خدا خود، منفرد III
خدا کا اختیار (II)
آج ہم "خدا بذات خود، منفرد" کے موضوع پر اپنے مباحثے کو جاری رکھیں گے۔ اس موضوع پر ہمارے پاس پہلے ہی دو اتفاقات موجود ہیں، پہلا خدا کے اختیار اور دوسرا خدا کے صالح مزاج سے متعلق ہے۔ ان دو موافقتوں کو سننے کے بعد، کیا تم نے خدا کی شناخت، مقام اور جوہر کے بارے میں کوئی نیا فہم حاصل کیا ہے؟ کیا اس بصیرت نے خدا کے وجود کی صداقت کے بارے میں مزید ضروری علم و یقین حاصل کرنے میں تمھاری مدد کی ہے؟ آج میں "خدا کا اختیار" کے موضوع کو مزید کچھ تفصیل سے بیان کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔
خدا کے اختیار کو کلی اور جزئی تناظر میں سمجھنا
خدا کا اختیار منفرد ہے۔ یہ بذات خود خدا کی شناخت کی خصوصیات کا اظہار اور خصوصی جوہر ہے، اس طرح کہ کوئی بھی تخلیق شدہ یا غیر تخلیق شدہ وجود اس کا حامل نہیں ہے؛ اس قسم کا اختیار فقط خالق کے پاس ہوتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ صرف خالق—یعنی منفرد خدا—کو اس طرح سے بیان کیا گیا ہے اور اسی کے پاس یہ جوہر ہے۔ لہٰذا، ہم خدا کے اختیارکے بارے میں کیوں بات کریں؟ بذات خود خدا کا اختیار کس طرح اس "اختیار" سے مختلف ہے جس کا تصور انسان اپنے ذہن میں کرتا ہے؟ اس میں کیا خاص بات ہے؟ اس کے بارے میں بالخصوص یہاں بات کرنا کیوں ضروری ہے؟ تم میں سے ہر ایک کو اس مسئلے پر احتیاط سے غور کرنا چاہیے۔ زیادہ تر لوگوں کے لیے، "خدا کا اختیار" ایک مبہم خیال ہے، جسے سمجھنے کے لیے بہت زیادہ کوشش کی ضرورت ہے اور اس پر کوئی بھی بحث تجرید کی نذر ہوسکتی ہے۔ لہذا خدا کے اختیار کا علم جس کا انسان مالک ہونے پر قادر ہے اور خدا کے اختیار کا جوہر کے درمیان غیر متغیر طور پر ایک فاصلہ رہے گا۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے، ہر ایک کو بتدریج لوگوں، واقعات، چیزوں اور مختلف مظاہر کے ذریعے خدا کے اختیار کو جاننا ہوگا جو انسانوں کی پہنچ میں ہیں اور وہ اپنی حقیقی زندگی میں میں جتنا سمجھنے کی استعداد رکھتے ہیں۔ اگرچہ لفظ "خدا کا اختیار" ناقابلِ فہم لگتا ہے لیکن خدا کا اختیار بالکل بھی مجرد نہیں ہے۔ وہ انسان کی زندگی کے ہر لمحے میں انسان کے ساتھ موجود رہتا ہے، ہر دن اس کی راہنمائی کرتا ہے۔ لہذا، حقیقی زندگی میں، ہر شخص لازمی طور پر خدا کے اختیار کے سب سے زیادہ قابل حس پہلو کو دیکھے گا اور اس کا تجربہ کرے گا۔ یہ حسی پہلو اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا کا اختیار واقعی موجود ہے اور یہ انسان کو اس حقیقت کو پہچاننے اور سمجھنے کی اجازت دیتا ہے کہ خدا اس طرح کا اختیار رکھتا ہے۔
خدا نے ہر چیز کو خلق کیا اور اسے خلق کرنے کے بعد، ہر شے پر اس کا تسلط ہے۔ ہر شے پر تسلط رکھنے کے علاوہ ہر شے اس کے قابو میں ہے۔ یہ خیال کہ "ہر شے خدا کے قابو میں ہے"؟ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کی وضاحت کیسے کی جا سکتی ہے؟ یہ اصل زندگی پر کیسے منطبق ہوتا ہے؟ اس حقیقت کا فہم کہ خدا ہر شے پر قابو رکھتا ہے اس کے اختیار کو سمجھنے پر کیسے منتج ہو سکتا ہے؟ اسی جملے "خدا ہر چیز پر قابو رکھتا ہے" سے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ خدا جس چیز کو قابو کرتا ہے وہ سیاروں کا کوئی ایک حصہ نہیں ہے اور نہ ہی تخلیق کا کوئی ایک حصہ ہے، بنی نوع انسان کے کسی ایک حصے کا تو ذکر ہی چھوڑیں، بلکہ ہر شے ہے: ضخیم سے لے کر خوردبینی تک، مرئی سے لے کر غیر مرئی تک، کائنات کے ستاروں سے لے کر زمین پر موجود جانداروں نیز جرثوموں تک جنھیں عام آنکھوں سے نہیں دیکھا جا سکتا اور وہ مخلوقات جو دوسری شکلوں میں موجود ہیں۔ یہ "ہر شے" جس پر خدا کو "تسلط حاصل" ہے کی دقیق تعریف ہے؛ یہ اس کے اختیار کا دائرہ ہے، اس کی حاکمیت اور حکمرانی کی حد۔
اس انسان کے وجود میں آنے سے قبل، کائنات—آسمان کے تمام سیارے اور ستارے—پہلے سے موجود تھے۔ کلی (میکرو) سطح پر، یہ آسمانی اجسام اپنے پورے وجود کے لیے، خدا کے قبضے میں، باقاعدگی سے اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں، خواہ کتنے ہی سال ہوگئے ہوں۔ کون سا سیارہ کس خاص وقت میں کہاں جاتا ہے؛ کون سا سیارہ کون سا کام انجام دیتا ہے اور کب؛ کون سا سیارہ کس مدار کے ساتھ گردش کرتا ہے اور کب یہ غائب ہو جاتا ہے یا اس کی جگہ دوسرا لے لیتا ہے—یہ تمام چیزیں کسی معمولی غلطی کے بغیر آگے بڑھتی ہیں۔ سیاروں کا مقام اور ان کے درمیان فاصلے سبھی لگے بندھے سانچوں کی پیروی کرتے ہیں، جن میں سے سبھی کو دقیق اعداد و شمار کے ذریعے بیان کیا جا سکتا ہے؛ وہ راستے جن پر وہ سفر کرتے ہیں، ان کی رفتار اور مداروں کے سانچے، وہ اوقات جب وہ مختلف مقامات پر ہوتے ہیں—ان سب کو دقت سے اعداد و شمار کے ذریعے نیز خاص قوانین کے ذریعے بیان کیا جا سکتا ہے۔ زمانوں سے سیاروں نے بغیر کسی انحراف کے ان قوانین کی پیروی کی ہے۔ کوئی طاقت ان کے مدار یا ان کے سانچے میں جس پر وہ چلتے ہیں خلل نہیں ڈال سکتی اور نہ ہی انھیں تبدیل کر سکتی ہے۔ چونکہ خصوصی قوانین جو ان کی حرکت کو منظم کرتے ہیں اور ان کی وضاحت کرنے والے قطعی اعداد و شمار خالق کے اختیار کے ذریعہ پہلے سے مقرر کردہ ہیں، وہ خالق کی حاکمیت اور قدرت کے تحت اپنی مرضی سے ان قوانین کی پابندی کرتے ہیں۔ کلی سطح پر، انسان کے لیے کچھ نمونے، کچھ اعداد و شمار اور کچھ عجیب اور ناقابل توضیح قوانین یا مظاہر کو دریافت کرنا مشکل نہیں ہے۔ اگرچہ بنی نوع انسان اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ خدا موجود ہے اور نہ ہی اس حقیقت کو قبول کرتی ہے کہ خالق نے ہر شے کو بنایا ہے اور ہر شے پر اس کو اختیار حاصل ہے، مزید برآں وہ خالق کے اختیار کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے۔ سائنس دان، ماہرین فلکیات اور ماہرین طبیعیات اس کے باوجود زیادہ سے زیادہ کھوج لگا رہے ہیں کہ کائنات کی تمام اشیا کا وجود اور وہ اصول اور نمونے جو ان کی حرکات کو منضبط کرتے ہیں، یہ سب ایک وسیع اور غیر مرئی تاریک توانائی کے زیر انتظام ہیں۔ یہ حقیقت انسان کو اس بات کا سامنا کرنے اور تسلیم کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ حرکت کے ان نمونوں کے درمیان ایک قادر مطلق موجود ہے جو ہر چیز کو ترتیب دے رہا ہے۔ اس کی طاقت غیر معمولی ہے اور اگرچہ کوئی بھی اس کا حقیقی چہرہ نہیں دیکھ سکتا، وہ ہر لمحہ ہر چیز پر حکومت کرتا اور اسے قابو کرتا ہے۔ کوئی آدمی یا طاقت اس کی حاکمیت سے فرار نہیں کر سکتی۔ اس حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے، انسان کو لازماً یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ تمام اشیا کے وجود کو منظم کرنے والے قوانین کو انسان قابو نہیں کر سکتا اور اسے کوئی بدل نہیں سکتا؛ اسے یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ انسان ان قوانین کو پوری طرح سے نہیں سمجھ سکتا اور یہ قدرتی طور پر واقع نہیں ہوتے ہیں بلکہ ایک حاکم کے حکم سے چلتے ہیں۔ یہ سب خدا کے اختیار کا اظہار ہیں جسے بنی نوع انسان کلی سطح پر محسوس کر سکتی ہے۔
جزئی (مائیکرو) سطح پر، وہ تمام پہاڑ، ندیاں، جھیلیں، سمندر اور زمینی رقبے جنھیں انسان زمین پر دیکھ سکتا ہے، وہ تمام موسم جن کا وہ تجربہ کرتا ہے، وہ تمام اشیا جو زمین میں آباد ہیں، بشمول نباتات، حیوانات،جرثومے اور انسان، خدا کی حاکمیت اور تسلط کے تابع ہیں۔ خدا کی حاکمیت اور تسلط کے تحت، تمام چیزیں اس کے خیالات کے مطابق وجود میں آتی ہیں یا ختم ہوجاتی ہیں؛ قوانین پیدا ہوتے ہیں جو ان کے وجود کو منظم کرتے ہیں اور وہ انہی کے مطابق نمو کرتے اور بڑھتے رہتے ہیں۔ کوئی بھی انسان یا شے ان قوانین سے بالاتر نہیں ہے۔ یہ کیوں ہے؟ اس کا واحد جواب یہ ہے: یہ خدا کے اختیار کی وجہ سے ہے یا دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے، یہ خدا کے خیالات اور خدا کے الفاظ کی وجہ سے ہے؛ بذات خود خدا کے ذاتی اعمال کی وجہ سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ خدا کا اختیار اور خدا کا دماغ ہے جو ان قوانین کو جنم دیتا ہے، جو اس کے خیالات کے مطابق منتقل ہوتے اور بدلتے رہتے ہیں اور یہ منتقلی اور رد و بدل سب اس کے منصوبے کی خاطر ہوتے ہیں یا ختم ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر وبا کو لے لیں۔ وہ بغیر کسی پیشگی اطلاع کے پھوٹ پڑتی ہیں۔ کوئی بھی ان کے منبع یا صحیح وجوہات کو نہیں جانتا کہ وہ کیوں ہوتی ہیں اور جب بھی کوئی وبا کسی خاص مقام پر پہنچتی ہے تو جو بد نصیب ہوتے ہیں وہ اس آفت سے نہیں بچ پاتے۔ انسانی سائنس یہ سمجھتی ہے کہ وبائی امراض بدکاری یا نقصان دہ جرثوموں کے پھیلاؤ کی وجہ سے ہوتی ہیں اور انسانی سائنس ان کی رفتار، وسعت اور طریقہ انتقال کی نہ تو پیشین گوئی کر سکتی ہے اور نہ ہی اسے قابو کر سکتی ہے۔ اگرچہ لوگ وبائی امراض کا ہر ممکن طریقے سے مقابلہ کرتے ہیں لیکن وہ اس پر قابو نہیں پا سکتے کہ جب وبا پھیلتی ہے تو کون سے لوگ یا جانور لامحالہ متاثر ہوں گے۔ انسان صرف انھیں روکنے، ان کا مقابلہ کرنے اور ان کی تحقیق کرنے کی کوشش کر سکتا ہے لیکن کوئی بھی ان بنیادی وجوہات کو نہیں جانتا جو کسی بھی انفرادی وبا کے آغاز یا اختتام کی وضاحت کرتے ہیں نیز کوئی بھی ان پر قابو نہیں پا سکتا۔ کسی وبا کے بڑھنے اور پھیلاؤ کے پیش نظر، انسانوں کا پہلا اقدام ایک ویکسین تیار کرنا ہوتا ہے لیکن اکثر یہ وبا ویکسین کے تیار ہونے سے پہلے ہی اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔ وبائی بیماریاں کیوں ختم ہوتی ہیں؟ کچھ کہتے ہیں کہ جراثیم کو قابو میں کر لیا گیا ہے، جب کہ کچھ کہتے ہیں کہ موسموں کی تبدیلی کی وجہ سے وہ مر جاتے ہیں۔۔۔۔ اس کے بارے میں کہ آیا یہ قیاس آرائیاں قابل دفاع ہیں، سائنس کوئی وضاحت پیش نہیں کر سکتی اور نہ ہی کوئی درست جواب دے سکتی ہے۔ بنی نوع انسان کو نہ صرف ان قیاس آرائیوں بلکہ انسان کے فہم کی کمی اور وبائی امراض کے خوف پر بھی غور کرنا چاہیے۔ حتمی تجزیے میں کوئی نہیں جانتا کہ وبا کیوں شروع ہوتی ہے اور کیوں ختم ہوتی ہے۔ چونکہ بنی نوع انسان صرف سائنس پر یقین رکھتی ہے، مکمل طور پر اسی پر انحصار کرتی ہے اور خالق کے اختیار اور اس کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کرتی لہذا اسے کبھی بھی جواب حاصل نہیں ہوگا۔
خدا کی حاکمیت کے تحت، اس کے اختیار اور اس کے انتظام کی وجہ سے تمام اشیا پیدا ہوتی ہیں، زندہ رہتی ہیں اور فنا ہوجاتی ہیں۔ کچھ چیزیں خاموشی سے آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں اور انسان یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ کہاں سے آئی تھیں یا وہ کن نمونوں کی پیروی کرتی ہیں، انسان ان کے آنے اور جانے کی وجوہات کو بہت کم سمجھ سکتا ہے۔ حالانکہ انسان اپنی آنکھوں سے وہ سب دیکھ سکتا ہے جو اشیاء کے مابین ہو رہا ہے اور وہ اسے اپنے کانوں سے سن سکتا ہے اور اسے اپنے جسم سے تجربہ کر سکتا ہے؛ اگرچہ اس سب کا اثر انسان پر ہوتا ہے اور اگرچہ انسان لاشعوری طور پر مختلف مظاہر کی نسبتی ندرت، باقاعدگی، یا حتیٰ کہ اجنبیت کو بھی سمجھتا ہے، پھر بھی وہ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا کہ ان کے پیچھے کیا ہے، جو کہ خالق کی مرضی اور ذہن ہے۔ ان مظاہر کے پیچھے بہت سی کہانیاں ہیں، بہت سی چھپی ہوئی سچائیاں ہیں کیونکہ انسان بھٹک کر خالق سے بہت دور چلا گیا ہے اور چونکہ وہ اس حقیقت کو قبول نہیں کرتا کہ خالق کا اختیار ہر چیز پر حکومت کرتا ہے، اس لیے وہ خالق کے اختیار کی حاکمیت کے تحت رونما ہونے والی کسی بھی شے کو نہ تو وہ جان پائے گا اور نہ ہی سمجھ سکے گا۔ زیادہ تر حصے کے لیے، خدا کا تسلط اور حاکمیت انسانی تخیل، انسانی علم، انسانی فہم و ادراک اور جو کچھ انسانی سائنس حاصل کر سکتی ہے کی حدود سے پرے ہے۔ یہ تخلیق کردہ بنی نوع انسان کی حد نظر سے ماورا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں "چونکہ تم نے بذات خود خدا کی حاکمیت کا مشاہدہ نہیں کیا ہے تو تم یہ کیسے یقین کر سکتے ہو کہ ہر چیز اس کے اختیار کے تابع ہے؟" دیکھنا ہمیشہ یقین کرنا نہیں ہوتا اور نہ ہی ہمیشہ پہچاننا اور سمجھنا۔ لہذٓا یقین کہاں سے آتا ہے؟ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں، "یقین اشیا کے بنیادی اسباب اور حقیقت کا تجربہ کرنے اور لوگوں کی تشویش کی سطح اور گہرائی سے آتا ہے۔" اگر تم کو یقین ہے کہ خدا موجود ہے، لیکن تم پہچان نہیں سکتے ہو تو خدا کے تسلط اور ہر شے پر خدا کی حاکمیت کی حقیقت کو کم ہی تسلیم کرسکتے ہو۔ تم اپنے دل میں کبھی بھی یہ تسلیم نہیں کرو گے کہ خدا کے پاس اس قسم کا اختیار ہے اور یہ کہ خدا کا اختیار منفرد ہے۔ تم کبھی بھی سچ میں خالق کو اپنا رب اور اپنا خدا تسلیم نہیں کرو گے۔
بنی نوع انسان کی تقدیر اور کائنات کی تقدیر خالق کی حاکمیت سے جدا نہیں ہو سکتی
تم سب بالغ ہو۔ تم میں سے کچھ ادھیڑ عمر ہیں؛ کچھ بڑھاپے میں داخل ہو چکے ہیں۔ تم خدا پر یقین نہ کرنے سے اس پر ایمان لانے اور خدا پر یقین سے لے کر اس کے کلام کو قبول کرنے اور اس کے کام کا تجربہ کرنے تک کا سفر طے کر چکے ہو۔ تم کو خدا کی حاکمیت کا کتنا علم ہے؟ تم نے انسانی تقدیر کے حوالے سے کیا بصیرت حاصل کی ہے؟ کیا کوئی شخص زندگی میں وہ سب کچھ حاصل کر سکتا ہے جس کی وہ خواہش کرتا ہے؟ اپنی زندگی کی چند دہائیوں کے دوران تم ایسی کتنی چیزیں اپنی خواہش کے مطابق پورا کرنے میں کامیاب رہے ہو؟ کتنی چیزیں ایسی رونما ہو چکی ہیں جن کی تم نے کبھی توقع نہیں کی تھی؟ کتنی چیزیں خوشگوار حیرت کے طور پر آتی ہیں؟ لوگ اب بھی کتنی ایسی چیزوں کا انتظار اس امید میں کرتے ہیں کہ وہ پھل لائیں گی—لاشعوری طور پر صحیح وقت کا انتظار کرتے ہوئے، جنت کی خواہش کے انتظار میں؟ کتنی چیزیں ایسی ہیں جو لوگوں کو بے بس اور ناکام محسوس کرنے پر مجبور کرتی ہیں؟ ہر کوئی اپنی قسمت کے بارے میں امیدوں سے بھرا ہوا ہے، یہ توقع کرتے ہوئے کہ ان کی زندگی میں سب کچھ ان کی خواہش کے مطابق چلے گا، کہ وہ کھانے یا کپڑے کی خواہش نہیں کریں گے اور یہ کہ ان کا نصیب سنور جائے گا۔ کوئی بھی غربت اور پسماندگی کی زندگی نہیں جینا چاہتا۔ ایسی زندگی جو مشکلات سے بھری اور آفات سے گھری ہوئی ہو لیکن لوگ ان چیزوں کی پیش بینی نہیں کر سکتے یا ان پر قابو نہیں پا سکتے۔ شاید کچھ لوگوں کے لیے، ماضی محض تجربات کا مجموعہ ہے؛ وہ کبھی یہ سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ جنت کی خواہش کیا ہے اور نہ ہی وہ اس کی پروا کرتے ہیں کہ یہ ہے کیا۔ وہ روز بروز بغیر سوچے سمجھے جانوروں کی طرح اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں، وہ بنی نوع انسان کی قسمت یا انسان زندہ کیوں ہیں یا انھیں کیسے جینا چاہیے کی پرواہ نہیں کرتے۔ ایسے لوگ بڑھاپے کو پہنچ جاتے ہیں اور انھیں انسانی تقدیر کا کوئی فہم نہیں ہوتا اور مرتے دم تک انھیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ زندگی کیا ہے۔ یہ مردہ لوگ ہیں؛ وہ روح کے بغیر مخلوق ہیں؛ وہ درندے ہیں. اگرچہ لوگ تخلیق میں رہتے ہیں اور بہت سے طریقوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں جن میں دنیا ان کی مادی ضروریات کو پورا کرتی ہے اور اگرچہ وہ اس مادی دنیا کو مسلسل آگے بڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں، باوجود اس کے ان کا اپنا تجربہ جو ان کے دل اور ان کی روحیں محسوس اور تجربہ کرتی ہیں کا مادی اشیا سے کوئی سروکار نہیں اور کوئی بھی مادی شے تجربے کا بدل نہیں ہے۔ تجربہ کسی کے دل کی گہرائی میں ایک پہچان ہے، ایسی چیز جسے آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ پہچان انسانی زندگی اور انسانی تقدیر کے بارے میں کسی کے فہم اور ادراک میں ہوتی ہے۔ یہ اکثر اس فہم کی طرف لے جاتا ہے کہ ایک غیر مرئی مالک ہر شے کی تنظیم کر رہا ہے، انسان کے لیے سب کچھ ترتیب دے رہا ہے۔ ان سب کے مابین، فرد کے پاس تقدیر کی تنظیم و ترتیب کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ وہ خدا کے متعین کردہ راستے، خالق کی فرد کی تقدیر پر حاکمیت کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں۔ یہ ایک غیر متنازعہ حقیقت ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ تقدیر کے بارے کوئی کیا بصیرت اور رویہ رکھتا ہے، اس حقیقت کو کوئی بدل نہیں سکتا۔
تم ہر روز کہاں جاؤ گے، تم کیا کرو گے، تم کس سے ملو گے، تم کیا کہو گے، تمھارے ساتھ کیا ہوگا—کیا اس میں سے کسی چیز کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے؟ لوگ ان تمام واقعات کی پیش بینی نہیں کر سکتے، ان حالات کی نشوونما کے طریقہ کار پر قابو پانے کی تو بات ہی چھوڑ دو۔ زندگی میں، یہ ناگہانی واقعات ہر وقت ہوتے رہتے ہیں؛ یہ روزمرہ کے واقعات ہیں۔ یہ روزمرہ کی تبدیلیاں اور ان کے پیش آنے کے طریقے یا وہ نمونے ہیں جن کی وہ پیروی کرتے ہیں، بنی نوع انسان کے لیے مستقل یاددہانی ہیں کہ کچھ بھی بے ترتیب نہیں ہوتا، یہ کہ ہر واقعے کے وقوع پذیر ہونے کا عمل، ہر واقعے کی ناگزیر فطرت، انسانی مرضی سے تبدیل نہیں ہو سکتی۔ ہر واقعہ خالق کی طرف سے بنی نوع انسان کو ایک نصیحت ہے اور یہ پیغام بھی کہ انسان اپنی قسمت کا مالک نہیں ہو سکتا۔ ہر واقعہ بنی نوع انسان کے خیالی، فضول عزائم اور اپنی قسمت کو اپنے ہاتھ میں لینے کی خواہش کی تردید ہے۔ وہ بنی نوع انسان کے منہ پر یکے بعد دیگرے ایک زور دار طمانچے کی طرح ہیں جو لوگوں کو اس بات پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر رہے ہیں کہ آخر کون ان کی تقدیر پر حکمرانی اور قابو رکھتا ہےاور جیسے جیسے ان کے عزائم اور ان کی خواہشات بار بار ناکام اور چکناچور ہوتی ہیں، انسان فطری طور پر لاشعوری قبولیت کی منزل پر پہنچ جاتا ہے کہ تقدیر نے اس کے لیے کیا رکھا ہے—حقیقت کی قبولیت، آسمان کی مرضی اور خالق کی حاکمیت۔ ان روزمرہ کی تبدیلیوں سے لے کر پوری انسانی زندگیوں کی تقدیر تک، ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو خالق کے منصوبوں اور اس کی حاکمیت کو ظاہر نہ کرتی ہو۔ ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو یہ پیغام نہ بھیجتی ہو کہ "خالق کے اختیار سے تجاوز نہیں کیا جا سکتا،" جو اس ابدی سچائی کو بہم نہیں پہنچاتا کہ "خالق کا اختیار اعلیٰ ہے۔"
بنی نوع انسان اور کائنات کی تقدیر خالق کی حاکمیت کے ساتھ باہم مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں، یہ خالق کی تنظیم و ترتیب کے ساتھ لاینفک طور پر بندھے ہوئے ہیں؛ آخر میں، وہ خالق کے اختیار سے الگ نہیں ہیں۔ تمام اشیا کے قوانین میں،انسان خالق کی تنظیم و ترتیب اور اس کی حاکمیت کو سمجھتا ہے؛ تمام اشیا کی بقا کے اصولوں میں، وہ خالق کی حکمرانی کا ادراک کرتا ہے۔ تمام اشیا کی تقدیر میں وہ ان طریقوں کا اندازہ لگاتا ہے جن سے خالق اپنی حاکمیت کا استعمال کرتا ہے اور ان پر قابو رکھتا ہے اور انسانوں اور تمام اشیا کے دور حیات میں، انسان حقیقی معنوں میں تمام چیزوں اور جانداروں کے لیے خالق کی تنظیم و ترتیب کا تجربہ کرتا ہے، یہ مشاہدہ کرنے کے لیے آتا ہے کہ کس طرح وہ تنظیم و ترتیب اور انتظامات تمام زمینی قوانین، قواعد، اداروں، دیگر تمام طاقتوں اور قوتوں کی جگہ لیتے ہیں۔ ایسا ہونے پر، بنی نوع انسان یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ خالق کی حاکمیت کو کسی بھی مخلوق کے ذریعے پامال نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہ کوئی بھی طاقت خالق کی طرف سے پہلے سے مقرر کردہ واقعات اور چیزوں پر تسلط یا ردو بدل نہیں کر سکتی۔ انہی الہامی قوانین اور ضوابط کے تحت انسان اور تمام چیزیں نسل در نسل زندہ رہتی اور پھیلتی ہیں۔ کیا یہ خالق کے اختیار کا عملی اظہار نہیں ہے؟ اگرچہ انسان معروضی قوانین میں خالق کی حاکمیت، تمام واقعات اور تمام اشیا کے لیے اس کے نفاذ فرمان کو دیکھتا ہے۔ کتنے لوگ ہیں جو کائنات پر خالق کی حاکمیت کے اصول کو سمجھنے کے اہل ہیں؟ کتنے لوگ واقعی جان سکتے ہیں، پہچان سکتے ہیں، قبول کر سکتے ہیں اور اپنی قسمت کی ترتیب پر خالق کی حاکمیت کو تسلیم کر سکتے ہیں؟ کون، تمام اشیا پر خالق کی حاکمیت کی حقیقت پر یقین رکھنے کے بعد، واقعی یقین کرے گا اور تسلیم کرے گا کہ خالق انسانوں کی زندگیوں کی تقدیر کو بھی متعین کرتا ہے؟ کون ایمانداری سے اس حقیقت کو سمجھ سکتا ہے کہ انسان کی تقدیر خالق کی مٹھی میں ہے۔ جب اس حقیقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ بنی نوع انسان کی تقدیر پر حکمرانی اور اختیار رکھتا ہے تو بنی نوع انسان کو خالق کی حاکمیت کے بارے کس قسم کا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو اس حقیقت کا سامنا کرنے والے ہر انسان کو خود کرنا ہوگا۔
انسانی زندگی میں چھ مراحل
ہر شخص اپنی زندگی کے دوران، ایک نازک سنگم پر پہنچتا ہے۔ یہ سب سے بنیادی اور اہم ترین اقدامات ہیں جو زندگی میں کسی شخص کی قسمت کا تعین کرتے ہیں۔ ذیل میں ان راہ گذاروں کی مختصر تفصیل ہے جس سے ہر شخص کو اپنی زندگی کے دوران گزرنا لازمی ہے۔
پہلا مرحلہ: پیدائش
ایک شخص کہاں پیدا ہوتا ہے، وہ کس خاندان میں پیدا ہوتا ہے، اس کی جنس، خدوخال اور پیدائش کا وقت—یہ کسی شخص کی زندگی کے پہلے سنگم کی تفصیلات ہیں۔
کوئی بھی اس سنگم کی کچھ تفصیلات کا انتخاب نہیں کر سکتا۔ وہ سب خالق کی طرف سے بہت پہلے سے مقرر کی جا چکی ہیں۔ وہ کسی بھی طرح بیرونی ماحول سے متاثر نہیں ہوتیں اور انسان کا بنایا ہوا کوئی بھی عامل ان حقائق کو تبدیل نہیں کر سکتا، جو خالق کی طرف سے پہلے سے مقدر شدہ ہیں۔ کسی شخص کے پیدا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خالق نے اس شخص کے لیے جس تقدیر کا انتظام کیا ہے اس کا پہلا اقدام وہ پہلے ہی پورا کر چکا ہے۔ چونکہ وہ ان تمام تفاصیل کو بہت پہلے پیشگی مقرر کر چکا ہے اس لیے کسی کے پاس ان میں تبدیلی کرنے کا اختیار نہیں۔ کسی شخص کی متعاقب تقدیر سے قطع نظر، اس کی پیدائش کے حالات پہلے سے مقدر شدہ ہیں اور وہی رہتے ہیں جیسے وہ ہیں۔ وہ کسی بھی طرح سے زندگی میں کسی کی تقدیر سے متاثر نہیں ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ زندگی میں کسی کی قسمت پر خالق کی حاکمیت کو متاثر کرتے ہیں۔
1. خالق کے منصوبوں سے ایک نئی زندگی پیدا ہوتی ہے
پہلے سنگم کی کون سی تفصیلات—کسی کی جائے پیدائش، کسی کا خاندان، کسی کی جنس، کسی کی جسمانی شکل و شباہت، کسی کی پیدائش کا وقت—کیا کوئی شخص انتخاب کر سکتا ہے؟ ظاہر ہے، کسی کی پیدائش ایک مجہول واقعہ ہے۔ ایک شخص غیر ارادی طور پر ایک مخصوص جگہ، مخصوص وقت، مخصوص خاندان میں اور مخصوص جسمانی شکل و شباہت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ وہ فرد غیر ارادی طور پر کسی مخصوص گھرانے کا رکن بن جاتا ہے، ایک مخصوص شجرہ نسب کا حصہ ہوجاتا ہے۔ زندگی کے اس اولین مرحلے پر کسی کے پاس کوئی چناؤ نہیں ہے، بلکہ وہ ایک ایسے ماحول میں پیدا ہوتا ہے جو خالق کے منصوبے کے مطابق پہلے سے مقرر شدہ ہے، ایک مخصوص خاندان میں، مخصوص جنس اور ظاہری شکل و شباہت کے ساتھ اور ایک مخصوص وقت پر جو ایک شخص کی زندگی سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ اس نازک موڑ پر انسان کیا کر سکتا ہے؟ سب بتایا جا چکا ہے، کسی کے پاس کسی کی پیدائش سے متعلق ان تفصیلات میں سے کسی ایک کے بارے میں کوئی اختیار نہیں ہے۔ اگر یہ خالق کا مقرر شدہ اور اس کی راہنمائی نہ ہوتی تو اس دنیا میں نومولود زندگی کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں جانا ہے یا کہاں رہنا ہے، کوئی رشتہ نہیں ہوگا، کہیں سے تعلق نہیں ہوگا اور اس کا کوئی حقیقی گھر نہیں ہوگا لیکن خالق کے بے حد محتاط انتظامات کی وجہ سے، اس نومولود زندگی کے پاس رہنے کی جگہ ہے، والدین ہیں، ایک جگہ ہے جس سے اس کا تعلق ہے اور رشتہ دار ہیں نیز اسی وجہ سے وہ زندگی اپنے سفر پر چل پڑتی ہے۔ اس سارے عمل کے دوران، اس نئی زندگی کا وقوع خالق کے منصوبوں سے مقرر شدہ ہوتا ہے اور جو کچھ اس کے پاس آئے گا وہ خالق کی طرف سے عطا کردہ ہوگا۔ ایک رواں دواں آزاد جسم سے جس کا کوئی نام نہیں ہے، بتدریج گوشت اور خون، مرئی، حسی انسان، خدا کی تخلیقات میں سے ایک بن جاتا ہے، جو سوچتا ہے، سانس لیتا ہے اور سرد و گرم محسوس کرتا ہے؛ جو مادی دنیا میں مخلوق کی تمام معمول کی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتا ہے اور جو ان تمام چیزوں سے گزرے گا جن کا تجربہ ایک تخلیق شدہ انسان کو زندگی میں کرنا لازمی ہے۔ خالق کی طرف سے کسی فرد کی پیدائش کے مقررشدہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس شخص کو وہ تمام چیزیں عطا کرے گا جو بقا کے لیے ضروری ہیں اور اسی طرح حقیقت یہ ہے کہ ایک شخص کے پیدا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ خالق کی طرف سے بقا کے لیے ضروری تمام چیزیں حاصل کرے گا اور اس مقام کے بعد وہ ایک اور شکل میں جیئں گے، جو خالق کی طرف سے فراہم کی گئی ہے اور جو خالق کی حاکمیت کے تابع ہے۔
2. مختلف انسان مختلف حالات میں کیوں پیدا ہوتے ہیں
لوگ اکثر یہ تصور کرنا پسند کرتے ہیں کہ اگر وہ دوبارہ پیدا ہوئے تو کسی معروف خاندان میں پیدا ہوں گے۔ اگر وہ عورت ہوتیں تو وہ اسنو وائٹ کی طرح نظر آتیں اور ہر ایک انھیں پسند کرتا اور اگر وہ مرد ہوتے، تو وہ دلفریب شہزادے ہوتے، بلا ضرورت، پوری دنیا ان کے اشارے کی منتظر اور ایک آواز پر موجود ہوتی۔اکثر ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی پیدائش کے بارے میں بہت سے شبہات میں مبتلا ہوتے ہیں اور اپنی پیدائش سے بہت غیر مطمئن ہوتے ہیں، اپنے خاندان، اپنی شکل وشباہت، اپنی جنس، یہاں تک کہ اپنی پیدائش کے وقت کے بارے میں بھی ناراض رہتے ہیں۔ پھر بھی لوگ یہ کبھی نہیں سمجھ پاتے ہیں کہ وہ ایک خاص خاندان میں کیوں پیدا ہوئے یا وہ ایک خاص طرح کیوں نظر آتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ اس سے قطع نظر کہ وہ کہاں پیدا ہوئے، وہ کیسے نظر آتے ہیں، وہ خالق کے انتظام میں مختلف کردار ادا کرنے اور مختلف فرائض کو پورا کرنے کے لیے ہیں اور یہ مقصد کبھی نہیں بدلے گا۔ خالق کی نظر میں، کسی کی جائے پیدائش، اس کی جنس، اور اس کی جسمانی شکل سب عارضی چیزیں ہیں۔ وہ تمام نوع انسانی کے خدائی انتظام کے ہر مرحلے میں غیر اہم ذرات کا یا چھوٹی چھوٹی علامتوں کا سلسلہ ہیں اور کسی شخص کی حقیقی منزل اور نتائج کا تعین کسی خاص مرحلے میں اس کی پیدائش سے نہیں ہوتا بلکہ اس مشن سے ہوتا ہے جو وہ اپنی زندگی میں پورا کرتا ہے اور ان پر خالق کے اس فیصلے سے ہوتا ہے جب اس کا انتظامی منصوبہ مکمل ہوتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ہر اثر کا ایک سبب ہوتا ہے اور یہ کہ کوئی اثر بغیر سبب کے نہیں ہوتا۔ لہٰذا ہر کسی کی پیدائش لازمی طور پر اس کی موجودہ زندگی اور سابقہ زندگی دونوں سے منسلک ہے۔ اگر کسی شخص کی موت سے اس کی موجودہ میعاد حیات ختم ہو جاتی ہے تو ایک شخص کی پیدائش ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ اگر پرانا دور کسی شخص کی سابقہ زندگی کی نمائندگی کرتا ہے تو نیا دور قدرتی طور پر اس کی موجودہ زندگی ہے۔ چونکہ کسی کی پیدائش اس کی ماضی کی زندگی کے ساتھ ساتھ اس کی موجودہ زندگی سے بھی جڑی ہوئی ہے، اس لیے نتیجتاً مقام، خاندان، جنس، خدوخال اور اس طرح کے دیگر عوامل جو کسی کی پیدائش سے جڑے ہوئے ہیں، ان سب کا تعلق لازمی طور پر اس کے ماضی اور حال کی زندگی سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کی پیدائش کے عوامل نہ صرف اس کی سابقہ زندگی سے متاثر ہوتے ہیں بلکہ موجودہ زندگی میں اس کی تقدیر سے متعین ہوتے ہیں، جو مختلف حالات میں لوگوں کی پیدائش کے لیے ذمہ دار ہوتے ہیں: کچھ غریب گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں کچھ امیر گھرانوں میں، کچھ عام نسل کے ہیں جبکہ دوسرے معروف سلسلہ نسب رکھتے ہیں۔ کچھ جنوب میں پیدا ہوئے ہیں کچھ شمال میں، کچھ صحراؤں میں پیدا ہوتے ہیں کچھ سبزہ زاروں میں، کچھ لوگوں کی پیدائش پر فرحت و مسرت اور جشن منایا جاتا ہے اور کچھ آنسو آفت اور مصیبت لاتے ہیں۔ کچھ قیمتی ہونے کے لیے پیدا ہوتے ہیں اور کچھ لوگ خس و خاشاک کی طرح بہا دیئے جانے کے لیے پیدا ہوتے ہیں، کچھ عمدہ خصوصیات کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں کچھ کُبڑے ہوتے ہیں، کچھ دیکھنے میں خوبصورت ہیں اور کچھ دیکھنے میں بدصورت ہیں، کچھ نصف رات کو پیدا ہوتے ہیں کچھ دوپہر کے سورج کی روشنی میں پیدا ہوتے ہیں۔ ۔۔۔ تمام طرح کے لوگوں کی پیدائش اس تقدیر سے طے ہوتی ہے جو خالق نے ان کے لیے متعین کر رکھی ہے۔ ان کی پیدائش ان کی موجودہ زندگی میں ان کی تقدیر کے ساتھ ساتھ ان کے کردار اور فرائض کا تعین کرتی ہے جو وہ پورا کریں گے۔ یہ سب خالق کی حاکمیت کے تابع ہیں، جو اس کی طرف سے پہلے سے مقرر شدہ ہے۔ کوئی بھی اپنی مقرر شدہ قسمت سے بچ نہیں سکتا، کوئی ان کی پیدائش کو نہیں بدل سکتا اور کوئی اپنی قسمت کا انتخاب نہیں کر سکتا۔
دوسرا مرحلہ: بڑا ہونا
پیدائش کے گھرانے کی قسم کی بنیاد پر لوگ مختلف گھریلو ماحول میں پروان چڑھتے ہیں اور اپنے والدین سے مختلف سبق سیکھتے ہیں۔ یہ عوامل ان حالات کا تعین کرتے ہیں جن کے تحت کوئی شخص بلوغت کو پہنچتا ہے اور اس کی نشو و نما دوسرے اہم سنگم کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس سنگم پر بھی لوگوں کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ بھی طے شدہ، پہلے سے ترتیب شدہ ہے۔
1. خالق نے ہر شخص کے بلوغت کی عمر تک پہنچنے کے لیے مقررہ شرائط کی منصوبہ بندی کی
ایک شخص جب بڑا ہوتا ہے، ان لوگوں واقعات یا اشیا کا انتخاب نہیں کر سکتا جن سے وہ تہذیب سیکھتا ہے اور ان سے متاثر ہوتا ہے۔کوئی یہ نہیں چن سکتا کہ وہ کون سا علم یا مہارت حاصل کرتا ہے، کون سی عادتیں تشکیل پاتی ہیں۔ کسی کے والدین اور رشتہ دار کون ہیں، کس طرح کے ماحول میں پلا بڑھا ہے اس بارے میں بھی وہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کسی کے ارد گرد کے لوگوں، واقعات اور چیزوں کے ساتھ کسی کے تعلقات اور وہ کس طرح کسی کی ترقی کو متاثر کرتے ہیں یہ سب اس کے قابو سے باہر ہیں۔ پھر ان چیزوں کا فیصلہ کون کرتا ہے؟ ان کا انتظام کون کرتا ہے؟ چونکہ لوگوں کے پاس اس معاملے میں کوئی اختیار نہیں ہے، چونکہ وہ خود ان چیزوں کا فیصلہ نہیں کر سکتے اور چونکہ ظاہر ہے کہ وہ قدرتی طور پر شکل اختیار نہیں کرتے ہیں، لہٰذا یہ کہنے کی کوئی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی کہ ان تمام لوگوں، واقعات اور چیزوں کی تشکیل خالق کے ہاتھ میں ہے۔ بلاشبہ جس طرح خالق ہر شخص کی پیدائش کے مخصوص حالات کو ترتیب دیتا ہے، اسی طرح وہ ان مخصوص حالات کو بھی ترتیب دیتا ہے جن میں انسان بڑا ہوتا ہے۔ اگر کسی شخص کی پیدائش اس کے اردگرد کے لوگوں، واقعات اور اشیا میں تبدیلیاں لاتی ہے تو اس شخص کی نمو اور نشوونما لازمی طور پر ان پر بھی اثر انداز ہوگی۔ مثال کے طور پر، کچھ لوگ غریب گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں لیکن جب بڑے ہوتے ہیں تو دولت سے گھرے ہوتے ہیں، دوسرے امیر گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے خاندانوں کی دولت میں کمی کا سبب بنتے ہیں، اس طرح کہ وہ غریب ماحول میں پروان چڑھتے ہیں۔ کسی کی پیدائش ایک مقررہ اصول کے تحت نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی ناگزیر معین حالات کے تحت پروان چڑھتا ہے۔ یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں جن کا کوئی شخص تصور یا اختیار حاصل کر سکتا ہے۔ وہ کسی کی تقدیر کی پیداوار ہیں اور ان کا تعین ان کی تقدیر سے ہوتا ہے۔ یقیناً، بنیادی طور پر، یہ چیزیں اس تقدیر سے متعین ہوتی ہیں جو خالق ہر شخص کے لیے پہلے سے طے کرتا ہے۔ ان کا تعین اس شخص کی تقدیر پر خالق کی حاکمیت اور اس کے لیے اس کے منصوبوں سے ہوتا ہے۔
2. مختلف حالات جن کے تحت لوگ بڑے ہوتے ہیں، مختلف کرداروں کو جنم دیتے ہیں
کسی فرد کی پیدائش کے حالات بنیادی سطح پر اس ماحول اور حالات کو ثابت کرتے ہیں جن میں وہ بڑا ہوتا ہے اور جن حالات میں وہ بڑا ہوتا ہے وہ بھی اسی طرح اس کی پیدائش کے حالات کی پیداوار ہوتے ہیں۔ اس دوران، وہ شخص زبان سیکھنا شروع کر دیتا ہے اور اس کا ذہن بہت سی نئی چیزوں سے سامنا کرنا اور ہم آہنگ ہونا شروع کر دیتا ہے، یہ ایک ایسا عمل ہوتا ہے جس کے دوران شخص مسلسل بڑھتا رہتا ہے۔ وہ چیزیں جو ایک فرد اپنے کانوں سے سنتا ہے، اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اپنے دماغ سے جذب کر لیتا ہے وہ بتدریج انسان کی اندرونی دنیا کو پر اور متحرک کر دیتی ہیں۔ وہ لوگ، واقعات اور وہ اشیا جو ان کے رابطے میں آتی ہیں منجملہ عقل سلیم، علم، اور ہنر جو کوئی سیکھتا ہے اور سوچنے کے طریقے جو کسی پر اثرانداز ہوتے ہیں، جن کے ساتھ کسی کو سمجھایا جاتا ہے یا سکھایا جاتا ہے، وہ سب زندگی میں انسان کی قسمت کی راہنمائی کریں گے اور اثر انداز ہوں گے۔جیسے جیسے کوئی شخص بڑا ہوتا ہے اس دوران وہ جو زبان سیکھتا ہے اور اس کا جو طرز فکر ہوتا ہے وہ اس ماحول سے الگ نہیں ہوتا جس میں وہ اپنی جوانی گزارتا ہے اور وہ ماحول والدین اور بھائی بہنوں اور دوسرے لوگوں، واقعات اور اطراف کی چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ لہٰذا، کسی فرد کی نشوونما کی روش اس ماحول سے متعین ہوتی ہے جس میں وہ بڑا ہوتا ہے نیز اس کا انحصار ان لوگوں، واقعات اور چیزوں پر بھی ہوتا ہے جو اس وقت اس کے رابطے میں آتی ہیں۔ چونکہ انسان جن حالات میں پروان چڑھتا ہے وہ بہت پہلے سے پیشگی مقرر شدہ ہوتا ہے، لہٰذا اس عمل کے دوران انسان جس ماحول میں رہتا ہے وہ بھی قدرتی طور پر پہلے سے متعین ہوتا ہے۔ اس کا فیصلہ کسی شخص کے انتخاب اور ترجیحات سے نہیں بلکہ خالق کے منصوبوں کے مطابق ہوتا ہے، جو خالق کے محتاط انتظامات اور زندگی میں انسان کی قسمت پر اس کی حاکمیت سے طے ہوتا ہے۔ لہٰذا، بڑے ہونے کے دوران کوئی بھی انسان جن لوگوں سے ملتا ہے اور جن چیزوں سے اس کا واسطہ پڑتا ہے وہ سب فطری طور پر خالق کی ترتیب و تنظیم سے جڑی ہوتی ہیں۔ لوگ اس قسم کے پیچیدہ باہمی تعلقات کی پیش بینی نہیں کر سکتے، نہ ہی وہ ان پر قابو پا سکتے ہیں اور نہ ہی انھیں سمجھ سکتے ہیں۔ بہت سی مختلف اشیا اور لوگوں کا اس ماحول پر اثر پڑتا ہے جس میں انسان پروان چڑھتا ہے اور کوئی بھی انسان اس قابل نہیں ہے کہ وہ ارتباط کے اتنے وسیع جال کو ترتیب دے سکے۔ سوائے خالق کے کوئی بھی شخص یا چیز تمام لوگوں، چیزوں اور واقعات کے ظہور کو قابو میں نہیں کر سکتے، نہ ہی وہ انھیں برقرار رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے غیاب پر قابو پا سکتے ہیں اور یہ ارتباط کا ایک ایسا وسیع و عریض جال ہے جو فرد کی نشو و نما کو شکل عطا کرتا ہے جیسا کہ خالق نے پہلے سے مقرر کر رکھا ہے نیز مختلف اقسام کے ماحول بناتا ہے جس میں لوگ بڑے ہوتے ہیں۔ یہ وہ ہے جو خالق کے کام کے انتظام کے لیے لازمی مختلف کرداروں کو تخلیق کرتا ہے، لوگوں کو اپنے مشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ٹھوس، مضبوط بنیادیں رکھتا ہے۔
تیسرا مرحلہ: خود انحصاری
ایک شخص کے بچپن اور جوانی کے مرحلے سے گزرنے نیز بتدریج اور لامحالہ بالغ ہونے کے بعد، ان کے لیے اگلا مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنی نوجوانی سے مکمل طور پر الگ ہو جائیں، اپنے والدین کو الوداع کہہ دیں اور ایک آزاد بالغ فرد کے طور پر اپنی راہ چل پڑیں۔ اس مقام پر، انھیں ان تمام افراد، واقعات اور اشیا کا سامنا کرنا ہوگا جن کا سامنا ایک بالغ کو بہر صورت کرنا چاہیے، انھیں اپنی قسمت کے ان تمام حصوں کا سامنا کرنا ہوگا جو جلد ہی خود کو اس کے سامنے پیش کریں گے۔ یہ تیسرا سنگم ہے جس سے انسان کو ہر صورت گزرنا ہے۔
1. خود انحصار ہوتے ہی، ایک شخص خالق کی حاکمیت کا تجربہ محسوس کرنا شروع کردیتا ہے
اگر کسی شخص کی پیدائش اور اس کی نشوونما زندگی کے سفر کے لیے "ابتدائی دور" ہے، جو کسی شخص کی تقدیر کا سنگ بنیاد ہے تو پھر اس کی خود انحصاری زندگی میں اس کی تقدیر کے ساتھ افتتاحی خود کلامی ہے۔ اگر کسی شخص کی پیدائش اور پرورش وہ دولت ہے جو انھوں نے زندگی میں اپنی قسمت کی تیاری کے لیے جمع کی ہے تو اس شخص کی خودانحصاری کا وقت وہ ہے جب وہ اس دولت کو خرچ کرنا یا اس میں اضافہ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جب کوئی اپنے والدین سے علیحدہ ہوتا ہے اور خود مختار ہو جاتا ہے تو اسے جن سماجی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جس قسم کا کام اور بہترمستقبل اس کے لیے دستیاب ہوتے ہیں، وہ دونوں تقدیر کے ذریعے طے کیے جاتے ہیں اور اس کا والدین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ کالج میں اچھے بنیادی مضامین کا انتخاب کرتے ہیں اور اس کا نتیجہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد تسلی بخش نوکری کی شکل میں برآمد ہوتا ہے اور وہ اپنی زندگی کے سفر میں پہلی کامیاب چھلانگ لگاتے ہیں۔ کچھ لوگ بہت سے متنوع ہنر سیکھتے ہیں اور اس میں مہارت رکھتے ہیں لیکن پھر بھی کبھی کوئی ایسی نوکری نہیں حاصل کر پاتے جو ان کے لیے موزوں ہو، بہتر مستقبل کی بات تو درکنار، وہ کبھی اپنا مقام ہی حاصل نہیں کر پاتے؛ اپنی زندگی کے سفر کے آغاز میں، وہ اپنے آپ کو ہر موڑ پر ناکام پاتے ہیں، پریشانیوں میں گھرے ہوئے، ان کے امکانات مایوس کن اور ان کی زندگی غیر یقینی ہوتی ہے۔ کچھ لوگ جی جان سے پڑھائی کرتے ہیں، پھر بھی بمشکل انھیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ناکامی ان کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے اور وہ کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں کرپائیں گے، زندگی کے سفر میں ان کی پہلی آرزو بخارات میں تحلیل ہو نے کے باوصف۔ یہ جانے بغیر کہ آگے کا راستہ ہموار ہے یا سنگلاخ، وہ پہلی بار محسوس کرتے ہیں کہ انسانی تقدیر کتنے تغیرات سے بھری ہوئی ہے، لہٰذا وہ زندگی کو امید اور خوف سے دیکھتے ہیں۔ کچھ لوگ بہت زیادہ تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود کتابیں لکھتے ہیں اور شہرت حاصل کر لیتے ہیں اور کچھ لوگ، اگرچہ تقریباً مکمل طور پر ناخواندہ ہوتے ہیں، کاروبار میں خوب پیسہ کماتے ہیں اور اس طرح وہ اپنی کفالت کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔۔۔۔ کوئی شخص کون سا پیشہ منتخب کرتا ہے، کس طرح کی زندگی گزارتا ہے: کیا لوگوں کو اس بات پر کوئی اختیار ہے کہ آیا وہ ان معاملات میں اچھا انتخاب کرتے ہیں یا برا؟ کیا یہ چیزیں لوگوں کی خواہشات اور فیصلوں کے مطابق ہیں؟ زیادہ تر لوگوں کی مندرجہ ذیل خواہشات ہوتی ہیں: کم کام کرنا اور زیادہ پیسہ کمانا، دھوپ اور بارش میں محنت نہ کرنا، اچھا کپڑا پہننا، ہر جگہ چمکتے دمکتے نظر آنا، دوسروں سے بالاتر ہونا اور اپنے آباؤ اجداد کے لیے باعث شرف ہونا۔ لوگ کمال کی امید رکھتے ہیں لیکن جب وہ اپنی زندگی کے سفر میں پہلا قدم رکھتے ہیں تو انھیں بتدریج احساس ہوتا ہے کہ انسانی تقدیر کس قدر ناقص ہے اور پہلی بار وہ اس حقیقت سے صحیح معنوں میں واقف ہوتے ہیں کہ اگرچہ کوئی شخص کسی کے مستقبل کے لیے جرات مندانہ منصوبے بنا سکتا ہے، کوئی بھی دلیرانہ تخیلات میں پناہ لے سکتا ہے لیکن کسی کے پاس اپنے خوابوں کی تکمیل کی صلاحیت یا طاقت نہیں ہے اور کوئی بھی اپنے مستقبل کو قابو کرنے کی حالت میں نہیں ہے۔ خوابوں اور حقائق کے درمیان ہمیشہ ایک فاصلہ رہے گا جس کا ہر فرد کو سامنا کرنا پڑے گا۔ چیزیں کبھی بھی ایسی نہیں ہوتیں جیسا کہ کوئی چاہتا ہے اور اس طرح کے حقائق کا سامنا کرنے والے لوگ کبھی بھی تشفی یا اطمینان حاصل نہیں کر سکتے۔ کچھ لوگ اپنی تقدیر بدلنے کی کوشش میں کسی بھی قابل تصور حد تک جا سکتے ہیں، اپنی روزی روٹی اور مستقبل کی خاطر بڑی کوششیں کریں گے اور بڑی قربانیاں دیں گے لیکن آخر کار، چاہے وہ اپنی سخت محنت سے اپنے خوابوں اور خواہشات کو پورا ہی کیوں نہ کر لیں، وہ اپنی تقدیر کو کبھی نہیں بدل سکتے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انھوں نے کس قدر حتی المقدور کوشش کی ہے، تقدیر نے ان کے لیے جو مقرر کر دیا ہے وہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ قابلیت، ذہانت اور قوت ارادی میں فرق سے قطع نظر، تقدیر کے سامنے سب برابر ہیں، وہ بڑے اور چھوٹے، اعلیٰ و ادنیٰ، بلند و بالا،عالی مرتبت اور ذلیل کے درمیان تمیز نہیں کرتی۔ کوئی فرد کس پیشے کے پیچھے بھاگتا ہے، زندگی گزارنے کے لیے کون کیا کرتا ہے اور کون زندگی میں کتنی دولت اکٹھی کرتا ہے، اس کا فیصلہ کسی کے والدین، کسی کی قابلیت، کسی کی کوشش یا کسی کے عزائم سے نہیں ہوتا بلکہ یہ خالق کی طرف سے پہلے سے مقرر شدہ ہوتا ہے۔
2. اپنے والدین کو چھوڑنا اور زندگی کے تھیٹر میں اپنا کردار ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرنا
جب کوئی بالغ ہو جاتا ہے تو وہ اپنے والدین کو چھوڑ کر اپنے بل پر کھڑا ہونے کے قابل ہو جاتا ہے اور یہ وہ مقام ہے جب انسان واقعی اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیتا ہے، جیسے کہ دھند ختم ہو رہی ہے اور زندگی میں اس کا مشن آہستہ آہستہ واضح ہوتا جا رہا ہے۔ عام طور پر، وہ فرد اس وقت بھی اپنے والدین سے قریبی طور پر جڑا رہتا ہے لیکن چونکہ اس کا مشن اور زندگی میں اسے جو کردار ادا کرنا ہے دونوں کا اس کے والدین سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے جب ایک شخص بتدریج خود انحصار ہوتا ہے تو یہ گہرا رشتہ ً جوہری طور پر ٹوٹ جاتا ہے۔ حیاتیاتی نقطہ نظر سے، پھر بھی لوگ لاشعوری طور پر اپنے والدین پر منحصر ہونے سے خود کو نہیں روک پاتے لیکن اگر معروضی بات کی جائے تو، ایک بار جب وہ مکمل طور پر بڑے ہو جاتے ہیں، اپنے والدین سے الگ ان کی اپنی مکمل زندگیاں ہوتی ہیں اور لازماً انھیں وہ کردار ادا کرنا ہوتا جس کے لیے وہ آزاد ہوتے ہی فوراً مکلف ہوجاتے ہیں۔ پیدائش اور بچوں کی پرورش کے علاوہ، والدین کی ذمہ داری اپنے بچوں کی زندگی میں صرف یہ ہے کہ وہ انھیں بڑا ہونے کے لیے ایک مناسب ماحول فراہم کریں کیونکہ خالق کی مقرر کردہ تقدیر کے علاوہ کسی بھی چیز کا انسان کی قسمت پر اثر نہیں ہوتا۔ کسی شخص کا مستقبل کیسا ہوگا اس پر کسی کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ بہت پہلے سے طے شدہ ہے اور کسی کے والدین کسی کی بھی تقدیر نہیں بدل سکتے۔ جہاں تک تقدیر کی بات ہے، ہر کوئی خود مختار ہے اور ہر ایک کی اپنی قسمت ہے لہذا، کسی کے والدین زندگی میں کسی کی تقدیر کو روک نہیں سکتے یا زندگی میں کسی کے کردار پر ہلکا سا بھی اثر نہیں ڈال سکتے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس گھرانے میں پیدا ہونا اس کا مقدر ہوا اور جس ماحول میں انسان پروان چڑھا ہے وہ زندگی میں مشن کی تکمیل کے لیے شرط لازم سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ وہ کسی بھی طرح سے زندگی میں کسی شخص کی قسمت یا اس قسم کی تقدیر کا تعین نہیں کرتے جس کے اندر کوئی شخص اپنا مشن پورا کرتا ہے لہٰذا، کسی کے والدین زندگی میں کسی کے مشن کو پورا کرنے میں مدد نہیں کر سکتے، ٹھیک اسی طرح، کسی کے رشتہ دار بھی زندگی میں کوئی کردار اپنانے میں کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ کوئی اپنے مشن کو کیسے پورا کرتا ہے اور کس طرح کے زندہ ماحول میں کوئی اپنا کردار ادا کرتا ہے اس کا تعین زندگی میں مکمل طور پر اس کی قسمت پر ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، کوئی اور معروضی حالات کسی شخص کے فرائض منصبی پر اثر انداز نہیں ہو سکتے، جو خالق کی طرف سے پہلے سے طے شدہ ہے۔ تمام لوگ خاص ماحول میں بالغ ہوتے ہیں جس میں وہ بڑے ہوتے ہیں۔ پھر دھیرے دھیرے، قدم بہ قدم، وہ زندگی میں اپنی راہیں طے کرتے ہیں اور خالق کی طرف سے ان کے لیے طے شدہ تقدیر کو پورا کرتے ہیں۔ فطری طور پر، غیر ارادی طور پر، وہ بنی نوع انسان کے وسیع سمندر میں داخل ہوتے ہیں اور زندگی میں اپنے عہدے سنبھال لیتے ہیں، جہاں وہ خالق کی تقدیر کی خاطر، اس کی حاکمیت کی خاطر تخلیق کردہ مخلوقات کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھانا شروع کر دیتے ہیں۔
چوتھا مرحلہ: شادی
جیسے جیسے کوئی بڑا اور بالغ ہوتا ہے، وہ اپنے والدین اور اس ماحول سے جس میں وہ پیدا ہوتا اور پرورش پاتا ہے زیادہ دور ہوجاتا ہے اور ایک ایسے انداز میں زندگی کی سمت اور مقاصد تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے جو اس کے والدین سے مختلف ہوتا ہے۔ اس دوران، کسی کو اپنے والدین کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ ایک ایسے ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے جس کے ساتھ کوئی اپنی زندگی گزار سکے، یعنی شریک حیات۔ ایک ایسا شخص جس کے ساتھ کسی کی تقدیر منسلک کر دی گئی ہے۔ لہذا، خودانحصاری کے بعد زندگی کا پہلا بڑا واقعہ شادی ہے یعنی چوتھا مرحلہ جس سے بہر صورت گزرنا ہے۔
1. انفرادی انتخاب شادی میں نہیں بدلتا
شادی کسی بھی شخص کی زندگی میں ایک اہم واقعہ ہے؛ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان فی الواقع مختلف قسم کی ذمہ داریاں سنبھالنا اور مختلف قسم کے فرائض کو بتدریج مکمل کرنا شروع کر دیتا ہے۔ قبل اس کے کہ لوگ خود شادی کا تجربہ کریں اس کے بارے میں بہت سے وہم وگمان رکھتے ہیں اور یہ تمام اوہام بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔ خواتین تصور کرتی ہیں کہ ان کا ہمسر دلکش شہزادہ ہوگا، اور مرد تصور کرتے ہیں کہ اس کی منکوحہ اسنو وائٹ ہوگی۔ یہ خیالات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ شادی کے لیے ہر شخص کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں، ان کے اپنے تقاضے اور معیارات ہوتے ہیں۔ اگرچہ اس برے دور میں لوگوں پر شادی کے بارے میں تحریف شدہ پیغامات کی مسلسل بھرمار کی جاتی ہے، جس کا نتیجہ اضافی تقاضوں کی صورت میں نکلتا ہے اور لوگوں کو ہر طرح کا متاع سفر اور عجیب و غریب رویہ عطا کرتا ہے لیکن کوئی بھی شخص جو شادی کے تجربے سے دوچار ہوا ہے وہ جانتا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی اسے کیسے سمجھتا ہے، اس کے بارے میں کسی کا رویہ کیا ہے، وہ یہ جانتا ہے کہ شادی ایک فرد کے اختیار کا معاملہ نہیں ہے۔
ایک شخص زندگی میں کئی لوگوں سے ملتا ہے، لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ شادی میں اس کا ساتھی کون ہو گا۔ اگرچہ شادی کے موضوع پر ہر ایک کے اپنے اپنے خیالات اور ذاتی موقف ہوتا ہے لیکن کوئی بھی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ کون واقعا، بالآخراس کا جیون ساتھی بنے گا، اور اس معاملے میں اس کے اپنے خیالات زیادہ اہم نہیں ہوتے۔ کسی من پسند انسان سے ملنے کے بعد، تم اس شخص کا تعاقب کر سکتے ہو لیکن کیا وہ تم میں دلچسپی رکھتے ہیں آیا وہ تمھارا ساتھی بننے کے اہل ہیں—یہ فیصلہ کرنا تمھارے اختیار میں نہیں ہے۔ تمھاری چاہت کا ہدف لازمی طور پر وہ شخص نہیں ہے جسے تم اپنا شریک حیات بنانا چاہتے ہو اور اس دوران میں کوئی ایسا شخص جس کی تم نے کبھی توقع نہ کی ہو خاموشی سے تمھاری زندگی میں داخل ہو سکتا ہے اور تمھارا ساتھی بن سکتا ہے، جو تمھاری تقدیر کا سب سے اہم عنصر ہے، جو تمھارا دوسرا نصف ہے، جس کے ساتھ تمھاری تقدیر لا ینفک طور پر جڑی ہوئی ہے اوراس طرح، اگرچہ دنیا میں لاکھوں شادیاں ہوتی ہیں لیکن ہر شادی مختلف ہے: بہت سی شادیاں غیر تسلی بخش ہیں، بہت سی آسودہ ہیں؛ بہت سے مشرق اور مغرب میں پھیلے ہوئے ہیں، بہت سے شمال اور جنوب میں؛ بہت سے بہترین امتزاج رکھتے ہیں، بہت سوں کے سماجی درجے مساوی ہیں۔ بہت سے خوش اور ہم آہنگ ہیں، بہت سے کرب میں اور غمگین ہیں، بہت سے لوگ دوسروں سے حسد کرتے ہیں، بہت سے لوگوں کو غلط سمجھا جاتا ہے اور ان پر طنز کیا جاتا ہے، بہت سے لوگ خوشی سے لبریز ہوتے ہیں، بہت سے آنسوؤں سے لت پت اور مایوس ہوتے ہیں۔۔۔۔ شادی کی ان بے شمار اقسام میں، انسان اپنے تئیں اپنی شادی میں وفاداری اور زندگی بھر کی وابستگی ظاہر کرتا ہے،وہ محبت، لگاؤ،یکجان ہونے، یا دست برداری اور سمجھ نہ پانے کا اظہار کرتا ہے۔ کچھ اپنی شادی میں دھوکہ دیتے ہیں، یا حتی اس سے نفرت محسوس کرتے ہیں۔ خواہ شادی بذات خود خوشی لاتی ہو یا تکلیف، شادی میں ہر ایک کا مشن خالق کی طرف سے پہلے سے مقرر ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ یہ مشن کچھ ایسا ہے جسے بہر صورت ہر ایک کو پورا کرنا ہے۔ ہر شخص کی تقدیر جو شادی میں پوشیدہ ہے، ناقابل تغیر ہے اور خالق کی طرف سے بہت پہلے سے مقرر ہے۔
2. شادی دونوں شراکت داروں کی قسمت سے جنم لیتی ہے
شادی انسان کی زندگی کا ایک اہم سنگم ہے۔ یہ کسی شخص کی تقدیر کی پیداوار ہے اور کسی کی تقدیر کا ایک اہم ربط ہے؛ اس کی بنیاد کسی فرد کی انفرادی مرضی یا ترجیحات پر قائم نہیں ہے اور یہ بیرونی عوامل سے متاثر نہیں ہے بلکہ مکمل طور پر دونوں فریقوں کی تقدیر نیز جوڑے کے دونوں ارکان کی قسمت کے لیے خالق کے انتظامات اور قضا و قدر کے ذریعے طے شدہ ہے۔ سطحی طور پر، شادی کا مقصد نسل انسانی کو جاری رکھنا ہے لیکن حقیقت میں، شادی ایک رسم کے سوا کچھ نہیں ہے جس سے ایک فرد کسی مشن کی تکمیل کے عمل میں گزرتا ہے۔ شادی میں لوگ محض اگلی نسل کی پرورش کا کردار ادا نہیں کرتے؛ وہ شادی کو برقرار رکھنے میں شامل تمام مختلف کرداروں کو اور ان کرداروں کو پورا کرنے کے لیے جن فرائض کی ضرورت ہوتی ہے اسے اپناتے ہیں۔ چونکہ کسی کی پیدائش لوگوں، واقعات اور اس کے اطراف ہونے والی تبدیلیوں پر اثر انداز ہوتی ہے، اس لیے شادی بھی ان لوگوں، واقعات اور چیزوں کو لامحالہ متاثر کرے گی اور اس کے علاوہ، ان تمام لوگوں کو مختلف طریقوں سے بدلے گی۔
جب کوئی خود انحصاری میں قدم رکھتا ہے تو زندگی میں اپنا سفر شروع کرتا ہے، جو اسے قدم بہ قدم ان لوگوں، واقعات اور چیزوں کی طرف لے جاتا ہے جن کا تعلق شادی سے ہے۔ اسی وقت، دوسرا شخص جو اس شادی میں شامل ہو گا، قدم بہ قدم، انہی لوگوں، واقعات اور چیزوں کی طرف آ رہا ہے۔ خالق کی حاکمیت کے تحت، متعلقہ تقدیر کے ساتھ دوغیر متعلقہ افراد آہستہ آہستہ شادی کے بندھن میں داخل ہوتے ہیں اور معجزانہ طور پر، ایک خاندان بن جاتے ہیں: "ایک ہی رسی سے چمٹی ہوئی دو ٹڈیاں۔" لہٰذا، جب کسی کی شادی ہو جاتی ہے تو زندگی میں اس کا سفر اس کے دوسرے ہمسر کو متاثر کرے گا اور ٹھیک اسی طرح زندگی میں کسی کے شریک حیات کا سفر زندگی میں اس کی اپنی قسمت کو متاثر کرے گا۔ بہ الفاظ دیگر، انسانی تقدیریں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں اور کوئی بھی زندگی میں اپنے مشن یا اپنے کردار کو دوسروں سے مکمل آزاد ہوکر ادا نہیں کر سکتا۔ کسی کی پیدائش کا اثر رشتوں کی ایک بڑی زنجیر پر پڑتا ہے۔ بڑے ہونے میں بھی تعلقات کی ایک پیچیدہ زنجیر شامل ہوتی ہے اور اسی طرح، شادی لامحالہ انسانی روابط کے ایک وسیع اور پیچیدہ جال کے اندر موجود ہوتی ہے اور اسے برقرار رکھا جاتا ہے، جس میں اس جال کا ہر رکن شامل ہوتا ہے اور ہر اس شخص کی قسمت کو متاثر کرتا ہے جو اس کا حصہ ہے۔ شادی دونوں اراکین کے خاندانوں، ان کے حالات، ان کی ظاہری شکل، ان کی عمر، ان کی خوبیوں، ان کی صلاحیتوں، یا کسی اور عوامل کا ماحصل نہیں ہے بلکہ یہ ایک مشترکہ مشن اور متعلقہ تقدیر سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ شادی کی اصل ہے، انسانی تقدیر کا ماحصل ہے جو خالق کی طرف سے تنظیم و ترتیب د یا گیا ہے۔
پانچواں مرحلہ: نسل
شادی کے بعد انسان اگلی نسل کی پرورش شروع کرتا ہے۔ کسی کے کتنے اور کس قسم کے بچے ہیں اس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا؛ یہ بھی ایک شخص کی تقدیر سے طے ہوتا ہے، جو خالق کی طرف سے پہلے سے مقررشدہ ہے۔ یہ پانچواں مرحلہ ہے جس سے انسان کو بہر صورت گزرنا ہے۔
اگر کوئی کسی کے بچے کا کردار نبھانے کے لیے پیدا ہوتا ہے تو کوئی کسی کے والدین کا کردار نبھانے کے لیے اگلی نسل کو پالتا ہے۔ کرداروں میں یہ تبدیلی مختلف زاویوں سے زندگی کے مختلف مراحل کا تجربہ کرنے کا موقعہ عطا کرتی ہے۔ یہ زندگی کے تجربے کا مختلف مجموعہ فراہم کرتی ہے جس کے ذریعے انسان کو خالق کی حاکمیت کا ادراک ہوتا ہے، جو ہمیشہ اسی طرح نافذ العمل ہے اور جس کے ذریعے اس حقیقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ کوئی بھی خالق کی تقدیر سے تجاوز نہیں کر سکتا اور نہ ہی اسے تبدیل کر سکتا ہے۔
1. اس پر کسی کو کوئی اختیار نہیں کہ کسی کی اولاد کیا بنتی ہے
پیدائش، افزائش اور شادی سبھی مختلف اقسام اور مختلف درجات کی مایوسیاں لاتی ہیں۔ کچھ لوگ اپنے خاندان یا اپنی جسمانی شکل و شباہت سے مطمئن نہیں ہوتے۔ کچھ اپنے والدین کو ناپسند کرتے ہیں؛ کچھ لوگ اس ماحول کے بارے میں ناراض یا شاکی ہوتے ہیں جس میں وہ پلے بڑھے ہیں اور بیشتر افراد کے لیے، ان تمام مایوسیوں کے مابین، شادی سب سے زیادہ غیر اطمینان بخش امر ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کوئی شخص اپنی پیدائش، بلوغت، یا شادی سے کتنا غیر مطمئن ہے، ہر وہ شخص جو ان معاملات سے گزرا ہے وہ جانتا ہے کہ کوئی اس بات کا انتخاب نہیں کر سکتا کہ وہ کہاں اور کب پیدا ہوگا، وہ کیسا نظر آئے گا، اس کے والدین کون ہوں گے اور اس کی شریک حیات کون ہوگی، اسے تو صرف آسمان کی مرضی قبول کرنا ہوگی۔ پھر بھی جب لوگوں کے لیے اگلی نسل کی پرورش کا وقت آتا ہے تو وہ ان تمام خواہشات کو اپنی اولاد پر تھوپنے کی کوشش کریں گے جن کو وہ اپنی زندگی کے پہلے نصف حصے میں پورا کرنے میں ناکام رہے تھے، اس امید پر کہ ان کی اولاد ان کی زندگی کے پہلے نصف حصے کی تمام ناکامیوں و محرومیوں کو دور کردے گی۔ لہٰذا لوگ اپنے بچوں کے بارے میں طرح طرح کے تصورات میں مبتلا ہوتے ہیں:یہ کہ ان کی بیٹیاں بڑی ہو کر ہوش ربا حسینائیں بنیں گی، ان کے بیٹے خوش باش شریف زادے ہوں گے۔ یہ کہ ان کی بیٹیاں تہذیب یافتہ اور باصلاحیت ہوں گی اور ان کے بیٹے شاندار طالب علم اور معروف کھلاڑی ہوں گے؛ یہ کہ ان کی بیٹیاں شریف، نیک اور سمجھدار ہوں گی اور ان کے بیٹے ذہین، قابل اور حساس ہوں گے۔ وہ امید کرتے ہیں کہ ان کی اولاد، خواہ وہ بیٹیاں ہوں یا بیٹے، اپنے بزرگوں کا احترام کرے گی، اپنے والدین کا خیال رکھے گی، ہر ایک ان سے پیار اور ان کی تعریف کرے گا۔۔۔۔ اس نقطے پر، زندگی کی امیدیں نئے سرے سے پھوٹ پڑتی ہیں اور لوگوں کے دلوں میں نئے جذبے جاگ اٹھتے ہیں۔ لوگ جانتے ہیں کہ وہ اس زندگی میں بے بس اور ناامید ہیں کہ انھیں ہجوم سے الگ ہونے کا کوئی اور موقع یا کوئی اور امید نہیں ملے گی اور یہ کہ ان کے پاس اپنی قسمت کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس طرح وہ اپنی تمام امیدوں، اپنی غیر حاصل شدہ خواہشات اور نظریات کو اگلی نسل کے سامنے پیش کرتے ہیں، اس امید پر کہ ان کی اولاد ان کے خوابوں کو حاصل کرنے اور ان کی خواہشات کو پورا کرنے میں ان کی مدد کر سکتی ہے۔ یہ کہ ان کی بیٹیاں اور بیٹے خاندان کا نام روشن کریں گے اہم، امیر، یا مشہور بنیں گے۔ مختصراً، وہ اپنے بچوں کا نصیب روبہ فروغ دیکھنا چاہتے ہیں۔ لوگوں کے منصوبے اور تصورات کامل ہیں؛ کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کے بچوں کی تعداد، ان کے بچوں کی شکل و صورت، صلاحیتیں وغیرہ یہ ان کے لیے نہیں ہے کہ وہ فیصلہ کریں اور یہ کہ ان کے بچوں کی قسمت کا خفیف ترین حصہ بھی ان کے ہاتھ میں نہیں ہے؟ انسان اپنی قسمت کا مالک نہیں ہے، پھر بھی وہ نوجوان نسل کی تقدیر بدلنے کی امید رکھتا ہے۔ وہ اپنی تقدیر سے خود فرار حاصل نہیں کر سکتا، پھر بھی وہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی قسمت پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے۔ کیا وہ اپنے بارے میں خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہیں؟ کیا یہ انسانی حماقت اور جہالت نہیں؟ لوگ اپنی اولاد کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں لیکن آخر میں، کسی کے منصوبے اور خواہشات یہ حکم نہیں چلا سکتے کہ کس کے کتنے بچے ہوں گے اور وہ کیسے ہوں گے۔ کچھ لوگ قلاش ہوتے ہیں لیکن بہت سے بچے پیدا کرتے ہیں، کچھ لوگ دولت مند ہوتے ہیں لیکن صاحب اولاد نہیں ہوتے، کچھ بیٹی چاہتے ہیں لیکن ان کی یہ خواہش مسترد کر دی جاتی ہے،کچھ بیٹا چاہتے ہیں لیکن نرینہ اولاد پیدا کرنے میں ناکام رہتے ہیں، کچھ کے لیے اولاد ایک نعمت ہے۔ دوسروں کے لئے، وہ ایک لعنت ہیں، کچھ جوڑے ذہین ہوتے ہیں پھر بھی ان کے یہاں کند ذہن بچے جنم لیتے ہیں، کچھ والدین محنتی اور ایماندار ہوتے ہیں، پھر بھی وہ جن بچوں کی پرورش کرتے ہیں وہ شریر و گستاخ ہوتے ہیں، کچھ والدین مہربان اور راست باز ہوتے ہیں لیکن ان کے بچے عیار اور بدکار نکلتے ہیں، کچھ والدین دماغ اور جسم کے لحاظ سے ٹھیک ہوتے ہیں لیکن معذور بچوں کو جنم دیتے ہیں، کچھ والدین عام اور ناکام ہوتے ہیں لیکن ان کے بچے عظیم کامیابیاں حاصل کرتے ہیں، کچھ والدین پست درجے کے ہوتے ہیں لیکن ان کے بچے بلند مقام پر فائز ہوتے ہیں۔ ۔۔۔
2. اگلی نسل کی پرورش کے بعد، لوگوں کو قسمت کے بارے میں نئی فہم حاصل ہوتی ہے
شادی کرنے والے زیادہ تر لوگ تیس سال کی عمر کے آس پاس شادی کرتے ہیں، یہ زندگی کا ایک ایسا وقت ہوتا ہے جب کسی کو انسانی قسمت کی کوئی سمجھ اور فہم نہیں ہوتی لیکن جب لوگ بچوں کی پرورش کرنے لگتے ہیں اور جیسے جیسے ان کی اولاد بڑی ہوتی جاتی ہے، وہ نئی نسل کو گزشتہ نسل کی زندگی اور تمام تجربات کو دہراتے ہوئے دیکھتے ہیں اور ان کے اندر اپنے ماضی کا عکس دیکھتے ہیں تب انھیں احساس ہوتا ہے کہ نوجوان نسل، بالکل ان کی اپنی طرح، جس راستے پر چل رہی ہے اس کی منصوبہ بندی اور انتخاب نہیں کیا جا سکتا۔ اس حقیقت کا سامنا کرنے کے بعد، ان کے پاس یہ تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی اختیار نہیں رہ جاتا کہ ہر شخص کی تقدیر پہلے سے لکھی ہوئی ہے اور اس کا مکمل ادراک کیے بغیر، وہ اپنی خواہشات کو بتدریج ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور ان کے دلوں میں موجود جذبے پھڑپھڑا کر مر جاتے ہیں۔۔۔۔ اس دور میں لوگوں نے، زندگی کے اہم نشان راہ کو لازمی طور پر پار کرنے کے بعد، زندگی کا ایک نیا فہم حاصل کیا ہے، ایک نیا رویہ اپنایا ہے۔ اس عمر کا فرد مستقبل سے کتنی توقعات رکھ سکتا ہے اور اسے کن امکانات کا منتظر ہونا چاہیے؟ کون سی پچاس سالہ خاتون اب بھی دلکش شہزادے کے خواب دیکھ رہی ہے؟ کون سا پچاس سالہ شخص اب بھی اپنی اسنو وائٹ کی تلاش میں ہے؟ کون سی ادھیڑ عمر عورت اب بھی بدصورت بطخ سے ہنس میں بدلنے کی امید کر رہی ہے؟ کیا اکثر عمر دراز مردوں میں بہتر مستقبل کے حوالے سے وہی جوش و ولولہ پایا جاتا ہے جو نوجوانوں کے اندر ہوتا ہے؟ مختصراً، قطع نظر اس کے کہ کوئی مرد ہے یا عورت، اس عمر تک زندہ رہنے والا کوئی بھی شخص شادی، خاندان اور بچوں کے لیے نسبتاً معقول اور عملی رویہ رکھتا ہے۔ ایسے شخص کے پاس بنیادی طور پر کوئی انتخاب باقی نہیں رہتا، قسمت کو چناوتی دینے کی کوئی خواہش نہیں رہتی۔ جہاں تک انسانی تجربے کا تعلق ہے، جیسے ہی کوئی اس عمر کو پہنچتا ہے، فطری طور پر ایک خاص رویے کا مالک ہو جاتا ہے: "آدمی کو تقدیر قبول کر لینی چاہیے۔ بچوں کی اپنی قسمت ہوتی ہے؛ انسان کی تقدیر آسمان کی طرف سے مقرر شدہ ہے۔" زیادہ تر لوگ جو حقیقت کو نہیں سمجھتے، اس دنیا کے تمام نشیب و فراز، مایوسیوں اور مشکلات کو جھیلنے کے بعد، انسانی زندگی کے بارے میں اپنی بصیرت کا خلاصہ دو الفاظ کے ساتھ پیش کریں گے: "یہی قسمت ہے!" اگرچہ یہ جملہ انسانی تقدیر کے حوالے سے دنیوی لوگوں کے ادراک و احساس اور ان کے تجرباتی ماحصل کا احاطہ کرتا ہے اور اگرچہ یہ انسانیت کی بے بسی کا اظہار کرتا ہے اور اسے قطعی اور درست بھی قرار دیا جا سکتا ہے، پھر بھی یہ خالق کی حاکمیت کی تفہیم سے بہت دور ہے اور سادہ سی بات یہ ہے کہ خالق کے اختیار کے علم کا کوئی نعم البدل نہیں۔
3. تقدیر پر یقین خالق کی حاکمیت کے علم کا نعم البدل نہیں ہے
اتنے برسوں تک خدا کی پیروی کرنے کے بعد، کیا تمھارے اور دنیا داروں کے علمِ تقدیر میں کوئی بنیادی فرق ہے؟ کیا تم واقعی خالق کی مقرر کردہ تقدیر کو سمجھ چکے ہو اور واقعی خالق کی حاکمیت سے واقف ہو گئے ہو؟ کچھ لوگ "یہی قسمت ہے" فقرے کے بارے میں گہرا محسوس کیا گیا شعور رکھتے ہیں، پھر بھی وہ خدا کی حاکمیت پر یقین نہیں رکھتے؛ وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ انسانی تقدیر کی تنظیم و ترتیب خدا کی جانب سے ہے اور وہ خدا کی حاکمیت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ایسے لوگ گویا سمندر میں تیر رہے ہیں، موجیں انھیں اچھال رہی ہیں، دھارے کے ساتھ بہہ رہے ہیں، ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ بے اختیار انتظار کریں اور اپنے آپ کو قسمت کے سپرد کر دیں۔ پھر بھی وہ تسلیم نہیں کرتے کہ انسانی تقدیر خدا کی حاکمیت کے تابع ہے؛ وہ اپنی پیش قدمی سے خدا کی حاکمیت کو نہیں جان سکتے اور اس طرح خدا کے اختیار کا علم حاصل نہیں کرسکتے، خدا کی تنظیم و ترتیب کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرسکتے، تقدیر سے مزاحم ہونا چھوڑ نہیں سکتے اور خدا کی نگہداشت، تحفظ اور راہنمائی میں زندگی نہیں گزار سکتے۔ دوسرے لفظوں میں، تقدیر کو قبول کرنا خالق کی حاکمیت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے مترادف نہیں ہے۔ تقدیر پر یقین کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی خالق کی حاکمیت کو قبول کرتا، پہچانتا اور جانتا ہے۔ تقدیر پر یقین محض اس کی صداقت اور اس کے معمولی مظاہر کو تسلیم کرنا ہے۔ یہ اس ادراک سے کہ خالق کس طرح انسان کی تقدیر پر حکمرانی کرتا ہے بالکل مختلف ہے، یہ تسلیم کرنے سے بالکل مختلف ہے کہ خالق تمام اشیا کی تقدیر پر تسلط کا منبع ہے اور یقیناً انسانی تقدیر کے لیے خالق کی تنظیم و ترتیب کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے بہت دور کی بات ہے۔ اگر کوئی شخص صرف تقدیر پر یقین رکھتا ہے—خواہ وہ اس کے بارے میں بہت گہرائی سے ہی کیوں نہ محسوس کرتا ہو—لیکن اس طرح وہ انسان کی تقدیر پر خالق کی حاکمیت کو جان اور پہچان سکنے کی قدرت نہیں رکھتا ہے، اس کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اور قبول کرنے کا اہل نہیں ہے تو پھر اس کی زندگی ایک المیہ ہے، بیکار میں صرف ہوئی زندگی، ایک کالعدم زندگی؛ وہ اب بھی خالق کے تسلط میں آنے، الفاظ کے صحیح ترین معنوں میں، تخلیق شدہ انسان بننے اور خالق کی رضا سے لطف اندوز ہونے کے قابل نہیں ہوں گے۔ جو شخص حقیقی معنوں میں خالق کی حاکمیت کو جانتا ہے اور اس کا تجربہ کرتا ہے اسے فعال حالت میں ہونا چاہیے، نہ کہ ایک غیر فعال یا مجہول حالت میں۔ اگرچہ ایسا شخص یہ قبول کرے گا کہ تمام چیزیں مقدر میں لکھی ہوئی ہیں، ان کے پاس زندگی اور تقدیر کی درست تعریف ہونی چاہیے: ہر زندگی خالق کی حاکمیت کے تابع ہے۔ جب کوئی پیچھے مڑ کر اپنے سفر کردہ راستے کو دیکھتا ہے اور جب سفر کے ہر مرحلے کو یاد کرتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ ہر قدم پر، خواہ اس کا سفر خاردار رہا ہو یا ہموار، خدا اس کی راہنمائی کر رہا تھا، اس کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ یہ خدا کے بے حد محتاط انتظامات، اس کی محتاط منصوبہ بندی تھی، جس نے اسے، نادانستہ طور پر، آج تک پہنچایا۔ خالق کی حاکمیت کو قبول کرنے کے قابل ہونا، اس کی نجات حاصل کرنے کے لیے—یہ کتنی بڑی خوش قسمتی ہے! اگر کوئی شخص تقدیر کے بارے میں منفی رویہ رکھتا ہے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہر اس چیز کی مخالفت کر رہا ہے جو خدا نے اس کے لیے ترتیب دی ہے اور یہ کہ وہ اطاعت و فرمانبرداری کا رویہ نہیں رکھتا۔ اگر انسان کی تقدیر پر خدا کی حاکمیت کے بارے میں کسی کا رویہ مثبت ہے تو جب کوئی اپنے سفر کی طرف پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے، جب وہ واقعتاً خدا کی حاکمیت کی گرفت میں آتا ہے تو وہ اور زیادہ اشتیاق کے ساتھ ہر اس چیز کے آگے سر تسلیم خم کرنے کی خواہش کرتا ہے جس کا خدا نے انتظام کیا ہے اور خدا کو کسی کی تقدیر ترتیب دینے اور خدا کے خلاف بغاوت کو روکنے کے بارے میں مزید عزم و اعتماد کا اظہار کرتا ہے۔ کیونکہ کوئی شخص جب یہ دیکھتا ہے کہ جب کوئی تقدیر کو نہیں سمجھتا، جب کوئی خدا کی حاکمیت کو نہیں سمجھتا، جب کوئی جان بوجھ کر، لڑکھڑاتا اور دھند میں ڈگمگاتا ہوا آگے بڑھتا ہے تو سفر بہت مشکل اور دل شکن ہوجاتا ہے۔ چنانچہ جب لوگ انسانی تقدیر پر خدا کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہیں تو ہوشیار لوگ اسے جاننے اور اسے قبول کرنے کا انتخاب کرتے ہیں، ان تکلیف دہ دنوں کو الوداع کہتے ہیں جب انھوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اچھی زندگی بسر کرنے کی کوشش کی تھی۔ تقدیر کے خلاف جدوجہد اور اپنے انداز میں نام نہاد "زندگی کے مقاصد" کا تعاقب کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ جب کسی کے پاس خدا نہیں ہوتا، جب کوئی اسے دیکھ نہیں سکتا، جب کوئی خدا کی حاکمیت کو واضح طور پر نہیں پہچان سکتا تو ہر دن بے معنی، بے وقعت اور آفت زدہ ہوتا ہے۔ کوئی کہیں بھی ہو، کوئی بھی کام کر رہا ہو، اس کا ذریعہ معاش اور مقاصد کے حصول کی کوشش سے اسے ایک لامتناہی دل شکستگی اور اذیت کے سوا کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے، اسے کوئی راحت نہیں ملنے والی، یوں کہ وہ اپنے ماضی پر نظر ڈالنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جب کوئی خالق کی حاکمیت کو قبول کرتا ہے، اس کی تنظیم و ترتیب کے تابع ہوتا ہے اور حقیقی انسانی زندگی کو تلاش کرتا ہے، تبھی وہ آہستہ آہستہ تمام صدموں اور تکالیف سے آزاد ہونا شروع کر دیتا ہے اور زندگی کے خالی پن سے نجات پاتا ہے۔
4. صرف خالق کی حاکمیت کے تابع لوگ ہی حقیقی آزادی حاصل کر سکتے ہیں
چونکہ لوگ خدا کی تنظیم و ترتیب اور خدا کی حاکمیت کو نہیں پہچانتے ہیں، اس لئے وہ ہمیشہ گستاخی سے تقدیر کا سامنا کرتے ہیں اور باغیانہ رویہ رکھتے ہیں اور وہ ہمیشہ خدا کے اختیار وحاکمیت کو اور ان چیزوں کو جو تقدیر میں رکھی ہوئی ہیں مسترد کرنا چاہتے ہیں اس لاحاصل امید کے ساتھ کہ ان کی موجودہ حالت اور ان کی قسمت بدل جائے گی لیکن وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے اور ہر موڑ پر ناکام ہو جاتے ہیں۔ یہ جدوجہد، جو کسی کی روح کی گہرائیوں میں ہوتی ہے، اس طرح کا گہرا درد لاتی ہے جو ہڈیوں میں اندر تک سرایت کر جاتا ہے، گویا کوئی اپنی زندگی ہر لمحہ برباد کر رہا ہے۔ اس درد کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ خدا کی حاکمیت کی وجہ سے ہے یا اس وجہ سے کہ ایک شخص بدقسمت پیدا ہوا تھا؟ ظاہر ہے، کوئی بھی سچ نہیں ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ، ان کے اسباب لوگوں کے منتخب کردہ اپنے راستے ہیں، جس طرح سے وہ اپنی زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں۔ ممکن ہے کچھ لوگوں کو اس کا احساس نہ ہوا ہو لیکن جب تم سچ میں یہ جان لو گے، جب تم سچ میں یہ تسلیم کر لو گے کہ انسانی تقدیر پر خدا کی حاکمیت ہے، جب تم سچ میں یہ سمجھ لو گے کہ خدا نے تمہارے لیے جو کچھ منصوبہ بندی اور جو کچھ فیصلہ کیا ہے اس میں تمہارے لیے بہت بڑا نفع اور تحفظ مضمر ہے تو تم محسوس کرو گے کہ تمہارا درد کم ہونے لگا ہے اور تمہارا پورا وجود پرسکون اور آزاد ہوگیا ہے۔ لوگوں کی اکثریت کی حالتوں کا اندازہ لگا کر فیصلے کرتے ہوئے وہ معروضی طور پر انسانی تقدیر پر خالق کی حاکمیت کی عملی قدر اور معنی سے ہم آہنگ نہیں ہو پاتے، اگرچہ ذاتی تجرباتی سطح پر، وہ اس طرح زندگی گزارنا نہیں چاہتے جیسا کہ وہ گزارتے آئے ہیں اور وہ اپنے درد سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں؛ معروضی طور پر، وہ حقیقی معنوں میں خالق کی حاکمیت کو پہچان کر اس کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کر سکتے اور اس سے بھی کمتر وہ یہ جانتے ہیں کہ خالق کی تنظیم و ترتیب کو کیسے تلاش کرنا اور قبول کرنا ہے۔ لہٰذا، اگر لوگ اس حقیقت کو صحیح معنوں میں تسلیم نہیں کر سکتے کہ خالق کو انسانی تقدیر اور تمام انسانی معاملات پر حاکمیت حاصل ہے، اگر وہ حقیقی معنوں میں خالق کے تسلط کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کر سکتے تو ان کے لیے اس خیال سے متاثر اور پابستہ زنجیر نہ ہونا مشکل ہو جائے گا "آدمی کی تقدیر اس کے اپنے ہاتھ میں ہے۔" ان کے لیے تقدیر اور خالق کے اختیار کے خلاف اپنی شدید جدوجہد کے درد کو دور کرنا مشکل ہوگا اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان کے لیے حقیقی معنوں میں آزاد ہونا اور خدا کا عبادت گزار بندہ بننا بھی مشکل ہوگا لیکن اس حالت سے خود کو آزاد کرنے کا ایک انتہائی آسان طریقہ ہے اور وہ ہے اپنی سابقہ طرزِ زندگی کو الوداع کہنا۔ زندگی میں اپنے گذشتہ مقاصد کو الوداع کہنا؛ اپنی سابقہ طرز زندگی، زندگی کے نقطہ نظر، حصول، خواہشات اور نظریات کا خلاصہ اور تجزیہ کرنا اور پھر ان کا موازنہ خدا کی مرضی اور انسان کے تقاضوں سے کرنا اور یہ دیکھنا کہ آیا ان میں سے کوئی بھی خدا کی مرضی اور تقاضوں کے مطابق مسلسل و مستقل ہے یا نہیں، آیا ان میں سے کوئی زندگی کی صحیح اقدار کو پیش کرتا ہے، کسی کو صداقت کے عظیم تر ادراک کی طرف لے جاتا ہے یا نہیں اور اسے بنی نوع انسان اور انسان کی مشابہت کے ساتھ جینے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں۔ جب تم متواتر تحقیق کرو گے اور ان مختلف اہداف کو جو لوگ زندگی میں حاصل کرتے ہیں اور ان کے زندگی گزارنے کے ان گنت طریقوں کا تجزیہ کریں گے تو تم کو ان میں سے کوئی بھی خالق کے اصل ارادے کے مطابق نہیں ملے گا، جس کے ساتھ اس نے انسان کو تخلیق کیا ہے۔ یہ سب لوگوں کو خالق کی حاکمیت اور نگہداشت سے دور کرتے ہیں۔ یہ سب ایسے پھندے ہیں جو لوگوں کو گمراہ کرنے کا باعث بنتے ہیں اور نتیجتاً انھیں جہنم کی طرف لے جاتے ہیں۔ اسے تسلیم کرنے کے بعد، تمہارا کام یہ ہے کہ تم زندگی کے بارے میں اپنے پرانے نظریہ کو خیرباد کہو، مختلف دام تزویر سے دور رہو، اپنی زندگی خدا کے حوالے کرو اور اپنی زندگی کی تنظیم و ترتیب خد کے سپرد کر دو؛ یہ صرف خدا کی تنظیم و ترتیب اور راہنمائی کے تابع ہونے کی کوشش کرنا ہے، انفرادی انتخاب کے بغیر زندگی گزارنا ہے اور خدا کا عبادت گزاربندہ بننا ہے۔ یہ آسان لگتا ہے لیکن اس پر عمل پیرا ہونا ایک مشکل کام ہے۔ کچھ لوگ یہ درد برداشت کر سکتے ہیں، باقی نہیں۔ کچھ عمل پیرا ہونے کے لئے تیار ہیں، دوسرے نہیں۔ جو لوگ تیار نہیں ہیں ان کے اندر ایسا کرنے کی خواہش اور عزم کی کمی ہے؛ وہ واضح طور پر خدا کی حاکمیت سے واقف ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ خدا ہی ہے جو انسانی تقدیر کی منصوبہ بندی کرتا ہے اور اسے ترتیب دیتا ہے، اور پھر بھی وہ لات مارتے اور جدوجہد کرتے ہیں اور اپنی تقدیر کو خدا کی مٹھی میں دینے اور خدا کی حاکمیت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ مزید برآں، وہ خدا کی تنظیم و ترتیب سے نالاں ہیں۔ لہٰذا ہمیشہ کچھ لوگ ایسے رہیں گے جو خود دیکھنا چاہیں گے کہ وہ کیا کرنے کے قابل ہیں۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی تقدیر کو بدلنا چاہتے ہیں، یا وہ اپنی طاقت سے خوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں، یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ خدا کے اختیار کی حدود سے تجاوز کر سکتے ہیں اور خدا کی حاکمیت سے اوپر اٹھ سکتے ہیں۔ انسان کا المیہ یہ نہیں ہے کہ وہ خوش و خرم زندگی کی تلاش میں ہے اور یہ بھی نہیں کہ وہ شہرت اور قسمت کے پیچھے بھاگے یا دھند میں ملفوف اپنی قسمت کے خلاف جدوجہد کرے بلکہ اس کا المیہ یہ ہے کہ خالق کے وجود کو دیکھنے کے بعد بھی، انسانی تقدیر پر خالق کی حاکمیت کو جان لینے کے بعد بھی وہ سدھر نہیں سکتا، وہ دلدل سے اپنا پاؤں نکال نہیں سکتا، اس کے برعکس وہ اپنے دل کو سخت کرتا ہے اور اپنی غلطیوں پر قائم رہتا ہے۔ اس کے برعکس وہ کیچڑ میں پیر مارتا رہتا ہے، خالق کی حاکمیت کا ڈھٹائی سے مقابلہ کرتا ہے اور ذرہ بھر شرمسار ہوئے بغیر، اس وقت تک یہ مزاحمت جاری رکھتا ہے جب تک کہ وہ اپنے تلخ انجام کو پہنچ نہیں جاتا۔ جب وہ دیوالیہ اور تباہ و برباد ہوجاتا ہے تب وہ ہار ماننے اور خدا کے حضور رجوع کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ یہ اصل انسانی دکھ ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں، جو تسلیم کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں وہ عقلمند ہیں اور جو جدوجہد کرنے اور بھاگنے کا انتخاب کرتے ہیں وہ واقعی بے وقوف ہیں۔
چھٹا مرحلہ: موت
اس قدر ہاو ہو کے بعد، بہت سی مایوسیوں اور محرومیوں کے بعد، بہت سی خوشیوں اور غموں اور نشیب و فراز کے بعد، بہت سے ناقابل فراموش سالوں کے بعد، بار بار رت بدلتے موسموں کو دیکھنے کے بعد، انسان زندگی کے اہم راہ نماؤں پر دھیان دیئے بغیر گزر جاتا ہے اور ایک جھٹکے میں، خود کو گردش ماہ و سال کے دھندلکے میں پاتا ہے۔ وقت کے نشانات پورے جسم پر ثبت ہوتے ہیں: اب کوئی شخص تنا ہوا ایستادہ نہیں رہ سکتا، اس کے بال سیاہ سے سفید ہو گئے ہیں، جب کہ آنکھیں جو کبھی روشن اور منور تھیں اب مدھم اور دھندلی ہوگئی ہیں اور ہموار، کومل جلد جھریوں، سلوٹوں اور داغوں سے بھر گئی ہے۔ کسی کی قوت سماعت کمزور ہو جاتی ہے، کسی کے دانت ڈھیلے اور گر جاتے ہیں، کسی کا رد عمل اور کسی کی حرکت سست ہو جاتی ہے۔۔۔۔ اس مقام پر، آدمی اپنی جوانی کے ولولہ خیز سالوں کو آخری بار الوداع کہتا ہے اور زندگی کے دھندلکے میں داخل ہو جاتا ہے: بڑھاپا۔ اب اس کے بعد، انسان کو موت کا سامنا کرنا پڑے گا، انسانی زندگی کا آخری مرحلہ۔
1. انسان کی زندگی اور موت کا اختیار صرف خالق کے پاس ہے
اگر کسی کی پیدائش اس کی سابقہ زندگی کا مقدر تھی تو اس کی موت اس تقدیر کا خاتمہ ہے۔ اگر کسی کی پیدائش اس زندگی میں اس کے مشن کا آغاز ہے تو اس کی موت اس مشن کا اختتام ہے۔ چونکہ خالق نے انسان کی پیدائش کے لیے حالات کا ایک طے شدہ مجموعہ مقرر کیا ہے، اس لیے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس نے اس کی موت کے لیے بھی حالات کا ایک طےشدہ مجموعہ ترتیب دیا ہے۔ بہ الفاظ دیگر، کوئی بھی اتفاقاً پیدا نہیں ہوتا، کسی کی موت اچانک نہیں آتی اور پیدائش اور موت دونوں لازماً کسی کی گزشتہاور موجودہ زندگی سے منسلک ہوتی ہیں۔ کسی کی پیدائش اور موت کے حالات دونوں خالق کی طرف سے پہلے سے طے شدہ ہیں؛ یہ ایک شخص کی تقدیر ہے، ایک شخص کی قسمت۔ چونکہ ایک شخص کی پیدائش کے بارے میں بہت سی وضاحتیں موجود ہیں، اس لیے یہ بھی درست ہے کہ انسان کی موت قدرتی طور پر مختلف حالات کے مخصوص مجموعے کے تحت واقع ہوگی۔ لوگوں کی مختلف مدت حیات، مختلف طرز معاشرت اور ان کی اموات کے مختلف اوقات کی یہی وجہ ہے۔ کچھ لوگ مضبوط اور صحت مند ہوتے ہیں، پھر بھی جوان مر جاتے ہیں۔ کچھ لوگ کمزور اور بیمار ہوتے ہیں، پھر بھی لمبی عمر تک جیتے ہیں اور سکون سے مرتے ہیں۔ کچھ غیر فطری وجوہات سے مر جاتے ہیں، کچھ قدرتی طور پر مرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی موت ان کے اپنے گھروں سے بہت دور ہوتی ہے، کچھ لوگ اپنے پیاروں کے ساتھ، ان کے درمیان اپنی آنکھیں بند کرتے ہیں۔ کچھ لوگ وسط فضا میں مر جاتے ہیں، کچھ زمین کے نیچے۔ کچھ پانی میں ڈوب جاتے ہیں، کچھ آفات میں کھو جاتے ہیں۔ کچھ صبح مرتے ہیں، اور کچھ رات کو۔ ۔۔۔ ہر کوئی ایک شاندار پیدائش، پرشکوہ زندگی اور باوقار موت چاہتا ہے لیکن کوئی بھی اپنے مقدر سے آگے نہیں جا سکتا، خالق کی حاکمیت سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ یہ انسان کی قسمت ہے۔ انسان اپنے مستقبل کے لیے ہر طرح کے منصوبے بنا سکتا ہے لیکن اپنی پیدائش اور دنیا سے رخصت ہونے کے طریقے اور وقت کی منصوبہ بندی نہیں کر سکتا۔ اگرچہ لوگ موت سے بچنے اور اس کا مقابلہ کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں لیکن پھر بھی، ان کے علم میں آئے بغیر، موت خاموشی سے قریب آ جاتی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کب فنا ہوں گے یا کیسے اور یہ کہاں ہوگی اس کے بارے میں تو اور بھی کچھ نہیں جانتے۔ ظاہر ہے کہ زندگی اور موت کی طاقت بنی نوع انسان کے پاس نہیں ہے، فطری دنیا میں کسی وجود کے پاس نہیں ہے بلکہ صرف خالق کے پاس ہے، جس کا اختیار منفرد ہے۔ بنی نوع انسان کی زندگی اور موت فطری دنیا کے کسی قانون کی پیداوار نہیں ہے بلکہ خالق کے اختیار کی حاکمیت کا نتیجہ ہے۔
2. جو خالق کی حاکمیت کو نہیں جانتا موت کا خوف اسے پریشان رکھے گا
جب کوئی بوڑھا ہوتا ہے تو اس کے لیے درپیش چیلنج یہ نہیں ہوتا کہ اسے خاندان پالنا ہے یا زندگی میں اپنے بلند عزائم کو مستحکم کرنا ہے بلکہ اس کی اصل مبارزت یہ ہوتی ہے کہ اپنی زندگی کو الوداع کیسے کہا جائے، اپنی زندگی کے اختتام کو کیسے پورا کیا جائے، اپنی زندگی کی عبارت کے اختتام پر وقفہ کیسے لگایا جائے۔ اگرچہ خارجی سطحی طور پر، بظاہر ایسا لگتا ہے کہ لوگ موت پر بہت کم توجہ دیتے ہیں لیکن کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو اس موضوع کو دریافت نہ کرتا ہو، کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ موت کے دور دراز کنارے ایک اور دنیا ہے یا نہیں، ایک ایسی دنیا جس کا انسان ادراک نہیں رکھتا یا جسے وہ محسوس نہیں کر سکتا یا ایک ایسی دنیا جس کے بارے میں وہ کچھ بھی نہیں جانتا۔ اس وجہ سے لوگ موت سے براہ راست متصادم ہونے سے ڈرتے ہیں، اس کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں جیسا کہ انھیں کرنا چاہیے؛ اس کے بجائے، وہ موضوع سے بچنے کی حتیٰ المقدور کوشش کرتے ہیں اور اس طرح یہ ہر شخص کے اندر موت کا خوف بھر دیتا ہے اور ہر شخص کے دل پر ایک مستقل سایہ ڈالتے ہوئے زندگی کی اس ناگزیر حقیقت پر اسرار کا پردہ ڈال دیتا ہے۔
جب کوئی یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کا جسم اب روبہ زوال ہے، جب کوئی یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ موت کے قریب جا رہا ہے تو وہ ایک مبہم خوف، ایک ناقابل تعبیر خوف محسوس کرتا ہے۔ موت کا خوف انسان کو ہمیشہ مزید تنہا اور مزید بے بس محسوس کرنے پر مجبور کر دیتا ہے اور اس وقت انسان اپنے آپ سے پوچھتا ہے: انسان کہاں سے آیا؟ انسان کہاں جا رہا ہے؟ کیا انسان ایسے ہی مرتا ہے، جب اس کی زندگی اس سے آگے نکل جاتی ہے؟ کیا یہی وہ دور ہے جو انسان کی زندگی کے خاتمے کی علامت ہے؟ بالآخر زندگی کا مطلب کیا ہے؟ آخر زندگی کس لائق ہے؟ کیا یہ شہرت اور دولت کے بارے میں ہے؟ کیا یہ ایک خاندان کی پرورش کے بارے میں ہے؟ ۔۔۔ قطع نظر اس کے کہ کسی نے ان مخصوص سوالات کے بارے میں سوچا ہے یا نہیں، قطع نظر اس کے کہ کوئی موت سے خوف زدہ ہے یا نہیں، ہر شخص کے دل کے نہاں خانوں میں ہمیشہ اسرار کا سراغ لگانے کی خواہش، زندگی کے بارے میں عدم ادراک کا احساس اور ان تمام چیزوں کا آمیزہ، دنیا کے بارے میں جذباتیت اور اسے چھوڑنے میں تذبذب موجود ہوتا ہے۔ شاید کوئی بھی واضح طور پر یہ صراحت نہیں کر سکتا کہ انسان کس چیز سے ڈرتا ہے، انسان کس چیز کی تلاش میں ہے، وہ کیا چیز ہے جس کے بارے میں وہ جذباتی ہے اور کس چیز کو چھوڑنے سے گریزاں ہے ۔۔۔
کیوں کہ وہ موت سے ڈرتے ہیں اس لیے لوگوں کو بہت سی پریشانیاں ہیں؛ انھوں نے اس دنیا میں بہت کچھ جمع کر لیا ہے اور وہ اسے کھونا نہیں چاہتے اس لیے وہ موت سے ڈرتے ہیں۔ جب وہ مرنے والے ہوتے ہیں تو کچھ لوگ اس کے بارے میں چڑ چڑے پن کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں، اپنے پیاروں، اپنی دولت کی فکر کرتے ہیں، گویا فکر کرنے سے وہ موت کی وجہ سے درپیش مصائب اور خوف کو مٹا سکتے ہیں، گویا زندہ لوگوں کے ساتھ ایک قسم کی قربت برقرار رکھ کر وہ بے بسی اور تنہائی سے بچ سکتے ہیں جو موت کے ہمراہ ہوتی ہے۔ انسان کے دل کی گہرائیوں میں ایک مبہم خوف ہے، اپنے پیاروں سے بچھڑنے کا خوف، پھر کبھی نیلا آسمان دوبارہ نہ دیکھ پانے کا خوف، پھر کبھی مادی دنیا کی طرف نہ دیکھنے کا خوف۔ ایک تنہا روح، جو اپنے پیاروں کی صحبت کی عادی ہوتی ہے، اپنی گرفت کو چھوڑنے اور اکیلے رخصت ہونے سے گریزاں ہے، ایک ایسی دنیا کے لیے جو نامعلوم اور ناواقف ہے۔
3. شہرت اور دولت کی تلاش میں گزاری گئی زندگی آدمی کو موت کے سامنے خسارے میں مبتلا کر دیتی ہے
خالق کی حاکمیت اور تقدیر کے سبب، بغیر نام کے شروع ہونے والی ایک تنہا روح کو والدین اور ایک خاندان حاصل کرنے، نسل انسانی کا رکن بننے، انسانی زندگی کا تجربہ کرنے اور دنیا کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ اس روح کو خالق کے اقتدار کا تجربہ کرنے، خالق کی تخلیق کے کمالات کو جاننے اور اس سے بھی بڑھ کر خالق کے اختیار کو جاننے اور اس کے تابع ہونے کا موقع بھی ملتا ہے۔ اس کے باوجود زیادہ تر لوگ واقعی اس نایاب اور عارضی موقعے سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ وہ تقدیر کے خلاف لڑتے ہوئے زندگی بھر کی توانائی ضائع کردیتے ہیں، اپنا سارا وقت دوڑ دھوپ میں صرف کردیتے ہیں، اپنے کنبے کا پیٹ پالنے کی کوشش کرتے ہیں اور دولت اور حیثیت کے درمیان آگے پیچھے جھولتے رہتے ہیں۔ جن چیزوں کو لوگ اہمیت دیتے ہیں وہ خاندان، پیسہ اور شہرت ہیں اور وہ ان چیزوں کو زندگی کی سب سے قیمتی اشیا کے طور پر دیکھتے ہیں۔ تمام لوگ اپنی تقدیر کے بارے میں شکایت کرتے ہیں، ان کے دماغ میں وہ مسائل موجود ہوتے ہیں جن کا جائزہ لینا اور سمجھنا نہایت ضروری ہوتا ہے لیکن وہ فعال طریقے سے اس کے بارے میں نہیں سوچتے: انسان زندہ کیوں ہے، انسان کو کیسے جینا چاہیے، زندگی کی قدر و اہمیت کیا ہے۔ وہ اپنی پوری زندگی گزار دیتے ہیں، خواہ وہ کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو، محض شہرت اور دولت کی تلاش میں دوڑتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ ان کی جوانی چلی جاتی ہے اور وہ بوڑھے اور جھر ی داربن جاتے ہیں۔ وہ اسی طرح زندگی گزارتے ہیں جب تک کہ یہ دیکھ نہیں لیتے کہ شہرت اور دولت ان کا بڑھاپا، ان کی پیرانہ سالی نہیں روک سکتیں، کہ پیسہ دل کے خالی پن کو نہیں بھر سکتا اور یہ کہ پیدائش، بڑھاپا، بیماری اور موت کے قوانین سے کوئی بھی مستثنیٰ نہیں ہے اور یہ کہ قسمت میں جو کچھ ہے اس سے کسی صورت مفر نہیں۔ جب وہ زندگی کے آخری لمحے کا سامنا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں تب کہیں جاکر انھیں حقیقی معنوں میں یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اگر ان کے پاس بے پناہ دولت ہی کیوں نہ ہو، وہ وسیع و عریض اثاثوں کے مالک ہی کیوں نہ ہوں، خواہ وہ مراعات یافتہ اور اعلیٰ عہدے پر فائز ہی کیوں نہ ہو، کوئی موت سے نہیں بچ سکتا اور اسے اپنے اصل مقام پر واپس آنا ہی ہوگا: ایک تنہا روح، جس کا کوئی نام نہیں ہے۔ جب لوگوں کے پاس والدین ہوتے ہیں تو ان کا خیال ہوتا ہے کہ ان کے والدین ہی سب کچھ ہیں۔ جب لوگوں کے پاس جائیداد ہوتی ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ پیسہ ہی بنیادی سہارا ہےجس کی مدد سے لوگ اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ جب لوگوں کے پاس مقام و مرتبہ ہوتا ہے تو وہ اس سے مضبوطی سے چمٹے رہتے ہیں اور اس کی خاطر اپنی جان تک خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ جب لوگ اس دنیا کو چھوڑنے والے ہوتے ہیں تب انھیں یہ احساس ہوتا ہے کہ جن چیزوں کے حصول میں انھوں نے اپنی زندگیاں گزاری ہیں وہ اڑتے بادل کے سوا کچھ نہیں جسے وہ پکڑ نہیں سکتے، کوئی بھی شے وہ اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتے، کوئی بھی شے انھیں موت سے مستثنیٰ نہیں کر سکتی، کوئی بھی شے اس تنہا روح کو واپسی کے سفر ساتھ یا تسلی نہیں دے سکتی۔ کم از کم، ان میں سے کوئی بھی چیز کسی شخص کو نہیں بچا سکتی، کوئی بھی شے موت پر سبقت لے جانے کے قابل نہیں بنا سکتی۔ مادی دنیا میں جو شہرت اور دولت حاصل ہوتی ہے وہ عارضی اطمینان، گزری ہوئی خوشی اور آسودگی کا جھوٹا احساس فراہم کرتی ہے اور اس عمل میں، وہ اپنا راستہ کھو دیتے ہیں اور یوں لوگ، جیسا کہ وہ بنی نوع انسان کے وسیع سمندر میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں، وہ دل کے سکون،آرام اور امن کے لیے ترس رہے ہیں، لہروں کے بعد لہروں کی لپیٹ میں ہیں۔ جب لوگوں کو ان سوالات کا پتہ لگانا ابھی باقی ہو جو سمجھنے کے لیے انتہائی اہم ہیں—وہ کہاں سے آتے ہیں، وہ کیوں زندہ ہیں، وہ کہاں جا رہے ہیں، وغیرہ وغیرہ—دولت و شہرت انھیں گمراہ کر دیتی ہے، وہ گمراہ ہو جاتے ہیں، انھیں کے سحر میں رہتے ہیں اور ناقابل تنسیخ طور پر گم ہو جاتے ہیں۔ وقت اڑتا ہے؛ پلک جھپکتے ہی برس بیت جاتے ہیں اور اس سے پہلے کہ کسی کو احساس ہو، انسان اپنی زندگی کے بہترین سالوں کو الوداع کہہ چکا ہوتا ہے۔ جب کوئی جلد ہی دنیا سے رخصت ہونے والا ہوتا ہے تو بتدریج اسے احساس ہوتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز اس کی مٹھی سے پھسل رہی ہے اور یہ کہ اب وہ چیزیں اس کی دسترس میں نہیں رہیں جو پہلے کبھی حقیقتاً اس کی تھیں۔ پھر اس وقت وہ واقعی یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ ایک روتے ہوئے بچے کی طرح ہے جو ابھی ابھی اس دنیا میں آیا ہے، جس کا ابھی کوئی نام نہیں۔ اس وقت انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اس نے زندگی میں کیا کیا ہے، زندہ رہنے کی اہمیت کیا ہے، زندگی کا مطلب کیا ہے، کوئی دنیا میں کیوں آیا ہے اور اسی مقام پر آکر اس کے اندر یہ جاننے کی خواہش بڑھنے لگتی ہے کہ آیا اس کے بعد کوئی زندگی ہے یا نہیں، آیا جنت واقعی موجود ہے، کیا واقعی جزا و سزا موجود ہے۔۔۔۔ موت جتنی قریب آتی ہے، اتنا ہی انسان یہ سمجھنا چاہتا ہے کہ زندگی دراصل ہے کیا۔ موت جتنی قریب آتی ہے دل اتنا ہی خالی لگتا ہے۔ موت جتنا قریب آتی ہے، اتنا ہی وہ بے بس محسوس کرتا ہے اور اس طرح اس کے اندر موت کا خوف دن بدن بڑھتا جاتا ہے۔ موت کے قریب آتے ہی لوگوں میں اس طرح کے جذبات ظاہر ہونے کی دو وجوہات ہیں: پہلی وجہ یہ ہے کہ، وہ شہرت اور دولت سے، جس پر ان کی زندگی کا انحصار تھا، محروم ہونے والے ہیں وہ سب کچھ چھوڑنے والے ہیں جو دنیا میں آنکھ دیکھتی ہے۔ اور دوسری وجہ، وہ بالکل اکیلے، ایک انجان دنیا، ایک پراسرار، نامعلوم دنیا کا سامنا کرنے والے ہیں جہاں وہ قدم رکھنے سے ڈرتے ہیں، جہاں ان کا نہ کوئی پیارا ہے اور نہ ہی کوئی سہارا۔ ان دو وجوہات کی بناء پر، موت کا سامنا کرنے والے ہر شخص کو بے چینی محسوس ہوتی ہے، گھبراہٹ اور بے بسی کا ایسا احساس ہوتا ہے جس سے وہ پہلے کبھی واقف نہیں تھے۔صرف اس مقام پر پہنچنے کے بعد ہی کسی کو یہ احساس ہوتا ہے کہ جب کوئی اس زمین پر قدم رکھتا ہے تو سب سے پہلے اسے یہ سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے کہ انسان کہاں سے آیا ہے، لوگ کیوں زندہ ہیں، انسان کی تقدیر کون طے کرتا ہے اور کون اسے رزق فراہم کرتا ہے اور کسے انسانی وجود پر حاکمیت حاصل ہے۔ یہ علم وہ حقیقی ذریعہ ہے جس کے تحت انسان زندگی گزارتا ہے، انسانی بقا کی لازمی بنیاد—یہ نہیں سیکھنا کہ اپنے خاندان کو کیسے رزق فراہم کیا جائے یا کیسے شہرت اور دولت حاصل کی جائے، یہ نہیں سیکھنا کہ کس طرح ہجوم سے الگ نمایاں نظر آنا ہے اور نہ ہی زیادہ خوشحال زندگی گزارنا ہے۔ زندگی میں سبقت لے جانا اور دوسروں کے خلاف کامیابی سے مقابلہ کرنا سیکھنا تو دور کی بات ہے۔اگرچہ بقا کی مختلف مہارتیں ہیں جن پر قابو پانے کے لیے لوگ اپنی زندگی صرف کر دیتے ہیں ڈھیر ساری مادی آسائشیں پیش کر سکتے ہیں لیکن وہ کبھی بھی کسی کے دل میں حقیقی سکون اور تسلی کا موجب نہیں بنتیں، بلکہ اس کے بجائے ان کی وجہ سے لوگ مستقل اپنی سمت بھولتے جاتے ہیں، خود کو قابو کرنے میں دشواری کا سامنا کرتے ہیں اور زندگی کا مطلب جاننے کا ہر موقع ضائع کر دیتے ہیں؛ بقا کی یہ مہارتیں موت کا صحیح طریقے سے سامنا کرنے کے بارے میں بے چینی کی زیریں لہر پیدا کرتی ہیں۔ اس طرح لوگوں کی زندگیاں تباہ ہو جاتی ہیں۔ خالق ہر ایک کے ساتھ منصفانہ سلوک کرتا ہے، زندگی بھر ہر ایک کو اپنی حاکمیت کا تجربہ کرنے اور جاننے کے مواقع فراہم کرتا ہے، پھر بھی جب موت قریب آتی ہے، جب اس کا بھوت دکھائی دیتا ہے،تب اسے روشنی نظر آنی شروع ہوتی ہے—اس وقت بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے!
لوگ پیسے اور شہرت کے تعاقب میں اپنی زندگی گزار دیتے ہیں؛ وہ ان تنکوں کو پکڑتے ہیں، یہ سوچتے ہوئے کہ یہ ان کا آخری سہارا ہیں، گویا کہ انھیں رکھنے سے وہ زندہ اور موت سے مستثنیٰ رہ سکتے ہیں لیکن جب وہ مرنے والے ہوتے ہیں تب انھیں احساس ہوتا ہے کہ یہ چیزیں ان سے کتنی دور ہیں، موت کے سامنے وہ کتنے کمزور ہیں، کتنی آسانی سے وہ بکھر جاتے ہیں، وہ کتنے اکیلے اور بے بس ہیں، اب ان کے پاس کوئی نہیں ہے جس کے پاس وہ پلٹ کر جا سکیں۔ انھیں احساس ہوتا ہے کہ زندگی پیسے یا شہرت سے نہیں خریدی جا سکتی، انسان خواہ کتنا ہی مالدار کیوں نہ ہو، اس کا مقام کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو، موت کے سامنے سب مساوی طور پر غریب اور حقیر ہیں۔ انھیں احساس ہوتا ہے کہ پیسہ زندگی نہیں خرید سکتا، شہرت موت کو نہیں مٹا سکتی اور یہ کہ پیسہ اور شہرت انسان کی زندگی کو ایک منٹ، ایک سیکنڈ کے لیے نہیں بڑھا سکتے۔ جتنا زیادہ لوگ اس طرح محسوس کرتے ہیں، ان کے اندر زندہ رہنے کی خواہش اتنی ہی زیادہ پنپنے لگتی ہے؛ جتنا زیادہ لوگ اس طرح محسوس کرتے ہیں، اتنا ہی وہ موت کے قریب جانے سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ صرف اس موقع پر انھیں صحیح معنوں میں احساس ہوتا ہے کہ ان کی زندگی ان سے تعلق نہیں رکھتی، ان کے اپنے قابو میں نہیں ہے اور یہ کہ کسی کے جینے یا مرنے کے بارے میں کوئی نہیں کہتا ہے کہ یہ سب کچھ کسی کے اختیار سے باہر ہے۔
4. خالق کی سلطنت میں آئیں اور سکون سے موت کا سامنا کریں
جس وقت ایک شخص پیدا ہوتا ہے، ایک تنہا روح زمین پر اپنی زندگی کا تجربہ شروع کردیتی ہے، اسے خالق کے اختیار کا تجربہ ہوتا ہے جسے خالق نے اس کے لیے ترتیب دیا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ انسان—روح—کے لیے خالق کی حاکمیت کا علم حاصل کرنے، اس کے اختیار کو جاننے اور ذاتی طور پر اس کا تجربہ کرنے کا بہترین موقع ہے۔ لوگ اپنی زندگیاں تقدیر کے قوانین کے تحت گزارتے ہیں جو خالق نے ان کے لیے مقرر کر رکھے ہیں اور کسی بھی باضمیر معقول شخص کے لیے، اپنی زندگی کے کئی عشروں کے دوران، خالق کی حاکمیت کو تسلیم کرنا اور اس کے اختیار کو جاننا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ لہٰذا، ہر شخص کے لیے یہ بہت آسان ہونا چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کے کئی دہائیوں کے تجربات سے یہ شناخت کر لے کہ تمام انسانوں کی تقدیر پہلے سے طے شدہ ہے اور یہ جاننا یا خلاصہ کرنا آسان ہونا چاہیے کہ زندہ رہنے کا مطلب کیا ہے۔ جیسے جیسے کوئی زندگی کے ان اسباق کو قبول کرتا ہے، تدریجا یہ سمجھ جاتا ہے کہ زندگی کہاں سے آتی ہے، وہ سمجھ جاتا ہے کہ دل کو واقعا کس چیز کی ضرورت ہوتی ہے اور کون سی چیز آدمی کو صحیح راستے کی طرف لے جائے گی اور یہ کہ انسانی زندگی کا مشن اور ہدف کیا ہونا چاہیے۔ تدریجا وہ شناخت کر لے گا کہ اگر کوئی خالق کی عبادت نہیں کرتا، اگر کوئی اس کے تسلط میں نہیں رہتا تو جب موت کا سامنا کرنے کا وقت آئے گا، جب انسان کی روح ایک بار پھر خالق کا سامنا کرنے والی ہوگی تو اس کا دل بے تحاشا خوف اور اضطراب سے بھر جائے گا۔ اگر کوئی شخص اس دنیا میں کئی دہائیاں گزارنے کے باوجود یہ نہ سمجھ سکا ہو کہ انسانی زندگی کہاں سے آتی ہے اور نہ ہی یہ شناخت کر سکا ہو کہ انسانی تقدیر کس کے قبضہ قدرت میں ہے تو اس میں کوئی تعجب نہیں کہ وہ سکون سے موت کا سامنا نہیں کر پائے گا۔ ایک ایسا شخص جس نے اپنی زندگی کے کئی عشروں پر محیط تجربے میں، خالق کی حاکمیت کا علم حاصل کیا ہے، وہ زندگی کے معنی اور قدر کو سمجھنے والا بالکل درست شخص ہے۔ ایسا شخص مقصد حیات کے بارے میں گہرا علم رکھتا ہے، خالق کی حاکمیت کا حقیقی تجربہ اور ادراک رکھتا ہے اور اس سے پرے، خالق کے اختیار کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ ایسا شخص خدا کی بنی نوع انسان کی تخلیق کے معنی کو سمجھتا ہے، وہ یہ سمجھتا ہے کہ انسان کو خالق کی عبادت کرنی چاہیے نیز یہ بھی کہ انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ خالق کی عطا ہے اور مستقبل میں ایک دن اس کی طرف لوٹ کے جانا ہے۔ اس قسم کا انسان یہ سمجھتا ہے کہ خالق انسان کی پیدائش کا انتظام کرتا ہے اور اسے انسان کی موت پر حاکمیت حاصل ہے، اور یہ کہ زندگی اور موت دونوں خالق کے اختیار سے طے شدہ ہیں۔ لہذا، جب کوئی ان باتوں کو صحیح معنوں میں سمجھ لے گا، تو انسان قدرتی طور پر سکون سے موت کا سامنا کرنے کے قابل ہو جائے گا، اس سے اندھا دھند ڈرنے اور اس کے خلاف جد و جہد کرنے کے بجائے اپنے تمام دنیوی مال کو سکون کے ساتھ ایک طرف رکھ دے گا، اس کے بعد آنے والی تمام چیزوں کو خوش دلی سے قبول کر لے گا اور زندگی کے آخری مرحلے کا خیرمقدم کرے گا، جیسا کہ خالق نے ترتیب دیا ہے۔ اگر کوئی زندگی کو خالق کے اقتدار کا تجربہ کرنے اور اس کے اختیار کو جاننے کا ایک موقع سمجھتا ہے، اگر کوئی اپنی زندگی کو ایک تخلیق شدہ انسان کے طور پر اپنا فرض ادا کرنے اور اپنے مشن کو مکمل کرنے کے نادر موقع کے طور پر دیکھتا ہے تو زندگی کے بارے میں اس کا نقطۂ نظر یقیناً درست ہے۔ یقیناً وہ خالق کی طرف سے عطا کردہ بابرکت و ہدایت یافتہ زندگی گزارے گا، یقیناً وہ خالق کی روشنی میں چلے گا، یقیناً وہ خالق کے اقتدار کو جانے گا، یقیناً اس کے قلمرو میں رہے گا اور یقیناً اس کے معجزاتی کاموں کا شاہد ہوگا، اس کے اختیار کا شاہد۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ خالق ایسے شخص سے یقیناً پیار کرے گا اور اسے قبول کرے گا اور صرف ایسا شخص ہی موت کے بارے میں پرسکون رویہ رکھ سکتا ہے اور زندگی کے آخری مرحلے کا بہ خوشی استقبال کر سکتا ہے۔ ایک شخص جو موت کے بارے میں صریحاًاس قسم کا رویہ رکھتا ہے وہ ایوب ہے۔ ایوب زندگی کے آخری مرحلے کو خوشی سے قبول کرنے کی حالت میں تھا اور اپنی زندگی کے سفر کو ہموار انجام تک پہنچانے اور زندگی میں اپنا مشن مکمل کرنے کے بعد، وہ خالق کی طرفداری میں واپس چلا گیا۔
5. زندگی میں ایوب کی مساعی اور نفع نے اسے سکون سے موت کا سامنا کرنے دیا
ایوب کے بارے میں کتابوں میں لکھا ہوا ہے: "اور ایُّوب نے بُڈّھا اور عُمر رسِیدہ ہو کر وفات پائی" (ایُّوب 42: 17)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ایوب کا انتقال ہوا تو اسے کوئی افسوس نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی تکلیف ہوئی بلکہ قدرتی طور پر اس دنیا سے چلا گیا۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں، ایوب خدا کا برگزیدہ بندہ تھا اور جب تک وہ زندہ تھا برائیوں سے بچا رہا۔ خدا نے اس کے اعمال کی تعریف کی اور اسے دوسروں کے لیے یادگار بنا دیا اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کی زندگی کی قدر و اہمیت دیگر لوگوں سے زیادہ تھی۔ ایوب نے خدا کی نعمتوں کا لطف اٹھایا اور خدا نے اسے زمین پر راستباز کہا اور وہ بھی خدا کی طرف سے آزمایا گیا اور شیطان کے ذریعہ بھی آزمایا گیا۔ اس نے خدا کی شہادت دی، اس پر تا حیات قائم رہا اور خدا کی طرف سے ایک صالح شخص کہلانے کا مستحق ٹھہرا۔ خُدا کی طرف سے آزمائے جانے کے بعد کی دہائیوں میں، اُس نے ایک ایسی زندگی گزاری جو پہلے سے بھی زیادہ قیمتی، بامعنی، عاجزانہ اور پر سکون تھی۔ خدا نے اس کے نیک اعمال کی وجہ سے اسے آزمایا اور اس کے نیک اعمال کی وجہ سے ہی خدا اس پر ظاہر ہوا اور اس سے براہ راست کلام کیا۔ لہٰذا، آزمائش کے بعد کے سالوں میں، ایوب نے زندگی کی قدر کو زیادہ ٹھوس انداز میں سمجھا اور اس کی قدر کی، خالق کی حاکمیت کا گہرا ادراک حاصل کیا، اور اس بات کا زیادہ درست اور قطعی علم حاصل کیا کہ خالق کس طرح اپنی نعمتیں عطا کرتا ہے اور واپس لیتا ہے۔ ایوب کی کتاب میں یہ تحریر ہے کہ یہوواہ خدا نے ایوب کو پہلے سے بھی زیادہ برکات سے نوازا، ایوب کو خالق کی حاکمیت کو جاننے اور سکون سے موت کا سامنا کرنے کے لیے اور بھی بہتر حالت میں رکھا۔ چنانچہ جب ایوب بوڑھا ہوا اور اسے موت کا سامنا کرنا پڑا تو یقیناً اپنی جائیداد کے بارے میں فکر مند نہیں ہوا۔ اسے کوئی فکر نہیں تھی، افسوس کرنے کی کوئی بات نہیں تھی اور بلاشبہ موت سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس نے اپنی ساری زندگی خدا سے ڈرنے اور برائی سے بچنے کی راہ پر چلتے ہوئے گزاری تھی۔ اسے اپنے انجام کی فکر کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ آج کتنے لوگ ایوب کی طرح اپنی موت کا سامنا کر سکتے ہیں؟ آج کیوں نہیں کوئی اس قدر سادہ ظاہری تحمل برقرار رکھنے کا اہل ہے؟ اس کی صرف ایک وجہ ہے: ایوب نے اپنی زندگی عقیدہ، شناخت اور خدا کی حاکمیت کے تابع کرنے کی تلاش میں گزاری اور اسی یقین، پہچان اور تسلیم و رضا کے ساتھ وہ زندگی کے اہم مرحلے سے گزرا، اپنے آخری سال گزارے اور اپنی زندگی کے آخری مرحلے کو سلام کیا۔ اس سے قطع نظر کہ ایوب نے کیا تجربہ کیا، زندگی میں اس کے حصول اہداف و مقاصد تکلیف دہ نہیں تھے بلکہ خوش کن تھے۔ وہ نہ صرف خالق کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں یا تعریفوں کی وجہ سے خوش تھا بلکہ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس کے حصول اور زندگی کے اہداف کی وجہ سے، خالق کی حاکمیت کے بڑھتے ہوئے علم اور حقیقی معرفت کی وجہ سے جو اس نے خدا سے ڈرنے اور برائی سے بچنے کے ذریعے حاصل کیا۔ مزید برآں، اپنے ذاتی تجربے، خالق کی حاکمیت کے تابع ایک فرد کے طور پر، خدا کے حیرت انگیز کاموں اور انسان اور خدا کے بقائے باہم، واقفیت اور باہمی افہام و تفہیم کے نرم لیکن ناقابل فراموش تجربات اور یادوں کے سبب۔ایوب اس راحت اور خوشی کی وجہ سے خوش تھا جو خالق کی مرضی جاننے سے حاصل ہوئی تھی اور اس تعظیم کی وجہ سے جو یہ دیکھ کر پیدا ہوئی کہ وہ عظیم، حیرت انگیز، پیارا اور وفادار ہے۔ ایوب بغیر کسی تکلیف کے موت کا سامنا کرنے کے قابل تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مرنے کے بعد، وہ خالق کی طرف لوٹ جائے گا۔ زندگی میں اس کے نفع اور کامیابیوں نے اسے سکون سے موت کا سامنا کرنے کی اجازت دی، اسے خالق کے اس امکان کا سامنا کرنے کی اجازت دی کہ وہ سکون سے اس کی زندگی واپس لے لے، مزید برآں، اسے خالق کے سامنے بے داغ و بے نیاز کھڑا رہنے دیا۔ کیا آج کل لوگ وہ خوشی حاصل کر سکتے ہیں جو ایوب کو حاصل تھی؟ کیا تمہارے پاس ایسا کرنے کے لیے ضروری حالات ہیں؟ چونکہ آج کل لوگ ایسے حالات سے ضرور دوچار ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ وہ ایوب کی طرح خوشی سے زندگی گزارنے سے قاصر ہیں؟ وہ موت کے خوف کی اذیت سے کیوں نہیں بچ پا رہے؟ موت کا سامنا کرتے وقت، کچھ لوگ بے قابو ہو کر پیشاب کر دیتے ہیں؛ دوسرے کانپنے لگتے ہیں، بے ہوش ہوجاتے ہیں، آسمان اور انسان کی یکساں طور پر سرزنش کرتے ہیں کچھ کراہتے اور روتے رہتے ہیں۔ یہ کسی بھی طرح سے قدرتی ردعمل نہیں ہے جس کا اظہار اچانک موت کے قریب آنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر لوگ صرف اس وجہ سے ان حیران کن طریقوں سے برتاؤ کرتے ہیں کہ اپنے دل کے نہاں خانوں میں کہیں نہ کہیں وہ موت سے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ خدا کی حاکمیت اور اس کے انتظامات کے بارے میں واضح علم اور قدرشناسی نہیں رکھتے ہیں، حقیقی معنوں میں اطاعت و فرماںبرداری تو دور کی بات ہے۔ لوگ اس انداز میں صرف اس لیے ردعمل ظاہر کرتے ہیں کیونکہ وہ کچھ نہیں چاہتے سوائے اس کے کہ سب کچھ خود ہی ترتیب کریں، خود ہی نگرانی کریں، اپنی قسمت، اپنی زندگی اور موت کو اپنے قابو میں رکھیں۔ لہٰذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ لوگ موت کے خوف سے کبھی بھی بچ نہیں پاتے۔
6. صرف خالق کی حاکمیت کو قبول کرنے سے ہی کوئی اس کی طرف لوٹ سکتا ہے
جب کسی کو خدا کی حاکمیت اور اس کے انتظامات کا واضح علم اور تجربہ نہ ہو تو تقدیر اور موت کے بارے میں اس کا علم لازماً غیر مربوط ہوگا۔ لوگ واضح طور پر نہیں دیکھ سکتے کہ سب کچھ خدا کی مٹھی میں ہے، وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ہر چیز خدا کے اختیار اور حاکمیت کے تابع ہے، یہ نہیں تسلیم کرتے کہ انسان خدا کی حاکمیت کو نہ تو مسترد کر سکتا ہے اور نہ ہی اس سے فرار حاصل کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کا موت کا سامنا کرنے کا وقت آتا ہے تو ان کے آخری الفاظ، پریشانیوں اور ندامت کا کوئی سرا نہیں ہوتا۔ وہ بہت سارے اسباب سفر، ہچکچاہٹ اور اپنی الجھنوں کے بوجھ سے دبے ہوئے ہیں، یہ ان کی موت سے ڈرنے کی وجہ ہے۔اس دنیا میں پیدا ہونے والے کسی بھی فرد کے لیے پیدائش ضروری ہے اور موت ناگزیر ہے۔ اس روش سے پرے کوئی نہیں جا سکتا۔ اگر کوئی اس دنیا سے آرام سے جانا چاہتا ہے، اگر کوئی شخص زندگی کے آخری مرحلے کا سامنا بغیر کسی تردد اور پریشانی کے طے کرنا چاہتا ہے تو واحد راستہ یہ ہے کہ کوئی پچھتاوے کا کوئی سامان پیچھے نہ چھوڑے اور بغیر پچھتاوے کے رخصت ہونے کا واحد راستہ خالق کی حاکمیت کو جاننا، اس کے اختیار کو جاننا اور اس کا اطاعت گزار ہونا ہے۔ صرف اسی طریقے سے کوئی شخص انسانی جھگڑوں سے، بدی سے، شیطان کی غلامی سے دور رہ سکتا ہے اور صرف اسی صورت انسان ایوب جیسی زندگی گزار سکتا ہے، خالق کی طرف سے ہدایت یافتہ اور بابرکت زندگی، ایسی زندگی جو آزاد اور خود مختار ہے، ایک ایسی زندگی جو قدر اور معنی رکھتی ہے۔ایک ایسی زندگی جو با ایمان اور خالص ہے۔ صرف اسی طریقے سے کوئی ایوب کی طرح خالق کی آزمائشوں اور محرومیوں کے سامنے، خالق کی تنظیم و ترتیب اور انتظامات کے سامنے پیش ہو سکتا ہے۔ صرف اسی طرح سے کوئی ساری زندگی خالق کی عبادت کر سکتا ہے اور اس کی تعریف و توصیف کا مستحق ہو سکتا ہے، جیسا کہ ایوب نے کیا تھا، اور اس کی آواز سن سکتا ہے، اسے ظاہر ہوتا ہوا دیکھ سکتا ہے۔ صرف اسی طریقے سے کوئی خوشی سے جی سکتا ہے اور مر سکتا ہے، ایوب کی طرح، بغیر کسی تکلیف کے، بغیر کسی فکر اور پچھتاوے کے۔ صرف اسی طرح سے کوئی شخص ایوب کی طرح روشنی میں رہ سکتا ہے اور زندگی کے ہر مرحلے کو روشنی میں گزار سکتا ہے، روشنی میں اپنا سفر آسانی سے مکمل کر سکتا ہے، اپنے مشن کو کامیابی سے مکمل کر سکتا ہے—تجربہ کرنا، سیکھنا اور جاننا، ایک تخلیق شدہ وجود کے طور پر، خالق کی حاکمیت—اور روشنی میں گزر جاتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے خالق کے پہلو میں ایک تخلیق شدہ انسان کے طور پر کھڑے ہوتے ہیں، جس کی اس کی طرف سے تعریف کی جاتی ہے۔
خالق کی حاکمیت کو جاننے کا موقع ضائع نہ کریں
اوپر بیان کیے گئے چھ مراحل خالق کی طرف سے مقرر کردہ اہم مراحل ہیں، جن سے ہر آدمی کو اپنی زندگی میں بہر صورت گزرنا ہوگا۔ انسانی نقطہ نظر سے، ان میں سے ہر ایک مرحلہ حقیقی ہے، کسی کو بھی جھانسا نہیں دیا جا سکتا اور سب کا تعلق خالق کی تقدیر اور حاکمیت سے ہے۔ لہذا، ایک انسان کے لیے، ان میں سے ہر ایک مرحلہ ایک اہم چوکی ہے اور اب تم سب کو اس سنگین سوال کا سامنا ہے کہ ان میں سے ہر ایک مرحلے سے کامیابی کے ساتھ کیسے گزرنا ہے۔
انسانی زندگی کا احاطہ کرنے والی کئی دہائیاں نہ تو لمبی ہوتی ہیں اور نہ ہی مختصر۔ پیدائش اور بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے درمیان بیس سال کا عرصہ پلک جھپکتے ہی گزر جاتا ہے اور اگرچہ زندگی کے اس موڑ پر انسان کو بالغ سمجھا جاتا ہے لیکن اس عمر کے لوگ انسانی زندگی اور انسانی تقدیر کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ جیسے جیسے وہ زیادہ تجربہ حاصل کرتے ہیں، وہ آہستہ آہستہ ادھیڑ عمر میں داخل ہو جاتے ہیں۔ تیس اور چالیس کے درمیان کے لوگ زندگی اور قسمت کا نیا تجربہ حاصل کرتے ہیں لیکن ان چیزوں کے بارے میں ان کے خیالات اب بھی بہت مبہم ہوتے ہیں۔ چالیس سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد کہیں جا کر کچھ لوگ خدا کے تخلیق کردہ بنی نوع انسان اور کائنات کو سمجھنے لگتے ہیں اور یہ ادراک حاصل کرتے ہیں کہ انسانی زندگی کیا ہے، انسانی تقدیر کیا ہے۔ کچھ لوگ، اگرچہ وہ ایک طویل عرصے سے خدا کے مطیع و فرمانبردار رہے ہیں اور اب بوڑھے ہوگئے ہیں، اب بھی خدا کی حاکمیت کے بارے میں صحیح علم اور تعریف نہیں رکھتے، حقیقی اطاعت تو دور کی بات ہے۔ کچھ لوگوں کو نعمتوں کے حصول کے علاوہ کسی چیز کی پروا نہیں ہوتی اور اگرچہ وہ کئی سال تک زندہ رہتے ہیں لیکن وہ انسانی تقدیر پر خالق کی حاکمیت کی کم از کم حقیقت کو نہیں جانتے اور نہ ہی سمجھتے ہیں اور نہ ہی انھوں نے خالق کی تنظیم و ترتیب اور انتظامات کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے عملی سبق کے لیے کوئی چھوٹا سا بھی قدم اٹھایا ہے۔ ایسے لوگ مکمل طور پر بے وقوف ہوتے ہیں اور ان کی زندگی رائیگاں گزرتی ہے۔
اگر انسانی زندگی کے ادوار کو زندگی کی بابت لوگوں کے تجربے اور انسانی تقدیر کے علم کے مطابق تقسیم کیا جائے تو انہیں تقریباً تین مرحلوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا مرحلہ جوانی کا ہے، جو کہ پیدائش اور متوسط عمر کے درمیان یا پیدائش سے تیس سال کی عمر تک کا ایک عرصہ ہے۔ دوسرا مرحلہ پختہ سالی کا ہے اور یہ عرصہ متوسط عمر سے بڑھاپے تک، یا تیس سے ساٹھ سال تک ہے اور تیسرا مرحلہ انسان کے پختہ دور کا مرحلہ ہے جو بڑھاپے کے آغاز کے ساتھ ساٹھ سال سے شروع ہو کر دنیا سے رخصت ہونے تک رہتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، پیدائش سے لے کر متوسط عمر تک، قسمت اور زندگی کے بارے میں زیادہ تر لوگوں کا علم دوسروں کے خیالات کی تقلید تک محدود ہے اور اس میں تقریباً کوئی حقیقی، عملی مادہ نہیں ہے۔ اس عرصے کے دوران، زندگی کے بارے میں آدمی کا نقطہ نظر اور دنیا میں وہ اپنا نقشہ راہ کیسے متعین کرتا ہے کافی سطحی اور سادہ ہے۔ یہ نوعمری کا دور ہے۔ زندگی کی تمام خوشیوں اور غموں کا مزہ چکھنے کے بعد ہی انسان کو تقدیر کا حقیقی ادراک ہوسکتا ہے اور—لاشعوری طور پر، دل کی گہرائیوں میں—دھیرے دھیرے تقدیر کی رجعت ناپذیری کی قدر کرنے لگتا ہے اور بتدریج احساس ہوتا ہے کہ انسانی تقدیر پر خالق کی حاکمیت واقعی موجود ہے۔ یہ کسی کی پختہ سالی کی مدت ہے۔ جب کوئی شخص تقدیر کے خلاف جدوجہد کرنا چھوڑ چکا ہوتا ہے اور جب وہ مزید جھگڑوں میں پھنسنے کے لیے تیار نہیں ہوتا اور اس کے بجائے، زندگی کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے، آسمان کی مرضی کے تابع ہوتا ہے، زندگی میں اپنی کامیابیوں اور غلطیوں کا خلاصہ کرتا ہے اور اپنی زندگی کی بابت خالق کے فیصلے کا انتظار کرتا ہے تو ایسا شخص پختگی کی مدت میں داخل ہوتا ہے۔ ان تین ادوار کے دوران لوگوں کو حاصل ہونے والے مختلف تجربات اور حصول یابیوںکو مدنظر رکھتے ہوئے، عام حالات میں، خالق کی حاکمیت کو جاننے کے لیے آدمی کے مواقع کی کھڑکی بہت بڑی نہیں ہے۔ اگر کوئی ساٹھ سال تک زندہ رہتا ہے تو اس کے پاس خدا کی حاکمیت کو جاننے کے لیے صرف تیس یا اس سے زیادہ سال ہوتے ہیں۔ اگر کوئی اس سے زیادہ لمبا عرصہ چاہتا ہے تو یہ تبھی ممکن ہے جب کسی کی زندگی کافی لمبی ہو، اگر کوئی ایک صدی تک زندہ رہنے کے قابل ہو۔ اس لیے میں کہتا ہوں، انسانی وجود کے عام قوانین کے مطابق، حالانکہ یہ ایک بہت طویل عمل ہے جب انسان پہلی بار خالق کی حاکمیت کو جاننے کے موضوع کا سامنا کرتا ہے، اس وقت تک جب تک انسان اس کی حاکمیت کی حقیقت کو پہچاننے کے قابل نہیں ہو جاتا اور پھر وہاں سے اس وقت تک کہ جب تک کہ وہ اطاعت گزار نہیں بنتا، اگر کوئی واقعا برسوں کو شمار کرے تو یہ کل تیس یا چالیس سے زیادہ نہیں بنتے جن کے دوران کسی کو یہ انعامات حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے اور اکثر لوگ نعمتیں حاصل کرنے کے لیے اپنی خواہشات اور اپنے عزائم میں بہک جاتے ہیں، لہٰذا وہ امتیاز نہیں کر سکتے کہ انسانی زندگی کا جوہر کہاں ہے نیز وہ خالق کی حاکمیت کو جاننے کی اہمیت کو نہیں سمجھتے۔ ایسے لوگ انسانی زندگی اور خالق کی حاکمیت کا تجربہ کرنے کے لیے انسانی دنیا میں داخل ہونے کے اس قیمتی موقعے کا لطف نہیں لیتے اور وہ یہ احساس بھی نہیں کرتے کہ مخلوق کے لیے خالق کی ذاتی راہنمائی حاصل کرنا کتنا قیمتی ہے۔ لہٰذا میں کہتا ہوں، وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ خدا کا کام جلد ختم ہو، جو چاہتے ہیں کہ خدا جلد از جلد انسان کے انجام کا انتظام کرے تاکہ وہ فوراً اس کی حقیقی شخصیت کو دیکھ سکیں اور جس قدر جلد ممکن ہو سکے اس کا فضل و کرم حاصل کر سکیں—وہ بدترین قسم کی نافرمانی کے مجرم ہیں اور انتہائی درجے کے احمق ہیں۔ دریں اثنا، مردوں میں سے عقلمند لوگ وہ ہیں، جو شدید ذہنی حسیت کے حامل ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے محدود وقت میں خالق کی حاکمیت کو جاننے کے لیے اس منفرد موقع کو حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ دو مختلف خواہشات دو بالکل مختلف نقطہ ہائے نظر اور اہداف کو ظاہر کرتی ہیں: وہ لوگ جو فضل و کرم کے خواہاں ہیں وہ خود غرض اور رذیل ہیں، انھیں خدا کی مرضی کا کوئی خیال نہیں ہے، وہ کبھی بھی خدا کی حاکمیت کو جاننے کی کوشش نہیں کرتے، کبھی بھی اس کے تابع ہونے کی خواہش نہیں رکھتے بلکہ صرف اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ وہ بے فکر اور ناخلف ہیں اور اسی قسم کے لوگوں کو تباہ کیا جائے گا۔ جو لوگ خدا کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں وہ اپنی خواہشات کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں، خدا کی حاکمیت اور خدا کے انتظامات کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں اور وہ اس قسم کا شخص بننے کی کوشش کرتے ہیں جو خدا کے اختیار کے تابع ہے اور جو خدا کی خواہش پوری کرتے ہیں۔ ایسے لوگ روشنی میں اور خدا کی نعمتوں کے درمیان رہتے ہیں اور یقیناً خدا کی طرف سے ان کی تعریف کی جائے گی۔ جو بھی ہو، انسانی انتخاب بیکار ہے، خدا کے کام میں کتنا وقت لگے گا اس پر انسان کو کچھ کہنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ لوگوں کے لیے یہ بہتر ہے کہ وہ اپنے آپ کو خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں اور اس کی حاکمیت کے تابع ہوجائیں۔ اگر تم خود کو اس کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتے ہو تو تم کیا کر سکتے ہو؟ کیا اس کے نتیجے میں خدا کو کوئی نقصان ہوگا؟ اگر تم خود کو اس کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتے ہو بلکہ باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوشش کرتے ہو تو تم ایک احمقانہ انتخاب کر رہے ہو اور آخرکار تم کو ہی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ صرف اس صورت میں وہی لوگ امید رکھیں گے جب وہ جلد از جلد خدا کے ساتھ تعاون کریں گے، صرف وہی لوگ امید رکھیں گے جب وہ اس کی تنظیم و ترتیب کو قبول کرنے میں جلدی کریں گے، اس کے اختیار کو جانیں گے اور ان سب چیزوں کو سمجھیں گے جو اس نے ان کے لیے کیا ہے۔ یہی وہ صورت ہے جب ان کی زندگیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور وہ نجات پا سکیں گے۔
اس حقیقت کو کوئی نہیں بدل سکتا کہ خدا انسانی تقدیر کا مالک ہے
سب کچھ سننے کے بعد جو میں نے ابھی کہا ہے، کیا تقدیر کے بارے میں تمھارا کا خیال بدل گیا ہے؟ تم انسانی تقدیر پر خدا کی حاکمیت کی حقیقت کو کیسے سمجھتے ہو؟ سادہ الفاظ میں بات کہی جائے تو یہ کہ، خدا کے اختیار کے تحت، ہر شخص فعال یا غیر فعال طور پر اس کی حاکمیت اور اس کے انتظامات کو قبول کرتا ہے اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی شخص اپنی زندگی کے دوران کتنی اور کیسے جدوجہد کرتا ہے، کتنے ٹیڑھے میڑھے راستوں پر وہ چلا ہے، آخر میں وہ تقدیر کے مدار میں واپس آئے گا جو خالق نے اس کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔ یہ خالق کے اختیار کی نیز جس طرح سے اس کا اختیار کائنات کو منظم اور منضبط کرتا ہے غیر مغلوبیت ہے۔ یہی غیر مغلوبیت، انصرام و انضباط کی شکل تمام اشیا کی زندگیوں کو ترتیب دینے والے قوانین کے لیے ذمہ دار ہے، جو انسانوں کو بغیر کسی مداخلت کے بار بار دوبارہ جنم لینے کی اجازت دیتی ہے، جو باقاعدگی سے دنیا کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہے اور روز بروز، سال بہ سال آگے بڑھ رہی ہے۔ تم ان تمام حقائق کا مشاہدہ کر چکے ہو اور تم ان کو سمجھتے ہو، خواہ سطحی طور پر یا گہرائی سے اور تمھارے فہم کی گہرائی کا انحصار تمھارے تجربے اور سچائی کے علم اور خدا کے بارے میں تمھارے علم پر ہے۔ تم کتنی اچھی طرح سے صداقت کی حقیقت کو جانتے ہو، تم نے خدا کے کلام کا کتنا تجربہ کیا ہے، تم خدا کی ذات اور مزاج کو کتنی اچھی طرح جانتے ہو—یہ سب خدا کی حاکمیت اور انتظامات کے بارے میں تھمارے فہم کی گہرائی کو ظاہر کرتی ہیں۔ کیا خدا کی حاکمیت اور انتظامات کا وجود اس بات پر منحصر ہے کہ انسان اس کے تابع ہے؟ کیا یہ حقیقت کہ خدا کے پاس اختیار ہے بنی نوع انسان کی اطاعت متعین کرتی ہے؟ حالات خواہ کچھ بھی ہوں خدا کا اختیار موجود ہے۔ تمام حالات میں، خدا ہر انسانی تقدیر اور ہر شے کو اپنے خیالات اور اپنی خواہشات کے مطابق ترتیب دیتا ہے۔ یہ انسانی تبدیلی کے نتیجے میں نہیں بدلے گا۔ یہ انسان کی مرضی سے آزاد ہے وقت، جگہ اور جغرافیہ میں تبدیلی لا کر اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ خدا کا اختیار اس کی ذات ہے۔ آیا انسان خدا کی حاکمیت کو جاننے اور اسے قبول کرنے کا اہل ہے اور آیا انسان اس کے تابع ہونے کا اہل ہے—ان دونوں میں سے کوئی بھی چیز انسانی تقدیر پر خدا کی حاکمیت کی حقیقت میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں لاتی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان خدا کی حاکمیت کے بارے میں خواہ کوئی بھی رویہ اختیار کرلے، اس سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی کہ خدا انسانی تقدیر اور ہر چیز پر حاکمیت رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر تم خدا کی حاکمیت کے تابع نہیں ہو، تب بھی وہ تمھاری قسمت کا مالک ہے۔ اگر تم اس کی حاکمیت کو نہیں جان سکتے تو بھی اس کا اختیار موجود ہے۔ خدا کا اختیار اور انسانی تقدیر پر خدا کی حاکمیت کی حقیقت انسانی خواہش سے آزاد ہے اور انسان کی ترجیحات اور انتخاب کے مطابق تبدیل نہیں ہوتی۔ خدا کا اختیار ہر جگہ، ہر گھڑی، ہر لمحہ ہے۔ آسمان اور زمین ختم ہو جائیں گے لیکن اس کا اختیار کبھی ختم نہیں ہو گا کیونکہ وہ خود خدا ہے، وہ منفرد اختیار کا مالک ہے اور اس کا اختیار لوگوں، واقعات یا اشیا، خلا یا جغرافیہ کے لحاظ سے محدود نہیں ہے۔ ہر وقت، خدا اپنے اختیار کا استعمال کرتا ہے، اپنی طاقت دکھاتا ہے، اپنے انتظامی کام جاری رکھتا ہے جیسا کہ ہمیشہ اس نے کیا ہے۔ ہر وقت، وہ ہر چیز پر حکمرانی کرتا ہے، ہر چیز کا انتظام کرتا ہے، ہر چیز کی تنظیم و ترتیب کرتا ہے—بالکل اسی طرح جیسے کہ ہمیشہ اس نے کیا ہے۔ اس کو کوئی نہیں بدل سکتا۔ یہ حقیقت ہے؛ یہ ابتدائے آفرینش سے ایک اٹل حقیقت رہی ہے!
اس کے لیے جو خدا کے اختیار کے تابع ہونا چاہتا ہے مناسب رویہ اور عمل
اب انسان کو کس رویہ کے ساتھ خدا کے اختیار اور انسانی تقدیر پر خدا کی حاکمیت کی حقیقت کو جاننا اور سمجھنا چاہیے؟ یہ ہر شخص کو درپیش ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ حقیقی زندگی کے مسائل کا سامنا کرتے وقت، تم کو خدا کے اختیار اور اس کی حاکمیت کو کیسے جاننا اور سمجھنا چاہیے؟ جب تم کو ان مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور تم کو ان کو سمجھنا، ان سے نمنٹا اور ان کا تجربہ کرنا نہیں آتا تو تم کو اطاعت کرنے کے اپنے ارادے، بندگی کرنے کی اپنی خواہش اور خدا کی حاکمیت اور انتظامات کے سامنے تسلیم و اطاعت کی حقیقت کو ظاہر کرنے کے لیے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ سب سے پہلے تم کو انتظار کرنا سیکھنا چاہیے؛ پھر تم کو جستجو کرنا سیکھنا چاہیے؛ پھر تم کو بہر صورت اطاعت کرنا سیکھنا چاہیے۔ "انتظار" کا مطلب ہے خدا کے وقت کا انتظار کرنا، ان لوگوں، واقعات اور اشیا کا انتظار کرنا جو اس نے تمھارے لیے مہیا کی ہیں، اس کی منشا کا انتظار جو خود تم پر بتدریج منکشف ہو گی۔ "تلاش" کا مطلب ہے لوگوں، واقعات اور چیزوں کے ذریعے جو اس نے تمھارے لیے ترتیب دیا ہے خدا کے پُر فکر ارادوں کا مشاہدہ کرنا اور سمجھنا، ان کے ذریعے سچائی کو سمجھنا، یہ سمجھنا کہ انسانوں کو کیا حاصل کرنا ہے اور ان طریقوں پر عمل کرنا ہے، یہ سمجھنا کہ خدا انسانوں سے کس قسم کے نتائج حاصل کرنے کا متمنی ہے اور یہ کہ وہ انسانوں سے کس قسم کی کامیابیوں کے حصول کی امید رکھتا ہے نیز "اطاعت کرنے" سے بلاشبہ لوگوں، واقعات اور اشیا کو قبول کرنا مراد ہے جو خدا نے منظم و مرتب کی ہیں، اس کی حاکمیت کو قبول کرنا اور اس کے ذریعے یہ جاننا مراد ہے کہ خالق کس طرح انسان کی تقدیر پر حکم چلاتا ہے، وہ کیسے انسان کو اس کی زندگی فراہم کرتا ہے، وہ کیسے انسان کے اندر سچائی کا کام کرتا ہے۔ تمام اشیا خدا کی حاکمیت اور ترتیب کے تحت فطری قوانین کی تعمیل کرتی ہیں اور اگر تم یہ طے کرتے ہو کہ خدا تمھارے لئے ہر چیز کا بندوبست کرے اور حکم دے، تو تم کو انتظار کرنا سیکھنا چاہیے، تم کو تلاش کرنا سیکھنا چاہئے، اور تم کو اطاعت گزار ہونا سیکھنا چاہیے۔ ہر وہ شخص جو خدا کی حاکمیت کے سامنے سرتسلیم خم کرنا چاہتا ہے اسے یہی رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ یہ وہ بنیادی صفت ہے جس سے ہر اس شخص کو جو خدا کی حاکمیت اور انتظامات کو قبول کرنا چاہتا ہے متصف ہونا چاہیے۔ ایسا رویہ رکھنے کے لیے، ایسی صفت سے متصف ہونے کے لیے، تم کو زیادہ محنت کرنی ہوگی۔ یہ واحد راستہ ہے جس پر چلتے ہوئے تم اصل حقیقت میں داخل ہو سکتے ہیں۔
حصول نجات کا پہلا مرحلہ خدا کو اپنے مالک کے طور پر تسلیم کرنا ہے
خدا کے اختیار سے متعلق سچائیاں وہ حقائق ہیں جن پر ہر شخص کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے، اپنے دل سے ان کا تجربہ کرنا اور انھیں سمجھنا چاہیے کیونکہ ہر شخص کی زندگی پر ان سچائیوں کا اثر پڑتا ہے؛ ہر شخص کے ماضی، حال اور مستقبل پر؛ ان اہم مراحل پر جن سے ہر شخص کو زندگی میں بہر صورت گزرنا ہے، ان سچائیوں کا اثر خدا کی حاکمیت کے بارے میں انسان کے علم اور اس رویہ پر پڑتا ہے جس کے ساتھ کوئی خدا کے اختیار کا سامنا کرتا ہے اور فطری طور پر، ہر شخص کی آخری منزل پر یہ سچائیاں اثر انداز ہوتی ہیں۔ لہذا، ان کو جاننے اور سمجھنے میں زندگی بھر کی توانائی چلی جاتی ہے۔ جب تم خدا کی حاکمیت کو پوری توجہ سے دیکھو گے، جب تم اس کی حاکمیت کو قبول کرو گے، تو تم کو بتدریج خدا کی حاکمیت کے وجود کی حقیقت کا احساس و ادراک ہوگا لیکن اگر تم کبھی خدا کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کرتے اور اس کی حاکمیت کو کبھی نہیں مانتے تو پھر چاہے تم کتنے ہی سال زندہ رہو، تم کو خدا کی حاکمیت کا ذرہ برابر بھی علم نہیں ہوسکے گا۔ اگر تم خدا کے اختیار کو صحیح معنوں میں نہیں جانتے اور نہیں سمجھتے ہیں تو پھر جب راستہ ختم ہوگا، خواہ تم خدا پر دہائیوں سے کیوں نہ ایمان رکھتے ہو، تمھارے پاس اپنی زندگی کے لیے دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہوگا۔ اور فطری طور پر، تمھارے پاس انسانی قسمت پر خدا کی حاکمیت کا کم ترین علم بھی نہیں ہوگا۔ کیا یہ انتہائی افسوسناک بات نہیں؟ لہٰذا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم زندگی میں کتنی دور چلے ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اب تمھاری عمر کتنی ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تمھارا باقی سفر کتنا طویل ہے، سب سے پہلے تم کو خدا کے اختیار کو پہچاننا ہوگا، اسے سنجیدگی سے لینا ہوگا اور اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ خدا تمھارا منفرد مالک ہے۔ انسانی تقدیر پر خدا کی حاکمیت کے بارے میں ان سچائیوں کی واضح، درست معلومات اور فہم رکھنا ہر ایک کے لیے ایک لازمی سبق ہے؛ یہ انسانی زندگی کو جاننے اور سچائی کو حاصل کرنے کی کلید ہے۔ یہی خدا کو جاننے کی زندگی ہے، اس کا بنیادی نصاب تعلیم جس کا ہر فرد بشر کو روز مطالعہ کرنا ہے اور جس سے کوئی مفر نہیں۔ اگر کوئی اس مقصد تک پہنچنے کے لیے مختصر راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے، تو میں تم کو بتاتا چاہتا ہوں کہ یہ ناممکن ہے! اگر تم خدا کی حاکمیت سے بچنا چاہتے ہو تو یہ اور بھی کم ممکن ہے! خدا انسان کا واحد رب ہے، خدا انسانی تقدیر کا واحد مالک ہے، لہٰذا انسان کے لیے اپنی تقدیر خود طے کرنا ناممکن ہے اور اس کے لیے تقدیر سے باہر نکلنا بھی ناممکن ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون کتنی عظیم صلاحیتوں کا مالک ہے، وہ دوسروں کی تقدیر پر اثر انداز نہیں ہو سکتا—تقدیر کی تنظیم و ترتیب، تسلط اور تبدل کی بات ایک طرف—صرف خدا بذات خود، منفرد، انسان کے لیے ہر چیز کا حکم دیتا ہے کیونکہ صرف وہی منفرد اختیار کا مالک ہے جو انسانی تقدیر پر حاکمیت رکھتا ہے اور اس لیے صرف خالق ہی انسان کا منفرد مالک ہے۔ خدا کا اختیار نہ صرف تخلیق شدہ بنی نوع انسان پر بلکہ غیر تخلیق شدہ مخلوقات پر بھی حاکمیت رکھتا ہے جنھیں کوئی انسان ستاروں پر، کائنات پر نہیں دیکھ سکتا۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے، ایک ایسی حقیقت جو واقعاً موجود ہے، جسے کوئی شخص یا کوئی شے تبدیل نہیں کر سکتی۔ اگر تم میں سے کوئی اب بھی چیزوں سے مطمئن نہیں ہے جس طرح وہ موجود ہیں، یہ خیال کرتے ہوئے کہ تمھارے پاس کوئی خاص مہارت یا قابلیت ہے اور پھر بھی یہ سوچ رہے ہو کہ قسمت کی کسی ضرب سے تم اپنے موجودہ حالات کو بدل سکتے ہو یا بصورت دیگر ان سے بچ سکتے ہو؛ اگر تم انسانی کوششوں کے ذریعے اپنی قسمت بدلنے کی کوشش کرتے ہو اور اس طرح اپنے آپ کو اپنے ساتھیوں سے ممتاز کرتے ہو اور شہرت و دولت حاصل کرتے ہو؛ پھر میں تم سے کہتا ہوں، تم اپنے لیے اور مشکلیں پیدا کر رہے ہو، تم صرف مصیبت مانگ رہے ہو، تم اپنی قبر خود کھود رہے ہو! ایک دن، جلد یا بدیر، تم کو انکشاف ہوگا کہ تم نے غلط انتخاب کیا ہے اور تمھاری کوششیں ضائع ہو گئی ہیں۔ تمھاری جاہ طلبی، تقدیر کے خلاف جدوجہد کرنے کی تمھاری خواہش، اور تمھارا اپنا ظالمانہ طرز عمل تم کو ایسے راستے پر لے جائے گا جو ناقابل واپسی ہوگا اور اس کے لیے تم کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ اگرچہ فی الحال تم نتائج کی سنگینی کو نہیں دیکھ رہے ہو اور تم مسلسل مزید گہرائی سے اس حقیقت کا تجربہ اور تعریف کر رہے ہو کہ خدا انسانی تقدیر کا مالک ہے، تم کو آج جو میں کہ رہا ہوں اور اس کے حقیقی مضمرات کا آہستہ آہستہ احساس ہو جائے گا۔ آیا تم واقعی دل اور روح رکھتے ہو اور تم سچائی سے محبت کرنے والے شخص ہو یا نہیں اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ تم خدا کی حاکمیت اور سچائی کے حوالے سے کس قسم کا رویہ اختیار کرتے ہو۔ فطری طور پر، یہ اس بات کا تعین کرتا ہے کہ آیا تم واقعی خدا کے اختیار کو جان اور سمجھ سکتے ہو۔ اگر تم نے اپنی زندگی میں کبھی بھی خدا کی حاکمیت اور اس کے انتظامات کو محسوس نہیں کیا، خدا کے اختیار کو تسلیم اور قبول کرنے کی بات تو درکنار تم بالکل بے کار و بے وقعت ہو گے اور بلا شبہ تم اپنے اختیار کردہ راستے اور اپنے غلط انتخاب کی وجہ سے خدا کی نفرت اور استرداد کا نشانہ بنو گے لیکن جو لوگ، خدا کے کام میں، اس کی آزمائش کو قبول کر سکتے ہیں، اس کی حاکمیت کو قبول کر سکتے ہیں، اس کے اختیار کے آگے سر تسلیم خم کر سکتے ہیں اور آہستہ آہستہ اس کے الفاظ کا حقیقی تجربہ حاصل کر سکتے ہیں، وہ خدا کے اختیار کا حقیقی علم، اس کی حاکمیت کی حقیقی معرفت حاصل کر چکے ہوں گے۔ وہ واقعی خالق کے مطیع و فرمانبردار ہو چکے ہوں گے۔ صرف ایسے ہی لوگ حقیقی معنوں میں نجات پا سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ خدا کی حاکمیت کو جان چکے ہیں کیونکہ وہ اسے قبول کر چکے ہیں، انسانی تقدیر پر خدا کی حاکمیت کی حقیقت کی ان کی قدردانی، اس کے سامنے ان کی اطاعت گزاری، حقیقی اور درست ہے۔ جب وہ موت کا سامنا کریں گے تو اُن کے پاس ایوب کی طرح، موت سے بے خوف دماغ ہوگا اور بغیر کسی انفرادی انتخاب، بغیر کسی انفرادی خواہش کے ہر شے میں خُدا کی تنظیم و ترتیب کے تابع ہوں گے۔ صرف ایسا ہی شخص خالق کی طرف بطور حقیقی تخلیق شدہ انسان واپس لوٹ سکتا ہے۔
دسمبر 17، 2013