باب 20

میرے خاندان کے قیمتی اثاثے ناقابلِ شمار اور ناقابلِ ادراک ہیں اور اس کے باوجود انسان ان سے لطف اندوز ہونے کے لیے کبھی میرے پاس نہیں آیا۔ انسان خود سے اکیلے لطف اندوز ہونے کے قابل نہیں ہے، اور نہ ہی اپنی کوششوں کے ذریعے اپنی حفاظت کرنے کے قابل ہے؛ اس کی بجائے، اس نے ہمیشہ دوسروں پر بھروسہ کیا ہے۔ ان تمام لوگوں میں سے جن کو میں دیکھتا ہوں، کسی نے بھی شعوری طور پر اور براہ راست مجھے کبھی تلاش نہیں کیا۔ وہ سب دوسروں کے کہنے پر اکثریت کی پیروی کرتے ہوئے میرے سامنے آتے ہیں، اور وہ اپنی زندگیوں کو سنوارنے کے لیے قیمت ادا کرنے یا وقت خرچ کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ لہٰذا، انسانوں میں، کسی نے بھی حقیقت میں کبھی زندگی بسر نہیں کی، اور تمام لوگ ایسی زندگیاں بسر کرتے ہیں جو بے معنی ہیں۔ انسان کے طویل عرصے سے قائم طریقوں اور رسم و رواج کی وجہ سے تمام انسانوں کے جسم زمینی مٹی کی مہک سے بھرے ہوئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں انسان بے حس ہو گیا ہے، دنیا کی ویرانی کے احساس سے عاری ہو گیا ہے، اور وہ اس منجمد دنیا میں خود اپنے آپ سے لطف اندوز ہونے کے کام میں مصروف ہے۔ انسان کی زندگی میں معمولی سی گرم جوشی بھی نہیں ہے، اور وہ انسانیت یا روشنی کے کسی سراغ سے محروم ہے – پھر بھی وہ ہمیشہ نفس پرست رہا ہے، زندگی بھر اہمیت سے محروم رہا ہے جس میں وہ کچھ حاصل کیے بغیر بھاگ دوڑ کرتا ہے۔ پلک جھپکتے ہی موت کا دن قریب آ جاتا ہے اور انسان ایک تلخ موت مر جاتا ہے۔ اس دنیا میں، اس نے نہ کبھی کچھ حاصل کیا ہے اور نہ ہی کبھی کچھ پایا ہے – وہ جلدی میں یہاں آتا ہے، اور جلدی میں ہی چلا جاتا ہے۔ میری نظر میں ان میں سے کوئی بھی کبھی کچھ لے کر نہیں آیا، یا کچھ لے کر نہیں گیا، اور اس طرح انسان محسوس کرتا ہے کہ دنیا غیر منصفانہ ہے۔ اس کے باوجود کوئی بھی جلدی جانے کو تیار نہیں ہوتا ہے۔ وہ محض اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب آسمان سے میرا وعدہ اچانک انسانوں کے درمیان آ جائے گا، جس وقت وہ گمراہ ہو چکے ہوں گے تو ایک بار پھر ابدی زندگی کی راہ کو دیکھنے کی اجازت دے گا۔ اس طرح انسان میرے ہر عمل اور فعل کو بغور دیکھتا ہے کہ کیا واقعی میں نے اس سے اپنا وعدہ پورا کیا ہے۔ جب وہ مصائب میں گھرا ہوتا ہے، یا شدید تکلیف میں ہوتا ہے، یا آزمائشوں میں مبتلا ہوتا ہے اور گرنے والا ہوتا ہے، تو انسان اپنی پیدائش کے دن کو کوستا ہے تاکہ وہ جلد از جلد اپنی مشکلات سے بچ کر کسی اور مثالی جگہ پر چلا جائے۔ لیکن جب آزمائشیں گزر جاتی ہیں تو انسان خوشی سے معمور ہو جاتا ہے۔ وہ زمین پر اپنی پیدائش کا دن مناتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس کے یوم پیدائش پر برکت دوں؛ اس وقت انسان خود پر موت کے دوسری مرتبہ آ جانے کے شدید خوف کی وجہ سے ماضی کی قسموں کا ذکر نہیں کرتا۔ جب میرے ہاتھ دنیا کو اوپر اٹھاتے ہیں تو لوگ خوشی سے رقص کرتے ہیں، وہ مزید غمگین نہیں ہوتے اور وہ سب مجھ پر انحصار کرتے ہیں۔ جب میں اپنے ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیتا ہوں، اور لوگوں کو زمین کے نیچے دباتا ہوں، تو فوراً ان کے لیے سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے اور وہ بمشکل زندہ رہنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اس ڈر سے کہ میں اُن کو تباہ کر دوں گا، وہ مجھ سے فریاد کرتے ہیں، کیونکہ وہ سب اُس دن کو دیکھنا چاہتے ہیں جب میں جاہ وجلال حاصل کروں گا۔ انسان میرے دن کو اپنے وجود کا سرمایہ سمجھتا ہے، اور بنی نوع انسان کا آج تک زندہ رہنا صرف اسی لیے ہے کہ لوگ اس دن کی شدید آرزو رکھتے ہیں جب میرا جاہ و جلال نمودار گا۔ میرے منہ سے اعلان کردہ برکت یہ ہے کہ وہ لوگ جو آخری ایام میں پیدا ہوئے ہیں وہ بہت خوش قسمت ہیں کہ میرے تمام جاہ وجلال کو دیکھیں گے۔

تمام ادوار میں بہت سے لوگ اس دنیا سے مایوسی اور ہچکچاہٹ کے عالم میں رخصت ہوئے ہیں اور بہت سے اس میں امید اور یقین کے ساتھ آئے ہیں۔ میں نے بہت سے لوگوں کے آنے کا انتظام کیا ہے اور بہت سے لوگوں کو رخصت کیا ہے۔ میرے ہاتھوں سے بے شمار لوگ گزر چکے ہیں۔ بہت سی روحیں پاتال میں ڈالی گئی ہیں، بہت سے لوگ جسم کی حالت میں رہ چکے ہیں، اور بہت سے مر چکے ہیں اور زمین پر دوبارہ پیدا ہوئے ہیں۔ پھر بھی ان میں سے کسی کو آج کی بادشاہی کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع نہیں ملا۔ میں نے انسان کو بہت کچھ دیا ہے، لیکن اس نے بہت کم حاصل کیا ہے، کیونکہ شیطان کی طاقتوں کے حملے نے اسے میرے تمام قیمتی اثاثوں سے لطف اندوز ہونے کے قابل نہیں چھوڑا ہے۔ اسے صرف ان کو دیکھنے کی سعادت ملی ہے، لیکن وہ ان سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کے قابل کبھی نہیں رہا ہے۔ انسان نے اسمان کے قیمتی اثاثے حاصل کرنے کے لیے کبھی اپنے جسم میں موجود خزانے کو تلاش نہیں کیا ہے اور اسی لیے وہ ان نعمتوں سے محروم ہو گیا جو میں نے اسے عطا کی تھیں۔ کیا انسان کی روح ہی وہ صلاحیت نہیں ہے جو اسے میری روح کے ساتھ ملاتی ہے؟ انسان نے مجھے اپنی روح کے ساتھ کبھی بھی مشغول کیوں نہیں کیا ہے؟ وہ جسمانی طور پر میرے قریب کیوں آتا ہے، لیکن روح میں ایسا کرنے سے قاصر ہے؟ کیا گوشت پوست کا چہرہ میرا حقیقی چہرہ ہے؟ انسان میرے جوہر کو کیوں نہیں جانتا ہے؟ کیا واقعی انسان کی روح میں میرا کبھی کوئی سراغ نہیں رہا ہے؟ کیا میں انسان کی روح سے مکمل طور پر غائب ہو گیا ہوں؟ اگر انسان روحانی دنیا میں داخل نہیں ہوتا تو وہ میرے ارادوں کو کیسے سمجھ سکتا ہے؟ کیا انسان کی نظر میں کوئی ایسی چیز ہے جو روحانی دنیا میں براہ راست داخل ہو سکتی ہے؟ کئی بار میں نے انسان کو اپنی روح کے ساتھ پکارا ہے، پھر بھی انسان ایسے ظاہر کرتا ہے کہ جیسے اسے مجھ سے چبھن محسوس ہوئی ہے، وہ ایک فاصلے سے شدید خوف کے عالم میں میرے بارے میں یہ سمجھتا ہے کہ کہ میں اسے دوسری دنیا میں لے جاؤں گا۔ کئی بار میں نے انسان کی روح سے استفسار کیا ہے، لیکن وہ بالکل غافل رہتا ہے، وہ شدید خوفزدہ ہے کہ میں اس کے گھر میں گھس کر اس کا تمام سازوسامان چھین لینے کا موقع حاصل کر لوں گا۔ اس طرح، وہ مجھے باہر بند کر دیتا ہے، اور میرے سامنے ایک ٹھنڈے، مضبوطی سے بند دروازے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ انسان گرا ہے اور میں نے اسے بچایا ہے، پھر بھی جاگنے کے بعد وہ مجھے فوراً ہی چھوڑ دیتا ہے اور میری محبت سے متاثر ہوئے بغیر، میری طرف محتاط انداز سے دیکھتا ہے؛ میری وجہ سے انسان کے دل میں کبھی گرم جوشی نہیں آئی ہے۔ انسان ایک بے حس، سفاک جانور ہے۔ جب میں اس گلے لگاتا ہوں تو اگرچہ وہ گرم جوش ہوتا ہے لیکن اس کی وجہ سے وہ کبھی بھی دل کی گہرائیوں سے متاثر نہیں ہوا۔ انسان ایک پہاڑی وحشی جیسا ہے۔ اس نے کبھی بھی بنی نوع انسان کے لیے میری تمام تر نگہداشت کو بہت قیمتی نہیں سمجھا۔ وہ میرے پاس آنے کے لیے آمادہ نہیں ہے اور پہاڑوں کے درمیان رہنے کو ترجیح دیتا ہے جہاں وہ جنگلی درندوں کے خطرے کو برداشت کرتا ہے – لیکن پھر بھی وہ مجھ میں پناہ لینے کو تیار نہیں ہے۔ میں کسی انسان کو مجبور نہیں کرتا ہوں: میں صرف اپنا کام کرتا ہوں۔ ایک دن آئے گا جب انسان طاقتور سمندر کے درمیان سے تیر کر میری طرف آئے گا، تاکہ وہ زمین کے تمام قیمتی اثاثوں سے لطف اندوز ہو سکے اور سمندر کے نگل جانے کے خطرے کو پیچھے چھوڑ دے۔

جیسے جیسے میرے کلام کی تکمیل ہوتی ہے، زمین پر رفتہ رفتہ بادشاہی تشکیل پاتی ہے اور انسان رفتہ رفتہ معمول کی حالت پر آجاتا ہے، اور اس طرح میرے دل میں موجود بادشاہی زمین پر قائم ہو جاتی ہے۔ بادشاہی میں، خدا کے تمام لوگ عام انسان کی زندگی کو بحال کر لیتے ہیں. ٹھنڈا جاڑا چلا جاتا ہے، بہار کے شہروں کی دنیا اس کی جگہ لے لیتی ہے، جہاں سارا سال بہار رہتی ہے۔ اب لوگوں کو انسان کی اداس، دکھی دنیا کا مزید سامنا نہیں ہے، اور نہ ہی ان کو اب انسانی دنیا کی سخت سردی کو مزید برداشت کرنا پڑتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے نہیں لڑتے، ملک ایک دوسرے کے خلاف جنگ نہیں کرتے، اب یہاں قتلِ عام اور قتل عام سے بہتا ہوا خون نہیں ہے؛ تمام زمینیں خوشیوں سے بھری ہوئی ہیں، اور ہر جگہ انسانوں کی گرم جوشی سے معمور ہے۔ میں پوری دنیا میں گھومتا ہوں، میں اپنے تخت کے اوپر سے لطف اندوز ہوتا ہوں، اور میں ستاروں کے درمیان رہتا ہوں۔ فرشتے میری خاطر نئے گیت اور نئے رقص پیش کرتے ہیں۔ ان کی نزاکت اب مزید ان کے چہروں پر آنسو بہانے کا سبب نہیں بنتی۔ اب میں اپنے سامنے فرشتوں کے رونے کی مزید آواز نہیں سنتا، اور اب کوئی مجھ سے تکالیف کی شکایت نہیں کرتا۔ آج، تم سب میرے سامنے رہتے ہو؛ کل، تم سب میری بادشاہی میں موجود ہو گے۔ کیا یہ سب سے بڑی برکت نہیں ہے جو میں انسان کو عطا کرتا ہوں؟ اس قیمت کی وجہ سے جو تم آج ادا کرتے ہو، تم مستقبل کی برکات کے وارث ہو گے اور میرے جاہ وجلال میں رہو گے۔ کیا تم اب بھی میری روح کے جوہر کے ساتھ مشغول نہیں ہونا چاہتے ہو؟ کیا تم اب بھی اپنے آپ کو مارنا چاہتے ہو؟ لوگ ان وعدوں کی جستجو کرنے کو تیار ہیں جو وہ دیکھ سکتے ہیں، اگرچہ وہ عارضی ہیں، لیکن کوئی بھی کل کے وعدوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے، اگرچہ وہ ابد تک باقی رہیں گے۔ جو چیزیں انسان کو نظر آتی ہیں وہ چیزیں ہیں جن کو میں فنا کر دوں گا اور جو چیزیں انسان کے لیے ناقابل ادراک ہیں وہ چیزیں ہیں جن کو میں پورا کروں گا۔ خدا اور انسان میں یہی فرق ہے۔

انسان نے حساب لگا لیا ہے کہ میرا دن کب آئے گا، لیکن کسی کو بھی صحیح تاریخ کا علم نہیں ہے، اور اس طرح انسان صرف حیرانی کے عالم ہی میں رہ سکتا ہے۔ چونکہ انسان کی خواہشات لامحدود آسمانوں میں گونجتی ہیں اور پھر غائب ہو جاتی ہیں، اس لیے انسان بار بار امید کھو بیٹھا ہے، اس طرح کہ وہ اپنے موجودہ حالات پر اتر آیا ہے۔ میری باتوں کا مقصد یہ نہیں ہے کہ انسان تاریخوں کی جستجو کرے اور نہ ہی اس کی مایوسی کے نتیجے میں اسے اس کی اپنی تباہی کی طرف لے جانا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ انسان میرے وعدے کو قبول کر لے، اور میں چاہتا ہوں کہ دنیا بھر کے لوگوں کو میرے وعدے کا ایک حصہ ملے۔ میں جو چاہتا ہوں وہ زندگی سے بھرپور زندہ مخلوقات ہیں، موت میں دھنسی ہوئی لاشیں نہیں۔ چونکہ میں بادشاہی کے میز سے ٹیک لگاتا ہوں، میں زمین پر موجود تمام لوگوں کو مجھ سے معائنہ کروانے کا حکم دوں گا۔ میں اپنے سامنے کسی ناپاک چیز کی موجودگی کی اجازت نہیں دیتا؛ میں اپنے کام میں کسی انسان کی مداخلت برداشت نہیں کرتا؛ وہ سب لوگ جو میرے کام میں مداخلت کرتے ہیں انھیں تاریک کوٹھڑیوں میں ڈال دیا جاتا ہے، اور ان کی رہائی کے بعد بھی وہ تباہی سے دوچار ہوتے ہیں اور زمین کے بھڑکتے شعلوں کو حاصل کرتے ہیں۔ جب میں اپنے مجسم جسم میں ہوتا ہوں تو جو کوئی بھی میرے جسم سے میرے کام کے متعلق بحث کرے گا میں اس سے نفرت کروں گا۔ کئی مرتبہ میں نے سب انسانوں کو یاد دلایا ہے کہ زمین پر میرا کوئی رشتہ دار نہیں ہے، اور جو کوئی بھی مجھے برابری کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اور مجھے اپنی طرف کھینچتا ہے تاکہ وہ میرے ساتھ گزارے ہوئے وقتوں کی یاد تازہ کرے تو وہ تباہی کا شکار ہو گا۔ میں یہی حکم دیتا ہوں۔ میں ایسے معاملات میں انسان کے ساتھ ذرا بھی نرمی نہیں کرتا۔ وہ سب لوگ جو میرے کام میں مداخلت کرتے ہیں اور مجھے مشورہ دیتے ہیں انھیں میں سزا دیتا ہوں اور میں انہیں کبھی معاف نہیں کروں گا۔ اگر میں صاف انداز میں بات نہیں کروں گا، تو انسان کبھی اپنے حواس میں نہیں آئے گا، اور انجانے میں میری تادیب کا شکار ہو جائے گا – کیونکہ انسان مجھے میرے جسم میں نہیں جانتا ہے۔

20 مارچ 1992

سابقہ: باب 19

اگلا: باب 21

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp