باب 14

تمام ادوار میں کوئی بھی انسان بادشاہی میں داخل نہیں ہوا اور اس طرح کسی نے بھی بادشاہی کے دور کا فضل حاصل نہیں کیا ہے اور نہ ہی بادشاہی کے بادشاہ کو دیکھا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ میری روح کی روشنی میں بہت سے لوگوں نے بادشاہی کے حسن و جمال کی پیشین گوئی کی ہے، مگر وہ صرف اس کا بیرونی رخ ہی جانتے ہیں، اس کا فطری مفہوم نہیں۔ آج، جیسا کہ بادشاہی زمین پر رسمی طور پر وجود میں آئی ہے، زیادہ تر بنی نوع انسان ابھی تک نہیں جانتے کہ اصل میں کیا حاصل کیا جانا ہے یا لوگوں کو بادشاہی کے دور میں آخر کار کس دنیا میں لایا جانا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ ہر کوئی اس بارے میں الجھن کی کیفیت میں ہے۔ چونکہ بادشاہی کے مکمل ادراک کا دن ابھی پوری طرح سے نہیں آیا ہے، اس لیے تمام انسان چکرائے ہوئے ہیں اور اسے واضح طور پر سمجھنے سے قاصر ہیں۔ الوہیت میں میرا کام رسمی طور پر بادشاہی کے دور سے شروع ہوتا ہے، اور بادشاہی کے دور کے اس رسمی آغاز کے ساتھ ہی میرا مزاج بنی نوع انسان کے سامنے خود کو بتدریج ظاہر کرنے لگ گیا ہے۔ لہذا، یہ عین اسی لمحے ہے کہ مقدس نرسنگا باضابطہ طور پر بجنا شروع ہوتا ہے، جو کہ سب کے لیے اعلان کرتا ہے۔ جب میں رسمی طور پر اپنا اقتدار سنبھالوں گا اور بادشاہ کے طور پر بادشاہی کروں گا، تو میرے تمام لوگ وقت کے ساتھ ساتھ، میری طرف سے مکمل بنا دیے جائیں گے۔ جب دنیا کی تمام قومیں درہم برہم ہو جائیں گی، تو یہ عین وہی وقت ہے جب میری بادشاہی قائم کی جائے گی اور تشکیل دی جائے گی، نیز جب میں بدل جاؤں گا اور پوری کائنات کا سامنا کرنے کے لیے رخ پھیروں گا۔ اس وقت، تمام لوگ میرا باعظمت چہرہ دیکھیں گے اور میرے حقیقی چہرے کا مشاہدہ کریں گے۔ دنیا کی تخلیق سے لے کر اب تک شیطان کے لوگوں کو بدعنوان بنانے سے لے کر اس حد تک جس تک وہ آج بدعنوان ہیں، یہ ان کی بدعنوانی کی وجہ سے ہے کہ میں، ان کے نقطہ نظر سے، زیادہ سے زیادہ پوشیدہ اور زیادہ ناقابل ادراک ہو گیا ہوں۔ نوع انسانی نے کبھی میرا حقیقی چہرہ نہیں دیکھا اور نہ ہی مجھ سے براہ راست بات چیت کی ہے۔ صرف افواہوں اور افسانوں میں انسانی تخیل میں ایک ”میں“ موجود رہا ہے۔ اس لیے میں اس انسانی تخیل کے ساتھ – یعنی انسانی تصورات کے ساتھ – لوگوں کے ذہنوں میں ”میں“ سے نمٹنے کے مطابق ہوں تاکہ میں ”میں“ کی اس حالت کو بدل سکوں جسے انہوں نے اتنے سالوں سے پالا ہے۔ یہ میرے کام کا اصول ہے۔ کسی ایک شخص کو بھی اس کا مکمل طور پر علم نہیں ہو سکا۔ اگرچہ انسانوں نے مجھے سجدہ کیا ہے اور میری عبادت کے لیے میرے سامنے آئے ہیں، لیکن میں ایسے انسانی اعمال سے لطف اندوز نہیں ہوتا، کیونکہ لوگ اپنے دلوں میں میری شبیہ نہیں رکھتے بلکہ میری شبیہ کے علاوہ کوئی اور شبیہ رکھتے ہیں۔ اس لیے، کیونکہ ان میں میرے مزاج کے فہم کی کمی ہے، اس لیے لوگ میرے اصلی چہرے کو بالکل نہیں پہچانتے۔ نتیجے کے طور پر، جب وہ یقین کرتے ہیں کہ انہوں نے میری مخالفت کی ہے یا میرے انتظامی احکام کی خلاف ورزی کی ہے، تب بھی میں نظر انداز کر دیتا ہوں۔ اور اس لیے، ان کی یادوں میں، میں یا تو وہ خدا ہوں جو لوگوں کو سزا دینے کی بجائے ان پر رحم کرتا ہے، یا وہ خود خدا ہوں جس کی باتوں کا مطلب وہ نہیں ہوتا جو وہ کہتا ہے۔ یہ سب انسانی سوچ سے پیدا ہونے والے تصورات ہیں، اور یہ حقائق کے مطابق نہیں ہیں۔

مییں فرض کی بجا آوری کے کیے مسلسل کائنات کے اوپر قائم مقامی کرتا ہوں، اور میں عاجزی کے ساتھ اپنے آپ کو اپنی رہائش گاہ میں چھپاتا ہوں، انسانی زندگی کا تجربہ کرتا ہوں اور بنی نوع انسان کے ہر عمل کا قریب سے مطالعہ کرتا ہوں۔ کسی نے کبھی اپنے آپ کو میرے سامنے خلوص سے پیش نہیں کیا ہے؛ کسی نے کبھی سچائی کی جستجو نہیں کی ہے۔ کسی نے کبھی میرے لیے محنت نہیں کی ہے اور نہ ہی میرے سامنے مستقل مزاجی کا مظاہرہ کیا اور پھر اپنے فرض پر قائم رہا۔ کسی نے کبھی مجھے خود اس میں رہنے کی اجازت نہیں دی، اور نہ ہی میری اس طرح قدر کی جیسی لوگ اپنی زندگیوں کی کرتے ہیں۔ عملی حقیقت میں، میری الوہیت جو کچھ ہے؛ کسی نے کبھی نہیں دیکھی ہے۔ کوئی بھی کبھی بھی خود عملی خدا کے ساتھ رابطے میں رہنے کے لیے آمادہ نہیں ہوا ہے۔ جب پانی تمام انسانوں کو نگل جاتا ہے تو میں انھیں ان ٹھہرے ہوئے پانیوں سے بچاتا ہوں اور انھیں نئے سرے سے جینے کا ایک موقع دیتا ہوں۔ جب لوگ جینے کے لیے اپنا اعتماد کھو بیھٹتے ہیں، تو میں انھیں موت کے دہانے سے اوپر کھینچ لیتا ہوں، انھیں آگے بڑھنے کی ہمت عطا کرتا ہوں تاکہ وہ مجھے اپنے وجود کی بنیاد کے طور پر استعمال کر سکیں۔ جب لوگ میری نافرمانی کرتے ہیں تو میں انھیں ان کی نافرمانی کے اندر سے اپنی پہچان کرواتا ہوں۔ نوع انسانی کی پرانی فطرت کی روشنی میں، اور میری رحمت کی روشنی میں، انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کی بجائے، میں انھیں موقع دیتا ہوں کہ وہ توبہ کریں اور ایک نیا آغاز کریں۔ جب وہ قحط کا شکار ہوتے ہیں، حالانکہ ان کے جسم میں ایک سانس ہی باقی رہتی ہے، تو پھر بھی میں انھیں موت کے منہ سے کھینچ لیتا ہوں، اور انھیں شیطان کی چالبازیوں کا شکار ہونے سے روکتا ہوں۔ کتنی ہی بار لوگوں نے میرا ہاتھ دیکھا ہے، کتنی ہی بار میری مہربان صورت اور مسکراتے ہوئے چہرے کو دیکھا ہے، اور کتنی ہی بار میری عظمت اور غضب کو دیکھا ہے۔ اگرچہ انسانوں نے مجھے کبھی نہیں جانا، مگر میں ان کی کمزوریوں سے فائدہ نہیں اٹھاتا کہ جان بوجھ کر اشتعال انگیزی کے مواقع کے طور پر استعمال کروں۔ نوع انسانی کی مشکلات کا عملی تجربہ کرنے کی وجہ میں انسانی کمزوری کے ساتھ ہمدردی کرنے کے قابل ہو گیا ہوں۔ یہ صرف لوگوں کی نافرمانی اور ناشکری کے جواب میں ہے کہ میں مختلف درجوں کی سزائیں دیتا ہوں۔

جب لوگ مصروف ہوتے ہیں تو میں اپنے آپ کو چھپا لیتا ہوں، اور ان کے فارغ وقت میں خود کو ظاہر کر دیتا ہوں۔ لوگ تصور کرتے ہیں کہ مجھے سب چیزوں کا علم ہے؛ وہ مجھے ایسا خود خدا مانتے ہیں جو تمام عرضداشتوں کو منظور کر لیتا ہے۔ لہذا، زیادہ لوگ، مجھے جاننے کی کسی خواہش کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف خدا سے مدد حاصل کرنے کے لیے میرے سامنے آتے ہیں۔ جب بیماری کی شدید تکلیف میں ہوں تو لوگ فوراً میری مدد کے لیے التجا کرتے ہیں۔ مصیبت کے وقت، وہ اپنی تمام تر قوت کے ساتھ اپنی مشکلات مجھ سے بیان کرتے ہیں، اتنا ہی بہتر ہے کہ وہ اپنے دکھوں کو دور کر لیتے ہیں۔ تاہم، کوئی انسان اس قابل نہیں رہا کہ وہ راحت کی حالت میں بھی مجھ سے محبت کر سکے؛ امن اور خوشی کے وقت ایک بھی شخص نے رابطہ نہیں کیا کہ میں اس کی خوشی میں شریک ہو سکوں۔ جب ان کے چھوٹے خاندان خوش و خرم ہو گئے ہیں، تو لوگوں نے کافی عرصے سے مجھے ایک طرف پھینک دیا ہے یا مجھ پر دروازہ بند کر دیا ہے، مجھے اندر داخل ہونے سے منع کر دیا ہے تاکہ وہ اپنے خاندان کی مبارک خوشیوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔ انسانی دماغ بہت تنگ ہے؛ میرے جیسے پیار کرنے والے، مہربان اور قابل رسائی خدا کو قبول کرنے کے لیے بھی بہت تنگ ہے۔ کئی مرتبہ مجھے انسانوں کی طرف سے ان کی ہنسی خوشی کے اوقات میں مسترد کر دیا گیا ہے؛ کئی مرتبہ انسانوں نے ٹھوکر کھاتے وقت مجھ سے ایک بیساکھی کی طرح سہارا لیا ہے؛ مجھے کئی بار ایسے لوگوں نے ڈاکٹر کا کردار ادا کرنے پر مجبور کیا ہے جو بیماری میں مبتلا تھے۔ انسان کتنے ظالم ہیں! وہ بالکل غیر معقول اور غیر اخلاقی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ احساسات جن کے متعلق گمان کیا جاتا ہے کہ انسان اس سے لیس ہیں، وہ بھی ان میں محسوس نہیں کیے جا سکتے؛ وہ انسانییت کے کسی بھی نشان سے تقریباً مکمل طور پر محروم ہیں۔ ماضی پر غور کرو، اور اس کا موجودہ سے موازنہ کرو: کیا تمہارے اندر کوئی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں؟ کیا تم نے اپنے ماضی کی کچھ چیزوں سے پیچھا چھڑا لیا ہے؟ یا کیا اس ماضی کو تبدیل کرنا ابھی باقی ہے؟

میں نے انسانوں کی دنیا کے اتار چڑھاؤ کا تجربہ کرتے ہوئے پہاڑی سلسلوں اور دریائی وادیوں میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک سفر کیا ہے۔ میں ان میں گھوما ہوں، اور میں ان میں برسوں رہا ہوں، پھر بھی ایسا لگتا ہے کہ نوع انسانی کا مزاج بہت کم تبدیل ہوا ہے۔ اور گویا لوگوں کی پرانی فطرت ان میں جڑ پکڑ کر کونپلیں نکال چکی ہے۔ وہ اس پرانی فطرت کو کبھی نہیں بدل سکتے؛ وہ محض اس کی اصل بنیاد پر اسے کسی حد تک بہتر بنا لیتے ہیں۔ جیسا کہ لوگ کہتے ہیں، مادّہ تبدیل نہیں ہوا ہے، لیکن شکل بہت بدل گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سبھی لوگ مجھے بے وقوف بنانے اور مجھے مرعوب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ وہ یہ دھوکا دے سکیں اور میری تعریف جیت سکیں۔ میں انسانی چالبازیوں کی نہ تو تعریف کرتا ہوں اور نہ ہی ان پر توجہ دیتا ہوں۔ انتہائی غصے میں آنے کی بجائے میں دیکھ کر بھی نہ دیکھنے والا رویہ اپنا لیتا ہوں۔ میں نوع انسانی کو ایک مناسب حد تک چھوٹ دینے کا ارادہ رکھتا ہوں اور اس کے بعد اکٹھے تمام انسانوں کے ساتھ معاملہ کروں گا۔ جیسا کہ سب انسان بے وقعت اور بے کار ہیں جو خود سے محبت نہیں کرتے اور جو اپنے آپ کو بالکل بھی پسند نہیں کرتے، تو پھر، انھیں ایک مرتبہ پھر مجھ سے رحم اور محبت کی ضرورت کیوں پیش آئے گی؟ استثناء کے بغیر، انسان خود کو نہیں جانتے، اور نہ ہی وہ یہ جانتے ہیں کہ ان کی قیمت کتنی ہے۔ انھیں اپنا وزن کرنے کے لیے خود کو وزن کے پیمانے پر رکھنا چاہیے۔ انسان میری طرف کوئی توجہ نہیں دیتے، اس لیے میں بھی انہیں سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ وہ میری طرف کوئی توجہ نہیں دیتے، اس لیے مجھے بھی ان پر زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیا یہ دونوں جہانوں میں بہترین نہیں ہے؟ اے میرے لوگو، کیا یہ تمہاری حالت کو بیان نہیں کرتا؟ تم میں سے کون ہے جس نے میرے سامنے عہد کیے اور بعد میں ان کو رد نہیں کیا؟ کس نے بار بار پختہ ارادہ کرنے کی بجائے میرے سامنے طویل مدتی عہد کیے؟ ہمیشہ، انسان آسانی کے وقتوں میں میرے سامنے عہد کرتے ہیں، اور پھر مصیبت کے وقت ان سب کو مسترد کر دیتے ہیں؛ پھر، بعد میں، وہ دوبارہ اپنے عزم کو واپس اٹھاتے ہیں اور میرے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ کیا میں اتنا بےعزت ہوں کہ میں اس ردی کو سرسری انداز میں قبول کر لوں جسے نوع انسانی نے کچرے کے ڈھیر سے اٹھایا ہے؟ بہت کم انسان اپنے عزم پر ثابت قدم رہتے ہیں، چند ہی پارسا ہوتے ہیں، اور چند ہی میری خاطر قربان کرنے کے لیے ایسی چیزیں پیش کرتے ہیں جو ان کے لیے سب سے زیادہ قیمتی ہوتی ہیں۔ کیا تم سب ایک جیسے نہیں ہو؟ اگر تم بادشاہی میں میرے لوگوں کے اراکین کے طور پر اپنے فرائض کو نبھانے سے قاصر ہو، تو میں تم سے نفرت کروں گا اور مسترد کر دوں گا!

12 مارچ 1992

سابقہ: باب 13

اگلا: باب 15

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp