ضمیمہ 2: خدا تمام نوع انسانی کی تقدیر پر اختیار رکھتا ہے

نسل انسانی کے ارکان اور متقی مسیحیوں کے طور پر، یہ ہم سب کی ذمہ داری اور فرض ہے کہ ہم اپنے دماغ اور جسم خدا کے حکم کی تکمیل کے لیے پیش کریں، کیونکہ ہمارا پورا وجود خدا کا مرہون منت ہے، اور یہ خدا کی حاکمیت کی بدولت موجود ہے۔ اگر ہمارے دماغ اور جسم خدا کے حکم کے لیے نہیں ہیں اور نوع انسانی کے نیک مقصد کے لیے نہیں ہیں، تو ہماری روحیں ان لوگوں کے لیے بے وقعت محسوس ہوں گی جو خدا کا حکم بجا لانے کے لیے شہید ہوئے تھے، اور اس سے بھی زیادہ خدا کے لیے بے وقعت ہوں گی، جس نے ہمیں سب کچھ عطا کیا ہے۔

خدا نے یہ دنیا بنائی، اس نے یہ نوع انسانی بنائی اور اس کے علاوہ وہ قدیم یونانی ثقافت اور انسانی تہذیب کا معمار تھا۔ صرف خدا ہی اس نوع انسانی کی دل جوئی کرتا ہے، اور صرف خدا ہی اس نوع انسانی کی شب و روز نگہداشت کرتا ہے۔ انسانی پیش رفت اور ترقی خدا کی حاکمیت کا لازمی جزو ہیں، اور نوع انسانی کی تاریخ اور مستقبل کو بھی خدا کے ارادوں سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے۔ اگر تُو سچا مسیحی ہے، تو تُو بلاشبہ یہ یقین کرے گا کہ کسی بھی ملک یا قوم کا عروج و زوال خدا کے ارادوں کے مطابق ہوتا ہے۔ صرف خدا ہی کسی ملک یا قوم کی تقدیر کو جانتا ہے، اور اس نوع انسانی کی روش کی باگ ڈور صرف خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اگر نوع انسانی اچھی تقدیر کی خواہش رکھتی ہے، اگر کسی ملک کی خواہش ہے کہ اس کا نصیب اچھا ہو تو انسان کو چاہیے کہ وہ خدا کے حضور سجدہ ریز ہو، توبہ کرے اور خدا کے حضور اقرار کرے، بصورت دیگر انسان کی تقدیر اور منزل کی تباہی ناگزیر ہوگی۔

ماضی میں اس وقت پر نظر ڈالو جب نوح نے کشتی بنائی: نوع انسانی بہت زیادہ بدعنوان تھی، لوگ خدا کی نعمت سے دور بھٹک گئے تھے، خدا نے ان کی نگہداشت بند کر دی تھی، اور وہ خدا کے وعدوں سے محروم ہو چکے تھے۔ وہ خدا کی روشنی کے بغیر، ظلمت میں زندگی گزارتے تھے۔ پھر وہ فطرتاً بدکار ہوگئے اور خود کو گھناؤنی بدکاریوں کے حوالے کر دیا۔ ایسے لوگ اب خدا کا وعدہ حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ وہ خدا کا چہرہ دیکھنے یا خدا کی آواز سننے کے قابل نہیں تھے، کیونکہ انھوں نے خدا کو چھوڑ دیا تھا، جو کچھ خدا نے انھیں عطا کیا تھا، انھوں نے ایک طرف پھینک دیا تھا، اور خدا کی تعلیمات بھول گئے تھے۔ ان کا دل خدا سے دور سے دور بھٹک گیا اور جب ایسا ہوا تو وہ ہر طرح سے عقل اور انسانیت سے پرے بدچلن ہوتے چلے گئے۔ پھر وہ موت کے قریب پہنچ گئے اور خدا کے غضب اور سزا کی زد میں آ گئے۔ صرف نوح نے خُدا کی عبادت کی اور برائی سے پرہیز کیا، اور یوں وہ خُدا کی آواز اور اُس کی ہدایات سننے کے قابل تھا۔ اُس نے خُدا کے کلام کی ہدایات کے مطابق کشتی بنائی، اور اس میں ہر طرح کے جان دار اکٹھے کیے۔ اور اس طرح، ایک بار جب سب کچھ تیار ہو گیا تو خدا نے دنیا پر اپنی آفت نازل کر دی۔ صرف نوح اور اُس کے خاندان کے سات دیگر افراد تباہی سے بچے، کیونکہ نوح نے یہوواہ کی پرستش کی اور بُرائی سے پرہیز کیا تھا۔

اب موجودہ دور پر نظر ڈالو: نوح جیسے راست باز انسان، جو خدا کی عبادت کر سکیں اور برائیوں سے بچے رہیں، ختم ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود خدا اب بھی اس نوع انسانی پر مہربان ہے اور اس آخری دور میں بھی اس سے درگزر کرتا ہے۔ خُدا اُن لوگوں کی جستجو میں رہتا ہے جو اُس کے ظاہر ہونے کی تمنا کرتے ہیں۔ وہ ان لوگوں کی جستجو میں رہتا ہے جو اس کا کلام سن سکیں، جو اس کا حکم نہیں بھولے ہیں اور اپنے دل اور جسم اس کے حوالے کرتے ہیں۔ وہ ان لوگوں کی جستجو میں ہوتا ہے جو اس کے سامنے بچوں کی طرح فرمانبردار رہیں اور اس کی مخالفت نہ کریں۔ اگر تُو کسی طاقت یا زور سے بے نیاز ہو کر خود کو خدا کے لیے وقف کرتا ہے، تو خدا تیری طرف نظر کرم کرے گا اور تجھے اپنی رحمتوں سے نوازے گا۔ اگر تُو اعلیٰ مقام پر فائز، باوقار شہرت کا حامل، بہت زیادہ علم کا مالک، بے شمار اثاثوں کا مالک اور بہت سے لوگوں کا حمایت یافتہ ہے، تب بھی یہ چیزیں تجھے خدا کے سامنے آنے، اس کی دعوت قبول کرنے اور اس کا حکم بجا لانے سے نہیں روکتیں، تو پھر تُو جو کچھ کرے گا وہ زمین پر سب سے زیادہ معنی خیز اور نوع انسانی کا سب سے زیادہ نیک فریضہ ہوگا۔ اگر تُو مقام اور اپنے مقاصد کی خاطر خدا کی دعوت رد کرتا ہے تو تُو جو کچھ بھی کرے گا، خدا اس پر لعنت بھیجے گا، یہاں تک کہ اس سے نفرت بھی کرے گا۔ شاید تُو صدر، سائنس دان، پادری، یا بزرگ ہے، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تُو کتنے اعلیٰ عہدے پر فائز ہے، اگر تُو اپنے کاموں میں اپنے علم اور قابلیت پر بھروسا کرے گا تو تُو ہمیشہ ناکام رہے گا اور ہمیشہ خدا کی نعمتوں سے محروم رہے گا، کیونکہ خدا تیری کوئی بھی چیز قبول نہیں کرتا، اور وہ یہ تسلیم نہیں کرتا کہ تیرا عہد نیک ہے، یا یہ قبول نہیں کرتا ہے کہ تُو نوع انسانی کی بھلائی کے لیے کام کر رہا ہے۔ وہ کہے گا کہ تُو جو کچھ بھی کرتا ہے وہ نوع انسانی کا علم اور طاقت استعمال کرتے ہوئے انسانوں سے خدا کے تحفظ کو دور کرنے کے لیے کرتا ہے، اور یہ کہ خدا کی نعمتیں جھٹلانے کے لیے کرتا ہے۔ وہ کہے گا کہ تُو نوع انسانی کو تاریکی کی طرف، موت کی طرف، اور ایک لامحدود زندگی کے آغاز کی طرف لے جا رہا ہے جس میں انسان خدا اور اس کی نعمتوں سے محروم ہو چکا ہے۔

جب سے نوع انسانی نے سماجی علوم ایجاد کیے ہیں، انسان کے ذہن پر سائنس اور علم قابض ہو گئے ہیں۔ تب سے سائنس اور علم نوع انسانی کی حکمرانی کے آلات بن چکے ہیں، اور اب انسان کے لیے خدا کی عبادت کرنے کی مزید گنجائش نہیں رہ گئی اور نہ ہی خدا کی عبادت کے لیے حالات ہی زیادہ سازگار رہے ہیں۔ انسان کے دل میں خدا کا مقام ہمیشہ کے لیے اور نیچے آ گیا ہے۔ خدا کے بغیر انسان کے دل کی اندرونی دنیا تاریک، ناامید اور خالی ہے۔ بعد ازاں بہت سے سماجی سائنس دان، مورخین، اور سیاست دان سماجی علوم کے نظریات، انسانی ارتقا کے نظریے، اور دیگر نظریات کے اظہار کے لیے جو اس حقیقت سے متصادم ہیں کہ خدا نے انسان کو تخلیق کیا ہے، نوع انسانی کے دلوں اور دماغوں کو بھرنے کے لیے منظر عام پر آئے ہیں۔ اور اس طرح، ان لوگوں کی تعداد پہلے سے بھی کم ہوتی گئی جو یہ مانتے ہیں کہ سب کچھ خدا نے تخلیق کیا ہےاور نظریہ ارتقا پر یقین رکھنے والوں کی تعداد پہلے سے زیادہ ہوتی گئی۔ زیادہ سے زیادہ لوگ عہد نامہ قدیم کے زمانے میں خدا کے کام اور اس کے کلام کے اندراج کو روایات اور افسانوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کے دل خدا کی عظمت اور وقار نیز اس نظریے سے کہ خدا موجود ہے اور ہر چیز پر حاکمیت رکھتا ہے، بے حس ہو جاتے ہیں۔ نوع انسانی کی بقا اور ملکوں اور قوموں کی تقدیر اب ان کے لیے اہم نہیں ہے اور انسان ایک کھوکھلی دنیا میں رہتا ہے جسے صرف کھانے پینے اور لذت کے حصول کی فکر ہے۔ ۔۔۔ بہت کم لوگ اس بات کی جستجو کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آج خدا اپنا کام کہاں کر رہا ہے، یا یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کس طرح انسان کی منزل کی راہنمائی اور انتظام کرتا ہے۔ اور اس طرح انسان کی لاعلمی میں، انسانی تہذیب انسان کی خواہشات پوری کرنے کی قدرت سے محروم ہوتی جاتی ہے، اور بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے وہ ان لوگوں سے کم خوش ہیں جو پہلے مر چکے ہیں۔ یہاں تک کہ ان ممالک کے لوگ بھی اس قسم کی شکایات کرتے ہیں جو انتہائی مہذب ہوا کرتے تھے۔ کیونکہ خدا کی راہنمائی کے بغیر، حکمران اور ماہرینِ سماجیات انسانی تہذیب بچانے کے لیے کتنا یھی سر کھپا لیں، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ انسان کے دل کا خلا کوئی پر نہیں کر سکتا، کیونکہ کوئی بھی انسان کی زندگی نہیں ہو سکتا، اور کوئی سماجی نظریہ انسان کو اس کھوکھلے پن سے آزاد نہیں کر سکتا جس سے وہ دوچار ہے۔ سائنس، علم، آزادی، جمہوریت، تفریح، آرام: یہ انسان کی عارضی دل جوئی کے سامان ہیں۔ ان چیزوں کے باوجود بھی انسان لامحالہ گناہ کرتا ہے اور معاشرے کی ناانصافیوں پر ماتم کرتا ہے۔ یہ چیزیں انسان کی دریافت کرنے کی طلب اور خواہش کو نہیں روک سکتیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کو خدا نے بنایا ہے اور انسان کی بے وقوفانہ قربانیوں اور دریافتوں کا نتیجہ مزید پریشانی کی شکل میں برآمد ہو سکتا ہے اور انسان کے خوف کی ایک مستقل حالت میں رہنے کا سبب بن سکتا ہے، وہ یہ نہیں جانتا کہ نوع انسانی کے مستقبل کا سامنا کیسے کرنا ہے یا جو راستہ سامنے ہے اس پر کیسے چلنا ہے۔ انسان سائنس اور علم سے بھی خوف کھاتا ہے، اور اس سے بھی کہیں زیادہ وہ کھوکھلے پن کے احساس سے خوف کھاتا ہے۔ اس دنیا میں، اس بات سے قطع نظر کہ تُو آزاد ملک میں رہتا ہے یا انسانی حقوق سے محروم ملک میں، تُو نوع انسانی کی تقدیر سے فرار حاصل کرنے پر قطعاً قادر نہیں ہے۔ خواہ تُو حاکم ہو یا محکوم، تُو نوع انسانی کی تقدیر، اسرار اور منزل دریافت کرنے کی خواہش سے فرار حاصل کرنے پر بالکل قادر نہیں ہے، تُو کھوکھلے پن کے سٹپٹا دینے والے احساس سے بچنے کی قدرت تو اور بھی کم رکھتا ہے۔ ایسے مظاہر، جو تمام نوع انسانی کے لیے مشترک ہیں، انھیں ماہرین سماجیات کی طرف سے سماجی مظاہر کہا جاتا ہے، پھر بھی کوئی عظیم انسان ایسے مسائل کے حل کے لیے سامنے نہیں آ سکتا۔ انسان، آخر، انسان ہے، اور کوئی انسان خدا کے مقام اور زندگی کی جگہ نہیں لے سکتا۔ نوع انسانی کو صرف ایک ایسے منصفانہ معاشرے کی ضرورت نہیں ہے جس میں ہر ایک کو اچھی غذا ملے، مساوی حقوق ملیں اور وہ آزاد ہو۔ انسانوں کو جس چیز کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے خدا کی نجات اور اس کے لیے زندگی کا رزق۔ جب انسان کو خدا کی طرف سے زندگی کا رزق اور اس کی نجات حاصل ہو جاتی ہے تب ہی ضروریات، دریافت کرنے کی تڑپ اور انسان کا روحانی خلا دور کیا جا سکتا ہے۔ اگر کسی ملک یا قوم کے لوگ خدا کی نجات اور نگہداشت حاصل کرنے سے قاصر ہیں تو ایسا ملک یا قوم زوال کے راستے پر، تاریکی کی طرف گامزن ہو جائے گی، اور خدا کی طرف سے فنا کر دی جائے گی۔

ہوسکتا ہے کہ تیرا ملک اس وقت ترقی کر رہا ہو، لیکن اگر تُو اپنے لوگ خدا سے بھٹکنے دے گا تو وہ خود کو خدا کی نعمتوں سے زیادہ سے زیادہ محروم پائیں گے۔ تیرے ملک کی تہذیب تیزی سے پاؤں تلے روندی جائے گی اور جلد ہی لوگ خدا کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور آسمان پر لعنت بھیجیں گے۔ اور اس طرح، انسان کی لاعلمی میں، ایک ملک کی تقدیر برباد ہو جائے گی۔ خدا، ان خدا کی طرف سے لعنت یافتہ ممالک سے نمٹنے کے لیے طاقتور ممالک کھڑے کرے گا اور انھیں روئے زمین سے نیست و نابود بھی کر سکتا ہے۔ کسی ملک یا قوم کے عروج و زوال کی پیشین گوئی اس بات پر ہوتی ہے کہ آیا اس کے حکمران خدا کی عبادت کرتے ہیں، اور کیا وہ اپنے لوگوں کو خدا کے قریب ہونے اور اس کی عبادت کرنے کی طرف مائل کرتے ہیں یا نہیں۔ اور پھر بھی، اس آخری دور میں، کیونکہ ایسے لوگ بہت کم ہوتے جا رہے ہیں جو حقیقی معنوں میں خدا کی جستجو کرتے اور اس کی عبادت کرتے ہیں، اس لیے خدا ان ممالک پر خصوصی احسان کرتا ہے جہاں عیسائیت سرکاری مذہب ہے۔ وہ ان ممالک کو اکٹھا کر کے دنیا کا نسبتاً راست باز لشکر بناتا ہے، جبکہ ملحد ممالک اور وہ لوگ جو سچے خدا کی پرستش نہیں کرتے، راست باز لشکر کے مخالف بن جاتے ہیں۔ اس طرح، خدا نہ صرف نوع انسانی کے درمیان ایک مقام رکھتا ہے، جس میں وہ اپنا کام انجام دیتا ہے، بلکہ ایسے ممالک بھی حاصل کرتا ہے جو راست باز اختیار کا استعمال کر سکتے ہیں، اور مخالف ممالک پر جرمانے اور پابندیاں عائد کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود اب بھی مزید لوگ خدا کی عبادت کے لیے آگے نہیں آتے کیونکہ انسان اس سے بہت دور بھٹک چکا ہے اور انسان خدا کو بہت دیر سے بھولا ہوا ہے۔ زمین پر صرف ایسے ممالک باقی ہیں جو راست بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور بے انصافی کا مقابلہ کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی خدا کی مرضی سے بہت دور ہے، کیونکہ کسی بھی ملک کے حکمران خدا کو اپنے لوگوں پر حاکمیت کی اجازت نہیں دیں گے، اور کوئی سیاسی جماعت اپنے عوام کو خدا کی عبادت کے لیے جمع نہیں کرے گی؛ خدا نے ہر ملک، قوم، حکمران جماعت، حتیٰ کہ ہر شخص کے دل میں اپنا جائز مقام کھو دیا ہے۔ اگرچہ اس دنیا میں راست باز قوتیں موجود ہیں، لیکن جس حکومت میں عوام کے دل میں خدا کا کوئی مقام نہیں ہے، وہ کمزور ہے۔ خدا کی رحمت کے بغیر سیاسی میدان بدامنی کا شکار ہو جائے گا اور ایک بھی ضرب برداشت کرنے کے قابل نہیں ہو گا۔ نوع انسانی کے لیے، خدا کی نعمت کے بغیر ہونا سورج کے بغیر ہونے کے مترادف ہے۔ اس سے قطع نظر کہ حکمران اپنے لوگوں کے لیے کتنی محنت سے اپنا تعاون پیش کرتے ہیں، اس سے قطع نظر کہ نوع انسانی راست بازی کے کتنے ہی اجلاس منعقد کرے، ان میں سے کوئی بھی صورتحال کو پلٹ نہیں سکتا اور نہ ہی نوع انسانی کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ انسان کا خیال ہے کہ جس ملک میں لوگوں کو کھلایا اور پہنایا جائے، جس میں وہ مل جل کر سکون سے رہتے ہوں، وہ ایک اچھا اور بھلی قیادت والا ملک ہے۔ لیکن خدا ایسا نہیں سوچتا۔ خدا کا کہنا ہے کہ ایسا ملک جس میں کوئی اس کی عبادت نہیں کرتا، اسے وہ فنا کر دے گا۔ انسان کا سوچنے کا انداز خدا سے بہت زیادہ متصادم ہے۔ پس اگر کسی ملک کا سربراہ خدا کی عبادت نہ کرے تو اس ملک کا انجام الم ناک ہو گا اور اس ملک کی کوئی منزل نہیں ہوگی۔

خدا انسان کی سیاست میں حصہ نہیں لیتا، پھر بھی کسی ملک یا قوم کی تقدیر خدا کے اختیار میں ہے۔ خدا اس دنیا اور پوری کائنات کا اختیار رکھتا ہے۔ انسان کی تقدیر اور خدا کے منصوبے کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور کوئی بھی انسان، ملک یا قوم خدا کی حاکمیت سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اگر انسان اپنی قسمت جاننا چاہتا ہے تو اسے لازماً خدا کے حضور حاضر ہونا چاہیے۔ خدا ان لوگوں کو ترقی دے گا جو اس کی پیروی اور اس کی عبادت کرتے ہیں اور ان لوگوں پر زوال مسلط کرے گا اور انھیں نیست و نابود کر دے گا جو اس کی مخالفت کرتے ہیں اور اسے مسترد کرتے ہیں۔

انجیل مقدس کا وہ منظر یاد کرو جب خدا نے سدوم کو غارت کیا اور یہ بھی سوچو کہ لوط کی بیوی نمک کا ستون کیسے بن گئی۔ ماضی کا سوچو کہ نینوا کے لوگوں نے ٹاٹ اور راکھ میں اپنے گناہوں سے کیسے توبہ کی اور یاد کرو کہ 2،000 سال قبل یہودیوں کی طرف سے یسوع کو صلیب پر میخوں سے جڑ دینے کے بعد کیا ہوا۔ یہودی اسرائیل سے نکال دیے گئے اور وہ دنیا بھر کے ممالک میں در بدر بھٹکتے رہے۔ بہت سے لوگ مارے گئے، اور پوری یہودی قوم کو اپنے ملک کی تباہی کے بے مثال درد کا سامنا کرنا پڑا۔ انھوں نے خُدا کو صلیب پر میخوں سے جڑا تھا – ایک گھناؤنا گناہ کیا تھا – اور خُدا کا مزاج مشتعل کیا تھا۔ انھوں نے جو کچھ کیا، انھیں اس کی قیمت چکانا پڑی، اور انھیں اپنی حرکتوں کے تمام نتائج بھگتنے پڑے۔ انھوں نے خُدا کی مذمت کی، خُدا کو رد کیا، سو ان کے مقدر میں صرف یہی تھا: خُدا کی طرف سے سزا پانا۔ یہ وہ تلخ نتیجہ اور تباہی تھی جو ان کے حکمران اپنے ملک اور قوم پر لے کر آئے۔

آج، خدا اپنا کام کرنے کے لیے دنیا میں واپس آیا ہے۔ اس کا پہلا پڑاؤ آمرانہ حکمرانی کی مثال: چین ہے، الحاد کا مضبوط گڑھ۔ خدا نے اپنی حکمت اور قدرت سے لوگوں کا ایک گروہ حاصل کیا ہے۔ اس عرصے میں، چین کی حکمران جماعت نے ہر طرح سے اس کا تعاقب کیا ہے اور اسے بڑی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، اسے اپنے سر کو آرام سے ٹکانے کی جگہ نہیں ملی، اسے پناہ گاہ نہیں مل سکی۔ اس کے باوجود، خُدا اب بھی وہ کام جاری رکھے ہوئے ہے جو وہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے: وہ اپنی آواز بلند کرتا ہے اور خوش خبری پھیلاتا ہے۔ خدا کی قدرت کاملہ کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ خدا نے چین میں، جو ایک ایسا ملک ہے جو خدا کو دشمن مانتا ہے، کبھی اپنا کام بند نہیں کیا۔ اس کی بجائے، مزید لوگوں نے اس کا کام اور کلام قبول کیا ہے، کیونکہ خدا نوع انسانی کے ہر ایک فرد کو جہاں تک ہو سکے بچاتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ کوئی بھی ملک یا طاقت اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی، جو خدا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ جو لوگ خدا کے کام میں رکاوٹ ڈالتے ہیں، خدا کے کلام کی مخالفت کرتے ہیں اور خدا کے منصوبے میں خلل ڈالتے ہیں اور اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ بالآخر خدا کی طرف سے سزا پائیں گے۔ جو خدا کے کام کی مخالفت کرتا ہے اسے جہنم رسید کر دیا جائے گا۔ کوئی بھی ملک جو خدا کے کام کی مخالفت کرتا ہے، تباہ ہو جائے گا۔ کوئی بھی قوم جو خدا کے کام کی مخالفت کے لیے اٹھے گی، وہ اس زمین سے مٹا دی جائے گی اور معدوم ہو جائے گی۔ میں تمام قوموں، تمام ممالک اور یہاں تک کہ تمام صنعتوں کے لوگوں سے پُر زور درخواست کرتا ہوں کہ وہ خدا کو نوع انسانی کے درمیان سب سے مقدس، سب سے معزز، بلند ترین اور واحد معبود بنانے کے لیے خدا کی آواز سنیں، خدا کا کام دیکھیں اور نوع انسانی کی تقدیر پر توجہ دیں تاکہ تمام نوع انسانی نعمت خداوندی کے تحت زندگی گزار سکے، جس طرح ابراہیم کی اولاد یہوواہ کے وعدے کے تحت زندگی گزارتی تھی، اور بالکل اسی طرح جیسے آدم اور حوا، جنھیں خدا نے پہلے پیدا کیا، باغ عدن میں رہتے تھے۔

خدا کا کام ایک زبردست لہر کی طرح آگے بڑھتا ہے۔ کوئی اُسے محدود نہیں کرسکتا، اور کوئی اُس کی پیش قدمی نہیں روک سکتا۔ صرف وہی لوگ، جو اس کی باتیں غور سے سنتے ہیں، اور جو اس کی جستجو اور پیاس رکھتے ہیں، وہ اس کے نقش قدم پر چل سکتے ہیں اور اس کا وعدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ جو لوگ ایسا نہیں کرتے وہ زبردست تباہی اور سزا کا نشانہ بنیں گے جس کے وہ خوب مستحق ہیں۔

سابقہ: ضمیمہ 1:  خدا کے ظہور نے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے

اگلا: ضمیمہ 3: انسان صرف خدا کے انتظام ہی سے بچایا جا سکتا ہے

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp