احکامات کی بجاآوری اور سچائی پر عمل کرنا
عملی طور پر احکامات کی بجاآوری کا تعلق سچائی پر عمل سے ہونا چاہیے۔ احکامات کی پابندی کرتے ہوئے انسان کو سچائی پر عمل کرنا چاہیے۔ سچائی پر عمل کرتے وقت، کسی کو احکامات کے اصولوں کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے، نہ ہی احکامات کے خلاف جانا چاہیے؛ تجھے وہ کرنا چاہیے جو خدا تجھ سے چاہتا ہے۔ احکامات کی بجاآوری اور سچائی پر عمل کرنا ایک دوسرے سے باہم جڑے ہوئے ہیں، متضاد نہیں ہیں۔ جتنا زیادہ تُو سچائی پر عمل کرے گا اتنا ہی تو احکامات کے جوہر کی بجاآوری کے قابل ہو جائے گا۔ جتنا زیادہ تُو سچائی پر عمل کرے گا، اتنا ہی زیادہ تم احکامات میں بیان کیے گیے خدا کے کلام کو سمجھو گے۔ سچائی پر عمل کرنا اور احکامات کی بجاآوری کرنا متضاد عمل نہیں ہیں – وہ ایک دوسرے سے باہم جڑے ہوئے ہیں۔ ابتدا میں، انسان احکامات کی بجاآوری کے بعد ہی سچائی پر عمل اور روح القدس سے بصیرت حاصل کر سکتا ہے، لیکن یہ خدا کا اصل ارادہ نہیں ہے۔ خدا چاہتا ہے کہ تُو اپنے دل کو اس کی عبادت میں لگا دے، نہ کہ صرف اچھا برتاؤ کرے۔ تاہم، تجھے احکامات کو کم از کم سطحی طور پر تو رکھنا چاہیے۔ بتدریج، تجربے کے ذریعے، خدا کے بارے میں واضح تفہیم حاصل کرنے کے بعد، لوگ اس کے خلاف بغاوت اور مزاحمت کرنا بند کر دیں گے، اور اس کے کام کے بارے میں اب انہیں کوئی شک نہیں رہے گا۔ یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے لوگ احکامات کے جوہر کی پابندی کر سکتے ہیں۔ لہٰذا سچائی پر عمل کیے بغیر محض احکامات کی بجاآوری بے اثر ہے اور یہ خدا کی حقیقی عبادت نہیں ہے، کیونکہ تُو نے ابھی تک حقییقی مقام حاصل نہیں کیا ہے۔ سچائی کے بغیر احکامات کی بجاآوری صرف قوانین پر سختی سے عمل پیرا ہونے کے مترادف ہے۔ ایسا کرنے سے احکامات تیرا قانون بن جائیں گے، جو زندگی میں نشوونما پانے میں تیرے مددگار نہیں ہوں گے۔ اس کے برعکس، وہ تیرے لیے بوجھ بن جائیں گے، اور تجھے عہد نامہ قدیم کے قوانین کی طرح کس کر باندھ دیں گے، جس کی وجہ سے تُو روح القدس کی حاضری سے محروم ہو جائے گا۔ لہٰذا، صرف سچائی پر عمل کرنے سے ہی تُو احکامات کا مؤثر طریقے سے اتباع کر سکتا ہے اور تُو سچائی پر عمل کرنے کے لیے ہی احکامات کی پابندی کرتے ہو۔ احکامات کی بجاآوری کے عمل میں، تُو اور بھی زیادہ سچائیوں پرعمل کرے گا، اور سچائی پر عمل کرتے وقت، تجھے اس بات کی مزید گہری تفہیم حاصل ہو گی کہ احکامات کا اصل مطلب کیا ہے۔ خدا کے مطالبے کا کہ انسان احکامات پر عمل کرے، مقصد اور معنی صرف یہ نہیں ہے کہ وہ محض قوانین پر عمل کرے، جیسا کہ وہ تصور کر سکتا ہے۔ بلکہ، اس کا تعلق اس کے زندگی میں داخلے سے ہے۔ زندگی میں تیری نشوونما کی حد اس بات کا تعین کرتی ہے کہ تُو کس حد تک احکامات پر عمل کر سکے گا۔ اگرچہ احکامات انسان کی بجاآوری کے لیے ہیں، لیکن احکامات کا جوہر صرف انسان کی زندگی کے تجربے کے ذریعے ہی ظاہر ہوتا ہےَ۔ زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ احکامات کی اچھی طرح بجاآوری کا مطلب یہ ہے کہ وہ ”مکمل طور پر تیار ہیں، اور جو کچھ کرنا باقی ہے وہ بس یہ ہے کہ انہیں اوپر اٹھا لیا جائے“ یہ ایک فضول قسم کا خیال ہے، اور خدا کی مرضی کے مطابق نہیں ہے۔ جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں وہ ترقی نہیں کرنا چاہتے اور وہ جسم کے لالچ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ حماقت ہے! یہ حقیقت کی پاسداری کرنے کے مطابق نہیں ہے! یہ خدا کی مرضی نہیں ہے کہ احکامات کی بجاآوری کے بغیر سچائی پر عمل کیا جائے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ اپاہج ہوتے ہیں۔ وہ ایسے لوگوں کی طرح ہیں جو ایک ٹانگ سے محروم ہیں۔ صرف احکامات کی بجاآوری، گویا قوانین پر عمل کرنا، لیکن سچائی کا حامل نہ ہونا ہے – یہ بھی خدا کی مرضی کو پورا کرنے کا اہل ہونا نہیں ہے؛ ان لوگوں کی طرح جو ایک آنکھ سے محروم ہیں، جو لوگ ایسا کرتے ہیں، وہ بھی ایک قسم کی معذوری کا شکار ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر تُو احکامات کی اچھی طرح بجا آوری کرے اور عملی خدا کی واضح تفہیم حاصل کرے تو تُو سچائی کا حامل ہو گا؛ نسبتاً بات کریں تو تُو حقیقی مقام حاصل کر چکا ہو گا۔ اگر تُو اس سچائی پر عمل کرے گا جس پر عمل کرنا چاہیے تو تُو احکامات کی بھی بجاآوری کر رہا ہو گا اور یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہیں۔ سچائی پر عمل کرنا اور احکامات کی بجا آوری دو نظام ہیں، یہ دونوں انسان کی زندگی کے تجربے کے لازمی حصے ہیں۔ کسی فرد کا تجربہ احکامات کی بجا آوری اور سچائی پر عمل کرنے کے انضمام پر مشتمل ہونا چاہیے، نہ کہ تقسیم پر۔ تاہم، ان دونوں چیزوں کے مابین اختلافات اور روابط دونوں ہیں۔
نئے دور میں احکامات کا نفاذ اس حقیقت کی گواہی ہے کہ اس دھارے کے تمام لوگ، وہ سب لوگ جو آج خدا کی آواز سنتے ہیں، ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ خدا کے کام کے لیے ایک نیا آغاز ہے، ساتھ ہی ساتھ خدا کے چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبے کے کام کے آخری حصے کا آغاز ہے۔ نئے دور کے احکامات اس بات کی علامت ہیں کہ خدا اور انسان ایک نئے آسمان اور ایک نئی زمین کے دائرہ کار میں داخل ہو چکے ہیں، اور یہ کہ جس طرح یہوواہ نے بنی اسرائیل کے درمیان کام کیا تھا اور یسوع نے یہودیوں کے درمیان کام کیا تھا، خدا زیادہ عملی کام کرے گا، اور زمین پر اس سے بھی زیادہ اور حتیٰ کہ اس سے بھی عظیم تر کام کرے گا۔ وہ اس بات کی بھی علامت ہیں کہ لوگوں کے اس گروہ کو خدا کی طرف سے زیادہ سے زیادہ احکامات جاری ہوں گے، اور عملی طور پر اس کی طرف سے فراہمی کی جائے گی، کھلایا جائے گا، معاونت کی جائے گی، دیکھ بھال کی جائے گی، اور اس کی طرف سے حفاظت کی جائے گی، اس کی طرف سے مزید عملی تربیت دی جائے گی، اور خدا کے کلام کے ذریعے ان سے نمٹا جائے گا، سدھایا جائے گا اور پاک کیا جائے گا۔ نئے دور کے احکامات کی اہمیت بہت گہری ہے۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ خدا واقعی زمین پر نمودار ہو گا، جہاں سے وہ پوری کائنات فتح کرے گا، جسم میں اپنے تمام جلال کو ظاہر کرے گا۔ وہ یہ بھی تجویز کرتے ہیں کہ عملی خدا زمین پر زیادہ عملی کام کرنے جا رہا ہے تاکہ اس کے تمام منتخب کردہ لوگوں کو کامل کیا جا سکے۔ نیز، خدا زمین پر ہر چیز کی تکمیل کلام کے ساتھ کرے گا، اور اس حتمی فیصلے کا اظہار کرے گا کہ ”مجسم خدا انتہائی بلندی پر اٹھ جائے گا اور اس کی عظمت بیان کی جائے گی، اور تمام لوگ اور تمام قومیں خدا کی عبادت کے لیے، جو عظیم ہے، گھٹنے ٹیک دیں گی۔“ اگرچہ نئے دور کے احکامات کی بجاآوری انسان نے کرنی ہے، اور اگرچہ ایسا کرنا انسان کا فرض اور اس کی ذمہ داری ہے، لیکن وہ جس معنی کی نمائندگی کرتے ہیں وہ اتنا گہرا ہے کہ اسے ایک یا دو الفاظ میں مکمل طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا ہے۔ نئے دور کے احکامات پرانے عہد نامے کے قوانین اور نئے عہد نامے کے احکامات کی جگہ لیتے ہیں جیسے کہ یہوواہ اور یسوع نے جاری کیے تھے۔ یہ ایک گہرا سبق ہے، اتنا آسان معاملہ نہیں جتنا کہ لوگ تصور کر سکتے ہیں۔ نئے دور کے احکامات کی عملی اہمیت کا ایک پہلو ہے: وہ فضل کے دور اور بادشاہی کے دور کے درمیان باہمی ربط کے طور پر کام کرتے ہیں۔ نئے دور کے احکامات نے پرانے دور کے تمام طریقوں اور احکامات کے ساتھ ساتھ یسوع کے زمانے اور اس سے پہلے کے تمام اعمال کو ختم کر دیا ہے۔ وہ انسان کو زیادہ عملی خدا کی حاضری میں لاتے ہیں، جس سے اس (انسان) کا اس کے ذریعے ذاتی طور پر کامل ہونا شروع ہو جاتا ہے؛ وہ کمال کی راہ کا آغاز ہیں۔ پس تمہیں نئے زمانے کے احکامات کے بارے میں صحیح رویہ رکھنا چاہیےاور نہ ان کی پیروی بے ترتیبانہ انداز میں کرنی چاہیے اور نہ ہی انہیں حقارت کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ نئے دور کے احکامات ایک خاص نکتے پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں: کہ انسان آج کے خود عملی خدا کی عبادت کرے گا، جس میں روح کے جوہر کو زیادہ عملی طور پر تسلیم کرنا شامل ہے۔ احکامات اس اصول پر بھی زور دیتے ہیں جس کے ذریعے خدا انسان کو اپنے راستبازی کے سورج کے طور پر ظہور کے بعد مجرم یا راستباز قرار دے گا۔ احکامات کو عملی جامہ پہنانے سے زیادہ انہیں سمجھنا آسان ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر خدا انسان کو کامل کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے کلام اور ہدایت کے ذریعے ایسا کرنا ہو گا، اور انسان فقط اپنی فطری ذہانت کے ذریعے کمال حاصل نہیں کر سکتا۔ انسان نئے دور کے احکامات کی بجاآوری کر سکتا ہے یا نہیں اس کا انحصار عملی خدا کے بارے میں اس کے علم پر ہے۔ لہٰذا تُو احکامات پر عمل کر سکتا ہے یا نہیں، یہ ایک ایسا سوال نہیں ہے جو چند دنوں میں حل ہو جائے گا۔ سیکھنے کے لیے یہ ایک بہت گہرا سبق ہے۔
سچائی پر عمل ایک ایسا راستہ ہے جس کے ذریعے انسان کی زندگی نشوونما پا سکتی ہے۔ اگر تم سچائی پر عمل نہیں کرو گے تو تمھارے پاس نظریے کے سوا کچھ نہیں بچے گا اور تمہاری کوئی حقیقی زندگی نہیں ہو گی۔ سچائی انسان کی قدرومنزلت کی علامت ہے، اور چاہے آپ عمل کریں یا نہ کریں اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ آپ کی حقیقی قدرومنزلت ہے یا نہیں۔ اگر تُو سچائی پر عمل نہیں کرتا، نیک کام نہیں کرتا، یا جذبات سے متاثر ہو کر اپنی نفسانی خواہشات پر دھیان دیتا ہے، تو پھر تُو احکامات کی بجاآوری سے بہت دور ہے۔ یہ سب سے گہرا سبق ہے۔ ہر دور میں بہت سی ایسی سچائیاں ہوتی ہیں جن میں لوگوں کو داخل ہونے اور سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن ہر دور میں مختلف احکامات بھی ہوتے ہیں جو ان سچائیوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ وہ سچائیاں جن پر لوگ عمل کرتے ہیں ان کا تعلق کسی مخصوص دور سے ہوتا ہے، اور اسی طرح وہ احکامات بھی جن کی وہ بجاآوری کرتے ہیں۔ ہر دور کی اپنی سچائیاں ہوتی ہیں جن پر عمل کیا جاتا ہے اور احکامات جن کی بجاآوری کی جاتی ہے۔ تاہم، خدا کی طرف سے جاری کردہ مختلف احکامات پر انحصار کرتے ہوئے – یعنی، مختلف ادوار پر انحصار کرتے ہوئے – انسان کے سچائی پر عمل کرنے کا مقصد اور اثر متناسب طور پر مختلف ہوتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ احکامات سچائی کی معاونت کرتے ہیں، اور احکامات برقرار رکھنے کے لئے سچائی کا وجود ہے۔ اگر صرف سچائی ہی ہے، تو پھر خدا کے کام میں کوئی قابل ذکر تبدیلیاں نہیں ہوں گی۔ تاہم، احکامات کا حوالہ دے کر، انسان روح القدس کے کام میں رجحانات کی حد کی شناخت کر سکتا ہے، اور انسان اس دور کو جان سکتا ہے جس میں خدا کام کرتا ہے۔ مذہب میں، بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ان سچائیوں پر عمل کر سکتے ہیں جن پر قانون کے دور میں لوگوں کی جانب سے عمل کیا جاتا تھا۔ تاہم، ان کے پاس نئے دور کے احکامات نہیں ہیں اور نہ ہی وہ ان کی بجاآوری کر سکتے ہیں۔ وہ اب بھی پرانے طریقوں پر عمل کرتے ہیں اور ماقبل تاریخ کے انسانوں کی طرح رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ کام کے نئے طریقے نہیں ہوتے اور وہ نئے دور کے احکامات نہیں دیکھ سکتے۔ اس طرح، ان کے پاس خدا کا کام نہیں ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ان کے پاس صرف انڈوں کے خالی خول ہیں۔ اگر اندر کوئی چوزہ نہیں ہے، تو کوئی روح نہیں ہے۔ زیادہ درست انداز میں بیان کیا جائے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی زندگی نہیں ہے۔ ایسے لوگ ابھی تک نئے دور میں داخل نہیں ہوئے ہیں اور کئی قدم پیچھے رہ گئے ہیں۔ لہٰذا پرانے زمانے کی سچائیاں ہونا، لیکن نئے دور کے احکامات کا نہ ہونا بیکار ہے۔ تم میں سے بہت سے لوگ آج کی سچائی پر عمل کرتے ہیں، لیکن اس کے احکامات کی پابندی نہیں کرتے۔ تمہیں کچھ حاصل نہیں ہو گا، اور جس سچائی پر تم عمل کرتے ہو وہ بیکار اور بے معنی ہو گی اور خدا تمہاری تعریف نہیں کرے گا۔ سچائی پر عمل، روح القدس کے موجودہ کام کے طریقوں کے عوامل کے اندر کیا جانا چاہیے؛ یہ آج عملی خدا کی آواز کے جواب میں کیا جانا چاہیے۔ ایسا کیے بغیر، سب کچھ باطل ہے، جیسے بانس کی ٹوکری استعمال کرتے ہوئے پانی کھینچنے کی کوشش کرنا۔ نئے دور کے احکامات کے نفاذ کا عملی مطلب بھی یہی ہے۔ اگر لوگوں کو احکامات کی پابندی کرنا ہے، تو کم از کم انہیں، بغیر کسی الجھن کے، اس عملی خدا کو جاننا چاہیے جو جسم میں ظاہر ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، لوگوں کو احکامات کی پابندی کرنے کے اصولوں کو سمجھنا چاہیے۔ احکامات کی پابندی کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان پر بے ترتیب یا من مانے طریقے سے عمل کیا جائے، بلکہ یہ کہ کسی بنیاد، کسی مقصد اور اصولوں کے ساتھ ان پر عمل کیا جائے۔ حاصل کی جانے والی پہلی چیز یہ ہے کہ تمھارے تصورات واضح ہوں۔ اگر تجھے موجودہ دور میں روح القدس کے کام کی مکمل تفہیم ہے، اور اگر تو آج کے کام کے طریقوں میں داخل ہوتا ہے، تو تُو فطری طور پر احکامات کی بجاآوری کرنے کی واضح تفہیم حاصل کر لے گا۔ اگر وہ دن آئے جب تُو نئے دور کے احکامات کے جوہر میں سے دیکھ پائے اور احکامات کی بجاآوری کر سکے تو پھر تُو کامل ہو چکا ہو گا۔ یہ سچائی پر عمل کرنے اور احکامات کی بجاآوری کی عملی اہمیت ہے۔ تُو سچائی پر عمل کر سکتا ہے یا نہیں اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ تُو نئے دور کے احکامات کے جوہر کو کس طرح سمجھتا ہے۔ روح القدس کا کام انسان کے سامنے مسلسل ظاہر ہوتا رہے گا، اور خدا کو انسان کی زیادہ سے زیادہ ضرورت ہو گی۔ لہٰذا جن سچائیوں پر انسان حقیقتاً عمل کرتا ہے ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا اور وہ عظیم تر ہوتے جائیں گے، اور احکامات کی بجاآوری کے اثرات زیادہ گہرے ہو جائیں گے۔ لہٰذا تمہیں اسی وقت سچائی پر عمل اور احکامات کی بجاآوری کرنی چاہیے۔ کوئی بھی اس معاملے کو نظر انداز نہ کرے؛ اس نئے دور میں نئی سچائی اور نئے احکامات کو بیک وقت شروع ہونے دو۔