خدا بذات خود، منفرد V
خدا کا تقدس (II)
بھائیو اور بہنو، آؤ آج ہم ایک حمد گائیں۔ ایک ایسی حمد تلاش کریں جسے تم پسند کرتے ہو اور جسے تم باقاعدگی سے گاتے ہو۔ (ہم خدا کے کلام کی حمد نمبر 760 گائیں گے، ”خالص بےعیب محبت“)۔
”محبت“ اس سے مراد ایک ایسا جذبہ ہے جب تو اپنے دل کو محبت کرنے، محسوس کرنے اور سوچنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور جو خالص اور ہر عیب سے پاک ہے۔ محبت میں کوئی شرط، کوئی رکاوٹ اور کوئی فاصلہ نہیں ہوتا۔ محبت میں کوئی شک، کوئی فریب اور کوئی چالبازی نہیں ہوتی۔ محبت میں نہ کوئی تجارت ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی آلودگی۔ اگر تو محبت کرتا ہے، تو تُو نہ دھوکا دے گا، نہ شکایت کرے گا، نہ ہی غداری، سرکشی، مطالبہ کرے گا، یا کوئی چیز حاصل کرنے یا ایک خاص رقم حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔
”محبت“ اس سے مراد ایک ایسا جذبہ ہے جب تو اپنے دل کو محبت کرنے، محسوس کرنے اور سوچنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور جو خالص اور ہر عیب سے پاک ہے۔ محبت میں کوئی شرط، کوئی رکاوٹ اور کوئی فاصلہ نہیں ہوتا۔ محبت میں کوئی شک، کوئی فریب اور کوئی چالبازی نہیں ہوتی۔ محبت میں نہ کوئی تجارت ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی آلودگی۔ اگر تو محبت کرتا ہے تو تُو اپنے آپ کو بخوشی وقف کر دے گا، بخوشی مشکلات کا سامنا کرے گا، تو مجھ سے ہم آہنگ ہو جائے گا، جو کچھ تیرے پاس ہے تو میرے لیے وہ سب چھوڑ دے گا، تو اپنے اہل وعیال، اپنے مستقبل، اپنی جوانی اور اپنی شادی کو ترک کر دے گا۔ اگر نہیں کرتا تو پھر تیری محبت ہرگز محبت نہیں بلکہ دھوکا اور فریب ہو گی!
– میمنے کا پیچھا کرو اور نئے گیت گاﺆ
یہ حمد ایک اچھا انتخاب تھا۔ کیا تم سب اس کو گانے سے لطف اندوز ہوتے ہو؟ تم اسے گانے کے بعد کیا محسوس کرتے ہو؟ کیا تم اپنے اندر اس قسم کی محبت کو محسوس کرنے کے قابل ہو؟ (ابھی تک نہیں)۔ اس کے کون سے الفاظ تمہیں سب سے زیادہ متاثر کرتے ہیں؟ (محبت میں کوئی شرائط، کوئی رکاوٹیں اور کوئی فاصلہ نہیں ہوتا۔ محبت میں کوئی شک، کوئی فریب اور کوئی چالبازی نہیں ہوتی۔ محبت میں نہ کوئی تجارت ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی آلودگی۔ لیکن میں اپنے اندر اب بھی بہت سی نجاستیں دیکھتا ہوں، اور اپنے بہت سے حصے جو خدا کے ساتھ سودے بازی کی کوشش کرتے ہیں۔ میں نے واقعی ایسی محبت حاصل نہیں کی جو خالص اور بے عیب ہو)۔ اگر تو نے خالص، بےعیب محبت حاصل نہیں کی ہے تو پھر تیری محبت کا کیا درجہ ہے؟ (میں صرف اس مرحلے پر ہوں جہاں میں تلاش کرنے کو تیار ہوں، جہاں میں تڑپ رہا ہوں)۔ تیری اپنی حیثیت اور تیرے اپنے تجربے کی بنیاد پر، تو نے کون سا درجہ حاصل کیا ہے؟ کیا تجھ میں دھوکا ہے؟ کیا تجھے شکایات ہیں؟ کیا تیرے دل میں مطالبات ہیں؟ کیا ایسی چیزیں ہیں جو تو خدا سے چاہتا ہے اور جن کی خواہش رکھتا ہے؟ (ہاں، میرے اندر یہ داغدار چیزیں ہیں)۔ وہ کن حالات میں باہر آتی ہیں؟ (جب خدا نے میرے لیے جو صورتحال ترتیب دی ہے وہ میرے تصورات سے میل نہیں کھاتی، یا جب میری خواہشات پوری نہیں ہوتی ہیں: ایسے لمحات میں، میں اس قسم کے بدعنوان مزاج کو ظاہر کرتا ہوں)۔ تائیوان سے آنے والے بھائیو اور بہنو، کیا تم بھی اکثر یہ حمد گاتے ہو؟ کیا تم اس بارے میں تھوڑی بات کر سکتے ہو کہ تم ”خالص بےعیب محبت“ کو کیسے سمجھتے ہو؟ خدا محبت کی تعریف اس طرح کیوں کرتا ہے؟ (مجھے یہ حمد بہت پسند ہے کیونکہ میں اس سے دیکھ سکتا ہوں کہ یہ محبت ایک مکمل محبت ہے۔ تاہم، میں اس معیار پر پورا اترنے سے ابھی بھی بہت فاصلے پر ہوں، اور میں حقیقی محبت کے حصول سے ابھی بہت دور ہوں۔ کچھ چیزیں ہیں جن میں اس کے کلام کی طاقت اور دعا کے ذریعے میں ترقی اور تعاون کرنے کے قابل ہوا ہوں۔ تاہم، جب بعض آزمائشوں یا انکشافات کا سامنا ہوتا ہے، تو مجھے لگتا ہے کہ میرا کوئی مستقبل یا کوئی تقدیر نہیں ہے، کہ میری کوئی منزل نہیں ہے۔ ایسے لمحات میں، میں بہت کمزور محسوس کرتا ہوں، اور یہ مسئلہ اکثر مجھے پریشان کرتا ہے)۔ جب تو ”مستقبل اور تقدیر“ کہتا ہے تو آخر تُو کس کا حوالہ دے رہا ہے؟ کیا کوئی خاص بات ہے جس کا تو ذکر کر رہا ہے؟ کیا یہ کوئی تصویر ہے یا کوئی ایسی چیز جس کا تو نے تصور کیا ہے، یا کیا تیرا مستقبل اور تقدیر ایسی چیز ہے جسے تو حقیقت میں دیکھ سکتا ہے؟ کیا یہ ایک حقیقی چیز ہے؟ میں چاہتا ہوں کہ تم میں سے ہر ایک اس کے بارے میں سوچے: تمہیں اپنے مستقبل اور اپنی تقدیر کے بارے میں جو تشویش ہے اس سے کیا مراد ہے؟ (یہ بچائے جانے کے قابل ہونا ہے تاکہ میں زندہ رہ سکوں)۔ تم دوسرے بھائیو اور بہنو، تم بھی ”خالص بےعیب محبت“ کے بارے میں اپنی سمجھ بوجھ کی تھوڑی سی بات کرو۔ (جب کسی شخص کے پاس یہ ہوتی ہے تو کوئی نجاست اس کے اپنے نفس سے نہیں آتی، اور نہ ہی وہ اپنے مستقبل اور تقدیر کے قابو میں ہوتا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ خُدا اُس کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے، وہ خُدا کے کام اور اُس کی ترتیب کی پوری طرح اطاعت کرنے اور آخر تک اُس کی پیروی کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ خدا سے صرف اس قسم کی محبت ہی خالص اور بے عیب محبت ہے۔ اس کے مقابلے میں خود کو جانچتے ہوئے، میں نے دریافت کیا ہے کہ، اگرچہ میں نے خدا پر ایمان رکھنے کے پچھلے چند سالوں میں اپنے آپ کو خرچ کیا یا کچھ چیزیں ایک طرف ڈال دیں، لیکن میں واقعی اس قابل نہیں رہا کہ میں اپنا دل اس کے حوالے کر سکوں۔ جب خُدا مجھے بے نقاب کرتا ہے، تو مجھے لگتا ہے کہ میں بچ نہیں سکتا، اور میں منفی حالت میں رہتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں اپنا فرض ادا کر رہا ہوں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں خدا سے سودے بازی کی کوشش کر رہا ہوں، میں خدا سے اپنے پورے دل سے محبت کرنے سے قاصر ہوں، اور میری منزل، میرا مستقبل اور میری تقدیر ہمیشہ میرے ذہن میں رہتی ہے)۔ ایسا لگتا ہے کہ تم نے اس حمد کی کچھ فہم حاصل کر لی ہے، اور اس کے اور اپنے حقیقی تجربے کے درمیان کچھ تعلق قائم کر لیا ہے۔ تاہم، تمہارے پاس حمد کے ہر ایک جملے کو قبول کرنے کے مختلف درجات ہیں، ”خالص بےعیب محبت۔“ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ یہ رضامندی کے بارے میں ہے، کچھ لوگ اپنے مستقبل کو ترک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کچھ لوگ اپنے خاندانوں کو چھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور کچھ لوگ کچھ بھی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ پھر بھی دوسرے لوگ اپنے آپ سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ کوئی فریب نہ رکھیں، کوئی شکایت نہ کریں اور خدا کے خلاف بغاوت نہ کریں۔ خدا کیوں اس قسم کی محبت کا مشورہ دینا چاہے گا اور تقاضا کرے گا کہ لوگ اس سے اس طرح محبت کریں؟ کیا یہ محبت کی وہ قسم ہے جو لوگ حاصل کر سکتے ہیں؟ یعنی کیا لوگ اس طرح محبت کر سکتے ہیں؟ لوگ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ نہیں کر سکتے، کیونکہ ان کے پاس اس قسم کی محبت کا کوئی اشارہ نہیں ہے۔ جب لوگوں کے پاس یہ نہیں ہوتی، اور جب وہ بنیادی طور پر محبت کے بارے میں نہیں جانتے، تو خدا یہ الفاظ کہتا ہے، اور یہ الفاظ ان کے لیے نامانوس ہیں۔ چونکہ لوگ اس دنیا میں رہتے ہیں اور ایک بدعنوان مزاج رکھتے ہیں، اس لیے اگر لوگوں میں اس قسم کی محبت ہو یا اگر ایک شخص اس قسم کی محبت رکھتا ہو، ایسی محبت جو نہ کوئی درخواست کرتی ہے اور نہ کوئی مطالبہ کرتی ہے، ایسی محبت جس کے ساتھ وہ اپنے آپ کو وقف کرنے کے لیے تیار ہے، اور مصائب برداشت کرتا ہے اور اپنا سب کچھ چھوڑ دیتا ہے، تو پھر دوسرے لوگ اس قسم کی محبت رکھنے والے کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ کیا ایسا شخص کامل نہیں ہو گا؟ (ہاں)۔ کیا اس جیسا کامل انسان اس دنیا میں موجود ہے؟ اس قسم کے انسان کا اس دنیا میں بالکل کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ یہ مطلق ہے۔ اس لیے بعض لوگ اپنے تجربات کے ذریعے ان الفاظ کے مقابلے میں خود کو جانچنے میں بڑی محنت کرتے ہیں۔ وہ اپنے آپ سے نمٹتے ہیں، اپنے آپ کو روکتے ہیں، اور یہاں تک کہ وہ مسلسل خود کو ترک کر دیتے ہیں: وہ مصائب برداشت کرتے ہیں اور اپنے آپ کو اپنے تصورات سے دستبردار کرواتے ہیں۔ وہ اپنی سرکشی اور اپنی خواہشات اور مطالبات کو ترک کر دیتے ہیں۔ لیکن آخر میں وہ اب بھی اپنی جانچ نہیں کر سکتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ خُدا یہ باتیں لوگوں کو پیروی کرنے کے لیے ایک معیار فراہم کرنے کے لیے کہتا ہے، تاکہ لوگ جان لیں گے کہ خُدا نے اُن سے کس معیار کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن کیا خدا کبھی یہ کہتا ہے کہ لوگوں کو یہ فوراً حاصل کرنا چاہیے؟ کیا خدا کبھی یہ کہتا ہے کہ اس کو حاصل کرنے کے لیے لوگوں کے پاس کتنا وقت ہے؟ (نہیں)۔ کیا خدا کبھی کہتا ہے کہ لوگوں کو اس سے اس طرح محبت کرنی چاہیے؟ کیا متن کا یہ اقتباس یہ کہتا ہے؟ نہیں، یہ نہیں کہتا ہے۔ خدا صرف لوگوں کو اس محبت کے بارے میں بتا رہا ہے جس کا وہ ذکر کر رہا تھا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیا لوگ خدا سے اس طرح محبت کرنے اور خدا کے ساتھ اس طرح سلوک کرنے کے قابل ہیں، تو اس کے لیے خدا کے انسانوں سے کیا تقاضے ہیں؟ ان تک فوری طور پر پہنچنا ضروری نہیں ہے، کیونکہ یہ لوگوں کی صلاحیتوں سے باہر ہو گا۔ کیا تم نے کبھی سوچا ہے کہ اس طرح محبت کرنے کے لیے لوگوں کو کن شرائط کو پورا کرنے کی ضرورت ہے؟ اگر لوگ کثرت سے ان کلمات کو پڑھیں تو کیا وہ آہستہ آہستہ یہ محبت حاصل کر لیں گے؟ (نہیں)۔ تو پھر کیا شرائط ہیں؟ اول، لوگ خدا کے بارے میں شکوک و شبہات سے کیسے آزاد ہو سکتے ہیں؟ (صرف دیانتدار لوگ ہی یہ حاصل کر سکتے ہیں)۔ فریب سے پاک رہنے کے بارے میں کیا ہے؟ (انھیں ایماندار لوگ بھی ہونا چاہیے)۔ ایسے شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جو خدا کے ساتھ سودے بازی نہیں کرتا؟ یہ بھی ایک ایماندار انسان ہونے کا حصہ ہے۔ چالاکی سے پاک ہونے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ محبت میں کوئی انتخاب نہیں کہنے کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ سب چیزیں ایک ایماندار شخص ہونے کے لیے واپس آتی ہیں؟ اس میں بہت سی تفصیلات ہیں۔ اس سے کیا ثابت ہوتا ہے کہ خدا اس طرح کی محبت کے بارے میں بات کرنے اور اس کی تعریف کرنے پر قادر ہے؟ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا اس قسم کی محبت کا حامل ہے؟ (ہاں)۔ تم یہ کہاں دیکھتے ہو؟ (اس محبت میں جو خدا کو انسان سے ہے) کیا خدا کی انسان سے محبت مشروط ہے؟ کیا خدا اور انسان کے درمیان رکاوٹیں یا فاصلہ ہے؟ کیا خدا کو انسان کے بارے میں شکوک ہیں؟ (نہیں)۔ خدا انسان کا مشاہدہ کرتا ہے اور انسان کو سمجھتا ہے؛ وہ انسان کو صحیح معنوں میں سمجھتا ہے۔ کیا خدا انسان کے ساتھ فریب کرتا ہے؟ (نہیں)۔ چونکہ خدا اس محبت کے بارے میں اتنی مکمل بات کرتا ہے، کیا اس کا دل یا اس کا جوہر بھی اتنے کامل ہو سکتے ہیں؟ (ہاں)۔ بلا شبہ، وہ ہیں؛ جب لوگوں کا تجربہ کرنا کسی خاص مقام پر پہنچ جاتا ہے، تو وہ اسے محسوس کر سکتے ہیں۔ کیا لوگوں نے کبھی محبت کی تعریف اس طرح کی ہے؟ انسان نے محبت کی تعریف کن حالات میں کی ہے؟ انسان محبت کی بات کیسے کرتا ہے؟ کیا انسان دینے یا پیش کرنے کے معاملے میں محبت کی بات نہیں کرتا؟ (ہاں)۔ محبت کی یہ تعریف سادہ سی ہے؛ اس میں جوہر کی کمی ہے۔
خدا کی محبت کی تعریف اور خدا جس طرح محبت کی بات کرتا ہے وہ اس کے جوہر کے ایک پہلو سے منسلک ہیں، لیکن یہ کون سا پہلو ہے؟ پچھلی بار ہم نے ایک بہت اہم موضوع کے بارے میں رفاقت کی تھی، ایک ایسا موضوع جس پر لوگ پہلے بھی اکثر بات کر چکے ہیں۔ یہ مضمون ایک ایسے لفظ پر مشتمل ہے جو اکثر خدا پر ایمان لانے کے دوران بولا جاتا ہے، اور پھر بھی یہ ایک ایسا لفظ ہے جس کے متعلق ہر کوئی واقفیت اور ناواقفیت دونوں محسوس کرتا ہے۔ میں یہ کیوں کہتا ہوں؟ یہ ایک ایسا لفظ ہے جو انسان کی زبانوں سے آتا ہے؛ تاہم، انسانوں کے درمیان اس کی تعریف مختلف اور مبہم دونوں ہیں۔ یہ لفظ کیا ہے؟ (تقدس)۔ تقدس: یہ ہمارا موضوع تھا جب ہم نے آخری بار رفاقت کی۔ ہم نے اس موضوع کے ایک حصے کے بارے میں رفاقت کی۔ ہماری آخری رفاقت کے ذریعے، کیا ہر کسی نے خدا کے تقدس کے جوہر کے بارے میں کچھ نئی سمجھ بوجھ حاصل کی؟ اس سمجھ بوجھ کے کن پہلوؤں کو تم بالکل نیا سمجھتے ہو؟ یعنی، اس سمجھ بوجھ میں یا ان الفاظ کے اندر کیا ہے جس نے تمہیں محسوس کروایا کہ خدا کے تقدس کے بارے میں تمہاری سمجھ بوجھ خدا کے اس تقدس سے الگ یا مختلف تھی جس کے بارے میں میں نے رفاقت کے دوران بات کی تھی؟ کیا تمہارے اس بارے میں کوئی تاثرات ہیں؟ (خدا وہی کہتا ہے جو وہ اپنے دل میں محسوس کرتا ہے؛ اس کے الفاظ بے داغ ہیں۔ یہ تقدس کے ایک پہلو کا مظہر ہے)۔ (جب خدا انسان پر غضبناک ہوتا ہے تو اس وقت بھی تقدس ہوتا ہے؛ اس کا غضب بےعیب ہے)۔ (جہاں تک خدا کے تقدس کا تعلق ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس کے راستباز مزاج کے اندر خدا کا غضب اور اس کی رحمت دونوں موجود ہیں۔ اس نے مجھ پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ ہماری پچھلی رفاقت میں، یہ بھی ذکر کیا گیا تھا کہ خدا کا راستباز مزاج منفرد ہے – میں ماضی میں یہ نہیں سمجھتا تھا۔ خدا کی رفاقت کو سننے کے بعد ہی مجھے سمجھ آئی کہ خدا کا غضب انسانی غصے سے مختلف ہے۔ خدا کا غضب ایک مثبت چیز ہے اور یہ اصولی ہے؛ یہ خدا کے جبلی جوہر کی وجہ سے جاری کیا گیا ہے۔ خدا کچھ منفی دیکھتا ہے، تو اس لیے وہ اپنے غضب کو جاری کرتا ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جو کسی بھی تخلیق شدہ وجود کے پاس نہیں ہے)۔ آج ہمارا موضوع خدا کا تقدس ہے۔ سب لوگوں نے خدا کے راستباز مزاج کے بارے میں کچھ نہ کچھ سنا اور سیکھا ہے۔ مزید برآں، بہت سے لوگ خدا کے تقدس اور خدا کے راستباز مزاج کے بارے میں اکثر ایک ہی سانس میں بات کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خُدا کا راستباز مزاج مقدس ہے۔ لفظ ”مقدس“ یقینی طور پر کسی کے لیے نامانوس نہیں ہے – یہ عام طور پر استعمال ہونے والا لفظ ہے۔ لیکن اس لفظ کے اندر موجود معانی کے لحاظ سے، لوگ خدا کے تقدس کے کون سے مظاہر دیکھ سکتے ہیں؟ خدا نے کیا ظاہر کیا ہے جسے لوگ پہچان سکتے ہیں؟ مجھے ڈر ہے کہ یہ ایسی چیز ہے جسے کوئی نہیں جانتا۔ خدا کا مزاج راستباز ہے، لیکن پھر اگر تو خدا کے راستباز مزاج کو لیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ مقدس ہے، تو یہ تھوڑا سا مبہم، تھوڑا سا تحریف شدہ لگتا ہے۔ یہ کیوں ہے؟ تو کہتا ہے کہ خدا کا مزاج راستباز ہے، یا تو کہتا ہے کہ اس کا راستباز مزاج مقدس ہے، تو تم اپنے دلوں میں خدا کے تقدس کی وضاحت کیسے کرتے ہو، تم اسے کیسے سمجھتے ہو؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے متعلق کیا ہے جو خدا نے ظاہر کیا ہے، یا جو اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، کیا لوگ اسے مقدس تسلیم کریں گے؟ کیا تم نے پہلے اس بارے میں سوچا ہے؟ میں نے جو دیکھا ہے وہ یہ ہے کہ لوگ اکثر عام طور پر استعمال ہونے والے الفاظ کہتے ہیں یا ایسے جملے ہوتے ہیں جو بار بار کہے جا چکے ہیں، پھر بھی وہ جانتے تک نہیں ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ اسی طرح ہر کوئی بس انھیں کہتا ہے، اور وہ اسے عادتاً کہتا ہے، تو یہ اس کے لیے ایک متعین اصطلاح بن جاتی ہے۔ تاہم، اگر وہ تحقیقات کرتا اور واقعی تفصیلات کا مطالعہ کرتا، تو وہ جان لیتا کہ اسے علم نہیں ہے کہ اس کے اصل معنی کیا ہیں یا اس سے کیا مراد ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے لفظ ”مقدس“ ہے، کوئی بھی ٹھیک سے نہیں جانتا کہ خدا کے تقدس کے لحاظ سے اس کی ذات کے کس پہلو کا حوالہ دیا جا رہا ہے، اور کوئی نہیں جانتا کہ لفظ ”مقدس“ کو خدا کے ساتھ کیسے ہم آہنگ کیا جائے۔ لوگ اپنے دلوں میں الجھے ہوئے ہیں، اور ان کی خدا کے تقدس کی پہچان مبہم اور غیر واضح ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ خدا مقدس کیسے ہے، تو اس بارے میں کوئی بھی بالکل واضح نہیں ہے۔ آج ہم اس موضوع پر رفاقت کریں گے تاکہ لفظ ”مقدس“ کو خدا کے ساتھ دوبارہ موافق کیا جائے تاکہ لوگ خدا کے تقدس کے جوہر کے اصل مواد کو دیکھ سکیں۔ یہ کچھ لوگوں کو عادتاً اور بے پروائی سے اس لفظ کو استعمال کرنے اور چیزوں کو الل ٹپ طریقے سے کہنے سے روک دے گا جب کہ انھیں علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کا کیا مطلب ہے یا وہ صحیح اور درست ہیں یا نہیں۔ لوگ ہمیشہ اس طرح بولتے رہے ہیں؛ تو بولتا رہا ہے، وہ بولتا رہا ہے، اور اس طرح یہ بولنے کی عادت بن گئی ہے۔ یہ نادانستہ طور پر ایسی اصطلاح کو داغدار کر دیتا ہے۔
سطحی طور پر، لفظ ”مقدس“ سمجھنے میں بہت آسان لگتا ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟ کم از کم لوگ لفظ ”مقدس“ کا مطلب صاف، گندگی سے پاک، متبرک اور خالص مانتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس حمد ”خالص بےعیب محبت“ میں جو ہم نے ابھی گائی ہے ”تقدس“ کو ”محبت“ کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے؛ یہ اس کا ایک حصہ ہے۔ خدا کی محبت اس کے جوہر کا حصہ ہے، لیکن یہ اس کا مکمل پن نہیں ہے۔ تاہم، لوگوں کے تصورات میں، وہ لفظ کو دیکھتے ہیں اور اسے ان چیزوں کے ساتھ جوڑتے ہیں جنہیں وہ خود خالص اور صاف سمجھتے ہیں، یا ان چیزوں کے ساتھ جنہیں وہ ذاتی طور پر گندگی سے پاک یا بے عیب سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر، کچھ لوگوں نے کہا کہ کنول کا پھول صاف ہے، اور یہ گندے کیچڑ میں بےعیب کھلتا ہے۔ چنانچہ لوگ کنول کے پھول پر لفظ ”مقدس“ کا اطلاق کرنے لگ گئے۔ کچھ لوگ من گھڑت محبت کی کہانیوں کو مقدس سمجھتے ہیں، یا وہ کچھ فرضی، پُرجلال کرداروں کو مقدس سمجھ سکتے ہیں۔ مزید برآں، کچھ لوگ انجیل کے لوگوں کو، یا روحانی کتابوں میں درج دوسروں کو – جیسے اولیا، رسولوں، یا دوسرے لوگوں کو جنہوں نے کبھی خدا کی پیروی کی ہے جب اس نے اپنا کام کیا – کے طور پر ایسے روحانی تجربات رکھتے تھے جو مقدس تھے۔ یہ وہ تمام چیزیں ہیں جن کا لوگوں نے تصور کیا تھا؛ لوگ ایسے تصورات رکھتے ہیں۔ لوگ اس طرح کے تصورات کیوں رکھتے ہیں؟ وجہ بہت سادہ ہے: اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ بدعنوان مزاج میں رہتے ہیں اور برائی اور گندگی کی دنیا میں رہتے ہیں۔ ہر چیز جو وہ دیکھتے ہیں، ہر چیز جسے وہ چھوتے ہیں، ہر چیز جس کا وہ تجربہ کرتے ہیں، وہ شیطان کی برائی اور بدعنوانی نیز شیطان کے زیر اثر لوگوں کے درمیان ہونے والی سازشیں، اندرونی لڑائی اور جنگ ہے۔ لہذا، یہاں تک کہ جب خدا لوگوں میں اپنا کام کرتا ہے، اور یہاں تک کہ جب وہ ان سے بات کرتا ہے اور اپنے مزاج اور جوہر کو ظاہر کرتا ہے، تب بھی وہ خدا کے تقدس اور جوہر کو دیکھنے یا جاننے کے قابل نہیں ہوتے ہیں۔ لوگ اکثر کہتے ہیں کہ خدا مقدس ہے، لیکن ان میں صحیح سمجھ بوجھ کی کمی ہے؛ وہ صرف خالی الفاظ کہہ رہے ہیں۔ کیونکہ لوگ گندگی اور بدعنوانی میں رہتے ہیں اور شیطان کے زیرِ تسلط ہیں، اور وہ روشنی نہیں دیکھتے، مثبت معاملات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، اور اس کے علاوہ، سچائی کو نہیں جانتے، کوئی بھی صحیح معنوں میں نہیں جانتا کہ ”مقدس“ کا کیا مطلب ہے۔ تو کیا اس بدعنوان انسانیت میں کوئی مقدس چیزیں یا مقدس لوگ ہیں؟ ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں: نہیں، کوئی نہیں ہیں، کیونکہ صرف خدا کا جوہر ہی مقدس ہے۔
پچھلی بار، ہم نے ایک پہلو کے بارے میں رفاقت کی تھی کہ خدا کا جوہر کیسے مقدس ہے۔ اس سے لوگوں کو خدا کے تقدس کا علم حاصل کرنے کے لیے کچھ تحریک ملی، لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ یہ لوگوں کو خدا کے تقدس کو پوری طرح جاننے کے قابل نہیں بنا سکتا، اور نہ ہی یہ انھیں مناسب طور پر یہ سمجھنے کے قابل بنا سکتا ہے کہ خدا کا تقدس منفرد ہے۔ مزید برآں، یہ لوگوں کو تقدس کے حقیقی معنی کو سمجھنے کے قابل نہیں بنا سکتا جو کہ خدا میں مکمل طور پر مجسم ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس موضوع پر اپنی رفاقت جاری رکھیں۔ پچھلی بار، ہماری رفاقت نے تین موضوعات پر بات کی تھی، اس لیے اب ہمیں چوتھے پر بات کرنی چاہیے۔ ہم صحیفوں سے پڑھ کر شروع کریں گے۔
شیطان کی آزمائش
متّی 4: 1-4 اُس وقت رُوح یِسُوعؔ کو جنگل میں لے گیا تاکہ اِبلِیس سے آزمایا جائے۔ اور چالِیس دِن اور چالِیس رات فاقہ کر کے آخِر کو اُسے بُھوک لگی۔ اور آزمانے والے نے پاس آ کر اُس سے کہا اگر تُو خُدا کا بیٹا ہے تو فرما کہ یہ پتّھر روٹِیاں بن جائیں۔ اُس نے جواب میں کہا لِکھا ہے کہ آدمی صِرف روٹی ہی سے جِیتا نہ رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خُدا کے مُنہ سے نِکلتی ہے۔
یہ وہ الفاظ ہیں جن سے شیطان نے پہلے خداوند یسوع کو آزمانے کی کوشش کی۔ شیطان نے جو کہا اس کا مواد کیا ہے؟ (”اگر تُو خُدا کا بیٹا ہے تو فرما کہ یہ پتّھر روٹِیاں بن جائیں۔“) یہ الفاظ جو شیطان نے کہے بہت سادہ ہیں، لیکن کیا ان کے جوہر کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے؟ شیطان نے کہا، ”اگر تُو خُدا کا بیٹا ہے“، لیکن اپنے دل میں، کیا یہ جانتا تھا یا نہیں جانتا تھا کہ عیسیٰ خدا کا بیٹا تھا؟ کیا یہ جانتا تھا یا نہیں جانتا تھا کہ وہ مسیح تھا؟ (یہ جانتا تھا)۔ پھر اس نے کیوں کہا کہ ”اگر تُو ہے“؟ (یہ خدا کو آزمانے کی کوشش کر رہا تھا)۔ لیکن ایسا کرنے میں اس کا مقصد کیا تھا؟ اس میں کہا گیا، ”اگر تُو خُدا کا بیٹا ہے۔“ اپنے دل میں اسے یہ معلوم تھا کہ یسوع مسیح خدا کا بیٹا ہے، اس کے دل میں یہ بات بالکل واضح تھی، لیکن کیا یہ جاننے کے باوجود اس نے اس کی اطاعت کی اور اس کی عبادت کی؟ (نہیں)۔ یہ کیا کرنا چاہتا تھا؟ یہ اس طریقے اور ان الفاظ کو خداوند یسوع کو غصہ دلانے کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا، اور پھر اسے اپنے ارادوں کے مطابق کام کرنے کے لیے بے وقوف بنانا چاہتا تھا۔ کیا شیطان کی باتوں کے پیچھے یہی مطلب نہیں تھا؟ شیطان اپنے دل میں، یہ واضح طور پر جانتا تھا کہ یہ خُداوند یسوع مسیح ہے، لیکن اس کے باوجود اس نے یہ الفاظ کہے۔ کیا یہ شیطان کی فطرت نہیں ہے؟ شیطان کی فطرت کیا ہے؟ (مکارانہ، بری، اور خدا کی تعظیم نہ کرنے والی)۔ خدا کی تعظیم نہ کرنے کے کیا نتائج ہوں گے؟ کیا ایسا نہیں تھا کہ یہ خدا پر حملہ کرنا چاہتا تھا؟ یہ خدا پر حملہ کرنے کے لیے اس طریقے کو استعمال کرنا چاہتا تھا، اور اس لیے اس نے کہا: ”اگر تُو خُدا کا بیٹا ہے تو فرما کہ یہ پتّھر روٹِیاں بن جائیں“؛ کیا یہ شیطان کا برا ارادہ نہیں ہے؟ یہ واقعی کیا کرنے کی کوشش کر رہا تھا؟ اس کا مقصد بہت واضح ہے: یہ خداوند یسوع مسیح کے مقام اور شناخت کو مسترد کرنے کے لیے اس طریقے کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ان الفاظ سے شیطان کا کیا مطلب تھا، ”اگر تُو خُدا کا بیٹا ہے تو فرما کہ یہ پتّھر روٹِیاں بن جائیں۔ اگر تو یہ نہیں کر سکتا، تو تُو خدا کا بیٹا نہیں ہے، لہذا تجھے اپنا کام مزید جاری نہیں رکھنا چاہیے۔“ کیا ایسا نہیں ہے؟ یہ خدا پر حملہ کرنے کے لیے اس طریقے کو استعمال کرنا چاہتا تھا، یہ خدا کے کام کو منہدم اور تباہ کرنا چاہتا تھا؛ یہ شیطان کی بدخواہی ہے۔ اس کی بدنیتی اس کی فطرت کا فطری اظہار ہے۔ حالانکہ یہ جانتا تھا کہ خُداوند یسوع مسیح خدا کا بیٹا ہے، خود مجسم خدا ہے، لیکن یہ اس قسم کا کام کیے بغیر نہیں رہ سکا، جو کہ خدا کے پیچھے تعاقب کرنا، مسلسل اُس پر حملہ کرنا اور خدا کے کام میں خلل ڈالنے اور سبوتاژ کرنے کے لیے بہت زیادہ کوشش کرنا ہے۔
اب ہم اس جملے کا تجزیہ کرتے ہیں جو شیطان نے کہا تھا: ”فرما کہ یہ پتّھر روٹِیاں بن جائیں۔“ پتھروں کو روٹی میں بدلنا – کیا اس کا کوئی مطلب ہے؟ اگر خوراک موجود ہے تو اسے کیوں نہیں کھاتے؟ پتھر کو خوراک میں بدلنا کیوں ضروری ہے؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں کوئی معنی نہیں ہے؟ حالانکہ وہ اس وقت روزے سے تھا، لیکن یقیناً خداوند یسوع کے پاس کھانے کے لیے خوراک تھی؟ (اس نے ایسا کیا)۔ تو، یہاں ہم شیطان کے الفاظ کی لغویت کو دیکھ سکتے ہیں۔ شیطان کی تمام دھوکے بازی اور بدنیتی کے لیے، ہم اب بھی اس کی لغویت اور غیر معقولیت کو دیکھ سکتے ہیں۔ شیطان بہت سے کام کرتا ہے جن کے ذریعے تو اس کی بدنیت فطرت کو دیکھ سکتا ہے۔ تو اسے خدا کے کام کو سبوتاژ کرنے والے کام کرتے ہوئے دیکھ سکتا ہے، اور یہ دیکھ کر، تو محسوس کرتا ہے کہ یہ قابل نفرت اور مشتعل کرنے والا ہے۔ لیکن، دوسری طرف، کیا تجھے اس کے قول و فعل کے پیچھے بچکانہ، مضحکہ خیز فطرت نظر نہیں آتی؟ یہ شیطان کی فطرت کے بارے میں ایک انکشاف ہے؛ چونکہ اس کی فطرت اس قسم کی ہے، اس لیے یہ اس قسم کا کام کرے گا۔ آج لوگوں کے لیے شیطان کے یہ الفاظ لغو اور مضحکہ خیز ہیں۔ لیکن شیطان یقیناً ایسے الفاظ کہنے پر قادر ہے۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ جاہل اور غیر معقول ہے؟ شیطان کی برائی ہر جگہ ہے اور وہ مسلسل ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ اور خداوند یسوع نے اس کا کس طرح جواب دیا؟ (”آدمی صِرف روٹی ہی سے جِیتا نہ رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خُدا کے مُنہ سے نِکلتی ہے۔“) کیا ان الفاظ میں کوئی طاقت ہے؟ (ہاں ہے)۔ ہم کیوں کہتے ہیں کہ ان میں طاقت ہے؟ اس لیے کہ یہ الفاظ سچائی ہیں۔ اب کیا انسان صرف روٹی سے ہی جیتا ہے؟ خداوند یسوع نے چالیس دن اور راتوں تک روزہ رکھا۔ کیا وہ بھوکا مر گیا؟ وہ بھوکا نہیں مرا، اس لیے شیطان اس کے پاس آیا اور اسے پتھروں کو خوراک میں بدلنے کی ترغیب دی، اس طرح کی باتیں کہتے ہوئے: ”اگر تو پتھروں کو خوراک میں بدل دے گا، تو کیا تب تیرے پاس کھانے کی چیزیں نہیں ہوں گی؟ کیا پھر تو روزہ رکھنے اور بھوکا رہنے سے بچ نہیں جائے گا؟“ لیکن خداوند یسوع نے کہا، ”آدمی صِرف روٹی ہی سے جِیتا نہ رہے گا،“ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ انسان جسمانی جسم میں رہتا ہے، لیکن یہ خوراک نہیں ہے جس سے اس کا جسمانی جسم زندہ رہتا ہے اور سانس لیتا ہے، بلکہ یہ وہ ہر ایک لفظ ہے جو خدا کے منہ سے نکلتا ہے۔ ایک طرف، یہ الفاظ سچائی ہیں؛ وہ لوگوں کو یقین دلاتے ہیں، انھیں یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ خدا پر انحصار کر سکتے ہیں اور وہ سچائی ہے۔ دوسری طرف، کیا ان الفاظ کا کوئی عملی پہلو ہے؟ کیا خداوند یسوع چالیس دن اور رات کے روزے رکھنے کے بعد بھی کھڑا اور زندہ نہیں تھا؟ کیا یہ ایک حقیقی مثال نہیں ہے؟ اُس نے چالیس دن اور راتوں تک کوئی کھانا نہیں کھایا تھا، پھر بھی وہ زندہ تھا۔ یہ اس کے الفاظ کی سچائی کی تصدیق کرنے والا طاقتور ثبوت ہے۔ یہ الفاظ سادہ ہیں، لیکن خُداوند یسوع کے لیے، کیا اُس نے اُن کو صرف اُس وقت کہا جب شیطان نے اُسے آزمایا، یا وہ پہلے سے ہی فطری طور پر اُس کا حصہ تھے؟ اسے دوسرے طریقے سے بیان کرتے ہوئے، خدا سچائی ہے، اور خدا زندگی ہے، لیکن کیا خدا کی سچائی اور زندگی اس کے بعد کا اضافہ تھا؟ کیا وہ بعد کے تجربے سے پیدا ہوئے تھے؟ نہیں – وہ خدا میں پیدائشی ہیں۔ یعنی سچائی اور زندگی خدا کا جوہر ہیں۔ اس کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے، وہ جو کچھ ظاہر کرتا ہے وہ سچائی ہے۔ یہ سچائی، یہ الفاظ – چاہے اس کی تقریر کا مواد طویل ہو یا مختصر – انسان کو زندہ رہنے اور انسان کو زندگی دینے کے قابل بنا سکتے ہیں؛ وہ لوگوں کو انسانی زندگی کے راستے کے بارے میں سچائی اور وضاحت حاصل کرنے کے قابل بنا سکتے ہیں، اور انھیں خدا پر یقین رکھنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، خدا کے ان الفاظ کے استعمال کا ذریعہ مثبت ہے۔ تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ مثبت چیز مقدس ہے؟ (ہاں)۔ شیطان کے وہ الفاظ شیطان کی فطرت سے آتے ہیں۔ شیطان اپنی برائی اور بدنیتی کو ہر جگہ، مسلسل ظاہر کرتا ہے۔ اب کیا شیطان یہ انکشافات فطری طور پر کرتا ہے؟ کیا کوئی اسے ایسا کرنے کی ہدایت کرتا ہے؟ کیا کوئی اس کی مدد کرتا ہے؟ کیا کوئی اس پر زبردستی کرتا ہے؟ نہیں، یہ تمام انکشافات، یہ اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ یہ شیطان کی شیطانی فطرت ہے۔ خدا جو کچھ بھی کرتا ہے اور جس طرح بھی کرتا ہے شیطان اس کے پیچھے تعاقب کرتا ہے۔ ان چیزوں کا جوہر اور حقیقی فطرت جو شیطان کہتا ہے اور کرتا ہے شیطان کا جوہر ہے – ایک ایسا جوہر جو برائی اور بدنیتی پر مبنی ہے۔ اب، جیسا کہ ہم پڑھ رہے ہیں، شیطان نے اور کیا کہا؟ آؤ ہم پڑھتے ہیں۔
متّی 4: 5-7 تب اِبلِیس اُسے مُقدّس شہر میں لے گیا اور ہَیکل کے کنگُرے پر کھڑا کر کے اُس سے کہا کہ اگر تُو خُدا کا بیٹا ہے تو اپنے تئِیں نِیچے گِرا دے کیونکہ لِکھا ہے کہ وہ تیری بابت اپنے فرشتوں کو حُکم دے گا اور وہ تُجھے ہاتھوں پر اُٹھا لیں گے اَیسا نہ ہو کہ تیرے پاؤں کو پتّھر سے ٹھیس لگے۔ یِسُوعؔ نے اُس سے کہا یہ بھی لِکھا ہے کہ تُو خُداوند اپنے خُدا کی آزمایش نہ کر۔
آؤ پہلے ان الفاظ کو دیکھتے ہیں جو شیطان نے یہاں کہے۔ شیطان نے کہا، ”اگر تُو خُدا کا بیٹا ہے تو اپنے تئِیں نِیچے گِرا دے،“ اور پھر اس نے صحیفوں سے نقل کیا: ”وہ تیری بابت اپنے فرشتوں کو حُکم دے گا اور وہ تُجھے ہاتھوں پر اُٹھا لیں گے اَیسا نہ ہو کہ تیرے پاؤں کو پتّھر سے ٹھیس لگے۔“ جب تو شیطان کی باتیں سنتا ہے تو تجھے کیسا لگتا ہے؟ کیا وہ بہت بچکانہ نہیں ہیں؟ وہ بچکانہ، لغو اور مکروہ ہیں۔ میں یہ کیوں کہتا ہوں؟ شیطان اکثر احمقانہ کام کرتا ہے، اور یہ خود کو بہت چالاک سمجھتا ہے۔ یہ اکثر صحیفوں سے حوالے دیتا ہے – یہاں تک کہ وہ الفاظ جو خُدا کی طرف سے کہے گئے ہیں – ان الفاظ کو خُدا کے خلاف پھیرنے کی کوشش کرتے ہوئے اُس پر حملہ کرنے اور خُدا کے کام کے منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش میں اُسے آزمانے کی کوشش کرتا ہے۔ کیا تو شیطان کی طرف سے کہے گئے ان الفاظ میں کچھ دیکھ سکتا ہے؟ (شیطان برے ارادے پالتا ہے)۔ شیطان جو کچھ بھی کرتا ہے، اس نے ہمیشہ انسانیت کو آزمانے کی کوشش کی ہے۔ شیطان سیدھی بات نہیں کرتا بلکہ فتنہ، فریب اور بہکاوے کا استعمال کرتے ہوئے گول مول بات کرتا ہے۔ شیطان اپنی خدا کی آزمائش تک اس طرح پہنچتا ہے جیسے کہ وہ ایک عام انسان ہو، یہ یقین کرتا ہے کہ خدا بھی جاہل، بے وقوف اور چیزوں کی اصل شکل کو واضح طور پر پہچاننے سے قاصر ہے، جیسا کہ انسان اس سے قاصر ہے۔ شیطان یہ سمجھتا ہے کہ خدا اور انسان یکساں اس کے جوہر اور اس کے فریب اور مذموم ارادے کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔ کیا یہ شیطان کی حماقت نہیں ہے؟ مزید برآں، شیطان واضح طور پر صحیفوں سے نقل کرتا ہے، یہ یقین کرتا ہے کہ ایسا کرنے سے اس کا اعتبار قائم ہوتا ہے، اور یہ کہ تو اس کے الفاظ میں کوئی خامی نکالنے یا بے وقوف بننے سے بچنے کے قابل نہیں ہو گا۔ کیا یہ شیطان کی نامعقولیت اور بچگانہ پن نہیں ہے؟ یہ بالکل ایسے ہی ہے جب لوگ خوشخبری پھیلاتے ہیں اور خدا کی گواہی دیتے ہیں: کیا کبھی ایمان نہ رکھنے والے بھی ویسا کچھ نہیں کہیں گے جو شیطان نے کہا؟ کیا تم نے لوگوں کو کچھ ایسا ہی کہتے سنا ہے؟ جب تو ایسی باتیں سنتا ہے تو تجھے کیسا لگتا ہے؟ کیا تو نفرت محسوس کرتا ہے؟ (ہاں)۔ جب تو کراہت محسوس کرتا ہے، تو کیا تو نفرت اور بے رغبتی بھی محسوس کرتا ہے؟ جب تیرے یہ احساسات ہوتے ہیں تو کیا تو اس بات کو پہچان سکتا ہے کہ شیطان اور شیطان انسان میں جو بدعنوان مزاج پیدا کرتا ہے وہ خبیث ہیں؟ اپنے دل میں، کیا تجھے کبھی یہ احساس ہوا ہے: ”جب شیطان بولتا ہے، تو وہ ایسا ایک حملے اور آزمائش کے طور پر کرتا ہے؛ شیطان کے الفاظ غیرمعقول، مضحکہ خیز، بچکانہ اور مکروہ ہیں؛ تاہم، خدا کبھی بھی اس طرح سے بات یا کام نہیں کرے گا، اور بے شک اس نے ایسا کبھی کیا بھی نہیں ہے؟“ بلاشبہ، اس صورت حال میں لوگ اسے صرف مبہم انداز میں ہی محسوس کر سکتے ہیں، اور خدا کے تقدس کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اپنی موجودہ حیثیت کے ساتھ، تم صرف یہ محسوس کرتے ہو کہ: ”جو کچھ خدا کہتا ہے وہ سچائی ہے، ہمارے لیے فائدہ مند ہے، اور ہمیں اسے ضرور قبول کر لینا چاہیے۔“ اس بات سے قطع نظر کہ تم اسے قبول کرنے کے قابل ہو یا نہیں، تم بلا استثنا کہتے ہو کہ خدا کا کلام سچائی ہے اور خدا سچا ہے، لیکن تم یہ نہیں جانتے کہ سچائی خود مقدس ہے اور خدا مقدس ہے۔
تو، شیطان کے ان الفاظ پر یسوع کا رد عمل کیا تھا؟ یسوع نے اس سے کہا: ”یہ بھی لِکھا ہے کہ تُو خُداوند اپنے خُدا کی آزمایش نہ کر۔“ کیا ان الفاظ میں سچائی ہے جو یسوع نے کہی؟ ان میں یقیناً سچائی ہے۔ سطحی طور پر، یہ الفاظ لوگوں کے ماننے کے لیے ایک حکم ہے، ایک سادہ سا جملہ، لیکن اس کے باوجود، انسان اور شیطان دونوں نے اکثر ان الفاظ کی خلاف ورزی کی ہے۔ چنانچہ، خُداوند یسوع نے شیطان سے کہا، ”تُو خُداوند اپنے خُدا کی آزمایش نہ کر،“ کیونکہ شیطان اکثر ایسا ہی کرتا ہے، جب وہ کام میں مشغول ہوتا ہے تو بہت زیادہ کوشش کرتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ شیطان نے یہ ڈھٹائی سے اور شرم کے بغیر کیا۔ یہ شیطان کی فطرت اور جوہر میں ہے کہ وہ خدا سے نہ ڈرے اور اپنے دل میں خدا کی تعظیم نہ رکھے۔ یہاں تک کہ جب شیطان خُدا کے ساتھ کھڑا تھا اور اُسے دیکھ سکتا تھا، تب بھی وہ خُدا کو آزمائے بغیر نہیں رہ سکا۔ لہذا، خداوند یسوع نے شیطان سے کہا، ”تُو خُداوند اپنے خُدا کی آزمایش نہ کر۔“ یہ وہ کلمات ہیں جو خدا نے اکثر شیطان سے کہے ہیں۔ تو کیا موجودہ دور میں اس جملے کا اطلاق مناسب ہے؟ (ہاں، جیسا کہ ہم بھی اکثر خدا کو آزماتے ہیں)۔ لوگ خدا کو اکثر کیوں آزماتے ہیں؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ بدعنوان شیطانی مزاج سے بھرے ہوئے ہیں؟ (ہاں)۔ تو کیا شیطان کے الفاظ ان چیزوں سے بالاتر ہیں جو لوگ اکثر کہتے ہیں؟ اور کن حالات میں لوگ یہ الفاظ کہتے ہیں؟ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ زمان و مکان سے قطع نظر لوگ اس طرح کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ لوگوں کا مزاج شیطان کے بدعنوان مزاج سے مختلف نہیں ہے۔ خُداوند یسوع نے چند سادہ الفاظ کہے، ایسے الفاظ جو سچائی کو ظاہر کرتے ہیں، ایسے الفاظ جن کی لوگوں کو ضرورت ہے۔ تاہم، اس صورت حال میں، کیا خُداوند یسوع اس طرح بات کر رہا تھا کہ شیطان سے بحث کرے؟ کیا اس نے شیطان سے جو کچھ کہا اس میں کوئی چیز متصادم تھی؟ (نہیں)۔ خُداوند یسوع نے اپنے دل میں شیطان کی آزمائش کے بارے میں کیسا محسوس کیا؟ کیا اُس نے نفرت محسوس کی اور سرد مہری برتی؟ خُداوند یسوع نے سرد مہری برتی اور نفرت محسوس کی، اور پھر بھی اُس نے شیطان سے بحث نہیں کی، اور اُس کے کسی بھی عظیم اصول کے بارے میں بات کرنے کا امکان تو اور بھی کم ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ (کیونکہ شیطان ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے؛ یہ کبھی تبدیل نہیں ہو سکتا)۔ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ شیطان پر دلیل بےاثر ہے؟ (ہاں)۔ کیا شیطان تسلیم کر سکتا ہے کہ خدا سچائی ہے؟ شیطان کبھی بھی یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ خدا سچائی ہے اور یہ کبھی نہیں مانے گا کہ خدا سچائی ہے؛ یہ اس کی فطرت ہے۔ شیطان کی فطرت کا ایک پہلو اور بھی ہے جو کہ مکروہ ہے۔ یہ کیا ہے؟ خُداوند یسوع کو آزمانے کی اپنی کوششوں میں، شیطان نے سوچا کہ وہ ایسا کرنے کی کوشش کرے گا چاہے یہ ناکام بھی ہو۔ اگرچہ اسے سزا دی جائے گی، اس نے بہرحال کوشش کرنے کا انتخاب کیا۔ اگرچہ اسے ایسا کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا، لیکن وہ پھر بھی اپنی کوششوں پر قائم رہے گا اور بالکل آخر تک خدا کے خلاف کھڑا رہے گا۔ یہ کس قسم کی فطرت ہے؟ کیا یہ بری نہیں ہے؟ اگر کوئی شخص خدا کا ذکر کرنے پر مشتعل ہو جائے اور انتہائی غصے میں آ جائے تو کیا اس نے خدا کو دیکھا ہے؟ کیا وہ جانتا ہے کہ خدا کون ہے؟ وہ نہیں جانتا کہ خدا کون ہے، اس پر ایمان نہیں رکھتا، اور خدا نے اس سے بات نہیں کی ہے۔ خدا نے اسے کبھی تنگ نہیں کیا تو وہ غصے میں کیوں آئے گا؟ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ شخص برا ہے؟ دنیاوی رجحانات، کھانا، پینا، اور لذت کی تلاش، اور مشہور شخصیات کا پیچھا کرنا – ان میں سے کوئی بھی چیز ایسے انسان کو پریشان نہیں کرے گی۔ تاہم، لفظ ”خدا،“ یا خدا کے کلام کی سچائی کے ذکر پر، وہ انتہائی غصے میں آ جاتا ہے۔ کیا یہ بری فطرت کا مالک ہونا نہیں ہے؟ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ انسان کی بری فطرت ہے۔ اب، تمہارے لیے بات کرتے ہوئے، کیا ایسے مواقع آتے ہیں جب سچائی کا ذکر کیا جاتا ہے، یا جب انسانیت کے لیے خدا کی آزمائشوں یا انسان کے خلاف خدا کے فیصلے کے الفاظ کا ذکر کیا جاتا ہے، تو تم کراہت محسوس کرتے ہو؛ تم پسپائی محسوس کرتے ہو، اور تم ایسی باتیں نہیں سننا چاہتے؟ تمہارا دل سوچ سکتا ہے: ”کیا سب لوگ یہ نہیں کہتے کہ خدا سچائی ہے؟ ان میں سے کچھ الفاظ سچائی نہیں ہیں! وہ واضح طور پر انسان کے لیے خدا کی تنبیہ کے الفاظ ہیں!“ کچھ لوگ اپنے دلوں میں سخت کراہت بھی محسوس کر سکتے ہیں، اور سوچ سکتے ہیں: ”یہ ہر روز بولا جاتا ہے – اُس کی آزمائشیں، اُس کا فیصلہ، یہ کب ختم ہو گا؟ ہمیں اچھی منزل کب ملے گی؟“ معلوم نہیں یہ غیر معقول غصہ کہاں سے آتا ہے۔ یہ کس قسم کی فطرت ہے؟ (بری فطرت)۔ اس کی ہدایت اور راہنمائی شیطان کی بری فطرت کی طرف سے ہوتی ہے۔ خدا کے نقطہ نظر سے، شیطان کی بری فطرت اور انسان کی بدعنوانی کے معاملے میں، وہ لوگوں سے کبھی بھی بحث نہیں کرتا اور نہ ہی ان سے رنجش رکھتا ہے، اور جب لوگ بے وقوفی سے کام لیتے ہیں تو وہ کبھی ہنگامہ نہیں کرتا۔ تم کبھی نہیں دیکھو گے کہ خدا چیزوں کے بارے میں انسانوں سے ملتا جلتا نظریہ رکھتا ہے، اور مزید یہ کہ تم اسے معاملات کو سنبھالنے کے لیے انسانیت کے نقطہ نظر، علم، سائنس، فلسفہ یا تخیل کو استعمال کرتے ہوئے نہیں دیکھو گے۔ بلکہ خدا جو کچھ کرتا ہے اور جو کچھ وہ ظاہر کرتا ہے سچائی سے منسلک ہے۔ یعنی اس کا کہا ہوا ہر قول اور کیا ہوا ہر عمل سچائی سے بندھا ہوا ہے۔ یہ سچائی کسی بے بنیاد تخیل کی پیداوار نہیں ہے؛۔ یہ سچائی اور یہ کلام خدا نے اپنے جوہر اور اپنی زندگی کی وجہ سے بیان کیا ہے۔ چونکہ یہ کلام اور ہر اس کام کا جوہر جو خدا نے کیا ہے سچائی ہے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا کا جوہر مقدس ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ہر وہ چیز جو خدا کہتا اور کرتا ہے لوگوں کے لیے قوتِ حیات اور روشنی لے کر آتی ہے، لوگوں کو مثبت چیزوں اور ان مثبت چیزوں کی حقیقت کو دیکھنے کے قابل بناتی ہے، اور انسانیت کے لیے راستہ بتاتی ہے تاکہ وہ صحیح راستے پر چل سکے۔ یہ تمام چیزیں خُدا کے جوہر اور اُس کے تقدس کے جوہر سے متعین ہوتی ہیں۔ تم اب یہ دیکھتے ہو، کیا تم نہیں دیکھتے؟ اب، ہم صحیفوں سے ایک اور پڑھائی جاری رکھیں گے۔
متّی 4: 8-11 پِھر اِبلِیس اُسے ایک بُہت اُونچے پہاڑ پر لے گیا اور دُنیا کی سب سلطنتیں اور اُن کی شان و شوکت اُسے دِکھائی۔ اور اُس سے کہا اگر تُو جُھک کر مُجھے سِجدہ کرے تو یہ سب کُچھ تُجھے دے دُوں گا۔ یِسُوعؔ نے اُس سے کہا اَے شَیطان دُور ہو کیونکہ لِکھا ہے کہ تُو خُداوند اپنے خُدا کو سِجدہ کر اور صِرف اُسی کی عبادت کر۔ تب اِبلِیس اُس کے پاس سے چلا گیا اور دیکھو فرشتے آ کر اُس کی خِدمت کرنے لگے۔
ابلیس شیطان نے، اپنی گزشتہ دو چالوں میں ناکام ہونے کے بعد، ایک کوشش اور کی: اس نے دنیا کی تمام سلطنتیں اور ان کا جلال خداوند یسوع کو دکھایا اور اس سے اپنی عبادت کرنے کو کہا۔ اس صورت حال سے تم شیطان کی اصل خصوصیات کے بارے میں کیا دیکھ سکتے ہو؟ کیا ابلیس شیطان بالکل بے شرم نہیں ہے؟ (ہاں)۔ یہ کیسی بے شرمی ہے؟ تمام چیزیں خُدا کی طرف سے پیدا کی گئی تھیں، پھر بھی شیطان نے پلٹ کر خُدا کو سب چیزیں دکھاتے ہوئے کہا، ”ان تمام سلطنتوں کی دولت اور جلال کو دیکھ۔ اگر تو میری عبادت کرے گا تو میں یہ سب تجھے دے دوں گا۔“ کیا یہ حقیقت کے بالکل برعکس کردار نہیں ہے؟ کیا شیطان بے شرم نہیں ہے؟ خدا نے سب چیزیں بنائیں، لیکن کیا اس نے سب کچھ اپنے لطف کے لیے بنایا؟ خدا نے انسانیت کو سب کچھ دیا، لیکن شیطان اس سب پر قبضہ کرنا چاہتا تھا اور سب کچھ چھیننے کے بعد، اس نے خدا سے کہا، ”میری عبادت کر! میری عبادت کر اور میں یہ سب تجھے دے دوں گا۔“ یہ شیطان کا مکروہ چہرہ ہے؛ یہ بالکل بے شرم ہے! حتیٰ کہ شیطان لفظ ”شرم“ کا مطلب بھی نہیں جانتا۔ یہ اس کی برائی کی ایک اور مثال ہے۔ یہ تک نہیں جانتا کہ شرم کیا ہوتی ہے۔ شیطان واضح طور پر جانتا ہے کہ خدا نے تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے اور وہ سب چیزوں کا انتظام کرتا ہے اور اس کا سب چیزوں پر اختیار ہے۔ تمام چیزیں انسان کی نہیں ہیں، اور شیطان کی ہونے کا امکان تو اور بھی بہت کم ہے، بلکہ خدا کی ہیں، اور پھر بھی ابلیس شیطان نے ڈھٹائی سے کہا کہ وہ سب کچھ خدا کو دے گا۔ کیا یہ ایک بار پھر شیطان کے نامعقولیت اور بے شرمی سے کام کرنے کی ایک اور مثال نہیں ہے؟ اس کی وجہ سے خدا شیطان سے اور بھی زیادہ نفرت کرتا ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟ لیکن اس سے فرق نہیں پڑتا کہ شیطان نے جو بھی کوشش کی، کیا خُداوند یسوع کو بے وقوف بنایا گیا؟ خداوند یسوع نے کیا کہا؟ (”تُو خُداوند اپنے خُدا کو سِجدہ کر اور صِرف اُسی کی عبادت کر۔“) کیا ان الفاظ کا کوئی عملی معنی ہے؟ (ہاں)۔ کس قسم کا عملی معنی؟ ہم شیطان کی برائی اور بے شرمی کو اس کی گفتگو میں دیکھتے ہیں۔ تو اگر انسان شیطان کی پرستش کرتا تو اس کا نتیجہ کیا نکلتا؟ کیا وہ تمام سلطنتوں کی دولت اور شان و شوکت حاصل کر لیتا؟ (نہیں)۔ وہ کیا حاصل کرتا؟ کیا انسانیت شیطان کی طرح بے شرم اور مضحکہ خیز ہو جاتی؟ (ہاں)۔ تب وہ شیطان سے مختلف نہیں ہوتی۔ لہٰذا، خداوند یسوع نے یہ الفاظ کہے، جو ہر ایک انسان کے لیے اہم ہیں: ”تُو خُداوند اپنے خُدا کو سِجدہ کر اور صِرف اُسی کی عبادت کر۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ خداوند کے سوا، خود خدا کے سوا، اگر تو کسی اور کی خدمت کرتا ہے، اگر تو ابلیس شیطان کی پرستش کرتا ہے، پھر تو شیطان کی طرح اسی غلاظت میں لوٹنیاں لگائے گا۔ پھر تو شیطان کی بے شرمی اور اس کی برائی میں شریک ہو گا اور بالکل شیطان کی طرح تو خدا کو آزمائے گا اور خدا پر حملہ کرے گا۔ پھر تیرا انجام کیا ہو گا؟ خدا تجھ سے نفرت کرے گا، خدا تجھے مارے گا، خدا تجھے تباہ کر دے گا۔ شیطان نے خُداوند یسوع کو کئی بار آزمایا لیکن کامیاب نہیں ہوا، کیا اُس نے دوبارہ کوشش کی؟ شیطان نے دوبارہ کوشش نہیں کی اور پھر وہ چلا گیا۔ اس سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شیطان کی بری فطرت، اس کی بدنیتی اور اس کی نامعقولیت اور لغویت اس قابل بھی نہیں ہیں کہ خدا کے سامنے ان کا ذکر کیا جائے۔ خُداوند یسوع نے شیطان کو صرف تین جملوں سے شکست دی، جس کے بعد وہ تیزی سے دم دبا کر بھاگ گیا، اپنا چہرہ دکھانے سے بھی شرمندہ تھا، اور اس نے دوبارہ کبھی خُداوند یسوع کو نہیں آزمایا۔ چونکہ خُداوند یسوع نے شیطان کی اس آزمائش کو شکست دی تھی، اس لیے اب جو کام اسے کرنا تھا اور جو کام اس کے سامنے تھے، وہ آسانی سے انھیں جاری رکھ سکتا تھا۔ کیا ہر وہ چیز جو خُداوند یسوع نے اِس صورت حال میں کی اور کہی، اگر اُس کا اطلاق آج کے دور میں کیا جاتا تو کیا اُس کا ہر ایک انسان کے لیے کوئی عملی مفہوم ہوتا؟ (ہاں)۔ کس قسم کا عملی مفہوم؟ کیا شیطان کو شکست دینا آسان کام ہے؟ کیا لوگوں کو شیطان کی بُری فطرت کی واضح سمجھ بوجھ ضرور ہونی چاہیے؟ کیا لوگوں کو شیطان کی آزمائشوں کی درست سمجھ بوجھ ضرور ہونی چاہیے؟ (ہاں)۔ جب تو خود اپنی زندگی میں شیطان کی آزمائشوں کا تجربہ کرتا ہے، اگر تو شیطان کی شیطانی فطرت کو دیکھ سکتا، تو کیا تو اسے شکست دینے کے قابل نہیں ہوتا؟ اگر تجھے شیطان کی نامعقولیت اور لغویت کا علم ہوتا تو کیا تو پھر بھی شیطان کے ساتھ کھڑا ہوتا اور خدا پر حملہ کرتا؟ اگر تجھے یہ سمجھ آ جائے کہ شیطان کی بدنیتی اور بے شرمی تیرے ذریعے کیسے ظاہر ہو رہی ہے – اگر تو ان چیزوں کو واضح طور پر پہچانتا اور سمجھتا ہے – تو کیا تو پھر بھی اسی طرح خدا پر حملہ اور خدا کی آزمائش کرے گا؟ (نہیں، ہم نہیں کریں گے)۔ تم کیا کرو گے؟ (ہم شیطان کے خلاف بغاوت کریں گے اور اسے ترک کر دیں گے)۔ کیا یہ کرنا آسان ہے؟ یہ آسان نہیں ہے۔ ایسا کرنے کے لیے، لوگوں کو کثرت سے عبادت کرنی چاہیے، انھیں چاہیے کہ وہ اکثر اپنے آپ کو خدا کے سامنے پیش کریں اور اپنا جائزہ لیں۔ اور انھیں خدا کا نظم و ضبط اور اس کی عدالت اور تادیب کو خود پر لاگو ہونے دینا چاہیے۔ صرف اسی طرح آہستہ آہستہ لوگ اپنے آپ کو شیطان کے فریب اور قابو سے باہر نکالیں گے۔
اب شیطان کی طرف سے کہے گئے ان تمام الفاظ کو دیکھ کر ہم ان باتوں کا خلاصہ کریں گے جن سے شیطان کا جوہر بنتا ہے۔ سب سے پہلے، شیطان کے جوہر کو عام طور پر خُدا کے تقدس کے برعکس برائی کہا جا سکتا ہے۔ میں کیوں کہتا ہوں کہ شیطان کا جوہر برا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے، شیطان لوگوں کے ساتھ جو کرتا ہے اس کے نتائج کا جائزہ لینا چاہیے۔ شیطان انسان کو بدعنوان بناتا اور قابو کرتا ہے، اور انسان شیطان کے بدعنوان مزاج کے تحت کام کرتا ہے، اور شیطان کے ذریعے بدعنوان بنائے گئے لوگوں کی دنیا میں رہتا ہے۔ انسانیت نادانستہ طور پر شیطان کے قبضے میں ہے اور اس میں جذب ہو گئی ہے؛ اس لیے انسان کے پاس شیطان کا بدعنوان مزاج ہے جو کہ شیطان کی فطرت ہے۔ شیطان نے جو سب کچھ کہا ہے اور کیا ہے، اس سے کیا تم نے اس کا غرور دیکھا ہے؟ کیا تم نے اس کی دھوکے بازی اور بدنیتی دیکھی ہے؟ شیطان کا غرور بنیادی طور پر کیسے ظاہر ہوتا ہے؟ کیا شیطان ہمیشہ خدا کے مقام پر قبضہ کرنے کی خواہش پالتا ہے؟ شیطان ہمیشہ خدا کے کام کو، اور خدا کے مقام کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتا ہے اور اسے اپنے لیے حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ لوگ شیطان کی پیروی، حمایت اور عبادت کریں؛ یہ شیطان کی مغرور فطرت ہے۔ جب شیطان لوگوں کو بدعنوان بناتا ہے تو کیا وہ انہیں براہ راست بتاتا ہے کہ انہیں کیا کرنا چاہیے؟ جب شیطان خدا کو آزماتا ہے تو کیا وہ باہر نکل کر کہتا ہے کہ ”میں تجھے آزما رہا ہوں، میں تجھ پر حملہ کرنے والا ہوں“؟ یہ بالکل نہیں کہتا۔ تو شیطان کون سا طریقہ استعمال کرتا ہے؟ یہ بہکاتا ہے، ترغیب دیتا ہے، حملہ کرتا ہے، اور جال بچھاتا ہے، اور یہاں تک کہ صحیفوں کے اقتباسات بھی دہراتا ہے۔ شیطان اپنے مذموم مقاصد کے حصول اور اپنے ارادوں کو پورا کرنے کے لیے مختلف طریقوں سے بولتا اور کام کرتا ہے۔ شیطان جب یہ کر لیتا ہے تو اس کے بعد انسان میں جو کچھ ظاہر ہوتا ہے اس سے کیا دیکھا جا سکتا ہے؟ کیا لوگ بھی مغرور نہیں ہو جاتے؟ انسان نے ہزاروں سالوں سے شیطان کی بدعنوانی کی وجہ سے مصائب جھیلے ہیں اور اس لیے انسان مغرور، دھوکے باز، بدنیت اور انتہائی احمق ہو گیا ہے۔ یہ سب چیزیں شیطان کی فطرت سے پیدا ہوتی ہیں۔ چونکہ شیطان کی فطرت بری ہے، اس لیے اس نے انسان کو یہ بری فطرت دی ہے اور انسان کو یہ برا، بدعنوان مزاج دیا ہے۔ لہٰذا، انسان بدعنوان شیطانی مزاج کے تحت زندگی گزارتا ہے اور شیطان کی طرح خدا کی مخالفت کرتا ہے، خدا پر حملہ کرتا ہے اور اس کو آزماتا ہے، اس طرح کہ انسان خدا کی عبادت نہیں کر سکتا اور اس کی تعظیم کرنے والا دل نہیں رکھتا۔
پانچ طریقے جن سے شیطان انسان کو بدعنوان بناتا ہے
خدا کے تقدس کے بارے میں، اگرچہ یہ ایک جانا پہچانا موضوع ہے، لیکن یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کے بارے میں بات کرنا، کچھ لوگوں کے لیے تھوڑا سا تجریدی اور قدرے گہرا اور ان کی پہنچ سے باہر ہو سکتا ہے۔ لیکن پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں یہ سمجھنے میں تمہاری مدد کروں گا کہ خدا کا تقدس کیا ہے۔ یہ سمجھنے کے لیے کہ کوئی شخص کس قسم کا ہے، یہ دیکھو کہ وہ کیا کرتا ہے اور اس کے اعمال کے نتائج کیا ہیں، اور پھر تم اس شخص کے جوہر کو دیکھ سکو گے۔ کیا اسے اس طرح کہا جا سکتا ہے؟ (ہاں)۔ پھر، آؤ پہلے اس نقطہ نظر سے خُدا کے تقدس پر رفاقت کریں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ شیطان کا جوہر برائی ہے، اور اسی لیے انسان کے لیے شیطان کے اعمال اسے مسلسل بدعنوان بنانے کے لیے ہیں۔ شیطان برا ہے، اس لیے جن لوگوں کو اس نے بدعنوان بنایا ہے وہ یقیناً برے ہیں۔ کیا کوئی کہے گا، ”شیطان تو برا ہے، لیکن شاید کوئی ایسا جسے اس نے بدعنوان بنایا ہے وہ مقدس ہو“؟ یہ ایک مذاق ہو گا، کیا یہ نہیں ہو گا؟ کیا ایسی چیز ممکن ہو سکتی ہے؟ (نہیں)۔ شیطان برائی ہے، اور اس کی برائی کے اندر ایک ضروری اور عملی پہلو دونوں ہیں۔ یہ صرف خالی بات نہیں ہے۔ ہم شیطان کو داغدار کرنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں؛ ہم صرف سچائی اور حقیقت کے بارے میں رفاقت کر رہے ہیں۔ اس موضوع کی حقیقت پر رفاقت کرنا کچھ لوگوں یا لوگوں کے ایک مخصوص ذیلی حصے کو نقصان پہنچا سکتا ہے، لیکن اس میں بدنیتی پر مبنی ارادہ نہیں ہے؛ شاید آج یہ سن کر تم تھوڑی سی بے چینی محسوس کرو گے، لیکن جلد ہی ایک دن، جب تم اسے پہچاننے کے قابل ہو جاؤ گے، تو تم خود کو حقیر سمجھو گے، اور تم محسوس کرو گے کہ آج میں جس کے بارے میں بات کر رہا ہوں، وہ تمہارے لیے بہت مفید ہے اور بہت قیمتی ہے۔ شیطان کا جوہر برائی ہے، تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شیطان کے اعمال کے نتائج لازماً برے ہیں، یا کم از کم، اس کی برائی کے پابند ہیں؟ (ہاں)۔ تو شیطان انسان کو کیسے بدعنوان بناتا ہے؟ شیطان دنیا میں اور انسانیت کے درمیان جو برائیاں کرتا ہے، اس کے کون سے مخصوص پہلو لوگوں کو نظر آتے ہیں اور قابل ادراک ہیں؟ کیا تم نے اس کے بارے میں پہلے کبھی سوچا ہے؟ تم نے اس پر زیادہ غور نہیں کیا ہو گا، اس لیے مجھے کئی اہم نکات پیش کرنے دو۔ ہر کوئی اس نظریہ ارتقا کے بارے میں جانتا ہے جو شیطان تجویز کرتا ہے، ٹھیک ہے؟ یہ علم کا ایک ایسا شعبہ ہے جس کا انسان مطالعہ کرتا ہے، کیا یہ نہیں ہے؟ (ہاں)۔ تو، شیطان انسان کو بدعنوان بنانے کے لیے سب سے پہلے علم کو استعمال کرتا ہے اور اپنے شیطانی طریقے استعمال کرتا ہے تاکہ اس تک علم پہنچایا جائے۔ پھر یہ سائنس کو انسان کو بدعنوان بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے، علم، سائنس، پراسرار معاملات یا ان معاملات میں جو لوگ دریافت کرنا چاہتے ہیں، ان کی دلچسپی پیدا کرتا ہے۔ اس کے بعد شیطان جو چیزیں انسان کو بد عنوان بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے وہ ہیں روایتی ثقافت اور توہم پرستی اور پھر سماجی رجحانات۔ یہ وہ تمام چیزیں ہیں جن کا سامنا لوگ اپنی روزمرہ زندگی میں کرتے ہیں، اور یہ سب لوگوں کے قریب موجود ہوتی ہیں؛ وہ سب ان چیزوں سے منسلک ہوتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں، جن چیزیں کو وہ سنتے ہیں، جن چیزوں کو وہ چھوتے ہیں، اور جن چیزوں کا وہ تجربہ کرتے ہیں۔ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ہر ایک انسان ان چیزوں میں گھرا ہوا اپنی زندگی بسر کرتا ہے، وہ چاہتے ہوئے بھی ان سے فرار نہیں ہو سکتا یا خود کو ان چیزوں سے آزاد نہیں کروا سکتا۔ انسانیت ان چیزوں کے سامنے بے بس ہے، اور انسان صرف اتنا کر سکتا ہے کہ وہ ان سے متاثر، آلودہ ہو، ان کے قابو میں اور ان کا پابند رہے؛ انسان خود کو ان سے آزاد کروانے میں بے بس ہے۔
ا۔ شیطان کس طرح انسان کو خراب کرنے کے لیے علم کو استعمال کرتا ہے
پہلے ہم علم کے بارے میں بات کریں گے۔ کیا علم ایسی چیز ہے جسے ہر کوئی مثبت چیز سمجھتا ہے؟ کم از کم، لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ لفظ ”علم“ کا مفہوم منفی کی بجائے مثبت ہے۔ تو ہم یہاں یہ کیوں ذکر کر رہے ہیں کہ شیطان انسان کو بدعنوان بنانے کے لیے علم کو استعمال کرتا ہے؟ کیا نظریہ ارتقا علم کا ایک پہلو نہیں ہے؟ کیا نیوٹن کے سائنسی قوانین علم کا حصہ نہیں ہیں؟ زمین کی کشش ثقل بھی علم کا حصہ ہے، کیا یہ نہیں ہے؟ (ہاں)۔ تو پھر علم کو ان چیزوں میں کیوں شامل کیا گیا ہے جنہیں شیطان انسانیت کو خراب کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے؟ اس پر تمہارا کیا نظریہ ہے؟ کیا علم میں ذرا سی بھی سچائی ہے؟ (نہیں)۔ پھر علم کا جوہر کیا ہے؟ انسان جو سب علم حاصل کرتا ہے وہ کس بنیاد پر سیکھا جاتا ہے؟ کیا یہ نظریہ ارتقا پر مبنی ہے؟ کیا انسان نے جو علم دریافت اور خلاصے کے ذریعے حاصل کیا ہے وہ الحاد پر مبنی نہیں ہے؟ کیا اس میں سے کسی علم کا خدا سے کوئی تعلق ہے؟ کیا اس کا تعلق خدا کی عبادت کرنے سے ہے؟ کیا اس کا تعلق سچائی سے ہے؟ (نہیں)۔ تو پھر شیطان کس طرح انسان کو خراب کرنے کے لیے علم کو استعمال کرتا ہے؟ میں نے ابھی کہا کہ اس علم میں سے کوئی بھی خدا کی عبادت کرنے یا سچائی سے منسلک نہیں ہے۔ کچھ لوگ اس کے بارے میں اس طرح سوچتے ہیں: ”علم کا سچائی سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا، لیکن پھر بھی، یہ لوگوں کو بدعنوان نہیں بناتا۔“ اس پر تمہارا کیا نظریہ ہے؟ کیا تجھے علم کے ذریعہ سکھایا گیا تھا کہ انسان کی خوشی کو لازمی طور پر اس کے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا جائے؟ کیا علم نے تجھے سکھایا کہ انسان کی تقدیر اس کے اپنے ہاتھ میں ہے؟ (ہاں)۔ یہ کس قسم کی بات ہے؟ (یہ شیطانی بات ہے)۔ بالکل صحیح! یہ شیطانی بات ہے! بحث کرنے کے لیے علم ایک پیچیدہ موضوع ہے۔ تم صرف یہ کہہ سکتے ہو کہ علم کا ایک میدان علم سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ وہ علم کا ایک ایسا شعبہ ہے جو خدا کی عبادت نہ کرنے اور یہ نہ سمجھنے کی بنیاد پر سیکھا جاتا ہے کہ خدا نے تمام چیزوں کو تخلیق کیا ہے۔ جب لوگ اس قسم کے علم کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ یہ نہیں دیکھتے کہ خدا کی تمام چیزوں پر حاکمیت ہے؛ وہ خدا کو ہر چیز کے نگران کی حیثیت سے یا انتظام کرتے ہوئے نہیں دیکھتے۔ اس کی بجائے، وہ صرف یہ کرتے ہیں کہ علم کے اس شعبے کی مسلسل تحقیق اور دریافت کرتے ہیں، اور علم کی بنیاد پر جوابات تلاش کرتے ہیں۔ تاہم، کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اگر لوگ خدا پر ایمان نہیں رکھتے اور اس کی بجائے صرف تحقیق کرتے ہیں، تو وہ کبھی بھی صحیح جواب نہیں پا سکتے؟ جو کچھ علم تجھے دے سکتا ہے وہ روزی، نوکری، آمدنی ہے تاکہ تو بھوکا نہ رہے؛ لیکن یہ کبھی تجھ سے خدا کی عبادت نہیں کروائے گا، اور کبھی تجھے برائی سے دور نہیں رکھے گا۔ لوگ علم کا جتنا زیادہ مطالعہ کریں گے، اتنا ہی وہ خدا کے خلاف سرکشی کرنے، خدا کو اپنے مطالعہ کے تابع کرنے، خدا کو آزمانے اور خدا کی مزاحمت کرنے کی خواہش کریں گے۔ تو، اب ہم کیا دیکھتے ہیں کہ علم لوگوں کو کیا سکھا رہا ہے؟ یہ سب شیطان کا فلسفہ ہے۔ کیا شیطان کی طرف سے بدعنوان انسانوں میں پھیلائے گئے بقا کے فلسفے اور اصولوں کا سچائی سے کوئی تعلق ہے؟ ان کا سچائی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور درحقیقت سچائی کے برعکس ہیں۔ لوگ اکثر کہتے ہیں، ”زندگی حرکت ہے“ اور ”انسان لوہا ہے، چاول فولاد ہے، اگر انسان ایک کھانا چھوڑ دے تو بھوک محسوس کرتا ہے“؛ یہ اقوال کیا ہیں؟ وہ غلط تصورات ہیں، اور ان کو سن کر کراہت کا احساس ہوتا ہے۔ انسان کے نام نہاد علم میں، شیطان نے زندگی گزارنے کے لیے اپنے فلسفے اور اپنی سوچ سے بہت متاثر کیا ہے۔ اور جب شیطان ایسا کرتا ہے، تو یہ انسان کو اپنی سوچ، فلسفے اور نقطہ نظر کو اپنانے دیتا ہے تاکہ انسان خدا کے وجود کا انکار کر سکے، ہر چیز پر اور انسان کی تقدیر پر خدا کے تسلط کا انکار کر سکے۔ لہٰذا جیسے جیسے انسان کا مطالعہ بڑھتا ہے اور وہ مزید علم حاصل کرتا ہے، تو وہ محسوس کرتا ہے کہ خدا کا وجود مبہم ہوتا جا رہا ہے، اور ہو سکتا ہے کہ وہ اب یہ محسوس ہی نہ کرے کہ خدا موجود ہے۔ کیونکہ شیطان نے انسان کے ذہن میں کچھ خیالات، نظریات اور تصورات بٹھا دیے ہیں، ایک بار جب شیطان نے انسان کے اندر یہ زہر ڈال دیا ہے، تو کیا انسان شیطان کے ہاتھوں دھوکا کھا کر بدعنوان نہیں بن گیا ہے؟ تو آج کل کے لوگ جو پیروی کر رہے ہیں تم انھیں کیا کہو گے؟ کیا وہ شیطان کی طرف سے ذہن میں بٹھائے ہوئے علم اور خیالات کی پیروی نہیں کرتے؟ اور اس علم اور افکار کے اندر جو چیزیں چھپی ہوئی ہیں – کیا وہ شیطان کے فلسفے اور زہر نہیں ہیں؟ انسان شیطان کے فلسفوں اور زہر کی پیروی کرتا ہے۔ اور شیطان کی انسان کو بدعنوان بنانے کی بنیاد کیا ہے؟ شیطان انسان سے اپنی طرح خدا کا انکار اور اس کی مخالفت کروانا چاہتا ہے اور اس کے خلاف کھڑا کروانا چاہتا ہے؛ انسان کو بدعنوان بنانے کا شیطان کا یہ مقصد ہے، اور وہ ذرائع بھی جس سے شیطان انسان کو بدعنوان بناتا ہے۔
ہم علم کے سب سے سطحی پہلو پر بات کرنے سے شروع کریں گے۔ کیا زبانوں میں گرائمر اور الفاظ لوگوں کو بدعنوان بنا سکتے ہیں؟ کیا الفاظ لوگوں کو بدعنوان بنا سکتے ہیں؟ الفاظ لوگوں کو بدعنوان نہیں بناتے؛ یہ ایک ایسا آلہ ہے جسے لوگ بولنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور یہ وہ آلہ بھی ہے جس کے ذریعے لوگ خدا سے ابلاغ کرتے ہیں، یہ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس وقت زبان اور الفاظ ہی ہیں جن سے خدا لوگوں سے ابلاغ کرتا ہے۔ وہ اوزار ہیں، اور وہ ایک ضرورت ہیں۔ ایک جمع ایک دو ہوتے ہیں، اور دو ضرب دو چار ہوتے ہیں؛ کیا یہ علم نہیں ہے؟ لیکن کیا یہ تجھے بدعنوان بنا سکتا ہے؟ یہ عام علم ہے – یہ ایک طے شدہ نمونہ ہے – اور اس لیے یہ لوگوں کو بدعنوان نہیں بنا سکتا۔ تو لوگوں کو کس قسم کا علم بدعنوان بناتا ہے؟ علم کو بدعنوان کرنے والا علم وہ علم ہے جو شیطان کے نظریات اور خیالات کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ شیطان ان نظریات اور خیالات کو علم کے ذریعے انسانیت کے دل میں بٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک مضمون میں، لکھے ہوئے الفاظ کے اندر خود کچھ بھی غلط نہیں ہے۔ مسئلہ مصنف کے نقطہ نظر اور ارادے کا ہے جب اس نے مضمون لکھا، نیز اس کے خیالات کے مواد کا ہے۔ یہ روح کی چیزیں ہیں، اور یہ لوگوں کو بدعنوان کرنے کے قابل ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر تو ایک ٹیلی ویژن پروگرام دیکھ رہا تھا، تو اس میں کس قسم کی چیزیں لوگوں کا نظریہ بدل سکتی تھیں؟ کیا اداکاروں نے جو کہا، الفاظ خود، لوگوں کو بدعنوان بنانے کے قابل ہوں گے؟ (نہیں)۔ کس قسم کی چیزیں لوگوں کو بدعنوان بنائیں گی؟ یہ پروگرام کے بنیادی خیالات اور مواد ہو گا، جو ہدایت کار کے نظریات کی نمائندگی کرے گا۔ ان نظریات میں دی گئی معلومات لوگوں کے دل و دماغ کو متاثر کر سکتی ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ اب تم جان چکے ہو کہ میں شیطان کے لوگوں کو بدعنوان بنانے کے لیے علم کو استعمال کرنے کے بارے میں اپنی بحث میں جو کہہ رہا ہوں اس سے کیا مراد ہے۔ تم غلط نہیں سمجھو گے، کیا تم سمجھو گے؟ تو اگلی بار جب تو کوئی ناول یا مضمون پڑھتا ہے تو کیا تو اس بات کا اندازہ کر سکے گا کہ تحریری الفاظ میں بیان کیے گئے خیالات انسانیت کو بدعنوان بناتے ہیں یا انسانیت کے لیے کردار ادا کرتے ہیں؟ (ہاں، تھوڑی حد تک)۔ یہ ایسی چیز ہے جس کا مطالعہ اور تجربہ سست رفتاری سے کیا جانا چاہیے، اور یہ ایسی چیز نہیں ہے جو فوراً سمجھ میں آ جائے۔ مثال کے طور پر، علم کے کسی شعبے کی تحقیق یا مطالعہ کرتے وقت، اس علم کے کچھ مثبت پہلو تجھے اس شعبے کے بارے میں کچھ عمومی علم کو سمجھنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں، جبکہ تجھے یہ جاننے میں بھی مدد مل سکتی ہے کہ لوگوں کو کس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر، ”بجلی“ کو لے – یہ علم کا شعبہ ہے، کیا یہ نہیں ہے؟ اگر تجھے معلوم نہ ہو کہ بجلی لوگوں کو جھٹکا دیتی ہے اور نقصان پہنچاتی ہے تو کیا تو جاہل نہیں ہو گا؟ لیکن ایک بار جب تو علم کے اس شعبے کو سمجھ لے گا، تو تو برقی رَو والی اشیاء کو چھونے کے معاملے میں غیرمحتاط نہیں ہو گا، اور تجھے معلوم ہو جائے گا کہ بجلی کیسے استعمال کی جاتی ہے۔ یہ دونوں مثبت چیزیں ہیں۔ ہم علم کے لوگوں کو بدعنوان بنانے کے حوالے سے جس پر بحث کرتے رہے ہیں، کیا اب تجھ پر یہ بات واضح ہے؟ دنیا میں بہت سی اقسام کے علم کا مطالعہ کیا جاتا ہے، اور تمہیں خود ان میں فرق کرنے کے لیے اپنا وقت نکالنا چاہیے۔
ب۔ شیطان انسان کو بدعنوان بنانے کے لیے کس طرح سائنس کا استعمال کرتا ہے
سائنس کیا ہے؟ کیا ہر ایک انسان کے ذہن میں سائنس اعلیٰ مقام پر نہیں ہے اور اسے گہرا نہیں سمجھا جاتا ہے؟ جب سائنس کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو کیا لوگ یہ محسوس نہیں کرتے ہیں: ”یہ ایک ایسی چیز ہے جو عام لوگوں کی پہنچ سے باہر ہے؛ یہ ایک ایسا موضوع ہے جسے صرف سائنسی محققین یا ماہرین ہی چھو سکتے ہیں؛ اس کا ہم جیسے عام لوگوں سے کوئی تعلق نہیں ہے“؟ کیا اس کا عام لوگوں سے کوئی تعلق ہے؟ (ہاں)۔ شیطان سائنس کو کس طرح لوگوں کو بدعنوان بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے؟ یہاں ہم اپنی بحث میں صرف ان چیزوں کے بارے میں بات کریں گے جن کا سامنا لوگ اپنی زندگی میں اکثر کرتے ہیں، اور دوسرے معاملات کو نظر انداز کر دیں گے۔ ایک لفظ ہے ”جینز“ نسلی توریث کی اکائیاں۔ کیا تم نے اس کے بارے میں سنا ہے؟ تم سب اس اصطلاح سے واقف ہو۔ کیا نسلی توریث کی اکائیوں کی دریافت سائنس کے ذریعے نہیں ہوئی؟ لوگوں کے لیے نسلی توریث کی اکائیوں کا اصل مطلب کیا ہے؟ کیا وہ لوگوں کو یہ احساس نہیں دلاتی ہیں کہ جسم ایک پراسرار چیز ہے؟ جب لوگوں کو اس موضوع سے متعارف کرایا جائے گا، تو کیا کچھ لوگ نہیں ہوں گے – خاص طور پر متجسس – جو مزید جاننا چاہیں گے اور مزید تفصیلات چاہتے ہوں گے؟ یہ متجسس لوگ اپنی توانائی اس موضوع پر مرکوز کریں گے اور جب ان کے پاس کوئی اور کام نہیں ہو گا تو وہ اس بارے میں مزید تفصیلات جاننے کے لیے کتابوں اور انٹرنیٹ پر معلومات تلاش کریں گے۔ سائنس کیا ہے؟ سادہ الفاظ میں بیان کرتے ہوئے، سائنس ان چیزوں کے خیالات اور نظریات ہیں جن کے بارے میں انسان متجسس ہے، ایسی چیزیں جو نامعلوم ہیں، اور جن کے بارے میں خدا نے انھیں نہیں بتایا ہے؛ سائنس ان اسرار کے بارے میں خیالات اور نظریات ہیں جنہیں انسان دریافت کرنا چاہتا ہے۔ سائنس کا دائرہ کار کیا ہے؟ تم کہہ سکتے ہو کہ یہ کافی وسیع ہے؛ انسان ہر اس چیز کی تحقیق اور مطالعہ کرتا ہے جس میں اسے دلچسپی ہو۔ سائنس میں ان چیزوں کی تفصیلات اور قوانین پر تحقیق کرنا اور پھر معقول نظریات پیش کرنا شامل ہے جو ہر ایک کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں: ”یہ سائنسدان واقعی زبردست ہیں! وہ اتنا کچھ جانتے ہیں، جو ان چیزوں کو سمجھنے کے لیے کافی ہے!“ وہ سائنسدانوں کی بہت زیادہ تعریف کرتے ہیں، کیا وہ نہیں کرتے؟ جو لوگ سائنس پر تحقیق کرتے ہیں، وہ کس قسم کے خیالات رکھتے ہیں؟ کیا وہ کائنات پر تحقیق نہیں کرنا چاہتے، اپنی دلچسپی کے شعبے میں پراسرار چیزوں کی تحقیق نہیں کرنا چاہتے؟ اس کا حتمی نتیجہ کیا ہے؟ کچھ سائنسی علوم میں لوگ اندازے کے ذریعے اپنے نتائج اخذ کرتے ہیں، اور بعض میں وہ نتائج اخذ کرنے کے لیے انسانی تجربے پر انحصار کرتے ہیں۔ سائنس کے دیگر شعبوں میں بھی لوگ تاریخی اور پس منظر کے مشاہدات کی بنیاد پر اپنے نتائج اخذ کرتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ تو سائنس لوگوں کے لیے کیا کرتی ہے؟ سائنس جو کچھ کرتی ہے وہ لوگوں کو صرف طبعی دنیا میں موجود اشیا کو دیکھنے کی اجازت دیتی ہے، اور انسان کے تجسس کو مطمئن کرتی ہے، لیکن یہ انسان کو ان قوانین کو دیکھنے کے قابل نہیں بنا سکتی جن کے ذریعے ہر چیز پر خدا کا تسلط ہوتا ہے۔ انسان سائنس میں جوابات تلاش کرتا نظر آتا ہے، لیکن وہ جوابات الجھا دینے والے ہیں اور صرف عارضی اطمینان دلاتے ہیں، ایسا اطمینان جو انسان کے دل کو صرف مادی دنیا تک محدود کرنے کا کام کرتا ہے۔ انسان محسوس کرتا ہے کہ اسے سائنس سے جواب مل گیا ہے، اس لیے جو بھی مسئلہ پیدا ہوتا ہے، وہ اس مسئلے کو ثابت کرنے اور قبول کرنے کے لیے اپنے سائنسی نظریات کو بنیاد بنا کر استعمال کرتا ہے۔ انسان کا دل سائنس کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور اس میں اس حد تک مبتلا ہو جاتا ہے کہ انسان خدا کو جاننے، خدا کی عبادت کرنے اور اس بات پر یقین رکھنے کہ تمام چیزیں خدا کی طرف سے آتی ہیں، اور یہ کہ انسان کو جوابات کے لیے اسی کی طرف دیکھنا چاہیے، کے متعلق اب نہیں سوچتا۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ ایک شخص جتنا زیادہ سائنس پر یقین کرتا ہے، وہ اتنا ہی زیادہ غیر معقول ہوتا جاتا ہے، وہ یہ مانتا ہے کہ ہر چیز کا سائنسی حل ہوتا ہے، اور یہ کہ تحقیق کسی بھی چیز کو حل کر سکتی ہے۔ وہ خدا کی تلاش نہیں کرتا اور وہ یہ یقین نہیں کرتا کہ وہ موجود ہے۔ خدا پر بہت عرصے سے ایمان رکھنے والے لوگ ہیں جو کسی بھی مسئلے کا سامنا کرنے پر چیزوں کو تلاش کرنے اور جوابات تلاش کرنے کے لیے کمپیوٹر کا استعمال کرتے ہیں؛ وہ صرف سائنسی علم پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ یہ نہیں مانتے کہ خدا کا کلام سچ ہے، وہ یہ نہیں مانتے کہ خدا کا کلام بنی نوع انسان کے تمام مسائل حل کر سکتا ہے، وہ بنی نوع انسان کے بے شمار مسائل کو سچائی کے نقطہ نظر سے نہیں دیکھتے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ انھیں کس پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ کبھی بھی خدا سے دعا نہیں کرتے یا خدا کے کلام میں سچائی کی جستجو کرتے ہوئے حل تلاش نہں کرتے۔ بہت سے معاملات میں، وہ اس بات پر یقین کرنے کو ترجیح دیں گے کہ علم مسئلے کو حل کر سکتا ہے؛ ان کے لیے سائنس ہی حتمی جواب ہے۔ خدا ایسے لوگوں کے دلوں سے بالکل غائب ہے۔ وہ ایمان نہ رکھنے والے ہیں، اور خدا پر ایمان کے بارے میں ان کے خیالات بہت سے ممتاز ماہرین تعلیم اور سائنسدانوں سے مختلف نہیں ہیں، جو ہمیشہ سائنسی طریقوں سے خدا کو جانچنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر بہت سے مذہبی ماہرین ایسے ہیں جو اس پہاڑ پر گئے ہیں جس پر سفینہ نوح آ کر رکا اور اس طرح انہوں نے سفینہ نوح کے وجود کو ثابت کیا۔ لیکن سفینہ نوح کے ظاہر ہونے میں انھیں خدا کا وجود نظر نہیں آتا۔ وہ صرف کہانیوں اور تاریخ پر یقین رکھتے ہیں؛ یہ ان کی سائنسی تحقیق اور مادی دنیا کے مطالعے کا نتیجہ ہے۔ اگر تو مادی چیزوں پر تحقیق کرتا ہے، چاہے وہ جراثیموں کا مطالعہ ہو، فلکیات ہو یا جغرافیہ، تو تجھے کبھی بھی کوئی ایسا نتیجہ نہیں ملے گا جو یہ تعین کرے کہ خدا موجود ہے یا اس کی تمام چیزوں پر حاکمیت ہے۔ تو پھر سائنس انسان کے لیے کیا کرتی ہے؟ کیا یہ انسان کو خدا سے دور نہیں کردیتی؟ کیا یہ لوگوں کے خدا کو مطالعے کے تابع کرنے کی وجہ نہیں بنتی؟ کیا یہ لوگوں کو خدا کے وجود اور حاکمیت کے بارے میں مزید مشکوک نہیں بناتی اور اس طرح وہ خدا کا انکار اور اس سے بے وفائی کرتے ہیں؟ یہ نتیجہ ہے۔ تو جب شیطان انسان کو بدعنوان بنانے کے لیے سائنس کا استعمال کرتا ہے، تو شیطان کیا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟ یہ لوگوں کو دھوکا دینے اور انھیں بے حس کرنے کے لیے سائنسی نتائج کا استعمال کرنا چاہتا ہے، اور لوگوں کے دلوں پر قبضہ قائم رکھنے کے لیے مبہم جوابات کا استعمال کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ خدا کے وجود کی تلاش نہ کریں یا اس پر ایمان نہ لائیں۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ سائنس ان طریقوں میں سے ایک ہے جن سے شیطان لوگوں کو بدعنوان بناتا ہے۔
پ۔ شیطان انسان کو بد عنوان بنانے کے لیے کس طرح روایتی ثقافت کو استعمال کرتا ہے
کیا ایسی بہت سی چیزیں ہیں یا نہیں ہیں جو روایتی ثقافت کا حصہ سمجھی جاتی ہیں؟ ( ایسی بہت سی چیزیں ہیں)۔ اس ”روایتی ثقافت“ سے کیا مراد ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ آباؤ اجداد سے منتقل ہوئی ہے – یہ ایک پہلو ہے۔ شروع سے ہی، زندگی کے طور طریقے، رسم و رواج، اقوال اور اصول خاندانوں، نسلی گروہوں اور یہاں تک کہ پوری نسل انسانی کے اندر منتقل ہوتے رہے ہیں اور وہ لوگوں کے خیالات میں رچ بس چکے ہیں۔ لوگ انھیں اپنی زندگی کا ایک ناگزیر حصہ سمجھتے ہیں اور انھیں اصول سمجھتے ہیں، ان کا مشاہدہ ایسے کرتے ہیں جیسے وہی زندگی ہوں۔ درحقیقت، وہ کبھی بھی ان چیزوں کو تبدیل یا ترک نہیں کرنا چاہتے، کیونکہ یہ ان کے آباؤ اجداد سے منتقل ہوئی تھیں۔ روایتی ثقافت کے اور بھی پہلو ہیں جو لوگوں کی ہڈیوں میں رچ بس گئے ہیں، جیسے وہ چیزیں جو کنفیوشس اور مینشیئس سے آگے منتقل ہوئی ہیں، اور وہ چیزیں جو لوگوں کو چینی تاؤ ازم اور کنفیوشس ازم نے سکھائی ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ روایتی ثقافت میں کون سی چیزیں شامل ہیں؟ کیا اس میں وہ تعطیلات شامل ہیں جو لوگ مناتے ہیں؟ مثال کے طور پر: بہار کا تہوار، لالٹین کا تہوار، مقبرہ صاف کرنے کا دن، اثدہے کی کشتی کا تہوار، نیز بھوت کا تہوار اور وسط خزاں کا تہوار۔ کچھ خاندان ایسے دن بھی مناتے ہیں جب بزرگ ایک خاص عمر کو پہنچ جاتے ہیں، یا جب بچے ایک ماہ یا سو دن کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں۔ وغیرہ۔ یہ تمام روایتی تعطیلات ہیں۔ کیا ان تعطیلات میں روایتی ثقافت کار فرما نہیں ہے؟ روایتی ثقافت کی بنیاد کیا ہے؟ کیا اس کا خدا کی عبادت سے کوئی تعلق ہے؟ کیا اس کا لوگوں کو سچائی پر عمل کرنے کی تلقین سے کوئی تعلق ہے؟ کیا لوگوں کے لیے کوئی ایسی تعطیلات ہیں کہ جن میں وہ خُدا کو قربانی پیش کریں، خُدا کی قربان گاہ پر جائیں اور اُس کی تعلیمات حاصل کریں؟ کیا ایسی تعطیلات ہوتی ہیں؟ (نہیں)۔ ان تمام تعطیلات میں لوگ کیا کرتے ہیں؟ جدید دور میں انھیں کھانے، پینے اور تفریح کے مواقع کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ روایتی ثقافت کے ماخذ میں کیا چیز کارفرما ہے؟ روایتی ثقافت کس کی طرف سے منتقل ہوتی ہے؟ یہ شیطان کی طرف سے منتقل ہوتی ہے۔ ان روایتی تعطیلات کے پسِ پردہ شیطان انسان کے ذہن میں مختلف چیزیں ڈالتا ہے۔ یہ چیزیں کیا ہیں؟ اس بات کو یقینی بنانا کہ لوگ اپنے آباؤ اجداد کو یاد رکھتے ہیں – کیا یہ ان میں سے ایک ہے؟ مثال کے طور پر، مقبرہ صاف کرنے کے دن کے دوران، لوگ قبروں کو صاف کرتے ہیں اور اپنے آباؤ اجداد کو قربانیاں پیش کرتے ہیں، تاکہ وہ اپنے آباؤ اجداد کو بھول نہ جائیں۔ نیز، شیطان اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ لوگ محب الوطن ہونا یاد رکھیں، جس کی ایک مثال اژدہے کی کشتی کا تہوار ہے۔ وسط خزاں کے تہوار کے بارے میں کیا خیال ہے؟ (خاندانی اتحاد کی تجدید)۔ خاندانی اتحاد کی تجدید کا پس منظر کیا ہے؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ جذباتی طور پر باہمی رابطہ رکھنے اور منسلک ہونے کا نام ہے۔ بلاشبہ، چاہے وہ نئے قمری سال کی شام کو منانا ہو یا لالٹین کے تہوار کو، ان تقریبات کے پیچھے وجوہات کو بیان کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ کوئی ان وجوہات کو کسی بھی طرح بیان کرے، ہر ایک وجہ شیطان کا اپنا فلسفہ اور اپنی سوچ لوگوں کے ذہنوں میں ڈالنے کا طریقہ ہے، تاکہ وہ خدا سے بھٹک جائیں اور یہ نہ جانیں کہ خدا ہے، اور قربانیاں اپنے آباؤ اجداد کو پیش کریں یا شیطان کو، یا کھائیں، پیئیں، اور اپنی جسمانی خواہشات کی خاطر تفریح کریں۔ جیسا کہ ان میں سے ہر ایک تعطیلات منائی جاتی ہیں، شیطان کے خیالات اور نظریات کو لوگوں کے ذہنوں میں ان کے جانے بغیر گہرائی میں بٹھا دیا جاتا ہے۔ جب لوگ چالیس، پچاس یا اس سے بھی زیادہ عمر کو پہنچ جاتے ہیں، تو شیطان کے یہ خیالات اور نظریات ان کے دلوں میں پہلے ہی سے گہری جڑ پکڑے ہوتے ہیں۔ مزید برآں، لوگ ان خیالات کو، خواہ صحیح ہوں یا غلط، اگلی نسل تک، بلاامتیاز اور بغیر کسی تحفظات کے منتقل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ (ہاں)۔ روایتی ثقافت اور یہ تعطیلات لوگوں کو کیسے بدعنوان بناتی ہیں؟ کیا تم جانتے ہو؟ (لوگ ان روایات کے اصولوں کے محصور اور پابند ہو جاتے ہیں، اس طرح کہ ان کے پاس خدا کی تلاش کے لیے وقت اور توانائی نہیں ہوتی)۔ یہ ایک پہلو ہے۔ مثال کے طور پر، نئے قمری سال کے دوران ہر کوئی جشن مناتا ہے – اگر تو نے اسے نہیں منایا، تو کیا تو اداس محسوس نہیں کرے گا؟ کیا کوئی ممانعت ہے جو تو اپنے دل میں رکھتا ہے؟ تو محسوس کر سکتا ہے، ”میں نے نیا سال نہیں منایا، اور چونکہ نئے قمری سال کا پہلا دن ایک برا دن تھا، کہیں باقی سارا سال بھی برا نہ ہو“؟ کیا تو بےچینی اور تھوڑا سا خوف محسوس نہیں کرے گا؟ یہاں تک کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے سالوں تک اپنے آباؤ اجداد کے لیے قربانی نہیں کی اور انھیں اچانک ایک خواب نظر آتا ہے جس میں ایک فوت شدہ شخص ان سے پیسے مانگتا ہے۔ وہ کیا محسوس کریں گے؟ ”کتنے دکھ کی بات ہے کہ یہ شخص جو اب جا چکا ہے اسے خرچ کرنے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے! میں اس کے لیے کچھ کاغذی رقم جلا دوں گا۔ اگر میں ایسا نہیں کروں گا تو یہ ٹھیک نہیں ہو گا۔ یہ ہم زندہ لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے – کون کہہ سکتا ہے کہ بدقسمتی کب آئے گی؟“ ان کے دلوں میں خوف اور پریشانی کا یہ چھوٹا سا بادل ہمیشہ موجود رہے گا۔ انھیں یہ پریشانی کون دیتا ہے؟ شیطان اس پریشانی کا ماخذ ہے۔ کیا یہ ان طریقوں میں سے ایک طریقہ نہیں ہے جن سے شیطان انسان کو بدعنوان بناتا ہے؟ یہ تجھے قابو کرنے، تجھے دھمکانے اور تجھے جکڑنے کے لیے مختلف ذرائع اور حیلوں کا استعمال کرتا ہے، تاکہ تو حواس باختہ ہو جائے اور اس کے تابع ہو جائے؛ شیطان انسان کو اس طرح بدعنوان بناتا ہے۔ اکثر جب لوگ کمزور ہوتے ہیں یا جب وہ صورت حال سے پوری طرح واقف نہیں ہوتے، تو ہو سکتا ہے وہ نادانستہ طور پر بوکھلائے ہوئے انداز میں کچھ کر گزریں؛ اس طرح، وہ نادانستہ طور پر شیطان کی گرفت میں آ جاتے ہیں اور ہو سکتا ہے غیرارادی عمل کر بیٹھیں، وہ کچھ کام کر سکتے ہیں یہ جانے بغیر کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ شیطان انسان کو اس طرح بدعنوان بناتا ہے۔ یہاں تک کہ اب بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو گہری جڑ پکڑی ہوئی روایتی ثقافت سے الگ ہونے سے گریزاں ہیں، وہ اسے ترک نہیں کر سکتے۔ یہ خاص طور پر اس وقت ہوتا ہے جب وہ کمزور اور غیر فعال ہوتے ہیں کہ وہ اس قسم کی تعطیلات منانا چاہتے ہیں اور وہ شیطان سے ملنا چاہتے ہیں اور شیطان کو دوبارہ مطمئن کرنا چاہتے ہیں، تاکہ ان کے دلوں کو سکون ملے۔ روایتی ثقافت کا پس منظر کیا ہے؟ کیا پردے کے پیچھے شیطان کا کالا ہاتھ ڈوریاں ہلا رہا ہے؟ کیا شیطان کی بری فطرت چالاکی سے کاروائی اور قابو کر رہی ہے؟ کیا اس سب پر شیطان کا اختیار ہے؟ (جی ہاں)۔ جب لوگ ایک روایتی ثقافت میں رہتے ہیں اور اس قسم کی روایتی تعطیلات مناتے ہیں، تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسا ماحول ہے جس میں انھیں شیطان کی طرف سے بے وقوف اور بدعنوان بنایا جا رہا ہے، اور مزید یہ کہ وہ شیطان کی طرف سے بے وقوف بنائے جانے اور بدعنوان بنائے جانے پر خوش ہیں؟ (ہاں)۔ یہ وہ چیز ہے جسے تم سب تسلیم کرتے ہو، ایسی چیز جس کے بارے میں تم جانتے ہو۔
ت۔ شیطان توہم پرستی کو کس طرح انسان کو بدعنوان بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے
تم ”توہم پرستی“ کی اصطلاح سے واقف ہو، ہاں؟ توہم پرستی اور روایتی ثقافت کے درمیان کچھ روابط ہیں، لیکن ہم آج ان کے بارے میں بات نہیں کریں گے۔ بلکہ، میں توہم پرستی کی عام طور پر سامنے آنے والی شکلوں پر بات کروں گا: پیشین گوئی کرنا، قسمت کا حال بتانا، بخور جلانا اور بدھ کی پوجا کرنا۔ کچھ لوگ پیشین گوئی کرتے ہیں، دوسرے بدھ کی پوجا کرتے ہیں اور بخور جلاتے ہیں، جب کہ کچھ لوگوں نے اپنی قسمت کا حال پڑھوایا ہے یا کسی سے اپنے چہرے کے خدوخال پڑھوائے ہیں اور اس طرح اپنی قسمت کا حال بتاتے ہیں۔ تم میں سے کتنے لوگوں نے اپنی قسمت کا حال پوچھا یا چہرہ پڑھوایا؟ یہ وہ چیز ہے جس میں زیادہ تر لوگ دلچسپی رکھتے ہیں، کیا یہ نہیں ہے؟ (ہاں)۔ کیوں؟ قسمت کا حال بتانے اور پیشین گوئی کرنے سے لوگ کس قسم کا فائدہ حاصل کرتے ہیں؟ اس سے وہ کس قسم کا اطمینان حاصل کرتے ہیں؟ (تجسس)۔ کیا یہ صرف تجسس ہے؟ یہ ضروری نہیں ہے، جیسا کہ میں اسے دیکھتا ہوں۔ پیشین گوئی کرنے اور قسمت کا حال بتانے کا مقصد کیا ہے؟ یہ کیوں کیا جاتا ہے؟ کیا یہ مستقبل دیکھنے کے لیے نہیں ہے؟ کچھ لوگ مستقبل کی پیشین گوئی کے لیے اپنا چہرہ پڑھواتے ہیں، دوسرے یہ دیکھنے کے لیے کرتے ہیں کہ ان کی قسمت اچھی ہوگی یا نہیں۔ کچھ لوگ یہ دیکھنے کے لیے کرتے ہیں کہ ان کی شادی کیسی ہو گی، اور مزید برآں کچھ لوگ یہ دیکھنے کے لیے کرتے ہیں کہ آنے والا سال کیا خوش قسمتی لائے گا۔ کچھ لوگ یہ دیکھنے کے لیے اپنا چہرہ پڑھواتے ہیں کہ ان کے اور ان کے بیٹوں یا بیٹیوں کے امکانات کیا ہوں گے، اور کچھ کاروباری لوگ یہ دیکھنے کے لیے کرتے ہیں کہ وہ کتنا پیسہ کمائیں گے، اس لیے وہ چہرے پڑھنے والے کی راہنمائی حاصل کرتے ہیں کہ انھیں کیا کرنا چاہیے۔ تو، کیا یہ صرف تجسس کو پورا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے؟ جب لوگ اپنا چہرہ پڑھواتے ہیں یا اس طرح کے کام کرتے ہیں، تو یہ ان کے اپنے مستقبل کے ذاتی فائدے کے لیے ہوتا ہے؛ وہ یقین رکھتے ہیں کہ اس سب کا ان کی اپنی تقدیر سے گہرا تعلق ہے۔ کیا ان میں سے کوئی مفید ہے؟ (نہیں)۔ یہ مفید کیوں نہیں ہے؟ کیا ان چیزوں کے ذریعے کچھ علم حاصل کرنا اچھی بات نہیں ہے؟ یہ چیزیں تجھے یہ جاننے میں مدد دے سکتی ہیں کہ مصیبت کب آ سکتی ہے، اور اگر تو ان پریشانیوں کے پیش آنے سے پہلے ہی جان لے تو کیا تو ان سے بچ نہیں سکتا؟ اگر تجھے تیری قسمت کا حال بتایا گیا ہے، تو یہ تجھے بھول بھلیوں میں سے صحیح راستہ تلاش کرنے کا طریقہ دکھا سکتا ہے، تاکہ تو آنے والے سال میں اچھی قسمت سے لطف اندوز ہوسکے اور اپنے کاروبار کے ذریعے بہت زیادہ دولت حاصل کرسکے۔ تو، کیا یہ مفید ہے یا نہیں ہے؟ چاہے یہ مفید ہے یا نہیں اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، اور ہماری آج کی رفاقت میں یہ موضوع شامل نہیں ہو گا۔ شیطان کس طرح توہم پرستی کو استعمال کر کے انسان کو بدعنوان بناتا ہے؟ لوگ اپنی تقدیر کے بارے میں سب کچھ جاننا چاہتے ہیں، اس لیے شیطان انھیں ترغیب دینے کے لیے ان کے تجسس کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ لوگ یہ جاننے کے لیے کہ مستقبل میں ان کے ساتھ کیا ہو گا اور آگے کس طرح کا راستہ ہے، پیشین گوئی، قسمت بتانے اور چہرہ پڑھنے میں مشغول رہتے ہیں۔ تاہم، آخر کار تقدیر اور امکانات کس کے ہاتھ میں ہیں جن کے متعلق لوگ اتنے فکر مند ہیں؟ (خدا کے ہاتھ میں)۔ یہ سب چیزیں خدا کے ہاتھ میں ہیں۔ ان طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے، شیطان کیا چاہتا ہے کہ لوگ کیا جان لیں؟ شیطان چہرہ پڑھنے اور قسمت کا حال بتانے کا استعمال لوگوں کو یہ بتانے کے لیے کرنا چاہتا ہے کہ وہ ان کے مستقبل کی قسمت جانتا ہے، اور یہ کہ وہ نہ صرف ان چیزوں کو جانتا ہے بلکہ یہ اس کے قابو میں بھی ہیں۔ شیطان اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور لوگوں کو قابو میں رکھنے کے لیے یہ طریقے استعمال کرنا چاہتا ہے تاکہ لوگ اس پر اندھا اعتماد کریں اور اس کی ہر بات مان لیں۔ مثال کے طور پر، اگر تو نے چہرہ پڑھوایا ہے، اگر قسمت کا حال بتانے والا اپنی آنکھیں بند کرتا ہے اور تجھے مکمل وضاحت کے ساتھ وہ سب کچھ بتاتا ہے جو پچھلی چند دہائیوں میں تیرے ساتھ پیش آیا ہے، تو تُو اندر سے کیسا محسوس کرے گا؟ تو فوری طور پر محسوس کرے گا، ”کہ وہ بالکل درست ہے! میں نے اپنا ماضی پہلے کبھی کسی کو نہیں بتایا، وہ اس کے بارے میں کیسے جانتا ہے؟ میں واقعی اس قسمت کا حال بتانے والے کو سراہتا ہوں!“ شیطان کے لیے، کیا تیرے ماضی کے بارے میں جاننا بہت آسان نہیں ہے؟ خدا نے تجھے اس مقام تک پہنچایا جہاں پر تو آج ہے، اور تمام وقت شیطان لوگوں کو بدعنوان بناتا اور تیرا تعاقب کرتا رہا ہے۔ تیری زندگی کے عشروں کا گزرنا شیطان کے لیے کچھ نہیں ہے اور شیطان کے لیے ان چیزوں کو جاننا مشکل نہیں ہے۔ جب تجھے معلوم ہو جاتا ہے کہ شیطان جو کچھ کہتا ہے وہ سب درست ہے تو کیا تو اپنا دل اس کے حوالے نہیں کر رہا ہوتا ہے؟ کیا تو اپنے مستقبل اور اپنی قسمت پر قابو رکھنے کے لیے اس پر انحصار نہیں کر رہا ہے؟ فوراً، تیرا دل اس کے لیے اور کچھ لوگوں کے لیے، جن کی روحیں وہ اس وقت پہلے ہی چھین چکا ہوتا ہے، کچھ احترام یا تعظیم محسوس کرے گا۔ اور تو فوری طور پر قسمت کا حال بتانے والے سے پوچھے گا: ”مجھے آگے کیا کرنا چاہیے؟ مجھے آنے والے سال میں کن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے؟ مجھے کون سے کام نہیں کرنے چاہییں؟“ اور پھر، وہ کہے گا، ”تجھے وہاں بالکل نہیں جانا چاہیے، تجھے یہ ہرگز نہیں کرنا چاہیے، کسی خاص رنگ کے کپڑے مت پہن، تجھے کچھ خاص جگہوں پر کم جانا چاہیے، کچھ کام زیادہ کرنے چاہییں۔۔۔۔“ کیا تو اس کی ہر بات کو جو وہ کہتا ہے، فوراً سنجیدگی سے نہیں لے گا؟ تو اس کے الفاظ کو خدا کے کلام سے زیادہ تیزی سے یاد کرے گا۔ تو انھیں اتنی جلدی کیوں یاد کرے گا؟ کیونکہ تو اچھی قسمت کے لیے شیطان پر بھروسہ کرنا چاہے گا۔ کیا یہ وہ وقت نہیں ہے جب یہ تیرے دل کو قبضے میں لے لیتا ہے؟ جب اس کی پیشین گوئیاں یکے بعد دیگرے، سچ ثابت ہوتی ہیں، تو کیا تو اس کی طرف واپس جانا نہیں چاہے گا تاکہ یہ معلوم کرے کہ اگلا سال کیا خوش قسمتی لائے گا؟ (ہاں)۔ شیطان تجھے جو کچھ کرنے کو کہے گا تو وہ کرے گا اور تو ان چیزوں سے پرہیز کرے گا جن سے وہ بچنے کے لیے کہے گا۔ اس طرح، کیا تو اس کی کہی ہوئی ہر بات کو نہیں مان رہا ہے؟ بہت جلد، تو اس کی آغوش میں گر جائے گا، دھوکا کھا جائے گا، اور اس کے قابو میں آ جائے گا۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ تو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ یہ جو کہتا ہے سچائی ہے اور اس لیے کہ تجھے یقین ہے کہ یہ تیری ماضی کی زندگی، تیری موجودہ زندگی، اور مستقبل کیا لائے گا، کے بارے میں جانتا ہے۔ یہی طریقہ ہے جو شیطان لوگوں کو قابو کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ لیکن حقیقت میں، کون حقیقی طور پر قابو کرنے والا ہے؟ خدا خود قابو میں رکھتا ہے، شیطان نہیں۔ شیطان اس معاملے میں صرف اپنی ہوشیار چالوں کو جاہل لوگوں، اور ان لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے استعمال کررہا ہے جو اس پر یقین اور بھروسا کرنے کے معاملے میں صرف مادی دنیا کو دیکھتے ہیں۔ پھر، وہ شیطان کی گرفت میں آ جاتے ہیں اور اس کی ہر بات کی تعمیل کرتے ہیں۔ لیکن جب لوگ خدا پر ایمان لانا اور اس کی پیروی کرنا چاہتے ہوں تو کیا شیطان کبھی اپنی گرفت ڈھیلی کرتا ہے؟ شیطان نہیں کرتا۔ اس صورت حال میں، کیا لوگ واقعی شیطان کی گرفت میں آ رہے ہیں؟ (ہاں)۔ کیا ہم ایسا کہہ سکتے ہیں کہ اس معاملے میں شیطان کا رویہ شرمناک ہے؟ (ہاں)۔ ہم ایسا کیوں کہیں گے؟ کیونکہ یہ دھوکا دہی اور فریب دینے کی تدبیریں ہیں۔ شیطان بے شرم ہے اور لوگوں کو یہ سوچنے میں گمراہ کرتا ہے کہ یہ ان کے بارے میں ہر چیز کو قابو کرتا ہے اوریہاں تک کہ یہ ان کی تقدیر کو قابو کرتا ہے۔ اس وجہ سے جاہل لوگ اس کی مکمل اطاعت کرتے ہیں۔ وہ صرف چند الفاظ سے بے وقوف بن جاتے ہیں۔ اس حواس باختگی میں لوگ اس کے آگے جھک جاتے ہیں۔ تو، شیطان کس قسم کے طریقے استعمال کرتا ہے، یہ تجھے خود پر یقین کرنے کے لیے کیا کہتا ہے؟ مثال کے طور پر، ہو سکتا ہے کہ تو نے شیطان کو یہ نہ بتایا ہو کہ تیرے خاندان میں کتنے لوگ ہیں، لیکن یہ پھر بھی تجھے بتا سکتا ہے کہ کتنے لوگ ہیں، اور تیرے والدین اور بچوں کی عمریں۔ اگرچہ اس سے پہلے تجھے شیطان کے بارے میں شکوک و شبہات ہوں گے، لیکن اس کی یہ باتیں سننے کے بعد، کیا تو یہ محسوس نہیں کرے گا کہ وہ کچھ زیادہ قابل اعتبار ہے؟ شیطان پھر یہ کہہ سکتا ہے کہ حال ہی میں تیرے لیے کام کتنا مشکل رہا ہے، کہ تیرے افسران تجھے وہ پہچان نہیں دیتے جس کا تو مستحق ہے اور ہمیشہ تیرے خلاف کام کرتے رہتے ہیں، وغیرہ۔ یہ سننے کے بعد، تو سوچے گا، ”یہ بالکل ٹھیک ہے! کام پر چیزیں ٹھیک نہیں چل رہی ہیں۔“ تو تُو شیطان پر کچھ زیادہ یقین کرے گا۔ پھر یہ تجھے دھوکا دینے کے لیے کچھ اور کہے گا، اور تو اس پر اور بھی زیادہ یقین کر لے گا۔ آہستہ آہستہ، تو اپنے آپ کو مزاحمت کرنے یا اس کے بارے میں مزید مشکوک رہنے کے قابل نہیں پائے گا۔ شیطان محض چند معمولی چالیں استعمال کرتا ہے، حتیٰ کہ چھوٹی معمولی چالیں بھی، اور اس طرح سے تجھے سٹپٹا دیتا ہے۔ جب تو سٹپٹا جاتا ہے، تو تُو اپنی اصل حیثیت کو دریافت کرنے سے قاصر ہو گا، تو چکرا جائے گا کہ کیا کیا جائے، اور تو شیطان کے کہنے پر عمل کرنا شروع کردے گا۔ یہ وہ ”ذہین“ طریقہ ہے جو شیطان انسان کو بدعنوان بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے، جس کی وجہ سے تو غیرارادی طورپر اس کے جال میں پھنس جاتا ہے اور اس کے بہکاوے میں آ جاتا ہے۔ شیطان تجھے کچھ چیزیں بتاتا ہے جنہیں لوگ اچھا تصور کرتے ہیں، اور پھر وہ تجھے بتاتا ہے کہ کیا کرنا ہے اور کس سے پرہیز کرنا ہے۔ اس طرح تو غیرارادی طور پر دھوکا کھا رہا ہے۔ ایک بار جب تو اس کے دام میں آ جائے، تو تیرے لیے چیزیں مشکل ہو جائیں گی؛ تو مسلسل اس کے بارے میں سوچتا رہے گا کہ شیطان نے کیا کہا اور اس نے تجھے کیا کرنے کو کہا، اور تونادانستہ طور پر اس کے قبضے میں آ جائے گا۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان میں سچائی کی کمی ہے اور اس لیے وہ ثابت قدم رہنے اور شیطان کے بہکانے اور آزمائش کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ شیطان کی برائی اور اس کے فریب، دھوکے اور بدنیتی کے سامنے انسان بہت جاہل، ناپختہ اور کمزور ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟ کیا یہ ان طریقوں میں سے ایک نہیں ہے جن سے شیطان انسان کو بدعنوان بناتا ہے؟ (ہاں)۔ انسان غیرارادی طور پر شیطان کے مختلف طریقوں سے تھوڑا تھوڑا کر کے دھوکے اور فریب کا شکار ہوتا ہے، کیونکہ اس میں مثبت اور منفی میں فرق کرنے کی صلاحیت کی کمی ہے۔ اس میں اس مرتبے کی، اور شیطان پر فتح پانے کی صلاحیت کی کمی ہے۔
ٹ۔ شیطان کس طرح سماجی رجحانات کو انسان کو بدعنوان بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے
سماجی رجحانات کب وجود میں آئے؟ کیا وہ صرف موجودہ دور میں ہی وجود میں آئے ہیں؟ کوئی کہہ سکتا ہے کہ سماجی رجحانات اس وقت وجود میں آئے جب شیطان نے لوگوں کو بدعنوان بنانا شروع کیا۔ سماجی رجحانات میں کیا شامل ہے؟ (لباس اور بناؤ سنگھار کے انداز)۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن سے لوگ اکثر رابطے میں رہتے ہیں۔ لباس کے انداز، فیشن اور رجحانات – یہ چیزیں اس پہلو کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔ کیا کچھ اور بھی ہے؟ وہ مقبول جملے جو لوگ اکثر اچانک کہہ دیتے ہیں، کیا وہ بھی ان میں شمار ہوتے ہیں؟ وہ طرز زندگی جو لوگ چاہتے ہیں، کیا وہ شمار ہوتی ہے؟ کیا موسیقی کے ستارے، مشہور شخصیات، رسالے، اور ناول جو لوگ پسند کرتے ہیں، کیا وہ شمار ہوتے ہیں؟ (ہاں)۔ تمہارے خیال میں، سماجی رجحانات کا کون سا پہلو انسان کو بدعنوان بنا سکتا ہے؟ ان میں سے کون سا رجحان تمہارے لیے سب سے زیادہ پُرکشش ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں: ”ہم سب ایک خاص عمر کو پہنچ چکے ہیں، ہم اپنی پچاس یا ساٹھ کی دہائی میں، اپنی ستر یا اسی کی دہائی میں ہیں، اور ہم اب ان رجحانات کے لیے مزید موزوں نہیں ہو سکتے اور اصل میں وہ ہماری توجہ اپنی طرف مبذول نہیں کرواتے۔“ کیا یہ درست ہے؟ دوسرے کہتے ہیں: ”ہم مشہور شخصیات کی پیروی نہیں کرتے، یہ وہ کام ہے جو وہ نوجوان کرتے ہیں جن کی عمر بیس کی دہائی میں ہے؛ ہم فیشن ایبل کپڑے بھی نہیں پہنتے، یہ وہ چیز ہے جو اپنی شخصیت کا خیال رکھنے والے لوگ کرتے ہیں۔“ تو پھر ان میں سے کون سی چیز تمہیں بد عنوان بنا سکتی ہے؟ ”پیسا دنیا کو چلاتا ہے“؛ کیا یہ ایک رجحان ہے؟ تم نے جس فیشن اور خوراک کے نفیس رجحانات کا ذکر کیا ہے ان کے مقابلے کیا یہ زیادہ خراب نہیں ہے؟ ”پیسا دنیا کوچلاتا ہے“ یہ شیطان کا ایک فلسفہ ہے۔ یہ فلسفہ تمام بنی نوع انسان کے درمیان، ہر انسانی معاشرے میں رائج ہے؛ تم کہہ سکتے ہو کہ یہ ایک رجحان ہے۔ کیونکہ یہ ہر ایک شخص کے دل میں بسا ہوا ہے جس نے شروع میں اس قول کو قبول نہیں کیا لیکن پھر جب حقیقی زندگی سے واسطہ پڑا تو اس نے اسے خاموشی سے قبول کر لیا، اور محسوس کرنے لگا کہ یہ الفاظ حقیقت میں درست ہیں۔ کیا یہ شیطان کا انسان کو بدعنوان بنانے کا عمل نہیں ہے؟ شاید لوگ اس قول کو یکساں حد تک نہیں سمجھتے، لیکن ہر ایک اپنے اردگرد رونما ہونے والے واقعات اور اپنے ذاتی تجربات کی بنیاد پر اس قول کی تشریح اور اعتراف کے مختلف درجات رکھتا ہے۔ کیا یہی معاملہ نہیں ہے؟ اس سے قطع نظر کہ اس قول کے حوالے سے لوگوں کا کیا تجربہ ہے، سوال یہ ہے کہ اس کا کسی کے دل پر کیا منفی اثر ہو سکتا ہے؟ اس دنیا میں لوگوں بشمول تم میں سے ہر ایک کے، انسانی مزاج سے کوئی چیز ظاہر ہوتی ہے۔ یہ کیا ہے؟ یہ پیسے کی پوجا ہے۔ کیا اسے کسی کے دل سے نکالنا مشکل ہے؟ یہ بہت مشکل ہے! ایسا لگتا ہے کہ شیطان نے انسان کو بے انتہا بدعنوان بنا دیا ہے! شیطان لوگوں کو ورغلانے کے لیے پیسے کا استعمال کرتا ہے اور انھیں بدعنوان بناتے ہوئے پیسے کی پرستش اور مادی چیزوں کی تعظیم میں ملوث کر دیتا ہے۔ اور پیسے کی یہ پوجا لوگوں میں کیسے ظاہر ہوتی ہے؟ کیا تم محسوس کرتے ہو کہ تم بغیر پیسے کے اس دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتے، یا یہ کہ پیسے کے بغیر ایک دن بھی زندہ رہنا ناممکن ہے؟ لوگوں کی حیثیت اس بات پر منحصر ہوتی ہے کہ ان کے پاس کتنا پیسہ ہے، جتنا ہو گا اتنا ہی ان کو احترام ملے گا۔ غریبوں کی کمر شرم سے خم ہو چکی ہے، جب کہ امیر اپنے اونچے مقام و مرتبے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ وہ سر اٹھا کر اور فخر سے چلتے ہیں، اونچی آواز میں بولتے ہیں اور تکبر سے رہتے ہیں۔ لوگوں میں اس کہاوت اور رجحان کا نتیجہ کیا نکل رہا ہے؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ بہت سے لوگ پیسے کے حصول کے لیے کسی بھی طرح کی قربانی دیتے ہیں؟ کیا بہت سے لوگ زیادہ پیسے کے حصول میں اپنا وقار اور ایمان داری کھو نہیں دیتے؟ کیا بہت سے لوگ پیسے کی خاطر اپنا فرض ادا کرنے اور خدا کی پیروی کرنے کا موقع گنوا نہیں دیتے؟ کیا سچائی حاصل کرنے اور نجات پانے کا موقع کھو دینا لوگوں کے لیے سب سے بڑا نقصان نہیں ہے؟ کیا شیطان کا اس طریقے اور اس قول کو انسان کو اس حد تک بد عنوان بنانے کے لیے استعمال کرنا مفسدانہ نہیں ہے؟ کیا یہ بدنیتی پر مبنی چال نہیں ہے؟ جب تو اس مشہور قول پر اعتراض کرنے سے آگے بڑھ کر اسے سچ مان لیتا ہے، تو تیرا دل مکمل طور پر شیطان کی گرفت میں آ جاتا ہے، اور اس لیے تو غیرارادی طور پر اس قول کے مطابق زندگی بسر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس قول نے تجھے کس حد تک متاثر کیا ہے؟ ہو سکتا ہے کہ تجھے سچا راستہ معلوم ہو، اور ہو سکتا ہے کہ تجھے سچائی معلوم ہو، لیکن تجھ میں اس کے لیے جستجو کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ تجھے واضح طور پر معلوم ہو سکتا ہے کہ خدا کا کلام سچ ہے، لیکن تو سچائی حاصل کرنے کے لیے قیمت ادا کرنے یا تکلیف اٹھانے کے لیے آمادہ نہیں ہے۔ اس کی بجائے، تو اپنے مستقبل اور تقدیر کو آخر تک خُدا کا مقابلہ کرنے کے لیے قربان کر دے گا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ خدا کیا کہتا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ خدا کیا کرتا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تو یہ سمجھتا ہے یا نہیں کہ تیرے لیے خدا کی محبت کتنی گہری اور کتنی عظیم ہے، تو ضد کے ساتھ اپنا راستہ اختیار کرنے پر اصرار کرے گا اور اس قول کی قیمت ادا کرے گا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ قول پہلے ہی دھوکے سے تیرے خیالات پر قابو پا چکا ہے، یہ پہلے ہی تیرے طرز عمل کا حکمران بن چکا ہے، اور تو دولت حاصل کرنے کی اپنی جستجو کو ایک طرف رکھنے کی بجائے اسے اپنی قسمت پر حکمرانی کرنے دے گا۔ چونکہ لوگ اس طرح عمل کر سکتے ہیں، کہ وہ شیطان کی باتوں کے ذریعے قابو میں آ سکتے ہیں اور انھیں چالاکی سے استعمال کیا جا سکتا ہے – کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انھیں شیطان نے فریب دیا ہے اور بدعنوان بنا دیا ہے؟ کیا شیطان کے فلسفے اور ذہنیت اور شیطان کے مزاج نے تیرے دل میں جڑ نہیں پکڑ لی ہے؟ جب تو آنکھیں بند کر کے دولت کی جستجو کرتا ہے، اور حق کی جستجو چھوڑ دیتا ہے، تو کیا شیطان نے تجھے دھوکا دینے کا اپنا مقصد حاصل نہیں کر لیا ہے؟ یہ معاملہ بالکل ایسا ہی ہے۔ جب شیطان تجھے دھوکا دیتا ہے اور بدعنوان بناتا ہے تو کیا تو اس کو محسوس کر سکتا ہے؟ تو نہیں کر سکتا ہے۔ اگر تو شیطان کو بالکل اپنے سامنے کھڑا نہیں دیکھ سکتا، یا یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ شیطان ہے جو چھپ کر کام کر رہا ہے، تو کیا تو شیطان کی خباثت دیکھ سکے گا؟ کیا تو جان سکتا ہے کہ شیطان انسانوں کو کیسے بدعنوان بناتا ہے؟ شیطان انسان کو ہر وقت اور ہر جگہ بدعنوان بناتا ہے۔ شیطان انسان کے لیے اس بدعنوانی کے خلاف دفاع کو ناممکن بنا دیتا ہے اور انسان کو اس کے مقابلے میں بے بس کر دیتا ہے۔ شیطان تجھے اپنے خیالات، اپنے نقطہ نظر اور اس سے پیدا ہونے والی بری چیزوں کو ان حالات میں قبول کرنے پر مجبور کرتا ہے جب تو ان سے ناواقف ہوتا ہے اور جب تجھے اس کی کوئی پہچان نہیں ہوتی ہے کہ تیرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ لوگ ان چیزوں کو قبول کر لیتے ہیں اور ان پر کوئی اعتراض نہیں کرتے۔ وہ ان چیزوں کو عزیز رکھتے ہیں اور ان کو ایک خزانے کی طرح مضبوطی سے پکڑتے ہیں، وہ خود کو ان چیزوں کے ذریعے چالاکی سے استعمال ہونے دیتے ہیں اور اپنے ساتھ کھلواڑ کرنے دیتے ہیں؛ یہ وہ طریقہ ہے جس سے لوگ شیطان کے زیر اثر زندگی گزارتے ہیں، اور لاشعوری طور پر شیطان کی اطاعت کرتے ہیں، اور شیطان کا انسان کو بدعنوان بنانے کا عمل اور بھی گہرا ہوتا جاتا ہے۔
شیطان انسان کو بدعنوان بنانے کے لیے یہ متعدد طریقے استعمال کرتا ہے۔ انسان کے پاس علم اور کچھ سائنسی اصولوں کی سمجھ بوجھ ہے، انسان روایتی ثقافت کے زیر اثر رہتا ہے، اور ہر انسان روایتی ثقافت کا وارث ہے اور اسے آگے منتقل کرتا ہے۔ انسان شیطان کی طرف سے اسے دی گئی روایتی ثقافت کو جاری رکھنے کا پابند ہے، اور انسان ان سماجی رجحانات کے مطابق بھی ہے جو شیطان انسانیت کو فراہم کرتا ہے۔ انسان شیطان کے ساتھ لازم و ملزوم ہے، شیطان ہر وقت جو کچھ کرتا ہے اس کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے، اس کی برائی، فریب، بدنیتی اور تکبر کو قبول کرتا ہے۔ ایک بار جب انسان شیطان کی ان خصلتوں کا حامل ہو گیا تو کیا وہ اس بدعنوان انسانیت کے درمیان زندگی گزارنے سے خوش ہوا یا غمگین؟ (غمگین)۔ تم ایسا کیوں کہتے ہو؟ (چونکہ انسان بدعنوان چیزوں میں جکڑا ہوا ہے اور ان کے قابو میں ہے، اس لیے وہ گناہ میں رہتا ہے اور ایک مشکل جدوجہد میں گھرا ہوا ہے)۔ کچھ لوگ عینک لگاتے ہیں، بہت عقلمند دکھائی دیتے ہیں؛ وہ فصاحت اور استدلال کے ساتھ بہت احترام سے بات کر سکتے ہیں، اور چونکہ وہ بہت سی چیزوں سے گزر چکے ہیں، وہ بہت تجربہ کار اور نفیس ہو سکتے ہیں۔ وہ بڑے اور چھوٹے معاملات کے بارے میں تفصیل سے بات کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں؛ وہ چیزوں کی صداقت اور وجہ کا اندازہ لگانے کے قابل بھی ہو سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگ ان لوگوں کے رویے اور شکل وصورت نیز ان کے کردار، انسانیت، اخلاق وغیرہ کو دیکھیں اور ان میں کوئی عیب نہ پائیں۔ ایسے لوگ خاص طور پر موجودہ سماجی رجحانات سے ہم آہنگ ہونے کے قابل ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ لوگ بوڑھے ہو سکتے ہیں، لیکن وہ کبھی بھی زمانے کے رجحانات سے پیچھے نہیں رہتے اور سیکھنے کے لیے کبھی بھی بہت بوڑھے نہیں ہوتے۔ سطحی طور پر، ایسے شخص میں کوئی بھی عیب تلاش نہیں کر سکتا، پھر بھی اپنے باطنی جوہر تک وہ شیطان کے ہاتھوں بالکل اور مکمل طور پر بدعنوان ہو چکے ہیں۔ اگرچہ ان لوگوں میں کوئی ظاہری عیب نہیں پایا جا سکتا، اگرچہ سطحی طور پر یہ نرم مزاج، مہذب ہیں، علم اور ایک خاص اخلاق کے حامل ہیں، اور ان میں دیانت داری ہے، اور اگرچہ علم کے لحاظ سے یہ نوجوانوں سے کسی طور کمتر نہیں ہیں، پھر بھی اپنی فطرت اور جوہر کے لحاظ سے ایسے لوگ شیطان کا مکمل اور زندہ نمونہ ہیں؛ وہ بالکل شیطان کی شبیہ ہیں۔ یہ شیطان کے انسان کو بدعنوان بنانے کا ”پھل“ ہے۔ میں نے جو کہا ہے وہ تمہارے لیے تکلیف دہ ہو سکتا ہے، لیکن یہ سب سچ ہے۔ انسان جس علم کا مطالعہ کرتا ہے، وہ سائنس جسے وہ سمجھتا ہے، اور وہ ذرائع جنھیں وہ سماجی رجحانات کے ساتھ موزوں ہونے کے لیے منتخب کرتا ہے، یہ بغیر کسی استثنا کے شیطان کے انسان کو بدعنوان بنانے کے اوزار ہیں۔ یہ بالکل سچ ہے۔ لہٰذا، انسان ایک ایسے مزاج کے اندر رہتا ہے جسے شیطان نے مکمل طور پر بدعنوان بنا دیا ہے، اور انسان کے پاس یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ خدا کا تقدس کیا ہے یا خدا کا جوہر کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان جن طریقوں سے انسان کو بدعنوان بناتا ہے کوئی سطحی طور پر ان میں غلطی نہیں تلاش کر سکتا؛ کسی کے رویے کو دیکھتے ہوئے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کوئی چیز غلط ہے۔ ہر کوئی اپنے کام کو معمول کے مطابق کرتا ہے اور عام زندگی گزارتا ہے؛ وہ عام انداز میں کتابیں اور اخبارات پڑھتا ہے، وہ عام انداز میں مطالعہ کرتا اور بولتا ہے۔ کچھ لوگوں نے کچھ اخلاقیات سیکھی ہیں اور وہ بات کرنے میں اچھے ہیں، سمجھنے والے اور دوستانہ ہیں، مددگار اور خیرات کرنے والے ہیں، اور معمولی باتوں پر جھگڑنے والے یا لوگوں سے فائدہ اٹھانے والے نہیں ہیں۔ تاہم ان کے شیطانی بدعنوان مزاج کی جڑیں ان کے اندر پیوست ہیں اور اس جوہر کو بیرونی کوششوں پر بھروسہ کر کے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس جوہر کی وجہ سے انسان خدا کے تقدس کو نہیں جان پاتا اور انسان پر خدا کے تقدس کا جوہر ظاہر ہونے کے باوجود انسان اسے سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان مختلف ذرائع سے انسان کے احساسات، نظریات، نقطہ نظر اور خیالات پر مکمل طور پر قبضہ کر چکا ہے۔ یہ قبضہ اور بدعنوانی عارضی یا کبھی کبھار والا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ہر جگہ پر اور ہر وقت موجود ہے۔ اس طرح بہت سے لوگ جنہوں نے تین یا چار سال یا حتیٰ کہ پانچ یا چھ سال تک بھی خدا پر ایمان رکھا ہے، وہ اب بھی ان شیطانی خیالات، نظریات، منطق اور فلسفے کو بہت قیمتی سمجھتے ہیں جو شیطان نے ان کے ذہنوں میں بٹھائے ہوئے ہیں، اور انھیں چھوڑنے سے قاصر ہیں۔ چونکہ انسان نے شیطان کی فطرت سے پیدا ہونے والی برائی، تکبر اور بدنیتی والی چیزوں کو قبول کر لیا ہے، اس لیے لامحالہ انسان کے باہمی تعلقات میں اکثر تنازعات، اختلافی بحث اور نااتفاقی پیدا ہوتی ہے، جو شیطان کی متکبرانہ فطرت کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ اگر شیطان نے بنی نوع انسان کو مثبت چیزیں دی ہوتیں – مثال کے طور پر، اگر کنفیوشس ازم اور روایتی ثقافت کا تاؤ ازم جنہیں انسان نے قبول کر لیا ہے اچھی چیزیں ہوتیں – تو ان چیزوں کو قبول کر لینے کے بعد ایک ہی طرح کے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے کے قابل ہونا چاہیے۔ تو پھر ان لوگوں کے درمیان اتنی بڑی تقسیم کیوں ہے جنہوں نے ایک جیسی چیزوں کو قبول کیا ہے؟ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ یہ چیزیں شیطان کی طرف سے آتی ہیں اور شیطان لوگوں میں تفرقہ پیدا کرتا ہے۔ شیطان کی چیزیں، خواہ وہ سطحی طور پر کتنی ہی باوقار یا عظیم کیوں نہ لگتی ہوں، انسان کے لیے اور انسان کی زندگی میں صرف تکبر ہی لاتی ہیں، اور شیطان کی شیطانی فطرت کے فریب کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ کوئی ایسا شخص جو اپنا بھیس بدلنے کے قابل ہو، جس کے پاس علم کی دولت ہو یا جس کی اچھی پرورش ہو، اس کے لیے اب بھی اپنے بدعنوان شیطانی مزاج کو چھپانا مشکل ہو گا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ اس شخص نے اپنے آپ کو کتنے ہی طریقوں سے ڈھانپ لیا ہو، چاہے تو نے اسے ولی تصور کیا ہو، یا تو نے اسے کامل سمجھا ہو، یا اگر تو نے اسے فرشتہ سمجھا ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تیرے خیالات کتنے ہی پاکیزہ ہوں، اس کی پس پردہ اصل زندگی کیسی ہے؟ تو اس کے مزاج کے ظاہر ہونے پر کیا جوہر دیکھے گا؟ بلاشبہ تو شیطان کی بری فطرت کو دیکھے گا۔ کیا یہ کہنے کی اجازت ہے؟ (ہاں)۔ مثال کے طور پر، فرض کرو کہ تم اپنے قریبی کسی ایسے شخص کو جانتے ہو جسے تو نے ایک اچھا انسان سمجھا ہو، شاید کوئی ایسا شخص جس کا تو عقیدت مند ہو۔ تو اپنی موجودہ حیثیت کے ساتھ، اس کے بارے میں کیا سوچتا ہے؟ سب سے پہلے، تو اس بات کا جائزہ لے کہ آیا اس قسم کے شخص میں انسانیت ہے یا نہیں، آیا وہ ایماندار ہے یا نہیں، آیا وہ لوگوں کے لیے سچی محبت رکھتا ہے یا نہیں، آیا اس کے قول و فعل دوسروں کا فائدہ اور مدد کرتے ہیں یا نہیں۔ (وہ نہیں کرتے)۔ وہ نام نہاد مہربانی، محبت یا نیکی کیا ہے جو یہ لوگ ظاہر کرتے ہیں؟ یہ سب جھوٹ ہے، یہ سب ایک ظاہری صورت ہے۔ اس ظاہری صورت کے پیچھے ایک خفیہ شیطانی مقصد ہے: اس شخص کو چاہنا اور اس کا عقیدت مند بننا۔ کیا تم واضح طور پر یہ دیکھتے ہو؟ (ہاں)۔
شیطان انسانیت کو بدعنوان بنانے کے لیے کون سے طریقے استعمال کرتا ہے؟ کیا وہ کوئی مثبت چیز لاتے ہیں؟ اول، کیا انسان اچھے اور برے میں فرق کر سکتا ہے؟ کیا تو یہ کہے گا کہ اس دنیا میں، چاہے کوئی مشہور یا عظیم شخص ہو، یا کوئی رسالہ ہو یا کوئی اور اشاعت، وہ کسی چیز کے اچھا یا برا، اور صحیح یا غلط ہونے کو جانچنے کے لیے جو معیارات استعمال کرتے ہیں، درست ہیں؟ کیا واقعات اور لوگوں کے بارے میں ان کے اندازے منصفانہ ہیں؟ کیا ان میں سچائی ہے؟ کیا یہ دنیا، یہ انسانیت، سچائی کے معیار کی بنیاد پر مثبت اور منفی چیزوں کا اندازہ لگاتی ہے؟ (نہیں)۔ لوگوں میں یہ صلاحیت کیوں نہیں ہے؟ لوگ اتنا علم پڑھ چکے ہیں اور سائنس کے بارے میں اتنا جانتے ہیں، اس لیے وہ بڑی صلاحیتوں کے حامل ہیں، کیا وہ نہیں؟ تو وہ مثبت اور منفی چیزوں میں فرق کرنے سے کیوں قاصر ہیں؟ یہ کیوں ہے؟ (کیونکہ لوگوں کے پاس سچائی نہیں ہے؛ سائنس اور علم سچائی نہیں ہیں)۔ ہر وہ چیز جو شیطان انسانیت کے لیے لاتا ہے وہ بری، بدعنوان ہے اور اس میں سچائی، زندگی اور طریقے کی بہت کمی ہے۔ شیطان انسان میں جو برائی اور بدعنوانی لاتا ہے، کیا تو کہہ سکتا ہے کہ شیطان میں محبت ہے؟ کیا تو کہہ سکتا ہے کہ انسان میں محبت ہے؟ کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں: ”تو غلط ہے؛ دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو غریبوں یا بے گھر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ کیا یہ اچھے لوگ نہیں ہیں؟ خیراتی ادارے بھی ہیں جو اچھا کام کرتے ہیں؛ جو کام وہ کرتے ہیں کیا وہ اچھا کام نہیں ہے؟“ اس پر تو کیا کہے گا؟ شیطان انسان کو خراب کرنے کے لیے بہت سے مختلف طریقے اور نظریات استعمال کرتا ہے؛ کیا انسان کی یہ بدعنوانی ایک مبہم تصور ہے؟ نہیں، یہ مبہم نہیں ہے۔ شیطان کچھ عملی کام بھی کرتا ہے اور وہ اس دنیا اور معاشرے میں کسی نقطہ نظر یا نظریے کو فروغ بھی دیتا ہے۔ ہر خاندان اور ہر دور میں، یہ ایک نظریے کو فروغ دیتا ہے اور انسان کے ذہنوں میں خیالات بٹھاتا ہے۔ یہ خیالات اور نظریات رفتہ رفتہ لوگوں کے دلوں میں جڑ پکڑ لیتے ہیں اور پھر وہ ان کے مطابق زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ ایک بار جب وہ ان چیزوں کے مطابق زندگی گزارنے لگ جاتے تو کیا وہ غیر ارادی طور پر شیطان نہیں بن جاتے؟ کیا پھر لوگ شیطان کے ساتھ ایک نہیں ہو جاتے؟ جب لوگ شیطان کے ساتھ ایک ہو گئے ہیں تو آخر میں خدا کے ساتھ ان کا رویہ کیا ہے؟ کیا یہ وہی رویہ نہیں ہے جو شیطان خدا کے ساتھ رکھتا ہے؟ کوئی اس بات کو تسلیم کرنے کی جرات نہیں کرتا، کیا وہ کرتا ہے؟ کتنا خوفناک! میں کیوں کہتا ہوں کہ شیطان کی فطرت بری ہے؟ میں یہ بے بنیاد طور پر نہیں کہتا؛ بلکہ، شیطان نے جو کیا ہے اور جو چیزیں اس نے ظاہر کی ہیں ان کی بنیاد پر اس کی فطرت کا تعین اور تجزیہ کیا جاتا ہے۔ اگر میں صرف یہ کہتا کہ شیطان برا ہے تو تم کیا سوچتے؟ تم سوچتے: ”ظاہر ہے کہ شیطان برا ہے۔“ تو میں تجھ سے پوچھتا ہوں: ”شیطان کے کون سے پہلو برے ہیں؟“ اگر تو کہتا ہے: ”خدا کے خلاف شیطان کی مزاحمت بری ہے،“ تو پھر بھی تو وضاحت کے ساتھ بات نہیں کر رہا ہو گا۔ اب جب کہ میں نے تصریحات کے بارے میں اس طریقے سے بات کی ہے، کیا تمہیں شیطان کی برائی کے جوہر کے مخصوص مواد کے بارے میں کوئی سمجھ بوجھ ہے؟ (ہاں)۔ اگر تم شیطان کی بری فطرت کو واضح طور پر دیکھ سکتے ہو، تو تم خود اپنے حالات دیکھ لو گے۔ کیا ان دونوں چیزوں میں کوئی تعلق ہے؟ کیا یہ تمہارے لیے مفید ہے یا نہیں؟ (یہ ہے)۔ جب میں خدا کے تقدس کے جوہر کے بارے میں رفاقت کرتا ہوں تو کیا یہ ضروری ہے کہ میں شیطان کے برے جوہر کے بارے میں رفاقت کروں؟ اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ (ہاں، یہ ضروری ہے)۔ کیوں؟ (شیطان کی برائی خدا کے تقدس کو ظاہر کرتی ہے)۔ کیا یہ ایسا ہی ہے؟ یہ جزوی طور پر درست ہے، اس لحاظ سے کہ شیطان کی برائی کے بغیر، لوگ نہیں جان سکتے کہ خدا مقدس ہے؛ یہ کہنا درست ہے۔ تاہم، اگر تو کہتا ہے کہ خدا کا تقدس صرف شیطان کی برائی کے ساتھ اپنے تضاد کی وجہ سے موجود ہے، تو کیا یہ درست ہے؟ سوچ کا یہ جدلیاتی انداز غلط ہے۔ خدا کا تقدس خدا کا جبلی جوہر ہے؛ یہاں تک کہ جب خدا اسے اپنے اعمال کے ذریعے ظاہر کرتا ہے، تب بھی یہ خدا کے جوہر کا ایک فطری اظہار ہوتا ہے اور یہ اب بھی خدا کا جبلی جوہر ہے؛ حالانکہ انسان اسے نہیں دیکھ سکتا لیکن یہ ہمیشہ سے موجود ہے اور خود خدا کے لیے فطری اور قدرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان شیطان کے بدعنوان مزاج کے درمیان اور شیطان کے زیر اثر رہتا ہے، اور وہ تقدس کے بارے میں نہیں جانتا ہے، خدا کے تقدس کے مخصوص مواد کے بارے میں جاننے کا امکان تو اور بھی کم ہے۔ تو، کیا یہ ضروری ہے کہ ہم پہلے شیطان کے جوہر کے بارے میں رفاقت کریں؟ (ہاں، یہ ہے)۔ کچھ لوگ کچھ شک کا اظہار کر سکتے ہیں: ”تو خدا خود کے بارے میں رفاقت کر رہا ہے، تو تُو ہمیشہ یہ بات کیوں کرتا ہے کہ شیطان کس طرح لوگوں کو بدعنوان بناتا ہے اور کس طرح شیطان کی فطرت بری ہے؟“ اب تو نے ان شکوک و شبہات کو دور کر لیا ہے، کیا تو نے نہیں کیا؟ جب لوگ شیطان کی برائی کو پہچان لیں اور جب ان کے پاس اس کی درست تشریح ہو، جب لوگ برائی کے مخصوص مواد اور مظہر کو، برائی کے منبع اور جوہر کو واضح طور پر دیکھ سکیں، تب ہی لوگ خدا کے تقدس پر بات چیت کے ذریعے واضح طور پر محسوس کر سکتے ہیں، لوگ پہچان سکتے ہیں کہ خدا کا تقدس کیا ہے، تقدس کیا ہے۔ اگر میں شیطان کی برائی پر بات نہ کروں تو کچھ لوگ غلطی سے یہ مان لیں گے کہ کچھ چیزیں جو لوگ معاشرے میں اور لوگوں کے درمیان کرتے ہیں – یا کچھ چیزیں جو اس دنیا میں موجود ہیں – ان کا تقدس سے کوئی تعلق ہو سکتا ہے۔ کیا یہ غلط نقطہ نظر نہیں ہے؟ (ہاں، یہ ہے)۔
اب جب کہ میں نے شیطان کے جوہر پر اس طرح رفاقت کر لی ہے، تم نے گزشتہ چند سالوں میں اپنے تجربات سے، خدا کے کلام کو پڑھنے اور اس کے کام کا تجربہ کرنے سے خدا کے تقدس کی کس قسم کی سمجھ بوجھ حاصل کی ہے؟ آگے بڑھو اور اس کے متعلق بات کرو۔ تجھے ایسے الفاظ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو کانوں کو خوش کریں، بلکہ صرف اپنے تجربات سے بات کر۔ کیا خدا کا تقدس صرف اس کی محبت پر مشتمل ہے؟ کیا یہ محض خدا کی محبت ہے جسے ہم تقدس کے طور پر بیان کرتے ہیں؟ یہ بہت یک طرفہ ہو گا، کیا یہ نہیں ہو گا؟ خدا کی محبت کے علاوہ، کیا خدا کے جوہر کے اور بھی پہلو ہیں؟ کیا تم نے انھیں دیکھا ہے؟ (ہاں۔ خدا تہواروں اور تعطیلات، رسم و رواج اور توہمات سے نفرت کرتا ہے؛ یہ بھی خدا کا تقدس ہے)۔ خدا مقدس ہے، اس لیے وہ چیزوں سے نفرت کرتا ہے، کیا تمہارا یہی مطلب ہے؟ جب بات اس پر آتی ہے تو خدا کا تقدس کیا ہے؟ کیا یہ ہے کہ خدا کے تقدس میں کوئی خاطر خواہ مواد نہیں ہے، صرف نفرت ہے؟ کیا تم اپنے ذہنوں میں یہ سوچ رہے ہو، ”چونکہ خدا ان بری چیزوں سے نفرت کرتا ہے، اس لیے کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ خدا مقدس ہے“؟ کیا یہاں یہ قیاس آرائی نہیں ہے؟ کیا یہ محدود حقائق سے زیادہ بڑے پیمانے پر نتائج اخذ کرنا اور فیصلے کی ایک شکل نہیں ہے؟ خدا کے جوہر کو سمجھتے وقت سب سے بڑی غلطی کیا ہے جس سے لازمی طور پر مکمل گریز کرنا چاہیے؟ (یہ تب ہوتا ہے جب ہم حقیقت کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں اور اس کی بجائے عقائد کی بات کرتے ہیں)۔ یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ کیا کچھ اور ہے؟ (قیاس اور تخیل)۔ یہ بھی بہت سنگین غلطیاں ہیں۔ قیاس اور تخیل کیوں مفید نہیں ہیں؟ کیا وہ چیزیں جن کے بارے میں تو قیاس کرتا ہے اور تصور کرتا ہے ایسی چیزیں ہیں جنہیں تو واقعی دیکھ سکتا ہے؟ کیا وہ خدا کا حقیقی جوہر ہیں؟ (نہیں)۔ اور کس چیز سے لازمی بچنا چاہیے؟ کیا خدا کے جوہر کو بیان کرنے کے لیے صرف خوشگوار الفاظ کا ایک سلسلہ پڑھنا ایک غلطی ہے؟ (ہاں)۔ کیا یہ رعب ڈالنے والا اور بکواس نہیں ہے؟ جانچنا اور قیاس کرنا بے معنی ہے، جیسا کہ خوشگوار الفاظ چننے کا عمل ہے۔ کھوکھلی تعریف بھی فضول ہے، کیا نہیں ہے؟ کیا خدا لوگوں کی اس قسم کی فضول باتیں سن کر لطف اندوز ہوتا ہے؟ (نہیں، وہ نہیں ہوتا)۔ جب وہ اسے سنتا ہے تو وہ بے چینی محسوس کرتا ہے! جب خدا لوگوں کے ایک گروہ کی راہنمائی کرتا ہے اور بچاتا ہے، جبکہ لوگوں کے اس گروہ نے اس کی باتیں سن لی ہوتی ہیں، تو پھر بھی وہ کبھی نہیں سمجھتے کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ کوئی پوچھ سکتا ہے: ”کیا خدا اچھا ہے؟“ اور وہ جواب دے گا، ”ہاں!“ ”کتنا اچھا؟“ ”بہت زیادہ اچھا!“ ”کیا خدا انسان سے محبت کرتا ہے؟“ ”ہاں!“ ”کتنی؟ کیا تم اسے بیان کر سکتے ہو؟“ ”بہت ہی زیادہ! خدا کی محبت سمندر سے گہری ہے، آسمان سے بلند ہے!“ کیا یہ الفاظ بکواس نہیں ہیں؟ اور کیا یہ بکواس اس سے ملتی جلتی نہیں ہے جو تم نے ابھی کی تھی: ”خدا کو شیطان کے بدعنوان مزاج سے نفرت ہے، اور اس لیے خدا مقدس ہے“؟ (ہاں)۔ کیا تم نے ابھی جو کہا وہ بکواس نہیں ہے؟ اور زیادہ تر جو بکواس باتیں کہی جاتی ہیں، کہاں سے آتی ہیں؟ بکواس باتیں جو کہی جاتی ہیں بنیادی طور پر لوگوں کی غیر ذمہ داری اور خدا کی تعظیم نہ کرنے کی وجہ سے آتی ہیں۔ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں؟ تجھے کوئی سمجھ بوجھ نہیں تھی، پھر بھی تو نے بکواس باتیں کیں۔ کیا یہ غیر ذمہ داری نہیں ہے؟ کیا یہ خدا کے ساتھ گستاخی نہیں ہے؟ تو نے کچھ علم سیکھا ہے، کچھ استدلال اور منطق کو سمجھا ہے، تو نے ان چیزوں کو استعمال کیا ہے اور اس کے علاوہ، خدا کو سمجھنے کے طریقے کے طور پر کیا ہے۔ کیا تجھے لگتا ہے کہ جب خدا تجھے اس طرح بولتے ہوئے سنتا ہے تو وہ پریشان ہوتا ہے؟ تم ان طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے خدا کو جاننے کی کوشش کیسے کر سکتے ہو؟ جب تم اس طرح بولتے ہو تو کیا یہ ناموزوں نہیں لگتا؟ لہٰذا، جب خدا کے علم کی بات آتی ہے، تو لازمی طور پر بہت محتاط رہنا چاہیے؛ صرف اس حد تک بات کرو جہاں تک تم خدا کو جانتے ہو۔ ایمانداری سے اور عملی طور پر بات کرو اور اپنے الفاظ کو بے کیف تعریفوں سے مزین نہ کرو، اور چاپلوسی نہ کرو؛ خدا کو اس کی ضرورت نہیں ہے؛ اس قسم کی چیز شیطان کی طرف سے آتی ہے۔ شیطان کا مزاج تکبر ہے؛ شیطان خوشامد کروانا اور اچھے الفاظ سننا پسند کرتا ہے۔ شیطان مسرور اور خوش ہو گا اگر لوگ اپنے سیکھے ہوئے تمام خوشگوار الفاظ پڑھ کر شیطان کے لیے استعمال کریں۔ لیکن خدا کو اس کی ضرورت نہیں ہے؛ خدا کو خوشامد یا چاپلوسی کی ضرورت نہیں ہے اور وہ یہ نہیں چاہتا کہ لوگ بکواس باتیں کریں اور آنکھیں بند کرکے اس کی تعریف کریں۔ خدا نفرت کرتا ہے اور وہ تعریف اور چاپلوسی کو بالکل نہیں سنے گا جو حقیقت سے ہم آہنگ نہیں ہوتی ہے۔ لہٰذا، جب کچھ لوگ بناوٹی انداز میں خدا کی تعریف کرتے ہیں، اور آنکھیں بند کرکے منتیں مانتے ہیں اور اس سے دعا کرتے ہیں، تو خدا بالکل نہیں سنتا ہے۔ تو جو کچھ کہتا ہے تجھے اس کی ذمہ داری ضرور لینی چاہیے۔ اگر تو کسی چیز کے بارے میں نہیں جانتا تو یہ بات بتا دے؛ اگر تو کچھ جانتا ہے تو اس کا عملی انداز میں اظہار کر۔ تو، اس بارے میں کہ خدا کی تقدس میں خاص طور پر اور اصل میں کیا شامل ہے، کیا تم اس کی صحیح سمجھ بوجھ رکھتے ہو؟ (جب میں نے سرکشی کا اظہار کیا، جب میں نے قانون شکنی کی، تو مجھے خدا کی عدالت اور تادیب ملی، اور میں نے اس میں خدا کا تقدس دیکھا۔ اور جب میں نے ایسے ماحول کا سامنا کیا جو میری توقعات کے مطابق نہیں تھا، تو میں نے ان چیزوں کے بارے میں دعا کی اور میں نے خدا کے ارادوں کو تلاش کیا، اور جب خدا نے مجھے اپنے کلام سے آگہی دی اور میری راہنمائی کی، تو میں نے خدا کا تقدس دیکھا)۔ یہ تیرے اپنے تجربے سے ہے۔ (خدا نے اس کے بارے میں جو کہا ہے اس سے میں نے دیکھا ہے کہ انسان شیطان کی طرف سے بدعنوان بنائے جانے اور نقصان پہنچائے جانے کے بعد کیا ہو گیا ہے۔ اس کے باوجود خدا نے ہمیں بچانے کے لیے سب کچھ دیا ہے اور اس سے مجھے خدا کا تقدس نظر آتا ہے)۔ یہ بات کرنے کا ایک حقیقت پسندانہ انداز ہے؛ یہ حقیقی علم ہے۔ کیا اس کو سمجھنے کے کوئی مختلف طریقے ہیں؟ (میں شیطان کی برائی کو ان الفاظ میں دیکھتا ہوں جو اس نے حوا کو گناہ کرنے پر اکسانے کے لیے اور جو اس نے خداوند یسوع کی آزمائش کرنے کے لیے کہے تھے۔ ان الفاظ میں جن میں خدا نے آدم اور حوا کو بتایا کہ وہ کیا کھا سکتے ہیں اور کیا نہیں کھا سکتے ہیں، میں دیکھتا ہوں کہ خدا سیدھا، صاف، اور بھروسے کے ساتھ بولتا ہے؛ اس سے میں خدا کا تقدس دیکھ سکتا ہوں)۔ مندرجہ بالا تبصرے سننے کے بعد، تجھے کس کے الفاظ ”آمین“ کہنے کی سب سے زیادہ ترغیب دیتے ہیں؟ آج کس کی رفاقت ہماری رفاقت کے موضوع کے قریب ترین تھی؟ کس کے الفاظ سب سے زیادہ حقیقت پسندانہ تھے؟ آخری بہن کی رفاقت کیسی رہی؟ (اچھی ہے)۔ اس نے جو کہا تم اس پر ”آمین“ کہتے ہو۔ اس نے کیا کہا جو کہ ٹھیک ہدف پر تھا؟ (بہن نے ابھی جو الفاظ کہے، میں نے ان میں سنا کہ خدا کا کلام سیدھا اور بہت واضح ہے، اور یہ بالکل بھی شیطان کے اصل نکتے سے ہٹ کر بات کرنے جیسا نہیں ہے۔ میں نے اس میں خدا کا تقدس دیکھا)۔ یہ اس کا حصہ ہے۔ کیا یہ صحیح تھا؟ (ہاں)۔ بہت اچھے۔ میں دیکھتا ہوں کہ تم نے گزشتہ دو رفاقتوں میں کچھ حاصل کیا ہے، لیکن تمہیں لازمی سخت محنت جاری رکھنی چاہیے۔ تمہیں لازمی طور پر سخت محنت کرنے کی وجہ یہ ہے کہ خدا کے جوہر کو سمجھنا ایک بہت گہرا سبق ہے؛ یہ ایسی چیز نہیں ہے جسے کوئی راتوں رات سمجھ لیتا ہے، یا جسے کوئی صرف چند الفاظ سے واضح طور پر بیان کر سکتا ہے۔
لوگوں کے بدعنوان شیطانی مزاج کا ہر پہلو، علم، فلسفہ، لوگوں کے خیالات اور نقطہ ہائے نظر، اور انفرادی لوگوں کے بعض ذاتی پہلو ان کے خدا کے جوہر کو جاننے میں بہت زیادہ رکاوٹ ہیں؛ اس لیے جب تو ان موضوعات کو سنتا ہے تو ان میں سے کچھ تیری پہنچ سے باہر ہو سکتے ہیں؛ ہو سکتا ہے تو کچھ کو نہ سمجھ سکے، جبکہ کچھ کو تو بنیادی طور پر حقیقت سے ہم آہنگ نہ کر سکے۔ قطع نظر، میں نے خدا کے تقدس کے بارے میں تمہاری سمجھ بوجھ کے بارے میں سنا ہے اور میں جانتا ہوں کہ تم اپنے دلوں میں اس بات کو تسلیم کرنے لگے ہو جو میں نے خدا کے تقدس کے بارے میں کہا ہے اور جس کی رفاقت کی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تمہارے دلوں میں خدا کے تقدس کے جوہر کو سمجھنے کی خواہش پھوٹنے لگی ہے۔ لیکن جو چیز مجھے زیادہ خوش کرتی ہے وہ یہ ہے کہ تم میں سے کچھ پہلے ہی خدا کے تقدس کے بارے میں اپنے علم کو بیان کرنے کے لیے آسان ترین الفاظ استعمال کرنے کے قابل ہیں۔ اگرچہ یہ کہنا ایک سادہ سی بات ہے اور میں یہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں، لیکن تمہاری اکثریت کے دلوں میں تم نے ابھی تک ان باتوں کو قبول نہیں کیا ہے، اور درحقیقت انہوں نے تمہارے ذہنوں میں کوئی نقش نہیں چھوڑا ہے۔ بہر حال، تم میں سے بعض نے ان الفاظ کو یاد کر لیا ہے۔ یہ بہت اچھا ہے اور ایک بہت امید افزا آغاز ہے۔ مجھے امید ہے کہ تم ان موضوعات پر جنہیں تم بہت گہرا سمجھتے ہو، زیادہ سے زیادہ غور و فکر اور رفاقت جاری رکھو گے – یا ایسے موضوعات جو تمہاری پہنچ سے باہر ہیں۔ ان مسائل کے لیے جو تمہاری دسترس سے باہر ہیں، تمہاری مزید راہنمائی کرنے کے لیے کوئی موجود ہو گا۔ اگر تم ان شعبوں کے بارے میں مزید رفاقت میں مشغول ہوتے ہو جو اب تمہاری پہنچ میں ہیں، تو روح القدس اپنا کام کرے گی اور تمہاری سمجھ بوجھ زیادہ بڑھ جائے گی۔ خدا کے جوہر کو سمجھنا اور خدا کے جوہر کو جاننا لوگوں کے زندگی میں داخلے کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ تم اسے نظر انداز نہیں کرو گے یا اسے ایک کھیل کے طور پر نہیں دیکھو گے، کیونکہ خدا کو جاننا ہی انسان کے ایمان کی بنیاد ہے اور انسان کے لیے سچائی کی پیروی کرنے اور نجات حاصل کرنے کی کلید ہے۔ اگر لوگ خدا پر ایمان رکھنے کے باوجود اسے نہیں جانتے، اگر وہ صرف الفاظ اور عقیدوں میں رہتے ہیں، تو ان کے لیے نجات کا حصول کبھی بھی ممکن نہیں ہو گا، چاہے وہ سچائی کے سطحی مفہوم کے مطابق عمل کریں اور زندگی گزاریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تو خدا پر ایمان رکھتا ہے لیکن اسے نہیں جانتا تو تیرا ایمان بالکل بے کار ہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ تم سمجھتے ہو، کیا تم نہیں سمجھتے؟ (ہاں، ہم سمجھتے ہیں)۔ آج کے لیے ہماری رفاقت یہاں ختم ہو جائے گی۔
4 جنوری 2014