باب 1
کیا وہ لوگ جنہوں نے میرا کلام دیکھا ہے وہ واقعی اسے قبول کرتے ہیں؟ کیا تم واقعی مجھے جانتے ہو؟ کیا تم نے واقعی اطاعت کرنا سیکھ لیا ہے؟ کیا تم خلوص کے ساتھ خود کو میرے لیے خرچ کرتے ہو؟ کیا تم نے واقعی عظیم سرخ اژدہے کے سامنے میرے لیے مضبوط اور اٹل گواہی دی ہے؟ کیا تمہاری عقیدت واقعی عظیم سرخ اژدہے کو شرمندہ کرتی ہے؟ صرف اپنے کلام کی آزمائش کے ذریعے ہی میں کلیسیا کو پاک کرنے اور ان کو منتخب کرنے کا اپنا مقصد حاصل کر سکتا ہوں جو مجھ سے مخلصانہ محبت کرتے ہیں۔ اگر میں اس طرح کام نہ کرتا تو کیا کوئی مجھے جاننے کے قابل ہوتا؟ کون میری عظمت، میرے غضب اور میری حکمت کو میرے کلام سے جان سکتا؟ اپنا کام شروع کرنے کے بعد، میں اسے ضرور مکمل کروں گا، لیکن پھر بھی یہ میں ہی ہوں جو انسانوں کے دلوں میں ان کی گہرائیوں تک پہنچتا ہوں۔ سچ کہوں تو انسانوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو مجھے پوری طرح جانتا ہو، اس لیے میں تمام انسانوں کی راہنمائی کے لیے، ان سب کو ایک نئے دور میں لے جانے کے لیے کلام کا استعمال کرتا ہوں۔ میں آخر میں اپنے تمام کاموں کو پورا کرنے کے لیے کلام کا استعمال کروں گا، جس کی وجہ سے وہ تمام لوگ جو مجھ سے سچے دل سے محبت کرتے ہیں، میری بادشاہی کے تابع ہو کر، میرے تخت کے سامنے زندگی گزارنے کے لیے واپس آئیں گے۔ اب صورتحال وہ نہیں ہے جو پہلے تھی، اور میرا کام ایک نئے نقطہ آغاز میں داخل ہو گیا ہے۔ ایسا ہونے کی وجہ سے، ایک نیا طریقہ ہو گا: وہ تمام لوگ جو میرے کلام کو دیکھتے ہیں اور اسے اپنی زندگی کے طور پر قبول کرتے ہیں وہ میری بادشاہی کے بندے ہیں، اور میری بادشاہی میں ہونے کی وجہ سے وہ میری بادشاہی کے بندے ہیں۔ کیونکہ وہ میرے کلام کی راہنمائی قبول کرتے ہیں، اگرچہ انہیں میرے بندے کہا جاتا ہے، یہ لقب کسی بھی طرح میرے ”بیٹے“ کہلانے کے لیے ثانوی نہیں ہے۔ خدا کے بندے بنائے جانے کے بعد، پھر سب کو میری بادشاہی میں انتہائی عقیدت کے ساتھ خدمت کرنی چاہیے اور میری بادشاہی میں اپنے فرائض کو پورا کرنا چاہیے۔ جو بھی میرے انتظامی احکام کے خلاف جرم کرے گا اسے میری سزا ضرور ملے گی۔ یہ میرا سب کو مشورہ ہے۔
اب ایک نیا نقطہ نظر داخل کیا گیا ہے، اور ماضی کا دوبارہ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم، جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے: میں جو کہتا ہوں اس پر قائم رہتا ہوں، اور جس چیز کے ساتھ میں کھڑا ہوتا ہوں اسے ہمیشہ تکمیل تک پہنچاتا ہوں، اور کوئی بھی اسے تبدیل نہیں کر سکتا – یہ مطلق ہے۔ چاہے یہ وہ کلام ہو جو میں نے ماضی میں کہا ہے یا وہ کلام جو میں مستقبل میں کہوں گا، میں اس سب کو ایک ایک کر کے سچ کروں گا، اور تمام انسانیت کو اس کو سچ ہوتے ہوئے دیکھنے کا موقع دوں گا۔ میرے کلام اور کام کے پیچھے یہ اصول ہے۔ چونکہ کلیسیا کی تعمیر پہلے ہی حاصل ہو چکی ہے، اب یہ کلیسیا کی تعمیر کا دور نہیں ہے، بلکہ وہ دور ہے جس میں بادشاہی کامیابی سے تعمیر ہوئی ہے۔ تاہم، جیسا کہ تم ابھی تک زمین پر ہو، زمین پر انسانوں کے اجتماعات ”کلیسیا“ کے نام سے مشہور رہیں گے۔ بہر حال، کلیسیا کا مادّہ ویسا نہیں ہے جیسا کہ یہ کبھی تھا – یہ ایک کلیسیا ہے جسے کامیابی سے بنایا گیا ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ میری بادشاہی زمین پر نازل ہو چکی ہے۔ کوئی بھی میرے کلام کی جڑ کو نہیں سمجھ سکتا اور نہ ہی وہ اس کے کہنے میں میرے مقصد کو جان سکتا ہے۔ آج میں جس طریقے سے بات کر رہا ہوں، اس سے تم ایک الوہی وجود کے ظہور کا تجربہ کرو گے۔ کچھ لوگ اونچی آواز میں اور تلخ انداز میں رو سکتے ہیں؛ کچھ لوگ خوف محسوس کر سکتے ہیں کہ میرا بات کرنے کا طریقہ یہی ہے۔ کچھ لوگ جب میری ہر حرکت کو دیکھتے ہیں تو وہ اپنے قدامت پسندانہ خیالات سے چمٹے رہ سکتے ہیں؛ کچھ لوگوں کو اپنی شکایات کا اظہار کرنے یا اس وقت میری مخالفت کرنے پر افسوس ہو سکتا ہے؛ کچھ لوگ خفیہ طور پر خوش ہو سکتے ہیں کہ، میرے نام سے کبھی نہ ہٹتے ہوئے وہ دوبارہ زندہ ہو گئے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہو سکتے ہیں جنہیں بہت پہلے میری باتوں سے ”اذیت“ ہوتی تھی یہاں تک کہ وہ آدھے مردہ ہو چکے تھے، مایوس ہو چکے تھے اور حوصلہ ہار بیٹھے تھے، اب اس کلام پر توجہ دینے کی ہمت نہیں رکھتے جو میں کہتا ہوں، حالانکہ میں نے اپنا انداز بیان بدل لیا ہے؛ یا دوسرے جنہوں نے ایک خاص مقام تک عقیدت کے ساتھ میری خدمت کی ہے، کبھی شکایت نہیں کی، کبھی شک نہیں کیا، آج خوش قسمت ہیں کہ وہ رہائی حاصل کر سکیں اور اپنے دلوں میں میرے لیے ایسا تشکر محسوس کریں جو الفاظ میں ادا نہیں ہو سکتا۔ مندرجہ بالا تمام حالات کا اطلاق، مختلف درجات میں، ہر انسان پر ہوتا ہے۔ لیکن جیسا کہ ماضی ماضی ہے، اور حال پہلے ہی سے موجود ہے، اس لیے اب کل کی پرانی یادوں کی حسرت میں مزید مبتلا ہونے یا مستقبل کے لیے سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انسان ہونے کے ناطے، جو بھی حقیقت کے خلاف جاتا ہے اور میری راہنمائی کے مطابق کام نہیں کرتا ہے، اس کا انجام اچھا نہیں ہو گا، بلکہ وہ صرف اپنے اوپر مصیبت ہی لے کر آئے گا۔ کائنات میں جو ہر چیز ہوتی ہے اس میں سے کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جس میں میرا فیصلہ حتمی نہ ہو۔ کیا کوئی ایسی چیز ہے جو میرے ہاتھ میں نہیں ہے؟ جو کچھ میں کہتا ہوں وہ ہوتا ہے، اور انسانوں میں سے کون میرا خیال بدل سکتا ہے؟ کیا یہ وہ عہد ہو سکتا ہے جو میں نے زمین پر باندھا تھا؟ کوئی چیز میرے منصوبے کے آگے بڑھنے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی؛ میں اپنے کام کے ساتھ ساتھ اپنے انتظام کے منصوبے میں ہمیشہ موجود رہتا ہوں۔ انسانوں میں سے کون مداخلت کرنے کے لیے دخل دے سکتا ہے؟ کیا یہ میں نہیں ہوں جس نے ذاتی طور پر یہ انتظامات کیے ہیں؟ آج اس دنیا میں داخل ہونا میرے منصوبے یا جس کا میں نے پہلے سے اندازہ لگایا ہے اس سے باہر نہیں نکلتا؛ یہ سب میری طرف سے بہت پہلے طے کر دیا گیا تھا۔ تم میں سے کون میرے منصوبے کے اس مرحلے کا ادراک کر سکتا ہے؟ میرے لوگ یقینی طور پر میری آواز کو سنیں گے، اور ان میں سے ہر ایک جو سچے دل سے مجھ سے محبت کرتا ہے یقینی طور پر میرے تخت کے سامنے واپس آئے گا۔
20 فروری 1992