باب 11

بنی نوع انسان کے ہر فرد کو میری روح کی طرف سے جانچ پڑتال قبول کرنی چاہیے، اپنے ہر قول و فعل کا باریک بینی سے جائزہ لینا چاہیے، اور اس کے علاوہ، میرے حیرت انگیز کاموں کو دیکھنا چاہیے۔ تم زمین پر بادشاہی کی آمد کے وقت کیسا محسوس کرتے ہو؟ جب میرے بیٹے اور لوگوں کے ریلے میرے تخت کی طرف آتے ہیں تو میں رسمی طور پر عظیم سفید تخت کے سامنے عدالت کا آغاز کرتا ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب میں زمین پر اپنا کام ذاتی طور پر شروع کرتا ہوں، اور جب عدالت کا دور اپنے اختتام کے قریب آتا ہے، تو میں اپنے کلام کو پوری کائنات تک پہنچانا شروع کر دیتا ہوں، اور اپنی روح کی آواز کو پوری کائنات کے لیے جاری کرتا ہوں۔ اپنے کلام کے ذریعے، میں آسمان اور زمین پر موجود تمام لوگوں اور چیزوں کو دھو کر صاف کر دوں گا، تاکہ زمین اب گندی اور عیاش نہ رہے بلکہ ایک مقدس بادشاہی ہو۔ میں سب چیزوں کی تجدید کروں گا، تاکہ وہ میرے استعمال کے لیے مہیا کی جائیں، تاکہ وہ مزید مٹی کی سانسیں برداشت نہ کریں، اور زمین کے ذائقے سے مزید داغدار نہ ہوں۔ زمین پر، انسان نے میرے کلام کے مقصد اور ماخذ کو تلاش کیا ہے، اور میرے اعمال کا مشاہدہ کیا ہے، لیکن ابھی تک کسی کو بھی میرے کلام کے ماخذ کا صحیح معنوں میں علم نہیں ہوا اور نہ ہی کبھی کسی نے میرے اعمال میں حیرت انگیزی کو صحیح معنوں میں دیکھا ہے۔ یہ صرف آج ہے، جب میں ذاتی طور پر انسان کے درمیان آتا ہوں اور اپنا کلام کہتا ہوں، کہ انسان کو میرے بارے میں تھوڑا سا علم ہوا ہے، وہ اپنے خیالات میں ”میں“ کی جگہ کو ہٹاتا ہے، اور اس کی بجائے اپنے شعور میں عملی خدا کے لیے جگہ پیدا کر لیتا ہے۔ انسان کے خیالات ہیں اور وہ تجسس سے بھرا ہوا ہے؛ کون خدا کو دیکھنا نہیں چاہے گا؟ کون خدا سے ملنے کی خواہش نہیں کرے گا؟ پھر بھی صرف ایک چیز جو انسان کے دل میں ایک خاص مقام رکھتی ہے وہ خدا ہے جسے انسان مبہم اور تجریدی محسوس کرتا ہے۔ اگر میں انھیں صاف صاف نہ بتاتا تو کس کو اس کا احساس ہوتا؟ کون صحیح معنوں میں یقین کے ساتھ اور شک کے ذرا سے اشارے کے بھی بغیر یہ مانتا کہ میں واقعی موجود ہوں؟ انسان کے دل میں موجود ”میں“ اور حقیقت کے ”میں“ میں بہت فرق ہے اور کوئی بھی ان کے درمیان موازنہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اگر میں جسم نہ بنتا تو انسان مجھے کبھی نہ پہچان سکتا اور اگر مجھے جان بھی لیتا تو کیا ایسا علم پھر بھی ایک تصور نہیں ہوتا؟ ہر روز میں لوگوں کے نہ رکنے والے بہاؤ کے درمیان چلتا ہوں، اور ہر روز میں ہر شخص کے اندر کام کرتا ہوں۔ جب انسان مجھے حقیقی معنوں میں دیکھے گا تو وہ مجھے میرے کلام میں جان سکے گا، اور ان ذرائع کو سمجھ لے گا جن سے میں بولتا ہوں نیز میرے ارادے بھی۔

جب بادشاہی رسمی طور پر زمین پر آتی ہے، تو کیا، سب چیزوں کے درمیان یہ خاموش نہیں ہوتی ہے؟ سب لوگوں میں کون ہے جو خوفزدہ نہیں ہے؟ میں پوری کائنات کی دنیا میں ہر جگہ چلتا ہوں، اور ہر چیز ذاتی طور پر میری طرف سے ترتیب دی گئی ہے۔ اس وقت کون نہیں جانتا کہ میرے اعمال حیرت انگیز ہیں۔ میرے ہاتھ سب چیزوں کو قائم رکھے ہوئے ہیں، لیکن میں بھی سب چیزوں سے بالاتر ہوں۔ آج، کیا میری تجسیم اور انسان کے درمیان میری ذاتی موجودگی میری عاجزی اور پوشیدگی کے صحیح معانی نہیں ہیں؟ ظاہری طور پر، بہت سے لوگ مجھے اچھا سمجھ کر تعریف کرتے ہیں اور خوبصورت کے طور پر میری توصیف کرتے ہیں، لیکن مجھے صحیح معنوں میں کون جانتا ہے؟ آج میں کیوں پوچھتا ہوں کہ تم مجھے جانتے ہو؟ کیا میرا مقصد عظیم سرخ اثدہے کو شرمندہ کرنا نہیں ہے؟ میں انسان کو مجبور نہیں کرنا چاہتا کہ وہ میری تعریف کرے بلکہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے پہچانے جس کے ذریعے وہ مجھ سے محبت کرے اور اس طرح میری تعریف کرے۔ اس طرح کی تعریف اس کے نام کے لائق ہے، اور کھوکھلی بات نہیں ہے؛ صرف اس طرح کی تعریف میرے عرش تک پہنچ سکتی ہے اور بلند ہو کر آسمانوں میں جا سکتی ہے۔ کیونکہ شیطان نے انسان کو ترغیب دی ہے اور بدعنوان بنا دیا ہے، اس لیے کہ وہ تصورات اور سوچوں کے قبضے میں آ گیا ہے، اس لیے ذاتی طور پر تمام بنی نوع انسان کو فتح کرنے، انسان کے تمام تصورات کو بے نقاب کرنے، اور انسان کی سوچ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے میں جسم بن گیا ہوں۔ نتیجے کے طور پر، انسان اب میرے سامنے معائنے کے لیے مزید پیش نہیں ہوتا، اور نہ ہی اپنے تصورات کو استعمال کرتے ہوئے میری خدمت کرتا ہے، اور اس طرح انسان کے تصورات میں سے ”میں“ بالکل ختم ہو جاتا ہے۔ جب بادشاہی آتی ہے تو جو چیز میں سب سے پہلے کرتا ہوں وہ کام کے اس مرحلے کا آغاز کرنا ہے، اور میں ایسا اپنے لوگوں کے درمیان کرتا ہوں۔ جیسا کہ میرے لوگ جو عظیم سرخ اژدہے کے ملک میں پیدا ہوئے ہیں، یقیناً تمہارے اندر عظیم سرخ اژدہے کا صرف تھوڑا سا زہر، یا ایک حصہ ہی موجود نہیں ہے۔ چنانچہ، میرے کام کا یہ مرحلہ بنیادی طور پر تم پر مرکوز ہے، اور چین میں میری تجسیم کی اہمیت کا یہ ایک پہلو ہے۔ زیادہ تر لوگ میرے کہے ہوئے کلام کے ایک ٹکڑے کو بھی سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں، اور جب وہ سمجھتے ہیں تو ان کی سمجھ دھندلی اور گڈمڈ ہوتی ہے۔ جس طریقے سے میں بات کرتا ہوں اس میں یہ ایک رخ بدلنے والا موڑ ہے۔ اگر تمام لوگ میرے کلام کو پڑھنے اور اس کے معنی سمجھنے کے قابل ہوتے، تو پھر انسانوں میں سے کون بچایا جا سکتا اور پاتال میں نیچے نہ پھینک دیا جاتا؟ جب انسان مجھے جانتا ہے اور میری اطاعت کرتا ہے تو یہی وہ وقت ہو گا جب میں آرام کروں گا، اور یہی وہ وقت ہو گا جب انسان میرے کلام کے معنی کو سمجھنے کے قابل ہو گا۔ آج، تمہاری حیثیت بہت چھوٹی ہے – یہ تقریباً قابل رحم حد تک چھوٹی ہے، یہاں تک کہ اوپر اٹھائے جانے کے لائق بھی نہیں ہے – میرے بارے میں تمہارے علم کے متعلق کچھ نہیں کہنا ہے۔

اگرچہ میں کہتا ہوں کہ فرشتے میرے بیٹوں اور لوگوں کی نگہبانی کے لیے بھیجے جانا شروع ہو گئے ہیں، لیکن کوئی بھی میرے کلام کا مطلب سمجھنے کا اہل نہیں ہے۔ جب میں ذاتی طور پر انسانوں کے درمیان آتا ہوں تو فرشتے اسی وقت نگہبانی کا کام شروع کر دیتے ہیں اور فرشتوں کی نگہبانی کے دوران تمام بیٹے اور لوگ نہ صرف آزمائشیں اور نگہبانی وصول کرتے ہیں بلکہ اپنی آنکھوں سے ہر قسم کے رویا کو وقوع پذیر ہوتے ہوئے دیکھنے کے قابل بھی ہوتے ہیں۔ چونکہ میں الوہیت میں براہ راست کام کرتا ہوں، اس لیے ہر چیز ایک نئی شروعات میں داخل ہوتی ہے، اور چونکہ یہ الوہیت براہ راست کام کرتی ہے، اس لیے یہ بنی نوع انسان کی وجہ سے ذرا بھی محدود نہیں ہوتی ہے، اور انسان کو ایسا لگتا ہے کہ یہ مافوق الفطرت حالات میں آزادانہ طور پر کام کرتی ہے۔ پھر بھی، میرے نزدیک، یہ مکمل طور پر معمول کی بات ہے (انسان کو یقین ہے کہ یہ مافوق الفطرت ہے کیونکہ اس نے کبھی براہ راست الوہیت کا سامنا نہیں کیا ہے)؛ یہ انسان کے کسی بھی تصورات کی حامل نہیں ہے، اور انسانی خیالات سے بے داغ ہے۔ لوگ یہ تب ہی دیکھیں گے جب وہ سب صحیح راستے پر داخل ہو جائیں گے؛ کیونکہ ابھی تو آغاز ہے، جب اس کے داخلے کی بات آتی ہے تو انسان میں بہت سی خامیاں ہیں، اور ناکامیوں اور دھندلاہٹ سے مشکل سے ہی بچا جا سکتا ہے۔ آج، جب سے میں نے تمہیں اس مقام تک پہنچایا ہے، میں نے مناسب انتظامات کیے ہیں، اور میرے اپنے مقاصد ہیں۔ اگر میں تمہیں ان کے بارے میں آج بتاؤں تو کیا تم واقعی ان کو جان سکو گے؟ میں انسان کے دماغ کے خیالات اور انسان کے دل کی خواہشات سے بخوبی واقف ہوں: کس نے کبھی اپنے لیے باہر نکلنے کا راستہ تلاش نہیں کیا؟ کس نے کبھی خود اپنے امکانات کے بارے میں نہیں سوچا؟ اس کے باوجود انسان ایک بھرپور اور شاندار عقل کا مالک ہے، کون یہ پیشین گوئی کر سکتا تھا کہ زمانوں کے بعد حال ایسا ہو گا جیسا کہ یہ ہے۔ کیا یہ واقعی تمہاری اپنی موضوعی کوششوں کا پھل ہے؟ کیا یہ تمہاری انتھک محنت کی ادائیگی ہے؟ کیا یہ وہ خوبصورت خاموش تمثیل ہے جس کا تصور تمہارے ذہن نے کیا ہے؟ اگر میں تمام بنی نوع انسان کی راہنمائی نہ کرتا تو کون خود کو میرے انتظامات سے الگ کر کے کوئی دوسرا راستہ تلاش کر سکتا ہے؟ کیا یہ انسان کے تصورات اور خواہشات ہیں جنہوں نے اسے آج تک پہنچایا ہے؟ بہت سے لوگ اپنی خواہشات پوری ہوئے بغیر ساری زندگی گزار دیتے ہیں۔ کیا یہ واقعی ان کی سوچ میں خرابی کی وجہ سے ہے؟ بہت سے لوگوں کی زندگیاں غیر متوقع خوشی اور اطمینان سے بھری ہوئی ہیں۔ کیا یہ واقعی اس لیے ہے کہ وہ بہت کم توقع کرتے ہیں؟ سب بنی نوع انسان میں سے کون ہے جس کی خدا کی نظر میں دیکھ بھال نہیں ہوتی ہے؟ کون ہے جو خدا کی طرف سے تقدیر مقدر کیے جانے کے درمیان نہیں رہتا؟ کیا انسان کی زندگی اور موت اس کی اپنی مرضی سے ہوتی ہے؟ کیا انسان خود اپنی قسمت پر قابو رکھتا ہے؟ بہت سے لوگ موت کو پکارتے ہیں، لیکن وہ ان سے بہت دور ہے؛ بہت سے لوگ ایسے بننا چاہتے ہیں جو زندگی میں مضبوط ہوں اور موت سے ڈرتے ہوں، پھر بھی ان سے ناواقف ہوں، ان کی موت کا دن قریب آ جاتا ہے، انھیں موت کی کھائی میں دھنسا دیتا ہے؛ بہت سے لوگ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اور گہری سانسیں لیتے ہیں؛ بہت سے لوگ بہت روتے ہیں، روتے ہوئے سسکیاں لیتے ہیں۔ بہت سے لوگ آزمائشوں کے درمیان گر جاتے ہیں؛ اور بہت سے لوگ ترغیبات کے قیدی بن جاتے ہیں۔ اگرچہ میں ذاتی طور پر ظاہر نہیں ہوتا کہ انسان کو مجھے واضح طور پر دیکھنے کا موقع مل سکے، بہت سے لوگ میرا چہرہ دیکھ کر ڈرتے ہیں، سخت خوفزدہ ہوتے ہیں کہ میں انہیں مار گراؤں گا، کہ میں انھیں گُل کر دوں گا۔ کیا انسان مجھے واقعی جانتا ہے یا وہ نہیں جانتا ہے؟ کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ تم مجھ سے اور میری سزا، دونوں سے ڈرتے ہو، پھر بھی تم کھڑے ہو کر کھلم کھلا میری مخالفت کرتے ہو اور مجھ پر فیصلہ سناتے ہو۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ اس شخص نے مجھے کبھی نہیں پہچانا ہے کیونکہ اس نے کبھی میرا چہرہ نہیں دیکھا اور نہ ہی میری آواز سنی ہے۔ چنانچہ اگرچہ میں انسان کے دل میں ہوں، پھر بھی کیا کوئی ایسا ہے میں جس کے دل میں دھندلا یا مبہم نہ ہوں؟ کیا کوئی ہے میں جس کے دل میں بالکل صاف ہوں؟ میں نہیں چاہتا کہ جو لوگ میرے بندے ہیں وہ بھی مجھے مبہم اور دھندلا دیکھیں اور اس طرح میں اس عظیم کام کا آغاز کروں۔

میں خاموشی سے انسانوں کے درمیان آتا ہوں، اور پھر دور چلا جاتا ہوں۔ کیا کبھی کسی نے مجھے دیکھا ہے؟ کیا سورج اپنے جلتے ہوئے شعلوں کی وجہ سے مجھے دیکھ سکتا ہے؟ کیا چاند اپنی چمکیلی شفافیت کی وجہ سے مجھے دیکھ سکتا ہے؟ کیا ستاروں کے جھرمٹ آسمان میں اپنی جگہ کی وجہ سے مجھے دیکھ سکتے ہیں؟ جب میں آتا ہوں تو انسان کو خبر نہیں ہوتی اور تمام چیزیں بے خبر رہتی ہیں اور جب میں چلا جاتا ہوں تو بھی انسان بے خبر رہتا ہے۔ کون میری گواہی دے سکتا ہے؟ کیا یہ زمین پر لوگوں کی تعریف ہو سکتی ہے؟ کیا یہ جنگل میں کھلنے والے سوسن کے پھول ہو سکتے ہیں؟ کیا یہ آسمان پر اڑتے پرندے ہیں؟ کیا یہ پہاڑوں میں دھاڑتے شیر ہیں؟ کوئی بھی مجھے پوری طرح سے نہیں دیکھ سکتا! کوئی بھی وہ کام نہیں کر سکتا جو میں کروں گا! اگر وہ یہ کام کر بھی لیتا تو اس کا کیا اثر ہوتا؟ ہر روز میں بہت سے لوگوں کے ہر عمل کا مشاہدہ کرتا ہوں، اور ہر روز میں بہت سے لوگوں کے دل و دماغ کو تلاش کرتا ہوں؛ کبھی بھی کوئی میرے فیصلے سے بچ نہیں پایا، اور کبھی کسی نے میرے فیصلے کی حقیقت سے خود کو دور نہیں کیا۔ میں آسمان کے اوپر کھڑا ہوں اور دور فاصلے پر دیکھتا ہوں: بے شمار لوگوں کو میں نے مار گرایا ہے، لیکن، اسی طرح بے شمار لوگ میری رحمت اور شفقت کے درمیان بھی رہتے ہیں۔ کیا تم بھی ایسے حالات میں نہیں رہتے ہو؟

5 مارچ 1992

سابقہ: بادشاہی کا ترانہ

اگلا: باب 12

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp