باب 21
انسان میرے نور کے درمیان نیچے گر جاتا ہے، اور میری نجات کی وجہ سے ثابت قدمی سے کھڑا رہتا ہے۔ جب میں پوری کائنات کے لیے نجات لاتا ہوں، تو انسان میری بحالی کے بہاؤ میں داخل ہونے کے راستے تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے، پھر بھی بہت سے ایسے ہیں جو بحالی کے اس تیز بہاؤ میں بغیر کسی سراغ کے دور بہہ جاتے ہیں؛ بہت سے ایسے ہیں جو طوفانی پانیوں میں گھر کر ڈوب جاتے ہیں؛ اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو تیز بہاؤ کے درمیان ثابت قدمی سے کھڑے ہوتے ہیں، جنہوں نے کبھی اپنی سمت کا احساس نہیں کھویا، اور جو آج تک اس تیز بہاؤ کی پیروی کر رہے ہیں۔ میں انسان کے ساتھ قدم آگے بڑھاتا ہوں، پھر بھی، انسان نے مجھے کبھی نہیں جانا ہے؛ وہ صرف ان کپڑوں کو جانتا ہے جو میں باہر سے پہنتا ہوں، لیکن میرے اندر چھپی دولت سے لاعلم ہے۔ اگرچہ میں انسان کو فراہم کرتا ہوں اور اسے روزانہ دیتا ہوں، لیکن وہ حقیقی معنوں میں قبول کرنے سے قاصر ہے، میری طرف سے دی گئی تمام دولتیں حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ انسان کی بدعنوانی کی کوئی چیز میرے علم سے نہیں بچتی؛ میرے نزدیک اس کی اندرونی دنیا پانی پر روشن چاند کی طرح صاف ہے۔ میں انسان کے ساتھ بےقاعدگی کا سلوک نہیں کرتا اور نہ ہی اس کے ساتھ سرسری انداز میں پیش آتا ہوں۔ یہ صرف ایسا ہے کہ انسان اپنے لیے ذمہ داری لینے سے قاصر ہے، اور اس طرح پوری نوع انسانی ہمیشہ سے بد چلن رہی ہے، اور آج بھی اپنے آپ کو اس اخلاقی بےراہ روی سے نکالنے سے قاصر ہے۔ بےچارہ، قابل رحم انسان! ایسا کیوں ہے کہ انسان مجھ سے محبت کرتا ہے، لیکن میری روح کے ارادوں کی پیروی کرنے سے قاصر ہے؟ کیا واقعی میں نے اپنے آپ کو بنی نوع انسان پر ظاہر نہیں کیا؟ کیا واقعی بنی نوع انسان نے میرا چہرہ نہیں دیکھا؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ میں نے بنی نوع انسان پر بہت کم رحم کیا ہو؟ اے تمام نوع انسانی کے باغیو! انھیں لازماً میرے پیروں تلے کچلا جانا چاہیے۔ وہ میری تادیب کے درمیان مٹ جائیں گے، اور جس دن میری عظیم کاروائی مکمل ہو گی، انھیں ضرور نوع انسانی سے باہر نکال دیا جائے گا، تاکہ پوری نوع انسانی ان کے بدصورت چہرے کو جان لے۔ یہ حقیقت کہ انسان شاذ و نادر ہی میرا چہرہ دیکھتا ہے یا میری آواز سنتا ہے، اس وجہ سے ہے کہ ساری دنیا بہت کثیف ہے اور اس کا شور بہت زیادہ ہے اور اس طرح انسان میرا چہرہ تلاش کرنے اور میری مرضی کو سمجھنے کی کوشش کرنے میں بہت سست ہے۔ کیا یہ انسان کی بدعنوانی کا سبب نہیں ہے؟ کیا انسان اسی لیے محتاج نہیں ہے؟ پوری نوع انسانی ہمیشہ میری فراہمی میں شامل رہی ہے؛ اگر ایسا نہ ہوتا، اگر میں رحم نہ کرتا تو آج تک کون زندہ بچتا؟ مجھ میں بےحساب دولت ہے، لیکن پھر تمام تباہی بھی میرے ہاتھوں میں ہے – اور کون ہے جو اپنی مرضی سے تباہی سے بچ سکے؟ کیا انسان کی دعائیں یا اس کے دل کے اندر رونا اسے ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ انسان نے کبھی بھی مجھ سے صحیح معنوں میں دعا نہیں کی، اور اسی طرح تمام بنی نوع انسان میں، کسی نے بھی اپنی پوری زندگی سچی روشنی میں نہیں گزاری؛ لوگ صرف اس روشنی میں رہتے ہیں جو ظاہری شکل کے اندر اور باہر وقفے وقفے سے چمکتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو آج بنی نوع انسان کی کمی کا باعث بنی ہے۔
ہر کوئی بےتاب ہو رہا ہے، مجھ سے کچھ حاصل کرنے کے لیے میرے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کو تیار ہے، اور اسی لیے، انسان کی نفسیات کے مطابق، میں اس سے اس کے اندر سچی محبت پیدا کرنے کے وعدے کرتا ہوں۔ کیا یہ واقعی انسان کی سچی محبت ہے جو اسے طاقت دیتی ہے؟ کیا یہ انسان کی مجھ سے وفاداری ہے جس نے آسمان میں میری روح کو متاثر کیا ہے؟ آسمان کبھی انسان کے اعمال سے ذرا سا بھی متاثر نہیں ہوا ہے اور اگر انسان کے ساتھ میرا سلوک اس کے ہر عمل پر مبنی ہوتا تو پوری نوع انسانی میرے عذاب میں رہتی۔ میں نے بہت سے لوگوں کو اپنے گالوں پر آنسو بہاتے دیکھا ہے، اور میں نے بہت سے لوگوں کو میری دولت کے بدلے اپنے دلوں کو پیش کرتے دیکھا ہے۔ اتنے ”تقویٰ“ کے باوجود، میں نے کبھی بھی انسان کو اس کی اچانک خواہشات کے نتیجے میں اپنا سب کچھ آزادانہ طور پر نہیں دیا، کیونکہ انسان کبھی بھی خوشی سے اپنے آپ کو میرے سامنے وقف کرنے پر آمادہ نہیں ہوا۔ میں نے سب لوگوں کے نقاب اتار کر ان نقابوں کو آگ کی جھیل میں پھینک دیا ہے اور اس کے نتیجے میں انسان کی فرضی وفاداری اور التجائیں میرے سامنے کبھی مضبوط نہیں رہیں۔ انسان آسمان پر ایک بادل کی مانند ہے: جب شور مچاتی ہوا چلتی ہے تو وہ اس کی طاقت سے ڈرتا ہے اور اس کے پیچھے تیزی سے تیرتا ہے، اس خوف سے کہ وہ اپنی نافرمانی کی وجہ سے مار گرایا جائے گا۔ کیا یہ انسان کا بدنما چہرہ نہیں ہے؟ کیا یہ انسان کی نام نہاد اطاعت نہیں ہے؟ کیا یہ انسان کا ”حقیقی احساس“ اور جعلی خیر خواہی نہیں ہے؟ بہت سے لوگ میرے منہ سے جاری ہونے والے تمام کلام سے قائل ہونے سے انکار کرتے ہیں، اور بہت سے لوگ میری تشخیص کو قبول نہیں کرتے، اس لیے ان کے قول و فعل ان کے باغی ارادوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ کیا میں جو بات کرتا ہوں وہ انسان کی پرانی فطرت کے خلاف ہے؟ کیا میں نے انسان کو ”قوانین فطرت“ کے مطابق ایک موزوں تعریف نہیں دی؟ انسان خلوص سے میری اطاعت نہیں کرتا؛ اگر وہ واقعی مجھے ڈھونڈتا تو مجھے اتنا کچھ نہ کہنا پڑتا۔ انسان بےکار کوڑا کرکٹ ہے، اور اسے آگے بڑھانے کے لیے مجھے اپنی تادیب کو لازماً استعمال کرنا چاہیے؛ اگر میں نے ایسا نہیں کیا، تو کیسے – اگرچہ میں اس سے جو وعدے کرتا ہوں وہ اس کے لطف اندوز ہونے کے لیے کافی ہیں – کیا اس کا دل متاثر ہو سکتا ہے؟ انسان نے ہمیشہ کئی سالوں تک تکلیف دہ جدوجہد کے درمیان زندگی گزاری ہے؛ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ہمیشہ مایوسی میں رہا ہے۔ نتیجے کے طور پر، وہ مایوس ہو کر رہ گیا ہے، اور جسمانی اور ذہنی طور پر تھکا ہوا ہے، اور اس لیے وہ خوشی سے اس دولت کو قبول نہیں کرتا جو میں اسے دیتا ہوں۔ حتیٰ کہ آج بھی کوئی مجھ سے روح کی تمام مٹھاس کو قبول کرنے کے قابل نہیں ہے۔ لوگ صرف غریب ہی رہ سکتے ہیں، اور آخری دن کا انتظار کر سکتے ہیں۔
بہت سے لوگ مجھ سے سچی محبت کرنا چاہتے ہیں، لیکن چونکہ ان کے دل ان کے اپنے نہیں ہیں، اس لیے ان کا اپنے آپ پر کوئی اختیار نہیں ہے؛ بہت سے لوگ جب میری طرف سے دی گئی آزمائشوں کا تجربہ کرتے ہیں تو وہ مجھ سے سچی محبت کرتے ہیں، پھر بھی وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ میں واقعی موجود ہوں، اور وہ میرے حقیقی وجود کی وجہ سے نہیں بلکہ محض خالی پن میں مجھ سے محبت کرتے ہیں؛ بہت سے لوگ میرے سامنے اپنے دل رکھ دیتے ہیں اور پھر اپنے دلوں کی طرف توجہ نہیں کرتے اور اس طرح جب بھی شیطان کو موقع ملتا ہے تو وہ ان کے دل چھین لیتا ہے اور پھر وہ مجھے چھوڑ دیتے ہیں؛ جب میں اپنا کلام فراہم کرتا ہوں تو بہت سے لوگ مجھ سے حقیقی طور پر محبت کرتے ہیں، مگر اپنی روحوں میں میرے کلام کی قدر نہیں کرتے، اس کی بجائے وہ اسے عوامی املاک کی طرح استعمال کرتے ہیں اور جب بھی چاہتے ہیں اسے واپس وہیں پھینک دیتے ہیں جہاں سے وہ آیا ہے۔ انسان درد کے درمیان مجھے تلاش کرتا ہے، اور آزمائشوں کے درمیان وہ میری طرف دیکھتا ہے۔ سکون کے اوقات میں وہ مجھ سے لطف اندوز ہوتا ہے، جب خطرے میں ہوتا ہے تو وہ مجھ سے انکار کر دیتا ہے، جب وہ مصروف ہوتا ہے تو مجھے بھول جاتا ہے، اور جب وہ بےکار ہوتا ہے تو وہ میرے لیے سرسری طور پر عمل کرتا ہے – پھر بھی کسی نے اپنی پوری زندگی میں مجھ سے محبت نہیں کی۔ میں چاہتا ہوں کہ انسان میرے سامنے مخلص ہو: میں یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ وہ مجھے کچھ دے، لیکن صرف یہ کہ تمام لوگ مجھے سنجیدگی سے لیں، کہ میرے ساتھ مکاری کرنے کی بجائے، وہ مجھے انسان کے اخلاص کو واپس لانے کا موقع دیں۔ میری آگہی، روشنی اور میری کوششوں کی قیمت سب لوگوں پر پھیلی ہوئی ہے، لیکن اسی طرح انسان کے ہر عمل کی اصل حقیقت بھی ان کی مجھ سے دھوکے بازی کی طرح سب لوگوں پر چھائی ہوئی ہے۔ یہ ایسے ہے گویا انسان کی دھوکے بازی کے اجزا رحم مادر سے ہی اس کے ساتھ موجود ہیں، گویا وہ پیدائش سے ہی مکر و فریب کی ان خاص صلاحیتوں کا حامل ہے۔ مزید برآں، اس نے کھیل کو کبھی ختم نہیں کیا ہے؛ کسی نے کبھی ان فریب کارانہ صلاحیتوں کا منبع تک نہیں دیکھا ہے۔ نتیجتاً انسان اس کا ادراک کیے بغیردھوکے میں زندگی گزارتا ہے، اور یہ ایسے ہے گویا وہ اپنے آپ کو معاف کر دیتا ہے، گویا مجھے جان بوجھ کر دھوکا دینے کی بجائے یہ خدا کا انتظام ہے۔ کیا انسان کے مجھے دھوکا دینے کا یہ عین ذریعہ نہیں ہے؟ کیا یہ اس کی مکارانہ چال نہیں ہے؟ میں کبھی بھی انسان کی خوشامدوں اور چالبازیوں سے نہیں چکرایا، کیونکہ میں نے اس کے مادّے کا بہت پہلے ہی پتہ لگا لیا تھا۔ کون جانتا ہے کہ اس کے خون میں کتنی نجاست ہے اور اس کے گودے میں شیطان کا زہر کتنا ہے؟ ہر گزرتے دن کے ساتھ انسان اس کا عادی ہوتا جاتا ہے، اس طرح کہ وہ شیطان کی طرف سے پہنچائے گئے نقصان کو محسوس نہیں کرتا، اور اس طرح اسے ”صحت مند زندگی کا فن“ تلاش کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔
جب انسان مجھ سے دور ہوتا ہے اور جب وہ مجھے آزماتا ہے تو میں بادلوں کے درمیان اپنے آپ کو اس سے چھپا لیتا ہوں۔ نتیجے کے طور پر، وہ میرا کوئی سراغ تلاش کرنے سے قاصر ہوتا ہے، اور صرف خبیثوں کے ہاتھ میں زندگی گزارتا ہے، وہ سب کچھ کرتا ہے جو وہ کہتے ہیں۔ جب انسان میرے قریب ہوتا ہے تو میں اس پر ظاہر ہوتا ہوں اور میں اس سے اپنا چہرہ نہیں چھپاتا اور اس وقت انسان میرا مہربان چہرہ دیکھتا ہے۔ وہ اچانک اپنے ہوش میں آ جاتا ہے، اور اگرچہ اسے اس کا احساس نہیں ہوتا لیکن اس کے اندر میرے لیے محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے دل میں اچانک ایک بے مثال مٹھاس محسوس کرتا ہے، اور سوچتا ہے کہ اسے کائنات میں میرے وجود کا کیسے علم نہیں ہو سکا تھا۔ اس طرح انسان کو میری محبت کا زیادہ احساس ہوتا ہے، اور اس کے علاوہ، میرے قیمتی ہونے کا بھی۔ نتیجے کے طور پر، اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ مجھے دوبارہ کبھی نہ چھوڑے، وہ مجھے اپنی بقا کی روشنی کے طور پر دیکھتا ہے، اور اس بات سے بہت خوف زدہ ہو کر کہ میں اسے چھوڑ دوں گا، وہ مجھے مضبوطی سے گلے لگا لیتا ہے۔ میں انسان کے جوش سے متاثر نہیں ہوں، لیکن اس کی محبت کی وجہ سے اس پر مہربان ہوں۔ اس وقت، انسان فوری طور پر میری آزمائشوں کے درمیان رہتا ہے۔ میرا چہرہ اس کے دل سے غائب ہو جاتا ہے، اور اسے فوراً محسوس ہو جاتا ہے کہ اس کی زندگی خالی ہے، اور اس کے خیالات فرارہونے کی طرف مڑ جاتے ہیں۔ اس وقت انسان کا دل بے نقاب ہوتا ہے۔ وہ میرے مزاج کی وجہ سے مجھے گلے نہیں لگاتا بلکہ مطالبہ کرتا ہے کہ میں اپنی محبت کی وجہ سے اس کی حفاظت کروں۔ پھر بھی جب میری محبت انسان کو ردعمل دیتی ہے تو وہ فوراً اپنا ارادہ تبدیل کر لیتا ہے؛ وہ میرے ساتھ اپنے عہد کو پھاڑ دیتا ہے اور میرے فیصلے سے دور ہو جاتا ہے، میرے مہربان چہرے کو دوبارہ کبھی دیکھنے کو تیار نہیں ہوتا، اور اس طرح وہ میرے بارے میں اپنا نظریہ بدل لیتا ہے، اور کہتا ہے کہ میں نے انسان کو کبھی نہیں بچایا۔ کیا سچی محبت میں رحم کے سوا کچھ اور شامل نہیں ہوتا؟ کیا انسان صرف اسی صورت میں مجھ سے محبت کرتا ہے کہ جب وہ میری چمکتی ہوئی روشنی کے نیچے رہتا ہے؟ وہ مڑ کر گزشتہ کل کو دیکھتا ہے لیکن رہتا آج میں ہے – کیا یہ انسان کی حالت نہیں ہے؟ کیا تم آنے والے کل میں بھی واقعی ایسے ہی رہو گے؟ جو میں چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ انسان کے پاس ایک ایسا دل ہو جو اپنی گہرائیوں میں میرے لیے تڑپتا ہو، ایسا نہیں جو مجھے سطحی باتوں سے مطمئن کرے۔
21 مارچ 1992