حقیقت پر مزید توجہ دو

خدا کے ذریعہ ہر شخص کے کامل ہونے کا امکان ہے، لہذا ہر کسی کو یہ سمجھنا چاہئے کہ خدا کے ارادوں کے مطابق اس کے لیے کس قسم کی خدمت بہترین ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ خدا پر یقین رکھنے کا کیا مطلب ہے، اور نہ ہی وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اس پر کیوں یقین رکھنا چاہئے – جس کا مطلب یہ ہے کہ، زیادہ تر لوگوں کو خدا کے کام یا اس کے انتظامی منصوبے کے مقصد کا کوئی ادراک نہیں ہے۔ اکثر لوگ اب بھی سوچتے ہیں کہ خدا پر یقین کرنا جنت میں جانے اور اپنی روحوں کے تحفظ سے متعلق ہے۔ وہ خدا پر یقین کرنے کی درست اہمیت سے بے خبر ہیں اور اس کے علاوہ انھیں خدا کے انتظامی منصوبے میں سب سے اہم کام کی کوئی سمجھ نہیں ہے۔ اپنی ہی متعدد وجوہات کی بنا پر، لوگ بس خدا کے کام میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے، نہ ہی وہ اس کے ارادوں یا اس کے انتظامی منصوبے پر کوئی غور کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک فرد کے طور پر، ہر شخص کو خدا کے مکمل انتظامی منصوبے کا مقصد معلوم ہونا چاہیے، وہ حقائق جو اس نے بہت پہلے مکمل کر دیے ہیں، اس نے لوگوں کے اس گروہ کو کیوں چنا ہے، اس کا انھیں منتخب کرنے کا مقصد اور معنی کیا ہیں، اور وہ اس گروہ میں کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ خدا کے لیے بڑے لال اژدہے کے ملک میں ایسے غیر اہم لوگوں کے ایک گروہ کو کھڑا کرنے میں کامیاب رہنا، اور اب تک کام جاری رکھنا، ان کو ہر طرح سے آزمانا اور مکمل کرنا، بے شمار الفاظ بولنا، بہت زیادہ کام کرنا، اور بہت ساری خدمت انجام دینے والی اشیاء کو بھیجنا – صرف خدا کا اکیلے اس طرح کے عظیم کام کو پورا کرنا ظاہر کرتا ہے کہ اس کا کام کتنا اہم ہے۔ اس وقت، تو پوری طرح اس کی قدرشناسائی سے قاصر ہے۔ اس طرح، تجھے خدا کے تیرے اندر کیے گئے کسی بھی کام کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے؛ یہ کوئی چھوٹا معاملہ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ جو کچھ خدا نے آج تجھ پر منکشف کیا ہے وہ تیری سمجھ اور جاننے کی کوشش کے لیے کافی ہے۔ جب تو اسے حقیقتاً اور مکمل طور پر سمجھے گا صرف تب تیرے تجربات میں گہرائی پیدا ہو گی اور تیری زندگی آگے بڑھے گی۔ آج، لوگ بہت ہی کم سمجھتے اور عمل کرتے ہیں؛ وہ خدا کے ارادے مکمل طور پر پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ انسان کی کوتاہی ہے اور اپنے فرض کی ادائیگی میں ناکامی ہے، اور اس طرح وہ مطلوبہ نتیجہ حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ روح القدس کے پاس بہت سے لوگوں میں کام کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کیونکہ ان کے پاس خدا کے کام کے بارے میں بہت کم سمجھ ہے، اور خدا کے گھر کا کام کرتے ہوئے اسے کوئی اہم چیز سمجھنا نہیں چاہتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اسے کرنے کے لیے کوئی خاص کوشش نہیں کرتے، یا پھر اکثریت کی پیروی کرتے ہیں، یا صرف دکھاوے کے لیے کام کرتے ہیں۔ آج اس دھارے میں شامل ہر فرد کو یاد کرنا چاہیے کہ کیا انھوں نے اپنے اعمال و افعال میں وہ سب کچھ کیا ہے جو وہ کر سکتے ہیں، اور کیا انھوں نے اپنی پوری کوشش صرف کی ہے۔ لوگ اپنے فرض کی ادائیگی میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں، اس لیے نہیں کہ روح القدس اپنا کام نہیں کرتا، بلکہ اس لیے کہ لوگ اپنا کام نہیں کرتے، اس کی وجہ سے روح القدس کے لیے اپنا کام کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ خدا کے پاس کہنے کے لیے مزید الفاظ نہیں ہیں، لیکن لوگوں نے اچھا کام جاری نہیں رکھا، وہ بہت پیچھے رہ گئے ہیں، وہ ہر قدم کے ساتھ ساتھ چلنے سے قاصر ہیں، اور میمنے کے نقوش قدم کی قریب سے پیروی کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ انہیں جس چیز کی پابندی کرنی چاہئے، انہوں نے اس کی پابندی نہیں کی؛ جس پر انہیں عمل کرنا چاہیے تھا، انہوں نے عمل نہیں کیا؛ جس کے لیے انہیں مناجات کرنی چاہیے تھی، انہوں نے مناجات نہیں کی؛ جو انہیں ترک کرنا چاہئے تھا، انہوں نے ترک نہیں کیا۔ انہوں نے ان میں سے کوئی کام نہیں کیا ہے۔ اس لیے ضیافت میں شرکت کی اس بات میں کوئی دم نہیں ہے؛ اس کا کوئی حقیقی معنی نہیں ہے، اور یہ سب ان کے تصور میں ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج سے اگر دیکھا جائے تو لوگوں نے اپنا فرض بالکل ادا نہیں کیا ہے۔ سب کچھ خدا کے کرنے اور کہنے پر منحصر ہے۔ انسان کا کام بہت چھوٹا رہا ہے؛ لوگ بیکار نکمے ہیں جو خدا کے ساتھ تعاون کرنے سے قاصر ہیں۔ خدا نے سینکڑوں ہزاروں الفاظ کہے ہیں، اس کے باوجود لوگوں نے ان میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا – خواہ وہ جسم کو ترک کرنا ہو، تصورات کو رد کرنا ہو، ہر چیز میں خدا کی فرماں برداری کا وطیرہ اپناتے ہوئے فہم کو فروغ دینا اور بصیرت حاصل کرنا، اپنے دلوں میں لوگوں کو جگہ نہ دینا، اپنے دل کے بتوں کو نابود کرنا، اپنے غلط ارادوں کے خلاف بغاوت کرنا، جذبات سے کام نہ کرنا، چیزوں کو منصفانہ طور پر تعصب کے بغیر کرنا، بولتے وقت خدا کے مفادات اور دوسروں پر ان کے اثر کے بارے میں زیادہ سوچنا، خدا کے کام کو فائدہ پہنچانے والے زیادہ کام کرنا، جو کچھ وہ کرتے ہیں اس میں خدا کے گھر کو فائدہ پہنچانے کو ذہن میں رکھنا، اپنے جذبات کو اپنے طرز عمل پر حاوی نہ ہونے دینا، ان چیزوں کو رد کرنا جو ان کے اپنے جسم کو پسند ہیں، پرانے خودغرضانہ تصورات کو ختم کرنا، وغیرہ وغیرہ۔ خدا جو انسان سے جو تقاضے کرتا ہے وہ ان میں سے کچھ کو سمجھتے ہیں، لیکن وہ ان پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ خدا اور کیا کر سکتا ہے، اور وہ ان کو کیسے متحرک کر سکتا ہے؟ خُدا کی نظر میں بغاوت کے پروردہ لوگوں میں اب بھی اُس کے کلام کو اپنانے اور اُس کی تعریف کرنے کا حوصلہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ان میں خدا کا کھانا کھانے کا حوصلہ کیسے ہے؟ لوگوں کا ضمیر کہاں ہے؟ انہوں نے اپنے کم سے کم فرائض بھی انجام نہیں دیے جو انھیں انجام دینے چاہیے تھے، ان کی جانب سے پوری کوشش کیے جانے کی تو بات ہی کیا کرنی۔ وہ ایک خیالی دنیا میں جی رہے ہیں، کیا وہ نہیں جی رہے ہیں؟ عمل کے بغیر حقیقت پر کوئی گفتگو نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک حقیقت ہے جو روز روشن کی طرح عیاں ہے!

تجھے چاہیے کہ تو وہ سبق سیکھے جو زیادہ حقیقت پر مبنی ہیں۔ ایسی بلند آواز خالی بات کی کوئی ضرورت نہیں جس کی لوگ تعریف کرتے ہیں۔ جب علم کے بارے میں بات کرنے کا معاملہ ہو تو ہر شخص پہلے والے سے برتر ہوتا ہے، لیکن ان کے پاس اب بھی کوئی عمل کی راہ نہیں ہوتی ہے۔ کتنے لوگوں نے عمل کے اصولوں کو سمجھا ہے؟ کتنے لوگوں نے حقیقی سبق سیکھے ہیں؟ کون حقیقت کے حوالے سے رفاقت کر سکتا ہے؟ خدا کے کلام کے علم کے بارے میں بات کر پانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تیری حیثیت مستند ہے؛ اس سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تو پیدائشی ہوشیار ہے، کہ تو بااستعداد ہے۔ اگر تو راستے کی نشاندہی نہیں کر سکتا تو نتیجہ کچھ بھی نہیں ہوگا، اور تو بیکار کچرا ہوگا! اگر تو عمل کے حقیقی راستے کے حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتا تو کیا تو دکھاوا نہیں کر رہا ہے؟ اگر تو اپنے تجربات پیش نہیں کر سکتا، جس سے انہیں ایسے اسباق دیے جا سکیں جنہیں وہ سیکھ سکتے ہوں یا وہ راستہ جس پر وہ چل سکتے ہوں، تو کیا تو جعلسازی نہیں کر رہا ہے؟ کیا تو ایک جعلساز نہیں ہے؟ تیری قدر کیا ہے؟ ایسا شخص صرف ”سوشلزم کے نظریہ کے موجد“ کا کردار ادا کر سکتا ہے، نہ کہ ”سوشلزم کے فروغ میں معاون“ کا۔ حقیقت کے بغیر ہونا سچائی کے بغیر ہونا ہے۔ حقیقت کے بغیر ہونا بے سود ہونا ہے۔ حقیقت کے بغیر ہونا ایک چلتی پھرتی لاش ہونا ہے۔ حقیقت کے بغیر ہونا ایک ”مارکسسٹ-لیننسٹ مفکر“ ہونا ہے، جس کی کوئی قدر نہیں ہے۔ تم میں سے ہر ایک کو میرا مشورہ ہے کہ نظریہ کے بارے میں چپ رہو اور کسی حقیقی، مستند اور معیاری چیز کے بارے میں بات کرو؛ کسی ”جدید فن“ کا مطالعہ کرو، کوئی حقیقت پسندانہ بات کہو، کوئی حقیقی کردار ادا کرو، اور کچھ لگن کا جذبہ رکھو۔ بولتے وقت تم حقیقت کا سامنا کرو؛ لوگوں کو خوش کرنے یا ان کی نظروں میں آنے کے لیے غیر حقیقت پسندانہ اور مبالغہ آمیز باتوں میں شامل نہ ہو۔ اس میں اہمیت کہاں ہے؟ لوگوں کا تیرے ساتھ گرمجوشی سے پیش آنے کا کیا فائدہ ہے؟ اپنی گفتگو میں تھوڑی ”فنکاری“ لا، اپنے طرز عمل کو ذرا اور منصفانہ کر، چیزوں کو کرنے کے طریقے میں تھوڑی اور معقولیت لا، تو جو کہتا ہے اس میں تھوڑی اور حقیقت پسندی لا، اپنے ہر عمل سے خدا کے گھر کو فائدہ پہنچانے کا سوچ؛ جب تو جذباتی ہو جائے تو اپنے ضمیر کی سن، احسان کا بدلہ نفرت سے نہ دے یا احسان کی ناشکری نہ کر، اور منافق نہ بن، ایسا نہ ہو کہ تو برے اثر والا بن جائے۔ جب تم خدا کے الفاظ کھاتے پیتے ہو، انہیں حقیقت کے زیادہ قریب سے جوڑتے ہو، اور جب تم رفاقت کرتے ہو، تو حقیقی چیزوں کے بارے میں زیادہ بات کرو۔ متکبرانہ رویہ نہ اپناؤ؛ اس سے خدا راضی نہیں ہو گا۔ دوسروں کے ساتھ اپنے میل جول میں، کچھ زیادہ برداشت، کچھ زیادہ تواضع، اور کچھ مزید اعلیٰ ظرفی لاؤ، اور ”فراخ دلی کے جذبے“[a] سے سیکھو۔ جب تیرے ذہن میں برے خیالات آئیں، تو اپنے جسم کو مزید ترک کرنے کی مشق کرو۔ کام کرتے وقت، زیادہ حقیقت پسندانہ طریقوں کی بات کرو، اور زیادہ اونچا نہ اڑو، ورنہ جو کچھ تم کہو گے اس سے لوگ کچھ حاصل نہیں کر پائیں گے۔ کم لطف اندوزی، زیادہ معاونت – اپنی بے لوث لگن کا جذبہ ظاہر کرو۔ خدا کے ارادوں کا دھیان زیادہ رکھو، اپنے ضمیر کی بات زیادہ سنو، زیادہ محتاط رہو، اور یہ مت بھولو کہ خدا ہر روز تمہارے ساتھ کس صبر اور توجہ سے بات کرتا ہے۔ ”قدیم تقویم“ کو زیادہ کثرت سے پڑھو۔ زیادہ مناجات کرو اور بکثرت رفاقت کرو۔ اس قدر الجھنا بند کرو؛ کچھ سمجھداری کا اظہار کرو اور تھوڑی بصیرت حاصل کرو۔ جب تمہارا گناہگار ہاتھ دراز ہو، تو اسے واپس کھینچ لو؛ اسے بہت دراز نہ ہونے دو۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں اور خدا کی جانب سے جو تمہیں حاصل ہوگا وہ لعنت کے سوا کچھ نہیں ہو گا، اس لیے محتاط رہو۔ اپنے دل میں دوسروں کے لیے رحم رکھو، اور ہمیشہ ہاتھ میں ہتھیار لے کر حملہ نہ کرو۔ سچائی کے علم کے بارے میں زیادہ رفاقت کرو اور زندگی کے بارے میں زیادہ بات کرو، دوسروں کی مدد کرنے کے جذبے کو برقرار رکھو۔عمل زیادہ اور باتیں کم کرو۔ تحقیق و تجزیہ سے زیادہ عمل پر توجہ دو۔ روح القدس کے ذریعہ خود کو زیادہ متحرک ہونے دو، اور خدا کو تمہیں کامل بنانے کے مزید مواقع فراہم کرو۔ مزید انسانی عناصر ختم کرو؛ تمہارے پاس اب بھی کام کرنے کے بہت سارے انسانی طریقے ہیں، اور تمہارے کام کرنے کا سطحی انداز اور طرز عمل اب بھی دوسروں کے لیے ناگوار ہے: ان میں سے مزید کو ختم کرو۔ تمہاری نفسیاتی حالت اب بھی انتہائی قابل نفرت ہے؛ اسے بدلنے پر زیادہ وقت صرف کرو۔ تم اب بھی لوگوں کو بہت بڑا درجہ دیتے ہو؛ خدا کو زیادہ بڑا درجہ دو اور اس قدر نامعقول نہ بنو۔ ”معبد“ ہمیشہ خدا کا ہوتا ہے، اور اس پر لوگوں کا قبضہ نہیں ہونا چاہیے۔ مختصر یہ کہ راستبازی پر زیادہ اور جذبات پر کم توجہ دو۔ جسمانی لطافتوں کا خاتمہ سب سے بہتر ہے۔ حقیقت کے بارے میں زیادہ اور علم کے بارے میں کم بات کرو؛ سب سے بہتر یہ ہے کہ خاموش رہو اور کچھ نہ کہو۔ راہ عمل کے بارے میں زیادہ بات کرو، اور فضول کی شیخیاں کم بگھارو۔ سب سے بہتر یہ ہے کہ تم ابھی سے عمل کرنا شروع کر دو۔

خدا کے لوگوں سے تقاضے اتنے زیادہ نہیں ہیں۔ لوگ جب تک تندہی اور سنجیدگی سے عمل کرتے رہیں گے، وہ ”کامیابی کا درجہ“ حاصل کریں گے۔ سچائی بیان کی جائے تو، سمجھ، علم اور فہم کا حصول سچائی پر عمل کرنے سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ پہلے تم اس پر عمل کرو جس کی تمہیں سمجھ ہے اور اس پر عمل کر جس کا تم نے ادراک حاصل کر لیا ہے۔ اس طرح، تم بتدریج سچائی کا صحیح علم اور ادراک حاصل کر پاؤ گے۔ یہ وہ مراحل اور ذرائع ہیں جن کے ذریعہ روح القدس کام کرتا ہے۔ اگر تو اس طرح اطاعت نہیں کرے گا تو تجھے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اگر تو ہمیشہ اپنی مرضی سے کام کرتا ہے، اور اطاعت نہیں کرتا، تو کیا روح القدس تیرے اندر کام کرے گا؟ کیا روح القدس تیری مرضی کے مطابق کام کرتا ہے؟ یا کیا وہ تیری کمی کے مطابق اور خدا کے کلام کی بنیاد پر کام کرتا ہے؟ اگر تجھ پر یہ واضح نہیں ہے تو تو سچائی کی حقیقت میں داخل ہونے کے قابل نہیں ہو گا۔ ایسا کیوں ہے کہ بیشتر لوگوں نے خدا کے کلام کو پڑھنے کی کوشش بہت زیادہ کی ہے، لیکن ان کا علم بہت کم ہے اور وہ آگے کے حقیقی راستے کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کہہ سکتے؟ کیا تجھے لگتا ہے کہ علم ہونا سچائی کا حامل ہونے کے مترادف ہے؟ کیا یہ ایک الجھا ہوا نقطہ نظر نہیں ہے؟ تو علم کے اتنے حصوں پر بات کرنے کے قابل ہے جتنے کہ ساحل پر ریت کے ذرات ہیں، اس کے باوجود ان میں سے کوئی بھی حقیقی راستے کا حامل نہیں ہے۔ کیا تو ایسا کر کے لوگوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش نہیں کر رہا؟ کیا تو ایک خالی مظاہرہ نہیں کر رہا ہے، جس میں جان ڈالنے کے لیے کوئی مواد نہیں ہے؟ ایسا تمام رویہ لوگوں کے لیے نقصان دہ ہے! نظریہ جتنا بلند اور حقیقت سے خالی ہوتا ہے، اتنا ہی یہ لوگوں کو حقیقت میں داخل کرنے سے عاجز ہوتا ہے۔ نظریہ جتنا بلند ہوتا ہے، اتنا ہی یہ تجھے خدا کی نافرمانی اور مخالفت پر اکساتا ہے۔ روحانی نظریے پر اس قدر توجہ نہ دے – اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے! کچھ لوگ کئی دہائیوں سے روحانی نظریے کے بارے میں بات کرتے آ رہے ہیں، اور وہ روحانیت کے دیوتا بن گئے ہیں، لیکن بالآخر، وہ اب بھی سچائی کی حقیقت میں داخل ہونے میں ناکام رہتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے خدا کے کلام پر عمل نہیں کیا یا اس کا تجربہ نہیں کیا ہے، اس لیے ان کے پاس عمل کے لیے کوئی اصول یا راستہ نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کے پاس خود سچائی کی حقیقت نہیں ہوتی ہے، تو وہ دوسرے لوگوں کو خدا پر ایمان کی صحیح راہ پر کیسے لا سکتے ہیں؟ وہ صرف لوگوں کو گمراہ کر سکتے ہیں۔ کیا یہ دوسروں کو اور خود انھیں کو نقصان پہنچانا نہیں ہے؟ کم از کم، تجھے حقیقی مسائل حل کرنے کے قابل ہونا چاہیے جو تجھے درپیش ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تجھے خدا کے کلام پر عمل کرنے اور تجربہ کرنے کے قابل ہونا چاہیے، اور سچائی کو عملی جامہ پہنانے کے قابل ہونا چاہیے۔ صرف یہی خدا کی اطاعت ہے۔ تو اسی وقت خدا کے لیے کام کرنے کا اہل ہو جاتا ہے جب تو زندگی میں داخل ہوتا ہے اور صرف جب تو خلوص نیت سے خدا کے لیے خود کو خرچ کرتا ہے تو تو خدا کا منظور نظر بن سکتا ہے۔ ہمیشہ بڑے بڑے بیانات اور لفاظی والے نظریے کی بات نہ کر؛ یہ حقیقی نہیں ہے. لوگوں کی جانب سے اپنی تعریف کے لیے روحانی نظریہ پر نمائشی باتیں کرنا خدا کی گواہی دینا نہیں ہے، بلکہ خود کی شان دکھانا ہے۔ اس سے لوگوں کو قطعی کوئی فائدہ نہیں ہے اور نہ ہی ان کی اصلاح ہوتی ہے، اور بہ آسانی انھیں سچائی پر عمل کرنے پر توجہ نہ دینے اور روحانی نظریہ کی عبادت کرنے کی جانب لے جا سکتا ہے – اور کیا یہ لوگوں کو گمراہی کی جانب نہیں لے جا رہا ہے؟ اس عمل کے جاری رہنے سے متعدد کھوکھلے نظریات اور اصول پیدا ہوں گے جو لوگوں کو مجبور کریں گے اور پھنسائیں گے؛ یہ واقعی رسوا کن ہے. لہذا حقیقت کو زیادہ بیان کر، ان مسائل کے بارے میں زیادہ بات کر جو واقعی موجود ہیں، حقیقی مسائل کے حل کے لیے سچائی کی تلاش میں زیادہ وقت صرف کر؛ یہی سب سے اہم ہے. سچائی پر عمل کرنا سیکھنے میں دیر مت کر: یہی حقیقت میں داخل ہونے کا راستہ ہے۔ دوسرے لوگوں کے تجربے اور علم کو اپنی ذاتی ملکیت نہ سمجھ اور دوسروں کی تعریف سننے کے لیے انھیں مت اپنا۔ تجھے خود زندگی میں داخل ہونا چاہیے۔ صرف سچائی پر عمل کرنے اور خدا کی اطاعت کرنے سے ہی تجھے زندگی میں داخلہ ملے گا۔ یہی وہ چیز ہونی چاہیے جس پر ہر شخص عمل کرے اور اس پر توجہ مرکوز کرے۔

تو جو رفاقت کرتا ہے، اگر وہی لوگوں کو ان کا راستہ دے سکتی ہے، تو یہ تیرے پاس حقیقت ہونے کے مترادف ہے۔ اس سے قطع نظر کہ تو کیا کہتا ہے، تجھے لوگوں سے عمل کرانا چاہیے اور انہیں ایک ایسا راستہ دینا چاہیے جس پر وہ چل سکیں۔ انہیں صرف علم حاصل کرنے کی اجازت نہ دے؛ اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ان کے پاس اپنانے کے لیے راستہ ہو۔ خُدا پر یقین کرنے کے لیے، لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس راہ پر چلیں جس کی خدا نے اپنے کام میں رہنمائی کی ہے۔ یعنی خدا پر ایمان لانے کا عمل اس راہ پر چلنے کا عمل ہے جس پر روح القدس رہنمائی کرتا ہے۔ اسی طرح، تیرے پاس ایک ایسا راستہ ہونا چاہیے جس پر تو چل سکے، خواہ کچھ بھی ہو، تجھے خدا کے ذریعہ کامل کیے جانے والے راستے پر قدم رکھنا چاہیے۔ بہت پیچھے نہ رہ جا، اور بہت سی چیزوں کی تشویش میں مبتلا نہ ہو۔ اگر تو بغیر کوئی رکاوٹ ڈالے خدا کی رہنمائی والی راہ پر چلتا ہے تو ہی تجھے روح القدس کا کام حاصل ہو سکتا ہے اور تجھے داخلے کی راہ مل سکتی ہے۔ صرف یہی خدا کے ارادوں کے مطابق اور انسانیت کے فرض کی ادائیگی میں شمار ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک فرد کے طور پر، ہر فرد کو اپنے فرض کی ادائیگی درست طریقے سے کرنی چاہیے، وہ کام زیادہ کرو جو لوگوں کو کرنا چاہیے، اور جان بوجھ کر کام نہیں کرنا چاہیے۔ کام کرنے والے لوگوں کو چاہیے کہ اپنی بات واضح کریں، جو لوگ پیروی کرتے ہیں انہیں سختی کو برداشت کرنے اور اطاعت کرنے پر زیادہ توجہ دینی چاہیے، اور سب کو اپنی جگہ پر قائم رہنا چاہیے اور راہ سے بھٹکنا نہیں چاہیے۔ ہر شخص کے دل میں یہ واضح ہونا چاہیے کہ اسے کس طرح عمل کرنا چاہیے اور کس کام کو پورا کرنا چاہیے۔ روح القدس کی رہنمائی والی راہ پر چلو؛ گمراہ نہ ہو یا غلط راہ پر نہ چلو۔ تجھے آج کا کام واضح طور پر دیکھنا چاہیے۔ تمہیں کام کے آج کے ذرائع میں داخل ہونے کی مشق کرنی چاہیے۔ یہ پہلی چیز ہے جس میں تیرا داخل ہونا ضروری ہے۔ دوسری چیزوں پر مزید الفاظ ضائع نہ کر۔ آج خدا کے گھر کا کام کرنا تمہارا فرض ہے، آج کے کام کے طریقہ کار میں داخل ہونا تمہارا فرض ہے، اور آج کی سچائی پر عمل کرنا تمہارے اٹھانے والا بوجھ ہے۔

حاشیہ:

a۔ ”فراخ دلی کے جذبے“ ایک اعلیٰ درجے کا چینی قول ہے جسے کسی فراخ دل اور سخی فرد کے بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

سابقہ: ہزار سالہ بادشاہی آچکی ہے

اگلا: احکامات کی بجاآوری اور سچائی پر عمل کرنا

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp