باب 13

میرے کلام اور کلمات میں میرے بہت سے ارادے پوشیدہ ہیں، لیکن لوگ ان میں سے کسی کو نہیں جانتے اور نہ ہی سمجھتے ہیں؛ وہ باہر سے میرا کلام وصول کرتے رہتے ہیں اور باہر سے ان کی پیروی کرتے رہتے ہیں، اور وہ میرے دل کو نہیں سمجھ سکتے اور نہ ہی میرے کلام کے اندر سے میری مرضی کو جان سکتے ہیں۔ حالانکہ میں اپنا کلام واضح انداز میں کہتا ہوں لیکن کون ہے جو اس کو سمجھے؟ میں صہیون سے بنی نوع انسان میں آیا۔ چونکہ میں نے اپنے آپ کو عام نوع انسانی اور انسانی جلد کا لباس پہنایا ہوا ہے، اس لیے لوگ باہر سے محض میری شکل کو جانتے ہیں – لیکن وہ اس زندگی کو نہیں جانتے جو میرے اندر موجود ہے، نہ ہی وہ روح کے خدا کو پہچانتے ہیں، اور صرف جسم میں انسان کو جانتے ہیں۔ کیا حقیقی خدا خود تمہارے جاننے کی کوشش کرنے کے لائق نہیں ہو سکتا؟ کیا حقیقی خُدا بذاتِ خود تمہارے بغور معائنے کی کوشش کے قابل نہیں ہو سکتا؟ مجھے پوری نسل انسانی کی بدعنوانی سے نفرت ہے، لیکن مجھے ان کی کمزوری پر ترس آتا ہے۔ میں پوری نسل انسانی کی پرانی فطرت کے ساتھ بھی نمٹ رہا ہوں۔ چین میں میرے لوگوں میں سے ایک کے طور پر، کیا تم بھی نسل انسانی کا حصہ نہیں ہو؟ میرے تمام لوگوں میں، اور میرے تمام بیٹوں میں، یعنی ان میں سے جن کو میں نے پوری نسل انسانی میں سے منتخب کیا ہے، تم سب سے نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہو۔ اس وجہ سے، میں نے تم پر سب سے زیادہ توانائی خرچ کی ہے، سب سے بڑی کوشش کی ہے۔ کیا تم آج بھی اس بابرکت زندگی کی قدر نہیں کرتے جس سے تم لطف اندوز ہو رہے ہو؟ کیا تم اب بھی اپنے دلوں کو سخت کر رہے ہو کہ میرے خلاف بغاوت کرو اور اپنے ارادوں پر مضبوطی سے قائم رہو؟ اگر میرا مسلسل ترس اور محبت نہ ہوتی تو پوری نوع انسانی بہت پہلے شیطان کی اسیر ہو چکی ہوتی اور اس کے منہ میں ”لذیذ لقمے“ بن چکی ہوتی۔ آج تمام لوگوں کے درمیان وہ لوگ جو سچے دل سے میرے لیے اپنے آپ کو صرف کرتے ہیں اور مجھ سے سچی محبت کرتے ہیں، وہ آج بھی اتنے نایاب ہیں کہ ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ آج، کیا ”میرے بندے“ کا عنوان تمہاری ذاتی ملکیت ہو سکتا ہے؟ کیا تمہارا ضمیر بالکل برف کی طرح ٹھنڈا ہو گیا ہے؟ کیا تم واقعی ایسے بندے بننے کے لائق ہو جن کی مجھے ضرورت ہے؟ ماضی کے متعلق دوبارہ سوچو، اور آج کو دوبارہ دیکھو – تم میں سے کس نے میرے دل کو مطمئن کیا ہے؟ تم میں سے کس نے میرے ارادوں کے لیے حقیقی اشتیاق کا مظاہرہ کیا ہے؟ اگر میں نے تمہیں آمادہ نہ کیا ہوتا، تو تم اب بھی بیدار نہ ہوتے، بلکہ ایسے ہی رہتے جیسے کہ منجمد ہو، اور دوبارہ، سرما خوابی میں ہو۔

طوفانی لہروں کے درمیان، انسان میرا غضب دیکھتا ہے؛ اوپر نیچے حرکت کرتے گہرے بادلوں میں، انسان ہیبت زدہ اور دہشت زدہ ہے، اور وہ نہیں جانتا کہ کہاں بھاگنا ہے، گویا اس خوف میں ہے کہ گرج اور بارش اسے بہا لے جائے گی۔ پھر، چکردار طوفان کے گزر جانے کے بعد، جب وہ فطرت کے خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہوتا ہے تو اس کی جذباتی کیفیت پرسکون اور ہلکی ہو جاتی ہے۔ لیکن، ایسے لمحات میں، ان میں سے کس نے کبھی اس لامحدود محبت کا تجربہ کیا ہے جو بنی نوع انسان کے لیے رکھتا ہوں؟ ان کے دلوں میں صرف میری شکل ہے، لیکن میری روح کا جوہر نہیں ہے: کیا انسان کھلم کھلا میری مخالفت نہیں کر رہا ہے؟ جب طوفان اڑ چکا ہوتا ہے، تو تمام نوع انسانی کی گویا تجدید ہو جاتی ہے۔ گویا، سخت مصیبتوں کے ذریعے تزکیے کے بعد، انہوں نے روشنی اور زندگی دوبارہ حاصل کر لی ہے۔ کیا تم بھی، میری لگائی ہوئی ضربوں کو برداشت کرنے کے بعد، آج تک پہنچنے کے لیے خوش قسمت نہیں ہو؟ لیکن، جب آج چلا گیا اور کل آئے گا، تو کیا تم بارش کے بعد ہونے والی پاکیزگی کو برقرار رکھ سکو گے؟ کیا تم اس عقیدت کو برقرار رکھ سکو گے جو تمہارا تزکیہ ہونے کے بعد آئی ہے؟ کیا تم آج کی اطاعت کو برقرار رکھ سکو گے؟ کیا تمہاری عقیدت ثابت قدم اور غیر متغیر رہ سکتی ہے؟ کیا یہ ایک ایسا مطالبہ ہے جسے پورا کرنا انسان کی طاقت سے باہر ہے؟ میں ہر روز بنی نوع انسان کے درمیان رہتا ہوں، اور بنی نوع انسان کے ساتھ مل کر کام کرتا ہوں، ان کے درمیان ہوتا ہوں، پھر بھی کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ اگر میری روح کی راہنمائی نہ ہوتی تو پوری نسل انسانی میں سے کون موجودہ دور میں اب تک موجود ہوتا؟ جب میں کہتا ہوں کہ میں انسانوں کی صحبت میں رہتا ہوں اور کام کرتا ہوں تو کیا میں مبالغہ آرائی کر رہا ہوتا ہوں؟ ماضی میں، میں نے کہا تھا کہ ”میں نے نوع انسانی کو تخلیق کیا، اور پوری نوع انسانی کی راہنمائی کی، اور پوری نوع انسانی کو حکم دیا“؛ کیا یہ حقیقت میں ایسا نہیں تھا؟ کیا یہ ممکن ہے کہ تمہارا ان چیزوں کا تجربہ ناکافی ہو؟ محض جملہ ”خدمت گار“ سمجھنے کے لیے تمہاری پوری زندگیاں صرف ہو جائیں گی۔ حقیقی تجربے کے بغیر، ایک بھی انسان مجھے کبھی نہیں جان سکے گا – وہ میرے کلام کے ذریعے مجھے کبھی بھی نہیں جان سکے گا۔ تاہم، آج میں ذاتی طور پر تمہارے درمیان آیا ہوں – کیا یہ تمہارے سمجھنے کے لیے زیادہ فائدہ مند نہیں ہو گا؟ کیا میری تجسیم تمہارے لیے نجات بھی نہیں ہے؟ اگر میں خود اپنی ذات میں بنی نوع انسان میں نزول نہ کرتا تو پوری نسل انسانی بہت پہلے ان تصورات سے بھری ہوئی ہوتی، جو کہ شیطان کی ملکیت بن جانا ہے، کیونکہ تو جس چیز پر یقین رکھتا ہے وہ محض شیطان کی شبیہہ ہے اور اس میں خود خدا کے ساتھ تعلق رکھنے والی کوئی چیز بھی نہیں ہے۔ کیا یہ میری نجات نہیں ہے؟

جب شیطان میرے سامنے آتا ہے تو میں اس کی وحشیانہ درندگی سے گھبرا کر پیچھے نہیں ہٹتا، اور نہ ہی میں اس کی گھناؤنی حرکت سے خوفزدہ ہوتا ہوں: میں اسے بالکل نظر انداز کر دیتا ہوں۔ جب شیطان مجھے ترغیب دیتا ہے تو میں اس کے مکر و فریب کو دیکھتا ہوں جس کی وجہ سے وہ ذلت و رسوائی میں ڈوب جاتا ہے۔ جب شیطان مجھ سے لڑتا ہے اور میرے چنے ہوئے لوگوں کو چھیننے کی کوشش کرتا ہے تو میں اپنے جسم میں اس سے جنگ کرتا ہوں۔ اور میں اپنے جسم کی حالت میں ہوتے ہوئے اپنے بندوں کو سنبھالتا ہوں اور نگہبانی کرتا ہوں تاکہ وہ آسانی سے نیچے نہ گر جائیں یا کھو نہ جائیں، اور میں راستے میں ہر قدم پر ان کی راہنمائی کرتا ہوں۔ اور جب شیطان شکست کھا کر پیچھے ہٹ جاتا ہے تو میں اپنے بندوں سے عزت حاصل کر چکا ہوں گا، اور میرے بندے میرے لیے خوبصورت اور گونجدار گواہی دیں گے۔ لہٰذا، میں اپنے انتظام کے منصوبے میں موازنوں کو لے کر انھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اتھاہ گڑھے میں پھینک دوں گا۔ یہ میرا منصوبہ ہے؛ یہ میرا کام ہے۔ تمہاری زندگیوں میں ایک ایسا دن بھی آ سکتا ہے جب تم ایسی صورت حال سے دوچار ہو گے: کیا تم اپنے آپ کو خوشی سے شیطان کا اسیر بننے کی اجازت دو گے یا کیا تم مجھے خود کو حاصل کرنے دو گے؟ یہ تمہاری اپنی قسمت ہے، اور تمہیں اس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔

بادشاہی میں زندگی لوگوں اور خود خدا کی زندگی ہے۔ تمام نوع انسانی میری دیکھ بھال اور حفاظت میں ہے، اور سب عظیم سرخ اثدہے کے ساتھ موت تک لڑائی میں مصروف ہیں۔ اس آخری جنگ کو جیتنے کے لیے، عظیم سرخ اثدہے کو ختم کرنے کے لیے، تمام لوگوں کو چاہیے کہ وہ میری بادشاہی میں اپنے تمام وجود مجھے پیش کر دیں۔ یہاں جس ”بادشاہی“ کی بات کی گئی ہے اس سے مراد ایسی زندگی ہے جو الوہیت کی براہ راست حکمرانی کے تحت بسر کی جاتی ہے، جس میں میں اس تمام نوع انسانی کا نگہبان ہوں، جو میری تربیت کو براہ راست قبول کرتے ہیں، تاکہ ان کی زندگیاں، اگرچہ ابھی تک زمین پر ہیں، گویا جنت میں ہیں – تیسرے آسمان میں زندگی کا حقیقی احساس ہے۔ اگرچہ میں اپنے جسم میں ہوں مگر میں جسم کی حدود کی تکلیف نہیں اٹھاتا ہوں۔ میں کئی بار انسان کے درمیان اس کی دعائیں سننے کے لیے آیا ہوں، اور میں کئی بار، انسانوں کے درمیان چلتے ہوئے، ان کی تعریفوں سے لطف اندوز ہوا ہوں؛ اگرچہ انسانوں کو کبھی میرے وجود کا علم نہیں ہوا، مگر میں اب بھی اپنا کام اسی طرح کرتا ہوں۔ اپنی رہائش گاہ میں، جو وہ جگہ ہے جہاں میں چھپا ہوا ہوں – اس کے باوجود، اپنی رہائش گاہ میں، میں نے اپنے تمام دشمنوں کو شکست دی ہے؛ اپنی رہائش گاہ میں، میں نے زمین پر رہنے کا حقیقی تجربہ حاصل کیا ہے؛ اپنی قیام گاہ میں، میں انسان کے ہر قول و فعل کا مشاہدہ کر رہا ہوں، اور پوری نسل انسانی کی نگرانی اور راہنمائی کر رہا ہوں۔ اگر انسانیت میرے ارادوں کے لیے اشتیاق محسوس کر سکتی ہے، اس طرح میرے دل کو مطمئن کر سکتی ہے اور مجھے خوشی دے سکتی ہے، تو میں یقیناً تمام بنی نوع انسان کو برکت عطا کروں گا۔ کیا یہ وہ نہیں ہے جس کا میں نے بنی نوع انسان کے لیے ارادہ کیا ہے؟

جیسا کہ نوع انسانی غشی کی حالت میں پڑی ہے، صرف میری گرج کی گونج انھیں ان کے خوابوں سے بیدار کرتی ہے۔ اور جب وہ آنکھیں کھولتے ہیں تو ٹھنڈی چمک کی ان طاقتور لہروں سے ان کی بہت سی آنکھوں کو ایسی تکلیف پہنچتی ہے کہ وہ اپنی سمت کا احساس کھو بیٹھتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ وہ کہاں سے آئے ہیں اور نہ ہی یہ کہ کہاں جارہے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں سے لیزر نما شعاعیں ٹکراتی ہیں اور وہ طوفان کے تحت ایک ڈھیر کی صورت میں گر جاتے ہیں، ان کی لاشیں سیلاب کے تیز بہاؤ میں بہہ جاتی ہیں، کوئی سراغ باقی نہیں رہتا۔ روشنی میں، زندہ بچ جانے والے آخرکار میرے چہرے کو صاف طور پر دیکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں، اور صرف تب ہی انھیں میری ظاہری شکل وصورت کا کچھ علم ہوتا ہے، اس طرح کہ وہ مجھے براہ راست چہرے کی طرف دیکھنے کی مزید جرأت نہیں کرتے، سخت خوفزدہ ہوتے ہیں کہ کہیں میں ان کے جسموں پر اپنی سزا اور لعنتیں نہ نازل کر دوں۔ بہت سے لوگ روتے ہیں اور بلک بلک کر روتے ہیں؛ بہت سے لوگ مایوسی میں گر جاتے ہیں؛ بہت سے لوگ اپنے خون سے دریا بنا دیتے ہیں۔ بہت سے لاشیں بن جاتے ہیں، بے مقصد اِس طرف اور اُس طرف بھٹکتے جاتے ہیں؛ بہت سے لوگ، روشنی میں خود اپنی جگہ تلاش کرتے ہوئے، اچانک دل کی شدید تکلیف محسوس کرتے ہیں اور طویل برسوں کی اپنی ناخوشی کے لیے آنسو بہاتے ہیں۔ بہت سے لوگ، روشنی سے مجبور ہو کر، اپنی ناپاکی کا اعتراف کرتے ہیں اور اپنی اصلاح کا عزم کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ، اندھے ہونے کی وجہ سے، پہلے ہی جینے کی خوشی کھو چکے ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں روشنی کو محسوس کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے، اور یوں اپنے انجام کے انتظار میں جمود کا شکار رہتے ہیں۔ اور بہت سے لوگ زندگی کے بادبان لہرا رہے ہیں اور روشنی کی راہنمائی میں اپنے آنے والے کل کا بے تابی سے انتظار کر رہے ہیں۔ ۔۔۔ آج، انسانوں میں سے کون ہے جو اس حالت میں موجود نہیں ہے؟ میرے نور میں کون موجود نہیں ہے؟ اگر تو مضبوط بھی ہے، یا اگرچہ تو کمزور ہو سکتا ہے، تو تُو میرے نور کی آمد سے کیسے بچ سکتا ہے؟

10 مارچ 1992

سابقہ: باب 12

اگلا: باب 14

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp