باب 17

میرے کلمات کڑک کی طرح گونجتے ہیں، ہر سمت میں اور پوری زمین پر روشنی ڈالتے ہیں، اور گرج اور بجلی کے درمیان، نوع انسانی کو مار گرایا جاتا ہے۔ کوئی انسان گرج اور بجلی کے درمیان کبھی ثابت قدم نہیں رہا؛ زیادہ انسان میری روشنی کے آنے پر انتہائی دہشت زدہ ہو جاتے ہیں اور نہیں جانتے کہ کیا کریں۔ جب مشرق میں روشنی کی ہلکی سی جھلک ظاہر ہونا شروع ہوتی ہے، تو بہت سے لوگ، جو اس دھندلی روشنی سے متاثر ہوتے ہیں، اپنے توہمات سے فوراً بیدار ہو جاتے ہیں۔ ابھی تک کسی کو یہ احساس نہیں ہوا کہ وہ دن آ گیا ہے جب میرا نور زمین پر اترے گا۔ انسانوں کی اکثریت روشنی کی اچانک آمد سے سخت حیران ہے، اور کچھ متجسس پر کشش نظروں سے روشنی کی حرکات و سکنات اور اس کے پہنچنے کی سمت کا مشاہدہ کرتے ہیں، جب کہ کچھ روشنی کا سامنا کرتے ہوئے تیار کھڑے ہوتے ہیں تاکہ وہ اس کے ماخذ کو زیادہ واضح طور پر سمجھ سکیں۔ یہ جیسا بھی ہو، کیا کبھی کسی نے دریافت کیا ہے کہ آج کی روشنی کتنی قیمتی ہے؟ کیا کبھی کوئی آج کی روشنی کی ندرت کے لیے بیدار ہوا ہے؟ انسانوں کی اکثریت صرف حیرانی کا شکار ہے؛ روشنی کی وجہ سے ان کی آنکھوں میں زخم آئے ہیں اور وہ کیچڑ میں گر گئے ہیں۔ اس دھندلی روشنی کے تحت، کوئی کہہ سکتا ہے کہ بدنظمی نے زمین کو ڈھانپ لیا ہے، یہ ناقابلِ برداشت حد تک افسوسناک منظر ہے جس کا قریب سے جائزہ لیا جائے تو وہ ایک بے حد اداسی کے ساتھ حملہ آور ہوتا ہے۔ اس سے کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جب روشنی سب سے زیادہ تیز ہو گی تو زمین کی حالت اس بات کے کم قابل ہو گی کہ نوع انسانی کو میرے سامنے کھڑا ہونے کا موقع دے سکے؛ نوع انسانی روشنی کی چمک میں ہوتی ہے؛ ایک بار پھر، تمام نوع انسانی روشنی کی نجات میں ہوتی ہے، لیکن یہ زخمی بھی کرتی ہے: کیا کوئی ہے جو روشنی کے مار دینے والے دھچکوں کے درمیان نہیں ہے؟ کوئی ہے جو روشنی کے جلانے سے بچ سکے؟ میں پوری کائنات میں چلا ہوں، اپنے ہاتھوں سے اپنی روح کے بیج پھیلائے ہیں، تاکہ میں زمین پر موجود تمام نوع انسانی کو اس معاملے پر حرکت میں لاؤں۔ آسمان کی بلند ترین اونچائی سے، میں نیچے پوری زمین پر نظر ڈالتا ہوں، زمین پر موجود مخلوقا ت کے بدہیئت اور عجیب مظاہر دیکھتا ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ سمندر کی سطح زلزلے کے جھٹکے سے دوچار ہو رہی ہے: سمندری پرندے مچھلی کو نگلنے کی خاطر تلاش کرنے کے لیے اِدھر اُدھر اڑتے ہیں۔ دریں اثنا، سمندر کی تہہ لاعلمی میں رہتی ہے، اور سطحی حالات اسے ہوش میں لانے سے قطعی طور پر قاصر ہوتے ہیں، کیونکہ سمندر کی تہہ تیسرے آسمان کی طرح پرسکون ہے: یہاں، جاندار چیزیں، بڑی اور چھوٹی، ہم آہنگی میں اکٹھی رہتی ہیں، کبھی ایک بار بھی ”منہ اور زبان کے تنازعات“ میں ملوث نہیں ہوئیں۔ بے شمار عجیب اور انوکھے مظاہر میں، نوع انسانی کے لیے مجھے خوش کرنا سب سے زیادہ مشکل ہے۔ میں نے انسان کو جو مقام دیا ہے وہ بہت بلند ہے اور اس طرح اس کی کامیابی حاصل کرنے کی امنگ بہت زیادہ ہے اور اس کی نظروں میں ہمیشہ کچھ نافرمانی رہتی ہے۔ انسان کے لیے میرے نظم و ضبط میں، اس کے بارے میں میری عدالت کے اندر، بہت کچھ ایسا ہے جس کے لیے سخت محنت کرنی ہے، بہت کچھ ایسا ہے جو فیض رساں ہے، لیکن ان چیزوں کے بارے میں، بنی نوع انسان کو ذرا سا بھی اندازہ نہیں ہے۔ میں نے کبھی کسی انسان کے ساتھ سختی والا سلوک نہیں کیا؛ میں نے صرف اس وقت مناسب اصلاح کی ہے جب بنی نوع انسان نافرمان تھا، اور صرف اس وقت مناسب مدد پیش کی جب وہ کمزور ہو۔ لیکن، جب نوع انسانی مجھ سے دور رہتی ہے اور مزید برآں شیطان کی فریبی سازشوں کو میرے خلاف بغاوت کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے، تو میں فوراً ہی بنی نوع انسان کو ہلاک کر دوں گا، اور اس کے لیے میرے سامنے اپنی صلاحیتوں کا عظیم الشان مظاہرہ کرنے کا ایک اور موقع نہیں چھوڑوں گا، تاکہ وہ روئے زمین پر مزید پُرتصنع رعونت کا مظاہرہ کرنے، دوسروں کو دھمکانے کے قابل نہ رہے۔

میں زمین پر اپنے کام کو مکمل طور پر کھولتے ہوئے اپنا اختیار بروئے کار لاتا ہوں۔ جو کچھ میرے کام میں ہے وہ روئے زمین پر جھلکتا ہے؛ زمین پر بنی نوع انسان کبھی بھی آسمان میں میری حرکتوں کو سمجھنے کے قابل نہیں رہا، اور نہ ہی میری روح کے مداروں اور راستوں پر مکمل غور و فکر کر سکا ہے۔ انسانوں کی اکثریت روح کی جزویات کو سمجھنے سے قاصر صرف اس بات کو سمجھتی ہے جو روح سے باہر ہوتی ہے، اور روح کی اصل حالت کو نہیں سمجھ سکتی۔ نوع انسانی سے میں جو تقاضے کرتا ہوں وہ آسمان میں میری مبہم ذات یا زمین پر میری ناقابل اندازہ ذات سے جاری نہیں ہوتے؛ میں زمین پر انسان کی حیثیت کے مطابق مناسب مطالبات کرتا ہوں۔ میں نے کبھی کسی کو مشکلات میں نہیں ڈالا اور نہ ہی میں نے کبھی اپنی خوشی کی خاطر کسی سے اس کا ”خون نچوڑنے“ کو کہا ہے – کیا میرے مطالبات صرف ان حالات تک ہی محدود ہو سکتے ہیں؟ زمین پر موجود بے شمار مخلوقات میں سے کون ہے جو میرے منہ کے کلام کے مزاج کے تابع نہیں ہوتا؟ ان میں سے کون سی مخلوق ہے جو میرے سامنے آتی ہے اور میرے کلام اور میری جلتی ہوئی آگ سے پوری طرح جل نہیں جاتی؟ ان میں سے کون سی مخلوق ہے جو میرے سامنے فخریہ مسرت میں ”اکڑنے“ کی ہمت رکھتی ہے؟ ان میں سے کون سی مخلوق ہے جومیرے سامنے نہیں جھکتی؟ کیا میں وہ خدا ہوں جو مخلوق پر محض خاموشی مسلط کرتا ہے؟ تخلیق میں بے شمار چیزوں میں سے، میں ان چیزوں کا انتخاب کرتا ہوں جو میرے ارادے کو پورا کرتی ہیں؛ بنی نوع انسان کے بے شمار انسانوں میں سے، میں ان لوگوں کو چنتا ہوں جو میری مرضی کا خیال رکھتے ہیں۔ میں تمام ستاروں میں سے بہترین کا انتخاب کرتا ہوں، اس طرح اپنی بادشاہی میں روشنی کی ہلکی چمک کا اضافہ کرتا ہوں۔ میں زمین پر چلتا ہوں، ہر طرف اپنی خوشبو بکھیرتا ہوں، اور ہر جگہ میں اپنی شکل پیچھے چھوڑ جاتا ہوں۔ ہر جگہ میری آواز سے گونجتی ہے۔ ہر جگہ لوگ گزشتہ کل کے حسین مناظر پر ہی رکے ہوئے ہیں، کیونکہ پوری نوع انسانی ماضی کو یاد کر رہی ہے ۔۔۔

تمام نوع انسانی میرے چہرے کو دیکھنے کی شدید آرزو مند ہے، لیکن جب میں زمین پر ذاتی طور پر اترتا ہوں، تو وہ سب میری آمد کی مخالفت کرتے ہیں، اور روشنی کی آمد کو اس طرح روکتے ہیں جیسے میں آسمان میں انسان کا دشمن ہوں۔ انسان اپنی آنکھوں میں ایک دفاعی روشنی کے ساتھ میرا استقبال کرتا ہے، اور مسلسل چوکنا رہتا ہے، شدید خوف زدہ کہ شاید میرے پاس اس کے لیے کوئی اور منصوبے ہوں۔ چونکہ انسان مجھے ایک ناواقف دوست سمجھتے ہیں، اس لیے انھیں ایسا لگتا ہے جیسے میں ان کو اندھا دھند قتل کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ انسان کی نظر میں، میں ایک جان لیوا مخالف ہوں۔ آفت میں میری گرمائش کا مزہ چکھنے کے بعد، انسان پھر بھی میری محبت سے بے خبر رہتا ہے، اور اب بھی مجھے دور رکھنے اور میری مخالفت پر تلا ہوا ہے۔ اس کی حالت سے فائدہ اٹھا کر اس کے خلاف کارروائی کرنا تو دور کی بات ہے، میں انسان کو آغوش کی گرمائش میں لپیٹ لیتا ہوں، اس کا منہ مٹھاس سے بھر دیتا ہوں، اور ضروری خوراک اس کے معدے میں ڈال دیتا ہوں۔ لیکن، جب میرا غضبناک غصہ پہاڑوں اور دریاؤں کو ہلا کر رکھ دے گا، تو میں انسان کی بزدلی کی وجہ سے اسے یہ مختلف اقسام کی امداد عطا نہیں کروں گا۔ اس لمحے، میں شدید غصے میں آؤں گا، تمام جاندار چیزوں کو توبہ کرنے کا موقع دینے سے انکار کر دوں گا اور، انسان کے لیے اپنی تمام امیدیں ترک کر کے، میں ایسا انتقام لوں گا جس کا وہ بہت زیادہ مستحق ہے۔ اس وقت گرج اور بجلی چمکتی ہے اور گرجتی ہے، جیسے سمندر کی لہریں غصے سے اٹھتی ہیں، جیسے دسیوں ہزاروں پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر نیچے گر جاتے ہیں۔ اپنی سرکشی کی وجہ سے، انسان گرج اور بجلی سے گرایا جاتا ہے، اور دیگر مخلوقات گرج اور بجلی کے دھماکوں میں مٹ جاتی ہیں، اور پوری کائنات اچانک افراتفری میں پڑ جاتی ہے، اور تخلیق زندگی کی ابتدائی اصل سانس کو بحال کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔ نوع انسانی کے بے شمار میزبان گرج کی گڑگڑاہٹ سے نہیں بچ سکتے؛ آسمانی بجلی کی چمک کے درمیان، انسان، ہجوم در ہجوم، پہاڑوں سے نیچے بہنے والے پانی کی طوفانی لہروں میں بہہ جانے کے لیے، تیز بہاؤ میں گر جاتے ہیں۔ اچانک، ”انسانوں“ کی دنیا انسان کی ”منزل“ کی جگہ پر جمع ہو جاتی ہے۔ لاشیں سمندر کی سطح پر بہتی ہیں۔ تمام نوع انسانی میرے غضب کی وجہ سے مجھ سے بہت دور چلی جاتی ہے، کیونکہ انسان نے میری روح کے جوہر کے خلاف گناہ کیا ہے، اور اس کی سرکشی نے مجھے برہم کر دیا ہے۔ لیکن، پانی سے خالی جگہوں پر، دوسرے لوگ اب بھی ہنسی اور گانے کے درمیان لطف اندوز ہوتے ہیں، یہ وہ وعدے ہیں جو میں نے انھیں عنایت کیے ہیں۔

جب تمام لوگ خاموش ہوتے ہیں تو میں ان کی آنکھوں کے سامنے روشنی کی چمک چھوڑتا ہوں۔ اس کے بعد، انسانوں کے ذہن صاف اور آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں، وہ اب مزید خاموش رہنے کو تیار نہیں ہوتے؛ اس طرح ان کے دلوں میں روحانی احساس فوراً پیدا ہو جاتا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو تمام نوع انسانی دوبارہ زندہ ہو جاتی ہے۔ اپنی ان کہی شکایات کو ایک طرف رکھتے ہوئے، تمام انسان میرے سامنے آتے ہیں، میرے اعلان کردہ کلام کے ذریعے زندہ رہنے کا ایک اور موقع حاصل کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام انسان روئے زمین پر رہنا چاہتے ہیں۔ پھر بھی ان میں سے کس نے کبھی میری خاطر جینے کا ارادہ کیا ہے؟ ان میں سے کس نے کبھی اپنے اندر ایسی شاندار چیزیں ظاہر کی ہیں جنہیں وہ میرے لطف کے لیے پیش کرتا ہے؟ ان میں سے کس نے کبھی میری دلکش خوشبو کا پتہ لگایا ہے؟ تمام انسان کھردرے اور غیر مصفّا چیزیں ہیں: بیرونی طور پر وہ آنکھیں کو چندھیا دینے والے نظر آتے ہیں، لیکن ان کا جوہر مجھ سے خلوص سے محبت کرنا نہیں ہے، کیونکہ انسانی دل کی گہرائیوں میں، میرا کوئی عنصر کبھی تھا ہی نہیں۔ انسان میں بہت کمی ہے: اس کا مجھ سے موازنہ کرنا آسمان اور زمین کے درمیان جتنی بڑی خلیج کو ظاہر کرنا ہے۔ اس کے باوجود میں انسان کے کمزور اور ضررپذیر مقامات پر نہیں مارتا اور نہ ہی اس کی کوتاہیوں کی وجہ سے اس کی تضحیک کرتا ہوں۔ میرے ہاتھ زمین پر ہزاروں سالوں سے کام کر رہے ہیں، اور اس تمام وقت میں میری آنکھوں نے پوری نوع انسانی پر نظر رکھی ہے۔ اس کے باوجود میں نے کبھی سرسری انداز میں کسی ایک انسانی زندگی کو اس طرح سے کھیلنے کے لیے نہیں لیا کہ جیسے یہ کوئی کھلونا ہو۔ میں ان دردوں کا مشاہدہ کرتا ہوں جو انسان نے اٹھائے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس نے کیا قیمت ادا کی ہے۔ جب وہ میرے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو میں انسان کو سزا دینے کے لیے بےخبری میں نہیں پکڑتا اور نہ ہی میں اسے ناپسندیدہ چیزیں عطا کرنا چاہتا ہوں۔ اس کی بجائے، اس سب عرصے میں، میں نے صرف انسان کے لیے مہیا کیا ہے اور اسے دیا ہے۔ لہذا، تمام انسان جس سے لطف اندوز ہوتے ہیں وہ میرا فضل ہے، یہ سب وہ انعام ہے جو میرے ہاتھ سے آتا ہے۔ کیونکہ میں زمین پر ہوں، اس لیے انسان کو کبھی بھوک کی شدید تکلیف نہیں جھیلنی پڑی۔ بلکہ میں انسان کو اجازت دیتا ہوں کہ وہ میرے ہاتھوں سے وہ چیزیں حاصل کر لے جن سے وہ لطف اندوز ہو سکتا ہے، اور میں نوع انسانی کو اپنی برکتوں کے اندر رہنے کی اجازت دیتا ہوں۔ کیا تمام انسان میرے عذاب میں نہیں رہتے؟ جس طرح پہاڑوں کی گہرائیوں میں فراوانی ہے، اور پانی میں لطف اندوز ہونے کے لیے چیزوں کی بہتات ہے، کیا آج میرے کلام کے اندر رہنے والے لوگوں کے پاس اس سے بھی زیادہ، قدر کرنے اور چکھنے کے لیے خوراک نہیں ہے؟ میں زمین پر ہوں، اور نوع انسانی زمین پر میری نعمتوں سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ جب میں زمین کو پیچھے چھوڑ دوں گا، جس وقت میرا کام بھی پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا، تو بنی نوع انسان اپنی کمزوری کی وجہ سے مزید میری مہربانی حاصل نہیں کرے گی۔

16 مارچ 1992

سابقہ: باب 15

اگلا: باب 18

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp