خدا خود، منفرد VI

خدا کا تقدس (III)

پچھلی مرتبہ ہم نے جس موضوع کے بارے میں رفاقت کی تھی وہ خدا کا تقدس تھا۔ خدا کے تقدس کا تعلق خود خدا کے کس پہلو سے ہے؟ کیا اس کا تعلق خدا کے جوہر سے ہے؟ (ہاں)۔ تو خدا کے جوہر کا وہ اہم پہلو کیا ہے جس پر ہم نے اپنی رفاقت میں بات کی؟ کیا یہ خدا کا تقدس ہے؟ خدا کا تقدس خدا کا منفرد جوہر ہے۔ پچھلی مرتبہ ہماری رفاقت کا اہم مواد کیا تھا؟ (شیطان کی بدی کو اچھی طرح پہچاننا۔ یعنی شیطان کس طرح علم، سائنس، روایتی ثقافت، توہم پرستی اور سماجی رجحانات کا استعمال کرتے ہوئے بنی نوع انسان کو بدعنوان بناتا ہے)۔ یہ وہ اہم موضوع تھا جس پر ہم نے پچھلی مرتبہ بات کی تھی۔ شیطان علم، سائنس، توہم پرستی، روایتی ثقافت، اور سماجی رجحانات کو انسان کو بدعنوان بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے؛ یہ وہ طریقے ہیں – مجموعی طور پر پانچ – جن سے شیطان انسان کو بدعنوان بناتا ہے۔ تمہارے خیال میں شیطان انسان کو بدعنوان بنانے کے لیے ان میں سے کون سا طریقہ سب سے زیادہ استعمال کرتا ہے؟ وہ کون سا طریقہ ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ بدعنوان بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے؟ (روایتی ثقافت۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطانی فلسفے، جیسے کنفیوشس اور مینشیئس کے عقائد، ہمارے ذہنوں میں گہرے پیوست ہیں)۔ لہذا، کچھ بھائی اور بہنوں کا خیال ہے کہ اس کا جواب ”روایتی ثقافت“ ہے۔ کیا کسی کے پاس مختلف جواب ہے؟ (علم۔ علم ہمیں کبھی بھی خدا کی عبادت نہیں کرنے دے گا۔ یہ خدا کے وجود کا انکاری ہے، اور خدا کی حکمرانی کا انکار کرتا ہے۔ یعنی شیطان ہم سے کہتا ہے کہ چھوٹی عمر سے ہی مطالعہ شروع کر دو، اور یہ کہ صرف مطالعہ کرنے اور علم حاصل کرنے سے ہی ہمارے پاس اپنے مستقبل اور خوش قسمتی کے روشن امکانات ہوں گے)۔ شیطان تیرے مستقبل اور تقدیر کو قابو کرنے کے لیے علم کا استعمال کرتا ہے، اور پھر وہ تجھے دھوکا دہی سے اپنے قابو میں کر لیتا ہے؛ تیرے خیال میں شیطان اس طرح انسان کو سب سے زیادہ بدعنوان بناتا ہے۔ لہذا، تم میں سے اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ علم ہے جسے شیطان انسان کو بہت زیادہ بدعنوان بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ کیا کسی اور کی رائے اس سے مختلف ہے؟ مثال کے طور پر سائنس یا سماجی رجحانات کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا کوئی جواب کے طور پر ان کی شناخت کرے گا؟ (ہاں)۔ آج، میں ان پانچ طریقوں کے بارے میں دوبارہ رفاقت کروں گا جن سے شیطان انسان کو بدعنوان بناتا ہے، اور ایک بار جب میں مکمل کر لوں گا، تو میں تم سے کچھ اور سوالات پوچھوں گا، تاکہ ہم واضح طور پر یہ جان سکیں کہ شیطان انسان کو بہت زیادہ بدعنوان بنانے کے لیے ان میں سے کون سی چیز استعمال کرتا ہے۔

پانچ طریقے جن سے شیطان انسان کو بدعنوان بناتا ہے

ا۔ انسان کو بدعنوان بنانے کے لیے شیطان علم کو استعمال کرتا ہے، اور اسے قابو میں رکھنے کے لیے وہ شہرت اور دولت کو استعمال کرتا ہے

شیطان جن پانچ طریقوں سے انسان کو بدعنوان بناتا ہے، ان میں سب سے پہلے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے وہ علم ہے، تو آؤ رفاقت کے لیے علم کو اپنے پہلے موضوع کے طور پر لیتے ہیں۔ شیطان علم کو چارے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ غور سے سنو: علم صرف ایک قسم کا چارہ ہے۔ لوگوں کو محنت سے مطالعہ کرنے اور اپنے آپ کو دن بدن بہتر کرنے، علم کو ہتھیار بنانے اور اس سے خود کو مسلح کرنے، اور پھر علم کو سائنس کے دروازے کھولنے کے لیے استعمال کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے؛ دوسرے لفظوں میں، تو جتنا زیادہ علم حاصل کرے گا، اتنا ہی زیادہ تو سمجھے گا۔ شیطان لوگوں کو یہ سب بتاتا ہے؛ یہ لوگوں کو علم سیکھتے ہوئے اعلیٰ نظریات کو فروغ دینے کے لیے کہتا ہے، انہیں عزائم اور خواہشات کو بڑھانے کی ہدایت دیتا ہے۔ انسان کی لاعلمی میں شیطان اس طرح کے بہت سے پیغامات پہنچاتا ہے جس کی وجہ سے لوگ لاشعوری طور پر یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ چیزیں درست یا فائدہ مند ہیں۔ انجانے میں، لوگ اس راستے پر قدم رکھتے ہیں، انجانے میں اپنے نظریات اور عزائم کی وجہ سے آگے بڑھتے ہیں۔ قدم بہ قدم، وہ غیر ارادی طور پر شیطان کے دیے گئے علم سے وہ بڑے یا مشہور لوگوں کے سوچنے کے طریقے سیکھتے ہیں۔ وہ ان لوگوں کے اعمال سے بھی کچھ چیزیں سیکھتے ہیں جنہیں سورما سمجھا جاتا ہے۔ ان سورماؤں کے اعمال میں شیطان انسان کے لیے کیا وکالت کر رہا ہے؟ یہ انسان کے ذہن میں کیا بٹھانا چاہتا ہے؟ اس انسان کو لازمی محب وطن ہونا چاہیے، قومی سالمیت کا حامل ہونا چاہیے، اور سورما کے جذبے کا حامل ہونا چاہیے۔ تاریخی کہانیوں یا بہادر شخصیات کی سوانح حیات سے انسان کیا سیکھتا ہے؟ ذاتی وفاداری کا احساس رکھنا، اپنے دوستوں اور بھائیوں کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار رہنا۔ شیطان کے اس علم کے اندر انسان انجانے میں بہت سی ایسی چیزیں سیکھ لیتا ہے جو بالکل بھی مثبت نہیں ہوتیں۔ انسان کی بے خبری میں شیطان کے تیار کردہ بیج لوگوں کے ناپختہ ذہنوں میں بوئے جاتے ہیں۔ یہ بیج انہیں یہ احساس دلاتے ہیں کہ انھیں عظیم انسان ہونا چاہیے، مشہور ہونا چاہیے، سورما ہونا چاہیے، محب وطن ہونا چاہیے، ایسے لوگ ہونا چاہیے جو اپنے خاندان سے پیار کرتے ہیں، اور ایسے لوگ ہونا چاہیے جو کسی دوست کے لیے کچھ بھی کریں اور ذاتی وفاداری کا احساس رکھتے ہوں۔ شیطان کے بہکاوے میں آ کر، وہ انجانے میں اس راستے پر چل پڑتے ہیں جو اس نے ان کے لیے تیار کیا ہوتا ہے۔ جب وہ اس راستے پر جاتے ہیں، تو وہ زندگی بسر کرنے کے شیطان کے اصولوں کو قبول کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ بالکل لاعلمی میں، وہ اپنے اصول بنا لیتے ہیں جن کے مطابق وہ زندگی گزارتے ہیں، لیکن یہ شیطان کے اصولوں سے زیادہ کچھ نہیں ہیں، جو اس نے ان کے ذہنوں میں زبردستی بٹھائے ہیں۔ سیکھنے کے عمل کے دوران شیطان انھیں، اپنے مقاصد کو پروان چڑھانے اور اپنی زندگی کے اہداف، زندگی گزارنے کے اصول اور زندگی کی سمت مقرر کرنے دیتا ہے، جبکہ اس دوران ان کے ذہنوں میں شیطانی چیزیں بٹھا دیتا ہے، لوگوں کو ترغیب دلانے کے لیے کہانیوں، سوانح حیات اور دیگر تمام ممکنہ ذرائع کا تھوڑا تھوڑا کر کے استعمال کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ لالچ میں آ کر اسے قبول کر لیتے ہیں۔ اس طرح، اپنے سیکھنے کے دوران، کچھ لوگ ادب، کچھ معاشیات، کچھ فلکیات یا جغرافیہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ پھر کچھ ایسے ہیں جو سیاست کو پسند کرتے ہیں، کچھ جو فزکس پسند کرتے ہیں، کچھ کیمسٹری، اور یہاں تک کہ کچھ ایسے ہیں جو دینیات کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ سب اس بڑی اکائی کے حصے ہیں جو علم ہے۔ اپنے دلوں میں، تم میں سے ہر ایک جانتا ہے کہ یہ چیزیں حقیقت میں کیا ہیں؛ تم میں سے ہر ایک کا ان سے پہلے رابطہ رہا ہے۔ تم میں سے ہر ایک علم کی ان شاخوں میں سے کسی نہ کسی کے بارے میں لامتناہی بات کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور اس طرح یہ واضح ہے کہ یہ علم انسانوں کے ذہنوں میں کتنی گہرائی تک داخل ہو چکا ہے۔ یہ واضح نظر آتا ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں اس علم کا کیا مقام ہے اور اس کا ان پر کتنا گہرا اثر ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ جب کسی کو علم کے کسی پہلو سے لگاؤ پیدا ہو جاتا ہے، جب کسی شخص کو اس سے گہری محبت ہو جاتی ہے، تو وہ انجانے میں عزائم پیدا کر لیتا ہے: کچھ لوگ ادیب بننا چاہتے ہیں، کچھ ادبی مصنف بننا چاہتے ہیں، کچھ سیاست میں اپنا مستقبل بنانا چاہتے ہیں، اور کچھ معاشیات میں مشغول ہو کر کاروباری افراد بننا چاہتے ہیں۔ پھر لوگوں کا ایک حصہ ہے جو سورما بننا چاہتا ہے، عظیم یا مشہور بننا چاہتا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ کوئی کیسا شخص بننا چاہتا ہے، اس کا مقصد علم سیکھنے کے اس طریقے کو اپنانا اور اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا، اپنی خواہشات، اپنے عزائم کو حاصل کرنا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ یہ کتنا اچھا لگتا ہے - چاہے وہ اپنے خوابوں کو حاصل کرنا چاہتا ہے یا نہیں، اپنی زندگی کو ضائع کرنا چاہتا ہے یا نہیں، یا کوئی خاص پیشہ اپنانا چاہتا ہے یا نہیں - وہ ان بلند نظریات اور عزائم کو فروغ دیتا ہے، لیکن یہ سب بنیادی طور پر کس لیے ہے؟ کیا تم نے پہلے کبھی اس سوال پر غور کیا ہے؟ شیطان اس طریقے سے عمل کیوں کرتا ہے؟ انسان کے ذہن میں یہ چیزیں بٹھانے سے شیطان کا کیا مقصد ہے؟ اس سوال پر تمہارے دل بالکل صاف ہونے چاہییں۔

اب ہم بات کرتے ہیں کہ شیطان انسان کو بدعنوان بنانے کے لیے علم کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔ سب سے پہلے، ہمیں ان چیزوں کی واضح سمجھ بوجھ حاصل کرنی ہو گی: علم کے ساتھ، شیطان انسان کو کیا دینا چاہتا ہے؟ یہ کس طرح کے راستے پر انسان کو نیچے لے جانا چاہتا ہے؟ (خدا کی مزاحمت کا راستہ)۔ ہاں، یقینی طور ایسا ہی ہے - خدا کے خلاف مزاحمت کرنے کے لیے۔ پھر تو دیکھ سکتا ہے کہ یہ لوگوں کے علم حاصل کرنے کا نتیجہ ہے - وہ خدا کے خلاف مزاحمت کرنے لگتے ہیں۔ تو پھر شیطان کے مذموم عزائم کیا ہیں؟ تجھے اس بارے میں واضح علم نہیں ہے، کیا تجھے ہے؟ انسان کے علم سیکھنے کے عمل کے دوران، شیطان ہر طرح کے طریقے استعمال کرتا ہے، چاہے وہ کہانیاں سنانا ہو، انہیں محض کچھ انفرادی علم دینا ہو، یا انہیں اپنی خواہشات یا عزائم کو پورا کرنے کی اجازت دینا ہو۔ شیطان تجھے کس راستے سے نیچے لے جانا چاہتا ہے؟ لوگ سمجھتے ہیں کہ علم سیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کہ یہ مکمل طور پر فطری ہے۔ اسے اس انداز سے کرنا جو دلکش لگے، عزم اور توانائی کے لیے بلند نظریات کو فروغ دینا یا عزائم رکھنا، اور یہی زندگی کا صحیح راستہ ہونا چاہیے۔ اگر لوگ اپنے نصب العین کو حاصل کر سکیں، یا کامیابی سے اپنا مستقبل قائم کر سکیں کیا یہ ان کے لیے زندگی گزارنے کا زیادہ شاندار طریقہ نہیں ہے؟ یہ چیزیں کرنے سے ایک شخص نہ صرف اپنے آباؤ اجداد کی عزت میں اضافہ کر سکتا ہے بلکہ تاریخ پر اپنا نشان چھوڑنے کا موقع بھی حاصل کرتا ہے - کیا یہ اچھی بات نہیں ہے؟ دنیا داروں کی نظر میں یہ ایک اچھی چیز ہے اور ان کے نزدیک یہ مناسب اور مثبت ہونا چاہیے۔ تاہم، کیا شیطان اپنے مذموم عزائم کے ساتھ لوگوں کو اس راستے پر لے جاتا ہے اور اس میں جو کچھ بھی ہے وہ بس اتنا ہی ہے؟ ہرگز نہیں۔ درحقیقت اس سے فرق نہیں پڑتا کہ انسان کے نظریات کتنے ہی بلند کیوں نہ ہوں، اس سے فرق نہیں پڑتا کہ انسان کی خواہشات کتنی ہی حقیقت پسندانہ یا کتنی ہی مناسب کیوں نہ ہوں، انسان جو کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے، وہ سب کچھ جس کی انسان تلاش کرتا ہے، لازم و ملزوم انداز میں دو لفظوں سے جڑا ہوا ہے۔ یہ دو الفاظ ہر شخص کی زندگی کے لیے انتہائی اہم ہیں، اور یہ وہ چیزیں ہیں جو شیطان انسان کے ذہن میں بٹھانا چاہتا ہے۔ یہ دو الفاظ کیا ہیں؟ وہ ”شہرت“ اور ”دولت“ ہیں۔ شیطان ایک نہایت عیارانہ قسم کا طریقہ استعمال کرتا ہے، وہ طریقہ جو لوگوں کے تصورات کے ساتھ بہت زیادہ مطابقت رکھتا ہے، جو بالکل بھی انتہا پسندانہ نہیں ہے، جس کے ذریعے وہ لوگوں کو انجانے میں اپنے طرزِ زندگی، اپنے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے، اور زندگی کے مقاصد کو قائم کرنے اور زندگی میں ان کی سمت قبول کرنے پر مجبور کرتا ہے، اور ایسا کرتے ہوئے وہ انجانے میں زندگی میں عزائم بھی رکھتے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ یہ زندگی کے عزائم کتنے ہی عظیم کیوں نہ لگتے ہوں، وہ ”شہرت“ اور ”دولت“ سے لازم وملزوم انداز میں جڑے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی عظیم یا مشہور شخص - تمام لوگ - اپنی زندگی میں ہر وہ چیز جس کی، وہ درحقیقت پیروی کرتے ہیں اس کا تعلق صرف ان دو الفاظ سے ہے: ”شہرت“ اور ”دولت“۔ لوگ سوچتے ہیں کہ ایک بار جب ان کے پاس شہرت اور دولت دونوں آجائیں تو وہ ان چیزوں سے فائدہ اٹھا کر اعلیٰ مقام اور عظیم دولت سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور زندگی کا مزہ اٹھا سکتے ہیں۔ ان کے خیال میں شہرت اور دولت ایک قسم کا سرمایہ ہے جس کا استعمال وہ لذت کی تلاش اور جسمانی عیاشی کے حصول کے لیے کر سکتے ہیں۔ اس شہرت اور دولت کی خاطر جس کی انسانوں کو شدید خواہش ہوتی ہے، لوگ خوشی سے، اگرچہ انجانے میں، اپنا جسم، دماغ، اپنا مستقبل اور اپنی تقدیر، جو کچھ ان کے پاس ہے سب کچھ شیطان کے حوالے کر دیتے ہیں۔ وہ ایک لمحے کی بھی ہچکچاہٹ کے بغیر ایسا کرتے ہیں، جو کچھ انھوں نے سونپ دیا ہے اسے واپس لینے کی ضرورت سے ہمیشہ کے لیے لاعلم۔ کیا لوگ اس طرح شیطان کی پناہ لینے اور اس کے وفادار بن جانے کے بعد اپنے اوپر کوئی قابو رکھ سکتے ہیں؟ یقیناً نہیں۔ وہ مکمل اور قطعی طور پر شیطان کے قابو میں ہوتے ہیں۔ وہ مکمل اور قطعی طور پر دلدل میں دھنس چکے ہوتے ہیں اور خود کو آزاد کروانے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ایک بار جب کوئی شخص شہرت اور دولت کی دلدل میں پھنس جاتا ہے تو وہ اس چیز کی تلاش نہیں کرتا جو روشن ہے، جو درست ہے، یا وہ چیزیں جو خوبصورت اور اچھی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شہرت اور دولت لوگوں کے لیے جو پُرکشش طاقت رکھتی ہے، وہ بہت زیادہ ہے؛ یہ لوگوں کے لیے ایسی چیز بن جاتی ہیں جس کا وہ زندگی بھر اور یہاں تک کہ ابد تک بغیر کسی انجام کے پیچھا کرتے ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں ہے؟ کچھ لوگ کہیں گے کہ علم سیکھنا اس کے سوا کچھ نہیں ہےکہ کتابیں پڑھ لیں یا چند ایسی چیزیں سیکھ لیں جو وہ پہلے سے نہیں جانتے تاکہ زمانے سے پیچھے نہ رہ جائیں یا دنیا انھیں پیچھے نہ چھوڑ دے۔ علم صرف اس لیے سیکھا جاتا ہے کہ وہ میز پر کھانا رکھ سکیں، اپنے مستقبل کے لیے، یا بنیادی ضروریات مہیا کر سکنے کے لیے۔ کیا کوئی ایسا شخص ہے جو محض خوراک کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے، محض بنیادی ضروریات کے لیے ایک دہائی کی سخت پڑھائی کو برداشت کرتا ہے؟ نہیں، ایسا کوئی بھی نہیں ہے۔ تو پھر انسان اتنے سالوں تک یہ سختیاں کیوں برداشت کرتا ہے؟ یہ شہرت اور دولت کے لیے ہے۔ شہرت اور دولت دور فاصلے پر ان کا انتظار کر رہے ہیں، انہیں اشارہ کرتے ہیں، اور وہ یقین رکھتے ہیں کہ صرف اپنی محنت، مشقت اور جدوجہد کے ذریعے ہی وہ اس راستے پر چل سکتے ہیں جو انہیں شہرت اور دولت حاصل کرنے کی طرف لے جائے گا۔ ایسے شخص کو اپنے مستقبل کے راستے، اپنے مستقبل کی خوشیوں اور بہتر زندگی حاصل کرنے کے لیے یہ سختیاں لازمی برداشت کرنا ہوتی ہیں۔ آخر یہ علم ہے کیا - کیا تم مجھے بتا سکتے ہو؟ کیا یہ زندگی گزارنے کے وہ اصول اور فلسفے نہیں ہیں جو شیطان انسان کے ذہن میں بٹھاتا ہے، جیسے کہ ”پارٹی سے محبت کرو، ملک سے محبت کرو اور اپنے مذہب سے محبت کرو“ اور ”ایک عقلمند آدمی حالات کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے“؟ کیا یہ زندگی کے ”بلند نصب العین“ نہیں ہیں جو شیطان نے انسان کے ذہن میں بٹھائے ہیں؟ مثال کے طور پر عظیم لوگوں کے خیالات، مشہور لوگوں کی دیانت داری یا بہادر شخصیات کی بہادری کو لو، یا ذاتی دفاع کے کھیلوں کے ناولوں میں مرکزی کرداروں اور شمشیربازوں کی بہادری اور مہربانی کو لو - کیا یہ وہ تمام طریقے نہیں ہیں جن سے شیطان ان نظریات کو ذہن میں بٹھاتا ہے؟ یہ نظریات ایک کے بعد دوسری نسل پر اثر انداز ہوتے ہیں، اور ہر نسل کے لوگوں سے ان خیالات کو قبول کروایا جاتا ہے۔ وہ ”بلند نصب العین“ کی جستجو کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے ہیں حتیٰ کہ ان کے لیے وہ اپنی جان بھی قربان کر دیتے ہیں۔ یہی وہ ذرائع اور طریقے ہیں جن کے ذریعے شیطان لوگوں کو بدعنوان بنانے کے لیے علم کا استعمال کرتا ہے۔ تو شیطان کے لوگوں کو اس راستے پر لے جانے کے بعد، کیا وہ خدا کی اطاعت اور عبادت کرنے کے قابل ہوتے ہیں؟ اور کیا وہ خدا کے کلام کو قبول کرنے اور سچائی کی جستجو کرنے کے قابل ہوتے ہیں؟ بالکل نہیں – کیونکہ شیطان نے انھیں گمراہ کر دیا ہے۔ آؤ شیطان کی طرف سے لوگوں کے ذہنوں میں ڈالے گئے علم، افکار اور خیالات کو دوبارہ دیکھیں: کیا ان چیزوں میں خدا کی اطاعت اور خدا کی عبادت کی سچائیاں موجود ہیں؟ کیا خدا سے ڈرنے اور برائی کو چھوڑ دینے کی سچائیاں موجود ہیں؟ کیا خدا کے کلام میں سے کچھ موجود ہے؟ کیا ان میں کوئی ایسی چیز ہے جو سچائی سے متعلق ہو؟ ہرگز نہیں – یہ چیزیں بالکل غائب ہیں۔ کیا تم یقین کر سکتے ہو کہ شیطان کی طرف سے لوگوں کے ذہنوں میں جو باتیں ڈالی جاتی ہیں ان میں کوئی سچائی نہیں ہے؟ تم میں ہمت نہیں ہے – لیکن کوئی بات نہیں۔ اگر تو یہ جان لے کہ ”شہرت“ اور ”دولت“ وہ دو کلیدی الفاظ ہیں جن کا استعمال شیطان لوگوں کو برائی کے راستے پر لانے کی خاطر ترغیب دینے کے لیے کرتا ہے، تو پھر یہ کافی ہے۔

ہم نے اب تک جو تبادلہ خیال کیا ہے آؤ مختصراً اس کا جائزہ لیتے ہیں: شیطان انسان کو مضبوطی سے اپنے قابو میں رکھنے کے لیے کیا استعمال کرتا ہے؟ (شہرت اور دولت)۔ لہذا، شیطان انسان کے خیالات پر قابو پانے کے لیے شہرت اور دولت کا استعمال کرتا ہے، یہاں تک کہ تمام لوگ شہرت اور دولت کے بارے میں سوچ سکیں۔ وہ شہرت اور دولت کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، شہرت اور دولت کے لیے سختیاں جھیلتے ہیں، شہرت اور دولت کے لیے ذلت برداشت کرتے ہیں، شہرت اور دولت کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیتے ہیں، اور شہرت اور دولت کی خاطر وہ کوئی بھی فیصلہ کر لیتے ہیں۔ اس طرح شیطان لوگوں کو غیرمرئی بیڑیوں سے جکڑ لیتا ہے اور ان میں بیڑیوں کو اتار پھینکنے کی نہ تو طاقت ہوتی ہے اور نہ ہمت۔ وہ انجانے میں ان بیڑیوں کو برداشت کرتے ہیں اور بڑی مشکل سے آگے بڑھتے ہیں۔ اس شہرت اور دولت کی خاطر، بنی نوع انسان خدا سے کنارہ کشی کرتا ہے اور اسے دھوکا دیتا ہے اور دن بدن بدعنوان ہوتا چلا جاتا ہے۔ لہٰذا اس طرح شیطان کی شہرت اور دولت کے درمیان ایک کے بعد ایک نسل تباہ ہو رہی ہے۔ اب شیطان کے اعمال پر نظر ڈالو تو، کیا اس کے مذموم عزائم قطعی طور پر قابل نفرت نہیں ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ آج بھی تم شیطان کے مذموم مقاصد کو نہ دیکھ سکو کیونکہ تم سمجھتے ہو کہ کوئی شخص شہرت اور دولت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ تمہیں لگتا ہے کہ اگر لوگ شہرت اور دولت کو چھوڑ دیں تو وہ آگے کی راہ نہیں دیکھ پائیں گے، اپنے مقاصد کو دیکھنے کے قابل نہیں ہوں گے، کہ ان کا مستقبل تاریک، مدھم اور سنسان ہو جائے گا۔ لیکن، آہستہ آہستہ، تم سب ایک دن یہ جان لو گے کہ شہرت اور دولت شیطانی بیڑیاں ہیں جنہیں شیطان انسان کو باندھنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ جب وہ دن آئے گا تو تُو شیطان کے قابو کر لینے کے خلاف پوری طرح مزاحمت کرے گا اور ان بیڑیوں کے خلاف مزاحمت کرے گا جنہیں شیطان تجھے باندھنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ جب وہ وقت آئے گا کہ تو ان تمام چیزوں کو پھینک دینا چاہے گا جو شیطان نے تیرے ذہن میں ڈالی ہیں، تب تو شیطان سے واضح جدائی اختیار کرے گا اور تو واقعی ان تمام چیزوں سے نفرت کرے گا جو شیطان تیرے پاس لایا ہے۔ تب ہی بنی نوع انسان کو خدا کے لیے حقیقی محبت اور تڑپ حاصل ہو گی۔

ب۔ شیطان انسان کو بدعنوان بنانے کے لیے سائنس کا استعمال کرتا ہے

ہم نے ابھی اس بارے میں بات کی ہے کہ شیطان کس طرح انسان کو بدعنوان بنانے کے لیے علم کا استعمال کرتا ہے، تو آؤ ہم اس بارے میں اگلی رفاقت کرتے ہیں کہ شیطان انسان کو بدعنوان بنانے کے لیے سائنس کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔ سب سے پہلے، انسان کے تجسس کو، انسان کی سائنس کو دریافت کرنے اور اسرار کی تحقیقات کرنے کی خواہش کو مطمئن کرنے کے لیے، شیطان سائنس کا نام استعمال کرتا ہے۔ سائنس کے نام پر شیطان انسان کی مادی ضروریات اور انسان کے معیار زندگی کو مسلسل بہتر بنانے کے مطالبے کو پورا کرتا ہے۔ چنانچہ یہ وہ بہانہ ہے جس سے شیطان انسان کو بدعنوان بنانے کے لیے سائنس کا استعمال کرتا ہے۔ کیا یہ صرف انسان کی سوچ ہے یا انسان کی رائے کہ شیطان اس طرح سائنس کو استعمال کرتے ہوئے بدعنوان بناتا ہے؟ اپنے اردگرد کے لوگوں، واقعات اور چیزوں میں سے جو ہم دیکھ سکتے ہیں اور جن سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے، ان میں سے شیطان سائنس کے ساتھ اور کیا کچھ خراب کرتا ہے؟ (قدرتی ماحول)۔ درست۔ ایسا لگتا ہے کہ تمہیں اس سے بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے، اور بہت زیادہ متاثر ہوئے ہو۔ انسان کو دھوکا دینے کے لیے سائنس کی تمام مختلف دریافتوں اور نتائج کو استعمال کرنے کے علاوہ، شیطان سائنس کو بھی ایک ذریعے کے طور پر استعمال کرتا ہے تاکہ خدا کی طرف سے انسان کو دیے گئے زندگی کے ماحول کی بے دریغ تباہی اور استحصال کرے۔ یہ ایسا اس بہانے سے کرتا ہے کہ اگر انسان سائنسی تحقیق کرے تو انسان کے ماحول اور معیارِ زندگی میں مسلسل بہتری آئے گی اور مزید یہ کہ سائنسی ترقی کا مقصد لوگوں کی روز مرہ کی بڑھتی ہوئی مادی ضروریات کو پورا کرنا ہے اور ان کی ضروریات کو اور زندگی کے معیار کو مسلسل بہتر بنانے کی ضرورت کو پورا کرنا ہے۔ یہ شیطان کی سائنس کی ترقی کی نظریاتی بنیاد ہے۔ تاہم، سائنس بنی نوع انسان کے لیے کیا لے کر آئی ہے؟ کیا ہمارا ماحول – اور تمام بنی نوع انسان کے رہنے کا ماحول آلودہ نہیں ہو گیا؟ کیا انسان جس ہوا میں سانس لیتا ہے وہ آلودہ نہیں ہو گئی؟ کیا وہ پانی جو ہم پیتے ہیں آلودہ نہیں ہوا؟ وہ کھانا جو ہم کھاتے ہیں کیا وہ اب بھی نامیاتی اور قدرتی ہے؟ زیادہ تر اناج اور سبزیاں جینیاتی طور پر تبدیل کر دی گئی ہیں، انہیں کھاد کے ساتھ اگایا گیا ہے، اور کچھ سائنس کا استعمال کرتے ہوئے پیدا کی گئی ہیں۔ ہم جو سبزیاں اور پھل کھاتے ہیں وہ اب قدرتی نہیں رہے ہیں۔ یہاں تک کہ قدرتی انڈے بھی اب تلاش کرنا آسان نہیں ہے، اور شیطان کی نام نہاد سائنس کے ذریعے عمل کرنے کے بعد انڈوں کا ذائقہ پہلے جیسا نہیں رہا ہے۔ بڑے منظر کو دیکھتے ہوئے پوری فضا تباہ اور آلودہ ہو چکی ہے؛ پہاڑوں، جھیلوں، جنگلوں، دریاؤں، سمندروں اور زمین کے اوپر اور نیچے کی ہر چیز نام نہاد سائنسی کامیابیوں کی وجہ سے تباہ ہو گئی ہے۔ مختصراً یہ کہ پورا قدرتی ماحول، خدا کی طرف سے بنی نوع انسان کو دیا گیا زندہ ماحول، نام نہاد سائنس نے تباہ و برباد کر دیا ہے۔ اگرچہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنی مطلوبہ زندگی کے معیار کے لحاظ سے وہ چیز حاصل کر لی ہے جس کی وہ ہمیشہ امید کرتے تھے، اپنی خواہشات اور اپنے جسم دونوں کو مطمئن کرتے ہوئے، انسان جس ماحول میں رہتا ہے وہ بنیادی طور پر سائنس کی لائی گئی مختلف ”کامیابیوں“ کی وجہ سے تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ اب ہمیں صاف ہوا میں ایک سانس بھی لینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ کیا یہ انسانیت کا دکھ نہیں ہے؟ کیا انسان کے لیے کوئی ایسی خوشی باقی رہ گئی ہے جس کی بات کی جائے، جبکہ اسے لازمی طور پر اسی قسم کی جگہ پر رہنا چاہیے؟ یہ جگہ اور رہنے کا ماحول جس میں انسان رہتا ہے، اسے خدا نے ابتدا ہی سے انسان کے لیے تخلیق کیا تھا۔ پانی جو لوگ پیتے ہیں، ہوا جس میں لوگ سانس لیتے ہیں، مختلف غذائیں جو لوگ کھاتے ہیں، نیز پودے اور جاندار وجود، اور یہاں تک کہ پہاڑ، جھیلیں اور سمندر بھی – اس زندہ ماحول کا ہر حصہ خدا نے انسان کو دیا تھا؛ یہ فطری ہے، خدا کے مقرر کردہ فطری قانون کے مطابق چل رہا ہے۔ سائنس کے بغیر، لوگ اب بھی خدا کی طرف سے عطا کردہ طریقوں پر عمل کرتے، وہ ہر اس چیز سے لطف اندوز ہو سکتے جو اصل حالت میں اور قدرتی ہے، اور وہ خوش ہوتے۔ اب، تاہم، یہ سب شیطان نے تباہ و برباد کر دیا ہے۔ انسان کے رہنے کی بنیادی جگہ اب اصل حالت میں نہیں رہی ہے۔ لیکن کوئی بھی اس بات کو پہچاننے کے قابل نہیں ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے یا یہ کیسے ہوا، اور بہت سے لوگ سائنس سے رجوع کرتے ہیں اور اسے شیطان کے ذریعے اپنے ذہن میں ڈالے گئے خیالات کے ذریعے سمجھتے ہیں۔ کیا یہ سراسر قابل نفرت اور قابل رحم نہیں ہے؟ اب جبکہ شیطان نے اس جگہ کو جس میں لوگ موجود ہیں نیز ان کے رہنے کے ماحول کو بھی لے لیا ہے، اور انہیں اس حالت میں بدعنوان بنا دیا ہے، اور انسانیت اسی طرح ترقی کرتی چلی جا رہی ہے، تو کیا خدا کو ان لوگوں کو ذاتی طور پر تباہ کرنے کی کوئی ضرورت ہے؟ اگر لوگ اسی طرح ترقی کرتے رہے تو وہ کیا رخ اختیار کریں گے؟ (وہ ختم کر دیے جائیں گے)۔ وہ کیسے ختم کیے جائیں گے؟ لوگوں کی شہرت اور دولت کی لالچی تلاش کے علاوہ، وہ مسلسل سائنسی دریافت کرتے رہتے ہیں اور تحقیق میں گہرا غوطہ لگاتے ہیں، اور پھر اپنی مادی ضروریات اور خواہشات کو پورا کرنے کے لیے اس انداز میں مسلسل کام کرتے رہتے ہیں؛ تو انسان کے لیے کیا نتائج ہیں؟ سب سے پہلے، ماحولیاتی توازن ٹوٹ جاتا ہے، اور جب ایسا ہوتا ہے، لوگوں کے جسم، ان کے اندرونی اعضاء، اس غیر متوازن ماحول کی وجہ سے داغدار اور خراب ہو جاتے ہیں، اور دنیا بھر میں مختلف متعدی بیماریاں اور طاعون پھیل جاتے ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اب یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس پر انسان کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اب جب کہ تم یہ سمجھتے ہو، کہ اگر انسانیت خدا کی پیروی نہیں کرتی ہے، بلکہ ہمیشہ اسی طرح شیطان کی پیروی کرتی ہے- علم کا استعمال کرتے ہوئے مسلسل خود کو مالامال کرتی ہے، سائنس کا استعمال کرتے ہوئے انسانی زندگی کے مستقبل کو مسلسل تلاش کرتی ہے، اس طرح کا طریقہ استعمال کرتے ہوئے زندگی کو جاری رکھتی ہے – تو کیا تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ بنی نوع انسان کے لیے اس کا اختتام کیسے ہو گا؟ بنی نوع انسان قدرتی طور پر ناپید ہو جائے گا: قدم بہ قدم، نوع انسانی تباہی کی طرف، اپنی تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے! کیا یہ خود اپنے اوپر تباہی لانا نہیں ہے؟ اور کیا یہ سائنسی ترقی کا نتیجہ نہیں ہے؟ اب ایسا لگتا ہے کہ جیسے سائنس ایک جادوئی سیال ہے جو شیطان نے انسان کے لیے تیار کیا ہے، تاکہ جب تم چیزوں کو اچھی طرح جاننے کی کوشش کرو تو تم ایک دھندلے کہر میں ایسا کرو؛ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تم کتنی زیادہ تلاش کرتے ہو، تم چیزوں کو واضح طور پر نہیں دیکھ سکتے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تم کتنی زیادہ کوشش کرتے ہو، تم ان کو نہیں سمجھ سکتے، تاہم، شیطان، سائنس کا نام استعمال کرتے ہوئے تمہاری بھوک مٹاتا ہے اور تمہیں عیاری سے قابو کرتے ہوئے، ہر حال میں چلاتے ہوئے، پاتال اور موت کی طرف لے جاتا ہے۔ اور ایسا ہونے کی وجہ سے لوگ واضح طور پر دیکھیں گے کہ دراصل انسان کی تباہی شیطان کے ہاتھ سے ہوئی ہے – شیطان اس کا سرغنہ ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ (ہاں، ایسا ہی ہے)۔ یہ دوسرا طریقہ ہے جس سے شیطان بنی نوع انسان کو بدعنوان بناتا ہے۔

پ۔ شیطان انسان کو بدعنوان بنانے کے لیے روایتی ثقافت کا استعمال کرتا ہے

روایتی ثقافت تیسرا طریقہ ہے جس سے شیطان انسان کو بدعنوان بناتا ہے۔ روایتی ثقافت اور توہم پرستی میں بہت سی مماثلتیں ہیں، لیکن فرق یہ ہے کہ روایتی ثقافت میں کچھ کہانیاں، اشارے اور ذرائع ہوتے ہیں۔ شیطان نے بہت سی لوک کہانیاں یا کہانیاں گھڑ لی ہیں جو تاریخ کی کتابوں میں نظر آتی ہیں اور لوگوں پر روایتی ثقافت یا توہم پرست شخصیات کے گہرے نقوش چھوڑ جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر، چین میں ”سمندر کو عبور کرنے والے آٹھ غیرفانی،“ ”مغرب کا سفر،“ جیڈ شہنشاہ، ”نیزہا کا اژدہا بادشاہ کو فتح کرنا،“ اور ”دی انوسٹیچر آف دی گاڈز“ ہیں۔ کیا یہ انسانوں کے ذہنوں میں گہرائی تک جڑ نہیں پکڑ چکی ہیں؟ یہاں تک کہ اگر تم میں سے کچھ لوگ تمام تفصیلات نہیں جانتے ہیں، تب بھی تم عام کہانیوں کو تو جانتے ہو، اور یہی وہ عمومی مواد ہے جو تیرے دل اور دماغ میں اس طرح چپک جاتا ہے، کہ تو اسے بھول ہی نہیں سکتا۔ یہ مختلف نظریات یا افسانے ہیں جو شیطان نے انسان کے لیے بہت پہلے تیار کیے تھے، اور جو مختلف اوقات میں پھیلتے رہے ہیں۔ یہ چیزیں لوگوں کی روحوں کو براہ راست نقصان پہنچاتی ہیں اور خراب کرتی ہیں اور لوگوں کو ایک کے بعد ایک سحر میں مبتلا کرتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تو نے ایک مرتبہ ایسی روایتی ثقافت، کہانیوں یا توہم پرست چیزوں کو قبول کر لیا، ایک بار جب وہ تیرے ذہن میں قائم ہو گئے، اور ایک مرتبہ وہ تیرے دل پر نقش ہو گئے، تو پھر یہ ایسے ہے جیسے کہ تجھ پر جادو کر دیا گیا ہے - تو اس ثقافتی جال میں پھنس جاتا ہے، ان خیالات اور روایتی کہانیوں سے متاثر ہو جاتا ہے۔ وہ تیری زندگی، زندگی کے بارے میں تیرے نقطہ نظر، اور چیزوں کے بارے میں تیرے فیصلے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر وہ زندگی کے حقیقی راستے کے لیے تیری جستجو پر اثر انداز ہوتے ہیں: یہ واقعی ایک خبیث جادو ہے۔ تو جتنی کوشش کر سکتا ہے کر لے، تو ان سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا تو ان کو کاٹتا تو ہے لیکن تو انھیں ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک نہیں سکتا۔ تو انھیں پیٹتا تو ہے لیکن تو انھیں مار کر بھگا نہیں سکتا۔ مزید برآں، جب لوگ انجانے میں اس قسم کے جادو کی زد میں آجاتے ہیں، تو وہ انجانے میں شیطان کی پرستش کرنے لگتے ہیں، اور اپنے دلوں میں شیطان کی شبیہ کو پروان چڑھاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، وہ شیطان کو اپنے بت کے طور پر قائم کر لیتے ہیں، جو ان کے لیے عبادت کرنے اور تعریف کرنے کی چیز ہے، حتیٰ کہ وہ اس کو خدا مان لیتے ہیں۔ انجانے میں یہ باتیں لوگوں کے دلوں میں ہوتی ہیں اور ان کے قول و فعل کو قابو کرتی ہیں۔ مزید یہ کہ، پہلے تو ان کہانیوں اور افسانوں کو جھوٹا سمجھتا ہے، لیکن پھر غیر ارادی طور پر ان کے وجود کو تسلیم کر لیتا ہے، ان کو حقیقی شخصیات بنا لیتا ہے اور انہیں حقیقی، موجودہ اشیا میں تبدیل کر لیتا ہے۔ اپنی بے خبری میں، تو لاشعوری طور پر ان خیالات اور ان چیزوں کے وجود کو حاصل کر لیتا ہے۔ تو لاشعوری طور پر بدروحوں، شیطانوں اور بتوں کا بھی اپنے گھر اور اپنے دل میں خیرمقدم کرتا ہے - یہ واقعی ایک جادو ہے۔ کیا یہ الفاظ تجھے کچھ یاد دلاتے ہیں؟ (ہاں)۔ کیا تم میں کوئی ایسا ہے جس نے دھونی دی ہو اور بدھا کی عبادت کی ہو؟ ( ہاں)۔ تو پھر دھونی دینے اور بدھا کی پوجا کرنے کا کیا مقصد تھا؟ (سکون کے لیے دعا کرنا)۔ اب اس کے بارے میں سوچ، کیا شیطان سے سکون کی دعا کرنا غیر معقول نہیں ہے؟ کیا شیطان سکون لاتا ہے؟ (نہیں)۔ کیا تو نہیں سمجھتا کہ تو اس وقت کتنا جاہل تھا۔ اس قسم کا طرز عمل غیرمعقول، جاہلانہ اور نادانی ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟ شیطان کو صرف اس بات سے غرض ہے کہ تجھے بدعنوان کیسے بنایا جائے۔ شیطان ممکنہ طور پر تجھے صرف ایک عارضی آرام دے سکتا ہے مگر سکون نہیں دے سکتا۔ لیکن اس آرام کو حاصل کرنے کے لیے تجھے لازمی ایک عہد کرنا چاہیے، اور اگر تو شیطان سے اپنا کیا ہوا عہد اور وعدہ توڑ دیتا ہے، تو تُو دیکھے گا کہ وہ تجھے کیسا عذاب دیتا ہے۔ تجھ سے عہد کروانے سے، یہ دراصل تجھ پر قابو پانا چاہتا ہے۔ جب تو نے سکون کی دعا کی تو کیا تجھے سکون ملا؟ (نہیں)۔ تجھے سکون نہیں ملا، لیکن اس کے برعکس تیری کوششیں بدقسمتی اور ختم نہ ہونے والی آفات لے کر آئیں – حقیقت میں تلخی کا ایک لامتناہی سمندر۔ شیطان کی سلطنت میں سکون ہے ہی نہیں، اور یہی سچائی ہے۔ یہ وہ انجام ہے جس سے فرسودہ توہم پرستی اور روایتی ثقافت نے بنی نوع انسان کو دوچار کیا ہے۔

ت۔ شیطان انسان کو بدعنوان بنانے کے لیے سماجی رجحانات کا استعمال کرتا ہے

آخری طریقہ جس سے شیطان انسان کو بدعنوان بناتا اور قابو کرتا ہے وہ سماجی رجحانات کے ذریعے ہے۔ سماجی رجحانات بہت سے پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں، بشمول مختلف شعبوں کے جیسے کہ مشہور اور عظیم شخصیات کی پرستش، نیز فلم اور موسیقی کے بت، بہت اہم شخصیات کی پرستش، آن لائن گیمز وغیرہ – یہ سب سماجی رجحانات کا حصہ ہیں، اور اس وقت تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم صرف ان خیالات کے بارے میں بات کریں گے جو سماجی رجحانات لوگوں میں پیدا کرتے ہیں، جس طرح سے وہ لوگوں کو دنیا میں اپنے آپ کو چلانے کا باعث بنتے ہیں، اور زندگی کے اہداف اور نقطہ نظر جو وہ لوگوں میں پیدا کرتے ہیں۔ یہ بہت اہم ہیں؛ وہ لوگوں کے خیالات اور رائے کو قابو اور متاثر کر سکتے ہیں۔ یہ رجحانات یکے بعد دیگرے جنم لیتے ہیں اور یہ سب ایک ایسا برا اثر ڈالتے ہیں جو انسانیت کی مسلسل تذلیل کرتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے لوگ ضمیر، انسانیت اور عقل سے محروم ہو جاتے ہیں، ان کے اخلاق اور کردار کے معیار مزید پست ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اب لوگوں کی اکثریت کے پاس کوئی دیانت نہیں ہے، انسانیت نہیں ہے اور نہ ہی ان کے پاس کوئی ضمیر ہے، کسی عقل کا ہونا تو اور بھی کم ہے۔ تو یہ سماجی رجحانات کیا ہیں؟ یہ وہ رجحانات ہیں جنہیں تو عام آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ جب کوئی نیا رجحان پوری دنیا میں پھیلتا ہے، تو شاید لوگوں کی ایک قلیل تعداد ہی انتہائی ترقی یافتہ ہوتی ہے جو رجحان ساز کے طور پر کام کرتی ہے۔ وہ کچھ نئی چیز کرنا شروع کرتے ہیں، پھر کسی قسم کے خیال یا کسی قسم کے نقطہ نظر کو قبول کرتے ہیں۔ تاہم، لوگوں کی اکثریت ایک بے خبری کی حالت میں اس رجحان سے مسلسل متاثر اور متوجہ ہو گی اور اس میں شامل ہو گی، یہاں تک کہ وہ سب نادانستہ اور غیر رضاکارانہ طور پر اسے قبول کر لیتے ہیں اور اس میں ڈوب جاتے ہیں اور اس کے قابو میں آ جاتے ہیں۔ یکے بعد دیگرے، اس طرح کے رجحانات لوگوں کو، جن کے جسم اور دماغ تندرست نہیں ہیں، جو یہ نہیں جانتے کہ حقیقت کیا ہے، اور جو مثبت اور منفی چیزوں میں فرق نہیں کر سکتے، وہ انھیں خوشی سے قبول کرنے کے ساتھ ساتھ شیطان کی جانب سے آئے ہوئے زندگی کے نظریات اور اقدار کو بھی قبول کر لیتے ہیں۔ شیطان جو انہیں بتاتا ہے کہ زندگی تک کیسے پہنچنا ہے اور زندگی گزارنے کا طریقہ جو شیطان انہیں ”عطا کرتا ہے“، وہ اسے قبول کرتے ہیں اور ان کے پاس مزاحمت کرنے کی نہ تو طاقت ہے اور نہ ہی صلاحیت، آگاہی ہونے کا امکان تو بہت کم ہے۔ تو ایسے رجحانات کو کیسے پہچانا جائے؟ میں نے ایک سادہ سی مثال کا انتخاب کیا ہے جسے تم آہستہ آہستہ سمجھ سکتے ہو۔ مثال کے طور پر، ماضی میں لوگوں نے اپنا کاروبار اس طرح چلایا کہ کسی کو دھوکا نہیں دیا؛ اس سے قطع نظر کہ خریدار کون تھا، انہوں نے ایک ہی قیمت پر اشیا فروخت کیں۔ کیا یہاں نیک ضمیر اور انسانیت کے کسی عنصر کا ابلاغ نہیں ہوتا؟ جب لوگ اپنا کاروبار اس طرح کرتے تھے، تو نیک نیتی سے، یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ان میں اس وقت بھی کچھ ضمیر اور کچھ انسانیت باقی تھی۔ لیکن پیسے کی انسان کی مسلسل بڑھتی ہوئی مانگ کے ساتھ، لوگ انجانے میں پیسے، منافع اور خوشی سے زیادہ سے زیادہ پیار کرنے لگ گئے۔ کیا لوگ پیسے کو پہلے سے زیادہ ترجیح نہیں دیتے؟ جب لوگ پیسے کو بہت اہم سمجھتے ہیں، تو وہ انجانے میں اپنی ساکھ، اپنی شہرت، اپنی نیک نامی اور اپنی دیانت کو کم اہمیت دینے لگتے ہیں، کیا وہ ایسا نہیں کرتے ہیں؟ جب تو کاروبار میں مشغول ہوتا ہے، تو تُو دیکھتا ہے کہ لوگ دوسروں کو دھوکا دے کر امیر ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ کمایا ہوا پیسہ ناجائز ہے، لیکن وہ امیر سے امیر تر ہوتے جاتے ہیں۔ تو ان سب چیزوں کو دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے جن سے اس کا خاندان سے لطف اندوز ہوتا ہے: ”ہم دونوں ہی کاروبار میں ہیں لیکن وہ امیر ہو گیا ہے۔ میں زیادہ پیسہ کیوں نہیں کما سکتا؟ میں یہ نہیں مان سکتا – مجھے مزید رقم کمانے کا کوئی طریقہ لازمی تلاش کرنا چاہیے۔“ اس کے بعد، تو صرف یہ سوچتا ہے کہ تو بہت دولت کیسے کمائے۔ ایک بار جب تو نے اس عقیدے کو ترک کر دیا کہ ”پیسہ ضمیر کے ساتھ کمایا جانا چاہیے، کسی کو دھوکا نہیں دینا چاہیے“، پھر، تیرے مفادات کے تحت، تیرے اعمال کے پیچھے اصولوں کی طرح تیرے سوچنے کا انداز بھی آہستہ آہستہ بدل جاتا ہے۔ جب تو پہلی مرتبہ کسی کو دھوکا دیتا ہے، تو تجھے اپنے ضمیر کی ملامت محسوس ہوتی ہے، اور تیرا دل تجھ سے کہتا ہے، ”جب یہ ہو جائے تو یہ آخری مرتبہ ہے کہ میں کسی کو دھوکا دوں گا۔ ہمیشہ لوگوں کو دھوکا دینے کا نتیجہ سزا ہو گی!“ یہ انسان کے ضمیر کا کام ہے - تجھے اخلاقی تقاضوں کا احساس دلانا اور تجھے ملامت کرنا، تاکہ جب تو کسی کو دھوکا دے تو یہ غیر فطری محسوس ہو۔ لیکن جب تو کسی کو کامیابی کے ساتھ دھوکا دیتا ہے، تو تُو دیکھتا ہے کہ اب تیرے پاس پہلے سے زیادہ رقم ہے، اور تو سوچتا ہے کہ یہ طریقہ تیرے لیے بہت فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ اپنے دل میں مدہم درد کے باوجود، تو اب بھی اپنے آپ کو اپنی کامیابی پر مبارکباد دینے کی طرح محسوس کرتا ہے، اور تو اپنے آپ سے کچھ خوشی محسوس کرتا ہے۔ پہلی مرتبہ، تو اپنے رویے، اپنے فریب دینے والے طریقوں کی تائید کرتا ہے۔ ایک بار جب انسان اس دھوکا دہی سے آلودہ ہو جائے تو پھر یہ کسی ایسے شخص کی طرح ہے جو جوئے میں شامل ہوتا ہے اور پھر جواری بن جاتا ہے۔ اپنی بے خبری میں، تو اپنے دھوکا دہی کے رویے کی تائید کرتا ہے اور اسے قبول کرتا ہے۔ بے خبری میں، تو دھوکا دہی کو ایک جائز تجارتی رویہ اور اپنی بقا اور معاش کا سب سے مفید ذریعہ سمجھتا ہے؛ تو سوچتا ہے کہ ایسا کرنے سے تو تیزی سے دولت کما سکتا ہے۔ یہ ایک عمل ہے: شروع میں لوگ اس طرز عمل کو قبول نہیں کر سکتے اور وہ اس رویے اور طرز عمل کو حقیر سمجھتے ہیں۔ پھر وہ اس رویے کا خود تجربہ کرنے لگتے ہیں، اسے اپنے طریقے سے آزماتے ہیں، اور ان کے دل آہستہ آہستہ تبدیل ہونے لگتے ہیں۔ یہ کس قسم کی تبدیلی ہے؟ یہ اس رجحان کی تائید اور اعتراف ہے، اس خیال کی جو سماجی رجحان کے ذریعے تیرے ذہن میں ڈالا گیا ہے۔ اس کا ادراک کیے بغیر، اگر تو لوگوں کے ساتھ کاروبار کرتے ہوئے انھیں دھوکا نہیں دیتا، تو تجھے لگتا ہے کہ تو بدقسمت ہے؛ اگر تو لوگوں کو دھوکا نہیں دیتا تو تجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے تو نے کچھ کھو دیا ہے۔ انجانے میں، یہ دھوکا دہی تیری روح، تیری اصل طاقت، اور ایک ناگزیر طرز عمل بن جاتی ہے جو تیری زندگی کا ایک اصول ہے۔ انسان کے اس رویے اور اس سوچ کو قبول کرنے کے بعد کیا اس سے اس کے دل میں کوئی تبدیلی نہیں آتی؟ تیرا دل بدل گیا ہے، تو کیا تیری دیانت بھی بدل گئی ہے؟ کیا تیری انسانیت بدل گئی ہے؟ کیا تیرا ضمیر بدل گیا ہے؟ تیرا پورا وجود، تیرے دل سے تیرے خیالات تک، اندر سے باہر تک، بدل گیا ہے، اور یہ ایک معیاری تبدیلی ہے۔ یہ تبدیلی تجھے خدا سے مزید اور مزید دور کھینچ لیتی ہے، اور تو شیطان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔ تو زیادہ سے زیادہ شیطان کے مشابہ ہو جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شیطان کی بدعنوانی تجھے بدروح بنا دیتی ہے۔

ان سماجی رجحانات کو دیکھتے ہوئے، کیا تم یہ کہو گے کہ ان کا لوگوں پر بہت اثر ہے؟ کیا ان کا لوگوں پر گہرا نقصان دہ اثر ہے؟ بالکل ان کا لوگوں پر بہت گہرا نقصان دہ اثر پڑتا ہے۔ شیطان ان رجحانات میں سے ہر ایک کو انسان کے کن پہلوؤں کو بدعنوان بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے؟ شیطان بنیادی طور پر انسان کے ضمیر، عقل، انسانیت، اخلاقیات اور زندگی کے نقطہ نظر کو بدعنوان بناتا ہے۔ اور کیا یہ سماجی رجحانات لوگوں کو بتدریج انحطاط کی جانب نہیں لے جاتے اور بدعنوان نہیں بناتے؟ شیطان ان سماجی رجحانات کو ایک ایک قدم کر کے لوگوں کو بدروحوں کے چنگل میں پھنسانے کے لیے استعمال کرتا ہے، تاکہ سماجی رجحانات میں پھنسے ہوئے لوگ غیرارادی طور پر پیسے اور مادی خواہشات، خباثت اور تشدد کی وکالت کریں۔ ایک بار جب یہ چیزیں انسان کے دل میں داخل ہو جائیں تو پھر انسان کیا بن جاتا ہے؟ انسان شیطان بن جاتا ہے، شیطان! کیوں؟ کیوںکہ انسان کے دل میں کون سا نفسیاتی میلان ہوتا ہے؟ انسان کس چیز کی تعظیم کرتا ہے؟ انسان خباثت اور تشدد سے لطف اندوز ہونا شروع کر دیتا ہے، خوبصورتی یا اچھائی کے لیے محبت کا اظہار نہیں کرتا، سکون سے محبت کرنے کا امکان تو اور بھی کم ہے۔ لوگ معمول کی انسانیت کی سادہ زندگی گزارنے کے لیے تیار نہیں ہیں، بلکہ وہ اعلیٰ مقام اور عظیم دولت سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں، جسمانی لذتوں میں مگن رہنا چاہتے ہیں، اپنے جسم کی تسکین کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑتے، انھیں پابند کرنے، انھیں روکنے کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی؛ دوسرے لفظوں میں، وہ جو چاہیں کرتے ہیں۔ تو جب انسان اس قسم کے رجحانات میں ڈوب جاتا ہے تو کیا جو علم تو نے سیکھا ہے وہ تجھے خود کو آزاد کروانے میں مدد دے سکتا ہے؟ کیا تیری روایتی ثقافت اور توہم پرستی کی سمجھ بوجھ تجھے اس سنگین مصیبت سے بچنے میں مدد دے سکتی ہے؟ کیا انسان کو معلوم روایتی اخلاقیات اور رسومات لوگوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنے میں مدد دے سکتی ہیں؟ مثال کے طور پر اینالیکٹس اور تاؤ تی چنگ کو ہی لے لو۔ کیا وہ لوگوں کو ان برے رجحانات کی دلدل سے باہر نکالنے میں مدد کر سکتے ہیں؟ بالکل نہیں. اس طرح انسان دن بدن زیادہ برا، مغرور، احساسِ برتری میں مبتلا، خود غرض اور پُرعناد ہوتا چلا جاتا ہے۔ لوگوں کے درمیان اب کوئی پیار نہیں رہا، خاندان کے افراد کے درمیان اب محبت نہیں رہی، رشتے داروں اور دوستوں کے درمیان اب کوئی افہام و تفہیم نہیں رہی؛ انسانی رشتے تشدد کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ہر ایک شخص اپنے جیسے انسانوں کے درمیان رہنے کے لیے پرتشدد طریقے استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ تشدد کے ذریعے اپنا روزانہ کا رزق چھین لیتا ہے؛ وہ اپنے عہدے حاصل کرتا ہے اور تشدد کا استعمال کرتے ہوئے اپنا منافع حاصل کرتا ہے، اور وہ اپنی مرضی کے مطابق کچھ بھی کرنے کے لیے پرتشدد اور برے طریقے استعمال کرتا ہے۔ کیا یہ انسانیت خوفناک نہیں ہے؟ یہ بالکل ایسی ہی ہے: انہوں نے نہ صرف خُدا کو مصلوب کیا، بلکہ اُس کی پیروی کرنے والے تمام لوگوں کو بھی ذبح کر دیں گے – کیونکہ انسان بہت زیادہ خبیث ہے۔ ان تمام باتوں کو سننے کے بعد جن کے بارے میں میں نے ابھی بات کی ہے، کیا تمہیں اس ماحول میں، اس دنیا میں اور اس قسم کے لوگوں کے درمیان رہنا خوفناک نہیں لگتا، جن کے اندر شیطان بنی نوع انسان کو بدعنوان بناتا ہے؟ (ہاں)۔ تو، کیا تم نے کبھی اپنے آپ کو قابل رحم محسوس کیا ہے؟ اس لمحے تمہیں اسے تھوڑا سا لازمی محسوس کرنا چاہیے، کیا تم نہیں کرتے؟ (میں کرتا ہوں)۔ تمہارا لہجہ سن کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے تم سوچ رہے ہو، ”شیطان کے پاس انسان کو بدعنوان بنانے کے بہت سے طریقے ہیں۔ یہ ہر موقع سے فائدہ اٹھاتا ہے اور ہم جہاں بھی جاتے ہیں وہاں موجود ہوتا ہے۔ کیا انسان اب بھی بچایا جا سکتا ہے؟“ کیا انسان اب بھی بچایا جا سکتا ہے؟ کیا انسان خود کو بچا سکتا ہے؟ کیا انسان اپنے آپ کو بچا سکتا ہے؟ (نہیں)۔ کیا شہنشاہ جیڈ انسان کو بچا سکتا ہے؟ کیا کنفیوشس انسان کو بچا سکتا ہے؟ کیا گیانین بودھی ستوا انسان کو بچا سکتا ہے؟ (نہیں)۔ تو پھر انسان کو کون بچا سکتا ہے؟ (خدا)۔ تاہم، کچھ لوگ اپنے دلوں میں اس طرح کے سوالات اٹھائیں گے: ”شیطان ہمیں اس قدر وحشیانہ طور پر نقصان پہنچاتا ہے، اس طرح کی پاگل کر دینے والی وحشت میں، کہ ہمارے پاس زندگی بسر کرنے کی کوئی امید اور نہ ہی زندگی بسر کرنے کا کوئی اعتماد ہوتا ہے۔ ہم سب بدعنوانی کے درمیان رہتے ہیں، اور ہر ایک شخص بہرحال خدا کے خلاف مزاحمت کرتا ہے، اور اب ہمارے دل اتنی گہرائی میں ڈوب چکے ہیں کہ جتنی گہرائی تک وہ جا سکتے ہیں۔ جب شیطان ہمیں بدعنوان بنا رہا ہے تو خدا کہاں ہے؟ خدا کیا کر رہا ہے؟ خدا ہمارے لیے جو کچھ بھی کر رہا ہے، ہم اسے کبھی محسوس نہیں کرتے!“ کچھ لوگ لامحالہ اداس اور کسی حد تک مایوسی کا شکار ہوتے ہیں۔ تمہارے نزدیک یہ احساس بہت گہرا ہے کیونکہ میں جو کچھ کہتا رہا ہوں وہ یہ ہے کہ لوگوں کو آہستہ آہستہ یہ سمجھنے کی اجازت دی جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ یہ محسوس کریں کہ وہ امید کے بغیر ہیں، زیادہ سے زیادہ یہ محسوس کریں کہ انہیں خدا نے چھوڑ دیا ہے۔ لیکن فکر نہ کرو۔ آج کے لیے ہماری رفاقت کا موضوع، ”شیطان کی برائی،“ ہمارا حقیقی موضوع نہیں ہے۔ خدا کے تقدس کے جوہر کے بارے میں بات کرنے کے لیے، تاہم، ہمیں سب سے پہلے اس بات پر لازمی بات کرنی چاہیے کہ شیطان اور شیطان کی بدی کس طرح انسان کو بدعنوان کو بناتی ہے تاکہ لوگوں پر یہ واضح ہو جائے کہ انسان اب کس حالت میں ہے۔ اس پر بات کرنے کا ایک مقصد یہ ہے کہ لوگ شیطان کی بدی کو جان لیں، جبکہ دوسرا مقصد یہ ہے کہ لوگ زیادہ گہرائی میں یہ سمجھ لیں کہ حقیقی تقدس کیا ہے۔

جن چیزوں پر ہم نے ابھی بات کی ہے، کیا میں نے پچھلی مرتبہ کے مقابلے میں اب ان چیزوں کے بارے میں زیادہ تفصیل سے بات نہیں کی؟ کیا اب تمہاری سمجھ بوجھ کچھ گہری ہو گئی ہے؟ (ہاں)۔ میں جانتا ہوں کہ اب بہت سے لوگ مجھ سے یہ کہنے کی توقع کر رہے ہیں کہ خدا کا تقدس کیا ہے، لیکن جب میں خدا کے تقدس کے بارے میں بات کروں گا تو میں سب سے پہلے ان اعمال کے بارے میں بات کروں گا جو خدا کرتا ہے۔ تم سب کو غور سے سننا چاہیے۔ اس کے بعد، میں تم سے پوچھوں گا کہ خدا کا تقدس کیا ہے؟ میں تمہیں براہ راست نہیں بتاؤں گا، بلکہ تمہیں یہ معلوم کرنے کی کوشش کرنے دوں گا؛ میں تمہیں اس کو معلوم کرنے کے لیے وقت اور آزادی دوں گا۔ تمہارا اس طریقے کے متعلق کیا خیال ہے؟ (یہ اچھا لگتا ہے)۔ تو پھر غور سے سنو جو میں کہتا ہوں۔

خدا جو انسان کے ساتھ کرتا ہے اس کے ذریعے خدا کے تقدس کو سمجھنا

جب بھی شیطان انسان کو بدعنوان بناتا ہے یا انسان کو بے لگام نقصان پہنچاتا ہے تو خدا بےکار نہیں رہتا ہے اور نہ ہی وہ اسے نظرانداز کرتا ہے اور نہ ہی اپنے منتخب کردہ لوگوں سے صرفِ نظر کرتا ہے۔ خدا مکمل وضاحت کے ساتھ وہ سب کچھ جانتا ہے جو شیطان کرتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ شیطان کیا کرتا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اس کی وجہ سے کیا رجحان پیدا ہوتا ہے، خدا وہ سب کچھ جانتا ہے جو شیطان کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اور خدا اپنے منتخب کردہ لوگوں سے دستبردار نہیں ہوتا ہے۔ اس کی بجائے، اپنی طرف کوئی توجہ مبذول کروائے بغیر – خفیہ طور پر، خاموشی سے – خدا ہر وہ کام کرتا ہے جو ضروری ہے۔ جب خدا کسی پر کام شروع کرتا ہے، جب وہ کسی کو منتخب کر لیتا ہے، تو وہ کسی کو یہ خبر نہیں سناتا اور نہ ہی شیطان کے سامنے اس کا اعلان کرتا ہے، کوئی بڑا اشارہ کرنے کا امکان تو اور بھی کم ہے۔ وہ بس انتہائی خاموشی سے، بالکل فطری طور پر، وہی کرتا ہے جو ضروری ہے۔ سب سے پہلے، وہ تیرے لیے ایک خاندان کا انتخاب کرتا ہے۔ تیرا خاندانی پس منظر، تیرے والدین، تیرے آباؤ اجداد – یہ سب خدا پہلے سے طے کر لیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، خدا یہ فیصلے کسی اچانک خواہش پر نہیں کرتا؛ بلکہ اس نے یہ کام بہت پہلے شروع کیا تھا۔ جب خدا تیرے لیے ایک خاندان کا انتخاب کر لیتا ہے، تو پھر وہ تیرے پیدا ہونے کی تاریخ کا انتخاب کرتا ہے۔ پھر، خدا تجھے پیدا ہوتے ہوئے دیکھتا ہے جب تو روتے ہوئے دنیا میں آتا ہے۔ وہ تیری پیدائش کو دیکھتا ہے، تجھے اپنے پہلے الفاظ بولتے ہوئے دیکھتا ہے، تجھے لڑکھڑاتے اور اپنے پہلے قدم اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہے جب تو چلنا سیکھتا ہے۔ پہلے تو ایک قدم اٹھاتا ہے اور پھر تو دوسرا قدم اٹھاتا ہے - اور اب تو بھاگ سکتا ہے، اچھل سکتا ہے، بات کر سکتا ہے اور اپنے جذبات کا اظہار کر سکتا ہے۔۔۔۔ جیسے لوگ بڑے ہوتے ہیں، شیطان کی نظر ان میں سے ہر ایک پر جم جاتی ہے، جیسے کہ شیر اپنے شکار کو دیکھتا ہے۔ لیکن اپنا کام کرتے ہوئے، خدا کبھی بھی لوگوں، واقعات یا چیزوں، جگہ یا وقت سے پیدا ہونے والی کسی پابندی کے تابع نہیں رہا؛ وہ وہی کرتا ہے جو اسے کرنا چاہیے اور جو اسے ضرور کرنا چاہیے۔ بڑے ہونے کے عمل میں، تجھے بہت سی ایسی چیزوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو تجھے پسند نہیں ہوتی ہیں، جیسے کہ بیماری اور مایوسی۔ لیکن جب تو اس راستے پر چلتا ہے تو تیری زندگی اور تیرا مستقبل مکمل طور پر خدا کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ خدا تجھے تیری تمام زندگی تک حقیقی ضمانت دیتا ہے، کیونکہ وہ تیرے ساتھ ہے، تیری حفاظت کر رہا ہے اور تیری دیکھ بھال کر رہا ہے۔ تو اس بات سے بے خبر بڑا ہوتا ہے۔ تو نئی چیزوں کے ساتھ رابطے میں آنا شروع کر دیتا ہے اور اس دنیا اور اس بنی نوع انسان کو جاننا شروع کر دیتا ہے۔ تیرے لیے ہر چیز تازہ اور نئی ہوتی ہے۔ تیرے پاس کچھ چیزیں ہوتی ہیں جن سے تو لطف اندوز ہوتا ہے۔ تو اپنی انسانیت کے اندر رہتا ہے، تو اپنی دنیا میں رہتا ہے اور تجھے خدا کے وجود کے بارے میں ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہوتا۔ لیکن جب تو بڑا ہوتا ہے تو خدا تجھے ہر قدم پر دیکھتا ہے، اور جب تو بڑا ہوتا ہے تو وہ تجھے دیکھتا ہے۔ یہاں تک کہ جب تو علم سیکھ رہا ہو یا سائنس پڑھ رہا ہو، تب بھی خدا نے کسی ایک مرحلے پر بھی تیرا ساتھ نہیں چھوڑا ہے۔ اس میں تُو بالکل دوسرے لوگوں کی طرح ہے، دنیا کو جاننے اور اس کے ساتھ مشغول ہونے کے دوران، تو نے اپنے نصب العین مقرر کیے ہیں، تیرے اپنے مشاغل ہیں، تیری اپنی دلچسپیاں ہیں۔ اور تو بلند عزائم بھی رکھتا ہے۔ تو اکثر اپنے مستقبل پر غور کرتا ہے، اکثر اس خاکے کو بناتا ہے کہ تیرا مستقبل کیسا ہونا چاہیے۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ راستے میں جو بھی ظاہر ہو، خدا یہ سب کچھ ہوتا ہوا واضح طور پر دیکھتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ تو خود اپنا ماضی بھول چکا ہو، لیکن خدا کے نزدیک، تجھے اس سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ تو بڑا ہوتے ہوئے، بالغ ہوتے ہوئے، خدا کی نظروں میں رہتا ہے۔ اس مدت کے دوران، خدا کا سب سے اہم کام ایک ایسی چیز ہے جس کا کبھی کوئی ادراک نہیں کرتا، ایسی چیز جسے کوئی نہیں جانتا۔ خدا یقیناً اس کے بارے میں کسی کو نہیں بتاتا ہے۔ تو یہ سب سے اہم چیز کیا ہے؟ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اس بات کی ضمانت ہے کہ خدا ایک شخص کو بچائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر خدا اس شخص کو بچانا چاہتا ہے تو اسے یہ ضرور کرنا چاہیے۔ یہ کام انسان اور خدا دونوں کے لیے انتہائی اہم ہے۔ کیا تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ تمہیں اس کے بارے میں کوئی احساس نہیں ہے، یا اس کا کوئی تصور نہیں ہے، اس لیے میں تمہیں بتاؤں گا۔ تیری پیدائش سے لے کر اب تک، خدا نے تجھ پر بہت زیادہ کام کیا ہے، لیکن وہ تجھے اپنے کیے ہوئے ہر کام کا جامع حساب نہیں دیتا ہے۔ خدا نے تجھے یہ جاننے کی اجازت نہیں دی، اور نہ ہی اس نے تجھے بتایا۔ تاہم، بنی نوع انسان کے لیے، وہ جو کچھ بھی کرتا ہے اہم ہے۔ جہاں تک خُدا کا تعلق ہے، یہ وہ کام ہے جو اُسے ضرور کرنا چاہیے۔ وہ ایک اہم چیز جو اس کے دل میں اور اسے کرنے کی ضرورت ہے، وہ ان چیزوں میں سے کسی بھی چیز سے کہیں بڑھ کر ہے۔ یعنی انسان کی پیدائش سے لے کر آج تک خدا کو ان کی حفاظت کی ضمانت لازمی دینی ہے۔ جب تم یہ الفاظ سنتے ہو، تو تمہیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے تمہیں مکمل طور پر سمجھ نہیں آئی۔ تم پوچھ سکتے ہو، ”کیا یہ حفاظت اتنی ہی اہم ہے؟“ اچھا، ”حفاظت“ کا لفظی معنی کیا ہے؟ ہوسکتا ہے کہ تم اس کا مطلب امن سمجھ رہے ہو یا ہوسکتا ہے کہ تم اس کا مطلب یہ سمجھو کہ کبھی کسی آفت یا تباہی کا سامنا نہ کرنا، اچھی طرح سے رہنا، معمول کی زندگی گزارنا۔ لیکن تمہیں اپنے دلوں میں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ تو آخر یہ کیا چیز ہے جس کے بارے میں میں بات کر رہا ہوں اور جو خدا نے کرنی ہے؟ خدا کے نزدیک حفاظت کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ واقعی ”حفاظت“ کے عام معنی کی ضمانت ہے؟ نہیں۔ تو وہ کیا ہے جو خدا کرتا ہے؟ اس ”حفاظت“ کا مطلب یہ ہے کہ تجھے شیطان ہڑپ نہیں کرے گا۔ کیا یہ ضروری ہے؟ شیطان کی طرف سے ہڑپ نہ کیا جانا - کیا اس کا تعلق تیری حفاظت سے ہے یا نہیں؟ ہاں، اس کا تعلق تیری ذاتی حفاظت سے ہے، اور اس سے زیادہ اہم کچھ نہیں ہو سکتا۔ ایک بار جب تجھے شیطان نے ہڑپ کر لیا تو تیری روح اور تیرا جسم اب مزید خدا کا نہیں رہے گا۔ خدا تجھے اب مزید نہیں بچائے گا۔ خُدا اُن روحوں اور لوگوں کو چھوڑ دیتا ہے جنہیں شیطان نے ہڑپ کر لیا ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ سب سے اہم چیز جو خدا کو کرنی ہے وہ یہ ہے کہ تیری حفاظت کی ضمانت دے، اس بات کی ضمانت دے کہ شیطان تجھے ہڑپ نہیں کرے گا۔ یہ بہت اہم ہے، کیا نہیں ہے؟ تو تم جواب کیوں نہیں دے سکتے؟ ایسا لگتا ہے کہ تم خدا کی عظیم مہربانی کو محسوس کرنے سے قاصر ہو!

خدا لوگوں کی حفاظت کی ضمانت دینے کے علاوہ اور بھی بہت کچھ کرتا ہے، اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ شیطان انھیں ہڑپ نہیں کرے گا۔ وہ کسی کو منتخب کرنے اور بچانے سے پہلے تیاری کا بہت زیادہ کام بھی کرتا ہے۔ سب سے پہلے، خدا اس بارے میں باریک بینی سے تیاری کرتا ہے کہ تیرا کردار کیسا ہو گا، تو کس قسم کے خاندان میں پیدا ہو گا، تیرے والدین کون ہوں گے، تیرے بھائی بہن کتنے ہوں گے، اور صوررتحال، معاشی حیثیت، اور جس خاندان میں تو پیدا ہوا ہے اس کے حالات کیا ہوں گے. کیا تم جانتے ہو کہ خدا کے چنے ہوئے لوگوں کی اکثریت کس قسم کے خاندان میں پیدا ہوئی ہے؟ کیا وہ ممتاز خاندان ہیں؟ ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو ممتاز گھرانوں میں پیدا ہوا ہو۔ کچھ ہو سکتے ہیں، لیکن وہ بہت کم ہیں۔ کیا وہ غیر معمولی دولت والے خاندانوں، ارب پتیوں یا کروڑ پتیوں کے خاندانوں میں پیدا ہوئے ہیں؟ نہیں، وہ اس قسم کے خاندان میں تقریباً کبھی پیدا نہیں ہوتے ہیں۔ تو پھر خدا ان لوگوں میں سے اکثر کے لیے کس قسم کے خاندان کا انتظام کرتا ہے؟ (عام خاندان)۔ تو کن خاندانوں کو ”عام خاندان“ سمجھا جا سکتا ہے؟ ان میں کام کرنے والے خاندان شامل ہیں – یعنی وہ جو زندہ رہنے کے لیے اجرت پر انحصار کرتے ہیں، بنیادی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں، اور ضرورت سے زیادہ خوشحال نہیں ہیں؛ ان میں کاشتکار خاندان بھی شامل ہیں۔ کسان اپنی خوراک کے لیے فصلیں اگانے پر انحصار کرتے ہیں، ان کے پاس کھانے کے لیے اناج اور پہننے کے لیے کپڑے ہوتے ہیں، اور وہ نہ بھوکے رہتے ہیں اور نہ ہی سردی سے منجمد ہوتے ہیں۔ پھر کچھ خاندان ایسے ہیں جو چھوٹے کاروبار کرتے ہیں، اور کچھ ایسے ہیں جہاں پر والدین دانشور ہوتے ہیں، اور ان کا شمار بھی عام خاندانوں میں کیا جا سکتا ہے۔ کچھ ایسے والدین بھی ہیں جو دفتری ملازمین یا معمولی سرکاری اہلکار ہیں، ان کا شمار بھی ممتاز خاندانوں میں نہیں کیا جا سکتا۔ زیادہ تر عام گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں، اور یہ سب خدا نے ترتیب دیا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے، یہ ماحول جس میں تو رہتا ہے، وہ کوئی صاحبِ حیثیت خاندان نہیں ہے جن کا لوگ تصور کر سکتے ہیں، اور یہ ایک ایسا خاندان ہے جو خدا نے تیرے لیے طے کیا ہے، اور لوگوں کی اکثریت اس قسم کے خاندان کی حدود میں رہے گی۔ تو سماجی حیثیت کے بارے میں کیا خیال ہے؟ والدین کی اکثریت کے معاشی حالات اوسط درجے کے ہیں اور ان کی سماجی حیثیت بلند نہیں ہے - ان کے لیے صرف نوکری کرنا اچھا ہے۔ کیا ان میں صوبائی حاکم شامل ہیں؟ یا قومی صدر؟ نہیں، درست ہے؟ زیادہ سے زیادہ وہ لوگ ہوتے ہیں جیسے چھوٹے کاروباری منتظم یا چھوٹے کاروباروں کے مالکان۔ ان کی سماجی حیثیت متوسط درجے کی ہے، اور ان کے معاشی حالات اوسط ہیں۔ ایک اور عنصر خاندان کے رہنے کا ماحول ہے۔ سب سے پہلے، ان خاندانوں میں کوئی والدین ایسے نہیں ہیں جو اپنے بچوں کو مستقبل کا حال بتانے اور قسمت کی پیشین گوئی کرنے کے راستے پر چلنے کے لیے واضح طور پر متاثر کریں گے۔ بہت کم ہیں جو اس طرح کے کاموں میں مشغول ہیں۔ زیادہ تر والدین بالکل عمومی ہوتے ہیں۔ اسی وقت جب خدا لوگوں کو منتخب کرتا ہے، تو وہ ان کے لیے اس قسم کا ماحول قائم کر دیتا ہے، جو لوگوں کو بچانے کے اس کے کام کے لیے بہت فائدہ مند ہوتا ہے۔ سطحی طور پر، ایسا لگتا ہے کہ خدا نے انسان کے لیے خاص طور پر کچھ بھی غیر معمولی نہیں کیا ہے؛ وہ بس خاموشی سے اور چپکے سے وہ تمام کام کرتا ہے جو وہ کرتا ہے، عاجزی اور خاموشی سے۔ لیکن درحقیقت، خدا جو کچھ بھی کرتا ہے، وہ تیری نجات کے لیے بنیاد قائم کرنے، آگے کی راہ اور تیری نجات کے لیے تمام ضروری شرائط تیار کرنے کے لیے کرتا ہے۔ اس کے بعد، خدا ہر شخص کو اپنے سامنے واپس لاتا ہے، ہر ایک کو ایک مخصوص وقت پر: یہ تب ہوتا ہے کہ تو خدا کی آواز سنتا ہے؛ یہ تب ہوتا ہے کہ تو اس کے سامنے حاضر ہوتا ہے۔ جب تک ایسا ہوتا ہے، کچھ لوگ پہلے ہی خود والدین بن چکے ہوتے ہیں، جب کہ دوسرے اب بھی کسی کے بچے ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، کچھ لوگوں نے شادی کر لی ہوتی ہے اور ان کے بچے ہو جاتے ہیں جب کہ کچھ ابھی تک تنہا ہوتے ہیں، ابھی تک اپنے خاندان بنانا شروع نہیں کرتے ہیں۔ لیکن کسی کی صورتحال سے قطع نظر، خدا نے پہلے سے ہی وقت مقرر کر رکھا ہے کہ تجھے کب منتخب کیا جائے گا اور کب اس کی خوشخبری اور کلام تجھ تک پہنچے گا۔ خدا نے حالات کو مقرر کیا ہے، ایک خاص شخص یا ایک خاص سیاق و سباق کے بارے میں فیصلہ کیا ہے جس کے ذریعے تجھے خوشخبری پہنچائی جائے گی، تاکہ تو خدا کا کلام سن سکے۔ خدا نے پہلے ہی تیرے لیے تمام ضروری شرائط تیار کر رکھی ہیں۔ اس طریقے سے، اگرچہ انسان اس بات سے بے خبر ہے کہ یہ ہو رہا ہے، مگر انسان اس کے سامنے آتا ہے اور خدا کے خاندان میں واپس جاتا ہے۔ انسان لاعلمی میں بھی خدا کی پیروی کرتا ہے اور اس کے کام کے ہر مرحلے میں داخل ہوتا ہے، خدا کے کام کے طریقے کے ہر اس مرحلے میں داخل ہوتا ہے جو اس نے انسان کے لیے تیار کیا ہے۔ اس وقت جب خدا انسان کے لیے کام کرتا ہے تو وہ کون سے طریقے استعمال کرتا ہے؟ سب سے پہلے، کم از کم وہ دیکھ بھال اور تحفظ ہے جو انسان کو حاصل ہے۔ اس کے علاوہ خدا مختلف لوگوں، واقعات اور چیزوں کو متعین کرتا ہے تاکہ ان کے ذریعے انسان اس کے وجود اور اس کے اعمال کو دیکھ سکے۔ مثال کے طور پر، کچھ لوگ ایسے ہیں جو خدا پر اس لیے ایمان رکھتے ہیں کہ ان کے خاندان میں کوئی بیمار ہے۔ جب دوسرے لوگ ان کو خوشخبری کی منادی کرتے ہیں، تو وہ خُدا پر یقین کرنے لگتے ہیں، اور خُدا پر یہ ایمان اس صورتحال کی وجہ سے آتا ہے۔ تو یہ صورتحال کس نے ترتیب دی؟ (خدا نے)۔ اس بیماری کے ذریعے، کچھ گھرانے ایسے ہیں جہاں ہر کوئی ایمان رکھنے والا ہے، جب کہ کچھ ایسے ہیں جہاں خاندان کے صرف چند لوگ ایمان رکھتے ہیں۔ سطحی طور پر، ایسا لگتا ہے کہ تیرے خاندان میں کسی کو بیماری ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک حالت ہے جو تجھے عطا کی گئی ہے تاکہ تو خدا کے سامنے پیش ہو سکے - یہ خدا کی مہربانی ہے۔ چونکہ کچھ لوگوں کے لیے خاندانی زندگی مشکل ہوتی ہے اور وہ سکون نہیں پا سکتے، اس لیے ایک موقع خود موجود ہو سکتا ہے – کوئی خوشخبری آگے پہنچاتا ہے اور کہتا ہے، ”خُداوند یسوع پر ایمان لاؤ اور تمہیں سکون ملے گا۔“ اس طرح بے خبری میں وہ بہت فطری حالات میں خدا پر ایمان لاتے ہیں تو کیا یہ ایک قسم کی حالت نہیں ہے؟ اور کیا یہ حقیقت کہ ان کا خاندان پر سکون نہیں ہے، یہ خدا کی طرف سے عطا کردہ فضل نہیں ہے؟ کچھ ایسے بھی ہیں جو دوسری وجوہات کی بنا پر خدا پر ایمان لاتے ہیں۔ ایمان لاے کی مختلف وجوہات اور مختلف طریقے ہیں، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تو کس وجہ سے اس پر ایمان لاتا ہے، یہ سب دراصل خدا کی طرف سے ترتیب دیا گیا ہے اور ہدایت یافتہ ہے۔ سب سے پہلے، خدا تجھے منتخب کرنے اور تجھے اپنے خاندان میں لانے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتا ہے۔ یہ وہ فضل ہے جو خدا ہر ایک شخص کو عطا کرتا ہے۔

خدا کے کام کے موجودہ مرحلے، ان آخری ایام میں، وہ اب انسان کو بالکل فضل اور برکت عطا نہیں کرتا ہے جیسے کہ اس نے پہلے عطا کیے تھے، اور نہ ہی وہ انسان کو آگے بڑھنے کے لیے پُھسلاتا ہے۔ کام کے اس مرحلے کے دوران، انسان نے خدا کے کام کے تمام پہلوؤں میں سے کیا دیکھا ہے جس کا اس نے تجربہ کیا ہے؟ انسان نے خدا کی محبت اور خدا کی عدالت اور تادیب کو دیکھا ہے۔ اس مدت کے دوران، خدا انسان کو فراہم کرتا ہے، مدد کرتا ہے، آگہی دیتا ہے اور راہنمائی کرتا ہے، تاکہ انسان آہستہ آہستہ اس کے ارادوں کو جان لے، اس کلام کو جان لے جو وہ کہتا ہے اور اس سچائی کو جو وہ انسان کو عطا کرتا ہے۔ جب انسان کمزور ہو، جب وہ مایوس ہو، جب اس کے پاس مدد لینے کی کوئی جگہ نہیں ہو، تو خدا اپنے کلام کو انسان کی تسلی، نصیحت اور حوصلہ افزائی کے لیے استعمال کرے گا، تاکہ انسان کی کم حیثیت آہستہ آہستہ طاقت میں بڑھ جائے، مثبت کیفیت میں بلند ہو اور خدا کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادہ ہو جائے۔ لیکن جب انسان خُدا کی نافرمانی کرتا ہے یا اُس کی مزاحمت کرتا ہے، یا جب انسان اپنی بدعنوانی کو ظاہر کرتا ہے، تو خُدا اِنسان کی تادیب کرنے اور اسے قابو میں لانے میں کوئی رحم نہیں کھائے گا۔ تاہم، خدا انسان کی حماقت، جہالت، کمزوری اور ناپختگی کے لیے تحمل اور صبر کا مظاہرہ کرے گا۔ اس طریقے سے، خدا انسان کے لیے جتنے بھی کام کرتا ہے ان کے ذریعے انسان رفتہ رفتہ پختہ ہو جاتا ہے، بڑا ہوتا ہے، اور خدا کے ارادوں کو جان لیتا ہے، کچھ سچائیوں کو جان لیتا ہے، یہ جان لیتا ہے کہ کون سی چیزیں مثبت ہیں اور کون سی منفی، یہ جان لیتا کہ بدی اور تاریکی کیا ہیں۔ خدا انسان کی تادیب اور سزا کے لیے ہمیشہ ایک طریقہ اختیار نہیں کرتا ہے، لیکن نہ ہی وہ ہمیشہ تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ بلکہ وہ ہر ایک شخص کو اس کے مختلف مراحل میں اور اس کی مختلف حیثیت اور صلاحیت کے مطابق مختلف طریقوں سے مہیا کرتا ہے۔ وہ انسان کے لیے بہت سے کام کرتا ہے اور بڑی قیمت پر کرتا ہے؛ انسان کو ان چیزوں یا قیمت میں سے کسی کا بھی ادراک نہیں ہوتا، لیکن عملی طور پر وہ جو کچھ بھی کرتا ہے وہ حقیقی معنوں میں ہر ایک فرد پر کیا جاتا ہے۔ خدا کی محبت عملی ہے: خدا کے فضل سے، انسان ایک کے بعد ایک تباہی سے بچتا ہے، اور انسان کی کمزوریوں کے لیے ہر وقت خدا بار بار تحمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔ خدا کی عدالت اور تادیب لوگوں کو آہستہ آہستہ بنی نوع انسان کی بدعنوانی اور شیطانی جوہر کو جاننے کی اجازت دیتی ہے۔ جو کچھ خدا فراہم کرتا ہے، انسان کے لیے اس کی آگہی اور اس کی راہنمائی سب، بنی نوع انسان کو زیادہ سے زیادہ سچائی کے جوہر کو جاننے کی اجازت دیتی ہے، اور اس بات کو زیادہ جاننے کے لیے کہ لوگوں کو کس چیز کی ضرورت ہے، انہیں کیا راستہ اختیار کرنا چاہیے، وہ کس چیز کے لیے زندہ رہتے ہیں، ان کی زندگیوں کی قدر اور معنی، اور آگے کی راہ پر کیسے چلنا ہے۔ یہ تمام چیزیں جو خدا کرتا ہے اس کے ایک اصل مقصد سے الگ نہیں کی جا سکتیں۔ تو پھر، یہ مقصد کیا ہے؟ خدا انسان پر اپنا کام انجام دینے کے لیے ان طریقوں کو کیوں استعمال کرتا ہے؟ وہ کیا نتیجہ حاصل کرنا چاہتا ہے؟ دوسرے لفظوں میں، وہ انسان میں کیا دیکھنا چاہتا ہے؟ وہ انسان سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟ خدا جو دیکھنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کا دل دوبارہ زندہ ہو جائے۔ یہ طریقے جو وہ انسان پر کام کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے وہ انسان کے دل کو بیدار کرنے، انسان کی روح کو بیدار کرنے، انسان کو یہ سمجھنے کے قابل بنانے کی مسلسل کوشش ہے کہ وہ کہاں سے آیا ہے، کون اس کی راہنمائی کر رہا ہے، مدد کر رہا ہے اور کس نے انسان کو آج تک زندہ رہنے کی اجازت دی ہے؛ وہ انسان کو یہ سمجھنے کے قابل بنانے کا ذریعہ ہیں کہ خالق کون ہے، اسے کس کی عبادت کرنی چاہیے، اسے کس راستے پر چلنا چاہیے، اور انسان کو کس طریقے سے خدا کے سامنے آنا چاہیے؛ وہ انسان کے دل کو بتدریج دوبارہ زندہ کرنے کا ایک ذریعہ ہیں، تاکہ انسان خدا کے دل کو جان سکے، خدا کے دل کو سمجھ سکے، اور انسان کو بچانے کے لیے اس کے کام کے پیچھے موجود انتہائی احتیاط اور سوچ کو سمجھ سکے۔ جب انسان کا دل دوبارہ زندہ ہو جاتا ہے، تو انسان انحطاط پذیر، بدعنوان مزاج کے ساتھ اب مزید زندگی گزارنا نہیں چاہتا، بلکہ خدا کو راضی کرنے کے لیے سچائی کی پیروی کرنا چاہتا ہے۔ جب انسان کا دل بیدار ہو جاتا ہے، تب انسان اپنے آپ کو شیطان سے مکمل طور پر دور کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اب اسے شیطان سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، نہ وہ اس کے قابو میں آئے گا اور نہ ہی اسے مزید بے وقوف بنایا جائے گا۔ اس کی بجائے، انسان خدا کے کام اور اس کے کلام میں خدا کے دل کو مطمئن کرنے کے لیے فعال طور پر تعاون کر سکتا ہے، اس طرح خدا کا خوف حاصل کر سکتا ہے اور برائی سے بچ سکتا ہے۔ یہ خدا کے کام کا اصل مقصد ہے۔

شیطان کی بدی کے بارے میں جو بحث ہم نے ابھی کی ہے اس سے ہر ایک کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انسان بہت ناخوشی کی حالت میں رہتا ہے اور انسان کی زندگی بدقسمتی سے گھری ہوئی ہے۔ لیکن اب جب میں خدا کے تقدس اور اس کام کے بارے میں بات کر رہا ہوں جو وہ انسان پر انجام دیتا ہے، تو اس سے تمہیں کیسا محسوس ہوتا ہے؟ (بہت خوش)۔ ہم اب یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ہر وہ چیز جو خدا کرتا ہے، وہ سب کچھ جو وہ بڑی احتیاط اور غوروفکر کے ساتھ انسان کے لیے ترتیب دیتا ہے، یعنی وہ بے عیب ہے۔ خدا جو کچھ بھی کرتا ہے وہ غلطی کے بغیر ہوتا ہے، یعنی یہ کسی بھی نقص کے بغیر ہوتا ہے، کسی کو اسے درست کرنے، اس کے متعلق مشورہ دینے یا اس میں کوئی تبدیلی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ سب کچھ جو خدا ہر فرد کے لیے کرتا ہے وہ شک سے بالاتر ہے؛ وہ سب کا ہاتھ پکڑ کر راہنمائی کرتا ہے، ہر گزرتے لمحے تیری دیکھ بھال کرتا ہے اور اس نے کبھی بھی تیرا ساتھ نہیں چھوڑا ہے۔ جب لوگ اس قسم کے ماحول اور پس منظر میں پروان چڑھتے ہیں، تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ لوگ حقیقت میں خدا کی گرفت میں پروان چڑھتے ہیں؟ (جی ہاں)۔ تو کیا تم اب بھی نقصان ہونے کے احساس کو محسوس کرتے ہو؟ کیا اب بھی کوئی ناامیدی محسوس کرتا ہے؟ کیا کوئی یہ محسوس کرتا ہے کہ خدا نے بنی نوع انسان کو چھوڑ دیا ہے؟ (نہیں)۔ تو پھر خدا نے آخر کیا کیا ہے؟ (اس نے بنی نوع انسان پر نظر رکھی ہے)۔ خدا اپنے ہر کام میں جو عظیم سوچ اور احتیاط شامل کرتا ہے اس پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ مزید یہ کہ اپنے کام کو انجام دینے میں، اس نے ہمیشہ غیر مشروط طور پر ایسا کیا ہے۔ اس نے کبھی یہ ضرورت محسوس نہیں کی کہ تم میں سے کسی کو اس قیمت کا علم ہو جو وہ تیرے لیے ادا کرتا ہے تاکہ تو اپنے دل کی گہرائیوں سے اس کا مشکور ہو۔ کیا خدا نے کبھی تجھ سے یہ مطالبہ کیا ہے؟ (نہیں)۔ انسانی زندگی کے طویل دورانیے میں، تقریباً ہر فرد نے بہت سے خطرناک حالات کا مقابلہ کیا ہے اور بہت سی ترغیبات کا سامنا کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان تیرے ساتھ کھڑا ہے، اس کی نظریں مسلسل تجھ پر جمی ہوئی ہیں۔ جب تجھ پر کوئی آفت آتی ہے، تو شیطان اس سے بہت خوش ہوتا ہے۔ جب تجھ پر کوئی مصیبت آتی ہے، جب تیرے لیے کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوتا، جب تو شیطان کے جال میں پھنس جاتا ہے، تو شیطان ان چیزوں سے بہت لطف اندوز ہوتا ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ خدا کیا کر رہا ہے، تو وہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ تیری حفاظت کر رہا ہے، تجھے ایک کے بعد ایک مصیبت اور ایک کے بعد ایک آفت سے دور کر رہا ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے – امن اور خوشی، برکت اور ذاتی حفاظت – درحقیقت یہ سب کچھ خدا کے اختیار میں ہے؛ وہ ہر فرد کی قسمت کی راہنمائی اور اس کا فیصلہ کرتا ہے۔ لیکن کیا خُدا کے پاس اپنے مقام کے بارے میں پُرغرور تصور ہے، جیسا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں؟ کیا خدا تجھ سے یہ کہتا ہے، ”میں سب سے بڑا ہوں۔ یہ میں ہوں جو تمہاری ذمہ داری لیتا ہوں۔ تمہں لازمی مجھ سے رحم کی بھیک مانگنی چاہیے اور نافرمانی کی سزا موت ہو گی“؟ کیا خدا نے کبھی بنی نوع انسان کو اس طرح سے ڈرایا ہے؟ (نہیں)۔ کیا اس نے کبھی یہ کہا ہے، ”نوع انسانی بدعنوان ہے، اس لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں اس کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہوں، اور اس کے ساتھ کسی بھی طرح کا سلوک کیا جا سکتا ہے؛ مجھے ان کے لیے مناسب انتظامات کرنے کی ضرورت نہیں ہے“؟ کیا خدا اس طرح سے سوچتا ہے؟ کیا خدا نے اس طرح کام کیا ہے؟ (نہیں)۔ اس کے برعکس، ہر ایک کے ساتھ خدا کا سلوک مخلصانہ اور ذمہ دارانہ ہے۔ وہ تیرے ساتھ اس سے بھی زیادہ ذمہ داری سے پیش آتا ہے جتنا تو اپنے آپ سے پیش آتا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ خُدا فضول بات نہیں کرتا، اور نہ ہی وہ اپنے بلند مقام کے متعلق خودنمائی کرتا ہے اور نہ ہی عیاری سے لوگوں کو دھوکا دیتا ہے۔ اس کی بجائے وہ ایمانداری اور خاموشی سے وہ کام کرتا ہے جو اسے خود کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ چیزیں انسان کے لیے برکت، سکون اور خوشی لاتی ہیں۔ وہ انسان کو پرسکون انداز میں اور خوشی سے خدا کی نظر میں اور اس کے خاندان میں لے آتی ہیں؛ پھر وہ خدا کے سامنے رہتے ہیں اور خدا کی نجات کو معمول کے شعور اور سوچ کے ساتھ قبول کر لیتے ہیں۔ تو کیا خدا کبھی اپنے کام میں انسان کے ساتھ دھوکے باز رہا ہے؟ کیا اس نے کبھی احسان کا جھوٹا مظاہرہ کیا ہے، چند پُرتپاک جملوں سے انسان کو پہلے بے وقوف بنایا اور پھر پیٹھ پھیر لی؟ (نہیں)۔ کیا خدا نے کبھی ایسا کیا ہے کہ اس نے کہا کچھ اور عمل کچھ اور کیا ہو؟ کیا خدا نے کبھی کھوکھلے وعدے کیے ہیں اور ڈینگیں ماری ہیں، لوگوں کو بتایا ہے کہ وہ ان کے لیے یہ کر سکتا ہے یا ان کے لیے ایسا کرنے میں مدد کر سکتا ہے، لیکن اس کے بعد غائب ہو گیا ہو؟ (نہیں)۔ خدا میں کوئی دھوکے بازی نہیں ہے، کوئی جھوٹ نہیں ہے۔ خدا وفا شعار ہے، اور وہ ہر کام میں سچا ہے۔ وہی ایک واحد ہے جس پر لوگ اعتماد کر سکتے ہیں؛ وہی خدا ہے جس کو لوگ اپنی زندگیاں اور ہر چیز سونپ سکتے ہیں۔ چونکہ خدا میں کوئی دھوکے بازی نہیں ہے تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا سب سے زیادہ مخلص ہے؟ (ہاں)۔ بےشک ہم کہہ سکتے ہیں! اگرچہ لفظ ”مخلص،“ کو جب خدا پر لاگو کیا جاتا ہے، تو یہ بہت ہی کمزور، بہت زیادہ انسانی ہے، تو پھر ہمارے پاس استعمال کرنے کے لیے اور کون سا لفظ موجود ہے؟ یہ انسانی زبان کی حدود ہیں۔ اگرچہ خدا کو ”مخلص“ کہنا کسی حد تک غیر موزوں ہے، پھر بھی، فی الحال ہم اسی لفظ کو استعمال کریں گے۔ خدا وفاشعار اور مخلص ہے۔ تو جب ہم ان پہلوؤں کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو ہم کس چیز کا حوالہ دے رہے ہیں؟ کیا ہم خدا اور انسان کے درمیان فرق اور خدا اور شیطان کے درمیان فرق کا حوالہ دے رہے ہیں؟ ہاں، ہم یہ کہہ سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان خدا میں شیطان کے بدعنوان مزاج کا ایک نشان بھی نہیں دیکھ سکتا ہے۔ کیا میرا یہ کہنا درست ہے؟ آمین؟ (آمین!) شیطان کا کوئی بھی برا مزاج خدا میں ظاہر نہیں ہوتا ہے۔ سب کچھ جو خدا کرتا ہے اور ظاہر کرتا ہے وہ انسان کے لیے مکمل طور پر فائدہ مند ہے اور اس کی مدد کرتا ہے، مکمل طور پر انسان کو فراہم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے، زندگی سے بھرپور ہے اور انسان کو پیروی کرنے کے لیے ایک راستہ دیتا ہے اور سمت کی راہنمائی کرتا ہے۔ خدا بدعنوان نہیں ہے اور مزید یہ کہ اب ہر اس چیز کو دیکھتے ہوئے جو خدا کرتا ہے، کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا مقدس ہے؟ چونکہ خدا کے پاس بنی نوع انسان کی طرح کا کوئی بھی بدعنوان مزاج نہیں ہے، اور نہ ہی بدعنوان بنی نوع انسان کے شیطانی جوہر سے مشابہ کوئی چیز ہے، اس لیے اس نقطہ نظر سے ہم پوری طرح کہہ سکتے ہیں کہ خدا مقدس ہے۔ خدا کسی قسم کی بدعنوانی کا مظاہرہ نہیں کرتا، اور جب خدا کام کرتا ہے تو اسی وقت خدا اپنے جوہر کو ظاہر کرتا ہے، جو مکمل طور پر اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ خدا خود مقدس ہے۔ کیا تم یہ دیکھتے ہو؟ خدا کے مقدس جوہر کو جاننے کے لیے، آؤ ابھی ان دو پہلوؤں کو دیکھتے ہیں: اول یہ کہ خدا میں بدعنوان مزاج کا کوئی نشان نہیں ہے، اور دوسرا یہ کہ خدا کے انسان پر کام کرنے کا جوہر انسان کو خدا کے اپنے جوہر کو دیکھنے کی اجازت دیتا ہے، اور یہ جوہر پوری طرح سے مثبت ہے۔ کیونکہ خدا کے کام کا ہر حصہ انسان کے لیے جو چیزیں لاتا ہے وہ سب مثبت ہیں۔ سب سے پہلے، خدا انسان سے ایماندار ہونے کا مطالبہ کرتا ہے – کیا یہ ایک مثبت چیز نہیں ہے؟ خدا انسان کو عقل دیتا ہے – کیا یہ مثبت نہیں ہے؟ خدا انسان کو اچھے اور برے میں تمیز کرنے کے قابل بناتا ہے – کیا یہ مثبت نہیں ہے؟ وہ انسان کو انسانی زندگی کے معنی اور وقعت سمجھنے کی اجازت دیتا ہے– کیا یہ مثبت نہیں ہے؟ وہ انسان کو لوگوں، واقعات اور چیزوں کے جوہر کو سچائی کے مطابق دیکھنے کی اجازت دیتا ہے – کیا یہ مثبت نہیں ہے؟ یہ مثبت ہے۔ اور ان سب کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان اب شیطان کے فریب میں نہیں آئے گا، اب شیطان سے مسلسل نقصان نہیں اٹھائے گا اور اس کے زیر اثر نہیں رہے گا۔ دوسرے لفظوں میں، یہ چیزیں لوگوں کو شیطان کی بدعنوانی سے خود کو مکمل طور پر آزاد کروانے کی اجازت دیتی ہیں، اور اس لیے وہ آہستہ آہستہ خدا سے ڈرنے اور برائی سے بچنے کی راہ پر چلتے ہیں۔ تم اب اس راستے پر کتنی دور تک چل چکے ہو؟ یہ کہنا مشکل ہے، کیا یہ مشکل نہیں ہے؟ لیکن کیا اب تمہیں یہ کم از کم ابتدائی سمجھ بوجھ حاصل ہو گئی ہے کہ شیطان انسان کو کس طرح بدعنوان بناتا ہے، جن میں سے کون سی چیزیں بری ہیں اور کون سی چیزیں منفی ہیں؟ تم کم از کم اب زندگی میں صحیح راستے پر چل رہے ہو۔ کیا یہ کہنا محفوظ ہے؟ یہ مکمل طور پر محفوظ ہے۔

خدا کے تقدس کے بارے میں کچھ ایسا ہے جس کے بارے میں رفاقت لازمی ہونی چاہیے۔ جو سب کچھ تم نے سنا اور حاصل کیا ہے، اس کی بنیاد پر، تم میں سے کون بتا سکتا ہے کہ خدا کا تقدس کیا ہے؟ میں خدا کے جس تقدس کے بارے میں بات کرتا ہوں، اس سے کیا مراد ہے؟ ایک سیکنڈ کے لیے اس کے بارے میں سوچو۔ کیا خدا کا تقدس اس کی سچائی ہے؟ کیا خدا کا تقدس اس کی وفاداری ہے؟ کیا خدا کا تقدس اس کی بے غرضی ہے؟ کیا یہ اس کی عاجزی ہے؟ انسان سے اس کی محبت ہے؟ خدا آزادانہ طور پر انسان کو سچائی اور زندگی عطا کرتا ہے – کیا یہ اس کا تقدس ہے؟ یہ ہیں، یہ سب ہیں۔ یہ سب کچھ جو خدا ظاہر کرتا ہے منفرد ہے اور بدعنوان انسانیت کے اندر موجود نہیں ہے، اور نہ ہی یہ انسانیت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ شیطان کے انسان کو بدعنوان بنانے کے عمل میں اس کا ذرہ برابر نشان بھی نظر نہیں آتا، نہ شیطان کے بدعنوان مزاج میں اور نہ ہی شیطان کے جوہر یا فطرت میں۔ سب کچھ جو خدا کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، وہ منفرد ہے؛ صرف خدا ہی اس قسم کے جوہر کا حامل ہے اور جو اس کے پاس ہے۔ ہماری بحث کے اس مقام پر، کیا تم میں سے کسی نے بنی نوع انسان میں سے کسی کو اتنا مقدس دیکھا ہے جتنا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے؟ (نہیں)۔ تو کیا بتوں میں سے کوئی اتنا مقدس ہے، مشہور لوگ، یا بنی نوع انسان کے عظیم لوگ جن کی تم پرستش کرتے ہو؟ (نہیں)۔ تو جب ہم کہتے ہیں کہ خدا کا تقدس منفرد ہے، تو کیا یہ مبالغہ آرائی ہے؟ ہرگز ایسا نہیں ہے۔ مزید برآں، خدا کی مقدس انفرادیت کا ایک عملی پہلو بھی ہے۔ جس تقدس کی میں اب بات کر رہا ہوں اور جس تقدس کے بارے میں تم پہلے سوچتے اور تصور کرتے تھے، کیا اس تقدس میں کوئی فرق ہے؟ (ہاں)۔ بہت بڑا فرق ہے۔ جب لوگ تقدس کی بات کرتے ہیں تو اکثر اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ (کچھ ظاہری رویے)۔ جب لوگ کہتے ہیں کہ کوئی رویہ یا کوئی اور چیز مقدس ہے، تو وہ یہ صرف اس لیے کہتے ہیں کہ وہ اسے حواس کے لیے خالص یا خوشگوار سمجھتے ہیں۔ تاہم، ان چیزوں میں تقدس کے حقیقی جوہر کی ہمیشہ کمی ہوتی ہے– یہ عقیدے کا پہلو ہے۔ اس کے علاوہ، تقدس کے اس عملی پہلو سے کیا مراد ہے جس کا لوگ اپنے ذہنوں میں تصور کرتے ہیں؟ کیا یہ زیادہ تر وہی ہے جس کا وہ تصور کرتے ہیں یا جس کا فیصلہ کرتے ہیں؟ مثال کے طور پر، کچھ بدھ مت کے پیروکار اس وقت مر جاتے ہیں جب وہ عمل کر رہے ہوتے ہیں، اس وقت فوت ہو جاتے ہیں جب بیٹھ کر سو رہے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ مقدس ہو گئے ہیں اور آسمان کی طرف اڑ گئے ہیں۔ یہ بھی تخیل کی ایک پیداوار ہے۔ پھر کچھ اور ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ آسمان سے اُڑ کر نیچے آتی ہوئی پری مقدس ہے۔ درحقیقت، لفظ ”مقدس“ کے بارے میں لوگوں کا تصور ہمیشہ سے صرف ایک قسم کا کھوکھلا تخیل اور نظریہ رہا ہے، جس میں بنیادی طور پر کوئی حقیقی مادّہ نہیں ہے، اور اس کے علاوہ تقدس کے جوہر سے جس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ تقدس کا جوہر سچی محبت ہے، لیکن اس سے بڑھ کر یہ سچائی، راستبازی اور روشنی کا جوہر ہے۔ لفظ ”مقدس“ صرف تب ہی موزوں ہوتا ہے جب خدا پر لاگو ہو۔ تخلیق میں کوئی بھی چیز ”مقدس“ کہلانے کے لائق نہیں ہے۔ انسان کو یہ لازمی سمجھ لینا چاہیے۔ اب سے، ہم لفظ ”مقدس“ کا اطلاق صرف خدا پر کریں گے۔ کیا یہ مناسب ہے؟ (ہاں، یہ ہے)۔

وہ چالیں جو شیطان انسان کو بدعنوان بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے

آؤ اب اس بات پر واپس چلتے ہیں کہ شیطان انسان کو بدعنوان بنانے کے لیے کون سے ذرائع استعمال کرتا ہے۔ ہم نے ابھی ان مختلف طریقوں کے بارے میں بات کی ہے جن سے خدا انسان پر کام کرتا ہے، اور جن کا تجربہ تم میں سے ہر ایک خود کر سکتا ہے، اس لیے میں زیادہ تفصیل سے بات نہیں کروں گا۔ لیکن تمہارے دلوں میں، شاید یہ واضح نہیں ہے کہ شیطان انسان کو بدعنوان بنانے کے لیے کون سی چالیں اور حربے استعمال کرتا ہے، یا کم از کم تمہیں ان کی کوئی خاص سمجھ بوجھ نہیں ہے۔ کیا اس کے بارے میں دوبارہ بات کرنا میرے لیے فائدہ مند ہو گا؟ کیا تم اس بارے میں جاننا چاہتے ہو؟ ہو سکتا ہے تم میں سے کچھ یہ پوچھیں گے: ”شیطان کے بارے میں دوبارہ کیوں بات کریں؟ جس لمحے شیطان کا ذکر آتا ہے، ہم غصے میں آ جاتے ہیں، اور جب ہم اس کا نام سنتے ہیں تو ہم سب مکمل طور پر پریشان ہو جاتے ہیں۔“ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ یہ تمہیں کتنا ہی بے چین کرتا ہے، تمہیں حقائق کا سامنا لازمی کرنا ہے۔ یہ باتیں انسان کی سمجھ بوجھ کے فائدے کے لیے لازمی طور پر سادہ الفاظ اور واضح انداز میں کی جانی چاہییں؛ ورنہ انسان واقعی شیطان کے اثر سے الگ نہیں ہو سکتا۔

ہم پہلے ان پانچ طریقوں پر بات کر چکے ہیں جن سے شیطان انسان کو بدعنوان بناتا ہے، جن میں شیطان کی چالیں شامل ہیں۔ شیطان جن طریقوں سے انسان کو بدعنوان بناتا ہے وہ محض سطحی تہہ ہیں؛ اس سطح کے نیچے چھپی ہوئی چالیں زیادہ عیارانہ ہیں جن سے شیطان اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے۔ یہ چالیں کیا ہیں؟ آگے بڑھو، ان کا خلاصہ کرو۔ (یہ دھوکا دیتا ہے، بہکاتا ہے اور زبردستی کرتا ہے)۔ تم ان میں سے جتنی زیادہ چالیں درج کرو گے، تم اتنے ہی زیادہ قریب ہو گے۔ ایسا لگتا ہے جیسے تمہیں شیطان نے شدید نقصان پہنچایا ہے اور اس موضوع پر تم شدید جذبات رکھتے ہو۔ (یہ گمراہ کن بیان بازی کا بھی استعمال کرتا ہے۔ یہ لوگوں پر اثر انداز ہوتا ہے اور زبردستی قبضہ کر لیتا ہے)۔ زبردستی قبضہ – یہ خاص طور پر ایک گہرا تاثر چھوڑتا ہے۔ لوگ شیطان کے زبردستی قبضہ کرنے سے خوفزدہ ہیں۔ کیا کوئی اور چالیں ہیں؟ (یہ پرتشدد طور پر لوگوں کو نقصان پہنچاتا ہے، دھمکیاں دیتا ہے اور پُرکش پیشکش کرتا ہے، اور یہ جھوٹ بولتا ہے)۔ جھوٹ بولنا ان چیزوں میں سے ایک ہے جو یہ کرتا ہے۔ شیطان جھوٹ اس لیے بولتا ہے تاکہ وہ تمہیں دھوکا دے سکے۔ جھوٹ کی نوعیت کیا ہے؟ کیا جھوٹ بولنا دھوکا دینے کی طرح نہیں ہے؟ جھوٹ بولنے کا مقصد درحقیقت تمہیں دھوکا دینا ہے۔ کیا کوئی اور چالیں ہیں؟ مجھے شیطان کی وہ تمام چالیں بتاؤ جن کا تمہیں علم ہے۔ (یہ ترغیب دیتا ہے، نقصان پہنچاتا ہے، اندھا کرتا ہے اور دھوکا دیتا ہے)۔ تم میں سے اکثر اس فریب کے بارے میں ایسا ہی محسوس کرتے ہیں۔ اور کیا؟ (یہ انسان کو قابو کرتا ہے، انسان کو پکڑتا ہے، انسان کو دہشت زدہ کرتا ہے اور انسان کو خدا پر ایمان لانے سے روکتا ہے)۔ میں ان باتوں کا مجموعی مطلب جانتا ہوں جو تم مجھے بتا رہے ہو، اور یہ اچھا ہے۔ تم سب اس کے بارے میں کچھ جانتے ہو، تو آؤ اب ان چالوں کا خلاصہ کرتے ہیں۔

چھ بنیادی چالیں ہیں جو شیطان انسان کو بدعنوان بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے

پہلا قابو کرنا اور زبردستی کرنا ہے۔ یعنی شیطان تیرے دل پر قابو پانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ ”زبردستی“ کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ تجھے اپنی اطاعت پر مجبور کرنے کے لیے دھمکی آمیز اور زبردستی کرنے کے حربے استعمال کرنا، اگر تو اطاعت نہیں کرتا ہے تو وہ تجھے نتائج کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ تو ڈرتا ہے اور اس کی نافرمانی کی ہمت نہیں کرتا، اس طرح تُو اس کے تابع ہو جاتا ہے۔

دوسرا دھوکا دہی اور چالبازی ہے۔ ”دھوکا دہی اور چالبازی“ میں کیا شامل ہے؟ شیطان کچھ کہانیاں اور جھوٹ گھڑتا ہے، تجھے ان پر یقین کرنے کے لیے دھوکا دیتا ہے۔ یہ تجھے کبھی نہیں بتاتا کہ انسان کو خدا نے تخلیق کیا ہے، لیکن نہ ہی یہ براہ راست یہ کہتا ہے کہ تجھے خدا نے تخلیق نہیں کیا ہے۔ یہ لفظ ”خدا“ کا استعمال بالکل نہیں کرتا ہے، بلکہ اس کے متبادل کے طور پر کسی اور چیز کا استعمال کرتا ہے، اس چیز کو استعمال کرتے ہوئے تجھے دھوکا دیتا ہے تاکہ تجھے بنیادی طور پر خدا کے وجود کا اندازہ ہی نہ ہو۔ بلاشبہ، اس ”چالبازی“ میں بہت سے پہلو شامل ہیں، صرف یہ ایک ہی نہیں ہے۔

تیسرا عقیدے کی تلقین کے لیے زبردستی تعلیم دینا ہے۔ لوگوں کو عقیدے کی تلقین کے لیے زبردستی کیا تعلیم جاتی ہے؟ کیا عقیدے کی تلقین کے لیے زبردستی کی تعلیم انسان کی اپنی مرضی سے ہوتی ہے؟ کیا یہ انسان کی رضامندی سے ہوتی ہے؟ یقیناً نہیں۔ یہاں تک کہ اگر تو رضامند نہیں ہے، تو پھر بھی تو اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتا۔ تیری لاعلمی میں، شیطان تجھے عقیدے کی تلقین کے لیے اپنی تعلیم دیتا ہے، اور اپنی سوچ، اپنے اصولِ زندگی اور اپنے جوہر کو تیرے ذہن میں بٹھاتا ہے۔

چوتھی چیز دھمکی دینا اور رجھانا دینا ہے۔ یعنی شیطان طرح طرح کے حربے استعمال کرتا ہے تاکہ تو اسے قبول کر لے، اس کی پیروی کرے اور اس کی خدمت کے لیے کام کرے۔ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کچھ بھی کرے گا۔ بعض اوقات وہ تجھ پر چھوٹے احسانات کرتا ہے، اس تمام عرصے میں تجھے گناہ کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ اگر تو اس کی پیروی نہیں کرتا ہے، تو وہ تجھے تکلیف دے گا اور تجھے سزا دے گا، اور تجھ پر حملہ کرنے اور تیرے خلاف سازش کرنے کے مختلف طریقے استعمال کرے گا۔

پانچواں فریب دینا اور مفلوج کرنا ہے۔ ”فریب دینا اور مفلوج کرنا“ وہ ہوتا ہے جب شیطان لوگوں کے ذہنوں میں کچھ ایسے خوش کن الفاظ اور خیالات ڈالتا ہے جو ان کے تصورات کے مطابق ہوتے ہیں اور موزوں لگتے ہیں، تاکہ یہ محسوس ہو کہ وہ لوگوں کے جسمانی حالات، ان کی زندگیوں اور مستقبل کا خیال کر رہا ہے، جب کہ حقیقت میں اس کا واحد مقصد تجھے بیوقوف بنانا ہے۔ پھر یہ تجھے مفلوج کر دیتا ہے تاکہ تجھے معلوم نہ ہو کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، تاکہ تو نادانستہ طور پر فریب میں آ جائے اور اس طرح اس کے قابو میں آ جائے۔

چھٹا جسم اور دماغ کی تباہی ہے۔ شیطان انسان کے کس حصے کو تباہ کرتا ہے؟ شیطان تیرے دماغ کو تباہ کر دیتا ہے، تجھے مزاحمت کرنے سے بےبس کر دیتا ہے، یعنی آہستہ آہستہ، تیرا دل تیری ذات کی بجائے شیطان کی طرف مڑ جاتا ہے۔ یہ ہر روز تیرے ذہن میں یہ چیزیں ڈالتا ہے، اور تجھ پر اثر انداز ہونے اور تیری تربیت کرنے کے لیے ہر روز ان خیالات اور ثقافتوں کو استعمال کرتا ہے، تیرے عزم کو آہستہ آہستہ کمزور کرتا ہے، تاکہ آخرکار تو مزید اچھا انسان بننے کی خواہش نہ کرے، تاکہ تو مزید اس کے لیے کھڑا ہونے کی خواہش نہ کرے جسے تو ”راستبازی“ کہتا ہے۔ غیرارادی طور پر، تیرے پاس اب بہاؤ کے خلاف تیرنے کی قوت ارادی نہیں رہتی، بلکہ اس کی بجائے تو بہاؤ کے ساتھ بہتا ہے۔ ”تباہی“ کا مطلب یہ ہے کہ شیطان لوگوں کو اس قدر اذیت دیتا ہے کہ وہ انتہائی کمزور ہو جاتے ہیں، مزید انسان نہیں رہتے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب شیطان ان پر حملہ کرتا ہے، پکڑتا ہے اور ہڑپ کر جاتا ہے۔

ان چالوں میں سے ہر ایک جو شیطان انسان کو بدعنوان بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے، انسان کو مزاحمت کرنے کے لیے بےبس کر دیتی ہے؛ ان میں سے کوئی بھی انسان کے لیے مہلک ہو سکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، شیطان جو کچھ بھی کرتا ہے اور جو بھی چالیں استعمال کرتا ہے وہ تیرے انحطاط کا باعث بن سکتی ہیں، تجھے شیطان کے قابو میں لا سکتی ہیں اور تجھے برائی اور گناہ کی دلدل میں پھنسا سکتی ہیں۔ یہ وہ چالیں ہیں جو شیطان انسان کو بدعنوان بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

ہم شیطان کو برا کہہ سکتے ہیں، لیکن اس بات کی تصدیق کے لیے ہمیں اب بھی ضرور یہ دیکھنا ہو گا کہ شیطان کے انسان کو بدعنوان بنانے کے کیا نتائج نکلتے ہیں اور یہ انسان کے لیے کون سے مزاج اور جوہر لاتا ہے۔ تم سب اس بارے میں کچھ جانتے ہو، لہٰذا بولو۔ شیطان کے انسان کو بدعنوان بنانے کے کیا نتائج ہوتے ہیں؟ وہ کس بدعنوان مزاج کا اظہار اور انکشاف کرتا ہے؟ (تکبر اور غرور، خودغرضی اور حقیرپن، عیاری اور فریب، مکاری اور بغض اور انسانیت کا مکمل فقدان)۔ مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس میں انسانیت نہیں ہے۔ اب دوسرے بھائیوں اور بہنوں کو بولنے دے۔ (ایک بار جب شیطان انسان کو بدعنوان بنا دیتا ہے، تو وہ مثالی طور پر مغرور اور خود راستباز، خود اہم اور خود پسند، لالچی اور خود غرض ہو جاتا ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ سب سے زیادہ سنگین مسائل ہیں)۔ وہ مادی اشیاء اور دولت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی چیز سے باز نہیں آتا۔ (شیطان کے ذریعے لوگوں کے بدعنوان بننے کے بعد، وہ مادی اشیاء اور دولت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی چیز سے باز نہیں آتے۔ اور یہاں تک کہ وہ خدا سے بھی دشمنی کرتے ہیں، خدا کی مخالفت کرتے ہیں، خدا کی نافرمانی کرتے ہیں، اور وہ اس ضمیر اور عقل سے محروم ہو جاتے ہیں جو انسان کو حاصل ہونی چاہیے)۔ تم نے جو کہا ہے وہ سب کچھ بنیادی طور پر ایک جیسا ہے، اگرچہ معمولی اختلافات کے ساتھ؛ تم میں سے کچھ نے محض مزید معمولی تفصیلات شامل کی ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ بدعنوان انسانیت کے بارے میں جو چیزیں سب سے زیادہ نمایاں ہیں وہ تکبر، فریب، بغض اور خود غرضی ہیں۔ تاہم، تم سب نے ایک ہی چیز کو نظر انداز کر دیا ہے۔ لوگوں کا کوئی ضمیر نہیں ہے، وہ اپنی عقل کھو چکے ہیں اور ان میں انسانیت نہیں ہے - لیکن ایک اور انتہائی اہم چیز ہے جس کا تم نے ذکر نہیں کیا، جو کہ ”بےوفائی“ ہے۔ شیطان کی طرف سے بدعنوان بنائے جانے کے بعد کسی بھی انسان میں موجود ان مزاجوں کا حتمی نتیجہ ان کی خدا سے بےوفائی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ خدا لوگوں سے کیا کہتا ہے یا وہ ان پر کیا کام کرتا ہے، وہ اس بات پر دھیان نہیں دیتے جس کو وہ سچائی جانتے ہیں۔ یعنی، وہ اب خدا کو تسلیم نہیں کرتے اور اس کے ساتھ بےوفائی کرتے ہیں۔ یہ شیطان کے انسان کو بدعنوان بنانے کا نتیجہ ہے۔ یہ انسان کے تمام بدعنوان مزاجوں کے لیے یکساں ہے۔ شیطان انسان کو بدعنوان بنانے کے لیے جن طریقوں کا استعمال کرتا ہے - وہ علم جو لوگ سیکھتے ہیں، وہ سائنس جو وہ جانتے ہیں، ان کی توہمات اور روایتی ثقافتوں کے ساتھ ساتھ سماجی رجحانات کی سمجھ بوجھ - کیا کوئی ایسا طریقہ ہے جسے انسان یہ بتانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے کہ کیا راستباز ہے اور کیا غیرراستباز؟ کیا کوئی ایسی چیز ہے جو انسان کو یہ جاننے میں مدد دے سکتی ہے کہ مقدس کیا ہے اور برائی کیا ہے؟ کیا کوئی معیار ہے جس سے ان چیزوں کی پیمائش کی جائے؟ (نہیں)۔ کوئی معیار اور کوئی بنیاد نہیں ہے جو انسان کی مدد کر سکے۔ اگرچہ لوگ لفظ ”مقدس“ کو جانتے ہوں گے، لیکن ایسا کوئی نہیں ہے جو حقیقت میں یہ جانتا ہو کہ مقدس کیا ہے۔ تو کیا یہ چیزیں جو شیطان انسان کے سامنے لاتا ہے اسے سچائی جاننے میں مدد دے سکتی ہیں؟ کیا وہ انسان کو زیادہ انسانیت کے ساتھ جینے میں مدد دے سکتی ہیں؟ کیا وہ انسان کی اس طرح زندگی گزارنے میں مدد کر سکتی ہیں کہ وہ خدا کی زیادہ عبادت کر سکے؟ (نہیں)۔ یہ ظاہر ہے کہ وہ انسان کو خدا کی عبادت کرنے یا سچائی کو سمجھنے میں مدد نہیں دے سکتی ہیں، اور نہ ہی وہ انسان کو یہ جاننے میں مدد دے سکتی ہیں کہ تقدس اور برائی کیا ہے۔ اس کے برعکس، انسان دن بدن تنزلی کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے، خدا سے دور سے دور بھٹکتا چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم شیطان کو برا کہتے ہیں۔ شیطان کے برے مادے کا اتنا تفصیلی معائنہ کرنے کے بعد، کیا تم نے شیطان میں تقدس کا کوئی عنصر دیکھا ہے، چاہے اس کے مادے میں یا اس کے جوہر کے بارے میں تمہاری سمجھ بوجھ میں؟ (نہیں)۔ اتنا تو یقینی ہے۔ تو کیا تم نے شیطان کے جوہر کا کوئی ایسا پہلو دیکھا ہے جو خدا کے ساتھ کوئی مماثلت رکھتا ہو؟ (نہیں)۔ کیا شیطان کا کوئی اظہار خدا کے ساتھ کوئی مماثلت رکھتا ہے؟ (نہیں)۔ تو اب میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں: تمہارے اپنے الفاظ استعمال کرتے ہوئے، خدا کا تقدس آخر ہے کیا؟ سب سے پہلے، ”خدا کے تقدس“ کے حوالے سے کہے گئے الفاظ کیا ہیں؟ کیا وہ خدا کے جوہر کے سلسلے میں کہے گئے ہیں؟ یا وہ اس کے مزاج کے کسی پہلو کے سلسلے میں کہے گئے ہیں؟ (وہ خدا کے جوہر کے سلسلے میں کہے گئے ہیں)۔ ہمیں واضح طور پر اپنے مطلوبہ موضوع تک رسائی حاصل کرنے کے لیے قدم رکھنے کے لیے جگہ کی نشاندہی کرنی چاہیے۔ یہ الفاظ خدا کے جوہر کے سلسلے میں کہے گئے ہیں۔ سب سے پہلے، ہم نے شیطان کی برائی کو خدا کے جوہر کے موازنے کے لیے استعمال کیا ہے، تو کیا تو نے خدا میں شیطان کا کوئی جوہر دیکھا ہے؟ بنی نوع انسان کے کسی جوہر کے بارے میں کیا خیال ہے؟ (نہیں، ہم نے نہیں دیکھا ہے۔ خدا متکبر نہیں ہے، خود غرض نہیں ہے اور بےوفائی نہیں کرتا ہے، اور اس سے ہم خدا کے مقدس جوہر کو ظاہر ہوتا دیکھتے ہیں)۔ کیا شامل کرنے کے لیے کچھ اور چیز ہے؟ (خدا کے پاس شیطان کی بدعنوانی کا کوئی سراغ نہیں ہے۔ شیطان کے پاس جو کچھ ہے وہ مکمل طور پر منفی ہے، جبکہ جو کچھ خدا کے پاس ہے وہ مثبت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس وقت سے جب ہم بہت چھوٹے تھے، اپنی ساری زندگی میں اور آج تک، اور خاص طور پر جب ہم الجھ گئے ہوں اور اپنا راستہ بھول گئے ہوں، خُدا ہمیشہ ہمارے ساتھ رہا ہے، ہماری نگرانی کرتا ہے اور ہماری حفاظت کرتا ہے۔ خدا میں کوئی فریب نہیں ہے، کوئی دھوکے بازی نہیں ہے۔ وہ صاف اور سادہ انداز میں بات کرتا ہے، اور یہ بھی خدا کا حقیقی جوہر ہے)۔ بہت اچھا! (ہم خدا میں شیطان کا کوئی بھی بدعنوان مزاج نہیں دیکھ سکتے، کوئی دوغلا پن، کوئی شیخی، کوئی کھوکھلے وعدے اور کوئی فریب نہیں دیکھ سکتے۔ خدا ہی وہ واحد ہے جس پر انسان ایمان لا سکتا ہے۔ خدا وفادار اور مخلص ہے۔ خدا کے کام سے، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ خُدا لوگوں کو ایماندار بننے کے لیے کہتا ہے، انھیں حکمت دیتا ہے، انھیں اِس قابل بناتا ہے کہ وہ بُرائی اور اچھائی میں فرق بیان کر سکیں اور مختلف لوگوں، واقعات اور چیزوں کو اچھی طرح پہچان سکیں۔ اس میں ہم خدا کا تقدس دیکھ سکتے ہیں)۔ کیا تم ختم کر چکے ہو؟ کیا تم نے جو کہا ہے اس سے مطمئن ہو؟ تمہارے دلوں میں خدا کی واقعی کتنی سمجھ بوجھ ہے؟ اور تم خدا کے تقدس کو کتنا سمجھتے ہو؟ میں جانتا ہوں کہ تم میں سے ہر ایک کے دل میں کسی نہ کسی درجے کی ادراک کی سمجھ بوجھ ہے، کیونکہ ہر فرد خود پر خدا کے کام کو محسوس کرسکتا ہے اور مختلف درجات میں، وہ خدا سے بہت سی چیزیں حاصل کرتا ہے: فضل اور برکت، آگہی اور روشنی اور خدا کی عدالت اور تادیب، اور ان چیزوں کی وجہ سے انسان خدا کے جوہر کے بارے میں کچھ آسان سمجھ بوجھ حاصل کرتا ہے۔

اگرچہ خدا کے تقدس جس پر ہم آج بات کر رہے ہیں وہ زیادہ تر لوگوں کو عجیب لگ سکتا ہے، اس سے قطع نظر، ہم نے اب اس موضوع کو شروع کر دیا ہے، اور جیسے جیسے تم اس راہ پر آگے بڑھو گے تمہیں گہری سمجھ بوجھ حاصل ہو گی۔ یہ تمہیں اپنے تجربہ کرنے کے دوران آہستہ آہستہ محسوس کرنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ فی الحال، خدا کے جوہر کے بارے میں تمہاری ادراک پر مبنی تفہیم کو سیکھنے، تصدیق کرنے، محسوس کرنے اور تجربہ کرنے کے لیے ابھی بھی ایک طویل وقت درکار ہے، جب تک کہ ایک دن تمہیں یہ معلوم نہ ہو جائے، کہ تمہارے دل کے عین مرکز سے، کہ ”خدا کے تقدس“ کا مطلب یہ ہے کہ خدا کا جوہر بے عیب ہے، خدا کی محبت بے لوث ہے، جو کچھ خدا انسان کو فراہم کرتا ہے وہ بے لوث ہے، اور تم جان لو گے کہ خدا کا تقدس بےداغ اور الزام سے مبرا ہے۔ خدا کے جوہر کے یہ پہلو صرف ایسے الفاظ نہیں ہیں جنھیں وہ اپنی حیثیت کی خودنمائی کے لیے استعمال کرتا ہے، بلکہ خدا اپنے جوہر کو ہر ایک شخص کے ساتھ انتہائی خلوص کے ساتھ سلوک کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، خدا کا جوہر خالی نہیں ہے، نہ ہی یہ نظریاتی یا عقیدے پر مبنی ہے، اور یہ یقینی طور پر ایک قسم کا علم نہیں ہے۔ یہ انسان کے لیے ایک قسم کی تعلیم نہیں ہے؛ اس کی بجائے یہ خدا کے اپنے اعمال کا حقیقی مظہر ہے اور خدا کے پاس جو کچھ ہے اور جو وہ خود ہے، کا آشکار جوہر ہے۔ انسان کو اس جوہر کو جاننا چاہیے اور اسے سمجھنا چاہیے، کیونکہ خدا جو کچھ بھی کرتا ہے اور ہر ایک لفظ جو کہتا ہے وہ ہر ایک شخص کے لیے بڑی وقعت اور بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ جب تو خدا کے تقدس کو سمجھتا ہے، تو تب تو واقعی خدا پر ایمان لا سکتا ہے؛ جب تو خدا کے تقدس کو سمجھتا ہے، تو تب ہی تُو واقعی ”خدا خود، منفرد“ کے الفاظ کے حقیقی معنی کو سمجھ سکتا ہے۔ تو مزید تخیلات میں مبتلا نہیں ہو گا، یہ سوچتے ہوئے کہ اس کے علاوہ اور بھی راستے ہیں جن پر تو چلنے کے لیے انتخاب کر سکتا ہے، اور تو اب ہر اس چیز سے بےوفائی کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہو گا جو خدا نے تیرے لیے ترتیب دی ہے۔ کیونکہ خدا کا جوہر مقدس ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف خدا کے ذریعے ہی تو روشنی کی راستباز راہ پر زندگی گزار سکتا ہے؛ صرف خدا کے ذریعے ہی تو زندگی کے معنی جان سکتا ہے؛ صرف خدا کے ذریعے ہی تو حقیقی انسانیت کے مطابق زندگی بسر کر سکتا ہے اور سچائی کو جان سکتا ہے اور اس کا حامل ہو سکتا ہے۔ صرف خدا کے ذریعے ہی تو سچائی سے زندگی حاصل کر سکتا ہے۔ صرف خُدا ہی تجھے برائی سے بچنے اور شیطان کے نقصان اور تسلط سے نجات دلا سکتا ہے۔ خدا کے علاوہ کوئی شخص اور کوئی چیز تجھے مصائب کے سمندر سے نہیں بچا سکتی تاکہ تجھے مزید تکلیف نہ ہو۔ یہ خدا کے جوہر سے طے ہوتا ہے۔ صرف خدا خود ہی تجھے اتنا بےلوث ہو کر بچاتا ہے؛ آخر کار صرف خدا ہی تیرے مستقبل، تیری تقدیر اور تیری زندگی کا ذمہ دار ہے، اور وہی تیرے لیے سب چیزوں کا انتظام کرتا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جسے کوئی بھی تخلیق شدہ یا غیر تخلیق شدہ حاصل نہیں کر سکتا۔ کیونکہ کوئی بھی تخلیق شدہ یا غیر تخلیق شدہ خدا کے جوہر جیسے جوہر کا حامل نہیں ہے، کسی بھی شخص یا چیز کے پاس تجھے بچانے یا تیری راہنمائی کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ انسان کے لیے خدا کے جوہر کی یہ اہمیت ہے۔ شاید تم محسوس کرو کہ یہ الفاظ جو میں نے کہے ہیں، اصولی طور پر تھوڑی سی مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر تو سچائی کی جستجو کرتا ہے، اگر تو سچائی سے محبت کرتا ہے، تب تجھے یہ تجربہ ہو گا کہ یہ الفاظ نہ صرف تیری تقدیر کو بدلیں گے، بلکہ اس سے بڑھ کر تجھے انسانی زندگی کے صحیح راستے پر لے آئیں گے۔ تو یہ سمجھتا ہے، کیا تو نہیں سمجھتا؟ تو کیا اب تم خدا کے جوہر کو جاننے میں کچھ دلچسپی رکھتے ہو؟ (ہاں)۔ یہ جان کر اچھا لگا کہ تم دلچسپی رکھتے ہو۔ آج کے لیے، ہم یہاں پر خُدا کے تقدس کو جاننے کے لیے اپنی رفاقت کا موضوع ختم کریں گے۔

*     *     *

میں تم سے ایک ایسی چیز کے بارے میں بات کرنا چاہوں گا جو تم نے آج ہمارے اجتماع کے آغاز میں کی ہے اور جس نے مجھے حیران کر دیا ہے۔ تم میں سے کچھ شاید شکر گزاری کے احساس کو پروان چڑھا رہے تھے، شاید تم شکر گزار محسوس کر رہے تھے، اور اس لیے تمہارے جذبات نے اسی کے مطابق عمل کیا۔ تم جو کچھ کیا وہ ایسا نہیں تھا جس پر ملامت کی ضرورت ہے؛ یہ نہ تو صحیح ہے اور نہ ہی غلط۔ لیکن میں چاہوں گا کہ تم کچھ سمجھ لو۔ یہ کیا ہے جو میں چاہتا ہوں کہ تم سمجھ لو؟ سب سے پہلے، میں تم سے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ تم نے ابھی کیا کیا ہے۔ کیا یہ سجدہ کرنا تھا یا عبادت کرنے کے لیے گھٹنوں پر جھکنا تھا؟ کیا کوئی مجھے بتا سکتا ہے؟ (ہمارا خیال ہے کہ یہ سجدہ تھا)۔ تم سمجھتے ہو کہ یہ سجدہ تھا، تو پھر سجدے کا کیا مطلب ہے؟ (عبادت)۔ تو پھر، عبادت کے لیے گھٹنوں پر جھکنا کیا ہے؟ میں نے اس سے پہلے تمہارے ساتھ اس بارے میں کوئی رفاقت نہیں کی ہے، لیکن آج میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ ایسا کرنا ضروری ہے۔ کیا تم اپنے معمول کے اجتماعات میں سجدہ کرتے ہو؟ (نہیں)۔ کیا تم عبادت کرتے ہوئے سجدہ کرتے ہو؟ (ہاں)۔ کیا تم ہر مرتبہ عبادت کرتے ہوئے سجدہ کرتے ہو، جب صورتحال اجازت دیتی ہو؟ (ہاں)۔ یہ اچھی بات ہے۔ لیکن آج میں جو بات تمہیں سمجھانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ خدا صرف دو قسم کے لوگوں کے جھکنے کو قبول کرتا ہے۔ ہمیں انجیل یا کسی روحانی شخصیت کے اعمال اور طرز عمل سے مشورہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی بجائے، یہاں اور اب، میں تمہیں کچھ سچ بتاؤں گا۔ اول تو عبادت کرنے کے لیے سجدہ اور گھٹنوں پر جھکنا ایک ہی چیز نہیں ہے۔ جو خود سے سجدہ کرتے ہیں خدا ان کے جھکنے کو کیوں قبول کرتا ہے؟ یہ اس لیے ہے کہ خدا کسی کو اپنے پاس بلاتا ہے اور اس شخص کو خدا کے حکم کو قبول کرنے کا حکم دیتا ہے، تو خدا اسے اپنے سامنے سجدہ کرنے کی اجازت دے گا۔ یہ پہلی قسم کا شخص ہے۔ دوسری قسم خدا سے ڈرنے اور برائیوں سے بچنے والے کسی شخص کا عبادت کے لیے گھٹنوں پر جھکنا ہے۔ صرف یہ دو قسم کے لوگ ہی ہیں۔ تو تم کس قسم سے تعلق رکھتے ہیں؟ کیا تم بتا سکتے ہو؟ یہ سچائی ہے، اگرچہ اس سے تمہارے جذبات کو تھوڑی سی ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔ عبادت کے دوران لوگوں کے گھٹنوں کے بل جھکنے کے بارے میں کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے - یہ مناسب ہے اور جیسا کہ ہونا چاہیے ویسا ہے، کیونکہ جب لوگ عبادت کرتے ہیں تو یہ زیادہ تر کسی چیز کے لیے دعا کرنا، اپنے دلوں کو خدا کے لیے کھولنا اور اس کے روبرو ہونا ہوتا ہے۔ یہ مواصلات اور تبادلہ ہے، خدا کے ساتھ خلوصِ دل سے۔ اپنے گھٹنوں کے بل عبادت کرنا محض رسمی نہیں ہونا چاہیے۔ میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم نے آج جو کچھ کیا ہے اس پر تمہیں ملامت کروں۔ میں تم پر صرف یہ واضح کرنا چاہتا ہوں تاکہ تم اس اصول کو سمجھ لو – تم اسے جانتے ہو، کیا تم نہیں جانتے؟ (ہاں، ہم جانتے ہیں)۔ میں یہ تمہیں اس لیے بتا رہا ہوں تاکہ دوبارہ ایسے نہ ہو۔ تو کیا لوگوں کو خدا کے سامنے سجدہ کرنے اور گھٹنوں پر جھکنے کا موقع ملتا ہے؟ ایسا نہیں ہے کہ یہ موقع کبھی نہیں ملے گا۔ جلد یا بدیر وہ دن آئے گا لیکن وہ وقت ابھی نہیں ہے۔ کیا تم سمجھتے ہو؟ کیا یہ تمہیں پریشان کرتا ہے؟ (نہیں)۔ یہ اچھی بات ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ الفاظ تمہیں تحریک یا ترغیب دیں تاکہ تم اپنے دلوں میں یہ جان سکو کہ خدا اور انسان کے درمیان موجودہ مشکل صورتحال کیا ہے اور خدا اور انسان کے درمیان اب کس قسم کا رشتہ موجود ہے۔ اگرچہ ہم نے حال ہی میں کچھ مزید بات چیت اور تبادلہ خیال کیا ہے، لیکن خدا کے بارے میں انسان کی سمجھ بوجھ ابھی تک کافی نہیں ہے۔ خدا کو سمجھنے کی اس راہ پر انسان کو ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ میرا یہ ارادہ نہیں ہے کہ تم سے یہ کام فوری طور پر کرواؤں، یا اس قسم کی خواہشات یا احساسات کے اظہار کے لیے جلدبازی کرواؤں۔ آج تم نے جو کیا وہ تمہارے حقیقی جذبات کو ظاہر اور بیان کر سکتا ہے، اور میں نے انھیں محسوس کر لیا ہے۔ لہذا جب تم یہ کر رہے تھے، میں بالکل کھڑا ہونا چاہتا تھا اور تمہیں اپنی نیک خواہشات دینا چاہتا تھا، کیونکہ میری خواہش ہے تم سب خیریت سے رہو۔ لہٰذا، میں اپنے ہر قول اور ہر عمل میں، تمہاری مدد کرنے کی پوری کوشش کرتا ہوں، تمہاری راہنمائی کرتا ہوں، تاکہ تمہیں ہر چیز کا صحیح فہم اور درست نظریہ حاصل ہو سکے۔ تم یہ سمجھ سکتے ہو، کیا تم نہیں سمجھ سکتے؟ (ہاں)۔ یہ اچھی بات ہے۔ اگرچہ لوگوں کے پاس خدا کے مختلف مزاجوں کے بارے میں کچھ سمجھ بوجھ ہے، خدا کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے اور خدا جو کام کرتا ہے، اس کے پہلوؤں کے بارے میں کچھ سمجھ بوجھ رکھتے ہیں، لیکن یہ سمجھ بوجھ زیادہ تر ایک صفحے پر الفاظ کو پڑھنے، یا انہیں اصولی طور پر سمجھنے، یا صرف ان کے بارے میں سوچنے سے آگے نہیں جاتی ہے۔ لوگوں میں جس چیز کی سب سے زیادہ کمی ہے وہ حقیقی سمجھ بوجھ اور بصیرت ہے جو حقیقی تجربے سے حاصل ہوتی ہے۔ اگرچہ خدا لوگوں کے دلوں کو جگانے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتا ہے، لیکن اس کے مکمل ہونے سے پہلے ابھی ایک طویل راستہ طے کرنا باقی ہے۔ میں کسی کو یہ محسوس نہیں کروانا چاہتا کہ گویا خدا نے انہیں سردی میں باہر چھوڑ دیا ہے، کہ خدا نے انہیں ترک کر دیا ہے یا ان سے پیٹھ پھیر لی ہے۔ میں صرف اتنا دیکھنا چاہتا ہوں کہ سچائی کی جستجو کرنے اور خدا کو سمجھنے کی کوشش کرنے کی راہ پر چلنے والا ہر شخص، بغیر کسی بدگمانی اور بوجھ کے، دلیری کے ساتھ غیر متزلزل عزم کے ساتھ آگے بڑھتا رہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تو کیا غلط کر چکا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تو کتنی دور بھٹک گیا ہے یا تو نے کتنی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں، ان کو ایسا بوجھ یا اضافی سامان نہ بننے دے جو تجھے خدا کو سمجھنے کی جستجو میں اپنے ساتھ لے کر جانا ہے۔ آگے بڑھنا جاری رکھو۔ ہر وقت، خدا انسان کی نجات کو اپنے دل میں رکھتا ہے؛ یہ کبھی نہیں بدلتا. یہ خدا کے جوہر کا سب سے قیمتی حصہ ہے۔ کیا اب تم کچھ بہتر محسوس کرتے ہو؟ (ہاں)۔ مجھے امید ہے کہ تم تمام چیزوں اور میں نے جو الفاظ کہے ہیں ان کے لیے درست انداز اختیار کر سکتے ہو۔ تو پھر آؤ اس رفاقت کو یہیں ختم کرتے ہیں۔ خدا حافظ!

11 جنوری 2014

سابقہ: خدا بذات خود، منفرد V

اگلا: خدا خود، منفرد VII

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp