کلیسا کی زندگی اور حقیقی زندگی پر بحث
لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ صرف کلیسا کی زندگی کے اندر رہتے ہوئے ہی تبدیل ہونے کے قابل ہیں۔ اگر وہ کلیسا کی زندگی کے اندر نہیں ہیں تو وہ خود کو تبدیل ہونے سے لاچار محسوس کرتے ہیں، گویا کہ حقیقی زندگی میں تبدیلی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ کیا تم اس میں مسئلہ دیکھ سکتے ہو؟ میں نے اس سے پہلے بھی ان لوگوں کے لیے، جو خدا پر ایمان رکھتے ہیں، خدا کو حقیقی زندگی میں لانے کے بارے میں بات کی تھی۔ در حقیقت یہی خدا کے کلام میں داخل ہونے کا راستہ ہے۔۔ دراصل کلیسا کی زندگی لوگوں کو کامل بنانے کا فقط ایک محدود طریقہ ہے۔ اب بھی لوگوں کو کامل بنانے کا اصل ماحول حقیقی زندگی ہی ہے۔ یہی اصٖلی مشق اور حقیقی تربیت ہے جس کے بارے میں، میں نے بات کی تھی ،جو لوگوں کو باقاعدہ انسانیت کی زندگی حاصل کرنے اور روزمرہ کی زندگی کے دوران ایک سچے انسان کی مانند زندگی بسر کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ ایک جانب تو انسان لازماً مطالعہ کرے تاکہ اپنا تعلیمی معیار بلند کرسکے ، خدا کا کلام سمجھ سکے ، حصول کی قابلیت پا سکے۔ دوسری جانب، ایک انسان کے طور پر زندگی گزارنے کے لیے ضروری بنیادی معلومات سے آراستہ ہونا ضروری ہے تاکہ عام انسان کی بصیرت اور شعور حاصل کر سکیں، کیونکہ لوگ ان شعبوں میں تقریباً مکمل طور پر محروم ہیں۔ مزید برآں، خدا کے کلام کی لذت سے لطف اندوز ہونے اور سچائی کی بتدریج واضح سمجھ بوجھ کے لیے ہر ایک کو کلیسا کی زندگی میں ضرور آنا چاہیے.
یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ خدا پر ایمان لانے کے لیے خدا کو حقیقی زندگی میں لانا ضروری ہے؟ یہ صرف کلیسا کی زندگی نہیں جو لوگوں کو تبدیل کر دیتی ہے ؛ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کو حقیقی زندگی میں حقیقت میں داخل ہونا چاہیے۔ تم ہمیشہ اپنی روحانی حالت اور روحانی معاملات کے بارے میں بات کرتے تھے جبکہ حقیقی زندگی میں بہت سی چیزوں کو عملی جامہ پہنانے اور ان میں داخل ہونے کو نظر انداز کرتے تھے۔ تم نے ہر روز لکھا، ہر روز سنا، اور ہر روز پڑھتے بھی رہے۔ یہاں تک کہ تم کھانا پکاتے ہوئے دعا کرتے تھے: "اے خدا! تُو میرے اندر میری زندگی بن جا۔ بہر حال آج کے گذرتے دن میں مہربانی کر کے میرے پر رحمت کر اور مجھے آگہی دے۔ جیسی بھی آگہی دے مجھے آج سمجھنے کی توفیق بھی عطا کر تاکہ تیرا کلام میری زندگی بن جائے۔" تم نے رات کا کھانا کھاتے وقت یہ دعا بھی کی "اے خدا! تُو نے ہمیں یہ کھانا عطا کیا، اس میں برکت فرما، ہم تیری بتائی ہوئی زندگی پر چلیں اور تُو ہمارے ساتھ ہو۔آمین۔" کھانا ختم کرنے کے بعد برتن دھوتے ہوئے، تم نے بڑبڑانا شروع کردیا: "اے، خدا! میں یہ پیالہ ہوں۔ ہم شیطان کے ہاتھوں خراب ہو چکے ہیں اور ہم بالکل استعمال کیے گئے ان پیالوں کی مانند ہیں اور جنہیں پانی سے صاف کرنا پڑےگا۔ تو پانی ہے اور کلام زندہ پانی ہے جومجھے زندگی کی ضروریات فراہم کرتا ہے۔" اس سے پہلے کہ تم سمجھ پا تے، سونے کا وقت ہوجاتا ، اور تم پھر سے ہڑبڑانے لگے: "اے خدا! تُو نے مجھ پر اپنی رحمت کی اور دن بھر میری رہنمائی کی۔ میں سچے دل سے تیرا شکر گزار ہوں۔ ۔۔۔" یوں تم نے اپنا دن بسر کیا اور نیند کی آغوش میں چلے گئے۔ زیادہ تر لوگ ہر روز اس طرح زندگی بسر کرتے ہیں، اور اب بھی وہ حقیقی داخلے کو نظر انداز کردیتے ہیں،ان کی توجہ اپنی دعاؤں میں زبانی جمع خرچ پر ہی مرکوز ہوتی ہے۔ یہ ان کی پہلے کی زندگی ہے – یہ پرانی زندگی ہے۔ اور اکثریت ایسے ہی لوگوں کی ہے؛ ان کی کوئی حقیقی تربیت نہیں ہوتی چنانچہ وہ بہت ہی کم حقیقی تبدیلیوں سے گزرتے ہیں۔ وہ اپنی دعاؤں میں صرف زبانی جمع خرچ سے کام لیتے ہیں، صرف باتوں میں خدا کے قریب ہوتے ہیں لیکن ان کے سمجھنے میں گہرائی کا فقدان ہوتا ہے۔ چلیے ایک سادہ سی مثال گھر کی صفائی ہی کو لے لیتے ہیں – تمہیں نظر آتا ہے کہ تمہارا گھر گندا ہے، لہٰذا تم وہاں بیٹھ کر دعا کرتے ہو: "اے خدا! تُو دیکھ رہا ہے کہ مجھے شیطان نے کتنا بگاڑ دیا ہے ۔ میں اس گھر کی مانند گندا ہوں۔ اے خدا میں حقیقت میں تیری ثنا کرتا ہوں اور شکر گزار ہوں ۔ تیری نجات اور آگہی کے بغیر مجھے اس حقیقت کا ادراک نہ ہوتا۔" تم صرف وہاں بیٹھتے ہو اور بہت دیر تک بڑ بڑا کرعبادت کرتے ہو، اور اس کے بعد تم ایسے کام میں لگ جاتے ہو کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، جیسے تم محض ایک بڑبڑاتی ہوئی بوڑھی عورت ہو۔ تم حقیقت میں کسی حقیقی داخلے کے بغیر اس طرح اپنی روحانی زندگی گزارتے -ہو، بہت سارے سطحی اعمال کے ساتھ! حقیقی تربیت میں داخل ہونے میں لوگوں کی حقیقی زندگیاں اور ان کی عملی مشکلات شامل ہوتی ہیں – یہی ان کی تبدیلی کا واحد راستہ ہے۔۔ حقیقی زندگی کے بغیر لوگوں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ عبادت میں محض زبانی جمع خرچ کا کیا فائدہ؟ انسانی فطرت سمجھے بغیر ہر چیز وقت کا ضیاع ہے، اور عمل کے لیے راستے کے بغیر ہر چیز، ہر کوشش فضول ہے! عام عبادت لوگوں کو اپنے اندر معمول کی حالت کو برقرار رکھنے میں مدد دے سکتی ہے لیکن یہ انسان کو مکمل طور پر تبدیل نہیں کر سکتی۔ انسان کی خودستائی، خود پسندی، احساس برتری ، طنطنہ اور انسان کے بدعنوان مزاج کو جاننا – ان چیزں کا علم صرف عبادت سے نہیں مل جاتا – بلکہ اللہ کے کلام سے لطف اندوز ہونے سے حاصل ہوتا ہے اور وہ حقیقی زندگی میں روح القدس کی بصیرت کے ذریعے پہچانے جاتے ہیں۔ آج کل لوگ اچھی طرح بول سکتے ہیں، اور انہوں نے بلند بانگ ترین نصیحت سنی ہے – اپنی عمر کے دوران سب سے بڑھ کر بلند بانگ – لیکن انہوں نے اپنی حقیقی زندگی میں اس میں سے بہت کم لاگو کیا۔ یوں کہنا چاہیے کہ ان کی حقیقی زندگی میں کوئی خدا نہیں ہے؛ وہ تبدیلی کے بعد کسی نئے شخص کی زندگی کے مالک نہیں ہوتے۔ وہ حقیقی زندگی میں سچائی کو زندہ نہیں کرتے اور نہ ہی وہ خدا کو حقیقی زندگی میں لاتے ہیں۔ وہ جہنمی اولاد کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں۔ کیا یہ واضح انحراف نہیں ہے؟
ایک عام انسان کی مشابہت بحال کرنے کے لیے یعنی عمومی انسانیت کے حصول کے لیے لوگ محض اپنے الفاظ سے خدا کو خوش نہیں کر سکتے۔ ایسا کرکےوہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں، اور اس سے ان کے داخلے یا تبدیلی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ لہٰذا تبدیلی کے حصول کے لیے لوگوں کے لیے تھوڑی تھوڑی مشق کرنا ضروری ہے۔ انہیں آہستہ آہستہ داخل ہونا چاہیے، تھوڑا تھوڑا کرکے تلاش اور تحقیق کرنی چاہیے، مثبت سوچ سے داخل ہونا چاہیے، اور سچائی پر مبنی عملی زندگی گزارنا چاہیے۔ ایک درویش کی زندگی، اس کے بعد، حقیقی چیزیں، حقیقی واقعات، اور حقیقی ماحول لوگوں کو عملی تربیت حاصل کرنے کا موقع دیتے ہیں۔ لوگوں کو کسی زبانی جمع خرچ سے کام لینے کی ضرورت نہیں ہوتی ، بلکہ انہیں حقیقی ماحول میں تربیت لینا ہوتی ہے۔ لوگوں کو سب سے پہلے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ناقص صلاحیت کے حامل ہیں، اور پھر وہ خُدا کا کلام عام طریقے سے کھاتے پیتے ہیں، اور اس میں داخل ہوتے ہیں اور عام طریقے سے عمل بھی کرتے ہیں؛ صرف اسی طرح وہ حقیقت حاصل کر سکتے ہیں، اور اس طرح داخلہ اور بھی تیزی سے ہو سکتا ہے۔ لوگوں کو بدلنے کے لیے، کچھ عملیت ضروری ہوتی ہے؛ انہیں حقیقی چیزوں، حقیقی واقعات اور حقیقی ماحول کے ساتھ مشق کرنی چاہیے۔ کیا کوئی صرف کلیسا کی زندگی پر انحصار کرکے حقیقی تربیت حاصل کرسکتا ہے؟ کیا لوگ اس طرح حقیقت میں داخل ہو سکتے ہیں؟ نہیں! اگر لوگ حقیقی زندگی میں داخل ہونے سے قاصر ہیں، تب وہ اپنے پرانے طرز زندگی اور کام کرنے کے طریقے تبدیل کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ مکمل طور پر لوگوں کی سستی اور انحصار کی بلند سطح کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کے پاس زندگی گزارنے کی صلاحیت نہیں، اور،اس کےعلاوہ انہیں خدا کے ایک عام شخص کی مشابہت کے معیار کی کوئی سمجھ نہیں ہے۔ماضی میں، لوگ ہمیشہ بات کرتے تھے، بولتے تھے،آپس میں بات چیت کرتے تھے – اور کچھ تو "واعظ" تک بن گئے – تاہم ان میں سے کسی نے بھی اپنے مزاجِ زندگی میں تبدیلی کی کوشش نہ کی; اس کی بجائے، انہوں نے اندھادھند گہرے نظریات کی جستجو کی۔ لہٰذا، آج کے لوگوں کو اپنی زندگیوں میں خدا پر ایمان کے اس مذہبی طرز فکر کو بدلنا چاہیے۔ انہیں ایک واقعہ، ایک چیز، ایکشخص پرتوجہ مرکوز کرکے عمل میں داخل ہونا ہوگا۔ . انہیں لازماً توجہ کے ساتھ ایسا کرنا چاہیے – تب ہی وہ نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ لوگوں میں تبدیلی کا آغاز ان کے جوہر میں تبدیلی سے شروع ہوتا ہے۔ کام کا ہدف لوگوں کے جوہر، ان کی زندگی، اور ان کی سستی، محتاجی اور غلامی پر ہونا چاہیے – صرف اسی صورت میں وہ تبدیل ہو سکتے ہیں۔
اگرچہ کلیسا کی زندگی کچھ شعبوں میں نتائج پیدا کر سکتی ہے، لیکن اہم بات اب بھی یہ ہے کہ حقیقی زندگی ہی لوگوں کو بدل سکتی ہے۔ کسی شخص کی پرانی فطرت حقیقی زندگی کے بغیر تبدیل نہیں کی جا سکتی ۔ مثال کے طور پر، آئیے ہم فضل کے دور میں یسوع کے کام ہی کو لیں۔ جب یسوع نے پچھلے قوانین کو ختم کر دیا تھا اور نئے دور کے احکامات مقرر کیے اس نے حقیقی زندگی سے حقیقی مثالوں کا استعمال کرتے ہوئے بات کی ۔ جب یسوع سبت کے دن اپنے شاگردوں کے ہمراہ گندم کے کھیت میں سے گزررہے تھے تو اس کے شاگردوں کو بھوک لگ گئی اور انہوں نے کھانے کے لیے اناج کی بالیاں توڑ لیں۔ فریسیوں نے جب یہ دیکھا تو کہا کہ وہ سبت کی پاسداری نہیں کر رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ لوگوں کو سبت کے دن گڑھے میں گرے ہوئے بچھڑوں کو بھی بچانے کی اجازت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سبت کے دوران کوئی کام نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یسوع نے نئے دور کے احکامات کا بتدریج نافذ کرنے کے لیے ان واقعات کا حوالہ دیا۔ اس وقت، اس نے لوگوں کو سمجھنے اور تبدیل ہونے میں مدد دینے کے لیے بہت سےعملی معاملات کا استعمال کیا۔ یہ وہی اصول ہے جس پرروح القدس کام انجام دیتی ہے اور صرف اس ہی طریقے سے لوگ تبدیل ہو سکتے ہیں۔عملی معاملات کے بغیر لوگ صرف نظریاتی اور فکری سمجھ حاصل کر سکتے ہیں – یہ تبدیلی کا موثر راستہ نہیں ہے۔ تو تربیت کے ذریعے حکمت اور بصیرت کیسے حاصل ہوتی ہے؟ کیا لوگ صرف سننے، پڑھنے اور اپنے علم میں اضافہ کرنے سے حکمت اور بصیرت حاصل کر سکتے ہیں؟ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ لوگوں کو حقیقی زندگی میں لازماً سمجھنا اور تجربہ کرنا چاہیے! لہٰذا، تربیت لینی چاہیے، حقیقی زندگی سے الگ نہیں ہونا چاہیے۔ لوگوں کو مختلف پہلوؤں پر لازماً توجہ دینی چاہیے اور مختلف پہلوؤں میں داخل ہونا چاہیے: لوگوں کو تعلیمی سطح، قوت بیان، چیزوں کو دیکھنے کی صلاحیت، شعور، خدا کا کلام سمجھنے کی صلاحیت، عقلِ سلیم اور انسانیت کے اصول اور انسانیت سے متعلقہ دیگر چیزوں سے لیس ہونا ازحد ضروری ہے۔ ادراک حاصل کرنے کے بعد لوگوں کو داخلے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور تب ہی تبدیلی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اگر کسی نے سمجھ حاصل کر لی ہے ،اس کے باوجود وہ عمل سے غفلت برتتے ہیں تو تبدیلی کیسے رونما ہو سکتی ہے؟ آج کل لوگ بہت کچھ سجھتے ہیں لیکن حقیقی زندگی نہیں گزارتے؛ پس، وہ خدا کے کلام کی بہت کم ضروری سمجھ رکھتے ہیں۔ تجھے بس برائے نام آگہی ملی ، تجھے روح القدس سے معمولی سی روشنی ملی ہے۔ ابھی تک تُو حقیقی زندگی میں داخل نہیں ہوا ہے – یا تجھے داخلے کی پروا ہی نہیں – پس تیری تبدیلی کم ہو گئی ہے۔ اتنے عرصہ دراز کے بعد لوگ بہت کچھ سمجھتے ہیں۔ وہ نظریات کے بارے اپنے علم پر بہت سی باتیں کرنے کے قابل ہیں لیکن ان کا خارجی مزاج یکساں رہتا ہے اور ان کی اصل استعداد ویسی ہی رہتی ہے جیسی پہلے تھی، ذرا سی بھی آگے نہیں بڑھ رہی ہے۔ اگرایسی صورت حال ہے تو تُوآخر کب اس میں داخل ہوگا؟
کلیسا کی زندگی صرف ایک ایسی قسم کی زندگی ہے کہ جہاں لوگ خدا کے کلام کا مزہ لینے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ یہ زندگی کا مختصرسا حصہ ہے۔ اگر لوگوں کی حقیقی زندگی بھی ان کی کلیسائی زندگی جیسی ہوسکتی، بشمول ان کی عام روحانی زندگی، خدا کے کلام سے عمومی طور پرلطف اندوز ہونا ، عام انداز میں دعا کرنا اور خدا کے قریب ہونا، ایک حقیقی زندگی گزارنا جس میں ہرعمل خدا کی مرضی کے مطابق ہو، دعا کی مشق اور خدا کے روبرو خاموش رہنے کی مشق، مناجات گانا اوررقص کی مشق کی حقیقی زندگی گزارنا – تو یہ وہ واحد قسم کی زندگی ہے جو انہیں خدا کے کلام کی زندگی میں لے آئے گی۔ زیادہ تر لوگ اپنی باہر کی زندگی کے گھنٹوں کی "پروا کیے" بغیر، جیسے انہیں ان سے کوئی سروکار نہ ہو، صرف اپنی کلیسا کی زندگی کے چند گھنٹوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں ۔ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو صرف خدا کا کلام کھاتے اور پیتے، مناجات گاتے اور دعا کرتے درویشوں کی زندگی میں داخل ہوتے ہیں، اور پھر وہ ان اوقات کے باہر اپنی پرانی حالت میں واپس لوٹ جاتے ہیں۔ اس طرح کی زندگی گزارنے سے لوگوں میں تبدیلی رونما نہیں ہوتی ،کجا یہ کہ انہیں خدا کی پہچان کرانا۔ خدا پرایمان رکھتے ہوئے اگر لوگ اپنے مزاج میں تبدیلی چاہتے ہیں تو انہیں اپنے آپ کو حقیقی زندگی سے الگ نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ تُو بتدریج تبدیلی حاصل کرنے کے قابل ہو سکے، حقیقی زندگی میں تجھے لازماً اپنے آپ کو پہچاننا، خود کو ترک کرنا، سچائی پرعمل کرنا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ تمام چیزوں میں اصول، عقل سلیم، اور ذاتی طرز عمل کے قوانین سیکھنے چاہیئں ۔ تُواگر حقیقی زندگی میں داخل ہوئے بغیر، حقیقت کی گہرائی میں جائے بنا صرف نظریاتی علم پر توجہ مرکوز کرکے صرف مذہبی تقریبات کے درمیان زندگی گزارتا ہے تو تُو کبھی بھی نہ تو خود حقیقت میں داخل ہوگا نہ ہی تُو کبھی اپنے آپ کو، سچائی کو یا خدا کو جان سکے گا اور تُو ہمیشہ کے لیے اندھا اور جاہل رہےگا۔ خدا کا لوگوں کو بچانے کا کام یہ نہیں کہ وہ انہیں مختصر مدت کے بعد عام انسانی زندگی گزارنے کی اجازت دے اور نہ ہی ان کے غلط تصورات اور عقائد تبدیل کرنا ہے بلکہ اس کا مقصد لوگوں کے پرانے مزاج، ان کا پراناطرز زندگی اوران کے تمام فرسودہ طرزفکر اور ذہنی نقطہ نظر تبدیل کرنا ہے۔ صرف کلیسا کی زندگی پر توجہ مرکوز کرنے سے لوگوں کی پرانی عاداتِ زندگی یا وہ پرانے طریقے جن کے مطابق وہ عرصہ دراز سے زندگی گزاررہے ہیں، تبدیل نہیں ہوں گے۔ معاملہ کچھ بھی ہو، لوگوں کو حقیقی زندگی سے لاتعلق نہیں ہونا چاہیے۔ خدا لوگوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ نہ صرف کلیسا کی زندگی بلکہ حقیقی زندگی میں بھی عام انسانوں کے مطابق گذاریں، نہ کہ وہ صرف کلیسا کی زندگی میں بلکہ حقیقی زندگی میں بھی سچائی سے جئیں، اور یہ کہ وہ نہ صرف کلیسا کی زندگی میں بلکہ حقیقی زندگی میں بھی اپنے افعال پورے کرتے رہیں۔ حقیقت میں داخل ہونے کے لیے لازماً ہر چیز کا رخ حقیقی زندگی کی جانب موڑنا پڑے گا۔ لوگ خدا پرایمان رکھتے ہوئے،اگر فقط حقیقی زندگی میں داخل ہونے سے اپنے آپ کو نہیں جان سکتے، اور اگر وہ حقیقی زندگی میں عام انسانیت کے مطابق نہیں جی سکتے تو وہ ناکامیاں ان کا مقدر بن جائیں گے۔ جو لوگ خدا کی نافرمانی کرتے ہیں وہ سب ایسے لوگ ہیں جو حقیقی زندگی میں داخل نہیں ہو سکتے۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جو انسانیت کی بات کرتے ہیں، مگر شیطانوں والی فطرت کے ساتھ جیتے ہیں۔سچائی کا پرچار تو کرتے ہیں لیکن اس کی بجائے عقائد پرزندگی بسر کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو حقیقی زندگی میں سچائی کے ساتھ نہیں جی سکتے اگرچہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں لیکن قابل نفرت ہیں اور خدا کی طرف سے مسترد کر دیے جاتے ہیں۔ تجھے حقیقی زندگی میں داخل ہونے کی مشق کرنی ہوگی، اپنی خامیوں، نافرمانیوں اور جہالتوں کو جاننا ہوگا، اور اپنی غیر فطری انسانیت اور کمزوریوں کو جاننا ہوگا۔ اس طرح، تیرا علم تیری اصل حالت اور مشکلات میں ضم ہو جائے گا۔ صرف اس قسم کا علم ہی حقیقی ہے اور تجھے اپنی حالت صحیح معنوں میں سمجھنے اور مزاج میں تبدیلی حاصل کرنے کی اجازت دے سکتا ہے۔
اب جب کہ لوگوں کو کامل کیے جانے کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے، تمہیں حقیقی زندگی میں لازماً داخل ہونا چاہیے۔ اس لیے، تبدیلی حاصل کرنے کے لیے، تمہیں حقیقی زندگی میں داخل ہونے سے شروع کرنا اور بتدریج تبدیل ہونا چاہیے۔ اگر تُوعام انسانی زندگی سے گریزاں رہے اور صرف روحانی معاملات پر بات کرتے رہےتو چیزیں خشک، سپاٹ اورغیر حقیقی لگتی ہیں۔ ، تو پھر لوگ کیسے تبدیل سکتے ہیں؟ اب تجھے عمل کے لیے حقیقی زندگی میں داخل ہونے کے لیے کہا جاتا ہے، تاکہ حقیقی تجربے میں داخل ہونے کی بنیاد قائم کی جا سکے۔ یہ اس کا ایک پہلو ہے جو لوگوں کو لازماً کرنا چاہیے۔ روح القدس کا کام بنیادی طور پر رہنمائی کرنا ہے، جبکہ باقی لوگوں کے عمل اور داخلے پر منحصر ہے۔ ہر کوئی مختلف راستوں سے حقیقی زندگی میں داخل ہو سکتا ہے، ایسے کہ وہ خدا کو حقیقی زندگی میں لا سکیں ، اور حقیقی عام انسانیت کی زندگی گزار سکیں ۔یہ ہی بامعنی زندگی کی واحد قسم ہے۔