خدا خود، منفرد VIII
خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے (II)
ہم اپنے آخری موضوع پر رفاقت جاری رکھیں گے۔ کیا تم یاد کر سکتے ہو کہ آخری بار جب ہم نے رفاقت کی تھی تو کیا موضوع تھا؟ (خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے)۔ کیا یہ موضوع، ”خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے،“ ایک ایسا موضوع ہے جو تمہیں بہت بعید محسوس ہوتا ہے؟ یا کیا تمہارے دلوں میں پہلے سے ہی اس کا کوئی سرسری تصور موجود ہے؟ کیا کوئی ایک لمحے کے لیے بات کر سکتا ہے کہ اس موضوع پر ہماری آخری رفاقت کا مرکزی نقطہ کیا تھا؟ (خدا کی سب چیزوں کی تخلیق کے ذریعے، میں دیکھتا ہوں کہ وہ ہر چیز کی پرورش کرتا ہے اور بنی نوع انسان کی پرورش کرتا ہے۔ ماضی میں، میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ جب خدا انسان کے لیے فراہم کرتا ہے، تو وہ صرف اپنے چنے ہوئے لوگوں کو اپنا کلام فراہم کرتا ہے؛ میں نے کبھی ایسا نہیں دیکھا، ان قوانین کے ذریعے جو ہر چیز کو قابو میں رکھتے ہیں، خدا تمام بنی نوع انسان کی پرورش کر رہا ہے۔ یہ صرف خدا کے اس سچائی کے ابلاغ کے ذریعے ہے کہ میں جان گیا ہوں کہ وہ سب چیزوں کا سرچشمہ ہے، کہ سب چیزوں کی زندگی اسی کی طرف سے فراہم کی گئی ہے، کہ خدا ان قوانین کو ترتیب دیتا ہے اور سب چیزوں کی پرورش کرتا ہے۔ خدا کی سب چیزوں کی تخلیق سے، میں اس کی محبت کو دیکھتا ہوں)۔ پچھلی بار، ہم نے بنیادی طور پر خدا کی سب چیزوں کی تخلیق اور اس نے ان کے لیے کیسے قوانین اور اصول بنائے، کے بارے میں رفاقت کی۔ ایسے قوانین اور اس طرح کے اصولوں کے تحت، تمام چیزیں زندہ رہتی اور مرتی ہیں اور خدا کی حکمرانی اور خدا کی نظر میں انسان کے ساتھ موجود رہتی ہیں۔ ہم نے سب سے پہلے خدا کے بارے میں بات کی کہ وہ سب چیزوں کو تخلیق کرتا ہے اور اپنے طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے ان قوانین کا جن کے ذریعے وہ بڑھتی ہیں، نیز ان کی نشوونما کے راستوں اور ترتیب کا تعین کرتا ہے۔ اس نے ان طریقوں کا بھی تعین کیا کہ تمام چیزیں اس زمین میں زندہ رہیں تاکہ وہ پھلے پھولیں اور بڑھتی رہیں اور ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہوئے زندہ رہیں۔ ایسے طریقوں اور قوانین کے ساتھ، تمام چیزیں اس زمین پر آسان اور پرامن طریقے سے موجود رہنے اور بڑھنے کے قابل ہیں، اور صرف ایسے ماحول کے ساتھ ہی بنی نوع انسان کو زندہ رہنے کے لیے، ہمیشہ خدا کی راہنمائی میں آگے بڑھنے – ہمیشہ آگے بڑھنے کے لیے ایک مستحکم گھر اور ایک مستحکم حالت حاصل ہو سکتی ہے۔
پچھلی بار، ہم نے خدا کے تمام چیزوں کے لیے فراہم کرنے کے ایک بنیادی تصور پر بحث کی تھی: خدا تمام چیزوں کو اس طرح فراہم کرتا ہے کہ تمام چیزیں بنی نوع انسان کے فائدے کے لیے موجود اور زندہ رہیں۔ دوسرے لفظوں میں، ایسا ماحول خدا کے مقرر کردہ قوانین کی وجہ سے موجود ہے۔ یہ صرف خدا کے اس طرح کے قوانین کی دیکھ بھال اور انتظام کی وجہ سے ہے کہ بنی نوع انسان کے پاس اس کا موجودہ زندگی بسر کرنے کا ماحول ہے۔ ہم نے پچھلی بار جس کے بارے میں بات کی تھی، یہ اس کے اور خدا کے جس علم کے بارے میں ہم نے ماضی میں بات کی تھی، کے درمیان ایک بہت بڑی چھلانگ ہے۔ اس چھلانگ کے وجود کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ جب ہم نے ماضی میں خدا کو جاننے کی بات کی تھی، تو ہم خدا کے بنی نوع انسان کی حفاظت اور انتظام کے دائرہ کار میں بات کر رہے تھے – یعنی خدا کے چنے ہوئے لوگوں کی نجات اور نظم و نسق – اور اس دائرہ کار کے اندر، ہم نے خدا کو جاننے، خدا کے اعمال، اس کے مزاج، اس کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے، اس کی مرضی، اور وہ کس طرح انسان کو سچائی اور زندگی فراہم کرتا ہے کے بارے میں بات کی۔ لیکن پچھلی بار، ہم نے جو موضوع شروع کیا تھا وہ انجیل کے مواد اور خدا کے اپنے منتخب لوگوں کو بچانے کے دائرہ کار تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ، موضوع اس دائرہ کار سے، انجیل کی حدود سے اور کام کے ان تین مراحل جو خدا اپنے چنے ہوئے لوگوں پر انجام دیتا ہے، باہر نکل جاتا ہے اور اس کی بجائے خود خدا پر بحث کرتا ہے۔ لہذا، جب تو میری رفاقت کا یہ حصہ سنتا ہے، تو تجھے خدا کے بارے میں اپنے علم کو انجیل اور خدا کے کام کے تین مراحل تک ہرگز محدود نہیں کرنا چاہیے۔ اس کی بجائے، تجھے اپنا نقطہ نظر کھلا رکھنا چاہیے؛ تجھے سب چیزوں کے اندر خدا کے کاموں، اس کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے، اور وہ کس طرح تمام چیزوں کو حکم دیتا ہے اور ان کا انتظام کرتا ہے، کو ضرور دیکھنا چاہیے۔ اس طریقے کے ذریعے اور اس بنیاد پر، تو دیکھ سکتا ہے کہ خدا کس طرح تمام چیزوں کے لیے مہیا کرتا ہے، جو بنی نوع انسان کو یہ سمجھنے کے قابل بناتا ہے کہ خدا ہی تمام چیزوں کے لیے زندگی کا اصل سرچشمہ ہے، کہ یہ حقیقت میں خود خدا کی حقیقی شناخت ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی شناخت، حیثیت اور اختیار، اس کا سب کچھ، صرف ان لوگوں کے لیے نہیں ہے جو فی الحال اس کی پیروی کرتے ہیں – یہ صرف تمہارے لیے، لوگوں کے اس گروہ کے لیے نہیں – بلکہ سب چیزوں کے لیے ہے۔ پس تمام چیزوں کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ میں ہر چیز پر خدا کی حکمرانی کے دائرہ کار کو بیان کرنے کے لیے ”تمام چیزوں“ کی اصطلاح استعمال کرتا ہوں کیونکہ میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ خدا کی طرف سے مقرر کردہ چیزیں صرف وہ چیزیں ہی نہیں ہیں جو تم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہو – اس میں نہ صرف مادی دنیا شامل ہے جسے سب دیکھ سکتے ہیں، بلکہ مادی دنیا سے پرے ایک اور دنیا بھی شامل ہے جو انسانی آنکھوں سے نہیں دیکھی جا سکتی، اور اس سے بھی آگے، سیارے اور بیرونی خلا، جہاں بنی نوع انسان نہیں رہ سکتا۔ یہ ہر چیز پر خدا کی حاکمیت کا دائرہ ہے۔ اس کی سلطنت کا دائرہ بہت وسیع ہے؛ تمہارے حصے کے لیے، تم میں سے ہر ایک کو لازمی ضرورت ہے، کہ سمجھے، دیکھے، اور اس بارے میں واضح ہو کہ تمہیں کیا سمجھنا چاہیے، تمہیں کیا دیکھنا چاہیے، اور تمہیں کن چیزوں کا علم ہونا چاہیے۔ اگرچہ ”تمام چیزوں“ کی اصطلاح کا دائرہ واقعی بہت وسیع ہے، لیکن میں تمہیں اس دائرہ کار میں موجود ان چیزوں کے بارے میں نہیں بتاؤں گا کہ جنھیں دیکھنے کا تمہارے پاس کوئی طریقہ نہیں ہے یا جن کے ساتھ تم ذاتی طور پر رابطے میں نہیں آسکتے ہو۔ میں تمہیں صرف اس دائرہ کار میں موجود چیزوں کے بارے میں بتاؤں گا جن سے انسان رابطے میں آ سکتے ہیں، جنھیں سمجھ سکتے ہیں اور جن کا ادراک حاصل کر سکتے ہیں، تاکہ ہر کوئی اس جملے کے حقیقی معنی سے آگاہ ہو سکے کہ ”خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے۔“ اس طریقے سے تمہارے ساتھ میری رفاقت کا کوئی بھی لفظ کھوکھلا نہیں ہو گا۔
پچھلی بار، ہم نے ”خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے“ کے موضوع کا ایک سادہ جائزہ فراہم کرنے کے لیے کہانی سنانے کا طریقہ استعمال کیا تھا، تاکہ لوگ اس بات کی بنیادی سمجھ بوجھ حاصل کر سکیں کہ خُدا سب چیزوں کے لیے کیسے مہیا کرتا ہے۔ تمہیں یہ بنیادی تصور سکھانے کا مقصد کیا ہے؟ یہ لوگوں کو یہ سمجھانے کے لیے ہے کہ خدا کا کام صرف انجیل اور اس کے کام کے تین مراحل سے آگے تک پہنچتا ہے۔ وہ بہت زیادہ کام کر رہا ہے جسے انسان نہیں دیکھ سکتے اور جن سے وہ رابطے میں نہیں آ سکتے، وہ کام جسے وہ خود ذاتی طور پر کرتا ہے۔ اگر خدا صرف اپنے نظم و نسق اور اپنے چنے ہوئے لوگوں کو آگے لے جانے پر کام کر رہا ہو اور کسی دوسرے ایسے کام میں مشغول نہ ہو تو اس انسانیت بشمول تم سب کے لیے آگے بڑھنا بہت مشکل ہو گا۔ یہ انسانیت اور یہ دنیا ترقی جاری رکھنے سے قاصر رہے گی۔ اس میں اس جملے کی اہمیت مضمر ہے ”خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے،“ جو آج تمہارے ساتھ میری رفاقت کا موضوع ہو گا۔
زندگی کے لیے بنیادی ماحول جو خدا بنی نوع انسان کے لیے تخلیق کرتا ہے
ہم نے ”خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے،“ کے الفاظ سے متعلق بہت سے عنوانات اور بہت سے مواد پر گفتگو کی ہے لیکن کیا تم اپنے دلوں میں یہ جانتے ہو کہ خدا تمہارے لیے اپنا کلام فراہم کرنے اور تم پر اپنے تادیب اور عدالت کا کام سر انجام دینے کے علاوہ بنی نوع انسان کو کیا چیزیں عطا کرتا ہے؟ کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں، ”خدا مجھ پر فضل اور برکت عطا کرتا ہے۔ وہ مجھے نظم و ضبط اور تسلی دیتا ہے، وہ ہر ممکن طریقے سے میری دیکھ بھال کرتا ہے اور مجھے تحفظ دیتا ہے۔“ دوسرے کہیں گے، ”خدا مجھے روزانہ کھانے اور پینے سے نوازتا ہے،“ جب کہ کچھ یہ تک کہیں گے، ”خدا نے مجھے سب کچھ عطا کیا ہے۔“ لوگوں کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں اس طرح سے جن مسائل کا سامنا ہو جن کا تعلق تمہاری اپنی جسمانی زندگی کے دائرہ کار سے ہو تو ہو سکتا ہے کہ تم ان مسائل کا جواب دے سکو۔ خدا ہر شخص کو بہت سی چیزیں عطا کرتا ہے، حالانکہ ہم یہاں جو بات کر رہے ہیں وہ صرف لوگوں کی روزمرہ کی ضروریات کے دائرہ کار تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد ہر فرد کے نقطہ نظر کو وسعت دینا اور تمہیں چیزوں کو وسیع نقطہ نظر سے دیکھنے کا موقع دینا ہے۔ چونکہ خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے، اس لیے وہ سب چیزوں کی زندگی کو کیسے برقرار رکھتا ہے؟ دوسرے لفظوں میں، خدا اپنی مخلوق کی تمام چیزوں کو اپنے وجود کو برقرار رکھنے اور اس کے بنیادی قوانین پر قائم رہنے کے لیے کیا دیتا ہے تاکہ وہ موجود رہ سکیں؟ یہ ہماری آج کی بحث کا بنیادی نکتہ ہے۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ میں نے کیا کہا ہے؟ یہ موضوع تمہارے لیے بہت نامانوس ہو سکتا ہے، لیکن میں کسی ایسے عقیدوں کے بارے میں بات نہیں کروں گا جو بہت گہرے ہوں۔ میں اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کروں گا کہ تم میرے الفاظ کو سن سکو اور ان سے سمجھ بوجھ حاصل کر سکو۔ تمہیں کوئی بوجھ محسوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے – تمہیں بس غور سے سننا ہے۔ تاہم، اس مقام پر، مجھے ایک بار پھر زور دینا چاہیے: میں کس موضوع پر بات کر رہا ہوں؟ مجھے بتاؤ۔ (خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے)۔ تو پھر خدا ہر چیز کے لیے کیسے مہیا کرتا ہے؟ وہ سب چیزوں کو کیا فراہم کرتا ہے کہ یہ کہا جا سکے کہ ”خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے“؟ کیا تمہارے اس بارے میں کوئی تصورات یا خیالات ہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ میں ایک ایسے موضوع پر بات کر رہا ہوں جس کے متعلق تمہارے دلوں اور تمہارے ذہنوں میں تقریباً کوئی علم نہیں ہے۔ لیکن مجھے امید ہے کہ تم کسی علم، انسانی ثقافت یا تحقیق کی بجائے اس موضوع کو اور جو میں کہوں گا، اس کو خدا کے اعمال سے جوڑ سکتے ہو۔ میں صرف خدا کے بارے میں، خود خدا کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔ تمہارے لیے یہ میری تجویز ہے۔ مجھے یقین ہے کہ تم سمجھتے ہو، ٹھیک ہے؟
خدا نے انسانوں کو بہت سی چیزیں عطا کی ہیں۔ میں ان چیزوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے آغاز کروں گا جو لوگ دیکھ سکتے ہیں، یعنی وہ جو محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں لوگ اپنے دلوں میں قبول کر سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں۔ تو سب سے پہلے، ہم مادی دنیا کی بحث کے ساتھ اس بات کا آغاز کرتے ہیں کہ خدا نے بنی نوع انسان کو کیا فراہم کیا ہے۔
ا۔ ہوا
سب سے پہلے، خدا نے ہوا پیدا کی تاکہ انسان سانس لے سکے۔ ہوا ایک ایسا مادّہ ہے جس سے انسان روزانہ رابطہ کر سکتا ہے اور یہ ایک ایسی چیز ہے جس پر انسان لمحہ بہ لمحہ حتیٰ کہ سوتے ہوئے بھی بھروسا کرتا ہے۔ خدا نے جو ہوا بنائی ہے وہ بنی نوع انسان کے لیے انتہائی اہم ہے: یہ اس کی ہر سانس اور خود زندگی کے لیے ضروری ہے۔ یہ مادّہ، جسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے لیکن دیکھا نہیں جا سکتا، اپنی تخلیق کردہ تمام چیزوں کے لیے خدا کا پہلا تحفہ تھا۔ لیکن ہوا پیدا کرنے کے بعد، کیا خدا اپنے کام کو ختم سمجھتے ہوئے رک گیا؟ یا اس نے غور کیا کہ ہوا کتنی کثیف ہو گی؟ کیا اس نے غور کیا کہ ہوا میں کیا شامل ہو گا؟ جب اس نے ہوا بنائی تو خدا کیا سوچ رہا تھا؟ خدا نے ہوا کیوں بنائی، اور اس کا استدلال کیا تھا؟ انسانوں کو ہوا کی ضرورت ہے – انہیں سانس لینے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، ہوا کی کثافت انسانی پھیپھڑوں کے لیے موزوں ہونی چاہیے۔ کیا کوئی ہوا کی کثافت جانتا ہے؟ درحقیقت، لوگوں کو اس سوال کا جواب نمبروں یا اعداد و شمار کے لحاظ سے جاننے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے، اور بےشک، اس کا جواب جاننا بالکل غیر ضروری ہے – صرف ایک عام خیال رکھنا بالکل مناسب ہے۔ خدا نے ہوا کو ایک ایسی کثافت کے ساتھ بنایا جو انسانی پھیپھڑوں کے سانس لینے کے لیے موزوں ترین ہے۔ یعنی اس نے ہوا کو اس لیے بنایا کہ وہ سانس کے ذریعے انسانی جسم میں آسانی سے داخل ہو سکے اور تاکہ وہ سانس لیتے وقت جسم کو نقصان نہ پہنچائے۔ یہ خدا کے خیالات تھے جب اس نے ہوا کو بنایا۔ اس کے بعد، ہم بات کریں گے کہ ہوا میں کیا شامل ہے۔ اس کے مواد انسانوں کے لیے زہریلے نہیں ہیں اور پھیپھڑوں یا جسم کے کسی حصے کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ خدا نے اس سب کو ملحوظ رکھنا تھا۔ خدا کو اس بات کو زیرِ غور لانا تھا کہ انسان جس ہوا میں سانس لیتے ہیں وہ جسم میں آسانی سے داخل ہو اور باہر نکلے، اور سانس لینے کے بعد، ہوا کے اندر موجود مادوں کی نوعیت اور مقدار ایسی ہو، کہ خون کے ساتھ ساتھ پھیپھڑوں میں فالتو ہوا اور مجموعی طور پر جسم، مناسب طریقے سے تحوّل کے عمل سے گزرے۔ مزید یہ کہ اسے اس بات پر غور کرنا تھا کہ ہوا میں کوئی زہریلا مادہ نہ ہو۔ ہوا کے ان دو معیارات کے بارے میں تمہیں بتانے کا میرا مقصد تمہیں کوئی خاص علم فراہم کرنا نہیں ہے، بلکہ تمہیں یہ دکھانا ہے کہ خدا نے اپنی تخلیق کے اندر ہر ایک چیز کو اپنے غوروفکر کے مطابق بنایا ہے، اور ہر چیز جو اس نے پیدا کی ہے وہ اتنی بہترین ہے جتنی کہ ہو سکتی ہے. مزید برآں، ہوا میں دھول کی مقدار کے بارے میں اور زمین پر مٹی، ریت اور گردوغبار کی مقدار؛ اس کے ساتھ ساتھ دھول کی مقدار جو آسمان سے نیچے زمین کی طرف آتی ہے – خدا کے پاس ان چیزوں کے نظم و نسق کے طریقے ہیں، ان کو صاف کرنے یا انہیں اجزا میں تقسیم کر کے بکھیرنے کے طریقے بھی ہیں۔ اگرچہ دھول کی ایک خاص مقدار ہوتی ہے، لیکن خدا نے اسے اس طرح بنایا ہے کہ دھول انسان کے جسم کو نقصان نہ پہنچائے اور نہ ہی انسان کے سانس لینے کو خطرے میں ڈالے، اور اس نے دھول کے ذرات کی جسامت ایسی بنائی جو جسم کے لیے نقصان دہ نہ ہو۔ کیا خدا کی ہوا کی تخلیق ایک اسرار نہیں تھی؟ کیا یہ کوئی سادہ سی بات تھی، جیسے اس کے منہ سے سانس کا ایک ہلکا جھونکا اڑانا؟ (نہیں)۔ حتیٰ کہ اس کی سادہ ترین چیزوں کی تخلیق میں بھی، خدا کا بھید، اس کے دماغ کے کام، اس کے سوچنے کا انداز، اور اس کی حکمت سب کچھ عیاں ہے۔ کیا خدا عملی نہیں ہے؟ (ہاں، وہ ہے)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سادہ چیزیں بنانے میں بھی خدا انسانیت کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ سب سے پہلے، انسان جس ہوا میں سانس لیتے ہیں وہ صاف ہے، اور اس کے مواد انسانوں کے سانس لینے کے لیے موزوں ہیں، زہریلے نہیں ہیں اور انسانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتے؛ اسی طریقے سے، ہوا کی کثافت انسانی سانس لینے کے لیے موزوں ہے۔ یہ ہوا، جسے انسان مسلسل اندر کھینچتا اور باہر نکالتا ہے، انسانی جسم، انسانی گوشت پوست کے لیے ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان بغیر کسی رکاوٹ یا فکر کے آزادانہ سانس لے سکتے ہیں۔ اس طرح وہ عمومی انداز میں سانس لے سکتے ہیں۔ ہوا وہ ہے جسے خدا نے شروع میں پیدا کیا، اور جو انسان کے سانس لینے کے لیے ناگزیر ہے۔
ب۔ درجہ حرارت
دوسری چیز جس پر ہم بات کریں گے وہ ہے درجہ حرارت۔ ہر شخص جانتا ہے کہ درجہ حرارت کیا ہے۔ درجہ حرارت ایسی چیز ہے جو انسانی بقا کے موزوں ماحول کے لیے ضروری ہے۔ اگر درجہ حرارت بہت زیادہ ہو – مثال کے طور پر، فرض کرو کہ درجہ حرارت چالیس ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہو – تو کیا یہ انسانوں کے لیے بہت نڈھال کر دینے والا نہیں ہو گا؟ کیا ایسے حالات میں رہنا انسانوں کے لیے تھکا دینے والا نہیں ہو گا؟ اور اگر درجہ حرارت بہت کم ہو تو کیا ہو گا؟ فرض کرو کہ درجہ حرارت منفی چالیس ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جائے – انسان ان حالات کو بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ لہٰذا، خدا نے درجہ حرارت کی حد کو متعین کرنے پر خصوصی توجہ دی، یعنی درجہ حرارت کی وہ حد جس کے مطابق انسانی جسم اپنے آپ کو ڈھال سکتا ہے، جو کم و بیش، منفی تیس ڈگری سینٹی گریڈ اور چالیس ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان ہوتی ہے۔ شمال سے جنوب تک علاقوں کا درجہ حرارت بنیادی طور پر اس حد میں ہوتا ہے۔ ٹھنڈے علاقوں میں درجہ حرارت شاید منفی پچاس یا ساٹھ ڈگری سینٹی گریڈ تک گر سکتا ہے۔ خدا نے ان خطوں میں انسانوں کو نہیں رہنے دیا۔ تو پھر، یہ منجمد خطے کیوں موجود ہیں؟ خدا کی اپنی حکمت ہے، اور اس کے لیے اس کے اپنے ارادے ہیں۔ وہ تجھے ان جگہوں کے قریب نہیں جانے دے گا۔ وہ جگہیں جو بہت زیادہ گرم اور بہت زیادہ ٹھنڈی ہیں خدا ان کی حفاظت کرتا ہے، یعنی اس نے انسان کے لیے وہاں رہنے کی منصوبہ بندی نہیں کی۔ یہ مقامات انسانوں کے لیے نہیں ہیں۔ لیکن خدا نے زمین پر ایسی جگہیں کیوں رہنے دیں؟ اگر یہ ایسی جگہیں ہیں جہاں پر خدا نے انسان کو رہائش رکھنے یا زندہ رہنے نہیں دینا تھا تو خدا نے انہیں کیوں بنایا؟ اس میں خدا کی حکمت پوشیدہ ہے۔ یعنی خدا نے اس ماحول کے درجہ حرارت کی حد کو معقول طور پر ترتیب دیا ہے جس میں انسان زندہ رہتے ہیں۔ یہاں ایک قدرتی قانون بھی کام کر رہا ہے۔ خدا نے درجہ حرارت کو برقرار رکھنے اور قابو کرنے کے لیے کچھ چیزیں بنائی ہیں۔ وہ کیا ہیں؟ سب سے پہلے، سورج لوگوں کے لیے گرمائش لا سکتا ہے، لیکن جب یہ بہت زیادہ ہو تو کیا لوگ اس گرمی کو برداشت کر سکتے ہیں؟ کیا کوئی ایسا شخص ہے جو سورج تک پہنچنے کی ہمت کرے؟ کیا زمین پر کوئی ایسا سائنسی آلہ ہے جو سورج کے قریب جا سکے؟ (نہیں)۔ کیوں نہیں؟ سورج بہت گرم ہے۔ کوئی بھی چیز جو بہت قریب آئے گی پگھل جائے گی۔ اسی لیے خدا نے سورج کی بلندی کو بنی نوع انسان سے اوپر اور اس سے اس کے فاصلے کو اپنے نہایت محتاط حساب اور اپنے معیارات کے مطابق مقرر کرنے کے لیے خاص طور پر کام کیا۔ پھر، زمین کے دو قطب ہیں، جنوبی اور شمالی۔ یہ علاقے مکمل طور پر منجمد اور برفانی ہیں۔ کیا بنی نوع انسان برفانی علاقوں میں رہ سکتا ہے؟ کیا ایسی جگہیں انسانی بقا کے لیے موزوں ہیں؟ نہیں، اسی لیے لوگ ان جگہوں پر نہیں جاتے۔ چونکہ لوگ قطب جنوبی اور قطب شمالی پر نہیں جاتے، اس لیے ان کے برفانی پہاڑ اور تودے محفوظ رہتے ہیں اور اپنا مقصد پورا کرنے کے قابل ہوتے ہیں، جو کہ درجہ حرارت کو قابو کرنا ہے۔ تم سمجھتے ہو، ہاں؟ اگر قطب جنوبی اور قطب شمالی نہ ہوتے تو سورج کی مسلسل تپش کی وجہ سے زمین پر موجود لوگ فنا ہو جاتے۔ لیکن کیا خدا صرف ان دو چیزوں کے ذریعے درجہ حرارت کو انسانی بقا کے لیے موزوں حد میں رکھتا ہے؟ نہیں۔ ہر قسم کی جاندار چیزیں بھی ہیں، جیسے کہ میدانوں میں گھاس، مختلف قسم کے درخت، اور جنگلوں میں ہر قسم کے پودے جو سورج کی حرارت کو جذب کرتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے سورج کی حرارتی توانائی کو ایسے طریقے سے بے اثر کر دیتے ہیں جو انسان کے رہنے والے ماحول کے درجہ حرارت کو ایک اصول کے تحت رکھتا ہے۔ پانی کے ذرائع بھی ہیں، جیسے دریا اور جھیلیں۔ دریاؤں اور جھیلوں کا احاطہ کرنے والے علاقے کا کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔ کوئی بھی اس بات پر اختیار نہیں رکھتا کہ زمین پر کتنا پانی ہو، نہ ہی اس بات پر کہ وہ پانی کہاں بہے، اس کے بہاؤ کی سمت کیا ہو، اس کا حجم یا اس کی رفتار کیا ہو۔ صرف خدا ہی یہ جانتا ہے۔ پانی کے یہ مختلف ذرائع بھی، زمینی پانی سے لے کر زمین کے اوپر نظر آنے والے دریاؤں اور جھیلوں تک، انسان کے رہنے والے ماحول کے درجہ حرارت کو ایک اصول کے تحت رکھ سکتے ہیں۔ پانی کے ذرائع کے علاوہ، تمام قسم کی جغرافیائی تشکیل بھی ہے، جیسے کہ پہاڑ، میدان، گھاٹی، اور گیلی زمینیں، جو سب درجہ حرارت کو ایک حد تک اپنے جغرافیائی دائرہ کار اور رقبے کے تناسب سے ایک قاعدے کے تحت رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر ایک پہاڑ کا محیط ایک سو کلومیٹر ہے، تو وہ ایک سو کلومیٹر، ایک سو کلومیٹر کی افادیت میں حصہ ڈالیں گے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ خدا نے زمین پر ایسے کتنے پہاڑی سلسلے اور گھاٹیوں کو تخلیق کیا ہے، تو یہ وہ تعداد ہے جس پر خدا نے غوروفکر کی ہے۔ دوسرے لفظوں میں خدا کی تخلیق کردہ ہر ایک چیز کے پیچھے ایک کہانی ہے اور ہر چیز میں خدا کی حکمت اور تدبیریں شامل ہیں۔ مثال کے طور پر، جنگلات اور سبزے کی تمام اقسام پر غور کرو – جس سلسلے اور حد میں وہ موجود ہیں اور بڑھتے ہیں وہ کسی بھی انسان کے اختیار سے باہر ہے، اور ان چیزوں پر کسی کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ اسی طرح کسی بھی انسان کے اختیار میں یہ نہیں ہے کہ وہ کتنا پانی جذب کرتے ہیں اور نہ ہی یہ کہ وہ سورج سے کتنی حرارتی توانائی جذب کرتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں اس منصوبے کے دائرہ کار میں آتی ہیں جو خدا نے تمام چیزوں کو تخلیق کرتے وقت بنایا تھا۔
یہ صرف خدا کی محتاط منصوبہ بندی، غور و فکر اور ہر لحاظ سے ترتیب کی وجہ سے ہے کہ انسان ایک ایسے مناسب درجہ حرارت والے ماحول میں رہ سکتا ہے۔ لہذا، ہر ایک چیز جو انسان اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے، جیسے سورج، جنوبی اور شمالی قطب جن کے بارے میں لوگ اکثر سنتے ہیں، نیز زمین پر اور زمین کے نیچے اور پانی میں مختلف جاندار چیزیں، اور جنگلات اور دیگر قسم کے سبزے سے ڈھکی ہوئی جگہ کی مقدار، اور پانی کے ذرائع، پانی کے مختلف ذخائر، سمندری پانی اور میٹھے پانی کی مقدار، اور مختلف جغرافیائی ماحول – یہ وہ سب چیزیں ہیں جو خدا انسان کی بقا کے لیے معمول کے درجہ حرارت کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یہ مطلق ہے۔ انسان ایسے مناسب درجہ حرارت والے ماحول میں رہنے کے قابل صرف اسی وجہ سے ہوا ہے کہ خدا نے اس سب کے بارے میں گہرائی سے سوچا۔ اسے ہرگز نہ تو زیادہ ٹھنڈا ہونا چاہیے اور نہ ہی زیادہ گرم: وہ جگہیں جو بہت زیادہ گرم ہیں، جہاں درجہ حرارت انسانی جسم کے موافق ہونے سے زیادہ بڑھ جاتا ہے، وہ یقینی طور پر خدا نے تیرے لیے مخصوص کر کے نہیں رکھی ہیں۔ وہ جگہیں جو بہت زیادہ ٹھنڈی ہیں، جہاں درجہ حرارت بہت کم ہے، جہاں پہنچ کر انسان صرف چند منٹوں میں ہی مکمل طور پر جم جائے گا، اس طرح کہ وہ بول نہیں سکے گا، اس کا دماغ جم جائے گا، وہ سوچنے سے قاصر ہو گا، اور جلد ہی اس کا دم گھٹ جائے گا – ایسی جگہیں بھی خدا نے بنی نوع انسان کے لیے مخصوص نہیں کی ہیں۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ انسان کس قسم کی تحقیق کرنا چاہتے ہیں، اور نہ ہی اس بات سے کہ آیا وہ ایجاد کرنا چاہتے ہیں یا اس قسم کی حدود کو توڑنا چاہتے ہیں یا نہیں – لوگوں کے خیالات جو بھی ہوں، وہ کبھی بھی ان حدود سے تجاوز نہیں کر سکیں گے جن کے مطابق انسانی جسم خود کو ڈھال سکتا ہے۔ وہ کبھی بھی ان حدود کو مسترد نہیں کر سکیں گے جو خدا نے انسان کے لیے پیدا کی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اور خدا بہتر جانتا ہے کہ انسانی جسم کس درجہ حرارت کے مطابق خود کو ڈھال سکتا ہے۔ لیکن انسان خود نہیں جانتے ہیں۔ میں یہ کیوں کہتا ہوں کہ انسان نہیں جانتے؟ انسانوں نے کیا احمقانہ کام کیے ہیں؟ کیا بہت سے لوگوں نے قطب شمالی اور قطب جنوبی کو للکارنے کی مسلسل کوشش نہیں کی ہے؟ ایسے لوگ ہمیشہ ان جگہوں پر جا کر زمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ وہاں پر بس سکیں۔ یہ ایک غیرمعقول فعل ہو گا۔ یہاں تک کہ اگر تو نے قطبین کی اچھی طرح تحقیق کر لی ہے، تو پھر کیا؟ یہاں تک کہ اگر تو درجہ حرارت کے مطابق ڈھل سکتا ہے اور وہاں رہ سکتا ہے، تو کیا تیرے جنوبی اور شمالی قطبین کے موجودہ ماحول کو زندگی کے لیے ”بہتر“ کرنے سے بنی نوع انسان کو کسی بھی طرح فائدہ ہو گا؟ بنی نوع انسان کے پاس ایک ایسا ماحول ہے جس میں وہ زندہ رہ سکتا ہے، پھر بھی انسان وہاں خاموشی اور ضابطے کے تحت نہیں رہتے بلکہ اس کی بجائے ایسی جگہوں پر مہم جوئی کرنے پر اصرار کرتے ہیں جہاں وہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ وہ اس مناسب درجہ حرارت میں زندگی سے بیزار اور بے چین ہو گئے ہیں، اور بہت سی نعمتوں سے لطف اندوز ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ، زندگی کے لیے یہ باقاعدہ ماحول بنی نوع انسان نے تقریباً مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے، لہٰذا اب وہ سوچتے ہیں کہ وہ قطب جنوبی اور قطب شمالی پر بھی مزید نقصان پہنچانے یا کسی نہ کسی ”سبب“ کی جستجو کرنے کے لیے جا سکتے ہیں تاکہ وہ ”ایک نیا کام کرنے“ کا کوئی طریقہ تلاش کر سکیں۔ کیا یہ حماقت نہیں ہے؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے جد شیطان کی راہنمائی میں یہ بنی نوع انسان ایک کے بعد ایک غیرمعقول کام کر رہا ہے، لاپروائی اور انجام سے بے پروا ہو کر اس خوبصورت گھر کو تباہ کر رہا ہے جو خدا نے اس کے لیے بنایا ہے۔ یہ شیطان کا کام ہے۔ مزید، یہ دیکھ کر کہ زمین پر بنی نوع انسان کی بقا کسی حد تک خطرے میں پڑ گئی ہے، بہت سے لوگ چاند پر جانے کے طریقے ڈھونڈتے ہیں اور وہاں پر زندہ رہنے کا کوئی طریقہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن آخر کار، چاند پر آکسیجن کی کمی ہے۔ کیا انسان آکسیجن کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے؟ چونکہ چاند پر آکسیجن کی کمی ہے اس لیے یہ ایسی جگہ نہیں ہے جہاں انسان قیام کر سکے، پھر بھی انسان وہاں جانے کی خواہش پر قائم رہتا ہے۔ اس رویے کو کیا کہا جائے؟ یہ خود کو تباہ کرنا بھی ہے۔ چاند ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہوا نہیں ہے، اور اس کا درجہ حرارت انسانی بقا کے لیے موزوں نہیں ہے – اس لیے، یہ خدا کی طرف سے انسان کے لیے مخصوص کی گئی جگہ نہیں ہے۔
ہمارا موجودہ موضوع، درجہ حرارت، وہ چیز ہے جس کا سامنا لوگوں کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں ہوتا ہے۔ درجہ حرارت ایک ایسی چیز ہے جسے تمام انسانی اجسام محسوس کر سکتے ہیں، لیکن کوئی بھی اس بارے میں نہیں سوچتا کہ درجہ حرارت کیسے آیا، یا کون اس کا نگران ہے اور اسے کس طرح قابو میں رکھتا ہے کہ یہ انسانی بقا کے لیے موزوں ہو۔ یہ وہی ہے جو ہم اب سیکھ رہے ہیں۔ کیا اس میں خدا کی حکمت ہے؟ کیا اس میں خدا کا عمل ہے؟ (ہاں)۔ اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ خدا نے انسانی بقا کے لیے موزوں درجہ حرارت کے ساتھ ماحول بنایا، کیا یہ ان طریقوں میں سے ایک ہے جن سے خدا سب چیزوں کے لیے مہیا کرتا ہے؟ یہ ہے۔
پ۔ آواز
تیسری چیز کیا ہے؟ یہ ایک ایسی چیز بھی ہے جو انسانی وجود کے عام ماحول کا ایک لازمی حصہ ہے، ایک ایسی چیز جس کے لیے خدا نے تمام چیزوں کو تخلیق کرتے وقت انتظامات کرنا تھے۔ یہ خدا اور ہر ایک انسان کے لیے بہت اہم ہے۔ اگر خدا نے اس چیز کا خیال نہ رکھا ہوتا تو اس سے بنی نوع انسان کی بقا میں بہت زیادہ خلل پڑتا، یعنی اس کا انسان کی زندگی اور اس کے گوشت پوست کے جسم پر اتنا زیادہ اثر پڑتا کہ انسان ایسے ماحول میں زندہ ہی نہیں رہ سکتا تھا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایسے ماحول میں کوئی جاندار چیز زندہ نہیں رہ سکتی تھی۔ تو، میں یہ کس کے متعلق بات کر رہا ہوں؟ میں آواز کی بات کر رہا ہوں۔ خدا نے ہر چیز کو پیدا کیا، اور ہر چیز خدا کے ہاتھ میں زندہ رہتی ہے۔ خدا کی تخلیق کی تمام چیزیں اس کی نظر میں زندہ اور مستقل حرکت میں ہوتی ہیں۔ اس سے میرا مطلب یہ ہے کہ خدا کی تخلیق کردہ ہر چیز اپنے وجود میں اہمیت اور معنی رکھتی ہے؛ یعنی ہر چیز کے وجود کے متعلق کچھ نہ کچھ ضروری ہے۔ خدا کی نظر میں، ہر چیز زندہ ہے، اور، چونکہ تمام چیزیں زندہ ہیں اس لیے ان میں سے ہر ایک آواز پیدا کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، زمین مسلسل گھوم رہی ہے، سورج مسلسل گھوم رہا ہے، اور چاند بھی مسلسل گھوم رہا ہے۔ جیسا کہ تمام چیزیں بڑھتی ہیں، ترقی کرتی ہیں، اور حرکت کرتی ہیں، وہ مسلسل آواز کا اخراج کر رہی ہیں۔ خدا کی تخلیق کی تمام چیزیں جو زمین پر موجود ہیں مسلسل بڑھتی ہیں، ترقی کرتی ہیں اور حرکت میں ہیں۔ مثال کے طور پر، پہاڑوں کی بنیادیں حرکت کرتی اور جگہ بدلتی رہتی ہیں، اور سمندر کی گہرائیوں میں موجود تمام جاندار چیزیں تیر رہی ہیں اور حرکت کر رہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جاندار چیزیں، خدا کی نظر میں تمام چیزیں، قائم شدہ نمونوں کے مطابق، مستقل، باقاعدہ حرکت میں ہیں۔ تو، وہ کیا چیز ہے جو ان تمام چیزوں سے وجود میں آئی ہے جو اندھیرے میں پروان چڑھتی اور ترقی کرتی ہیں اور رازداری میں چلتی ہیں؟ آوازیں – زبردست، طاقتور آوازیں۔ زمین کے سیارے سے آگے، تمام قسم کے سیارے بھی مسلسل حرکت میں ہیں، اور ان سیاروں پر جاندار چیزیں اور نامیاتی وجود بھی مسلسل بڑھتے، پروان چڑھتے اور حرکت کرتے رہتے ہیں۔ یعنی جاندار اور بے جان تمام چیزیں خدا کی نظر میں مسلسل آگے بڑھ رہی ہیں، اور جب وہ بڑھ رہی ہیں تو ان میں سے ہر ایک آواز بھی خارج کر رہی ہے۔ خدا نے ان آوازوں کا انتظام بھی کیا ہے، اور مجھے یقین ہے کہ تم اُس کے ایسا کرنے کی وجہ کو پہلے سے جانتے ہو، کیا تم نہیں جانتے؟ جب تم کسی ہوائی جہاز کے قریب پہنچتے ہو تو اس کے انجن کی گرج کا تم پر کیا اثر ہوتا ہے؟ اگر تم زیادہ دیر اس کے قریب رہو گے تو تمہارے کان بہرے ہو جائیں گے۔ تمہارے دل کا کیا ہو گا – کیا یہ ایسی سخت آزمائش کو برداشت کر سکے گا؟ کمزور دل والے کچھ لوگ برداشت نہیں کریں گے۔ یقیناً مضبوط دل والے بھی اسے زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکیں گے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آواز کا اثر انسانی جسم پر خواہ وہ کان ہو یا دل، ہر انسان کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور بہت زیادہ اونچی آوازیں لوگوں کو نقصان پہنچائیں گی۔ اس لیے جب خدا نے تمام چیزوں کو پیدا کیا اور جب انھوں نے معمول کے مطابق کام کرنا شروع کر دیا تو خدا نے ان آوازوں کے لیے مناسب انتظام کر دیا، ہر چیز کی حرکت کی آوازیں، سب متحرک چیزوں کی آوازیں۔ یہ بھی ان مسائل میں سے ایک ہے جن پر خدا کو بنی نوع انسان کے لیے ماحول بناتے وقت غور کرنا تھا۔
سب سے پہلے، زمین کی سطح سے اوپر فضا کی اونچائی کا اثر آواز پر پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ، مٹی میں رخنوں کی جسامت بھی اثر انداز ہو گی اور آواز کو متاثر کرے گی۔ پھر مختلف جغرافیائی ماحول ہیں جن کا سنگم بھی آواز پر اثر انداز ہوتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا بعض آوازوں کو ختم کرنے کے لیے مخصوص طریقے استعمال کرتا ہے، تاکہ انسان ایسے ماحول میں زندہ رہ سکیں جس کو ان کے کان اور دل برداشت کر سکیں۔ بصورت دیگر، آوازیں بنی نوع انسان کی بقا کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ پیش کریں گی، جو ان کی زندگیوں میں ایک بہت بڑی زحمت بن جائیں گی اور ان کے لیے ایک سنگین مسئلہ پیدا کر دیں گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے اپنی زمین، فضا اور مختلف قسم کے جغرافیائی ماحول کی تخلیق پر بہت خصوصی توجہ دی تھی اور ان میں سے ہر ایک کے اندر خدا کی حکمت موجود ہے۔ اس کے بارے میں بنی نوع انسان کی سمجھ بوجھ کو زیادہ تفصیل سے جاننے کی ضرورت نہیں ہے – لوگوں کے لیے یہ جاننا کافی ہے کہ اس میں خدا کے اعمال شامل ہیں۔ اب تم مجھے بتاؤ، یہ کام جو خدا نے کیا تھا – انسانی زندگی کے ماحول اور اس کی معمول کی زندگیوں کو برقرار رکھنے کے لیے آواز کی انتہائی درست پیمانہ بندی – کیا یہ ضروری تھا؟ (ہاں)۔ چونکہ یہ کام ضروری تھا، اس لیے اس نقطہ نظر سے، کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ خدا نے اس کام کو تمام چیزوں کی فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا؟ خدا نے انسانوں کو فراہم کرنے کے لیے ایسا پرسکون ماحول پیدا کیا ہے تاکہ انسانی جسم اس کے اندر بالکل معمول کے مطابق زندگی گزار سکے، بغیر کسی مداخلت کے، اور اس طرح بنی نوع انسان اپنے وجود اور معمول کے مطابق زندگی گزارنے کے قابل ہو۔ تو پھر کیا یہ اُن طریقوں میں سے ایک نہیں ہے جن سے خدا بنی نوع انسان کے لیے فراہم کرتا ہے؟ کیا یہ بہت اہم کام نہیں تھا جو خدا نے کیا؟ (ہاں)۔ اس کی بہت ضرورت تھی۔ تو پھر تم اس کی تعریف کیسے کرتے ہو؟ اگرچہ تم یہ محسوس نہیں کر سکتے کہ یہ خدا کا عمل تھا، اور نہ ہی تم یہ جانتے ہو کہ خدا نے اس وقت یہ عمل کس طرح انجام دیا، پھر بھی کیا تم اس ضرورت کو محسوس کر سکتے ہو جس کے تحت خدا نے یہ کام کیا تھا؟ کیا تم خدا کی حکمت اور اس کی دیکھ بھال اور اس سوچ کو محسوس کر سکتے ہو جو اس نے اس میں شامل کی ہے؟ (ہاں، ہم کر سکتے ہیں)۔ اگر تم اسے محسوس کرنے کے قابل ہو، تو پھر یہ کافی ہے۔ خدا نے اپنی تخلیق کردہ چیزوں میں سے بہت سے اعمال ایسے کیے ہیں جنہیں لوگ نہ محسوس کر سکتے ہیں اور نہ ہی دیکھ سکتے ہیں۔ میں یہ بات صرف تمہیں خدا کے اعمال کے بارے میں بتانے کے لیے کر رہا ہوں، تاکہ تم خدا کو پہچان سکو۔ یہ وہ نشانیاں ہیں جو تمہیں خدا کو جاننے اور سمجھنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔
ت۔ روشنی
چوتھی چیز لوگوں کی آنکھوں کے متعلق ہے: روشنی۔ یہ بھی بہت ضروری ہے۔ جب تو ایک چمکدار روشنی دیکھتا ہے، اور اس کی چمک ایک خاص طاقت تک پہنچ جاتی ہے، تو یہ انسانی آنکھوں کو اندھا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ آخر، انسانی آنکھیں گوشت کی آنکھیں ہی تو ہیں۔ وہ سوزش برداشت نہیں کر سکتیں۔ کیا کوئی براہ راست سورج کی طرف دیکھنے کی ہمت کرتا ہے؟ کچھ لوگوں نے اسے آزمایا ہے، اور اگر وہ دھوپ کے چشمے پہنے ہوئے ہیں، تو یہ ٹھیک کام کرتے ہیں – لیکن اس کے لیے ایک آلے کے استعمال کی ضرورت ہوتی ہے۔ آلات کے بغیر، انسان کی عام آنکھوں میں سورج کا سامنا کرنے اور اسے براہ راست دیکھنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ تاہم، خدا نے سورج کو بنی نوع انسان کے لیے روشنی لانے کے لیے تخلیق کیا، اور یہ روشنی بھی، وہ چیز ہے جس کا اس نے خیال رکھا۔ خدا نے صرف سورج کی تخلیق کو ختم نہیں کیا کہ اسے کہیں رکھ دیا اور پھر اسے نظر انداز کر دیا؛ خدا چیزوں کو اس انداز میں نہیں کرتا ہے۔ وہ اپنے اعمال میں بہت محتاط ہے، اور ان کے متعلق بہت اچھی طرح سوچتا ہے۔ خدا نے بنی نوع انسان کے لیے آنکھیں بنائی ہیں تاکہ وہ دیکھ سکے، اور اس نے روشنی کی مقدار بھی پہلے سے طے کر دی ہے جس سے انسان چیزوں کو دیکھتا ہے۔ اگر روشنی بہت مدھم ہوتی تو یہ ٹھیک نہیں ہوتا۔ جب اتنا اندھیرا ہو کہ لوگ اپنے سامنے اپنی انگلیاں تک نہ دیکھ سکیں تو ان کی آنکھیں اپنا کام ختم کر دیتی ہیں اور کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ لیکن وہ روشنی جو بہت زیادہ چمکدار ہوتی ہے وہ بھی انسانی آنکھوں کی چیزوں کو دیکھنے کے صلاحیت کو اسی طرح ختم کر دیتی ہے، کیونکہ چمک ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ لہٰذا، خدا نے بنی نوع انسان کے وجود کے ماحول کو انسانی آنکھوں کے لیے روشنی کی مناسب مقدار سے آراستہ کیا ہے – ایسی مقدار جو لوگوں کی آنکھوں کو تکلیف یا نقصان نہیں پہنچاتی، ان کو ان کے کام سے محروم کرنا تو دور کی بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا نے سورج اور زمین کے گرد بادلوں کی تہوں کا اضافہ کیا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ہوا کی کثافت مناسب طریقے سے روشنی کی ان اقسام کو چھاننے کے قابل ہے جو لوگوں کی آنکھوں یا جِلد کو نقصان پہنچا سکتی ہیں – یہ متناسب ہیں۔ اس کے علاوہ، زمین کے جو رنگ خدا نے بنائے ہیں وہ سورج کی روشنی اور دیگر تمام قسم کی روشنی کو منعکس کرتے ہیں، اور اس طرح کی روشنی کو ختم کرنے کے قابل ہوتے ہیں جو اتنی زیادہ چمکدار ہوتی ہے کہ انسانی آنکھیں اس کے مطابق نہیں ڈھل سکتیں۔ اس طرح، لوگ بہت گہرے رنگ کے دھوپ کے چشمے پہننے کی مسلسل ضرورت کے بغیر باہر چلنے پھرنے اور اپنی زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ عام حالات میں، انسانی آنکھیں روشنی سے پریشان ہوئے بغیر اپنی بصارت کی حدود کے اندر چیزوں کو دیکھ سکتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ، اگر روشنی بہت زیادہ چبھنے والی ہو، اور یا اگر یہ بہت مدھم ہو تو یہ ٹھیک نہیں ہو گا۔ اگر یہ بہت مدھم ہوتی تو لوگوں کی آنکھوں کو نقصان پہنچتا، اور، وہ مختصر استعمال کے بعد، برباد ہو جاتیں؛ اگر یہ بہت چمکدار ہوتی تو لوگوں کی آنکھیں اسے برداشت کرنے سے قاصر ہوتیں۔ یہ روشنی جو لوگوں کے پاس ہے یہ انسانی آنکھوں کے دیکھنے کے لیے موزوں ہونی چاہیے، اور خدا نے مختلف طریقوں کے ذریعے، روشنی سے انسانی آنکھوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم کر دیا ہے؛ یہ لوگوں کو اپنی آنکھوں کے استعمال کو برقرار رکھتے ہوئے ان کی زندگی کے اختتام تک پہنچنے کے لیے کافی ہے۔ کیا خدا نے اس پر جامع غور نہیں کیا تھا؟ پھر بھی شیطان، اپنے دماغ میں اس طرح کے خیالات پر غور کیے بغیر عمل کرتا ہے. شیطان کے ساتھ، روشنی ہمیشہ یا تو بہت چمکدار یا بہت مدھم ہوتی ہے۔ شیطان اس طرح کام کرتا ہے۔
خُدا نے یہ چیزیں انسانی جسم کے تمام پہلوؤں کے لیے – اس کی بصارت، سماعت، ذائقے، سانس لینے، احساسات وغیرہ – کے لیے کی ہیں تاکہ بنی نوع انسان کی بقا کی موافقت کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جا سکے، تاکہ وہ معمول کے مطابق زندگی گزار سکیں اور ایسا کرتے رہیں۔ دوسرے لفظوں میں، زندگی کے لیے موجودہ ماحول، جو خدا کا بنایا ہوا ہے، وہ ماحول بنی نوع انسان کی بقا کے لیے سب سے زیادہ موزوں اور فائدہ مند ہے۔ کچھ لوگ سوچ سکتے ہیں کہ اس سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا، کہ یہ سب ایک بہت ہی معمولی چیز ہے۔ آواز، روشنی اور ہوا وہ چیزیں ہیں جنہیں لوگ اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں، جس سے وہ اپنی پیدائش کے وقت سے لطف اندوز ہوئے ہیں۔ لیکن جن چیزوں سے تو لطف اندوز ہونے کے قابل ہے، ان کے پیچھے خدا کام کر رہا ہے؛ یہ وہ چیز ہے جسے انسانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے، ایک ایسی چیز جو انھیں جاننے کی ضرورت ہے۔ اگر تو یہ محسوس کرتا ہے کہ ان چیزوں کو سمجھنے یا انھیں جاننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، مختصر یہ کہ جب خدا نے انھیں بنایا تو اس نے ان پر بہت غور کیا، اس کے پاس ایک منصوبہ تھا، اس کے پاس مخصوص خیالات تھے۔ اس نے بالکل بھی غیر سنجیدگی سے یا اس معاملے پر دوبارہ غور کیے بغیر، بنی نوع انسان کو زندگی کے لیے ایسے ماحول میں نہیں ڈالا۔ تم سوچ سکتے ہو کہ میں نے ان چھوٹی چھوٹی چیزوں میں سے ہر ایک کے بارے میں بہت شاندارطریقے سے بات کی ہے، لیکن میری نظر میں، ہر وہ چیز جو خدا نے بنی نوع انسان کے لیے فراہم کی ہے، انسانیت کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ اس میں خدا کا عمل ہے۔
ٹ۔ ہوا کا بہاؤ
پانچویں چیز کیا ہے؟ اس چیز کا ہر انسان کی زندگی کے ہر ایک دن سے قریبی تعلق ہے۔ اس کا انسانی زندگی سے اتنا قریبی تعلق ہے کہ اس کے بغیر انسانی جسم اس مادی دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہ چیز ہوا کا بہاؤ ہے۔ شاید کوئی بھی اسم ”ہوا کا بہاؤ“ کو صرف سننے سے ہی سمجھ سکتا ہے۔ تو، ہوا کا بہاؤ کیا ہے؟ تم کہہ سکتے ہو کہ ”ہوا کا بہاؤ“ صرف ہوا کی چلتے ہوئے حرکت ہے۔ ہوا کا بہاؤ ایک جھونکا ہے جسے انسانی آنکھ نہیں دیکھ سکتی ہے۔ یہ بھی ایک طریقہ ہے جس میں گیسیں حرکت کرتی ہیں۔ پھر بھی، اس گفتگو میں، ”ہوا کا بہاؤ“ بنیادی طور پر کس چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے؟ جیسے ہی میں یہ کہوں گا، تم سمجھ جاؤ گے۔ زمین جب گھمتی ہے تو پہاڑوں، سمندروں اور تخلیق کی تمام چیزوں کو لے کر چلتی ہے، اور جب وہ گھومتی ہے تو وہ تیزی سے گھومتی ہے۔ اگرچہ تو اس کے کسی گردش کو محسوس نہیں کرتا ہے، اس کے باوجود زمین کی گردش موجود ہے۔ اس کی گردش کیا پیدا کرتی ہے؟ جب تُو بھاگتا ہے تو کیا ہوا بلند نہیں ہوتی اور تیرے کانوں کے پاس سے نہیں گزرتی؟ اگر تیرے بھاگنے سے ہوا پیدا ہو سکتی ہے تو زمین کے گھومنے پر ہوا کیسے نہیں چل سکتی؟ جب زمین گھومتی ہے تو تمام چیزیں حرکت میں ہوتی ہیں۔ زمین خود حرکت میں ہے اور ایک خاص رفتار سے گھوم رہی ہے، جب کہ اس پر موجود تمام چیزیں بھی مسلسل بڑھ رہی ہیں اور پروان چڑھ رہی ہیں۔ اس لیے، ایک مخصوص رفتار سے حرکت قدرتی طور پر ہوا کے بہاؤ کو جنم دے گی۔ ”ہوا کے بہاؤ“ سے میرا مطلب یہی ہے۔ کیا ہوا کا یہ بہاؤ انسانی جسم کو ایک خاص حد تک متاثر نہیں کرتا؟ طوفانی آندھی پر غور کرو: عام طوفانی آندھییاں زیادہ طاقتور نہیں ہوتی ہیں، لیکن جب وہ ٹکراتی ہیں، تو لوگ سیدھے کھڑے تک نہیں ہو سکتے، اور ان کے لیے تیز ہوا میں چلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک قدم چلنا بھی بہت مشکل ہو جاتا ہے، اور ہوا کچھ لوگوں کو کسی چیز پر اس طرح بھی دھکیل سکتی ہے کہ وہ حرکت کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ یہ ان طریقوں میں سے ایک ہے جن سے ہوا کا بہاؤ بنی نوع انسان کو متاثر کر سکتا ہے۔ اگر پوری زمین میدانوں سے ڈھکی ہوئی ہوتی، تو جب زمین اور تمام چیزیں گھومتیں، تو انسانی جسم اس سے پیدا ہونے والی ہوا کے بہاؤ کو برداشت کرنے سے بالکل قاصر ہوتا۔ ایسی صورت حال کا مقابلہ کرنا انتہائی مشکل ہوتا۔ اگر واقعی ایسا ہوتا تو اس طرح کی ہوا کا بہاؤ نہ صرف بنی نوع انسان کو نقصان پہنچاتا بلکہ مکمل تباہی لاتا۔ ایسے ماحول میں انسان زندہ نہیں رہ سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا نے ایسے ہوا کے بہاؤ کو حل کرنے کے لیے مختلف جغرافیائی ماحول بنائے – مختلف ماحول میں، ہوا کا بہاؤ کمزور ہو جاتا ہے، اپنی سمت بدلتا ہے، اپنی رفتار کو بدلتا ہے، اور اپنی طاقت کو بدلتا ہے۔ اس لیے لوگ مختلف جغرافیائی خصوصیات کو دیکھ سکتے ہیں، جیسے پہاڑ، عظیم پہاڑی سلسلے، میدانی علاقے، پہاڑیاں، طاس، وادیاں، سطح مرتفع اور عظیم دریا۔ ان مختلف جغرافیائی خصوصیات کے ساتھ، خدا ہوا کے بہاؤ کی رفتار، سمت اور قوت کو تبدیل کرتا ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جو وہ ہوا میں ہوا کے بہاؤ کو کم کرنے یا اسے موافق بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے تاکہ اس کی رفتار، سمت اور قوت مناسب ہو، تاکہ انسانوں کو رہنے کے لیے ایک عام ماحول میسر ہو۔ کیا اس کی ضرورت ہے؟ (ہاں)۔ ایسا کرنا انسانوں کے لیے مشکل لگتا ہے، لیکن خدا کے لیے آسان ہے، کیونکہ وہ ہر چیز کا مشاہدہ کرتا ہے۔ خدا کے لیے، بنی نوع انسان کی خاطر ہوا کے موزوں بہاؤ کے ساتھ ماحول پیدا کرنا زیادہ سادہ یا زیادہ آسان نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا، خدا کے بنائے ہوئے ایسے ماحول میں، اس کی تمام تخلیقات میں ہر چیز ناگزیر ہے۔ ہر ایک چیز کے وجود کی اہمیت اور ضرورت ہے۔ تاہم، اس اصول کو شیطان یا بنی نوع انسان نہیں سمجھتے جو بدعنوان ہو گئے ہیں۔ وہ پہاڑوں کو ہموار زمین میں تبدیل کرنے، گھاٹیوں کو بھرنے، اور کنکریٹ کے جنگلات بنانے کے لیے ہموار زمین پر فلک بوس عمارتیں بنانے کے بیکار خوابوں کے ساتھ تباہی اور ترقی اور استحصال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ خُدا کی یہ اُمید ہے کہ بنی نوع انسان خوشی سے زندگی بسر کر سکے، خوشی سے ترقی کر سکے، اور اس موزوں ترین ماحول میں ہر دن خوشی سے گزارے، جو اُس نے اُن کے لیے تیار کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کبھی بھی اس بات میں غیرمحتاط نہیں رہا کہ وہ اس ماحول کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے جس میں انسان رہتا ہے۔ درجہ حرارت سے لے کر ہوا تک، آواز سے روشنی تک، خدا نے پیچیدہ منصوبے بنائے اور انتظامات کیے ہیں، تاکہ انسانوں کے جسم اور ان کے رہنے کا ماحول قدرتی حالات کی مداخلت کا شکار نہ ہو، اور اس کی بجائے، بنی نوع انسان معمول کے مطابق زندگی گزارنے اور تعداد بڑھانے کے قابل ہو، اور ہم آہنگ بقائے باہمی کے ساتھ تمام چیزوں کے ساتھ معمول کے مطابق زندگی گزار سکے۔ یہ سب کچھ خدا کی طرف سے سب چیزوں اور بنی نوع انسان کو فراہم کیا گیا ہے۔
جس طرح خدا نے انسانی بقا کے لیے ان پانچ بنیادی شرائط کو ترتیب دیا، اس سے کیا تم دیکھ سکتے ہو کہ وہ انسانوں کے لیے کس طرح مہیا کرتا ہے؟ (ہاں)۔ یعنی کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا انسانی بقا کے لیے تمام بنیادی حالات کا خالق ہے، اور خدا ان چیزوں کا انتظام کر رہا ہے اور قابو میں بھی رکھ رہا ہے؛ اب بھی، انسانی وجود کے ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی، خدا اب بھی ان کے رہنے کے ماحول میں مسلسل تبدیلیاں کر رہا ہے، انھیں بہترین اور موزوں ماحول فراہم کر رہا ہے تاکہ ان کی زندگی کو ایک باقاعدہ طور پر برقرار رکھا جا سکے۔ ایسی صورتحال کب تک برقرار رہ سکتی ہے؟ دوسرے الفاظ میں، خدا کب تک ایسا ماحول فراہم کرتا رہے گا؟ یہ اس وقت تک قائم رہے گا جب تک کہ خدا اپنے انتظامی کام کو مکمل طور پر پورا نہیں کر لیتا۔ تب، خدا بنی نوع انسان کے رہنے والے ماحول کو بدل دے گا۔ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ ان تبدیلیوں کو انہی طریقوں سے کرے، یا یہ مختلف طریقوں سے ہو سکتا ہے۔ لیکن اب لوگوں کو جو لازمی جاننا چاہیے وہ یہ ہے کہ خدا انسانوں کی ضروریات کو مسلسل فراہم کر رہا ہے؛ اس ماحول کا انتظام کر رہا ہے جس میں بنی نوع انسان رہتا ہے؛ اور اس ماحول کو خراب ہونے سے بچا رہا ہے، تحفظ کر رہا ہے اور برقرار رکھ رہا ہے۔ ایسے ماحول کے ساتھ، خدا کے چنے ہوئے لوگ باقاعدہ زندگی گزارنے اور خدا کی نجات اور تادیب اور عدالت کو قبول کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ تمام چیزیں خدا کی حاکمیت کی وجہ سے اپنا وجود بدستور برقرار رکھتی ہیں، اور تمام بنی نوع انسان خدا کی طرف سے ایسی ہی فراہمی کی وجہ سے آگے بڑھتے رہتے ہیں۔
کیا ہماری رفاقت کا یہ آخری حصہ تمہارے لیے کوئی نئی سوچ لے کر آیا ہے؟ کیا تم اب خدا اور بنی نوع انسان کے درمیان سب سے بڑے فرق سے واقف ہو گئے ہو؟ آخر کار سب چیزوں کا مالک کون ہے؟ کیا یہ انسان ہے؟ (نہیں)۔ پھر خدا اور انسان تمام مخلوقات کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں اس میں کیا فرق ہے؟ (خدا سب چیزوں پر حکومت کرتا ہے اور ان کا انتظام کرتا ہے، جبکہ انسان ان سے لطف اندوز ہوتا ہے)۔ کیا تم اس سے اتفاق کرتے ہو؟ خدا اور بنی نوع انسان کے درمیان سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ خدا تمام مخلوقات پر حکومت کرتا ہے اور ان کے لیے فراہم کرتا ہے۔ وہ سب چیزوں کا سرچشمہ ہے، اور جب خدا تمام مخلوقات کے لیے مہیا کرتا ہے تو انسان اس سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان تخلیق کی تمام چیزوں سے اس وقت لطف اندوز ہوتا ہے جب وہ اس زندگی کو قبول کر لیتا ہے جو خدا سب چیزوں کو عطا کرتا ہے۔ خدا مالک ہے، اور بنی نوع انسان خدا کی سب چیزوں کی تخلیق کے ثمرات سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ تو پھر، خدا کی تخلیق کی تمام چیزوں کے نقطہ نظر سے، خدا اور بنی نوع انسان میں کیا فرق ہے؟ خدا چیزوں کے بڑھنے کے قوانین کو واضح طور پر دیکھ سکتا ہے، اور وہ ان قوانین پر اختیار اور غلبہ رکھتا ہے۔ یعنی تمام چیزیں خدا کی نظر میں اور اس کی جانچ پڑتال کے دائرہ کار میں ہیں۔ کیا بنی نوع انسان ہر چیز کو دیکھ سکتا ہے؟ جو کچھ بنی نوع انسان دیکھ سکتا ہے وہ اس تک ہی محدود ہے جو براہ راست اس کے سامنے ہے۔ اگر تُو ایک پہاڑ پر چڑھتا ہے تو جو کچھ تجھے نظر آتا ہے وہ صرف وہی پہاڑ ہے۔ تُو پہاڑ کے دوسری طرف جو کچھ ہے اسے نہیں دیکھ سکتا۔ اگر تُو ساحل پر جائے تو جو کچھ تجھے نظر آتا ہے وہ سمندر کی صرف ایک طرف ہے اور تُو یہ نہیں جان سکتا کہ سمندر کی دوسری طرف کیسی ہے۔ اگر تُو کسی جنگل میں جاتا ہے تو تُو اپنے سامنے اور اپنے اردگرد کا سبزہ دیکھ سکتا ہے، لیکن تو یہ نہیں دیکھ سکتا کہ آگے بہت دور کیا ہے۔ انسان ان جگہوں کو نہیں دیکھ سکتے جو زیادہ اونچی، زیادہ دور، زیادہ گہری ہوں۔ وہ صرف وہی دیکھ سکتے ہیں جو ان کے سامنے ان کی بصارت کے احاطے میں ہو۔ اگر انسان اس قانون کو جانتے بھی ہوں جو سال کے چار موسموں کا حکم دیتا ہے، یا تمام چیزوں کے بڑھنے کے قوانین کو، تو پھر بھی وہ تمام چیزوں کو منظم کرنے یا حکم دینے سے قاصر ہیں۔ پھر بھی جس طرح خدا تمام مخلوقات کو دیکھتا ہے بالکل اسی طرح وہ اس مشین کو بھی دیکھے گا جسے اس نے خود بنایا ہے۔ وہ ہر جزو اور ہر تعلق سے بخوبی واقف ہے، ان کے اصول کیا ہیں، ان کے نمونے کیا ہیں، اور ان کے مقاصد کیا ہیں – خدا یہ سب کچھ انتہائی درجے کی شفافیت کے ساتھ جانتا ہے۔ اسی لیے خدا خدا ہے، اور انسان انسان ہے! اگرچہ انسان اپنی سائنس کی تحقیق اور تمام چیزوں پر لاگو ہونے والے قوانین کی گہرائی میں جا سکتا ہے، لیکن اس تحقیق کا دائرہ کار محدود ہے، جب کہ خدا ہر چیز کو قابو رکھتا ہے، جو انسان کے لیے ایک لامحدود اختیار ہے۔ ایک انسان اپنی پوری زندگی خدا کے چھوٹے سے چھوٹے عمل کی تحقیق میں بغیر کوئی حقیقی نتائج حاصل کیے صرف کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر تُو صرف علم اور جو کچھ تُو نے خدا کا مطالعہ کرنے کے لیے سیکھا ہے، کا استعمال کرتا ہے تو تُو خدا کو کبھی نہیں جان سکے گا اور نہ ہی اسے سمجھ سکے گا۔ لیکن اگر تُو سچ کی تلاش اور خدا کی جستجو کا راستہ اختیار کرتا ہے اور خدا کو اس کی معرفت حاصل کرنے کے نقطہ نظر سے دیکھتا ہے، تو ایک دن تُو پہچان لے گا کہ خدا کے اعمال اور حکمتیں ہر جگہ ایک ساتھ موجود ہیں۔ اور تو جان جائے گا کہ خدا کو سب چیزوں کا مالک اور سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ کیوں کہا جاتا ہے۔ تُو جتنی زیادہ اس طرح کی سمجھ بوجھ حاصل کرے گا، تُو اتنا ہی زیادہ یہ سمجھے گا کہ خدا کو سب چیزوں کا مالک کیوں کہا جاتا ہے۔ تمام چیزیں اور ہر چیز، بشمول تیرے، خدا کی فراہمی کا مسلسل بہاؤ حاصل کر رہی ہے۔ تُو یہ بھی واضح طور پر محسوس کر سکے گا کہ اس دنیا میں اور اس نوع انسانی میں، خدا کے علاوہ کوئی نہیں ہے جو اس قابلیت اور جوہر کا حامل ہو جس کے ساتھ وہ سب کے وجود پر حکمرانی کرتا ہے، انتظام کرتا ہے اور سب چیزوں کے وجود کو برقرار رکھتا ہے۔ جب تُو اس سمجھ بوجھ تک پہنچ جائے گا، تو تُو واقعی پہچان لے گا کہ خدا تیرا خدا ہے۔ جب تُو اس مقام پر پہنچ جائے گا تو تُو نے خدا کو صحیح معنوں میں قبول کر لیا ہو گا اور اسے اپنا خدا اور اپنا آقا بننے دیا ہو گا۔ جب تجھے اس طرح کی سمجھ بوجھ حاصل ہو جائے گی اور تیری زندگی اس مقام پر پہنچ جائے گی، تو خدا تیری مزید آزمائش اور جانچ نہیں کرے گا، اور نہ ہی وہ تجھ سے کوئی مطالبات کرے گا، کیونکہ تو خدا کو سمجھ لے گا، اس کی مرضی کو جان لے گا، اور اپنے دل میں خدا کو صحیح معنوں میں قبول کر چکا ہو گا۔ یہ تمام چیزوں پر خدا کے تسلط اور انتظام کے ان موضوعات پر رفاقت کرنے کی ایک اہم وجہ ہے۔ ایسا کرنے کا مقصد لوگوں کو مزید علم اور سمجھ بوجھ دینا ہے – نہ صرف تجھے علم دینے کے لیے، بلکہ اس لیے کہ تو خدا کے اعمال کو زیادہ عملی طور پر جان اور سمجھ لے۔
روزانہ کی خوراک اور مشروبات جو خدا بنی نوع انسان کے لیے تیار کرتا ہے
ابھی، ہم نے بڑے پیمانے پر ماحول کے ایک حصے کے بارے میں بات کی، خاص طور پر، انسانی بقا کے لیے ضروری حالات، جو خدا نے دنیا کو تخلیق کرتے وقت تیار کیے۔ ہم نے پانچ چیزوں، ماحول کے پانچ عناصر کے بارے میں بات کی۔ ہمارا اگلا موضوع ہر انسان کی جسمانی زندگی سے قریبی تعلق رکھتا ہے، اور یہ اس زندگی کے لیے زیادہ برمحل ہے اور پچھلے پانچ کے مقابلے میں اس کی مطلوبہ شرائط کی زیادہ تکمیل ہے۔ یعنی کہ یہ وہ خوراک ہے جو لوگ کھاتے ہیں۔ خدا نے انسان کو پیدا کیا اور اسے زندگی کے لیے موزوں ماحول میں رکھا؛ اس کے بعد انسان کو خوراک اور پانی کی ضرورت تھی۔ انسان کی یہ ضرورت تھی، اس لیے خدا نے اس کے لیے اسی کے مطابق تیاریاں کیں۔ لہذا، خدا کے کام کا ہر مرحلہ اور ہر کام جو وہ کرتا ہے وہ کھوکھلے الفاظ نہیں کہے جا رہے ہیں، بلکہ حقیقی، عملی اقدام ہیں جو کیے جا رہے ہیں۔ کیا خوراک لوگوں کی روزمرہ زندگی میں ناگزیر نہیں ہے؟ کیا کھانا ہوا سے زیادہ اہم ہے؟ وہ بھی اتنے ہی اہم ہیں۔ دونوں ہی بنی نوع انسان کی بقا اور انسانی زندگی کے تسلسل کی حفاظت کے لیے ضروری شرائط اور مادے ہیں۔ کون سا زیادہ اہم ہے – ہوا، یا پانی؟ درجہ حرارت، یا خوراک؟ وہ سب یکساں طور پر اہم ہیں۔ لوگ ان میں سے کسی ایک کا انتخاب نہیں کر سکتے کیونکہ وہ ان میں سے کسی ایک کے بغیر بھی نہیں رہ سکتے۔ یہ ایک حقیقی، عملی مسئلہ ہے اور یہ تمہارا چیزوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا نہیں ہے۔ تو نہیں جانتا لیکن خدا جانتا ہے۔ جب تو کھانا دیکھتا ہے، تو تُو سوچتا ہے، ”میں کھانے کے بغیر نہیں رہ سکتا!“ لیکن تیرے پیدا ہونے کے فوراً بعد، کیا تجھے معلوم تھا کہ تجھے کھانے کی ضرورت ہے؟ تجھے علم نہیں تھا، لیکن خدا کو تھا۔ جب تجھے بھوک لگی اور تو نے کھانے کے لیے درختوں پر پھل اور زمین پر غلہ دیکھا تب تجھے یہ احساس ہوا کہ تجھے خوراک کی ضرورت ہے۔ جب تجھے پیاس لگی اور چشمے کا پانی نظر آیا – جب تو نے پیا تو صرف تب ہی تجھے یہ احساس ہوا کہ تجھے پانی کی ضرورت ہے۔ خدا نے بنی نوع انسان کے لیے پانی پہلے ہی تیار کر لیا تھا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اگر کوئی دن میں تین یا دو، یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ کھاتا ہے، مختصراً، خوراک انسانوں کے لیے ان کی روزمرہ کی زندگی میں ایک ناگزیر چیز ہے۔ یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے جو انسانی جسم کی معمول کی، مسلسل بقا کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ تو، زیادہ تر خوراک کہاں سے آتی ہے؟ سب سے پہلے، یہ مٹی سے آتی ہے. مٹی خدا کی طرف سے بنی نوع انسان کے لیے پیشگی تیار کی گئی تھی، اور یہ نہ صرف درختوں یا گھاس کی ہی نہیں بلکہ کئی قسم کے پودوں کی بقا کے لیے موزوں ہے۔ خدا نے بنی نوع انسان کے لیے ہر قسم کے غلہ کے بیج اور مختلف قسم کی خوراک کے بیج تیار کیے، اور اس نے بنی نوع انسان کو بونے کے لیے موزوں مٹی اور زمین دی، اور ان چیزوں سے بنی نوع انسان خوراک حاصل کرتا ہے۔ خوراک کی مختلف اقسام کیا ہیں؟ تم شاید پہلے سے جانتے ہو۔ سب سے پہلے، مختلف غلے ہیں۔ غلے کی کیا مختلف اقسام ہیں؟ گندم، کنگنی باجرا، لیس دار جوار، کنڈی باجرا، اور بھوسے والے غلے کی دیگر اقسام۔ اناج بھی جنوب سے شمال تک مختلف اقسام کے ساتھ ہر قسم میں ملتا ہے: جَو، گندم، جئی، بارو وغیرہ۔ مختلف انواع مختلف علاقوں میں کاشت کے لیے موزوں ہیں۔ مختلف اقسام کے چاول بھی ہیں۔ جنوب کی اپنی اقسام ہیں، جن کے دانے لمبے ہوتے ہیں اور جنوب کے لوگوں کے لیے موزوں ہوتے ہیں کیونکہ وہاں کی آب و ہوا زیادہ گرم ہوتی ہے، یعنی مقامی لوگوں کو انڈیکا چاول جیسی اقسام کھانی پڑتی ہیں، جو زیادہ لیس دار نہیں ہوتی ہیں۔ ان کے چاول زیادہ لیس دار نہیں ہو سکتے ورنہ ان کی بھوک ختم ہو جائے گی اور وہ انھیں ہضم کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ شمالی باشندے زیادہ لیس دار چاول کھاتے ہیں، چونکہ شمال ہمیشہ ٹھنڈا رہتا ہے، اس لیے وہاں کے لوگوں کو زیادہ لیس دار چیزیں کھانی چاہییں۔ اس کے بعد، پھلیوں کی بہت سی اقسام بھی ہیں، جو زمین کے اوپر اگتی ہیں، اور زمین کے نیچے اگنے والی جڑ والی سبزیاں، جیسے آلو، شکرقندی، تارو، اور بہت سی دوسری۔ آلو شمال میں اگتے ہیں جہاں ان کی قسم بہت اعلیٰ ہے۔ جب لوگوں کے پاس کھانے کے لیے اناج نہیں ہوتا ہے، تو آلو، ایک اہم غذا کے طور پر، انھیں دن میں تین وقت کی خوراک دے سکتا ہے۔ آلو کو خوراک کے طور پر محفوظ بھی کیا جا سکتا ہے۔ شکرقندی کا معیار آلو کے مقابلے میں کچھ کمتر ہے، لیکن پھر بھی اسے روزانہ تین وقت کے کھانوں کو پورا کرنے کے لیے ایک اہم خوراک کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جب اناج ملنا مشکل ہو تو لوگ شکرقندی سے بھوک مٹا سکتے ہیں۔ تارو، جو اکثر جنوب کے لوگ کھاتے ہیں، اسی طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے، اور یہ ایک اہم خوراک کے طور پر بھی کام کر سکتا ہے۔ ایسی بہت سی متنوع فصلیں ہیں، جو لوگوں کے روزمرہ کے کھانے اور پینے کا لازمی حصہ ہیں۔ لوگ روٹی، بھاپ سے تیار ہوا نرم کلچہ، نوڈلز، چاول، چاول کے نوڈلز اور دیگر چیزیں بنانے کے لیے مختلف اناج استعمال کرتے ہیں۔ خدا نے یہ مختلف اناج بنی نوع انسان کو وافر مقدار میں عطا کیے ہیں۔ اتنی اقسام کیوں ہیں یہ خدا کی مرضی کا معاملہ ہے: وہ شمال، جنوب، مشرق اور مغرب کی مختلف مٹی اور آب و ہوا میں اگنے کے لیے موزوں ہیں۔ جب کہ ان کے مختلف ترکیبی عمل اور مواد انسانی جسم کے مختلف ترکیبی عملوں اور مواد سے مطابقت رکھتے ہیں۔ صرف ان اناج کو کھانے سے ہی لوگ اپنے جسوں کو درکار مختلف غذائی اجزاء اور مادوں کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ شمالی خوراک اور جنوبی خوراک مختلف ہے، لیکن ان میں فرق سے کہیں زیادہ مشابہت ہے۔ یہ دونوں انسانی جسم کی باقاعدہ ضروریات کو پورا کر سکتی ہیں اور اس کی معمول کی بقا کو سہارا دے سکتی ہیں۔ لہٰذا، ہر علاقے میں انواع کی کثرت پیدا ہوتی ہے کیونکہ انسانوں کے جسمانی اجسام کو ان چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جو یہ مختلف خوراکیں فراہم کرتی ہیں – انھیں جسم کے معمول کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے مٹی سے اگائی جانے والی ان مختلف خوراکوں کے ذریعے فراہم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ وہ معمول کی انسانی زندگی گزار سکیں۔ مختصراً یہ کہ خدا بنی نوع انسان کا بہت خیال رکھتا ہے۔ خدا نے لوگوں کو جو مختلف خوراکیں عطا کی ہیں وہ بے تنوع نہیں ہیں – اس کے برعکس، وہ کافی زیادہ مختلف اقسام کی ہیں۔ اگر لوگ دلیہ کھانا چاہتے ہیں تو وہ دلیہ کھا سکتے ہیں۔ کچھ لوگ جو گندم پر چاول کو ترجیح دیتے ہیں، اور گندم کو پسند نہیں کرتے، وہ چاول کھا سکتے ہیں۔ یہاں تمام قسم کے چاول ہیں – لمبے دانے، چھوٹے دانے – اور ہر ایک لوگوں کی بھوک کو مٹا سکتے ہیں۔ لہذا، اگر لوگ اس اناج کو کھاتے ہیں – جب تک کہ وہ اپنے کھانے کے متعلق بالکل معین نہ ہوں – تو انھیں غذائیت کی کمی نہیں ہو گی اور ان کے مرنے تک صحت مند رہنے کی ضمانت ہے۔ یہی خیال خدا کے ذہن میں تھا جب اس نے بنی نوع انسان کو خوراک عطا کی۔ انسانی جسم ان چیزوں کے بغیر نہیں رہ سکتا – کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟ یہ وہ عملی مسائل ہیں جنہیں انسان خود حل نہیں کر سکتا تھا، لیکن خدا ان کے لیے تیار تھا: اس نے ان کے بارے میں پہلے سے سوچا اور بنی نوع انسان کے لیے تیاریاں کیں۔
لیکن یہی وہ سب کچھ نہیں ہے جو خدا نے بنی نوع انسان کو دیا – اس نے بنی نوع انسان کو سبزیاں بھی دیں! چاول کے ساتھ، اگر تُو صرف یہی کھاتا ہے، اور کچھ بھی نہیں، تو شاید تجھے کافی غذائی اجزا نہ مل سکیں۔ دوسری طرف، اگر تو چند سبزیوں کو تَل کر یا سلاد کو اپنے کھانے کے ساتھ ملا کر کھاتا ہے، تو سبزیوں میں موجود حیاتین اور ان کے مختلف کیمیائی عناصر اور دیگر غذائی اجزا قدرتی طور پر تیرے جسم کی ضروریات کو پورا کر سکیں گے۔ اور لوگ کھانوں کے درمیان تھوڑا سا پھل بھی کھا سکتے ہیں۔ بعض اوقات، لوگوں کو زیادہ سیال یا دیگر غذائی اجزا یا مختلف ذائقوں کی ضرورت ہوتی ہے، اور ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پھل اور سبزیاں موجود ہوتی ہیں۔ چونکہ شمال، جنوب، مشرق اور مغرب کی مٹی اور آب و ہوا مختلف ہے، اس لیے وہ مختلف قسم کی سبزیاں اور پھل پیدا کرتے ہیں۔ چونکہ جنوب میں آب و ہوا حد سے زیادہ گرم ہے، اس لیے وہاں زیادہ تر پھل اور سبزیاں ٹھنڈک دینے والی قسم کی ہوتی ہیں، جو جب کھا لی جائیں تو یہ انسانی جسم میں سردی اور گرمی کو متوازن رکھنے کے قابل ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس، شمال میں سبزیوں اور پھلوں کی کم اقسام ہیں، پھر بھی مقامی لوگوں کے لطف اندوز ہونے کے لیے کافی ہیں۔ تاہم، حالیہ برسوں میں معاشرے میں ہونے والی پیشرفت اور نام نہاد سماجی ترقی، نیز شمال، جنوب، مشرق اور مغرب کو ملانے والے مواصلات اور نقل و حمل میں بہتری کی وجہ سے، شمال کے لوگ بھی کچھ جنوبی پھل اور سبزیاں یا جنوب کی علاقائی مصنوعات کھانے کے قابل ہو گئے ہیں، اور وہ سال کے چاروں موسموں میں ایسا کر سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ لوگوں کی بھوک اور مادی خواہشات کو پورا کرنے کے قابل ہے، لیکن ان کے جسموں کو نادانستہ طور پر مختلف درجات کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا نے جس خوراک کو بنی نوع انسان کے لیے تیار کیا ہے، اس میں خوراک اور پھل اور سبزیاں ہیں جو کہ جنوب کے لوگوں کے لیے ہیں، اسی طرح خوراک اور پھل اور سبزیاں ہیں جو شمال کے لوگوں کے لیے ہیں۔ کہنے کا مطلب ہے کہ اگر تُو جنوب میں پیدا ہوتا ہے تو تیرے لیے جنوب کی چیزیں کھانا مناسب ہے۔ خدا نے یہ خوراک اور پھل اور سبزیاں خاص طور پر تیار کی ہیں کیونکہ جنوب کی ایک خاص آب و ہوا ہے۔ شمال میں ایسی خوراک ہے جو شمال کے لوگوں کے جسموں کے لیے ضروری ہے۔ پھر بھی چونکہ لوگوں کی بھوک بہت زیادہ ہوتی ہے، اس لیے انہوں نے نادانستہ طور پر خود کو نئے سماجی رجحانات کی لپیٹ میں آنے دیا ہے، اور وہ لاشعوری طور پر ان قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اگرچہ لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی زندگی ماضی کے مقابلے میں بہتر ہے، لیکن اس قسم کی سماجی ترقی لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے جسموں کو غیر محسوس طریقے سے نقصان پہنچاتی ہے۔ یہ وہ نہیں ہے جو خدا دیکھنا چاہتا ہے، اور یہ وہ نہیں ہے جو اس کا ارادہ تھا جب اس نے انسانوں کو یہ خوراک، پھل اور سبزیاں فراہم کیں۔ انسانوں نے خدا کے قوانین کی خود خلاف ورزی کرکے موجودہ صورتحال کو جنم دیا ہے۔
ان سب چیزوں کے علاوہ بھی، خدا نے انسانوں پر جو انعام کیا ہے وہ واقعی بہت زیادہ ہے، اور ہر جگہ کی اپنی مقامی پیداوار ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، کچھ مقامات پر سرخ کھجوریں بہت زیادہ ہوتی ہیں (جنہیں عنّاب بھی کہا جاتا ہے)، دیگر میں اخروٹ بہت زیادہ ہوتے ہیں، اور کچھ میں مونگ پھلی یا دیگر مختلف گری دار میوے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ تمام مادی چیزیں انسانی جسم کو درکار غذائی اجزا فراہم کرتی ہیں۔ لیکن خدا انسانوں کو سال کے موسم اور وقت کے مطابق درست مقدار میں اور درست وقت پر چیزیں فراہم کرتا ہے۔ بنی نوع انسان جسمانی لطف اندوزی کی شدید خواہش رکھتا ہے اور بہت پیٹو ہے، جن کی وجہ سے، خدا نے بنی نوع انسان کی تخلیق کے وقت انسانی نشوونما کے جو قدرتی قوانین قائم کیے تھے، ان کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور نقصان پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔ آؤ، چیری کو ایک مثال کے طور پر لیں۔ وہ تقریباً جون میں پک جاتی ہے۔ عام حالات میں، اگست تک، کوئی چیری باقی نہیں رہتی۔ اسے صرف دو ماہ تک تازہ رکھا جا سکتا ہے، لیکن سائنسی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے، لوگ اب اس مدت کو بارہ ماہ تک بڑھا سکتے ہیں، یہاں تک کہ اگلے سال کے چیری کے موسم تک۔ اس کا مطلب ہے کہ چیری سارا سال رہتی ہے۔ کیا یہ مظہر ایک عام بات ہے؟ (نہیں)۔ پھر چیری کھانے کا بہترین موسم کب ہے؟ یہ جون سے اگست تک کا عرصہ ہو گا۔ حالیہ وقت گزر جانے کے بعد، تُو اسے کتنا ہی تازہ کیوں نہ رکھے، اس کا ذائقہ ایک جیسا نہیں ہو گا، اور نہ ہی یہ وہ چیز فراہم کرے گی جو انسانی جسم کو درکار ہے۔ ایک بار ختم ہونے کی تاریخ گزر جانے کے بعد، چاہے تُو کوئیو بھی کیمیکل استعمال کرے، تو اس میں ہر وہ چیز شامل نہیں کر سکے گا جو قدرتی طور پر بڑھنے پر اس میں موجود ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ، کیمیکل انسانوں کو جو نقصان پہنچاتے ہیں وہ ایسی چیز ہے جسے کوئی بھی حل یا تبدیل نہیں کرسکتا، چاہے وہ کچھ بھی کرنے کی کوشش کر لے۔ تو، موجودہ منڈی کی معیشت لوگوں کے لیے کیا لاتی ہے؟ لوگوں کی زندگیاں بہتر لگتی ہیں، علاقوں کے درمیان آمدورفت انتہائی آسان ہو گئی ہے، اور لوگ ہر قسم کا پھل چاروں موسموں میں کھا سکتے ہیں۔ شمال کے لوگ باقاعدگی سے کیلے کھانے کے ساتھ ساتھ کسی بھی علاقائی عمدہ کھانے، پھل، یا جنوب سے آنے والی دیگر خوراک کھا سکتے ہیں۔ لیکن یہ وہ زندگی نہیں ہے جو خدا بنی نوع انسان کو دینا چاہتا ہے۔ اس قسم کی منڈی کی معیشت لوگوں کی زندگیوں میں کچھ فائدہ تو لا سکتی ہے لیکن نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ بازار میں وافر مقدار کی وجہ سے بہت سے لوگ یہ سوچے بغیر کھاتے ہیں کہ وہ اپنے منہ میں کیا ڈال رہے ہیں۔ یہ رویہ فطرت کے قوانین کے منافی ہے، اور یہ لوگوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ لہذا، منڈی کی معیشت لوگوں کو حقیقی خوشی نہیں دے سکتی۔ تم خود ہی دیکھ لو۔ کیا بازار میں چاروں موسموں میں انگور نہیں بکتے؟ درحقیقت، انگور توڑنے کے بعد بہت ہی کم وقت کے لیے تازہ رہتے ہیں۔ اگر تم انھیں اگلے سال جون تک رکھو تو کیا پھر بھی انھیں انگور کہا جا سکتا ہے؟ یا ”کچرا“ ان کے لیے ایک بہتر نام ہو گا؟ ان میں صرف ایک تازہ انگور کے مادے کی ہی کمی نہیں ہے – ان میں کیمیائی مصنوعات زیادہ ہوتی ہیں۔ ایک سال کے بعد، وہ اب تازہ نہیں ہیں، اور ان میں جو غذائی اجزا تھے وہ کافی عرصہ پہلے ہی ختم ہو چکے ہیں۔ جب لوگ انگور کھاتے ہیں، تو وہ یہ محسوس کرتے ہیں: ”ہم کتنے خوش قسمت ہیں! کیا ہم تیس سال پہلے اس موسم میں انگور کھا سکتے تھے؟ اگر تو چاہتا بھی تو نہیں کھا سکتا تھا! زندگی اب بہت اچھی ہے!“ کیا یہ واقعی خوشی ہے؟ اگر تو دلچسپی رکھتا ہے، تو تُو کیمیائی طور پر محفوظ کیے گئے انگوروں پر اپنی تحقیق کر سکتا ہے اور بالکل یہ دیکھ سکتا ہے کہ وہ کس چیز سے بنے ہیں اور کیا یہ مادے انسانوں کے لیے فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔ شریعت کے دور میں، جب بنی اسرائیل مصر سے نکلے تھے اور سفر کر رہے تھے تو خدا نے انھیں بٹیر اور من دیا تھا۔ لیکن کیا خدا نے لوگوں کو ان کھانوں کو محفوظ رکھنے کی اجازت دی؟ ان میں سے کچھ کم نظر تھے اور ڈرتے تھے کہ اگلے دن مزید نہیں ہو گا، اس لیے انھوں نے کچھ کو بعد کے لیے بچا لیا۔ پھر کیا ہوا؟ اگلے دن، یہ گلا سڑا تھا۔ خدا تجھے کچھ بچا کر ایک طرف نہیں رکھنے دیتا، کیونکہ اس نے ایسی تیاری کر رکھی ہے جو اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ تو بھوکا نہیں رہے گا۔ لیکن بنی نوع انسان کو ایسا اعتماد نہیں ہے اور نہ ہی وہ خدا پر سچا ایمان رکھتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنے لیے ترکیب لڑانے کے موقع کی گنجائش رکھنا چاہتے ہیں، اور بنی نوع انسان کے لیے خدا کی تیاریوں کے پیچھے تمام دیکھ بھال اور سوچ کو کبھی نہیں دیکھ پاتے۔ وہ اسے محسوس نہیں کر سکتے، اس لیے وہ خُدا پر مکمل ایمان نہیں رکھ سکتے اور ہمیشہ یہ سوچتے رہتے ہیں: ”خدا کے اعمال ناقابلِ بھروسا ہیں! کون جانتا ہے کہ خدا ہمیں وہ دے گا جس کی ہمیں ضرورت ہے یا وہ ہمیں کب دے گا! اگر میں بہت بھوکا ہوں اور خدا فراہم نہیں کرتا، تو کیا میں بھوکا نہیں مروں گا؟ کیا مجھے غذائیت کی کمی نہیں ہو گی؟“ دیکھو انسان کا اعتماد کتنا کمزور ہوتا ہے!
اناج، پھل اور سبزیاں، اور تمام قسم کے گری دار میوے – یہ سب سبزیوں پر مشتمل غذائیں ہیں۔ اگرچہ یہ سبزیوں پر مشتمل غذائیں ہیں مگر ان میں ایسے غذائی اجزا شامل ہیں جو انسانی جسم کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ تاہم، خدا نے یہ نہیں کہا: ”میں بنی نوع انسان کو صرف یہی خوراک دوں گا۔ انھیں صرف یہی چیزیں کھانے دوں گا!“ خُدا یہیں نہیں رکا، بلکہ بنی نوع انسان کے لیے مزید بہت سی غذائیں تیار کیں جو اس سے بھی زیادہ لذیذ ہیں۔ یہ غذائیں کیا ہیں؟ یہ مختلف قسم کے گوشت اور مچھلیاں ہیں جنھیں تم میں سے اکثر لوگ دیکھ اور کھا سکتے ہیں۔ اس نے انسان کے لیے گوشت اور مچھلی دونوں کی بہت سی اقسام تیار کیں۔ مچھلی پانی میں رہتی ہے، اور پانی کی مچھلی کا گوشت زمین پر رہنے والے جانوروں کے گوشت سے مادّہ میں مختلف ہوتا ہے، اور یہ انسان کو مختلف غذائی اجزا فراہم کر سکتا ہے۔ مچھلی میں بھی ایسی خصوصیات ہوتی ہیں جو انسانی جسم میں سردی اور گرمی کو قابو میں رکھ سکتی ہیں جو کہ انسان کے لیے بہت مفید ہے۔ لیکن لذیذ خوراک زیادہ نہیں کھائی جانی چاہیے۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ خدا بنی نوع انسان کو صحیح وقت پر صحیح مقدار عطا کرتا ہے، تاکہ لوگ اس کی عطا کردہ نعمتوں سے معمول کے مطابق اور موسم اور وقت کے مطابق لطف اندوز ہو سکیں۔ اب، مرغی کے زمرے میں کس قسم کی خوراک شامل ہے؟ مرغی، بٹیر، کبوتر، وغیرہ وغیرہ۔ بہت سے لوگ بطخ اور ہنس بھی کھاتے ہیں۔ اگرچہ خدا نے یہ تمام اقسام کا گوشت مہیا کیا ہے، لیکن اس نے اپنے چنے ہوئے لوگوں سے کچھ تقاضے کیے ہیں اور شریعت کے دور میں ان کی خوراک پر مخصوص حدیں لگائی ہیں۔ آج کل، ان حدود کی بنیاد انفرادی ذوق اور ذاتی تشریح پر ہے۔ یہ مختلف قسم کے گوشت انسانی جسم کو متنوع غذائی اجزا فراہم کرتے ہیں، لحمیات اور فولاد کی کمی کو پورا کرتے ہیں، خون کو افزودہ کرتے ہیں، پٹھوں اور ہڈیوں کو مضبوط کرتے ہیں، اور جسمانی طاقت بڑھاتے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ لوگ انھیں کیسے پکاتے اور کھاتے ہیں، یہ گوشت لوگوں کو ان کے کھانے کا ذائقہ بہتر بنانے اور ان کی بھوک بڑھانے کے ساتھ ساتھ ان کے معدوں کو بھی مطمئن کرنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ غذائیں انسانی جسم کو اس کی روزمرہ کی غذائی ضروریات فراہم کر سکتی ہیں۔ جب خدا نے بنی نوع انسان کے لیے خوراک تیار کی تو اس کی سوچ یہ تھی۔ سبزیاں موجود ہیں، گوشت موجود ہے – کیا یہ ایک فراوانی کی کیفیت نہیں ہے؟ لیکن لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جب خدا نے بنی نوع انسان کے لیے تمام خوراک تیار کی تو اس کا ارادہ کیا تھا۔ کیا یہ بنی نوع انسان کو ان کھانوں میں بے اعتدالی کروانے کے لیے تھا؟ جب انسان ان مادی خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش میں پھنس جائے تو کیا ہوتا ہے؟ کیا وہ ضرورت سے زیادہ نہیں کھاتا؟ کیا بہت زیادہ کھنا انسانی جسم کو کئی طریقوں سے تکلیف نہیں پہنچاتا؟ (ہاں)۔ اسی لیے خدا صحیح مقدار کو صحیح وقت پر حصوں میں تقسیم کرتا ہے اور لوگوں کو مختلف وقتوں اور موسموں کے مطابق مختلف کھانوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیتا ہے۔ مثال کے طور پر، بہت زیادہ گرم موسم کے بعد، لوگ اپنے جسم میں بہت زیادہ گرمی، نیز مرض پیدا کرنے والی خشکی اور نمی جمع کر لیتے ہیں۔ جب خزاں آتی ہے تو کئی قسم کے پھل پک جاتے ہیں اور جب لوگ ان پھلوں کو کھاتے ہیں تو ان کے جسم میں موجود نمی باہر نکل جاتی ہے۔ اس وقت مویشی اور بھیڑیں بھی مضبوط ہو چکی ہوتی ہیں، تو یہ وہ وقت ہوتا ہے جب لوگوں کو نشوونما کے لیے زیادہ گوشت کھانا چاہیے۔ مختلف اقسام کے گوشت کھانے سے لوگوں کے جسم توانائی اور حرارت حاصل کرتے ہیں تاکہ انھیں موسمِ سرما کی سردی کا مقابلہ کرنے میں مدد ملے اور اس کے نتیجے میں وہ موسمِ سرما کو محفوظ اور صحت مند طریقے سے گزار سکیں۔ خدا انتہائی احتیاط اور درستی کے ساتھ، اس چیز کو قابو میں رکھتا ہے کہ انسانوں کو کیا فراہم کیا جائے، اور کب فراہم کیا جائے؛ اور وہ کب مختلف چیزیں اگائے گا، پھل لائے گا، اور انھیں پکائے گا۔ اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ ”خُدا انسان کی اپنی روزمرہ زندگی میں درکار خوراک کیسے تیار کرتا ہے۔“ بہت سی اقسام کی خوراک کے علاوہ، خدا بنی نوع انسان کو پانی کے ذرائع بھی فراہم کرتا ہے۔ کھانے کے بعد، لوگوں کو پھر پانی پینے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا صرف پھل ہی کافی ہو گا؟ لوگ صرف پھلوں پر زندگی نہیں گزار سکتے اور اس کے علاوہ بعض موسموں میں پھل نہیں ہوتا۔ تو، بنی نوع انسان کے پانی کا مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے؟ خدا نے زمین کے اوپر اور نیچے پانی کے بہت سے ذرائع تیار کر کے اسے حل کیا ہے جن میں جھیلیں، دریا اور چشمے شامل ہیں۔ پانی کے یہ ذرائع پینے کے قابل ہیں جب تک کہ ان میں کوئی آلودگی نہ ہو، اور جب تک لوگ انھیں ضائع نہ کریں یا انھیں نقصان نہ پہنچائیں۔ دوسرے لفظوں میں، خوراک کے ذرائع کے لحاظ سے جو بنی نوع انسان کے جسمانی اجسام کی زندگیوں کو برقرار رکھتے ہیں، خدا نے بہت درست، بالکل صحیح اور انتہائی مناسب تیاری کی ہے، تاکہ لوگوں کی زندگی میں چیزوں وافر اور فراواں ہوں اور کسی چیز کی کمی نہ ہو۔ یہ ایسی چیز ہے جسے لوگ محسوس کر سکتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں۔
مزید برآں، خدا نے تمام چیزوں میں کچھ پودے، جانور اور مختلف جڑی بوٹیاں پیدا کی ہیں جن کا مقصد خاص طور پر انسانی جسم کے زخموں کو ٹھیک کرنا یا بیماری کا علاج کرنا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی جل جائے، یا غلطی سے خود کو جُھلسا لے تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ کیا تُو جلی ہوئی جگہ کو صرف پانی سے دھو سکتا ہے؟ کیا تو اسے کسی پرانے کپڑے سے لپیٹ سکتا ہے؟ اگر تو ایسا کرتا ہے، تو زخم پیپ سے بھر سکتا ہے یا عفونت کا شکار ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو بخار ہوتا ہے، یا زکام لگ جاتا ہے؛ کام کرتے وقت چوٹ لگتی ہے؛ غلط چیز کھانے سے پیٹ کی بیماری پیدا ہوتی ہے؛ یا طرز زندگی کے عوامل یا جذباتی مسائل کی وجہ سے پیدا ہونے والی بعض بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں، بشمول عروقی امراض، نفسیاتی حالتیں، یا اندرونی اعضا کی بیماریاں، تو اسی طرح کے پودے ہیں جو ان حالتوں کا علاج کرتے ہیں۔ ایسے پودے ہیں جو خون کی گردش کو بہتر بناتے ہیں اور رگوں میں رکاوٹ کو دور کرتے ہیں، درد کو دور کرتے ہیں، خون بہنے کو روکتے ہیں، درد کا احساس ختم کرنے کے لیے بےحس کرتے ہیں، جلد کے زخم بھرنے اور اسے معمول کی حالت میں واپس لانے میں مدد کرتے ہیں، اور رکے ہوئے خون کو پھیلاتے ہیں اور جسم سے زہریلے مادوں کو ختم کرتے ہیں – مختصر یہ کہ، ان پودوں کا روزمرہ کی زندگی میں ایک استعمال ہے۔ لوگ ان کو استعمال کر سکتے ہیں، اور انھیں خدا نے ضرورت کے وقت انسانی جسم کے لیے تیار کیا ہے۔ خدا نے انسان کو ان میں سے کچھ کو اتفاقیہ دریافت کرنے دیا ہے، جب کہ دوسروں کو ان لوگوں کے ذریعے دریافت کیا گیا جنھیں خدا نے ایسا کرنے کے لیے چنا، یا اپنے ترتیب دیے ہوئے خاص مظاہر کے نتیجے میں۔ ان پودوں کی دریافت کے بعد، بنی نوع انسان انھیں آگے منتقل کرے گا، اور بہت سے لوگ ان کے بارے میں جانیں گے۔ اس طرح خدا کا ان پودوں کو تخلیق کرنا ایک اہمیت اور معنی رکھتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ، یہ سب چیزیں خدا کی طرف سے ہیں، اس نے انسانوں کے رہنے کے ماحول کو تخلیق کرتے وقت تیار کیا اور لگایا۔ یہ ضروری ہیں۔ کیا خدا کے خیالات بنی نوع انسان کی نسبت زیادہ جامع انداز میں عمل کرتے ہیں؟ جب تو خدا کے کیے ہوئے تمام کام دیکھتا ہے تو کیا تجھے خدا کے عملی پہلو کا احساس ہوتا ہے؟ خدا خفیہ انداز میں کام کرتا ہے۔ خدا نے یہ سب اس وقت پیدا کیا جب انسان ابھی اس دنیا میں نہیں آیا تھا، جب اس کا بنی نوع انسان سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ سب کچھ بنی نوع انسان کو ذہن میں رکھ کر، انسان کے وجود کی خاطر اور اس کی بقا کی سوچ کے ساتھ کیا گیا، تاکہ بنی نوع انسان خوراک یا لباس کی فکر سے آزاد اس وافر اور فراواں مادّی دنیا میں خوشی سے زندگی بسر کر سکے جو خدا نے اس کے لیے تیار کی ہے، جس میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ ایسے ماحول میں، بنی نوع انسان افزائشِ نسل کر سکتا ہے اور زندہ رہ سکتا ہے۔
خدا کے تمام کاموں میں، چھوٹا اور بڑا، کیا کوئی ایسا کام ہے جس کی اہمیت یا معنی نہ ہو؟ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے اس کی اہمیت اور معنی ہیں۔ آؤ ہم ایک مشترکہ موضوع سے اپنی بحث کا آغاز کرتے ہیں۔ لوگ اکثر پوچھتے ہیں: پہلے کون آیا، مرغی یا انڈا؟ (مرغی)۔ مرغی پہلے آئی، اس میں کوئی شک نہیں! مرغی پہلے کیوں آئی؟ انڈا پہلے کیوں نہیں آ سکتا تھا؟ کیا مرغی انڈے سے نہیں نکلتی؟ اکیس دن کے بعد، مرغی نکلتی ہے، اور وہ مرغی پھر زیادہ انڈے دیتی ہے، اور ان انڈوں سے مزید مرغیاں نکلتی ہیں۔ تو پھر کون پہلے آیا، مرغی یا انڈا؟ تمہارا جواب ”مرغی“ بالکل درست تھا۔ لیکن تمہارا یہ جواب کیوں ہے؟ (انجیل کہتی ہے کہ خدا نے پرندوں اور حیوانوں کو پیدا کیا)۔ تو، تمہارا جواب انجیل پر مبنی ہے۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم خود اپنی سمجھ بوجھ کے بارے میں بات کرو، تاکہ میں دیکھ سکوں کہ آیا تمہیں خدا کے اعمال کا کوئی عملی علم ہے یا نہیں۔ اب، کیا تمہیں اپنے جواب کے بارے میں یقین ہے، یا نہیں؟ (خدا نے مرغی کو پیدا کیا، پھر اسے افزائشِ نسل کی صلاحیت دی، جس کا مطلب ہے انڈے سینے کی صلاحیت)۔ یہ تشریح کم و بیش درست ہے۔ مرغی پہلے آئی اور پھر انڈا۔ یہ یقینی ہے۔ یہ کوئی خاص طور پر گہرا راز نہیں ہے، لیکن دنیا کے لوگ اس کے باوجود اسے ایسا ہی سمجھتے ہیں اور کبھی بھی بغیر کسی نتیجے پر پہنچے، اسے فلسفیانہ نظریات سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے کہ لوگ یہ ہی نہیں جانتے کہ انھیں خدا نے تخلیق کیا ہے۔ وہ اس بنیادی اصول کو نہیں جانتے اور نہ ہی انھیں اس بات کا واضح اندازہ ہے کہ انڈے یا مرغی میں سے کس کو پہلے آنا چاہیے تھا۔ وہ نہیں جانتے کہ کس کو پہلے آنا چاہیے تھا، اس لیے وہ کبھی بھی اس کا جواب تلاش نہیں کر پاتے۔ یہ بالکل فطری ہے کہ مرغی پہلے آئی۔ اگر انڈا مرغی سے پہلے آیا ہوتا تو یہ غیر معمولی بات ہوتی! یہ اتنی آسان چیز ہے – مرغی یقینی طور پر پہلے آئی۔ یہ ایسا سوال نہیں ہے جس کے لیے جدید علم کی ضرورت ہو۔ خدا نے ہر چیز کو اس ارادے سے بنایا ہے کہ انسان اس سے لطف اندوز ہو۔ ایک بار جب مرغی موجود ہوتی ہے تو، قدرتی طور پر انڈا بھی آتا ہے۔ کیا یہ ایک فوری تیار حل نہیں ہے؟ اگر انڈے کو پہلے تخلیق کیا جاتا تو کیا اسے پھر بھی سینے کے لیے مرغی کی ضرورت نہیں ہوتی؟ مرغی کو براہ راست تخلیق کرنا ایک زیادہ آسان فوری موجود حل ہے۔ اس طرح، مرغی انڈے دے سکتی ہے اور چوزوں کو اندر سینک سکتی ہے، اور لوگ مرغی کھا سکتے ہیں۔ کتنا آسان! جس طریقے سے خُدا کام کرتا ہے وہ صاف ستھرا ہوتا ہے، اوربالکل بھی پیچیدہ نہیں ہے۔ انڈا کہاں سے آتا ہے؟ یہ مرغی سے آتا ہے۔ مرغی کے بغیر انڈا نہیں ہوتا۔ خدا نے جو چیز بھی تخلیق کی وہ زندہ چیز تھی! بنی نوع انسان غیر معقول اور مضحکہ خیز ہے، ہمیشہ ایسی سادہ سی چیزوں میں الجھا رہتا ہے، اور جس کا نتیجہ بہت سی غیر معقول غلط فہمیاں ہوتا ہے۔ انسان کتنا بچکانہ ہے! انڈے اور مرغی کے درمیان تعلق واضح ہے: مرغی پہلے آئی۔ یہ سب سے درست وضاحت ہے، اسے سمجھنے کا سب سے درست طریقہ ہے اور سب سے درست جواب ہے۔ یہی صحیح ہے۔
ہم نے ابھی کن موضوعات پر بات کی ہے؟ ہم نے اس ماحول کے بارے میں بات کرنے سے آغاز کیا جس میں انسان آباد ہے اور خدا نے اس ماحول کے لیے کیا کیا اور اس نے کیا تیاری کی۔ ہم نے بات کی کہ اس نے کیا انتظام کیا؛ تخلیق کی جو چیزیں خدا نے بنی نوع انسان کے لیے تیار کی ہیں، ان کے درمیان تعلقات؛ اور خدا نے اپنی تخلیق کی چیزوں کو بنی نوع انسان کو نقصان پہنچانے سے روکنے کے لیے ان تعلقات کو کیسے ترتیب دیا۔ خدا نے اس نقصان کو بھی کم کیا جو اس کی تخلیق کے اندر بہت سے مختلف عوامل نے بنی نوع انسان کے ماحول کو پہنچایا، جس سے تمام چیزوں کو ان کے اعلیٰ ترین مقصد کی تکمیل کی اجازت دی گئی، اور بنی نوع انسان کو مفید عناصر کے ساتھ ایک مفید ماحول فراہم کیا گیا، اس طرح یہ بنی نوع انسان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ ایسے ماحول سے مطابقت پیدا کر سکے اور زندگی اور افزائشِ نسل کے دور کو مسلسل جاری رکھے۔ اس کے بعد، ہم نے انسانی جسم کو درکار خوراک کے بارے میں بات کی – بنی نوع انسان کی روزمرہ کی خوراک اور مشروب۔ یہ بھی بنی نوع انسان کی بقا کے لیے ایک ضروری شرط ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسانی جسم صرف سانس لینے سے، نشوونما کے لیے صرف سورج کی روشنی، یا ہوا، یا مناسب درجہ حرارت سے زندہ نہیں رہ سکتا۔ بنی نوع انسان کو اپنے پیٹ بھرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اور خدا نے بنی نوع انسان کے لیے کسی چیز کو نظر انداز کیے بغیر، ان چیزوں کے ذرائع تیار کیے ہیں جن سے وہ ایسا کر سکتے ہیں، جو کہ انسانوں کی خوراک کے ذرائع ہیں۔ تم نے اتنی وافر اور فراوں پیداوار دیکھ لی ہے – بنی نوع انسان کے کھانے اور پینے کے ذرائع – کیا تم کہہ سکتے ہو کہ خدا انسانوں کے لیے اور اپنی تخلیق کی تمام چیزوں کے لیے فراہمی کا ذریعہ ہے؟ اگر تخلیق کے زمانے میں، خدا نے صرف درخت اور گھاس یا دیگر جانداروں کی تعداد کو پیدا کیا ہوتا، اور اگر یہ مختلف جاندار چیزیں اور پودے سب گائے اور بھیڑوں کے کھانے کے لیے ہوتے، یا زیبرا، ہرن اور دیگر مختلف اقسام کے جانوروں کے لیے ہوتے۔ مثال کے طور پر، ببرشیروں کو زیبرے اور ہرن جیسی چیزیں کھانا ہوتیں، اور شیروں کو بھیڑ اور سور جیسی چیزیں کھانا ہوتیں – لیکن ایک بھی چیز انسانوں کے کھانے کے لیے موزوں نہ ہوتی، تو کیا اس سے کام چلتا؟ اس سے کام نہیں چلتا۔ بنی نوع انسان زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔ کیا ہوتا اگر انسان صرف پتے کھاتا؟ کیا اس سے کام چلتا؟ کیا انسان بھیڑوں کی گھاس کھا سکتے ہیں؟ اگر وہ تھوڑی سی کھائیں تو شاید تکلیف نہ ہو، لیکن اگر وہ ایسی چیزیں زیادہ دیر تک کھاتے تو ان کے معدے اسے برداشت نہیں کر پاتے اور لوگ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہتے۔ ایسی چیزیں بھی موجود ہیں جو جانور تو کھا سکتے ہیں لیکن انسانوں کے لیے زہریلی ہیں – جانور انھیں بغیر کسی خطرے کے کھاتے ہیں، لیکن انسانوں کے لیے ایسا نہیں ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اس لیے خدا انسانی جسم کے اصول اور ساخت کو بہتر جانتا ہے اور یہ کہ انسانوں کو کس چیز کی ضرورت ہے۔ خدا مکمل شفافیت کے ساتھ جسم کی ساخت اور مواد، اس کی ضروریات اور اس کے اندرونی اعضا کے کام کو جانتا ہے اور یہ کہ وہ مختلف مادوں کو کس طرح جذب کرتے، ختم کرتے اور تحول کے عمل سے گزارتے ہیں۔ انسان نہیں جانتے؛ بعض اوقات، وہ بے احتیاطی سے کھاتے ہیں، یا لاپروائی سے اپنی دیکھ بھال میں مشغول ہوتے ہیں، جس کی زیادتی عدم توازن کا سبب بنتی ہے۔ اگر تُو معمول کے مطابق ان چیزوں کو کھاتا ہے اور لطف اندوز ہوتا ہے جو خدا نے تیرے لیے تیار کی ہیں، تو تجھے صحت کی کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ یہاں تک کہ اگر کبھی تیری جذباتی کیفیت خراب بھی ہو اور تیرے خون میں رکاوٹ ہو، تو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ تجھے صرف ایک خاص قسم کا پودا کھانے کی ضرورت ہے، اور رکاوٹ ختم ہو جائے گی۔ خدا نے ان تمام چیزوں کے لیے تیاری کر رکھی ہے۔ لہٰذا، خدا کی نظر میں، بنی نوع انسان کسی بھی دوسری جاندار چیز سے بہت اوپر ہے۔ خدا نے ہر قسم کے پودے کے لیے ماحول تیار کیا، اور اس نے ہر قسم کے جانور کے لیے خوراک اور ماحول تیار کیا، لیکن بنی نوع انسان کی اپنے ماحول کی سخت ترین ضروریات ہیں، اور ان ضروریات کو ذرا سا بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا؛ اگر ایسا ہوتا تو بنی نوع انسان معمول کے مطابق ترقی کرنے اور زندہ رہنے اور افزائشِ نسل کے قابل نہیں ہوتا۔ یہ خدا ہی ہے جو اپنے دل میں بہتر جانتا ہے۔ جب خدا نے یہ کیا تو اس نے اسے کسی بھی چیز سے زیادہ اہمیت دی۔ شاید تو کسی ایسی ناقابلِ توجہ چیز کی اہمیت کو محسوس کرنے سے قاصر ہو جو تو اپنی زندگی میں دیکھ سکتا ہے اور جس سے لطف اندوز ہو سکتا ہے، یا کوئی ایسی چیز جسے تو اپنی پیدائش سے دیکھ رہا ہے اور جس سے لطف اندوز ہو رہا ہے، لیکن خدا نے تیرے لیے بہت پہلے سے یا خفیہ طور پر تیاری کر رکھی ہے۔ زیادہ سے زیادہ ممکنہ حد تک، خدا نے تمام منفی عناصر کو ہٹا دیا ہے اور ان میں تخفیف کر دی ہے جو بنی نوع انسان کے لیے ناگوار ہیں اور انسانی جسم کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ یہ کیا ظاہر کرتا ہے؟ کیا یہ اس رویے کو ظاہر کرتا ہے جو خدا نے انسانوں کے ساتھ انھیں تخلیق کرتے وقت رکھا تھا؟ وہ رویہ کیا تھا؟ خدا کا رویہ محتاط اور سنجیدہ تھا، اور اس نے کسی دشمن قوتوں یا بیرونی عوامل یا ان حالات کی جو اس کی طرف سے نہیں تھے، دخل اندازی کو برداشت نہیں کیا۔ اس میں اس وقت بنی نوع انسان کی تخلیق اور انتظام میں خدا کا رویہ دیکھا جا سکتا ہے۔ اور خدا کا رویہ کیا ہے؟ بقا اور زندگی کے ماحول کے ذریعے جس سے بنی نوع انسان لطف اندوز ہوتا ہے، نیز اس کے روزمرہ کے کھانے پینے اور روزمرہ کی ضروریات میں، ہم بنی نوع انسان کے لیے خُدا کے ذمہ دارانہ رویے کو دیکھ سکتے ہیں، جو اُس نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد سے اپنایا ہوا ہے، اور ساتھ ہی اُس کے بنی نوع انسان کو اس وقت بچانے کا عزم بھی۔ کیا ان چیزوں میں خدا کی صداقت نظر آتی ہے؟ کیا اس کی حیرت خیزی نظر آتی ہے؟ کیا اس کا ناقابلِ ادراک ہونا نظر آتا ہے؟ کیا اس کی قدرتِ کاملہ نظر آتی ہے؟ خدا تمام بنی نوع انسان کو مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی تخلیق کی تمام چیزوں کو مہیا کرنے کے لیے اپنے حکمت والے اور قادر مطلق طریقے استعمال کرتا ہے۔ اب جب کہ میں تم سے بہت کچھ کہہ چکا ہوں، کیا تم کہہ سکتے ہو کہ خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے؟ (ہاں)۔ یقیناً ایسا ہی ہے۔ کیا تمہیں کوئی شک ہے؟ (نہیں)۔ سب چیزوں کے لیے خدا کی فراہمی یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے، کیونکہ وہ اس فراہمی کا سرچشمہ ہے جس نے تمام چیزوں کے موجود ہونے، زندہ رہنے، افزائشِ نسل کرنے، اور جاری رہنے کے قابل بنایا ہے۔ خدا سب چیزوں کی تمام ضروریات اور بنی نوع انسان کی تمام ضروریات کو فراہم کرتا ہے، چاہے وہ لوگوں کی انتہائی بنیادی ماحولیاتی ضروریات ہوں، ان کی روزمرہ زندگی کی ضروریات ہوں، یا اس سچائی کی ضرورت جو وہ لوگوں کی روحوں کو فراہم کرتا ہے۔ ہر لحاظ سے، خدا کی شناخت اور اس کی حیثیت بنی نوع انسان کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے؛ صرف خدا ہی تمام چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے۔ یعنی خدا اس دنیا کا حاکم، مالک اور اسے مہیا کرنے والا ہے، اس دنیا کا جسے لوگ دیکھ اور محسوس کر سکتے ہیں۔ بنی نوع انسان کے لیے، کیا یہ خدا کی پہچان نہیں ہے؟ اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے۔ لہذا جب تو آسمان پر پرندوں کو اڑتے ہوئے دیکھے تو تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ خدا نے ہر وہ چیز بنائی ہے جو اڑ سکتی ہے۔ ایسی جاندار چیزیں ہیں جو پانی میں تیرتی ہیں، اور ان کے زندہ رہنے کے اپنے طریقے ہیں۔ وہ درخت اور پودے جو مٹی میں رہتے ہیں اور بہار میں اگتے ہیں اور پھل دیتے ہیں اور موسم خزاں میں پتے گراتے ہیں اور موسمِ سرما تک تمام پتے جھڑ جاتے ہیں کیونکہ وہ پودے موسم سرما کی تیاری کرتے ہیں۔ یہی ان کی بقا کا طریقہ ہے۔ خدا نے تمام چیزوں کو پیدا کیا، اور ہر ایک مختلف شکلوں اور مختلف طریقے سے زندگی گزارتا ہے اور اپنی زندگی کی قوت اور جس شکل میں رہتا ہے اسے ظاہر کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ چیزیں زندگی میں کام میں کیسے مشغول ہوتی ہیں، وہ سب خدا کی حکمرانی کے تحت ہیں۔ زندگی کی تمام مختلف شکلوں اور جانداروں پر خدا کی حکمرانی کا مقصد کیا ہے؟ کیا یہ بنی نوع انسان کی بقا کے لیے ہے؟ وہ زندگی کے تمام قوانین پر اختیار رکھتا ہے، یہ سب کچھ بنی نوع انسان کی بقا کے لیے ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کے لیے بنی نوع انسان کی بقا کتنی اہم ہے۔
بنی نوع انسان کی عمومی طور پر زندہ رہنے اور افزائشِ نسل کرنے کی صلاحیت خدا کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ لہذا، خدا انسانوں اور اپنی تخلیق کردہ تمام چیزوں کے لیے مسلسل فراہم کر رہا ہے. وہ تمام چیزوں کے لیے مختلف طریقوں سے مہیا کرتا ہے، اور تمام چیزوں کی بقا کو برقرار رکھتے ہوئے، وہ انسانیت کی معمول کی بقا کو برقرار رکھتے ہوئے انسانیت کو مسلسل آگے بڑھنے کے قابل بناتا ہے۔ یہ ہماری آج کی رفاقت کے دو پہلو ہیں۔ یہ دو پہلو کیا ہیں؟ (وسیع تر نقطہ نظر سے، خدا نے وہ ماحول بنایا ہے جس میں انسان رہتا ہے۔ یہ پہلا پہلو ہے۔ خدا نے وہ مادّی چیزیں بھی تیار کی ہیں جن کی بنی نوع انسان کو ضرورت ہے اور جنہیں وہ دیکھ اور چھو سکتا ہے)۔ ہم نے ان دو پہلوؤں کے ذریعے اپنے اصل موضوع کی رفاقت کی ہے۔ ہمارا اصل موضوع کیا ہے؟ (خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے)۔ اب تمہیں کچھ سمجھ بوجھ ہونی چاہیے کہ اس موضوع پر میری رفاقت میں اس طرح کے مواد کیوں تھے۔ کیا اصل موضوع سے غیر متعلق کوئی بات ہوئی ہے؟ بالکل نہیں! شاید ان باتوں کو سننے کے بعد تم میں سے کچھ لوگوں کو کچھ سمجھ بوجھ مل گئی ہو اور اب وہ محسوس کرتے ہوں کہ ان الفاظ میں وزن ہے، کہ یہ بہت اہم ہیں، لیکن ہو سکتا ہے کہ دوسروں کو صرف لفظی سمجھ بوجھ ملی ہو اور وہ یہ محسوس کرتے ہوں کہ یہ الفاظ بالکل غیر اہم ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ تم موجودہ لمحے میں اس کو کس طرح سمجھتے ہو، جب تمہارا تجربہ ایک خاص دن تک آ جاتا ہے، جب تمہاری سمجھ بوجھ ایک خاص مقام تک پہنچ جاتی ہے، یعنی جب تمہارا خدا کے اعمال اور خود خدا کے بارے میں علم ایک خاص سطح پر پہنچ جاتا ہے، تو پھر تم خود اپنے الفاظ، جو کہ عملی ہوں گے، خدا کے اعمال کی گہری اور حقیقی گواہی بیان کرنے کے لیے استعمال کرو گے۔
میں سمجھتا ہوں کہ تمہاری موجودہ تفہیم اب بھی کافی سطحی اور لفظی ہے، لیکن، میری رفاقت کے ان دو پہلوؤں کو سن کر، کیا تم کم از کم یہ پہچان سکتے ہو کہ خدا انسانوں کو فراہم کرنے کے لیے کون سے طریقے استعمال کرتا ہے یا خدا بنی نوع انسان کو کیا چیزیں فراہم کرتا ہے؟ کیا تمہارے پاس ایک بنیادی تصور، ایک بنیادی سمجھ بوجھ ہے؟ (ہاں)۔ لیکن میں نے جن دو پہلوؤں کے بارے میں رفاقت کی ہے، کیا ان کا تعلق انجیل سے ہے؟ کیا ان کا تعلق بادشاہی کے دور میں خدا کی عدالت اور تادیب کے ساتھ ہے؟ (نہیں)۔ پھر میں نے ان کے بارے میں رفاقت کیوں کی؟ کیا اس لیے کہ خدا کو جاننے کے لیے لوگوں کو ان کا سمجھنا بہت ضروری ہے؟ (ہاں)۔ ان چیزوں کا جاننا بہت ضروری ہے اور ان کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے۔ جب تم خُدا کو اُس کے مکمل پن کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرتے ہو تو اپنے آپ کو انجیل تک محدود نہ رکھو، اور اپنے آپ کو خُدا کی انسان کی عدالت اور تادیب تک محدود نہ رکھو۔ یہ کہنے سے میرا کیا مقصد ہے؟ یہ لوگوں کو یہ بتانے کے لیے ہے کہ خدا صرف اپنے چنے ہوئے لوگوں کا خدا نہیں ہے۔ تم اس وقت خدا کی پیروی کرتے ہو، اور وہ تمہارا خدا ہے، لیکن کیا وہ ان لوگوں کا خدا ہے جو اس کی پیروی نہیں کرتے؟ کیا خدا ان تمام لوگوں کا خدا ہے جو اس کی پیروی نہیں کرتے؟ کیا خدا سب چیزوں کا خدا ہے؟ (ہاں)۔ تو کیا خدا کے کام اور اعمال کا دائرہ کار صرف انہی لوگوں تک محدود ہے جو اس کی پیروی کرتے ہیں؟ (نہیں)۔ اس کے کام اور اعمال کا دائرہ کار کیا ہے؟ سب سے چھوٹی سطح پر، اس کے کام اور افعال کا دائرہ کار تمام بنی نوع انسان اور تخلیق کردہ تمام چیزوں پر محیط ہے۔ بلند ترین سطح پر یہ پوری کائنات پر محیط ہے جسے لوگ نہیں دیکھ سکتے۔ لہٰذا، ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا اپنا کام کرتا ہے اور تمام بنی نوع انسان کے درمیان اپنے اعمال انجام دیتا ہے، اور یہ لوگوں کو اس بات کی اجازت دینے کے لیے کافی ہے کہ وہ خود خدا کو اس کے مکمل پن کے ساتھ پہچانیں۔ اگر تو خدا کو جاننا چاہتا ہے، اسے صحیح معنوں میں جاننا چاہتا ہے، اسے صحیح معنوں میں سمجھنا چاہتا ہے، تو پھر تُو اپنے آپ کو صرف خدا کے کام کے تین مراحل تک، یا اس کام کی کہانیوں تک جو اس نے ماضی میں انجام دیا تھا، محدود نہ رکھ۔ اگر تو اسے اس طرح جاننے کی کوشش کرتا ہے، تو تُو خدا کے لیے حدود قائم کر رہا ہے، اسے محدود کر رہا ہے۔ تو خدا کو بہت چھوٹی چیز کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ ایسا کرنے سے لوگوں پر کیا اثر پڑے گا؟ تو کبھی بھی خدا کی حیرت خیزی اور بالادستی کو نہیں جان سکے گا، نہ ہی اس کی طاقت اور قدرتِ کاملہ اور اس کے اختیار کے دائرہ کار کو جان سکے گا۔ اس طرح کی سمجھ بوجھ تیری اس سچائی کو قبول کرنے کی صلاحیت کہ خدا سب چیزوں کا حاکم ہے، نیز خدا کی حقیقی شناخت اور حیثیت کے بارے میں تیرے علم پر اثر انداز ہو گی۔ دوسرے لفظوں میں، اگر خدا کے بارے میں تیری سمجھ بوجھ کا دائرہ محدود ہے، تو پھر تُو جو کچھ حاصل کر سکتا ہے وہ بھی محدود ہے۔ اس لیے تجھے اپنی ذہنی صلاحیت کو وسیع کرنا چاہیے اور اپنے افق کو وسیع کرنا چاہیے۔ تجھے یہ سب سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے – خُدا کے کام کا محیطِ عمل، اُس کا انتظام، اُس کی حکمرانی، اور وہ تمام چیزیں جن کا وہ انتظام کرتا ہے اور جن پر وہ حکمرانی کرتا ہے۔ ان چیزوں کے ذریعے ہی تجھے خدا کے اعمال کو سمجھنا چاہیے۔ اس طرح کی سمجھ بوجھ کے ساتھ، تُو ادراک کیے بغیر یہ محسوس کرے گا کہ خدا ان میں سب چیزوں پر حکمرانی کرتا ہے، ان کا انتظام کرتا ہے اور ان کے لیے فراہم کرتا ہے، اور تجھے صحیح معنوں میں اس کا بھی احساس ہو گا کہ تو تمام چیزوں کا حصہ اور رکن ہے۔ جیسا کہ خدا سب چیزوں کے لیے فراہم کرتا ہے، تُو بھی خدا کی حکمرانی اور فراہمی کو قبول کر رہا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ تمام چیزیں خدا کی حکمرانی کے تحت اپنے قوانین کے تابع ہیں، اور خدا کی حکمرانی کے تحت، تمام چیزوں کے بقا کے لیے اپنے اصول ہیں۔ بنی نوع انسان کی تقدیر اور ضروریات بھی خدا کی حکمرانی اور فراہمی کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کے اقتدار اور حکمرانی کے تحت، بنی نوع انسان اور تمام چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں، ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہیں اور ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ خدا کی تمام چیزوں کی تخلیق کا یہ مقصد اور اہمیت ہے۔
2 فروری 2014