باب 15
سب انسان ایسی مخلوقات ہیں جن میں خود شناسی کی کمی ہے، اور وہ خود کو جاننے سے قاصر ہیں۔ اس کے باوجود، وہ دوسرے ہر کسی کو اپنے ہاتھوں کی پشت کی طرح جانتے ہیں، گویا دوسروں نے جو کچھ بھی کیا ہے اور کہا ہے اس کا سب سے پہلے ان کے سامنے، ان کے ذریعے ”معائنہ“ کروایا گیا ہے، اور کرنے سے پہلے ان کی منظوری لی گئی ہے۔ نتیجے کے طور پر، یہ ایسے ہے گویا انہوں نے باقی سب کو ان کی نفسیاتی حالتوں تک بہت اچھی طرح سے سمجھ لیا ہے۔ انسان سب ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اگرچہ وہ آج بادشاہی کے دور میں داخل ہو چکے ہیں لیکن ان کی فطرت ابھی بھی تبدیل نہیں ہوئی۔ میرے سامنے وہ اب بھی وہی کرتے ہیں جو میں کرتا ہوں، جبکہ میری پیٹھ پیچھے وہ اپنے منفرد ”کاروبار“ میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ تاہم، بعد میں، جب وہ میرے سامنے آتے ہیں، تو وہ بالکل مختلف لوگوں کی طرح ہوتے ہیں، بظاہر مطمئن اور بے خوف، پرسکون چہروں اور ایک مستحکم نبض کے ساتھ۔ کیا یہ عین وہی چیز نہیں ہے جو انسانوں کو اس قدر قابل نفرت بناتی ہے؟ بہت سے لوگ دو بالکل مختلف چہرے پہنتے ہیں – ایک جب میرے سامنے ہوتے ہوئے، اور دوسرا جب میری پیٹھ کے پیچھے ہوتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے میرے سامنے نوزائیدہ میمنوں کی طرح کام کرتے ہیں، لیکن جب میری پیٹھ کے پیچھے ہوتے ہیں تو وہ غضبناک شیروں میں بدل جاتے ہیں اور بعد میں پہاڑیوں پر خوشی سے اڑانیں بھرنے والے چھوٹے پرندوں کی طرح اداکاری کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ میرے منہ پر مقصد اور عزم ظاہر کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ پیاس اور آرزو کے ساتھ میرے کلام کی تلاش میں میرے سامنے آتے ہیں، لیکن جب میری پیٹھ پیچھے ہوتے ہیں، وہ ان سے اکتا جاتے ہیں اور ان سے ایسے دستبردار ہو جاتے ہیں جیسے کہ میرا کلام ایک بوجھ ہو۔ کئی مرتبہ، اپنے دشمن کے ذریعے انسانی نسل کو بدعنوان ہوتے دیکھ کر، میں نے انسانوں سے اپنی امیدیں وابستہ کرنا چھوڑ دیا ہے۔ کئی بار ان کو اپنے سامنے آتے دیکھ کر، آنسو بہاتے ہوئے معافی مانگتے ہوئے، اس کے باوجود میں نے ان کی عزت نفس سے محرومی اور ہٹ دھرم اصلاح ناپذیری کی وجہ سے، غصے میں ان کے اعمال پر آنکھیں بند کر لی ہیں، حالانکہ ان کے دل سچے اور ان کے ارادے مخلص ہیں۔ کئی بار، میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو میرے ساتھ تعاون کرنے کے لیے کافی پراعتماد ہوتے ہیں، جو، جب میرے سامنے ہوتے ہیں تو میری آغوش میں اس کی گرمائش کا مزہ چکھتے نظر آتے ہیں۔ اتنی زیادہ مرتبہ، اپنے چنے ہوئے لوگوں کی معصومیت، زندہ دلی اور پیار کے قابل ہونے کا مشاہدہ کرنے کے بعد، میں ان چیزوں کی وجہ سے بہت خوش کیسے نہیں ہو سکتا تھا؟ انسان نہیں جانتے کہ میرے ہاتھ میں، اپنی تقدیر میں لکھی برکتوں سے کیسے لطف اندوز ہوں، کیونکہ وہ نہیں سمجھتے کہ ”برکت“ اور ”مصیبت“ دونوں کا اصل مطلب کیا ہے۔ اسی وجہ سے انسان میری تلاش میں مخلص ہونے سے بہت دور ہیں۔ اگر آئندہ کل موجود نہ ہو تو میرے سامنے کھڑے ہونے والے تم لوگوں میں سے کون ایسا ہو گا جو گالوں کی شکل میں اڑنے والی برف کی طرح پاک اور سبز قیمتی پتھر کی طرح بے عیب ہو گا؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ تمہاری مجھ سے محبت صرف ایک ایسی چیز ہو جو لذیذ کھانے، بہترین لباس، یا ایک پرکشش فوائد والے اعلیٰ عہدے کے ساتھ تبدیل کی جا سکتی ہے؟ کیا یہ اس محبت سے تبدیل کی جا سکتی ہے جو دوسرے تیرے لیے رکھتے ہیں؟ کیا حقیقت میں یہ ہو سکتا ہے کہ آزمائشوں سے گزرنا لوگوں کو مجھ سے اپنی محبت کو ترک کرنے کی تحریک دے گا؟ کیا تکالیف اور مصیبتوں کی وجہ سے وہ میرے انتظامات کے بارے میں شکایت کریں گے؟ کسی نے کبھی اس تیز تلوار کی صحیح معنوں میں قدر نہیں کی ہے جو میرے منہ میں موجود ہے: یہ جانے بغیر کہ اس میں کیا شامل ہے، وہ اس کے صرف سطحی معنی کو جانتے ہیں۔ اگر انسان صحیح معنوں میں میری تلوار کی تیزی دیکھ پاتے تو وہ تیزی سے چوہوں کی طرح اپنے بِلوں میں گھس جاتے۔ انسان اپنی بے حسی کی وجہ سے میرے کلام کے صحیح معنی کو نہیں سمجھتے، اور اسی لیے انھیں کوئی اندازہ نہیں ہوتا کہ میرے کلمات کتنے رعب داب والے ہیں یا وہ انسانی فطرت کا کتنا اظہار کرتے ہیں اور ان کلمات سے ان کی اپنی بدعنوانی کا کتنا اندازہ لگایا گیا ہے۔ اس وجہ سے، میں جو کچھ کہتا ہوں اس کے بارے میں ان کے نیم پختہ خیالات کے نتیجے میں، زیادہ تر لوگوں نے نیم گرم جوشی والا رویہ اختیار کر لیا ہے۔
بادشاہی کے اندر، نہ صرف میرے منہ سے کلمات جاری ہوتے ہیں، بلکہ میرے پاؤں تمام زمینوں میں ہر جگہ پورے ادب اور قاعدے کے ساتھ چلتے ہیں۔ اس طرح، میں نے تمام ناپاک اور گندی جگہوں پر فتح حاصل کر لی ہے، جس سے نہ صرف آسمان بدل رہا ہے، بلکہ زمین بھی تبدیلی کے عمل میں ہے، اور اس کے بعد تجدید کی گئی ہے۔ کائنات کے اندر، میرے جلال کی چمک میں ہر چیز نئی کی طرح چمکتی ہے، ایک ولولہ انگیز پہلو پیش کرتی ہے جو حواس کو مسرور کر دیتی ہے اور لوگوں کے حوصلے بلند کرتی ہے، گویا اب یہ آسمانوں سے پرے کسی آسمان میں موجود ہے، جیسا کہ انسانی تصور میں سوچا گیا ہے، شیطان کی چھیڑ چھاڑ سے محفوظ اور بیرونی دشمنوں کے حملوں سے پاک ہے۔ کائنات کے سب سے اونچے مقامات میں، بےشمار ستارے میرے حکم پر اپنی مقررہ جگہوں کو سنبھالتے ہیں، تاریکی کے اوقات میں اپنی کرنوں کو ستاروں سے بھرے خطوں میں پھیلاتے ہیں۔ کوئی ایک بھی نافرمانی کے خیالات پالنے کی ہمت نہیں کرتا ہے، اور اس طرح، میرے انتظامی احکام کے مادّہ کے مطابق، پوری کائنات اچھی طرح سے منظم اور کامل ترتیب میں ہے: کبھی کوئی خلل پیدا نہیں ہوا، اور نہ ہی کائنات کبھی تقسیم ہوئی ہے۔ میں ستاروں کے اوپر اڑتی چھلانگیں لگاتا ہوں، اور جب سورج اپنی شعاعیں تیزی سے بھیجتا ہے، تو میں ان کی گرمی کو جذب کر لیتا ہوں، اور اپنے ہاتھوں سے ہنس کے پروں جتنے بڑے برف کے ٹکڑوں کی بوچھاڑ بھیجتا ہوں۔ تاہم، جب میں اپنا ارادہ تبدیل کر لیتا ہوں تو وہ ساری برف پگھل کر دریا بن جاتی ہے، اور ایک ہی لمحے میں، آسمان کے نیچے ہر طرف بہار چھا جاتی ہے اور زمرد کی طرح سبز رنگ زمین کے سارے منظر کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ میں آسمان کے اوپر گھومتا ہوں، اور فوراً ہی، میری شکل کی وجہ سے گہری سیاہ تاریکی زمین کو ڈھانپ لیتی ہے: بغیر کسی انتباہ کے، ”رات“ آ گئی ہے، اور پوری دنیا میں اس قدر اندھیرا بڑھ گیا ہے کہ کوئی اپنے چہرے کے سامنے اپنا ہاتھ تک نہیں دیکھ سکتا۔ ایک بار جب روشنی بجھ جاتی ہے، تو انسان اس لمحے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے باہمی تباہی، ایک دوسرے سے چھیننے اور لوٹنے کا دیوانہ وار آغاز کرتے ہیں۔ زمین کی قومیں پھر افراتفری والے عدم اتفاق کا شکار ہو جاتی ہیں اور ذہنی پراگندہ شورش کی حالت میں داخل ہو جاتی ہیں، یہاں تک کہ وہ تمام خلاصی حاصل کرنے کی حالت سے باہر ہو جاتی ہیں۔ لوگ مصائب کی شدید تکلیف میں جدوجہد کرتے ہیں، اپنے درد کے درمیان سسکیاں لیتے اور کراہتے ہیں، اور اپنی شدید اذیت میں قابل رحم انداز میں روتے ہیں، یہ تڑپتے ہیں کہ انسانی دنیا میں اچانک ایک بار پھر روشنی آ جائے اور اس طرح اندھیرے کے دنوں کا خاتمہ کر دے اور اس قوت حیات کو بحال کر دے جو کبھی موجود تھی۔ تاہم، میں نے طویل عرصہ ہوا اپنی آستین کی ایک جھٹک کے ساتھ نوع انسانی کو چھوڑ دیا ہے، پھر کبھی ان پر دنیا کی غلطیوں پر ترس نہیں کھاؤں گا: میں نے طویل عرصے سے پوری زمین کے لوگوں سے نفرت کی ہے اور انھیں مسترد کیا ہے، وہاں کے حالات پر اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں، نوع انسانی کی ہر حرکت اور اشارے سے اپنا چہرہ پھیر لیا ہے، اور اس کی ناپختگی اور معصومیت سے لطف اندوز ہونا چھوڑ دیا ہے۔ میں نے دنیا کو نئے سرے سے بنانے کے ایک اور منصوبے کا آغاز کیا ہے، تاکہ اس نئی دنیا کو زیادہ جلد دوبارہ جنم ملے، دوبارہ کبھی نہ ڈوبے۔ بنی نوع انسان کے بیچ میں، بہت سی غیر ملکی ریاستیں میرا انتظار کر رہی ہیں کہ میں ان کو درست کروں، اتنی زیادہ غلطیاں موجود ہیں کہ مجھے ذاتی طور پر انھیں ہونے سے روکنا ہے، اتنی زیادہ دھول ہے جو مجھے صاف کرنی ہے، اور بہت سے راز ہیں جنہیں میں نے بےنقاب کرنا ہے۔ تمام نوع انسانی میرا انتظار کر رہی ہے، اور میرے آنے کی شدید آرزو کر رہی ہے۔
زمین پر، میں خود عملی خدا ہوں جو انسانوں کے دلوں میں رہتا ہے؛ آسمان میں، میں تمام تخلیق کا مالک ہوں۔ میں پہاڑوں پر چڑھ چکا ہوں اور دریاؤں میں سے پیدل گزرا ہوں، اور میں نوع انسانی کے درمیان اندر اور باہر گھوما ہوں۔ کس میں اتنی جرأت ہے کہ خود عملی خدا کی کھل کر مخالفت کرے؟ خدا کی خودمختاری سے کنارہ کشی کی جرأت کس میں ہے؟ کون یہ دعوی کرنے کی ہمت رکھتا ہے کہ میں، شک کے سائے سے باہر، جنت میں ہوں؟ مزید یہ کہ، کون یہ اعلان کرنے کی جرأت کرتا ہے کہ میں شک و شبہ سے بالاتر زمین پر ہوں؟ پوری نوع انسانی میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو ان جگہوں کی مکمل تفصیل بیان کرنے کے قابل ہو جہاں میں رہتا ہوں۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ جب میں آسمان پر ہوں تو میں خود مافوق الفطرت خدا ہوں، اور جب میں زمین پر ہوں تو میں خود عملی خدا ہوں؟ میں عملی خدا ہوں یا نہیں اس کا تعین یقیناً میرے تمام مخلوقات کے حاکم ہونے سے نہیں ہو سکتا یا اس حقیقت سے نہیں ہو سکتا کہ میں انسانی دنیا کے مصائب کا تجربہ کرتا ہوں، کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ اگر ایسا معاملہ ہوتا تو کیا انسان ہر قسم کی امید سے باہر جاہل نہ ہوتے؟ میں آسمان پر ہوں لیکن میں زمین پر بھی ہوں؛ میں تخلیق کی بے شمار اشیاء کے اور عوام کے بھی درمیان ہوں۔ انسان مجھے روزانہ چھو سکتے ہیں؛ مزید یہ کہ وہ مجھے ہر روز دیکھ سکتے ہیں۔ جہاں تک نوع انسانی کا تعلق ہے، میں کبھی پوشیدہ اور کبھی ظاہر ہوتا ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ میں حقیقت میں موجود ہوں، پھر بھی ایسا لگتا ہے کہ میں موجود نہیں ہوں۔ مجھ میں ایسے اسرار ہیں جو نوع انسانی کے لیے ناقابلِ ادراک ہیں۔ یہ ایسے ہے گویا تمام انسان ایک خوردبین کے ذریعے مجھے دیکھ رہے ہیں تاکہ مجھ میں اور بھی اسرار دریافت کریں، یہ امید کرتے ہوئے کہ اس طرح ان کے دلوں میں موجود اس بےسکونی کا احساس دور ہو جائے گا۔ تاہم، یہاں تک کہ اگر وہ ایکس رے بھی استعمال کرے، تو بھی نوع انسانی میرے کسی بھی راز سے کیسے پردہ اٹھا سکتی ہے؟
عین اس لمحے جب میرے لوگ، میرے کام کے نتیجے میں، میرے ساتھ شان و شوکت حاصل کریں گے، عظیم سرخ اژدہے کی کھوہ کا پتہ لگایا جائے گا، تمام کیچڑ اور گندگی کو بہا کر صاف کر دیا جائے گا، اور تمام آلودہ پانی، جو ان گنت سالوں میں جمع ہے میری جلتی ہوئی آگ میں سوکھ جائے گا، مزید باقی نہیں رہے گا۔ اس کے بعد، عظیم سرخ اثدہا آگ اور گندھک کی جھیل میں فنا ہو جائے گا۔ کیا تم حقیقی طور پر میری محبت بھری دیکھ بھال کے تحت رہنے کے لیے تیار ہو تاکہ اثدہا تمہیں چھین نہ لے؟ کیا تم واقعی اس کے فریب کارانہ منصوبوں سے نفرت کرتے ہو؟ کون ہے جو میرے حق میں طاقتور گواہی دے سکے؟ میرے نام کی خاطر، میری روح کی خاطر، اور میرے پورے انتظامی منصوبے کی خاطر، کون اپنی پوری طاقت کا نذرانہ پیش کر سکتا ہے؟ آج جب بادشاہی انسانی دنیا میں ہے، یہ وہ وقت ہے جب میں ذاتی طور پر نوع انسانی کے درمیان آیا ہوں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا کوئی ہے جو بغیر کسی خوف کے میری طرف سے میدان جنگ میں مہم جوئی کے لیے نکلتا؟ تاکہ بادشاہی شکل اختیار کر سکے، تاکہ میرا دل مطمئن ہو سکے، اور اس کے علاوہ، تاکہ میرا دن آ سکے، تاکہ وہ وقت آ سکے جب تخلیق کی بے شمار چیزیں دوبارہ پیدا ہوں اور بکثرت بڑھیں، تاکہ انسانوں کو ان کے مصائب کے سمندر سے نجات مل سکے، تاکہ آنے والا کل آ سکے، اور تاکہ یہ حیرت انگیز ہو سکے، اور پھلے پھولے اور ترقی کرے، اور اس کے علاوہ، تاکہ مستقبل کا لطف حاصل ہو سکے، تمام انسان اپنی پوری قوت سے کوشش کر رہے ہیں، میرے لیے خود کو قربان کرنے میں کوئی کسر بھی نہیں چھوڑتے۔ کیا یہ اس بات کی نشانی نہیں ہے کہ جیت پہلے ہی میری ہو چکی ہے؟ کیا یہ میرے منصوبے کی تکمیل کا نشان نہیں ہے؟
لوگ آخری ایام میں جتنا زیادہ موجود رہیں گے، اتنا ہی زیادہ وہ دنیا کے خالی پن کو محسوس کریں گے، اور ان کی زندگی گزارنے کی ہمت اتنی ہی کم ہو گی۔ اسی وجہ سے لاتعداد لوگ مایوسی کی حالت میں مر چکے ہیں، ان گنت دوسرے اپنی تلاش میں مایوس ہوئے ہیں، اور لاتعداد دوسرے لوگ اپنے آپ کو شیطان کے ہاتھوں استعمال ہونے کی اذیت میں مبتلا کرتے ہیں۔ میں نے بہت سے لوگوں کو بچایا ہے اور ان میں سے بہت سے لوگوں کو سہارا دیا ہے، اور اکثر، جب انسان روشنی کھو چکے ہیں، میں نے انھیں دوبارہ روشنی کی جگہ پر منتقل کیا ہے تاکہ وہ روشنی میں مجھے جان سکیں اور خوشی کے دوران مجھ سے لطف اندوز ہوں۔ میرے نور کے آنے کی وجہ سے، میری بادشاہی میں بسنے والے لوگوں کے دلوں میں محبت بڑھ جاتی ہے، کیونکہ میں ایسا خدا ہوں جس سے انسانوں نے محبت کرنی ہے – ایک ایسا خدا جس سے نوع انسانی والہانہ وابستگی سے لپٹی ہوئی ہے – اور وہ میری شکل کے ایک مستقل تاثر سے بھرے ہوئے ہیں۔ بہر حال، جب سب کچھ کہہ اور کر لیا گیا ہے، تو پھر بھی کوئی نہیں سمجھتا کہ یہ روح کا کام ہے یا جسم کا فعل ہے۔ لوگوں کو صرف اس ایک چیز کا تفصیل سے تجربہ کرنے میں پوری زندگی لگ جائے گی۔ انسانوں نے کبھی بھی اپنے دلوں کے انتہائی اندرونی گوشوں میں مجھ سے نفرت نہیں کی ہے؛ بلکہ، وہ اپنی روحوں کی گہرائیوں میں مجھ سے چمٹے ہوئے ہیں۔ میری حکمت ان کی تعریف میں اضافہ کرتی ہے، میں جو عجائبات دکھاتا ہوں وہ ان کی آنکھوں کے لیے ضیافت ہوتی ہے، اور میرا کلام ان کے ذہنوں کو چکرا دیتا ہے، پھر بھی وہ اس کی بہت قدر کرتے ہیں۔ میری حقیقت انسانوں کو الجھن میں ڈال دیتی ہے، مبہوت اور حیران کر دیتی ہے، اور پھر بھی وہ اسے قبول کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ کیا یہ انسانوں کی بالکل درست پیمائش نہیں ہے جیسے کہ وہ واقعی ہیں؟
13 مارچ 1992