تھے، کسی کے پاس مسکراہٹ تھی، کچھ لمبی گردن والے تھے، کچھ چھوٹی دم والے تھے، کچھ وحشی آنکھوں والے، کچھ ڈرپوک نگاہوں کے مالک، کچھ گھاس کھانے کے لیے جھکے ہوئے، کچھ کے منہہ خون آلود تھے، کوئی دو ٹانگوں پر اچھلتے ہوئے، کوئی چار کھروں پر چلتے ہوئے، کوئی درختوں کے اوپر سے دور تک دیکھتے ہوئے، کچھ جنگلوں میں پڑے انتظار کرتے ہوئے، کچھ آرام کرنے کے لیے غاروں کو تلاش کرتے ہوئے، کچھ میدانوں میں دوڑتے اور جھومتے ہوئے، کچھ جنگلوں میں شکار کی تاک میں۔۔۔؛ کچھ گرج رہے تھے، کچھ غرا رہے تھے، کچھ بھونک رہے تھے، کچھ رو رہے تھے۔۔۔؛ کچھ کی آواز بہت اونچی تھی، کچھ کی آواز بہت نیچی تھی، کچھ کی آواز بیٹھی ہوئی تھی، کچھ صاف اور مدھر تھے۔۔۔؛ کچھ ڈراؤنے تھے، کچھ خوبصورت تھے، کچھ نفرت انگیز تھے، کچھ پیارے تھے، کچھ خوفناک تھے، کچھ جاذب نظر اور معصوم تھے۔۔۔۔ ایک ایک کر کے ان میں سے ہر ایک سامنے آیا۔ دیکھو وہ کتنے اونچے اور طاقتور ہیں، آزاد مزاج، ایک دوسرے سے بے پروا اور لاتعلق، ایک دوسرے پر نظر تک ڈالنے کی زحمت نہیں کرتے۔۔۔۔ اپنے خالق کی طرف سے عطا کردہ خاص زندگی، اور اپنا جنگلی پن اور خونخواری لیے ہوئے، ان میں سے ہر ایک جنگلوں میں اور پہاڑوں پر نمودار ہوا۔ سب سے گستاخانہ، مکمل طور پر جابرانہ – آخر وہ پہاڑوں اور جنگلوں کے حقیقی مالک تھے۔ اس لمحے سے جب خالق کی طرف سے ان کا ظہور مقرر کیا گیا تھا، انھوں نے جنگلوں اور پہاڑوں پر "دعویٰ کر دیا،" کیونکہ خالق نے پہلے ہی ان کی حدود کو پابند کر دیا تھا اور ان کے وجود کے دائرہ عمل کا تعین کر دیا تھا۔ صرف وہی پہاڑوں اور جنگلوں کے حقیقی مالک تھے اور اسی لیے وہ اتنے وحشی، اتنے گستاخ تھے۔ وہ خالصتاً "جنگلی جانور" کہلاتے تھے کیونکہ، تمام مخلوقات میں سے وہی تھے جو واقعی جنگلی، خونخوار تھے اور انھیں سدھانا ناممکن تھا۔ چونکہ انھیں سدھایا نہیں جا سکتا تھا، اس لیے انھیں پالا نہیں جا سکتا تھا، اور وہ بنی نوع انسان کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ نہیں رہ سکتے تھے یا بنی نوع انسان کی خاطر محنت نہیں کر سکتے تھے۔ چونکہ انھیں پالا نہیں جا سکتا تھا، وہ بنی نوع انسان کے لیے کام نہیں کر سکتے تھے، اس لیے انھیں بنی نوع انسان سے دور رہنا تھا، اور انسان ان کے قریب نہیں جا سکتا تھا۔ اس کے بدلے میں، چونکہ وہ بنی نوع انسان سے دوری پر رہتے تھے اور انسان ان کے قریب نہیں جا سکتا تھا، اس لیے وہ خالق کی طرف سے دی گئی ذمہ داری کو پورا کرنے کے قابل تھے: پہاڑوں اور جنگلوں کی حفاظت۔ ان کا جنگلی پن پہاڑوں کی حفاظت اور جنگلات کا تحفظ کرتا تھا، اور ان کے وجود اور پھیلاؤ کی بہترین حفاظت اور ضمانت تھا۔ ایک ہی وقت میں، ان کے جنگلی پن نے تمام چیزوں کے درمیان توازن برقرار رکھا اور یقینی بنایا۔ ان کی آمد نے پہاڑوں اور جنگلوں کو سہارا دیا اور استقامت پہنچائی؛ ان کی آمد نے ساکت اور خالی پہاڑوں اور جنگلوں میں بے پناہ جوش اور قوتِ حیات بھر دی۔ اس وقت سے، پہاڑ اور جنگل ان کا مستقل مسکن بن گئے، اور وہ کبھی بھی اپنے گھر سے محروم نہیں ہوں گے، کیونکہ یہ پہاڑ اور جنگل ان کے لیے ہی ظاہر ہوئے تھے اور موجود رہے؛ جنگلی جانور اپنا فرض پورا کریں گے اور ان کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اس طرح جنگلی جانور بھی اپنے علاقے میں قائم رہنے کے لیے خالق کی نصیحتوں کی سختی سے پابندی کریں گے، اور خالق کی طرف سے قائم کردہ تمام چیزوں کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی حیوانی فطرت کا استعمال جاری رکھیں گے، اور خالق کے اختیار اور قدرت کو ظاہر کریں گے!

خالق کے اختیار کے تحت، تمام چیزیں کامل ہیں

خدا کی تخلیق کردہ تمام چیزیں، بشمول ان کے جو حرکت کر سکتی تھیں اور جو حرکت نہیں کر سکتی تھیں، جیسے پرندے اور مچھلیاں، جیسے درخت اور پھول، اور مویشی، حشرات الارض اور جنگلی جانور جو چھٹے دن بنائے گئے تھے – خدا کی نظر میں یہ سب اچھا تھا، اور اس کے علاوہ، خدا کی نظر میں، یہ تمام چیزیں اس کے منصوبے کے مطابق، کمال کی انتہا تک پہنچ چکی تھیں اور اس معیار تک پہنچ چکی تھیں جن کو خدا حاصل کرنا چاہتا تھا۔ مرحلہ وار، خالق نے وہ کام کیا جو اس نے اپنے منصوبے کے مطابق کرنا تھا۔ یکے بعد دیگرے، وہ چیزیں ظاہر ہوئیں جن کو وہ تخلیق کرنا چاہتا تھا، اور ہر ایک کا ظہور خالق کے اختیار کا عکس تھا، اس کے اختیار کی ایک ٹھوس شکل؛ ان ٹھوس اشکال کی وجہ سے، تمام مخلوقات خالق کے فضل اور رزق کے لیے شکر گزار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ جیسے ہی خدا کے معجزاتی اعمال نے خود کو ظاہر کیا، یہ دنیا خدا کی تخلیق کردہ تمام چیزوں کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھیل گئی، اور یہ افراتفری اور تاریکی سے شفافیت اور چمک میں، موت کی خاموشی سے زندگی اور توانائی، اور لامحدود قوتِ حیات میں بدل گئی۔ تخلیق کی تمام چیزوں میں سے، بڑی سے چھوٹی تک، چھوٹی سے خوردبین سے نظر آنے والی تک، کوئی بھی چیز ایسی نہیں تھی جو خالق کے اختیار اور قدرت سے پیدا نہ ہوئی ہو، اور ہر مخلوق کے وجود کے لیے ایک منفرد اور فطری ضرورت اور اہمیت تھی۔ ان کی شکل و ساخت میں فرق سے قطع نظر، انھیں خالق نے ہی بنانا تھا اور انھیں خالق کے اختیار کے تحت ہی رہنا تھا۔ بعض اوقات لوگ ایک کیڑے کو دیکھیں گے جو کہ بہت بدصورت ہے اور وہ کہیں گے کہ "وہ کیڑا اتنا بھیانک ہے، ایسی بدصورت چیز کا خدا کی طرف سے پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے – یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اتنی بدصورت چیز بنائے گا۔" کیا احمقانہ نظارہ ہے! انہیں جو کہنا چاہیے وہ یہ ہے کہ، "اگرچہ یہ کیڑا بہت بدصورت ہے، لیکن اسے خدا نے بنایا تھا، اور اس لیے اس کا اپنا ایک منفرد مقصد ہونا چاہیے۔" خدا کے خیالات میں، اس نے اپنی تخلیق کردہ مختلف جاندار چیزوں میں سے ہر ایک کو شکل وصورت، اور ہر قسم کے کام اور استعمال کا مقصد دینے کا ارادہ کیا، لہذا خدا کی بنائی ہوئی چیزوں میں سے کوئی بھی ایک جیسی فطرت کی نہیں ہے۔ ان کی خارجی شکل سے لے کر ان کی اندرونی ساخت تک، ان کے رہنے کی عادات سے لے کر اس مقام تک جہاں وہ ہیں – ہر ایک مختلف ہے۔ گائے کی شکل گائے کی ہے، گدھے کی شکل گدھے کی ہے، ہرن کی شکل ہرن کی ہے، اور ہاتھیوں کی شکل ہاتھیوں کی ہے۔ کیا تو یہ کہہ سکتا ہے کہ کون سب سے زیادہ خوبصورت ہے اور کون سب سے زیادہ بدصورت ہے؟ کیا تو یہ بتا سکتا ہے کہ کون سب سے زیادہ مفید ہے اور کس کا وجود بالکل ضروری نہیں ہے؟ کچھ لوگوں کو ہاتھیوں کی شکل پسند ہے، لیکن کوئی بھی ہاتھیوں کو کھیتی باڑی کے لیے استعمال نہیں کرتا؛ کچھ لوگ ببر شیر اور شیر کی شکل پسند کرتے ہیں، کیونکہ ان کی شکل و صورت تمام چیزوں میں سب سے زیادہ متاثر کن ہے، لیکن کیا تو انھیں پالتو جانور کے طور پر رکھ سکتا ہے؟ مختصراً، جب تخلیق کی بے شمار چیزوں کی بات آتی ہے، تو انسان کو خالق کے اختیار کا احترام کرنا چاہیے، جس کا مطلب یہ ہے کہ تمام چیزوں کے لیے خالق کی مقرر کردہ ترتیب کا احترام کرنا چاہیے؛ یہی سب سے عقلمندانہ رویہ ہے۔ خالق کے اصل ارادوں کو تلاش کرنے اور ان کی اطاعت کرنے کا رویہ ہی خالق کے اختیار کو حقیقی معنوں میں قبول کرنا اور ان پر یقین رکھنا ہے۔ یہ خدا کی نظر میں اچھا ہے، تو پھر انسان کے پاس عیب تلاش کرنے کی کیا وجہ ہے؟

اس طرح، خالق کے اختیار کے تحت تمام چیزیں خالق کی حاکمیت کے لیے ایک نیا سنگیت بجانے کے لیے ہیں، اس کے نئے دن کے کام کے لیے ایک شاندار تمہید کا آغاز کرنے کے لیے ہیں، اور اس وقت خالق اپنے انتظامی کام کا ایک نیا صفحہ کھولے گا! خالق کے مقرر کردہ قانون کے مطابق موسم بہار میں تازہ کونپلوں کا کھلنا، گرمیوں میں پکنا، خزاں میں فصل کاٹنا، اور سردیوں میں ذخیرہ کرنا، یہ تمام چیزیں خالق کے انتظامی منصوبے کی بازگشت ہوں گی، اور وہ خود اپنے نئے دن، نئی شروعات، اور نئے طرزِ زندگی کا خیر مقدم کریں گی۔ وہ زندہ رہیں گی اور خالق کے اختیار کی حاکمیت کے تحت ہر دن کا استقبال کرنے کے لیے غیر محدود تواتر کے ساتھ دوبارہ پیدا ہوں گی ۔۔۔

کوئی بھی تخلیق شدہ یا غیر تخلیق شدہ وجود خالق کی شناخت کی جگہ نہیں لے سکتا

جب سے اس نے تمام چیزوں کی تخلیق کا آغاز کیا، خدا کی قدرت ظاہر اور عیاں ہونی شروع ہوئی، کیونکہ خدا نے تمام چیزوں کو تخلیق کرنے کے لیے کلام کا استعمال کیا۔ اس سے قطع نظر کہ اس نے انہیں کس انداز میں پیدا کیا، اس سے قطع نظر کہ اس نے انہیں کیوں پیدا کیا، تمام چیزیں خدا کے کلام کی وجہ سے وجود میں آئیں اور مضبوطی سے قائم ہوئیں اور موجود رہیں؛ یہ خالق کا منفرد اختیار ہے۔ دنیا میں بنی نوع انسان کے ظہور سے پہلے کے زمانے میں، خالق نے اپنی قدرت اور اختیار کا استعمال کرتے ہوئے بنی نوع انسان کے لیے تمام چیزیں تخلیق کیں، اور بنی نوع انسان کے رہنے لیے ایک موزوں ماحول تیار کرنے کے لیے اپنے منفرد طریقے استعمال کیے ہیں۔ اس نے جو کچھ کیا وہ نوع انسانی کی خاطر تیاری کے لیے تھا، جو جلد ہی اپنی سانس وصول کرنے والی تھی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بنی نوع انسان کی تخلیق سے پہلے کے زمانے میں، ان تمام مخلوقات میں خدا کا اختیار ظاہر کیا گیا تھا جو بنی نوع انسان سے مختلف تھیں، جیسے کہ آسمانوں، روشنیوں، سمندروں اور زمینوں جیسی عظیم چیزوں میں اور ان چھوٹی چیزوں میں جیسے کہ جانوروں اور پرندوں کے ساتھ ساتھ تمام قسم کے کیڑے مکوڑوں اور خردنامیوں بشمول مختلف جرثوموں میں، جو عام آنکھ سے نظر نہیں آتے ہیں۔ ہر ایک کو خالق کے کلام سے زندگی عطا کی گئی، ہر ایک خالق کے کلام کی وجہ سے تعداد میں بڑھی اور ہر ایک خالق کلام کی وجہ سے اس کی حاکمیت میں زندہ رہی۔ اگرچہ انھیں خالق کا دم نہیں ملا تھا، لیکن پھر بھی انھوں نے اپنی مختلف اشکال اور ساخت کے ذریعے خالق کی طرف سے عطا کی ہوئی زندگی کی قوتِ حیات کو ظاہر کیا؛ اگرچہ انھیں خالق کی طرف سے بنی نوع انسان کو دی گئی بولنے کی صلاحیت نہیں ملی، لیکن ان میں سے ہر ایک کو خالق کی طرف سے عطا کی ہوئی اپنی زندگی کے اظہار کا ایک طریقہ ملا، جو کہ انسان کی زبان سے مختلف تھا۔ خالق کا اختیار نہ صرف بظاہر جامد مادی اشیا کو زندگی کی توانائی عطا کرتا ہے، تاکہ وہ کبھی غائب نہ ہوں، بلکہ وہ ہر جاندار کو دوبارہ پیدا کرنے اور تعداد بڑھانے کی جبلت بھی دیتا ہے، تاکہ وہ کبھی ختم نہ ہوں، اور تاکہ وہ ان قوانین اور بقا کے اصولوں کو نسل در نسل آگے منتقل کریں جو خالق کی طرف سے انھیں عطا کیے گئے ہیں۔ جس طریقے سے خالق اپنے اختیار کو استعمال کرتا ہے وہ بسیط یا خفیف نقطہ نظر کی سختی سے پابندی نہیں کرتا، اور کسی بھی شکل تک محدود نہیں ہے؛ وہ کائنات کی کاروائیوں کا حکم دینے اور تمام چیزوں کی زندگی اور موت پر غلبہ رکھنے پر قادر ہے، اور اس کے علاوہ، وہ سب چیزوں کو چلانے پر قادر ہے تاکہ وہ اس کی خدمت کریں؛ وہ پہاڑوں، دریاؤں اور جھیلوں کے تمام کاموں کا انتظام کر سکتا ہے، اور ان کے اندر سب چیزوں پر حکمرانی کر سکتا ہے، اور اس کے علاوہ، چیزوں کو جس چیز کی بھی ضرورت ہے وہ انھیں فراہم کرنے پر قادر ہے۔ یہ بنی نوع انسان کے علاوہ تمام چیزوں میں خالق کے منفرد اختیار کا مظہر ہے۔ ایسا اظہار صرف زندگی بھر کے لیے نہیں ہوتا؛ یہ کبھی نہیں رکے گا، نہ ہی آرام کرے گا، اور نہ ہی اسے کسی شخص یا چیز کے ذریعے تبدیل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے نقصان پہنچایا جا سکتا ہے، اور نہ ہی اس میں کسی شخص یا چیز کے ذریعے اضافہ یا کمی کی جا سکتی ہے – کیونکہ کوئی بھی خالق کی شناخت کی جگہ نہیں لے سکتا، اور اس لیے، کوئی بھی تخلیق شدہ وجود خالق کے اختیار کی جگہ نہیں لے سکتا ہے؛ اور کسی غیر تخلیق شدہ وجود کے لیے بھی یہ ناقابلِ حصول ہے۔ مثال کے طور پر خدا کے رسولوں اور فرشتوں کو لو۔ وہ خدا کی قدرت کے حامل نہیں ہیں، خالق کے اختیار کا حامل ہونا تو اور بھی دور کی بات ہے، اور ان کے پاس خدا کی قدرت اور اختیار نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ خالق کے جوہر کے حامل نہیں ہیں۔ غیر تخلیق شدہ وجود، جیسے خدا کے رسول اور فرشتے، اگرچہ وہ خدا کی طرف سے کچھ کام کر سکتے ہیں، لیکن خدا کی نمائندگی نہیں کر سکتے۔ اگرچہ ان کے پاس کچھ قدرت ہے جو انسان کے پاس نہیں ہے، لیکن وہ خدا کے اختیار کے حامل نہیں ہیں، وہ تمام چیزوں کو پیدا کرنے، سب چیزوں کو حکم دینے، اور تمام چیزوں پر حاکمیت رکھنے کے لیے خدا کا اختیار نہیں رکھتے ہیں۔ پس کوئی بھی غیر تخلیق شدہ وجود خدا کی انفرادیت کی جگہ نہیں لے سکتا اور اسی طرح کوئی بھی غیر تخلیق شدہ وجود خدا کے اختیار اور قدرت کی جگہ نہیں لے سکتا۔ انجیل میں، کیا تو نے خدا کے کسی رسول کے بارے میں پڑھا ہے جس نے تمام چیزوں کو تخلیق کیا ہو؟ خدا نے تمام چیزوں کو تخلیق کرنے کے لیے اپنے کسی پیغمبر یا فرشتے کو کیوں نہیں بھیجا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خدا کے اختیار کے حامل نہیں تھے، اور اسی لیے وہ خدا کے اختیار کو استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ بالکل تمام مخلوقات کی طرح، وہ سب خالق کی حاکمیت کے ماتحت ہیں، اور خالق کے اختیار کے تحت ہیں، اور اسی طرح خالق ان کا خدا اور ان کا حاکم بھی ہے۔ ان میں سے ہر ایک میں – خواہ وہ معزز ہو یا حقیر، عظیم طاقت والا ہو یا معمولی طاقت والا – کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو خالق کے اختیار سے بالاتر ہو، اور اسی طرح ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو خالق کی شناخت کو تبدیل کر سکے۔ وہ کبھی بھی خدا نہیں کہلائے گا، اور کبھی خالق نہیں بن سکے گا۔ یہ ناقابل تغیر سچائیاں اور حقائق ہیں!

مندرجہ بالا رفاقت کے ذریعے، کیا ہم یقین اور اعتماد کے ساتھ مندرجہ ذیل بات کہہ سکتے ہیں: صرف ہر چیز کا خالق اور حاکم، وہی جو منفرد اختیار اور انوکھی قدرت کا مالک ہے، ہی خود منفرد خدا کہلا سکتا ہے؟ اس مقام پر، تم محسوس کر سکتے ہو کہ اس طرح کا سوال بہت گہرا ہے۔ تم اس وقت اسے سمجھنے سے قاصر ہو، اور اس کے اندر موجود جوہر کو نہیں سمجھ سکتے، اور اس لیے تم اس وقت یہ محسوس کرتے ہو کہ اس کا جواب دینا مشکل ہے۔ میں اس صورت میں اپنی رفاقت جاری رکھوں گا۔ اس کے بعد، میں تمہیں صرف خدا کے اختیار اور قدرت کے بہت سے پہلوؤں کے حقیقی اعمال کو دیکھنے کی اجازت دوں گا، اور اس طرح میں تمہیں خدا کی انفرادیت کو صحیح معنوں میں سمجھنے، اس کی قدر کرنے اور خدا کے منفرد اختیار سے کیا مراد ہے، کو جاننے کی اجازت دوں گا۔

2۔ خدا انسان کے ساتھ ایک عہد قائم کرنے کے لیے اپنا کلام استعمال کرتا ہے

پَیدائش 9: 11-13 مَیں اِس عہد کو تُمہارے ساتھ قائِم رکھُّوں گا کہ سب جاندار طُوفان کے پانی سے پِھر ہلاک نہ ہوں گے اور نہ کبھی زمِین کو تباہ کرنے کے لیے پِھر طُوفان آئے گا۔ اور خُدا نے کہا کہ جو عہد مَیں اپنے اور تُمہارے درمِیان اور سب جان داروں کے درمِیان جو تُمہارے ساتھ ہیں پُشت در پُشت ہمیشہ کے لیے کرتا ہُوں اُس کا نِشان یہ ہے کہ مَیں اپنی کمان کو بادل میں رکھتا ہُوں۔ وہ میرے اور زمِین کے درمِیان عہد کا نِشان ہو گی۔

اس کے سب کچھ کرنے کے بعد، خالق کے اختیار کی تصدیق ہو جاتی ہے اور ایک مرتبہ پھر کمان کے عہد میں ظاہر ہوتا ہے

خالق کا اختیار تمام مخلوقات کے درمیان ہمیشہ ظاہر ہوتا ہے اور بروئے کار لایا جاتا ہے، اور وہ نہ صرف ہر چیز کی قسمت پر حکمرانی کرتا ہے، بلکہ وہ بنی نوع انسان پر بھی حکمرانی کرتا ہے، وہ خاص مخلوق جسے اس نے اپنے ہاتھوں سے تخلیق کیا ہے اور جو ایک مختلف طرزِ زندگی کی حامل ہے اور زندگی کی ایک مختلف شکل میں موجود ہے۔ تمام چیزیں بنانے کے بعد، خالق نے اپنے اختیار اور قدرت کے اظہار کو ختم نہیں کیا؛ اس کے لیے، اس کے اس اختیار جس کے ساتھ اس نے تمام چیزوں اور پوری بنی نوع انسان کی تقدیر پر حاکمیت حاصل کی، کا باقاعدہ آغاز، انسان کے اس کے ہاتھ سے حقیقی معنوں میں پیدا ہونے کے بعد ہی ہوا۔ اس کا ارادہ بنی نوع انسان کا انتظام کرنے اور بنی نوع انسان پر حکومت کرنے کا تھا؛ اس کا ارادہ بنی نوع انسان کو بچانے اور حقیقی معنوں میں بنی نوع انسان کو حاصل کرنے کا تھا، ایک ایسی نوع انسانی کو حاصل کرنے کا جو تمام چیزوں پر حکومت کر سکے؛ اس کا ارادہ تھا کہ ایسی نوع انسانی سے اپنے اختیار کے تحت زندگی بسر کروائے اور وہ اس کے اختیار کو جان کر اس کی اطاعت کرے۔ اس طرح، خدا نے باضابطہ طور پر اپنے کلام کا استعمال کرتے ہوئے انسانوں کے درمیان اپنے اختیار کا اظہار کرنا شروع کیا، اور اپنے کلام کا احساس دلانے کے لیے اپنے اختیار کو استعمال کرنا شروع کیا۔ بلاشبہ، اس عمل کے دوران خدا کا اختیار تمام جگہوں پر ظاہر ہوا؛ میں نے صرف چند مخصوص، معروف مثالوں کا انتخاب کیا ہے جن سے تم خدا کی انفرادیت اور اس کے منفرد اختیار کو سمجھ اور جان سکتے ہو۔

پیدائش 11:9-13 کے اقتباس اور خدا کی دنیا کی تخلیق کے اندراج سے متعلق اوپر کے اقتباس کے درمیان ایک مماثلت ہے، مگر ایک فرق بھی ہے۔ مماثلت کیا ہے؟ مماثلت اپنے ارادے کے مطابق عمل کرنے کے لیے خدا کے کلام کے استعمال میں ہے، اور فرق یہ ہے کہ یہاں جس اقتباس کا حوالہ دیا گیا ہے وہ انسان کے ساتھ خدا کی گفتگو کی نمائندگی کرتا ہے، جس میں اس نے انسان کے ساتھ ایک عہد قائم کیا اور انسان کو اس کے بارے میں بتایا جو عہد کے اندر شامل تھا۔ خدا کے اختیار کی یہ سعی انسان کے ساتھ اس کے مکالمے کے دوران حاصل ہوئی، جس کا مطلب یہ ہے کہ بنی نوع انسان کی تخلیق سے پہلے، خدا کا کلام وہ ہدایات اور احکامات تھے، جو ان مخلوقات کو جاری کیے گئے تھے جنہیں وہ تخلیق کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اب خدا کے کلام کو سننے والا کوئی موجود تھا، اور اس لیے اس کا کلام انسان کے ساتھ مکالمہ بھی تھا اور انسان کو نصیحت اور تنبیہ بھی۔ مزید برآں، خُدا کا کلام وہ احکام تھے جو اُس کا اختیار رکھتے تھے اور جو تمام چیزوں کو دیے گئے تھے۔

اس اقتباس میں خدا کا کون سا عمل درج ہے؟ اقتباس میں وہ عہد درج ہے جو خدا نے سیلاب کے ساتھ دنیا کی تباہی کے بعد انسان کے ساتھ قائم کیا تھا؛ یہ انسان کو بتاتا ہے کہ خدا دنیا پر دوبارہ ایسی تباہی نہیں لائے گا، اور یہ کہ، اس مقصد کے لیے، خدا نے ایک نشان تخلیق کیا۔ یہ نشان کیا تھا؟ صحیفوں میں یہ کہا گیا ہے کہ "مَیں اپنی کمان کو بادل میں رکھتا ہُوں۔ وہ میرے اور زمِین کے درمِیان عہد کا نِشان ہو گی۔" یہ وہ اصل کلام ہے جو خالق نے بنی نوع انسان سے کہا۔ جیسے ہی اُس نے یہ کلام کہا، انسان کی آنکھوں کے سامنے ایک کمان نمودار ہوئی اور وہ آج تک موجود ہے۔ ہر ایک نے ایسی کمان دیکھی ہے، اور جب تو اسے دیکھتا ہے تو کیا تو جانتا ہے کہ یہ کیسے ظاہر ہوتی ہے؟ سائنس اسے ثابت کرنے، یا اس کے ماخذ کا پتہ لگانے، یا اس کے ٹھکانے کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ کمان خالق اور انسان کے درمیان قائم عہد کی نشانی ہے؛ اس کے لیے کسی سائنسی بنیاد کی ضرورت نہیں، اسے انسان نے نہیں بنایا اور نہ ہی انسان اس میں تبدیلی کرنے کے قابل ہے۔ یہ اپنا کلام کہنے کے بعد خالق کے اختیار کا تسلسل ہے۔ خالق نے انسان کے ساتھ اپنے عہد اور اپنے وعدے کی پاسداری کرنے کے لیے اپنا ایک مخصوص طریقہ استعمال کیا، اور اس لیے اس کے قائم کیے ہوئے عہد کی نشانی کے طور پر اس کا کمان کا استعمال ایک آسمانی حکم اور قانون ہے جو چاہے خالق ہو یا تخلیق شدہ بنی نوع انسان، دونوں کے لیے ہمیشہ کے لیے غیر متغیر رہے گا۔ یہ ناقابل تغیر قانون ہے، یہ ضرور کہا جانا چاہیے کہ تمام چیزوں کی تخلیق کے بعد یہ خالق کے اختیار کا ایک اور حقیقی مظہر ہے، اور یہ کہنا ضروری ہے کہ خالق کا اختیار اور قدرت لامحدود ہے؛ اس کا کمان کو استعمال کرنا ایک نشانی ہے، اور خالق کے اختیار کا تسلسل اور توسیع ہے۔ یہ ایک اور عمل تھا جو خُدا نے اپنے کلام کا استعمال کرتے ہوئے کیا تھا، اور یہ اُس عہد کی علامت تھی جو خُدا نے کلام کے ذریعے انسان کے ساتھ قائم کیا تھا۔ اس نے انسان کو وہ بتایا جو وہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، اور یہ کہ یہ کس طریقے سے پورا اور حاصل ہو گا۔ اس طرح معاملہ خدا کے منہ سے نکلے ہوئے کلام کے مطابق پورا ہوا۔ صرف خدا ہی ایسی قدرت کا حامل ہے، اور آج، اس کے یہ کلام کہنے کے کئی ہزار سال بعد، انسان اب بھی خدا کے منہ سے بولی جانے والی کمان کو دیکھ سکتا ہے۔ خدا کے کہے ہوئے اس کلام کی وجہ سے یہ چیز ٹھیک آج تک غیر متغیر اور غیر متبدل رہی ہے۔ کوئی بھی اس کمان کو نہیں ہٹا سکتا، کوئی بھی اس کے قوانین کو تبدیل نہیں کر سکتا، اور یہ صرف خدا کے کلام کی وجہ سے موجود ہے۔ یہ خدا کا عین اختیار ہے۔ "خُدا کے اپنے کلام کی طرح اچھا ہے، اور اُس کا کلام پورا ہو گا، اور جو کچھ وہ پورا کرتا ہے وہ ابد تک رہے گا۔" اس طرح کا کلام یہاں پر صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے اور یہ خدا کے اختیار اور قدرت کی واضح نشانی اور خصوصیت ہے۔ ایسی نشانی یا خصوصیت مخلوقات میں سے کسی کے پاس نہیں ہے یا کسی میں نظر نہیں آتی، اور نہ ہی یہ کسی غیر تخلیق شدہ وجود میں نظر آتی ہے۔ اس کا تعلق صرف منفرد خدا سے ہے، اور یہ مخلوقات کے پاس موجود شناخت اور جوہر میں سے صرف خالق کے پاس موجود شناخت اور جوہر کو ممتاز کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک نشانی اور خصوصیت بھی ہے کہ خود خدا کے علاوہ کوئی بھی تخلیق شدہ یا غیر تخلیق شدہ وجود کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔

خدا کا انسان کے ساتھ اپنے عہد کا قیام بہت اہمیت کا حامل عمل تھا، ایک ایسا عہد جس کا استعمال اس نے انسان کو حقیقت بتانے اور انسان کو اپنی مرضی بتانے کے لیے کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے اس نے ایک انوکھا طریقہ استعمال کیا، انسان کے ساتھ ایک عہد قائم کرنے کے لیے ایک خاص نشانی کا استعمال کیا، ایک ایسی نشانی جو اس عہد کا وعدہ تھا جو اس نے انسان کے ساتھ قائم کیا تھا۔ تو کیا اس عہد کا قیام ایک عظیم واقعہ تھا؟ آخر یہ کتنا عظیم تھا؟ یہ عین وہی ہے جو اس عہد کے بارے میں اتنا خاص ہے: یہ ایک انسان اور دوسرے انسان، یا ایک گروہ اور دوسرے گروہ، یا ایک ملک اور دوسرے ملک کے درمیان قائم ہونے والا عہد نہیں ہے، بلکہ یہ وہ عہد ہے جو خالق اور پوری نوع انسانی کے درمیان قائم ہوا ہے، اور یہ اس دن تک برقرار رہے گا جب تک کہ خالق سب چیزوں کو ختم نہ کر دے۔ اس عہد کی تعمیل کروانے والا بھی خالق ہے اور اس کو برقرار رکھنے والا بھی خالق ہے۔ مختصراً یہ کہ بنی نوع انسان کے ساتھ کمان کا جو عہد قائم کیا گیا تھا اس کی تکمیل خالق اور بنی نوع انسان کے درمیان مکالمے کے مطابق ہوئی اور آج تک اسی طرح قائم ہے۔ مخلوق خالق کے اختیار کی فرمانبرداری کرنے، اس پر ایمان لانے، اس کی قدر کرنے، گواہی دینے اور اس کی تعریف کرنے کے تابع ہونے علاوہ اور کیا کر سکتی ہے؟ منفرد خدا کے علاوہ کسی کے پاس بھی ایسا عہد قائم کرنے کی قدرت نہیں ہے۔ کمان کا بار بار ظاہر ہونا بنی نوع انسان کے لیے ایک اعلان ہے اور اس کی توجہ خالق اور بنی نوع انسان کے درمیان عہد کی طرف مبذول کراتی ہے۔ خالق اور بنی نوع انسان کے درمیان عہد کے مسلسل ظاہر ہونے میں، جو چیز بنی نوع انسان پر ظاہر کی جاتی ہے وہ بذات خود کمان یا عہد نہیں ہے، بلکہ خالق کا ناقابل تغیر اختیار ہے۔ کمان کا بار بار ظاہر ہونا پوشیدہ جگہوں پر خالق کے زبردست اور معجزاتی کاموں کو ظاہر کرتا ہے، اور ساتھ ہی، خالق کے اختیار کا ایک اہم عکس ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا، اور نہ ہی کبھی بدلے گا۔ کیا یہ خالق کے منفرد اختیار کے ایک اور پہلو کی نمائش نہیں ہے؟

3۔ خدا کی برکتیں

پَیدائش 17: 4-6 کہ دیکھ میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تُو بُہت قَوموں کا باپ ہو گا۔ اور تیرا نام پِھر ابرام نہیں کہلائے گا بلکہ تیرا نام ابرہامؔ ہو گا کیونکہ مَیں نے تجھے بُہت قَوموں کا باپ ٹھہرا دِیا ہے۔ اور مَیں تُجھے بُہت برومند کرُوں گا اور قَومیں تیری نسل سے ہوں گی اور بادشاہ تیری اَولاد میں سے برپا ہوں گے۔

پَیدائش 18: 18-19 ابرہامؔ سے تو یقیناً ایک بڑی اور زبردست قَوم پَیدا ہو گی اور زمِین کی سب قَومیں اُس کے وسِیلہ سے برکت پائیں گی۔ کیونکہ مَیں جانتا ہُوں کہ وہ اپنے بیٹوں اور گھرانے کو جو اُس کے پیچھے رہ جائیں گے وصِیّت کرے گا کہ وہ خُداوند کی راہ میں قائِم رہ کر عدل اور اِنصاف کریں تاکہ جو کُچھ خُداوند نے ابرہامؔ کے حق میں فرمایا ہے اُسے پُورا کرے۔

پَیدائش 22: 16-18 خُداوند فرماتا ہے چُونکہ تُو نے یہ کام کِیا کہ اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اِکلوتا ہے دریغ نہ رکھّا اِس لیے مَیں نے بھی اپنی ذات کی قَسم کھائی ہے کہ مَیں تُجھے برکت پر برکت دُوں گا اور تیری نسل کو بڑھاتے بڑھاتے آسمان کے تاروں اور سمُندر کے کنارے کی ریت کی مانِند کر دُوں گا اور تیری اَولاد اپنے دُشمنوں کے پھاٹک کی مالِک ہو گی۔ اور تیری نسل کے وسِیلہ سے زمِین کی سب قَومیں برکت پائیں گی کیونکہ تُو نے میری بات مانی۔

ایُّوب 42: 12 یُوں خُداوند نے ایُّوب کے آخِری ایّام میں اِبتدا کی نِسبت زِیادہ برکت بخشی اور اُس کے پاس چَودہ ہزار بھیڑ بکرِیاں اور چھ ہزار اُونٹ اور ہزار جوڑی بَیل اور ہزار گدھیاں ہو گئِیں۔

خالق کے کلام کا منفرد انداز اور خصوصیات خالق کی منفرد شناخت اور اختیار کی علامت ہیں

بہت سے لوگ خدا کی برکتوں کو تلاش کرنا اور حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہر کوئی یہ برکتیں حاصل نہیں کر سکتا، کیونکہ خدا کے اپنے اصول ہیں، اور وہ انسان کو اپنے طریقے سے برکت عطا کرتا ہے۔ وہ وعدے جو خدا انسان سے کرتا ہے، اور جو فضل وہ انسان پر کرتا ہے، وہ انسان کے خیالات اور اعمال کی بنیاد پر مختص ہوتے ہیں۔ تو پھر، خدا کی برکتوں سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ لوگ اپنے اندر کیا دیکھ سکتے ہیں؟ اس مقام پر، آؤ ہم اس بحث کو ایک طرف رکھتے ہیں کہ خدا کس قسم کے لوگوں کو برکت عطا کرتا ہے، اور انسان کو برکت عطا کرنے کے خدا کے اصول کیا ہیں۔ اس کی بجائے، آؤ ہم خدا کے اختیار کو جاننے کے مقصد سے، خدا کے اختیار کو جاننے کے نقطہ نظر سے انسان کے لیے خدا کی برکت کو دیکھیں۔

مندرجہ بالا صحیفے کے چار اقتباسات میں انسان پر خدا کی برکت کے بارے میں مکمل اندراج ہے۔ وہ خدا کی نعمتوں کے وصول کنندگان جیسے کہ ابراہام اور ایوب کی تفصیلی وضاحت فراہم کرتے ہیں، نیز ان وجوہات کے بارے میں بھی کہ خدا نے اپنی برکتیں کیوں عطا کیں، اور ان برکتوں میں کیا کچھ شامل تھا۔ خدا کے کلام کا لہجہ اور انداز، اور جس نقطہ نظر اور حیثیت سے اس نے بات کی ہے، لوگوں کو اس بات کو سمجھنے کی اجازت دیتی ہے کہ برکتیں دینے والا اور ایسی برکتوں کا حاصل کرنے والا بہت الگ الگ شناخت، حیثیت اور جوہر کے حامل ہیں۔ ان کلمات کا لہجہ اور انداز، اور جس حیثیت سے وہ بولے گئے، یہ خدا ہی کی انفرادیت ہے جو خالق کی شناخت رکھتا ہے۔ اس کے پاس اختیار اور طاقت ہے، نیز خالق کی عزت اور عظمت ہے جو کسی بھی انسان کی طرف سے شک کرنے کو برداشت نہیں کرتا ہے۔

آؤ پہلے ہم پیدائش 17: 4-6 کو دیکھتے ہیں: "کہ دیکھ میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تُو بُہت قَوموں کا باپ ہو گا۔ اور تیرا نام پِھر ابرام نہیں کہلائے گا بلکہ تیرا نام ابرہامؔ ہو گا کیونکہ مَیں نے تجھے بُہت قَوموں کا باپ ٹھہرا دِیا ہے۔ اور مَیں تُجھے بُہت برومند کرُوں گا اور قَومیں تیری نسل سے ہوں گی اور بادشاہ تیری اَولاد میں سے برپا ہوں گے۔" یہ کلام وہ عہد تھا جو خدا نے ابراہام کے ساتھ قائم کیا تھا، نیز ابراہام کے لیے خدا کی برکت تھا: خدا ابراہام کو قوموں کا باپ بنائے گا، اسے بہت زیادہ برومند بنائے گا، اور اس سے قومیں بنائے گا، اور اس سے بادشاہ آئیں گے۔ کیا تو ان الفاظ میں خدا کے اختیار کو دیکھتا ہے؟ اور تو اس طرح کے اختیار کو کیسے دیکھتا ہے؟ تو خدا کے اختیار کے جوہر کا کون سا پہلو دیکھتا ہے؟ یہ کلام توجہ سے پڑھنے پر یہ دریافت کرنا مشکل نہیں ہے کہ خدا کا اختیار اور شناخت خدا کے کلام کے الفاظ میں واضح طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر جب خدا کہتا ہے "میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تُو ہو گا ۔۔۔ مَیں نے تجھے ٹھہرا دِیا ہے ۔۔۔ میں تجھے بناؤں گا۔۔۔،" اس طرح کے جزو فقرے "تو ہو گا" اور "میں کروں گا،" جن کے الفاظ خدا کی شناخت اور اختیار کی تصدیق کرتے ہیں، ایک لحاظ سے، خالق کی وفاداری کا اشارہ ہیں؛ ایک اور لحاظ سے، وہ خُدا کی طرف سے استعمال کیے گئے خاص الفاظ ہیں، جو خالق کی شناخت رکھتے ہیں – اور ساتھ ہی روایتی ذخیرہ الفاظ کا حصہ بھی ہیں۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ امید کرتا ہے کہ کوئی دوسرا شخص بہت زیادہ برومند ہو گا، اور اس سے قومیں بنیں گی، اور اس سے بادشاہ پیدا ہوں گے، تو بلاشبہ یہ ایک قسم کی خواہش ہے، اور کوئی وعدہ یا برکت نہیں ہے۔ لہٰذا، لوگ یہ کہنے کی ہمت نہیں کرتے کہ "میں تمہیں اس طرح بناؤں گا، تم اس طرح اور اس طرح" کیونکہ انھیں علم ہے کہ ان کے پاس ایسی طاقت ہی نہیں ہے۔ یہ ان کے بس کی بات ہی نہیں ہے، اور اگر وہ ایسی باتیں کہتے بھی ہیں تو ان کی باتیں خالی بکواس ہوں گی، جو ان کی خواہش اور مقصد کی وجہ سے ہوں گی۔ اگر کوئی یہ محسوس کرے کہ وہ ان کی خواہشات پوری نہیں کر سکتا تو کیا وہ اس قدر عالی شان لہجے میں بات کرنے کی جسارت کرتا ہے؟ ہر کوئی اپنی اولاد کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہے، اور امید کرتا ہے کہ وہ ترقی کرے گی اور بڑی کامیابی سے لطف اندوز ہو گی۔ "ان میں سے کسی ایک کے لیے شہنشاہ بن جانا کتنی بڑی خوش قسمتی ہوگی! اگر کوئی صوبائی حاکم بنتا ہے تو یہ بھی اچھا ہو گا - جب تک کہ وہ کوئی اہم شخصیت ہو! یہ سب لوگوں کی خواہشات ہیں، لیکن لوگ اپنی اولاد کے لیے برکت کی صرف خواہش ہی کر سکتے ہیں، اور اپنے کسی وعدے کو پورا یا سچا نہیں کر سکتے۔ اپنے دلوں میں، سب کو صاف معلوم ہے کہ وہ ایسی چیزوں کو حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، کیونکہ ان کے بارے میں ہر چیز ان کے قابو سے باہر ہے، تو پھر وہ دوسروں کی قسمت کے بارے میں کیسے حکم دے سکتے ہیں؟ خدا کا اس طرح کا کلام کہنے کی وجہ یہ ہے کہ خدا اس طرح کا اختیار رکھتا ہے، اور وہ ان تمام وعدوں کو پورا کرنے اور انھیں مکمل کرنے پر قادر ہے جو وہ انسان سے کرتا ہے، اور ان تمام برکتوں کو پورا کرنے پر قادر ہے جو وہ انسان کو عطا کرتا ہے۔ انسان خدا کی طرف سے تخلیق کیا گیا تھا، اور خدا کے لیے کسی کو بے حد برومند بنانا بچوں کا کھیل ہو گا؛ کسی کی اولاد کو خوشحال بنانے کے لیے اس کی طرف سے فقط ایک لفظ کی ضرورت ہو گی۔ اسے کبھی بھی ایسے کام کے لیے خود پسینہ بہانے کی ضرورت نہیں پڑے گی، یا اپنے دماغ کو کام میں نہیں لانا پڑے گا، یا اس کے لیے خود کو عاجز نہیں سمجھنا پڑے گا۔ یہ عین خدا کی قدرت ہے، خدا کا اختیار ہے۔

یہ پڑھنے کے بعد کہ "ابراہام سے تو یقیناً ایک بڑی اور زبردست قَوم پَیدا ہو گی اور زمِین کی سب قَومیں اُس کے وسِیلہ سے برکت پائیں گی۔" پیدائش 18: 18 میں، کیا تم خدا کے اختیار کو محسوس کر سکتے ہو؟ کیا تم خالق کے غیر معمولی پن کو محسوس کر سکتے ہو؟ کیا تم خالق کی بالادستی کو محسوس کر سکتے ہو؟ خدا کی باتیں یقینی ہیں۔ خُدا ایسے الفاظ اپنی کامیابی پر یقین ہونے کی وجہ سے یا نمائندگی کی خاطر نہیں کہتا؛ اس کی بجائے یہ الفاظ، خدا کے کلام کے اختیار کا ثبوت ہیں، اور ایک حکم ہے جو خدا کے کلام کو پورا کرتا ہے۔ یہاں دو تاثرات ہیں جن پر تمہیں توجہ دینی چاہیے۔ جب خدا کہتا ہے "ابراہام سے تو یقیناً ایک بڑی اور زبردست قَوم پَیدا ہو گی اور زمِین کی سب قَومیں اُس کے وسِیلہ سے برکت پائیں گی،" کیا ان الفاظ میں ابہام کا کوئی عنصر ہے؟ کیا تشویش کا کوئی عنصر ہے؟ کیا خوف کا کوئی عنصر ہے؟ خدا کے کلام میں لفظ "ضرور ہو گا" اور "ہو گا" کی وجہ سے، ان عناصر نے، جو انسان کے لیے خاص ہیں اور اکثر اس میں ظاہر ہوتے ہیں، کبھی بھی خالق سے کوئی تعلق نہیں رکھا ہے۔ کوئی بھی دوسرے کی بھلائی کی خواہش کرتے وقت ایسے الفاظ استعمال کرنے کی جرأت نہیں کرے گا، کوئی کسی دوسرے کو ایک عظیم اور طاقتور قوم دینے کے اس طرح کے یقین سے نوازنے کی جرات نہیں کرے گا، یا یہ وعدہ نہیں کرے گا کہ زمین کی تمام قومیں اس میں برکت پائیں گی۔ خُدا کے الفاظ جتنے زیادہ یقینی ہیں، اُتنا ہی زیادہ وہ کسی چیز کو ثابت کرتے ہیں – اور وہ چیز کیا ہے؟ وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ خدا کے پاس ایسا اختیار ہے، کہ اس کا اختیار ان چیزوں کو پورا کر سکتا ہے، اور یہ کہ ان کی تکمیل ناگزیر ہے۔ خدا کو اپنے دل میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے یقین تھا، ان تمام چیزوں کے بارے میں جو اس نے ابراہام کو عطا کی تھیں۔ مزید برآں، اس کی تکمیل اس کے کلام کے مطابق ہو گی، اور کوئی طاقت اس کی تکمیل میں تبدیلی نہیں کر سکے گی اور رکاوٹ، خرابی، یا خلل نہیں ڈال سکے گی۔ اس سے قطع نظر کہ اور کیا ہوا، کوئی بھی چیز خدا کے کلام کی تکمیل کو منسوخ یا متاثر نہیں کر سکتی۔ یہ خالق کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کی طاقت ہے، اور خالق کا اختیار ہے جو انسان کے انکار کو برداشت نہیں کرتا! ان الفاظ کو پڑھنے کے بعد، کیا تجھے اب بھی شک محسوس ہوتا ہے؟ یہ کلام خُدا کے مُنہ سے کہا گیا تھا اور خُدا کے کلام میں قدرت، عظمت اور اختیار ہے۔ اس طرح کی طاقت اور اختیار، اور حقیقت کو پورا کرنے کی ناگزیریت، کسی بھی تخلیق شدہ یا غیر تخلیق شدہ وجود کے لیے ناقابلِ حصول ہے، اور کسی تخلیق شدہ یا غیر تخلیق شدہ وجود کے لیے ناقابل تسخیر ہے۔ ایسے لہجے اور لحن میں صرف خالق ہی بنی نوع انسان سے بات کر سکتا ہے اور حقائق نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس کے وعدے کھوکھلے الفاظ یا بے کار شیخیاں نہیں ہیں، بلکہ وہ منفرد اختیار کا اظہار ہیں جو کسی بھی شخص، واقعہ یا چیز کے لیے ناقابل تسخیر ہے۔

خدا کے کہے ہوئے کلام اور انسان کے کہے ہوئے الفاظ میں کیا فرق ہے؟ جب تو خدا کی طرف سے کہے گئے اس کلام کو پڑھتا ہے تو تجھے خدا کے کلام کی طاقت اور خدا کے اختیار کا احساس ہوتا ہے۔ جب تو لوگوں کو ایسے الفاظ کہتے ہوئے سنتا ہے تو تجھے کیسا لگتا ہے؟ کیا تجھے لگتا ہے کہ وہ انتہائی مغرور اور شیخی باز لوگ ہیں، ایسے لوگ جو اپنی خودنمائی کر رہے ہیں؟ کیونکہ ان کے پاس یہ قدرت نہیں ہے، وہ ایسے اختیار کے حامل نہیں ہیں، اور اسی لیے وہ ایسی چیزوں کو حاصل کرنے سے بالکل عاجز ہیں۔ انہیں اپنے وعدوں پر جو اتنا یقین ہے تو اس سے صرف ان کی باتوں کی لاپرواہی ظاہر ہوتی ہے۔ اگر کوئی ایسے الفاظ کہتا ہے، تو وہ بلاشبہ مغرور اور حد سے زیادہ اعتماد کا شکار ہو گا، اور وہ بڑے فرشتے کے مزاج کی بہترین مثال کے طور پر اپنے آپ کو ظاہر کر رہا ہو گا۔ یہ کلام خدا کے منہ سے نکلا؛ کیا تجھے اس میں تکبر کا کوئی عنصر محسوس ہوتا ہے؟ کیا تجھے لگتا ہے کہ خدا کا کلام محض ایک مذاق ہے؟ خدا کا کلام اختیار ہے، خدا کا کلام حقیقت ہے، اور اس سے پہلے کہ اس کے منہ سے کلام نکلے، جس کا مطلب ہے کہ جب وہ کسی کام کا فیصلہ کر رہا ہوتا ہے، تو وہ چیز پہلے ہی پوری ہو چکی ہوتی ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو کچھ خدا نے ابراہام سے کہا وہ ایک عہد تھا جو خدا نے ابراہام کے ساتھ قائم کیا تھا، اور خدا کی طرف سے ابراہام سے کیا گیا ایک وعدہ تھا۔ یہ وعدہ ایک قائم شدہ حقیقت کے ساتھ ساتھ ایک پوری کی گئی حقیقت بھی تھی، اور یہ حقیقتیں آہستہ آہستہ خدا کے منصوبے کے مطابق خدا کے خیالات میں پوری ہوئیں۔ پس خدا کے لیے ایسے الفاظ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ متکبرانہ مزاج رکھتا ہے، کیونکہ خدا ایسی چیزوں کو حاصل کرنے پر قادر ہے۔ اس کے پاس یہ قدرت اور اختیار ہے، اور وہ ان کاموں کو حاصل کرنے پر پوری طرح قادر ہے، اور ان کو پورا کرنا مکمل طور پر اس کی صلاحیت کے دائرے میں ہے۔ جب اس قسم کا کلام خدا کے منہ سے نکلتا ہے تو وہ خدا کے حقیقی مزاج کا انکشاف اور اظہار ہوتا ہے، خدا کے جوہر اور اختیار کا ایک کامل انکشاف اور مظہر ہوتا ہے، اور خالق کی شناخت کے ثبوت کے طور پر اس سے زیادہ مناسب اور موزوں کوئی چیز نہیں ہے۔ اس طرح کے کلام کا انداز، لہجہ اور الفاظ خالق کی شناخت کا عین نشان ہیں، اور خدا کی اپنی شناخت کے اظہار سے بالکل مطابقت رکھتے ہیں؛ ان میں کوئی بناوٹی پن، کوئی نجاست نہیں ہے؛ وہ مکمل طور پر اور قطعی طور پر، خالق کے جوہر اور اختیار کا بہترین مظہر ہیں۔ جہاں تک مخلوقات کا تعلق ہے تو ان کے پاس نہ تو یہ اختیار ہے اور نہ ہی یہ جوہر، ان کے پاس خدا کی عطا کردہ طاقت ہونے کا امکان تو اور بھی کم ہے۔ اگر انسان اس طرز عمل کو ظاہر کرتا ہے تو یقیناً یہ اس کے بدعنوان مزاج کا انفجار ہو گا اور اس کی جڑ میں انسان کے غرور اور وحشیانہ عزائم کا اثر ہو گا اور صرف شیطان ہی کے مذموم عزائم کا اظہار ہو گا۔ شیطان، جو لوگوں کو دھوکہ دینا چاہتا ہے اور انہیں خدا سے غداری کرنے پر اکساتا ہے۔ ایسی زبان سے جو ظاہر ہوتا ہے خدا اسے کیسے دیکھتا ہے؟ خدا کہے گا کہ تو اس کی جگہ چھیننا چاہتا ہے اور یہ کہ تو اس کی نقالی کرنا اور اس کی جگہ لینا چاہتا ہے۔ جب تو خدا کے کلام کے لہجے کی نقالی کرتا ہے، تو تیرا مقصد لوگوں کے دلوں میں خدا کی جگہ کو لینا، بنی نوع انسان سے وہ غصب کرنا ہے جو خدا کا جائز حق ہے۔ یہ شیطان ہے، خالص اور سادہ؛ یہ بڑے فرشتے کی اولاد کے اعمال ہیں، آسمان کے لیے ناقابل برداشت! کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے لوگوں کو گمراہ کرنے اور دھوکہ دینے کی نیت سے کبھی چند الفاظ بول کر کسی خاص طریقے سے خدا کی نقالی کی ہو اور انہیں ایسا محسوس کروایا ہو کہ جیسے اس شخص کے قول و فعل میں خدا کا اختیار اور طاقت ہے، جیسے اس شخص کا جوہر اور شناخت منفرد ہے، اور یہاں تک کہ جیسے اس شخص کے الفاظ کا لہجہ بھی خدا سے ملتا جلتا ہے؟ کیا تم نے کبھی ایسا کچھ کیا ہے؟ کیا تم نے کبھی اپنی تقریر میں خُدا کے لہجے کی نقالی کی ہے، اِن اشاروں کے ساتھ جو بظاہر خُدا کے مزاج کی نمائندگی کرتے ہیں، جن کو تم طاقت اور اختیار سمجھتے ہو؟ کیا تم میں سے زیادہ تر اکثر اسی طرح سے کام کرتے ہیں، یا عمل کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں؟ اب، جب تم واقعی خالق کے اختیار کو دیکھتے، محسوس کرتے اور جانتے ہو، اور تم جو کچھ کیا کرتے تھے، اور جو تم اپنے بارے میں ظاہر کرتے تھے، اس پر پیچھے مڑ کر دیکھتے ہو، تو کیا تم کراہت محسوس کرتے ہو؟ کیا تم اپنی کمینگی اور بے شرمی کو پہچانتے ہو؟ کیا ایسے لوگوں کے مزاج اور جوہر کو کھل کر عیاں کرنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ جہنم کے ملعون لوگ ہیں؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو بھی ایسا کام کرتا ہے وہ اپنے اوپر ذلت لا رہا ہے؟ کیا تم اس کی فطرت کی سنگینی کو پہچانتے ہو؟ آخر یہ کتنا سنگین ہے؟ جو لوگ اس طرح کام کرتے ہیں ان کی نیت خدا کی نقالی کرنا ہے۔ وہ خدا بننا چاہتے ہیں، لوگوں سے اپنی پرستش خدا کے طور پر کروانا چاہتے ہیں۔ وہ لوگوں کے دلوں میں خدا کے مقام کو ختم کرنا چاہتے ہیں، اور اس خدا سے جان چھڑانا چاہتے ہیں جو انسانوں کے درمیان کام کرتا ہے، اور وہ یہ کام لوگوں پر قابو پانے کے مقصد کے حصول کے لیے کرتے ہیں، تاکہ لوگوں کو ہڑپ کر لیں اور ان پر قبضہ کر لیں۔ ہر کوئی اس طرح کی لاشعوری خواہشات اور عزائم رکھتا ہے، اور ہر کوئی اس قسم کے بدعنوان شیطانی جوہر میں رہتا ہے، ایک شیطانی فطرت میں، جس میں وہ خدا سے دشمنی رکھتا ہے، خدا سے غداری کرتا ہے، اور خدا بننے کی خواہش کرتا ہے۔ خدا کے اختیار کے موضوع پر میری رفاقت کی پیروی کرتے ہوئے، کیا تم اب بھی خود کو خدا کے طور پر ظاہر کرنے اور خدا کی نقالی کرنے کی خواہش یا آرزو رکھتے ہو؟ کیا تم اب بھی خدا ہونا چاہتے ہو؟ کیا تم اب بھی خدا بننا چاہتے ہو؟ انسان خدا کے اختیار کی نقالی نہیں کر سکتا، اور انسان خدا کی شناخت اور حیثیت کے طور پر خود کو ظاہر نہیں کر سکتا۔ اگرچہ تو اس لہجے کی نقل کرنے کے قابل ہے جس کے ساتھ خدا بولتا ہے، لیکن تو خدا کے جوہر کی نقل نہیں کر سکتا ہے۔ اگرچہ تو خدا کے مقام پر کھڑے ہونے اور خدا کی نقالی کرنے کے قابل ہے، لیکن تو کبھی بھی وہ کام کرنے کے قابل نہیں ہو گا جو خدا کرنا چاہتا ہے، اور تو ہر چیز پر حکمرانی اور حکم دینے کے قابل کبھی نہیں ہو گا۔ خدا کی نظر میں، تو ہمیشہ ایک چھوٹی مخلوق رہے گا، اور اس سے قطع نظر کہ تیرے ہنر اور قابلیت کتنی ہی عظیم کیوں نہ ہو، اس سے قطع نظر کہ تیرے پاس کتنی ہی صلاحیتیں کیوں نہ ہوں، تو مکمل طور پر خالق کے تسلط کے تحت ہے۔ اگرچہ تو کچھ رعب ڈالنے والے الفاظ کہنے کے قابل ہے، لیکن اس سے نہ تو یہ ظاہر ہو سکتا ہے کہ تیرے پاس خالق کا جوہر ہے اور نہ ہی اس بات کی نمائندگی ہو سکتی ہے کہ تو خالق کے اختیار کا حامل ہے۔ خدا کا اختیار اور قدرت خود خدا کا جوہر ہیں۔ وہ خارجی طور پر سیکھے یا شامل نہیں کیے گئے تھے، بلکہ خود خدا کا جبلی جوہر ہیں۔ اور اس طرح خالق اور مخلوق کے درمیان تعلق کو کبھی تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ مخلوقات میں سے ایک ہونے کے ناطے، انسان کو اپنی حیثیت کو برقرار رکھنا چاہیے، اور دیانت داری سے برتاؤ کرنا چاہیے۔ خالق کی طرف سے جو تجھے سونپا گیا ہے فرض سمجھتے ہوئے اس کی حفاظت کر۔ قانون کی خلاف ورزی نہ کر، یا ایسی چیزیں نہ کر جو تیری قابلیت اور پہنچ سے باہر ہوں یا جو خدا کو ناگوار ہوں۔ عظیم بننے کی، یا فوق البشر بننے کی، یا دوسروں سے بالاتر ہونے کی کوشش نہ کر، اور نہ ہی خدا بننے کی کوشش کر۔ لوگوں کو اس طرح بننے کی خواہش نہیں کرنی چاہیے۔ عظیم یا فوق البشر بننے کی کوشش کرنا غیر معقول ہے۔ خدا بننے کی کوشش اس سے بھی زیادہ ذلت آمیز ہے؛ یہ قابلِ نفرت، اور قابلِ حقارت ہے۔ جو چیز قابل ستائش ہے، اور جس چیز پر مخلوق کو کسی بھی چیز سے زیادہ قائم رہنا چاہیے، وہ ایک حقیقی مخلوق بننا ہے؛ یہی وہ واحد مقصد ہے جس کی جستجو تمام لوگوں کو کرنی چاہیے۔

خالق کا اختیار وقت، جگہ یا جغرافیہ کا پابند نہیں ہے، اور خالق کا اختیار حساب سے بالاتر ہے

آؤ پیدائش 22: 17-18 کو دیکھیں۔ یہ یہوواہ خدا کی طرف سے کہا گیا ایک اور اقتباس ہے، جس میں اُس نے ابراہام سے کہا، "مَیں تُجھے برکت پر برکت دُوں گا اور تیری نسل کو بڑھاتے بڑھاتے آسمان کے تاروں اور سمُندر کے کنارے کی ریت کی مانِند کر دُوں گا اور تیری اَولاد اپنے دُشمنوں کے پھاٹک کی مالِک ہو گی۔ اور تیری نسل کے وسِیلہ سے زمِین کی سب قَومیں برکت پائیں گی کیونکہ تُو نے میری بات مانی۔" یہوواہ خدا نے ابراہام کو کئی بار برکت دی کہ اُس کی اولاد بڑھے گی – لیکن وہ کس حد تک بڑھے گی؟ جس حد تک صحیفے میں کہا گیا ہے: "آسمان کے تاروں اور سمُندر کے کنارے کی ریت کی مانِند۔" اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے ابراہام کو آسمان کے ستاروں کی طرح بے شمار اور سمندر کے کنارے کی ریت کی طرح بہت زیادہ اولاد عطا کرنا چاہی۔ خُدا نے تصویر کشی کا استعمال کرتے ہوئے بات کی، اور اِس منظر کشی سے یہ دیکھنا مشکل نہیں ہے کہ خُدا ابراہام کو محض ایک، دو، یا محض ہزاروں اولادیں عطا نہیں کرے گا، بلکہ ایک بے شمار تعداد عطا کرے گا، اتنی زیادہ کہ وہ قوموں کا ایک جم غفیر بن جائیں گے۔ کیونکہ خدا نے ابراہام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ بہت سی قوموں کا باپ ہو گا۔ اب، کیا یہ تعداد انسان کی طرف سے طے کی گئی تھی، یا یہ خدا کی طرف سے طے کی گئی تھی؟ کیا یہ انسان کے اختیار میں ہے کہ اس کی کتنی اولادیں ہوں؟ کیا اس کا فیصلہ انسان کرتا ہے؟ انسان تو یہ فیصلہ بھی نہیں کر سکتا کہ اس کے پاس متعدد ہوں یا نہیں، "آسمان کے تاروں اور سمُندر کے کنارے کی ریت کی مانِند۔" ہونا تو اور بھی دور کی بات ہے۔ کون نہیں چاہتا کہ اس کی اولاد ستاروں کی طرح بے شمار ہو۔ بدقسمتی سے، چیزیں ہمیشہ تمہاری مرضی کے مطابق نہیں ہوتی ہیں۔ انسان کتنا ہی قابل یا باصلاحیت کیوں نہ ہو، وہ اس کا فیصلہ نہیں کر سکتا ہے: جو خدا کی طرف سے مقرر کر دیا گیا ہے کوئی بھی اس سے باہر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ تاہم وہ تجھے جتنے کی اجازت دیتا ہے، تیرے پاس اتنا ہی ہو گا: اگر خدا تجھے تھوڑا دیتا ہے تو تیرے پاس کبھی زیادہ نہیں ہوگا، اور اگر خدا تجھے زیادہ دیتا ہے، تو پھر تیرے پاس جتنا ہے اس پر رنجیدہ ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کیا یہ ایسا ہی معاملہ نہیں ہے؟ اس سب کا فیصلہ خدا کرتا ہے، انسان نہیں! خدا انسان پر حکومت کرتا ہے، اور کوئی بھی مستثنیٰ نہیں ہے!

جب خدا نے کہا "تیری نسل کو بڑھاؤں گا،" یہ ایک عہد تھا جو خدا نے ابراہام کے ساتھ قائم کیا تھا، اور کمان کے عہد کی طرح، یہ ابد تک پورا ہو گا، اور یہ بھی ایک وعدہ تھا جو خدا نے ابراہام سے کیا تھا۔ صرف خدا ہی اس وعدے کو پورا کرنے کا اہل اور قادر ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ انسان اس پر ایمان رکھتا ہے یا نہیں، اس بات سے قطع نظر کہ انسان اسے قبول کرتا ہے یا نہیں، اور اس بات سے قطع نظر کہ انسان اسے کیسے دیکھتا اور سمجھتا ہے، یہ سب کچھ خدا کے کہے ہوئے کلام کے مطابق حرف بحرف پورا ہو گا۔ خدا کا کلام انسان کی مرضی یا تصورات کے تبدیل ہونے کی وجہ سے تبدیل نہیں ہو گا، اور یہ کسی شخص، واقعہ یا چیز میں تبدیلی کی وجہ سے بھی تبدیل نہیں ہو گا۔ تمام چیزیں غائب ہو سکتی ہیں، لیکن خدا کا کلام ہمیشہ رہے گا۔ درحقیقت جس دن تمام چیزیں غائب ہو جائیں گی وہ عین وہی دن ہو گا جس دن خدا کا کلام مکمل طور پر پورا ہو گا، کیونکہ وہ خالق ہے، وہ خالق کا اختیار رکھتا ہے، خالق کی قدرت رکھتا ہے، اور وہ سب چیزوں اور سب قوتِ حیات کو قابو کرتا ہے؛ وہ کسی بھی چیز کو عدم الوجود سے وجود میں لانے پر قادر ہے، یا کسی چیز کو عدم الوجود کر سکتا ہے، اور وہ تمام چیزوں کی زندگی سے موت میں تبدیلی کو قابو کرتا ہے؛ خدا کے لیے، کسی کی اولاد کو بڑھانے سے زیادہ آسان کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ انسان کو پریوں کی ایک کہانی کی طرح پُر تخیل لگتا ہے، لیکن خدا کے لیے، وہ جو فیصلہ کرتا ہے اور کرنے کا وعدہ کرتا ہے وہ تخیلاتی نہیں ہے، اور نہ ہی یہ کوئی پریوں کی کہانی ہے۔ بلکہ یہ ایک حقیقت ہے جو خدا پہلے ہی دیکھ چکا ہے اور جو ضرور پوری ہو گی۔ کیا تم اس کی تعریف کرتے ہو؟ کیا حقائق یہ ثابت کرتے ہیں کہ ابراہام کی اولاد بے شمار تھی؟ وہ کتنی کثیر تھی؟ کیا وہ اتنی ہی بے شمار تھی جتنی خدا نے کہی تھی کہ "آسمان کے تاروں اور سمُندر کے کنارے کی ریت کی مانِند؟" کیا وہ تمام قوموں اور خطوں میں، دنیا کے ہر مقام پر پھیل گئی؟ یہ حقیقت کس کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچی؟ کیا یہ خدا کے کلام کے اختیار سے پایہ تکمیل تک پہنچی؟ خدا کا کلام کہے جانے کے بعد کئی سینکڑوں یا ہزاروں سال تک، خدا کا کلام پورا ہوتا رہا، اور مسلسل حقائق میں ڈھلتا رہا؛ یہ خدا کے کلام کی طاقت ہے، اور خدا کے اختیار کا ثبوت ہے۔ جب خُدا نے شروع میں تمام چیزوں کو تخلیق کیا تو خُدا نے کہا "روشنی ہونے دو" اور روشنی تھی۔ یہ بہت جلد ہوا، بہت کم وقت میں پورا ہو گیا، اور اس کے پورا ہونے اور مکمل ہونے میں کوئی تاخیر نہیں ہوئی؛ خدا کے کلام کے اثرات فوری تھے۔ دونوں ہی خدا کے اختیار کا مظہر تھے، لیکن جب خدا نے ابراہام کو برکت دی تو اس نے انسان کو خدا کے اختیار کے جوہر کا ایک اور رخ دیکھنے کا موقع دیا، ساتھ ہی یہ حقیقت بھی کہ خالق کا اختیار بے حساب ہے، اور اس کے علاوہ، اس نے انسان کو خالق کے اختیار کا زیادہ حقیقی، زیادہ لطیف پہلو دیکھنے کی اجازت دی۔

ایک بار جب خدا کا کلام کہا جاتا ہے تو خدا کا اختیار اس کام کی کمان سنبھال لیتا ہے اور خدا کے منہ سے وعدہ کی گئی حقیقت آہستہ آہستہ اصل میں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں سب چیزوں میں تبدیلیاں ظاہر ہونے لگتی ہیں، جیسے کہ بہار کی آمد پر گھاس ہری ہو جاتی ہے، پھول کھلتے ہیں، درختوں پر شگوفے کھل اٹھتے ہیں، پرندے گانا شروع کر دیتے ہیں، بطخیں لوٹ آتی ہیں اور کھیت لوگوں سے بھر جاتے ہیں۔۔۔ موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی تمام چیزوں کو نئی توانائی مل جاتی ہے اور یہ خالق کا معجزانہ عمل ہے۔ جب خُدا اپنے وعدوں کو پورا کرتا ہے، تو خُدا کے خیالات کے مطابق آسمان اور زمین کی تمام چیزوں کی تجدید ہوتی ہے اور وہ بدل جاتی ہیں – کوئی بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔ خدا کے منہ سے جب کوئی عزم یا وعدہ نکلتا ہے، تو تمام چیزیں اس کی تکمیل میں لگ جاتی ہیں، اور اس کی تکمیل کی خاطر عمل میں استعمال ہوتی ہیں؛ تمام مخلوقات کو خالق کی حاکمیت میں ترتیب دیا گیا ہے، وہ اپنا متعلقہ کردار ادا کر رہی ہیں، اور اپنا متعلقہ کام انجام دے رہی ہیں۔ یہ خالق کے اختیار کا مظہر ہے۔ تُو اس میں کیا دیکھتا ہے؟ تُو خدا کے اختیار کو کیسے جانتا ہے؟ کیا خدا کے اختیار کی کوئی حد ہے؟ کیا وقت کی کوئی حد ہے؟ کیا اسے ایک خاص اونچائی، یا ایک خاص لمبائی کہا جا سکتا ہے؟ کیا اسے ایک خاص جسامت یا طاقت کہا جا سکتا ہے؟ کیا اسے انسان کے طول و عرض سے ناپا جا سکتا ہے؟ خدا کا اختیار نہ تو ٹمٹماتا ہے اور نہ ہی آتا اور جاتا ہے، اور کوئی بھی نہیں ہے جو یہ اندازہ لگا سکے کہ اس کا اختیار آخر کتنا عظیم ہے۔ اس سے قطع نظر کہ وقت کتنا ہی کیوں نہ گزر جائے، جب خدا کسی شخص کو برکت عطا کرتا ہے، تو یہ برکت جاری رہے گی، اور اس کا تسلسل خدا کے ناقابلِ پیمائش اختیار کی گواہی دے گا، اور بنی نوع انسان کو خالق کی کبھی ختم نہ ہونے والی قوتِ حیات کا ظہور بار بار دیکھنے کا موقع فراہم کرے گا۔ اُس کے اختیار کا ہر مظاہرہ اُس کے منہ سے نکلے کلام کا کامل مظہر ہے، جو سب چیزوں اور بنی نوع انسان پر ظاہر ہوتا ہے۔ مزید برآں، اُس کے اختیار سے حاصل ہونے والی ہر چیز اتنی لطیف ہے کہ اس کا موازنہ کسی سے نہیں کیا جا سکتا، اور بالکل بے عیب ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کے خیالات، اس کا کلام، اس کا اختیار، اور تمام کام جو وہ انجام دیتا ہے، سب ایک بے مثال خوبصورت تصویر ہے، اور مخلوقات کے لیے بنی نوع انسان کی زبان اس کی اہمیت اور قدر کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔ جب خدا کسی شخص سے کوئی وعدہ کرتا ہے تو خدا اس کے بارے میں ہر چیز سے اپنے ہاتھ کی پشت کی طرح واقف ہوتا ہے، چاہے وہ جہاں بھی رہے، یا جو بھی کرے، وعدہ ملنے سے پہلے یا بعد میں اس کا جو بھی پس منظر ہو، یا اس کی زندگی کے ماحول میں کتنے ہی زیادہ ہنگامے رہے ہوں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ خدا کا کلام کہے جانے کے بعد کتنا ہی وقت کیوں نہ گزر گیا ہو، اس کے لیے یہ ایسا ہی ہے جیسے وہ ابھی ابھی کہا گیا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے پاس قدرت ہے، اور اس کے پاس ایسا اختیار ہے کہ وہ بنی نوع انسان سے کیے گئے اپنے ہر وعدے سے باخبر رہ سکتا ہے، قابو کر سکتا ہے اور اسے پورا کر سکتا ہے، اور اس سے قطع نظر کہ وعدہ کیا ہے، چاہے اسے مکمل طور پر پورا ہونے میں کتنا ہی وقت لگے اور، اس کے علاوہ، اس بات سے قطع نظر کہ اس کی تکمیل کا دائرہ کتنا ہی وسیع ہو – مثلاً، وقت، جغرافیہ، نسل، وغیرہ – یہ وعدہ پورا اور مکمل کیا جائے گا، اور مزید، اس کی تکمیل اور پورا ہونے کے لیے اسے معمولی سی بھی کوشش کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خدا کے اختیار اور قدرت کی وسعت پوری کائنات اور پوری نوع انسانی کو قابو کرنے کے لیے کافی ہے۔ خدا نے روشنی بنائی، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا صرف روشنی ہی کا انتظام کرتا ہے، یا یہ کہ چونکہ اس نے پانی پیدا کیا ہے اس لیے وہ صرف پانی کا انتظام کرتا ہے، اور یہ کہ باقی ہر چیز کا خدا سے تعلق نہیں ہے۔ کیا یہ ایک غلط فہمی نہیں ہو گی؟ اگرچہ کئی سو سال کے بعد ابراہام پر خدا کی برکت انسان کی یادداشت سے رفتہ رفتہ مٹ گئی تھی، لیکن خدا کے لیے یہ وعدہ پھر بھی اسی طرح رہا برقرار رہا۔ یہ پھر بھی تکمیل کے عمل میں تھا، اور کبھی نہیں رکا تھا۔ انسان نے کبھی نہیں جانا یا سنا کہ خدا نے اپنے اختیار کو کس طرح استعمال کیا، کس طرح تمام چیزوں کو ترتیب دی گئی اور کس طرح ان کا انتظام کیا گیا، اور اس عرصے کے دوران خدا کی تخلیق کی تمام چیزوں کے درمیان کتنی ہی حیرت انگیز کہانیاں رونما ہوئیں، لیکن خدا کے اختیار کے مظاہرے کے ہر حیرت انگیز حصے اور اس کے اعمال کے ظہور کو آگے بڑھایا گیا اور ہر چیز سے بلند کیا گیا، سب چیزیں ظاہر ہوئیں اور انھوں نے خالق کے معجزاتی کاموں کو بیان کیا، اور سب چیزیں خالق کی ہر چیز پر حاکمیت کے بارے میں بہت مرتبہ دہرائی گئی ہر ایک کہانی کا پہلے سے بڑھ کر اعلان کریں گی۔ وہ اختیار جس سے خدا ہر چیز پر حکمرانی کرتا ہے، اور خدا کی قدرت، تمام چیزوں پر یہ ظاہر کرتی ہے کہ خدا ہر جگہ اور ہر وقت موجود ہے۔ جب تو خدا کے اختیار اور قدرت کے ہر جگہ موجود ہونے کا مشاہدہ کرے گا تو تُو یہ دیکھے گا کہ خدا ہر جگہ اور ہر وقت موجود ہے۔ خدا کا اختیار اور قدرت وقت، جغرافیہ، جگہ، یا کسی بھی شخص، واقعہ یا چیز کی پابندیوں سے بالاتر ہے۔ خدا کے اختیار اور طاقت کی وسعت انسان کے تصور سے بہت زیادہ ہے؛ یہ انسان کے لیے ناقابل ادراک ہے، انسان کے لیے ناقابل تصور ہے، اور انسان اسے کبھی بھی مکمل طور پر نہیں جان سکے گا۔

کچھ لوگ قیاس کرنا اور تصور کرنا پسند کرتے ہیں، لیکن انسان کا تخیل کہاں تک پہنچ سکتا ہے؟ کیا یہ اس دنیا سے آگے جا سکتا ہے؟ کیا انسان خدا کے اختیار کی صداقت اور درستی کا قیاس کرنے اور اس کا تصور کرنے کے قابل ہے؟ کیا انسان کی قیاس آرائی اور تخیل اس قابل ہیں کہ ان سے خدا کے اختیار کا علم حاصل کر سکے؟ کیا ان سے انسان حقیقی معنوں میں خدا کے اختیار کی قدر کر سکتا ہے اور اس کی اطاعت کر سکتا ہے؟ حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی قیاس آرائی اور تخیل انسان کی عقل کی پیداوار ہیں، اور خدا کے اختیار کے بارے میں انسان کے علم میں معمولی سی بھی مدد یا فائدہ فراہم نہیں کرتے۔ مستقبل کی سائنسی ترقی کی مفروضہ کہانیاں پڑھنے کے بعد، کچھ لوگ تصور کر سکتے ہیں کہ چاند، یا ستارے کیسے ہوتے ہیں۔ پھر بھی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان کو خدا کے اختیار کی کوئی سمجھ بوجھ بھی ہے۔ انسان کا تخیل صرف یہ ہے: تخیل۔ ان چیزوں کے حقائق میں سے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے خدا کے اختیار سے تعلق کے بارے میں، انسان کو بالکل بھی کوئی فہم نہیں ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ چاہے تُو چاند پر بھی جا چکا ہو؟ کیا یہ ظاہر کرتا ہے کہ تجھے خدا کے اختیار کی کثیرالجہتی سمجھ بوجھ ہے؟ کیا یہ ظاہر کرتا ہے کہ تو خدا کے اختیار اور قدرت کی وسعت کا تصور کرنے کے قابل ہے؟ چونکہ انسان کا قیاس آرائی اور تخیل اس قابل نہیں ہں کہ وہ اسے خدا کے اختیار کے بارے میں علم دے سکیں، تو پھر انسان کو کیا کرنا چاہیے؟ سب سے زیادہ دانشمندانہ انتخاب یہ ہو گا کہ قیاس آرائی نہ کی جائے یا تصور نہ کیا جائے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جب خدا کے اختیار کو جاننے کی بات آتی ہے تو انسان کو کبھی بھی تخیل پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے اور قیاس آرائی پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ میں یہاں تم سے کیا کہنا چاہتا ہوں؟ خدا کے اختیار، خدا کی قدرت، خدا کی اپنی شناخت اور خدا کے جوہر کا علم تیرے تخیل پر بھروسا کر کے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ چونکہ تو خدا کے اختیار کو جاننے کے لیے تخیل پر بھروسا نہیں کر سکتا، تو پھر تو کس طریقے سے خدا کے اختیار کا صحیح علم حاصل کر سکتا ہے؟ ایسا کرنے کا طریقہ خدا کے کلام کو کھانا اور پینا ہے، رفاقت کرنا ہے اور خدا کے کلام کا عملی تجربہ کرنا ہے۔ اس طرح، تجھے خدا کے اختیار کا بتدریج تجربہ اور تصدیق حاصل ہو گی اور تو اس کی بتدریج سمجھ بوجھ اور بڑھتا ہوا علم حاصل کر لے گا۔ خدا کے اختیار کا علم حاصل کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے؛ کوئی مختصر راستے نہیں ہیں۔ تم سے تصور نہ کرنے کا کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمہیں غیر فعال طور پر بٹھا کر تباہی کا انتظار کروانا ہے، یا تمہیں کچھ کرنے سے روکنا ہے۔ اپنے دماغ کو سوچنے اور تصور کرنے کے لیے استعمال نہ کرنے کا مطلب ہے کہ قیاس آرائی کے لیے منطق کا استعمال نہ کرنا، تجزیہ کرنے کے لیے علم کا استعمال نہ کرنا، سائنس کو بنیاد کے طور پر استعمال نہ کرنا، بلکہ اس کی بجائے اس کی تعریف کرنا، توثیق کرنا، اور تصدیق کرنا ہے کہ جس خدا پر تو یقین رکھتا ہے وہ بااختیار ہے، اس بات کی تصدیق کرنا ہے کہ وہ تیری تقدیر پر حاکمیت رکھتا ہے، اور یہ کہ اس کی قدرت خدا کے کلام کے ذریعے، سچائی کے ذریعے، اور ہر اس چیز کے ذریعے جس کا تو زندگی میں سامنا کرتا ہے، ہر وقت یہ ثابت کرتی ہے کہ وہی سچا خدا خود ہے۔ یہی وہ واحد طریقہ ہے جس سے کوئی بھی شخص خدا کی سمجھ بوجھ حاصل کر سکتا ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ وہ اس مقصد کو حاصل کرنے کا کوئی آسان طریقہ تلاش کرنا چاہتے ہیں، لیکن کیا تم ایسا کوئی طریقہ سوچ سکتے ہو؟ میں تم سے کہتا ہوں کہ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے: اس کے علاوہ کوئی اور طریقے نہیں ہیں! واحد طریقہ یہی ہے کہ دیانت داری اور ثابت قدمی کے ساتھ ہر اس لفظ کے ذریعے جو وہ بیان کرتا ہے اور ہر اس چیز کے ذریعے جو وہ کرتا ہے، اس کو جانو اور اس بات کی تصدیق کرو کہ خدا کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے۔ خدا کو جاننے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ کیونکہ جو کچھ خدا کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، اور خدا کی ہر چیز، کھوکھلی اور خالی نہیں بلکہ حقیقی ہے۔

تمام چیزوں اور جانداروں کے خالق کے قابو میں اور زیرِ تسلط ہونے کی حقیقت خالق کے اختیار کے حقیقی وجود کو بیان کرتی ہے

اسی طرح، ایوب پر یہوواہ کی برکت ایوب کی کتاب میں درج ہے۔ خدا نے ایوب کو کیا عطا کیا؟ "یُوں خُداوند نے ایُّوب کے آخِری ایّام میں اِبتدا کی نِسبت زِیادہ برکت بخشی اور اُس کے پاس چَودہ ہزار بھیڑ بکرِیاں اور چھ ہزار اُونٹ اور ہزار جوڑی بَیل اور ہزار گدھیاں ہو گئِیں" (ایُّوب 42: 12)۔ انسان کے نقطہ نظر سے، وہ کیا چیزیں تھیں جو ایوب کو دی گئی تھیں؟ کیا وہ بنی نوع انسان کا اثاثہ تھے؟ ان اثاثوں کے ساتھ، کیا ایوب اس عہد کے دوران بہت زیادہ دولت مند نہیں تھا؟ پھر، اس نے اتنے اثاثے کیسے حاصل کیے؟ اس کی دولت کی وجہ کیا تھی؟ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے – یہ خدا کی برکت کی وجہ سے تھا کہ ایوب کو یہ اثاثے ملے۔ ایوب نے ان اثاثوں کو کس طرح دیکھا، اور اس نے خدا کی نعمتوں کو کس انداز میں سمجھا، یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ جس پر ہم یہاں بحث کریں گے۔ جب خدا کی برکتوں کی بات آتی ہے تو تمام لوگ دن رات خدا کی برکتوں کے حصول کے لیے تڑپتے ہیں، پھر بھی انسان کا اس بات پر کوئی اختیار نہیں کہ وہ اپنی زندگی میں کتنے اثاثے حاصل کر سکتا ہے، یا وہ خدا کی طرف سے برکتیں حاصل کر بھی سکتا ہے یا نہیں – یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے! خدا کے پاس اختیار ہے، اور یہ قدرت ہے کہ وہ انسان کو کوئی بھی اثاثے عطا کرے، انسان کو کوئی نعمت حاصل کرنے کی اجازت دے، اور اس کے باوجود خدا کی برکتوں کا ایک اصول ہے۔ خدا کس قسم کے لوگوں کو برکت عطا کرتا ہے؟ بے شک، وہ ان لوگوں کو برکت عطا کرتا ہے جنھیں وہ پسند کرتا ہے! ابراہام اور ایوب دونوں کو خدا کی طرف سے برکت عطا کی گئی تھی، پھر بھی جو برکتیں انہیں ملی تھیں وہ ایک جیسی نہیں تھیں۔ خدا نے ابراہام کو ریت اور ستاروں کی طرح بے شمار اولاد سے نوازا۔ جب خدا نے ابراہام کو برکت عطا کی، تو اس نے ایک انسان کی اولاد کو اور ایک قوم کو طاقتور اور خوشحال بنایا۔ اس میں، خدا کے اختیار نے بنی نوع انسان پر حکومت کی، جس نے تمام چیزوں اور جانداروں کے درمیان خدا کے سانس سے سانس لی۔ خدا کے اختیار کی حاکمیت کے تحت، یہ نوع انسانی خدا کی طرف سے طے شدہ رفتار سے، اور خدا کے مقرر کردہ دائرہ کار میں پھیلی اور قائم رہی۔ خاص طور پر، اس قوم کے پنپنے کی صلاحیت، توسیع کی شرح، اور متوقع عمر یہ سب خدا کے انتظامات کا حصہ تھے، اور ان سب کا اصول مکمل طور پر اس وعدے پر مبنی تھا جو خدا نے ابراہام سے کیا تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں، خدا کے وعدے کسی رکاوٹ کے بغیر آگے بڑھیں گے اور خدا کے اختیار کی نگرانی میں پورے کیے جائیں گے۔ اس وعدے میں جو خدا نے ابراہام سے کیا تھا، دنیا کے ہنگاموں سے قطع نظر، زمانے سے قطع نظر، بنی نوع انسان کے تباہیوں کو برداشت کرنے سے قطع نظر، ابراہام کی اولاد کو فنا ہونے کا خطرہ نہیں ہو گا، اور ان کی قوم ختم نہیں ہو گی۔ تاہم، ایوب پر خُدا کی برکت نے اُسے بے حد دولت مند بنا دیا۔ خدا نے اسے جو کچھ دیا وہ زندہ، سانس لینے والی مخلوقات کا ایک جمگھٹ تھا، جن کی تفصیلات – جن کی تعداد، جن کے پھیلاؤ کی رفتار، زندہ رہنے کی شرح، ان کے جسم میں چربی کی مقدار وغیرہ – بھی خدا کے اختیار میں تھے۔ اگرچہ یہ جاندار بولنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے، لیکن وہ بھی خالق کے انتظامات کا حصہ تھے، اور ان کے لیے خدا کے انتظامات کے پیچھے اصول ان برکتوں کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا جن کا خدا نے ایوب سے وعدہ کیا تھا۔ خدا نے ابراہام اور ایوب کو جو برکتیں عطا کیں، ان میں جس کا وعدہ کیا گیا تھا اگرچہ وہ مختلف تھا، لیکن وہ اختیار جس کے ساتھ خالق نے تمام چیزوں اور جانداروں پر حکمرانی کی وہ یکساں ہی تھا۔ خدا کے اختیار اور قدرت کی ہر تفصیل ابراہام اور ایوب کے ساتھ اس کے مختلف وعدوں اور برکتوں میں ظاہر ہوتی ہے، اور بنی نوع انسان کو ایک مرتبہ پھر یہ دکھاتی ہے کہ خدا کا اختیار انسان کے تصور سے بہت آگے ہے۔ یہ تفصیلات ایک بار پھر بنی نوع انسان کو بتاتی ہیں کہ اگر وہ خدا کے اختیار کو جاننا چاہتا ہے، تو یہ صرف خدا کے کلام اور خدا کے کام کا عملی تجربہ کرنے کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

سب چیزوں پر خدا کی حاکمیت کا اختیار انسان کو ایک حقیقت کو دیکھنے کا موقع دیتا ہے: خدا کا اختیار صرف ان الفاظ میں ہی ظاہر نہیں ہوتا ہے "اور خدا نے کہا، روشنی ہونے دو، اور روشنی تھی، اور، آسمان ہونے دو، اور آسمان تھا، اور، زمین ہونے دو، اور زمین تھی،" بلکہ، اس کے علاوہ، اس کا اختیار اس شکل میں بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح اس نے روشنی کو جاری رکھا، آسمان کو غائب ہونے سے روکا، اور زمین کو ہمیشہ کے لیے پانی سے الگ رکھا، نیز اس کی تفصیلات میں کہ اس نے اپنی تخلیق کردہ چیزوں پر کس طرح حکمرانی کی اور کس طرح ان کا انتظام کیا: روشنی، آسمان اور زمین۔ تم بنی نوع انسان پر خدا کی برکت میں اور کیا دیکھتے ہو؟ واضح طور پر، ابراہام اور ایوب کو برکت دینے کے بعد، خدا کے قدم رکے نہیں، کیونکہ اس نے ابھی اپنے اختیار کو بروئے کار لانا شروع ہی کیا تھا، اور اس کا ارادہ تھا کہ وہ اپنے ہر ایک لفظ کو حقیقت بنا دے، اور اس نے جو تفصیل بتائی ہے اس میں سے ہر ایک کو سچا ثابت کر دے، اور اس طرح، آنے والے سالوں میں، اس نے ہر وہ کام جاری رکھا جس کا اس نے ارادہ کیا تھا۔ چونکہ خدا کے پاس اختیار ہے، اس لیے شاید انسان کو یہ لگتا ہے کہ خدا کو صرف بولنے کی ضرورت ہے، اور ایک انگلی بھی اٹھائے بغیر، تمام معاملات اور کام پورے ہو جاتے ہیں۔ اس طرح کے تصورات کافی مضحکہ خیز ہیں! اگر تو کلام کا استعمال کرتے ہوئے انسان کے ساتھ خدا کے عہد کے قیام کے بارے میں، اور کلام کا استعمال کرتے ہوئے خدا کی ہر چیز کی تکمیل کے بارے میں صرف یک طرفہ نظریہ رکھتا ہے، اور تو ان مختلف نشانیوں اور حقائق کو دیکھنے سے قاصر ہے کہ خدا کا اختیار تمام چیزوں کے وجود پر غالب ہے، تو پھر خدا کے اختیار کے بارے میں تیری سمجھ بوجھ کتنی کھوکھلی اور مضحکہ خیز ہے! اگر انسان خدا کو ایسا تصور کرتا ہے تو پھر یہ کہنا ضروری ہے کہ خدا کے بارے میں انسان کے علم کو بالکل آخری دفاعی حد تک پہنچا دیا گیا ہے، اور ایک بند گلی میں پہنچ چکا ہے، کیونکہ جس خدا کا انسان تصور کرتا ہے وہ صرف ایک مشین ہے جو حکم دیتی ہے، اور ایسا خدا نہیں ہے جس کے پاس اختیار ہے۔ تو نے ابراہام اور ایوب کی مثالوں میں کیا دیکھا ہے؟ کیا تو نے خدا کے اختیار اور قدرت کا حقیقی پہلو دیکھا ہے؟ ابراہام اور ایوب کو برکت دینے کے بعد، خُدا جہاں تھا وہیں پر نہیں ٹھہرا رہا، اور نہ ہی اُس نے اپنے رسولوں کو کام پر لگایا یہ انتظار کرتے ہوئے کہ نتیجہ کیا نکلے گا۔ اس کے برعکس، جیسے ہی خدا نے اپنا کلام کہا، خدا کے اختیار کی راہنمائی میں، تمام چیزوں نے اس کام کی پابندی کرنا شروع کر دی جو خدا کرنا چاہتا تھا، اور وہ لوگ، چیزیں اور مادی اشیا تیار ہو گئیں جن کی خدا کو ضرورت تھی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے ہی خدا کے منہ سے یہ کلام نکلا، خدا کا اختیار پوری زمین میں بروئے کار آنا شروع ہو گیا، اور اس نے ابراہام اور ایوب سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے اور حاصل کرنے کے لیے ایک راستہ طے کر دیا، جبکہ جو اس نے کرنا تھا اس کے ہر قدم اور ہر کلیدی مرحلے کے لیے جس چیز کی ضرورت تھی اس کے لیے بھی تمام مناسب منصوبہ بندی اور تیاریاں کیں۔ اس مدت کے دوران، خدا نے نہ صرف اپنے پیغمبروں کو استعمال کیا بلکہ ان تمام چیزوں کو بھی استعمال کیا جو اس نے تخلیق کی تھیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس دائرہ کار کے اندر خدا کے اختیار کو بروئے کار لایا گیا تھا، اس میں نہ صرف رسول شامل تھے، بلکہ، تخلیق کی تمام چیزیں بھی شامل تھیں، جو اس کام کی تعمیل کے لیے استعمال کی گئی تھیں جو اس نے انجام دینے کا ارادہ کیا تھا؛ یہ وہ مخصوص انداز تھے جن میں خدا کا اختیار بروئے کار لایا گیا تھا۔ تمہارے تصورات میں، خدا کے اختیار کے بارے میں کچھ لوگوں کی سمجھ بوجھ درج ذیل ہو سکتی ہے: خدا بااختیار ہے، اور خدا قدرت رکھتا ہے، اور اس لیے خدا کو صرف تیسرے آسمان یا کسی مقررہ جگہ پر ہی رہنے کی ضرورت ہے، اور کوئی خاص کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور خُدا کا تمام کام اُس کے خیالات میں ہی مکمل ہو جاتا ہے۔ کچھ لوگ یہ بھی یقین کر سکتے ہیں کہ، اگرچہ خدا نے ابراہام کو برکت دی تھی، لیکن خدا کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں تھی، اور اس کے لیے صرف اتنا ہی کافی تھا کہ وہ اپنا کلام کہہ دے۔ کیا واقعی ایسا ہی ہوا؟ واضح طور پر نہیں! اگرچہ خدا اختیار اور قدرت کا مالک ہے، لیکن اس کا اختیار سچا اور حقیقی ہے، کھوکھلا نہیں ہے۔ خدا کے اختیار اور قدرت کی صداقت اور حقیقت رفتہ رفتہ ظاہر ہوتی ہے اور اس کی تمام چیزوں کی تخلیق میں، ہر چیز پر اس کا اختیار ہونے میں، اور اس عمل میں جس کے ذریعے وہ بنی نوع انسان کی راہنمائی اور انتظام کرتا ہے، میں ظاہر ہوتی ہے۔ ہر طریقہ، ہر نقطہ نظر، اور بنی نوع انسان اور تمام چیزوں پر خدا کی حاکمیت کی ہر تفصیل، اور تمام کام جو اس نے مکمل کیے ہیں، نیز ہر چیز کے بارے میں اس کی سمجھ بوجھ - یہ سب لفظی طور پر ثابت کرتے ہیں کہ خدا کا اختیار اور قدرت خالی کلام نہیں ہے۔ اُس کا اختیار اور قدرت مسلسل اور ہر چیز میں ظاہر اور عیاں ہوتی ہے۔ یہ مظاہر اور انکشافات خدا کے اختیار کے حقیقی وجود کی بات کرتے ہیں، کیونکہ وہ اپنے کام کو جاری رکھنے، اور سب چیزوں کو حکم دینے کے لیے، اور ہر لمحہ ہر چیز پر حکومت کرنے کے لیے اپنے اختیار اور قدرت کا استعمال کر رہا ہے؛ اس کی قدرت اور اختیار کی جگہ نہ تو فرشتے لے سکتے ہیں اور نہ ہی خدا کے رسول۔ خدا نے فیصلہ کیا کہ وہ ابراہام اور ایوب کو کون سی برکات عطا کرے گا – یہ فیصلہ خدا نے کرنا تھا۔ اگرچہ خدا کے رسول ذاتی طور پر ابراہام اور ایوب کے پاس گئے تھے، لیکن ان کے اعمال خدا کے احکام پر مبنی تھے، اور ان کے اعمال خدا کے اختیار کے تحت کیے گئے تھے اور اسی طرح، رسول خدا کی حاکمیت کے تحت تھے۔ اگرچہ انجیل کے اندراج میں انسان خدا کے رسولوں کو ابراہام سے ملاقات کرتے دیکھتا ہے، اور یہوواہ خدا کو ذاتی طور پر کچھ کرتے ہوئے نہیں دیکھتا، لیکن درحقیقت، صرف وہ واحد ذات جو حقیقی معنوں میں قدرت اور اختیار کا استعمال کرتی ہے، وہ خود خدا ہے، اور اس میں کسی انسان کے شک کرنے کو برداشت نہیں کیا جاتا! اگرچہ تو نے دیکھا ہے کہ فرشتے اور رسول بڑی طاقت کے مالک ہیں اور انہوں نے معجزات برپا کیے ہیں، یا یہ کہ انہوں نے خدا کی طرف سے سپرد کیے گئے کچھ کام کیے ہیں، لیکن ان کے اعمال محض خدا کی طرف سے سپرد کیے گئے کاموں کو پورا کرنے کے لیے ہیں، اور کسی بھی لحاظ سے خدا کی قدرت کا اظہار نہیں ہیں – کیونکہ کسی بھی انسان یا چیز کے پاس خالق کا یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ تمام چیزوں کو تخلیق کرے اور سب چیزوں پر حکمرانی کرے۔ لہٰذا، کوئی بھی انسان یا چیز خالق کے اختیار کو استعمال یا ظاہر نہیں کر سکتی۔

خالق کا اختیار ناقابلِ تغیر اور ناقابلِ خلاف ورزی ہے

تم نے صحیفے کے ان تین حصوں میں کیا دیکھا ہے؟ کیا تم نے دیکھا ہے کہ ایک اصول ہے جس کے ذریعے خدا اپنے اختیار کو استعمال کرتا ہے؟ مثال کے طور پر، خدا نے انسان کے ساتھ ایک عہد قائم کرنے کے لیے ایک کمان کا استعمال کیا - اس نے انسان کو یہ بتانے کے لیے بادلوں میں ایک کمان رکھی کہ وہ دنیا کو تباہ کرنے کے لیے دوبارہ کبھی سیلاب کا استعمال نہیں کرے گا۔ لوگ جو کمان آج تک دیکھتے ہیں کیا یہ وہی ہے جو خدا کے منہ سے کہی گئی تھی؟ کیا اس کی نوعیت اور معنی بدل گئے ہیں؟ بلا شبہ، ایسا نہیں ہوا ہے۔ خدا نے اس عمل کو انجام دینے کے لیے اپنے اختیار کو استعمال کیا، اور وہ عہد جو اس نے انسان کے ساتھ قائم کیا تھا آج تک جاری ہے، اور جس وقت اس عہد کو تبدیل کیا جائے گا، وہ یقیناً خدا کا فیصلہ ہوگا۔ خدا کے کہنے کے بعد "میں اپنی کمان کو بادل میں رکھتا ہوں،" خدا نے آج تک ہمیشہ اس عہد کی پابندی کی۔ تجھے اس میں کیا نظر آتا ہے؟ اگرچہ خدا اختیار اور قدرت کا مالک ہے مگر وہ اپنے کاموں میں بہت سخت اور اصولی ہے، اور اپنے کلام پر قائم رہتا ہے۔ اُس کی سختی، اور اُس کے اعمال کے اصول، خالق کے اختیار کے ناقابلِ خلاف ورزی ہونے اور خالق کے اختیار کے ناقابل تسخیر ہونے کو ظاہر کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ اعلیٰ ترین اختیار کا مالک ہے، اور تمام چیزیں اس کے زیر تسلط ہیں، اور اگرچہ وہ سب چیزوں پر حکومت کرنے کی قدرت رکھتا ہے، لیکن خدا نے کبھی بھی اپنے منصوبے کو نقصان نہیں پہنچایا یا اس میں خلل نہیں ڈالا ہے، اور جب بھی وہ اپنے اختیار کو استعمال کرتا ہے، تو یہ سختی کے ساتھ اس کے اپنے اصولوں کے مطابق ہوتا ہے، اور اس کے منہ سے کہی گئی باتوں کی بالکل ٹھیک پیروی کرتا ہے، اور اس کے منصوبے کے اقدامات اور مقاصد کی پیروی کرتا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ خدا جن تمام چیزوں پر حکمرانی کرتا ہے وہ بھی ان اصولوں کی پابندی کرتی ہیں جن کے ذریعے خدا کا اختیار استعمال کیا جاتا ہے، اور کوئی بھی انسان یا چیز اس کے اختیار کے انتظامات سے مستثنیٰ نہیں ہے، اور نہ ہی وہ ان اصولوں کو تبدیل کر سکتے ہیں جن کے ذریعے اس کا اختیار استعمال کیا جاتا ہے۔ خُدا کی نظر میں، وہ لوگ جو برکت والے ہیں اُس کے اختیار کی وجہ سے لائی گئی خوش قسمتی حاصل کرتے ہیں، اور وہ جو ملعون ہیں اُنھیں خُدا کے اختیار کی وجہ سے سزا ملتی ہے۔ خدا کے اختیار کی حاکمیت کے تحت، کوئی انسان یا چیز اس کے اختیار کے استعمال سے مستثنیٰ نہیں ہے، اور نہ ہی وہ ان اصولوں کو تبدیل کر سکتے ہیں جن کے ذریعے اس کا اختیار استعمال کیا جاتا ہے۔ خالق کا اختیار کسی بھی عنصر میں تبدیلیوں کی وجہ سے تبدیل نہیں ہوتا، اور اسی طرح وہ اصول جن کے ذریعے اس کا اختیار استعمال ہوتا ہے، کسی بھی وجہ سے تبدیل نہیں ہوتے۔ آسمان اور زمین میں بڑے ہنگامے ہو سکتے ہیں، لیکن خالق کا اختیار نہیں بدلے گا؛ تمام چیزیں غائب ہو سکتی ہیں، لیکن خالق کا اختیار کبھی ختم نہیں ہو گا۔ یہ خالق کے ناقابلِ تغیر اور ناقابل خلاف ورزی اختیار کا جوہر ہے، اور یہی خالق کی عین انفرادیت ہے!

ذیل کے الفاظ خدا کے اختیار کو جاننے کے لیے ناگزیر ہیں، اور ان کا مفہوم ذیل میں رفاقت میں دیا گیا ہے۔ آؤ صحیفے کو پڑھنا جاری رکھیں۔

4۔ خدا کا شیطان کو حکم

ایُّوب 6:2 خُداوند نے شَیطان سے کہا کہ دیکھ وہ تیرے اِختیار میں ہے۔ فقط اُس کی جان محفُوظ رہے۔

شیطان نے کبھی بھی خالق کے اختیار سے تجاوز کرنے کی جرات نہیں کی، اور اسی وجہ سے، تمام چیزیں ترتیب میں زندگی بسر کرتی ہیں

یہ ایوب کی کتاب سے ایک اقتباس ہے، اور ان الفاظ میں "وہ" سے مراد ایوب ہے۔ اگرچہ مختصراً، یہ جملہ بہت سے مسائل کو واضح کرتا ہے۔ یہ روحانی دنیا میں خدا اور شیطان کے درمیان ایک خاص مکالمے کو بیان کرتا ہے، اور ہمیں یہ بتاتا ہے کہ خدا کے الفاظ کا ہدف شیطان تھا۔ یہ اس کا بھی اندراج کرتا ہے جو خاص طور پر خدا نے کہا تھا۔ خدا کا کلام شیطان کے لیے ایک فرمان اور حکم تھا۔ اس حکم کی مخصوص تفصیلات ایوب کی زندگی کو بچانے سے متعلق ہیں اور جہاں خدا نے ایوب کے ساتھ شیطان کے سلوک میں حد مقرر کی تھی – شیطان کو ایوب کی زندگی کو بچانا تھا۔ پہلی چیز جو ہم اس جملے سے سیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ وہ الفاظ تھے جو خدا کی طرف سے شیطان سے کہے گئے تھے۔ ایوب کی کتاب کے اصل متن کے مطابق، یہ ہمیں اس طرح کے الفاظ کا پس منظر بتاتا ہے: شیطان ایوب پر الزام لگانا چاہتا تھا، اور اس لیے اسے ایوب کو بہکانے سے پہلے خدا کی رضامندی حاصل کرنی پڑی۔ ایوب کو بہکانے کے لیے شیطان کی درخواست پر رضامندی دیتے وقت، خدا نے شیطان کے سامنے درج ذیل شرط رکھی: "ایوب تیرے اختیار میں ہے؛ فقط اس کی جان محفوظ رہے۔" ان الفاظ کی نوعیت کیا ہے؟ وہ واضح طور پر ایک فرمان ہے، ایک حکم ہے۔ ان الفاظ کی نوعیت کو سمجھنے کے بعد تجھے یقیناً یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ وہ واحد ذات جس نے یہ حکم دیا خدا تھا اور جس نے یہ وصول کیا اور اس کی تعمیل کی وہ شیطان تھا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس ترتیب سے جو بھی ان الفاظ کو پڑھتا ہے اس پر خدا اور شیطان کا تعلق واضح ہوتا ہے۔ بلاشبہ، یہ روحانی دنیا میں بھی خدا اور شیطان کے درمیان تعلق ہے، اور خدا اور شیطان کی شناخت اور حیثیت کے درمیان فرق، صحیفوں میں خدا اور شیطان کے درمیان مکالموں کے اندراج میں فراہم کیا گیا ہے، اور خدا اور شیطان کی شناخت اور حیثیت کے درمیان وہ نمایاں فرق ہے جسے آج تک انسان مخصوص مثال اور عبارتی اندراج سے سیکھ سکتا ہے۔ اس مقام پر، مجھے یہ کہنا ضروری ہے کہ ان الفاظ کا اندراج خدا کی شناخت اور حیثیت کے بارے میں بنی نوع انسان کے علم میں ایک اہم دستاویز ہے، اور یہ خدا کے بارے میں بنی نوع انسان کے علم کے لیے اہم معلومات فراہم کرتا ہے۔ روحانی دنیا میں خالق اور شیطان کے درمیان اس مکالمے کے ذریعے، انسان خالق کے اختیار میں ایک اور خاص پہلو کو سمجھنے کے قابل ہوتا ہے۔ یہ الفاظ خالق کے منفرد اختیار کی ایک اور گواہی ہیں۔

ظاہری طور پر، یہوواہ خدا شیطان کے ساتھ ایک مکالمے میں مشغول ہو رہا ہے۔ جوہر کے لحاظ سے، وہ رویہ جس کے ساتھ یہوواہ خدا بات کرتا ہے، اور جس مقام پر وہ کھڑا ہے وہ شیطان سے بلند ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہوواہ خدا شیطان کو ایک حکم دینے کے لہجے فرمان جاری کر رہا ہے، اور شیطان کو بتا رہا ہے کہ اسے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ ایوب پہلے ہی اس کے اختیار میں ہے، اور یہ کہ وہ ایوب کے ساتھ جیسا چاہے سلوک کر سکتا ہے - لیکن یہ کہ وہ ایوب کی جان نہ لے۔ بین السطور یہ ہے کہ، اگرچہ ایوب کو شیطان کے اختیار میں دے دیا گیا ہے، لیکن اس کی زندگی شیطان کے حوالے نہیں کی گئی ہے؛ کوئی بھی ایوب کی جان خدا کے ہاتھ سے نہیں لے سکتا جب تک کہ خدا کی اجازت نہ ہو۔ شیطان کے لیے اس حکم میں خدا کا رویہ واضح طور پر بیان کیا گیا ہے، اور یہ حکم اس حیثیت کو بھی ظاہر اور عیاں کرتا ہے جس سے یہوواہ خدا شیطان کے ساتھ بات چیت کرتا ہے۔ اس میں، یہوواہ خدا نہ صرف اس خدا کی حیثیت رکھتا ہے جس نے روشنی اور ہوا، اور تمام چیزوں اور جانداروں کو پیدا کیا، اس خدا کی حیثیت رکھتا ہے جو تمام چیزوں اور جانداروں پر حاکمیت رکھتا ہے، بلکہ اس خدا کی حیثیت بھی رکھتا ہے جو انسانوں کو حکم دیتا ہے، اور پاتال کو حکم دیتا ہے، وہ خدا جو تمام جانداروں کی زندگی اور موت کو قابو کرتا ہے۔ روحانی دنیا میں، خدا کے علاوہ کون شیطان کو ایسا حکم جاری کرنے کی جرات کرے گا؟ کیونکہ انسان کی زندگی بشمول ایوب کی زندگی کے، خدا کے زیر اختیار ہے۔ خدا نے شیطان کو ایوب کی جان لینے یا نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی، اور یہاں تک کہ جب خدا نے شیطان کو ایوب کو بہکانے کی اجازت دی، تب بھی خدا نے خاص طور پر ایسا حکم جاری کرنا یاد رکھا، اور ایک بار پھر شیطان کو حکم دیا کہ وہ ایوب کی جان نہ لے۔ شیطان نے کبھی بھی خدا کے اختیارات سے تجاوز کرنے کی جرأت نہیں کی ہے، اور اس کے علاوہ، ہمیشہ خدا کے احکامات اور مخصوص فرمودات کو غور سے سنا اور ان کی تعمیل کی ہے، کبھی ان کی خلاف ورزی کرنے کی جرات نہیں کی، اور ظاہر ہے کہ خدا کے کسی بھی حکم کو آزادانہ طور پر تبدیل کرنے کی ہمت نہیں کی۔ یہ وہ حدود ہیں جو خدا نے شیطان کے لیے مقرر کی ہیں اور اسی لیے شیطان نے کبھی ان حدود کو عبور کرنے کی جرأت نہیں کی۔ کیا یہ خدا کی قدرت کی طاقت نہیں ہے؟ کیا یہ خدا کے اختیار کی گواہی نہیں ہے؟ شیطان کو بنی نوع انسان کے مقابلے میں اس بات کی زیادہ واضح فہم ہے کہ خدا کے ساتھ کس طرح برتاؤ کرنا ہے، اور خدا کو کس طرح دیکھنا ہے، اور اس طرح، روحانی دنیا میں، شیطان خدا کی حیثیت اور اختیار کو بہت واضح طور پر دیکھتا ہے، اور خدا کے اختیار کی طاقت اور اس کے اختیار کے استعمال کے پیچھے اصولوں کی گہری سمجھ بوجھ رکھتا ہے۔ یہ ان کو نظر انداز کرنے کی بالکل ہمت نہیں کرتا، اور نہ ہی وہ کسی طرح بھی ان کی خلاف ورزی کرنے کی جرات کرتا ہے، یا کوئی ایسا کام کرتا ہے جو خدا کے اختیار کی خلاف ورزی کرتا ہو، اور یہ کسی بھی طرح خدا کے غضب کو للکارنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ اگرچہ اس کی فطرت بد اور متکبرانہ ہے، لیکن شیطان نے کبھی بھی خدا کی طرف سے اپنے لیے مقرر کردہ حدود و قیود کو پار کرنے کی جرأت نہیں کی۔ لاکھوں سالوں سے، اس نے ان حدود کی سختی سے پابندی کی ہے، خدا کے دیے ہوئے ہر حکم اور فرمان کی پابندی کی ہے، اور کبھی اس نشان سے تجاوز کرنے کی جرأت نہیں کی۔ اگرچہ یہ بغض پر مبنی ہے، لیکن شیطان بدعنوان بنی نوع انسان سے زیادہ عقلمند ہے؛ یہ خالق کی شناخت جانتا ہے، اور خود اپنی حدود کو جانتا ہے۔ شیطان کے "مطیع" اعمال سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ خدا کا اختیار اور قدرت آسمانی احکام ہیں جن سے شیطان تجاوز نہیں کر سکتا، اور یہ کہ یہ عین خدا کی انفرادیت اور اختیار کی وجہ سے ہے کہ تمام چیزیں ایک منظم طریقے سے بدلتی اور پھیلتی ہیں، کہ بنی نوع انسان خدا کے قائم کردہ طریقے کے اندر رہ سکتا ہے اور تعداد میں بڑھ سکتا ہے، کوئی شخص یا چیز اس ترتیب کو بگاڑنے کے قابل نہیں ہے، اور کوئی شخص یا چیز اس قانون کو تبدیل کرنے کے قابل نہیں ہے - کیونکہ یہ سب خالق کے ہاتھ سے، اور خالق کے حکم اور اختیار سے آتے ہیں۔

صرف خدا، جو خالق کی شناخت رکھتا ہے، منفرد اختیار کا مالک ہے

شیطان کی خاص شناخت کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے اس کے مختلف پہلوؤں کے اظہار میں گہری دلچسپی ظاہر کی ہے۔ چونکہ شیطان کمالات دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور ایسے کام کرنے پر قادر ہے جو بنی نوع انسان کے لیے ناممکن ہیں اس لیے بہت سے ایسے بے وقوف لوگ بھی ہیں جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا کے ساتھ ساتھ شیطان بھی اختیار رکھتا ہے۔ اس لیے بنی نوع انسان خدا کی عبادت کے ساتھ ساتھ شیطان کے لیے بھی اپنے دل میں ایک جگہ محفوظ رکھتا ہے اور شیطان کو خدا سمجھ کر اس کی عبادت تک کرتا ہے۔ یہ لوگ قابل رحم اور قابل نفرت دونوں ہیں۔ قابل رحم وہ اپنی جہالت کی وجہ سے ہیں، اور قابل نفرت وہ اپنے کلیسائی عقائد کے خلاف عقیدے اور موروثی برے مادے کی وجہ سے ہیں۔ اس مقام پر، میں تمہیں یہ بتانا ضروری محسوس کرتا ہوں کہ اختیار کیا ہے، یہ کس چیز کی علامت ہے، اور یہ کس چیز کی نمائندگی کرتا ہے۔ کھل کر بات کریں تو خدا خود اختیار ہے، اس کا اختیار خدا کی بالادستی اور جوہر کی علامت ہے، اور خدا کا اختیار خود خدا کی حیثیت اور شناخت کی نمائندگی کرتا ہے۔ چونکہ معاملہ ایسا ہے تو کیا شیطان یہ کہنے کی جرات کرتا ہے کہ وہ خود خدا ہے؟ کیا شیطان یہ کہنے کی جرات کرتا ہے کہ اس نے تمام چیزوں کو تخلیق کیا ہے، اور ہر چیز پر حاکمیت رکھتا ہے؟ یقینا وہ یہ نہیں کہتا ہے! کیونکہ وہ سب چیزوں کو تخلیق کرنے سے قاصر ہے۔ آج تک، اس نے کبھی بھی خدا کی تخلیق کی ہوئی کوئی چیز نہیں بنائی ہے، اور نہ ہی کوئی ایسی چیز تخلیق کی ہے جس میں زندگی ہو۔ چونکہ اس کے پاس خدا کا اختیار نہیں ہے، اس لیے اس کا خدا کی حیثیت اور شناخت کا حامل ہونے کا امکان کبھی بھی نہیں ہو سکتا، اور یہ اس کے جوہر سے طے ہوتا ہے۔ کیا اس میں خدا جیسی طاقت ہے؟ یقینا اس کے پاس نہیں ہے! ہم شیطان کے کاموں کو کیا کہتے ہیں، اور شیطان کی طرف سے دکھائے جانے والے کمالات کو کیا کہتے ہیں؟ کیا یہ قدرت ہے؟ کیا اسے اختیار کہا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں! شیطان برائی کی لہر کی راہنمائی کرتا ہے، اور خدا کے کام کے ہر پہلو میں خلل ڈالتا ہے، بگاڑتا ہے، اور اس میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ پچھلے کئی ہزار سالوں سے، بنی نوع انسان کو بدعنوان بنانے اور اس کے ساتھ برا سلوک کرنے، اور انسان کو اخلاقی برائیوں کی طرف راغب کرنے اور دھوکا دینے اور خدا کو رد کرنے کے علاوہ، تاکہ انسان موت کے سائے کی وادی کی طرف چل پڑے، کیا شیطان نے کوئی ایسا کام کیا ہے جو انسان کی طرف سے معمولی سا بھی یاد منانے کے قابل، ستائش کرنے یا عزیز رکھے جانے کا مستحق ہے؟ اگر شیطان کے پاس اختیار اور قدرت ہوتی تو کیا انسان اس کی وجہ سے بدعنوان ہو جاتا؟ اگر شیطان کے پاس اختیار اور قدرت ہوتی تو کیا اس سے بنی نوع انسان کو نقصان پہنچتا؟ اگر شیطان کے پاس قدرت اور اختیار ہوتا تو کیا بنی نوع انسان خدا کو چھوڑ کر موت کی طرف پلٹ جاتا؟ چونکہ شیطان کے پاس کوئی اختیار یا قدرت نہیں ہے، تو ہمیں اس کے یہ سب کچھ کرنے کے جوہر کے بارے میں کیا نتیجہ اخذ کرنا چاہیے؟ ایسے لوگ ہیں جو شیطان کے تمام کاموں کی تشریح محض فریب کاری کے طور پر کرتے ہیں، لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایسی تشریح اتنی مناسب نہیں ہے۔ کیا اس کے بنی نوع انسان کو بدعنوان بنانے کے برے کام محض فریب ہیں؟ شیطان نے جس شیطانی قوت سے ایوب کے ساتھ برا سلوک کیا، اور اس کے ساتھ برا سلوک کرنے اور ہڑپ کر جانے کی اس کی وحشیانہ خواہش محض فریب کاری سے حاصل نہیں ہو سکتی تھی۔ پیچھے مڑ کر دیکھو تو ایک ہی لمحے میں ایوب کے گلّے اور ریوڑ، جو پہاڑیوں اور پہاڑوں پر دور دور تک پھیلے ہوئے تھے؛ ایک ہی لمحے میں، ایوب کی عظیم دولت غائب ہو گئی۔ کیا یہ محض دھوکہ دہی سے حاصل کیا جا سکتا تھا؟ شیطان جو کچھ بھی کرتا ہے اس کی فطرت منفی اصطلاحات سے مطابقت رکھتی ہے اور اس کے ساتھ ٹھیک جچتی ہے جیسے کہ بگاڑ پیدا کرنا، رکاوٹ ڈالنا، تباہ کرنا، نقصان پہنچانا، برائی، بغض، اور تاریکی، اور اس طرح ان تمام چیزوں کا وقوع پذیر ہونا جو غیر راستباز اور بری ہیں یہ شیطان کے اعمال سے انتہائی پیچیدگی کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں، اور انھیں شیطان کے برے جوہر سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے قطع نظر کہ شیطان کتنا "طاقت ور" ہے، اس سے قطع نظر کہ وہ کتنا گستاخ اور بوالہوس ہے، اس سے قطع نظر کہ اس کی نقصان پہنچانے کی صلاحیت کتنی زیادہ ہے، اس سے قطع نظر کہ اس کے پاس کتنے وسیع پیمانے پر ایسے طریقے ہیں جن سے وہ انسان کو بدعنوان کرتا اور ورغلاتا ہے، اس سے قطع نظر کہ اس کی تدبیریں اور چالیں کتنی مکارانہ ہیں جن سے وہ انسان کو ڈراتا ہے، اس سے قطع نظر کہ اس کی شکل، جس میں وہ موجود ہے کتنی قابلِ تغیر ہے، وہ کبھی بھی ایک جاندار چیز بنانے پر قادر نہیں رہا ہے، کبھی بھی سب چیزوں کے وجود کے لیے کوئی قوانین یا ضوابط مرتب کرنے کا اہل نہیں رہا ہے اور کبھی بھی کسی چیز پر، خواہ وہ متحرک ہو یا بے جان، حکمرانی اور اختیار رکھنے کے قابل نہیں رہا۔ کائنات اور آسمان کے اندر، کوئی ایک بھی شخص یا چیز ایسی نہیں ہے جو اس سے پیدا ہوئی ہو، یا اس کی وجہ سے موجود ہو؛ کوئی ایک شخص یا شے ایسی نہیں ہے جس پر اس کی حکومت ہو، یا جو اس کے قابو میں ہو۔ اس کے برعکس، اسے نہ صرف خدا کے زیر تسلط رہنا ہے، بلکہ مزید برآں، اسے خدا کے تمام احکامات و ارشادات کی تعمیل کرنی ہو گی۔ خدا کی اجازت کے بغیر، شیطان کے لیے زمین پر پانی کے ایک قطرے یا ریت کے ذرے کو بھی چھونا مشکل ہے۔ خدا کی اجازت کے بغیر، انسان کو تو چھوڑو، جسے خدا نے بنایا ہے، شیطان زمین پر چیونٹیوں کو حرکت دینے کے لیے بھی آزاد نہیں ہے۔ خدا کی نظر میں شیطان پہاڑ پر سوسن کے پھولوں، ہوا میں اڑنے والے پرندوں، سمندر میں مچھلیوں اور حشرات الارض سے کم تر ہے۔ تمام اشیا میں اس کا کردار ہر شے کی خدمت کرنا، اور بنی نوع انسان کے کام آنا، اور خدا کے کام اور اس کے انتظام کے منصوبے کی خدمت کرنا ہے۔ اپنی فطرت میں خواہ وہ کتنا ہی خبیث اور اپنے جوہر میں کتنا ہی شریر کیوں نہ ہو، وہ صرف ایک ہی کام کر سکتا ہے کہ وہ اپنے فعل کی فرض شناسی سے پیروی کرے: خدا کی خدمت کرنا، اور خدا کو جوابی نقطہ فراہم کرنا۔ یہی شیطان کا جوہر اور مقام ہے۔ اس کا جوہر زندگی سے غیر مربوط، اقتدار سے غیر مربوط، اختیار سے غیر مربوط ہے۔ وہ خدا کے ہاتھ میں محض ایک کھلونا ہے، خدا کی خدمت کے لیے صرف ایک مشین!

شیطان کی اصلیت کو سمجھنے کے بعد بھی بہت سے لوگ ابھی تک یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ اختیار کیا ہے، لہذا میں تجھے بتاتا ہوں! خود اختیار کو خدا کی قدرت کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ اول تو یقین کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اختیار اور قدرت دونوں مثبت ہیں۔ ان کا کسی بھی منفی چیز سے کوئی تعلق نہیں ہے، اور ان کا کسی تخلیق شدہ یا غیر تخلیق شدہ وجود سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ خدا کی قدرت کسی بھی شکل کی چیزوں کو تخلیق کرنے کے قابل ہے جن میں زندگی اور قوتِ حیات ہو، اور یہ خدا کی زندگی سے طے ہوتا ہے۔ خدا زندگی ہے، اسی لیے وہ تمام جانداروں کا سرچشمہ ہے۔ مزید برآں، خدا کا اختیار تمام جاندار چیزوں کو خدا کے ہر قول پر عمل کرنے پر مجبور کر سکتا ہے، یعنی خدا کے منہ سے نکلے ہوئے کلام کے مطابق وجود میں آتا ہے، اور خدا کے حکم سے زندہ رہتا ہے اور بچے پیدا کرتا ہے، جس کے بعد خدا تمام جانداروں پر حکمرانی کرتا ہے اور حکم دیتا ہے، اور کبھی بھی، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس سے انحراف نہیں ہو گا۔ کسی شخص یا مادی شے میں یہ چیزیں نہیں ہیں؛ ایسی قدرت صرف خالق کے پاس ہے اور وہی اس کا حامل ہے، اور اسی لیے اسے اختیار کہا جاتا ہے۔ یہ خالق کی انفرادیت ہے۔ اس طرح، قطع نظر اس سے کہ یہ لفظ "اختیار" خود ہے یا اس اختیار کا جوہر، ہر ایک کو صرف خالق کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ خالق کی منفرد شناخت اور جوہر کی علامت ہے، اور یہ خالق کی شناخت اور حیثیت کی نمائندگی کرتا ہے؛ خالق کے علاوہ کوئی شخص یا چیز لفظ "اختیار" کے ساتھ منسلک نہیں ہو سکتی۔ یہ خالق کے منفرد اختیار کی ترجمانی ہے۔

اگرچہ شیطان نے ایوب کو للچائی نظروں سے دیکھا، لیکن خدا کی اجازت کے بغیر اس نے ایوب کے جسم پر ایک بال کو بھی چھونے کی ہمت نہیں کی۔ شیطان اگرچہ فطری طور پر برا اور ظالم ہے، لیکن جب خدا نے اس پر اپنا حکم جاری کر دیا تو پھر اس کے پاس خدا کے حکم کی پابندی کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس طرح، اگرچہ جب شیطان نے ایوب پر یلغار کی تو وہ بھیڑوں کے درمیان بھیڑیے کی طرح جنونی تھا، لیکن اس نے اپنے لیے خدا کی مقرر کردہ حدود کو فراموش کرنے کی ہمت نہیں کی، خدا کے حکم کی خلاف ورزی کرنے کی ہمت نہیں کی، اور اس نے جو کچھ کیا، اس میں شیطان نے خدا کے کلام کے اصولوں اور حدود سے انحراف کرنے کی ہمت نہیں کی – کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟ اس سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ شیطان یہوواہ خدا کے کلام میں سے کسی کی بھی خلاف ورزی کرنے کی جرأت نہیں کرتا۔ شیطان کے لیے، خدا کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ ایک حکم اور آسمانی قانون ہے، خدا کے اختیار کا ایک اظہار ہے – کیونکہ خدا کے ہر لفظ کے پیچھے خدا کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں اور نافرمانی کرنے والوں اور آسمانی قوانین کی مخالفت کرنے والوں کے لیے خدا کی سزا مضمر ہے۔ شیطان واضح طور پر جانتا ہے کہ اگر وہ خدا کے احکامات کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسے خدا کے اختیارات سے تجاوز کرنے اور آسمانی قوانین کی مخالفت کے نتائج کو بھی لازمی قبول کرنا ہو گا۔ آخر یہ نتائج کیا ہیں؟ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ خدا کی طرف سے اس کی سزا ہیں۔ ایوب کے بارے میں شیطان کے اعمال محض اس کے انسان کو بدعنوان بنانے کی ایک مختصر ترین مثال تھے، اور جب شیطان ان اعمال کو انجام دے رہا تھا، تو جو حدود خدا نے مقرر کی ہیں اور شیطان کو جو احکامات جاری کیے ہیں، تو وہ ان اصولوں کی محض ایک مختصر ترین مثال تھے جو اس کے ہر کام کے پیچھے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ، اس معاملے میں شیطان کا کردار اور حیثیت خدا کے انتظام کے کام میں اس کے کردار اور حیثیت کی محض ایک مختصر ترین مثال تھا، اور ایوب کو بہکانے میں شیطان کی خدا کی مکمل اطاعت اس بات کی محض مختصر ترین مثال تھی کہ کس طرح شیطان نے خدا کے انتظام کے کام میں خدا کے خلاف معمولی سی مخالفت کی بھی ہمت نہیں کی۔ یہ مختصر ترین مثالیں تجھے کس انداز میں خبردار کرتی ہیں؟ تمام چیزوں میں، بشمول شیطان، کوئی بھی شخص یا چیز ایسی نہیں ہے جو خالق کے مقرر کیے ہوئے آسمانی قوانین اور احکام سے تجاوز کر سکتی ہو، اور کوئی بھی شخص یا چیز ایسی نہیں ہے جو ان آسمانی قوانین اور احکام کی خلاف ورزی کرنے کی جرأت کر سکتی ہو، کیونکہ کوئی بھی شخص یا چیز اس سزا سے بچ نہیں سکتی یا اسے تبدیل نہیں کر سکتی جو خالق ان کی نافرمانی کرنے والوں کو دیتا ہے۔ صرف خالق ہی آسمانی قوانین اور احکام کو قائم کر سکتا ہے، صرف خالق ہی ان کو نافذ کرنے کی قدرت رکھتا ہے، اور یہ صرف خالق کی قدرت ہی ہے جس سے کوئی بھی شخص یا چیز تجاوز نہیں کر سکتی۔ یہ خالق کا منفرد اختیار ہے، اور یہ اختیار تمام چیزوں سے بالاتر ہے، اور اس لیے یہ کہنا ناممکن ہے کہ "خدا سب سے بڑا ہے اور شیطان نمبر دو ہے۔" سوائے اس خالق کے جو منفرد اختیار کا مالک ہے، کوئی بھی دوسرا خدا نہیں ہے!

کیا اب تمہارے پاس خدا کے اختیار کا ایک نیا علم ہے؟ پہلی بات یہ کہ ابھی بیان کیے گئے خدا کے اختیار اور انسان کی طاقت میں کیا کوئی فرق ہے؟ فرق کیا ہے؟ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ دونوں کا کوئی موازنہ نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے! اگرچہ لوگ کہتے ہیں کہ دونوں کا کوئی موازنہ نہیں ہے، لیکن انسان کے خیالات اور تصورات میں، انسان کی طاقت اکثر اختیار کے ساتھ خلط ملط ہو جاتی ہے، اور اکثر دونوں کا موازنہ پہلو بہ پہلو کیا جاتا ہے۔ یہاں کیا ہورہا ہے؟ کیا لوگ اتفاقی طور پر ایک کو دوسرے سے بدلنے کی غلطی نہیں کر رہے ہیں؟ دونوں غیر منسلک ہیں، اور ان کے درمیان کوئی موازنہ نہیں ہے، پھر بھی لوگ اپنی مدد نہیں کر سکتے۔ یہ کیسے حل ہونا چاہیے؟ اگر تو واقعی کوئی حل تلاش کرنا چاہتا ہے تو واحد راستہ یہی ہے کہ خدا کے منفرد اختیار کو سمجھ لے اور جان لے۔ خالق کے اختیار کو سمجھنے اور جاننے کے بعد، تو انسان کی قدرت اور خدا کے اختیار کا ذکر ایک ہی سانس میں نہیں کرے گا۔

انسان کی طاقت سے کیا مراد ہے؟ آسان الفاظ میں، یہ ایک قابلیت یا ہنر ہے جو انسان کے بدعنوان مزاج، خواہشات اور عزائم کو زیادہ سے زیادہ وسعت دینے یا پورا کرنے کے قابل بناتی ہے۔ کیا اس کا شمار اختیار میں ہوتا ہے؟ کسی انسان کے عزائم اور خواہشات کتنے ہی زیادہ یا نفع بخش کیوں نہ ہوں، اس شخص کو اختیار کا حامل نہیں کہا جا سکتا؛ زیادہ سے زیادہ، یہ فخر سے پھولنا اور کامیابی انسان کے درمیان شیطان کے مسخرے پن کا محض ایک مظاہرہ ہے؛ زیادہ سے زیادہ یہ ایک ڈھونگ ہے جس میں شیطان خدا بننے کی اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے اپنے آباؤ اجداد کے طور پر کام کرتا ہے۔

اب تُو خدا کے اختیار کو عین کس طرح دیکھتا ہے؟ اب جب کہ ان الفاظ کی رفاقت کی جا چکی ہے، تجھے خدا کے اختیار کا نیا علم ہونا چاہیے۔ تو میں تم سے پوچھتا ہوں: خدا کے اختیار کی کیا علامت ہے؟ کیا یہ خود خدا کی شناخت کی علامت ہے؟ کیا یہ خود خدا کی قدرت کی علامت ہے؟ کیا یہ خود خدا کی منفرد حیثیت کی علامت ہے؟ تمام چیزوں میں، تو نے خدا کے اختیار کو کس چیز میں دیکھا ہے؟ تو نے اسے کیسے دیکھا ہے؟ انسان کے تجربہ کردہ چار موسموں کے لحاظ سے، کیا کوئی بھی بہار، گرمی، خزاں اور سردی کے درمیان تبادلے کے قانون کو بدل سکتا ہے؟ موسم بہار میں، درختوں پر غنچے اور پھول کھلتے ہیں؛ گرمیوں میں وہ پتوں سے ڈھکے ہوتے ہیں؛ خزاں میں وہ پھل دیتے ہیں، اور سردیوں میں پتے گر جاتے ہیں۔ کیا کوئی اس قانون کو تبدیل کر سکتا ہے؟ کیا یہ خدا کے اختیار کے ایک پہلو کی عکاسی کرتا ہے؟ خدا نے کہا "روشنی ہو جا،" اور روشنی ہو گئی۔ کیا یہ روشنی اب بھی موجود ہے؟ یہ کس وجہ سے موجود ہے؟ یہ یقیناً خدا کے کلام اور خدا کے اختیار کی وجہ سے موجود ہے۔ کیا خدا کی تخلیق کی ہوئی ہوا اب بھی موجود ہے؟ کیا انسان کے سانس لینے کی ہوا خدا کی طرف سے آتی ہے؟ کیا کوئی خدا کی طرف سے آنے والی چیزوں کو چھین سکتا ہے؟ کیا کوئی ان کے جوہر اور فعل کو بدل سکتا ہے؟ کیا کوئی اس قابل ہے کہ خدا کے مقرر کردہ رات اور دن کو اور خدا کے حکم کردہ رات اور دن کے قانون کو واپس لے سکے؟ کیا شیطان ایسا کر سکتا ہے؟ اگر تو رات کو نہیں بھی سوتا، اور رات کو بھی دن ہی سمجھتا ہے، تو پھر بھی یہ رات ہی کا وقت ہوتا ہے؛ تو اپنے روزمرہ کے معمولات کو تبدیل کر سکتا ہے، لیکن تو رات اور دن کے درمیان تبادلے کے قانون کو تبدیل کرنے سے قاصر ہے – یہ حقیقت کسی بھی شخص کے لیے ناقابل تغیر ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟ کیا کوئی اس قابل ہے کہ شیر سے بیل کی طرح زمین میں ہل چلوا سکے؟ کیا کوئی اس قابل ہے کہ ہاتھی کو گدھے میں تبدیل کر دے؟ کیا کوئی اس قابل ہے کہ مرغی کو عقاب کی طرح ہوا میں انتہائی بلندیوں پر اڑائے؟ کیا کوئی بھیڑیے کو بھیڑ کی طرح گھاس کھلوانے پر قادر ہے؟ (نہیں)۔ کیا کوئی اس قابل ہے کہ پانی کی مچھلیوں کو خشک زمین پر زندہ رکھ سکے؟ یہ انسانوں سے نہیں ہو سکتا ہے۔ کیوں نہیں؟ یہ اس لیے ہے کہ خدا نے مچھلیوں کو پانی میں رہنے کا حکم دیا، اور اسی لیے وہ پانی میں رہتی ہیں۔ زمین پر وہ زندہ نہیں رہ سکیں گی، اور مر جائیں گی؛ وہ خدا کے حکم کی حدود سے تجاوز کرنے سے قاصر ہیں۔ تمام چیزوں کے اپنے وجود کے لیے ایک قانون اور حد ہے اور ان میں سے ہر ایک کی اپنی جبلت ہوتی ہے۔ یہ خالق کی طرف سے مقرر کی گئی ہے، اور کسی بھی انسان کے لیے ناقابل تغیر اور ناقابل تسخیر ہے۔ مثال کے طور پر، شیر ہمیشہ جنگل میں، انسانی آبادیوں سے دور رہے گا، اور کبھی بھی اس بیل کی طرح فرمانبردار اور وفادار نہیں ہو سکتا جو انسان کے ساتھ مل کر رہتا ہے اور انسان کے لیے کام کرتا ہے۔ اگرچہ ہاتھی اور گدھے دونوں جانور ہیں اور دونوں کی چار ٹانگیں ہیں، اور وہ ایسی مخلوق ہیں جو ہوا میں سانس لیتی ہیں، لیکن یہ مختلف انواع کی نسلیں ہیں، کیونکہ خدا نے ان کو مختلف اقسام میں تقسیم کر دیا ہے، ان میں سے ہر ایک کی اپنی جبلت ہے، اس لیے وہ کبھی بھی ایک دوسرے کی جگہ نہیں لے سکتے۔ اگرچہ مرغی کی بھی عقاب کی طرح دو ٹانگیں اور پر ہوتے ہیں، لیکن یہ کبھی بھی ہوا میں نہیں اُڑ سکے گی؛ زیادہ سے زیادہ یہ صرف ایک درخت تک ہی اڑ سکتی ہے – یہ اس کی جبلت سے طے ہوتا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ سب کچھ خدا کے اختیار کے احکامات کی وجہ سے ہے۔

آج بنی نوع انسان کی ترقی میں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ بنی نوع انسان کی سائنس ترقی کر رہی ہے، اور انسان کی سائنسی دریافتوں کی کامیابیوں کو متاثر کن قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ کہنا ضروری ہے کہ انسان کی صلاحیت روز بروز بہت زیادہ بڑھ رہی ہے، لیکن ایک سائنسی پیش رفت ایسی ہے جسے کرنے سے بنی نوع انسان قاصر رہا ہے: بنی نوع انسان نے ہوائی جہاز، طیارہ بردار بحری جہاز اور ایٹم بم بنایا، بنی نوع انسان خلا میں گیا، چاند پر چہل قدمی کی، انٹرنیٹ ایجاد کیا، اور ایک اعلیٰ تکنیکی ترقی والی زندگی بسر کرنا شروع کر دی، پھر بھی انسان ایک زندہ، سانس لینے والی چیز بنانے سے قاصر ہے۔ ہر جاندار مخلوق کی جبلت اور وہ قوانین جن کے ذریعے وہ زندگی بسر کرتی ہے، اور ہر قسم کی جاندار چیز کی زندگی اور موت کا دور – یہ سب بنی نوع انسان کی سائنس کی طاقت سے باہر ہیں اور اس سے قابو نہیں کیے جا سکتے۔ اس مقام پر یہ کہنا ضروری ہے کہ انسان کی سائنس خواہ کتنی ہی عظیم بلندیوں کو حاصل کر لے، اس کا موازنہ خالق کی کسی بھی سوچ سے نہیں کیا جا سکتا، اور خالق کی تخلیق کے معجزاتی ہونے اور اس کے اختیار کی طاقت کو پہچاننے سے قاصر ہے۔ زمین پر بہت سے سمندر ہیں، پھر بھی انہوں نے اپنی حدود سے کبھی تجاوز نہیں کیا اور اپنی مرضی سے خشکی پر نہیں آئے، اور یہ اس لیے ہے کہ خدا نے ان میں سے ہر ایک کے لیے حدود مقرر کر دی ہیں؛ وہ وہیں رہے جہاں اس نے انہیں حکم دیا، اور خدا کی اجازت کے بغیر وہ آزادانہ طور پر حرکت نہیں کر سکتے۔ خدا کی اجازت کے بغیر، وہ ایک دوسرے کی حدود کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے، اور وہ صرف اسی وقت حرکت کر سکتے ہیں جب خدا ایسا کہے، اور وہ کہاں جاتے اور ٹھہرتے ہیں اس کا تعین خدا کے اختیار سے ہوتا ہے۔

اسے صاف لفظوں میں بیان کرنے کے لیے، "خدا کا اختیار" کا مطلب ہے کہ یہ خدا کا فیصلہ ہے۔ خدا کو یہ فیصلہ کرنے کا حق ہے کہ کسی چیز کو کیسے کرنا ہے، اور وہ اسی طریقے سے ہوتی ہے جیسے وہ چاہتا ہے۔ سب چیزوں کے قانون کا فیصلہ خدا کرتا ہے، اور انسان نہیں کرتا ہے؛ نہ ہی انسان اسے تبدیل کر سکتا ہے۔ یہ انسان کی مرضی سے منتقل نہیں ہو سکتا، بلکہ خدا کے خیالات، خدا کی حکمت اور خدا کے احکامات سے تبدیل ہوتا ہے؛ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو کسی بھی انسان کے لیے ناقابل تردید ہے۔ آسمان و زمین اور تمام چیزیں، کائنات، ستاروں بھرے آسمان، سال کے چار موسم، وہ جو انسان کے لیے ظاہر اور پوشیدہ ہے – یہ سب خدا کے اختیار کے تحت، خدا کے حکم کے مطابق، خدا کے فرمان کے مطابق، اور تخلیق کے آغاز کے قوانین کے مطابق، کسی معمولی سی بھی غلطی کے بغیر موجود ہیں، کام کرتے ہیں اور تبدیل ہوتے ہیں۔ کوئی ایک بھی فرد یا شے اپنے قوانین کو تبدیل نہیں کر سکتی، یا اپنے کام کرنے کے جبلی طریقے کو تبدیل نہیں کر سکتی وہ خدا کے اختیار کی وجہ سے وجود میں آئے، اور خدا کے اختیار کی وجہ سے فنا ہو جاتے ہیں۔ یہ خدا کا عین اختیار ہے۔ اب جب کہ اتنا کچھ کہا جا چکا ہے، تو کیا تُو یہ محسوس کر سکتا ہے کہ خدا کا اختیار، خدا کی شناخت اور حیثیت کی علامت ہے؟ کیا کوئی تخلیق شدہ یا غیر تخلیق شدہ وجود خدا کے اختیار کا حامل ہو سکتا ہے؟ کیا اس کی نقالی کی جا سکتی ہے، کیا کوئی اس کا سوانگ بھر سکتا ہے یا کیا کوئی شخص، چیز یا شے اس کی جگہ لے سکتی ہے؟

خالق کی شناخت منفرد ہے، اور تمہیں شرک کے نظریے کی پیروی نہیں کرنی چاہیے

اگرچہ شیطان کے ہنر اور صلاحیتیں انسان کی نسبت زیادہ ہیں، حالانکہ وہ ایسے کام کر سکتا ہے جو انسان کے لیے ناقابلِ حصول ہیں، اس بات سے قطع نظر کہ تو شیطان کے کاموں پر رشک کرتا ہے یا اس کی خواہش رکھتا ہے، اس بات سے قطع نظر کہ تو ان چیزوں سے نفرت کرتا ہے یا ان سے بیزار ہوتا ہے، اس بات سے قطع نظر کہ تو ان کو دیکھنے کے قابل ہے یا نہیں، اور اس بات سے قطع نظر کہ شیطان کتنا کچھ حاصل کرسکتا ہے، یا دھوکے سے کتنے لوگوں سے اپنی پرستش اور تقدیس کروا سکتا ہے، اور اس بات سے قطع نظر کہ تو اس کی کیسے تعریف کرتا ہے، تُو ممکنہ طور پر یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ اس کے پاس خدا کا اختیار اور قدرت ہے۔ تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ خدا خدا ہے، صرف ایک ہی خدا ہے، اور اس کے علاوہ، تجھے یہ جاننا چاہیے کہ صرف خدا ہی اختیار کا مالک ہے، کہ صرف خدا ہی سب چیزوں کو قابو کرنے اور ان پر حکومت کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ صرف اس وجہ سے کہ شیطان لوگوں کو دھوکا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور وہ خدا کی نقالی کرسکتا ہے، خدا کی بنائی ہوئی نشانیوں اور معجزات کی نقل کرسکتا ہے، اور خدا کی طرح کے کام کر چکا ہے، تو تُو غلطی سے یہ مان لیتا ہے کہ خدا منفرد نہیں ہے، اور یہ کہ بہت سے خدا ہیں، کہ ان مختلف خداؤں میں محض زیادہ یا کم صلاحیتیں ہیں، اور یہ کہ ان کی بروئے کار لانے والی قدرت کی وسعت میں فرق ہے۔ تُو ان کی عظمت کا درجہ ان کی آمد کی ترتیب اور ان کے دور کے لحاظ سے طے کرتا ہے، اور تُو غلط طور پر یہ مان لیتا ہے کہ خدا کے علاوہ اور بھی معبود ہیں، اور یہ سمجھتا ہے کہ خدا کی قدرت اور اختیار منفرد نہیں ہے۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ الفاظ کہہ کر میں تمہیں کیا سکھانے کی کوشش کر رہا ہوں؟ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وقت، جگہ، یا تیرا پس منظر کیا ہے، تجھے خدا کو کسی دوسرے شخص، چیز یا شے کے ساتھ بالکل خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔ اس بات سے قطع نظر کہ تو خدا کے اختیار اور خود خدا کے جوہر کو کتنا ناقابلِ فہم اور ناقابل رسائی محسوس کرتا ہے، اس بات سے قطع نظر کہ شیطان کے اعمال اور الفاظ تیرے تصور اور تخیل سے کتنے متفق ہیں، اس سے قطع نظر کہ وہ تجھے کتنا مطمئن کرتے ہیں۔ بے وقوف مت بن، ان تصورات کو خلط ملط نہ کر، خدا کے وجود سے انکار نہ کر، خدا کی شناخت اور حیثیت سے انکار نہ کر، خدا کو دروازے سے باہر نہ دھکیل اور شیطان کو اپنے اندر خدا کی جگہ پر مت لا اور اپنا خدا نہ بنا۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ توایسا کرنے کے نتائج کا تصور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے!

اگرچہ بنی نوع انسان کو بدعنوان کر دیا گیا ہے، لیکن وہ اب بھی خالق کے اختیار کی حاکمیت کے تحت زندگی گزار رہا ہے

شیطان ہزاروں سالوں سے بنی نوع انسان کو بدعنوان بنا رہا ہے۔ اس نے بے شمار شرانگیزیاں کی ہیں، نسل در نسل دھوکا دیا ہے، اور دنیا میں گھناؤنے جرائم کیے ہیں۔ اس نے انسان سے بدسلوکی ہے، انسان کو فریب دیا ہے، انسان کو خدا کی مخالفت پر ورغلایا ہے، اور ایسے شیطانی کام کیے ہیں جنہوں نے خدا کے انتظام کا منصوبہ بار بار درہم برہم اور خراب کیا ہے۔ پھر بھی، خدا کے اختیار کے تحت، تمام اشیا اور جاندار مخلوقات خدا کے مقرر کردہ اصولوں اور قوانین کی پابندی کرنا جاری رکھتے ہیں۔ خُدا کے اختیار کے مقابلے میں، شیطان کی شیطانی فطرت اور انتشار انگیزی بہت بدصورت، بہت مکروہ اور قابل نفرت، اور بہت ہی چھوٹی اور کمزور ہے۔ اگرچہ شیطان خدا کی تخلیق کردہ تمام اشیا کے درمیان چلتا ہے، لیکن وہ خدا کے حکم کے پابند لوگوں اور چیزوں میں معمولی سی بھی تبدیلی لانے کی قدرت نہیں رکھتا ہے۔ کئی ہزار سال گزر چکے ہیں، اور بنی نوع انسان اب بھی خدا کی عطا کردہ روشنی اور ہوا سے لطف اندوز ہوتا ہے، اب بھی خود خدا کی طرف سے خارج کیے ہوئے سانس سے سانس لیتا ہے، اب بھی خدا کے تخلیق کیے ہوئے پھولوں، پرندوں، مچھلیوں اور کیڑے مکوڑوں سے لطف اندوز ہوتا ہے، اور خدا کی فراہم کردہ تمام چیزوں سے لطف اندوز ہوتا ہے؛ دن اور رات اب بھی مسلسل ایک دوسرے کی جگہ لے رہے ہیں؛ چار موسم ہمیشہ کی طرح بدلتے ہیں؛ آسمان پر اڑتی بطخیں سردیوں میں چلی جاتی ہیں، اور پھر اگلے موسم بہار میں واپس بھی آ جاتی ہیں؛ پانی کی مچھلیاں دریاؤں اور جھیلوں – اپنے گھروں کو کبھی نہیں چھوڑتیں؛ موسم گرما کے دنوں میں زمین پر جھینگر دل کھول کر گاتے ہیں؛ موسم خزاں کے دوران گھاس میں حشرے جھینگر ہوا کے ساتھ بھنبھناتے ہیں؛ بطخیں غول کی شکل میں جمع ہوتی ہیں، جبکہ عقاب تنہا رہتے ہیں؛ شیروں کے غول شکار کر کے خود کو زندہ رکھتے ہیں۔ بارہ سنگھے گھاس اور پھولوں سے دور نہیں جاتے۔۔۔ تمام چیزوں میں ہر قسم کی جاندار مخلوق چلی جاتی ہے اور واپس آ جاتی ہے اور پھر واپس چلی جاتی ہے، پلک جھپکنے میں لاکھوں تبدیلیاں رونما ہو جاتی ہیں – لیکن جو چیز تبدیل نہیں ہوتی وہ ان کی جبلت اور بقا کے قوانین ہیں۔ وہ خدا کے رزق اور پرورش کے تحت رہتے ہیں، اور کوئی ان کی جبلت کو تبدیل نہیں کرسکتا، اور نہ ہی کوئی ان کی بقا کے اصولوں میں بگاڑ پیدا کر سکتا ہے۔ اگرچہ بنی نوع انسان، جو ہر چیز کے درمیان رہتا ہے، شیطان کے ذریعے بدعنوان بنا دیا گیا ہے اور دھوکا کھا گیا ہے، لیکن انسان اب بھی خدا کے بنائے ہوئے پانی، خدا کی بنائی ہوئی ہوا، اور خدا کی بنائی ہوئی تمام چیزوں کو نہیں چھوڑ سکتا، اور انسان اب بھی خدا کی طرف سے تخلیق کی گئی اس فضا میں رہتا ہے اور تعداد میں بڑھتا ہے۔ بنی نوع انسان کی جبلتیں تبدیل نہیں ہوئی ہیں۔ انسان آج بھی دیکھنے کے لیے اپنی آنکھوں پر، سننے کے لیے اپنے کانوں پر، سوچنے کے لیے اپنے دماغ پر، سمجھنے کے لیے اپنے دل پر، چلنے کے لیے اپنی ٹانگوں اور پاؤں پر، کام کرنے کے لیے اپنے ہاتھوں پر انحصار کرتا ہے، وغیرہ؛ وہ تمام جبلتیں جو خدا نے انسان کو عطا کی ہیں تاکہ وہ خدا کے رزق کو قبول کر سکے، وہ تبدیل نہیں ہوتی ہیں۔ وہ صلاحیتیں جن کے ذریعے انسان خدا کے ساتھ تعاون کرتا ہے تبدیل نہیں ہوئی ہیں، انسان کے تخلیق شدہ وجود کے فرائض انجام دینے کی صلاحیت تبدیل نہیں ہوئی ہے، بنی نوع انسان کی روحانی ضروریات تبدیل نہیں ہوئی ہیں، بنی نوع انسان کی اپنی اصلیت تلاش کرنے کی خواہش تبدیل نہیں ہوئی ہے، انسان کی خالق کے ہاتھوں بچائے جانے کی شدید آرزو تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ بنی نوع انسان کے موجودہ حالات ایسے ہیں، جو خدا کے اختیار کے تحت رہتا ہے، اور جس نے شیطان کی طرف سے لائی گئی خونی تباہی کو برداشت کیا ہے۔ اگرچہ شیطان نے بنی نوع انسان کو روند ڈالا ہے، اور وہ تخلیق کے آغاز سے آدم اور حوا کی طرح نہیں ہے، بلکہ اس کی بجائے ان چیزوں سے بھرا ہوا ہے جو خدا کی مخالف ہیں، جیسے کہ علم، تخیل، تصورات، وغیرہ، اور بدعنوان شیطانی مزاج سے بھرپور، لیکن خدا کی نظر میں، بنی نوع انسان اب بھی وہی بنی نوع انسان ہے جسے اس نے پیدا کیا تھا۔ خدا اب بھی بنی نوع انسان پر حکومت کرتا ہے اور اسے ترتیب میں رکھتا ہے، اور بنی نوع انسان اب بھی خدا کی طرف سے مقرر کردہ راستے کے اندر رہتا ہے، اور اسی طرح خدا کی نظر میں، بنی نوع انسان، جسے شیطان نے بدعنوان بنا دیا ہے، محض گندگی سے ڈھکا ہوا ہے، گڑگڑاتے پیٹ کے ساتھ، ایسے رد عمل کے ساتھ۔ جو قدرے سست ہیں، ایک یادداشت جو پہلے کی طرح اچھی نہیں ہے، اور قدرے بوڑھی ہے – لیکن انسان کے تمام افعال اور جبلتیں مکمل طور پر کسی نقصان کے بغیر ہیں۔ یہ وہ بنی نوع انسان ہے جسے خدا بچانا چاہتا ہے۔ لیکن اس بنی نوع انسان کو ابھی خالق کی پکار سننا باقی ہے اور خالق کی آواز کو سننا ہے اور وہ اٹھ کھڑا ہو گا اور اس آواز کا منبع تلاش کرنے کے لیے دوڑ پڑے گا۔ اس بنی نوع انسان کو ابھی خالق کی ذات کو دیکھنا باقی ہے اور وہ باقی سب سے غافل ہو جائے گا، اور سب کچھ چھوڑ دے گا، اپنے آپ کو خدا کے لیے وقف کر دے گا، اور اس کے لیے اپنی جان تک بھی قربان کر دے گا۔ جب بنی نوع انسان کا دل خالق کے متاثر کرنے والے کلام کو سمجھ لے گا تو بنی نوع انسان شیطان کو رد کر کے خالق کے پاس آجائے گا؛ جب بنی نوع انسان اپنے جسم سے میل کچیل کو مکمل طور پر دھو چکا ہو گا اور ایک مرتبہ پھر خالق کی طرف سے رزق اور پرورش حاصل کر چکا ہو گا تو بنی نوع انسان کا حافظہ بحال ہو جائے گا اور اس وقت بنی نوع انسان حقیقی معنوں میں خالق کے تسلط میں لوٹ آئے گا۔

14 دسمبر 2013

سابقہ: خدا کا کام، خدا کا مزاج، اور خود خدا III

اگلا: خدا خود، منفرد III

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp