خدا بذات خود، منفرد X
خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے (IV)
ہم آج ایک خاص موضوع پر بات چیت کر رہے ہیں۔ ہر ایک ایمان رکھنے والے کے لیے، صرف دو اہم چیزیں ہیں جن کا جاننا، تجربہ کرنا اور سمجھنا ضروری ہے۔ یہ دو چیزیں کیا ہیں؟ پہلا انسان کا زندگی میں انفرادی داخلہ ہے، اور دوسرے کا تعلق خدا کے جاننے سے ہے۔ خدا کو جاننے کے مضمون پر جس موضوع کے بارے میں ہم حال ہی میں ابلاغ کرتے رہے ہیں، کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ قابل حصول ہے؟ یہ کہنا مناسب ہے کہ یہ یقیناً بہت سے لوگوں کی پہنچ سے دور ہے۔ شاید تم میری باتوں سے قائل نہ ہو لیکن میں یہ کیوں کہتا ہوں؟ میں یہ اس لیے کہتا ہوں کیونکہ جب تم وہ سن رہے تھے جو میں پہلے کہہ رہا تھا، اس سے قطع نظر کہ میں نے اسے کیسے کہا یا کن الفاظ کے ساتھ کہا، تم لفظی اور نظریاتی دونوں طور پر یہ جاننے کے قابل تھے کہ یہ الفاظ کس کے بارے میں تھے۔ تاہم، تم سب کے لیے ایک بہت سنجیدہ مسئلہ یہ تھا کہ تمہیں سمجھ نہیں آئی کہ میں نے ایسی باتیں کیوں کہیں یا میں نے ایسے موضوعات پر کیوں بات کی۔ یہ معاملے کا فیصلہ کن نکتہ ہے۔ چنانچہ، اگرچہ تمہارے ان باتوں کو سن لینے کی وجہ سے خدا اور اس کے کاموں کے بارے میں تمھاری سمجھ بوجھ میں تھوڑا سا اضافہ ہوا ہے اور اسے بڑھایا ہے لیکن تم اب بھی محسوس کرتے ہو کہ خدا کو جاننے کے لیے بہت سخت کوشش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی جو کچھ میں کہتا ہوں اسے سننے کے بعد تم میں سے اکثر یہ نہیں سمجھتے کہ میں نے ایسا کیوں کہا یا خدا کو جاننے سے اس کا کیا تعلق ہے۔ خدا کے جاننے کے ساتھ اس کا تعلق سمجھنے سے قاصر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ تمھارا زندگی کا تجربہ بہت سطحی ہے۔ اگر خدا کے کلام کے بارے میں لوگوں کا علم اور تجربہ بہت معمولی درجے کا ہو گا تو اس کے بارے میں ان کا زیادہ تر علم مبہم اور خیالی ہو گا؛ یہ سب عمومی، عقیدے پر مبنی اور نظریاتی ہو گا۔ نظریاتی طور پر، یہ منطقی اور معقول دکھائی دے سکتا ہے یا لگ سکتا ہے، لیکن خدا کا علم جو زیادہ تر لوگوں کے منہ سے نکلتا ہے، دراصل کھوکھلا ہوتا ہے۔ اور میں ایسا کیوں کہتا ہوں کہ یہ کھوکھلا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کے جاننے کے حوالے سے جو کچھ تم خود کہتے ہو اس کی سچائی اور درستی کے بارے میں تمہیں درحقیقت واضح فہم ہی نہیں ہے۔ اس طرح، اگرچہ زیادہ تر لوگوں نے خدا کو جاننے کے بارے میں بہت سی معلومات اور موضوعات سن رکھے ہیں، لیکن خدا کے بارے میں ان کے علم کو ابھی اس نظریے اور اس عقیدے سے آگے جانا ہے جو کہ مبہم اور خیالی ہے۔ تو پھر، یہ مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے؟ کیا تم نے کبھی اس کے بارے میں سوچا؟ اگر کوئی سچائی کی پیروی نہیں کرتا ہے، تو کیا وہ حقیقت کا حامل ہو سکتا ہے؟ اگر کوئی سچائی کی پیروی نہیں کرتا ہے، تو وہ بلا شبہ حقیقت کے بغیر ہے، اور اس لیے وہ یقینی طور پر خدا کے کلام کا کوئی علم یا تجربہ نہیں رکھتا۔ کیا وہ لوگ خدا کو جان سکتے ہیں جو خدا کے کلام کو نہیں سمجھتے؟ بالکل نہیں؛ دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ لہذا، زیادہ تر لوگ کہتے ہیں، ”خدا کو جاننا اتنا مشکل کیوں ہے؟ جب میں اپنے آپ کو جاننے کی بات کرتا ہوں، تو میں گھنٹوں بات کر سکتا ہوں، لیکن جب خدا کو جاننے کی بات آتی ہے، تو مجھے الفاظ نہیں ملتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب میں اس مضمون پر تھوڑی سی بات بھی کر سکتا ہوں تو میرے الفاظ مجبور اور بےکیف لگتے ہیں۔ حتیٰ کہ جب میں خود کو یہ کہتے ہوئے سنتا ہوں تو یہ الفاظ ناموزوں لگتے ہیں۔“ یہ ذریعہ ہے۔ اگر تجھے لگتا ہے کہ خدا کو جاننا بہت مشکل ہے، اسے جاننے میں بہت زیادہ کوشش درکار ہوتی ہے، یا یہ کہ تیرے پاس بات کرنے کے لیے کوئی موضوع نہیں ہے اور تو بات چیت کرنے اور خود یا دوسروں کو فراہم کرنے کے لیے کوئی حقیقی چیز نہیں سوچ سکتا، تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تو وہ نہیں ہے جس نے خدا کے کلام کا تجربہ کیا ہے۔ خدا کا کلام کیا ہے؟ خدا کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے، کیا اس کا کلام اس بات کا اظہار نہیں ہے؟ اگر تو نے خدا کے کلام کا تجربہ نہیں کیا ہے، تو کیا تو اس کے بارے میں کچھ جان سکتا ہے کہ اس کہ اس کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے؟ یقیناً نہیں۔ یہ سب چیزیں آپس میں منسلک ہیں۔ اگر تجھے خدا کے کلام کا کوئی تجربہ نہیں ہے تو تُو خدا کی مرضی کو نہیں سمجھ سکتا اور نہ ہی تو یہ جان سکتا ہے کہ اس کا مزاج کیا ہے، وہ کیا پسند کرتا ہے، وہ کیا ناپسند کرتا ہے، اس کے لوگوں سے کیا تقاضے ہیں، اچھے لوگوں کے ساتھ اس کا رویہ کس قسم کا ہے، اور برے لوگوں کے ساتھ اس کا رویہ کس قسم کا ہے؛ یہ سب یقیناً تیرے لیے مبہم اور غیر واضح ہے۔ اگر تو اس طرح کے دھندلے پن کے درمیان خدا پر یقین رکھتا ہے، تو جب تو سچائی کی پیروی کرنے والوں میں سے ایک ہونے کا دعوٰی کرتا ہے اور خدا کی پیروی کرتا ہے، تو کیا ایسے دعوے حقیقت پر مبنی ہیں؟ وہ نہیں ہیں! اس لیے آ ہم خدا کو جاننے کے بارے میں بات چیت جاری رکھیں۔
تم سب رفاقت کے لیے آج کا موضوع سننے کے لیے بے تاب ہو، درست؟ اس موضوع کا تعلق اس مضمون سے بھی ہے، ”خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے،“ جس پر ہم حال ہی میں بات کرتے رہے ہیں۔ ہم نے اس بارے میں بہت بات کی ہے کہ کس طرح ”خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے،“ مختلف ذرائع اور نقطہ ہائے نظر کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو یہ بتانے کے لیے کہ کس طرح خدا ہر چیز پر حکمرانی کرتا ہے، کن ذرائع سے وہ ایسا کرتا ہے، اور وہ کن اصولوں کے مطابق سب چیزوں کا انتظام کرتا ہے۔ تاکہ وہ اس سیارے پر موجود رہ سکیں جو خدا نے بنایا ہے۔ ہم نے اس بارے میں بھی بہت بات کی ہے کہ خدا نوع انسانی کے لیے کس طرح مہیا کرتا ہے: وہ کن ذرائع سے اس طرح کا رزق دیتا ہے، وہ لوگوں کو زندہ رہنے کے لیے کس طرح کے ماحول فراہم کرتا ہے، اور کن ذرائع سے اور آغاز کے کون سے نکات سے وہ انسان کے لیے رہنے کا ایک مستحکم ماحول فراہم کرتا ہے۔ اگرچہ میں نے تمام چیزوں پر خدا کے قبضے اور اس کے نظم و نسق اور اس کے انتظام کے درمیان تعلق کے بارے میں براہ راست بات نہیں کی، لیکن میں نے بالواسطہ طور پر ان وجوہات کے بارے میں بات کی ہے کہ جن سے وہ تمام چیزوں کا انتظام اس طرح سے کرتا ہے، نیز ان وجوہات کی بھی بات کی ہے جو وہ اس انداز میں نوع انسانی کو فراہم کرتا ہے اور اس کی پرورش کرتا ہے۔ ان سب کا تعلق اس کے انتظام سے ہے۔ ہم نے جس مواد پر بات کی ہے وہ بہت وسیع رہا ہے: خرد ماحول سے لے کر بہت چھوٹی چیزوں جیسے لوگوں کی بنیادی ضروریات اور خوراک تک؛ خدا کس طرح ہر چیز پر حکمرانی کرتا ہے اور ان کو منظم انداز میں چلانے کا سبب بنتا ہے، سے لے کر، اس نے ہر نسل کے لوگوں کے لیے رہنے کا صحیح اور مناسب ماحول پیدا کیا ہے تک؛ وغیرہ۔ یہ وسیع مواد تمام اس بات سے متعلق ہے کہ انسان کس طرح جسم میں رہتے ہیں – یعنی یہ سب مادّی دنیا کی چیزوں سے متعلق ہے جو عام آنکھ سے نظر آتی ہیں اور جنہیں لوگ محسوس کر سکتے ہیں، جیسے پہاڑ، دریا، سمندر، میدان وغیرہ۔ یہ تمام چیزیں وہ ہیں جو دیکھی اور چھوئی جا سکتی ہیں۔ جب میں ہوا اور درجہ حرارت کی بات کرتا ہوں تو تم اپنی سانس کو ہوا کے وجود کو براہ راست محسوس کرنے کے لیے، اور یہ محسوس کرنے کے لیے کہ درجہ حرارت زیادہ ہے یا کم، اپنے جسم کو استعمال کر سکتے ہو۔ جنگلوں میں درخت، گھاس، پرندے اور درندے، ہوا میں اڑنے والی اور زمین پر چلنے والی چیزیں اور بلوں سے نکلنے والے چھوٹے چھوٹے جانور، یہ سب لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اور اپنے کانوں سے سن سکتے ہیں۔ اگرچہ ان تمام چیزوں کا دائرہ بہت وسیع ہے، لیکن خدا کی تخلیق کردہ تمام چیزوں میں سے، وہ صرف مادّی دنیا کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مادّی چیزیں وہ ہوتی ہیں جو لوگ دیکھ اور محسوس کر سکتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تو انھیں چھوتا ہے تو تُو انھیں محسوس کرتا ہے، اور جب تیری آنکھیں انھیں دیکھتی ہیں تو تیرا دماغ تجھے ایک شبیہہ، ایک تصویر پیش کرتا ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو حقیقی اور اصلی ہیں؛ تیرے نزدیک وہ خیالی نہیں ہیں، بلکہ ایک شکل رکھتی ہیں۔ وہ مربع یا گول، یا لمبی یا چھوٹی ہو سکتی ہیں، اور ہر چیز تجھے ایک مختلف تاثر دیتی ہے۔ یہ تمام چیزیں تخلیق کے مادّی پہلو کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اور اس طرح، ”سب چیزوں پر خدا کی حاکمیت“ کے فقرے میں ”سب چیزوں“ میں کیا شامل ہے؟ ان میں صرف وہ چیزیں ہی شامل نہیں ہیں جن کو انسان دیکھ اور چھو سکتے ہیں؛ اس کے علاوہ، ان میں وہ سب چیزیں بھی شامل ہیں جو پوشیدہ اور ناقابل ادراک ہیں۔ یہ سب چیزوں پر خدا کا قبضہ ہے کے اصل مطلب میں سے ایک ہے۔ اگرچہ اس طرح کی چیزیں انسانوں سے پوشیدہ اور ان کے لیے ناقابل ادراک ہیں، خدا کے لیے – جب تک کہ وہ اس کی آنکھوں سے دیکھی جا سکتی ہیں اور اس کی حاکمیت کے دائرے میں ہیں – وہ اصل میں موجود ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ وہ خیالی اور ناقابل تصور ہیں، اور اس کے علاوہ انسانوں کے لیے پوشیدہ اور ناقابل ادراک ہیں، خدا کے نزدیک وہ حقیقت میں اور اصل میں موجود ہیں۔ جن پر خدا حکمرانی کرتا ہے یہ ان تمام چیزوں کے درمیان ایک اور دنیا ہے، اور جن تمام چیزوں پر وہ غالب ہے یہ ان کے دائرہ کار کا ایک اور حصہ ہے۔ یہ رفاقت کے لیے آج کا موضوع ہے: خدا کس طرح روحانی دنیا پر حکمرانی کرتا ہے اور اس کا انتظام چلاتا ہے۔ چونکہ یہ موضوع اس بات کا احاطہ کرتا ہے کہ خدا کس طرح تمام چیزوں پر حکمرانی اور ان کا انتظام کرتا ہے، اس لیے اس کا تعلق مادّی دنیا سے باہر کی دنیا سے ہے – روحانی دنیا – اور، اس طرح، اس کو سمجھنا ہمارے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اس مواد کے بارے میں بات کرنے اور سمجھنے کے بعد ہی لوگ حقیقی طور پر ان الفاظ کے حقیقی معنی کو سمجھ سکتے ہیں، ”خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے۔“ یہی وجہ ہے کہ ہم اس موضوع پر بات کرنے جا رہے ہیں؛ اس کا مقصد ”خدا سب چیزوں پر حکمرانی کرتا ہے، اور خدا ہر چیز کا انتظام کرتا ہے“ کے مضمون کو مکمل کرنا ہے۔ شاید، جب تم اس موضوع کو سنو، تو یہ تمہیں عجیب یا ناقابلِ فہم محسوس ہو، لیکن چاہے تم جو بھی محسوس کرتے ہو، چونکہ روحانی دنیا ان تمام چیزوں کا ایک حصہ ہے جن پر خدا کی حکمرانی ہے، اس لیے تمہیں اس موضوع کی کچھ سمجھ بوجھ لازمی حاصل کرنی چاہیے۔ ایک بار جب تم حاصل کر لیتے ہو تو تمہیں اس فقرے کا گہرا احساس، سمجھ بوجھ اور علم حاصل ہو جائے گا، ”خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے۔“
خدا کس طرح روحانی دنیا پر حکمرانی اور اس کا انتظام کرتا ہے
مادّی دنیا کے لیے، جب بھی لوگ کچھ چیزوں یا مظاہر کو نہیں سمجھ پاتے، تو وہ متعلقہ معلومات تلاش کر سکتے ہیں یا ان چیزوں کی اصلیت اور پس منظر جاننے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن جب بات دوسری دنیا کی ہو جس کے بارے میں آج ہم بات کر رہے ہیں – روحانی دنیا، جو مادّی دنیا سے باہر موجود ہے – تو لوگوں کے پاس بالکل کوئی طریقہ یا ذریعہ نہیں ہے جس سے اس کے بارے میں کچھ سیکھ سکیں۔ میں یہ کیوں کہتا ہوں؟ میں یہ اس لیے کہتا ہوں کہ نوع انسانی کی دنیا میں، مادّی دنیا کی ہر چیز انسان کے جسمانی وجود سے ناقابلِ علیحدگی ہے، اور چونکہ لوگ محسوس کرتے ہیں کہ مادّی دنیا کی ہر چیز ان کے جسمانی طور پر رہنے اور جسمانی زندگی سے لازم و ملزوم ہے، اس لیے زیادہ تر لوگ صرف ان مادّی چیزوں سے واقف ہوتے ہیں، یا دیکھتے ہیں، جو ان کی آنکھوں کے سامنے نظر آتی ہیں۔ تاہم، جب روحانی دنیا کی بات آتی ہے – جس کا مطلب ہے کہ، ہر وہ چیز جو اس دوسری دنیا کی ہے – تو یہ کہنا مناسب ہو گا کہ زیادہ تر لوگ یقین نہیں کرتے۔ کیونکہ لوگ اسے دیکھ نہیں سکتے، اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ اسے سمجھنے یا اس کے بارے میں کچھ جاننے کی ضرورت ہی نہیں ہے، اس بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ روحانی دنیا مادّی دنیا سے کیسے بالکل مختلف دنیا ہے اور، خدا کے نقطہ نظر سے، کھلی ہے – اگرچہ، انسانوں کے لیے، یہ خفیہ اور بند ہے – اس لیے لوگوں کو اس دنیا کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے راستہ تلاش کرنے میں بہت مشکل پیش آتی ہے۔ روحانی دنیا کے مختلف پہلو جن کے بارے میں میں بات کرنے جا رہا ہوں صرف خدا کے انتظام اور حاکمیت سے متعلق ہیں؛ میں کوئی پراسرار چیز ظاہر نہیں کر رہا ہوں اور نہ ہی میں تمہیں کو کوئی ایسا راز بتا رہا ہوں جو تم سیکھنا چاہتے ہو۔ چونکہ یہ خدا کی حاکمیت، خدا کے انتظام اور خدا کے فراہم کرنے سے متعلق ہے، لہذا میں صرف اس حصے کے بارے میں بات کروں گا جس کا جاننا تمھارے لیے ضروری ہے۔
پہلے، میں تم سے ایک سوال پوچھتا ہوں: تمھارے ذہن میں، روحانی دنیا کیا ہے؟ کھل کر بیان کرتے ہوئے، یہ مادّی دنیا سے باہر کی ایک دنیا ہے، جو لوگوں کے لیے پوشیدہ اور ناقابل فہم دونوں ہے۔ تاہم، تمھارے تصور میں، روحانی دنیا کیسی ہونی چاہیے؟ شاید، اسے دیکھنے کے قابل نہ ہونے کے نتیجے میں، تم اس کے بارے میں سوچنے سے قاصر ہو۔ تاہم، جب تم کچھ روایتی قصے سنتے ہو، تب بھی تم اس کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہو، اور تم اس کے بارے میں سوچنا بند نہیں کر سکتے۔ میں ایسا کیوں کہتا ہوں؟ بہت سے لوگ جب چھوٹے ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ کچھ ایسا ہوتا ہے: جب کوئی انھیں خوفناک کہانی سناتا ہے – بھوتوں یا روحوں کے بارے – تو وہ انتہائی خوفزدہ محسوس کرتے ہیں۔ وہ اصل میں ڈرے ہوئے کیوں ہوتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان چیزوں کا تصور کر رہے ہوتے ہیں؛ اگرچہ وہ انھیں دیکھ نہیں سکتے لیکن وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ ان کے کمروں کے گرد ہر طرف موجود ہیں، کسی پوشیدہ یا تاریک کونے میں، اور وہ اتنے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ سونے کی ہمت نہیں کرتے۔ خاص طور پر رات کے وقت، وہ اپنے کمروں میں اکیلے رہنے یا اپنے صحن میں اکیلے جانے سے بہت خوفردہ ہوتے ہیں۔ یہ تمھارے تخیل کی روحانی دنیا ہے، اور یہ ایک ایسی دنیا ہے جسے لوگ خوفناک سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر کوئی اسے کسی حد تک تصور کرتا ہے، اور ہر کوئی اسے تھوڑا تھوڑا محسوس کر سکتا ہے۔
آؤ ہم روحانی دنیا کے بارے میں بات کرتے ہوئے شروع کرتے ہیں۔ یہ کیا ہے؟ میں تمہیں ایک مختصر اور سادہ وضاحت دیتا ہوں: روحانی دنیا ایک اہم مقام ہے، ایک ایسا مقام جو مادّی دنیا سے مختلف ہے۔ میں کیوں کہتا ہوں کہ یہ اہم ہے؟ ہم اس پر تفصیل سے بات کرنے جا رہے ہیں۔ روحانی دنیا کا وجود نوع انسانی کی مادّی دنیا سے پیچیدگی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ یہ انسانی زندگی اور موت کے دور میں ہر چیز پر خدا کے اقتدار میں اہم کردار ادا کرتی ہے؛ یہ اس کا کردار ہے، اور یہ ان وجوہات میں سے ایک وجہ ہے کہ اس کا وجود اہم ہے۔ کیونکہ یہ ایک ایسی جگہ ہے جو حواسِ خمسہ کے لیے ناقابل فہم ہے، اس لیے کوئی بھی صحیح طریقے سے فیصلہ نہیں کر سکتا کہ روحانی دنیا موجود ہے یا نہیں۔ اس کی مختلف حرکات کا انسانی وجود سے گہرا تعلق ہے جس کے نتیجے میں بنی نوع انسان کی زندگی کی ترتیب بھی روحانی دنیا سے بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ کیا اس میں خدا کی حاکمیت شامل ہے یا نہیں؟ یہ شامل ہے۔ جب میں یہ کہتا ہوں تو تم سمجھتے ہو کہ میں اس موضوع پر کیوں بات کر رہا ہوں: اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا تعلق خدا کی حاکمیت کے ساتھ ساتھ اس کے نظم و نسق سے بھی ہے۔ اس جیسی دنیا میں – جو کہ لوگوں کے لیے غیر مرئی ہے – اس کا ہر آسمانی حکم، فرمان اور انتظامی نظام مادّی دنیا کی کسی بھی قوم کے قوانین اور نظاموں سے بہت بلند ہے، اور اس دنیا میں رہنے والا کوئی بھی وجود ان کی مزاحمت یا ان کی خلاف ورزی کرنے کی جرات نہیں کرے گا۔ کیا یہ خدا کی حاکمیت اور انتظام سے متعلق ہے؟ روحانی دنیا میں، واضح انتظامی فرمان، واضح آسمانی احکام، اور واضح سماوی قوانین ہیں۔ مختلف سطحوں اور مختلف علاقوں میں، خدمت گار اپنے فرائض کی سختی سے پابندی کرتے ہیں اور قواعد و ضوابط کی پابندی کرتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آسمانی حکم کی خلاف ورزی کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؛ وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ خدا کس طرح برائی کی سزا دیتا ہے اور بھلائی کا بدلہ دیتا ہے، اور یہ کہ وہ کس طرح سب چیزوں کا انتظام اور ان پر حکمرانی کرتا ہے۔ مزید برآں، وہ واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ وہ کس طرح اپنے آسمانی احکام اور سماوی قوانین کو انجام دیتا ہے۔ کیا یہ انسانیت کی آباد مادّی دنیا سے مختلف ہیں؟ وہ واقعی بہت مختلف ہیں۔ روحانی دنیا ایک ایسی دنیا ہے جو مادّی دنیا سے مکمل طور پر مختلف ہے۔ چونکہ آسمانی احکام اور سماوی قوانین ہیں، اس لیے یہ خدا کی حاکمیت، نظم و نسق اور اس کے علاوہ اس کے مزاج نیز جو کچھ اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، کو بھی مختصراً بیان کرتے ہیں۔ یہ سن کر، کیا تم محسوس نہیں کرتے کہ میرے لیے اس موضوع پر بات کرنا بہت ضروری ہے؟ کیا تم اس میں موجود اسرار کو نہیں جاننا چاہتے؟ (ہاں، ہم چاہتے ہیں)۔ روحانی دنیا کا تصور ایسا ہے۔ اگرچہ یہ مادّی دنیا کے ساتھ موجود ہے، اور بیک وقت خدا کے نظم و نسق اور اقتدار کے تابع ہے، لیکن اس دنیا کا خدا کا نظم و نسق اور اقتدار مادّی دنیا سے کہیں زیادہ سخت ہے۔ جب تفصیلات کی بات آتی ہے تو ہمیں اس بات سے آغاز کرنا چاہیے کہ روحانی دنیا بنی نوع انسان کی زندگی اور موت کے دور کے کام کے لیے کس طرح ذمہ دار ہے، کیونکہ یہ روحانی دنیا کی مخلوقات کے کام کا ایک بڑا حصہ ہے۔
بنی نوع انسان میں، میں تمام لوگوں کی تین اقسام میں درجہ بندی کرتا ہوں۔ سب سے پہلے بے دین ہیں، یہ وہ ہیں جو مذہبی عقائد کے بغیر ہیں۔ وہ بے دین کہلاتے ہیں۔ بے دینوں کی غالب اکثریت صرف پیسے پر یقین رکھتی ہے؛ وہ صرف اپنے مفادات کو برقرار رکھتے ہیں، مادّہ پرست ہیں، اور صرف مادّی دنیا پر یقین رکھتے ہیں – وہ زندگی اور موت کے دور میں، یا دیوتاؤں اور بھوتوں کے بارے میں کہی گئی کسی بات پر یقین نہیں رکھتے۔ میں ان لوگوں کی درجہ بندی بے دینوں کے طور پر کرتا ہوں، اور یہ پہلی قسم کے لوگ ہیں۔ دوسری قسم میں بے دینوں کے علاوہ مختلف اہل ایمان شامل ہیں۔ نوع انسانی میں، میں ان اہل ایمان کو کئی بڑے گروہوں میں تقسیم کرتا ہوں: پہلے یہودی ہیں، دوسرے کیتھولک ہیں، تیسرے عیسائی ہیں، چوتھے مسلمان ہیں، اور پانچویں بدھ مت کے ماننے والے ہیں؛ پانچ اقسام ہیں۔ یہ اہل ایمان کی مختلف اقسام ہیں۔ تیسری قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جو خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور اس میں تم بھی شامل ہو۔ ایسے اہل ایمان وہ ہیں جو آج خدا کی پیروی کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے: خدا کے چنے ہوئے لوگ اور خدمت گار۔ ان اہم اقسام میں واضح طور پر فرق کیا گیا ہے۔ اس طرح، اب تم اپنے ذہنوں میں انسانوں کی اقسام اور درجہ بندی کے درمیان واضح طور پر فرق کر سکتے ہو، کیا تم نہیں کر سکتے؟ پہلی قسم بے دینوں پر مشتمل ہے اور میں نے کہا ہے کہ وہ کیا ہیں۔ کیا آسمان میں بوڑھے آدمی پر ایمان رکھنے والے بے دین شمار ہوتے ہیں؟ بہت سے بے دین صرف آسمان میں بوڑھے آدمی پر یقین رکھتے ہیں؛ ان کا ماننا ہے کہ ہوا، بارش، گرج وغیرہ سب کچھ اس ہستی کے کنٹرول میں ہے جس پر وہ فصلوں کی کاشت اور کٹائی کے لیے انحصار کرتے ہیں – پھر بھی جب خدا پر ایمان کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ اس پر ایمان لانے کو تیار نہیں ہوتے۔ کیا اسے ایمان لانا کہا جا سکتا ہے؟ ایسے لوگ بے دینوں میں شامل ہیں۔ تم یہ سمجھتے ہو، درست؟ ان درجہ بندیوں میں غلطی نہ کرو۔ دوسری قسم میں اہل ایمان شامل ہیں اور تیسری قسم میں وہ لوگ ہیں جو اس وقت خدا کی پیروی کر رہے ہیں۔ پھر کیوں، میں نے تمام انسانوں کو ان اقسام میں تقسیم کیا ہے؟ (کیونکہ مختلف قسم کے لوگوں کے انجام اور منزلیں مختلف ہوتی ہیں)۔ یہ اس کا ایک پہلو ہے۔ جب یہ مختلف نسلوں اور مختلف قسم کے لوگ روحانی دنیا میں واپس آتے ہیں تو ان میں سے ہر ایک کے جانے کے لیے الگ جگہ ہوگی اور وہ زندگی اور موت کے دور کے مختلف قوانین کے تابع ہوں گے، اسی لیے میں نے انسانوں کو ان بڑی اقسام میں تقسیم کیا ہے۔
ا۔ بے دینوں کی زندگی اور موت کا دور
آؤ بے دینوں کی زندگی اور موت کے دور سے شروع کرتے ہیں۔ مرنے کے بعد، روحانی دنیا کا ایک خدمت گار ایک شخص کو لے جاتا ہے۔ ایک شخص کی بالکل کیا چیز لے جائی جاتی ہے؟ کسی کے جسم کو نہیں بلکہ روح کو لے جایا جاتا ہے۔ جب کسی کی روح لے جائی جاتی ہے، تو وہ ایک ایسی جگہ پہنچتی ہے جو روحانی دنیا کا ایک ادارہ ہے جو خاص طور پر ان لوگوں کی روحوں کو حاصل کرتا ہے جو ابھی ابھی فوت ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ وہ پہلی جگہ ہے جہاں کوئی بھی مرنے کے بعد جاتا ہے، جو روح کے لیے عجیب ہے۔ جب اسے اس جگہ لے جایا جاتا ہے، تو ایک اہلکار اس کا نام، پتہ، عمر اور اس کے تمام تجربات کی تصدیق کرتے ہوئے سب سے پہلے ابتدائی معائنہ کرتا ہے۔ ہر وہ کام جو اس نے زندہ رہتے ہوئے کیا وہ ایک کتاب میں درج ہوتا ہے اور اس کی درستی کی تصدیق کی جاتی ہے۔ اس سب کے معائنے کے بعد، اس شخص کے طرز عمل اور اس کے زندگی بھر کے اعمال کو اس بات کا تعین کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ آیا اسے سزا دی جائے گی یا بطور انسان دوبارہ جنم لیتا رہے گا، جو کہ پہلا مرحلہ ہے۔ کیا یہ پہلا مرحلہ خوفناک ہے؟ یہ زیادہ خوفناک نہیں ہے، کیونکہ صرف ایک چیز جو واقع ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ شخص ایک تاریک اور انجان جگہ پر پہنچ گیا ہے۔
دوسرے مرحلے میں، اگر اس شخص نے اپنی پوری زندگی میں بہت سے برے کام کیے ہوں اور بہت سے خبیث کاموں کا مرتکب ہوا ہو، تو اس سے نمٹنے کے لیے اسے سزا کی جگہ پر لے جایا جائے گا۔ یہ وہ جگہ ہو گی جسے واضح طور پر لوگوں کی سزا کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ ان کو کس طرح سزا دی جاتی ہے اس کی تفصیلات کا انحصار ان گناہوں پر ہے جو انہوں نے کیے ہوتے ہیں، نیز انہوں نے مرنے سے پہلے کتنے برے کام کیے تھے – یہ پہلی صورت حال ہے جو اس دوسرے مرحلے میں واقع ہوتی ہے۔ اُن بُرے کاموں کی وجہ سے جو اُنہوں نے کیے اور برائی جس کے وہ مرنے سے پہلے مرتکب ہوئے تھے، جب وہ اپنی سزا کے بعد دوبارہ جنم لیتے ہیں – جب وہ ایک بار پھر مادّی دنیا میں پیدا ہوتے ہیں – تو کچھ لوگ انسان ہی رہیں گے، جبکہ دوسرے جانور بن جائیں گے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص روحانی دنیا میں واپس آجاتا ہے، تو اسے اس کی اس برائی کی وجہ سے سزا دی جاتی ہے جس کا وہ مرتکب ہوا ہو؛ اِس کے علاوہ، اُن خبیث کاموں کی وجہ سے جو اس نے کیے ہوں۔ اپنے اگلے جنم میں وہ شاید ایک انسان کے طور پر نہیں بلکہ ایک جانور کے طور پر واپس آئے گا۔ جانوروں کا وہ سلسلہ جو وہ بن سکتا ہے ان میں گائے، گھوڑے، سؤر اور کتے شامل ہیں۔ کچھ لوگ پرندوں، بطخوں یا ہنس کے طور پر دوبارہ جنم لے سکتے ہیں۔۔۔۔ جانوروں کے طور پر دوبارہ جنم لینے کے بعد، جب وہ دوبارہ مرتے ہیں، تو وہ روحانی دنیا میں واپس آجائیں گے۔ وہاں، پہلے کی طرح، ان کی موت سے پہلے کے طرز عمل کی بنیاد پر، روحانی دنیا فیصلہ کرے گی کہ آیا وہ انسانوں کے طور پر دوبارہ جنم لیتے ہیں یا نہیں۔ زیادہ تر لوگ بہت زیادہ برائی کرتے ہیں، اور ان کے گناہ بہت سنگین ہوتے ہیں، اس لیے انھیں سات سے بارہ مرتبہ جانوروں کی شکل میں جنم لینا پڑتا ہے۔ سات سے بارہ مرتبہ – کیا یہ خوفناک نہیں ہے؟ (یہ خوفناک ہے)۔ تمہیں کیا خوف زدہ کرتا ہے؟ ایک شخص کا جانور بننا – یہ خوفناک ہے۔ اور ایک شخص کے لیے، جانور بننے کے بارے میں سب سے زیادہ تکلیف دہ چیزیں کیا ہیں؟ زبان کا نہ ہونا، صرف سادہ خیالات کا ہونا، صرف وہ کام کرنے کے قابل ہونا جو جانور کرتے ہیں اور وہ خوراک کھانا جو جانور کھاتے ہیں، ایک جانور کی سادہ ذہنیت اور جسمانی حرکات و سکنات کا ہونا، سیدھا چلنے کے قابل نہ ہونا، انسانوں سے بات چیت کرنے کے قابل نہ ہونا، اور یہ حقیقت کہ انسانوں کے کسی بھی رویے یا سرگرمی کا جانوروں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ یعنی تمام چیزوں کے درمیان، جانور ہونا تمہیں تمام جانداروں میں سب سے پست بنا دیتا ہے اور اس میں انسان ہونے کے مقابلے میں بہت زیادہ تکلیفیں شامل ہوتی ہیں۔ یہ ان کے لیے روحانی دنیا کی سزا کا ایک پہلو ہے جنہوں نے بہت زیادہ برائیاں کی ہوتی ہیں اور بڑے گناہوں کے مرتکب ہوئے ہوتے ہیں۔ جب ان کی سزا کی شدت کی بات آتی ہے تو اس کا فیصلہ اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کس قسم کا جانور بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر، کیا سؤر ہونا کتے سے بہتر ہے؟ کیا سؤر کتے سے بہتر زندگی گزارتا ہے یا بدتر؟ بدتر، درست؟ اگر لوگ گائے یا گھوڑے بن جائیں تو کیا وہ سؤر کی زندگی سے بہتر زندگی گزاریں گے یا بدتر؟ (بہتر)۔ کیا ایک شخص بلی کے طور پر دوبارہ پیدا ہونے میں زیادہ پرسکون ہو گا؟ وہ بالکل ویسا ہی ایک جانور ہو گا، اور بلی بننا گائے یا گھوڑا بننے سے کہیں زیادہ آسان ہو گا، کیونکہ بلیاں اپنا زیادہ تر وقت بےعمل سونے میں ہی گزارتی ہیں۔ گائے یا گھوڑا بننا زیادہ محنت طلب ہوتا ہے۔ اس لیے، اگر کوئی شخص گائے یا گھوڑے کے طور پر دوبارہ جنم لیتا ہے، تو اسے سخت محنت کرنی پڑتی ہے – جو کہ سخت سزا کے مترادف ہے۔ کتا بننا گائے یا گھوڑا بننے سے تھوڑا بہتر ہوگا، کیونکہ کتے کا اپنے مالک سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ کچھ کتے، کئی سالوں تک پالتو رہنے کے بعد، ان بہت سی باتوں کو سمجھنے کے قابل ہو جاتے ہیں جو ان کے آقا کہتے ہیں۔ بعض اوقات، کتا اپنے آقا کی کیفیت اور ضروریات کے مطابق ڈھل سکتا ہے اور آقا کتے کے ساتھ بہتر سلوک کرتا ہے، اور کتا بہتر کھاتا پیتا ہے، اور جب وہ تکلیف میں ہوتا ہے تو اس کی زیادہ دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ کیا پھر کتا خوشگوار زندگی سے لطف اندوز نہیں ہوتا؟ اس طرح کتا ہونا گائے یا گھوڑا ہونے سے بہتر ہے۔ اس میں، کسی شخص کی سزا کی شدت اس بات کا تعین کرتی ہے کہ انسان کتنی بار جانور کے طور پر دوبارہ جنم لیتا ہے، نیز کس قسم کا۔
چونکہ یہ زندہ رہتے ہوئے بہت سے گناہوں کے مرتکب ہوئے تھے، اس لیے کچھ لوگوں کو سات سے بارہ زندگیوں میں جانوروں کے طور پر دوبارہ جنم لینے کی سزا دی جاتی ہے۔ کافی بار سزا بھگتنے کے بعد، روحانی دنیا میں واپس آنے پر، انھیں کہیں اور لے جایا جاتا ہے – ایک ایسی جگہ جہاں مختلف روحوں کو پہلے ہی سزا دی جا چکی ہوتی ہے اور وہ اس قسم کی ہوتی ہیں جو انسانوں کے طور پر دوبارہ جنم لینے کی تیاری کر رہی ہوتی ہیں۔ اس مقام پر، ہر روح کی قسم کے لحاظ سے درجہ بندی کی جاتی ہے کہ وہ کس قسم کے خاندان میں پیدا ہو گی، دوبارہ جنم لینے کے بعد وہ کس قسم کا کردار ادا کرے گی، وغیرہ۔ مثال کے طور پر، کچھ لوگ اس دنیا میں آتے ہیں تو وہ گلوکار بن جاتے ہیں، اس طرح انھیں گلوکاروں میں رکھا جاتا ہے؛ کچھ لوگ اس دنیا میں آتے ہیں تو کاروباری لوگ بن جائیں گے، اور اس لیے انھیں کاروباری لوگوں میں رکھا جاتا ہے؛ اور اگر کسی نے انسان بننے کے بعد سائنسی محقق بننا ہے، تو پھر اس کو سائنسی محققین میں رکھا جاتا ہے۔ ان کی درجہ بندی کے بعد، ہر ایک کو مختلف وقت اور مقررہ تاریخ کے مطابق بھیج دیا جاتا ہے، بالکل جس طرح آج لوگ ای میل بھیجتے ہیں۔ اس میں زندگی اور موت کا ایک دورر مکمل ہو جائے گا۔ انسان کے روحانی دنیا میں آنے کے دن سے لے کر اس کی سزا کے خاتمے تک، یا جب تک کہ وہ ایک جانور کے طور پر کئی بار دوبارہ جنم لے چکا ہو اور انسان کے طور پر دوبارہ جنم لینے کی تیاری کر رہا ہو، یہ عمل مکمل ہوتا ہے۔
جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جن کو سزا مل جاتی ہے اور جو جانوروں کے طور پر دوبارہ جنم نہیں لیتے، کیا وہ جلد ہی انسانوں کے طور پر جنم لینے کے لیے مادّی دنیا میں بھیجے جائیں گے؟ یا، ان کے انسانوں کے درمیان پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا؟ وہ تعدد کیا ہے جس کے ساتھ یہ ہو سکتا ہے؟ اس پر دنیاوی پابندیاں ہیں۔ روحانی دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ انتہائی درست دنیاوی پابندیوں اور اصولوں کے تابع ہوتا ہے – جن کی اگر میں اعدادوشمار کے ساتھ وضاحت کروں تو تم سمجھ جاؤ گے۔ ان لوگوں کے لیے جو تھوڑی ہی مدت میں دوبارہ جنم لیتے ہیں، جب وہ مر جائیں گے، تو ان کے لیے انسانوں کے طور پر دوبارہ جنم لینے کی تیاری پہلے سے ہی کی جا چکی ہو گی۔ سب سے کم وقت جس میں یہ ہو سکتا ہے تین دن ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے تین مہینے لگتے ہیں، کسی کے لیے تین سال لگتے ہیں، کسی کے لیے تیس سال لگتے ہیں، کچھ کے لیے تین سو سال لگتے ہیں، وغیرہ۔ تو، ان دنیاوی قوانین کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے، اور ان کی خصوصیات کیا ہیں؟ وہ اس بات پر مبنی ہیں کہ مادّی دنیا – انسان کی دنیا – کو ایک روح اور اس کردار پر جو اس روح کو اس دنیا میں ادا کرنا ہوتا ہے، سے کس چیز کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب لوگ عام انسانوں کے طور پر دوبارہ جنم لیتے ہیں، تو ان میں سے اکثر بہت جلد دوبارہ جنم لیتے ہیں، کیونکہ انسان کی دنیا کو ایسے عام لوگوں کی بہت سخت ضرورت ہوتی ہے – اور اس طرح، تین دن بعد، انھیں دوبارہ ایک ایسے خاندان میں بھیج دیا جاتا ہے جو اس سے بالکل مختلف ہوتا ہے جس میں وہ مرنے سے پہلے تھے۔ تاہم، کچھ ایسے بھی ہیں جو اس دنیا میں ایک خاص کردار ادا کرتے ہیں۔ ”خاص“ کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی دنیا میں ان لوگوں کی بہت زیادہ مانگ نہیں ہے؛ ایسا کردار ادا کرنے کے لیے زیادہ لوگوں کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، اس لیے تین سو سال لگ سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، یہ روح ہر تین سو سال میں صرف ایک بار آئے گی، یا یہاں تک کہ ہر تین ہزار سال میں صرف ایک بار آئے گی۔ یہ کیوں ہوتا ہے؟ اس کی وجہ یہ حقیقت ہے کہ تین سو یا تین ہزار سال تک انسان کی دنیا میں ایسے کردار کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے انھیں روحانی دنیا میں کہیں رکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کنفیوشس کو ہی لے لو: اس نے روایتی چینی ثقافت پر گہرا اثر ڈالا تھا، اور اس کی آمد نے اس وقت کے لوگوں کی ثقافت، علم، روایت اور نظریے پر گہرا اثر ڈالا۔ تاہم، ایسے شخص کی ہر دور میں ضرورت نہیں ہوتی ہے، لہذا اسے دوبارہ جنم لینے سے پہلے تین سو یا تین ہزار سال تک انتظار کرتے ہوئے روحانی دنیا میں رہنا پڑا۔ کیونکہ انسان کی دنیا کو کسی ایسے شخص کی ضرورت نہیں تھی، اس لیے اسے بےکار انتظار کرنا پڑا، کیونکہ اس جیسے کردار بہت کم تھے اور اس کے لیے کرنے کو بہت کم کام تھا۔ اس طرح، زیادہ تر وقت اسے روحانی دنیا میں کہیں رکھنا پڑا، بےکار، تاکہ جب انسان کی دنیا کو اس کی ضرورت ہو تو اسے باہر بھیج دیا جائے۔ روحانی دائرے کے اس تعدد کے لیے دنیاوی اصول یہ ہیں جن کے ساتھ زیادہ تر لوگ دوبارہ جنم لیتے ہیں۔ لوگ خواہ عام ہوں یا خاص، روحانی دنیا کے پاس ان کے دوبارہ جنم لینے کے عمل کی کاروئی کے لیے مناسب اصول اور صحیح طریقے ہیں، اور یہ اصول اور عمل کی کاروائیاں خدا کی طرف سے نازل کی گئی ہیں، جن کا فیصلہ یا اختیار کسی خدمت گار یا روحانی دنیا کے کسی وجود کے پاس نہیں ہے۔ تم اب یہ سمجھتے ہو، ٹھیک؟
کسی بھی روح کے لیے، اس کا دوبارہ جنم، اس زندگی میں اس کا کیا کردار ہے، وہ کس خاندان میں پیدا ہوئی ہے، اور اس کی زندگی کیسی ہے، ان چیزوں کا روح کی پچھلی زندگی سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ انسان کی دنیا میں ہر قسم کے لوگ آتے ہیں، اور ان کے ادا کیے جانے والے کرداروں کی طرح ان کے انجام دیے جانے والے کام بھی مختلف ہوتے ہیں۔ اور یہ کون سے کام ہوتے ہیں؟ کچھ لوگ قرض کی ادائیگی کے لیے آئے ہیں: اگر وہ اپنی پچھلی زندگیوں میں دوسروں کے بہت زیادہ مقروض ہوتے ہیں، تو وہ اس زندگی میں ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے آتے ہیں۔ کچھ لوگ، اس دوران، قرض وصول کرنے کے لیے آئے ہیں: ان کی پچھلی زندگیوں میں ان سے بہت سی چیزوں میں اور بہت زیادہ رقم کا دھوکا کیا گیا تھا؛ نتیجے کے طور پر، ان کے روحانی دنیا میں پہنچنے کے بعد، یہ انھیں انصاف فراہم کرتا ہے اور انھیں اس زندگی میں اپنے قرضے وصول کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ کچھ لوگ شکرگزاری کا قرض چکانے آئے ہیں: پچھلی زندگی کے دوران – یعنی ان کا پچھلے جنم میں – کوئی ان پر مہربان تھا، اور اس زندگی میں دوبارہ جنم لینے کا عظیم موقع ملنے کی وجہ سے، وہ شکرگزاری کے ان قرضوں کو چکانے کے لیے دوبارہ جنم لیتے ہیں۔ اس دوران دیگر لوگ، زندگیوں کا دعویٰ کرنے کے لیے اس زندگی میں دوبارہ پیدا ہوئے ہیں۔ اور وہ کس کی زندگی پر دعویٰ کرتے ہیں؟ وہ ان لوگوں کی زندگیوں پر دعویٰ کرتے ہیں جنہوں نے انھیں ان کی پچھلی زندگیوں میں مارا تھا۔ خلاصہ یہ کہ ہر شخص کی موجودہ زندگی اس کی سابقہ زندگی سے مضبوط تعلق رکھتی ہے؛ یہ تعلق منقطع نہیں ہو سکتا ہے. کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کی موجودہ زندگی پچھلی زندگی سے بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، ہم یہ کہتے ہیں کہ مرنے سے پہلے، ژانگ نے لی سے ایک بڑی رقم دھوکے سے لے لی۔ کیا ژانگ پھر لی کا مقروض ہے؟ وہ ہے، تو کیا پھر یہ فطری ہے کہ لی کو ژانگ سے اپنا قرض وصول کرنا چاہیے؟ نتیجے کے طور پر، ان کے مرنے کے بعد، ان کے درمیان ایک قرض ہے جسے ادا کرنا ضروری ہے. جب وہ دوبارہ جنم لیتے ہیں اور ژانگ انسان بن جاتا ہے، تو لی اس سے اپنا قرض کیسے وصول کرتا ہے؟ ایک طریقہ یہ ہے کہ ژانگ کے بیٹے کے طور پر دوبارہ جنم لیا جائے؛ ژانگ ایک بڑی رقم کماتا ہے، جو بعد میں لی ضائع کر دیتا ہے۔ چاہے ژانگ کتنی ہی رقم کماتا ہے، اس کا بیٹا لی اسے ضائع کر دیتا ہے۔ چاہے ژانگ کتنا ہی کما لے، یہ کبھی بھی کافی نہیں ہوتا ہے؛ اور اس دوران، اس کا بیٹا، کسی وجہ سے، ہمیشہ مختلف طریقوں سے اپنے والد کے پیسے خرچ کر دیتا ہے۔ ژانگ حیرت زدہ ہے، سوچتا ہے ”میرا یہ بیٹا ہمیشہ ایسی بد نصیبی کیوں لاتا ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ دوسرے لوگوں کے بیٹے اتنے مہذب ہوتے ہیں؟ میرے اپنے بیٹے کی کوئی امنگ کیوں نہیں ہے، وہ اتنا بےفائدہ اور کوئی پیسہ نہ کمانے کے قابل کیوں ہے، اور مجھے ہمیشہ اس کی مدد کیوں کرنی پڑتی ہے؟ چونکہ مجھے اس کی مدد کرنی ہے، میں کروں گا – لیکن ایسا کیوں ہے کہ میں اسے چاہے جتنا بھی پیسہ دوں، اسے ہمیشہ اس سے بھی زیادہ کی ضرورت ہوتی ہے؟ وہ ایک دن بھی ایمان داری سے کام کرنے سے کیوں قاصر ہے، اور اس کی بجائے ہر قسم کے کام کرتا ہے جیسے کہ آوارہ گھومنا، کھانا، پینا، بدکاری اور شرطیں لگانا؟ آخر یہ ہو کیا رہا ہے؟“ ژانگ پھر کچھ دیر سوچتا ہے، ”یہ ہو سکتا ہے کہ میں اس کا پچھلی زندگی میں مقروض ہوں۔ تو پھر ٹھیک ہے، میں اسے ادا کروں گا! یہ اس وقت تک ختم نہیں ہو گا جب تک میں مکمل ادائیگی نہیں کر دیتا!“ وہ دن بھی آسکتا ہے جب لی واقعی اپنا قرض وصول کر چکا ہو، اور جب وہ چالیس یا پچاس کی دہائی میں ہو، تو ہو سکتا ہے وہ اچانک ہوش میں آ جائے، اور یہ احساس کرے، ”میں نے اپنی زندگی کے پہلے نصف میں ایک بھی اچھا کام نہیں کیا ہے! میں نے اپنے والد کی کمائی ہوئی تمام دولت ضائع کر دی ہے، اس لیے مجھے ایک اچھا انسان بننا شروع کر دینا چاہیے! میں خود کو مضبوط کروں گا؛ میں ایماندار اور صحیح طریقے سے زندگی گزارنے والا شخص بنوں گا، اور میں دوبارہ کبھی اپنے والد کو تکلیف نہیں دوں گا!“ وہ ایسا کیوں سوچتا ہے؟ وہ بہتر بننے کے لیے اچانک کیوں بدل جاتا ہے؟ کیا اس کی کوئی وجہ ہے؟ کیا وجہ ہے؟ (اس کی وجہ یہ ہے کہ لی نے اپنا قرض وصول کر لیا ہے؛ ژانگ نے اپنا قرض ادا کر دیا ہے)۔ اس میں وجہ اور اثر ہے۔ کہانی ان کی موجودہ زندگی سے بہت پہلے، بہت پہلے شروع ہوئی تھی؛ ان کی پچھلی زندگیوں کی یہ کہانی موجودہ وقت میں لائی گئی ہے، اور کوئی بھی دوسرے کو الزام نہیں دے سکتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ژانگ نے اپنے بیٹے کو کیا سکھایا، اس کے بیٹے نے کبھی عمل نہیں کیا اور نہ ہی ایک دن بھی ایمانداری سے کام کیا۔ لیکن پھر جس دن قرض چکا دیا گیا، اس کے بیٹے کو سکھانے کی ضرورت نہیں تھی – وہ فطری طور پر سمجھ گیا۔ یہ ایک سادہ سی مثال ہے۔ کیا ایسی کئی مثالیں ہیں؟ (ہاں، موجود ہیں)۔ یہ لوگوں کو کیا بتاتا ہے؟ (کہ انھیں نیک ہونا چاہیے اور برائی نہیں کرنی چاہیے)۔ کہ انھیں کوئی برائی نہیں کرنی چاہیے، اور یہ کہ ان کے برے کاموں کا بدلہ ملے گا! اکثر ایمان نہ رکھنے والے بہت زیادہ برائیاں کرتے ہیں اور ان کے برے کاموں کا بدلہ دیا جاتا ہے، ٹھیک ہے؟ تاہم، کیا ایسا بدلہ من مانا ہوتا ہے؟ ہر عمل کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہوتا ہے اور اس کے بدلے کی وجہ بھی ہوتی ہے۔ جب تو کسی سے دھوکے سے رقم لے لیتا ہے تو کیا تو یہ سوچتا ہے کہ تیرے ساتھ کچھ نہیں ہو گا؟ کیا تو یہ سوچتا ہے کہ دھوکے سے اس رقم کو ہتھیانے کے بعد، تجھے کسی نتائج کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا؟ ایسا ناممکن ہو گا؛ یقیناً اس کے نتائج ہوں گے! قطع نظر اس کے کہ وہ کون ہیں یا وہ مانتے ہیں کہ خدا ہے یا نہیں، تمام افراد کو اپنے رویے کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے اور اپنے اعمال کے نتائج کو برداشت کرنا چاہیے۔ اس سادہ مثال کے حوالے سے – ژانگ کو سزا دی جا رہی ہے، اور لی کو ادائیگی کی جا رہی ہے – کیا یہ منصفانہ نہیں ہے؟ جب لوگ ایسے کام کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے۔ یہ روحانی دنیا کے نظم و نسق سے الگ نہیں ہو سکتا ہے۔ ان کے ایمان نہ رکھنے والے ہونے کے باوجود، جو لوگ خدا کو نہیں مانتے ان کا وجود اس قسم کے آسمانی احکام اور فرامین کے تابع ہے۔ کوئی بھی ان سے فرار نہیں ہو سکتا اور کوئی بھی اس حقیقت سے نہیں بچ سکتا۔
جو لوگ ایمان نہیں رکھتے وہ اکثر اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انسانوں کو نظر آنے والی ہر چیز موجود ہے، جب کہ ہر وہ چیز جو نظر نہیں آ سکتی، یا جو لوگوں سے بہت دور ہے، موجود نہیں ہے۔ وہ اس بات پر یقین کرنے کو ترجیح دیتے ہیں کہ ”زندگی اور موت کا کوئی دور“ نہیں ہے، اور یہ کہ کوئی ”سزا“ نہیں ہے؛ اس طرح، وہ بغیر کسی خلش کے گناہ اور برائی کرتے ہیں۔ اس کے بعد، انھیں سزا دی جاتی ہے، یا وہ جانوروں کے طور پر دوبارہ جنم لیتے ہیں۔ ایمان نہ رکھنے والوں میں سے اکثر مختلف قسم کے لوگ اس شیطانی دائرے میں آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ روحانی دنیا تمام جانداروں کا نظم و نسق کرنے میں سخت گیر ہے۔ چاہے تو یقین کرے یا نہیں لیکن یہ حقیقت موجود ہے، کیونکہ کوئی ایک شخص یا چیز بھی اس کے دائرہ کار سے نہیں بچ سکتی جسے خدا اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے، اور کوئی ایک شخص یا چیز بھی اس کے آسمانی احکام اور فرامین کے اصولوں اور حدود سے نہیں بچ سکتی۔ اس طرح، یہ سادہ سی مثال سب کو بتاتی ہے کہ چاہے تو خدا پر ایمان لائے یا نہ لائے، گناہ کرنا اور برائی کرنا ناقابل قبول ہے، اور یہ کہ تمام اعمال کے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ جب کسی ایسے شخص کو سزا دی جائے جس نے کسی دوسرے سے دھوکے سے رقم لی ہو تو ایسی سزا منصفانہ ہے۔ اس طرح کے عام طور پر نظر آنے والے رویے کو روحانی دنیا میں سزا دی جاتی ہے، اور اس طرح کی سزا خدا کے احکام اور آسمانی فرامین کے ذریعے دی جاتی ہے۔ لہٰذا، سنگین مجرمانہ اور خبیثانہ رویہ – عصمت دری اور لوٹ مار، دھوکا دہی اور فریب کاری، چوری اور ڈکیتی، قتل اور آتش زنی وغیرہ – اور بھی مختلف شدت کی سزاؤں کے تابع ہیں۔ مختلف شدت کی ان سزاؤں میں کیا شامل ہے؟ ان میں سے کچھ وقت کا استعمال کرتے ہوئے شدت کی سطح کو قائم کرتے ہیں، جبکہ کچھ مختلف طریقوں سے ایسا کرتے ہیں؛ پھر بھی دوسرے لوگ اس بات کا تعین اس سے کرتے ہیں کہ جب لوگ دوبارہ جنم لیتے ہیں تو وہ کہاں جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، کچھ لوگ بد زبان ہوتے ہیں۔ ”بد زبان“ ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے کثرت سے دوسروں کو گالیاں دینا اور بدسلوکی والی زبان استعمال کرنا جو دوسروں کو لعنت ملامت کرتی ہے۔ بدنیتی پر مبنی زبان کا کیا مطلب ہے؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس شخص کا دل بدنیت ہے۔ ایسی بدزبانی جو دوسروں پر لعنت ملامت کرتی ہے اکثر ایسے ہی لوگوں کے منہ سے نکلتی ہے اور ایسی بدزبانی سنگین نتائج کا باعث بنتی ہے۔ ان لوگوں کے مرنے اور مناسب سزا پانے کے بعد، وہ گونگے کے طور پر دوبارہ جنم لے سکتے ہیں۔ کچھ لوگ جیتے جی بہت حساب لگاتے ہیں؛ وہ اکثر دوسروں کا فائدہ اٹھاتے ہیں، ان کے چھوٹے منصوبوں کی خاص طور پر اچھی طرح سے منصوبہ بندی کی ہوئی ہوتی ہے، اور وہ لوگوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ جب وہ دوبارہ پیدا ہوتے ہیں، تو یہ احمق یا ذہنی طور پر معذور افراد کے طور پر ہو سکتے ہیں۔ کچھ لوگ اکثر دوسروں کے نجی کاروبار میں جھانکتے ہیں؛ ان کی آنکھیں بہت کچھ ایسا دیکھتی ہیں جس کا انھیں علم نہیں ہونا چاہیے تھا، اور وہ بہت کچھ ایسا سیکھتے ہیں جو انھیں نہیں جاننا چاہیے۔ نتیجے کے طور پر، جب وہ دوبارہ پیدا ہوتے ہیں، تو وہ اندھے ہو سکتے ہیں. کچھ لوگ جب زندہ ہوتے ہیں تو بہت چست و چالاک ہوتے ہیں۔ وہ اکثر لڑتے ہیں اور بہت کچھ ایسا کرتے ہیں جو برائی ہے۔ اس کی وجہ سے، وہ معذور، لنگڑے، یا ایک بازو سے محروم ہو کر دوبارہ جنم لے سکتے ہیں۔ بصورت دیگر وہ کبڑے بن کر یا اینٹھی ہوئی گردن کے ساتھ دوبارہ جنم لے سکتے ہیں، لنگڑا کے ساتھ چل سکتے ہیں، ایک ٹانگ دوسری سے چھوٹی ہو سکتی ہے، وغیرہ۔ ان میں، ان لوگوں نے زندہ رہتے ہوئے جو برائیاں کیں ان کی بنیاد پر انھیں مختلف سزائیں دی گئی ہیں۔ تم کیوں سوچتے ہو کہ کچھ لوگوں کی آنکھ بھینگی ہوتی ہے؟ کیا ایسے بہت سے لوگ ہیں؟ ان دنوں کافی زیادہ ہیں۔ کچھ لوگوں کی آنکھ بھینگی ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے اپنی سابقہ زندگیوں میں اپنی آنکھوں کا بہت زیادہ استعمال کیا اور بہت سے برے کام کیے ہوتے ہیں، اس لیے وہ اس زندگی میں بھینگی آنکھ کے ساتھ پیدا ہوئے، اور سنگین صورتوں میں وہ اندھے بھی پیدا ہوئے۔ یہ بدلہ ہے! کچھ لوگ اپنی موت سے پہلے دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں؛ وہ اپنے رشتے داروں، دوستوں، ساتھیوں، یا ان سے جڑے لوگوں کے لیے بہت سی اچھے کام کرتے ہیں۔ وہ دوسروں کو خیرات دیتے ہیں اور ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں، یا ان کی مالی مدد کرتے ہیں، اور لوگ ان کے بارے میں بہت احترام سے سوچتے ہیں۔ ایسے لوگ جب روحانی دنیا میں واپس آتے ہیں تو انھیں سزا نہیں ملتی۔ کسی ایمان نہ رکھنے والے کو کسی بھی طرح سے سزا نہ ملنے کا مطلب ہے کہ وہ بہت اچھا انسان تھا۔ خدا کے وجود پر ایمان لانے کی بجائے، وہ صرف آسمان میں موجود بوڑھے انسان پر ایمان رکھتے ہیں۔ ایسا شخص صرف اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اس کے اوپر ایک روح ہے، جو اس کے ہر کام کو دیکھ رہی ہے – یہ شخص جس پر یقین رکھتا ہے وہ صرف یہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہ شخص بہت مہذب ہوتا ہے۔ ایسے لوگ مہربان اور سخی ہوتے ہیں، اور جب وہ بالآخر روحانی دنیا میں واپس آتے ہیں، تو یہ ان کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرے گی، اور وہ جلد ہی دوبارہ جنم لیں گے۔ جب وہ دوبارہ پیدا ہوں گے، تو وہ کس قسم کے خاندانوں میں آئیں گے؟ اگرچہ ایسے خاندان امیر نہیں ہوں گے، لیکن وہ اپنے ارکان کے درمیان ہم آہنگی کے ساتھ، کسی بھی نقصان سے آزاد ہوں گے۔ وہاں، یہ دوبارہ جنم لینے والے لوگ محفوظ، خوشگوار دن گزاریں گے، اور سب خوش ہوں گے اور اچھی زندگی گزاریں گے۔ جب یہ لوگ بالغ ہو جائیں گے، ان کے بڑے خاندان ہوں گے، ان کے بچے باصلاحیت ہوں گے اور کامیابی سے لطف اندوز ہوں گے، اور ان کے خاندان خوش قسمتی سے لطف اندوز ہوں گے – اور اس طرح کے انجام کا ان لوگوں کی ماضی کی زندگیوں سے بہت زیادہ تعلق ہوتا ہے۔ یعنی مرنے کے بعد لوگ کہاں جاتے ہیں اور کہاں دوبارہ جنم لیتے ہیں، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں، وہ زندگی میں کن حالات سے گزریں گے، وہ کن مزاحمتوں کو برداشت کریں گے، وہ کن برکتوں سے لطف اندوز ہوں گے، وہ کس سے ملیں گے، اور ان کے ساتھ کیا ہو گا – کوئی بھی ان چیزوں کی پیشین گوئی نہیں کر سکتا، ان سے بچ نہیں سکتا، یا ان سے چھپ نہیں سکتا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ، ایک بار جب تیری زندگی طے ہو جاتی ہے، تو تیرے ساتھ جو کچھ بھی ہوتا ہے – تو جس بھی طرح یا جس بھی طریقے سے اس سے بچنے کی کوشش کرے – تیرے پاس اس طرز زندگی کی خلاف ورزی کا کوئی طریقہ نہیں ہے جو خدا نے تیرے لیے روحانی دنیا میں مقرر کر دیا ہے۔ کیونکہ جب تو دوبارہ جنم لیتا ہے تو تیری زندگی کی تقدیر پہلے ہی طے ہو چکی ہوتی ہے۔ چاہے وہ اچھی ہو یا بری، ہر ایک کو اس کا سامنا کرنا چاہیے اور آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے اس دنیا میں رہنے والا کوئی بھی نہیں بچ سکتا، اور کوئی مسئلہ اس سے زیادہ حقیقی نہیں ہے۔ تم سب سمجھ گئے ہو جو میں کہتا رہا ہوں، ٹھیک ہے؟
ان باتوں کو سمجھنے کے بعد، کیا تم نے اب دیکھ لیا ہے کہ خدا کے پاس ایمان نہ رکھنے والوں کی زندگی اور موت کے دور کے لیے بہت دقت طلب اور سخت جانچ پڑتال اور نظم و نسق ہے؟ سب سے پہلے، اس نے روحانی دائرے میں مختلف آسمانی احکام، فرامین اور نظام قائم کیے ہیں، اور ایک بار ان کا اعلان ہو جانے کے بعد، خدا کی ترتیب کے مطابق روحانی دنیا میں مختلف سرکاری عہدوں پر موجود مخلوقات ان پر بہت سختی سے عمل کرتی ہے، اور کوئی بھی ان کی خلاف ورزی کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ لہٰذا، انسان کی دنیا میں نوع انسانی کی زندگی اور موت کے دور میں، چاہے کوئی جانور کے طور پر جنم لے یا انسان کے طور پر، دونوں کے لیے قوانین موجود ہیں۔ کیونکہ یہ قوانین خدا کی طرف سے آئے ہیں، نہ کوئی ان کو توڑنے کی جرات کرتا ہے اور نہ ہی کوئی انھیں توڑنے کے قابل ہے۔ یہ صرف خدا کی اس حاکمیت کی وجہ سے ہے، اور چونکہ اس طرح کے قوانین موجود ہیں، اس لیے مادّی دنیا جسے لوگ دیکھتے ہیں وہ باقاعدہ اور منظم ہے؛ یہ صرف خدا کی حاکمیت کی وجہ سے ہے کہ انسان دوسری دنیا کے ساتھ امن کے ساتھ رہنے کے قابل ہیں جو ان کے لیے مکمل طور پر غیر مرئی ہے، اور اس کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ زندگی گزارنے کے قابل ہیں – یہ سب خدا کی حاکمیت سے لازم و ملزوم ہے۔ ایک شخص کی جسمانی زندگی کے مرنے کے بعد، روح پھر بھی زندہ رہتی ہے، اور اگر یہ خدا کے انتظام کے تحت نہ ہو تو کیا ہو گا؟ روح ہر جگہ گھومے گی، ہر جگہ زبردستی جائے گی، اور یہاں تک کہ انسانی دنیا میں موجود جانداروں کو بھی نقصان پہنچائے گی۔ اس طرح کا نقصان نہ صرف بنی نوع انسان کو پہنچے گا بلکہ پودوں اور جانوروں کو بھی پہنچ سکتا ہے – تاہم، سب سے پہلے لوگوں کو نقصان پہنچے گا۔ کیا ایسا ہو – اگر ایسی روح بغیر انتظام کے، حقیقی طور پر لوگوں کو نقصان پہنچائے، اور درحقیقت خبیث کام کرے – تو اس روح سے روحانی دنیا میں بھی مناسب طریقے سے نمٹا جائے گا: اگر چیزیں سنگین ہوں، تو روح جلد ہی ختم ہو جائے گی، اور تباہ ہو جائے گی۔ اگر ممکن ہوا تو، اسے کہیں رکھا جائے گا اور پھر دوبارہ جنم دیا جائے گا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ روحانی دنیا میں مختلف روحوں کا نظم و نسق ترتیب میں ہوتا ہے، اور اسے مرحلوں اور اصولوں کے مطابق انجام دیا جاتا ہے۔ ایسے انتظامات کی وجہ سے ہی انسان کی مادّی دنیا انتشار کا شکار نہیں ہوئی ہے، کہ مادّی دنیا کے انسان ایک عمومی ذہنیت، ایک عمومی عقلیت اور ایک منظم جسمانی زندگی کے مالک ہیں۔ انسانوں کی اس طرح کی معمول کی زندگی کا حامل ہونے کے بعد ہی وہ لوگ جو جسم میں رہتے ہیں نسل در نسل پھل پھول سکیں گے اور اپنی تعداد بڑھا سکیں گے۔
ان الفاظ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جو تم نے ابھی سنے ہیں؟ کیا وہ تمہارے لیے نئے ہیں؟ آج کی رفاقت کے موضوعات نے تمہیں کن تاثرات کے ساتھ چھوڑا ہے؟ ان کے نئے پن کے علاوہ، کیا تمہیں کچھ اور محسوس ہوتا ہے؟ (لوگوں کو مہذب ہونا چاہیے، اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ خدا عظیم ہے اور اس کی تعظیم کی جانی چاہیے)۔ (ابھی خدا کے کلام کو سن کر کہ خدا کس طرح مختلف اقسام کے لوگوں کے انجام کو ترتیب دیتا ہے، ایک لحاظ سے میں محسوس کرتا ہوں کہ اس کا مزاج کسی بھی جرم کی اجازت نہیں دیتا، اور یہ کہ مجھے اس کی تعظیم کرنی چاہیے؛ ایک اور لحاظ سے، میں جانتا ہوں کہ خدا کس قسم کے لوگوں کو پسند کرتا ہے، اور کس قسم کے لوگوں کو پسند نہیں کرتا، اس لیے میں ان میں سے ایک بننا چاہتا ہوں جنہیں وہ پسند کرتا ہے)۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ خدا اس علاقے میں اپنے اصولوں کے متعلق بااصول ہے؟ وہ کون سے اصول ہیں جن پر وہ عمل کرتا ہے؟ (وہ لوگوں کے انجام کو ان کے تمام کاموں کے مطابق طے کرتا ہے)۔ یہ ایمان نہ رکھنے والوں کے مختلف انجاموں کے بارے میں ہے جن کے بارے میں ہم نے ابھی بات کی ہے۔ جب بات ایمان نہ رکھنے والوں کی ہو تو کیا خُدا کے اعمال کے پیچھے اصول یہ ہے کہ اچھے کو انعام دینا ہے اور خبیث کو سزا دینی ہے؟ کیا کوئی مستثنیات ہیں؟ (نہیں)۔ کیا تم دیکھتے ہو کہ خدا کے اعمال کے پیچھے کوئی اصول ہے؟ ایمان نہ رکھنے والے درحقیقت خدا پر یقین نہیں رکھتے اور نہ ہی اس کی ترتیب کے تابع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ اس کی حاکمیت سے بے خبر ہیں، ان کا اسے تسلیم کرنے کا امکان تو اور بھی کم ہے۔ زیادہ سنجیدگی سے، وہ خدا سے گستاخی کرتے ہیں، اور اس پر لعنت بھیجتے ہیں، اور خدا پر ایمان لانے والوں سے دشمنی رکھتے ہیں۔ خدا کی طرف ان کے اس رویے کے باوجود، ان کے بارے میں اس کا انتظام اب بھی اس کے اصولوں سے انحراف نہیں کرتا ہے؛ وہ اپنے اصولوں اور اپنے مزاج کے مطابق ان کو منظم طریقے سے چلاتا ہے۔ وہ ان کی دشمنی کو کیسا سمجھتا ہے؟ جہالت کے طور پر! نتیجے کے طور پر، اس نے ان لوگوں کو – یعنی ایمان نہ رکھنے والوں کی اکثریت – کو ماضی میں جانوروں کے طور پر دوبارہ جنم لینے دیا ہے۔ تو، خُدا کی نظر میں، ایمان نہ رکھنے والے اصل میں کیا ہیں؟ یہ سب حیوان ہیں۔ خدا نوع انسانی کے ساتھ ساتھ حیوانوں کا بھی انتظام کرتا ہے، اور ایسے لوگوں کے لیے اس کے ایک ہی جیسے اصول ہیں۔ یہاں تک کہ اس کے ان لوگوں کے نظم و نسق میں بھی، سب چیزوں پر اس کے تسلط کے پیچھے اس کے قوانین کی طرح اس کا مزاج اب بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اور اس طرح، کیا تم خدا کی حاکمیت کو ان اصولوں میں دیکھتے ہو جن کے ذریعے وہ ایمان نہ رکھنے والوں کا انتظام کرتا ہے جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے؟ کیا تم خُدا کا راستباز مزاج دیکھتے ہو؟ (ہم دیکھتے ہیں)۔ دوسرے الفاظ میں، چاہے وہ تمام چیزوں میں سے کسی بھی چیز سے نمٹے، خدا اپنے اصولوں اور مزاج کے مطابق ہی کام کرتا ہے۔ یہ خدا کا جوہر ہے؛ وہ کبھی بھی اتفاقاً ان فیصلوں یا آسمانی فرامین کے احکام سے تعلق ختم نہیں کرے گا جو اس نے صرف اس لیے مقرر کیے ہیں کہ وہ ایسے لوگوں کو حیوان سمجھتا ہے۔ خدا اصولوں کے مطابق کام کرتا ہے، بےپروائی سے تو ہرگز نہیں، اور اس کے اعمال کسی بھی عنصر سے بالکل متاثر نہیں ہوتے ہیں۔ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے اس میں اپنے اصولوں کی پابندی کرتا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ خُدا خود خدا کے جوہر کا حامل ہے؛ یہ اس کے جوہر کا ایک پہلو ہے جو کسی تخلیق شدہ وجود کے پاس نہیں ہے۔ خدا اپنی تخلیق کردہ تمام چیزوں میں سے ہر شے، انسان اور جاندار کو سنبھالنے، اس کے ساتھ رجوع کرنے، نظم و نسق کرنے، انتظام کرنے اور اس پر حکمرانی کرنے میں بااصول اور ذمہ دار ہے، اور اس میں وہ کبھی بےپروا نہیں رہا ہے۔ جو نیک ہیں، ان کے لیے وہ مہربان اور شفیق ہے؛ جو خبیث ہیں، وہ انھیں بے رحم سزا دیتا ہے؛ اور مختلف جانداروں کے لیے وہ مختلف اوقات میں انسانی دنیا کے مختلف ادوار میں تقاضوں کے مطابق بروقت اور باقاعدگی سے مناسب انتظامات کرتا ہے، اس طرح کہ یہ مختلف جاندار اپنے ادا کیے جانے والے کرداروں کے مطابق ایک منظم انداز میں دوبارہ جنم لیتے ہیں اور ایک طریقہ کار میں مادّی دنیا اور روحانی دنیا کے درمیان ایک باضابطہ انداز میں حرکت کرتے ہیں۔
کسی جاندار کی موت – ایک جسمانی زندگی کا خاتمہ – اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جاندار مادّی دنیا سے روحانی دنیا میں منتقل ہو گیا ہے، جب کہ ایک نئی جسمانی زندگی کی پیدائش اس بات کی علامت ہے کہ ایک جاندار روحانی دنیا سے مادّی دنیا میں آ گیا ہے اور اپنا کردار تسلیم کر کے ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ چاہے وہ کسی وجود کی روانگی ہو یا آمد، دونوں روحانی دنیا کے کام سے الگ نہیں ہیں۔ جب تک کوئی شخص مادّی دنیا میں آتا ہے، خدا کی طرف سے روحانی دنیا میں پہلے سے ہی مناسب انتظامات اور تشریحات قائم ہو چکی ہوتی ہیں کہ وہ شخص کس خاندان میں جائے گا، وہ کس دور میں آئے گا، جس گھڑی آئے گا، اور جو کردار وہ ادا کرے گا۔ اس طرح، اس شخص کی پوری زندگی – جو چیزیں وہ کرتا ہے، اور جو راستہ وہ اختیار کرتا ہے – روحانی دنیا میں کیے گئے انتظامات کے مطابق، ذرا سے بھی انحراف کے بغیر آگے بڑھے گی۔ مزید برآں، جس وقت ایک جسمانی زندگی ختم ہوتی ہے اور جس طریقے اور مقام پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے وہ روحانی دنیا کے لیے واضح اور قابل فہم ہے۔ خدا مادّی دنیا پر حکمرانی کرتا ہے، اور وہ روحانی دنیا پر بھی حکمرانی کرتا ہے، اور وہ کسی روح کی زندگی اور موت کے معمول کے دور میں تاخیر نہیں کرے گا، اور نہ ہی وہ اس دور کے انتظامات میں کبھی کوئی غلطی کر سکتا ہے۔ روحانی دنیا کے سرکاری عہدوں پر خدمت گاروں میں سے ہر ایک اپنے انفرادی کاموں کو انجام دیتا ہے، اور خدا کی ہدایات اور قواعد کے مطابق وہ کام کرتا ہے جو اسے کرنا چاہیے۔ اس طرح، بنی نوع انسان کی دنیا میں، انسان کی طرف سے دیکھے جانے والے ہر مادّی مظہر میں ایک ترتیب ہے، اور اس میں کوئی افراتفری نہیں ہے۔ یہ سب کچھ خدا کی سب چیزوں پر منظم حکمرانی کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کی وجہ سے ہے کہ اس کا اختیار ہر چیز پر حکومت کرتا ہے۔ اس کے اقتدار میں وہ مادّی دنیا شامل ہے جس میں انسان رہتا ہے اور اس کے علاوہ، بنی نوع انسان کے پیچھے غیر مرئی روحانی دنیا بھی شامل ہے۔ لہٰذا، اگر انسان اچھی زندگی گزارنا چاہتے ہیں، اور پوری نظر آنے والی مادّی دنیا فراہم کیے جانے کے ساتھ اچھے ماحول میں رہنے کی امید رکھتے ہیں، تو انھیں روحانی دنیا بھی لازمی فراہم کی جانی چاہیے، جسے کوئی نہیں دیکھ سکتا، جو بنی نوع انسان کی طرف سے ہر جاندار وجود پر حکومت کرتی ہے، اور جو کہ منظم ہے۔ لہٰذا، یہ کہہ کر کہ خدا ہی سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے، کیا ہم نے ”سب چیزوں“ کے بارے میں اپنی آگاہی اور سمجھ بوجھ میں اضافہ نہیں کیا؟ (ہاں)۔
ب۔ مختلف اہل ایمان کی زندگی اور موت کا دور
ہم نے ابھی پہلی قسم کے ایمان نہ رکھنے والوں کی زندگی اور موت کے دور پر بات کی۔ اب ہم دوسری قسم کے مختلف اہل ایمان کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ ”مختلف اہل ایمان کی زندگی اور موت کا دور“ ایک اور بہت اہم موضوع ہے، اور تمہارے لیے اس کی کچھ سمجھ بوجھ حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ سب سے پہلے، ہم بات کرتے ہیں کہ ”اہل ایمان“ میں ”عقیدہ“ سے مراد کون سے عقائد ہیں: یہودیت، مسیحیت، کیتھولک، اسلام اور بدھ مت کے پانچ بڑے مذاہب ہیں۔ ایمان نہ رکھنے والوں کے علاوہ، ان پانچوں مذاہب کو ماننے والے لوگ دنیا کی آبادی کے ایک بڑے حصے پر قابض ہیں۔ ان پانچ مذاہب میں سے وہ لوگ کم ہیں جنہوں نے اپنے عقیدے سے اپنا مستقبل بنایا ہے، پھر بھی ان مذاہب کے پیروکار بہت ہیں۔ جب وہ مریں گے تو ایک مختلف جگہ پر جائیں گے۔ ”مختلف“ کس سے؟ ایمان نہ رکھنے والوں سے – وہ لوگ جن کا کوئی مذہب نہیں ہے – جن کے بارے میں ہم ابھی بات کر رہے تھے۔ ان کے مرنے کے بعد، ان پانچوں مذاہب کے ماننے والے کہیں اور چلے جاتے ہیں، ایمان نہ رکھنے والوں سے کسی مختلف جگہ پر۔ تاہم، یہ اب بھی ایک ہی عمل ہے؛ اسی طرح روحانی دنیا ان سب کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی جو انہوں نے مرنے سے پہلے کیا تھا، جس کے بعد ان پر اسی کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ تاہم، ان لوگوں کو کارروائی کے لیے کسی مختلف مقام پر کیوں بھیجا جاتا ہے؟ اس کی ایک اہم وجہ ہے۔ یہ کیا ہے؟ میں تمہیں ایک مثال کے ساتھ اس کی وضاحت کروں گا۔ تاہم، اس سے پہلے کہ میں وضاحت کروں، تم خود سے سوچ رہے ہو گے: ”شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خدا پر تھوڑا سا ایمان رکھتے ہیں! وہ مکمل کافر نہیں ہیں۔“ تاہم، یہ وجہ نہیں ہے۔ انھیں دوسروں سے الگ رکھنے کی ایک ایک بہت اہم وجہ ہے۔
مثال کے طور پر بدھ مت کو لو۔ میں تمہیں ایک حقیقت بتاؤں گا۔ ایک بدھ مت کا پیروکار، سب سے پہلے، وہ شخص ہے جس نے بدھ مت اختیار کر لیا ہے، اور یہ وہ شخص ہے جو جانتا ہے کہ اس کا عقیدہ کیا ہے۔ جب بدھ مت کے ماننے والے اپنے بال کاٹ کر راہب یا راہبہ بن جاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے خود کو غیر مذہبی دنیا سے الگ کر لیا ہے، انسانی دنیا کے شور کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہر روز، وہ مذہبی کتاب سوترا کی تلاوت کرتے ہیں اور بدھوں کے ناموں کا جاپ کرتے ہیں، صرف سبزیوں پر مشتمل خوراک کھاتے ہیں، درویشوں والی زندگی گزارتے ہیں، اور ان کے دن صرف مکھن کے چراغ کی ٹھنڈی، مدھم روشنی کے ساتھ گزرتے ہیں۔ وہ ساری زندگی اسی طرح گزار دیتے ہیں۔ جب بدھ مت کے پیروکار کی جسمانی زندگی ختم ہو جائے گی، تو وہ اپنی زندگی کا خلاصہ کرے گا، لیکن وہ اپنے دل میں یہ نہیں جانتا ہو گا کہ وہ مرنے کے بعد کہاں جائے گا، وہ کس سے ملے گا، یا اس کا انجام کیا ہو گا: گہرائی میں، اسے ایسی چیزوں کے بارے میں واضح تصور نہیں ہو گا۔ اس نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا ہو گا کہ اپنی ساری زندگی میں آنکھیں بند کر کے ایک قسم کا ایمان رکھا ہو، جس کے بعد وہ اپنی اندھی خواہشات اور آدرشوں سمیت دنیائے انسانی سے کوچ کر جاتا ہے۔ ایک بدھ مت کے پیروکار کی جسمانی زندگی کا خاتمہ اس طرح ہوتا ہے، جب وہ جانداروں کی دنیا چھوڑ جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ روحانی دنیا میں اپنے اصل مقام پر واپس آجاتا ہے۔ آیا یہ شخص زمین پر واپس آنے اور اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی کوششیں جاری رکھنے کے لیے دوبارہ جنم لیتا ہے یا نہیں، اس کا انحصار اس کی موت سے پہلے اس کے رویے اور عمل پر ہے۔ اگر اس نے اپنی زندگی کے دوران کچھ غلط نہیں کیا، تو وہ جلد از جلد دوبارہ جنم لے کر دوبارہ زمین پر بھیجا جائے گا، جہاں یہ شخص ایک بار پھر راہب یا راہبہ بن جائے گا۔ یعنی، وہ اپنی جسمانی زندگی کے دوران اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی کوششوں کی مشق اسی کے مطابق کرتا ہے جو اس نے پہلی بار اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی کوششوں کے لیے مشق کی تھی، اور پھر اپنی جسمانی زندگی کے اختتام کے بعد روحانی دنیا میں واپس آ جاتا ہے، جہاں اس کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد، اگر کوئی مسئلہ نہیں پایا جاتا ہے، تو وہ ایک بار پھر انسانی دنیا میں واپس آ سکتا ہے اور دوبارہ بدھ مت اختیار کر سکتا ہے، اس طرح اپنی مشق کو جاری رکھ سکتا ہے۔ تین سے سات بار دوبارہ جنم لینے کے بعد، وہ ایک بار پھر اسی روحانی دنیا میں واپس آئے گا، جہاں وہ ہر جسمانی زندگی ختم ہونے کے بعد جاتا ہے۔ اگر انسانی دنیا میں اس کی مختلف قابلیتیں اور رویہ روحانی دنیا کے آسمانی احکام کے مطابق رہا ہو تو پھر اس مقام سے آگے وہ وہیں رہے گا؛ وہ اب انسان کے طور پر دوبارہ جنم نہیں لے گا، اور نہ ہی اسے زمین پر برائیوں کی سزا ملنے کا کوئی خطرہ ہو گا۔ اسے پھر کبھی اس عمل سے نہیں گزرنا پڑے گا۔ بلکہ اپنے حالات کے لحاظ سے وہ روحانی دنیا میں کوئی مقام حاصل کر لے گا۔ بدھ مت کے پیروکار اسے ”بدھیت حاصل کرنا“ کہتے ہیں۔ بدھیت کے حصول کا بنیادی مطلب روحانی دنیا کے ایک عہدیدار کے طور پر پھل حاصل کرنا ہے اور اس کے بعد، دوبارہ جنم لینے یا سزا کے خطرے میں نہیں رہنا ہے۔ مزید برآں، اس کا مطلب ہے کہ دوبارہ جنم لینے کے بعد انسان ہونے کے مصائب کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ تو، کیا اب بھی اس کے ایک جانور کے طور پر دوبارہ جنم لینے کا کوئی امکان ہے؟ (نہیں)۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ روحانی دنیا میں اپنا کردار ادا کرتے رہے گا اور اب دوبارہ جنم نہیں لے گا۔ یہ بدھ مت میں بدھیت کے حصول کی ایک مثال ہے۔ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو پھل حاصل نہیں کرتے، روحانی دنیا میں واپسی پر، وہ متعلقہ اہلکار کی جانچ پڑتال اور تصدیق کے تابع ہو جاتے ہیں، جس سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے زندہ رہتے ہوئے بھی تندہی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی کوششوں کی مشق نہیں کی تھی یا مذہبی کتاب سوترا کی تلاوت اور بدھ مت میں بتائے گئے بدھوں کے ناموں کے جاپ میں مخلص نہیں تھے۔ اور اس کی بجائے بہت سے برے کام کیے تھے اور بہت سے خبیثانہ رویوں میں مشغول تھے۔ پھر، روحانی دنیا میں، ان کی برائیوں کے بارے میں فیصلہ کیا جاتا ہے، اور اس کے بعد، ان کو سزا دی جائے گی. اس میں، کوئی استثنا نہیں ہے۔ اس طرح، ایسا شخص کب پھل پا سکتا ہے؟ ایک ایسی زندگی میں جس میں وہ کوئی برائی نہیں کرتا – جب، روحانی دنیا میں واپس آنے کے بعد، یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس نے مرنے سے پہلے کچھ غلط نہیں کیا۔ اس کے بعد وہ دوبارہ جنم لینا جاری رکھتا ہے، مذہبی کتاب سوترا کی تلاوت اور بدھوں کے ناموں کا جاپ کرتے ہوئے، مکھن کے چراغ کی سرد، مدھم روشنی کے ساتھ اپنے دن گزارتا ہے، کسی بھی جاندار کو مارنے یا گوشت کھانے سے پرہیز کرتا ہے۔ وہ انسانی دنیا میں حصہ نہیں لیتا، اس کی پریشانیوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیتا ہے اور دوسروں سے کوئی جھگڑا نہیں کرتا۔ اس عمل میں، اگر اس نے کوئی برائی نہیں کی ہے، تو پھر جب وہ روحانی دنیا میں واپس آتا ہے اور اس کے تمام اعمال اور طرز عمل کا جائزہ لیا جاتا ہے، تو اسے ایک بار پھر انسانی دنیا میں بھیج دیا جاتا ہے، ایک دور میں جو تین سے سات تک جاری رہتا ہے۔ اگر اس دوران کوئی نامعقول حرکات نہیں ہوتی ہیں، تو اس کا بدھیت کا حصول غیر متاثر رہے گا، اور اس میں تاخیر نہیں ہو گی۔ یہ تمام اہلِ ایمان لوگوں کی زندگی اور موت کے دور کی ایک خصوصیت ہے: وہ ”پھل حاصل کرنے،“ اور روحانی دنیا میں مقام حاصل کرنے کے قابل ہوتے ہیں؛ یہی چیز انھیں ایمان نہ رکھنے والوں سے مختلف بناتی ہے۔ اوّل، جب کہ وہ ابھی زمین پر رہ رہے ہوں، تو وہ لوگ جو روحانی دنیا میں کوئی مقام حاصل کرنے کے قابل ہوتے ہیں، ان کا طرزِعمل کیسا ہوتا ہے؟ انھیں اس بات کا یقین لازمی ہونا چاہیے کہ وہ کسی بھی برائی کا ہرگز ارتکاب نہیں کریں گے: وہ قتل، آتش زنی، عصمت دری یا لوٹ مار بالکل نہیں کریں گے؛ اگر وہ دھوکا دہی، فریب کاری، چوری، یا ڈکیتی میں ملوث ہوں، تو وہ پھل حاصل نہیں کر سکتے۔ دوسرے لفظوں میں، اگر ان کا کسی بھی برائی سے کوئی تعلق یا وابستگی ہوئی، تو وہ روحانی دنیا کی طرف سے خود کو ملنے والی سزا سے بچ نہیں سکیں گے۔ روحانی دنیا بدھ مت کے ان پیروکاروں کے لیے مناسب انتظامات کرتی ہے جو بدھیت حاصل کرتے ہیں: انھیں ان لوگوں کا انتظام کرنے کے لیے تفویض کیا جا سکتا ہے جو بدھ مت اور آسمان کے بوڑھے انسان پر یقین رکھتے ہیں – انھیں ایک دائرہ اختیار تفویض کیا جا سکتا ہے۔ وہ صرف ایمان نہ رکھنے والوں کے نگران بھی ہو سکتے ہیں یا بہت معمولی فرائض کے ساتھ عہدہ رکھ سکتے ہیں۔ اس طرح کی تقسیم ان کی روحوں کی مختلف نوعیتوں کے مطابق ہوتی ہے۔ یہ بدھ مت کی ایک مثال ہے۔
ہم نے جن پانچ مذاہب کی بات کی ہے، ان میں مسیحیت نسبتاً خاص ہے۔ مسیحیوں کو کیا چیز خاص بناتی ہے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو سچے خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ سچے خدا پر ایمان رکھنے والوں کو یہاں کیسے درج کیا جا سکتا ہے؟ یہ کہتے ہوئے کہ مسیحیت ایک قسم کا ایمان ہے، بلاشبہ اس کا تعلق صرف ایمان کے ساتھ ہو گا؛ یہ محض ایک قسم کی تقریب، ایک قسم کا مذہب، اور ان لوگوں کے ایمان سے بالکل مختلف چیز ہو گی جو حقیقی طور پر خدا کی پیروی کرتے ہیں۔ میرے مسیحیت کو پانچ بڑے مذاہب میں درج کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کا درجہ کم کر کے یہودیت، بدھ مت اور اسلام کے برابر کر دیا گیا ہے۔ یہاں زیادہ تر لوگ یہ نہیں مانتے کہ خدا ہے، یا وہ ہر چیز پر حکمرانی کرتا ہے۔ وہ اس کے وجود پر تو بہت کم یقین رکھتے ہیں۔ اس کی بجائے، وہ صرف دینیات پر بحث کرنے کے لیے صحیفوں کو استعمال کرتے ہیں اور لوگوں کو مہربان ہونے، مصائب کو برداشت کرنے، اور اچھے کام کرنے کی تعلیم دینے کے لیے دینیات کو استعمال کرتے ہیں۔ مسیحیت اسی طرح کا مذہب بن چکی ہے: یہ صرف مذہبی نظریات پر توجہ مرکوز کرتی ہے، جس کا انسان کو سنبھالنے اور بچانے کے خدا کے کام سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں کا مذہب بن گیا ہے جو خدا کی پیروی کرتے ہیں لیکن حقیقت میں جنہیں خدا تسلیم نہیں کرتا۔ تاہم، خدا نے ایسے لوگوں کے ساتھ اپنے نقطہ نظر میں بھی ایک اصول رکھا ہے۔ وہ غیر رسمی طور پر ان کے ساتھ اپنی مرضی سے ایسا سلوک یا معاملہ نہیں کرتا جیسا کہ وہ ایمان نہ رکھنے والوں کے ساتھ کرتا ہے۔ وہ ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتا ہے جیسا کہ وہ بدھ مت کے پیروکاروں کے ساتھ کرتا ہے: اگر زندہ رہتے ہوئے، ایک مسیحی خود نظم و ضبط کا مظاہرہ کر سکتا ہے، دس احکام کی سختی سے پابندی کر سکتا ہے اور قوانین اور احکام کے مطابق خود اپنے طرز عمل سے مطالبات کر سکتا ہے، اور اپنی پوری زندگی ان پر قائم رہ سکتا ہے، تو پھر اسے بھی نام نہاد ”آسمان پر بلند کیے جانے“ کو واقعی حاصل کرنے کے لیے زندگی اور موت کے ادوار سے گزرتے ہوئے اتنا ہی وقت گزارنا ہو گا۔ آسمان پر بلند کیے جانے کے بعد، وہ روحانی دنیا میں رہتا ہے، جہاں وہ ایک عہدہ سنبھالتا ہے اور اس کے عہدیداروں میں سے ایک بن جاتا ہے۔ اسی طرح، اگر وہ زمین پر برائی کا ارتکاب کرتا ہے – اگر وہ بہت زیادہ گناہ گار ہے اور بہت زیادہ گناہ کرتا ہے – تو اس کو لامحالہ سزا دی جائے گی اور مختلف درجے کی سختی کے ساتھ اس کی تربیت کی جائے گی۔ بدھ مت میں، پھل حاصل کرنے کا مطلب ہے انتہائی نعمتوں کی پاک سرزمین پر جانا، لیکن مسیحیت میں اسے کیا کہتے ہیں؟ اسے ”جنت میں داخل ہونا“ اور ”آسمان میں بلند کیے جانا“ کہا جاتا ہے۔ جو حقیقی معنوں میں بلند ہوتے ہیں وہ بھی تین سے سات مرتبہ زندگی اور موت کے دور سے گزرتے ہیں، جس کے بعد موت کے بعد روحانی دنیا میں آ جاتے ہیں، جیسے کہ وہ سو گئے ہوں۔ اگر وہ معیار کے مطابق ہیں، تو وہ کوئی عہدہ سنبھالنے کے لیے وہاں رہ سکتے ہیں اور، زمین پر موجود لوگوں کے برعکس، سادہ طریقے سے یا معاہدے کے مطابق دوبارہ جنم نہیں لیِں گے۔
ان تمام مذاہب میں، وہ جس اختتام کی بات کرتے ہیں اور جس کے لیے وہ کوشش کرتے ہیں، وہی ہے جو بدھ مت میں پھل کا حصول ہے؛ یہ صرف ایسے ہے کہ یہ ”پھل“ مختلف طریقوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ وہ سب ایک ہی طرح کے لوگ ہیں۔ ان مذاہب کے پیروکاروں کے اس حصے کے لیے، جو اپنے طرز عمل میں مذہبی اصولوں کی سختی سے پابندی کرنے کے قابل ہیں، خدا ایک مناسب منزل، جانے کے لیے ایک مناسب جگہ فراہم کرتا ہے، اور مناسب طریقے سے ان کا انتظام کرتا ہے۔ یہ سب کچھ معقول ہے، لیکن ایسا نہیں ہے جیسا کہ لوگ سوچتے ہیں۔ اب، یہ سن کر کہ مسیحیت میں لوگوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے، تم کیسا محسوس کرتے ہو؟ کیا تمہیں لگتا ہے کہ ان کی حالتِ زار غیر منصفانہ ہے؟ کیا تمہیں ان سے ہمدردی ہے؟ (تھوڑی سی)۔ ایسا کچھ نہیں ہے جو کیا جا سکے؛ انھیں صرف اپنے آپ کو قصوروار ٹھہرانا چاہیے۔ میں یہ کیوں کہتا ہوں؟ خدا کا کام سچا ہے؛ وہ زندہ اور حقیقی ہے، اور اس کا کام تمام انسانوں اور ہر فرد کے لیے ہے۔ پھر وہ اس بات کو کیوں تسلیم نہیں کرتے؟ وہ خدا کی شدید مخالفت اور ایذا رسانی کیوں کرتے ہیں؟ انھیں اس طرح کا انجام ہونے پر بھی خود کو خوش قسمت سمجھنا چاہیے، تو تم ان پر افسوس کیوں کرتے ہو؟ ان سے اس طرح نمٹنا بڑی رواداری کو ظاہر کرتا ہے۔ جس حد تک وہ خدا کی مخالفت کرتے ہیں اس کے پیش نظر انھیں تباہ کر دیا جانا چاہیے لیکن خدا ایسا نہیں کرتا۔ اس کی بجائے وہ مسیحیت کو کسی بھی عام مذہب کی طرح سنبھالتا ہے۔ تو کیا باقی مذاہب کے بارے میں مزید تفصیل میں جانے کی ضرورت ہے؟ ان تمام مذاہب کی اخلاقیات یہ ہے کہ لوگ زیادہ سختی برداشت کریں، کوئی برائی نہ کریں، اچھے کام کریں، دوسروں کو گالیاں نہ دیں، دوسروں کا فیصلہ نہ کریں، تنازعات سے خود کو دور رکھیں، اور اچھے انسان بنیں – زیادہ تر مذہبی تعلیمات ایسی ہیں۔ لہٰذا، اگر یہ اہل ایمان یعنی مختلف مذاہب اور فرقوں کے پیروکار اپنے مذہبی اصولوں پر سختی سے عمل کرنے کے قابل ہو جائیں، تو وہ زمین پر رہتے ہوئے کوئی بڑی غلطی یا گناہ نہیں کریں گے۔ اور، تین سے سات بار دوبارہ جنم لینے کے بعد، یہ لوگ – جو مذہبی اصولوں کی سختی سے پابندی کرنے کے قابل ہیں – مجموعی طور پر، روحانی دنیا میں ایک مقام حاصل کرنے کے لیے باقی رہیں گے۔ کیا ایسے بہت سے لوگ ہیں؟ (نہیں، نہیں ہیں)۔ تیرے جواب کی کیا بنیاد ہے؟ نیکی کرنا اور مذہبی احکام و قوانین کی پابندی کرنا آسان نہیں ہے۔ بدھ مت لوگوں کو گوشت کھانے کی اجازت نہیں دیتا – کیا تو ایسا کر سکتا ہے؟ اگر تجھے سرمئی لباس پہننا پڑے اور مذہبی کتاب سوترا کی تلاوت کرنی پڑے اور بدھ مندر میں سارا دن بدھوں کے ناموں کا جاپ کرنا پڑے تو کیا تو یہ کر سکتا ہے؟ یہ آسان نہیں ہو گا۔ مسیحیت کے پاس دس احکام، احکام اور قوانین ہیں؛ کیا ان پر عمل کرنا آسان ہے؟ آسان نہیں ہے، ٹھیک ہے؟ مثال کے طور پر دوسروں کو گالیاں نہ دو: لوگ صرف اس اصول کی پابندی کرنے سے قاصر ہیں۔ اپنے آپ کو روکنے کے قابل نہیں ہیں، وہ گالیاں دیتے ہیں اور گالیاں دینے کے بعد، وہ ان الفاظ کو واپس نہیں لے سکتے، تو وہ کیا کرتے ہیں؟ رات کو وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ بعض اوقات وہ دوسروں کو گالیاں دینے کے بعد بھی اپنے دلوں میں نفرت رکھتے ہیں، اور یہاں تک کہ وہ ان لوگوں کو مزید نقصان پہنچانے کے لیے ایک وقت کا منصوبہ بناتے ہیں۔ مختصر یہ کہ جو لوگ اس مردہ عقیدے کے درمیان رہتے ہیں، ان کے لیے گناہ یا برائی سے باز رہنا آسان نہیں ہے۔ لہٰذا، ہر مذہب میں، صرف چند افراد ہی حقیقت میں پھل حاصل کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ چونکہ بہت سے لوگ ان مذاہب کی پیروی کرتے ہیں، اس لیے روحانی دنیا میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے ایک اچھا حصہ باقی رہ سکے گا؟ وہاں بہت سے نہیں ہیں؛ اصل میں صرف چند ہی اس کو حاصل کرنے کے قابل ہیں۔ یہ عام طور پر ایمان والوں کی زندگی اور موت کے دور کے لیے ہے۔ جو چیز انھیں الگ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ پھل حاصل کر سکتے ہیں، اور یہی چیز انھیں ایمان نہ رکھنے والوں سے ممتاز کرتی ہے۔
پ۔ خدا کے پیروکاروں کا زندگی اور موت کا دور
اس کے بعد، ہم خدا کی پیروی کرنے والوں کی زندگی اور موت کے دور کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ چونکہ اس کا تعلق تم سے ہے، لہٰذا توجہ دو: سب سے پہلے، اس بارے میں سوچو کہ خدا کے پیروکاروں کی درجہ بندی کیسے کی جا سکتی ہے۔ (خدا کے چنے ہوئے، اور خدمت گار)۔ واقعی دو ہیں: خدا کے چنے ہوئے، اور خدمت گار۔ سب سے پہلے، ہم خدا کے چنے ہوئے لوگوں کے بارے میں بات کرتے ہیں، جن میں سے چند ایک ہیں۔ ”خدا کے چنے ہوئے“ سے کیا مراد ہے؟ جب خدا نے تمام چیزوں کو تخلیق کیا اور بنی نوع انسان وجود میں آیا، تو خدا نے لوگوں کے ایک گروہ کو منتخب کیا جو اس کی پیروی کریں گے؛ صرف ان کو ”خدا کا چنا ہوا“ کہا جاتا ہے۔ خدا کے ان لوگوں کے انتخاب کا ایک خاص دائرہ کاراور اہمیت تھی۔ اس کا دائرہ کار اس لحاظ سے خاص ہے کہ یہ چند منتخب افراد تک محدود تھا، جنہیں اس کے اہم کام کرتے وقت ضرور آنا چاہیے۔ اور اس کی کیا اہمیت ہے؟ چونکہ وہ خدا کی طرف سے منتخب کردہ ایک گروہ تھے، اس لیے ان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یعنی خدا ان لوگوں کو مکمل کرنا چاہتا ہے، اور ان کو مکمل کرنا چاہتا ہے، اور جب اس کا انتظام کا کام ختم ہو جائے گا تو وہ ان لوگوں کو حاصل کر لے گا۔ کیا یہ اہمیت عظیم نہیں ہے؟ پس یہ چنے ہوئے لوگ خدا کے نزدیک بہت اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ یہ وہی ہیں جن کو خدا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ جہاں تک خدمت گاروں کا تعلق ہے، تو آؤ ہم خدا کی تقدیر کے موضوع سے ایک لمحے کے لیے وقفہ کریں، اور پہلے ان کی ابتدا پر بات کریں۔ ایک ”خدمت گار“ لفظی طور پر وہ ہوتا ہے جو خدمت کرتا ہے۔ خدمت گار عارضی ہوتے ہیں۔ وہ طویل مدت کے لیے یا ہمیشہ کے لیے ایسا نہیں کرتے، بلکہ عارضی طور پر ملازم رکھے جاتے ہیں یا بھرتی کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کی اصل یہ ہے کہ وہ ایمان نہ رکھنے والوں میں سے منتخب ہوئے تھے۔ وہ زمین پر اس وقت آئے جب اس کا حکم دیا گیا کہ وہ خدا کے کام میں خدمت گاروں کا کردار سنبھالیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ پچھلی زندگی میں جانور رہے ہوں، لیکن وہ ایمان نہ رکھنے والے بھی رہے ہوں گے۔ خدمت گاروں کی اصلیت ایسی ہے۔
آؤ خدا کے چنے ہوئے لوگوں کے بارے میں مزید بات کرتے ہیں۔ جب وہ مرتے ہیں تو وہ ایمان نہ رکھنے والوں اور مختلف اہل ایمان سے بالکل مختلف مقام پر چلے جاتے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ان کے ساتھ فرشتے اور خدا کے پیغمبر ہوتے ہیں؛ یہ ایک ایسی جگہ ہے جو ذاتی طور پر خدا کے زیر انتظام ہے۔ اگرچہ خُدا کے چُنے ہوئے لوگ اِس جگہ خُدا کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے، یہ روحانی دنیا میں کسی بھی اور جگہ کے برعکس ہے۔ یہ ایک مختلف جگہ ہے، جہاں لوگوں کا یہ حصہ مرنے کے بعد جاتا ہے۔ جب وہ مرتے ہیں، تو وہ بھی، خدا کے پیغمبروں کی طرف سے سخت تحقیقات کے تابع ہوتے ہیں۔ اور کس بات کی تفتیش ہوتی ہے؟ خدا کے پیغمبر ان راستوں کی تفتیش کرتے ہیں جو ان لوگوں نے اپنی پوری زندگی میں خدا پر ایمان رکھتے ہوئے اختیار کیے ہوتے ہیں، کہ آیا اس دوران انہوں نے کبھی خدا کی مخالفت کی یا اس پر لعنت کی یا نہیں، اور آیا انہوں نے کوئی سنگین گناہ یا برائی کا ارتکاب کیا یا نہیں۔ یہ تفتیش اس سوال کو حل کرے گی کہ آیا کسی خاص شخص کو قیام کرنے کی اجازت ہے یا اسے لازمی چلے جانا چاہیے۔ ”چلے جانے“ کا کیا مطلب ہے؟ اور ”قیام کرنے“ کا کیا مطلب ہے؟ ”چلے جانے“ کا مطلب ہے کہ کیا، وہ اپنے رویے کی بنیاد پر، خدا کے چنے ہوئے لوگوں کی صفوں میں شامل ہیں؛ ”قیام کرنے“ کی اجازت دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان لوگوں میں رہ سکتے ہیں جنہیں خدا آخری دنوں میں مکمل کرے گا۔ قیام کرنے والوں کے لیے خدا نے خصوصی انتظامات کیے ہیں۔ اپنے کام کے ہر دور کے دوران، وہ ایسے لوگوں کو رسولوں کے طور پر کام کرنے یا کلیسیاؤں کے دوبارہ احیا یا ان کی دیکھ بھال کا کام کرنے کے لیے بھیجے گا۔ تاہم، وہ لوگ جو اس طرح کے کام کرنے کے قابل ہوتے ہیں، اُتنی کثرت سے دوبارہ جنم نہیں لیتے جتنے ایمان نہ رکھنے والے، جو نسل در نسل دوبارہ جنم لیتے ہیں۔ بلکہ، وہ خدا کے کام کے تقاضوں اور اقدامات کے مطابق زمین پر لوٹا دیے جاتے ہیں، اور وہ بار بار جنم نہیں لیتے ہیں۔ تو کیا ان کے دوبارہ جنم لینے کے کوئی اصول ہیں؟ کیا وہ ہر چند سال میں ایک بار آتے ہیں؟ کیا وہ اتنے تعدد کے ساتھ آتے ہیں؟ وہ نہیں آتے۔ یہ سب خدا کے کام، اس کے مرحلوں اور اس کی ضروریات پر مبنی ہے، اور اس کے کوئی مقررہ اصول نہیں ہیں۔ صرف ایک اصول یہ ہے کہ جب خُدا آخری ایام میں اپنے کام کا آخری مرحلہ انجام دے گا تو یہ چنے ہوئے لوگ سب آئیں گے، اور یہ آنا اُن کا آخری مرتبہ جنم ہو گا۔ اور ایسا کیوں ہے؟ یہ خُدا کے کام کے آخری مرحلے کے دوران حاصل ہونے والے نتائج پر مبنی ہے – کیونکہ کام کے اس آخری مرحلے کے دوران، خُدا ان چنے ہوئے لوگوں کو پوری طرح سے مکمل کر دے گا۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اگر، اس آخری مرحلے کے دوران، یہ لوگ مکمل اور کامل بنا دیے جائیں، تو وہ پہلے کی طرح دوبارہ جنم نہیں لیں گے؛ ان کا انسان ہونے کا عمل مکمل طور پر ختم ہو چکا ہو گا، اسی طرح ان کا دوبارہ جنم لینے کا عمل بھی۔ یہ ان لوگوں سے متعلق ہے جو قیام کریں گے۔ تو جو قیام نہیں کر نہیں سکتے وہ کہاں جاتے ہیں؟ جن کو قیام کرنے کی اجازت نہیں ہے ان کی اپنی مناسب منزل ہے۔ سب سے پہلے، ان کی برائیوں کے نتیجے میں، ان کی غلطیوں اور گناہوں کی سزا ان کو بھی ملے گی۔ جب انھیں سزا مل جائے گی، تو خدا حالات کے مطابق یا تو انھیں ایمان نہ رکھنے والوں کے درمیان بھیجنے کا انتظام کرے گا، یا ان کے مختلف اہل ایمان کے درمیان جانے کا انتظام کرے گا۔ دوسرے لفظوں میں، ان کے دو ممکنہ نتائج ہیں: ایک سزا پانا اور شاید دوبارہ جنم لینے کے بعد کسی خاص مذہب کے لوگوں کے درمیان رہنا، اور دوسرا ایمان نہ رکھنے والا بن جانا۔ اگر وہ ایمان نہ رکھنے والے بن گئے تو وہ تمام مواقع کھو دیں گے؛ تاہم، اگر وہ ایمان والے بن جاتے ہیں – اگر، مثال کے طور پر، وہ مسیحی بن جاتے ہیں – تو پھر بھی انھیں خدا کے چنے ہوئے لوگوں کی صفوں میں واپس آنے کا موقع ملے گا؛ اس کے ساتھ بہت پیچیدہ تعلقات ہیں۔ مختصراً، اگر خُدا کے چُنے ہوئے لوگوں میں سے کوئی کوئی ایسا کام کرتا ہے جس سے خُدا برہم ہوتا ہے، تو اُسے بھی باقی سب کی طرح سزا دی جائے گی۔ مثال کے طور پر پولس کو ہی لو جس کے بارے میں ہم پہلے بات کر چکے ہیں۔ پولس ایک ایسے شخص کی مثال ہے جسے سزا دی جا رہی ہے۔ کیا تمہیں اس کا اندازہ ہو رہا ہے کہ میں جس کے بارے میں بات کر رہا ہوں؟ کیا خدا کے چنے ہوئے لوگوں کا دائرہ کار مقرر ہے؟ (یہ، زیادہ تر ہے)۔ اس کا زیادہ تر حصہ مقرر ہے، لیکن اس کا ایک چھوٹا سا حصہ مقرر نہیں ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ یہاں میں نے سب سے واضح وجہ کا حوالہ دیا ہے: برائی کا ارتکاب کرنا۔ جب لوگ برائی کرتے ہیں تو خدا ان کو نہیں چاہتا اور جب خدا انھیں نہیں چاہتا تو وہ انھیں مختلف نسلوں اور اقسام کے لوگوں کے درمیان پھینک دیتا ہے۔ اس سے وہ ناامید ہو کر رہ جاتے ہیں اور ان کے لیے واپس آنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ سب خدا کے چنے ہوئے لوگوں کی زندگی اور موت کے دور سے متعلق ہے۔
یہ اگلا موضوع خدمت گاروں کی زندگی اور موت کے دور سے متعلق ہے۔ ہم نے ابھی خدمت گاروں کی اصلیت کے بارے میں بات کی؛ یعنی حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی سابقہ زندگیوں میں ایمان نہ رکھنے والے اور جانور رہنے کے بعد دوبارہ جنم لے چکے ہیں۔ کام کے آخری مرحلے کی آمد کے ساتھ ہی خدا نے ایمان نہ رکھنے والوں میں سے ایسے لوگوں کا ایک گروہ چن لیا ہے اور یہ گروہ خاص ہے۔ ان لوگوں کو منتخب کرنے میں خدا کا مقصد یہ ہے کہ وہ اس کے کام کی خدمت کریں۔ ”خدمت“ سننے میں ایک بہت باوقار لفظ نہیں ہے، اور نہ ہی یہ ہر ایک کی خواہشات کے مطابق ہے، لیکن ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کا مخاطب کون ہے۔ خدا کے خدمت گاروں کا وجود ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ کوئی اور ان کا کردار ادا نہیں کر سکتا تھا، کیونکہ وہ خدا کی طرف سے چنے گئے تھے۔ اور ان خدمت گاروں کا کردار کیا ہے؟ یہ خدا کے چنے ہوئے لوگوں کی خدمت کرنا ہے۔ زیادہ تر حصہ کے لیے، ان کا کردار خدا کے کام کی خدمت کرنا، اس کے ساتھ تعاون کرنا، اور خُدا کے اپنے چنے ہوئے لوگوں کی تکمیل کے ساتھ موافقت پیدا کرنا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ وہ محنت کر رہے ہیں یا نہیں، کام کے کسی پہلو کو انجام دے رہے ہیں یا نہیں، یا کچھ کام انجام دے رہے ہیں یا نہیں، خدا کے ان خدمت گاروں سے کیا تقاضے ہیں؟ کیا وہ ان سے اپنے تقاضوں میں بہت زیادہ مطالبہ کرنے والا ہے؟ (نہیں، وہ صرف یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ وفادار رہیں)۔ خدمت گاروں کو بھی وفادار ہونا چاہیے۔ اس بات سے قطع نظر کہ تیری اصلیت کیا ہے یا خدا نے تجھے کیوں منتخب کیا ہے، تجھے خدا کے ساتھ لازمی طور پر وفادار ہونا چاہیے، خدا کی کسی بھی ذمہ داری کے ساتھ جو تجھے سونپی جاتی ہے، اور اس کام کے لیے جس کے لیے تو ذمہ دار ہے اور جو فرائض تو انجام دیتا ہے۔ جو خدمت گار وفادار ہوتے ہیں اور خُدا کو مطمئن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اُن کے انجام کیا ہوں گے؟ وہ رہ سکیں گے۔ کیا ایک خدمت گار ہونا برکت ہے جو باقی رہتی ہے؟ باقی رہنے کا کیا مطلب ہے؟ اس برکت کی کیا اہمیت ہے؟ حیثیت میں، وہ خدا کے چنے ہوئے لوگوں کے برعکس لگتے ہیں؛ وہ مختلف لگتے ہیں. لیکن درحقیقت، کیا وہ اس زندگی میں جس چیز سے لطف اندوز ہوتے ہیں وہ خدا کے چنے ہوئے لوگوں کی طرح نہیں ہے؟ کم از کم، اس زندگی میں ایسا ہی ہے۔ تم اس سے انکار نہیں کرتے، کیا تم کرتے ہو؟ خدا کے کلمات، خدا کا فضل، خدا کا رزق، خدا کی نعمتیں – ان چیزوں سے کون لطف اندوز نہیں ہوتا؟ ہر کوئی بہت فراوانی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ خدمت گار کی پہچان وہ ہے جو خدمت کرتا ہے، لیکن خدا کے لیے، وہ اس کی تمام تخلیق کردہ چیزوں میں سے ایک ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ اس کا کردار خدمت گار کا ہے۔ چونکہ یہ دونوں خدا کی مخلوق ہیں، کیا خدمت گار اور خدا کے چنے ہوئے میں کوئی فرق ہے؟ اصل میں، کوئی نہیں ہے۔ برائے نام بات کرتے ہوئے، ایک فرق ہے؛ جوہر میں اور اس کے ادا کیے جانے والے کردار کے لحاظ سے، ایک فرق ہے – لیکن خدا لوگوں کے اس گروہ کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک نہیں کرتا۔ تو پھر ان لوگوں کو خدمت گار کیوں کہا جاتا ہے؟ تمہیں اس کی کچھ سمجھ بوجھ ضرور ہو گی! خدمت گار ایمان نہ رکھنے والوں میں سے آتے ہیں۔ جیسے ہی ہم اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ وہ ایمان نہ رکھنے والوں میں سے ہیں، تو یہ ظاہر ہے کہ ان کا ایک برا پس منظر ہے: وہ سب ملحد ہیں، اور ماضی میں بھی ایسے ہی تھے؛ وہ خدا پر ایمان نہیں رکھتے تھے، اور اس کے، سچائی اور تمام مثبت چیزوں کے دشمن تھے۔ وہ خدا یا اس کے وجود پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ اس طرح، کیا وہ خدا کے کلام کو سمجھنے کے قابل ہیں؟ یہ کہنا مناسب ہے کہ بڑی حد تک، وہ نہیں ہیں۔ جس طرح جانور انسانی الفاظ کو سمجھنے سے قاصر ہیں، اسی طرح خدمت گار یہ نہیں سمجھ سکتے کہ خدا کیا کہہ رہا ہے، اس کا تقاضا کیا ہے، یا وہ ایسے مطالبات کیوں کرتا ہے۔ وہ نہیں سمجھتے؛ یہ باتیں ان کی سمجھ سے باہر ہیں، اور وہ آگہی کے بغیر ہی رہتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ لوگ اس زندگی کے حامل نہیں ہیں جس کی ہم نے بات کی ہے۔ زندگی کے بغیر، کیا لوگ سچائی کو سمجھ سکتے ہیں؟ کیا وہ سچائی سے لیس ہیں؟ کیا ان کے پاس خدا کے کلام کا تجربہ اور علم ہے؟ (نہیں)۔ خدمت گاروں کی اصلیت ایسی ہوتی ہے۔ تاہم، چونکہ خدا ان لوگوں کو خدمت گار بناتا ہے، اس لیے ان کے لیے اس کے تقاضوں کے معیارات اب بھی باقی ہیں۔ وہ انھیں حقارت سے نہیں دیکھتا اور نہ ہی ان سے بے توجہ ہوتا ہے۔ اگرچہ وہ اس کے کلام کو نہیں سمجھتے اور زندگی کے حامل نہیں ہیں، پھر بھی خدا ان کے ساتھ نرمی سے پیش آتا ہے، اور جب بھی اس کے ان سے تقاضوں کی بات آتی ہے تو اس کے معیارات موجود ہوتے ہیں۔ تم نے صرف ان معیارات کے بارے میں بات کی: خدا کے ساتھ وفادار رہنا اور جو وہ کہتا ہے اسے کرنا۔ تیرے خدمت کرنے میں، جہاں ضرورت ہو تجھے وہاں لازمی خدمت کرنی چاہیے، اور تجھے آخری حد تک لازمی خدمت کرنی چاہیے۔ اگر تو وفادار خدمت گار بن سکتا ہے، آخری حد تک خدمت کرنے کے قابل ہے اور خدا کی طرف سے خود کو سونپی گئی ذمہ داری کو پورا کر سکتا ہے، توتُو ایک اہمیت والی زندگی گزارے گا۔ اگر تو یہ کر سکتا ہے، تو تُوباقی رہ سکے گا۔ اگر تو تھوڑی زیادہ کوشش کرتا ہے، اگر تو تھوڑی زیادہ سخت محنت کرتا ہے، خدا کو جاننے کے لیے اپنی کوششوں کو بہت زیادہ کر سکتا ہے، خدا کو جاننے کے بارے میں تھوڑی سی بات کر سکتا ہے، اس کی گواہی دے سکتا ہے، اور اس کے علاوہ، اگر تو اس کی مرضی کو کچھ سمجھ سکتا ہے، خدا کے کام میں تعاون کر سکتا ہے، اور خدا کے ارادوں کے بارے میں کسی حد تک دھیان دے سکتا ہے، تو پھر تو، خدمت گار کے طور پر، قسمت میں تبدیلی کا تجربہ کرے گا۔ اور قسمت میں یہ تبدیلی کیا ہو گی؟ تُو اب صرف رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔ تیرے طرز عمل اور تیری ذاتی خواہشات اور مشاغل پر منحصر ہوتے ہوئے، خدا تجھےمنتخب لوگوں میں سے ایک بنائے گا۔ یہ تیری قسمت میں تبدیلی ہو گی۔ خدمت گاروں کے لیے، اس میں سب سے اچھی چیز کیا ہے؟ یہ ہے کہ وہ خدا کے چنے ہوئے لوگ بن سکتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اب ایمان نہ رکھنے والوں کی طرح جانوروں کے طور پر دوبارہ جنم نہیں لیں گے۔ کیا یہ اچھا ہے؟ یہ ہے، اور یہ اچھی خبر بھی ہے: اس کا مطلب ہے کہ خدمت گاروں کو ڈھالا جا سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ خدمت گار کے لیے، ایک بار جب خدا نے اسے خدمت کے لیے پہلے سے مقرر کر دیا ہے، تو وہ ہمیشہ کے لیے ایسا کرتا رہے گا؛ ضروری نہیں کہ ایسا ہو۔ خُدا اُس کو سنبھالے گا اور اُس کو اُس طریقے سے جواب دے گا جو اُس شخص کے انفرادی طرزِ عمل کے لیے موزوں ہو گا۔
تاہم، ایسے خدمت گار ہیں جو آخری حد تک خدمت کرنے سے قاصر ہیں؛ ایسے لوگ ہیں جو اپنی خدمت کے دوران آدھے راستے سے دستبردار ہو جاتے ہیں اور خدا کو چھوڑ دیتے ہیں، اور ایسے لوگ بھی ہیں جو متعدد غلط کاموں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ لوگ بھی ہیں جو بہت زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں اور خدا کے کام کو زبردست نقصان پہنچاتے ہیں، حتیٰ کہ ایسے خدمت گار بھی ہیں جو خدا پر لعنت بھیجتے ہیں وغیرہ۔ یہ ناقابل تلافی نتائج کیا ظاہر کرتے ہیں؟ ایسی کوئی بھی بری حرکت ان کی خدمات کے خاتمے کی علامت ہو گی۔ کیونکہ تیری خدمت کے دوران تیرا طرز عمل حد سے زیادہ خراب رہا ہے اور چونکہ تو بہت دور جا چکا ہے، اس لیے جب خدا دیکھے گا کہ تیری خدمت معیار کے مطابق نہیں ہے، تو وہ تجھے تیری خدمت کی اہلیت سے محروم کر دے گا۔ وہ تجھے مزید خدمت کرنے کی اجازت نہیں دے گا؛ وہ تجھے اپنی آنکھوں کے سامنے سے اور خدا کے گھر سے نکال دے گا۔ کیا ایسا ہے کہ تو خدمت نہیں کرنا چاہتا؟ کیا تو مسلسل برائی نہیں کرنا چاہتا ہے؟ کیا تو مسلسل بے وفا نہیں ہیں؟ تو پھر ٹھیک ہے، ایک آسان حل ہے: تجھ سے خدمت کرنے کی اہلیت چھین لی جائے گی۔ خدا کے نزدیک، خدمت گار سے اس کی خدمت کی اہلیت چھین لینے کا مطلب یہ ہے کہ اس خدمت گار کے انجام کا اعلان کر دیا گیا ہے، اور وہ اب خدا کی خدمت کرنے کا اہل نہیں رہے گا۔ خدا کو اس شخص کی خدمت کی مزید ضرورت نہیں ہے، اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ کتنی ہی اچھی باتیں کہے، وہ الفاظ بے سود ہوں گے۔ جب حالات اس مقام پر پہنچ چکے ہوں گے، تو صورت حال ناقابل اصلاح ہو چکی ہو گی؛ اس طرح کے خدمت گاروں کو واپسی کا کوئی راستہ نہیں ملے گا۔ اور خدا ایسے خدمت گاروں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے؟ کیا وہ صرف انھیں خدمت کرنے سے روک دیتا ہے؟ نہیں۔ کیا وہ صرف انھیں باقی رہنے سے روک دیتا ہے؟ یا، کیا وہ ان کو ایک طرف کر دیتا ہے اور ان کے بدل جانے کا انتظار کرتا ہے؟ وہ نہیں کرتا۔ جب خدمت گاروں کی بات آتی ہے تو خدا واقعی اس قدر محبت کرنے والا نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص خدا کی خدمت میں اس قسم کا رویہ رکھتا ہے تو خدا اس رویے کے نتیجے میں اس سے خدمت کرنے کی اہلیت چھین لے گا اور ایک بار پھر اسے ایمان نہ رکھنے والوں کے درمیان پھینک دے گا۔ اور اس خدمت گار کا کیا حشر ہوتا ہے جسے ایمان نہ رکھنے والوں کے درمیان واپس پھینک دیا گیا جاتا ہے؟ یہ ایمان نہ رکھنے والوں کی طرح ہی ہو جاتا ہے: وہ ایک جانور کے طور پر دوبارہ جنم لے گا اور روحانی دنیا میں ایک ایمان نہ رکھنے والے کے طور پر ویسی ہی سزا پائے گا۔ مزید برآں، خدا اس شخص کی سزا میں کوئی ذاتی دلچسپی نہیں لے گا، کیونکہ ایسے شخص کا خدا کے کام سے اب کوئی تعلق نہیں رہتا ہے۔ یہ نہ صرف اس کی خدا پر ایمان کی زندگی کا خاتمہ ہے، بلکہ اس کی اپنی قسمت کا خاتمہ اور ساتھ ہی اس کی قسمت کا اعلان بھی ہے۔ اس طرح اگر خدمت گار ناقص خدمات انجام دیتے ہیں تو انھیں خود اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اگر کوئی خدمت گار آخر تک خدمت کرنے کے قابل نہ ہو، یا درمیان میں خدمت کرنے کی اہلیت سے محروم ہو جائے، تو وہ ایمان نہ رکھنے والوں میں ڈال دیا جائے گا – اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ایسے شخص کے ساتھ مویشیوں والا سلوک کیا جائے گا، جس طرح ذہانت اور عقل سے عاری لوگوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ جب میں اسے اس طرح کہتا ہوں، تو تم سمجھ سکتے ہو، ہاں؟
مذکورہ بالا یہ ہے کہ خدا اپنے چنے ہوئے لوگوں اور خدمت گاروں کی زندگی اور موت کے دور کو کس طرح سنبھالتا ہے۔ یہ سننے کے بعد، تم کیسا محسوس کرتے ہو؟ کیا میں نے پہلے کبھی اس موضوع پر بات کی ہے؟ کیا میں نے کبھی خدا کے چنے ہوئے اور خدمت گاروں کے موضوع پر بات کی ہے؟ میں نے اصل میں کی ہے، لیکن تمہیں یاد نہیں ہے۔ خدا اپنے چنے ہوئے لوگوں اور خدمت گاروں کے ساتھ راستباز ہے۔ ہر لحاظ سے وہ راستباز ہے۔ کیا تمہیں اس میں کہیں بھی کوئی غلطی نظر آتی ہے؟ کیا ایسے لوگ نہیں ہیں جو کہیں گے، ”خدا اپنے چنے ہوئے لوگوں کے لیے اتنا روادار کیوں ہے؟ اور خدمت گاروں کے لیے اس کی برداشت اتنی تھوڑی کیوں ہے؟“ کیا کوئی خدمت گاروں کے لیے کھڑا ہونا چاہتا ہے؟ ”کیا خدا خدمت گاروں کو مزید وقت دے سکتا ہے، اور ان کے ساتھ زیادہ تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کر سکتا ہے؟“ کیا ایسا سوال اٹھانا درست ہے؟ (نہیں، ایسا نہیں ہے)۔ اور کیوں نہیں؟ (کیونکہ ہم پر صرف خدمت گار ہی بنائے جانے کے عمل کے ذریعے احسان کیا گیا ہے)۔ خدمت گاروں کو محض خدمت کرنے کی اجازت دے کر احسان کیا گیا ہے! ”خدمت گاروں“ کے خطاب کے بغیر اور جو کام وہ کرتے ہیں اس کے بغیر، یہ لوگ کہاں ہوں گے؟ وہ ایمان نہ رکھنے والوں میں سے ہوں گے، مویشیوں کے ساتھ جیئیں اور مریں گے۔ آج وہ کس عظیم نعمت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، انھیں خدا کے سامنے آنے اور خدا کے گھر میں آنے کی اجازت دی گئی ہے! یہ اتنا بڑا فضل ہے! اگر خدا نے تجھے خدمت کا موقع نہ دیا ہوتا تو تجھے کبھی بھی اس کے سامنے آنے کا موقع نہ ملتا۔ کم از کم کہنے کے لیے، یہاں تک کہ اگر تو کوئی ایسا شخص ہے جو بدھ مت کا پیرو ہے اور پھل حاصل کیا ہے، تو روحانی دنیا میں تُو زیادہ سے زیادہ ایک خدمت کرنے والا ملازم ہے۔ تو کبھی بھی خدا سے نہیں ملے گا، اس کی آواز یا اس کا کلام نہیں سنے گا، یا اس کی محبت اور نعمتوں کو محسوس نہیں کرے گا، اور نہ ہی تو کبھی اس کے روبرو ہو سکتا ہے۔ بدھ مت کے پیروکاروں کے سامنے صرف وہی چیزیں ہیں جو سادہ کام ہیں۔ وہ ممکنہ طور پر خدا کو نہیں جان سکتے، اور وہ صرف پابندی اور اطاعت کرتے ہیں، جبکہ خدمت گار کام کے اس مرحلے کے دوران بہت کچھ حاصل کرتے ہیں! سب سے پہلے، وہ خُدا سے روبرو ہونے، اُس کی آواز سننے، اُس کا کلام سننے، اور اُن نعمتوں اور برکتوں کا تجربہ کرنے کے قابل ہوتے ہیں جو وہ لوگوں کو عطا کرتا ہے۔ مزید برآں، وہ خدا کی طرف سے عطا کردہ کلام اور سچائیوں سے لطف اندوز ہونے کے قابل ہوتے ہیں۔ خدمت گار واقعی بہت کچھ حاصل کرتے ہیں! اس طرح، اگر خدمت گار کے طور پر، تو ایک مناسب کوشش بھی نہیں کر سکتا، تو کیا خدا پھر بھی تجھے رکھے گا؟ وہ تجھے نہیں رکھ سکتا۔ وہ تجھ سے زیادہ مطالبہ نہیں کرتا، پھر بھی تو وہ کچھ نہیں کرتا جو وہ مناسب طریقے سے مانگتا ہے۔ تو نے اپنے فرض کی پابندی نہیں کی۔ اس طرح، بلا شبہ، خدا تجھے نہیں رکھ سکتا۔ خدا کا راستباز مزاج ایسا ہے۔ خُدا تجھ سے زیادہ لاڈ پیار نہیں کرتا، لیکن نہ ہی وہ تیرے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے۔ یہ وہ اصول ہیں جن پر خدا عمل کرتا ہے۔ خدا تمام انسانوں اور مخلوقات کے ساتھ اسی انداز میں سلوک کرتا ہے۔
جب روحانی دنیا کی بات آتی ہے، اگر اس میں موجود مختلف وجود کوئی غلط کام کرتے ہیں یا اپنا کام درست طریقے سے نہیں کرتے، تو خدا کے پاس بھی اسی کے مطابق ان کے ساتھ نمٹنے کے لیے آسمانی احکام اور فرامین ہیں؛ یہ مطلق ہے۔ اس لیے، خدا کے کئی ہزار سالہ انتظامی کام کے دوران، کچھ فرض ادا کرنے والے جو غلط کاموں کے مرتکب ہوئے تھے، تباہ کر دیے گئے، جبکہ کچھ – آج تک – اب بھی قید میں ہیں اور انھیں سزا دی جا رہی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کا سامنا روحانی دنیا میں ہر وجود کو ضرور کرنا پڑے گا۔ اگر وہ کوئی غلط کام کرتا ہے یا برائی کا مرتکب ہوتا ہے، تو اسے سزا دی جاتی ہے – اور جب خدا اپنے چنے ہوئے لوگوں اور خدمت گاروں سے رابطہ کرتا ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس طرح، روحانی دنیا اور مادی دنیا دونوں میں، وہ اصول جن کے ذریعے خدا عمل کرتا ہے تبدیل نہیں ہوتے۔ تو خدا کے اعمال کو چاہے دیکھ سکتا ہو یا نہیں، اس کے اصول تبدیل نہیں ہوتے۔ ایک سرے سے دوسرے سرے تک، خدا ہر چیز سے نمٹنے اور ہر چیز کو سنبھالنے کے لیے ایک ہی اصول رکھتا ہے۔ یہ ناقابل تغیر ہے۔ خدا ایمان نہ رکھنے والوں میں سے ان لوگوں پر مہربان ہو گا جو نسبتاً مناسب انداز میں رہتے ہیں، اور ہر مذہب کے ان لوگوں کے لیے مواقع محفوظ رکھے گا جو اچھا برتاؤ کرتے ہیں اور کوئی برائی نہیں کرتے، انھیں خدا کے زیر انتظام تمام چیزوں میں اپنا کردار ادا کرنے اور وہ کام کرنے کا موقع دیتا ہے جو انھیں کرنا چاہیے۔ اسی طرح، ان لوگوں میں جو خدا کی پیروی کرتے ہیں، اور اپنے چنے ہوئے لوگوں میں، خدا اپنے ان اصولوں کے مطابق کسی کے ساتھ امتیاز نہیں کرتا۔ وہ ہر اس شخص کے ساتھ مہربان ہوتا ہے جو خلوص کے ساتھ اس کی پیروی کرنے کے قابل ہے، اور وہ ہر اس شخص سے محبت کرتا ہے جو خلوص کے ساتھ اس کی پیروی کرتا ہے۔ یہ صرف ان چند اقسام کے لوگوں کے لیے ہوتا ہے – ایمان نہ رکھنے والے، اہل ایمان کے مختلف لوگ، اور خدا کے چنے ہوئے لوگ – جو وہ انھیں عطا کرتا ہے وہ مختلف نوعیت کا ہوتا ہے۔ ایمان نہ رکھنے والوں کو ہی لے لو، مثال کے طور پر: اگرچہ وہ خدا پر ایمان نہیں رکھتے اور خدا انھیں حیوانوں کی طرح سمجھتا ہے، لیکن ان تمام میں سے ہر ایک کے پاس کھانے کے لیے خوراک ہے، ان کی اپنی ایک جگہ، اور زندگی اور موت کا ایک عمومی دور ہے۔ وہ لوگ جو برائی کرتے ہیں انھیں اس کی سزا دی جاتی ہے، اور وہ جو اچھے کام کرتے ہیں انھیں برکت ملتی اور خدا کی مہربانی حاصل کرتے ہیں۔ کیا یہ ایسا نہیں ہے؟ اہل ایمان کے لیے، اگر وہ بار بار دوبارہ جنم لینے کے ذریعے دوبارہ جنم لینے کے بعد اپنے مذہبی ادراک کی سختی سے پابندی کرنے کے قابل ہیں، تو پھر ان تمام مرتبہ دوبارہ جنم لینے کے بعد، خدا بالآخر ان کے لیے اپنا اعلان کرے گا۔ اسی طرح، آج تمہارے لیے، چاہے تم خدا کے چنے ہوئے لوگوں میں سے ہو یا خدمت گاروں میں سے، خدا اسی طرح تمہیں اس معیار پر لائے گا اور تمہارے نتائج کا تعین اپنے مقرر کردہ ضابطوں اور انتظامی احکام کے مطابق کرے گا۔ ان اقسام کے لوگوں میں سے، مختلف اقسام کے اہل ایمان – یعنی وہ لوگ جو مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں – کیا خدا نے انھیں رہنے کے لیے جگہ دی ہے؟ یہودی کہاں ہیں؟ کیا خدا نے ان کے ایمان میں مداخلت کی ہے؟ اس نے نہیں کی۔ اور مسیحیوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس نے ان کے ساتھ بھی مداخلت نہیں کی۔ وہ انھیں ان کے طریقہ کار کی پیروی کرنے کی اجازت دیتا ہے، وہ نہ تو ان سے بات کرتا ہے اور نہ ہی انھیں کوئی آگہی دیتا ہے اور اس کے علاوہ، وہ ان پر کچھ بھی ظاہر نہیں کرتا ہے۔ اگر تیرے خیال میں یہ صحیح ہے، تو اس طرح یقین کر لے۔ کیتھولک مریم پر ایمان رکھتے ہیں، اور یہ کہ اس کے ذریعے ہی خبر یسوع تک پہنچی تھی؛ یہ ان کے عقیدے کی شکل ہے۔ کیا خدا نے کبھی ان کے ایمان کی اصلاح کی ہے؟ وہ ان کو آزادی دیتا ہے؛ وہ ان پر کوئی توجہ نہیں دیتا اور انھیں رہنے کے لیے ایک مخصوص جگہ دیتا ہے۔ کیا وہ مسلمانوں اور بدھ مت کی بابت اسی طرح نہیں ہے؟ اُس نے اُن کے لیے بھی حدود مقرر کی ہیں، اور ان کے متعلقہ عقائد میں مداخلت کیے بغیر، ان کو ان کے اپنے رہنے کی جگہ رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ سب اچھی طرح سے ترتیب دیا گیا ہے۔ اور تم اس سب میں کیا دیکھتے ہو؟ کہ خدا اختیار کا حامل ہے، لیکن وہ اس کا غلط استعمال نہیں کرتا۔ خدا ہر چیز کو کامل نظم وضبط کے ساتھ ترتیب دیتا ہے اور اسے باقاعدہ طریقے سے کرتا ہے، اور اس معاملے میں اس کی حکمت اور قادر مطلق ہونا جھلکتا ہے۔
آج ہم نے ایک نئے اور خاص موضوع کو چھوا ہے، ایک روحانی دنیا کے معاملات سے متعلق، جو اس دنیا پر خدا کے انتظام اور تسلط کے ایک پہلو کی نمائندگی کرتا ہے۔ ان باتوں کو سمجھنے سے پہلے، تم نے کہا ہو گا، ”اس کے ساتھ جس بھی چیز کا تعلق ہے وہ ایک بھید ہے، اور اس کا ہماری زندگی میں داخلے سے کوئی تعلق نہیں ہے؛ ان چیزوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ لوگ اصل میں کیسے رہتے ہیں، اور ہمیں ان کو سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے، اور نہ ہی ہم ان کے بارے میں سننا چاہتے ہیں۔ ان کا خدا کو جاننے سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔“ اب، تمہارے خیال میں ایسی سوچ میں کوئی مسئلہ ہے؟ کیا یہ درست ہے؟ (نہیں)۔ ایسی سوچ درست نہیں ہے اور اس میں سنجیدہ مسائل ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر تو یہ سمجھنا چاہتا ہے کہ خدا کس طرح ہر چیز پر حکمرانی کرتا ہے، تو تُو صرف اور بالکل وہی نہیں سمجھ سکتا جو کچھ تو دیکھ سکتا ہے اور تیرا سوچنے کا طریقہ جس کا ادراک کر سکتا ہے؛ بلکہ تجھے دوسری دنیا کا بھی کچھ لازمی سمجھنا ہو گا، جو تیرے لیے غیر مرئی ہو سکتی ہے لیکن جس کا اس دنیا سے پیچیدہ تعلق ہے جسے تو دیکھ سکتا ہے۔ اس کا تعلق خدا کی خود مختاری سے ہے، اور یہ اس موضوع، ”خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے۔“ سے متعلق ہے۔ یہ اس کے بارے میں معلومات ہے۔ اس معلومات کے بغیر، لوگوں کے علم میں خامیاں اور کمیاں ہوں گی کہ کس طرح خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے۔ اس طرح، ہم نے آج جو بات چیت کی ہے، کہا جاسکتا ہے کہ اس نے ہمارے پچھلے موضوعات کو واضح کر دیا ہے، نیز ”خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے“ کے مواد کا اختتام کرتی ہے۔ یہ سمجھنے کے بعد، کیا اب تم اس مواد کے ذریعے خدا کو جاننے کے قابل ہو؟ مزید اہم بات یہ ہے کہ آج میں نے تمہیں خدمت گاروں کے بارے میں انتہائی اہم معلومات فراہم کی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ تم واقعی اس طرح کے موضوعات سن کر لطف اندوز ہوتے ہو، اور یہ کہ تم واقعی ان چیزوں کا خیال رکھتے ہو۔ لہذا کیا تم اس سے مطمئن ہو جس کے بارے میں آج میں نے بات کی ہے؟ (ہاں، ہم مطمئن ہیں)۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ دوسری چیزوں نے تم پر بہت گہرا اثر نہ چھوڑا ہو، لیکن خدمت گاروں کے بارے میں جو کچھ میں نے کہا ہے اس نے خاصا مضبوط اثر چھوڑا ہے، کیونکہ یہ موضوع تم میں سے ہر ایک کی روح کو چھوتا ہے۔
خدا کے نوع انسانی سے تقاضے
ا۔ خود خدا کی شناخت اور حیثیت
ہم ”خدا سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے“ نیز ”خدا منفرد خدا خود ہے“ کے عنوان کے اختتام پر پہنچ چکے ہیں۔ ایسا کرنے کے بعد، ہمیں چیزوں کا خلاصہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں کس قسم کی تلخیص ضرور کرنی چاہیے؟ یہ خود خدا کے بارے میں ایک اختتامی نتیجہ ہے۔ ایسا معاملہ ہونے کے ناطے، اس کا خدا کے ہر پہلو کے ساتھ نیز اس کے ساتھ کہ لوگ کس طرح خدا پر ایمان رکھتے ہیں، ایک ناگزیر تعلق لازمی ہونا چاہیے۔ اور اس لیے، سب سے پہلے مجھے تم سے یہ پوچھنا ہے: ان خطبات کو سننے کے بعد، تمہاری ذہنی بصارت میں خدا کون ہے؟ (خالق)۔ تمہاری ذہنی بصارت میں خدا خالق ہے۔ کیا کچھ اور بھی ہے؟ خدا تمام چیزوں کا خداوند ہے۔ کیا یہ الفاظ مناسب ہیں؟ (ہاں)۔ خدا وہ ہے جو تمام چیزوں پر حکومت کرتا ہے اور تمام چیزوں کا انتظام کرتا ہے۔ جو کچھ بھی موجود ہے اسی نے سب کو تخلیق کیا، جو کچھ بھی موجود ہے وہی سب کا انتظام کرتا ہے، جو کچھ بھی موجود ہے وہ سب پر حکمرانی کرتا ہے، اور جو کچھ بھی موجود ہے اس سب کے لیے وہی مہیا کرتا ہے۔ یہ خدا کی حیثیت ہے اور یہ اس کی شناخت ہے۔ تمام چیزوں اور جو کچھ بھی موجود ہے، اس کے لیے خدا کی حقیقی شناخت تمام مخلوقات کا خالق اور حاکم ہونا ہے۔ یہ وہ شناخت ہے جس کا خدا حامل ہے، اور وہ تمام چیزوں میں منفرد ہے۔ خدا کی مخلوقات میں سے کوئی بھی – خواہ وہ بنی نوع انسان میں سے ہو یا روحانی دنیا میں – خدا کی شناخت اور حیثیت کی نقالی کرنے یا اس کی جگہ لینے کے لیے کوئی ذریعہ یا عذر استعمال نہیں کر سکتا، کیونکہ ہر چیز کے درمیان صرف واحد ہی ہے، جو اس شناخت، طاقت، اختیار، اور مخلوق پر حکمرانی کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے: ہمارا منفرد خدا خود۔ وہ تمام چیزوں کے درمیان رہتا ہے اور چلتا ہے؛ وہ تمام چیزوں میں سب سے بلند ترین مقام تک پہنچ سکتا ہے۔ وہ انسان بن کر، گوشت اور خون والوں میں سے ایک بن کر، لوگوں کے روبرو ہو کر اور ان کے ساتھ دکھ سکھ بانٹ کر اپنے آپ کو عاجز بنا سکتا ہے، جبکہ اسی وقت، جو کچھ بھی موجود ہے، وہ سب پر حکمرانی کرتا ہے، جو کچھ بھی موجود ہے، اس کی تقدیر کا فیصلہ کرتا ہے اور یہ کہ اس نے کس سمت میں چلنا ہے۔ اس کے علاوہ، وہ تمام بنی نوع انسان کی تقدیر کی راہنمائی کرتا ہے، اور بنی نوع انسان کی سمت کی راہنمائی کرتا ہے۔ تمام جانداروں کو اس طرح کے خدا کی عبادت اور اطاعت کرنی چاہیے، اور اسے جاننا چاہیے۔ لہٰذا، اس بات سے قطع نظر کہ تو بنی نوع انسان میں سے کس گروہ یا قسم سے تعلق رکھتا ہے، خدا پر ایمان لانا، خدا کی پیروی کرنا، خدا کی تعظیم کرنا، اس کی حکمرانی کو قبول کرنا، اور اپنی تقدیر کے لیے اس کے انتظامات کو قبول کرنا ہی واحد انتخاب ہے – لازمی انتخاب – کسی بھی شخص اور کسی بھی جاندار کے لیے۔ خُدا کی انفرادیت میں، لوگ دیکھتے ہیں کہ اُس کا اختیار، اُس کا راستباز مزاج، اُس کا جوہر، اور وہ ذرائع جن کے ذریعے وہ سب چیزوں کو مہیا کرتا ہے، سب بالکل منفرد ہیں؛ یہ انفرادیت خود خدا کی حقیقی شناخت کا تعین کرتی ہے، اور اس کی حیثیت کا تعین بھی کرتی ہے۔ لہٰذا، تمام مخلوقات میں سے، اگر روحانی دنیا میں یا بنی نوع انسان میں سے کوئی بھی جاندار خدا کی جگہ کھڑا ہونا چاہے تو خدا کی نقالی کرنے کی کسی بھی کوشش کی طرح کامیابی ناممکن ہو گی۔ یہ حقیقت ہے۔ اس جیسے خالق اور حاکم کے لیے جو خود خدا کی شناخت، قدرت اور حیثیت کا حامل ہے، بنی نوع انسان کے کیا تقاضے ہیں؟ یہ سب پر واضح ہونا چاہیے، اور سب کو یاد رکھنا چاہیے؛ یہ خدا اور انسان دونوں کے لیے بہت اہم ہے!
ب۔ نوع انسانی کے خدا کی جانب مختلف رویے
لوگوں کی قسمت کا فیصلہ اس بات سے ہوتا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں، نیز خدا ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گا اور ان سے کیسے نمٹے گا۔ اس مقام پر، میں کچھ مثالیں دینے جا رہا ہوں کہ لوگ خدا کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔ آؤ سنتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ جس انداز اور رویوں کے ساتھ وہ خدا کے سامنے اپنا طرز عمل رکھتے ہیں وہ درست ہیں یا نہیں۔ آؤ درج ذیل سات اقسام کے لوگوں کے طرز عمل پر غور کریں۔
1) ایک اس قسم کا انسان ہوتا ہے جس کا خُدا کے ساتھ رویہ خاصا غیرمعقول ہوتا ہے۔ یہ لوگ سوچتے ہیں کہ خدا ایک بودھی ستوا کی طرح ہے یا انسانی روایات کی ایک مقدس ہستی ہے، اور جسے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ انسان جب بھی ایک دوسرے کو ملیں تو تین بار جھکیں اور ہر کھانے کے بعد بخور جلائیں۔ نتیجتاً، جب بھی وہ اس کے فضل کے لیے بے حد شکرگزار ہوتے ہیں اور اس کے لیے ممنونیت محسوس کرتے ہیں، تو اکثر ان میں اس قسم کا تحرک پیدا ہوتا ہے۔ ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ آج جس خدا پر وہ یقین رکھتے ہیں، وہ اس مقدس ہستی کی طرح جس کے لیے وہ اپنے دلوں میں شدید خواہش رکھتے ہیں، وہ ملاقات پر تین بار جھکنے اور ہر کھانے کے بعد بخور جلانے کے ان کے انداز کو قبول کر سکے۔
2) کچھ لوگ خدا کو ایک زندہ بدھ کے طور پر دیکھتے ہیں جو تمام جانداروں کو تکالیف سے چھٹکارا دلانے اور انھیں بچانے کے قابل ہے؛ وہ اسے ایک ایسے زندہ بدھ کے طور پر دیکھتے ہیں جو انھیں تکلیف کے سمندر سے دور لے جانے کے قابل ہے۔ ان لوگوں کا خُدا پر ایمان میں یہ شامل ہے کہ وہ بدھ کے طور پر اس کی عبادت کریں۔ اگرچہ وہ بخور نہیں جلاتے ہیں، ماتھا نہیں ٹیکتے ہیں، نہ نذرانہ دیتے ہیں، گہرائیوں میں، وہ محسوس کرتے ہیں کہ خدا صرف ایک ایسا بدھ ہے جو صرف یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ مہربان اور سخی ہوں، کہ وہ کسی جاندار چیز کو نہ ماریں، دوسروں کو مغلظات بکنے سے پرہیز کریں، ایسی زندگی گزاریں جو ایماندار نظر آتی ہو، اور غلط کام نہیں کریں؛ وہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ وہ سب چیزیں ہیں جن وہ ان سے مطالبہ کرتا ہے؛ ان کے دلوں میں یہی خدا ہے۔
3) کچھ لوگ خدا کی اس طرح عبادت کرتے ہیں جیسے کہ وہ کوئی عظیم یا مشہور ہستی ہو۔ مثال کے طور پر، یہ عظیم شخص جس طرح بھی بولنا پسند کرتا ہو، جس بھی لحن میں بولتا ہے، وہ کون سے الفاظ اور فرہنگ استعمال کرتا ہے، اس کا لہجہ، اس کے ہاتھ کے اشارے، اس کی آراء اور اعمال، اس کی برداشت – وہ ان سب کی نقل کرتے ہیں، اور یہ وہ چیزیں ہیں جو ان میں خدا پر اپنے ایمان کے دوران پوری طرح سے پیدا ہونا ضروری ہیں۔
4) کچھ لوگ خدا کو بادشاہ کے طور پر سمجھتے ہیں، یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ سب سے بالاتر ہے اور کوئی بھی اسے برہم کرنے کی جرات نہیں کرتا – اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس شخص کو سزا دی جائے گی۔ وہ ایسے بادشاہ کی پرستش کرتے ہیں کیونکہ بادشاہ ان کے دلوں میں ایک خاص جگہ رکھتے ہیں۔ ان کے خیالات، انداز، اختیار اور فطرت – یہاں تک کہ ان کے مفادات اور ذاتی زندگی – سب کچھ ایسا بن جاتا ہے جسے یہ لوگ محسوس کرتے ہیں کہ انھیں سمجھنا ضروری ہے؛ وہ مسائل اور معاملات بن جاتے ہیں جن کے بارے میں وہ فکر مند ہوتے ہیں۔ نتیجتاً، وہ ایک بادشاہ کے طور پر خدا کی پرستش کرتے ہیں۔ عقیدے کی ایسی شکل غیر معقول ہے۔
5) کچھ لوگ خدا کے وجود پر خاص ایمان رکھتے ہیں، اور یہ ایمان بہت گہرا اور غیر متزلزل ہے۔ چونکہ خدا کے بارے میں ان کا علم بہت سطحی ہے اور چونکہ، ان کو اس کے کلام کا زیادہ تجربہ نہیں ہے، اس لیے وہ ایک بت کی طرح اس کی پرستش کرتے ہیں۔ یہ بت ہی ان کے دلوں میں خدا ہے؛ یہ وہ چیز ہے جس سے وہ محسوس کرتے ہیں کہ انھیں ڈرنا چاہیے اور اس کے آگے جھکنا چاہیے، اور جس کی انھیں ضرور پیروی اور تقلید کرنی چاہیے۔ وہ خدا کو ایک بت کے طور پر دیکھتے ہیں جس کی انھیں اپنی پوری زندگی کی پیروی کرنی چاہیے۔ وہ اس لہجے کی نقل کرتے ہیں جس میں خدا بولتا ہے اور ظاہری طور پر وہ ان لوگوں کی تقلید کرتے ہیں جنہیں خدا پسند کرتا ہے۔ وہ اکثر ایسے کام کرتے ہیں جو سیدھا سادہ، پاکیزہ اور ایماندار دکھائی دیتے ہیں، اور وہ اس بت کی پیروی بھی ایسے کرتے ہیں گویا یہ کوئی شریک یا ساتھی ہو جس سے وہ کبھی جدا نہیں ہو سکتے۔ یہ ان کے عقیدے کی شکل ہے۔
6) ایک قسم کے لوگ ہیں جو خدا کا بہت سا کلام پڑھنے اور بہت سی منادی سننے کے باوجود، نیچے گہرائی میں محسوس کرتے ہیں کہ خدا کے ساتھ ان کے رویے کے پیچھے واحد اصول یہ ہے کہ انھیں ہمیشہ چاپلوس اور خوشامدی رہنا چاہیے، یا یہ کہ انھیں خدا کی تعریف کرنی چاہیے اور اس کی تعریف ایسے انداز میں کرنی چاہیے جو غیر حقیقی ہو۔ وہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا ایک خدا ہے جو ان سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس طرح کا برتاؤ کریں۔ اس کے علاوہ، وہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے، تو وہ کسی بھی وقت اس کے غضب کو بڑھا سکتے ہیں یا اس کے خلاف گناہ میں ٹھوکر کھا سکتے ہیں، اور اس گناہ کے نتیجے میں، خدا انھیں سزا دے گا۔ ایسا ہی خدا وہ اپنے دلوں میں رکھتے ہیں۔
7) اور پھر لوگوں کی اکثریت ہے، جو خدا میں روحانی رزق پاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس دنیا میں رہتے ہیں، وہ سکون اور خوشی کے بغیر ہیں، اور انھیں کہیں بھی سکون نہیں ملتا۔ ایک بار جب وہ خُدا کو پا لیتے ہیں، اُس کے کلام کو دیکھنے اور سُننے کے بعد، وہ اپنے دلوں میں خفیہ شادمانی اور خوشی رکھنے لگتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں یقین ہے کہ آخرکار انھیں ایک ایسی جگہ مل گئی ہے جو ان کی روحوں کو خوش کر دے گی، اور یہ کہ انھیں آخر کار ایک خدا مل گیا ہے جو انھیں روحانی رزق دے گا۔ جب وہ خُدا کو قبول کر لیتے ہیں اور اُس کی پیروی کرنا شروع کر دیتے ہیں، تو وہ خوش ہو جاتے ہیں، اور اُن کی زندگیاں پوری ہو جاتی ہیں۔ وہ اب ایمان نہ رکھنے والوں کی طرح عمل نہیں کرتے، جو پوری زندگی میں جانوروں کی طرح خواب خرامی کرتے ہیں، اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے پاس زندگی میں امید کے لیے کچھ موجود ہے۔ اس طرح، وہ سوچتے ہیں کہ یہ خدا ان کی روحانی ضروریات کو بہت زیادہ پورا کر سکتا ہے اور ان کے دماغ اور روح دونوں میں بڑی خوشی لا سکتا ہے۔ اس کا ادراک کیے بغیر، وہ اس خدا کو چھوڑنے سے قاصر ہو جاتے ہیں جو انھیں ایسا روحانی رزق دیتا ہے، اور جو ان کی روحوں اور ان کے خاندان کے تمام افراد کو خوشی دیتا ہے۔ ان کو یقین ہے کہ خدا پر ایمان روحانی رزق کے علاوہ کچھ نہیں لاتا۔
کیا تم میں سے کوئی خدا کے بارے میں مذکورہ بالا مختلف رویوں کا حامل ہے؟ (ہاں)۔ اگر، خُدا پر اُن کے ایمان میں، ایک شخص کا دل ان رویوں میں سے کسی ایک کو رکھتا ہے، تو کیا وہ واقعی خُدا کے سامنے آنے کے قابل ہے؟ اگر کسی کے دل میں ان میں سے کوئی رویہ ہے تو کیا وہ خدا پر ایمان رکھتا ہے؟ کیا ایسا شخص خود منفرد خدا پر یقین رکھتا ہے؟ (نہیں)۔ چونکہ تو خود منفرد خدا پر ایمان نہیں رکھتا، تو پھر کس پر ایمان رکھتا ہے؟ اگر تو جس چیز پر ایمان رکھتا ہے وہ خود منفرد خدا نہیں ہے، تو یہ ممکن ہے کہ تو کسی بت، یا کسی عظیم انسان، یا بودھی ستوا پر یقین رکھتا ہو، یا یہ کہ تو اس بدھا کی پرستش کرتا ہو جو تیرے دل میں ہے۔ اس کے علاوہ، یہ ممکن ہے کہ تو ایک عام انسان پر یقین رکھتا ہو۔ مختصر یہ کہ لوگوں کے خدا کے بارے میں مختلف اقسام کے عقیدے اور رویوں کی وجہ سے، وہ اپنے ادراک کے خدا کو اپنے دلوں میں جگہ دیتے ہیں، اپنے تخیل کو خدا پر مسلط کرتے ہیں، خدا کے بارے میں اپنے رویوں اور تخیلات کو خود منفرد خدا کے ساتھ ساتھ رکھتے ہیں، اور، بعد میں، مقدس ہونے کے لیے ان پر قائم رہتے ہیں۔ جب لوگ خدا کے بارے میں ایسے نازیبا رویے رکھتے ہوں تو اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے خود سچے خدا کو مسترد کر دیا ہے اور ایک جھوٹے خدا کی پرستش کر رہے ہیں؛ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا پر ایمان رکھتے ہوئے وہ اس کا انکار اور مخالفت کر رہے ہیں، اور یہ کہ وہ حقیقی خدا کے وجود سے انکاری ہیں۔ اگر لوگ اس طرح کے عقیدے پر قائم رہیں تو انھیں کن نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا؟ اِس قسم کے عقیدے کے ساتھ، کیا وہ کبھی خُدا کے تقاضوں کو پورا کرنے کے قریب ہونے کے قابل ہو سکیں گے؟ (نہیں، وہ نہیں ہوں گے)۔ اس کے برعکس، اپنے تصورات اور تخیلات کی وجہ سے، وہ خدا کے طریقے سے بہت دور بھٹک جائیں گے، کیونکہ وہ جس سمت کی تلاش میں ہیں، وہ اس سمت کے برعکس ہے جو خدا ان سے چاہتا ہے کہ وہ لیں۔ کیا تم نے کبھی ”رتھ کو شمال میں چلا کر جنوب کی طرف جانے“ کی کہانی سنی ہے؟ یہ غالباً رتھ کو شمال کی طرف چلا کر جنوب کی طرف جانے کا ایسا ہی معاملہ ہو سکتا ہے۔ اگر لوگ اس طرح کے غیر معقول انداز میں خدا پر یقین رکھتے ہیں، تو پھر تُو جتنی بھی محنت کرے گا، تو خدا سے اتنا ہی دور ہو جائے گا۔ چنانچہ، میں تجھے اس طرح نصیحت کرتا ہوں: جانے سے پہلے، تجھے پہلے یہ ادراک کر لینا چاہیے کہ تو واقعی صحیح سمت میں جا رہا ہے۔ اپنی کوششوں پر توجہ مرکوز رکھ، اور اپنے آپ سے پوچھنا یقینی بنا، ”کیا جس خدا پر میں یقین رکھتا ہوں وہ سب چیزوں کا حاکم ہے؟ کیا میں جس خدا پر یقین رکھتا ہوں وہ محض ایسا ہے جو مجھے روحانی رزق دیتا ہے؟ کیا وہ صرف میرا دیوتا ہے؟ یہ خدا جس پر میں یقین رکھتا ہوں مجھ سے کیا مانگتا ہے؟ کیا خدا میرے ہر کام کی توثیق کرتا ہے؟ کیا میرے تمام اعمال اور جستجوئیں خدا کو جاننے کی تلاش کے مطابق ہیں؟ کیا وہ اس کے تقاضوں کے موافق ہیں جو وہ مجھ سے کرتا ہے؟ کیا میں جس راستے پر چل رہا ہوں وہ خدا کی طرف سے تسلیم شدہ اور منظور شدہ ہے؟ کیا وہ میرے ایمان سے مطمئن ہے؟“ تجھے اکثر اور بار بار اپنے آپ سے یہ سوالات پوچھنے چاہییں۔ اگر تو خدا سے واقفیت حاصل کرنا چاہتا ہے، تو اس سے پہلے کہ تو اسے راضی کرنے میں کامیاب ہو سکے، تیرے پاس واضح شعور اور واضح مقاصد ہونے چاہییں۔
کیا یہ ممکن ہے کہ خدا اپنی رواداری کے نتیجے میں ان نازیبا رویوں کو بغض رکھتے ہوئے قبول کر لے جن کے بارے میں میں نے ابھی بات کی ہے؟ کیا خدا ان لوگوں کے رویوں کی تعریف کر سکتا ہے؟ (نہیں)۔ انسانوں اور اس کی پیروی کرنے والوں سے خدا کے کیا تقاضے ہیں؟ وہ لوگوں سے کس قسم کا رویہ اختیار کرنے کا تقاضا کرتا ہے؟ کیا تجھے ان کا واضح اندازہ ہے؟ اس نکتے پر، میں نے بہت کچھ کہا ہے؛ میں نے خود خدا کے عنوان کے ساتھ ساتھ اس کے اعمال اور اس کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے، کے بارے میں بہت زیادہ بات کی ہے۔ کیا اب تم جانتے ہو کہ خدا لوگوں سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟ کیا تو جانتا ہے کہ وہ تجھ سے کیا چاہتا ہے؟ بول۔ اگر تجربات اور عمل سے تمہارے علم میں ابھی تک کمی ہے یا پھر بھی بہت سطحی ہے تو تم ان الفاظ کے بارے میں اپنے علم کے بارے میں کچھ کہہ سکتے ہو۔ کیا تمہارے پاس سرسری طور پر علم ہے؟ خدا انسان سے کیا مانگتا ہے؟ (ان متعدد مرتبہ بات چیت کے دوران، خدا نے اس تقاضے کا اشارہ کیا ہے کہ ہم اسے جانیں، اس کے اعمال کو جانیں، جان لیں کہ وہ سب چیزوں کے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے، اور اس کی حیثیت اور شناخت سے واقف ہوں)۔ اور، جب خُدا پوچھتا ہے کہ لوگ اُسے جانتے ہیں، تو حتمی نتیجہ کیا ہے؟ (وہ سمجھتے ہیں کہ خدا خالق ہے، اور یہ کہ انسان تخلیق کردہ وجود ہیں)۔ جب لوگ اس طرح کا علم حاصل کر لیتے ہیں تو خدا کی طرف ان کے رویے میں، ان کے فرض کی ادائیگی کی کارکردگی میں، یا ان کی زندگی کے مزاج میں کیا تبدیلی آتی ہے؟ کیا تم نے کبھی اس بارے میں سوچا ہے؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے، کہ خدا کو جاننے اور اسے سمجھنے کے بعد وہ اچھے انسان بن جاتے ہیں؟ (خدا پر ایمان ایک اچھا انسان بننے کی کوشش میں شامل نہیں ہے۔ بلکہ یہ خدا کی ایسی مخلوق بننے کی جستجو کرنا ہے جو متوقع معیار پر پوری اترے، اور ایک ایماندار انسان بننا ہے)۔ کیا کچھ اور ہے؟ (صحیح معنوں میں اور درست طریقے سے خدا کو جاننے کے بعد، ہم اسے خدا سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں؛ ہم جانتے ہیں کہ خدا ہمیشہ خدا ہے، یہ کہ ہم مخلوق ہیں، یہ کہ ہمیں خدا کی عبادت کرنی چاہیے، اور یہ کہ ہمیں اپنے مناسب مقام پر رہنا چاہیے)۔ بہت اچھا! آؤ کچھ دوسروں سے سنتے ہیں۔ (ہم خُدا کو جانتے ہیں، اور آخرکار وہ لوگ بننے کے قابل ہیں جو حقیقی معنوں میں خُدا کی اطاعت قبول کرتے ہیں، خُدا کی تعظیم کرتے ہیں، اور بُرائی سے بچتے ہیں)۔ یہ درست ہے!
پ۔ وہ رویہ جس کا خُدا نوع انسانی سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس کے لیے رکھے
درحقیقت، خدا انسانوں سے بہت زیادہ مطالبہ نہیں کرتا – یا، کم از کم، وہ اتنا مطالبہ نہیں کرتا جتنا لوگ تصور کرتے ہیں۔ اگر خدا نے قطعاً کوئی بول نہ کہے ہوتے، اور اگر اس نے اپنے مزاج یا کسی عمل کا اظہار نہ کیا ہوتا، تو خدا کو جاننا تمہارے لیے بہت مشکل ہوتا، کیونکہ لوگوں کو اس کے ارادے اور مرضی کا نتیجہ اخذ کرنا پڑتا؛ یہ کرنا بہت مشکل ہوتا۔ تاہم، اپنے کام کے آخری مرحلے میں، خدا نے بہت سا کلام کہا ہے، بہت زیادہ کام کیا ہے، اور انسان سے بہت سے تقاضے کیے ہیں۔ اپنے کلام میں، اور اپنے کام کی بڑی مقدار میں، اس نے لوگوں کو بتایا ہے کہ وہ کیا پسند کرتا ہے، کس چیز سے کراہت کرتا ہے، اور انھیں کس قسم کے لوگ ہونا چاہیے۔ ان باتوں کو سمجھنے کے بعد، لوگوں کے دلوں میں خدا کے تقاضوں کی ایک درست تشریح ہونی چاہیے، کیونکہ وہ مبہم طور پر خدا کو نہیں مانتے اور مزید کسی مبہم خدا کو نہیں مانتے اور نہ ہی وہ مبہم یا عدم وجود کے درمیان خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ بلکہ، وہ اس کے کلمات کو سننے، اس کے تقاضوں کے معیار کو سمجھنے اور ان کو پورا کرنے کے قابل ہوتے ہیں، اور خدا بنی نوع انسان کی زبان کا استعمال کرتے ہوئے انھیں وہ سب کچھ بتاتا ہے جو انھیں جاننا اور سمجھنا چاہیے۔ آج، اگر لوگ اب بھی نہیں جانتے کہ خدا کیا ہے اور وہ ان سے کیا چاہتا ہے؛ اگر وہ نہیں جانتے کہ کسی کو خدا پر ایمان کیوں لانا چاہیے، اور نہ ہی یہ کہ اس پر ایمان کیسے لانا چاہیے یا اس کے ساتھ کیسے سلوک کرنا چاہیے – پھر اس کے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔ ابھی، تم میں سے ہر ایک نے ایک مخصوص موضوع پر بات کی ہے؛ تمہیں کچھ چیزوں کا علم ہے، چاہے یہ چیزیں مخصوص ہوں یا عام۔ تاہم، میں تمہیں صحیح، مکمل، اور مخصوص تقاضوں کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جو خدا بنی نوع انسان سے کرتا ہے۔ وہ صرف چند الفاظ ہیں، اور بہت سادہ؛ ہوسکتا ہے تم پہلے سے ہی انھیں جانتے ہو۔ بنی نوع انسان اور خدا کی پیروی کرنے والوں کے لیے خدا کے صحیح تقاضے درج ذیل ہیں۔ وہ اپنے پیروکاروں سے پانچ چیزوں کا تقاضا کرتا ہے: سچا ایمان، مخلص پیروی، مطلق اطاعت، حقیقی علم، اور دلی تعظیم۔
ان پانچ چیزوں میں، خدا چاہتا ہے کہ لوگ اب اس سے سوال نہ کریں یا اپنے تخیلات یا مبہم اور خیالی نقطہ نظر کا استعمال کرتے ہوئے اس کی پیروی نہ کریں؛ انھیں کسی تخیل یا تصور کی بنیاد پر خدا کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ وہ تقاضا کرتا ہے کہ اس کی پیروی کرنے والوں میں سے ہر ایک خلوص کے ساتھ ایسا کرے، نہ کہ نیم دلی اور بغیر عزم کے۔ جب خدا تجھ سے کوئی تقاضا کرتا ہے، تیرا امتحان لیتا ہے، تیری عدالت کرتا ہے، تیرے ساتھ معاملہ کرتا ہے اور تیری تراش خراش کرتا ہے، یا تیری تادیب کرتا ہے اور تجھے سزا دیتا ہے، تو تجھے اس کی مطلق اطاعت کرنی چاہیے۔ تجھے وجہ نہیں پوچھنی چاہیے اور نہ ہی شرائط لگانی چاہیے، تجھے وجوہات کے بارے میں تو بالکل بات نہیں کرنی چاہیے۔ تیری اطاعت مطلق ہونی چاہیے۔ خدا کا علم وہ موضوع ہے جس کی لوگوں میں سب سے زیادہ کمی ہے۔ وہ اکثر خدا پر ایسے اقوال، کہاوت اور الفاظ مسلط کرتے ہیں جن کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، یہ یقین کرتے ہوئے کہ ایسے الفاظ خدا کے علم کی سب سے درست تشریح ہیں۔ وہ بہت کم جانتے ہیں کہ یہ اقوال جو انسانی تخیل، ان کے اپنے استدلال اور اپنے علم سے آتے ہیں، خدا کے جوہر سے ذرا بھی تعلق نہیں رکھتے۔ اس طرح، میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ جب اس علم کی بات آتی ہے جو خدا چاہتا ہے کہ لوگوں کو حاصل ہو، تو وہ صرف یہ نہیں کہتا کہ تو اسے اور اس کے کلام کو پہچان، بلکہ یہ بھی کہ اس کے بارے میں تیرا علم درست ہو۔ یہاں تک کہ اگر تو صرف ایک جملہ کہہ سکتا ہے، یا صرف ایک چھوٹی سی بات سے واقف ہے، آگاہی کی یہ چھوٹی سی مقدار درست اور سچی ہے، اور خود خدا کے جوہر سے مطابقت رکھتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا اپنی کسی بھی ایسی تعریف یا ستائش سے نفرت کرتا ہے جو غیر حقیقی یا ناموافق ہو۔ اس سے بڑھ کر، وہ اس سے نفرت کرتا ہے جب لوگ اس کے ساتھ ایک مخصوص ہستی سمجھ کر برتاؤ کرتے ہیں۔ وہ اس سے نفرت کرتا ہے جب، خدا کے بارے میں موضوعات پر بحث کے دوران، لوگ حقائق کی پرواہ کیے بغیر، اپنی مرضی سے اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے بات کرتے ہیں اور جو بھی مناسب سمجھیں بولتے ہیں؛ مزید برآں، وہ ان لوگوں سے نفرت کرتا ہے جو یقین رکھتے ہیں کہ وہ خدا کو جانتے ہیں اور اس کے بارے میں اپنے علم پر فخر کرتے ہیں، اس سے متعلق موضوعات پر بغیر کسی رکاوٹ اور تحفظات کے گفتگو کرتے ہیں۔ مذکورہ بالا پانچ تقاضوں میں سے آخری دلی تعظیم تھی: یہ ان تمام لوگوں سے خدا کا حتمی تقاضا ہے جو اس کی پیروی کرتے ہیں۔ جب کسی کے پاس خدا کا درست اور صحیح علم ہوتا ہے، وہ حقیقی معنوں میں خدا کی تعظیم کرنے اور برائی سے بچنے کے قابل ہوتے ہیں۔ یہ تعظیم ان کے دل کی گہرائیوں سے آتی ہے؛ یہ تعظیم خوشی سے کی جاتی ہےاور خدا کے دباؤ کا نتیجہ نہیں ہے۔ خُدا یہ نہیں کہتا کہ تو اسے کوئی عمدہ رویہ، طرزِ عمل، یا ظاہری سلوک کا تحفہ دے؛ بلکہ، وہ کہتا ہے کہ تو اس کی تعظیم کر اور اپنے دل کی گہرائیوں میں اس سے ڈر۔ اس طرح کی تعظیم تیری زندگی کے مزاج میں تبدیلی، خدا کے بارے میں علم حاصل کرنے اور خدا کے اعمال کو سمجھنے، خدا کے جوہر کو سمجھنے اور تیرے اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے کہ تو خدا کی مخلوقات میں سے ایک ہے۔ لہذا، یہاں تعظیم کی تعریف کرنے کے لیے لفظ ”دلی“ استعمال کرنے کا میرا مقصد یہ ہے کہ انسان یہ سمجھیں کہ خدا کے لیے ان کی تعظیم ان کے دلوں کی گہرائی سے آنی چاہیے۔
اب ان پانچ تقاضوں پر غور کرو: کیا تم میں سے کوئی پہلے تین کو پورا کرنے کے قابل ہے؟ اس سے میری مراد، سچے عقیدے، مخلص پیروی، اور مطلق اطاعت ہے۔ کیا تم میں سے کوئی ان چیزوں کے قابل ہے؟ میں جانتا ہوں کہ اگر میں پانچوں کہتا تو بلاشبہ تم میں سے کوئی بھی ایسا نہ ہو گا لیکن میں نے ان کی تعداد کم کر کے تین کر دی ہے۔ اس بارے میں سوچو کہ آیا تم نے یہ چیزیں حاصل کی ہیں یا نہیں۔ کیا ”سچا عقیدہ“ حاصل کرنا آسان ہے؟ (نہیں، یہ آسان نہیں ہے)۔ یہ آسان نہیں ہے، کیونکہ لوگ اکثر خدا سے سوال کرتے ہیں۔ اور ”مخلص پیروی“ سے کیا مراد ہے؟ یہ ”خلوص“ کس چیز کا حوالہ دیتا ہے۔ (نیم دلی سے نہیں، بلکہ خلوص دل سے ہونا) نیم دلی سے نہیں، بلکہ خلوص دل سے ہونا۔ تم نے بالکل صحیح بات کی ہے! تو، کیا تم اس تقاضے کو پورا کرنے کے قابل ہو؟ تمہیں مزید سخت کوشش کرنی ہو گی، صحیح؟ فی الحال، تمہارا اس تقاضے میں کامیاب ہونا باقی ہے۔ ”مطلق اطاعت“ کے بارے میں کیا خیال ہے – کیا تم نے اسے پورا کیا؟ (نہیں)۔ تم نے اسے بھی پورا نہیں کیا۔ تم اکثر نافرمان اور باغی ہوتے ہو؛ تم اکثر نہیں سنتے، فرمانبرداری نہیں کرنا چاہتے، یا سننا نہیں چاہتے۔ یہ تین سب سے بنیادی تقاضے ہیں جو لوگ زندگی میں داخل ہونے کے بعد پورا کرتے ہیں، لیکن تمہیں ابھی انھیں حاصل کرنا ہے۔ اس طرح، اس وقت، کیا تھمارے پاس بڑی صلاحیت ہے؟ آج، مجھے یہ الفاظ کہتے ہوئے سن کر، کیا تم پریشان ہو؟ (ہاں)۔ یہ ٹھیک ہے کہ تمہیں پریشانی محسوس کرنی چاہیے۔ پریشان ہونے سے بچنے کی کوشش نہ کرو۔ مجھے تمھاری طرف سے پریشانی محسوس ہوتی ہے۔ میں دوسرے دو تقاضوں کی بات نہیں کروں گا؛ بلا شبہ، یہاں کوئی بھی ان کو حاصل کرنے کے قابل نہیں ہے۔ تم بےچین ہو۔ تو، کیا تم نے اپنے مقاصد کا تعین کیا ہے؟ تمہیں کن مقاصد کے ساتھ، اور کس سمت میں جستجو کرنی چاہیے اور اپنی کوششیں وقف کرنی چاہییں؟ کیا تمہارا ایک مقصد ہے؟ مجھے صاف صاف کہنے دو: جب تم یہ پانچ تقاضے پورے کرو گے تو خدا کو راضی کرو گے۔ ان میں سے ہر ایک نشاندہی کرنے والا ہے، نیز ایک شخص کی زندگی میں داخلے کی پختگی کا حتمی مقصد بھی۔ یہاں تک کہ اگر میں نے تفصیل سے بات کرنے کے لیے ان تقاضوں میں سے صرف ایک کو بھی منتخب کیا، اور تم سے اسے پورا کرنے کا تقاضا کروں، تو اسے حاصل کرنا آسان نہیں ہو گا؛ تمہیں ایک خاص حد تک سختی برداشت کرنی ہو گی اور ایک خاص مقدار میں کوشش کرنی ہو گی۔ تمہارا ذہنی رجحان کس قسم کا ہے۔ یہ ایک کینسر کے مریض کی طرح ہونا چاہیے جو آپریشن کی میز پر جانے کا انتظار کر رہا ہو۔ میں ایسا کیوں کہتا ہوں؟ اگر تو خدا پر یقین رکھنا چاہتا ہے، اور اگر تو خدا کو حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس کی رضا کو حاصل کرنا چاہتا ہے، پھر تو ایک خاص حد تک سختی برداشت کرنے اور ایک خاص مقدار میں کوشش کیے بغیر ان چیزوں کو حاصل کرنے کے قابل نہیں ہو گا۔ تم نے بہت زیادہ منادی سنی ہے، لیکن صرف سننے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ وعظ تیرا ہے؛ تجھے اسے جذب کرنا چاہیے اور اسے کسی ایسی چیز میں تبدیل کرنا چاہیے جس کا تعلق تجھ سے ہو۔ تجھے اسے اپنی زندگی میں جذب کرنا چاہیے اور اسے اپنے وجود میں لانا چاہیے، اس کلام اور منادی کو اپنے زندگی بسر کرنے کے طریقے کی راہنمائی کرنے اور اپنی زندگی میں وجودی قدر اور معنی لانے کا موقع دینا چاہیے۔ جب ایسا ہوتا ہے، تو تیرا اس کلام کو سننا قابلِ قدر ہو گا۔ میں نے جو کلام کہا ہے اگر وہ تمھاری زندگیوں میں کوئی بہتری نہیں لاتا یا تمہارے وجود میں کوئی قدر شامل نہیں کرتا تو پھر تمہارے سننے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ تم اسے سمجھتے ہو، صحیح؟ اسے سمجھنے کے بعد، آگے کیا ہوتا ہے یہ تم پر منحصر ہے۔ تمہیں کام لازمی شروع کرنا ہو گا! تمہیں ہر چیز میں ضرور پرجوش ہونا چاہیے! مخمصے میں مبتلا نہ ہو؛ وقت تیزی سے گزر رہا ہے! تم میں سے زیادہ تر پہلے ہی، ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے خدا پر ایمان لا چکے ہیں۔ ان پچھلے دس سالوں پر نظر ڈالو: تم نے کیا حاصل کیا ہے؟ اور اس زندگی میں رہنے کے لیے کتنی دہائیاں باقی رہ گئی ہیں؟ تمہارے پاس لمبا عرصہ نہیں ہے۔ بھول جا کہ آیا خدا کا کام تیرا انتظار کر رہا ہے یا نہیں، آیا اس نے تیرے لیے ایک موقع چھوڑا ہے یا نہیں، آیا وہ وہی کام دوبارہ کرے گا یا نہیں – ان چیزوں کے بارے میں بات نہ کر۔ کیا تو اپنی زندگی کے پچھلے دس سالوں کے عمل کو پلٹ سکتا ہے؟ ہر گزرتے دن کے ساتھ، اور تیرے ہر قدم کے ساتھ جو تو اٹھاتا ہے، تیرے پاس ایک دن کم ہو جاتا ہے۔ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا! تجھے خدا پر اپنے ایمان سے تب ہی فائدہ ہو گا جب تو اس سے اپنی زندگی کی سب سے بڑی چیز کے طور پر نمٹے گا، یہاں تک کہ کھانے، کپڑے یا کسی بھی چیز سے بھی زیادہ اہم سمجھے گا۔ اگر تو صرف اس وقت یقین رکھتا ہے جب تیرے پاس وقت ہو، اور تو اپنی پوری توجہ اپنے ایمان کے لیے وقف کرنے سے قاصر ہے، اور تو ہمیشہ الجھنوں میں پڑا رہتا ہے، توپھر تو کچھ حاصل نہیں کرے گا۔ تم اسے سمجھتے ہو، صحیح؟ ہم آج کے لیے یہیں رکتے ہیں۔ اگلی بار ملتے ہیں!
15 فروری 2014