باب 12
جب مشرق کی طرف سے آسمانی بجلی نمودار ہوتی ہے، جو کہ بالکل وہی لمحہ ہوتا ہے جب میں اپنا کلام کہنا شروع کرتا ہوں – جب آسمانی بجلی نمودار ہوتی ہے تو پوری کائنات روشن ہو جاتی ہے، اور تمام ستاروں میں ایک تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ پوری نسل انسانی ایسے ہے جیسے نوعیت کے لحاظ سے مرتب کی گئی ہے۔ مشرق کی طرف سے روشنی کی اس شعاع کی چمک کے نیچے، تمام نوع انسانی اپنی اصلی شکل میں ظاہر ہو جاتی ہے، ان کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں اور انہیں سمجھ ہی نہیں آتی ہے کہ کیا کریں، اور اس بات کی سمجھ تو اور بھی کم آتی ہے کہ وہ اپنی بدصورت خصوصیات کو کیسے چھپائیں۔ وہ بھی ان جانوروں کی مانند ہیں جو میری روشنی سے بھاگ کر پہاڑی غاروں میں پناہ لے لیتے ہیں – لیکن ان میں سے ایک بھی میری روشنی کے اندر سے مٹ نہیں سکتا ہے۔ تمام انسان حیران ہیں، سب انتظار کر رہے ہیں، سب دیکھ رہے ہیں؛ میری روشنی کی آمد کے ساتھ، سب اس دن پر خوش ہوتے ہیں جس دن وہ پیدا ہوئے تھے، اور اسی طرح سب اس دن پر لعنت بھی بھیجتے ہیں جس دن وہ پیدا ہوئے تھے۔ متضاد جذبات کو واضح طور پر بیان کرنا ناممکن ہے۔ خود اپنی سخت سرزنش کرنے سے نکلنے والے آنسو دریا بنتے ہیں، اور بہت بڑی تیز لہروں میں بہہ جاتے ہیں، ایک پل میں نشان چھوڑے بغیر چلے جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر، تمام انسانیت سے جلد عمل کرنے کا تقاضا کرنے کے لیے میرا دن قریب آ جاتا ہے، ایک مرتبہ پھر نسل انسانی کو عمل کرنے پر ابھارتا ہے اور انسانیت کو ایک اور نیا آغاز دیتا ہے۔ میرا دل دھڑکتا ہے اور، میرے دل کی دھڑکن کے ترنم کے مطابق، پہاڑ خوشی سے اچھلتے ہیں، پانی خوشی سے ناچتا ہے، اور لہریں پتھریلی چٹانوں سے ٹکراتی ہیں۔ یہ بیان کرنا مشکل ہے کہ میرے دل میں کیا ہے۔ میں اپنی نظروں کے نیچے تمام ناپاک چیزوں کو جلا کر راکھ کر دینا چاہتا ہوں؛ میں نافرمانی کے تمام بیٹوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے سے غائب کر دینا چاہتا ہوں، مزید کبھی بھی موجود نہ رہنے کے لیے۔ میں نے نہ صرف عظیم سرخ اژدہے کی رہائش گاہ میں ایک نئی شروعات کی ہے، بلکہ میں نے کائنات میں ایک نئے کام کا آغاز بھی کیا ہے۔ جلد ہی، زمین کی سلطنتیں میری بادشاہی بن جائیں گی؛ جلد ہی، میری بادشاہی کی وجہ سے زمین کی سلطنتیں ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گی، کیونکہ میں پہلے ہی فتح حاصل کر چکا ہوں، کیونکہ میں فاتح بن کر واپس آیا ہوں۔ عظیم سرخ اژدہے نے زمین پر میرے کام کو مٹانے کی امید میں، میرے منصوبے میں خلل ڈالنے کے لیے تمام قابل فہم ذرائع کو ختم کر دیا ہے، لیکن کیا میں اس کی عیارانہ چالوں سے مایوس ہو سکتا ہوں؟ کیا میں اس کی دھمکیوں سے خوفزدہ ہو کر اعتماد کھو سکتا ہوں؟ آسمان یا زمین پر کبھی کوئی ایک بھی ایسا وجود نہیں رہا ہے جسے میں نے اپنے ہاتھ کی ہتھیلی میں نہ رکھا ہو؛ عظیم سرخ اژدہے کے بارے میں تو یہ اور بھی زیادہ سچ ہے، یہ آلہ جو میرے لیے تضاد کو نمایاں کرنے کا کام کرتا ہے؟ کیا یہ بھی ایک ایسی چیز نہیں ہے جو میرے ہاتھوں استعمال کی جاتی ہے؟
انسانی دنیا میں میری تجسیم کے دوران، بنی نوع انسان، آج تک انجانے میں میری راہنمائی میں آیا ہے اور انجانے میں مجھے پہچانا ہے۔ لیکن، جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جو راستہ آگے ہے، اس پر کیسے چلنا ہے، اس کا کسی کو بھی اندازہ نہیں ہے اور کسی کو بھی خبر نہیں ہے - اور کم ہی کسی کو یہ علم ہے کہ وہ راستہ اسے کس سمت میں لے کر جائے گا۔ صرف قادرِمطلق کے ان پر نظر رکھنے سے ہی کوئی اس راستے پر آخر تک چل سکے گا؛ صرف مشرق میں آسمانی بجلی کی راہنمائی سے ہی کوئی اس دہلیز کو پار کر سکے گا جو میری بادشاہی کی طرف لے کر جاتی ہے۔ انسانوں میں، کبھی کوئی ایسا نہیں ہوا ہے جس نے میرا چہرہ دیکھا ہو، جس نے مشرق میں آسمانی بجلی دیکھی ہو؛ اور کتنا زیادہ کم امکان ہے کہ کوئی ایسا ہو جس نے میرے تخت سے کلام سنا ہو؟ درحقیقت، زمانہ قدیم سے، ایک بھی انسان میری شخصیت کے ساتھ براہ راست رابطے میں نہیں آیا ہے؛ صرف آج، اب جب کہ میں دنیا میں آ چکا ہوں تو لوگوں کے پاس مجھے دیکھنے کا موقع ہے۔ لیکن اب بھی، لوگ مجھے نہیں جانتے ہیں، کہ جیسے وہ صرف میرا چہرہ دیکھتے ہیں اور صرف میری آواز سنتے ہیں لیکن میرا مطلب نہیں سمجھتے ہیں۔ تمام انسان ایسے ہی ہیں۔ میرے بندوں میں سے ایک ہونے کی وجہ سے، کیا تمہیں میرا چہرہ دیکھ کر بہت زیادہ فخر کا احساس نہیں ہوتا ہے؟ اور کیا تمہیں اس وجہ سے سخت شرم نہیں آتی ہے کہ تم مجھے نہیں جانتے ہو؟ میں انسانوں کے درمیان چلتا ہوں اور میں انسانوں کے درمیان رہتا ہوں، کیونکہ میں جسم بن چکا ہوں اور میں انسانی دنیا میں آ چکا ہوں۔ میرا مقصد انسانیت کو صرف اپنا جسم دیکھنے کے قابل بنانا نہیں ہے؛ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ، یہ اس لیے ہے کہ انسانیت مجھے جاننے کے قابل ہو جائے۔ اس سے بڑھ کر، میں، اپنے مجسم جسم کے ذریعے، انسانیت کو اس کے گناہوں کا مجرم قرار دوں گا؛ میں، اپنے مجسم جسم کے ذریعے، عظیم سرخ اژدھے پر فتح حاصل کروں گا اور اس کی کھوہ کو ملیا میٹ کر دوں گا۔
اگرچہ زمین کو آباد کرنے والے انسانوں کی تعداد ستاروں کی طرح بے شمار ہے لیکن میں ان سب کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح صاف طور پر جانتا ہوں۔ اور، اگرچہ وہ انسان جو مجھ سے "محبت" کرتے ہیں وہ سمندر کی ریت کے ذروں کی طرح بے شمار ہیں، لیکن میں نے صرف چند ایک کو ہی منتخب کیا ہے: صرف ان کو جو چمکدار روشنی کا تعاقب کرتے ہیں، جو مجھ سے "محبت" کرنے والوں سے الگ ہیں۔ میں انسان کی صلاحیتوں کے متعلق مبالغہ نہیں کرتا ہوں اور نہ ہی اسے کمتر سمجھتا ہوں؛ بلکہ میں انسان سے اس کی فطری خصوصیات کے مطابق ہی تقاضا کرتا ہوں، اور اسی لیے مجھے اس قسم کے انسان کی ضرورت ہے جو خلوص کے ساتھ مجھے تلاش کرے، تاکہ میں لوگوں کو منتخب کرنے کا اپنا مقصد حاصل کر لوں۔ پہاڑوں میں بے شمار جنگلی درندے ہیں، لیکن میرے سامنے وہ سب بھیڑوں کی مانند سدھائے ہوئے ہیں؛ ناقابل فہم اسرار لہروں کے نیچے پڑے ہوئے ہیں، لیکن وہ اپنے آپ کو میرے سامنے ایسے واضح طور پر پیش کرتے ہیں جیسے زمین کے اوپر کی تمام چیزیں؛ اوپر آسمانوں میں ایسے عالم ہیں جن تک انسان کبھی نہیں پہنچ سکتا ہے، پھر بھی میں ان ناقابل رسائی عالمین میں آزادانہ طور پر گھومتا ہوں۔ انسان نے مجھے کبھی روشنی میں نہیں پہچانا ہے بلکہ مجھے صرف تاریکی کی دنیا میں ہی دیکھا ہے۔ کیا آج تم بالکل ایسی ہی حالت میں نہیں ہو؟ یہ عظیم سرخ اژدہے کے ہنگاموں کے عروج کے وقت تھا کہ میں نے اپنا کام کرنے کے لیے رسمی طور پر جسم کو اختیار کیا۔ جب عظیم سرخ اژدہے نے پہلی مرتبہ اپنی اصلی شکل کو ظاہر کیا تو میں نے اپنے نام کی گواہی دی تھی۔ جب میں بنی نوع انسان کی سڑکوں پر گھومتا تھا تو کوئی ایک وجود یا کوئی ایک شخص بھی چونک کر بیدار نہیں ہوا تھا، اور اسی طرح جب میں جسم بن کر انسانی دنیا میں آیا تو کسی کو اس کا علم نہیں تھا۔ لیکن جب، میں نے اپنے مجسم جسم میں، اپنا کام شروع کیا تو انسانیت بیدار ہوئی اور میری گرجدار آواز سے چونک کر اپنے خوابوں سے باہر آ گئی، اور اسی لمحے، انہوں نے میری راہنمائی میں اپنی زندگی کا آغاز کر دیا۔ اپنے بندوں میں، میں نے ایک بار پھر نئے کام کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ کہنے کے بعد کہ زمین پر میرا کام مکمل نہیں ہوا ہے، یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ میرے بندے جن کے بارے میں میں نے بات کی وہ نہیں ہیں جن کی مجھے اپنے دل میں ضرورت ہے، لیکن پھر بھی میں ان میں سے کچھ کو منتخب کرتا ہوں۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ میں نہ صرف اپنے لوگوں کو مجسم خدا کو جاننے کے قابل بنا رہا ہوں بلکہ ان کو گناہوں سے پاک بھی کر رہا ہوں۔ میرے انتظامی احکامات کی سختی کی وجہ سے، لوگوں کی ایک بڑی اکثریت اب بھی میری طرف سے باہر نکالے جانے کے خطرے میں ہے۔ جب تک تم اپنے آپ سے نمٹنے کے لیے، خود اپنے جسم کو تابع کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش نہیں کرو گے – اگر تم ایسا نہیں کرتے تو تم یقینی طور پر ایک ایسی چیز بن جاﺆ گے جس سے میں شدید نفرت کرتا ہوں اور جسے میں مسترد کرتا ہوں، تمہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا، بالکل اسی طرح جیسے پولس کو براہ راست میرے ہاتھوں سے سزا ملی، جس سے فرار ممکن نہیں تھا۔ کیا تم نے میرے کلام سے کچھ حاصل کیا ہے؟ پہلے کی طرح، یہ میرا ارادہ ہے کہ کلیسیا کو گناہوں سے پاک کروں، ان لوگوں کو پاک کرنا جاری رکھوں جن کی مجھے ضرورت ہے، کیونکہ میں خود خدا ہوں، جو سراسر مقدس اور بے عیب ہے۔ میں اپنے معبد کو قوس قزح کے رنگوں سے نہ صرف ست رنگا بناؤں گا، بلکہ اس کی ایسی بے داغ صفائی بھی کروں گا کہ یہ اندرونی اور بیرونی طور پر ایک جیسا صاف ہو گا۔ میری موجودگی میں، تم سب کو یہ سوچنا چاہیے کہ ماضی میں تم کیا کر چکے ہو، اور یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ کیا آج تم میرے دل کو مکمل طور پر راضی کرنے کا عزم کر سکتے ہو۔
انسان محض مجھے ہی میرے جسم میں نہیں جانتا ہے؛ اس سے بھی بڑھ کر ایسا ہے کہ وہ خود اپنے نفس کو بھی سمجھنے میں ناکام رہا ہے جو کہ ایک جسمانی جسم میں رہتا ہے۔ اتنے سالوں سے انسان مجھے دھوکا دیتے رہے ہیں، باہر سے آئے ہوئے مہمان کی طرح سلوک کرتے رہے ہیں۔ کئی مرتبہ، انہوں نے میرے لیے "اپنے گھروں کے دروازے" بند کیے ہیں؛ کئی مرتبہ، انہوں نے میرے سامنے کھڑے ہو کر بھی مجھ پر کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ کئی مرتبہ دوسرے انسانوں کے درمیان انہوں نے مجھے تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ کئی مرتبہ، انہوں نے شیطان کے سامنے میرا انکار کیا ہے؛ اور کئی مرتبہ، انہوں نے اپنے جھگڑالو مونہہ سے مجھ پر حملہ کیا ہے۔ پھر بھی میں انسان کی کمزوریوں کا حساب نہیں رکھتا ہوں اور نہ ہی اس کی نافرمانی کی وجہ سے دانت کے بدلے دانت کا مطالبہ کرتا ہوں۔ میں نے صرف یہ کیا ہے کہ اس کی لاعلاج بیماریوں کا علاج کرنے کے لیے اس کی بیماریوں پر دوا لگائی ہے، اس طرح اس کی صحت بحال کی ہے، تاکہ وہ مجھے پہچان سکے۔ کیا میں نے جو سب کچھ کیا ہے وہ انسانیت کی بقا کے لیے اور انسانیت کو زندگی کا ایک موقع دینے کے لیے نہیں ہے؟ میں کئی بار انسانوں کی دنیا میں آ چکا ہوں، لیکن چونکہ میں خود اپنی ذات میں دنیا میں آیا تھا، اس لیے انسانوں نے مجھ پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اس کی بجائے، ہر ایک نے جیسے مناسب سمجھا ویسے عمل کیا اور اپنے لیے باہر نکلنے کاراستہ تلاش کیا۔ انہیں اس بات کا علم بہت کم ہے کہ آسمانوں کے نیچے ہر ایک سڑک میرے ہاتھوں سے آتی ہے! وہ بہت کم جانتے ہیں کہ آسمانوں کے نیچے ہر ایک چیز میرے حکم کے تابع ہے! تم میں سے کون اپنے دل میں ناراضی کے جذبات پالنے کی جرات رکھتا ہے؟ تم میں سے کس میں معمولی سی بھی ہمت ہے کہ وہ کسی فیصلے پر پہنچ سکے؟ میں صرف خاموشی سے انسانیت کے درمیان اپنا کام کیے جا رہا ہوں – اور بس۔ اگر میری تجسیم کے زمانے میں مجھے انسان کی کمزوری سے ہمدردی نہ ہوتی تو ساری انسانیت صرف اور صرف میری تجسیم کی وجہ سے انتہائی خوفزدہ ہو جاتی اور اس کے نتیجے میں پاتال میں گر جاتی۔ یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ میں نے اپنے آپ کو عاجز بنایا ہے اور اپنے آپ کو چھپا لیا ہے کہ انسانیت تباہی سے بچ گئی ہے، میری سزا سے نجات پا گئی ہے، اور، اس طرح، آج تک پہنچ گئی ہے. اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ آج تک پہنچنا کتنا مشکل تھا، کیا تمہیں آنے والے کل کی زیادہ قدر نہیں کرنی چاہیے؟
8 مارچ 1992