خدا خود، منفرد IX

خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے (III)

اس عرصے میں ہم نے خدا کو جاننے کے متعلق بہت سی چیزوں کے بارے میں بات کی ہے اور حال ہی میں ہم نے ایک ایسے موضوع کے بارے میں بات کی ہے جو اسی سے متعلق ہے اور جو بہت اہمیت کا حامل ہے۔ موضوع کیا ہے؟ (خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے)۔ ایسا لگتا ہے کہ جن نکات اور مرکزی موضوع کے بارے میں میں نے بات کی ہے اس نے ہر ایک پر واضح تاثر قائم کیا۔ پچھلی بار ہم نے بقا کے لیے ماحول کے ان چند پہلوؤں کے بارے میں بات کی تھی جو خدا نے بنی نوع انسان کے لیے تخلیق کیے ہیں، نیز لوگوں کے زندہ رہنے کے لیے ضروری کئی قسم کی خوراک کے بارے میں بات کی تھی جو خدا نے بنی نوع انسان کے لیے تیار کی۔ درحقیقت خدا جو کچھ کرتا ہے وہ صرف لوگوں کی بقا کے لیے ماحول تیار کرنے تک محدود نہیں ہے اور نہ ہی ان کی روزمرہ کی خوراک کی تیاری تک ہے۔ بلکہ، یہ بہت سے پراسرار اور ضروری کام کو مکمل کرنے پر مشتمل ہے جس میں لوگوں کی بقا اور بنی نوع انسان کی زندگی کے لیے بہت سے مختلف پہلو اور جزو شامل ہیں۔ یہ سب خدا کے اعمال ہیں۔ خدا کے یہ کام صرف لوگوں کی بقا اور ان کے روزمرہ کی خوراک کے لیے ماحول کی تیاری تک محدود نہیں ہیں – بلکہ ان کا دائرہ کار اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ ان دو قسم کے کاموں کے علاوہ وہ بقا کے لیے بہت سے ایسے ماحول اور حالات بھی تیار کرتا ہے جو انسان کے زندہ رہنے کے لیے ضروری ہیں۔ یہ وہ موضوع ہے جس پر ہم آج بات کرنے جا رہے ہیں۔ اس کا تعلق خدا کے اعمال سے بھی ہے؛ دوسری صورت میں، یہاں اس کے بارے میں بات کرنا بے معنی ہو جائے گا۔ اگر لوگ خدا کو جاننا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس ”خدا“ کی صرف ایک لفظ کے طور پر لفظی سمجھ بوجھ ہے، یا خدا کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے، اس کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں، تو یہ صحیح سمجھ بوجھ نہیں ہے۔ تو خدا کو جاننے کا راستہ کیا ہے؟ یہ اسے اُس کے اعمال کے ذریعے جاننا ہے، اور اُس کے تمام پہلوؤں میں اُسے جاننا ہے۔ لہذا، ہمیں تمام چیزوں کی تخلیق کے وقت خدا کے کیے جانے والے اعمال کے موضوع پر مزید رفاقت کرنی چاہیے۔

جب سے خدا نے تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے، وہ منظم طریقے سے اور اس کے بتائے ہوئے قوانین کے مطابق کام کر رہی ہیں اور ترقی کرتی چلی آ رہی ہیں۔ اس کی نظروں کے نیچے، اس کی حکمرانی کے تحت، نوع انسانی زندہ رہی ہے، اور اس تمام وقت کے دوران تمام چیزیں ایک منظم طریقے سے ترقی کرتی رہی ہیں۔ ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو ان قوانین کو تبدیل یا تباہ کر سکے۔ یہ خدا کی حکمرانی کی وجہ سے ہے کہ تمام مخلوقات کی تعداد بڑھ سکتی ہے، اور یہ اس کی حکمرانی اور انتظام کی وجہ سے ہے کہ تمام وجود زندہ رہ سکتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی حکمرانی کے تحت تمام مخلوقات ایک منظم انداز میں وجود میں آتی ہیں، پھلتی پھولتی ہیں، غائب ہوتی ہیں اور دوبارہ جنم لیتی ہیں۔ جب بہار آتی ہے تو بوندا باندی والی بارش تازہ موسم کا احساس لاتی ہے اور زمین کو تر کر دیتی ہے۔ زمین نرم ہونا شروع ہو جاتی ہے، اور گھاس مٹی کو اوپر کی طرف دھکیل کر اپنا راستہ بناتی ہے اور پھوٹنے لگتی ہے، جب کہ درخت آہستہ آہستہ سبز ہو جاتے ہیں۔ یہ تمام جاندار چیزیں زمین پر تازہ قوتِ حیات لے کر آتی ہیں۔ جب تمام مخلوقات وجود میں آ رہی ہوں اور پھل پھول رہی ہوں تو ایسا ہی لگتا ہے۔ ہر طرح کے جانور موسم بہار کی گرمی کو محسوس کرنے اور ایک نئے سال کا آغاز کرنے کے لیے اپنے بلوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ تمام مخلوقات گرمیوں کے دوران گرمی کا مزہ لیتی ہیں اور موسم کی گرمی سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔ وہ تیزی سے بڑھتی ہیں۔ درخت، گھاس، اور تمام قسم کے پودے بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہے ہوتے ہیں، یہاں تک کہ آخرکار ان پر پھول آتے ہیں اور وہ پھل دیتے ہیں۔ گرمیوں میں انسانوں سمیت تمام مخلوقات مصروف رہتی ہیں۔ موسم خزاں میں بارشیں خزاں کی ٹھنڈک لاتی ہیں اور ہر قسم کے جاندار فصل کی کٹائی کے موسم کی آمد کو محسوس کرنے لگتے ہیں۔ تمام مخلوقات پھل دیتی ہیں، اور انسان سردیوں کی تیاری میں خوراک حاصل کرنے کے لیے ان مختلف قسم کے پھلوں کی کو توڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ سردیوں میں سردی کے موسم کے آتے ہی تمام مخلوقات آہستہ آہستہ خاموشی اور سکون کی حالت میں آرام کرنے لگتی ہیں اور لوگ بھی اس موسم میں آرام کرتے ہیں۔ موسم سے موسم تک، موسم بہار سے موسم گرما اور موسم خزاں سے موسم سرما میں منتقلی – یہ تمام تبدیلیاں خدا کے قائم کردہ قوانین کے مطابق ہوتی ہیں۔ وہ ان قوانین کو استعمال کرتے ہوئے تمام چیزوں اور بنی نوع انسان کی راہنمائی کرتا ہے اور اس نے بنی نوع انسان کے لیے زندگی کا ایک بھرپور اور رنگا رنگ طریقہ وضع کیا ہے، بقا کے لیے ایک ایسا ماحول تیار کیا ہے جس میں مختلف درجہ حرارت اور موسم ہیں۔ لہٰذا، بقا کے لیے اس قسم کے منظم ماحول کے اندر، انسان منظم طریقے سے زندہ رہ سکتے ہیں اور تعداد میں بڑھ سکتے ہیں۔ انسان ان قوانین کو تبدیل نہیں کر سکتے اور کوئی فرد یا مخلوق ان کو توڑ نہیں سکتی۔ اگرچہ لاتعداد تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں – سمندر میدان بن گئے ہیں، جبکہ میدان سمندر بن گئے ہیں – یہ قوانین اب بھی موجود ہیں۔ کیونکہ خدا موجود ہے، اور اس کی حکمرانی اور اس کے انتظام کی وجہ سے یہ موجود ہیں۔ اس قسم کے منظم، بڑے پیمانے پر ماحول کے ساتھ، لوگوں کی زندگیاں ان قوانین اور قواعد کے اندر چلتی ہیں۔ ان قوانین کے تحت لوگوں کی نسل در نسل پرورش ہوئی اور لوگ نسل در نسل ان کے تحت زندہ رہے ہیں۔ لوگوں نے زندہ رہنے کے لیے اس منظم ماحول کے ساتھ ساتھ خدا کی طرف سے نسل در نسل پیدا کی گئی تمام چیزوں سے بھی لطف حاصل کیا ہے۔ اگرچہ لوگ محسوس کرتے ہیں کہ اس قسم کے قوانین قدرتی ہیں اور ان کو حقارت کے ساتھ دیکھتے ہوئے انھیں اپنا حق سمجھتے ہیں، اور اگرچہ وہ یہ محسوس نہیں کر سکتے کہ خدا ان قوانین کو ترتیب دے رہا ہے، کہ خدا ان قوانین پر حکمرانی کر رہا ہے، خواہ کچھ بھی ہو، خدا ہمیشہ اس غیر متغیر کام میں مصروف رہتا ہے۔ اس غیر متغیر کام میں اس کا مقصد بنی نوع انسان کی بقا ہے، اور تاکہ بنی نوع انسان زندہ رہ سکے۔

خدا تمام بنی نوع انسان کی پرورش کرنے کے لیے تمام چیزوں کی حدود متعین کرتا ہے

آج میں اس موضوع پر بات کرنے جا رہا ہوں کہ یہ کیسے ہے کہ اس قسم کے قوانین جو خدا سب چیزوں کے لیے لایا ہے وہ تمام بنی نوع انسان کی پرورش کرتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا موضوع ہے، اس لیے ہم اسے کئی حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں اور ایک وقت میں ایک پر بات کر سکتے ہیں تاکہ تمہارے لیے واضح طور پر ان کا نقشہ کھینچا جا سکے۔ اس طرح تمہارے لیے سمجھنا آسان ہو جائے گا اور آہستہ آہستہ تم اسے سمجھ سکو گے۔

پہلا حصہ: خدا ہر قسم کے خطے کے لیے حدود متعین کرتا ہے

تو آؤ پہلے حصے سے شروع کرتے ہیں۔ جب خدا نے تمام چیزوں کو تخلیق کیا، تو اس نے پہاڑوں، میدانوں، صحراؤں، پہاڑیوں، دریاؤں اور جھیلوں کی حدود مقرر کر دیں۔ زمین پر پہاڑوں، میدانوں، صحراؤں اور پہاڑیوں کے ساتھ ساتھ پانی کے مختلف ذخائر بھی ہیں۔ یہ مختلف قسم کے خطوں کی تشکیل کرتے ہیں، کیا وہ نہیں کرتے؟ ان کے درمیان خدا نے حدود مقرر کر دیں۔ جب ہم حدود مقرر کرنے کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پہاڑوں کی اپنی حدود ہیں، میدانوں کی اپنی حدود ہیں، صحراؤں کی اپنی حدود ہیں، اور پہاڑیوں کا ایک مقررہ علاقہ ہے۔ دریاؤں اور جھیلوں جیسے پانی کے ذخیروں کی ایک مقررہ مقدار بھی ہے۔ یعنی جب خدا نے تمام چیزوں کو تخلیق کیا تو اس نے ہر چیز کو بہت واضح طور پر تقسیم کیا۔ خدا نے پہلے ہی طے کر رکھا ہے کہ کسی بھی پہاڑ کا نصف قطر کتنے کلومیٹر ہونا چاہیے اور اس کا دائرہ کیا ہے۔ اس نے یہ بھی طے کیا ہے کہ کسی بھی میدان کا نصف قطر کتنے کلومیٹر ہونا چاہیے اور اس کا دائرہ کیا ہے۔ تمام چیزوں کو تخلیق کرتے وقت، اس نے صحراؤں کی حدود کے ساتھ ساتھ پہاڑیوں کی حد اور ان کے تناسب کا بھی تعین کیا، اور ان کی سرحدیں بھی متعین کیں – یہ سب اس نے طے کیا تھا۔ اس نے دریاؤں اور جھیلوں کو تخلیق کرنے کے دوران ان کی حدود کا تعین کیا – ان سب کی اپنی حدود ہیں۔ تو جب ہم ”حدود“ کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اس کا کیا مطلب ہے؟ ہم نے ابھی اس بارے میں بات کی تھی کہ کس طرح خدا تمام چیزوں کے لیے قوانین قائم کر کے سب چیزوں پر حکومت کرتا ہے۔ یعنی پہاڑوں کا سلسلہ اور حدود زمین کی گردش یا وقت گزرنے کی وجہ سے نہ پھیلے گا اور نہ ہی کم ہو گا۔ وہ مقرر، غیر متبدل ہیں، اور یہ خدا ہی ہے جو ان کے تبدیل نہ ہونے کا حکم دیتا ہے۔ جہاں تک میدانی علاقوں کا تعلق ہے، ان کا سلسلہ کیا ہے، ان کی حدود کیا ہیں – یہ خدا نے مقرر کیا ہے۔ ان کی اپنی حدود ہیں، اور اس طرح زمین کے ایک ٹیلے کا میدان کی زمین سے بے ترتیب طور پر اٹھنا ناممکن ہو گا۔ میدان اچانک پہاڑ میں تبدیل نہیں ہو سکتا – یہ ناممکن ہو گا۔ یہ ان قوانین اور حدود کا مفہوم ہے جن کے بارے میں ہم نے ابھی بات کی ہے۔ جہاں تک صحراؤں کا تعلق ہے، ہم یہاں صحراؤں کے مخصوص افعال یا کسی اور قسم کے خطوں یا جغرافیائی محل وقوع کا ذکر نہیں کریں گے، صرف ان کی حدود کا ہی ذکر کریں گے۔ خدا کی حکمرانی کے تحت، صحرا کی حدود بھی نہیں پھیلیں گی۔ یہ اس لیے ہے کہ خدا نے اسے اس کا قانون، اس کی حدود دی ہیں۔ اس کا رقبہ کتنا بڑا ہے اور اس کا کام کیا ہے، اس کی حدود کیا ہے، اور یہ کہاں واقع ہے – یہ خدا نے پہلے ہی مقرر کر دیا ہے۔ یہ اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرے گا یا اپنی جگہ تبدیل نہیں کرے گا، اور اس کا علاقہ اپنی مرضی سے نہیں پھیلے گا۔ اگرچہ پانیوں کا بہاؤ جیسے دریا اور جھیلیں سب منظم اور مسلسل ہیں، وہ کبھی بھی اپنے سلسلے سے باہر یا اپنی حدود سے باہر نہیں جائیں گے۔ وہ سب ایک منظم طریقے سے اس ایک ہی سمت میں بہتے ہیں، جس سمت میں انھیں بہنا ہوتا ہے۔ لہٰذا خدا کے قوانین کے تحت کوئی بھی دریا یا جھیل زمین کی گردش یا وقت گزرنے کی وجہ سے اپنی مرضی سے خشک نہیں ہو گی یا اپنی مرضی سے اپنے بہاؤ کی سمت یا مقدار کو تبدیل نہیں کرے گی۔ یہ سب خدا کے اختیار میں ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس بنی نوع انسان کے درمیان خدا کی تخلیق کی گئی تمام چیزوں کی اپنی مقررہ جگہیں، علاقے اور حدود ہیں۔ یعنی جب خدا نے تمام چیزوں کو تخلیق کیا تو ان کی حدود قائم ہو گئیں اور ان میں اپنی مرضی سے کسی بھی قسم کی ترمیم، تجدید یا تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ ”اپنی مرضی“ کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ موسم، درجہ حرارت، یا زمین کی گردش کی رفتار کی وجہ سے اپنی اصل شکل کو کسی اصول کے بغیر منتقل نہیں کریں گے، پھیلیں گے نہیں یا تبدیل نہیں کریں گے۔ مثال کے طور پر، ایک پہاڑ ایک خاص اونچائی کا ہے، اس کی بنیاد ایک مخصوص علاقے کی ہے، اس کی ایک خاص بلندی ہے، اور اس میں سبزے کی ایک خاص مقدار ہے۔ اس سب کی منصوبہ بندی اور حساب کتاب خدا کی طرف سے کیا گیا ہے اور اسے اپنی مرضی سے تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ جہاں تک میدانی علاقوں کا تعلق ہے، انسانوں کی اکثریت میدانی علاقوں میں رہتی ہے، اور آب و ہوا میں کوئی تبدیلی ان کے علاقوں یا ان کے وجود کی اہمیت پر اثر نہیں ڈالے گی۔ یہاں تک کہ ان مختلف خطوں اور جغرافیائی ماحول کے اندر موجود چیزیں جو خدا کی طرف سے تخلیق کی گئیں، اپنی مرضی سے تبدیل نہیں کی جائیں گی۔ مثال کے طور پر، صحرا کی ساخت، زیر زمین معدنی ذخائر کی اقسام، ریت کی مقدار جو ریگستان میں ہوتی ہے اور اس کا رنگ، صحرا کی موٹائی – یہ اپنی مرضی سے تبدیل نہیں ہوں گے۔ ایسا کیوں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے تبدیل نہیں ہوں گے؟ یہ خدا کی حکمرانی اور اس کے انتظام کی وجہ سے ہے۔ خدا کے بنائے ہوئے ان تمام مختلف خطوں اور جغرافیائی ماحول کے اندر، وہ ہر چیز کو ایک منصوبہ بندی اور منظم طریقے سے چلا رہا ہے۔ لہٰذا یہ تمام جغرافیائی ماحول اب بھی موجود ہیں اور خدا کی طرف سے تخلیق کیے جانے کے ہزاروں بلکہ دسیوں ہزاروں سال بعد بھی ابھی تک اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اگرچہ ایسے اوقات ہوتے ہیں جب آتش فشاں پھٹتے ہیں، اور زلزلے آنے کا وقت ہوتا ہے، اور ایسے اوقات ہوتے ہیں جب زمین میں بڑی تبدیلیاں ہوتی ہیں، لیکن خدا قطعی طور پر کسی بھی قسم کے خطے کو اس کی اصل فعالیت سے محروم نہیں ہونے دیتا۔ یہ صرف خدا کی طرف سے اس انتظام، اس کی حکمرانی اور ان قوانین پر اختیار کی وجہ سے ہے، کہ یہ سب کچھ – یہ سب کچھ جو انسان دیکھتا ہے اور جس سے لطف اندوز ہوتا ہے – ایک منظم طریقے سے زمین پر زندہ رہ سکتا ہے۔ تو پھر خدا زمین پر موجود ان تمام مختلف خطوں کا انتظام اس طرح کیوں کرتا ہے؟ اس کا مقصد یہ ہے کہ مختلف جغرافیائی ماحول میں زندہ رہنے والے تمام جانداروں کے لیے ایک مستحکم ماحول ہو، اور تاکہ وہ اس مستحکم ماحول میں زندہ رہنے اور تعداد بڑھانے کے قابل ہوں۔ یہ تمام چیزیں – وہ جو متحرک ہیں اور وہ جو غیر متحرک ہیں، وہ جو اپنے نتھنوں سے سانس لیتی ہیں اور وہ جو نہیں لیتی ہیں – بنی نوع انسان کی بقا کے لیے ایک منفرد ماحول بناتی ہیں۔ صرف اس قسم کا ماحول ہی انسانوں کی نسل در نسل پرورش کرسکتا ہے، اور صرف اس قسم کا ماحول ہی انسانوں کو نسل در نسل پرامن طریقے سے زندہ رہنے کی اجازت دے سکتا ہے۔

میں نے ابھی جس کے بارے میں بات کی ہے وہ ایک قدرے بڑا موضوع ہے، اس لیے شاید یہ تمہاری زندگیوں سے کسی قدر دور محسوس ہوتا ہے۔ لیکن مجھے اعتماد ہے کہ تم سب اسے سمجھ سکتے ہو۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ، خدا کی حکمرانی میں سب چیزوں پر اس کے قوانین بہت اہم ہیں – واقعی بہت اہم! ان قوانین کے تحت تمام مخلوقات کی ترقی کے لیے پیشگی شرط کیا ہے؟ یہ خدا کی حکمرانی کی وجہ سے ہے۔ یہ اس کی حکمرانی کی وجہ سے ہے کہ ہر چیز اس کی حکمرانی کے اندر اپنے افعال انجام دیتی ہے۔ مثال کے طور پر پہاڑ جنگلات کی پرورش کرتے ہیں اور جنگلات بدلے میں اپنے اندر بسنے والے مختلف پرندوں اور درندوں کی پرورش اور حفاظت کرتے ہیں۔ میدان ایک ایسی جگہ ہیں جو انسانوں کے لیے فصلیں لگانے کے ساتھ ساتھ مختلف پرندوں اور حیوانوں کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔ وہ بنی نوع انسان کی اکثریت کو ہموار زمین پر رہنے اور لوگوں کی زندگیوں میں سہولت فراہم کرنے دیتے ہیں۔ اور میدانی علاقوں میں گھاس کے میدان بھی شامل ہیں – وسیع و عریض گھاس کے میدان۔ گھاس کے میدان زمین کے فرش کے لیے پودوں کا غلاف فراہم کرتے ہیں۔ وہ مٹی کی حفاظت کرتے ہیں اور مویشیوں، بھیڑوں اور گھوڑوں کی پرورش کرتے ہیں جو گھاس کے میدانوں پر رہتے ہیں۔ صحرا بھی اپنا کام کرتا ہے۔ یہ انسانوں کے رہنے کی جگہ نہیں ہے؛ اس کا کردار مرطوب آب و ہوا کو خشک بنانا ہے۔ دریاؤں اور جھیلوں کے بہاؤ لوگوں کو پینے کا پانی آسان طریقے سے پہنچاتے ہیں۔ وہ جہاں بہیں گے وہاں لوگوں کو پینے کے لیے پانی میسر ہو گا اور سب چیزوں کی پانی کی ضرورت آسانی سے پوری ہو جائے گی۔ یہ وہ حدود ہیں جو خدا نے مختلف خطوں کے لیے کھینچی ہیں۔

دوسرا حصہ: خدا زندگی کی ہر شکل کے لیے حدود متعین کرتا ہے

ان حدود کی وجہ سے جو خدا نے مقرر کی ہیں، مختلف خطوں نے بقا کے لیے مختلف ماحول پیدا کیے ہیں، اور بقا کے لیے یہ ماحول مختلف قسم کے پرندوں اور حیوانوں کے لیے مناسب رہے ہیں اور انھیں زندہ رہنے کے لیے جگہ بھی دی ہے۔ اس سے مختلف جانداروں کی بقا کے لیے ماحولیات کی حدود تیار کی گئی ہیں۔ یہ دوسرا حصہ ہے جس کے بارے میں ہم آگے بات کرنے جا رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ پرندے اور درندے اور کیڑے مکوڑے کہاں رہتے ہیں؟ کیا وہ جنگلوں اور درختوں کے جھنڈ میں رہتے ہیں؟ یہ ان کا گھر ہیں۔ لہٰذا، مختلف جغرافیائی ماحول کے لیے حدود قائم کرنے کے علاوہ، خدا نے مختلف پرندوں اور حیوانوں، مچھلیوں، کیڑے مکوڑوں اور تمام پودوں کے لیے بھی حدود متعین کیں اور قوانین بنائے۔ مختلف جغرافیائی ماحول کے درمیان فرق کی وجہ سے اور مختلف جغرافیائی ماحول کی موجودگی کی وجہ سے، مختلف قسم کے پرندے اور حیوان، مچھلی، کیڑے مکوڑوں اور پودوں کی بقا کے لیے مختلف ماحول ہوتے ہیں۔ پرندے اور درندے اور کیڑے مکوڑے مختلف پودوں کے درمیان رہتے ہیں، مچھلیاں پانی میں رہتی ہیں اور پودے زمین پر اگتے ہیں۔ زمین میں مختلف علاقے جیسے کہ پہاڑ، میدان اور پہاڑیاں شامل ہیں۔ جب پرندوں اور درندوں کا اپنا گھر مقرر ہو جائے تو وہ کسی بھی راستے پر چل کر ادھر ادھر نہیں بھٹکیں گے۔ ان کے گھر جنگل اور پہاڑ ہیں۔ اگر، ایک دن، ان کے گھروں کو تباہ کر دیا گیا، تو یہ ترتیب افراتفری کا شکار ہو جائے گی۔ جیسے ہی یہ ترتیب افراتفری کا شکار ہو گی، تو اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ سب سے پہلے کس کو تکلیف پہنچے گی؟ یہ بنی نوع انسان ہے۔ ان قوانین اور حدود کے اندر جو خدا نے قائم کی ہیں، کیا تم نے کوئی عجیب و غریب واقعہ دیکھا ہے؟ مثال کے طور پر صحرا میں چلتے ہوئے ہاتھی۔ کیا تم نے ایسا کچھ دیکھا ہے؟ اگر واقعی ایسا ہوا تو یہ ایک بہت ہی عجیب واقعہ ہو گا، کیونکہ ہاتھی جنگل میں رہتے ہیں، اور یہی وہ بقا کا ماحول ہے جو خدا نے ان کے لیے تیار کیا ہے۔ ان کے پاس زندہ رہنے کا اپنا ماحول ہے اور ان کا اپنا مقررہ گھر ہے، تو وہ اِدھر اُدھر کیوں بھاگتے پھریں گے۔ کیا کسی نے ببرشیر یا شیر کو سمندر کے کنارے چلتے دیکھا ہے؟ نہیں، تم نے نہیں دیکھا ہے۔ ببرشیروں اور شیروں کا گھر جنگل اور پہاڑ ہیں۔ کیا کسی نے سمندر کی وھیل یا شارک مچھلیوں کو صحرا میں تیرتے ہوئے دیکھا ہے؟ نہیں، تم نے نہیں دیکھا ہے۔ وھیل اور شارک مچھلیاں سمندر میں اپنا گھر بناتی ہیں۔ انسانوں کے رہنے والے ماحول میں، کیا ایسے لوگ ہیں جو بھورے ریچھوں کے ساتھ رہتے ہیں؟ کیا ایسے لوگ ہیں جو اپنے گھروں کے اندر اور باہر ہمیشہ مور یا دوسرے پرندوں سے گھرے رہتے ہیں؟ کیا کسی نے عقاب یا جنگلی ہنسوں کو بندروں کے ساتھ کھیلتے دیکھا ہے؟ (نہیں)۔ یہ سب عجیب و غریب مظاہر ہوں گے۔ جو چیزیں تمہارے کانوں کو بہت عجیب لگتی ہیں میرے ان کے بارے میں بات کرنے کی وجہ یہ ہے کہ تم یہ سمجھو کہ خدا کی تخلیق شدہ تمام چیزیں – چاہے وہ ایک جگہ پر ایستادہ ہوں یا چاہے وہ اپنے نتھنوں سے سانس لے سکیں – ان کے زندہ رہنے کے لیے اپنے قوانین ہیں۔ خدا نے ان جانداروں کو تخلیق کرنے سے بہت پہلے ان کے لیے ان کے اپنے گھر اور زندہ رہنے کے لیے ان کے اپنے ماحول کو تیار کر دیا تھا۔ ان جانداروں کی بقا کے لیے ان کے اپنے مخصوص ماحول تھے، ان کی اپنی خوراک اور ان کے اپنے گھر تھے، اور ان کے پاس اپنی بقا کے لیے مقرر کردہ جگہیں تھیں، ایسی جگہیں تھیں جن کا درجہ حرارت ان کی بقا کے لیے موزوں تھا۔ اس طرح، وہ کسی بھی راستے پر اِدھر اُدھر نہیں گھومتے یا بنی نوع انسان کی بقا کو نقصان نہیں پہنچاتے ہیں یا لوگوں کی زندگیوں کو متاثر نہیں کرتے ہیں۔ اس طرح خُدا سب چیزوں کا انتظام کرتا ہے اور بنی نوع انسان کو بقا کے لیے بہترین ماحول فراہم کرتا ہے۔ سب جاندار چیزوں میں موجود ہر ایک چیز کے پاس بقا کے لیے اس کے اپنے ماحول میں اپنی زندگی کو برقرار رکھنے والی خوراک ہوتی ہے۔ اس خوراک کے ساتھ، وہ بقا کے لیے اپنے آبائی ماحول سے منسلک ہو جاتی ہے۔ اس قسم کے ماحول میں، وہ خدا کے قائم کردہ قوانین کے مطابق زندہ رہتی ہے، تعداد بڑھاتی رہتی ہے اور آگے بڑھتی ہے۔ اس قسم کے قوانین کی وجہ سے، خدا کے تقدیر مقرر کرنے کی وجہ سے، تمام چیزیں بنی نوع انسان کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہتی ہیں، اور بنی نوع انسان تمام چیزوں کے ساتھ ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہوئے اکٹھے رہتا ہے۔

تیسرا حصہ: خدا بنی نوع انسان کی پرورش کے لیے حالات اور ماحولیات کو تقویت دیتا ہے

خدا نے تمام چیزوں کو تخلیق کیا اور ان کے لیے حدود قائم کیں؛ ان میں اس نے ہر قسم کی جاندار چیزوں کی پرورش کی۔ دریں اثنا، اس نے بنی نوع انسان کے لیے بقا کے مختلف ذرائع بھی تیار کیے، اس لیے تو دیکھ سکتا ہے کہ انسانوں کے پاس زندہ رہنے کا صرف ایک طریقہ نہیں ہے اور نہ ہی ان کے پاس بقا کے لیے صرف ایک ہی قسم کا ماحول ہے۔ ہم نے پہلے خدا کی طرف سے انسانوں کے لیے مختلف قسم کی خوراک اور پانی کے ذرائع تیار کرنے کے بارے میں بات کی تھی، جو بنی نوع انسان کی انسانی جسم میں زندگی کو جاری رکھنے کے لیے اہم ہیں۔ تاہم، اس بنی نوع انسان میں، تمام لوگ اناج پر گزارہ نہیں کرتے۔ جغرافیائی ماحول اور خطوں میں فرق کی وجہ سے لوگوں کے پاس زندہ رہنے کے مختلف ذرائع ہیں۔ بقا کے یہ تمام ذرائع خدا نے تیار کیے ہیں۔ اس لیے بنیادی طور پر تمام انسان کھیتی باڑی میں مصروف نہیں ہیں۔ یعنی تمام لوگوں کو اپنی خوراک فصلیں اگانے کی وجہ سے نہیں ملتی۔ یہ تیسرا حصہ ہے جس کے بارے میں ہم بات کرنے جارہے ہیں: بنی نوع انسان کے مختلف طرز زندگی کی وجہ سے حدود پیدا ہوئی ہیں۔ تو پھر انسانوں کے طرز زندگی کی دوسری اقسام کیا ہیں؟ خوراک کے مختلف ذرائع کے لحاظ سے، دوسری کون سی قسم کے لوگ موجود ہیں؟ کئی بنیادی اقسام ہیں۔

پہلا طرز زندگی شکار کرنا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ کیا ہے۔ شکار کر کے زندگی گزارنے والے لوگ کیا کھاتے ہیں؟ (کھیل شکار)۔ وہ پرندوں اور جنگل کے درندوں کو کھاتے ہیں۔ ”کھیل، شکار“ ایک جدید لفظ ہے۔ شکاری اسے کھیل نہیں سمجھتے؛ وہ اسے اپنی روزمرہ کی خوراک کے طور پر سوچتے ہیں۔ مثال کے طور پر، وہ ایک ہرن حاصل کرتے ہیں۔ جب وہ یہ ہرن حاصل کرتے ہیں تو یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی کسان مٹی سے خوراک حاصل کرتا ہے۔ ایک کسان کو مٹی سے خوراک ملتی ہے اور جب وہ اس خوراک کو دیکھتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور سکون محسوس کرتا ہے۔ کھانے کے لیے فصلوں کے ہونے سے خاندان بھوکا نہیں رہے گا۔ کسان کا دل تشویش سے آزاد ہو جاتا ہے اور وہ مطمئن ہوتا ہے۔ ایک شکاری بھی اپنی پکڑی ہوئے چیز کو دیکھ کر سکون اور اطمینان محسوس کرتا ہے کیونکہ اسے کھانے کے بارے میں مزید فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ اگلے کھانے کے لیے کچھ کھانے کو موجود ہے اور بھوکے رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ وہ شخص ہے جو زندہ رہنے کے لیے شکار کرتا ہے۔ شکار پر انحصار کرنے والوں کی اکثریت پہاڑی جنگلات میں رہتی ہے۔ وہ کھیتی باڑی نہیں کرتے۔ وہاں قابل کاشت زمین تلاش کرنا آسان نہیں ہے، اس لیے وہ مختلف جانداروں، مختلف قسم کے شکار پر زندہ رہتے ہیں۔ یہ طرز زندگی کی پہلی قسم ہے جو عام لوگوں سے مختلف ہے۔

دوسری قسم چرواہے کا طرز زندگی ہے۔ کیا وہ لوگ جو زندگی گزارنے کے لیے جانور پالتے ہیں وہ بھی زمین کاشت کرتے ہیں؟ (نہیں)۔ تو وہ کیا کرتے ہیں؟ وہ کیسے زندہ رہتے ہیں؟ (زیادہ تر، وہ روزی کے لیے مویشی اور بھیڑیں چراتے ہیں، اور سردیوں میں وہ اپنے مویشیوں کو ذبح کر کے کھاتے ہیں۔ ان کا بنیادی کھانا گائے اور بکرے کا گوشت ہے، اور وہ دودھ کی چائے پیتے ہیں۔ اگرچہ چرواہے چاروں موسموں میں مصروف رہتے ہیں، لیکن وہ اچھی طرح کھاتے ہیں۔ ان کے پاس کافی مقدار میں دودھ، دودھ کی مصنوعات اور گوشت موجود ہوتا ہے)۔ وہ لوگ جو زندگی گزارنے کے لیے جانور پالتے ہیں بنیادی طور پر گائےاور بکرے کا گوشت کھاتے ہیں، بھیڑ کا دودھ اور گائے کا دودھ پیتے ہیں، اور مویشیوں اور گھوڑوں کی سواری کرتے ہوئے اپنے بالوں میں ہوا اور اپنے چہروں پر سورج کے ساتھ میدان میں اپنے جانوروں کو چراتے ہیں۔ انھیں جدید زندگی کے دباؤ کا سامنا نہیں ہے۔ وہ سارا دن نیلے آسمانوں اور گھاس کے میدانوں کی وسعتوں کو دیکھتے ہیں۔ لوگوں کی بڑی اکثریت جو گلہ بانی پر گزارہ کرتی ہے وہ گھاس کے میدانوں پر رہتی ہے، اور وہ نسل در نسل اپنا خانہ بدوش طرز زندگی جاری رکھنے کے قابل رہی ہے۔ اگرچہ گھاس کے میدانوں پر زندگی تھوڑی تنہا ہوتی ہے، لیکن یہ بہت خوشگوار زندگی بھی ہے۔ یہ زندگی کا کوئی برا طریقہ نہیں ہے!

تیسری قسم ماہی گیری کا طرز زندگی ہے۔ انسانیت کا ایک چھوٹا حصہ سمندر کے کنارے یا چھوٹے جزیروں پر رہتا ہے۔ وہ سمندر کا سامنا کرتے ہوئے پانی میں گھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ روزی کمانے کے لیے مچھلی پکڑتے ہیں۔ جو روزی کمانے کے لیے مچھلی پکڑتے ہیں ان کے لیے خوراک کا ذریعہ کیا ہے؟ ان کی خوراک کے ذرائع میں ہر قسم کی مچھلیاں، سمندری غذا اور سمندر کی دیگر پیداوار شامل ہے۔ جو لوگ روزی کمانے کے لیے ماہی گیری کرتے ہیں وہ زمین کاشت نہیں کرتے، بلکہ ہر روز مچھلیاں پکڑنے میں گزارتے ہیں۔ ان کی بنیادی خوراک مختلف قسم کی مچھلیوں اور سمندر کی پیداوار پر مشتمل ہوتی ہے۔ وہ کبھی کبھار ان چیزوں کی چاول، آٹا اور روزمرہ کی ضروریات کے لیے تجارت کرتے ہیں۔ پانی کے قریب رہنے والے لوگوں کا یہ ایک مختلف طرز زندگی ہے۔ پانی کے قریب رہتے ہوئے، وہ اپنی خوراک کے لیے اسی پر انحصار کرتے ہیں، اور ماہی گیری سے اپنی روزی کماتے ہیں۔ ماہی گیری انھیں نہ صرف خوراک کا ذریعہ فراہم کرتی ہے بلکہ معاش کا ذریعہ بھی فراہم کرتی ہے۔

زمین کی کھیتی باڑی کے علاوہ، انسانیت کا زیادہ تر حصہ مذکورہ بالا تین طریقوں کے مطابق رہتا ہے۔ تاہم، لوگوں کی بڑی اکثریت روزی روٹی کے لیے کھیتی باڑی کرتی ہے، صرف چند لوگوں کے گروہ ہیں جو جانوروں کو چرا کر، ماہی گیری اور شکار کر کے روزی کماتے ہیں۔ اور جو لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں ان کی کیا ضرورت ہوتی ہے؟ انھیں زمین کی ضرورت ہے۔ نسل در نسل وہ زمین میں فصلیں لگا کر زندگی گزارتے ہیں، اور چاہے وہ سبزیاں، پھل یا اناج لگائیں، وہ اپنی خوراک اور روزمرہ کی ضروریات زمین سے ہی حاصل کرتے ہیں۔

ان مختلف انسانی طرز زندگی کو مضبوط کرنے کی بنیادی شرائط کیا ہیں؟ کیا یہ بالکل ضروری نہیں ہے کہ جس ماحول میں وہ زندہ رہنے کے قابل ہیں اسے بنیادی سطح پر محفوظ کیا جائے؟ یعنی شکار پر گزارہ کرنے والے اگر پہاڑی جنگلات یا پرندے اور درندوں سے محروم ہو جائیں تو ان کی روزی کا ذریعہ ختم ہو جائے گا۔ یہ غیر یقینی ہو جائے گا کہ اس نسل اور اس قسم کے لوگوں کو کس سمت جانا چاہیے، اور حتیٰ کہ وہ معدوم بھی ہو سکتے ہیں۔ اور ان لوگوں کے بارے میں کیا ہے جو اپنی روزی کے لیے جانور پالتے ہیں؟ وہ کس چیز پر بھروسا کرتے ہیں؟ جس چیز پر وہ صحیح معنوں میں انحصار کرتے ہیں وہ ان کے مویشی نہیں بلکہ وہ ماحول ہے جس میں ان کے مویشی زندہ رہنے کے قابل ہوتے ہیں – گھاس کے میدان۔ اگر گھاس کے میدان نہ ہوتے تو چرواہے اپنے مویشی کہاں چراتے؟ مویشی اور بھیڑیں کیا کھاتیں؟ مویشیوں کے بغیر، ان خانہ بدوش لوگوں کا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہوتا۔ اپنے ذریعہ معاش کے بغیر یہ لوگ کہاں جاتے؟ ان کے لیے زندہ رہنا بہت مشکل ہو جاتا؛ ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ اگر پانی کے ذرائع نہ ہوتے، اور دریا اور جھیلیں بالکل خشک ہو جاتیں، تو کیا وہ تمام مچھلیاں، جو زندہ رہنے کے لیے پانی پر انحصار کرتی ہیں، اب بھی موجود ہوتیں؟ وہ نہیں ہوتیں۔ کیا یہ لوگ جو اپنی روزی کے لیے پانی اور مچھلی پر انحصار کرتے ہیں زندہ رہتے؟ جب ان کے پاس مزید خوراک نہ رہتی، جب ان کے پاس روزی روٹی کا ذریعہ نہیں رہتا، تو یہ لوگ زندہ رہنے کے قابل نہیں رہتے۔ یعنی اگر کسی نسل کو کبھی اپنی روزی روٹی یا اپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہو تو وہ نسل مزید باقی نہیں رہے گی اور وہ روئے زمین سے مٹ سکتی ہے اور معدوم ہو سکتی ہے۔ اور جو لوگ روزی روٹی کے لیے کھیتی باڑی کرتے ہیں اگر وہ اپنی زمین کھو بیٹھیں، اگر وہ ہر قسم کے پودے نہ کاشت کر سکیں اور ان پودوں سے خوراک حاصل نہ کر سکیں، تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ کیا خوراک کے بغیر لوگ بھوک سے مر نہیں جائیں گے؟ اگر جو لوگ بھوک سے مر رہے ہوں گے تو کیا انسانوں کی وہ نسل ختم نہیں ہو جائے گی؟ پس مختلف قسم کے ماحول کو برقرار رکھنے میں خدا کا یہ مقصد ہے۔ مختلف ماحول اور ماحولیاتی نظام اور ان کے اندر موجود تمام مختلف جانداروں کو برقرار رکھنے میں خدا کا صرف ایک مقصد ہے – اور وہ ہے ہر قسم کے لوگوں کی پرورش کرنا، ان لوگوں کی پرورش کرنا جو مختلف جغرافیائی ماحول میں رہتے ہیں۔

اگر تخلیق کردہ تمام چیزیں اپنے قوانین کھو بیٹھیں، تو وہ مزید باقی نہیں رہیں گی؛ اگر تمام چیزوں کے قوانین ختم ہو جائیں تو پھر تمام چیزوں کے درمیان جاندار موجود نہیں رہ سکتے۔ انسانیت اپنے ماحول کو بھی کھو دے گی جس پر وہ بقا کے لیے انحصار کرتی ہے۔ اگر انسانیت یہ سب کچھ کھو دیتی ہے، تو وہ پہلے کی طرح نسل در نسل پھلنے پھولنے اور بڑھنے کو جاری نہیں رکھ سکے گی۔ انسانوں کے اب تک زندہ رہنے کی وجہ یہی ہے کہ خدا نے ان کی پرورش کے لیے، بنی نوع انسان کی مختلف طریقوں سے پرورش کے لیے انھیں تخلیق کی تمام چیزیں مہیا کی ہیں۔ یہ صرف اسی وجہ سے ہے کہ خُدا بنی نوع انسان کی مختلف طریقوں سے پرورش کرتا ہے جس سے بنی نوع انسان آج تک زندہ ہے۔ بقا کے لیے ایک مقررہ ماحول کے ساتھ جو سازگار ہو اور جس میں فطری قوانین اچھی ترتیب میں ہوں، زمین کے تمام مختلف قسم کے لوگ، تمام مختلف نسلیں، اپنے اپنے مقرر کردہ علاقوں میں زندہ رہ سکتی ہیں۔ کوئی بھی ان علاقوں یا اپنے درمیان حدود سے آگے نہیں جا سکتا کیونکہ یہ خدا ہی ہے جس نے ان کو متعین کیا ہے۔ خُدا اِس طرح سے حدود کیوں متعین کرے گا؟ یہ تمام بنی نوع انسان کے لیے بڑی اہمیت کا معاملہ ہے – واقعی بہت اہمیت کا حامل ہے! خدا نے ہر قسم کے جاندار کے لیے ایک حد متعین کی ہے اور ہر قسم کے انسان کے لیے زندہ رہنے کے ذرائع متعین کیے ہیں۔ اس نے زمین پر مختلف قسم کے لوگوں اور مختلف نسلوں کو بھی تقسیم کیا اور ان کے لیے ایک حد قائم کی۔ یہ وہی ہے جس پر ہم آگے بات کریں گے۔

چوتھا حصہ: خدا مختلف نسلوں کے درمیان حدود متعین کرتا ہے

چوتھا، خدا نے مختلف نسلوں کے درمیان حدود متعین کیں۔ زمین پر سفید لوگ، کالے لوگ، بھورے لوگ اور زرد لوگ ہیں۔ یہ مختلف قسم کے لوگ ہیں۔ خدا نے ان مختلف قسم کے لوگوں کی زندگیوں کے لیے بھی ایک دائرہ کار مقرر کیا ہے اور لوگ، اس سے بے خبر، خدا کے نظم و نسق کے تحت بقا کے لیے اپنے موزوں ماحول میں رہتے ہیں۔ کوئی بھی اس سے باہر قدم نہیں رکھ سکتا۔ مثال کے طور پر ہم سفید فام لوگوں پر غور کرتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر جس جغرافیائی حد میں رہتے ہیں وہ کیا ہے؟ زیادہ تر یورپ اور امریکہ میں رہتے ہیں۔ وہ جغرافیائی حد جس میں سیاہ فام لوگ بنیادی طور پر رہتے ہیں، افریقہ ہے۔ بھورے لوگ بنیادی طور پر جنوب مشرقی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں، تھائی لینڈ، انڈیا، میانمار، ویتنام اور لاؤس جیسے ممالک میں رہتے ہیں۔ زرد رنگ کے لوگ بنیادی طور پر ایشیا میں رہتے ہیں، یعنی چین، جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک میں۔ خدا نے ان تمام مختلف اقسام کی نسلوں کو مناسب طریقے سے تقسیم کر دیا ہے تاکہ یہ مختلف نسلیں دنیا کے مختلف حصوں میں تقسیم ہوں۔ دنیا کے ان مختلف حصوں میں، خدا نے بہت پہلے انسانوں کی مختلف نسلوں کی بقا کے لیے موزوں ماحول تیار کر رکھا تھا۔ خدا نے ان کی بقا کے اس ماحول کے اندر، مختلف رنگوں اور ساخت کی مٹی تیار کی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، سفید فام لوگوں کے جسم بنانے والے اجزا ان جیسے نہیں ہیں جو سیاہ فام لوگوں کے جسموں کو بناتے ہیں، اور وہ ان اجزا سے بھی مختلف ہیں جو دوسری نسلوں کے لوگوں کے جسموں کو بناتے ہیں۔ جب خدا نے تمام چیزوں کو تخلیق کیا تو اس نے اس نسل کی بقا کے لیے ماحول پہلے سے تیار کر رکھا تھا۔ ایسا کرنے میں اس کا مقصد یہ تھا کہ جب اس قسم کے لوگ بڑھنے لگیں، اور تعداد میں اضافہ ہو، تو انھیں ایک خاص حد میں رکھا جائے۔ خدا نے انسانوں کو تخلیق کرنے سے پہلے ہی یہ سب کچھ سوچ لیا تھا – وہ یورپ اور امریکہ کو سفید فام لوگوں کے لیے مخصوص رکھے گا تاکہ وہ ترقی کر سکیں اور زندہ رہ سکیں۔ چنانچہ جب خدا زمین کو تخلیق کر رہا تھا تو اس کے پاس پہلے سے ہی ایک منصوبہ تھا، اس نے زمین کے اس ٹکڑے میں جو کام انجام دیا، اس کے انجام دینے کا، اور اس نے زمین کے اس ٹکڑے پر جس کی پرورش کی، اس کی پرورش کرنے کا اس کے پاس ایک ہدف اور ایک مقصد تھا۔ مثلاً اس زمین پر کون سے پہاڑ، کتنے میدان، پانی کے کتنے ذرائع، کس قسم کے پرندے اور درندے، کون سی مچھلیاں اور کون سے پودے ہوں گے، یہ سب خدا نے بہت پہلے تیار کر رکھا تھا۔ کسی ایک مخصوص نسل کے، مخصوص قسم کے انسان کی بقا کا ماحول تیار کرتے وقت، خدا کو بہت سے مسائل پر ہر قسم کے زاویوں سے غور کرنے کی ضرورت تھی: جغرافیائی ماحول، مٹی کی ساخت، پرندوں اور حیوانوں کی مختلف انواع، مچھلی کی مختلف اقسام کی جسامت، مچھلیوں کے اجسام کو بنانے والے اجزا، پانی کے معیار میں فرق، نیز پودوں کی تمام مختلف اقسام۔۔۔ خدا نے یہ سب کچھ بہت پہلے ہی تیار کر رکھا تھا۔ اس قسم کا ماحول بقا کا ایک ایسا ماحول ہے جسے خدا نے سفید فام لوگوں کے لیے بنایا اور تیار کیا ہے اور یہ فطری طور پر ان کا ہے۔ کیا تم نے دیکھا ہے کہ جب خدا نے تمام چیزوں کو تخلیق کیا تو اس نے اس میں بہت غور و فکر کیا اور ایک منصوبہ بندی کے ساتھ عمل کیا؟ (ہاں، ہم نے دیکھا ہے کہ مختلف قسم کے لوگوں کے لیے خدا کے خیالات بہت سوچے سمجھے تھے۔ بقا کا جو ماحول اس نے مختلف قسم کے انسانوں کے لیے بنایا، جس قسم کے پرندے، حیوان اور مچھلیاں، جتنے پہاڑ اور جتنے میدان تیار کیے، اس نے انتہائی سوچ سمجھ اور درستی کے ساتھ اس پر غور کیا)۔ مثال کے طور پر سفید فام لوگوں کو ہی لو۔ سفید فام لوگ بنیادی طور پر کون سی غذائیں کھاتے ہیں؟ سفید فام لوگ جو خوراک کھاتے ہیں وہ ایشیائی لوگوں کی خوراک سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ سفید فام لوگ جو اہم غذا کھاتے ہیں وہ بنیادی طور پر گوشت، انڈے، دودھ اور مرغی پر مشتمل ہوتی ہے۔ روٹی اور چاول جیسے اناج عام طور پر اضافی خوراک ہے جو پلیٹ کے کنارے پر رکھی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ سبزیوں کا سلاد کھاتے وقت بھی، انھیں بھنے ہوئے گائے یا مرغی کے گوشت کے چند ٹکڑے ڈالنے کی عادت ہے، اور یہاں تک کہ جب وہ گندم سے بنا کھانا کھاتے ہیں، تو اس میں بھی پنیر، انڈے یا گوشت شامل کر لیتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی اہم خوراک بنیادی طور پر گندم پر مبنی خوراک یا چاول پر مشتمل نہیں ہوتی ہے؛ وہ بڑی مقدار میں گوشت اور پنیر کھاتے ہیں۔ وہ اکثر برف کا پانی پیتے ہیں کیونکہ ان کے کھانے میں حرارے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ لہذا، سفید فام لوگ غیر معمولی طور پر مضبوط ہیں۔ خدا کی طرف سے ان کی روزی کا ذریعہ اور اور ان کے رہنے کا ماحول اس طرح تیار کیا گیا ہے، جو انھیں یہ طرزِ زندگی گزارنے کے قابل بناتا ہے، ایک ایسا طرزِ زندگی جو دوسری نسلوں کے لوگوں کے طرز زندگی سے مختلف ہے۔ زندگی کے اس طریقے میں کوئی صحیح یا غلط نہیں ہے – یہ قدرتی ہے، خدا کی طرف سے پہلے سے طے شدہ ہے، اور یہ خدا کے احکامات اور اس کے انتظامات سے پیدا ہوتا ہے۔ کہ اس نسل کی زندگی کا یہ طریقہ ہے اور ان کے ذریعہ معاش کے یہ ذرائع ان کی نسل کی وجہ سے ہیں اور خدا کی طرف سے ان کی بقا کے ماحول کی وجہ سے ہیں۔ تم کہہ سکتے ہو کہ زندہ رہنے کے لیے خدا نے سفید فام لوگوں کے لیے جو ماحول تیار کیا ہے، اور اس ماحول سے جو خوراک وہ روزانہ حاصل کرتے ہیں، وہ وافر اور فراواں ہے۔

خدا نے دوسری نسلوں کی بقا کے لیے بھی ضروری ماحول تیار کیا۔ سیاہ فام لوگ بھی ہیں – سیاہ فام لوگ کہاں رہتے ہیں؟ وہ بنیادی طور پر وسطی اور جنوبی افریقہ میں رہتے ہیں۔ اس قسم کے ماحول میں خدا نے ان کے لیے زندگی گزارنے کے لیے کیا تیار کیا؟ منطقہ حارہ کے جنگلات، ہر قسم کے پرندے اور درندے، اور صحرا بھی، اور ہر قسم کے پودے جو لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کے پاس پانی، ان کی معاش اور خوراک کے ذرائع ہیں۔ خدا ان کے خلاف متعصب نہیں تھا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ انہوں نے کبھی کیا کیا ہے، ان کی بقا کبھی مسئلہ نہیں رہی ہے۔ وہ بھی دنیا کے ایک حصے میں ایک خاص مقام اور ایک مخصوص علاقے پر قابض ہیں۔

اب زرد لوگوں کی بات کرتے ہیں۔ زرد رنگ کے لوگ بنیادی طور پر زمین کے مشرق میں رہتے ہیں۔ مشرق اور مغرب کے ماحول اور جغرافیائی مقامات میں کیا فرق ہے؟ مشرق میں، زمین زیادہ تر زرخیز ہے، اور مواد اور معدنی ذخائر سے مالا مال ہے۔ یعنی زمین کے اوپر اور زیر زمین ہر قسم کے وسائل وافر ہیں۔ اور لوگوں کے اس گروہ کے لیے، اس نسل کے لیے، خدا نے متعلقہ مٹی، آب و ہوا اور مختلف جغرافیائی ماحول بھی تیار کیے جو ان کے لیے موزوں ہیں۔ اگرچہ اس جغرافیائی ماحول اور مغرب کے ماحول میں بہت فرق ہے، لیکن لوگوں کی ضروری خوراک، ذریعہ معاش اور بقا کے ذرائع بھی خدا نے تیار کیے تھے۔ مغرب میں سفید فام لوگوں کے رہنے کا جو ماحول ہے یہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ لیکن ایک چیز کیا ہے جو مجھے تمہیں بتانے کی ضرورت ہے؟ مشرقی نسل کے لوگوں کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے، اس لیے خدا نے زمین کے اس حصے میں بہت سے ایسے عناصر شامل کیے جو کہ مغرب سے مختلف ہیں۔ وہاں، اس نے بہت سے مختلف مناظر اور ہر قسم کے وافر مواد کو شامل کیا۔ وہاں قدرتی وسائل بہت زیادہ ہیں؛ خطہ بھی متنوع اور گوناگوں ہے، جو مشرقی نسل کے لوگوں کی بہت بڑی تعداد کی پرورش کے لیے کافی ہے۔ جو چیز مشرق کو مغرب سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ مشرق میں – جنوب سے شمال، مشرق سے مغرب تک – آب و ہوا مغرب سے بہتر ہے۔ چار موسم واضح طور پر الگ الگ ہیں، درجہ حرارت مناسب ہے، قدرتی وسائل وافر ہیں، اور قدرتی مناظر اور خطوں کی اقسام مغرب کی نسبت بہت بہتر ہیں۔ خدا نے ایسا کیوں کیا؟ خدا نے سفید لوگوں اور زرد لوگوں کے درمیان ایک بہت ہی معقول توازن پیدا کیا۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ سفید فام لوگوں کی خوراک کے تمام پہلو، جو چیزیں وہ استعمال کرتے ہیں، اور ان کے لطف اندوز ہونے کے لیے فراہم کی گئی چیزیں اس سے کہیں بہتر ہیں جن سے زرد رنگ کے لوگ لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ تاہم، خدا کسی نسل کے خلاف متعصب نہیں ہے۔ خدا نے زرد لوگوں کی بقا کے لیے زیادہ خوبصورت اور بہتر ماحول دیا۔ یہی توازن ہے۔

خدا نے پہلے سے طے کر رکھا ہے کہ کس قسم کے لوگوں کو دنیا کے کس حصے میں رہنا چاہیے؛ کیا انسان ان حدود سے آگے بڑھ سکتے ہیں؟ (نہیں، وہ نہیں بڑھ سکتے)۔ کیا حیرت انگیز بات ہے! یہاں تک کہ اگر مختلف ادوار میں یا غیر معمولی وقتوں میں جنگیں یا تجاوزات بھی ہوں، تو یہ جنگیں اور تجاوزات بقا کے اس ماحول کو قطعی طور پر تباہ نہیں کر سکتیں جو خدا نے ہر نسل کے لیے پہلے سے مقرر کر رکھا ہے۔ یعنی خدا نے دنیا کے ایک خاص حصے میں ایک خاص قسم کے لوگوں کو مقرر کیا ہے اور وہ ان حدود سے باہر نہیں جا سکتے۔ یہاں تک کہ اگر لوگوں میں خدا کی اجازت کے بغیر اپنے علاقے کو تبدیل کرنے یا پھیلانے کی کسی قسم کی کوئی خواہش ہو، تو بھی اس کا حصول بہت مشکل ہو گا۔ ان کے لیے کامیاب ہونا بہت مشکل ہو گا۔ مثال کے طور پر، سفید فام لوگ اپنے علاقے کو بڑھانا چاہتے تھے اور انہوں نے کچھ دوسرے ممالک کو نوآبادیات بنا لیا۔ جرمنوں نے کچھ ممالک پر حملہ کیا، اور برطانیہ نے ایک بار ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ نتیجہ کیا نکلا؟ آخر کار وہ ناکام ہو گئے۔ ہم ان کی ناکامی سے کیا دیکھتے ہیں؟ جو خدا نے پہلے سے طے کر رکھا ہے اسے فنا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ لہٰذا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تو نے برطانیہ کی توسیع میں کتنی ہی تیز رفتاری کیوں نہ دیکھی ہو، بالآخر انھیں پھر بھی پیچھے ہٹنا پڑا تھا، اور زمین اب بھی انڈیا ہی کی ہے۔ جو اس سرزمین پر رہتے ہیں وہ اب بھی انڈین ہی ہیں، انگریز نہیں، کیونکہ خدا نے اس کی اجازت نہیں دی۔ جن لوگوں نے تاریخ یا سیاست پر تحقیق کی ہے ان میں سے کچھ نے اس پر مقالے لکھے ہیں۔ وہ برطانیہ کی ناکامی کی وجوہات بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ کسی مخصوص نسل کو فتح نہیں کیا جا سکتا تھا، یا یہ کسی اور انسانی وجہ سے ہو سکتا ہے۔۔۔ یہ حقیقی وجوہات نہیں ہیں۔ اصل سبب خدا کی وجہ سے ہے – اس نے اس کی اجازت نہیں دی! خدا کسی قوم کو زمین کے ایک مخصوص ٹکڑے پر رہنے دیتا ہے اور انھیں وہاں آباد کرتا ہے، اور اگر خدا انھیں اس سرزمین سے منتقل ہونے کی اجازت نہیں دیتا ہے تو وہ کبھی بھی منتقل نہیں ہو سکیں گے۔ اگر خدا ان کے لیے کوئی متعین علاقہ مختص کر دے تو وہ اس علاقے کے اندر ہی رہیں گے۔ بنی نوع انسان ان متعین علاقوں سے فرار نہیں ہو سکتا یا خود کو نہیں نکال سکتا۔ یہ یقینی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تجاوز کرنے والوں کی افواج کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہوں، یا جن پر قبضہ کیا جا رہا ہے وہ کتنے ہی کمزور کیوں نہ ہوں، حملہ آوروں کی کامیابی کا فیصلہ آخر کار خدا ہی نے کرنا ہے۔ یہ پہلے سے ہی اس کی طرف سے مقرر ہے، اور کوئی بھی اسے تبدیل نہیں کر سکتا۔

اوپر بیان کیا گیا ہے کہ خدا نے مختلف نسلوں کو کس طرح تقسیم کیا ہے۔ خدا نے نسلوں کو تقسیم کرنے کے لیے کیا کام کیا ہے؟ سب سے پہلے، اس نے بڑے پیمانے پر جغرافیائی ماحول تیار کیا، لوگوں کے لیے مختلف مقامات مختص کیے، جس کے بعد نسلوں کے بعد نسلیں ان جگہوں پر زندہ رہیں۔ یہ طے ہو گیا ہے – ان کی بقا کے لیے متعین علاقہ طے ہو گیا ہے۔ اور ان کی زندگیاں، وہ کیا کھاتے ہیں، وہ کیا پیتے ہیں، ان کی روزی روٹی – خدا نے یہ سب بہت پہلے طے کر دیا ہے۔ اور جب خدا تمام چیزوں کو تخلیق کر رہا تھا، تو اس نے مختلف قسم کے لوگوں کے لیے مختلف تیاریاں کیں: مختلف مٹی کی ساخت، مختلف آب و ہوا، مختلف پودے، اور مختلف جغرافیائی ماحول موجود ہیں۔ حتیٰ کہ مختلف جگہوں پر پرندے اور درندے بھی مختلف ہوتے ہیں، مختلف پانیوں کی اپنی مخصوص قسم کی مچھلیاں اور آبی پیداوار ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ حشرات الارض کی اقسام بھی خدا نے مقرر کی ہیں۔ مثال کے طور پر، امریکی براعظم میں جو چیزیں اگتی ہیں وہ سب بہت بڑی، بہت لمبی اور بہت مضبوط ہوتی ہیں۔ پہاڑی جنگل میں درختوں کی جڑیں بہت اتھلی ہوتی ہیں، لیکن وہ بہت لمبے ہو جاتے ہیں۔ وہ سو میٹر یا اس سے زیادہ کی اونچائی تک بھی پہنچ سکتے ہیں، لیکن ایشیا کے جنگلات میں درخت زیادہ تر اتنے لمبے نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر ایلو کے پودوں کو لو۔ جاپان میں وہ بہت تنگ اور بہت پتلے ہوتے ہیں، لیکن امریکہ میں ایلو کے پودے بہت بڑے ہوتے ہیں۔ یہاں ایک فرق ہے۔ یہ ایک ہی نام کے ساتھ ایک ہی قسم کا پودا ہے، لیکن امریکی براعظم میں یہ خاص طور پر بڑا ہو جاتا ہے۔ ان مختلف پہلوؤں کے فرق کو لوگ شاید نہ دیکھ سکیں اور نہ ہی محسوس کر سکیں، لیکن جب خدا تمام چیزوں کو تخلیق کر رہا تھا، تو اس نے ان کی خاکہ نگاری کی اور مختلف نسلوں کے لیے مختلف جغرافیائی ماحول، مختلف خطوں اور مختلف جانداروں کو تیار کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا نے مختلف قسم کے لوگوں کو تخلیق کیا اور وہ جانتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی کیا ضرورت ہے اور ان کا طرز زندگی کیا ہے۔

خدا سب پر حکمرانی کرتا ہے اور سب کے لیے فراہم کرتا ہے، وہ سب چیزوں کا خدا ہے

ان میں سے کچھ چیزوں کے بارے میں بات کرنے کے بعد، کیا تم اب یہ محسوس کرتے ہو کہ تم نے اس اہم موضوع کے بارے میں کچھ سیکھا ہے جس پر ہم نے ابھی بات کی ہے؟ کیا تمہیں لگتا ہے کہ تم اسے سمجھنا شروع کر رہے ہو؟ مجھے یقین ہے کہ اب تمہیں اس بات کا کچھ اندازہ ہو جانا چاہیے کہ میں نے ان پہلوؤں کے بارے میں وسیع تر موضوع میں بات کرنے کا انتخاب کیوں کیا۔ کیا ایسا ہی معاملہ ہے؟ شاید تم اس بارے میں کچھ بات کر سکو کہ تم اس میں سے کتنا سمجھے ہو۔ (تمام انسانیت کی پرورش ہر چیز کے لیے خدا کے مقرر کردہ قوانین سے ہوئی ہے۔ جب خدا ان قوانین کا تعین کر رہا تھا، تو اس نے مختلف نسلوں کو مختلف ماحول، مختلف طرز زندگی، مختلف خوراک، اور مختلف آب و ہوا اور درجہ حرارت فراہم کیے تھے۔ یہ اس لیے تھا کہ تمام انسانیت زمین پر آباد ہو سکے اور زندہ رہ سکے۔ اس سے میں دیکھ سکتا ہوں کہ بنی نوع انسان کی بقا کے لیے خدا کے منصوبے بہت درست ہیں اور میں اس کی حکمت اور کمال کو دیکھ سکتا ہوں، اور ہم انسانوں کے لیے اس کی محبت کو دیکھ سکتا ہوں)۔ (خدا کی طرف سے مقرر کردہ قوانین اور دائرہ کار کسی بھی شخص، واقعہ یا چیز کے ذریعے تبدیل نہیں ہو سکتے ہیں۔ یہ سب اس کے حکم کے تحت ہے)۔ تمام چیزوں کی ترقی کے لیے خدا کی طرف سے مقرر کردہ قوانین کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو کیا تمام انسانیت کو، اس کی تمام اقسام میں، خدا کی طرف سے فراہم نہیں کیا گیا اور پرورش نہیں کی گئی؟ اگر یہ قوانین تباہ ہو گئے ہوتے یا خدا نے یہ قوانین بنی نوع انسان کے لیے قائم نہ کیے ہوتے تو بنی نوع انسان کے امکانات کیا ہوتے؟ انسانوں کے اپنے زندہ رہنے کے بنیادی ماحول کو کھو دینے کے بعد، کیا ان کے پاس خوراک کا کوئی ذریعہ ہوتا؟ یہ ممکن ہے کہ خوراک کے ذرائع ایک مسئلہ بن جاتے۔ اگر لوگوں کے خوراک کے ذرائع ختم ہو جائیں، یعنی اگر وہ کھانے کے لیے کچھ حاصل نہ کر پائیں تو وہ کتنے دنوں تک زند رہ سکیں گے؟ ممکنہ طور پر وہ ایک مہینہ بھی زندہ نہیں رہ سکیں گے، اور ان کی بقا ایک مسئلہ بن جائے گی۔ لہٰذا ہر وہ ایک کام جو خدا لوگوں کی بقا کے لیے کرتا ہے، وہ ان کے موجود رہنے، افزائشِ نسل اور بقا کے لیے بہت اہم ہے۔ وہ ہر ایک کام جو خدا اپنی تخلیق میں کرتا ہے اس کا انسانوں کی بقا سے گہرا تعلق ہے اور اس سے لازم و ملزوم ہے۔ اگر بنی نوع انسان کی بقا ایک مسئلہ بن جائے تو کیا خدا کا نظم و نسق جاری رہ سکتا ہے؟ کیا خدا کا نظم و نسق پھر بھی موجود رہے گا؟ خدا کا نظم و نسق اس تمام انسانیت کی بقا کے ساتھ ہے جس کی وہ پرورش کرتا ہے، اس لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ خدا اپنی تخلیق کردہ تمام چیزوں کے لیے جتنی بھی تیاریاں کرتا ہے اور جو کچھ وہ انسانوں کے لیے کرتا ہے، یہ سب اس کے لیے ضروری ہے، اور یہ بنی نوع انسان کی بقا کے لیے اہم ہے۔ اگر یہ قوانین جو خدا نے تمام چیزوں کے لیے مقرر کیے ہیں، ان سے ہٹ جایا جائے، اگر ان قوانین کو توڑ دیا جائے یا ان میں خلل ڈال دیا جائے، تو تمام چیزیں باقی نہیں رہ سکیں گی، انسانیت کی بقا کا ماحول برقرار نہیں رہے گا، نہ ہی ان کا روزمرہ کا رزق، اور نہ ہی خود انسانیت۔ اس وجہ سے، خدا کا بنی نوع انسان کی نجات کا نظم و نسق بھی ختم ہو جائے گا۔

ہر وہ چیز جس پر ہم نے بات کی ہے، اس میں ہر ایک چیز، ہر ایک شے کا ہر ایک شخص کی بقا سے بہت قریبی تعلق ہے۔ تم کہہ سکتے ہو، ”تو جس کے بارے میں بات کر رہا ہے وہ بہت بڑی ہے، یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے ہم دیکھ سکتے ہیں،“ اور شاید ایسے لوگ ہوں گے جو کہیں گے، ”تو جس کے بارے میں بات کر رہا ہے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔“ تاہم، یہ نہ بھول کہ تو تمام چیزوں کا صرف ایک حصہ بن کر رہ رہا ہے؛ تو خدا کی حکمرانی کے تحت تمام مخلوقات میں سے ایک ہے۔ خدا کی تخلیق کردہ چیزیں اس کی حکمرانی سے الگ نہیں کی جا سکتیں، اور کوئی ایک شخص بھی خود کو اس کی حکمرانی سے الگ نہیں کر سکتا۔ اس کی حکمرانی کو کھونے اور اس کے رزق سے محروم ہونے کا مطلب یہ ہو گا کہ لوگوں کی زندگیاں، لوگوں کی جسمانی زندگیاں ختم ہو جائیں گی۔ خدا کے بنی نوع انسان کی بقا کے لیے ماحول قائم کرنے کی یہ اہمیت ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تیرا تعلق کس نسل سے ہے یا تو زمین کے کس ٹکڑے پر رہتا ہے، خواہ وہ مغرب میں ہو یا مشرق میں – تو اپنے آپ کو بقا کے اس ماحول سے الگ نہیں کر سکتا جو خدا نے انسانیت کے لیے قائم کیا ہے، اور تو اپنے آپ کو زندہ رہنے کے لیے اس ماحول کی پرورش اور فراہمی سے الگ نہیں کر سکتا جو اس نے انسانوں کے لیے قائم کیا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تیرا ذریعہ معاش کیا ہے، تو زندگی گزارنے کے لیے کس چیز پر بھروسہ کرتا ہے، اور تو جسمانی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے کس چیز پر بھروسہ کرتا ہے، تو خود کو خدا کی حکمرانی اور اس کے نظم و نسق سے الگ نہیں کر سکتا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں: ”میں کسان نہیں ہوں۔ میں روزی کے لیے فصلیں نہیں اُگاتا۔ میں اپنی خوراک کے لیے آسمانوں پر بھروسہ نہیں کرتا، اس لیے میری بقا اس بقا کے ماحول میں نہیں ہو رہی ہے جو خدا نے قائم کیا ہے۔ مجھے اس قسم کے ماحول سے کچھ نہیں دیا گیا ہے۔“ کیا یہ صحیح ہے؟ تو کہتا ہے کہ تو اپنی روزی کے لیے فصلیں نہیں اُگاتا، لیکن کیا تو اناج نہیں کھاتا؟ کیا تو گوشت اور انڈے نہیں کھاتا؟ اور کیا تو سبزیاں اور پھل نہیں کھاتا؟ ہر وہ چیز جو تو کھاتا ہے، یہ تمام چیزیں جن کی تجھے ضرورت ہے، ان کو خدا کی طرف سے انسانیت کے لیے قائم کردہ زندہ رہنے کے لیے ماحول سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اور ہر اس چیز کا ماخذ جس کی انسانیت کو ضرورت ہے اسے خدا کی تخلیق کردہ ان تمام چیزوں سے الگ نہیں کیا جا سکتا، جو اپنی مکمل مقدار میں بقا کے لیے تیرا ماحول بناتی ہیں۔ جو پانی تو پیتا ہے، جو لباس تو پہنتا ہے اور وہ تمام چیزیں جو تو استعمال کرتا ہے – ان میں سے کون سی چیز خدا کی تخلیق میں سے حاصل نہیں ہوتی ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں: ”کچھ چیزیں ایسی ہیں جو خدا کی تخلیق کردہ چیزوں سے حاصل نہیں ہوتیں۔ تو دیکھتا ہے، پلاسٹک ان اشیا میں سے ایک ہے۔ یہ ایک کیمیائی چیز ہے، انسان کی بنائی ہوئی چیز ہے۔“ کیا یہ صحیح ہے؟ پلاسٹک بے شک انسان کا بنایا ہوا ہے، اور یہ ایک کیمیائی چیز ہے، لیکن پلاسٹک کے اصل اجزا کہاں سے آئے؟ اصل اجزا خدا کے بنائے ہوئے مواد سے حاصل کیے گئے تھے۔ وہ چیزیں جنہیں تو دیکھتا ہے اور جن سے لطف اندوز ہوتا ہے، ہر وہ چیز جسے تو استعمال کرتا ہے، یہ سب کچھ خدا کی تخلیق کردہ چیزوں سے حاصل ہوتی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کوئی شخص کس نسل سے تعلق رکھتا ہے، اس سے فرق نہیں پڑتا کہ اس کا ذریعہ معاش کیا ہے، یا بقا کے لیے وہ کس قسم کے ماحول میں رہ سکتا ہے، وہ خود کو خدا کی عطا کردہ چیزوں سے الگ نہیں کر سکتا۔ تو یہ چیزیں جن پر ہم نے آج بات کی ہے کیا ان کا تعلق ہمارے موضوع ”خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے“ سے ہے؟ کیا آج ہم نے جن چیزوں پر بات کی ہے وہ اس بڑے موضوع کے تحت آتی ہیں؟ (ہاں)۔ میں نے آج جن چیزوں کے بارے میں بات کی ہے شاید ان میں سے کچھ تھوڑی سی تجریدی ہیں اور ان پر بحث کرنا مشکل ہے۔ تاہم، میرا خیال ہے کہ اب تمہیں اس کی بہتر سمجھ بوجھ ہے۔

رفاقت میں پچھلی چند بار، جن موضوعات پر ہم نے رفاقت کی ہے، ان کے موضوعات کافی وسیع ہیں، اور ان کا دائرہ کار بھی کافی وسیع ہے، اس لیے تمہیں یہ سب سمجھنے کے لیے کچھ محنت کرنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ موضوعات خدا پر لوگوں کے ایمان کے بارے میں وہ چیزیں ہیں جن کے بارے میں پہلے کبھی بات نہیں کی گئی۔ کچھ لوگ ان چیزوں کو ایک اسرار کے طور پر سنتے ہیں اور کچھ لوگ انھیں ایک کہانی کے طور پر سنتے ہیں – کون سا نقطہ نظر درست ہے؟ تم یہ سب کس نقطہ نظر سے سنتے ہو؟ (ہم نے دیکھا ہے کہ خدا نے اپنی تخلیق کردہ تمام چیزوں کو کس طرح منظم انداز میں ترتیب دیا ہے اور یہ کہ ہر چیز کے قوانین ہیں، اور ان الفاظ کے ذریعے ہم خدا کے کاموں اور انسانیت کی نجات کے لیے اس کے انتہائی احتیاط سے کیے گئے انتظامات کو مزید سمجھ سکتے ہیں)۔ ان اوقات کی رفاقت میں کیا تم نے دیکھا ہے کہ خدا کا تمام چیزوں کے نظم و نسق کا دائرہ کار کس حد تک پھیلا ہوا ہے؟ (تمام انسانیت پر، ہر چیز پر)۔ کیا خدا صرف ایک نسل کا خدا ہے؟ کیا وہ ایک قسم کے لوگوں کا خدا ہے؟ کیا وہ انسانیت کے صرف ایک چھوٹے سے حصے کا خدا ہے؟ (نہیں، وہ نہیں ہے)۔ چونکہ ایسا نہیں ہے، اگر، خدا کے بارے میں تمہارے علم کے مطابق، وہ انسانیت کے صرف ایک چھوٹے سے حصے کا خدا ہے، یا اگر وہ صرف تمہارا خدا ہے، تو کیا یہ نقطہ درست نظر ہے؟ چونکہ خدا ہر چیز کا انتظام اور ہر چیز پر حکمرانی کرتا ہے، اس لیے لوگوں کو اس کے اعمال، اس کی حکمت اور اس کی مطلق قدرت کو دیکھنا چاہیے جو ہر چیز پر اس کی حکمرانی میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جو لوگوں کو ضرور معلوم ہونی چاہیے۔ اگر تو کہتا ہے کہ خدا سب چیزوں کا انتظام کرتا ہے، تمام چیزوں پر حکمرانی کرتا ہے، اور تمام انسانیت پر حکمرانی کرتا ہے، لیکن اگر تجھے انسانیت پر اس کی حکمرانی کے بارے میں کوئی سمجھ بوجھ یا بصیرت نہیں ہے، تو کیا تو واقعی اس بات کو تسلیم کر سکتا ہے کہ وہ ہر چیز پر حکمرانی کرتا ہے؟ تو اپنے دل میں سوچ سکتا ہے، ”میں کر سکتا ہوں، کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ میری زندگی پر مکمل طور پر خدا کی حکمرانی ہے۔“ لیکن کیا خدا واقعی اتنا چھوٹا ہے؟ نہیں وہ نہیں ہے! تُو صرف اپنے لیے خدا کی نجات اور خود میں اس کا کام دیکھتا ہے، اور صرف یہی وہ چیزیں ہیں جن سے تو اس کی حکمرانی کو دیکھتا ہے۔ یہ ایک بہت ہی چھوٹا دائرہ کار ہے، اور اس کا خدا کے بارے میں تیرے حقیقی علم کے امکانات پر نقصان دہ اثر پڑتا ہے۔ یہ تمام چیزوں پر خدا کی حکمرانی کے بارے میں تیرے حقیقی علم کو محدود بھی کرتا ہے۔ اگر تو خدا کے بارے میں اپنے علم کو اس دائرہ کار تک محدود رکھتا ہے جو خدا تیرے لیے فراہم کرتا ہے اور جو تیرے لیے اس کی نجات ہے، تو تُو کبھی بھی یہ تسلیم نہیں کر سکے گا کہ وہ ہر چیز پر حکمرانی کرتا ہے، کہ وہ سب چیزوں پر حکمرانی کرتا ہے، اور تمام انسانیت پر حکمرانی کرتا ہے۔ جب تو ان سب کو پہچاننے میں ناکام رہتا ہے، تو کیا تو اس حقیقت کو واقعی پہچان سکتا ہے کہ خدا تیری قسمت پر حکمرانی کرتا ہے؟ نہیں تو نہیں پہچان سکتا۔ اپنے دل میں تو اس پہلو کو کبھی نہیں پہچان سکے گا – تو کبھی بھی سمجھ بوجھ کی اتنی اعلی سطح پر نہیں پہنچ پائے گا۔ تم سمجھ رہے ہو کہ میں کیا کہہ رہا ہوں، ہاں؟ دراصل، میں جانتا ہوں کہ تم کس حد تک ان موضوعات کو سمجھنے کے قابل ہو، یہ مواد جس کے بارے میں میں بات کر رہا ہوں، تو میں اس کے بارے میں کیوں بات کرتا رہتا ہوں؟ یہ اس لیے ہے کہ یہ موضوعات ایسی چیزیں ہیں جن کی قدر خدا کے ہر ایک پیروکار کو لازمی کرنی چاہیے، اس ہر ایک فرد کو جو خُدا کی طرف سے بچایا جانا چاہتا ہے – ان موضوعات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اگرچہ اس وقت تو ان کو نہیں سمجھتا ہے، لیکن کسی دن، جب تیری زندگی اور تیرا سچائی کا تجربہ ایک خاص سطح پر پہنچ جائے گا، جب تیری زندگی کے مزاج میں تبدیلی ایک خاص سطح پر پہنچ جائے گی اور جب تو حیثیت کا ایک خاص درجہ حاصل کر لے گا، تو تب ہی یہ موضوعات جو میں رفاقت کر کے تجھے بتا رہا ہوں، تجھے خدا کے علم کی جستجو کے لیے صحیح معنوں میں فراہم اور مطمئن کریں گے۔ لہٰذا یہ الفاظ تجھے تیری مستقبل کی سمجھ بوجھ کے لیے تیار کرنے کے لیے ہیں کہ خدا سب چیزوں پر حکمرانی کرتا ہے اور تیری خود خدا کی سمجھ بوجھ کے لیے ایک بنیاد قائم کرنے کے لیے ہیں۔

لوگوں کے دلوں میں خدا کے بارے میں جتنی بھی سمجھ بوجھ ہے، وہ اس مقام کی حد بھی ہے جو وہ ان کے دلوں میں رکھتا ہے۔ ان کے دلوں میں خدا کے علم کا درجہ جتنا زیادہ ہے، خدا ان کے دلوں میں اتنا ہی بڑا ہے۔ اگر وہ خدا جسے تو جانتا ہے وہ خالی اور مبہم ہے تو پھر جس خدا پر تو ایمان رکھتا ہے وہ بھی خالی اور مبہم ہے۔ جس خدا کو تو جانتا ہے وہ تیری اپنی ذاتی زندگی کے دائرہ کار تک محدود ہے، اور اس کا خود حقیقی خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس طرح، خدا کے عملی اعمال کو جاننا، خدا کی حقیقت اور اس کی قدرتِ کاملہ کو جاننا، خود خدا کی حقیقی شناخت کو جاننا، اس کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے کو جاننا، ان افعال کو جاننا جو اس نے اپنی تخلیق کردہ تمام چیزوں کے درمیان ظاہر کیے ہیں – یہ چیزیں اس ہر ایک شخص کے لیے بہت اہم ہیں جو خدا کے علم کی جستجو کرتا ہے۔ ان کا اس بات پر براہ راست اثر ہے کہ آیا لوگ سچائی کی حقیقت میں داخل ہو سکتے ہیں یا نہیں۔ اگر تو خدا کے بارے میں اپنی سمجھ بوجھ کو صرف الفاظ تک ہی محدود رکھتا ہے، اگر تو اسے اپنے چھوٹے تجربات تک ہی محدود رکھتا ہے، جسے تو خدا کا فضل سمجھتا ہے، یا خدا کے لیے اپنی چھوٹی گواہیاں سمجھتا ہے، تو پھر میں کہتا ہوں کہ جس خدا پر تو ایمان رکھتا ہے وہ قطعی طور پر خود حقیقی خدا نہیں ہے۔ یہی نہیں، بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جس خدا پر تو ایمان رکھتا ہے وہ ایک خیالی خدا ہے، حقیقی خدا نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حقیقی خدا وہی ہے جو ہر چیز پر حکمرانی کرتا ہے، جو ہر چیز کے درمیان چلتا ہے، جو ہر چیز کا انتظام کرتا ہے۔ وہی وہ واحد ہے جو تمام انسانیت اور ہر چیز کی تقدیر اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔ میں خدا کے جن کاموں اور اعمال کے بارے میں بات کر رہا ہوں وہ صرف لوگوں کے ایک چھوٹے سے حصے تک محدود نہیں ہیں۔ یعنی، وہ صرف ان لوگوں تک محدود نہیں ہیں جو اس وقت اس کی پیروی کرتے ہیں۔ اس کے اعمال سب چیزوں میں، سب چیزوں کی بقا اور تمام چیزوں کے بدلنے کے قوانین میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اگر تو خدا کی تخلیق کردہ تمام چیزوں میں خدا کے کسی بھی عمل کو دیکھ اور پہچان نہیں سکتا تو تُو اس کے کسی بھی عمل کی گواہی نہیں دے سکتا۔ اگر تو خدا کے لیے گواہی نہیں دے سکتا، اگر تو اس چھوٹے نام نہاد ”خدا“ کے بارے میں بات کرتا رہتا ہے جسے تو جانتا ہے، وہ خدا جو تیرے اپنے خیالات تک محدود ہے اور صرف تیرے دماغ کی تنگ حدود کے اندر ہی موجود ہے، اگر تو اس قسم کے خدا کی بات کرتا رہے گا، تو خدا تیرے ایمان کی تعریف کبھی نہیں کرے گا۔ جب تو خدا کے لیے گواہی دیتا ہے، اگر تُو یہ صرف اس لیے کرتا ہے کہ تو خدا کے فضل سے کیسے لطف اندوز ہوتا ہے، تو خدا کے نظم و ضبط اور اس کی تادیب کو کس طرح قبول کرتا ہے، اور تو اس کے لیے اپنی گواہی میں اس کی برکتوں سے کیسے لطف اندوز ہوتا ہے، تو یہ بالکل بھی کافی نہیں ہے اور اسے مطمئن کرنے کے قریب تک بھی نہیں ہے۔ اگر تو خدا کے لیے اس طرح گواہی دینا چاہتا ہے جو اس کی مرضی کے مطابق ہو، خود سچے خدا کی گواہی دینا چاہتا ہے، تو تجھے اس کے اعمال سے یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ خدا کے پاس کیا ہے، اور وہ خود کیا ہے۔ تجھے خدا کے اختیار کو اس کے ہر چیز کو قابو رکھنے سے دیکھنا چاہیے، اور اس سچائی کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس طرح تمام انسانیت کے لیے فراہم کرتا ہے۔ اگر تو صرف یہ تسلیم کرتا ہے کہ تیرا روزمرہ کا رزق اور تیری ضروریات زندگی خدا کی طرف سے آتی ہیں، لیکن تو اس سچائی کو دیکھنے میں ناکام رہتا ہے کہ خدا نے اپنی تخلیق کردہ تمام چیزوں کو تمام انسانیت کو فراہم کرنے کے لیے لے لیا ہے، اور یہ کہ وہ تمام چیزوں پر حکمرانی کر کے تمام انسانیت کی راہنمائی کر رہا ہے، تو پھر تو کبھی بھی خدا کے لیے گواہی نہیں دے سکے گا۔ یہ سب کہنے کا میرا مقصد کیا ہے؟ یہ اس لیے ہے کہ تم اسے غیر سنجیدہ انداز میں نہ لو، تاکہ تم غلطی سے یہ نہ سمجھ لو کہ یہ موضوعات جن کے بارے میں میں نے بات کی ہے وہ زندگی میں تمہارے ذاتی داخلے سے غیر متعلق ہیں، اور تاکہ تم ان موضوعات کو محض ایک قسم کے علم یا نظریے کے طور پر نہ لو۔ اگر تم اس طرح کے رویے کے ساتھ میری بات سنو گے تو تمہیں ایک چیز بھی حاصل نہیں ہو گی۔ تم خدا کو جاننے کا یہ عظیم موقع ضائع کر دو گے۔

ان تمام چیزوں کے بارے میں بات کرنے میں میرا مقصد کیا ہے؟ میرا مقصد یہ ہے کہ لوگ خدا کو جانیں، لوگ خدا کے عملی اعمال کی سمجھ بوجھ حاصل کریں۔ ایک بار جب تو نے خدا کو سمجھ لیا اور تو نے اس کے افعال کو جان لیا، تو تب ہی تجھے اسے جاننے کا موقع ملے گا یا اس کا امکان ہو گا۔ اگر، مثال کے طور پر، تو کسی شخص کو سمجھنا چاہتا ہے، تو تُو اسے کیسے سمجھے گا؟ کیا یہ اس کی ظاہری شکل کو دیکھنے کے ذریعے ہو گا؟ کیا یہ دیکھنے سے ہو گا کہ وہ کیا پہنتا ہے اور اس کا لباس کیسا ہے؟ کیا یہ دیکھنے سے ہو گا کہ وہ کیسے چلتا ہے؟ کیا یہ اس کے علم کے دائرہ کار کو دیکھنے کے ذریعے ہو گا؟ (نہیں)۔ تو پھر تو کسی شخص کو کیسے سمجھتا ہے؟ تو کسی شخص کی گفتگو اور رویے، اس کے خیالات اور ان چیزوں کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے جو وہ اپنے بارے میں بیان اور ظاہر کرتا ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جس سے تو کسی شخص کو سمجھتا ہے۔ اسی طرح، اگر تو خدا کو جاننا چاہتا ہے، اگر تو اس کے عملی پہلو، اس کے حقیقی پہلو کو سمجھنا چاہتا ہے، تو تجھے لازمی طور پر اسے اس کے اعمال اور ہر ایک عملی کام کے ذریعے جاننا چاہیے جو وہ کرتا ہے۔ یہ بہترین طریقہ ہے، اور یہی واحد راستہ ہے۔

خدا انسانیت کو بقا کے لیے ایک مستحکم ماحول فراہم کرنے کی خاطر تمام چیزوں کے درمیان تعلقات کو متوازن بناتا ہے

خدا سب چیزوں کے درمیان اپنے اعمال کو ظاہر کرتا ہے اور وہ سب چیزوں پر حکومت کرتا ہے اور سب چیزوں کے قوانین کو قابو میں رکھتا ہے۔ ہم نے ابھی اس بارے میں بات کی کہ خدا کس طرح تمام چیزوں کے قوانین پر حکمرانی کرتا ہے نیز کس طرح وہ ان قوانین کے تحت تمام انسانیت کے لیے فراہم کرتا ہے اور اس کی پرورش کرتا ہے۔ یہ ایک پہلو ہے۔ اس کے بعد، ہم ایک اور پہلو کے متعلق بات کرنے جا رہے ہیں، جو کہ ایک طریقہ ہے جسے خدا ہر چیز پر اختیار قائم رکھنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ میں اس بارے میں بات کر رہا ہوں کہ کس طرح، تمام چیزوں کو تخلیق کرنے کے بعد، خدا نے ان کے درمیان تعلقات کو متوازن بنایا۔ یہ بھی تمہارے لیے ایک بڑا موضوع ہے۔ تمام چیزوں کے درمیان تعلقات کو متوازن بنانا – کیا یہ وہ چیز ہے جسے لوگ پورا کر سکتے ہیں؟ نہیں، انسان ایسا کارنامہ کے قابل نہیں ہیں۔ لوگ صرف تباہی کے ہی قابل ہیں۔ وہ تمام چیزوں کے درمیان تعلقات کو متوازن نہیں رکھ سکتے؛ وہ ان کا انتظام نہیں کر سکتے، اور اتنا بڑا اختیار اور طاقت انسانیت کی فہم سے باہر ہے۔ اس قسم کا کام کرنے کی قدرت صرف خدا ہی کے پاس ہے۔ لیکن ایسا کام کرنے میں خدا کا کیا مقصد ہے – یہ کس لیے ہے؟ اس کا بھی بنی نوع انسان کی بقا کے ساتھ قریبی تعلق ہے۔ ہر ایک کام جو خُدا کرنا چاہتا ہے ضروری ہے – ایسی کچھ چیز نہیں ہے کہ جسے وہ شاید کرے یا شاید نہ کرے۔ اس کے بنی نوع انسان کی بقا کی حفاظت اور لوگوں کو بقا کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے کے لیے، کچھ ناگزیر، اہم چیزیں ہیں جو اسے لازمی کرنی چاہییں۔

اس جملے کے لغوی معنی سے، ”خدا ہر چیز کو متوازن رکھتا ہے،“ یہ ایک بہت وسیع موضوع لگتا ہے۔ سب سے پہلے، یہ لوگوں کو یہ تصور فراہم کرتا ہے کہ ”تمام چیزوں میں توازن رکھنا“ ہر چیز پر خدا کی مہارت کا حوالہ بھی دیتا ہے۔ اس لفظ، ”توازن“ کا کیا مطلب ہے؟ سب سے پہلے، ”توازن“ سے مراد کسی چیز کو توازن سے باہر نہیں ہونے دینا ہے۔ یہ چیزوں کو تولنے کے لیے ترازو کے استعمال کے مترادف ہے۔ ترازو کو متوازن کرنے کے لیے، ہر طرف کا وزن لازمی طور پر ایک جیسا ہونا چاہیے۔ خدا نے بہت سی مختلف قسم کی چیزیں تخلیق کی ہیں: وہ چیزیں جو اپنی جگہ پر قائم ہیں، وہ چیزیں جو حرکت کرتی ہیں، وہ چیزیں جو زندہ ہیں، وہ چیزیں جو سانس لیتی ہیں، اور وہ چیزیں جو سانس نہیں لیتی ہیں۔ کیا ان سب چیزوں کے لیے ایک دوسرے پر انحصار، ایک دوسرے سے مربوط ہونے کے ایسے تعلق کو حاصل کرنا آسان ہے، جہاں وہ دونوں ایک دوسرے کو تقویت دیں اور ایک دوسرے کو قابو میں رکھیں؟ یقیناً ان سب کے اندر اصول ہیں، لیکن وہ بہت پیچیدہ ہیں، کیا وہ نہیں ہیں؟ خدا کے لیے یہ مشکل نہیں ہے لیکن لوگوں کے لیے اس کا مطالعہ کرنا بہت پیچیدہ معاملہ ہے۔ یہ ایک بہت ہی آسان لفظ ہے، ”توازن۔“ تاہم، اگر لوگ اس کا مطالعہ کرتے، اور اگر لوگوں کو خود سے توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی، تو خواہ ہر قسم کے ماہرین تعلیم اس پر کام کرتے – انسانی حیاتیات کے ماہرین، ماہرین فلکیات، طبیعیات دان، کیمیا دان اور یہاں تک کہ مورخین بھی – تو بھی اس تحقیق کا حتمی نتیجہ کیا ہوتا؟ اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کی تمام چیزوں کی تخلیق بہت ہی ناقابل یقین ہے، اور انسانیت اس کے اسرار کو کبھی نہیں کھولے گی۔ جب خدا نے تمام چیزوں کو تخلیق کیا تو اس نے ان کے درمیان اصول قائم کیے، باہمی تحمل، تکمیلی رابطے اور رزق کے لیے بقا کے مختلف طریقے بنائے۔ یہ مختلف طریقے بہت پیچیدہ ہیں، اور یہ یقینی طور پر سادہ یا یک جہتی نہیں ہیں۔ جب لوگ اپنے دماغ، اپنے حاصل کیے ہوئے علم، اور تمام چیزوں پر خدا کے اختیار کے پیچھے موجود اصولوں کی تصدیق یا مطالعہ کرنے کے لیے اپنے دیکھے ہوئے مظاہر کو استعمال کرتے ہیں، تو ان چیزوں کو دریافت کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے، اور کسی نتیجے کا حصول بھی بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ لوگوں کے لیے کوئی نتیجہ حاصل کرنا بہت مشکل ہے؛ خدا کی تخلیق کی تمام چیزوں پر حکومت کرنے کے لیے انسانی سوچ اور علم پر انحصار کرتے ہوئے لوگوں کے لیے اپنا توازن برقرار رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر لوگوں کو تمام چیزوں کی بقا کے اصولوں کا علم نہیں ہے، تو وہ یہ نہیں جان پائیں گے کہ اس قسم کے توازن کی حفاظت کیسے کرنی ہے۔ لہٰذا، اگر لوگ تمام چیزوں کا نظم و نسق کرتے، تو اس کا بہت زیادہ امکان تھا کہ وہ اس توازن کو تباہ کر دیتے۔ جیسے ہی توازن تباہ ہوتا، بنی نوع انسان کی بقا کے لیے ماحول تباہ ہو جاتا، اور جب ایسا ہوتا تو اس کے بعد بنی نوع انسان کی بقا کے لیے ایک بحران پیدا ہو جاتا۔ یہ ایک تباہی لے کر آتا۔ اگر انسانیت تباہی کے درمیان زندہ رہے تو اس کا مستقبل کیا ہو گا؟ نتائج کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہو گا، اور یقین کے ساتھ پیشین گوئی کرنا ناممکن ہو گا۔

تو، خدا کس طرح تمام چیزوں کے درمیان تعلقات کو متوازن کرتا ہے؟ سب سے پہلے، دنیا میں کچھ جگہیں ایسی ہیں جو سال بھر برف سے ڈھکی رہتی ہیں، جب کہ کچھ اور جگہوں پر چاروں موسم بہار کی طرح ہوتے ہیں، اور موسمِ سرما کبھی نہیں آتا، اور ایسی جگہوں پر تمہیں برف کا ٹکڑا یا برفباری کا ایک گالہ بھی نظر نہیں آئے گا۔ یہاں، ہم بڑی آب و ہوا کے بارے میں بات کر رہے ہیں، اور یہ مثال ان طریقوں میں سے ایک ہے جس میں خدا تمام چیزوں کے درمیان تعلقات کو متوازن کرتا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے: پہاڑوں کا ایک سلسلہ ہرے سبزے سے ڈھکا ہوا ہے، جس میں ہر قسم کے پودوں نے زمین پر قالین بچھایا ہوا ہے، اور جنگلات کے قطعات اتنے گھنے ہیں کہ جب تم ان سے گزرتے ہو تو تم اوپر سورج بھی نہیں دیکھ سکتے۔ لیکن پہاڑوں کے ایک اور سلسلے کو دیکھو تو وہاں گھاس کا ایک تنکا بھی نہیں اُگتا، بس تہہ در تہہ بنجر، گندے پہاڑ۔ ظاہری شکل میں، دونوں قسمیں بنیادی طور پر گندگی کے بڑے بڑے ڈھیر ہیں جو پہاڑوں کی شکل میں جمع ہوتے ہیں، لیکن ایک گھنے جنگل سے ڈھکا ہوا ہے، جب کہ دوسرا نشو ونما سے عاری، گھاس کے ایک تنکے کے بھی بغیر ہے۔ یہ دوسرا طریقہ ہے کہ خدا تمام چیزوں کے درمیان تعلقات کو متوازن کرتا ہے۔ تیسرا طریقہ یہ ہے: ایک طرف دیکھو تو تم ختم نہ ہونے والے گھاس کے میدان، لہلہاتے سبزے کا میدان دیکھ سکتے ہو۔ دوسری طرف دیکھو تو جہاں تک آنکھ دیکھ سکتی ہے، تمہیں بنجر، پھنکارتی ہوا سے اڑتی ریت کے درمیان ایک بھی جاندار چیز کے بغیر صحرا نظر آئے گا جس میں پانی کے کوئی ذرائع ہونے کا امکان تو بہت ہی کم ہے۔ چوتھا طریقہ یہ ہے: ایک طرف دیکھو تو سب کچھ سمندر کے نیچے ڈوبا ہوا ہے، پانی کا وہ عظیم ذخیرہ، دوسری طرف دیکھو تو، تمہیں چشمے کے تازہ پانی کا ایک قطرہ بھی تلاش کرنا مشکل ہے۔ پانچواں طریقہ یہ ہے: یہاں کی زمین میں اکثر بوندا باندی ہوتی ہے اور آب و ہوا دھند آلود اور نمی والی ہوتی ہے، جب کہ وہاں کی زمین میں اکثر آسمان پر ناقابلِ برداشت سورج لٹکا رہتا ہے، اور جب بارش کا ایک قطرہ بھی گرتا ہے تو یہ ایک نادر واقعہ ہوتا ہے۔ چھٹا طریقہ یہ ہے: ایک جگہ سطح مرتفع ہے جہاں ہوا پتلی ہے اور انسان کے لیے سانس لینا مشکل ہے، جب کہ دوسری جگہ دلدل اور نشیبی علاقے ہیں، جو مختلف قسم کے ہجرت کرنے والے پرندوں کے لیے مسکن کا کام کرتے ہیں۔ یہ آب و ہوا کی مختلف قسمیں ہیں، یا وہ آب و ہوا یا ماحول ہیں جو مختلف جغرافیائی ماحول سے مطابقت رکھتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ، خدا انسانیت کی بقا کے لیے، بڑے پیمانے پر ماحول کے لحاظ سے، آب و ہوا سے لے کر جغرافیائی ماحول تک، اور مٹی کے مختلف اجزا سے لے کر پانی کے ذرائع کی تعداد تک، کے بنیادی ماحول کو متوازن رکھتا ہے اور یہ سب کچھ اس ماحول میں ہوا، درجہ حرارت اور ماحول کی نمی میں توازن حاصل کرنے کے لیے کرتا ہے جس میں لوگ زندہ رہتے ہیں۔ اس متضاد جغرافیائی ماحول کی وجہ سے، لوگوں کے پاس ہوا مستحکم ہے، اور مختلف موسموں کا درجہ حرارت اور نمی مستحکم رہتی ہے۔ اس کی وجہ سے لوگ اس طرح کے ماحول میں زندہ رہ سکتے ہیں جس طرح وہ ہمیشہ رہتے رہے ہیں۔ سب سے پہلے، بڑے پیمانے پر ماحول کا متوازن ہونا ضروری ہے۔ یہ مختلف جغرافیائی مقامات اور تشکیلات نیز مختلف آب و ہوا کے درمیان تبدیلیوں کے استعمال کے ذریعے کیا جاتا ہے جو انھیں ایک دوسرے کو محدود کرنے اور روک تھام کی اجازت دیتا ہے تاکہ وہ توازن حاصل کیا جا سکے جو خدا چاہتا ہے اور جس کی انسانیت کو ضرورت ہے۔ بڑے پیمانے پر ماحول کے نقطہ نظر سے بات کرنے کا یہ مطلب ہے۔

اب ہم زیادہ باریک تفصیلات کے بارے میں بات کریں گے، جیسے کہ سبزہ۔ اس کا توازن کیسے حاصل ہوتا ہے؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سبزے کو بقا کے لیے متوازن ماحول کے اندر زندہ رہنے کے قابل کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مختلف اقسام کے پودوں کی عمر، بڑھنے کی شرح اور افزائشِ نسل کی شرح کا انتظام کر کے ان کے ماحول کو بقا کے لیے محفوظ رکھا جائے۔ آؤ ہم چھوٹی گھاس کو مثال کے طور پر لیتے ہیں – یہاں بہار کی کونپلیں، گرمیوں کے پھول اور خزاں کے پھل ہیں۔ پھل زمین پر گرتا ہے۔ اگلے سال پھل سے بیج پھوٹتا ہے اور انہی قوانین کے مطابق جاری رہتا ہے۔ گھاس کی عمر بہت مختصر ہوتی ہے؛ ہر بیج زمین پر گرتا ہے، جڑیں پھیلاتا ہے اور کونپل نکالتا ہے، کھلتا ہے اور پھل دیتا ہے، اور یہ سارا عمل صرف تین موسموں – یعنی بہار، گرمی اور خزاں کے بعد مکمل ہوتا ہے۔ ہر قسم کے درختوں کی بھی اپنی عمر ہوتی ہے اور کونپل نکالنے اور پھل دینے کے مختلف ادوار ہوتے ہیں۔ کچھ درخت صرف 30 سے 50 سال کے بعد مر جاتے ہیں – یہ ان کی عمر ہے۔ لیکن ان کا پھل زمین پر گرتا ہے، جس کے بعد جڑیں پھیلتی ہیں، کونپلیں اور پھول نکلتے ہیں اور پھل آتا ہے، اور مزید 30 سے 50 سال تک زندہ رہتے ہیں۔ یہ اس کی تکرار کی شرح ہے۔ ایک بوڑھا درخت مر جاتا ہے اور ایک جوان درخت بڑھتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ تو جنگل میں ہمیشہ درخت اگتے دیکھ سکتا ہے۔ لیکن ان کا اپنا معمول کا چکر اور پیدائش اور موت کے عمل بھی ہوتے ہیں۔ کچھ درخت ایک ہزار سال سے زیادہ زندہ رہ سکتے ہیں اور کچھ تین ہزار سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ یہ کس قسم کا پودا ہے یا اس کی عمر کتنی ہے، عام طور پر، خدا اس کی عمر، اس کی دوبارہ پیدا کرنے کی صلاحیت، اس کی رفتار اور افزائشِ نسل کے تعدد اور اس سے پیدا ہونے والی اولاد کی مقدار کی بنیاد پر اس کے توازن کا انتظام کرتا ہے۔ یہ پودوں کو، گھاس سے لے کر درختوں تک، ایک متوازن ماحولیاتی ماحول کے اندر پھلنے پھولنے اور بڑھنے کے قابل بناتا ہے۔ لہٰذا جب تو زمین پر کسی جنگل کو دیکھتا ہے تو اس کے اندر اگنے والی ہر چیز، گھاس اور درخت دونوں اپنے اپنے قوانین کے مطابق مسلسل افزائشِ نسل کر رہے ہوتے ہیں اور نشوونما پا رہے ہوتے ہیں۔ انھیں کسی اضافی محنت یا انسانیت کی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ ان کے پاس اس قسم کا توازن موجود ہے کہ وہ بقا کے لیے اپنے ماحول کو برقرار رکھنے کے قابل ہیں۔ یہ صرف ان کے پاس بقا کے لیے موزوں ماحول ہونے کی وجہ سے ہے کہ دنیا کے جنگلات اور گھاس کے میدان زمین پر زندہ رہنے کے قابل ہیں۔ ان کا وجود نسل در نسل انسانوں کی نیز نسل در نسل ہر قسم کے جانداروں کی پرورش کرتا ہے جو جنگلوں اور گھاس کے میدانوں میں رہائش پذیر ہیں – پرندے اور درندے، کیڑے مکوڑے اور ہر قسم کے خرد حیاتی وجود۔

خدا ہر قسم کے جانوروں کے درمیان توازن کو بھی قابو کرتا ہے۔ وہ اس توازن کو کیسے قابو کرتا ہے؟ یہ پودوں کی طرح ہے – وہ ان کے توازن کا انتظام کرتا ہے اور ان کی تعداد کو ان کی افزائشِ نسل کی صلاحیت، ان کی مقدار اور افزائشِ نسل کے تعدد اور اس دنیا میں جانوروں کے ادا کیے جانے والے ان کے کردار کی بنیاد پر متعین کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، شیر زیبروں کو کھاتے ہیں، لہذا اگر شیروں کی تعداد زیبروں کی تعداد سے زیادہ ہو جائے، تو زیبروں کا کیا حشر ہو گا؟ وہ معدوم ہو جائیں گے۔ اور اگر زیبرے شیروں کے مقابلے میں بہت کم اولاد پیدا کریں تو ان کی قسمت کیا ہو گی؟ وہ بھی معدوم ہو جائیں گے۔ لہذا، زیبروں کی تعداد شیروں کی تعداد سے بہت زیادہ ہونی چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زیبرے نہ صرف اپنے لیے موجود ہیں بلکہ وہ شیروں کے لیے بھی موجود ہیں۔ تم اسے اس طرح بھی کہہ سکتے ہو: ہر زیبرا زیبروں کی کلیت کا ایک حصہ ہے، لیکن یہ شیروں کے منہ کی خوراک بھی ہے۔ شیروں کی افزائش کی رفتار زیبروں کی رفتار سے کبھی آگے نہیں بڑھ سکتی، اس لیے ان کی تعداد زیبروں کی تعداد سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ صرف اسی طریقے سے ہی شیروں کی خوراک کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔ اور اس طرح، اگرچہ شیر زیبروں کے قدرتی دشمن ہیں، لوگ اکثر دونوں انواع کو فارغ وقت میں ایک ہی علاقے میں آرام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ شیروں کے شکار کرنے اور کھانے کی وجہ سے زیبروں کی تعداد کبھی کم نہیں ہو گی یا یہ ناپید نہیں ہوں گے، اور ”بادشاہ“ ہونے کی حیثیت کی وجہ سے شیر کبھی بھی اپنی تعداد میں اضافہ نہیں کریں گے۔ یہ توازن وہ چیز ہے جسے خدا نے بہت پہلے قائم کر دیا تھا۔ یعنی خدا نے تمام جانوروں کے درمیان توازن کے قوانین بنائے تاکہ وہ اس قسم کا توازن حاصل کر سکیں اور یہ وہ چیز ہے جسے لوگ اکثر دیکھتے ہیں۔ کیا شیر ہی زیبروں کے قدرتی دشمن ہیں؟ نہیں، مگرمچھ بھی زیبرے کھاتے ہیں۔ زیبرے بہت ہی بے بس قسم کے جانور لگتے ہیں۔ ان میں شیروں کی درندگی نہیں ہے، اور جب شیر کا سامنا کرتے ہیں، اس مضبوط دشمن کا، تو وہ بس بھاگ سکتے ہیں۔ وہ مزاحمت کرنے سے بھی بے بس ہوتے ہیں۔ جب وہ بھاگتے ہوئے شیر سے آگے نہیں نکل سکتے تو پھر وہ صرف اسے خود کو کھانے ہی دے سکتے ہیں۔ جانوروں کی دنیا میں یہ کثرت سے دیکھا جا سکتا ہے۔ جب تم اس قسم کی چیز دیکھتے ہو تو تمہارے کیا احساسات اور خیالات ہوتے ہیں؟ کیا تمہیں زیبرا پر ترس آتا ہے؟ کیا تم شیر سے نفرت کرتے ہو؟ زیبرے بہت خوبصورت لگتے ہیں! لیکن شیر، وہ ہمیشہ انھیں لالچ بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ اور بے وقوفی سے، زیبرے دور نہیں بھاگتے۔ وہ وہاں شیر کو ایک درخت کے نیچے ٹھنڈی چھاؤں میں اپنا انتظار کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ یہ کسی بھی وقت آ کر انھیں کھا سکتا ہے۔ وہ اپنے دل میں اس بات کو جانتے ہیں لیکن پھر بھی وہ زمین کا وہ ٹکڑا نہیں چھوڑیں گے۔ یہ ایک عجیب چیز ہے، ایک حیرت انگیز چیز جو خدا کے تقدیر مقرر کرنے اور اس کی حکمرانی کو ظاہر کرتی ہے۔ تجھے زیبرا پر ترس آتا ہے لیکن تو اسے بچانے سے قاصر ہے، اور تجھے شیر سے نفرت ہے لیکن تو اسے تباہ نہیں کر سکتا۔ زیبرا وہ خوراک ہے جو خدا نے شیر کے لیے تیار کی ہے لیکن شیر جتنا زیادہ بھی کھائیں، زیبرے ختم نہیں ہوں گے۔ شیروں کی پیدا کردہ اولاد کی تعداد بہت کم ہے، اور وہ بہت آہستہ آہستہ دوبارہ پیدا کرتے ہیں، لہذا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ کتنے ہی زیبرے کھاتے ہیں، ان کی تعداد زیبروں سے کبھی زیادہ نہیں ہو گی۔ اس کے اندر ایک توازن موجود ہے۔

اس قسم کے توازن کو برقرار رکھنے میں خدا کا کیا مقصد ہے؟ اس کا تعلق لوگوں کے لیے بقا کے ماحول نیز انسانیت کی بقا کے ساتھ بھی ہے۔ اگر زیبرے، یا شیر کا کوئی ایسا ہی شکار – ہرن یا دوسرے جانوروں – کی افزائشِ نسل بہت آہستہ ہو اور شیروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے، تو انسانوں کو کس قسم کے خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا؟ شیروں کا اپنا شکار کھانا تو ایک عام سی بات ہے لیکن شیر کا کسی انسان کو کھانا ایک المیہ ہے۔ یہ المیہ خدا کی طرف سے پہلے سے طے شدہ چیز نہیں ہے، یہ ایسی چیز نہیں ہے جو اس کی حکمرانی کے تحت واقع ہوتی ہے، اس کا کوئی ایسی چیز ہونا جسے وہ انسانیت پر لایا ہے تو اور بھی دور کی بات ہے۔ بلکہ یہ وہ چیز ہے جسے لوگ خود اپنے اوپر لاتے ہیں۔ تو جیسا کہ خدا اسے دیکھتا ہے، تمام چیزوں کے درمیان توازن انسانیت کی بقا کے لیے بہت ضروری ہے۔ پودے ہوں یا جانور، کوئی بھی چیز اپنا صحیح توازن نہیں کھو سکتی۔ پودے، جانور، پہاڑ اور جھیلیں – خدا نے انسانیت کے لیے ایک باقاعدہ ماحولیاتی فضا تیار کی ہے۔ صرف اسی صورت میں کہ جب لوگوں کے پاس اس قسم کی ماحولیاتی فضا ہو – ایک متوازن ماحول – ان کی بقا محفوظ ہے۔ اگر درختوں یا گھاس میں دوبارہ پیدا ہونے کی صلاحیت کم ہوتی یا ان کی افزائشِ نسل کی رفتار بہت سست ہوتی تو کیا مٹی اپنی نمی نہ کھو دیتی؟ اگر مٹی اپنی نمی کھو دیتی تو کیا یہ اب بھی صحت مند رہتی؟ اگر مٹی اپنا سبزہ اور نمی کو کھو دیتی، تو یہ بہت جلد ختم ہو جاتی، اور اس کی جگہ ریت بن جاتی۔ جب مٹی خراب ہو جاتی تو لوگوں کے زندہ رہنے کا ماحول بھی تباہ ہو جاتا۔ اس تباہی کے ساتھ کئی آفات بھی آتیں۔ اس قسم کے ماحولیاتی توازن کے بغیر، اس قسم کی ماحولیاتی فضا کے بغیر، تمام چیزوں کے درمیان عدم توازن کی وجہ سے لوگ اکثر آفات کا شکار ہوں گے۔ مثال کے طور پر، جب ماحولیاتی عدم توازن مینڈکوں کی ماحولیاتی فضا کی تباہی کا باعث بنتا ہے، تو وہ سب اکٹھے ہو جاتے ہیں، ان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے، اور یہاں تک کہ لوگ شہروں میں بڑی تعداد میں مینڈکوں کو سڑکوں سے گزرتے ہوئے بھی دیکھتے ہیں۔ اگر مینڈکوں کی ایک بڑی تعداد لوگوں کے زندہ رہنے کے ماحول پر قابض ہو جائے تو اسے کیا کہا جائے گا؟ ایک تباہی۔ اسے تباہی کیوں کہا جائے گا؟ یہ چھوٹے جانور جو انسانیت کے لیے فائدہ مند ہیں لوگوں کے لیے اس وقت مفید ہوتے ہیں جب وہ اپنے لیے موزوں جگہ پر رہیں؛ وہ بقا کے لیے لوگوں کے ماحول کا توازن برقرار رکھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ ایک آفت بن جاتے ہیں، تو وہ لوگوں کی زندگی کے نظم کو متاثر کریں گے۔ وہ تمام چیزیں اور تمام عناصر جو مینڈک اپنے ساتھ اپنے جسم پر لاتے ہیں وہ لوگوں کے معیار زندگی کو متاثر کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ لوگوں کے جسمانی اعضا پر حملہ کرنے کا سبب بن سکتے ہیں – یہ آفات کی ایک قسم ہے۔ ایک اور قسم کی آفت، جس کا تجربہ انسانوں نے اکثر کیا ہے، بڑی تعداد میں ٹڈی دل کا ہونا ہے۔ کیا یہ آفت نہیں ہے؟ ہاں، یہ واقعی ایک خوفناک آفت ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انسان کتنے ہی قابل ہو سکتے ہیں – لوگ ہوائی جہاز، توپیں اور ایٹم بم بنا سکتے ہیں – جب ٹڈی دل حملہ کرتا ہے، تو انسانیت کے پاس کیا حل ہوتا ہے؟ کیا وہ ان پر توپیں استعمال کر سکتے ہیں؟ کیا وہ انھیں مشین گن سے گولی مار سکتے ہیں؟ نہیں وہ نہیں مار سکتے۔ پھر کیا وہ ان کو بھگانے کے لیے کیڑے مار دوا چھڑک سکتے ہیں؟ یہ بھی کوئی آسان کام نہیں ہے۔ وہ ننھی ٹڈیاں کیا کرنے آتی ہیں؟ وہ خاص طور پر فصلیں اور اناج کھاتی ہیں۔ ٹڈیاں جہاں بھی جاتی ہیں، فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو جاتی ہیں۔ ٹڈی دل کے حملے کے وقت، وہ تمام خوراک جس پر کسان پورے سال بھروسہ کرتے ہیں، ٹڈیاں پلک جھپکتے میں ہی کھا سکتی ہیں۔ انسانوں کے لیے، ٹڈی دل کی آمد نہ صرف ایک اشتعال ہے – بلکہ یہ ایک تباہی ہے۔ لہذا، ہم جانتے ہیں کہ ٹڈیوں کی بڑی تعداد میں ظاہر ہونا ایک قسم کی آفت ہے، لیکن چوہوں کے متعلق کیا خیال ہے؟ اگر چوہوں کو کھانے کے لیے شکاری پرندے نہ ہوں، تو وہ بہت تیزی سے، تمہاری سوچ سے بھی کہیں زیادہ تیزی سے بڑھیں گے۔ اور اگر چوہے روکے بغیر پھیلے تو کیا انسان اچھی زندگی گزار سکتے ہیں؟ انسانوں کو کس قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا؟ (ایک وبا کا)۔ لیکن کیا تمہارا خیال ہے کہ وبا ہی واحد نتیجہ ہو گی؟ چوہے کسی بھی چیز کو چبا ڈالیں گے، اور وہ لکڑی تک کو کُتر ڈالیں گے۔ اگر ایک گھر میں صرف دو چوہے بھی ہوں تو وہ وہاں رہنے والے ہر فرد کے لیے پریشانی کا باعث ہوں گے۔ کبھی وہ تیل چوری کر کے کھاتے ہیں اور کبھی روٹی یا اناج کھاتے ہیں۔ اور جن چیزوں کو وہ نہیں کھاتے وہ انھیں بھی چبا کر مکمل گندگی میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ وہ کپڑے، جوتے، فرنیچر تک چبا جاتے ہیں – وہ ہر چیز کو چبا لیتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ الماری پر چڑھ جائیں گے – کیا ان پلیٹوں کو چوہوں کے ان پر چلنے کے بعد بھی استعمال کیا جا سکتا ہے؟ اگر تو انھیں جراثیم سے پاک بھی کر لیتا ہے تو پھر بھی تُو سکون محسوس نہیں کرتا ہے، لہذا تو انھیں باہر پھینک دیتا ہے۔ یہ وہ پریشانیاں ہیں جو چوہوں کی وجہ سے لوگوں کو ہوتی ہیں۔ اگرچہ چوہے چھوٹی مخلوق ہیں، لیکن لوگوں کے پاس ان سے نمٹنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے، اور اس کی بجائے انھیں صرف اپنی بربادی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چوہوں کا صرف ایک جوڑا ہی خلل پیدا کرنے کے لیے کافی ہے، ان کے ایک بڑے گروہ کی تو بات ہی نہ کرو۔ اگر ان کی تعداد بڑھ جاتی ہے اور وہ ایک تباہی بن جاتے ہیں، تو اس کے نتائج ناقابل تصور ہوں گے۔ حتیٰ کہ چیونٹیوں جیسی چھوٹی مخلوق بھی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ان سے انسانیت کو پہنچنے والا نقصان بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ چیونٹیاں گھروں کو اتنا نقصان پہنچا سکتی ہیں کہ وہ گر جاتے ہیں۔ ان کی طاقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اگر مختلف قسم کے پرندوں نے تباہی پیدا کی تو کیا یہ خوفناک نہیں ہو گا؟ (ہاں)۔ اسے دوسرے طریقے سے بیان کرتے ہوئے، جب بھی جانور یا جاندار، چاہے وہ کسی بھی قسم کے ہوں، اپنا توازن کھو دیں گے، وہ بڑھیں گے، افزائشِ نسل کریں گے، اور ایک غیر معمولی دائرہ کار، ایک بے قاعدہ دائرہ کار کے اندر رہیں گے۔ جو کہ بنی نوع انسان کے لیے ناقابل تصور نتائج پیدا کرے گا۔ اس سے نہ صرف لوگوں کی بقا اور زندگیوں پر اثر پڑے گا بلکہ یہ انسانیت کے لیے تباہی بھی لائے گا، یہاں تک کہ لوگوں کو مکمل فنا اور ناپید ہونے کا سامنا کرنا پڑ جائے گا۔

جب خدا نے تمام چیزوں کو تخلیق کیا تو اس نے ان میں توازن پیدا کرنے کے لیے، پہاڑوں اور جھیلوں، پودوں اور ہر قسم کے جانوروں، پرندوں اور حشرات الارض کے رہنے والے حالات کو متوازن کرنے کے لیے ہر طرح کے طریقے اور راستے استعمال کیے۔ اس کا مقصد ہر قسم کے جانداروں کو اپنے قائم کردہ قوانین کے تحت رہنے اور بڑھنے کا موقع دینا تھا۔ تخلیق کی کوئی بھی چیز ان قوانین سے باہر نہیں جا سکتی، اور قوانین کو توڑا نہیں جا سکتا۔ صرف اس قسم کے بنیادی ماحول میں ہی انسان محفوظ طریقے سے زندہ رہ سکتا ہے اور نسل در نسل بڑھ سکتا ہے۔ اگر کوئی جاندار مخلوق خدا کی طرف سے مقرر کردہ مقدار یا دائرہ کار سے آگے بڑھتی ہے، یا اگر وہ شرح نمو، افزائشِ نسل کے تعدد، یا اس کی مقرر کردہ تعداد سے تجاوز کر جاتی ہے، تو انسانیت کی بقا کے لیے ماحول مختلف درجات کی تباہی کا شکار ہو گا۔ اور اسی وقت، انسانیت کی بقا کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ اگر ایک قسم کے جانداروں کی تعداد بہت زیادہ ہے تو وہ لوگوں سے ان کی خوراک چھین لے گی، لوگوں کے پانی کے ذرائع کو تباہ کر دے گی اور ان کے آبائی علاقوں کو برباد کر دے گی۔ اس طرح، انسانیت کی افزائشِ نسل یا بقا کی حالت فوری طور پر متاثر ہو گی۔ مثال کے طور پر پانی سب چیزوں کے لیے بہت ضروری ہے۔ اگر بہت زیادہ چوہے، چیونٹیاں، ٹڈیاں، مینڈک یا کسی اور قسم کے جانور ہوں تو وہ زیادہ پانی پئیں گے۔ جوں جوں ان کے پانی پینے کی مقدار میں اضافہ ہوتا جائے گا، لوگوں کے پینے کے پانی اور پانی کے ذرائع کے مقررہ دائرہ کار میں پینے کے پانی اور آبی علاقوں میں کمی آتی جائے گی اور انھیں پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر ہر قسم کے جانوروں کی تعداد میں اضافہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کے پینے کا پانی تباہ، آلودہ یا منقطع ہو جاتا ہے، تو بقا کے لیے اس قسم کے سخت ماحول میں انسانیت کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ اگر صرف ایک قسم یا کئی قسم کے جاندار اپنی مناسب تعداد سے زیادہ ہو جائیں تو ہوا، درجہ حرارت، نمی اور یہاں تک کہ انسانیت کی بقا کے لیے فضا میں ہوا کے اجزا تک زہر آلود ہو جائیں گے اور مختلف درجات تک تباہ ہو جائیں گے۔ ان حالات میں انسانوں کی بقا اور قسمت بھی ان ماحولیاتی عوامل سے لاحق خطرات سے مشروط ہو گی۔ لہٰذا، اگر یہ توازن ختم ہو جائے تو وہ ہوا جس میں لوگ سانس لیتے ہیں برباد ہو جائے گی، وہ جو پانی پیتے ہیں وہ آلودہ ہو جائے گا، اور جس درجہ حرارت کی انھیں ضرورت ہے وہ بھی بدل جائے گا اور مختلف درجوں تک متاثر ہو گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو، بقا کے وہ ماحول جن کا تعلق فطری طور پر انسانیت کے ساتھ ہے، وہ بہت زیادہ متاثر اور مشکلات کا شکار ہوں گے۔ اس قسم کے منظر نامے میں جہاں انسانوں کی بقا کے لیے بنیادی ماحول تباہ ہو چکا ہو، وہاں انسانیت کی قسمت اور امکانات کیا ہوں گے؟ یہ ایک بہت سنگین مسئلہ ہے! کیونکہ خدا جانتا ہے کہ تخلیق میں سے ہر چیز کس وجہ سے انسانیت کی خاطر موجود ہے، اس کی تخلیق کردہ ہر چیز کا کیا کردار ہے، ہر چیز کا بنی نوع انسان پر کیا اثر ہوتا ہے، اور اس سے انسانیت کو کس حد تک فائدہ پہنچتا ہے، کیونکہ خدا کے دل میں ان سب کے لیے ایک منصوبہ ہے اور وہ اپنی تخلیق کردہ تمام چیزوں کے ایک ایک پہلو کا انتظام کرتا ہے، اسی لیے ہر ایک کام جو وہ کرتا ہے انسانوں کے لیے بہت اہم اور ضروری ہے۔ اس لیے اب سے جب بھی تو خدا کی تخلیق کردہ چیزوں میں سے کسی ماحولیاتی مظاہر کو دیکھے، یا خدا کی تخلیق کردہ چیزوں میں سے کسی قدرتی قانون کے کام کرنے کا مشاہدہ کرے تو تجھے خدا کی تخلیق کردہ ہر ایک چیز کی ضرورت کے بارے میں شک نہیں ہو گا۔ تو خدا کے تمام چیزوں کے انتظامات اور بنی نوع انسان کو فراہم کرنے کے اس کے مختلف طریقوں پر من مانے فیصلے کرنے کے لیے مزید جاہلانہ الفاظ استعمال نہیں کرے گا۔ اور نہ ہی تو خدا کے اس کی تخلیق کردہ تمام چیزوں کے بارے میں قوانین کے متعلق من مانے نتیجے پر پہنچے گا۔ کیا ایسا نہیں ہے؟

یہ سب کیا ہے جس کے بارے میں ہم ابھی بات کر رہے ہیں؟ ایک لمحے کے لیے اس کے بارے میں سوچو۔ خدا جو بھی کرتا ہے اس میں اس کا اپنا ارادہ ہوتا ہے۔ اگرچہ اُس کا ارادہ انسانوں کے لیے ناقابلِ فہم ہے، لیکن یہ ہمیشہ بنی نوع انسان کی بقا سے پیچیدہ طریقے سے جڑا ہوا اور لازم و ملزوم ہوتا ہے۔ یہ انتہائی ناگزیر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا نے کبھی کوئی ایسا کام نہیں کیا جو بے کار ہو۔ اس کے کیے جانے والے ہر ایک کام کے پیچھے جو اصول ہیں وہ اس کی منصوبہ بندی اور اس کی حکمت سے بھرپور ہوتے ہیں۔ اس منصوبے کے پیچھے مقصد اور ارادہ انسانیت کی حفاظت ہے، تباہی کو ٹالنے، دوسرے جانداروں کی تباہی، اور خدا کی تخلیق میں سے کسی چیز کی وجہ سے انسانوں کو پہنچنے والے کسی بھی قسم کے نقصان کو روکنے میں انسانیت کی مدد کرنا ہے۔ تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ خدا کے اعمال جو ہم نے اس موضوع کے اندر دیکھے ہیں وہ ایک اور طریقہ تشکیل دیتے ہیں جس میں خدا انسانیت کے لیے فراہم کرتا ہے؟ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ، ان اعمال کے ذریعے، خدا انسانیت کو خوراک دے رہا ہے اور گلہ بانی کر رہا ہے؟ (ہاں)۔ کیا اس موضوع اور ہماری رفاقت کے موضوع کے درمیان کوئی مضبوط رشتہ ہے: ”خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے“؟ (ہاں)۔ ایک بہت مضبوط رشتہ ہے، اور یہ موضوع اس کا ایک پہلو ہے۔ ان موضوعات کے متعلق بات کرنے سے پہلے، لوگوں کے پاس خدا، خود خدا اور اس کے اعمال کے بارے میں صرف کچھ مبہم تخیل تھا – ان میں درست سمجھ بوجھ کی کمی تھی۔ تاہم، جب لوگوں کو اُس کے اعمال اور اُس کے کیے ہوئے کاموں کے بارے میں بتایا جاتا ہے، تو وہ اُن اصولوں کو سمجھ سکتے ہیں اور اس کا ادراک کر سکتے ہیں جو خدا کرتا ہے اور وہ اُن کی سمجھ بوجھ حاصل کر سکتے ہیں اور یہ اُن کی نظر میں آ سکتے ہیں۔ اگرچہ خدا جب بھی کچھ بھی کرتا ہے تو اس کے دل میں ہر قسم کے انتہائی پیچیدہ نظریات، اصول اور قواعد موجود ہوتے ہیں، جیسے کہ تمام چیزوں کو تخلیق کرنا اور ان پر حکومت کرنا، لیکن کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ رفاقت میں ان میں سے ایک حصہ کے بارے میں خود کو سیکھنے دینے کے لیے تم اپنے دلوں میں یہ سمجھ بوجھ حاصل کرو کہ یہ خدا کے اعمال ہیں اور یہ اتنے ہی حقیقی ہیں جتنے کہ ہو سکتے ہیں؟ (ہاں)۔ تو پھر خدا کے بارے میں تمہاری موجودہ سمجھ بوجھ پہلے سے کس طرح مختلف ہے؟ یہ اپنے مادّے میں مختلف ہے۔ اس سے پہلے، تمہاری سمجھ بوجھ بہت کھوکھلی تھی، بہت مبہم تھی، لیکن اب تمہاری سمجھ بوجھ میں خدا کے کاموں کے برابر ہونے، خدا کے پاس جو کچھ ہے اور جو وہ خود ہے، کے برابر ہونے کے لیے بہت سے ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ لہٰذا، میں نے جو کچھ کہا ہے وہ خدا کے بارے میں تمہاری سمجھ بوجھ کے لیے شاندار تعلیمی مواد ہے۔

9 فروری 2014

سابقہ: خدا خود، منفرد VIII

اگلا: خدا بذات خود، منفرد X

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp