خدا خود، منفرد VII

خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے (I)

خدا کے اختیار، خدا کے راستباز مزاج اور خدا کے تقدس کا ایک جائزہ

جب تم اپنی عبادت سے فارغ ہو جاتے ہو تو کیا تمہارے دل خدا کی موجودگی میں سکون محسوس کرتے ہیں؟ (ہاں)۔ اگر کسی شخص کا دل پرسکون ہو سکتا ہے تو وہ خدا کے کلام کو سننے اور سمجھنے کے قابل ہو جائے گا اور وہ سچائی کو سننے اور سمجھنے کے قابل ہو جائے گا۔ اگر تیرا دل پرسکون نہیں ہو پاتا، اگر تیرا دل ہمیشہ بھٹکتا رہتا ہے، یا ہمیشہ دوسری چیزوں کے بارے میں سوچتا رہتا ہے، تو جب تو خدا کا کلام سننے کے لیے اجتماعات میں شرکت کرے گا تو یہ تجھ پر اثرانداز ہو گا۔ ہم جن معاملات پر بات کر رہے ہیں ان کا مرکزی موضوع کیا ہے؟ آؤ ہم سب اہم نکات پر دوبارہ تھوڑا سا غور کریں۔ خدا خود، منفرد، کو جاننے کے بارے میں، پہلے حصے میں، ہم نے خدا کے اختیار پر بات کی۔ دوسرے حصے میں، ہم نے خُدا کے راستباز مزاج پر بحث کی، اور تیسرے حصے میں، ہم نے خُدا کے تقدس پر بات کی۔ ہم نے ہر بار جس مخصوص مواد پر بات کی ہے کیا اس نے تم پر کوئی تاثر چھوڑا ہے؟ پہلے حصے میں، ”خدا کا اختیار،“ کس چیز نے تم پر سب سے گہرا اثر چھوڑا؟ کس حصے کا تم پر سب سے زیادہ اثر ہوا؟ (خدا نے سب سے پہلے خدا کے کلام کے اختیار اور طاقت کا اظہار کیا؛ خدا اپنے کلام کی طرح اچھا ہے اور اس کا کلام سچ ہو گا۔ یہ خدا کا جبلی جوہر ہے)۔ (شیطان کو خدا کا حکم یہ تھا کہ وہ ایوب کو صرف آزما سکتا ہے، لیکن اس کی جان نہیں لے سکتا۔ اس سے ہم خدا کے کلام کا اختیار دیکھتے ہیں)۔ کیا مزید شامل کرنے کے لیے کچھ ہے؟ (خدا نے آسمانوں اور زمین اور ان میں موجود ہر چیز کو پیدا کرنے کے لیے کلام کا استعمال کیا، اور اس نے انسان سے عہد باندھنے اور انسان کو اپنی برکات دینے کے لیے کلام کہا۔ یہ سب خدا کے کلام کے اختیار کی مثالیں ہیں۔ پھر، ہم نے دیکھا کہ کس طرح خُداوند یسوع نے لعزر کو اپنے مقبرے سے باہر نکلنے کا حکم دیا – یہ ظاہر کرتا ہے کہ زندگی اور موت خُدا کے اختیار میں ہے، کہ شیطان کے پاس زندگی اور موت پر اختیار رکھنے کی کوئی طاقت نہیں ہے، اور یہ کہ خُدا کا کام چاہے جسم میں کیا جائے یا روح میں، اس کا اختیار منفرد ہے)۔ یہ وہ سمجھ بوجھ ہے جو تمہیں رفاقت سننے کے بعد حاصل ہوئی ہے۔ خدا کے اختیار کی بات کرتے ہوئے، لفظ ”اختیار“ کے بارے میں تمہاری سمجھ بوجھ کیا ہے؟ خدا کے اختیار کے دائرہ کار میں خدا جو کرتا ہے اور ظاہر کرتا ہے اسے لوگ کس طرح دیکھتے ہیں؟ (ہم خدا کی قدرت کاملہ اور حکمت کو دیکھتے ہیں)۔ (ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کا اختیار ہمیشہ سے موجود ہے اور یہ واقعی موجود ہے۔ ہم ہر چیز پر خدا کی حکمرانی میں اس کا اختیار بڑے پیمانے پر دیکھتے ہیں، اور جب وہ ہر ایک انسانی زندگی کا اختیار سنبھالتا ہے تو ہم اسے چھوٹے پیمانے پر دیکھتے ہیں۔ خدا درحقیقت انسانی زندگی کے چھ مرحلوں کی منصوبہ بندی کرتا ہے اور ان پر اختیار رکھتا ہے۔ مزید برآں، ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کا اختیار خود خدا کی نمائندگی کرتا ہے، جو منفرد ہے، اور کوئی تخلیق شدہ یا غیر تخلیق شدہ وجود اس کا حامل نہیں ہو سکتا۔ خدا کا اختیار اس کی حیثیت کی ایک علامت ہے)۔ ”خدا کی حیثیت اور خدا کے مقام کی علامتوں“ کے بارے میں تیری سمجھ بوجھ کسی حد تک نظریاتی معلوم ہوتی ہے۔ کیا تم خدا کے اختیار کے بارے میں کوئی ضروری سمجھ بوجھ رکھتے ہو؟ (جب ہم چھوٹے تھے تب سے خدا نے ہم پر نظر رکھی ہے اور ہماری حفاظت کی ہے، اور ہمیں اس میں خدا کا اختیار نظر آتا ہے۔ ہم ان خطرات سے واقف نہیں تھے جو ہم پر گھات لگائے ہوئے تھے، لیکن خدا ہمیشہ پردے کے پیچھے سے ہماری حفاظت کر رہا تھا۔ یہ بھی خدا کا اختیار ہے)۔ بہت اچھے۔ ٹھیک کہا۔

جب ہم خدا کے اختیار کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو ہمارا ارتکاز، ہمارا بنیادی نکتہ کیا ہوتا ہے؟ ہمیں اس پر بحث کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟ اس پر بحث کرنے کا پہلا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں خدا کی حیثیت کو خالق کے طور پر اور تمام چیزوں میں اس کے مقام کو قائم کیا جائے۔ یہ وہی ہے جس کا لوگوں کو، سب سے پہلے، جاننے، دیکھنے اور محسوس کرنے کا علم دیا جا سکتا ہے۔ تو جو کچھ دیکھتا ہے اور تو جو کچھ محسوس کرتا ہے وہ خدا کے اعمال، خدا کے کلام اور ہر چیز پر خدا کے اختیار رکھنے کی وجہ سے آتا ہے۔ لہٰذا، خدا کے اختیار کے ذریعے لوگ جو کچھ دیکھتے، سیکھتے اور جانتے ہیں، اس سے وہ کیا حقیقی سمجھ بوجھ حاصل کرتے ہیں؟ ہم اولین مقصد پر بات کر چکے ہیں۔ دوسرا یہ ہے کہ لوگوں کو خدا کی قدرت اور حکمت کو ان تمام چیزوں کے ذریعے دیکھنے دیں جو خدا نے اپنے اختیار سے کی ہیں اور کہی ہیں اور جن کو قابو کیا ہے۔ اس کا مقصد تجھے یہ دیکھنے کی اجازت دینا ہے کہ خدا ہر چیز پر کتنا طاقتور اور کتنا حکمت والا اور کتنا قابو رکھنے والا ہے۔ خدا کے منفرد اختیار کے بارے میں کیا یہ ہماری پہلے والی بحث کا مرکزی نقطہ اور ارتکاز نہیں تھا؟ اس بحث کو زیادہ وقت نہیں گزرا ہے اور پھر بھی تم میں سے کچھ لوگ اسے بھول گئے ہیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تم نے خدا کے اختیار کی گہری سمجھ بوجھ حاصل نہیں کی ہے۔ حتیٰ کہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ انسان نے خدا کے اختیار کو نہیں دیکھا ہے۔ کیا اب تمہیں کچھ سمجھ بوجھ حاصل ہو گئی ہے؟ جب تو خدا کو اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے دیکھتا ہے، تو تُو واقعی کیا محسوس کرتا ہے؟ کیا تو نے واقعی خدا کی قدرت کو محسوس کیا ہے؟ (ہاں)۔ جب تو اس کا کلام پڑھتا ہے کہ اس نے تمام چیزوں کو کس طرح تخلیق کیا، تو تُو اس کی طاقت کو محسوس کرتا ہے اور تُو اس کی قدرتِ کاملہ کو محسوس کرتا ہے۔ جب تُو لوگوں کی قسمت پر خدا کی حاکمیت دیکھتا ہے، تو تُو کیا محسوس کرتا ہے؟ کیا تو اس کی قدرت اور اس کی حکمت کو محسوس کرتا ہے؟ اگر خدا اس قدرت کا حامل نہ ہوتا، اگر وہ اس حکمت کا حامل نہ ہوتا، تو کیا وہ ہر چیز پر اور انسانوں کی قسمت پر حکمرانی کرنے کا اہل ہوتا؟ خدا قدرت اور حکمت کا حامل ہے، اور اسی لیے اس کے پاس اختیار ہے۔ یہ منفرد ہے۔ تمام مخلوقات میں، کیا تو نے کبھی کسی ایسے شخص یا مخلوق کو دیکھا ہے جس میں خدا کی طرح کی قدرت ہو؟ کیا کوئی شخص یا کوئی چیز ایسی ہے جو آسمانوں اور زمین اور تمام چیزوں کو تخلیق کرنے کی قدرت رکھے، ان کو قابو کر سکے اور ان پر حکومت کر سکے؟ کیا کوئی شخص یا کوئی چیز ایسی ہے جو پوری انسانیت پر حکمرانی کر سکے اور اس کی راہنمائی کر سکے، جو ہر وقت ہر جگہ موجود ہو سکے؟ (نہیں، کوئی نہیں ہے)۔ کیا اب تجھے خدا کے منفرد اختیار کے حقیقی معنی کی سمجھ بوجھ ہے؟ کیا اب تجھے اس کی کچھ سمجھ بوجھ ہے؟ (ہاں)۔ اس سے خدا کے منفرد اختیار کے موضوع پر ہماری پچھلی بات مکمل ہوتی ہے۔

دوسرے حصے میں، ہم نے خدا کے راستباز مزاج کے بارے میں بات کی۔ ہم نے اس موضوع پر زیادہ بحث نہیں کی، کیونکہ، اس مرحلے پر، خدا کا کام بنیادی طور پر عدالت اور تادیب پر مشتمل ہے۔ بادشاہی کے دور میں، خُدا کا راستباز مزاج واضح طور پر اور بڑی تفصیل سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس نے وہ کلام کہا ہے جو اس نے تخلیق کے وقت سے کبھی نہیں کہا تھا؛ اور اُس کا کلام پڑھنے اور تجربہ کرنے والے تمام لوگوں نے اُس کے کلام میں اُس کے راستباز مزاج کو ظاہر ہوتے دیکھا ہے۔ تو، خُدا کے راستباز مزاج کے بارے میں ہماری بحث کا بنیادی نکتہ کیا ہے؟ کیا تم اسے بہت اچھی طرح سمجھتے ہو؟ کیا تم اسے تجربے سے سمجھتے ہو؟ (خدا نے سدوم کو اس لیے جلایا کہ اس وقت کے لوگ بہت زیادہ بدعنوان تھے اور انہوں نے خدا کے غضب کو بھڑکایا تھا۔ اس سے ہم خدا کا راستباز مزاج دیکھتے ہیں)۔ سب سے پہلے، آ ہم ایک نظر ڈالتے ہیں: اگر خدا نے سدوم کو تباہ نہ کیا ہوتا تو کیا تو اُس کے راستباز مزاج کو جاننے کے قابل ہوتا؟ تُو پھر بھی ہوتا۔ تو اسے اس کلام میں دیکھ سکتا ہے جس کا اظہار خدا نے بادشاہی کے دور میں کیا ہے، اور اس عدالت، تادیب اور لعنتوں میں جو اس نے انسان پر بھیجی ہیں۔ کیا تو خُدا کے نینوا کو بچانے میں اس کے راستباز مزاج کو سکتا ہے؟ (ہاں)۔ موجودہ دور میں، لوگ خدا کی کچھ رحمت، محبت اور رواداری کو دیکھ سکتے ہیں، اور لوگ انسان کی توبہ کے بعد خدا کے دل میں آنے والی تبدیلی میں بھی اسے دیکھ سکتے ہیں۔ خدا کے راستباز مزاج کے بارے میں ہماری بحث کا تعارف کروانے کے لیے ان دو مثالوں کو پیش کرنے کے بعد یہ بالکل واضح نظر آتا ہے کہ اس کا راستباز مزاج ظاہر ہو چکا ہے، لیکن اب تک حقیقت میں، خدا کے راستباز مزاج کا جوہر انجیل کی صرف ان دو کہانیوں میں ظاہر ہونے تک محدود نہیں ہے۔ تم نے خدا کے کلام اور اس کے کام میں جو کچھ سیکھا اور دیکھا اور تجربہ کیا ہے، اس سے تم خدا کے راستباز مزاج کو کیسا دیکھتے ہو؟ تم خود اپنے تجربات کی وجہ سے بات کرو۔ (لوگوں کے لیے خدا کے بنائے ہوئے ماحول میں، جب لوگ سچائی تلاش کرنے اور خدا کی مرضی کے مطابق عمل کرنے کے قابل ہوتے ہیں، تو خدا ان کی راہنمائی کرتا ہے، انھیں آگہی عطا کرتا ہے، اور انھیں اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے دلوں میں روشنی محسوس کریں۔ جب لوگ خدا کے خلاف جاتے ہیں اور اس کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کی مرضی کے مطابق عمل نہیں کرتے تو ان کے اندر بہت تاریکی ہوتی ہے، گویا خدا نے انھیں چھوڑ دیا ہے، حتیٰ کہ وہ دعا کرتے ہوئے بھی یہ نہیں جانتے کہ اس سے کیا کہیں۔ لیکن جب وہ اپنے تصورات اور تخیلات کو ایک طرف رکھ کر خدا کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو تب وہ آہستہ آہستہ خدا کا مسکراتا ہوا چہرہ دیکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ اس سے ہم خُدا کے راستباز مزاج کے تقدس کا تجربہ کرتے ہیں۔ خدا مقدس بادشاہی میں ظاہر ہوتا ہے، لیکن وہ اپنے آپ کو ناپاک جگہوں پر چھپا لیتا ہے)۔ (میں خدا کے لوگوں کے ساتھ سلوک کرنے کے انداز میں خدا کا راستباز مزاج دیکھتا ہوں۔ ہمارے بھائی اور بہنیں حیثیت اور صلاحیت میں مختلف ہیں، اور خدا ہم میں سے ہر ایک سے کیا چاہتا ہے وہ بھی مختلف ہے۔ ہم سب مختلف درجات پر خدا کی آگہی حاصل کرنے کے قابل ہوتے ہیں، اور اس میں، مجھے خدا کی راستبازی نظر آتی ہے، کیونکہ ہم انسان اس قابل نہیں ہیں کہ انسان کے ساتھ اس طرح کا سلوک کریں، لیکن خدا اس قابل ہے)۔ اب، تم سب کے پاس کچھ عملی علم ہے جسے تم واضح انداز میں بیان کر سکتے ہو۔

کیا تم جانتے ہو کہ خدا کے راستباز مزاج کو سمجھنے کے لیے کون سا علم کلیدی ہے؟ تجربہ ہونے کی وجہ سے اس موضوع پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے، لیکن پہلے چند اہم نکات ہیں جو مجھے تمہیں بتانا ضروری ہیں۔ خدا کے راستباز مزاج کو سمجھنے کے لیے، سب سے پہلے خدا کے جذبات کو سمجھنا ضروری ہے: وہ کس چیز سے نفرت کرتا ہے، وہ کس چیز سے کراہت محسوس کرتا ہے، وہ کس چیز سے محبت کرتا ہے، وہ کس کے ساتھ رواداری اور رحم کا سلوک کرنے والا ہے، اور وہ کس قسم کے شخص پر یہ رحم کرتا ہے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے۔ انسان کو یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ خدا خواہ کتنا ہی پیار کرنے والا کیوں نہ ہو، لوگوں کے لیے اس کی کتنی ہی شفقت اور محبت کیوں نہ ہو، خدا یہ برداشت نہیں کرتا کہ کوئی بھی اس کے مرتبے اور مقام کی توہین کرے، اور نہ ہی وہ یہ برداشت کرتا ہے کہ کوئی اس کے وقار کو ٹھیس پہنچائے۔ اگرچہ خُدا لوگوں سے محبت کرتا ہے، لیکن وہ اُن سے زیادہ لاڈ پیار نہیں کرتا۔ وہ لوگوں کو اپنی محبت، اپنی رحمت، اور اپنی رواداری دیتا ہے، لیکن اس نے کبھی ان کی نازبرداری نہیں کی؛ خدا کے اپنے اصول اور اپنی حدود ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ تو نے خدا کی کتنی ہی محبت محسوس کی ہے، چاہے وہ محبت کتنی ہی گہری کیوں نہ ہو، تجھے خدا کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیے جیسا کہ تو کسی دوسرے شخص کے ساتھ کرتا ہے۔ حالانکہ یہ سچ ہے کہ خدا لوگوں کے ساتھ انتہائی یگانگت کے ساتھ پیش آتا ہے، لیکن اگر کوئی شخص خدا کو محض ایک اور شخص کے طور پر دیکھتا ہے، گویا وہ محض ایک اور تخلیق شدہ مخلوق ہے، جیسے کہ دوست یا عبادت کی ایک چیز، تو خدا اس سے اپنا چہرہ چھپا لے گا اور اسے چھوڑ دے گا۔ یہ اس کا مزاج ہے، اور لوگوں کو اس مسئلے کو بے سوچے سمجھے نہیں لینا چاہیے۔ لہذا، ہم اکثر اس طرح کے الفاظ دیکھتے ہیں جیسے خدا نے اپنے مزاج کے بارے میں کہے ہیں: اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تو نے کتنی سڑکوں پر سفر کیا ہے، تو نے کتنا کام کیا ہے یا تو نے کتنی تکلیفیں برداشت کی ہیں، اگر تو ایک بار خدا کے مزاج کو برہم کرے گا، تو وہ تم میں سے ہر ایک کو اس کے کیے کی بنیاد پر بدلہ دے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا لوگوں کے ساتھ انتہائی یگانگت کے ساتھ پیش آتا ہے، پھر بھی لوگوں کو خدا کے ساتھ دوست یا رشتہ دار والا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔ خدا کو اپنا ”دوست“ مت کہہ۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تجھے اس کی طرف سے کتنی ہی محبت ملی ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اس نے تیرے ساتھ کتنی ہی رواداری برتی ہے، تجھے کبھی بھی خدا کے ساتھ اپنے دوست کی طرح پیش نہیں آنا چاہیے۔ یہ خُدا کا راستباز مزاج ہے۔ کیا تو سمجھتا ہے؟ کیا مجھے اس کے متعلق مزید کہنے کی ضرورت ہے؟ کیا تجھے اس معاملے کی پہلے سے کوئی سمجھ بوجھ ہے؟ عام طور پر، لوگوں کے لیے یہ غلطی کرنا سب سے آسان ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ عقائد کو سمجھتے ہیں یا انہوں نے اس مسئلے پر پہلے کبھی غور کیا ہے یا نہیں۔ جب لوگ خدا کو ناراض کرتے ہیں، تو یہ کسی ایک واقعہ یا ایک بات کی وجہ سے نہیں ہو سکتا ہے، بلکہ ان کے رویے اور اس حالت کی وجہ سے ہوتا ہے جس میں وہ ہوتے ہیں۔ یہ بہت خوفناک چیز ہے۔ کچھ لوگوں کو یقین ہے کہ ان کے پاس خدا کی سمجھ بوجھ ہے، وہ اس کے بارے میں کچھ علم رکھتے ہیں، اور وہ کچھ ایسے کام بھی کر سکتے ہیں جن سے خدا راضی ہو۔ وہ خود کو خُدا کے برابر محسوس کرنے لگتے ہیں اور یہ کہ اُنہوں نے چالاکی سے اپنے آپ کو خُدا کا دوست بنا لیا ہے۔ اس قسم کے احساسات انتہائی غلط ہیں۔ اگر تمہیں اس کی گہری سمجھ بوجھ نہیں ہے – اگر تو اسے واضح طور پر نہیں سمجھتا ہے – تو تُو بہت آسانی سے خدا کو ناراض کر لے گا اور اس کے راستباز مزاج کو برہم کرے گا۔ اب تو یہ سمجھتا ہے، ہاں؟ کیا خدا کا راستباز مزاج منفرد نہیں ہے؟ کیا یہ کبھی بھی انسان کے کردار یا اخلاقی حیثیت کے برابر ہو سکتا ہے؟ یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا، تجھے یہ نہیں بھولنا چاہیے، اس سے فرق نہیں پڑتا کہ خدا لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے یا وہ لوگوں کے بارے میں کیسے سوچتا ہے، خدا کا مقام، اختیار اور حیثیت کبھی نہیں بدلتی۔ بنی نوع انسان کے لیے، خدا ہمیشہ ہر چیز کا خداوند اور خالق ہے۔

تم نے خدا کے تقدس کے بارے میں کیا سیکھا ہے؟ اس حصے میں، ”خدا کے تقدس“ کے بارے میں اس حقیقت کے علاوہ کہ شیطان کی خباثت کو موازنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، خدا کے تقدس کے بارے میں ہماری بحث کا بنیادی مواد کیا تھا؟ کیا یہ نہیں ہے کہ جو خدا کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے؟ کیا جو کچھ خدا کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، خود خدا کے لیے منفرد ہے؟ (ہاں)۔ یہ وہی ہے جو تخلیق شدہ مخلوقات کے پاس نہیں ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ خدا کا تقدس منفرد ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو تجھے سمجھنے کے قابل ہونا چاہیے۔ ہم نے خدا کے تقدس کے موضوع پر تین اجتماعات کیے ہیں۔ کیا تم اپنے الفاظ میں، اپنی سمجھ بوجھ سے یہ بیان کر سکتے ہو، کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ خدا کا تقدس کیا ہے؟ (آخری بار جب خُدا نے ہم سے بات کی تو ہم اُس کے آگے جھک گئے۔ خدا نے ہمیں سجدہ کرنے اور اپنی عبادت کرنے کے لیے جھکنے کے بارے میں سچائی کی رفاقت دی۔ ہم نے دیکھا کہ اس کے تقاضوں کو پورا کرنے سے پہلے اس کی عبادت کے لیے جھکنا اس کی مرضی کے مطابق نہیں تھا، اور اس سے ہم نے خدا کا تقدس دیکھا)۔ بہت سچ ہے۔ کیا کچھ اور ہے؟ (انسانیت کے لیے خدا کے کلام میں، ہم دیکھتے ہیں کہ وہ صاف اور واضح طور پر بات کرتا ہے۔ وہ سیدھی اور برمحل بات کرتا ہے۔ شیطان گول مول بات کرتا ہے اور جھوٹ سے بھرا ہوا ہے۔ پچھلی بار جب ہم خدا کے سامنے سجدہ ریز ہوئے تو جو کچھ ہوا اس سے ہم نے دیکھا کہ اس کا کلام اور اس کے اعمال ہمیشہ اصولی ہوتے ہیں۔ جب وہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں کیسے کام کرنا چاہیے، ہمیں کیسے مشاہدہ کرنا چاہیے، اور ہمیں کیسے عمل کرنا چاہیے، تو وہ ہمیشہ واضح اور جامع ہوتا ہے۔ لیکن لوگ ایسے نہیں ہیں۔ شیطان کی طرف سے بنی نوع انسان کے بدعنوان بنائے جانے کے بعد سے، انھوں نے اپنے ذاتی اغراض و مقاصد اور اپنی ذاتی خواہشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے عمل کیا اور بات کی۔ جس طرح سے خدا بنی نوع انسان کی دیکھ بھال کرتا ہے، دھیان رکھتا ہے اور حفاظت کرتا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ خدا جو کچھ بھی کرتا ہے وہ مثبت اور واضح ہوتا ہے۔ یہ اس طریقے سے ہے کہ ہم خدا کے تقدس کے جوہر کو ظاہر ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں)۔ ٹھیک کہا ہے! کیا کسی اور کے پاس شامل کرنے کے لیے کچھ ہے؟ (خدا کی جانب سے شیطان کے برے جوہر کو بے نقاب کرنے کے ذریعے، ہم خدا کے تقدس کو دیکھتے ہیں، ہم شیطان کی برائی کا مزید علم حاصل کرتے ہیں، اور ہم بنی نوع انسان کے مصائب کا منبع دیکھتے ہیں۔ ماضی میں، ہمیں شیطان کے زیر تسلط انسان کے مصائب کا علم نہیں تھا۔ خدا کے اس کے ظاہر کرنے کے بعد ہی ہم نے دیکھا کہ شہرت اور دولت کے حصول کی جستجو کی وجہ سے آنے والے تمام مصائب شیطان کا کام ہیں۔ تب ہی ہم نے محسوس کیا کہ خدا کا تقدس ہی بنی نوع انسان کی حقیقی نجات ہے)۔ کیا اس میں کسی اور چیز کا اضافہ کرنا ہے؟ (انسانیت، جو بدعنوان ہے، خدا کی حقیقی معرفت اور محبت سے محروم ہے۔ کیونکہ ہم خدا کے تقدس کے جوہر کو نہیں سمجھتے، اور کیونکہ جب ہم عبادت کرتے ہوئے اس کے آگے سجدہ کرتے ہیں اور جھکتے ہیں، تو ہم ناپاک خیالات اور خفیہ اغراض و مقاصد کے ساتھ ایسا کرتے ہیں، اور خدا ناراض ہوتا ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ خدا شیطان سے مختلف ہے؛ شیطان چاہتا ہے کہ لوگ اس سے محبت کریں اور اس کی خوشامد کریں، اور اس کی عبادت کرتے ہوئے اسے سجدہ کریں۔ شیطان کے کوئی اصول نہیں ہیں۔ اس سے بھی، مجھے خدا کے تقدس کا علم ہوا ہے)۔ بہت اچھا! اب جب کہ ہم نے خدا کے تقدس کے بارے میں رفاقت کر لی ہے، تو کیا تم خدا کے مکمل پن کو دیکھتے ہو؟ کیا تم دیکھتے ہو کہ کس طرح خدا تمام مثبت چیزوں کا سرچشمہ ہے؟ کیا تم دیکھ سکتے ہو کہ خدا کس طرح سچائی اور انصاف کا مجسم ہے؟ کیا تم دیکھتے ہو کہ خدا محبت کا سرچشمہ کیسے ہے؟ کیا تم دیکھتے ہو کہ خدا جو سب کچھ کرتا ہے، جو سب کچھ وہ بیان کرتا ہے، اور جو سب کچھ وہ ظاہر کرتا ہے وہ بے عیب ہے؟ (ہم دیکھتے ہیں)۔ جو میں نے خدا کے تقدس کے بارے میں کہا ہے یہ اس کے اہم نکات ہیں۔ آج، یہ الفاظ تمہیں محض عقیدے کی طرح لگ سکتے ہیں لیکن ایک دن، جب تو خود سچے خدا کا اس کے کلام اور اس کے کام سے تجربہ اور مشاہدہ کرے گا تو تُو اپنے دل کی گہرائیوں سے کہے گا کہ خدا مقدس ہے، کہ خدا بنی نوع انسان سے مختلف ہے، اور یہ کہ اس کا دل، مزاج اور جوہر سب مقدس ہیں۔ یہ تقدس انسان کو خدا کے مکمل پن کو دیکھنے کا موقع دیتا ہے اور یہ دیکھنے کی اجازت دیتا ہے کہ خدا کے تقدس کا جوہر بے عیب ہے۔ اس کے تقدس کا جوہر اس بات کا تعین کرتا ہے کہ وہ خود خدا ہے، منفرد، اور یہ انسان کو یہ دیکھنے کی اجازت دیتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ وہ خود منفرد خدا ہے۔ کیا یہ بنیادی نکتہ نہیں ہے؟ (یہ ہے)۔

آج ہم نے گزشتہ رفاقتوں سے کئی موضوعات کا جائزہ لیا ہے۔ اس سے آج کے جائزے کا اختتام ہوتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ تم سب ہر شق اور موضوع کے اہم نکات کو ذہن میں رکھو گے۔ ان کو محض عقیدہ نہ سمجھو؛ جب تمہارے پاس کچھ فارغ وقت ہو تو ان کو توجہ سے پڑھو اور ان پر غور کرو۔ ان کو اپنے دل میں یاد رکھو اور ان پر عمل کرو – تب تم ان سب چیزوں کا صحیح معنوں میں تجربہ کرو گے جو میں نے خدا کے اپنے مزاج کو ظاہر کرنے اور یہ ظاہر کرنے کی حقیقت کے بارے میں کہا ہے کہ اس کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے۔ تاہم، اگر تم انھیں اپنی کاپی میں صرف لکھ لیتے ہو اور ان کو پڑھتے نہیں ہو یا ان پر غور نہیں کرتے ہو، تو تم انھیں اپنے لیے کبھی حاصل نہیں کرو گے۔ تم اب سمجھ گئے ہو، ہاں؟ ان تینوں موضوعات پر بات چیت کرنے کے بعد، ایک بار جب لوگوں کو خدا کی حیثیت، جوہر، اور مزاج کے بارے میں ایک عمومی – یا حتیٰ کہ مخصوص – فہم حاصل ہو جائے تو تب ہی ان کی خدا کے بارے میں سمجھ بوجھ مکمل ہو گی؟ (نہیں)۔ اب، خدا کے بارے میں تمہاری اپنی سمجھ بوجھ میں، کیا کوئی اور شعبے ایسے ہیں جہاں تم محسوس کرتے ہو کہ تمہیں زیادہ گہری سمجھ بوجھ کی ضرورت ہے؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اب جب کہ تمہیں خدا کے اختیار، اس کے راستباز مزاج اور اس کے تقدس کا ادراک ہو گیا ہے، تو شاید اس کی منفرد حیثیت اور مقام تمہارے ذہن میں قائم ہو گیا ہو؛ پھر بھی تمہارے لیے یہ باقی ہے کہ تم اپنے تجربے کے ذریعے اس کے اعمال، اس کی قدرت اور اس کے جوہر کے بارے میں اپنے علم کو دیکھو، سمجھو اور گہرا کرو۔ اب جب کہ تم نے ان رفاقتوں کو سن لیا ہے، تمہارے دلوں میں کم و بیش ایک جزوِ ایمان قائم ہو گیا ہے: خدا واقعی موجود ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ ہر چیز کا انتظام کرتا ہے۔ کوئی بھی اُس کے راستباز مزاج کو برہم نہیں کر سکتا؛ اُس کا تقدس ایسا یقینی ہے کہ جس پر کوئی سوال نہیں اٹھا سکتا۔ یہ حقائق ہیں۔ ان رفاقتوں سے انسانوں کے دلوں میں خدا کی حیثیت اور مقام کی ایک بنیاد رکھنے کا موقع ملتا ہے۔ ایک بار جب یہ بنیاد قائم ہو جائے تو لوگوں کو مزید سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

کہانی 1: ایک بیج، زمین، ایک درخت، سورج کی روشنی، پرندے اور انسان

آج میں تمہارے ساتھ ایک نئے موضوع کے بارے میں رفاقت کروں گا۔ یہ موضوع کیا ہے؟ اس کا عنوان ہے: ”خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے۔“ کیا یہ موضوع قدرے بڑا لگتا ہے؟ کیا یہ تمہاری پہنچ سے تھوڑا سا باہر محسوس ہوتا ہے؟ ”خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے۔“ – یہ موضوع لوگوں کو کسی حد تک بعید لگ سکتا ہے، لیکن ان تمام لوگوں کو یہ ضرور سمجھنا چاہیے جو خدا کی پیروی کرتے ہیں، کیونکہ یہ خدا کے بارے میں ہر ایک شخص کے علم اور اس کے خدا کو مطمئن کرنے اور اس کی تعظیم کرنے کے قابل ہونے سے لازم و ملزوم حیثیت میں جڑا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس موضوع پر رفاقت کرنے جا رہا ہوں۔ یہ عین ممکن ہے کہ لوگوں کو اس موضوع کے بارے میں ایک سادہ سی، پیشگی سمجھ بوجھ ہو، یا شاید وہ اس سے کسی سطح پر واقف ہوں۔ یہ علم یا آگاہی، کچھ لوگوں کے ذہنوں میں، ایک سادہ یا کم درجے کی سمجھ بوجھ کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے دوسروں کے دلوں میں کچھ خاص تجربات ہوں جن کی وجہ سے ان کا اس موضوع کے ساتھ گہرا ذاتی آمنا سامنا ہوا ہو۔ لیکن اس طرح کا پہلے سے علم، چاہے گہرا ہو یا سطحی، یک طرفہ ہوتا ہے اور کافی حد تک مخصوص نہیں ہوتا ہے۔ لہذا، اسی لیے میں نے اس موضوع کو رفاقت کے لیے منتخب کیا ہے: تاکہ زیادہ گہری اور زیادہ مخصوص تفہیم تک پہنچنے میں تمہاری مدد ہو سکے۔ میں اس موضوع کے بارے میں تمہارے ساتھ رفاقت کے لیے ایک خاص طریقہ استعمال کروں گا، ایسا طریقہ جو ہم نے پہلے استعمال نہیں کیا ہے، ایسا طریقہ جو تمہیں تھوڑا سا غیر معمولی، یا تھوڑا سا غیر آرام دہ محسوس ہو سکتا ہے۔ تم بعد میں جان لو گے کہ میرا کیا مطلب ہے۔ کیا تمہیں کہانیاں پسند ہیں؟ (ہم پسند کرتے ہیں)۔ ٹھیک ہے، چونکہ تم سب انھیں بہت پسند کرتے ہو اس لیے ایسا لگتا ہے کہ کہانیاں سنانے کا میرا انتخاب مناسب ہے۔ اب، ہم شروع کرتے ہیں۔ تمہیں لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں تم سے کہتا ہوں کہ تم پرسکون رہو، اور بےچین نہ ہو۔ اگر تمہیں لگتا ہے کہ تمہارا اردگرد کا ماحول یا تمہارے آس پاس کے لوگ تمہاری توجہ ہٹا سکتے ہیں تو تم اپنی آنکھیں بند کر سکتے ہو۔ میرے پاس تمہیں بتانے کے لیے ایک شاندار کہانی ہے۔ یہ ایک بیج، زمین، ایک درخت، سورج کی روشنی، پرندوں اور انسان کی کہانی ہے۔ اس کے مرکزی کردار کون ہیں؟ (ایک بیج، زمین، ایک درخت، سورج کی روشنی، پرندے اور انسان)۔ کیا خدا ان میں سے ایک ہے؟ (نہیں)۔ اس کے باوجود، مجھے یقین ہے کہ تم اس کہانی کو سننے کے بعد تازہ دم اور مطمئن محسوس کرو گے۔ اب براہ کرم خاموشی سے سنو۔

ایک چھوٹا سا بیج زمین پر گرا۔ ایک زبردست بارش ہوئی، اور بیج اُگ کر ایک نرم کونپل بن گیا، جب کہ اس کی جڑیں آہستہ آہستہ نیچے کی مٹی میں پھیل گئیں۔ ظالمانہ ہواؤں اور سخت بارشوں کو برداشت کرتے ہوئے، چاند کے گھٹنے اور بڑھنے کے ساتھ موسموں کی تبدیلی کا مشاہدہ کرتے ہوئے کونپل وقت کے ساتھ لمبی ہو گئی۔ گرمیوں میں، زمین نے پانی کے تحفے دیے تاکہ کونپل موسم کی جھلسا دینے والی گرمی کو برداشت کر سکے۔ اور زمین کی وجہ سے کونپل گرمی سے مغلوب نہیں ہوئی اور یوں موسمِ گرما کی بدترین گرمی گزر گئی۔ جب موسم سرما آیا تو زمین نے کونپل کو اپنی گرم آغوش میں لے لیا، اور زمین اور کونپل نے ایک دوسرے کو مضبوطی سے تھام لیا۔ زمین نے کونپل کو گرمائش دی، اور یوں وہ موسم کی شدید سردی سے بچ گئی، اور اسے سردیوں کی آندھیوں اور برفانی طوفانوں سے نقصان نہیں پہنچا۔ زمین کی پناہ میں، کونپل بہادری اور خوشی سے بڑھی؛ زمین نے بے لوث ہو کر پرورش کی، اور یہ صحت مند اور مضبوط ہو گئی۔ بارش میں گنگناتے، اور ہوا میں ناچتے اور جھومتے ہوئے یہ خوشی سے بڑھتی گئی۔ کونپل اور زمین کا انحصار ایک دوسرے پر ہے۔۔۔

سالہا سال بیت گئے، اور کونپل ایک بلند و بالا درخت بن گئی۔ یہ زمین پر مضبوط کھڑا تھا، جس میں ان گنت پتوں کی طاقتور شاخیں تھیں۔ درخت کی جڑیں اب بھی زمین میں اسی طرح دبی ہوئی تھیں جیسے وہ پہلے تھیں، اور اب وہ نیچے کی مٹی میں گہرائی میں چلی گئیں۔ زمین، جس نے کبھی ننھی کونپل کی حفاظت کی تھی، اب ایک طاقتور درخت کی بنیاد تھی۔

سورج کی ایک کرن درخت پر چمکی۔ درخت نے اپنے جسم کو ہلایا اور اپنے بازو کھل کر باہر کی طرف پھیلا کر سورج سے روشن ہوا میں گہرا سانس لیا۔ نیچے کی زمین نے درخت کے ساتھ سانس لیا، اور زمین نے تجدید محسوس کی۔ تبھی شاخوں کے درمیان سے ہوا کا ایک تازہ جھونکا آیا اور درخت خوشی سے جھوم اٹھا، توانائی سے لہرانے لگا۔ درخت اور سورج کی روشنی کا ایک دوسرے پر انحصار ہے۔۔۔

لوگ درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ کر تیز، خوشبودار ہوا میں آرام کر رہے تھے۔ ہوا نے ان کے دلوں اور پھیپھڑوں کو صاف کر دیا، اور اس نے ان کے اندر موجود خون کو صاف کر دیا، اور ان کے جسم اب نہ تو کاہل تھے اور نہ ہی مجبور تھے۔ لوگ اور درخت ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔۔۔

چھوٹے چھوٹے چہچہاتے پرندوں کا جھنڈ درخت کی شاخوں پر اتر آیا۔ شاید وہ کسی شکاری سے بچنے کے لیے، یا اپنے بچوں کی افزائش اور پرورش کے لیے وہاں اترے تھے، یا شاید وہ محض کچھ دیر آرام کر رہے تھے۔ پرندے اور درخت ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔۔۔

درخت کی جڑیں، بل کھا گئیں اور الجھ گئیں، زمین میں گہرائی تک نیچے چلی گئیں۔ اپنے تنے کے ساتھ، اس نے زمین کو ہوا اور بارش سے پناہ دی، اور اس نے اپنے پیروں کے نیچے زمین کی حفاظت کے لیے اپنے بازوؤں کو پھیلا دیا۔ درخت نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ زمین اس کی ماں تھی۔ وہ ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں، اور وہ کبھی الگ نہیں ہوں گے…

اور یوں یہ کہانی ختم ہو جاتی ہے۔ میں نے جو کہانی سنائی وہ ایک بیج، زمین، ایک درخت، سورج کی روشنی، پرندوں اور انسان کے بارے میں تھی۔ اس میں صرف چند مناظر تھے۔ اس نے تم پر کیا احساسات چھوڑے؟ جب میں اس طریقے سے بات کرتا ہوں تو کیا تم سمجھتے ہو کہ میں کیا کہہ رہا ہوں؟ (ہم سمجھتے ہیں)۔ براہ کرم، اپنے جذبات کے بارے میں بات کرو۔ یہ کہانی سننے کے بعد تمہیں کیا محسوس ہوا؟ میں پہلے تمہیں یہ بتاؤں گا کہ اس کہانی کے تمام کرداروں کو دیکھا اور چھوا جا سکتا ہے؛ وہ حقیقی چیزیں ہیں، استعارے نہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ تم میری بات پر غور کرو۔ میری کہانی میں کوئی چیز خفیہ نہیں تھی، اور اس کے اہم نکات کو کہانی کے چند جملوں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ (ہم نے جو کہانی سنی ہے وہ ایک خوبصورت تصویر کی عکاسی کرتی ہے۔ ایک بیج زندہ ہوتا ہے اور جیسے جیسے یہ بڑھتا ہے، وہ سال کے چار موسموں کا تجربہ کرتا ہے: بہار، گرمی، خزاں اور سردی۔ زمین کونپل بننے والے بیج کو ماں کی طرح پالتی ہے۔ یہ سردیوں میں کونپل کو گرمائش مہیا کرتی ہے تاکہ یہ سردی سے بچ سکے۔ کونپل کے درخت بننے کے بعد، دھوپ کی ایک کرن اس کی شاخوں کو چھوتی ہے، جس سے یہ بہت خوش ہوتا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ خدا کی بے شمار مخلوق میں سے زمین بھی زندہ ہے اور یہ کہ درخت اور یہ ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ میں اس سخت گرمی کو بھی دیکھتا ہوں جو سورج کی روشنی درخت کو عطا کرتی ہے، اور میں دیکھتا ہوں کہ پرندے، جو کہ اگرچہ عام مخلوق ہیں، درخت اور انسانوں کے ساتھ ایک کامل ہم آہنگی کی تصویر بناتے ہیں۔ جب میں نے یہ کہانی سنی تو یہ وہ احساسات ہیں جو میرے دل میں تھے؛ میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ سب چیزیں واقعی زندہ ہیں)۔ خوب کہا! کیا کسی کے پاس اضافہ کرنے کے لیے کچھ اور ہے؟ (ایک بیج کے پھوٹنے اور ایک بلند و بالا درخت بننے کی اس کہانی میں، میں خدا کی تخلیق کی کرامت دیکھتا ہوں۔ میں دیکھتا ہوں کہ خدا نے تمام چیزوں کو ایک دوسرے سے تقویت دی ہے اور ایک دوسرے پر منحصر کیا ہے، اور یہ کہ تمام چیزیں جڑی ہوئی ہیں اور ایک دوسرے کی خدمت کرتی ہیں۔ میں خدا کی حکمت، اس کی کرامت دیکھتا ہوں، اور میں دیکھتا ہوں کہ وہ سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے)۔

ہر وہ چیز جس کے بارے میں میں نے ابھی بات کی ہے ایسی چیز ہے جو تم پہلے دیکھ چکے ہو۔ بیج، مثال کے طور پر – وہ درخت بنتے ہیں، اور اگرچہ تم اس عمل کی ہر تفصیل کو نہیں دیکھ سکتے، مگر تم جانتے ہو کہ ایسا ہوتا ہے، کیا تم نہیں جانتے؟ تم زمین اور سورج کی روشنی کے بارے میں بھی جانتے ہو۔ درخت پر بیٹھے پرندوں کی تصویر ایسی چیز ہے جو سب نے دیکھ رکھی ہے، ہاں؟ اور درخت کے سائے میں خود کو ٹھنڈا کرنے والے لوگوں کی تصویر – یہ وہ چیز ہے جو تم سب نے دیکھی ہوئی ہے، ہاں؟ (ہاں)۔ تو، جب یہ تمام چیزیں ایک ہی تصویر میں ہوں، تو وہ تصویر کیا احساس پیدا کرتی ہے؟ (ہم آہنگی کا ایک احساس)۔ کیا ایسی تصویر میں ہر ایک چیز خدا کی طرف سے آتی ہے؟ (ہاں)۔ چونکہ وہ خدا کی طرف سے آتی ہیں، اس لیے خدا ان تمام مختلف چیزوں کے زمینی وجود کی قدر و اہمیت کو جانتا ہے۔ جب خدا نے تمام چیزوں کو تخلیق کیا، جب اس نے منصوبہ بنایا اور ہر چیز کو تخلیق کیا، تو اس نے ارادے کے ساتھ ایسا کیا؛ اور جب اس نے ان چیزوں کو تخلیق کیا تو ہر ایک زندگی سے بھرپور تھی۔ اس نے جو ماحول انسانیت کے موجود رہنے کے لیے بنایا، جیسا کہ ہماری کہانی میں بیان کیا گیا ہے، وہ ایک ایسا ماحول ہے جہاں بیج اور زمین ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں، جہاں زمین بیجوں کی پرورش کر سکتی ہے اور بیج زمین سے جڑے ہوتے ہیں۔ یہ رشتہ خدا کی طرف سے اپنی تخلیق کے بالکل آغاز میں ہی مقرر کر دیا گیا تھا۔ درخت، سورج کی روشنی، پرندوں اور انسانوں کا ایک منظر اس زندہ ماحول کی عکاسی کرتا ہے جسے خدا نے بنی نوع انسان کے لیے تخلیق کیا ہے۔ اول، درخت زمین کو چھوڑ نہیں سکتا اور نہ ہی سورج کی روشنی کے بغیر رہ سکتا ہے۔ تو، درخت کی تخلیق میں خدا کا کیا مقصد تھا؟ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ صرف زمین کے لیے ہے؟ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ صرف پرندوں کے لیے ہے؟ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ صرف لوگوں کے لیے ہے؟ (نہیں)۔ ان کے درمیان کیا تعلق ہے؟ ان کے درمیان تعلق ایک دوسرے کو مضبوط کرنا، ایک دوسرے پر انحصار کرنا اور ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہونا ہے۔ یعنی زمین، درخت، سورج کی روشنی، پرندے اور انسان ایک دوسرے کے وجود اور پرورش کے لیے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ درخت زمین کی حفاظت کرتا ہے، اور زمین درخت کی پرورش کرتی ہے؛ سورج کی روشنی درخت کو فراہم کرتی ہے، جب کہ درخت سورج کی روشنی سے تازہ ہوا حاصل کرتا ہے اور زمین پر سورج کی جھلسا دینے والی گرمی کو کم کرتا ہے۔ آخر میں اس سے فائدہ کس کو ہوتا ہے؟ یہ بنی نوع انسان ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟ یہ ان اصولوں میں سے ایک ہے جو اس ماحول کی بنیاد قائم کرتا ہے جس میں بنی نوع انسان رہتا ہے، جسے خدا نے تخلیق کیا ہے؛ خدا آغاز سے ہی اس کا اسی طرح کا ارادہ کیا تھا۔ اگرچہ یہ ایک سادہ سی تصویر ہے، لیکن ہم اس کے اندر خدا کی حکمت اور اس کے ارادے کو دیکھ سکتے ہیں۔ بنی نوع انسان زمین کے بغیر، یا درختوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور پرندوں اور سورج کی روشنی کے بغیر رہنا تو دور کی بات ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ اگرچہ یہ صرف ایک کہانی ہے، لیکن اس میں جو کچھ دکھایا گیا ہے وہ خدا کی آسمانوں اور زمین اور تمام چیزوں کی تخلیق کا ایک جہانِ خُرد ہے اور خدا کا ایک ایسے ماحول کا تحفہ ہے جس میں بنی نوع انسان رہ سکتا ہے۔

بنی نوع انسان کے لیے ہی خدا نے آسمان اور زمین اور تمام چیزوں نیز رہنے کے لیے ایک ماحول کو تخلیق کیا۔ سب سے پہلے، ہماری کہانی نے جس اہم نکتے پر توجہ دی ہے وہ ایک دوسرے کو مضبوط کرنا، ایک دوسرے پر انحصار کرنا اور تمام چیزوں کی پُرامن بقائے باہمی ہے۔ اس اصول کے تحت بنی نوع انسان کے وجود کا ماحول محفوظ ہے؛ یہ موجود اور برقرار رہ سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے، بنی نوع انسان ترقی کر سکتا ہے اور افزائشِ نسل کر سکتا ہے۔ جو تصویر ہم نے دیکھی وہ ایک درخت، زمین، سورج کی روشنی، پرندے اور انسان کی اکٹھی تھی۔ کیا خدا اس تصویر میں تھا؟ کسی نے اسے وہاں نہیں دیکھا۔ لیکن اس منظر میں چیزوں کے ایک دوسرے کو مضبوط کرنے، ایک دوسرے پر انحصار کرنے کو دیکھا جا سکتا ہے؛ اس اصول میں خدا کے وجود اور حاکمیت کو دیکھا جا سکتا ہے۔ خدا تمام چیزوں کی زندگی اور وجود کو محفوظ رکھنے کے لیے ایسا اصول اور ایسا ضابطہ استعمال کرتا ہے۔ اس طرح وہ تمام چیزوں اور بنی نوع انسان کے لیے مہیا کرتا ہے۔ کیا یہ کہانی ہمارے مرکزی موضوع سے منسلک ہے؟ سطحی طور پر ایسا نہیں لگتا، لیکن حقیقت میں، وہ اصول جس کے تحت خدا نے تمام چیزوں کو پیدا کیا اور ہر چیز پر اس کی حاکمیت، اس کے سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہونے سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔ یہ حقائق لازم و ملزوم ہیں۔ اب تم نے کچھ سیکھنا شروع کر دیا ہے!

خدا ان قوانین کا حکم دیتا ہے جو سب چیزوں کے عمل کا تعین کرتے ہیں؛ وہ ان اصولوں کا حکم دیتا ہے جو ہر چیز کی بقا کا تعین کرتے ہیں؛ وہ تمام چیزوں پر اختیار رکھتا ہے، اور ان دونوں کو ایک دوسرے کو مضبوط کرنے اور ایک دوسرے پر انحصار کرنے کے لیے مقرر کرتا ہے، تاکہ وہ فنا نہ ہو جائیں یا غائب نہ ہوں۔ صرف اسی طرح انسانیت زندہ رہ سکتی ہے؛ صرف اسی طرح وہ ایسے ماحول میں خدا کی راہنمائی میں رہ سکتی ہے۔ خدا عمل کے ان اصولوں کا مالک ہے اور نہ کوئی ان میں مداخلت کر سکتا ہے اور نہ ہی انھیں بدل سکتا ہے۔ صرف خدا ہی ان قوانین کو جانتا ہے اور صرف خدا ہی ان کا انتظام کرتا ہے۔ جب درختوں پر کونپلیں پھوٹیں گی؛ جب بارش ہو گی؛ تو زمین پودوں کو کتنا پانی اور کتنے غذائی اجزا دے گی۔ پتے کس موسم میں گریں گے؟ درخت کس موسم میں پھل دیں گے؛ سورج کی روشنی درختوں کو کتنے غذائی اجزا دے گی؛ سورج کی روشنی سے خوراک حاصل کرنے کے بعد درخت کیا خارج کریں گے – یہ سب چیزیں خدا کی طرف سے پہلے سے مقرر کر دی گئی تھیں جب اس نے تمام چیزوں کو تخلیق کیا تھا، ایسے اصولوں کے طور پر جن کی خلاف ورزی کوئی نہیں کر سکتا۔ وہ چیزیں جو خدا نے تخلیق کی ہیں، خواہ جاندار ہوں یا انسان کی نظر میں، غیر جاندار، اس کے ہاتھ میں بیٹھی ہیں، جہاں وہ انھیں قابو میں رکھتا ہے اور ان پر حکومت کرتا ہے۔ کوئی بھی ان اصولوں کو تبدیل نہیں کر سکتا یا ان کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب خدا نے تمام چیزوں کو تخلیق کیا، تو اس نے پہلے سے طے کر لیا کہ زمین کے بغیر درخت جڑیں نہیں دبا سکتا، اگ نہیں سکتا اور بڑھ نہیں سکتا؛ کہ اگر زمین پر درخت نہ ہوتے تو وہ خشک ہو جاتی؛ کہ درخت کو پرندوں کا گھر بنبا چاہیے اور ایک ایسی جگہ جہاں وہ تیز ہوا سے پناہ لے سکیں۔ کیا ایک درخت زمین کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے؟ بالکل نہیں۔ کیا یہ سورج یا بارش کے بغیر رہ سکتا ہے؟ یہ بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ سب چیزیں بنی نوع انسان کے لیے ہیں، بنی نوع انسان کی بقا کے لیے ہیں۔ درخت سے انسان کو تازہ ہوا ملتی ہے اور انسان اس زمین پر رہتا ہے جس کی حفاظت درخت کرتا ہے۔ انسان سورج کی روشنی یا مختلف جانداروں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اگرچہ یہ تعلقات پیچیدہ ہیں، لیکن تجھے یاد رکھنا چاہیے کہ خدا نے ایسے قوانین بنائے ہیں جو ہر چیز کا تعین کرتے ہیں تاکہ وہ ایک دوسرے کو مضبوط کر سکیں، ایک دوسرے پر انحصار کر سکیں، اور ایک ساتھ موجود رہ سکیں۔ دوسرے لفظوں میں اس کی تخلیق کردہ ہر ایک چیز کی قدر اور اہمیت ہے۔ اگر خدا نے بغیر اہمیت کی کوئی چیز تخلیق کی تو خدا اسے غائب کر دے گا۔ یہ ان طریقوں میں سے ایک ہے جو خدا سب چیزوں کی فراہمی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس کہانی میں الفاظ ”فراہم کرنا“ کا کیا مطلب ہے؟ کیا خدا ہر روز درخت کو پانی دیتا ہے؟ کیا درخت کو سانس لینے کے لیے خدا کی مدد کی ضرورت ہے؟ (نہیں)۔ ”فراہم کرنا“ سے مراد یہاں ہر چیز کی تخلیق کے بعد خدا کا انتظام ہے؛ خدا کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ان کا تعین کرنے والے اصول قائم کرنے کے بعد ان کا انتظام کرے۔ ایک بار زمین میں بیج ڈالا جائے تو درخت خود بخود اگتا ہے۔ اس کی نشوونما کے لیے تمام حالات خدا نے بنائے تھے۔ خدا نے سورج کی روشنی، پانی، مٹی، ہوا اور اردگرد کا ماحول بنایا ہے؛ خدا نے ہوا، پالا، برف، بارش اور چار موسم بنائے۔ یہ وہ حالات ہیں جو درخت کے بڑھنے کے لیے ضروری ہیں، اور یہ وہ چیزیں ہیں جو خدا نے تیار کی ہیں۔ تو، کیا خدا اس زندہ ماحول کا سرچشمہ ہے؟ (ہاں)۔ کیا خدا کو ہر روز درختوں کے ہر ایک پتے کو گننا پڑتا ہے؟ نہیں! نہ ہی خدا کو درخت کو سانس لینے میں مدد کرنے کی ضرورت ہے یا ہر روز سورج کی روشنی کو یہ کہہ کر جگانے کی ضرورت ہے کہ ”اب درختوں پر چمکنے کا وقت ہے۔“ اسے ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سورج کی روشنی اصولوں کے مطابق، جب اس کے چمکنے کا وقت ہوتا ہے، تو خودبخود چمکتی ہے؛ یہ درخت پر ظاہر ہوتی ہے اور چمکتی ہے اور جب درخت کو ضرورت ہوتی ہے تو وہ سورج کی روشنی کو جذب کر لیتا ہے، اور جب اسے ضرورت نہیں ہوتی تو پھر بھی درخت اصولوں کے اندر رہتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ تم اس غیرمعمولی امر کی صاف طور پر وضاحت نہ کر سکو، لیکن بہرحال یہ ایک حقیقت ہے، جسے ہر کوئی دیکھ اور تسلیم کر سکتا ہے۔ تجھے بس یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ تمام چیزوں کے وجود کا تعین کرنے والے اصول خدا کی طرف سے آتے ہیں، اور تو یہ جان لے کہ خدا تمام چیزوں کی نشوونما اور بقا کا حاکم ہے۔

اب، کیا اس کہانی میں وہ ہے جسے لوگ ”استعارہ“ کہتے ہیں؟ کیا یہ ایک شخصیت میں ڈھالنے کا عمل ہے؟ (نہیں)۔ میں نے ایک سچی کہانی سنائی ہے۔ ہر قسم کی جاندار چیز، ہر وہ چیز جس میں زندگی ہے، اس پر خدا کی حکمرانی ہے؛ ہر جاندار چیز کو جب تخلیق کیا گیا تھا تو خدا کی طرف سے زندگی سے آراستہ کیا گیا تھا؛ ہر جاندار کی زندگی خُدا کی طرف سے آتی ہے اور اُس راستے اور اصولوں کی پیروی کرتی ہے جو اس کی راہنمائی کرتے ہیں۔ اس کے لیے انسان کو اس میں ردوبدل کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اس کے لیے انسان کی مدد کی ضرورت ہے؛ یہ ان طریقوں میں سے ایک ہے جس میں خدا ہر چیز کو مہیا کرتا ہے۔ تم سمجھتے ہو، کیا تم نہیں سمجھتے؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ لوگوں کے لیے اسے پہچاننا ضروری ہے؟ (ہاں)۔ تو کیا اس کہانی کا حیاتیات سے کوئی تعلق ہے؟ کیا اس کا کسی طرح سے علم کے شعبے سے یا علم حاصل کرنے کی کسی شاخ سے تعلق ہے؟ ہم حیاتیات پر بحث نہیں کر رہے ہیں، اور ہم یقینی طور پر حیاتیاتی تحقیق نہیں کر رہے ہیں۔ ہماری گفتگو کا اصل خیال کیا ہے؟ (خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے)۔ تم نے تخلیق کے اندر کیا دیکھا ہے؟ کیا تم نے درخت دیکھے ہیں؟ کیا تم نے زمین دیکھی ہے؟ (ہاں)۔ تم نے سورج کی روشنی دیکھی ہے، کیا تم نے نہیں دیکھی؟ کیا تم نے پرندوں کو درختوں میں بیٹھے دیکھا ہے؟ (ہم نے دیکھا ہے)۔ کیا انسان ایسے ماحول میں رہنے سے خوش ہے؟ (ہاں)۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ، خُدا تمام چیزوں کو استعمال کرتا ہے – جو چیزیں اُس نے تخلیق کی ہیں – بنی نوع انسان کے گھر، ان کی زندگی کے ماحول کو برقرار رکھنے اور ان کی حفاظت کے لیے۔ اس طرح خدا انسانوں کے لیے اور سب چیزوں کے لیے مہیا کرتا ہے۔

تمہیں اس گفتگو کا انداز، جس طرح میں رفاقت کر رہا ہوں، کیسا لگا؟ (یہ سمجھنا آسان ہے، اور بہت سی حقیقی زندگی کی مثالیں ہیں)۔ یہ کھوکھلے الفاظ نہیں ہیں جو میں بول رہا ہوں، کیا وہ ہیں؟ کیا لوگوں کو یہ سمجھنے کے لیے اس کہانی کی ضرورت ہے کہ خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے؟ (ہاں)۔ اس صورت میں، ہم اپنی اگلی کہانی کی طرف چلتے ہیں۔ اگلی کہانی مواد کے لحاظ سے کچھ مختلف ہے، اور اس کا ارتکاز بھی کچھ مختلف ہے۔ ہر وہ چیز جو اس کہانی میں نظر آتی ہے وہ ایسی ہے جسے لوگ خدا کی تخلیق میں اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ اب میں اپنا اگلا بیان شروع کروں گا۔ براہ کرم خاموشی سے سنو اور دیکھو کہ کیا تم میرا مطلب سمجھ سکتے ہو۔ کہانی کے بعد، میں تم سے کچھ سوالات پوچھوں گا یہ دیکھنے کے لیے کہ تم نے کتنا سیکھ لیا ہے۔ اس کہانی کے کردار ایک عظیم پہاڑ، ایک چھوٹی سی ندی، تندوتیز ہوا اور ایک بہت بڑی لہر ہیں۔

کہانی 2: ایک بڑا پہاڑ، ایک چھوٹی ندی، تندوتیز ہوا، اور ایک بہت بڑی لہر

ایک چھوٹی ندی تھی جو اِدھر اُدھر پیچ وخم کھاتے ہوئے بہتے ہوئے، آخر کار ایک بڑے پہاڑ کے دامن میں جا پہنچی۔ پہاڑ نے چھوٹی ندی کا راستہ روک دیا، تو ندی نے اپنی کمزور، ہلکی سی آواز میں پہاڑ سے کہا، ”براہ کرم مجھے گزرنے دے۔ تو میرے راستے میں کھڑا ہے اور میرے آگے جانے کا راستہ روک رہا ہے“۔ ”تو کہاں جا رہی ہے؟“ پہاڑ نے پوچھا۔ ”میں اپنا گھر ڈھونڈ رہی ہوں،“ ندی نے جواب دیا۔ ”ٹھیک ہے، آگے بڑھ اور میرے اوپر سے بہہ کر چلی جا!“ لیکن چھوٹی ندی بہت ہی کمزور اور بہت ہی چھوٹی تھی، اس لیے اس کے پاس اتنے بڑے پہاڑ کے اوپر سے بہہ کر آگے جانے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ یہ وہاں پرصرف پہاڑ کے دامن کے ساتھ بہنا جاری رکھ سکتی تھی ۔۔۔

جہاں پہاڑ کھڑا تھا وہاں ایک تندوتیز آندھی ریت اور ذروں کو لے کر گزری۔ ہوا نے دھاڑتے ہوئے پہاڑ سے کہا، ”مجھے گزرنے دے!“ ”تو کہاں جا رہی ہے؟“ پہاڑ نے پوچھا۔ ”میں پہاڑ کے دوسری طرف جانا چاہتی ہوں،“ ہوا نے ہُونکتے ہوئے جواب دیا۔ ”ٹھیک ہے، اگر تُو میری کمر توڑ کر نکل سکتی ہے تو تُو جا سکتی ہے!“ تندوتیز ہوا ادھر ادھر ہونکتے ہوئے چلتی رہی، لیکن چاہے وہ کتنی ہی تیز چلتی، وہ پہاڑ کی کمر کو توڑ نہیں سکتی تھی۔ ہوا تھک گئی اور آرام کرنے کے لیے رک گئی – اور پہاڑ کی دوسری طرف نرم ہوا کا ایک جھونکا وہاں کے لوگوں کو خوش کرتے ہوئے چلنے لگا۔ لوگوں کے لیے یہ پہاڑ کا خیرسگالی کا اظہار تھا ۔۔۔

ساحلِ سمندر پر، سمندری پھوار پتھریلے ساحل کے ساتھ آہستہ سے بہتی تھی۔ اچانک ایک بہت بڑی لہر اٹھی اور گرجتے ہوئے پہاڑ کی طرف بڑھی۔ ”آگے سے ہٹ!“ بہت بڑی لہر چلائی۔ ”تو کہاں جا رہی ہے؟“ پہاڑ نے پوچھا۔ اپنی پیش قدمی کو روکنے میں ناکام رہتے ہوئے، لہر نے دھاڑتے ہوئے کہا، ”میں اپنے علاقے کو بڑھا رہی ہوں! میں اپنے بازو پھیلانا چاہتی ہوں!“ ”ٹھیک ہے، اگر تو میری چوٹی کے اوپر سے گزر سکتی ہے، تو میں تجھے گزرنے دوں گا۔“ بڑی لہر کچھ دور پیچھے ہٹی، اور ایک بار پھر تیزی سے پہاڑ کی طرف لپکی۔ لیکن اس نے جتنی بھی کوشش کی، وہ پہاڑ کی چوٹی کو عبور نہ کر سکی۔ لہر بس دھیرے دھیرے سمندر کی طرف واپس لوٹ سکتی تھی ۔۔۔

ہزاروں سالوں تک، چھوٹی ندی پہاڑ کے دامن میں آہستہ آہستہ بہتی رہی۔ پہاڑ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے، چھوٹی ندی گھر واپس چلی گئی، جہاں یہ ایک دریا سے جا ملی، جو بعد میں سمندر میں شامل ہو گیا۔ پہاڑ کی نگہداشت میں، چھوٹی ندی نے کبھی اپنا راستہ نہیں کھویا۔ ندی اور پہاڑ نے ایک دوسرے کو مضبوط کیا اور ایک دوسرے پر انحصار کیا؛ انہوں نے ایک دوسرے کو تقویت دی، ایک دوسرے کو بے اثر کیا، اور اکٹھے موجود رہے۔

ہزاروں سالوں تک تندوتیز ہوا اپنی عادت کے مطابق چیختی رہی۔ یہ پھر بھی اکثر پہاڑ سے ”ملاقات“ کرنے آتی، اس کے جھکڑوں میں بڑے بگولوں میں ریت چکر کھاتے ہوئے گھومتی تھی۔ اس نے پہاڑ کو دھمکایا، لیکن اس کی کمر توڑ کر کبھی باہر نہیں نکلی۔ ہوا اور پہاڑ نے ایک دوسرے کو مضبوط کیا اور ایک دوسرے پر انحصار کیا؛ انہوں نے ایک دوسرے کو تقویت دی، ایک دوسرے کو بے اثر کیا، اور ایک ساتھ موجود رہے۔

ہزاروں سالوں سے، بہت بڑی لہر کبھی بھی آرام کرنے کے لیے نہیں رکی، اور یہ اپنے علاقے کو مسلسل بڑھاتے ہوئے، بغیر رکے تیزی سے آگے بڑھتی رہی۔ یہ شور مچاتی اور بار بار پہاڑ کی طرف بڑھتی رہی، پھر بھی پہاڑ کبھی ایک انچ بھی نہیں ہلا۔ پہاڑ نے سمندر پر نظر رکھی، اور اس طرح سمندر میں موجود مخلوقات میں اضافہ ہوا اور وہ پھلی پھولیں۔ لہر اور پہاڑ نے ایک دوسرے کو مضبوط کیا اور ایک دوسرے پر انحصار کیا؛ انہوں نے ایک دوسرے کو تقویت دی، ایک دوسرے کو بے اثر کیا، اور ایک ساتھ موجود رہے۔

اس طرح ہماری کہانی ختم ہوتی ہے۔ پہلے یہ بتاؤ کہ یہ کہانی کس کے متعلق تھی؟ شروع کرنے کے لیے، ایک بڑا پہاڑ، ایک چھوٹی ندی، ایک تندوتیز ہوا، اور ایک بہت بڑی لہر تھی۔ پہلے اقتباس میں چھوٹی ندی اور بڑے پہاڑ کے ساتھ کیا ہوا؟ میں نے ندی اور پہاڑ کے بارے میں بات کرنے کا انتخاب کیوں کیا ہے؟ (پہاڑ کی دیکھ بھال میں، ندی نے کبھی اپنا راستہ نہیں کھویا۔ انھوں نے ایک دوسرے پر بھروسہ کیا)۔ تم کیا کہو گے کہ پہاڑ نے چھوٹی ندی کی حفاظت کی یا اسے روکا؟ (اِس نے اُس کی حفاظت کی)۔ لیکن کیا اِس نے اُس کو روکا نہیں؟ یہ اور ندی ایک دوسرے سے محتاط رہے؛ پہاڑ نے ندی کی حفاظت کی اور اس کو روکا بھی۔ پہاڑ نے ندی کی حفاظت کی جب وہ جا کر دریا کے ساتھ ملی، لیکن اسے وہاں جانے سے روک دیا جہاں اس نے بہہ کر جانا تھا اور لوگوں کے لیے سیلاب اور تباہی کا سبب بننا تھا۔ کیا وہ اقتباس اس بارے میں نہیں تھا؟ ندی کی حفاظت کر کے اور اسے روک کر پہاڑ نے لوگوں کے گھروں کی حفاظت کی۔ چھوٹی ندی پھر پہاڑ کے دامن میں دریا میں شامل ہو کر سمندر میں جا گری۔ کیا یہ وہ اصول نہیں ہے جو ندی کے وجود کو اپنا تابع رکھتا ہے؟ کس نے ندی کو دریا اور سمندر سے ملنے کے قابل بنایا؟ کیا وہ پہاڑ نہیں تھا؟ ندی نے پہاڑ کے تحفظ اور اس کی رکاوٹ پر بھروسا کیا۔ تو کیا یہ بنیادی نکتہ نہیں ہے؟ کیا تم اس میں پانی کے لیے پہاڑوں کی اہمیت دیکھتے ہو؟ کیا ہر پہاڑ، بڑا اور چھوٹا، بنانے میں خدا کا اپنا مقصد تھا؟ (ہاں)۔ اس مختصر اقتباس سے، جس میں ایک چھوٹی ندی اور ایک بڑے پہاڑ کے سوا کچھ نہیں ہے، ہم خدا کی ان دو چیزوں کی تخلیق کی قدر و اہمیت دیکھتے ہیں؛ یہ ہمیں، ان پر اس کی حکمرانی میں حکمت اور مقصد کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟

کہانی کا دوسرا اقتباس کس بارے میں تھا؟ (ایک تندوتیز ہوا اور بڑا پہاڑ)۔ کیا ہوا اچھی چیز ہے؟ (ہاں)۔ ضروری نہیں ہے – کبھی کبھی ہوا بہت تیز ہوتی ہے اور تباہی کا سبب بنتی ہے۔ اگر تجھے تندوتیز ہوا میں کھڑا کر دیا جائے تو تُو کیسا محسوس کرے گا؟ اس کا انحصار اس کی طاقت پر ہے۔ اگر یہ تین یا چار درجے کی ہوا ہو تو قابل برداشت ہوتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ، ایک شخص کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنے میں پریشانی ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر ہوا انتہائی تیز ہو کر ایک طوفان بن جائے تو کیا تُو اسے برداشت کر سکے گا؟ تُو نہیں کر سکے گا۔ لہٰذا، لوگوں کا یہ کہنا غلط ہے کہ ہوا ہمیشہ اچھی ہوتی ہے، یا یہ کہ یہ ہمیشہ بری ہوتی ہے، کیونکہ یہ اس کی طاقت پر منحصر ہوتا ہے۔ اب، یہاں پہاڑ کا کیا کام ہے؟ کیا اس کا کام ہوا کو چھاننا نہیں ہے؟ پہاڑ تندوتیز ہوا کو کم کر کے کیا بنا دیتا ہے؟ (ایک نرم جھونکا)۔ اب، انسان جس ماحول میں رہتے ہیں، کیا زیادہ تر لوگ تیز جھکڑوں کا سامنا کرتے ہیں یا نرم جھونکوں کا؟ (نرم جھونکوں کا)۔ پہاڑوں کو تخلیق کرنے میں کیا یہ خدا کے مقاصد میں سے ایک نہیں تھا، کیا یہ اس کے ارادوں میں سے ایک نہیں تھا؟ یہ کیسا ہوتا اگر لوگ ایک ایسے ماحول میں رہتے ہیں جہاں ریت ہوا میں تیزی سے بے روک ٹوک اور بے چَھنے اڑ رہی ہوتی؟ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ اڑتی ہوئی ریت اور پتھر سے گھری ہوئی زمین ناقابکِ رہائش ہو جائے؟ پتھر لوگوں کو لگ سکتے ہیں، اور ریت انھیں اندھا کر سکتی ہے۔ تیز ہوا لوگوں کو ان کے قدموں سے اکھاڑ سکتی ہے یا انھیں ہوا میں اڑا کر لے جا سکتی ہے۔ مکانات تباہ ہو سکتے ہیں اور ہر طرح کی آفات رونما ہو سکتی ہیں۔ پھر بھی کیا تندوتیز ہوا کے وجود کی کوئی اہمیت ہے؟ میں نے کہا کہ یہ بری ہے، اس لیے کسی کو یہ محسوس ہو سکتا ہے کہ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے، لیکن کیا ایسا ہی ہے؟ جب یہ ہوا کے نرم جھونکے میں تبدیل ہوتی ہے تو کیا اس کی اہمیت نہیں ہوتی؟ جب موسم مرطوب یا حبس والا ہو تو لوگوں کو کس چیز کی ضرورت سب سے زیادہ ہوتی ہے؟ انھیں ہلکی ہوا کے جھونکے کی ضرورت ہوتی ہے جو ان پر نرمی سے چلے، انھیں تازہ دم کر دے اور ان کے ذہنوں کو صاف کر دے، ان کی سوچ کو تیز کر دے، ان کی ذہنی حالت کو ٹھیک اور بہتر کر دے۔ اب، مثال کے طور پر، تم سب ایک کمرے میں بہت سے لوگوں اور گھٹی ہوئی ہوا کے ساتھ بیٹھے ہو – تو تمہیں کس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے؟ (ہوا کا ایک نرم جھونکا)۔ ایسی جگہ جانا جہاں ہوا کثیف اور غلیظ ہو تو یہ کسی کی سوچ کو سست کر سکتا ہے، کسی کی گردش کو کم کر سکتا ہے، اور کسی کے ذہن کی شفافیت کو کم کر سکتا ہے۔ تاہم، تھوڑی سی حرکت اور گردش ہوا کو تازہ کرتی ہے، اور تازہ ہوا میں لوگ مختلف محسوس کرتے ہیں۔ اگرچہ چھوٹی ندی تباہی کا باعث بن سکتی ہے، اگرچہ تندوتیز ہوا تباہی کا باعث بن سکتی ہے، لیکن جب تک پہاڑ موجود ہے، وہ اس خطرے کو ایک ایسی طاقت میں بدل دے گا جو لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟

کہانی کا تیسرا اقتباس کس بارے میں تھا؟ (بڑا پہاڑ اور بہت بڑی لہر)۔ بڑا پہاڑ اور بہت بڑی لہر۔ اس اقتباس کا منظر ساحلِ سمندر پر پہاڑ کے دامن میں ہے۔ ہم پہاڑ، سمندر کی پھوار اور ایک بہت بڑی لہر دیکھتے ہیں۔ اس مثال میں لہر کے لیے پہاڑ کیا ہے؟ (ایک محافظ اور ایک رکاوٹ)۔ یہ ایک محافظ اور ایک رکاوٹ دونوں ہے۔ ایک محافظ کے طور پر، یہ سمندر کو غائب ہونے سے بچاتا ہے، تاکہ اس میں رہنے والی مخلوقات بڑھ اور پھل پھول سکیں۔ ایک رکاوٹ کے طور پر، پہاڑ سمندر کے پانی کو باہر بہنے اور تباہی پھیلانے، نقصان پہنچانے اور لوگوں کے گھروں کو تباہ کرنے سے روکتا ہے۔ لہذا، ہم کہہ سکتے ہیں کہ پہاڑ ایک محافظ اور ایک رکاوٹ دونوں ہے۔

بڑا پہاڑ اور چھوٹی ندی، بڑا پہاڑ اور تندوتیز ہوا، اور بڑا پہاڑ اور بہت بڑی لہر کے درمیان باہمی ربط کی یہ اہمیت ہے؛ یہ ان کی ایک دوسرے کو مضبوط کرنے اور بے اثر کرنے اور ان کے بقائے باہمی کی اہمیت ہے۔ یہ چیزیں، جو خدا نے تخلیق کی ہیں، ان کا اپنے وجود میں ایک قاعدے اور قانون کے تحت تعین ہوتا ہے۔ تو، تم نے اس کہانی میں خدا کے کون سے کام دیکھے؟ خدا نے جب سے انھیں تخلیق کیا ہے کیا وہ سب چیزوں کو نظر انداز کرتا رہا ہے؟ کیا اس نے اس لیے وہ قوانین تخلیق کیے اور ایسے طریقے بنائے جن سے تمام چیزیں کام کرتی ہیں، تاکہ بعد میں ان کو نظر انداز کر دے؟ کیا وہی ہوا؟ (نہیں)۔ تو پھر کیا ہوا؟ خدا اب بھی بااختیار ہے۔ وہ پانی، ہوا اور لہروں کو قابو میں رکھتا ہے۔ وہ انھیں بےقابو ہو کر چلنے نہیں دیتا، نہ ہی انھیں کسی کو نقصان پہنچانے دیتا ہے اور نہ ہی اُن گھروں کو تباہ کرنے دیتا ہے جن میں لوگ رہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے، لوگ زمین پر رہ سکتے ہیں اور بڑھ اور پھل پھول سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب اس نے تمام چیزوں کو تخلیق کیا تو خدا نے ان کے وجود کے لیے پہلے سے ہی قوانین کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ جب خدا نے ہر چیز کو بنایا، تو اس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اس سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچے گا، اور اس نے اس کا اختیار سنبھال لیا، تاکہ یہ بنی نوع انسان کو پریشان نہ کرے اور نہ ہی اسے تباہی کا باعث بنے۔ اگر یہ خدا کا انتظام نہ ہوتا تو کیا پانی بغیر روک ٹوک کے نہ بہتا؟ کیا ہوا بغیر روک ٹوک کے نہیں چلتی؟ کیا پانی اور ہوا اصولوں کی پابندی کرتے ہیں؟ اگر خدا نے ان کا انتظام نہ کیا تو کوئی قانون ان کو قابو میں نہیں رکھے گا، اور ہوا چنگھاڑے گی اور پانی بے لگام ہو جائے گا اور سیلاب کا سبب بنے گا۔ اگر لہر پہاڑ سے بلند ہوتی تو کیا سمندر موجود رہ سکتا؟ یہ نہ رہ سکتا۔ اگر پہاڑ موج جتنا بلند نہ ہوتا تو سمندر کا وجود نہ ہوتا اور پہاڑ اپنی قدر و اہمیت کھو دیتا۔

کیا تم ان دو کہانیوں میں خدا کی حکمت دیکھتے ہو؟ خدا نے ہر وہ چیز تخلیق کی ہے جو موجود ہے، اور وہ ہر اس چیز کا حاکم ہے جو موجود ہے؛ وہ اس سب کا انتظام کرتا ہے اور وہ اس سب کو فراہم کرتا ہے اور ہرموجود چیز کے اندر وہ ہر چیز کے ہر قول و فعل کو دیکھتا اور جانچتا ہے۔ اسی طرح خدا انسانی زندگی کے ہر گوشے کو بھی دیکھتا اور جانچتا ہے۔ اس طرح خدا اپنی مخلوق کے اندر موجود ہر چیز کی ہر ایک تفصیل کو انتہائی قریب سے جانتا ہے، ہر چیز کے افعال، اس کی فطرت اور اس کی بقا کے اصولوں سے لے کر اس کی زندگی کی اہمیت اور اس کے وجود کی قدر تک، یہ سب کچھ مکل طور پر خدا کے علم میں ہے۔ خدا نے تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے – کیا تم سمجھتے ہو کہ اسے ان قوانین کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے جو انھیں قابو میں رکھتے ہیں؟ کیا خدا کو ان کے بارے میں جاننے اور سمجھنے کے لیے انسانی علم یا سائنس کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے؟ (نہیں)۔ کیا بنی نوع انسان میں کوئی ایک بھی شخص ایسا ہے جس کے پاس اتنا علم یا علمی فضیلت ہو کہ وہ ہر چیز کو خدا کی طرح سمجھ سکے؟ نہیں ہے، ٹھیک؟ کیا کوئی ماہر فلکیات یا ماہر حیاتیات ہیں جو ان اصولوں کو صحیح معنوں میں سمجھتے ہوں جن کے ذریعے تمام چیزیں زندہ رہتی اور بڑھتی ہیں؟ کیا وہ ہر چیز کے وجود کی اہمیت کو صحیح معنوں میں سمجھ سکتے ہیں؟ (نہیں وہ نہیں سمجھ سکتے)۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام چیزیں خدا نے پیدا کی ہیں، اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ بنی نوع انسان اس علم کا کتنا زیادہ یا کتنی گہرائی میں مطالعہ کرے، یا وہ اسے سیکھنے کی کتنی ہی کوشش کرے، وہ کبھی بھی خدا کی تمام چیزوں کے اسرار یا تخلیق کے مقصد کو نہیں جان سکے گا۔ کیا ایسا معاملہ نہیں ہے؟ اب، ہماری اب تک کی بحث سے، کیا تم محسوس کرتے ہو کہ تم نے اس جملے کے حقیقی معنی کی جزوی سمجھ حاصل کر لی ہے: ”خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے“؟ (ہاں)۔ جب میں نے اس موضوع پر بات کی تو میں جانتا تھا – خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے – بہت سے لوگ فوراً ایک اور فقرے کے بارے میں سوچیں گے: ”خدا سچائی ہے، اور خدا ہمیں فراہم کرنے کے لیے اپنے کلام کو استعمال کرتا ہے،“ اور موضوع کے معنی کی سطح سے آگے کچھ بھی نہیں۔ کچھ لوگ یہ بھی محسوس کر سکتے ہیں کہ خدا کی طرف سے انسانی زندگی، روزمرہ کے کھانے، پینے اور روزمرہ کی ہر ضرورت، کو اس کی طرف سے انسان کو فراہم کرنے میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ کیا کچھ لوگ ایسے نہیں ہیں جو اس طرح محسوس کرتے ہیں؟ پھر بھی، کیا خدا کا اپنی تخلیق میں ارادہ واضح نہیں ہے – بنی نوع انسان کو زندہ رہنے اور معمول کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت دینا؟ خدا اس ماحول کو برقرار رکھتا ہے جس میں لوگ رہتے ہیں اور وہ بنی نوع انسان کو اس کی بقا کے لیے درکار تمام چیزیں مہیا کرتا ہے۔ مزید برآں، وہ ہر چیز کا انتظام کرتا ہے ہر اور چیز پر حاکمیت رکھتا ہے۔ اس سب کچھ سے بنی نوع انسان کو جینے اور پھلنے پھولنے اور عمومی طور پر بڑھنے کا موقع ملتا ہے؛ یہ اس طریقے سے ہے کہ خدا تمام مخلوقات اور بنی نوع انسان کے لیے مہیا کرتا ہے۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ لوگوں کو ان چیزوں کو پہچاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے؟ شاید کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں، ”یہ موضوع خود حقیقی خُدا کے بارے میں ہمارے علم سے بہت دور ہے، اور ہم یہ جاننا نہیں چاہتے کیونکہ ہم صرف روٹی سے زندہ نہیں رہتے، بلکہ خُدا کے کلام سے زندہ رہتے ہیں۔“ کیا یہ فہم درست ہے؟ (نہیں)۔ یہ کیوں غلط ہے؟ اگر تمہیں صرف ان باتوں کا علم ہو جو خدا نے کہی ہیں تو کیا تم خدا کو مکمل طور پرسمجھ سکتے ہو؟ اگر تم صرف خدا کے کام کو قبول کرتے ہو اور خدا کی عدالت اور تادیب کو قبول کرتے ہو، تو کیا تم خدا کی مکمل سمجھ بوجھ حاصل کر سکتے ہو؟ اگر تم خدا کے مزاج کے صرف ایک چھوٹے سے حصے، خدا کے اختیار کے ایک چھوٹے سے حصے کو جانتے ہو، تو کیا تم اسے خدا کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے لیے کافی سمجھو گے؟ (نہیں)۔ خدا کے اعمال اس کی تمام چیزوں کی تخلیق کے ساتھ شروع ہوئے، اور وہ آج بھی جاری ہیں – خدا کے اعمال ہر وقت، لمحہ بہ لمحہ ظاہر ہوتے ہیں۔ اگر کوئی یہ یقین رکھتا ہے کہ خدا صرف اس لیے موجود ہے کہ اس نے لوگوں کے ایک گروہ پر اپنا کام انجام دینے اور بچانے کے لیے انھیں منتخب کیا ہے، اور یہ کہ کسی اور چیز کا خدا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، نہ اُس کا اختیار، نہ اُس کی حیثیت، نہ اُس کے اعمال، تو پھر کیا کسی کو خدا کے بارے میں صحیح علم رکھنے والا سمجھا جا سکتا ہے؟ جن لوگوں کے پاس یہ نام نہاد ”خدا کے بارے میں علم“ ہے، وہ صرف یک طرفہ سمجھ رکھتے ہیں، جس کے مطابق وہ اس کے اعمال کو لوگوں کے ایک گروہ تک محدود رکھتے ہیں۔ کیا یہ خدا کے بارے میں حقیقی علم ہے؟ کیا اس قسم کے علم کے حامل لوگ خدا کی تمام چیزوں کی تخلیق اور ان پر اس کی حاکمیت کا انکار نہیں کر رہے؟ کچھ لوگ اس نکتے کے ساتھ مشغول نہیں ہونا چاہتے ہیں، اس کی بجائے وہ خود سے سوچتے ہیں: ”میں نے ہر چیز پر خدا کی حاکمیت کو نہیں دیکھا ہے۔ یہ خیال بہت بعید ہے، اور مجھے اسے سمجھنے کی کوئی پروا نہیں ہے۔ خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے، اور اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں صرف خُدا کی قیادت اور اُس کے کلام کو قبول کرتا ہوں تاکہ مجھے خُدا کی طرف سے نجات مل جائے اور کامل بنایا جا سکے۔ میرے لیے اور کوئی چیز اہمیت نہیں رکھتی ہے۔ خدا نے جو اصول بنائے جب اس نے تمام چیزوں کو بنایا اور جو کچھ وہ تمام چیزوں اور بنی نوع انسان کے لیے مہیا کرنے کے لیے کرتا ہے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔“ یہ کس قسم کی گفتگو ہے؟ کیا یہ بغاوت کا ایک عمل نہیں ہے؟ کیا تم میں سے کوئی ہے جس کی ایسی سمجھ بوجھ ہے؟ حتیٰ کہ تمہارا ایسے کہے بغیر بھی، میں جانتا ہوں کہ یہاں تم میں سے بہت سے لوگ ایسا کرتے ہیں۔ اس طرح کے اصولوں پر چلنے والے لوگ ہر چیز کو اپنے ”روحانی“ نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ خدا کو صرف انجیل تک محدود کرنا چاہتے ہیں، خدا کو اس کلام تک محدود کرنا چاہتے ہیں جو اس نے کہا ہے، لفظی تحریری لفظ سے اخذ کردہ مفہوم تک۔ وہ خُدا کو مزید جاننا نہیں چاہتے اور وہ نہیں چاہتے کہ خُدا دوسرے کام کر کے اپنی توجہ کو تقسیم کرے۔ اس قسم کی سوچ بچگانہ ہے، اور یہ حد سے زیادہ مذہبی بھی ہے۔ کیا ان خیالات کے حامل لوگ خدا کو جان سکتے ہیں؟ ان کے لیے خدا کو جاننا بہت مشکل ہو گا۔ آج میں نے دو کہانیاں سنائی ہیں جن میں سے ہر ایک مختلف پہلو سے مخاطب ہے۔ تم ان کے ساتھ رابطے میں آنے کے بعد محسوس کر سکتے ہو کہ وہ گہری یا قدرے تجریدی ہیں، جن کا ادراک کرنا اور جنہیں سمجھنا مشکل ہے۔ انھیں خدا کے اعمال اور خود خدا سے جوڑنا مشکل ہوسکتا ہے۔ تاہم، خدا کے تمام اعمال اور جو کچھ اس نے تخلیق کے اندر اور بنی نوع انسان کے درمیان کیا ہے، ہر ایک شخص کو، ہر اس شخص کے ذریعے جو خدا کو جاننے کی کوشش کرتا ہے، واضح اور درست طور پر علم ہونا چاہیے۔ یہ علم تمہیں خدا کے حقیقی وجود پر یقین کی ضمانت دے گا۔ یہ تمہیں خُدا کی حکمت، اُس کی قدرت، اور انداز کے بارے میں بھی درست علم دے گا جس کے ذریعے وہ تمام چیزوں کو فراہم کرتا ہے۔ یہ تجھے خدا کے حقیقی وجود کا واضح طور پر تصور کرنے اور یہ دیکھنے کی اجازت دے گا کہ اس کا وجود فرضی نہیں ہے، کوئی افسانہ نہیں، مبہم نہیں، کوئی نظریہ نہیں، اور یقینی طور پر کسی قسم کی روحانی تسکین نہیں ہے، بلکہ ایک حقیقی وجود ہے۔ مزید برآں، یہ لوگوں کو یہ جاننے کی اجازت دے گا کہ خدا نے ہمیشہ تمام مخلوقات اور بنی نوع انسان کے لیے مہیا کیا ہے؛ خدا یہ اپنے طریقے سے اور اپنے مخصوص اور معروف انداز کے مطابق کرتا ہے۔ تو، یہ اس وجہ سے ہے کہ خدا نے تمام چیزوں کو پیدا کیا اور ان کے لیے اصول دیے کہ وہ ہر ایک اس کے پہلے سے مقرر کر دینے کے تحت، اپنے مختص کردہ کاموں کو انجام دینے، اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور اپنے اپنے کردار کو انجام دینے کے قابل ہیں؛ اس کے پہلے سے مقرر کر دینے کے تحت، ہر چیز کا بنی نوع انسان کی خدمت میں جس جگہ اور ماحول میں انسان آباد ہے، اپنا ایک استعمال ہوتا ہے۔ اگر خدا نے ایسا نہ کیا ہوتا اور بنی نوع انسان کے پاس رہنے کے لیے ایسا ماحول نہ ہوتا تو بنی نوع انسان کے لیے خدا پر ایمان لانا یا اس کی پیروی کرنا ناممکن ہوتا؛ یہ سب کھوکھلی باتوں سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ کیا ایسا نہیں ہے؟

آؤ ایک بار پھر بڑا پہاڑ اور چھوٹی ندی کی کہانی کو دیکھتے ہیں۔ پہاڑ کا کام کیا ہے؟ جاندار چیزیں پہاڑ پر پھلتی پھولتی ہیں، اس لیے اس کے وجود کی فطری اہمیت ہے، اور یہ چھوٹی ندی کو بھی روکتا ہے، اسے اپنی مرضی کے مطابق بہنے سے اور لوگوں کے لیے تباہی لانے سے روکتا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ پہاڑ اپنے وجود کے اپنے انداز میں موجود ہے، اپنے اوپر موجود بے شمار جانداروں کو پھلنے پھولنے کی اجازت دیتا ہے – درخت اور گھاس اور پہاڑ پر موجود دیگر تمام پودے اور جانور۔ یہ چھوٹی ندی کے بہاؤ کے راستے کو بھی متعین کرتا ہے – پہاڑ ندی کے پانی کو جمع کرتا ہے اور قدرتی طور پر اپنے دامن کے گرد ان کی راہنمائی کرتا ہے جہاں وہ بہہ کر دریا اور آخر کار سمندر میں مل سکتی ہے۔ یہ قوانین فطری طور پر واقع نہیں ہوئے تھے، بلکہ خدا کی طرف سے تخلیق کے وقت خاص طور پر نافذ کیے گئے تھے۔ جہاں تک بڑے پہاڑ اور تندوتیز ہوا کا تعلق ہے، تو پہاڑ کو بھی ہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔ پہاڑ کو اپنے اوپر رہنے والے جانداروں کو سہلانے کے لیے ہوا کی ضرورت ہوتی ہے اور ساتھ ہی وہ تیز ہوا کی طاقت کو محدود کرتا ہے تاکہ وہ اپنی مرضی سے نہ اڑے۔ یہ اصول، ایک خاص لحاظ سے، بڑے پہاڑ کی ذمہ داری کی علامت ہے؛ تو کیا پہاڑ کے فرض سے متعلق یہ اصول خودبخود ہی بن گیا؟ (نہیں)۔ اسے خدا نے بنایا تھا۔ بڑے پہاڑ کا اپنا فرض ہے اور تندوتیز ہوا کا بھی فرض ہے۔ اب آؤ ہم بڑے پہاڑ اور بڑی لہر کی طرف مڑتے ہیں۔ پہاڑ کے وجود کے بغیر، کیا پانی اپنے بہاؤ کی سمت خود تلاش کر سکتا؟ (نہیں)۔ پانی سیلاب بن جاتا۔ پہاڑ کی اپنے موجود ہونے کی اہمیت ایک پہاڑ کے طور پر ہے، اور سمندر کی ایک سمندر کے طور پر اپنے موجود ہونے کی اہمیت ہے؛ تاہم، ایسے حالات میں جن میں وہ عام طور پر ایک ساتھ رہنے کے قابل ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مداخلت نہیں کرتے، وہ ایک دوسرے کو محدود بھی کرتے ہیں – بڑا پہاڑ سمندر کو محدود کرتا ہے تاکہ وہ سیلاب نہ بنے، اس طرح لوگوں کے گھروں کی حفاظت ہوتی ہے، اور سمندر کو محدود کرنے سے وہ اپنے اندر رہنے والے جانداروں کی پرورش بھی کرتا ہے۔ کیا یہ منظر خودبخود تشکیل پاتا ہے؟ (نہیں)۔ اسے بھی خدا نے بنایا تھا۔ ہم اس تصویر سے دیکھتے ہیں کہ جب خدا نے تمام چیزوں کو تخلیق کیا، تو اس نے پہلے سے طے کر رکھا تھا کہ پہاڑ کہاں کھڑا ہو گا، ندی کہاں سے بہے گی، کس سمت سے تندوتیز ہوا چلنا شروع ہو گی اور یہ کدھر جائے گی، اور بڑی لہریں کتنی اونچی ہوں گی۔ یہ سب چیزیں خدا کے ارادے اور مقصد پر مشتمل ہیں – یہ خدا کے اعمال ہیں۔ اب کیا تم دیکھ سکتے ہو کہ خدا کے اعمال ہر چیز میں موجود ہیں؟ (ہاں)۔

ان باتوں پر بحث کرنے کا ہمارا مقصد کیا ہے؟ کیا یہ لوگوں کو ان قوانین کا مطالعہ کروانے کے لیے ہے جن کے ذریعے خدا نے تمام چیزوں کو بنایا ہے؟ کیا ان کا مقصد فلکیات اور جغرافیہ میں دلچسپی کی حوصلہ افزائی کرنا ہے؟ (نہیں)۔ پھر یہ کیا ہے؟ یہ لوگوں کو خدا کے کاموں کو سمجھانے کے لیے ہیں۔ خدا کے اعمال میں، لوگ اس بات کی توثیق اور تصدیق کر سکتے ہیں کہ خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے۔ اگر تو اسے سمجھ سکتا ہے، تو تُو واقعی اپنے دل میں خدا کے مقام کی تصدیق کرنے کے قابل ہو جائے گا، اور تو اس بات کی تصدیق کر سکے گا کہ خدا خود خدا ہے، منفرد، آسمانوں اور زمین اور تمام چیزوں کا خالق۔ تو، کیا تمام چیزوں کے قوانین کو جاننا اور خدا کے اعمال کو جاننا خدا کے بارے میں تیری فہم کے لیے مفید ہے؟ (ہاں)۔ یہ کتنا مفید ہے؟ سب سے پہلے، جب تو خدا کے اعمال کو سمجھ چکا ہے، تو کیا تو اب بھی فلکیات اور جغرافیہ میں دلچسپی رکھ سکتا ہے؟ کیا تو اب بھی کہ خدا کے ہر چیز کا خالق ہونے کے بارے میں کسی شک اور شبہ کرنے والے کی طرح سخت دل ہو سکتا ہے؟ کیا تو اب بھی کسی محقق کی طرح بےحس ہو سکتا ہے اور خدا کے ہر چیز کا خالق ہونے میں شک کر سکتا ہے؟ (نہیں)۔ جب تو اس بات کی تصدیق کر چکا ہے کہ خدا ہر چیز کا خالق ہے اور خدا کی تخلیق کے کچھ اصولوں کو سمجھ چکا ہے، تو کیا تو واقعی اپنے دل میں یقین کرے گا کہ خدا سب چیزوں کے لیے مہیا کرتا ہے؟ (ہاں)۔ کیا یہاں ”فراہمی“ کی کوئی خاص اہمیت ہے، یا اس کے استعمال سے کوئی خاص صورت حال مراد ہے؟ ”خدا سب چیزوں کے لیے مہیا کرتا ہے“ ایک جملہ ہے جس کا دائرہ کار بہت وسیع اور اہم ہے۔ خدا صرف لوگوں کو ان کے روزمرہ کے کھانے پینے کا سامان فراہم نہیں کرتا؛ وہ بنی نوع انسان کو ہر وہ چیز فراہم کرتا ہے جس کی اسے ضرورت ہوتی ہے، بشمول وہ سب کچھ جسے لوگ دیکھ سکتے ہیں، بلکہ وہ چیزیں بھی جو نہیں دیکھی جا سکتیں۔ خدا اس زندہ ماحول کو برقرار رکھتا ہے، اس کا انتظام کرتا ہے اور اس پر حکومت کرتا ہے، جو بنی نوع انسان کے لیے ضروری ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو ہر موسم کے لیے جس ماحول کی ضرورت ہوتی ہے، خدا نے اسے تیار کر رکھا ہے۔ خدا ہوا کی قسم اور درجہ حرارت کا بھی انتظام کرتا ہے تاکہ وہ انسانی بقا کے لیے موزوں ہو سکیں۔ ان چیزوں کو قابو کرنے والے قوانین خودبخود یا بے ترتیب نہیں ہوتے ہیں؛ وہ خدا کی حاکمیت اور اس کے اعمال کا نتیجہ ہیں۔ خدا خود ان تمام اصولوں کا منبع اور تمام چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ تو اس پر یقین کرتا ہے یا نہیں، تو اسے دیکھ سکتا ہے یا نہیں، یا تو اسے سمجھ سکتا ہے یا نہیں، یہ ایک قائم شدہ اور ناقابل تسخیر حقیقت ہے۔

میں جانتا ہوں کہ لوگوں کی وسیع اکثریت صرف خدا کے اس کلام اور کام پر ایمان رکھتی ہے جو انجیل میں شامل ہیں۔ لوگوں کی ایک اقلیت کے لیے، خدا نے اپنے اعمال ظاہر کیے ہیں اور لوگوں کو اپنے وجود کی اہمیت کو دیکھنے کا موقع دیا ہے۔ اس نے انھیں اپنی حیثیت کے بارے میں کچھ سمجھنے کی اجازت بھی دی ہے اور اپنے وجود کی حقیقت کی تصدیق کی ہے۔ تاہم، بہت سے مزید لوگوں کے لیے، یہ حقیقت کہ خدا نے تمام چیزوں کو تخلیق کیا ہے اور وہ تمام چیزوں کا انتظام کرتا ہے اور ان کے لیے فراہم کرتا ہے، مبہم یا غیر مخصوص معلوم ہوتا ہے؛ حتیٰ کہ ایسے لوگ شک کا رویہ بھی برقرار رکھ سکتے ہیں۔ یہ رویہ انھیں مستقل طور پر اس بات پر یقین دلانے کا باعث بنتا ہے کہ قدرتی دنیا کے قوانین خود بخود تشکیل پاتے ہیں، فطرت کی تبدیلیاں، حالتوں کا تغیر، مظاہر، اور عین وہ قوانین جو اسے قابو کرتے ہیں خود فطرت سے پیدا ہوتے ہیں۔ لوگ اپنے دلوں میں اس کا ادراک نہیں کر سکتے کہ خدا نے تمام چیزوں کو کیسے پیدا کیا اور کیسے ان پر حکومت کرتا ہے؛ وہ یہ نہیں سمجھ سکتے کہ خدا کس طرح سب چیزوں کا انتظام کرتا ہے اور ان کے لیے فراہم کرتا ہے۔ اس بیان کی حدود کے تحت، لوگ اس بات پر یقین نہیں کر سکتے کہ خدا نے سب چیزوں کو تخلیق کیا ہے اور ان پر حکمرانی کرتا ہے، اور سب چیزوں کے لیے فراہم کرتا ہے؛ یہاں تک کہ جو لوگ ایمان رکھتے ہیں وہ بھی اپنے عقیدے میں شریعت کے دور، فضل کے دور اور بادشاہی کے دور تک ہی محدود ہیں: وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا کے اعمال اور انسانوں کے لیے اس کے انتظامات صرف اس کے منتخب شدہ لوگوں کے لیے ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جس کو دیکھنے سے میں سب سے زیادہ نفرت کرتا ہوں، اور یہ ایسی چیز ہے جس سے بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے، کیونکہ بنی نوع انسان خدا کی لائی ہوئی ان سب چیزوں سے لطف اندوز ہونے کے باوجود وہ ان سب چیزوں سے انکار کرتا ہے جو خدا کرتا ہے اور جو اسے دیتا ہے۔ لوگ صرف اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ آسمان و زمین اور تمام چیزوں کا تعین ان کے اپنے، فطری اصولوں اور ان کے اپنے، بقا کے لیے قدرتی قوانین کے تحت ہوتا ہے، اور یہ کہ ان کا انتظام کرنے کے لیے کوئی حکمران یا حاکم نہیں ہے کہ جو ان کے لیے فراہم کرے اور انھیں برقرار رکھے۔ یہاں تک کہ اگر تو خدا پر یقین رکھتا ہے، تو بھی شاید تجھے یقین نہ ہو کہ یہ سب اس کے اعمال ہیں؛ بےشک، یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے جسے اکثر خدا پر ایمان رکھنے والا ہر شخص، خدا کے کلام کو قبول والا ہر شخص، اور خدا کی پیروی والا ہر شخص نظرانداز کر دیتا ہے۔ لہٰذا، جیسے ہی میں کسی ایسی بات پر بحث شروع کرتا ہوں جس کا انجیل یا نام نہاد روحانی اصطلاحات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تو کچھ لوگ اکتا جاتے ہیں یا تھک جاتے ہیں یا یہاں تک کہ بے چین ہو جاتے ہیں۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ میرا کلام روحانی لوگوں اور روحانی چیزوں سے منسلک نہیں ہے۔ یہ ایک خوفناک چیز ہے۔ جب خدا کے کاموں کو جاننے کی بات آتی ہے، تو اگرچہ ہم فلکیات کا ذکر نہیں کرتے ہیں، نہ ہی ہم جغرافیہ یا حیاتیات کی تحقیق کرتے ہیں، پھر بھی ہمیں ہر چیز پر خدا کی حاکمیت کو سمجھنا چاہیے، ہمیں ہر چیز کے لیے اس کی فراہمی کے بارے میں جاننا چاہیے، اور یہ کہ وہ سب چیزوں کا سرچشمہ ہے۔ یہ ایک ضروری سبق ہے اور ایک ایسا سبق جس کا مطالعہ کیا جانا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ تم میری باتیں سمجھ گئے ہو، ہاں؟

میں نے ابھی جو دو کہانیاں سنائی ہیں، اگرچہ یہ مواد اور اظہار کے انداز میں قدرے غیر معمولی طور پر، سنائی گئیں، جیسا کہ وہ کچھ خاص انداز میں تھیں، میری کوشش تھی کہ ایک زیادہ گہری چیز کو حاصل کرنے اور قبول کرنے میں تمہاری مدد کے لیے آسان زبان اور ایک سادہ طریقہ استعمال کیا جائے۔ یہ میرا واحد مقصد تھا۔ میں چاہتا تھا کہ ان چھوٹی کہانیوں اور جس کی وہ تصویرکشی کرتی ہیں، ان میں تم دیکھو اور یقین کرو کہ خدا تمام مخلوقات پر حاکم ہے۔ ان کہانیوں کو سنانے کا مقصد تمہیں ایک کہانی کی محدود حدود میں خدا کے لامحدود اعمال کو دیکھنے اور جاننے کا موقع دینا ہے۔ اس بات کے بارے میں کہ تم اپنے آپ میں اس نتیجے کو کب پوری طرح محسوس کرو گے اور حاصل کرو گے – یہ تمہارے اپنے تجربات اور تمہاری اپنی جستجو پر منحصر ہے۔ اگر تُو کوئی ایسا شخص ہے جو سچائی کی جستجو کرتا ہے اور خدا کو جاننے کی کوشش کرتا ہے، تو یہ چیزیں پہلے سے زیادہ مضبوط یاد دہانی کا کام کریں گی؛ وہ تجھے ایک گہری آگہی، تیری سمجھ میں ایک شفافیت عطا کریں گی، جو بتدریج خدا کے حقیقی اعمال کے قریب ہو جائے گی، ایسی قربت کے ساتھ جو فاصلے اور غلطی کے بغیر ہو گی۔ تاہم، اگر تُو خدا کو جاننے کی کوشش کرنے والا نہیں ہے، تو یہ کہانیاں تجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔ بس انھیں سچی کہانیاں سمجھو۔

کیا تم نے ان دونوں کہانیوں سے کوئی سمجھ بوجھ حاصل کی ہے؟ اول، کیا یہ دونوں کہانیاں بنی نوع انسان کے لیے خُدا کی فکر کے بارے میں ہماری پچھلی بحث سے الگ ہیں؟ کیا کوئی جبلی تعلق ہے؟ کیا یہ سچ ہے کہ ان دو کہانیوں میں ہم خدا کے کاموں اور اس جامع غور و فکر کو دیکھتے ہیں جو وہ بنی نوع انسان کے لیے کرنے والی ہر چیز پر کرتا ہے؟ کیا یہ سچ ہے کہ خدا جو کچھ بھی کرتا ہے اور جو کچھ بھی سوچتا ہے وہ بنی نوع انسان کے وجود کی خاطر ہے؟ (ہاں)۔ کیا بنی نوع انسان کے لیے خدا کی محتاط سوچ اور غور و فکر بالکل واضح نہیں ہے؟ بنی نوع انسان کو کچھ نہیں کرنا پڑتا ہے۔ خُدا نے لوگوں کے لیے ہوا تیار کی ہے – اسے بس سانس لینے کی ضرورت ہے۔ وہ جو سبزیاں اور پھل کھاتا ہے وہ آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں۔ شمال سے جنوب تک، مشرق سے مغرب تک، ہر علاقے کے اپنے قدرتی وسائل ہیں۔ مختلف علاقائی فصلیں اور پھل اور سبزیاں سب خدا نے تیار کی ہیں۔ عظیم تر ماحول میں، خدا نے تمام چیزوں کو باہمی طور پر مضبوط کرنے، ایک دوسرے پر انحصار کرنے، باہمی طور پر تقویت دینے، باہمی طور پر بے اثر کرنے، اور ایک ساتھ رہنے والا بنایا ہے۔ یہ ہر چیز کی بقا اور وجود کو برقرار رکھنے کے لیے اُس کا طریقہ اور اصول ہے؛ اس طریقے سے، بنی نوع انسان اس زندہ ماحول میں ایک نسل سے دوسری نسل تک بڑھنے، حتیٰ کہ آج تک، محفوظ اور پر سکون طور پر ترقی کرنے کے قابل ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا قدرتی ماحول میں توازن لاتا ہے۔ اگر خدا حاکم اور اختیار رکھنے والا نہ ہوتا، تو ماحول، یہاں تک کہ اگر یہ خدا کی طرف سے بھی بنایا گیا ہوتا، تو بھی کسی کی بھی برقرار رکھنے اور متوازن رکھنے کی صلاحیت سے باہر ہوتا۔ بعض جگہوں پر ہوا نہیں ہے اور ایسی جگہوں پر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ خدا تجھے وہاں جانے کی اجازت نہیں دے گا۔ لہذا، مناسب حدود سے باہر نہ جا۔ یہ بنی نوع انسان کے تحفظ کے لیے ہے – اس کے اندر اسرار ہیں۔ ماحول کے ہر پہلو، زمین کی لمبائی اور چوڑائی، زمین پر موجود ہر مخلوق – زندہ اور مردہ دونوں – کا تصور اور تیاری خدا نے پہلے سے کی تھی۔ اس چیز کی ضرورت کیوں ہے؟ وہ چیز غیر ضروری کیوں ہے؟ اس چیز کو یہاں رکھنے کا کیا مقصد ہے اور وہ چیز وہاں کیوں جانی چاہیے؟ ان تمام سوالات کے بارے میں خدا نے پہلے ہی سوچ رکھا ہے، اور لوگوں کو ان کے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کچھ بے وقوف لوگ ہیں جو ہمیشہ پہاڑوں کو ہٹانے کا سوچتے ہیں لیکن ایسا کرنے کی بجائے میدانوں میں کیوں نہیں چلے جاتے؟ اگر تجھے پہاڑ پسند نہیں ہیں تو تُو ان کے قریب کیوں رہتا ہے؟ کیا یہ حماقت نہیں ہے؟ اگر تُو اس پہاڑ کو ہٹائے گا تو کیا ہو گا؟ سمندری طوفان اور بڑی لہریں آئیں گی اور لوگوں کے گھر تباہ ہو جائیں گے۔ کیا یہ بےوقوفی نہیں ہو گی؟ لوگ صرف تباہی کے ہی قابل ہیں۔ وہ اپنے رہنے کے لیے واحد جگہ کو بھی برقرار نہیں رکھ سکتے، اور اس کے باوجود وہ ہر چیز کے لیے فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ناممکن ہے۔

خدا انسانیت کو سب چیزوں کا انتظام کرنے اور ان پر ملکیت رکھنے کی اجازت دیتا ہے، لیکن کیا انسان اچھا کام کرتا ہے؟ انسان جو کر سکتا ہے وہ تباہ کر دینا ہے۔ نہ صرف وہ خدا کی بنائی ہوئی ہر چیز کو اس کی اصل حالت میں رکھنے سے بالکل قاصر ہے – بلکہ اُس نے اِس کے برعکس کیا ہے اور خدا کی تخلیق کو تباہ کر دیا ہے۔ بنی نوع انسان نے پہاڑوں کو ہٹا دیا ہے، سمندروں سے زمین دوبارہ حاصل کی ہے، اور میدانوں کو صحراؤں میں تبدیل کر دیا ہے جہاں کوئی انسان نہیں رہ سکتا۔ پھر بھی انسان نے صحرا میں ہی صنعت بنائی اور ایٹمی اڈے بنائے، ہر طرف تباہی کے بیج بو دیے۔ اب دریا دریا نہیں رہے، سمندر اب سمندر نہیں رہا۔۔۔۔ ایک بار جب بنی نوع انسان نے قدرتی ماحول اور اس کے اصولوں کا توازن توڑ دیا تو پھر اس کی تباہی اور موت کا دن دور نہیں ہے؛ یہ ناگزیر ہے۔ جب آفت آئے گی تو بنی نوع انسان کو معلوم ہو گا کہ خدا نے جو ہر چیز اس کے لیے بنائی ہے وہ کتنی قیمتی ہے اور یہ بنی نوع انسان کے لیے کتنی اہم ہے۔ انسان کے لیے ایسے ماحول میں رہنا جس میں آندھی اور بارش اپنے وقت پر آتی ہو جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ لوگوں کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ ایک نعمت ہے، لیکن جس لمحے وہ یہ سب کھو دیں گے، وہ دیکھیں گے کہ یہ کتنا نایاب اور قیمتی ہے۔ اور ایک بار چلا گیا تو کوئی شخص اسے واپس کیسے لائے گا؟ اگر خدا اسے دوبارہ تخلیق کرنے پر راضی نہ ہو تو لوگ کیا کر سکتے ہیں؟ کیا تم کچھ کر سکتے ہو؟ دراصل، کچھ ہے جو تم کر سکتے ہو۔ یہ بہت آسان ہے – جب میں تمہیں بتاؤں گا کہ یہ کیا ہے تو تمہیں فوراً معلوم ہو جائے گا کہ یہ قابلِ عمل ہے۔ یہ کیسے ہے کہ انسان نے اپنے آپ کو اپنی موجودہ حالت میں پایا؟ کیا یہ اس کی لالچ اور تباہی کی وجہ سے ہے؟ اگر انسان اس تباہی کو ختم کر دے تو کیا اس کے رہنے کا ماحول آہستہ آہستہ خود کو ٹھیک نہیں کر لے گا؟ اگر خدا کچھ نہیں کرتا ہے، اگر خدا بنی نوع انسان کے لیے مزید کچھ نہیں کرنا چاہتا ہے – یعنی اگر وہ اس معاملے میں مداخلت نہیں کرتا ہے – تب بنی نوع انسان کا بہترین حل یہ ہو گا کہ تمام تباہی کو روکے اور اپنے زندگی بسر کرنے کے ماحول کو اپنی فطری حالت میں واپس آنے دے۔ اس تمام تباہی کو ختم کرنے کا مطلب خدا کی تخلیق کردہ چیزوں کی لوٹ مار اور تباہی کو ختم کرنا ہے۔ ایسا کرنے سے انسان جس ماحول میں رہتا ہے اسے بتدریج ٹھیک ہونے کا موقع ملے گا، جبکہ ایسا کرنے میں ناکامی کے نتیجے میں زندگی کے لیے اور بھی زیادہ گھناؤنا ماحول پیدا ہو گا جس کی تباہی وقت کے ساتھ ساتھ تیز ہو جائے گی۔ کیا میرا حل آسان ہے؟ یہ آسان اور قابل عمل ہے، کیا یہ نہیں ہے؟ واقعی آسان، اور کچھ لوگوں کے لیے قابلِ عمل ہے – لیکن کیا یہ زمین پر لوگوں کی وسیع اکثریت کے لیے قابلِ عمل ہے؟ (یہ نہیں ہے)۔ تمہارے لیے کم از کم، کیا یہ ممکن ہے؟ (ہاں)۔ وہ کیا چیز ہے جو تم سے ”ہاں“ کہلواتی ہے؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ خدا کے اعمال کو سمجھنے کی بنیاد سے ہوتا ہے؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کی شرط خدا کی حاکمیت کی اور منصوبے کی اطاعت ہے؟ (ہاں)۔ چیزوں کو تبدیل کرنے کا ایک طریقہ ہے، لیکن یہ وہ موضوع نہیں ہے جس پر ہم ابھی بات کر رہے ہیں۔ خدا ہر ایک انسانی زندگی کا ذمہ دار ہے اور وہ بالکل آخر تک ذمہ دار ہے۔ خدا تیرے لیے فراہم کرتا ہے، اور یہاں تک کہ اگر شیطان کے ذریعے تباہ شدہ اس ماحول میں، تُو بیماری یا آلودگی یا کسی زیادتی کا شکار ہوا ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے – خدا تیرے لیے مہیا کرے گا، اور خدا تجھے زندہ رہنے دے گا۔ تمہیں اس بات پر یقین ہونا چاہیے۔ خدا کسی انسان کو آسانی سے مرنے نہیں دے گا۔

کیا اب تم یہ تسلیم کرنے کی اہمیت کے بارے میں کچھ محسوس کر رہے ہو کہ ”خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے“؟ (ہاں، ہم نے محسوس کیا ہے)۔ تمہارے کیا احساسات ہیں؟ مجھے بتاؤ، (ماضی میں ہم نے پہاڑوں، سمندروں اور جھیلوں کا تعلق خدا کے اعمال سے جوڑنے کا کبھی نہیں سوچا تھا۔ آج خدا کی رفاقت کو سننے کے بعد ہی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان چیزوں کے اندر خدا کے اعمال اور حکمت موجود ہے؛ ہم دیکھتے ہیں کہ جب خدا نے تمام چیزوں کو تخلیق کرنا شروع کیا تب ہی اس نے ہر چیز میں ایک تقدیر اور اپنی نیک خواہشات شامل کر دی تھیں۔ تمام چیزیں باہمی طور پر مضبوط کرنے والی اور ایک دوسرے پر انحصار کرنے والی ہیں اور آخرکار اس سے فائدہ اٹھانے والا بنی نوع انسان ہے۔ آج جو کچھ ہم نے سنا وہ بہت تازہ اور نیا محسوس ہوتا ہے – ہم نے محسوس کیا ہے کہ خدا کے اعمال کتنے حقیقی ہیں۔ حقیقی دنیا میں، ہماری روزمرہ کی زندگی میں، اور ہر چیز کے ساتھ ہمارے تعامل میں، ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا ہی ہے)۔ تم نے واقعی دیکھا ہے، کیا تم نے نہیں دیکھا؟ خدا بنی نوع انسان کے لیے کسی مضبوط بنیاد کے بغیر فراہم نہیں کرتا؛ اس کی فراہمی صرف چند مختصر الفاظ نہیں ہیں۔ خدا نے بہت کچھ کیا ہے، اور حتیٰ کہ جو چیزیں تجھے نظر نہیں بھی آتیں وہ سب بھی تیرے فائدے کے لیے ہیں۔ انسان اس ماحول میں، ان تمام چیزوں کے اندر رہتا ہے جو خدا نے اس کے لیے بنائی ہیں، جہاں لوگ اور تمام چیزیں ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، پودے ایسی گیسوں کو خارج کرتے ہیں جو ہوا کو صاف کرتی ہیں، اور لوگ صاف کی گئی ہوا میں سانس لیتے ہیں اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں؛ پھر بھی کچھ پودے لوگوں کے لیے زہریلے ہیں، جبکہ دوسرے پودے زہریلے پودوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ یہ خدا کی تخلیق کا کمال ہے! لیکن ہم اس موضوع کو فی الحال چھوڑ دیتے ہیں؛ آج ہماری بحث بنیادی طور پر انسان اور باقی مخلوق کے بقائے باہمی پر تھی جس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ خدا کی تمام چیزوں کی تخلیق کی کیا اہمیت ہے؟ انسان باقی سب کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، بالکل اسی طرح انسان کو زندہ رہنے کے لیے ہوا کی ضرورت ہوتی ہے – اگر تجھے ایک خلا میں رکھا جائے تو تُو جلد ہی مر جائے گا۔ یہ ایک بہت سادہ اصول ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ انسان باقی مخلوقات سے الگ نہیں رہ سکتا۔ تو، انسان کو سب چیزوں کے بارے میں کیا رویہ رکھنا چاہیے؟ ایسا رویہ جو انھیں قیمتی سمجھتا ہے، ان کی حفاظت کرتا ہے، ان کا مؤثر استعمال کرتا ہے، ان کو تباہ نہیں کرتا ہے، انھیں ضائع نہیں کرتا ہے، اور انھیں اچانک خواہش پر تبدیل نہیں کرتا ہے، کیونکہ تمام چیزیں خدا کی طرف سے ہیں، تمام چیزیں بنی نوع انسان کے لیے اس کی فراہمی ہیں اور بنی نوع انسان کو ان کے ساتھ ذمہ داری سے پیش آنا چاہیے۔ آج ہم نے ان دو موضوعات پر بات کی ہے۔ ان پر احتیاط سے غور کرو اور ان کا گہری نظر سے جائزہ لو۔ اگلی بار، ہم کچھ چیزوں پر مزید تفصیل سے بات کریں گے۔ اس سے آج کا اجتماع اختتام پذیر ہوتا ہے۔ خدا حافظ!

18 جنوری 2014

سابقہ: خدا خود، منفرد VI

اگلا: خدا خود، منفرد VIII

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp