باب 23
جب میری آواز گونجتی ہے، جب میری آنکھوں سے آگ نکلتی ہے، تو میں پوری زمین کو دیکھ رہا ہوتا ہوں اور میں پوری کائنات کا مشاہدہ کر رہا ہوتا ہوں۔ تمام انسانیت مجھ سے دعا کر رہی ہے، اپنی نظروں کو اوپر میری طرف موڑتے ہوئے، مجھ سے التجا کر رہی ہے کہ میں اپنا غصہ روک لوں، اور وہ مجھ سے مزید سرکشی نہ کرنے کی قسم کھا رہی ہے۔ لیکن اب یہ ماضی نہیں رہا؛ یہ اب ہے۔ کون میرے ارادے کو واپس کر سکتا ہے؟ یقیناً نہ تو انسانوں کے دلوں کی دعائیں اور نہ ہی ان کے منہ کے الفاظ؟ اب تک کون زندہ رہنے کے قابل ہو سکا ہے اگر یہ میری وجہ سے نہیں ہے؟ میرے منہ کے کلام کے ذریعے کے بغیر کون زندہ رہتا ہے؟ کون ہے جس کی نگرانی میری آنکھ نہیں کر رہی ہے؟ میں پوری زمین پر اپنا نیا کام انجام دیتا ہوں، اور کون اس سے کبھی بچ سکا ہے؟ کیا پہاڑ اپنی اونچائی کی وجہ سے اس سے بچ سکتے ہیں؟ کیا پانی اپنی بے کراں وسعت سے اسے روک سکتا ہے؟ اپنے منصوبے میں، میں نے کبھی بھی کسی چیز کو کم اہمیت کا نہیں سمجھا، اور اس لیے کبھی بھی کوئی شخص یا کوئی چیز ایسی نہیں رہی ہے جو میرے ہاتھوں کی گرفت سے بچ گئی ہو۔ آج، پوری انسانیت میں میرے مقدس نام کی مدح سرائی کی جاتی ہے، اور دوسری طرف، پوری انسانیت میں میرے خلاف صدائے احتجاج بلند ہوتی ہے، اور زمین پر میرے ہونے کی داستانیں پوری انسانیت میں پھیلی ہوئی ہیں۔ میں یہ برداشت نہیں کرتا کہ انسان میری عدالت کریں، اور نہ ہی میں یہ برداشت کرتا ہوں کہ وہ میرے جسم کو تقسیم کریں، اور مزید اس کا امکان تو اور بھی کم ہے کہ میں اپنے خلاف ان کی دشنام طرازیوں کو برداشت کر لوں۔ کیونکہ اس نے مجھے کبھی بھی صحیح معنوں میں نہیں جانا ہے اس لیے انسان نے ہمیشہ میری مزاحمت کی ہے اور مجھے دھوکا دیا ہے، اور میری روح کی قدر کرنے یا میرے الفاظ کو قیمتی سمجھنے میں ناکام رہا ہے۔ اس کے ہر کام اور عمل کے لیے، اور جو رویہ وہ میرے ساتھ رکھتا ہے اس کے لیے، میں انسان کو وہ "انعام" دیتا ہوں جس کا وہ حقدار ہے۔ اور اس طرح، تمام لوگ اپنے اجر کو نظر میں رکھتے ہوئے کام کرتے ہیں، اور کسی ایک نے بھی کبھی ایسا کوئی کام نہیں کیا ہے جس میں اس کی قربانی شامل ہو۔ انسان بے لوث طریقے سے وقف ہونے کے لیے آمادہ نہیں ہیں، بلکہ اس کی بجائے ان انعامات پر خوش ہوتے ہیں جو بغیر محنت کے حاصل ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ پطرس نے اپنے آپ کو میرے لیے وقف کر دیا تھا لیکن یہ کل کے اجر کی خاطر نہیں تھا بلکہ آج کے علم کی خاطر تھا۔ انسانیت نے کبھی بھی حقیقی طور پر مجھ سے ابلاغ نہیں کیا ہے، بلکہ بار بار میرے ساتھ سطحی انداز میں پیش آئی ہے، اور اس کے نتیجے میں یہ سوچتی ہے کہ بغیر محنت کے میری تائید حاصل کر لے۔ میں نے انسان کے دل کی گہرائیوں میں جھانک کر دیکھا ہے، اور اس طرح میں نے اس کے باطنی پوشیدہ گوشوں میں ’’بہت سے خزانوں کی ایک کان‘‘ کا پتہ لگایا ہے، جو ایسی چیز ہے کہ خود انسان کو بھی ابھی تک اس کا علم نہیں ہے، لیکن میں نے نئے سرے سے دریافت کیا ہے۔ اور اس طرح، جب وہ "مادی ثبوت" دیکھ لیتے ہیں تو پھر انسان اپنے بناوٹی تقدس والی کسرِنفسی کو ختم کر دیتے ہیں اور ہتھیلیوں کو پھیلا کر اپنی ناپاک حالت کا اعتراف کرتے ہیں۔ انسانوں میں، اور بہت کچھ ہے جو نیا ہے اور میرا انتظار کر رہا ہے کہ اسے "باہر نکالوں" تاکہ پوری انسانیت اس سے لطف اندوز ہو۔ انسان کی نااہلی کی وجہ سے اپنے کام کو روکنا تو دور کی بات، میں اپنے اصل منصوبے کے مطابق اس کی تراش خراش کرتا ہوں۔ انسان ایک پھل دار درخت کی مانند ہے: تراش خراش کے بغیر، درخت پھل دینے میں ناکام رہے گا، اور آخر میں، جو کوئی دیکھتا ہے وہ صرف سوکھی ہوئی شاخیں اور گرے ہوئے پتے ہوتے ہیں، اور کوئی بھی پھل زمین پر گرا ہوا نہیں ہوتا ہے۔
جب میں اپنی بادشاہی کے "اندرونی ایوان" کو دن بہ دن سجاتا ہوں، تو کوئی بھی میرے کام میں خلل ڈالنے کے لیے میرے "کام کے کمرے" میں کبھی اچانک نہیں آیا۔ سب لوگ میرے ساتھ تعاون کرنے کے لیے اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں، "برخاست کیے جانے" اور "اپنی حیثیت کھونے" سے شدید خوفزدہ ہیں اور اس طرح وہ اپنی زندگی کی بند گلی میں پہنچ جاتے ہیں، جہاں وہ اس "صحرا" میں بھی گر سکتے ہیں جس پر شیطان نے قبضہ کر رکھا ہے۔ انسان کے خوف کی وجہ سے، میں ہر روز اسے تسلی دیتا ہوں، ہر روز اسے محبت کرنے کی تحریک دیتا ہوں، اور اس کے علاوہ اس کی روزمرہ کی زندگی میں اسے ہدایت دیتا ہوں۔ یہ ایسے ہے گویا سب انسان بچے ہیں جو ابھی ابھی پیدا ہوئے ہیں؛ اگر انھیں دودھ نہ ملے تو وہ جلد ہی اس زمین سے چلے جائیں گے، اور پھر کبھی نظر نہیں آئیں گے۔ انسانیت کی دعاؤں کے درمیان، میں انسانوں کی دنیا میں آتا ہوں اور فوراً ہی، انسانیت روشنی کی دنیا میں رہنے لگتی ہے، جو اب کسی ایسے "کمرے" کے اندر بند نہیں ہے جہاں سے وہ آسمان کی طرف اپنی دعائیں بھیجتی ہے۔ جیسے ہی وہ مجھے دیکھتے ہیں، انسان اصرار کرتے ہوئے اپنے دلوں میں جمع کی ہوئی "شکایات" کے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں، میرے سامنے منہ کھول کر التجا کرتے ہیں کہ ان میں کھانا ڈالا جائے۔ لیکن بعد میں، جب ان کا خوف ختم ہو جاتا ہے اور سکون بحال ہو جاتا ہے تو پھر وہ مجھ سے مزید کچھ نہیں مانگتے، بلکہ گہری نیند سو جاتے ہیں، ورنہ، میرے وجود سے انکار کرتے ہوئے، وہ اپنے کام کرنے کے لیے چلے جاتے ہیں۔ بنی نوع انسان کے "چھوڑنے" میں یہ واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ کیسے انسان "احساس" سے عاری ہو کر، میرے ساتھ اپنا "غیر جانبدارانہ انصاف" کرتا ہے۔ لہٰذا، انسان کو اس کے ناگوار انداز میں دیکھ کر، میں خاموشی سے چلا جاتا ہوں اور پھر اس کی پرخلوص درخواست پر آسانی سے نہیں اتروں گا۔ انسان کو علم ہوئے بغیر اس کی پریشانیاں روز بروز بڑھتی جاتی ہیں اور اسی طرح اپنی سخت محنت اور مشقت کے درمیان جب اسے اچانک میرے وجود کا علم ہوتا ہے تو وہ جواب کے طور پر "نہیں" کو ماننے سے انکار کر دیتا ہے اور میرے دامن کو پکڑ کر مجھے ایک مہمان کے طور پر اپنے گھر کے اندر لے جاتا ہے۔ لیکن، اگرچہ وہ میرے لطف اندوز ہونے کے لیے ایک شاندار کھانا پیش کر سکتا ہے، لیکن اس نے کبھی ایک مرتبہ بھی مجھے اپنا نہیں سمجھا ہے، اس کی بجائے مجھ سے تھوڑی بہت امداد حاصل کرنے کے لیے مجھ سے مہمان کی طرح سلوک کرتا ہے۔ اور اس طرح، اس وقت، میرے "دستخط" حاصل کرنے کی امید میں انسان بداخلاقی سے میرے سامنے اپنی افسوسناک حالت پیش کرتا ہے، اور اپنے کاروبار کے لیے قرض کے محتاج کی طرح، وہ اپنی پوری طاقت سے مجھ سے "بحث" کرتا ہے۔ اس کے ہر انداز اور حرکت میں مجھے انسان کے ارادے کی ایک ہلکی سی جھلک نظر آتی ہے: یہ ایسے ہے کہ گویا اس کی نظر میں، مجھے انسان کے چہرے کے تاثرات میں چھپے ہوئے مطلب کو پڑھنا، یا اس کے الفاظ کے پیچھے چھپے ہوئے معنی کو جاننا یا ایک شخص کے دل کی گہرائیوں میں دیکھنا نہیں آتا ہے۔ اور اس طرح انسان کوئی غلطی کیے یا بھولے بغیر مجھے اپنے ہر اس عملی تجربے کا ہمراز بناتا ہے جو اس نے کبھی کیا ہوتا ہے، اور اس کے بعد میرے سامنے اپنے مطالبات پیش کر دیتا ہے۔ میں انسان کے ہر کام اور عمل سے نفرت کرتا ہوں اور اسے حقیر سمجھتا ہوں۔ انسانوں میں کبھی کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہوا جس نے کوئی ایسا کام کیا ہو جس سے میں محبت کروں، گویا انسان جان بوجھ کر میری دشمنی مول لے رہے ہیں، اور جان بوجھ کر میرے غضب کو دعوت دے رہے ہیں: وہ سب میرے سامنے آگے پیچھے پھرتے ہیں، میری آنکھوں کے سامنے اپنی مرضی کے مطابق لطف اندوز ہوتے ہیں۔ انسانوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو میری خاطر جیتا ہو، اور اس کے نتیجے میں، پوری نسل انسانی کے وجود کی نہ کوئی وقعت ہے اور نہ ہی کوئی معنی، جس کی وجہ سے انسانیت ایک خالی جگہ پر زندگی بسر کر رہی ہے۔ اس کے باوجود، انسانیت اب بھی بیدار ہونے سے انکار کرتی ہے، اور اپنے باطل پر قائم رہتے ہوئے، میرے خلاف بغاوت کرتی رہتی ہے۔
ان تمام آزمائشوں میں جن سے وہ گزرے ہیں، انسانوں نے کبھی ایک مرتبہ بھی مجھے خوش نہیں کیا ہے۔ ان کی ظالمانہ بدچلنی کی وجہ سے، بنی نوعِ انسان میرے نام کی گواہی دینے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ بلکہ، وہ رزق کے لیے مجھ پر بھروسہ کرتے ہوئے "دوسرے راستے پر بھاگ" جاتے ہیں۔ انسان کا دل مکمل طور پر میری طرف نہیں مڑتا ہے، اور اس لیے شیطان اسے اس وقت تک برباد کرتا ہے جب تک کہ وہ زخموں کا ڈھیر نہ بن جائے اور اس کا جسم غلاظت سے نہ ڈھک جائے۔ لیکن انسان کو پھر بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ اس کا چہرہ کتنا مکروہ ہے: اس نے میری پیٹھ پیچھے ہمیشہ شیطان کی تعظیم کی ہے۔ اس وجہ سے، میں انسان کو غضب کے ساتھ اتھاہ گڑھے میں پھینک دیتا ہوں، اسے ایسا بنا دیتا ہوں کہ وہ کبھی بھی اپنے آپ کو آزاد نہ کروا سکے گا۔ اس کے باوجود، اپنے دردناک رونے کے درمیان، انسان اب بھی اپنے دماغ کی اصلاح کرنے سے انکار کرتا ہے اور تلخ انجام تک میری مخالفت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اور اس طرح جان بوجھ کر میرے غضب کو بھڑکانے کی امید رکھتا ہے۔ جو اس نے کیا ہے اس کی وجہ سے، میں اس کے ساتھ گناہ گاروں والا سلوک کرتا ہوں اور اس کے ساتھ گرمجوشی سے گلے ملنے سے انکار کرتا ہوں۔ اوّل سے فرشتوں نے میری خدمت کی ہے اور تبدیل ہوئے اور رکے بغیر میری اطاعت کی ہے لیکن انسان نے ہمیشہ اس کے بالکل برعکس کیا ہے، گویا وہ مجھ سے نہیں بلکہ شیطان سے پیدا ہوا ہے۔ تمام فرشتے اپنی اپنی جگہوں پر مجھے اپنی انتہائی عقیدت دیتے ہیں۔ ان پر شیطانی قوتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اور وہ صرف اپنا فرض ادا کرتے ہیں۔ فرشتوں سے دودھ پینے اور پرورش پانے سے، میرے بیٹوں اور میرے لوگوں کی بڑی تعداد مضبوط اور صحت مند ہوتی ہے، ان میں سے کوئی بھی کمزور یا نحیف نہیں ہوتا ہے۔ یہ میرا کام، میرا معجزہ ہے۔ جیسا کہ توپ کے گولوں کی لگاتار باڑھ میری بادشاہی کے قائم ہونے کا افتتاح کرتی ہے، فرشتے، اس آواز کے ساتھ ایک توازن سے چلتے ہوئے میرے چبوترے کے سامنے آ کر مجھ سے معائنہ کرواتے ہیں، کیونکہ ان کے دل نجاست اور بتوں سے پاک ہیں، اور وہ مجھ سے معائنہ کرونے سے کتراتے نہیں ہیں۔
تیز آندھی کے شور سے آسمان ایک لمحے میں دباتے ہوئے نیچے آ جاتے ہیں، تمام بنی نوع انسان کا دم گُھٹنے لگتا ہے کہ اب وہ اس قابل نہیں رہے کہ وہ جس طرح چاہیں مجھے پکار سکیں۔ اس کا علم ہوئے بغیر، پوری انسانیت منہدم ہوگئی ہے۔ درخت ہوا میں آگے پیچھے جھولتے ہیں، وقتاً فوقتاً شاخوں کے ٹوٹنے کی آوازیں آتی ہیں، اور تمام سوکھے پتے دور اُڑ جاتے ہیں۔ زمین اچانک تاریک اور ویران محسوس ہوتی ہے، اور لوگ ایک دوسرے کو مضبوطی سے گلے لگاتے ہیں، وہ خزاں کے بعد آنے والی اس تباہی کے لیے تیار ہیں جو کسی بھی لمحے ان پر حملہ کر سکتی ہے۔ پہاڑیوں پر پرندے اِدھر اُدھر اڑتے ہیں، جیسے کسی سے روتے ہوئے اپنا دکھ بیان کر رہے ہوں۔ پہاڑی غاروں میں شیر دھاڑتے ہیں، لوگوں کو آواز سے خوفزدہ کرتے ہیں، ان کی ہڈیوں میں گودے کو جما کر ان کے رونگٹے کھڑے کر دیتے ہیں، اور یہ ایسے ہے کہ جیسے بنی نوع انسان کے خاتمے کی تنبیہ کا ایک پیشگی منحوس احساس ہو۔ وہ میری مرضی کے مطابق میرے سلوک کو تسلیم کرنے کا انتظار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور تمام لوگ آسمان میں خود مختار خداوند سے خاموشی سے دعا کرتے ہیں۔ لیکن ایک چھوٹی ندی میں بہتے ہوئے پانی کے شور سے تیز آندھی کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ انسانوں کی مناجات کی آواز سے اسے اچانک کیسے روکا جا سکتا ہے؟ بجلی کے کوندے کے دل کا غصہ انسان کی بزدلی کی خاطر کیسے روکا جا سکتا ہے؟ انسان ہوا میں آگے پیچھے جھولتا ہے؛ وہ خود کو بارش سے چھپانے کے لیے ادھر ادھر بھاگتا ہے؛ اور میرے غضب کے درمیان، انسان لرزتے اور کانپتے ہیں، شدید خوفزدہ ہیں کہ میں ان کے جسموں پر اپنا ہاتھ رکھ دوں گا، گویا میں اس بندوق کی نال کا دہانہ ہوں جو ہر وقت انسان کی چھاتی کو اپنے نشانے پر رکھے ہوئے ہے، اور پھر، گویا کہ وہ میرا دشمن ہے، اور پھر بھی وہ میرا دوست ہے۔ انسان نے اپنے لیے میرے حقیقی ارادوں کو کبھی دریافت نہیں کیا ہے، میرے حقیقی مقاصد کو کبھی نہیں سمجھا ہے، اور اس لیے، اس سے بے خبر، وہ میری خلاف ورزی کرتا ہے؛ اس سے بے خبر، وہ میری مخالفت کرتا ہے؛ اور پھر بھی، مبہم طور پر، اس نے میری محبت کو بھی دیکھا ہے۔ انسان کے لیے میرے غضب کے درمیان میرا چہرہ دیکھنا مشکل ہے۔ میں اپنے غصے کے کالے بادلوں میں چھپا ہوا ہوں، اور میں بجلی کے کوندوں کے درمیان، پوری کائنات کے اوپر کھڑا ہوں اور نیچے انسان پر اپنی رحمت نازل کرتا ہوں۔ چونکہ انسان مجھے نہیں جانتا، اس لیے میں اپنے ارادے کو سمجھنے میں ناکامی پر اس کی تادیب نہیں کرتا۔ انسانوں کی نظروں میں میں وقتاً فوقتاً اپنا غصہ نکالتا ہوں، میں وقتاً فوقتاً اپنی مسکراہٹ دکھاتا ہوں، لیکن جب وہ مجھے دیکھتا بھی ہے، تو بھی انسان نے کبھی میرا پورا مزاج صحیح معنوں میں نہیں دیکھا ہے اور اب تک وہ بگل کی سریلی آواز سننے سے قاصر ہے، کیونکہ وہ بہت بے حس اور بے دل ہو گیا ہے۔ یہ ایسے ہے گویا میری شبیہ انسان کی یادوں میں موجود ہے اور میری شکل اس کی سوچوں میں۔ تاہم، آج تک انسانیت کی ترقی کے ذریعے، ایک بھی شخص ایسا نہیں ہے جس نے مجھے حقیقی معنوں میں دیکھا ہو، کیونکہ انسان کا دماغ بہت کمزور ہے۔ انسان کے میرا "تفصیلی معائنہ" کرنے کے باوجود، چونکہ اس کی سائنس اتنی ناکافی طور پر ترقی یافتہ ہے، اس لیے اس کی سائنسی تحقیق کا ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ اور اس طرح، "میری شبیہہ" کا موضوع ہمیشہ سے مکمل طور پر خالی رہا ہے، اور اسے بھرنے والا کوئی نہیں ہے، عالمی ریکارڈ توڑنے والا کوئی نہیں، یہاں تک کہ نوع انسانی کے لیے موجودہ دور میں اپنے قدم جمانے کی جگہ کو برقرار رکھنا بڑی بدنصیبی کے درمیان پہلے ہی ایک عظیم تسکین ہے۔
23 مارچ 1992