بائبل کے متعلق (3)
انجیل میں موجود ہر چیز خدا کی طرف سے ذاتی طور پر کہے گئے الفاظ کا ریکارڈ نہیں ہے۔ انجیل صرف خدا کے کام کے پچھلے دو مراحل کو دستاویز کرتی ہے، جس میں سے ایک حصہ انبیاء کی پیشین گوئی کا ریکارڈ ہے، اور ایک حصہ تجربات اور علم کا ہے جو ان لوگوں نے لکھا ہے جنہیں خدا نے تمام ادوار میں استعمال کیا۔ انسانی تجربات انسانی آراء اور علم سے داغدار ہوتے ہیں اوریہ ایسی چیز ہے جو ناگزیر ہے۔ انجیل کی بہت سی کتابوں میں انسانی تصورات، انسانی تعصبات اور انسانوں کی مہمل فہم موجود ہے۔ یقیناً، زیادہ تر الفاظ روح القدس کی روحانی بصیرت اور غیبی ہدایات کا نتیجہ ہیں، اور وہ درست فہم ہیں—پھر بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ سچائی کا مکمل طور پر درست اظہار ہیں۔ بعض چیزوں پر ان کے خیالات ذاتی تجربے سے حاصل کردہ علم، یا روح القدس کی روحانی بصیرت سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ انبیاء کو پیشین گوئیوں کی ہدایات خدا کی طرف سے ذاتی طور پردی گئی تھیں: یسعیاہ، دانیال، عزرا، یرمیاہ اور حزقیل کی پیشین گوئیاں روح القدس کی براہ راست ہدایت سے آئی تھیں؛ یہ لوگ اصحابِ بصیرت تھے، انہیں نبوت کی روح ملی تھی، اور یہ سب عہد نامہ قدیم کے نبی تھے۔ قانون کے دور میں، ان لوگوں نے، جنہوں نے یہوواہ کا الہام حاصل کیا تھا، بہت سی پیشین گوئیاں کیں، جن کی ہدایات براہِ راست یہوواہ کی طرف سے دی گئی تھیں۔ اور یہوواہ نے ان میں کیوں کام کیا؟ کیونکہ اسرائیل کے لوگ خدا کے چنے ہوئے لوگ تھے، اور ان کے درمیان نبیوں کا کام ہونا تھا؛ یہی وجہ ہے کہ انبیاء اس طرح کی وحی حاصل کرنے کے قابل تھے۔ درحقیقت، وہ اپنے اوپر نازل ہونے والی خدا کی وحی کو خود نہیں سمجھتے تھے۔ روح القدس نے یہ الفاظ ان کے منہ سے کہے تاکہ مستقبل کے لوگ ان باتوں کو سمجھ سکیں، اور دیکھیں کہ وہ واقعی خدا کی روح، روح القدس کے کام تھے، اور انسان کی طرف سے نہیں آئے، اور انہیں روح القدس کے کام کی توثیق دی جائے۔ فضل کے دور کے دوران، یسوع نے خود ان کی جگہ یہ تمام کام کیے، اور اس لیے لوگوں نے مزید پیشین گوئی نہیں کی۔ تو کیا یسوع نبی تھا؟ یسوع، یقیناً، ایک نبی تھا، لیکن وہ حواریوں کا کام کرنے کے قابل بھی تھا—وہ دونوں کام کر سکتا تھا، پیشین گوئی کر سکتا تھا اور پوری زمین میں لوگوں کی تبلیغ کر سکتا تھا اور تعلیم دے سکتا تھا۔ پھر بھی اس نے جو کام کیا اور جس شناخت کی اس نے نمائندگی کی وہ ایک جیسے نہیں تھے۔ وہ تمام انسانیت کو برائیوں سے بچانے کے لیے آیا، انسان کو گناہ سے نجات دلانے کے لیے؛ وہ ایک نبی تھا، اور ایک حواری، لیکن اس سے بڑھ کر وہ مسیح تھا۔ ایک نبی پیشین گوئی کر سکتا ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایسا نبی مسیح ہے۔ اس وقت، یسوع نے بہت زیادہ پیشین گوئیاں کی، اور اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک نبی تھا، لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا، چونکہ وہ ایک نبی تھا اور اس لیے مسیح نہیں تھا۔ یہ اس لیے ہے کہ اس نے کام کے ایک مرحلے کو انجام دینے میں خود خدا کی نمائندگی کی، اور اس کی شناخت یسعیاہ سے مختلف تھی: وہ نجات کا کام مکمل کرنے آیا تھا، اور اس نے انسان کی زندگی کا انتظام بھی کیا، اور خدا کی روح براہ راست اس کے پاس آئی۔ اس نے جو کام کیا، اُس میں خُدا کے روح سے کوئی الہام یا یہوواہ کی طرف سے ہدایات نہیں تھیں۔ اس کی بجائے، روح نے براہ راست کام کیا—جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ یسوع ایک نبی کی طرح نہیں تھا۔ اُس نے جو کام کیا وہ نجات کا کام تھا، جس کے بعد پیشین گوئی کی بات آئی۔ وہ ایک نبی تھا، حواری تھا، لیکن اس سے بڑھ کر وہ نجات دہندہ تھا۔ پیشینگوئی کرنے والے، اس دوران، صرف پیشین گوئی ہی کر سکتے تھے، اور کوئی اور کام کرنے میں خدا کی روح کی نمائندگی کرنے سے قاصر تھے۔ کیونکہ یسوع نے بہت کام کیا جو پہلے کبھی انسان نے نہیں کیا تھا، اور انسانیت کو بچانے کا کام کیا، اس لیے وہ یسعیاہ جیسوں سے مختلف تھا۔ کچھ لوگ آج کے دھارے کو قبول نہیں کرتے کیونکہ اس نے ان کے لیے ایک رکاوٹ پیدا کر دی ہے۔ وہ کہتے ہیں: "عہد نامہ قدیم میں بہت سے نبیوں نے بھی بہت سے الفاظ کہے—تو وہ گوشت پوست کے خدا کیوں نہیں بن گئے؟ آج کا خدا الفاظ بولتا ہے—کیا یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ انسانی شکل میں خدا ہے؟ تو انجیل کی بہت زیادہ تعریف و تعظیم نہیں کرتا اور نہ ہی تو اس کا مطالعہ کرتا ہے—تو تیرے پاس یہ کہنے کی کیا بنیاد ہے کہ وہ انسانی شکل میں خدا ہے؟ تو کہتا ہے کہ انہیں روح القدس کی طرف سے ہدایت دی جاتی ہے، اور تو یقین رکھتا ہے کہ کام کا یہ مرحلہ ذاتی طور پر خدا کی طرف سے کیا گیا کام ہے—لیکن اس کے لئے تیری بنیاد کیا ہے؟ آج تو اپنی توجہ خدا کے الفاظ پر مرکوز کرتا ہے، اور ایسا لگتا ہے جیسے تو نے انجیل کا انکار کر دیا ہے، اور اسے ایک طرف رکھ دیا ہے۔" اور اس لیے وہ کہتے ہیں کہ توعقیدے کے خلاف اور آزاد خیالی پر یقین رکھتا ہے۔
اگر تو آخری ایام میں خدا کے کام کی گواہی دینا چاہتا ہے، تو تجھے انجیل کی اندرونی کہانی، انجیل کی ساخت، اور انجیل کے جوہر کو لازمی سمجھنا چاہیے۔ آج، لوگ مانتے ہیں کہ انجیل خدا ہے، اور یہ کہ خدا انجیل ہے۔ تو، کیا وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ انجیل کے تمام الفاظ صرف وہی الفاظ تھے جو خدا نے کہے تھے، اور یہ کہ وہ سب خدا کی طرف سے کہے گئے تھے۔ جو لوگ خدا پر ایمان رکھتے ہیں وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ اگرچہ قدیم اور نئے عہد نامے کی تمام چھیاسٹھ کتابیں لوگوں نے لکھی تھیں، لیکن ان سب کوخدا کی طرف سے الہام ہوا تھا، اور روح القدس کے اقوال کا ریکارڈ دیا گیا تھا۔ یہ انسان کی غلط فہمی ہے، اور یہ حقائق سے پوری طرح مطابقت نہیں رکھتی۔ درحقیقت، پیشین گوئیوں کی کتابوں کے علاوہ، عہد نامہ قدیم کا بیشتر حصہ ایک تاریخی ریکارڈ ہے۔ نئے عہد نامے کے کچھ خطوط لوگوں کے تجربات کی وجہ سے ہیں، اور کچھ روح القدس کی روحانی بصیرت کی وجہ سے ہیں؛ پال کے خطوط، مثال کے طور پر، ایک آدمی کے کام سے پیدا ہوئے، وہ سب روح القدس کی روحانی بصیرت کا نتیجہ تھے، اور وہ کلیساؤں کے لیے لکھے گئے تھے، اور کلیساؤں کے بھائیوں اور بہنوں کے لیے ترغیب اور حوصلہ افزائی کے الفاظ تھے۔ وہ روح القدس کے کہے گئے الفاظ نہیں تھے—پال روح القدس کی طرف سے بات نہیں کر سکتا تھا، اور نہ ہی وہ ایک نبی تھا، اس نے وہ خواب بہت کم دیکھے تھے جو یوحنا نے دیکھے تھے۔ اُس کے خطوط افیوسس، فلاڈیلفیا، گلیشیا کے کلیساؤں اور دیگر کلیساؤں کے لیے لکھے گئے تھے۔ اور اس طرح، نئے عہد نامے کے پال کے خطوط وہ خطوط ہیں جو پال نے کلیساؤں کے لیے لکھے، اور یہ روح القدس کی جانب سے الہام نہیں ہے، اور نہ ہی وہ روح القدس کے براہ راست اقوال ہیں۔ وہ محضترغیب، تسلی اور حوصلہ افزائی کے الفاظ ہیں جو اس نے اپنے کام کے دوران کلیساؤں کے لیے لکھے۔ وہ بھی اس وقت پال کے زیادہ تر کام کا ریکارڈ ہیں۔ وہ اُن سب کے لیے لکھے گئے تھے جو خُداوند پر یقین رکھنے والے بھائی بہن ہیں، تاکہ اُس وقت کلیساؤں کے بھائی اور بہنیں اُس کی نصیحت پر عمل کریں اور خُداوند یسوع کے توبہ کے راستے پر چلتے رہیں۔ پال نے کسی بھی طریقے سے یہ نہیں کہا کہ خواہ وہ اُس وقت کے کلیسا ہوں یا مستقبل کے، سب کو اُس کی لکھی ہوئی چیزوں کو روحانی خوراک کے طور پر لینا چاہیے، اور نہ ہی اُس نے یہ کہا کہ اُس کے سب الفاظ خدا کی طرف سے آئے ہیں۔ اس وقت کے کلیسا کے حالات کے مطابق، اس نے صرف بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ بات چیت کی، اور انہیں ترغیب، اور انہیں ایمان کی تحریک دی، اور اس نے صرف لوگوں کو تبلیغ کی یا یاددہانی کرائی اور انہیں ترغیب دی۔ وہ اپنے کہے ہوئے الفاظ کا خود ذمہ دار تھا، اور اس نے ان الفاظ کے ذریعے لوگوں کی معاونت کی۔ اُس نے اُس وقت کلیساؤں کے ایک حواری کا کام کیا، وہ ایک کارکن تھا جسے خُداوند یسوع نے استعمال کیا، اور اِس طرح اُسے کلیساؤں کی ذمہ داری لازمی اُٹھانی چاہیے تھی، اور کلیساؤں کا کام کرنا چاہیے تھا، اسے بھائیوں اور بہنوں کی حالتوں کے بارے میں معلوم کرنا تھا—اور اس کی وجہ سے، اس نے خداوند پریقین رکھنے والے تمام بھائیوں اور بہنوں کے لیے خطوط لکھے۔ اس نے جو کچھ کہا وہ لوگوں کے لیے اخلاقی طور بہتر اور مثبت تھا، لیکن یہ روح القدس کے الفاظ کی نمائندگی نہیں کرتا تھا، اور یہ خدا کی نمائندگی نہیں کر سکتا تھا۔ اگر لوگ ایک انسان کے تجربات کے ریکارڈ اور ایک آدمی کے خطوط کو روح القدس کی طرف سے کلیساؤں کے لیے کہے گئے الفاظ کے طور پر سمجھتے ہیں تو یہ ایک قبیح مفہوم، اور ایک شدید گستاخی ہے۔ یہ خاص طور پر سچ ہے جب ان خطوط کی بات آتی ہے جو پال نے کلیساؤں کے لیے لکھے، کیونکہ اس کے خطوط بھائیوں اور بہنوں کے لیے اس وقت کے ہر کلیسا کے معاملات اور حالات کی بنیاد پر لکھے گئے تھے، اور خداوند پر یقین رکھنے والے بھائیوں اور بہنوں کوترغیب دینے کے لئے تھے، تاکہ وہ خداوند یسوع کا فضل حاصل کر سکیں۔ اس کے خطوط اس وقت کے بھائیوں اور بہنوں کو بیدار کرنے کے لیے تھے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اس کے اپنے کام کا بوجھ تھا، اور روح القدس کی طرف سے اسے دی گئی ذمہ داری بھی تھی؛ آخر، وہ ایک حواری تھا جس نے اس وقت کلیساؤں کی راہنمائی کی، جس نے کلیساؤں کے لیے خطوط لکھے اور انہیں نصیحت کی—یہ اس کی ذمہ داری تھی۔ اس کی شناخت محض ایک کام کرنے والے حواری کی تھی، اور وہ محض ایک حواری تھا جو خدا کی طرف سے بھیجا گیا تھا؛ وہ نبی نہیں تھا، اور نہ ہی پیشین گوئی کرنے والا تھا۔ اس کا اپنا کام اور بہن بھائیوں کی زندگیاں اس کے لیے سب سے زیادہ اہمیت کی حامل تھیں۔ لہذا، وہ روح القدس کی طرف سے بات نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے الفاظ روح القدس کے الفاظ نہیں تھے، ان کو خدا کے الفاظ تو کہا ہی نہیں جا سکتا، کیونکہ پال خدا کی مخلوق سے زیادہ کچھ نہیں تھا، اور یقیناً انسانی شکل میں خدا نہیں تھا۔ اس کی شناخت یسوع کی طرح نہیں تھی۔ یسوع کے الفاظ روح القدس کے الفاظ تھے، وہ خُدا کے الفاظ تھے، کیونکہ اُس کی پہچان مسیح کی تھی—خُدا کے بیٹے کی۔ پال اس کے برابر کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر لوگ پال کی طرح کے خطوط یا الفاظ کو روح القدس کے الفاظ کے طور پر دیکھتے ہیں، اور انہیں خدا کے طور پر پوجتے ہیں، تو پھر صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ بہت زیادہ ناقابل امتیاز ہیں۔ مزید سختی سے بولیں تو کیا یہ کھلی گستاخی نہیں ہے؟ ایک آدمی خدا کی طرف سے کیسے بات کر سکتا ہے؟ اور لوگ اُس کے خطوط کے ریکارڈ اور اُس کے کہے گئے الفاظ کے سامنے کیسے جھک سکتے ہیں گویا کہ وہ کوئی مقدس کتاب یا آسمانی کتاب ہے؟ کیا خُدا کے الفاظ اتفاقاً ایک آدمی کے ذریعے کہے جا سکتے ہیں؟ ایک آدمی خدا کی طرف سے کیسے بات کر سکتا تھا؟ اور اس طرح، تو کیا کہتا ہے—کیا وہ خطوط جو اس نے کلیساؤں کے لیے لکھے تھے اس کے اپنے خیالات سے آلودہ نہیں ہو سکتے؟ وہ انسانی خیالات سے کیسےآلودہ نہیں ہوسکتے؟ اس نے اپنے ذاتی تجربات اور اپنے علم کی بنیاد پر کلیساؤں کے لیے خطوط لکھے۔ مثال کے طور پر، پال نے گلیشیائی کلیساؤں کو ایک خط لکھا جس میں ایک خاص رائے تھی، اور پیٹر نے ایک اور لکھا، جس کا نظریہ کچھ اور تھا۔ ان میں سے کون سا روح القدس کی طرف سے آیا؟ کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ لہذا، صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان دونوں نے کلیساؤں کی ذمہ داری اُٹھائی، پھر بھی ان کے خطوط ان کی حیثیت کی نمائندگی کرتے ہیں، وہ بھائیوں اور بہنوں کے لیے اپنی دستیابی اور مدد، اور کلیساؤں کے لیے اپنی ذمہ داری کی نمائندگی کرتے ہیں، اور وہ صرف انسانی کام کی نمائندگی کرتے ہیں—وہ مکمل طور پر روح القدس کے نہیں تھے۔ اگر تو کہتا ہے کہ اس کے خطوط روح القدس کے الفاظ ہیں، تو تو نامعقول ہے، اور تو گستاخی کا مرتکب ہو رہا ہے! پال کے خطوط اور نئے عہد نامے کے دیگر خطوط زیادہ قریب کے زمانے کی روحانی شخصیات کی یادداشتوں کے مساوی ہیں: وہ واچمین نی یا لارنس کے تجربات کی کتابوں وغیرہ کے برابر ہیں۔ سادہ سی بات یہ ہے کہ حالیہ روحانی شخصیات کی کتابیں نئے عہد نامے میں مرتب نہیں ہیں، پھر بھی ان لوگوں کا جوہر ایک جیسا ہی تھا: یہ وہ لوگ تھے جو ایک خاص مدت کے دوران روح القدس کے ذریعے استعمال کیے گئے تھے، اور وہ براہ راست خدا کی نمائندگی نہیں کر سکتے تھے۔
نئے عہد نامہ کے میتھیو کی انجیل یسوع کے شجرہ نسب کو دستاویز کرتی ہے۔ شروع میں، یہ کہتی ہے کہ یسوع ابراہام اور داؤد کی اولاد تھا، اور یوسف کا بیٹا تھا؛ اس کے بعد یہ کہتی ہے کہ یسوع کا حمل روح القدس کے ذریعے ٹھہرا تھا، اور وہ ایک کنواری سے پیدا ہوا—جس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ یوسف کا بیٹا یا ابراہیم اور داؤد کی اولاد نہیں تھا۔ اگرچہ، نسب نامہ یسوع کو یوسف کے ساتھ جوڑنے پر اصرار کرتا ہے۔ اس کے بعد، نسب نامہ اس عمل کو ریکارڈ کرنا شروع کرتا ہے جس کے ذریعے یسوع کی پیدائش ہوئی تھی۔ یہ کہتا ہے کہ یسوع کا حمل روح القدس کے ذریعے ٹھہرا تھا، اور وہ ایک کنواری سے پیدا ہوا تھا، اور یوسف کا بیٹا نہیں تھا۔ پھر بھی نسب نامے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ یسوع یوسف کا بیٹا تھا اور چونکہ نسب نامہ یسوع کے لیے لکھا گیا ہے اس لیے اس میں بیالیس نسلیں درج ہیں۔ جب بات یوسف کی نسل تک جاتی ہے تو یہ عجلت میں کہتا ہے کہ یوسف مریم کا شوہر تھا، یہ الفاظ یہ ثابت کرنے کے لیے لکھے گئے ہیں کہ یسوع ابراہیم کی اولاد تھا۔ کیا یہ تضاد نہیں ہے؟ نسب نامہ واضح طور پر یوسف کے نسب کو دستاویز کرتا ہے، یہ ظاہر ہے کہ یہ یوسف کا نسب نامہ ہے، لیکن میتھیو اصرار کرتا ہے کہ یہ یسوع کا نسب نامہ ہے۔ کیا یہ روح القدس کے ذریعے یسوع کے حمل کے ٹھہرنے کی حقیقت کی تردید نہیں کرتا؟ اس طرح، کیا میتھیو کا نسب نامہ انسانی تخیل نہیں ہے؟ یہ مضحکہ خیز ہے! اس طرح تو جان سکتا ہے کہ یہ کتاب مکمل طور پر روح القدس کی طرف سے نہیں آئی ہے۔ شاید، کچھ لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ زمین پر خدا کا نسب نامہ ہونا چاہیے، جس کے نتیجے میں وہ یسوع کو ابراہیم کی بیالیسویں نسل کے طور پرمنسوب کرتے ہیں۔ یہ واقعی مضحکہ خیز ہے! زمین پر آنے کے بعد خدا ایک شجرہ نسب کیسے رکھ سکتا تھا؟ اگر تو کہتا ہے کہ خدا کا نسب ہے، تو کیا تم اسے خدا کی مخلوقات میں شمار نہیں کرتے؟ کیونکہ خدا زمین کا نہیں ہے، وہ مخلوق کا خداوند ہے، اور اگرچہ وہ گوشت پوست کا ہے، مگر وہ انسان کی طرح کے مادے کا نہیں ہے۔ تو خدا کی درجہ بندی خدا کی مخلوق کے طور پر کیسے کر سکتا ہے؟ ابراہام خدا کی نمائندگی نہیں کر سکتا؛ وہ اس وقت یہوواہ کے کام کا مقصد تھا، وہ محض ایک وفادار خادم تھا جسکی منظوری یہوواہ نے دی تھی، اور وہ اسرائیل کے لوگوں میں سے ایک تھا۔ تو وہ یسوع کا جدامجد کیسے ہو سکتا تھا؟
یسوع کا نسب نامہ کس نے لکھا؟ کیا یہ یسوع نے خود لکھا تھا؟ کیا یسوع نے ذاتی طور پر ان سے کہا تھا، "میرا نسب نامہ لکھو؟" یہ میتھیو نے یسوع کے صلیب پر مصلوب ہونے کے بعد ریکارڈ کیا تھا۔ اس وقت، یسوع نے بہت زیادہ کام کیا تھا جو اس کے پیروکاروں کے لیے ناقابل فہم تھا، اور اس نے کوئی وضاحت فراہم نہیں کی تھی۔ اُس کے جانے کے بعد، پیروکاروں نے ہر جگہ تبیلغ اور کام کرنا شروع کر دیا، اور کام کے اِس مرحلے کی خاطر، اُنہوں نے خطوط اور انجیل کی کتابیں لکھنے کا آغاز کیا۔ نئے عہد نامے کی انجیل کی کتابیں یسوع کے مصلوب ہونے کے بیس سے تیس سال بعد مرتب کی گئیں تھیں۔ اس سے پہلے، اسرائیل کے لوگوں نے صرف عہد نامہ قدیم کو پڑھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ فضل کے دور کے آغاز میں لوگوں نے عہد نامہ قدیم کو پڑھا۔ نیا عہد نامہ صرف فضل کے دور میں ظاہر ہوا۔ جب یسوع نے کام کیا تو نیا عہد نامہ موجود نہیں تھا؛ اس کے دوبارہ زندہ ہونے اور آسمان پر چڑھ جانے کے بعد لوگوں نے اس کے کام کو ریکارڈ کیا۔ اس وقت وہاں صرف چار انجیلیں تھیں، جن کے علاوہ پال اور پیٹر کے خطوط بھی تھے، اور الہامات کی کتاب بھی۔ یسوع کے آسمان پر چڑھ جانے کے تین سو سال سے زیادہ عرصے کے بعد، آنے والی نسلوں نے ان دستاویزات کو مرضی کے مطابق منتخب کر کے جمع کیا، اور صرف تب وہاں انجیل کا نیا عہد نامہ وجود پایا۔ صرف اس کام کے مکمل ہونے کے بعد ہی نیا عہد نامہ معرض وجود میں آیا؛ یہ پہلے موجود نہیں تھا۔ خُدا نے یہ سب کام انجام دیا تھا، اور پال اور دوسرے حواریوں نے مختلف مقامات پر کلیساؤں کو بہت سارے خطوط لکھے تھے۔ ان کے بعد کے لوگوں نے ان کے خطوط کو یکجا کیا، اور پتموس کے جزیرے پر یوحنا کے ذریعے ریکارڈ کیے گئے عظیم ترین تصور کو شامل کیا، جس میں خدا کے آخری ایام کے کام کی پیشین گوئی کی گئی تھی۔ لوگوں نے اس ترتیب کو بنایا، جو کہ آج کے اقوال سے مختلف ہے۔ آج جو کچھ ریکارڈ کیا گیا ہے وہ خدا کے کام کے مراحل کے مطابق ہے؛ آج لوگ جس میں مشغول ہیں وہ خدا کی طرف سے ذاتی طور پر کیا گیا کام ہے، اور ذاتی طور پر اس کے کہے گئے الفاظ ہیں۔ بنی نوع انسان۔ تجھے—مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ وہ الفاظ، جو براہ راست روح کی طرف سے آتے ہیں،وہ درجہ بدرجہ ترتیب دیے گئے ہیں، اور انسان کے ریکارڈ کی ترتیب سے مختلف ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے جو کچھ ریکارڈ کیا، وہ ان کی تعلیم کی سطح اور انسانی صلاحیت کے مطابق تھا۔ انہوں نے جو کچھ ریکارڈ کیا وہ انسانوں کے تجربات تھے، اور ہر ایک کے پاس ریکارڈ کرنے اور جاننے کے اپنے ذرائع تھے، اور ہر ریکارڈ مختلف تھا۔ اس لیے، اگر تو انجیل کو خدا کے طور پر پوجتا ہے تو، تو انتہائی جاہل اور احمق ہے! تم آج کے خدا کے کام کی تلاش کیوں نہیں کرتے ہو؟ صرف خدا کا کام ہی انسان کو بچا سکتا ہے۔ انجیل انسان کو نہیں بچا سکتی، لوگ اسے کئی ہزار سال تک پڑھ سکتے ہیں اور پھر بھی ان میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں آئے گی، اور اگر تو انجیل کی پوجا کرے گا تو تجھے کبھی بھی روح القدس کے کا ادراک حاصل نہیں ہو گا۔ اسرائیل میں خدا کے کام کے دو مراحل ہیں، جو دونوں انجیل میں درج ہیں، اور اسی طرح ان دستاویزات میں شامل تمام نام اسرائیل کے ہیں، اور تمام واقعات اسرائیل کے ہیں۔ یہاں تک کہ نام "یسوع" بھی ایک اسرائیلی نام ہے۔ اگر تو آج انجیل پڑھتا رہے، تو کیا تب تم معاہدے کی پابندی نہیں کر رہے؟ انجیل کے نئے عہد نامے میں جو درج ہے وہ یہودیہ کے معاملات ہیں۔ اصل متن یونانی اور عبرانی دونوں زبانوں میں تھا، اور جس نام سے اسے پکارا گیا تھا اور یسوع کے اس وقت کے الفاظ سب انسان کی زبان سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب وہ صلیب پر کیلوں سے جڑا ہوا تھا، یسوع نے کہا: "ایلی۔ ایلی۔ لَما شَبقتَنِی؟" کیا یہ عبرانی نہیں ہے؟ یہ صرف اس لیے ہے کہ یسوع یہودیہ میں انسانی شکل میں خدا بنا تھا، لیکن یہ ثابت نہیں کرتا کہ خدا یہودی ہے۔ آج، خدا چین میں گوشت پوست کا بن گیا ہے، اور اس لیے جو کچھ وہ کہتا ہے وہ بلاشبہ چینی زبان میں ہے۔ پھر بھی اس کا موازنہ انجیل سے ترجمہ شدہ چینی زبان سے نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ان الفاظ کا ماخذ مختلف ہے: ایک عبرانی سے آتا ہے جو انسانوں کے ذریعہ ریکارڈ کیا جاتا ہے، اور ایک روح کے براہ راست الفاظ سے آتا ہے۔ کیسے کوئی بھی فرق نہیں ہو سکتا تھا؟